برادر عزیز محترم خرم مراد مرحوم نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں ترجمان القرآن کے لیے جو ’اشارات‘ لکھے تھے وہ حالات کے گہرے تجزیے، مسائل اور اُن کے حل کی راہوں کی طرف چلنے کے روشن نشانات پر مشتمل تھے اور آج بھی ان کی تازگی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ ہم اس ماہ کے ’اشارات‘ میں خرم بھائی کی اس چشم کشا تحریر کو شائع کر رہے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں تحریک اسلامی کی قیادت اور اُس کے کارکن ان نکات پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور دُنیا اور تحریک کا احتساب کرتے وقت انھیں ملحوظ رکھیں گے۔ مدیر
اس بات میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ ’آج‘ کا دامن اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک یقینی روشن مستقبل کے بھرپور امکانات سے لبریز ہے۔ یہ ضرور ہے کہ آج کل جو حوادث و واقعات پیش آرہے ہیں وہ مایوسی پیدا کرتے ہیں، ناکامی و مغلوبیت اور پس ماندگی کی خبر دینے لگتے ہیں۔ اپنا افتراق و انتشار اور نزاع و اختلاف اور اس کے تباہ کن نتائج دیکھ کر دل بیٹھنے لگتے ہیں۔ اغیار کی سیاسی، فوجی اور ابلاغی قوت و بالادستی اور ان کے مکروفن کی کامیابی دیکھ کر حوصلے پست ہونے لگتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود، ہمارے اس یقین میں کوئی کمی نہیں آتی کہ کل سورج طلوع ہوگا تو عزّت و سربلندی اور ترقی کی خوش خبری لے کر آئے گا، ان شاء اللہ!
آج اور کل کے واقعات سے نگاہ اُوپر اُٹھا کر آج کی اور ۱۹۴۷ء کی دنیا پر ایک نظر ڈالیے، تو آپ کو صحیح اندازہ ہوگا کہ اس نصف صدی میں ہم نے اپنی منزل کی طرف کتنی نمایاں پیش رفت کرلی ہے۔ اسلام ایک مذہب کے مقام سے سفر کرکے مقصد ِ حیات بن گیا ہے۔ وہ مستقبل کی اجتماعیت، ریاست اور تہذیب کے نقشہ گر کے مقام پر پہنچ گیا ہے۔ نسلوں کی نسلوں نے اپنی سعی و جہد، اور اپنی آرزو و جستجو کو اس مقصد کے حصول اور اس نقشہ فردا پر مرکوز کردیا ہے۔ ملت کے جسم میں احیائے اسلام کے ساتھ وابستگی کی ایک رو دوڑ گئی ہے اور حوصلہ شکن حالات اور ناکامیوں کے باوجود الحمدللہ، یہ وابستگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ابلیس نے جس کو فتنہ فردا قرار دیا تھا، وہ اس عالم کے لیے فتنہ امروز بن کر نمودار ہوگیا ہے۔
یہ روشن مستقبل کب طلوع ہوگا؟ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ اس کا علم اس کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، جس کے پاس غیب کی ساری کنجیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نےاپنے رسولوں ؑ سے نصرت و فتح کا وعدہ ضرور فرمایا: اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۱۷۲۠ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۱۷۳ (الصفّٰت ۳۷: ۱۷۲-۱۷۳) ’’یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا‘‘۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح فرما دیا(ترجمہ:) ’’اے نبیؐ، صبر کرو، اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ اب خواہ ہم تمھارے سامنے ہی ان کو ان بُرے نتائج کا کوئی حصہ دکھا دیں جن سے ہم انھیں ڈرا رہے ہیں، یا (اس سے پہلے) تمھیں دنیا سے اُٹھا لیں‘‘ (المومن ۴۰:۷۷)۔ ہمارے ساتھ بھی اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اور لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کے وعدے ضرور پورے ہوکر رہیں گے، خواہ ہماری آنکھیں کامرانی کا یہ منظر نہ دیکھ سکیں۔
جو بات ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ روشن مستقبل کے حصول کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ ہے: جدوجہد کا راستہ۔ انفاق اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ! نصرتِ الٰہی کے بغیر تو ایک قدم بھی نہیں اُٹھ سکتا، کجا یہ کہ منزل سر ہوجائے: اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۰) ’’اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں‘‘۔
لیکن یہ نصرتِ الٰہی صرف انھی کو حاصل ہوتی ہے، جو جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں: اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۷ (محمد۴۷:۷)’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا، اور تمھارے قدم مضبوط جما دے گا‘‘__ جس سچے ایمان کےساتھ سربلندی کا وعدہ مشروط ہے، اس کی صداقت کی کسوٹی بھی جدوجہد ہی ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۱۵ (الحجرات ۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے۔ پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
جدوجہد کے کئی پہلو ہیں۔ خود اپنے اندر جدوجہد کی استعداد پیدا کرنا، اور اپنی شخصیت کو جدوجہد کے لائق بنانا۔ انسانوں کی مطلوب ضروری تعداد کو جدوجہد کے لیے کھڑا کرنا، ان کو ایک قوت بنانا، ان کی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں بہتر سے بہتر اور مؤثر سے مؤثر تر طریقے اور تدابیر سے جدوجہد میں لگانا۔ ماحول، معاشرہ، انسان اور نظام، جیسے کچھ ہیں، انھی کے درمیان اپنی پیش رفت اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ بنانا۔ اس مقصد کے لیے راستے کے امکانات و خطرات کا، موافق و مخالف عوامل اور قوتوں کا، حال اور مستقبل کا زیادہ سے زیادہ ممکن صحیح اندازہ کرنا۔ ایسی حکمت عملی اختیار کرنا، جس سے منزل مطلوب تک پہنچنا ممکن نظر آئے۔ اپنے اعمال و اقدامات کا جائزہ و احتساب اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر استغفار کی روش پر کاربند رہنا۔
ان کی دُعا بس یہ تھی کہ:
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ O (اٰل عمرٰن۳:۱۴۷)اے ہمارے رب، ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جوکچھ تجاوز ہوگیا ہو، اسے معاف کردے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔
یہاں تک کہ فتح و نصرت دیکھ کر بھی یہی روش رہے:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا O (النصر ۱۱۰: ۳) اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے بخشش کی دُعا مانگو۔
صرف تمنا اور خواہش سے مستقبل کی نقشہ گری نہیں ہوسکتی۔ دُعائیں بھی جدوجہد کا بدل نہیں بن سکتیں۔ جدوجہد کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اللہ کی نصرت اور فتح حاصل نہیں ہوسکتی۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے ، کہ بڑی سے بڑی جدوجہد سے بھی اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ کوئی انسانی تدبیر بھی کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ کوئی انسانی عقل بھی ان تمام عوامل و حالات کا احاطہ نہیں کرسکتی، جو جدوجہد کی کامیابی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ کسی انسان کے بارے میں یہ ضمانت نہیں جو ایسے کامل انسان پیدا کرسکے جن کے بارے میں ضمانت دی جاسکے۔
چنانچہ جتنی خام، ضعیف اور کم معیار عقل، استعداد، ایمان اور عمل صالح میسر آئے اور جتنی بھی بُری بھلی جدوجہد بن پڑے، وہ اللہ کی راہ میں پیش کر دینا چاہیے۔ ہر صورت میں حکم اور تدبیر کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور نتائج صرف مشیت الٰہی پر منحصر ہیں۔ لیکن جہاں تک انسان کی نگاہ اور عقل کام کرے، وہاں تک یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جدوجہد کی کامیابی کے لیے ضروری شرائط زیادہ سے زیادہ پوری ہوں۔
اس موضوع کو سمیٹ کر ہم چند اہم اور بنیادی باتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر ان قوتوں اور تحریکات کی توجہ کے لیے، جنھوں نے اکیسویں صدی میں غلبۂ دین کی لہر پیدا کی ہے:
سب سے ضروری اور اہم شرط للہیت اور اخلاص ہے۔ پوری جدوجہد، اور جدوجہد کا ہر کام اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے۔ رضائے الٰہی کی جستجو، جنّت کی تمنا و طلب اور اس کے لیے بھاگ دوڑ اور مسابقت اسی للہیت کی تعبیر ہے۔ قرآن میں جہاں بندگی کی دعوت ہے،وہاں مخلصین کی شرط ہے۔ اکثر مقامات پر وجہ ربہ الاعلٰی اور مرضات اللہ کی جستجو کی تاکید ہے، اور جہاں جدوجہد کا ذکر ہے، وہاں جنّت کو مطلوب و محبوب بنانے کی دعوت ہے۔ قرآن اس دعوت سے بھرا ہوا ہے۔
آج غلبۂ دین کی جدوجہد کو جو بڑے بڑے مسائل درپیش ہیں، ان کی بڑی وجہ ہمارے نزدیک اسی مطلوب اخلاص اور للہیت میں کمی یا کمزوری ہے۔ یہ افراد کی سُستی اور بے رغبتی ہو، تحریکوں میں جمود ہو، دنیاطلبی کا غلبہ ہو، عہدوں اور جاہ و عزت کی طمع ہو، خودرائی و خودسری ہو، نظم و ضبط کی کمی ہو، باہمی افتراق و تنازعات ہوں، دعوت الی اللہ سے لاپروائی اور دعوت کی بے اثری ہو___ جو بھی ہو، کھنگال کر دیکھیے تو تہہ میں یہی مرض ملے گا۔ سب سے بڑا سُلگتا مسئلہ یہی اخلاص و للہیت میں کمی کا مسئلہ ہے۔
للہیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ہر فرد کا اپنا معاملہ ہے۔ وہی اپنے اندر للہیت پیدا کرسکتا ہے، وہی جدوجہد کو للہیت کے رنگ میں رنگ سکتا ہے، وہی اس کے ہونے یا نہ ہونے کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ ہے، اور اگر یہ نہ ہو تونقصان بھی سراسر اسی کا ہے۔ یہ اس کے اور اس کے ربّ کے درمیان معاملہ ہے، جو عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ہے۔ وہی صحیح علم رکھتا ہے اور فیصلہ کرسکتا ہے کہ کس میں کتنی للہیت ہے؟ اجتماعی جدوجہد میں تو ہرطرح کے لوگ شامل ہونے چاہییں، اور ہوں گے: وہ بھی جن کے دل اخلاص کی اس نعمت سے خالی ہوں، وہ بھی جن کے دل اس سے مالامال ہوں۔ کوئی اجتماعیت ہر فرد کے اندر للہیت پیدا کرنے کی ذمہ داری نہیں لے سکتی، نہ اسے فرد کے اخلاص کو جدوجہد میں شرکت کے لیے شرط بنانا چاہیے۔
لیکن دوسری طرف اجتماعیت کو تین باتوں کا اہتمام پوری شدت کے ساتھ کرنا چاہیے:
ہمیں یقین ہے کہ جس قدر اخلاص بڑھے گا، للہیت رچے، بسے گی، اس کا رنگ انفرادی اور سماجی زندگی پر چھائے گا، اس قدر ہمارے مسائل حل ہوں گے، ہماری کمزوریاں اور خرابیاں دُور ہوں گی، ہمارے اندر مضبوطی اور شوق و طلب میں اضافہ ہوگا، اور ہم نصرت الٰہی کے مستحق بنیں گے۔
دوسری اہم اور ضروری شرط یہ ہے، کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ___ ہر طرح، ہرمعیار اور ہر انداز کے انسانوں کو ___ دینی جدوجہد کے دائرے میں جمع کرنا ، اور ان کی جو بھی استعداد و صلاحیت ہو اسے دین کے کام میں لگا دینا۔ للہیت اگر روح، مقصود اور بنیاد ہے، تو انسان دینی جدوجہد کا مرکز و محور ہے۔
ہمارے نزدیک دینی جدوجہد کا دوسرا بڑا سُلگتا مسئلہ یہی ہے،کہ اس جدوجہد میں انسان کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک عام انسان تک، ہرطرح کے انسان تک پہنچنے ، اس کے دل میں گھر کرنے، اسے اپنا ہم نوا بنانے، اسے اپنے دائرے میں جمع کرنے، اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے، اور اس کی استعداد و صلاحیت کو ضیاع سے بچاکر دین کے لیے کارگر بنانے میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
بہت سے ممالک ہیں جہاں منظم دینی گروہ موجود ہیں، ان کے پاس قوت و طاقت بھی ہے، صلاحیت، نیکی اور تقویٰ بھی موجود ہے، لیکن عام معاشرہ ان کے ساتھ نہیں۔ کوئی مؤثر عوامی مزاحمت کی لہر نہیں اُٹھتی، حالانکہ حکومتیں ہزاروں کو ذبح کردیتی ہیں، مثلاً شام میں، ہزاروں کو جیلوں میں بند کر کے تعذیب کا شکار بناتی ہیں۔ مصر میں، انتخابی عمل کو من مانے طریقے سے اپنی مرضی کے نتائج نکالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انڈونیشیا اور مصر میں آزادانہ انتخاب ہوتے ہیں مگر بھاری اکثریت غلبۂ دین کے حامیوں کے حق میں ووٹ دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان اور ترکیہ میں، جہاں ظلم و جبر کے خلاف ہتھیار نہیں اُٹھائے گئے اور نہ تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا ہے وہاں بھی عام آبادی نے ساتھ نہیں دیا ہے۔ الجزائر میں جتنی زبردست اور جتنی طویل مسلّمہ جدوجہد برپا رہی، اس پیمانے پر کوئی عوامی مزاحمت کی تحریک ہوتی، جس میں معاشرے کا بڑا حصہ شامل ہوتا، تو کیا کوئی ظالم حکومت مقابلے میں ٹک سکتی تھی ___ اس دائرے میں مطلوب کامیابی کیسے حاصل ہو؟ عام معاشرے کو کیسے اپنا ہم نوا اور ہم رکاب بنایا جائے؟ یہی آج کا دوسرا بڑا چیلنج ہے۔
اس سلگتے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کئی پہلوئوں سے غوروفکر اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی جدوجہد میں انسان کی قدروقیمت، اس کی ضرورت اور اس کا مقام جاننے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ دین کا، اس کے پیغام اور جدوجہد کامخاطب ہرعام انسان ہے، اُمت مسلمہ عام انسانوں کے لیے (اُخْرِجَتْ لِلّنَاسِ) برپا کی گئی ہے۔ دینی جدوجہد کا مقصود ہرانسان کی اُخروی اور دُنیوی فلاح ہے۔ دین کی دعوت اور جدوجہد انسانوں کے ذریعے ہی دوام پاسکتی ہے۔ دینی نظام انسانی ہاتھوں ہی سے چلے گا، انسانوں ہی پر قائم ہوگا اور انھی کی فلاح و بہبود کے لیے قائم ہوگا۔
اس لحاظ سے دیکھیے تو ہر وہ انسان قیمتی ہے جو دینی مقاصد کا کوئی حصہ بھی قبول کرے، جو دینی جدوجہد میں کسی درجے میں بھی شرکت کرنے کو تیار ہو۔ ہر انسان کو اپنے ساتھ لے کر چلنا، یہ ہر دینی جدوجہد کرنے والے کا فرض ہے۔ بلکہ وہ انسان بھی قیمتی ہیں، جو دینی مقاصد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، مگر گوناگوں معاشرتی و سیاسی وجوہ کی بنا پر ان کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ حمایت حاصل کرنا چاہیے، جو ضروری و مفید ہوسکتی ہے۔ جیسے جنابِ ابوطالب یا وہ سردارانِ قریش جو قرابت یا شرافت ِ نفس کی وجہ سے مظلوم و مقہور مسلمانوں کو حفاظت و پناہ فراہم کرتے تھے۔ بلکہ وہ انسان بھی قیمتی ہیں جو سخت دشمن ہوں، لیکن جن کے ساتھ آجانے سے معاشرے میں وزن کا پلڑا جھک سکتا ہو۔ جیسے ابوجہل اور عمر بن الخطابؓ ، جن کے لیے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اسلام کی تقویت کا سامان کرے۔
یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ انسان اپنی صلاحیت و استعداد کے لحاظ سے، اپنے ایمان و تقویٰ کے لحاظ سے اور اپنے کردار کے لحاظ سے اعلیٰ بھی ہوں گے اور ادنیٰ بھی۔ لیکن اندھا بھی ہو تووہ توجہ اور مقام کا مستحق ہے۔ میدانِ جنگ سے پلٹ آنے والے ہوں، تو وہ بھی عفو و استغفار اور اجتماعی معاملات میں شریک رکھے جانے کے مستحق ہیں۔ عبداللہ بن ابی جیسے منافق کے ساتھ بھی اس حد تک نرم برتائو کیا گیا کہ ’’لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں‘‘۔
ایک بگڑے ہوئے مسلمان معاشرے میں یقینا وابستگی و وفاداری اور ایمان و عمل کے لحاظ سے معیاری لوگوں کی تلاش بھی ہوگی، ایسے لوگ جمع کرنے اور بنانے کی خصوصی فکر بھی ہوگی، اور ابتدائی مراحل میں تو زیادہ اہتمام سے ہوگی، لیکن جیسے ہی انسانوں کی قوت استعمال کر کے غلبۂ دین کی جدوجہد شروع ہوگی۔ ویسے ہی ہرمسلمان کو، وہ کیسا ہی مسلمان ہو، اپنے ساتھ شامل کرنا اور اپنے ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوگا۔ بنی اسرائیل کے جن ’مسلمانوں‘کو اپنے ساتھ لے کر حضرت موسٰی مصر سے نکلے تھے۔ ذرا قرآن اور تورات میں ان کی ایمانی،اعتقادی، اخلاقی، عملی اور دینی حالت دیکھیے، تو آپ کو ہماری اس بات کی اہمیت کا صحیح ادراک ہوگا۔
ایک دفعہ انسان کا یہ مقام سمجھ لیا جائے تو رویوں،پالیسیوں اور نظام میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت خود بہ خود محسوس ہوگی اور تبدیلیاں خود بہ خود پیدا ہوں گی۔ پھر ہرشخص جس کا ساتھ دینا ضروری ہو، یا جو ساتھ دینے کے لیے تیار ہو، اس کے لیے دل کے دروازے بھی کھل جائیں گے اور دائرۂ اجتماعیت کے دروازے بھی۔
اجتماعی نظام جو تحریکوں نے اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ ’نصوص‘ پر مبنی نہیں بلکہ اجتہاد پر مبنی ہیں۔ ان کو وضع کرنے میں ہمارے سامنے عصرِحاضر کی نظریاتی تحریکوں کے نظام کے ماڈل بھی رہے ہیں۔ لیکن ہماری روایات میں اور بھی ماڈل موجود ہیں، اور آج کےدور میں اوربھی ماڈل رائج ہیں، اور نصوص کی روشنی میں استنباط و اجتہاد کرکے ہم کو ایسے ماڈل وضع کرنے چاہییں، جو ان تمام انسانوں کو مساوی شرکت کا بھرپور احساس دے سکیں، جو اس غلبۂ دین کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔ لوگوں کو چھانٹ چھانٹ کرلینے، اور صرف معیاری لوگوں ہی کو لینے سے بہرحال وہ قلیل گروہ تیار ہوئے جو قلیل ہونے کے باوجود قوی اور مؤثر ہیں۔ لیکن اس طریقے سے تحدید و تفریق بھی پیدا ہوئی۔ جس سے معاشرہ بحیثیت مجموعی اس قلیل گروہ کی پشت پناہی کے لیے تیار نہ ہوسکا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پورے مسئلے کا اَزسرنو جائزہ لے کر ہم مناسب دُور رس اقدامات کریں، جو عام انسانوں کو اپنے دائرے میں جمع کرنے میں ممدو معاون ہوں۔
اس سلسلے میں یہ غلط فہمی بھی دل سے نکال دینا چاہیے کہ:تعداد فی نفسہٖ مطلوب نہیں، یا تعداد کی طلب اور جستجو مستحسن نہیں، یا تعداد و توسیع اور معیار و استحکام میں کوئی بنیادی و منطقی تضاد ہے۔ اصل چیز تومعیار ہے، تعداد سے کیا ہوتا ہے۔
یہ بات تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نصرت و فتح کی علامت، یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کوقرار دیا ہے۔ اپنی اُمت کی تعداد کو حضوؐر نے اپنے لیے باعث ِ فخر قرار دیا ہے، اور اس تعداد میں اضافے کے لیے حضوؐر رات دن کوشاں رہے ہیں۔اور اگر دینی جدوجہد میں شریک ہونا ہی نارِ جہنّم سے نجات اور جنّت میں داخلے کا سب سے یقینی راستہ ہے ، تو اس راستے کو کسی کے لیے بند کیوں کر کیا جاسکتا ہے، یا کسی کو انتظار و تعویق میں کیوں کر ڈالا جاسکتا ہے؟
یہ بات واضح کر دینا بھی ضروری ہے، کہ ایسی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ محض انسان کو مرکز بنانے، اس کا مقام تسلیم کرنے، ہر طرح کےانسان کے لیے دل اور اجتماعیت کے دروازے کھول دینے سے، ایک عام معاشرہ بڑی تعداد میں کسی نہ کسی طرح دینی جدوجہد میں شامل ہوجائے گا۔ اس مقصد کے لیے ایسے انداز و اسلوب میں وہ دعوت بھی ضروری ہے جو دلوں کو مسخر کرسکے، اور وہ قیادت بھی مطلوب ہے جو دلوں کو جیت سکے۔ اس کے بعد بھی ماحول، حالات اور مشیت الٰہی پر ہی کامیابی کا انحصار ہوگا۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک دفعہ ہم نے اس بات کو سمجھ لیا کہ معاشرہ اور انسان کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں، اسی معاشرے اور انھی انسانوں میں سے وہ قوت پیدا کرنا ہے، اور وہ پیدا ہوسکتی ہے، جو اصلاح و تبدیلی اور غلبہ و سربلندی کا کام کرسکے۔ اللہ کی نصرت کے بعد، کامیابی کا راز انسانی قوت میں پوشیدہ ہے، نہ کہ مال و اسباب اور اسلحہ و سامان میں: ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۶۲ۙ (الانفال ۸:۶۲)’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی‘‘، اور یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۶۴ۧ (الانفال ۸:۶۴) ’’اے نبیؐ! تمھارے لیے اور تمھارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے‘‘۔
یہ بات بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ مومنین کی اس جماعت میں لوگوں کے مقام اور درجات کا تعین اللہ کے لیے ان کی وفاداری و قربانی سے ہوا کرتا تھا۔ ایمان، عمل صالح اور تقویٰ تو وہ چیزیں ہیں جن کا صحیح علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ چنانچہ مہاجرین، انصار، اصحابِ بدر ، اصحاب بیت الرضوان وغیرہ وہ معیار تھے جن پر لوگوں کو مقام دیا جاتا تھا۔ رہے حکومتی اور فوجی مناصب، تو ایسے لوگوں کو ترجیح دی جاتی تھی، جو ایمان اوروفاداری کے ساتھ، ان مناصب کو کامیابی کے ساتھ سنبھالنے کی زیادہ صلاحیت اور اہلیت رکھتے تھے۔ اس کے بے شمار نظائر موجود ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ حُسنِ اخلاق کا ہے۔لوگوں کے دل جیتنے، ان کو ساتھ لانے، جوڑے رکھنے اور ساتھ چلانے کے لیے سب سے مؤثر قوت حُسنِ اخلاق کی قوت ہے۔ یہ ُحُسنِ اخلاق، رافت و رحمت، نرمی و فیاضی، عفو و درگزر اور اِکرام و احسان سے عبارت ہے۔ اصل کارگر اور مؤثر قوت نہ نظریے میں ہے، نہ کتاب میں، نہ کلام میں، نہ تحریر و تقریر میں، نہ ڈپلومیسی اور پبلک ریلیشن میں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج دینی جدوجہد کرنے والوں کے اخلاق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم سے وہ کم سے کم نسبت حاصل نہیں ہوئی ہے، جو مطلوب اور ضروری ہے، اور جس کا حصول ممکن ہے۔
یہ حضوؐر کا اخلاقِ کریمانہ تھا، جس کی مدح قرآن میں ہے اور جس کی تصویر سیرت میں دیکھی جاسکتی ہے، جس نے مقناطیس کی طرح لوگوں کو اسلام کے دامن رحمت سے چمٹا لیا، اور چمٹائےرکھا:
وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔
حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۱۲۸ (التوبہ ۹: ۱۲۸)تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔
اس کمی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے:افغانستان میں اتنے طویل عرصے تک جہاد جاری رہا، کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوئیں، لیکن مجاہدین نہ باہم اُلفت و اعتماد کے رشتے میں جڑسکے، نہ یہ دیکھنے میں آیا کہ مخالفین میں سے لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر آئے ہوں اور مجاہدین کے ساتھ شامل ہوگئے ہوں۔ اور پھر جن کمیونسٹ جرنیلوں نے کسی گروہ کا ساتھ دیا، تو وہ بھی صرف اپنے مفادات کی خاطر۔ پاکستان میں آپ گھوم پھر کر دیکھ لیجیے، شاذ ہی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوگی جو مخالف کیمپ سے ٹوٹ کر آئے ہوں اور اب دین کے غلبے کو مقصد زندگی بنالیا ہو۔ طالبان کا گروہ خالص قیامِ شریعت کا دعوے دار ہے۔ ایک طرف طائف کا سفر دیکھیے اور ثقیف کے وفد کا خیرمقدم۔ سردارانِ قریش کے مظالم دیکھیے اور لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کی صدا، اور دوسری طرف [ان کے ہاتھوں سابق افغان صدر] نجیب اللہ کو پھانسی کے تختے پر لٹکا کر اپنے جوشِ انتقام اور حمیت دینی کی ’تسکین‘ کا سامان کرنا دیکھیے، جو اقوامِ متحدہ کی پناہ میںتھا، نہتا تھا اور غیرمسلم بھی نہیں تھا! حالانکہ مشرک بھی امان طلب کرے تو اسے امن تک پہنچانے کا حکم ہے۔
صاحب ِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم سے کم سے کم نسبت کے حصول کے بغیر انسان جمع نہ ہوں گے، مخالفین کے دل مسخر نہ ہوں گے، اسلام کے غلبے کے لیے قوت فراہم نہ ہوگی، اور اس طرح دین کا قیام ایک اَمرمحال ہوگا۔ خواہ ہمارے پاس اسلحہ کے ڈھیر ہوں، سیاسی اقتدار بھی ہو، دلائل کا انبار بھی ہو۔
چوتھا مسئلہ اختلافات کا افتراق و نزاع بن کر وحدت اور شیرازہ بندی کو غیرمعمولی نقصان پہنچانے کا مسئلہ ہے۔ اختلافات کے باوجود متحد رہنے، ساتھ مل کر کام کرنے اور دینی قوتوں کو متحد رکھنے کا مسئلہ ہے۔ جہاں انسان جمع ہوں گے، وہاں اختلافات لازماً ہوں گے۔ رائے کے اختلافات ہوں گے، مزاج اور مفادات کے بھی۔ان اختلافات سے کوئی مفر نہیں۔ دورِصحابہؓ میں بھی اس سے مفر نہیں تھا۔ سقیفہ بنی ساعدہ سے لے کر جنگ ِ جمل و صفّین تک کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔
اختلافات سے بچنا ممکن نہیں، لیکن اختلافات کو افتراق، تنازع اور مخاصمت بننے سے روکنا ممکن ہے۔ لَا تَفَرِّقُوْا اور لَا تَنَازَعُوْا ہی کی تاکید قرآنِ مجید نے فرمائی ہے۔ لیکن اس پہلو سے بھی مسلمان بہ حیثیت مجموعی، اور خاص طور پر دینی جدوجہد کرنے والے، جن کمزوریوں کا شکار ہیں وہ عیاں ہیں۔
اختلافات کے باوجود بڑے اور عزیز تر مقاصد کی خاطر متحد رہنے کے لیے سب سے بڑھ کر اخلاص و للہیت اور نفس پر ضبط و قابو درکار ہے۔ اس کی یقینا کمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے، تاکہ لوگوں کو اجتماعی زندگی میں اختلافات کا مقام معلوم ہو، اختلاف کی حدود و آداب سے واقفیت ہو، ان آداب و حدود کی پابندی کی استعداد پیدا ہو، جھٹ سے، حلال و حرام اور حق و باطل اور کفر و اسلام کے فتوے جاری کرنے کے طریقے کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ تدبیری اُمور ہوں یا اجتہادی مسائل، اپنی رائے کو حتمی اور آخری سمجھنے کی خودسری پر قابو پانا ضروری ہے۔ اعجاب المرء برایہ (اپنی رائے کو سب سے بہتر سمجھنا) ہلاکت کا سامان ہے۔ ہراختلاف کو حق و باطل کا مسئلہ بنالینے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اجتماعی زندگی میں اپنی رائے کو صحیح سمجھنے کے باوجود اس کے غلط ہونے کے احتمال، اور دوسری رائے کو غلط سمجھنے کے باوجود اس کے صحیح ہونے کے احتمال کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔
اختلافات کے حدود و آداب کی پابندی اور اختلاف کے دائرے تک محدود رکھے بغیر، نہ کسی اجتماعی قوت کے مضبوط بننے کا امکان ہے، اور نہ اس کا امکان کہ وہ معاشرے کے ایک بڑے حصے کو اپنے ساتھ جمع کرلے۔
پانچواں مسئلہ، اجتہادی اُمور اور تدابیر کو نصوص کا درجہ دینے، بنیادی اور اصل مقاصد کے بجائے جزئیات و فروعات پر توجہ اور مساعی کو مرکوز کرنے، اور پھر دینی احکام میں غلو، تشدد اور بال کی کھال اُتارنے پر اصرار کا مسئلہ ہے۔ اُمت میں تو یہ مرض عام ہے، اور اس کے زوال اور انتشار کا ایک بڑا سبب ہے۔ افسوس کہ دینی قوتوں میں بھی اس مرض کا غلبہ صاف طور پر دیکھاجاسکتا ہے۔ سیّد مودودیؒ نے اپنی ابتدائی تحریروں، مثلاً: تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں میں بڑے سوز و دردمندی سے، شدت اور اہتمام سے، مضبوط دلائل کے ساتھ، اس مرض کے خلاف جہاد کیا، لیکن اس سے چھٹکارا نہیں ہوسکا ہے۔
اس مرض کی وجہ سے صرف غلو اور تعمق کی بیماریاں ہی نہیں پیدا ہوتیں، جو شاہ ولیؒ اللہ کے بقول دین میں انحراف کا باعث ہیں۔افتراق و انتشار میں اضافہ ہی نہیں ہوتا، توجہ اور وسائل انسانی کا ضیاع ہی نہیںہوتا، بلکہ اصل کام اور اصل مقصد بھی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے، اور جدوجہد کے لیے کھڑے ہونے والے لوگ ان گلی کوچوں میں اس طرح بھٹک جاتے ہیں، کہ بساطِ زندگی میں ان کے سب مہرے مات کھا جاتے ہیں۔
اقبالؒ، ابلیس کی زبان سے مسلمان کی بربادی کے لیے یہی نسخہ تجویز کراتے ہیں، تاکہ:
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الٰہیات۱ کے تراشے ہوئے لات و منات
ہے وہی شعروتصوف۲ اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ہرنفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے مَیں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
۱ اور فقیہات ۲ اور بحث و نزاع
امام بخاریؒ کی روایت کے مطابق، جب ایک مرتبہ مسجد نبویؐ میں لوگ اسی مقام پر نوافل پڑھنے لگے جس مقام پر فرائض پڑھتے تھے، تو حضرت عمرؓ بن الخطاب نے انھیں متنبہ فرمایا کہ پچھلی اُمتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔ انھوں نے احکام و مطالبات کے درجات میں خلط ملط ہوجانے کے اسی مرض کی نشان دہی کی تھی، اور حضوؐر نے ان کی بات کی تصدیق فرمائی تھی۔
دینی احکام و مطالبات کے ضمن ہی میں نہیں ، دیگر اجتماعی اُمور میں بھی یہ مرض دیکھا جاسکتا ہے۔ چیز کو ذرائع کا مقام___ مثلاً تنظیم ، اجتماعات،اپنے طے کردہ وظائف و فرائض اور پروگرام___ وہ خود مقصد بن گئے ہیں۔ تدابیر کا دائرہ تنگ اور محدود ہوگیا ہے، اور ان میں تبدیلی و تغیر انتشار کا باعث بن گیا ہے۔ اس لیے کہ اپنے اختیارات کو نصوص کا، اور تدابیر کو اصول کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اِن سلگتے مسائل کو حل کیے بغیر نہ صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہوگا، نہ ذرائع مطلوبہ نتائج دیں گے، نہ متحد و متفق رہ کر حالات کے تغیر کے ساتھ مناسب احوال، حکمت عملی اور تدابیر کا اختیار کرنا ممکن ہوگا۔
ایک اور سُلگتا مسئلہ اتحاد اور یک جہتی کا ہے۔ اُمت اور معاشرے میں بھی، دینی قوتوں میں بھی، اور مشترک مقاصد کے لیے سیاسی قوتوں میں بھی، مسلم معاشرے ہرجگہ مختلف نوعیت کے تفرقوں اور انتشار کا شکار ہیں۔ دینی فرقہ وارانہ اختلافات بھی ہیں اور سیاسی اختلافات بھی، جنھوں نے اُمت کو باہم نبرد آزما گروہوں میں پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ تصادم اور خون ریزی بھی ہے، ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار بھی نہیں۔ سب سے زیادہ الم ناک بات یہ ہے کہ وہ تحریکات جو غلبۂ دین کی جدوجہد کے لیے ہی برپا ہوئی ہیں، وہ بھی یک جان و متحد ہوکر کام کرنے سے قاصر ہیں۔ جیسا ہم نے افغانستان میں دیکھا، جیسا ہم برطانیہ،یورپ اور امریکا میں دیکھ رہے ہیں۔ جو معاشرے تفرقے اور انتشار کا شکار ہوں، ان کی بڑی تعداد کو کسی دینی مقصد اور دینی قوت کی پشت پناہی کے لیے کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔
سب سے پہلا ضروری کام تو یہ ہے، کہ جہاں تحریکی قوتوں کے متحد و مشترک ہوکر کام کرنے سے نتائج میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے، وہاں عدم اتحاد کے اسباب کا ازالہ کرنا ضروری ہے، اور مشترک جدوجہد کے لیے نظام اور لائحہ عمل وضع کرنا بھی ضروری ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ اختلافات ہیں، ان کو کم کرنے کے لیے تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے، اور سیاسی تدابیر بھی۔ جہاں سیاسی مقاصد کا حصول پیش نظر ہے، وہاں پیش نظر رہنا چاہیے کہ سیاسی کش مکش کا ، جنگ کی طرح، بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ حلیف بنائے جائیں اور کم سے کم لوگوں کو مخالف اور حریف بننے کا موقع دیا جائے۔ کم سے کم محاذ کھولے جائیں اور ایک دشمن کو شکست دینے کے بعد دوسرے دشمن کا رُخ کیا جائے، ساتھ مل کر اقدامات کرنے کے دروازے کبھی بند نہ کیے جائیں اور عداوت کی آگ کسی طرح نہ بھڑکنے دی جائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی اسی اتحاد اور تحلیف کی جستجو اور قیام کی بہترین مثال ہے۔ معاہدۂ مدینہ کے ذریعے یہود کو ساتھ ملانا، کافر قبائل سے معاہدے کر کے ان کو حلیف بنانا، یا کم از کم ان کی عداوت کے امکانات و مواقع کو ختم کرنا، دوستوں کو دوست رکھنا، دشمنوں کو دوست بنانے کی ہر ممکن تدبیر کرنا۔
ساتواں مسئلہ، ایسی مؤثر سیاسی جدوجہد کرنا ہے، جو مطلوب نتائج کا پھل دے سکے۔ سیاست بھی ایک ذریعہ ہے، معاشرے میں قوت و طاقت کے سرچشموں میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے، یا انھیں اپنے ہاتھ میں لینے کا۔ باوجود اس کے کہ سیاست کو دینی جدوجہد میں مرکزی مقام دیا گیا ہے، اور ہمارے نزدیک صحیح دیا گیا ہے۔ اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ بیش تر جگہ سیاست کے نتیجے میں وہ قوت نہیں حاصل ہوئی، جو مطلوب تھی۔
اس اہم مسئلے کے بھی کئی پہلو ہیں:
آخری بات یہ کہ، سیاست صرف حکومتی اور انتخابی سیاست کا نام نہیں۔ حکومت کا اقتدار ریاست کے دوسرے اداروں کی طاقت کی وجہ سے اور معاشرے میں طاقت کے دوسرے سرچشموں کی وجہ سے بھی محدود ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی سیاست کے دائرے کو حکومت اور انتخابات سے وسیع کر کے اس میں معاشرے اور ریاست کے تمام قوت و طاقت اور اثر و رسوخ کے حامل اداروں کو شامل کریں۔
آٹھواں مسئلہ: مغرب کی فوجی، سیاسی، ثقافتی، علمی اور ابلاغی بالادستی اور تسلط کا مسئلہ ہے۔ عالمی قیادت تقریباً تین سو سال سے اہلِ مغرب کے پاس ہے۔ زبان ان کی ہے، اصطلاحات ان کی ہیں، ادارے ان کے ہیں، قوانین ان کے ہیں، تجارت ان کی ہے، عالمی تجارت پر ان کا کنٹرول ہے۔ ذرائع ابلاغ ان کے قبضے میں ہیں، اور اپنی فوجی قوت کو وہ ناقابلِ شکست سمجھتے ہیں۔ لبرلزم، منڈی کی معیشت اور مغربی جمہوریت کی فتح اور عالمی غلبے کو وہ اپنی حتمی فتح قرار دیتے ہیں۔
غلبۂ دین کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی قیادت، اہلِ مغرب کے بجائے اہلِ اسلام کے ہاتھ میں آئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اتنا عظیم الشان تغیر کیسے واقع ہوگا؟ دینی جدوجہد کرنے والوں نے اس مقصد کے لیے کیا حکمت عملی وضع کی ہے؟ ہمارے نزدیک ہمارے پاس نعرے ہیں، جذبہ ہے، محنت ہے، جدوجہد ہے لیکن اس سے نبٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے اور شاید کسی واضح لائحۂ عمل پر کاربند نہیں۔
اس ضمن میں ایک بڑا اہم مسئلہ یہ ہے: کیا یہ تبدیلی قوت کے بل پر آسکتی ہے؟ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ کیا یہ تبدیلی اہلِ مغرب کے دل ودماغ جیت کر آسکتی ہے؟ اس مقصد کے لیے ہم کچھ نہیں کر رہے۔ کیا یہ تبدیلی آئے بغیر آج، عالمی معیشت، عالمی مفادات، عالمی عسکری و سیاسی غلبے کے اس دور میں، کیا دنیا کے کسی ایک ملک میں دینی تبدیلی آسکتی ہے؟ ہمیں اس میں شبہہ ہے۔
مشیت الٰہی نے نصف صدی میں لاس اینجلز سے لے کر استنبول تک مغرب کی سرزمین میں جو مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں پھیلادی ہیں، ان آبادیوں میں یہ صلاحیت اور امکان موجود ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ کش مکش میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کریں۔ کیا ان آبادیوں کو استعمال کرنے کے لیے ہم کوئی حکمت عملی رکھتے ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ نہیں۔
پھر مغرب نے ہمیں ایک اور اہم مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ کیا مغرب نے تہذیب و تمدن اور ٹکنالوجی میں جو ایجادات و اختراعات کی ہیں، جو افکار و خیالات پروان چڑھائے ہیں، جو ادارے اور ذرائع وضع کیے ہیں، وہ سب کفر ہیں، اور مسترد کیے جانے کے قابل؟ یا ان میں ترک و اختیار کی پالیسی اختیار کی جائے گی؟ کیا اسلامی انقلاب کے معنی یہ ہیں کہ اس تہذیب و تمدن کو جسے مغرب نے تعمیر کیا ہے، پہلے ڈھا دیا جائے، پھر ملبہ صاف کیا جائے گا، اس کے بعد نئے افکار اور اداروں کی دیواریں اُٹھائی جائیں گی؟ کیا حقیقت کی دنیا میں یہ عمل کرنے کا کوئی امکان ہے؟ ہمارے خیال میں نہیں ہے۔
مغرب کے ساتھ تہذیبی کش مکش اور اس میں فتح ، بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صرف نعروں، ہنگاموں اور جذبات کے اظہار سے یہ مسئلہ حل نہ ہوگا۔ اس کے لیے علم و حکمت، اجتہاد اور جہاد تینوں کی ضرورت ہوگی۔
نواں مسئلہ عورت اورنوجوان کا ہے۔ عورت آبادی کا نصف حصہ ہے۔ ایک طرف مسلم معاشروں میں اسے وہ مقام حاصل نہیں جو اسلام نے اسے دیا ہے، یا اسلام کی رُو سے اسے دیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف مغرب نے معاشرے میں عورت کے مقام اور عورت مرد کے تعلقات میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرکے، انھیں بالکل نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ آنے والے زمانے میں تہذیبی مسائل میں عورت کا مسئلہ سرفہرست ہوگا: اس کا مقام اور اس کے حقوق۔ اس مسئلے پر بھی ہمارے ہاں بڑا فکری اور عملی خلا ہے، جس کو پُر کرنا ضروری ہے۔
اسی طرح مسلمان معاشروں میں آبادیوں کا نصف سے زیادہ حصہ ۳۰ سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان نوجوانوں کو اپنے ایمان و اقدار اور اپنی تہذیب و ثقافت کا وارث بنائے بغیر غلبۂ دین کے مقصد میں کامیابی کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ لیکن اسلامی تحریکات اس مقصد کے لیے بھی کوئی واضح فکر اور لائحۂ عمل نہیں بنا سکی ہیں۔
آخری مسئلہ خود احتسابی، اپنی غلطیوں کے اعتراف، اور اپنی اصلاح کا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ احتساب پر سارے زور کے باوجود، غلبۂ دین کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور تحریکیں، اپنی اجتماعی روش، پالیسیوں اور اقدامات کے سلسلے میں احتساب و استغفار کے بجائے تاویل و پردہ پوشی کو ترجیح دیتی ہیں۔ نصف صدی کے عرصے میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی اجتماعیت نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہو، اور ان کی اصلاح کا اعلان کیا ہو۔ حالانکہ قوموں اور جماعتوں کی دُنیوی کامیابیوں میں خوداحتسابی اور استغفار کو قرآنِ مجید نے کلیدی اور مرکزی مقام دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کے کسی گروہ کو خامیوں اور غلطیوں سے مفر نہیں۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کسی انسانی گروہ سے نصف صدی میں کوئی بڑی غلطی نہ سرزد ہوئی ہوگی۔ ہمارے ہاںدنیا بھر کی خرابیوں اور غلطیوں پر قراردادیں مل جائیں گی، اپنی خرابیوں اور غلطیوں پر کوئی قرارداد نہیں ملے گی۔
ہمارا خیال ہے کہ پبلک میں اور پبلک کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو پبلک کے سامنے ہی اپنا احتساب کرنا چاہیے، اپنی غلطیوں کی تاویل یا پردہ پوشی کے بجائے ان کا اعتراف کرنا چاہیے، اپنی اصلاحی تدابیر کا اعلان بھی کرنا چاہیے۔ اس سے ان کی عزت، دلوں میں مقام اور ان کے دائرۂ اثر و حمایت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا۔ صحت مند اور مفید روایات قائم ہوں گی۔ رگوں میں نیا خون دوڑے گا اور اصلاح کے دروازے کھلیں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ غلبۂ دین کی جدوجہد کے مختلف پہلوئوں پر جائزے، غوروخوض، نظرثانی، تجدید یا تغیر کا عمل شروع ہوجائے گا تو نصف صدی کی محنت سے جو پھل ہم نے جمع کیے ہیں، وہ گلنے اور ضائع جانے کے بجائے برگ و بار لائیں گے۔ قوموں اور جماعتوں کے لیے انحطاط، زوال اور بگاڑ مقدر نہیں، نہ جمود اور تعطل۔ اجتہاد و جہاد سے قوت اور شباب کے دروازے کھل سکتے ہیں مَاشَاءَ اللہُ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔
مسلمانوں کا روزِ اوّل سے اعتقاد ہے کہ قرآن پاک شکلاً اور مضمونا ً دونوں طور سے اعجاز کا حامل ہے اور کوئی بشری کلام اس کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔ قرآن پاک کو اللہ پاک نے ہمیشہ کے لیے انسانوں کی ہدایت اور رسول اکرمؐ کی رسالت کی دلیل کے طور سے نازل کیا۔ قرآن پاک کے نزول سے دو باتیں ثابت ہوئیں: پہلا یہ کہ وہ کلام اللہ ہے، دوسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول و نبی ہیں۔
رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے بہت سے معجزے بھی صادر ہوئے جیسے شق القمر، کنکریوں (حصی) کا تسبیح پڑھنا، حضورپاک کی انگلیوں سے پانی جاری ہونا لیکن وہ سب وقتی تھے اور ختم ہوگئے، جب کہ قرآن پاک ہمیشہ کے لیے معجزہ ہے اور آخرت تک باقی رہے گا۔
مشرکین قریش نے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے حسی معجزہ مانگا تھا جیسے:
انبیا علیہم السلام کو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے معجزے ملے۔ جادوگری کے زمانے میں حضرت موسٰی کو عصا اور یدِبیضاء ملا۔ طب کے فروغ کی وجہ سے حضرت عیسٰیؑ کو مریضوں کو شفایاب کرنے کا معجزہ ملا۔عربوں کو اپنی فصاحت و بلاغت اور شعر و خطابت پر ناز تھا، اس لیے ان کے لیے معجزۂ قرآن آیا۔ اللہ پاک نے حسی معجزے کے بجائے اپنے آخری نبی کو عقلی معجزہ دیا۔ عقلی معجزہ زمان ومکان کی حدود سے آزاد ہے، جب کہ حسی معجزہ زمان و مکان میں ہی واقع ہو سکتا ہے۔
قرآن پاک کے اعجاز پر گفتگو عباسی دور میں شروع ہوئی۔ اس کا بنیادی مقصد قرآن پاک کا دفاع کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ معتزلی عالم اور لیڈر ابراہیم بن سیار النظّام (م: ۲۲۴ھ) نے پیدا کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ قرآن پاک میں بذاتہِ اعجاز نہیں ہے بلکہ اللہ پاک نے لوگوں کی توجہ اس بات سے ہٹا دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا خیال تھا کہ قرآن پاک کے چیلنج کا جواب دیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اللہ پاک نے لوگوں کی توجہ اس طرف سے ہٹا دی ہے، اس لیے یہ نہیں ہو رہا ہے۔ اس نظریہ کا نام ’صرفۃة‘ہے یعنی توجہ پھیر دینا یا ہٹا دینا ۔ اس نظریے کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ قرآن کی نقل کی جا سکتی ہے لیکن اللہ پاک نے عربوں کو اس صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ لیکن اس رائے کو عام مقبولیت نہیں ملی۔
اسی زمانے میں زنادقہ نے بھی سر اٹھایا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ قرآن پاک میں استعمال شدہ بعض کلمات مناسب نہیں ہیں اور قرآن کے بعض فقروں میں بلاغت و فصاحت نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں کلام پاک معجزہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ سوسائٹی کے بعض لوگوں کو قرآن پاک کے بعض مبادی جیسے مساوات و عدل سے پریشانی ہوئی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سب لوگ برابرہوں۔ اس وجہ سے انھوں نے قرآن پاک کے بارے میں شک و شبہہ اور تشکیک شروع کر دی ۔ ۱
یہی وجہ ہے کہ اس زمانے سے قرآن پاک کے اعجاز کے بارے میں علما نے کثرت سے لکھنا شروع کیا۔ بعض نے اپنی کتابوں میں اس مسئلے کا تذکرہ کیا اور بعض نے الگ سے کتابیں تصنیف کیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
قرآن پاک نے لفظ ’معجزہ‘ یا ’اعجاز‘ استعمال نہیں کیا ہے۔ یہ اصطلاحیں بعد کے علما نے وضع کی ہیں۔ اسلام آنے کے بعد شروع کی دو صدیوں میں مسلمانوں نے قرآن پاک میں ’اعجاز‘ کی طرف توجہ نہیں دی۔ ایک اسکالر نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ (۱)اس وقت تک اسلامی عقل بہت باریک مسائل کے بارے میں سوچنے کی عادی نہیں ہوئی تھی، (۲)مسلمان نص قرآنی کو بہت تقدس کی نظر سے دیکھتے تھے، اس لیے اس جیسے مسائل کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ۔ ۲ اس میں یہ اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ شروع کی دو صدیاں آپس میں سیاسی خلفشار کی تھیں اور مسلمان جنگوں اور فتوحات میں بہت مشغول تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن پاک کا لسانی، بیانی اور تشریعی اعجاز قرنِ اول کے مسلمانوں کے سامنے ایک حقیقت تھا، اس لیے اس کے دفاع کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
پہلی دو ہجری صدیوں کے دوران ہمیں اعجاز القرآن کے بارے میں کوئی تصنیف نظر نہیں آتی۔ دوسری صدی ہجری کے آخر میں ابوعبیدہ معمر بن مثنی (م: ۲۰۹ھ)نے کتاب اعجاز القرآن لکھی جو اس موضوع پر پہلی کتاب تھی، لیکن وہ ان کی دوسری کتابوں کی طرح ناپید ہے۔اسی زمانے میں قرآن پاک کے اعلیٰ عربی، ابلاغی اور بیانی اسلوب کے بارے میں بات شروع ہوئی اور تیسری صدی ہجری سے اعجاز القرآن کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں تصنیف کی جانے لگیں، مثلاً:
’اعجاز‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو مادہ یا جذر ( ع-ج-ز) سے مشتق ہے۔اس کے ثلاثی مصدر کے معنی ہیں عاجز ہونا، قادر نہ ہونا، کمزور ہونا۔ اسی جذر سے عاجز، عجوز، معجزہ اور اعجاز جیسے الفاظ بنتے ہیں۔ عجز کے معنی کمزوری بھی ہے اور انسان کا پچھواڑہ بھی۔ اعجاز کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرنے یا پکڑنے کو ناممکن بنانا ۔ اصطلاح کے طور سے ’اعجاز‘کے معنی عاجز اور کمزور کردینا ہے۔ الاعجاز القرآنیکے معنی ہیں قرآن پاک کے ذریعے رسول اکرمؐ کے پیغام کے صدق کا معجزاتی اظہار اور منکروں کو چیلنج کہ اس جیسا کلام لائیں۔
عجز سے معجزہ بھی مشتق ہے، جو زندگی اور موجودہ دنیا کے فطری قوانین کے خلاف واقع ہوتا ہے۔ ایک اسلامی اصطلاح کے طور پر معجزہ وہ عمل ہے جو پیغمبرؑ اپنی پیغمبری کے اعلان کے بعد اور پیغمبری کی تائید واثبات میں اپنے انکار کرنے والوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ شیخ ابو زہرہ نے اس کی تعریف یوں کی ہے: ’’وہ عادت کے مخالف امر ہےجسے نبوت کا دعویٰ کرنے والا یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ وہ اللہ کا رسولؐ ہے اور (اپنے منکرین) کو چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسا عمل لا کر دکھائیں‘‘ ۔ ۱۹ یہ دلیل حسی ہوسکتی ہے جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیا علیہم السلام نے پیش کی مثلاً مُردوں کو زندہ کرنا، عصا کو چلتا ہوا سانپ بنا دینا وغیرہ۔ حضور پاکؐ سے بھی ایسے معجزے صادر ہوئے جیسے شق قمر اور انگلیوں سے پانی نکلنا۔معجزہ فطری قوانین کے خلاف واقعہ ہوتا ہے اور نصرت الٰہی کے بغیر کوئی معجزہ نہیں لا سکتا۔ اسی طرح اللہ پاک کسی جھوٹے مدعی کو معجزہ نہیں دیتے ہیں۔
قرآن پاک کا اعجاز بہت متنوع ہے۔ اس میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ تاریخی اعجاز (ماضی ، حال اور مستقبل کی خبروں کو بتانا)، نفسیاتی اعجاز (انسانی نفس کے اسرار کو بتانا)، تشریعی اعجاز (ایسے قوانین انسان کے لیے بنانا جو اس کے لیے بالکل مناسب ہوں)، علمی اعجاز (ایسے سائنسی اسرار کو بتانا جن کو حضورپاکؐ کے زمانے کے لوگ نہیں جانتے تھے یا جن کا انسان نے ابھی انکشاف نہیں کیا تھا)۔
اس وقت کے اور بعد کے عرب قرآن پاک کے اس چیلنج کا جواب دینے سے قاصر رہے۔ عربوں کے پورے شعری اور نثری کلام میں فصاحت، لطیف معانی، حکمت وبلاغت کی قرآن جیسی مثال نہیں ملتی ہے۔ عرب حکما وشعرا کا جو کلام ملتا ہے وہ چند الفاظ یا مختصر قصائد پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ۲۰
عربی زبان کے ممتاز ترین ادیب ابن المقفع (م:۱۴۲ھ/۷۵۹ء)نے اس چیلنج کوقبول کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہا۔آخر میں اس نے اپنے لکھے ہوئے سارے صفحات پھاڑ دیے اور شرم کے مارے اس مسئلے پر خاموش رہا ۔ ۲۱
قرآن کا یہ اعجاز وقتی نہیں تھا بلکہ وہ تاقیامت جاری رہے گا۔ اس لحاظ سے اپنی تعلیمات کے علاوہ قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے۔ قرآن ہی رسولؐ اللہ کا اصلی معجزہ ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمام انبیاؑ کومعجزے دیے گئے، جن کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لائے۔ مجھے جو دیا گیا ہے وہ ’وحی‘ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی‘‘(ما من الانبیاء نبی إلا أعطی من الآیات ما مثلہ آمن علیہ البشر، إنما کان الذی أوتیت أنا وحیا أوحاہ اللہ إليّ ۔ ۲۲
’اعجاز‘ یا ’معجزہ‘ کا لفظ قرآن پاک میں نہیں آیا ہے بلکہ اس کا استعمال دوسری صدی ہجری کے اواخر سے شروع ہوا۔ خود قرآن پاک میں اس کے لیے لفظ – ’آيۃ ‘ استعمال ہوا ہے، جیسے: البقرہ۲: ۳۹، ۹۹؛ آل عمران۳:۴، ۷؛النساء۴: ۵۶، ۱۴۰؛ المائدہ۵:۱۰، ۴۴؛ الانعام ۶: ۴، ۲۱ وغیرہ میں ہے۔ اسی طرح اس کے لیے –’بيّنة ‘کا لفظ آیا ہے، جیسے: البقرہ۲: ۲۱۱؛ الانعام ۶:۵۷، ۱۵۷؛ الاعراف ۷: ۷۳، ۸۵، ۱۰۵؛ الانفال۸: ۴۲؛ ہود۱۱:۱۷، ۲۸، ۵۳، ۶۳، ۸۸؛ طٰہٰ ۲۰:۱۳۳؛ العنکبوت ۲۹: ۳۵؛ فاطر۳۵:۴۰؛ محمد۴۷: ۴۷؛ البینۃ ۹۸: ۱،۴۔
اسی طرح – ’برہان ‘ کا لفظ آیا ہے، جیسے: البقرہ۲: ۱۱۱؛ النساء۴: ۱۷۴؛ يوسف۱۲: ۲۴؛ الانبیاء۲۱:۲۴؛ المؤمنون ۲۳:۱۱۷؛ النمل۲۷: ۶۴؛ القصص ۲۸: ۳۲، ۷۵۔ ایک لفظ ’سلطان ‘ استعمال ہوا ہے، جیسے: آل عمران۳: ۱۵۱، النساء۴:۹۱، ۱۴۴، ۱۵۳؛ الانعام ۶:۸۱۔
کچھ متاخرین کا خیال ہے کہ اعجاز قرآنی صرف اعجاز بیانی ہے۔ معروف مصری محقق محمودمحمدشاکر (م: ۱۹۹۷ء)نے مالک بن نبی (م: ۱۹۷۳ء)کی کتاب الظاهرة القرآنية کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’اعجاز ، قرآن میں الفاظ کی ترتیب، بیان اور ان تمام خصوصیات کے استعمال میں ہے جو عربوں کے کلام میں نظم وبیان کے نام سے جانی جاتی تھی‘‘ ۔ ۲۵ لیکن ہمارا خیال ہے کہ قرآنی اعجاز صرف بیان و بلاغت میں نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اس کے نازل ہونے کے وقت عربوں کو نہیں معلوم تھیں یا جن کا انکشاف بعد میں ہوا۔
قرآن پاک اپنی جگہ دائمی معجزہ بھی ہے اور ہدایت کی کتاب بھی،جب کہ حضور پاکؐ سے پہلے آنے والے انبیاؑ کے معجزات وقتی ہوتے تھے۔ ابن خلدون کی رائے ہے کہ ’’معجزات عموماً وحی کے علاوہ واقع ہوتے تھے جو نبی پر نازل ہوتی تھی پھر نبی معجزے کو گواہ کے طور پر پیش کرتا تھا۔ لیکن قرآن بنفس نفیس دعویٰ بھی ہے اور معجزہ بھی‘‘ ۔ ۲۶
۱- پہلے مرحلے میں کہا گیاکہ قرآن جیسا کلام لاؤ : قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِيْرًا۸۸ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۸) ؛ فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۳۴ۭ (الطور ۵۲: ۳۴)۔
۲- دوسرے مرحلے میں کفار و مشرکین کو چیلنج کیا گیا کہ قرآن کی طرح کی دس سورتیں بنا کر لاؤ: اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۱۳ (ھود ۱۱:۱۳)۔
۳- تیسرے مرحلے میں کفار و مشرکین سے کہا گیا کہ قرآن پاک جیسی ایک ہی سورہ بنا کر لاؤ: اَمْ يَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۳۸ (يونس ۱۰: ۳۸) ؛ وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۰۠ وَادْعُوْا شُہَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۲۳ (البقرہ ۲: ۲۳)؛ فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۳۴ۭ (الطور ۵۲: ۳۴)
لیکن ان تینوں چیلنجوں کو قبول کرنے سے کفار و مشرکین ومنکرین اس زمانے سے لے کر موجودہ زمانے تک عاجز رہے۔
عربوں کا شروع سے ردّعمل، قرآنی اعجاز کا انکار کرتے ہوئے تلوار کے ذریعے آخر تک اس کی مخالفت تھا حالانکہ ان کا دعویٰ تھا کہ اگر ہم چاہتے تو ہم بھی قرآن جیسا کلام کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ پچھلے لوگوں کی کہانیاں ہیں لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآ۰ۙ اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۳۱ –الانفال ۸ : ۳۱)۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ قرآن انسان کا کلام ہے اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۲۵ۭ (المدثر ۷۴ : ۲۵)، وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ۰ۭ (النحل۱۶ : ۱۰۳)، قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ۰ۭ (الانعام ۶ : ۹۱)۔ لیکن وہ اس طرح کا کلام پیدا نہیں کر سکے۔
قریشی سردار الولید بن المغیرہ قرآن پاک کے بارے میں کہتا ہے: فَوَاللهِ مَا فِيکُمْ رَجُلٌ أَعْلَمُ بِالشِّعْرِ مِنِّي وَلَا بِرَجَزِهِ وَلَا بِقَصِيدِهِ وَلَا بِأَشْعَارِ الْجِنِّ وَاللّهِ مَا يُشْبِهُ الَّذِي يَقُولُ شَيْئًا مِنْ هٰذَا وَوَاللهِ اِنَّ لِقَوْلِهِ الَّذِي يَقُولُ حَلَاوَةً وَاِنَّ عَلَيْهِ لَطَلَاوَةً وَاِنَّهُ لِمُثْمِرٌ أَعْلَاهُ مُغْدِقٌ أَسْفَلُهُ وَاِنَّهُ لَيَعْلُو وَلَا يُعْلَی عَلَيْهِ ۲۷(خداکی قسم، تم میں سے کوئی نہیں جو شعر کو، رجز کو، قصیدے کو اور جنات کے شعر کو مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔ خدا کی قسم! یہ جو کہتا ہے وہ ان چیزوں میں سے کسی کی طرح نہیں ہے۔ خدا کی قسم! جو یہ کہتا ہے اس میں شیرینی ہے، اس میں تازگی ہے، اس کا اوپری حصہ پھل دار ہے اور نچلا حصہ پیاس بجھانے والا ہے۔ وہ اوپر کی طرف اٹھتا ہے اور کوئی اس کے اُوپر نہیں اٹھ سکتا ہے)۔[جاری]
حواشی
۱- فلاح عبدالحسن ہاشم،محاضرات فى مادة الاعجاز القرآنى، جامعة البصرة، ص۱۷
۲- احمد جمالی العمری، مفہوم الاعجاز القرآنی، ص۴۲-۴۳ نقلا عن السيد نذير الحسني،المراحل والأدوار التي مر بها بحث الاعجاز ، مستل من كتاب دروس فی علوم القرآن ، ص ۲۳۷- ۲۴۳
۳- الرمانى ، النكت فى الاعجاز القرآنى ، دارالمعارف بمصر ، الطبعة الثالثة ۱۹۵۵م، ص۷۵ ، بحوالہ ثلاث رسائل فى إعجاز القرآن: الخطابى والرمانى والجرجانى
۴- الخطابى،بيان إعجازالقرآن ، دارالمعارف بمصر ، الطبعة الثالثة، ۱۹۵۵م ، ص۲۷ ، بحوالہ ثلاث رسائل فى إعجاز القرآن: الخطابى والرمانى والجرجانى
۵- الباقلانى، إعجاز القرآن، دار المعارف بمصر، ص ۴۹- ۵۱
۶- دارالمعارف بمصر ، الطبعة الثالثة ۱۹۵۵م
۷- تعليق محمود محمد شاكر ، مطبعة المدنى، القاهرة، ۱۹۸۴ء
۸- القاضى عياض بن موسى ، الشفا بتعريف حقوق المصطفٰى،دبي ۱۹۹۹م، ص ۳۱۷- ۳۳۳
۹- السخاوى، جمال القراء وكمال الإقراء ، تحقيق مروان العطية و محسن خرابة ، دارالمأمون للتراث، دمشق وبيروت ۱۹۹۷، ص ۱۰۱- ۱۰۹
۱۰- القرطبى ، الجامع لأحكام القرآن، دارالكتب المصرية، القاھرۃ، ۱۹۳۵م، ص ۶۹- ۷۵۔
۱۱- البرهان فى علوم القرآن، تحقيق ابوالفضل الدمياطى، طبع دارالحديث ۲۰۰۶م، ص۳۸۳ وما بعدھا
۱۲- الإتقان فى علوم القرآن ، مركز الدراسات القرآنية، المملکۃ العربیۃ السعودية، ج5، ص ۱۸۷۹ ومابعدھا۔
۱۳- معترك الأقران فى إعجاز القرآن ، دارالكتب العلمية، بيروت، ۱۹۸۸۔
۱۴- دارالشروق، بيروت والقاهرة ، ۱۹۹۴م
۱۵- دار الكتاب العربي، بيروت ۱۹۷۳م
۱۶- دارالشروق القاهرة بيروت، الطبعة۳۲، ۲۰۰۳م
۱۷- دار الشروق القاهرة، الطبعة ۱۷، ۲۰۰۴م
۱۸- دارالشروق القاهرة، الطبعة ۱۶، ۲۰۰۶م
۱۹- محمد ابوزهرۃ، المعجزة الكبرى للقرآن، دار الفکر العربی (نحو ۱۹۷۰) ، ص: ۷
۲۰- علي الصلابي، مطارحات في وجوه الاعجاز القرآني، الجزیرۃ، ۲۴ اگست ۲۰۱۳
۲۱- مصطفٰى صادق الرافعى ، تارخ آداب العرب ، ۲/۱۱۸
۲۲- صحیح الخا ری، کتاب فضائل القرآن ۴۹۸۱، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ۷۲۷۴۔
۲۳- فلاح عبدالحسن هاشم،محاضرات فى مادة الاعجاز القرآنى ،ص: ۱۰-۱۱۔
۲۴- مصطفٰى صادق الرافعى ، تارخ آداب العرب ، ۲/ ۱۰۴
۲۵- مقدمة كتاب الظاهرة القرآنية لمالك بن نبى، دار الفکر، دمشق، ۲۰۰۰، ص۳۰
۲۶- مقدمة بن خلدون ص: ۱۰۶- ۱۰۷ ، نقلا عن نورالدين عتر، علوم القرآن الكريم
۲۷- ابن كثير، البداية والنهاية ص ۷۵۵۔
اسرائیل جیسی غاصب ریاست نے سالہا سال سے فلسطینی باشندوں کے حقوق غصب کررکھے ہیں۔ مسلمانوں، غیرمسلموں اور حقوقِ انسانی کے علَم برداروں کی طرف سے دُنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہرے ایک طرح کا احتجاج تھا۔ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے جواب میں حماس کی دندان شکن جوابی کارروائی ہر لحاظ سے ایک جائز فطری عمل تھا، جب کہ اسرائیل زدہ مغربی صحافی اور سیاسی لیڈر اسے ’دہشت گردی‘ کہہ کر دل کا غبار نکالتے ہیں۔
اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو صہیونی و امریکی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں طے پانے والے ’ابراہیمی معاہدہ‘ کے نتیجے میں مسئلہ آزادی فلسطین ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا تھا جب صرف نصرتِ الٰہی اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے ایک کام کے کر گزرنے کی توفیق ہی ۷؍اکتوبر کا اقدام کروا سکتی تھی ۔ کون نہیں جانتا کہ اسرائیلی فوج اپنی ایٹمی طاقت، عسکری تربیت اور اسلحہ کی کثرت میں تمام عرب ممالک سے زیادہ قوت رکھتی ہے اوراسے عالمی طور پر چوتھی سب سے زیادہ منظم فوجی قوت شمار کیا جاتا ہے ۔ ایک ایسی قوت سے گنتی کے چند سرفروش مجاہدین کا صرف میزائلوں کے ذریعے اسرائیل کی دہشت گردی کا جواب دینا ایک چیونٹی کا ہاتھی کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے سے کم نہیں تھا،لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت کے ہے کہ حماس نے اپنے سے سیکڑوں گنا زیادہ آلات جنگ، امریکی پشت پناہی اور تربیت یافتہ جنگجو مرد اور عورتوں کے خلاف صف آرا ہو کراور چند لمحات میں ان کے طلسماتی آہنی دفاعی نظام (iron dome defense system) کے سحر کو توڑ دیا اور ان کی تمام خفیہ تنصیبات کے باوجود، کامیاب حملہ کر کے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کے اس اقدام کی اس سے زیادہ قرآن کریم کی مزید عصری تعبیر نہیں ہو سکتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۶۵(الانفال۸:۶۵) اے نبیؐ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے( ۱۰ گنا زیادہ پر) اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار پر بھاری رہیں گے ،کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔
مقابلہ اسلحہ کی قوت کا ہو یا تربیت یافتہ فوجی افراد کا، غزہ کے اہل ایمان نے قرآن کی تفسیر اپنے عمل سے پیش کر دی ہے کہ شاید اس سچائی کو آنکھوں سے دیکھ کر امت مسلمہ اپنی گراں خوابی، کم ہمتی، عدم اعتماد اور غلامانہ ذہنیت پر شرمندہ ہو کر گریبان میں جھانک کر دیکھے اور اپنے مالک حقیقی کی اس پکار پر لبیک کہہ کر میدانِ عمل میں اتر آئے جس میں فرمایا گیا تھا:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۷۵( النساء۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔
یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں نے تعداد اور اسلحہ ہر لحاظ سے کمتر ہونے کے باوجود اپنے حجم اور کمیت میں اپنے سےسیکڑوں گنا بڑے ظالم، جابر اور سفاک اسرائیلی نظام کو دن کی روشنی میں اللہ پر اعتماد کے ساتھ للکارا ہے۔ اس کا سبب اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ پر اعتماد اور وہ ایمان ہے جو امت مسلمہ کو اپنی حالت تبدیل کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔حماس کا یہ اقدام قرآنی حکم کی تصدیق کرتا ہے کہ جن مٹھی بھر افراد نے اپنی حالت کو تبدیل کیا اور جو بھی وسائل میسر تھے ان کو استعمال کیا اور اس خوابیدہ امت مسلمہ جو مغربی آقاؤں پر تکیہ کرتی ہے ، اس کی جگہ رب کریم پر بھروسا کیا۔عظیم قربانیوں کے باوجود آخر کار فتح ان ہی کی ہو ئی :
وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۱۷۳ (الصٰفّٰت ۳۷:۱۷۳) اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا۔
وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّــۃٌ۰ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۲۳ (ال عمرٰن ۳ :۱۲۳) آخر اس سے پہلے جنگ بدر میں اللہ تمھاری مدد کر چکا۔حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔
غزہ کے مسلمانوں کی اس عظیم قربانی نے ثابت کر دیا کہ اصلی قوت ، قوتِ ایمانی ہے۔ چنانچہ اسرائیل اپنے تمام تر تکبر، ساز و سامان اور حکمت عملی کے باوجود، دنیا میں اس واقعہ کی بنا پر تمام دنیا کے باضمیر انسانوں کی نگاہ میں ظالم، مجرم اور قاتل ٹھیرا، اورمسلم ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک کے غیر مسلم باشندوں نے اس معاملے میں اسرائیل کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر کے گویا ایک عالمی ریفرنڈم کے ذریعے فلسطین کی مقدس سرزمین پر فلسطینیوں کے حق کو جائز اور اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دے دیا ۔
اس کھلی حقیقت کے باوجود اگر مسلم ممالک اپنی حالت بدلنے پر غور نہیں کرتے اور اسی بھول میں ر ہیں کہ چچا سام ان کا خیر خواہ ہے تو اللہ سے ان کی ذہنی سلامتی کی دعا ہی کی جاسکتی ہے، کیوں کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ ایک ناجائز طور پر پیدا ہونے والی اسرائیلی ریاست کے ساتھ دوستی، تعلقات اور امن کامعاہدہ انھیں معاشی اور سیاسی سربلندی سے سرفراز کر دے گا۔ قرآن کریم نے ایسے افراد ہی کو دنیا اور آخرت میں ناکام قرار دیا ہے :
وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَ فِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۷۲(بنی اسرائیل ۱۷:۷۲)،اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔
مسلم ممالک کی سیاسی ناعاقبت اندیشی کی ایک مثال وہ دستاویز یا معاہدہ ہے جسے ’ابراہیمی معاہدہ‘ I2U2 یا Abraham Accord کا نام دیا گیا ہے۔ اس معاہدے پر اسرائیل، ہندستان اور یو اے ای کے ساتھ بطور گواہ صدر امریکا کے دستخط ثبت ہیں۔اس معاہدے کے نام میں I2U2 کا جو مخفف استعمال کیا گیا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں انگریزی کے لفظ I سے شروع ہونے والے نام کے دو ممالک یعنی انڈیا اور اسرائیل ہیں اورU سے شروع ہونے والے بھی دوممالک ہیں، یعنی امریکا اور یو اے ای ۔ گویا یہ چار ممالک کا مشترکہ عہد نامہ ہے جو ایک عوامی دستاویز کے طور پر کسی بھی باشعور فرد کو حیران اور فکر مند کرنے کے لیے کافی ہے (سوائے ان کے جو قرآن کی زبان میں جان بوجھ کر آنکھیں موندے ہوئے ہوں)۔
اس متفقہ دستاویز کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے:
Normalization : Peace, establishment of peace diplomatic relation and full normalization of bilateral ties are hereby established between the United Arab Emirates and the state of Israel.
۱۲ شقوں پر مبنی اس معاہدے کے اہم نکات میں پہلے نکتے کا تعلق اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنے سے ہے:
a sovereign country". "Full recognition of Israel as
اس معاہدے میں بیان کردہ دوسرے ’مقدس فرائض‘ کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
2. To work together to counter extremism, which promotes hate and divisions and terrorism and its justifications, including by promoting radicalization and recruitment and by combating incitement and discrimination.
3. To Further undertake to adopt any legislation or other internal legal procedure necessary in order to implement this treaty, and to repeal any national legislation in official publication inconsistent with this treaty.
اگر صرف ان دو شقوں پر غور کیا جائے تو I2U2 کے مضمرات کسی بھی ایسے شخص سے مخفی نہیں رہ سکتے جو دو آنکھوں کے ساتھ تھوڑا بہت دماغ بھی رکھتا ہو۔اسرائیل کو ایک باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کے بعد پہلی بات جو اس معاہدے میں قبول کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ فلسطینی باشندوں کی حقوق انسانی کے لیے جدوجہد کرنا انتہا پسندی ،دہشت گردی، نفرت اورتقسیم پیدا کرتی ہے جو اس معاہدۂ امن کے منافی ہے ۔اس لیے حقوق انسانی کی بحالی پر کوئی زبانی یا تحریری کوشش اس معاہدے کی خلاف ورزی شمار کی جائے گی۔
دوسری اہم بات جس پر اتفاق کیا گیا ہے، یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے تحریک آزادی، جہاد یا اس نوعیت کے کسی لفظ کا استعمال جو ایسی کسی تحریک کا جواز (Justification) کہا جا سکتا ہو، اس کے استعمال سے مکمل پرہیز کیا جائے گا۔ یہاں اصل مقصد لفظ ’جہاد‘ کے استعمال پر مکمل پابندی لگانا ہے کیونکہ یہودیوں کے نزدیک یہ دہشت گردی پر ابھارنے کی تعریف میں آتا ہے اور ’اسرائیلی آقاؤں‘ کو اس سے وحشت ہوتی ہے۔ اگلی اہم بات جو واضح الفاظ میں کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اس معاہدے کی بنا پر وہ تمام قانونی ،پارلیمانی، سرکاری دستاویزات جن میں اسرائیل کی ’ناجائز پیدائش‘ یا اس کے وجود کی کسی قسم کی تضحیک و تذلیل پائی جاتی ہو، وہ بھی بعض مبینہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو اُکسانے کی تعریف میں آتی ہے۔ اس لیے ایسی ہر تحریر کو دستاویزات سے حذف کیا جائے گا۔
مثلاً ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کی یا نام نہاداقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا سرکاری بیانات ہوں یا جہادِ فلسطین کے حق میں کہی یا لکھی ہوئی کوئی دستاویز ، قرارداد یا بیان ہو، اسے سرکاری ریکارڈ سے حذف کرنے کے بعد ایک نئی تاریخ لکھی جائے گی جس میں اسرائیل کی ولادت کو نہ صرف ’جائز‘ قرار دیا جائے گا بلکہ اس کے کیے ہوئے کسی بھی استحصالی، ظالمانہ ، سفاکانہ اقدام کا تذکرہ چاہے وہ دیریاسین کا قتل عام ہو یا صابرہ اور شتیلہ میں اسرائیلی درندگی ،ایسی تمام تحریروں کو کالعدم قرار دے کر کتب سے حذف کیا جائے گا، اور غالباً اس کی جگہ اسرائیل کی اَزلی اور ابدی پاکیزگی، معصومیت، امن پسندی ، حقوق انسانی کے احترام اور بچوں سے محبت و شفقت کا تذکرہ کیا جائے گا۔ گویا ۷۵سال کی وہ تمام تاریخ جو دنیا کے ہر دیدہ ور نے دیکھی ہے، پڑھی ہے، اسے تاریخ کے صفحات سے مٹا کر اسرائیل کو اچھے کردار کا سرٹیفکیٹ کوئی اور نہیں نام نہاد مسلم ممالک عطا کریں گے۔
’امن اور تجارتی ترقی‘ کے خوش نما الفاظ کے زیر سایہ اس اسرائیلی نوشتۂ تقدیر پر دستخط کرنے سے جو فوائد حاصل ہوں گے، یہ دستاویز ان کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے ۔اسی نوعیت کے Indo-pacificاور South-pacific معاہدوں میں جو امریکا، برطانیہ ،آسٹریلیا ،بھارت کے درمیان پہلے ہو چکے ہیں اور ’ابراہیمی معاہدہ‘ میں جن مالی فوائد کا تذکرہ کیا گیا ہے ،ان میں یو اے ای کی جانب سے بھارت میں دو بلین ڈالر زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے دیے جائیں گے۔ گجرات میں جہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، وہاں ۳۰۰ میگا واٹ کا شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی کا پراجیکٹ لگایا جائے گا۔
بھارت اور اسرائیل کے یہ قریبی تعلقات کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے اور انتقال آبادی کے ذریعے کشمیری باشندوںکی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی پالیسی میں اسرائیل کا بنیادی ہاتھ ہے۔ اسرائیل نے بھارتی فوج کو کشمیر کے تناظر میں خاص تربیت فراہم کی ہے اور اس کے مشیر مسلسل بھارت کی مددمیں مصروف ہیں۔ بھارت کا ۴۵ فی صد اسلحہ اسرائیل سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ۲۰۰۰ء میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان تجارت ۹۰۰ ملین تھی،جب کہ ایک سال بعد۲۱-۲۰۲۰ء میں یہ ۷ء۸۶ بلین پر جا پہنچی ۔ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل ۲۰۲۱ء تک بھارت میں ۲۷۰ ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکا ہے، جب کہ یواے ای اس دوڑ میں کچھ پیچھے نہیں ہے ۔ اس نے بھی بھارت میں تقریباً ۱۷،۱۸بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔بھارت آئی ٹی میں خدمات کے ذریعے امریکا کوسالانہ۱۰۲ء۳ ملین ڈالر کی خدمات فراہم کرتا ہے جو اس کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس پس منظر میں اگر ’ابراہیمی معاہدے‘ کے دور رس اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یوں نظر آتا ہے کہ گوبھارت کی تجارت چین کے ساتھ تقریباً ۲۲ء۸ ملین کی ہے اور ایک تجارتی معاہدہ ۳۰۰ملین کا بھی ہو چکا ہے لیکن وسیع ترتناظر میں مذکورہ معاہدے کے ذریعے امریکا اور اسرائیل، بھارت کو مزید اپنے دائرۂ اثر میں لے کراور اسی نوعیت کے معاہدات کے ذریعے وسط ایشیاکی مسلم ریاستوں، مثلاً ازبکستان و دیگر کو ایران اور پاکستان کو شامل کر کے چین کے معاشی منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ (Belt and Road) کو ناکام بنانا چاہتا ہے ۔ ایسے ہی گوادر کو غیر فعال بنا کر نہ صرف پاکستان کو بلکہ چین کو معاشی نقصان پہنچایا جائے گا ۔اس پورے معاملہ میں بھارت کا موقف دونوں جانب سے اپنا فائدہ حاصل کرنے کا ہے۔ وہ بیک وقت اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے امریکا اور چین سے اپنے مفادات کا حصول چاہتا ہے۔
اس معاہدے کا پہلا اثر یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات جوپہلے بہت زیادہ نمایاں نہیں تھے، اب بہت واضح ہو گئے ہیں۔خصوصاً بھارت کے تعاون سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات کا قیام تاکہ ایسے مسلم ممالک جو ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں نہیں ہیں انھیں ’شرعی جواز‘ فراہم کر دیا جائے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کررہا ہے تو دوسروں کو کیا اعتراض ہے؟ گویا سعودیوں کا کسی غلط کام کو کرنا ’مستحب‘ عمل ہے اور اس کی پیروی کرنا ’ثواب‘ کا باعث ہے۔ یہ حقائق ظاہر کر رہے ہیں کہ تمام مسلم ممالک نظریاتی طور پر اتنے کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ’معاشی ترقی‘ کے حصول کے لیے جن یہودکو قرآن نے مسلمانوں کے مفادات کا دشمن قرار دیا ہے ، ان سے کھلم کھلا تعاون ، اشتراک ہی نہیں بلکہ ان کی قیادت اور سربراہی کو تسلیم کرنے کے ساتھ ان کے مشورےسے یہ ممالک اپنے سیاسی ، معاشرتی اورتعلیمی میدانوں میں امریکا اور اسرائیل کی تجویز کردہ تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں۔
’ابراہیمی معاہدے‘ کے طرز پر دوسرے مجوزہ معاہدے کا اہم مقصد یہ تھا کہ پاکستان، ایران، افغانستان، ازبکستان اور بھارت کو ایسے ہی معاہدے کے بندھن میں لا کر وہ تمام مقاصد حاصل کر لیے جائیں جن کی تمنا بھارت اور اسرائیل کو ۷۵ سال سے تھی ۔ان مقاصد میں سرفہرست مقبوضہ کشمیر کو ایک ماضی کا قصہ قرار دے کر بھارت اور پڑوسی ممالک سے معاشی ترقی کے زیر عنوان مقبوضہ کشمیر کی مظلوم مسلم آبادی کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہے۔ آج غزہ جیسے مسئلہ پر جس کی کھلی عوامی حمایت غیرمسلم یورپ اور امریکا کے شہری جو غیر مسلم ہیں وہ بھی کر رہے ہیں، لیکن دوسری جانب مسلم ممالک کے سربراہان بشمول پاکستان نے زبانی جمع خرچ اور دکھاوے کےایک آدھ رسمی بیان سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی جرأت نہیں کی ۔ اسی طرح پاکستان بہ تدریج مجوزہ معاہدے کی بنا پر کشمیر کے مسئلہ سے عملاً کنارہ کشی اختیار کر ے جو بھارت اور اسرائیل کی ازلی خواہش رہی ہے۔
اس معاہدے کا ایک اہم مقصد خود بخود پاکستان کی ایٹمی طاقت کو غیر مؤثر کر نا اور اسرائیل اور بھارت کو پاکستان کی طرف سے کسی ممکنہ خطرہ سے محفوظ کرانا ہے۔ اس کے ساتھ اس معاہدے میں اسرائیلی مشیر و ماہرین پاکستان کے دفاع کو Iron dome کی طرح ناقابل تسخیر بنانے کے نیک کام میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے اور ہمارے غازی اور مجاہد ان کی قیادت میں ملک و قوم کا سرفخر سے بلند کرنے میں کامیابی حاصل کر سکیں گے !!
اس معاہدے کا اوّلین نتیجہ یہ ہو گا کہ چین کے BRI اور سی پیک کے منصوبے کو سرد خانے میں ڈال دیا جائے اور پاکستان کی نوکر شاہی اور غلامانہ ذہنیت کے سیاست دان اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر امریکا، بھارت اور اسرائیل کی حاکمیت اعلی ٰکے اچھے کارندے بن کرابھی تک جو خفیہ خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں، اب وہ علی الاعلان اسرائیلی بالا دستی کےسائے میں یہ خدمات بجا لا سکیں۔
ایک بنیادی اصول جس کا تعلق دنیا کے تمام غیور ممالک سے ہے وہ ان کی حاکمیت کا تحفظ ہے۔ یہ حاکمیت ایوان نمایندگان ہی میں نہیں بلکہ ہر معاملے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا سودا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جان بوجھ کر کم از کم دوسو سال کے لیے اپنی خوشی ا و رضامندی سے انگریز کی غلامی کی جگہ ہندو اور اسرائیل کی اطاعت و فرماں برداری کو اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس معاشی، سیاسی اورفکری غلامی کو آنکھوں دیکھے قبول کر لینا واقعی بڑے دل گردے کا کام ہے! تاریخ کا ہرطالب علم جانتا ہے کہ استعمار کسی بھی ملک میں مختصر عرصے کے لیے نہیں آتا۔ وہ جب بھی آتا ہے اپنے ساتھ کم از کم دوسو سال کی محکومیت لے کر آتا ہے ۔ اسرائیل اور بھارت کی غلامی ابھی تک ایک خواب رہا ہے جسے تقسیم ہند سے قبل متعصب دشمنانِ اسلام ہندو قیادت نے دیکھا تھا اور جسے قائد اعظمؒ اور علامّہ اقبالؒ نے ردّ کرتے ہوئے معجزانہ طور پر پہلے انسانوں کے ایک گروہ کو ایک نظریاتی قوم میں تبدیل کیا اور پھر اس نظریاتی قوم کے لیے ایک نظریاتی خطۂ ارض کا حصول کیا۔ ’ابراہیمی معاہدے‘ کی طرح کے معاہدے ان محسنانِ قوم کے ساتھ کھلی بے وفائی اور قوم کے ساتھ ایک ناقابلِ قبول کارروائی ہو گا۔
غزہ کے پُرعزم صاحبانِ ایمان نے جس طرح جانوں کی، مال کی، عزتوں کی قربانی دے کر پڑوسی مسلم ممالک کے گھناؤنے عزائم کو چکنا چور کیا ہے ، اس کو سامنے رکھتے ہوئے تحفظ پاکستان، نظریۂ پاکستان اور جہاد کشمیر کے لیے ایسے کسی بھی معاہدے کو پوری قوم کو پوری قوت سے ردّ کرنا ہوگا کیوں کہ اسی میں پاکستان کی فلاح ہے۔
۱- نوکر شاہی اور احساسِ کمتری پر مبنی ایک مقروض ،مفلوک الحال کی نفسیات سے نکل کر ایک باعزّت اور باوقار قوم کی نفسیات کو اپنانا ہوگا، جو صرف نظریۂ پاکستان کے احیا سے ممکن ہے ۔
۲- پاکستان کے پاس اتنے قدرتی اور انسانی وسائل موجود ہیں کہ وہ صرف ان کی ایماندارانہ تنظیم اور منصوبہ بندی سے نہ صرف قومی قرض سے بلکہ آیندہ دو سو سال کے لیے I2U2 کے تحت غلامی سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے ۔صرف قوم کو اعتماد میں لے کر جھوٹے اور گمراہ کن اعداد و شمار کی جگہ عوام کے نمایندوں کے ذریعے قومی تعمیرِ نو کرنا ہوگی جو قطعاً مشکل کام نہیں ہے۔
۳- پاکستان کو اپنی خوش فہمیوں سے نکل کر دوبارہ چین کے ساتھ معاملات کو سلجھانا ہوگا لیکن اس میں بھی طویل المیعاد قومی مفاد سامنے ہو۔ ایک نئی ’چینی ایسٹ انڈیا کمپنی‘کی صورتِ حال کی پیدا شدہ شکل بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔
۴- پاکستان صرف عقل کا استعمال کر کے افغانستان ، وسط ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعاون اور تعلقات کے ذریعے اپنے کھوئے ہوئے قائدانہ کردار کو حاصل کر سکتا ہے۔
۵- غزہ، فلسطین اور کشمیر پر عوام کو آگاہ کرنے اور ان کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور ضمیر کو جگانے کے لیے ہربڑے اور چھوٹے شہر میں جلسے ،جلوس اور سیمی نار منعقد کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری رکھنا ہوگا، تاکہ نہ صرف فلسطین بلکہ کشمیر کے مسئلے کو بھی نوجوانوں کے ذہن سے محو نہ ہونے دیا جائے۔
۶- عوامی اجتماعات میں تقاریر ، قراردادوں اور سرکاری حکام سے رابطوں کے ذریعے مسئلہ فلسطین کی امت مسلمہ کے لیے اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔ حکومت سے غزہ کے مظلوموں کی حمایت اور استعماری طاقتوں ، امریکا ، برطانیہ و دیگر سے سخت لب و لہجے میں اسرائیلی سفاکیت بند کروانے کے مطالبات کیے جائیں ۔ نیز ان ممالک کے گھناؤنے کردار کو جلسے، جلوسوں اور عوامی اجتماعات میں پوری جرأت سے آشکار کیا جائے۔
۷- برقی ابلاغ عامہ کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں پر مظالم کی داستان کو سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارموں کے ذریعے پوری دنیا کے عوام کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مظلوموں کے مسائل سے بھی دنیا کو آگاہ کرنا ہو گا ۔ کشمیر اور فلسطین کے مسئلہ کو صرف تحریک اسلامی ہی صحیح انداز میں پیش کر سکتی ہے۔
۸- دوسروں کی کاسہ لیسی کی جگہ ملک میں زراعت، پانی کی صحیح قدر، غیر ضروری پُرتعیش درآمدات پر پابندی،تجارت کی سہولتوں کی فراہمی ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتی ہے۔ اس کے لیے صرف تین سال کے لیے تعیش کی زندگی سے دُوری اختیار کرنی ہوگی، سادہ طرزِزندگی اور خودانحصاری کی راہ اپنانا ہوگی۔ تاہم، یہ تمام اقدامات اس وقت ہوسکتے ہیں جب ملک میں شفاف انتخابات ہوں اوروقت پر ہوں اور منتخب افراد کو بغیر کسی دباؤ اور دخل اندازی کے کام کا موقع دیا جائے۔ اس قوم میں غیر معمولی طور پر بہترین صلاحیتوں کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ بھی ہیں جو ملک کے باہر بڑے بڑے عالمی اداروں میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اگر انھیں اعتماد ہو کے منتخب نمایندے واقعی ملکی ترقی چاہتے ہیں تو وہ ہرقربانی دے کر ملک کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں گے، شرط صرف یہ ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں اور شفاف ہوں۔
وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۵۴(اٰل عمرٰن ۳:۵۴)اورانھوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا۔ اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے۔
اور تمھاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمھیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں ، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمھارا ہے، جب کہ وصیّت جو انھوں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو انھوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمھارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو ، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصّہ آٹھواں ہوگا ، بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیا جائے۔
اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) ﴾ بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے،جب کہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔(النساء۴:۱۲)
شوہر کو بیوی کی وراثت سے آدھا حصہ ملے گا اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو ،اگر اولاد ہو تو شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہوگا ۔اسی طرح بیوی کو شوہر کی جائیداد میں سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا اگر ان کی اولاد نہ ہو، اور اگر اولاد ہو تو بیوی کو شوہر کی جائیداد میں آٹھواں حصہ ملے گا ۔
اگر وہ عورت یامردجس کے والدین حیات نہ ہوں،اور اولاد بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو ’کلالہ‘ کہا جاتا ہے ۔اس کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گی ۔ایک بہن اور ایک بھائی ہو تو بھائی اور بہن دونوں کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا ۔بہن بھائی زیادہ ہو ں تو ترکےکے ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے ۔مردوں کا دوہرا اور عورتوں کا اکہرا حصہ ہوگا۔
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کن سزا ہے۔ (النساء۴:۱۳-۱۴)
خاندان کی اکائی کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو ہدایات دی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی حدود کہتے ہیں۔حدود کو تجاوز نہیں کرنا ہوتا ،بلکہ ان کے اندر رہنے میں ہی اللہ کی رضا اور اجر و انعامات کے وعدے بھی ہیں۔ اور یہ بھی فرما دیا،متصلًاکہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا ،حدود کو تجاوز کرے گا ،اللہ اس کو آگ میں ڈالے گا ،اور رُسوا کن عذاب مقدر ہو گا۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمھارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو ۔ اور نہ یہ حلال ہے کہ انھیں تنگ کر کے اُس مَہر کا کچھ حصّہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انھیں دے چکے ہو ۔ ہاں، اگر وہ کسی صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں (تو ضرور تمھیں تنگ کرنے کا حق ہے)۔ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۔ (النساء۴:۱۹)
’’اس سے مراد یہ ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان والے اس کی بیوہ کو میت کی میراث سمجھ کر اس کے ولی وارث نہ بن بیٹھیں ۔ عورت کا شوہر جب مر گیا تو وہ آزاد ہے ۔ عدت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کر لے‘‘ ۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص۳۳۴)
اگر عورت ناپسند ہو تو اس میں بھلائی سے مراد یہ ہے: ’’اگر عورت خوب صورت نہ ہو ، یا اس میں کوئی اور ایسا نقص ہو جس کی بنا پر وہ شوہر کو پسند نہ آئے ، تو یہ مناسب نہیں ہے کہ شوہر فوراً دل برداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائے ۔ حتی الامکان اسے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت خوب صورت نہیں ہوتی مگر اس میں بعض دوسری خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو ازدواجی زندگی میں حُسنِ صورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر اسے اپنی ان خوبیوں کے اظہار کا موقع ملے تو وہی شوہر جو ابتداً محض اس کی صورت کی خرابی سے دل برداشتہ ہو رہا تھا ، اس کے حُسنِ سیرت پر فریفتہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ازدواجی زندگی کی ابتدا میں عورت کی بعض باتیں شوہر کو ناگوار محسوس ہوتی ہیں اور وہ اس سے بد دل ہو جاتا ہے ، لیکن اگر وہ صبر سے کام لے اور عورت کے تمام امکانات کو بروئے کار آنے کا موقع دے ، تو اس پر خود ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی برائیوں سے بڑھ کر خوبیاں رکھتی ہے ۔ لہٰذا یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی ازدواجی تعلق کو منقطع کرنے میں جلد بازی سے کام لے ۔ طلاق بالکل آخری چارۂ کار ہے جس کو ناگزیر حالات ہی میں استعمال کرنا چاہیے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:ابغض الحلال الی اللہ الطلاق،’’ یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے ، مگر تمام جائز کاموں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند اگر کوئی چیز ہے تو وہ طلاق ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:تزوجوا ولا تطلقوا فان اللہ لا یحب الذواقین والذواقات،یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو ، کیونکہ اللہ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کا مزا چکھتے پھریں ‘‘۔(ایضاً، ص ۳۳۴-۳۳۵)
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ۔ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟ اور آخر تم اسے کس طرح لے لو گے، جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں؟ (النساء ۴:۲۰-۲۱)
یعنی پہلی بیوی کو جو مہر ،اور تحفہ تحا ئف دیے ہیں،ان میں سے کچھ واپس نہ لو۔ آخر تم جب اس کے ساتھ اَزدواجی تعلق رکھتے ہو تو یہ اموال کیوں کر واپس لو گے؟
اور جن عورتوں سے تمھارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا۔ درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ ہے اور بُرا چلن ہے۔(النساء۴:۲۲)
جا ہلیت کا ایک طریقہ سوتیلی ماں سے نکاح کا تھا ۔اسلام نے سختی کے ساتھ اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جرم ہے اور قابلِ دست اندازیِ پولیس ہے۔ حضوؐر کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے اس کو قتل کردو‘‘۔
تم پر حرام کی گئیں تمھاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمھاری دودھ شریک بہنیں، اور تمھاری بیویوں کی مائیں، اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں جنھوں نے تمھاری گودوں میں پرورش پائی ہے___ ان بیویوں کی لڑکیاں، جن سے تمھارا تعلق زن و شو ہو چکا ہو ۔ ورنہ اگر( ﴿صرف نکاح ہوا ہو) اور تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو (انھیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں) تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے___ اور تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھاری صُلب سے ہوں۔ اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ، مگر جو پہلے ہوگیا سو ہو گیا ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (النساء۴:۲۳)
ماں کا اطلاق سگی اور سوتیلی پر ہوتا ہے ،اور دونوں حرام ہیں۔ اسی طرح دادی اور نانی بھی حرام ہیں ۔اسی طرح بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی آتی ہیں۔ بہن، سگی،سو تیلی اور ماں شریک بہن اس حکم میں یکساں ہیں۔
رضائی رشتوں کی حرمت بھی نکاح کے معاملے میں سگے رشتوں کی طرح ہے۔ عورت کی پچھلے خاوند کی بیٹی بھی حرام ہے، اور اس کا حرام ہونا اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہے یا نہیں۔بلکہ اس پر تقریباً اجماعِ اُمت ہےکہ سوتیلی بیٹی آدمی پر حرام ہے،خواہ اس نے کہیں اور پرورش پائی ہو یا سوتیلے باپ کے گھر پر پرورش پائی ہو۔
اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محْصَنَات) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو (جنگ میں) تمھارے ہاتھ آئیں۔ یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے۔ ان کے ما سوا جتنی عورتیں ہیں انھیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمھارے لیے حلال کر دیا گیا ہے ، بشرطیکہ حصارِ نکاح میں ان کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو ۔ پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مَہر بطور فرض کے ادا کرو ، البتہ مَہر کی قرارداد ہوجانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمھارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اللہ علیم اور دانا ہے ۔ (النساء۴:۲۴)
’’جو عورتیں جنگ میں پکڑی ہو ئی آئیں اور ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجود ہوںوہ حرام نہیں ہیں، کیوں کہ دارالحرب سے دارالاسلام میں آنے کے بعد ان کے نکاح ٹوٹ گئے ۔ایسی عورتوں کےساتھ نکاح بھی کیا جاسکتا ہےاور جس کے ملک ِ یمین میں ہوں وہ ان سے تمتع بھی کر سکتا ہے....
لونڈیوں میں تمتع کے معاملے میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں، لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے:
۱- جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ،ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے،بلکہ اسلامی قانون یہ ہےکہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہےان کو رہا کردے، چاہے ان سے فدیہ لے ، چاہےان کا تبادلہ اُن مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں، اور چاہے تو انھیں سپاہیوں میں تقسیم کردے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کامجاز ہےجو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔
۲- جو عورت اس طرح کسی کی مِلک میں دی جائے ،اس کے ساتھ بھی اُسں وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہولے کہ وہ حاملہ نہیں ہے ۔اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے ۔
۳- جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں۔ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی ،تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں ۔
۴-جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی مِلک میں وہ عورت ہے ۔اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صُلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب ِاولاد ہوجانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہوجائے گی۔
۵- حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا، ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے ۔لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتاوہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع کرنے میں کراہت محسوس کرے۔
۶- جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اُس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی ۔لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کرلیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۴۰-۳۴۱)
غیرمنکوحہ عورت کے ساتھ بےتکلفی، گپ شپ، خلوت و جلوت میں ملاقاتیں جو شہوانی جذبات کو تحریک دینے والے اور آخر کار غلط کاری اور ناجائز تعلق پر منتج ہوں، اسلامی معاشرے کا چلن نہیں ہے۔ یہ حیا،دبی زبان سے بات نہ کرنے، تخلیہ میں غیر محرم کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کی تلقین کرنےوالا، عورتوں کے لباس اوراظہار زینت کے دائرے مقرر کرنے والا دین ہے۔ جس سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔نکاح ایک حفاظت یاحصا ر ہے،سرٹیفکیٹ نہیں ہے کہ ہرخاص وعام کے ساتھ بے تکلفانہ اور بے حجابانہ معاملے کی اجازت مل گئی۔ نکاح کرنے ،مہر ادا کرنے اور بیویوں کو نکاح کےحصار میں محفوظ کرنے کی تلقین ہے۔مرد اور عورت کو نکاح ،آزاد شہوت رانی اور گمراہی سے بچانے کے لیے ہے۔
اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت (طاقت) نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محْصَنَات) سے نکاح کر سکے اسے چاہیے کہ تمھاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمھارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں۔ اللہ تمھارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے ، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو، لہٰذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کر دو ،تاکہ وہ حصارِ نکاح میں محفوظ (محْصَنَات) ہو کر رہیں، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں ۔ پھر جب وہ حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اُس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (محصنَات) ﴾ کے لیے مقرر ہے ۔ یہ سہولت تم میں سے اُن لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بندِ تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو ۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے ، اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء۴:۲۵)
’’سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور اُن دوسرے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعت ِاسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہو سکتی ہے جو لونڈی کو دی جائے ؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں‘‘ ۔ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا ۔ اس رکوع میں لفظ ’محصنت‘ ( محفوظ عورتیں ) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ ایک ’شادی شدہ عورتیں‘ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو ۔ دوسرے ’خاندانی عورتیں‘ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو ، اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں ۔ آیت زیرِ بحث میں ’محصَنات‘ کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں ، جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے محصنات کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب انھیں نکاح کی حفاظت حاصل ہو جائے( فَاِذَآ اُحْصِنَّ ) تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ سزا ہے جو مذکور ہوئی ۔
اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ایک ، خاندان کی حفاظت ، جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی ’محصنہ‘ ہوتی ہے ۔ دوسری ، شوہر کی حفاظت ، جس کی وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈی جب تک لونڈی ہے ،’محصنہ‘@نہیں ہے ، کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں ہے ۔ البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری ، کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی مِلک میں وہ تھی ، اور نہ اسے معاشرت میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے ۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی ، وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہو گی ، نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے ۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ سورۂ نور کی دوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے ، وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے ، جن کے مقابلے میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف بیان کی گئی ہے ‘‘۔(ایضاً،ص ۳۴۲-۳۴۳)
جو لوگ شادی نہ کر سکنے کی وجہ سے صبر نہ کر سکتے ہوں، تقویٰ پر قائم نہ رہ سکتے ہو ں اُن کے لیے یہ سہولت دے دی گئی ہے ۔جو شخص اتنی طاقت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورت سے نکاح کرنے کے اخراجات اٹھا سکے وہ کسی کی لونڈی سے نکاح کرلے۔(جاری)
مروجہ ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے میں اشکالات پر بحث ایک لامتناہی سلسلہ ہے ۔جہاں ایک طرف اس نظام کا انکار کرنے والے سپریم کورٹ میں سود کو جاری و ساری رکھنے کے حق میں دلائل دیتے ہیں، تو دوسری جانب دین سے گہری وابستگی رکھنے والے بعض مخلص حضرات ’اسلامی بینکاری‘ کے اس متبادل نظام کے بارے میں جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، طرح طرح کے اشکالات پیدا کرتے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک مضمون ماہنامہ ترجمان القرآن میں جناب منیرمنصوری کا بعنوان ’مروجہ اسلامی بینکاری اور بنیادی سوال‘ (نومبر ۲۰۲۳ء) شائع ہوا۔
محترم مضمون نگار بڑے اخلاص کے ساتھ ایک ایسے ماڈل کی تمنا رکھتے ہیں جو کمال کی حد تک ان تمام خرابیوں سے پاک ہو اور روایتی سودی بینکاری کا ۱۰۰فی صد متبادل ہو۔ وہ بجاطورپر ’اسلامی بینکاری‘ کی کم عمری (تقریباً ۴۰ سال) کسی بھی مضبوط ریاستی و اداراتی اور حکومتی حمایت و سرپرستی کی غیر موجودگی اور اہلِ اختیار کی سود کے وبال سے لاعلمی و جہالت اور مغربی نظام سے مرعوبیت، معاشرے کے عمومی اخلاقی زوال کو ’اسلامی بینکاری‘ کی راہ میں رکاوٹ مانتے ہیں۔ مگر اپنے اسی مضمون میں ’شریعہ انجینیرنگ‘ یا ’حیلہ سازی‘ کی اصطلاح بھی متعارف کراتے ہوئے ’اسلامی بینکاری‘ کے مروجہ طریق کار کو مشکوک بھی قرار دیتے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں ضروری ہو جاتا ہے کہ اسلامی معیشت کے اہم عضو (organ) '’اسلامی بینکاری‘ کے طریق کار اور اس کی مختلف پراڈکٹس کے تعارف کو قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔ساتھ ہی ساتھ ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے میں اٹھنے والے اشکالات پر کچھ معروضات پیش کی جائیں۔
اسلام نے سود کو حرام قرار دیا اورامت کا بحیثیت مجموعی اس پر اتفاق ہے۔اسلام نے جہاں معیشت کے اصول و ضوابط واضح کیے ہیں، وہیں تجارت کی مختلف رائج صورتوں کی تشریح علم حدیث کے ذریعے کردی گئی ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کاروبار کی نوعیت کے پیش نظر کاروباری طریق کار بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں عام رائج شدہ قوانینِ معیشت سے متعلق ہر آنے والے وقت میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کا نقد (cash) کے بدلے فوری تبادلہ اب کئی صورتوں میں ناممکن ہے۔ یوکرائن یا آسٹریلیا سے گندم منگوانے کے لیے بینک کے ذریعے لیٹر آف کریڈٹ کی ضرورت پڑے گی، اسی طرح کے بہت سارے دوسرے معاملات میں بینکوں کے توسط سے ہی تجارتی معاملات طے پاسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اس حقیقت پر سب کا اتفاق ہے کہ ۱۹۷۵ء سے پہلے کسی اسلامی بینک کا کوئی وجود نہیں تھااور کوئی ایسا ماڈل بھی نہیں تھا کہ جس کی طرز پر نئے بینک کا اجراء ہوتا۔ ’دوبئی اسلامک‘ کی بنیاد رکھی گئی تو لا محالہ مروجہ بینکنگ نظام کو سامنے رکھتےہوئے، اس میں اسلامی اصولوں کے مطابق تبدیلیاں کرکے ہی کام کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا، اورسٹاف بھی دوسرے بینکوں سے لینا ایک مجبوری تھی۔ البتہ ۱۹۷۵ء سے اب تک قائم کیے گئے اسلامی بینکوں کے طریق کار میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ہر بینک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے کھاتہ داروں (customers) کو دوسرے بینکوں سے بہتر سہولیات اور سروسز مہیا کرے۔اسلامی بینکوں کے پرا ڈکٹس اور سروسز میں بھی وقت کے ساتھ جدت آئی ہے۔
سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بننے والا لفظ شرح(فی صد) منافع ہے۔ حالانکہ عام زندگی میں کسی بھی کاروبار کی منافعت یا نفع کو بیان کرنے کے لیے شرح(فی صد) ہی میں بات کی جاتی ہے۔جس طرح کہ تعمیراتی کاروبار میں شرح منافع( Profit Margin) ۱۰ فی صد یا جائیداد میں ۳۰ فی صد ہے۔ جب بات اسلامک بینک کی ہو تو ’مرابحہ‘ کے تحت گاڑیوں،جائیداد،مشینری کی قیمت میں اضافہ مثال کے طور ۱۰ فی صد یا جو بھی ہو ( جو ادھار فروخت کرنے پر جائز ہے)، اُسے فوراً سود کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جیسے بازار میں گاڑی نقد ۲۰ لاکھ اور ادھار ۲۲ لاکھ میں فروخت ہو تو جائز سمجھا جاتا ہے، مگر جب یہی کام اسلامی بینک کرے تو یہ اضافہ سود۔ شرح منافع کا تعین،دراصل بازار میں رائج تجارتی سرگرمیوں کے باعث ہوتا ہے، جن پر اسلامی یا غیراسلامی بینک کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ بین الاقوامی بازار میں لندن جس کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کا LIBOR اور یہاں پاکستان میں KIBOR کو Bench Mark کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہرملک کی معیشت اور اس سے ملحق دوسرے معاشی اشارئیے اس ملک میں سرمایہ کاری کے لیے شرح منافع کا تعین کرتے ہیں۔
اسلامی بینک، نفع و نقصان کی بنیاد پر سرمایہ لیتے اور اس سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔بینکنگ کا نظام کافی ترقی کر چکا ہے ۔ان کی بہتر کارکردگی کی بنیاد پر عموماً نقصانات کا اندیشہ بالکل ختم نہیں تو کم ضرور ہوتا جا رہا ہے۔ بینک ہمیشہ ہی منافع کیوں دیتے ہیں؟ یہ ایک غیرمنطقی سوال ہے۔ ایک اور یہ توجیہہ کہ اسلامی بینکوں کو کبھی نقصان نہیں ہوتا، یہ تاثر بھی غلط فہمی کی بنا پر ہے۔ کوئی بھی بینک اسلامی ہو یا غیر اسلامی اس کے کھاتے اٹھا کر دیکھیں۔ کتنی رقوم Bad Debit (حالیہ یا مستقبل) کے لیے سالانہ بنیادوں پر منافع سے منہا کرکے ریزرو (محفوظ)کے طور پر رکھی جاتی ہیں ۔اسلامی بینک جو مختلف اسلامی پراڈکٹس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، ہمیشہ ساری رقوم واپس نہیں ہوا کرتیں۔
ایک اور غلط فہمی اسلامی بینکوں کی طرف سے مشارکہ میں سرمایہ کاری کا نہ ہونا ہے۔ ’مشارکہ‘ ’اسلامی بینکاری‘ کا اہم ستون ہے، اس میں سرمایہ کاری بہت ضروری ہے ۔اس وقت اسلامی بینک، اسٹیٹ بینک کے اسلامی بینکوں کے لیے مقرر کردہ قواعد و ضوابط جو بینکنگ آرڈینیس کے تحت بنائے گئے ہیں کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔
اسلامی بینک جن پراڈکٹس (مرابحہ، مشارکہ، مضاربہ،بیع سلم،اجارہ و وکالہ وغیرہ ) کے ذریعے سرمایہ فراہم کرتے ہیں، ان کے بارے ہمارے تجارتی قوانین ( Commercial Law) میں کوئی قانونی تحفظ نہیں (فاضل مضمون نگار نے خود اس بات کی شہادت دی ہے)۔ سرمایہ کاری کے بارے قانونی تحفظ کی عدم موجودگی میں اسلامی بینک عموماً ’مشارکہ‘ میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ’مشارکہ‘ میں بالکل ہی سرمایہ کاری نہ کی جائے۔ تجرباتی طور پر تو انھیں ابتدا کرنی چاہیے۔
ایک اور اہم بات ’حیلہ سازی‘ ہے،جسے صاحب ِمضمون نے ’شریعہ انجینیرنگ‘کے الفاظ سے منسوب کیا ہے۔ جیسا کہ سطور بالا میں واضح کیا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ تجارتی معاملات میں بہت سی تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں۔آج کے دور میں تجارتی معاملات کا قرون اولیٰ تو دُور کی بات ہے، پچاس سال پہلے رائج طریق کار کے ساتھ موازنہ بھی قرین قیاس نہیں ہوگا۔دو افراد کے بیچ خرید و فروخت کے معاہدے جو مقامی سکّے کے عوض انجام پاتے تھے، اب گاؤں سے شہر، شہر سے ملکی منڈی اور دنیا کے بیسیوں ممالک کے آپس میں تجارت، مختلف کرنسیوں (جس کی قیمت کا اُتار چڑھاؤ ایک علیحدہ تجارت بن چکا ہے) میں ہوتی ہے۔
ایسی صورتِ حال میں لامحالہ رائج تجارتی سر گرمیوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ہی اسلامی پراڈکٹس کو متعارف کرایا جائے گا۔اور مرابحہ، مشارکہ،مضاربہ اور دوسری پراڈکٹس میں منافع کو اس طرح شامل کرنا کہ تمام تجارتی معاہدے، شر عی حدود کے اندر اور اسلامی قوانین کی روشنی میں کیے جائیں ۔اس طرح کے اقدامات جو موجودہ دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کی خاطر باقاعدہ ایک شریعہ بورڈ کی نگرانی میں طے ہوں، اُن کو ’شریعہ انجینیرنگ‘ کے ذریعے سودی نظام کو دوام دینے کا نام کہنا زیادتی تصور ہوگی۔ ’اسلامی بینکاری‘ میں رائج تمام پراڈکٹس حقیقی تجارتی سرگرمیوں کا ذریعہ بنتی ہیں، سوائے ’تورّق‘ (Tawaraq) کے۔ اسلامی بینک نقد سرمایہ مہیا کرنے کی خاطر، جو کسی بھی کاروبار کو ابتدا میں آپریٹنگ حالت میں لانے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے ،’تورّق‘ کا ذریعہ اختیار کرتا ہے، جس بارے تحفظات موجود ہیں اور ابھی تک اس کا کوئی متبادل نہیں لایا جاسکا۔
ان معروضات کے بعد اب ان اشکالات کا مختصر جائزہ جو محترم مضمون نگار کی تحریر میں اُٹھائے گئے ہیں۔تحریر کا مرکزی نکتہ تو ’اسلامی بینکاری‘ میں رائج پراڈکٹس کے ذریعے کمایا جانے والا ہر منافع (بقول صاحب ِمضمون) اصل میں ’سود‘ ہی ہے۔اس کا جواب ضمنی طور پر تحریر میں دیا گیا ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً پراڈکٹس کے بارے علیحدہ علیحدہ کچھ وضاحت ہو جائے:
۱- ’مرابحہ‘/ ’مساومہ‘: ’اسلامی بینکاری‘ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی پراڈکٹس ہیں۔ چونکہ اسلامی بینک ذاتی ضروریات ہوں یا کاروباری مقاصد، قرض بطور نقد نہیں دے سکتے۔ اجناس ہوں یا مشینری اور گاڑیاں، زمین یا کوئی دوسری اشیا کاروباری مقاصد کے لیے ہوں یا ذاتی ضروریات کے لیے، ان کے حصول کے لیے بینک سے معاونت درکار ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ان اشیا کو بینک پہلے نقد پر خریدتا ہے۔ قبضے میں لینے کے بعد انھیں اُدھار میں فروخت کرتا ہے۔ طے شدہ قیمت فروخت ( قیمت خرید + بینک کا منافع) کا تعین ہوتا ہے ۔قیمت فروخت یک مشت یا اقساط میں ادا ہوسکتی ہے۔ایک بار قیمت مقرر ہونے کے بعد اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک تجارت ہے جہاں اجناس یا پراپرٹی ایک فرد کی ملکیت سے دوسرے کو منتقل ہوتی ہے۔ شرعاً اُدھار کی قیمت میں اضافہ ناجائز نہیں ہے۔اس طرح سے حاصل کیا گیا منافع سود کے زمرے میں نہیں آتا۔
۲-’مضاربہ‘ :اسلامی بینکوں میں بطور سرمایہ کاری جمع شدہ رقوم ( بچت اور طویل مدتی کھاتے) مضاربہ کے تحت جمع ہوتے ہیں ۔بینک اور کھاتہ دار کے درمیان منافع کی تقسیم طے شدہ معاہدے کے مطابق ہوتی ہے۔ بچت کھاتے داروں (Saving) اور طویل مدتی (Time deposits) کے لیے شرح مختلف ہوتی ہے۔ بینک ماہانہ،سہ ماہی،ششماہی یا جو بھی صورتِ حال ہو، منافع تقسیم کرتے ہیں۔ ہر بینک کی پالیسی دوسرے بینک سے مختلف ہو سکتی ہے۔منافع کی شرح بھی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اگر کسی بینک نے معاہدے کے وقت بتائے اندازاً منافع مثلاً ۱۰ فی صد ہی کے مطابق اصل منافع یعنی ۱۰ فی صد ہی دے دیا، تو اس پر سود کا اطلاق کیسے ہو گیا؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس سال تجارتی سرگرمیاں اور مجموعی معاشی حالات ایک جیسے ہوں۔ عموماً بینک کی شرح منافع تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔
۳- ’اجارہ‘ (Leasing ): اجارہ گاڑیوں کا ہو یا گھر و مشینری کا، یہ بینک کی ملکیت ہوتی ہیں اوراس کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔عموماً اس طرح کے معاہدات، مقررہ مدت کے لیے ہوتے ہیں۔ اور جب بینک متعلقہ جنس کی قیمت کرایہ سمیت وصول کر لیتا ہے، تو اس کی ملکیت ایک معمولی رقم کے عوض کرایہ دار کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ اور اس کے لیے شروع ہی میں ایک علیحدہ معاہدہ ہوتا ہے۔ جو پہلے معاہدے (اجارہ) کی تکمیل کے لیے تصور کیا جاتا ہے۔ مضمون نگار کا اس پر اعتراض (بیعین) وزن رکھتا ہے۔ یہ ایک فقہی معاملہ ہے، جس پر اختلاف رائے موجود ہے۔البتہ یہ تصور کرلینا کہ ساری گاڑیاں ’اجارہ‘ پر ہی دی جاتی ہیں، درست نہیں۔ بہت سی گاڑیاں ’مرابحہ‘ کے تحت بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ ان پر بیعین کا اصول لاگو نہیں ہوگا۔
۴-’بیع السلم‘ اور ’استصناع‘ کے معاملات میں بھی تمام معاہدات شریعہ ضوابط کے تحت کیے جاتے ہیں، اور بینک کی سرمایہ کاری تجارتی سرگرمی سے متعلق ہوتی ہے۔ان سے حاصل منافع بھی شرعی قواعد کے تحت انجام پائے جانے والی تجارت کے تحت ہی وصول ہوتا ہے۔
۵- ’وکالہ الا ستثمار‘: ’وکالہ الا استثمار‘( ایک متعین اُجرت والا معاہدہ) کے بارے بھی ایک شبہہ ظاہر کیا گیا ہے ۔اس طرح کے معاہدے میں بینک صرف اُجرت کا حق دار ہوتاہے اور نفع و نقصان کا ذمہ دار موکل ہوتا ہے۔ جس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ موکل کو متوقع منافع یقینی بنانے کے لیے بینک اپنی اجرت میں کمی کر دیتا ہے۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی بینک اپنے حق (اُجرت) سے کم لے رہا ہے تو کیا یہ کوئی جرم ہوگا؟ بینک اپنی مرضی سے اپنی فیس / اُجرت میں یک طرفہ طور پر کمی کر رہا ہے، جسے مارکیٹنگ کا ایک عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
دوم یہ کہ بینک جس مخصوص کاروبار میں ایک مخصوص ٹرانزیکشن ( Transaction) میں موکل کا سرمایہ لگا رہا ہے، اس میں منافع کا یقینی ہونا نہ تو خلاف شرع اور نہ تجارتی اصول ہی کے خلاف ہو گا۔ مثال کے طور پر بینک کسی ٹرانسپورٹ کمپنی کو بڑی تعداد میں ’مرابحہ‘ کے تحت گاڑیاں فروخت کرتا ہے اور اس ٹرانزیکشن میں بینک کو اپنے حقیقی منافع کا علم ہے، تو اس ٹرانزیکشن کے لیے ’وکالہ الاستثمار‘ کے تحت موکل سے سرمایہ لے کر اسے منافع کا ایک حصہ دینا ( fixed ہی کیوں نہ ہو) ناجائز نہیں ہوگا۔
۶-’کماڈٹی مرابحہ‘: بینک اسلامی ہو یا مروجہ ( سودی) (Conventional) کے لیے اپنے کل ڈیپازٹس کا ایک خاص حصہ فوری ضروریات کے لیے رکھنا ناگزیر ہوتا ہے۔ مروجہ (سودی بینک ) اپنی فوری ضروریات کے لیے دوسروں بینکوں کے ساتھ مختصر مدت جو یومیہ، ہفتہ یا مہینہ یا زیادہ ہو سکتی ہے، میں یہ رقم رکھ کر سود کما لیتے ہیں۔ تاہم، اسلامی بینکوں کے لیے کماڈٹی (Commodity) ’مرابحہ‘ کے ذریعے سرمایہ کاری اس ناگزیر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے شریعہ اسکالرز کی طرف سے واحد عارضی اجازت نامہ ہے۔ اس کا متبادل تلاش ہونا چاہیے ۔ شریعہ کا اس پر اصرار نہیں ہے، لیکن تکنیکی طور پر بے شمار مشکلات ہیں۔ مروجہ ’کماڈٹی مرابحہ‘ میں اسلامی بینک ایک وکیل مقرر کرتا ہے، جو اس کی طرف سے ایک خاص رقم کے لیے فوری کیش کے بدلے ’الف‘ سے کماڈٹی خریدتا ہے اور اس کو منافع شامل کرکے اُدھار پر ’ب‘ کو فروخت کرتا ہے۔بلاشبہہ یہ حیلہ ہے، لیکن یہ ایک عارضی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہے نہ کہ مستقل حل۔ بصورت دیگر اسلامی بینک کا اربوں کا سرمایہ مرکزی بینک یا کسی اور جگہ بغیر استعمال پڑا ہوگا، جو بہت بڑا نقصان ہو گا۔
یہ بات درست ہے کہ اسلامی بینکوں نے اس کو آسان حل سمجھ رکھا ہے۔اس کے متبادل کے لیے غور و خوض کی ضرورت ہے۔ پھر یہ بات کہنا کہ اسلامی بینک، سودی بینکوں کو سرمایہ مہیا کرتا ہے، ایک خلافِ حقیقت مفروضہ ہے۔ آج کی دنیا میں غیر اسلامی بینکوں کے ساتھ معاملات نا گزیر ہیں۔ اگر یہ معاملات ہماری شرائط (شریعہ کے قواعد و ضوابط) کے تحت ہوں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔تاہم، اگر اُن کی شرائط پر ہوں تو یقینا غلط عمل ہوگا( شراب مسلمان سے بھی خریدنا حرام ہے، مگر کسی بھی غیر مسلم سے کسی حلال چیز کا خریدنا یا فروخت کرنا حلال ہے)۔
الحمد للہ، اسلامی بینکوں کی تعداد میں اضافے اور صکوک کے اجراء کے بعد اس ضرورت کو پورا کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اب تو کئی مغربی ممالک تک نے بھی ان صکوک کا اجراء شروع کر دیا ہے۔ ۱۹۷۵ء سے اب تک سیکڑوں اسلامی بینکوں کا قائم ہونا،دنیا میں ’اسلامی بینکاری‘ کو ایک متبادل کے طور ماننا،ہزاروں افراد کا ’اسلامی بینکاری‘ نظام کا حصہ بننا اور اسی طرح کے دوسرے مرحلہ وار اقدامات، حقیقی اسلامی معیشت کے قیام کی طرف پیش قدمی ہے۔
اسلامی بینکوں کا نظام مثالی نہ سہی، اصل مقصد کی طرف ایک سفر ہے۔ ان میں موجود خامیوں کی محض نشاندہی ضروری نہیں بلکہ ان کے حل کی تجاویز ایک بہترین عمل ہوگا۔بینک، اسلامی نظامِ معیشت کا ایک اہم جز ہے اور اس کے فوائد کسی انسانی معاشرے تک پہنچانے کے لیے مجموعی ماحول کی تبدیلی کے لیے وقت درکار ہے۔ایک بڑی رکاوٹ عوام میں اس کے بارے عدم آگاہی ہے، جس کے ذمہ دار اسلامی بینک بھی ہیں۔اس وقت ملک کی کئی یونی ورسٹیوں میں ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے ڈگری پروگرام شروع ہو چکے ہیں جو ایک اہم پیش رفت ہے۔ ایجادات ہوں یا نئے اداروں کا قیام، ترقی کی منازل کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس راہ میں بے شمار مشکلات حائل ہیں، جن کے حل کے لیے حکومتی اداروں، ’اسلامی بینکاری‘کے شعبہ سے منسلک ذمہ داروں، شریعہ اسکالروں اور قانون ساز اداروں سمیت سب کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔
۱- شریعہ اسکالرز کا بنیادی علم اسلامی فقہ اور تجارت کے بارے احادیث پر مبنی ہوتا ہے۔ بیش تر شریعہ اسکالرز موجودہ بینکنگ کے تفصیلی تکنیکی علم اور ان بینکوں کے آپریشنل (operational) طریق کار سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے۔بینکوں کے بعض ذمہ داران، ان کے سامنے ایسی تمام تکنیکی معلومات مہیا بھی نہیں کرتے، جس سے کئی خرابیاں جنم لے سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شریعہ بوررڈ میں ایک بینکر ضرور شامل ہو، تاکہ آپریشنل معاملات میں ان کی مدد کر سکے۔
۲- بینکاروں کی اسلامی نظم معیشت کے تحت پیشہ ورانہ تربیت کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔بعض اوقات اسلامی بینک میں کام کرنے والے اپنی لاعلمی کی بنیاد پر اپنے موکل یا عام عوام کی صحیح رہنمائی نہیں کر پاتے اور یوں اسلامی بینکوں کے بارے غلط معلومات کی وجہ سے کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔
۳- اسلامی بینکوں کے کرتا دھرتا اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے شریعہ اسکالرز کے ساتھ مل کر کمرشل لا میں تبدیلی کے لیے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے تعاون سے ’اسلامی بینکاری‘ کے لیے ضروری قانون سازی کروائیں،تاکہ سرمایہ کاری کرنے والے بینکوں کے سرمایہ کو قانونی تحفظ بھی مہیا ہو ۔جس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ’مشارکہ‘ میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔
۴- قومی نصابِ تعلیم میں اسلامی معیشت کے خدوخال اور ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے مختلف درجوں کے لیے اسباق شامل کیے جائیں۔
_______________
’اسلامی بینکاری‘ پر دوسرے نقطۂ نظر کو جاننے کے لیے دیکھیے: ’’پاکستان میں ’اسلامی بینکاری‘ کی حقیقت؟‘‘ از ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، جون ۲۰۲۲ء، ص۴۷-۵۴ (ادارہ)
دنیا کی تاریخ میں سودکے خلاف جنگ یقینا اتنی ہی پرانی ہے، جتنا خود سود کا مکروہ دھندہ! لیکن بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس پرانی اور تاریخی جنگ میں پلڑا سود کا ہی بھاری نظر آتا ہے۔ دنیا کا ہر مذہب سود کے خلاف ہے اور ہرمذہب کے ماننے والے سود کھا اور کھلا رہے ہیں۔
ربّ کا آخری فرمان قرآن کریم سود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے اور قرآن کو ماننے والے ’مسلمان‘ اپنی تباہی کی یہ جنگ جاری رکھےہوئے ہیں:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۲۷۸ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۰ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۰ۚ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۲۷۹(البقرہ ۲: ۲۷۸-۲۷۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
سود کے بارے میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکامات موجود ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، گواہوں اور لکھنے والے پر لعنت فرمائی ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنَ الصَّبَّاحِ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَـانُ بْنُ اَبِي شَيْبَةَ ، قَالُوا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، اَخْبَرَنَا اَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن اکل الربا ومؤکلہ، حدیث: ۳۰۸۰)
ان واضح احکامات کے باوجود مسلم معاشروں میں نہ صرف سود رائج اور عام ہے، بلکہ اس کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ آیئے ’اسلامی‘ جمہوریہ پاکستان میں سود کے خلاف جدوجہد کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
مصور پاکستان علامہ اقبال نے سود کو ’لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات‘ قرار دیا ہے۔
ملک کے مرکزی بنک کے افتتاح کےموقع پر کی گئی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔپاکستان ملک میں سود سے پاک اسلامی معاشی نظام چاہتے تھے۔ انھوں نے اس کے لیے ملک کے مرکزی بنک کو عملی اقدامات کا حکم بھی دیا تھا۔قائد کی ان ہدایات کو جاری ہوئے ۷۵سال ہوگئے!
اس کے بعد ۱۹۷۳ء میں بننے والا پاکستان کا آئین سود کے جلد از جلد خاتمے کو حکومت کی آئینی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ اس آئین کو بنے ہوئے نصف صدی بیت گئی۔
حکومتِ وقت کی درخواست پر ملک کے آئینی ادارے ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ نے ملکی معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے ایک قابل عمل تفصیلی رپورٹ جون ۱۹۸۰ء میں پیش کی۔ جس میں سود کی جامع تعریف کے بعد معیشت کے تمام شعبوں سے سود سے نجات کے لیے ایک قابلِ عمل متبادل نظام دیا گیا۔اس بات کو چالیس سال ہوگئے!
وفاقی شرعی عدالت نے مرحوم جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمان کی سربراہی میں اس وقت رائج بلاسود بنکاری اور سود کے خلاف اپنا پہلا فیصلہ ۱۹۹۱ء میں جاری کیا۔ اس فیصلے میں سود کے خاتمے اور حقیقی اسلامی بنکاری نظام کے نفاذ کے لیے حکومت کو چھ ماہ کا وقت دیا گیا۔شریعت کورٹ کے فیصلے کو آج لگ بھگ بتیس سال ہوگئے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۹۱ء کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے سود کے خلاف تاریخ ساز فیصلہ ۱۹۹۹ء میں سنایا اور حکومت کو ۲۰۰۱ء تک سارے بنکاری ومالیاتی نظام کی اسلامی تشکیل مکمل کرنے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی لگ بھگ ۲۳ سال گزر گئے۔
وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹ سال پرانی اپیلوں پر سود کے خلاف اپنا دوسرا اور اب تک کا آخری فیصلہ اپریل ۲۰۲۲ء میں سنایا اورسودی نظام ختم کرنے کے لیے حکومت کو مجموعی طور پر پانچ سال دیئے۔اس فیصلے کو آئے ہوئے اب ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا۔
آئین کی دفعات اور عدالتی فیصلوں کے علاوہ گذشتہ تیس چالیس سال کے دوران اسلامی بنکاری ومالیاتی نظام کے نفاذ کے لیے سفارشات تیار کرنے کے لیے سرکاری سطح پر مختلف اوقات میں متعدد کمیشن بھی بنائےگئے۔
ان میں سے قابل ذکر راجا ظفرالحق کمیشن اور اسٹیٹ بنک کے اس وقت کے گورنر کی سربراہی میں بننے والے حنفی کمیشن اور ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والا ٹرانسفارمیشن کمیشن تین اہم ترین کمیشن تھے۔ان کمیشنز کی بہت محنت سے تیار کی گئی بہترین رپورٹس شاید اسٹیٹ بنک کے سرد خانے میں کہیں پڑی ہوں گی۔
قصۂ مختصر ان تمام کاوشوں کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ سود آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معیشت کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ مگر حکمران اور مرکزی بنک کے ذمہ داران سود کے خاتمے کے بجائے سودی نظام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ ایک شرمناک اور تلخ حقیقت ہے کہ ملک پر حکمرانی چاہے کسی نام نہاد سیاسی پارٹی کی ہو یا کسی فوجی ڈکٹیٹر کی، سود کے معاملے میں ان سب کی سوچ، عمل اور پالیسی ایک ہی چلی آرہی ہے کہ سود کے نظام کو ہر حال میں جاری رکھناہے۔ البتہ لوگوں کے منہ بند کرنے کے لیے ’اسلامی بنکاری‘ جیسے کچھ نمایشی کام کرلیے جاتے ہیں۔
ذرا غور کیجیے کہ بانی ٔپاکستان سود کے خلاف، سود کے خاتمے کے بارے آئینی دفعات موجود، عدالتوں کے واضح فیصلے اور کمیشنز کی قابل عمل سفارشات موجود! پھر بھی ملک کی معیشت روز بروز سود کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے___ آخر حل کیا ہے؟
سود سے نجات کے سلسلے میں دو ٹوک بات تو یہی ہے کہ قوت نافذہ کے بغیر سود سے نجات ممکن نہیں۔ جب تک ملک کا مجموعی نظام ربّ کے احکامات کا تابع نہیں ہوجاتا، سود کا متبادل معاشی مالیاتی نظام نافذ نہیں ہوسکے گا۔ اس کے لیےضروری ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نام کی نہیں، کردار کی اسلامی اور جمہوری ریاست بنے۔ اس کے حکمران وہ لوگ ہوں جو سود کی معاشی تباہ کاریوں سے کماحقہٗ واقف ہوں، اس کو ختم کرنے کا عزم بھی رکھتے ہوں اور متبادل اسلامی معاشی نظام کو نافذ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔
کوئی ایسی حکومت جو معاشی اور سیاسی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو، جس کی سوچ آزاد نہ ہو، جس کا قرآنی احکامات وتعلیمات اور سود کا تصور واضح نہ ہو اور جس کا عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار غلامی کی حد تک ہو، وہ سودی نظام کے خاتمے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
وفاقی شرعی عدالت کا حالیہ فیصلہ امید کی ایک تازہ کرن بنا ہے۔ عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کے خلاف درخواستوں پر ۱۹سال بعد اپریل ۲۰۲۲ء کو فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر شرعی قرار دے دیا اور حکومت کو حکم دیا کہ دسمبر۲۰۲۷ء تک ملک کے پورے معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے۔
اس فیصلے کے نفاذ کی اولین ذمہ داری اختیارات کا مرکز ہونے کے ناتے حکومت کی ہے۔ مرکزی بنک بنکاری نظام کا محافظ اور منتظم ہے۔ اس اعتبار سےنفاذ کی ذمہ داری دوسرے نمبر پر ملک کے مرکزی بنک (اسٹیٹ بنک آف پاکستان) کی ہے۔
تیسرے نمبر پر تجارتی بنکوں کے ذمہ داران ہیں جو اپنے صارفین کو سود کے وبال سے نکالنےکے ذمہ دار ہیں۔
حکومتی سطح پر دیئے گئے عرصے میں فیصلے پرعمل درآمد کے لیے کیا منصوبہ بندی اور اقدامات کیے جارہے ہیں، بظاہر کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ ماضی یہی بتاتا ہے کہ حکومت کسی جمہوری آمر کی ہو یا فوجی جرنیل کی ربّ کائنات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ ختم کرنے کا ان کا کوئی ارادہ ہے اور نہ کوئی منصوبہ۔
فیصلہ آنے کے بعد عمل درآمد کی تیاری اور منصوبہ بندی کے بجائے اس فیصلے کے خلاف حسب روایت اپیلوں کا معاملہ شروع ہوا۔ وفاقی شرعی عدالت نے ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو ’ربا‘ کے خلاف فیصلہ دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مرکزی بنک غالباً وہ پہلا ادارہ تھا، جس نے اس فیصلہ کو نہایت مستعدی سے مئی ۲۰۲۲ء میں عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا۔
اصولاً تو اس فیصلے کی مخالفت کے بجائے اس کے نفاذ کے لیے مرکزی بنک ہونے کے ناتے اسٹیٹ بنک کو مثبت مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ ۲۰۰۳ءمیں اسی مرکزی بنک نے اسلامی بنکاری کی ترویج اور ترقی کے لیے پالیسیاں جاری کی تھیں۔
اسلامی بنکاری کو فروغ دینے کے لیے بنک میں ایک اسلامی بنکاری شعبہ بھی بنایا گیا ہے۔ مرکزی بنک اور بنکوں کے معاملات میں شریعہ کے امور کی نگرانی ورہنمائی کے لیے اسٹیٹ بنک میں ماہرین شریعہ، بنکر، چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک شریعہ بورڈ (جسے اب شریعہ کمیٹی کہا جاتا ہے) بھی تشکیل دیا گیا۔ اس بورڈ کے پہلے سربراہ ایک بڑی علمی شخصیت اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی تھے۔ مرکزی بنک کی اسی پالیسی کے تحت شریعہ کے امور کی نگرانی اور بنکوں کے مالی معاملات اور ان کی خدمات و پراڈکٹس میں شریعہ کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے اسلامی بنکوں اور سودی بنکوں کی اسلامی بنکاری ڈویژنوں میں بھی شریعہ کے ماہرین پر مشتمل شریعہ بورڈز بھی موجود ہیں۔
شرعی عدالت کے فیصلے کو جاری ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال بیت گیا۔ اس عرصے میں فیصلے کے عملی نفاذ کے لیے مرکزی بنک کے شعبہ اسلامی بنکاری نے کیا کوششیں کیں، کیا روڈ میپ یا منصوبہ سازی کی ہے؟ کسی کو کچھ پتا نہیں! شعبہ اسلامی بنکاری کے ذمے داران میں تو شاید کوئی عالم یا شریعہ کا ماہر موجود نہ ہو لیکن بنک کا شریعہ بورڈ تو ہے ہی علما پر مشتمل شریعہ کا محافظ (Custodian of Sharia)۔ شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بنک کی اپیل پر Custodian of Sharia نے کیا ردعمل دیا؟ کچھ علم نہیں۔ آیا رد عمل دیا بھی یا نہیں، اس کا بھی کوئی پتا نہیں! اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں بنکوں کے شریعہ بورڈز یا ان بورڈز کے اندر موجود مشیران شریعہ(الا ماشاءاللہ) کی طرف سے کسی واضح ردعمل یا تجویز کا بھی کہیں پتا نہیں چلتا۔ یہاں بھی مکمل خاموشی ہے۔ یعنی شریعہ کے محافظ تین اداروں، اسٹیٹ بنک کے شعبہ اسلامی بنکاری، اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ اور بنکوں کے شریعہ بورڈز کی طرف سے تقریباً خاموشی نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی اور زیادہ ذمہ داری مرکزی بنک کے شریعہ بورڈ کی بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سود کے خاتمے کی جو طاقت اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ بس ادراک کی ضرورت ہے۔
کیا علمائے کرام کی ذمہ داری صرف پیش کردہ بنکاری معاملات، پراڈکٹس اور خدمات کے جائزے اور فتوے تک محدود ہے یا قرآنی حکم کے عملی پہلو یعنی سود کے خاتمے کے لیے بھی انھیں کوئی کردار ادا کرنا ہے؟
سود کے انسداد کے خواہاں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ:
۱- آیا مرکزی بنک کے شعبہ اسلامی بنکاری نے شرعی عدالت کے فیصلے پر مقررہ مدت کے اندر عمل درآمد کے لیے کوئی لائحہ عمل تیارکیا ہے؟ اگر کیا ہے تو اس کی کوئی خیر خبر اور اس پر اب تک کی پیش رفت!
۲- کیا مرکزی بنک اور ملک کے تمام بنکوں کے معاملات میں شرعی اصولوں کے تحفظ کے مرکزی ذمہ دار کے طور پر اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ نے مرکزی بنک سے عدالت کے فیصلے پر عمل درآمدکا کوئی لائحہ عمل مانگا/ یا ایسا کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے کہا ہے؟
۳- کیا مرکزی بنک سے سودی بنکاری کے خاتمے کے لیے شریعہ بورڈ نے بنک سے سودی بنکاری برانچز کے لائسنس روکنے کے لیے کہا ہے؟
۴- کیا سودی بنکوں کی اسلامی بنکاری ڈویژنز کے شریعہ بورڈز نے اپنے بنکوں کو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے مقررہ مدت کے تعین کے ساتھ کسی منصوبہ بندی کے لیے کہا ہے یا کوئی تجویز یا مشورہ دیا ہے؟ اورآخری سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھر کے بنکوں کے مشیران شریعہ کے ہاں سودی نظام کے خاتمے کے لیے کوئی عملی منصوبہ موجود ہے؟
کیا سود کے عذاب سے نجات کے موضوع پر مشیران شریعہ کے پاس کسی مؤثر مشترکہ حکمت عملی/ جدوجہد کے لیے اجتماعی فورم کی تشکیل کا کوئی پروگرام زیر غور ہے؟
جب تک شریعہ بورڈز کے ممبران مؤثر اور منظم کردار ادا کرتے ہوئے اپنے بنکوں پر سودی کاروبار کو بتدریج گھٹانے اور اسلامی بنکاری کو بڑھانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گے، سودی بنکاری ختم نہیں ہوگی۔
سود کے خاتمے اور اسلامی بنکاری کے نفاذ کے ذمہ دار اداروں( حکومت، مرکزی بنک اور کمرشل بنکوں) سے یہ اُمید رکھنا عبث ہے کہ وہ خوشی خوشی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔ صرف ایک راستہ باقی ہے اور وہ ہے بنکوں کے شریعہ بورڈز کی طرف سے بنکوں پر دباؤ کی مؤثر اور مربوط حکمت عملی! اس سلسلے میں اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ کا کردار سب سے اہم ہوگا۔
پہلے قدم کے طور پر بورڈ کو اسٹیٹ بنک سے عدالتی فیصلے پرعمل درآمد کا مخصوص مدت کے تعین کے ساتھ لائحہ عمل مانگنا چاہیے۔ اگر اب تک ایسا کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا تو شریعہ بورڈ دوتین ہفتے کے اندر اس کو بنانے کا مطالبہ کرے۔
اس لائحہ عمل کے چند نکات یہ ہوسکتے ہیں:
۱-سودی بنکوں کو مزید لائسنسوں کے اجراء پر پابندی۔
۲-سودی بنکوں کی برانچز کو تین سال کے اندر بتدریج اسلامی بنانے کا پروگرام۔
شریعہ بورڈ لائحہ عمل بننے کے بعد اس پر مرحلہ وار عمل درآمد کی نگرانی کرے۔
یہی طریقہ کار بنکوں کے شریعہ بورڈز بھی اپنے بنکوں کے ساتھ اختیار کریں۔
اگر مرکزی بنک اور بنکوں کے مشیرانِ شریعہ نے ایسا نہ کیا اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہ کیا، تو پورا یقین ہے کہ حالیہ عدالتی فیصلے کا انجام بھی وہی ہوگا جو اس سے پہلے کے اسلامی نظریاتی کونسل اور کمیشنوں کی رپورٹس اور عدالتی فیصلوں کا ہوا ہے۔
دوران سفر قسمت سے ایک ہوائی اڈے پر میری ملاقات عبداللہ بن منصور سے ہو گئی۔ عبداللہ بن منصور، فرانس میں اسلامی تنظیموں کے اتحاد (Musulmans De France) کے صدر ہیں اور کچھ برس پہلے میرے ٹی وی پروگرام ’بلا حدود‘ کے مہمان بھی رہ چکے ہیں۔ اگرچہ گذشتہ کئی برس سے ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی، تاہم ان سے اچھی شناسائی ہے، کیوں کہ یورپ میں اسلامی مفادات کے لیے ان کی کوششیں اور ان کی موجودگی بہت نمایاں ہے۔
فرانسیسی صدر میکرون کی جانب سے اسرائیل کے حق میں جس اندھے تعصب کا اظہارکیا گیا ہے اور فرانس میں اسلاموفوبیا کو ہوا دینے میں فرانس نے جو کردارادا کیا ہے، ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے ابن منصور سے سوال کیا کہ ’’غزہ کے خلاف جنگ نے فرانس کے مسلمانوں کو کس طرح متاثر کیا ہے؟‘‘ جواب میں انھوں نے مجھے ۷ ؍اکتوبر [کے حملے] کے بعد ۲۴ گھنٹوں میں سامنے آنے والےسرکاری احکامات کے بارے میں بتایا: ’’یہ احکامات ہر اس چیز کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں، جس کا تعلق فلسطین سے ہو، یعنی فلسطینی جھنڈا اُٹھانا، اور حماس کا نام تک لینا بھی غیر قانونی ہے، حالاں کہ خود اسرائیلی حکام رات دن ’حماس’ کا ہی نام لیتے رہتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے ان تبدیلیوں کے بارے میں بتایا، جوغزہ میں اسرائیل کے ناقابلِ تصور جرائم کی روشنی میں اس مختصر مدت میں فرانسیسی سوسائٹی کے اندر اور بعض سیاسی شخصیات کے اندر واقع ہوئی ہیں۔
لیکن مجھے ابن منصور کی گفتگو میں جس بات نے اپنی طرف متوجہ کیا، وہ مغرب اور خاص طور سے فرانس میں کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اسلام کے تعلق سے مثبت سوچ کا پایا جانا ہے ،حالاں کہ گذشتہ عشروں کے دوران اسلام سے خوف زدہ کرنے کے لیے زبردست مہمات چلائی گئیں۔ اسلام کی منفی تصویر کشی کی گئی اور ’اسلاموفوبیا‘ نام کی اصطلاح وجود میں لائی گئی۔ غزہ کے لوگوں نے، ہزاروں کی تعداد میں عام ہونے والی ویڈیوز کے توسط سے مغرب کی ان تمام کوششوں کے بیش تر اثرات کو دھو ڈالا ہے اور اسلام کی ایک روشن و شفاف تصویر پیش کر دی ہے۔ ان ویڈیوز کو بہت سی بین الاقوامی زبانوں میں ڈب بھی کیا گیا ہے۔ یہ ویڈیوز اہلِ غزہ کے صبر اور یقین کو بیان کرتی ہیں اور دکھاتی ہیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ اس پر اللہ کی خوشنودی کے طلب گار رہتے ہیں۔ صبرواستقامت کی اس روشن و شفاف تصویرنے ، جسے دنیا نے اب تک دیکھا نہیں تھا، دیکھنے والوں کو محوِ حیرت کر دیا ہے۔اس منظر نے بے شمار اہل مغرب کو اسلام کے متعلق جاننے ، قرآن کا مطالعہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ابن منصور کہتے ہیں: ’’۴۰ برسوں کے طویل عرصے کے دوران ہم نے فرانس میں خاص طور سے وہاں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر اسلام میں داخل ہونے کا ایسا رجحان نہیں دیکھا، جیسا غزہ کی جنگ کے بعد سے دیکھ رہے ہیں۔ اسلام کو اختیار کرنے والے نومسلمین کی رسمی تعداد ۸۰ افراد یومیہ سے بڑھ کر بعض اوقات ۴۰۰ تک پہنچ چکی ہے، اور یہ تعداد روزانہ اوسطاً ۳۰۰ فرانسیسی نومسلم سے کم نہیں ہوتی‘‘۔ اسی سے آپ دوسرے مغربی ممالک کے بارے میں اندازہ لگا لیجیے۔
میں نے ابن منصور سے کہا کہ ’’کیا آپ نے ان سے یہ سوال کیا کہ وہ اسلام میں کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا: ’’اکثر لوگوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ سنگین ترین مصائب کے باوجود اور اپنے گھر والوں، اپنے پیاروں ، اپنے گھروں اور اپنا مال و دولت کھو دینے کے باوجود صبر و رضا ، یقین و ایمان ، طمانیت اور امن و سلامتی کا جو شعور ہم نے غزہ کے لوگوں کے اندردیکھا ہے، اس نے ہمیں اس کے پیچھے چھپا راز جاننے پر مجبور کر دیا۔ یہ راز ہمیں اسلام اور قرآن کے اندر ملا۔ یہ کیسا عظیم دین ہے جو لوگوں کے دلوں کو، ان کی زندگیوں کو اس یقین اور اس امن و سلامتی سے معمور کر دیتا ہے جس سے ہماری زندگی محروم ہے! ہم نے اسلام کے متعلق پڑھا اور قرآن پر ہمارا دل مطمئن ہو گیا تو اس کے بعد ہم نے اس دین میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا‘‘۔
اسلام قبول کرنے والوں کی عمر کے متعلق سوال کیا تو ابن منصور نے کہا: ’’اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے، جن میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو ہم ان کے والدین کی موجودگی میں اور ان کی رضامندی کے ساتھ ہی کلمۂ شہادت پڑھوا تے ہیں، ورنہ نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات والدین بچوں کے ساتھ آتے ہیں اور اپنے بچوں کے اسلام میں داخلے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔
سب سے زیادہ حیرت میں ڈالنے والے کسی واقعے کے متعلق پوچھا تو ابن منصور کا جواب تھا: ’’۱۸ سال کی ایک لڑکی تھی۔ میں نے اس سے اسلام میں داخل ہونے کی وجہ معلوم کی تو اس نے بتایا کہ میں قرآن کا ترجمہ لے کر آئی کہ اسے پڑھ کر اُس معبود کے بارے میں جاننے کی کوشش کروں، جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور [غزہ کے] ان لوگوں پر ایسی سکینت نازل کی ہے۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو میں مکمل نہیں کر پائی تھی کہ ٹھیر گئی اور رونے لگی۔ میری آنکھوں سے آنسو اس طرح بہہ رہے تھے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح نہیں بہے تھے۔ میں نے کہا کہ یہی وہ معبود ہے جس کی میں عبادت کرنا چاہتی ہوں، اور میں نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا‘‘۔
ایک دوسری لڑکی نے کہا: ’’میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے پانچ بچوں کو کھو چکی تھی، اور بجائے اس کے کہ وہ اپنا منہ پیٹتی، چیختی، چلّاتی اور روتی پیٹتی، میں نے دیکھا کہ وہ صبر کا پیکر بنی ہوئی ہے اور کہہ رہی ہے: میرے بچے جنت میں پہنچنے میں مجھ سے بازی لے گئے۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ انسان نہیں ہو سکتے۔ ایسا کیسے ہو کہ میں بھی ان جیسی بن جاؤں؟ پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس یقین کے پیچھے دین اسلام ہے۔ بس میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس دین میں داخل ہو نا ہے‘‘۔
عبد اللہ بن منصور نے مجھے جو باتیں بتائیں، حالاں کہ ان کی گفتگو صرف فرانس سے متعلق تھی اور انھوں نے چند ایک نمونے ہی بیان کیے تھے، وہی باتیں میں نے مغربی اخبارات سے ترجمہ شدہ ان مختلف رپورٹوں میں بھی پڑ ھیں، جو گذشتہ عرصے کے دوران شائع ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بے شمار ویڈیوز اور خاص طور سے ’ٹِک ٹاک‘ پر مغرب کے نوجوان بچے اور بچیوں کے ویڈیو کلپ دیکھیے۔ ان ویڈیوز میں بھی یہ نوجوان انھی باتوں کی تائید کر رہے ہیں جن کا ذکر ابن منصور نے کیا ہے ۔ یہ نوجوان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اس عظیم دین کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید فلسطین اور غزہ سے ہمدردی و اظہار یک جہتی نے ہی امریکا اور یورپی یونین کو ’ٹِک ٹاک‘ ایپ کے سلسلے میں سخت پابندیاں عائد کرنے اور امریکی قانون سازوں سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ اس ایپ کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جائے۔ نیویارک ٹائمز اور دیگر امریکی اخبارات کے علاوہ دوسرے ذرائع ابلاغ نے ایک سے زائد رپورٹیں شائع کی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں سب سے زیادہ بکنے والی کتابیں وہ ہیں، جو اسلام، قرآن اور فلسطین کے موضوع پر ہیں۔
شاید ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء (نائن الیون)کے افسوس ناک المیے کے بعد ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ البتہ ۱۱ ستمبر اور ۷؍اکتوبر کے درمیان فرق یہ ہے کہ اول الذکر واقعے کو اسلام کی تصویر بگاڑنے اور مسلمانوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، جب کہ ۷ ؍اکتوبر پوری دنیا کو صحیح اسلام کی تلاش پر لگانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی مسخ شدہ تصویر، مغربی صہیونیوں کی حرکت تھی اور یہ تصویر خلافِ حقیقت ہے۔ صبر کے پیمانوں سے لبریز اہل غزہ کی ان تصویروں کا مشاہدہ ہی کافی ہے، جن میں وہ صبر و رضا کے ساتھ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو الوداع کہہ رہے ہیں، یا ان اسرائیلی قیدیوں کی تصویروں کو دیکھ لینا کافی ہے، جو حماس کے جنگجوؤں سے گرم جوشی کےساتھ وداع ہورہے اور ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ ان تصویروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے، گویا یہ لوگ جنگی قیدی نہیں تھے، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی اصل حقیقت کو جاننے کے لیے سیاحتی سفر پر آئے ہوئے تھے۔ ممکن ہے انھی تصویروں نے اسرائیلی مجرموں کو دوبارہ جنگ شروع کرنے اور غزہ میں اپنے جرائم کا سلسلہ جاری رکھنے پر آمادہ کیا ہو ، کیوں کہ قیدیوں کی رہائی کی کارروائی جشن کے ماحول میں تبدیل ہو گئی تھی، جس کا مشاہدہ پوری دنیا کر رہی تھی۔
جس طرح ۱۱ ستمبر کا دن تاریخ میں تبدیلی کی ایک نمایاں علامت بن چکا ہے، بالکل اسی طرح ۷ ؍اکتوبر بھی ایسی ہی ایک نمایاں علامت بن جائے گا۔ شاید فرانس کے اندر اسلام میں داخل ہونے والی تعداد پر دوسرے مغربی ممالک، خاص طور سے امریکا کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے، جہاں کے عوام کے اندر ایک ایسی کش مکش جاری ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔
۷ ؍اکتوبر کے بعد سے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کائنات میں آنے والی عظیم تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔ یہ شدید درد اور سنگین آزمائش جس سے غزہ اور مغربی پٹی کے لوگ دوچار ہیں، وہ عنقریب ایک ایسی انسانی بیداری کا سبب بنے گی، جو گذشتہ کئی عشروں سے صہیونیوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ذہنوں میں بٹھائے جانے والے بیش تر منفی افکار و تصورات کو بدل کر رکھ دے گی۔
خدا کی قسم ، اے غزہ کے باشندو! تمھارا پاکیزہ اور مقدس لہو، تمھاری پاک روحیں اور تمھارے پاکیزہ نفوس نہ رائیگاں ہوئے ہیں اور نہ ہرگز ہوں گے۔ کیوں کہ مومن کے خون کی حُرمت اللہ کے نزدیک بہت عظیم ہے۔ قرآن میں مذکور اصحابِ اُخدود کا قصہ جسے ہم تلاوتِ قرآن میں دُہراتے ہیں ، ہمارے دلوں کو یقین اور اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر کے سامنے تسلیم و رضا کے احساس سے بھر دیتا ہے۔ جب ظالم بادشاہ کو اس بندۂ مومن نے ’بسم اللہ رب الغلام‘ کہنے پر مجبور کیا تو بادشاہ اس کے بعد ہی اس کو قتل کر پایا تھا۔ پھر یہی قتلِ مومن لوگوں کا اللہ کے دین میں فوج در فوج داخلے کا سبب بن گیا تھا۔ اس کے بعد اسلام میں داخل ہونے والے ان لوگوں کی آزمایش یوں ہوئی تھی:
وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللہِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ۸ۙ (البروج۸۵: ۸)اور ان اہل ایمان سے اُن کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے جوزبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔
یہی اہلِ غزہ کی بھی آزمائش ہے۔ اسی طرح فرعون کے جادوگروں کے ایمان لے آنے سے فرعونی معاشرے میں زلزلہ برپا ہو گیا تھا۔ فرعون کی حکومت و سلطنت اور اس کی فاسد معبودیت بھی اس واقعے سے لرز اٹھی توان جادوگروں کو تکلیف دہ انداز سے قتل کرنے کا حکم دے دیا:
اچھا، اب میں تمھارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ پھر تمھیں پتا چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے (یعنی میں تمھیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسٰی؟)۔ جادوگروں نے جواب دیا: قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے! یہ ہرگز نہیں ہوسکتاکہ ہم روشن نشانیاں سامنے آجانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں۔ تُو جو کچھ کرنا چاہے کرلے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔(طٰہٰ ۲۰:۷۱-۷۲)
یہ دونوں واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ آخرت پر یقین رکھنے والوں اور اللہ کی بارگاہ میں درجۂ شہادت کے لیے منتخب کر لیے جانے والوں کی نظر میں موت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زندگی ختم ہو گئی، وہ تو ’’اللہ کے پاس زندہ ہیں اور اپنا رزق پا رہے ہیں‘‘۔ موت اگر ایک حتمی تقدیر ہے تو شہادت کی یہ موت اشرف ترین موت ہے، جسے انسان حاصل کرسکتا ہے۔ ان آیات پر ایمان و یقین حیات و کائنات کے سلسلے میں انسان کے فہم و تصور کو تبدیل کر دیتا ہے۔ اور مغرب میں اس وقت جو لوگ اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں ان کے ساتھ یہی معاملہ پیش آ رہا ہے۔ غزہ اور مغربی پٹی میں ہمارے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تکلیف دہ اور دلوں کو چیر دینے والا ہے، خاص طور سے اس لیے کہ یہ سب کچھ بیش تر مسلم حکمرانوں کی سازش، بے ہمتی، بزدلی یا خیانت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ البتہ ہمیں اطمینان او ر تسلی ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے اہلِ غزہ کو اسی طرح شہید اور پاکیزہ نفوس کی شکل میں پسند کیا ہے، جس طرح اصحابِ اُخدود اور ان کی طرح اللہ کی رضا پر صبر و قناعت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کائنات میں ایسی تبدیلیاں راتو ں رات واقع نہیں ہوا کرتیں، لیکن باوجود اس کے کہ مغربی سوساٹیوں میں اسلام کو بدنام کرنے کی عمداً کوششیں کی جاتی ہیں اور وہاں سیاسی و اقتصادی اور میڈیا کی سطح پر صہیونی لابیوں کا تسلط ہے، ہزاروں مغربی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا دین اسلام میں فوج در فوج داخلہ اس بات کا غماز ہے کہ کائنات کے اندر عنقریب کوئی بڑی تبدیلی ظہور پذیر ہونے والی ہے، خواہ ابھی اس تبدیلی کے آنے میں وقت ہو، اس لیے کہ اللہ کا وعدہ ہے : كَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۰ۭ (المجادلہ ۵۸:۲۱) ’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولؑ ہی غالب ہوکر رہیں گے‘‘۔وہ وقت ضرور آئے گا کیوں کہ: وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا O(بنی اسرائیل ۱۷:۵)’’اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر ہی رہتا ہے‘‘۔
ہمیں غزہ کی جنگ میں سوائے بدمعاش صہیونی غنڈوں کے سنگین جنگی جرائم کے کچھ نظر نہیں آتا۔ تاہم، اس جنگ کے کچھ ایسے بے شمار پہلو بھی ہیں جو ہمیں نظر نہیں آ رہے ہیں ۔ وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۲۱ (یوسف۱۲:۲۱)’’اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
خان یونس کے ناصر ہسپتال کے سامنے جینز اور ہوائی چپل پہنے نوجوان مرد ایسے قطار میں کھڑے تھے، جیسے وہ کسی جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ رہے ہوں۔یہ ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر رات کے وقت کے مناظر ہیں۔ طبی عملہ اپنا مخصوص لباس پہنے مزید زخمیوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہے۔اونچی آوازیں آنے لگتی ہیں اور مردوں کا ہجوم جمع ہو جاتا ہے۔
عوامی امن و امان کی صورتِ حال مکمل طور پر خراب ہونے والی ہے۔ لوگ خوف زدہ ہیں اور تھک چکے ہیں۔ایک گاڑی اُونچا ہارن بجاتے ہوئے اور جلتی بجھتی سرخ روشنیوں کے ساتھ رُکتی ہے۔ ایک نوجوان کو اس سے نکالا جاتا ہے اور ایک سٹریچر پر رکھ کر جلدی سے اندر لے کر جایا جاتا ہے۔پھر دھول میں لپٹی ایک اور گاڑی آتی ہے اور ایک چار، پانچ سال کے بچے کی مدد کر کے اسے گاڑی سے نکالا جاتا ہے۔ وہ اتنی ہمت رکھتا ہے کہ گاڑی سے اُتر کر خود چل کر اندر چلا جائے۔
جمعے سے اسرائیل نے غزہ کے جنوب میں شدید بمباری کا آغاز کیا ہے، جس کے بعد غزہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر خان یونس کے ہسپتالوں میں زخمیوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے، جو اس کی گنجایش سے کہیں زیادہ ہے۔
اسرائیلی ٹینک اور فوجی بھی شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور حماس کے ساتھ عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد زمینی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے کم از کم ۱۲۰۰ سے زائد لوگ جان کی بازی ہار چُکے ہیں اور اس کے بعد غزہ میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ۱۷ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج نے عام شہریوں کو شمالی غزہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ غزہ کے ۲۳ لاکھ رہایشیوں کی بڑی تعداد نے اپنی جانیں بچانے کے لیے جنوب کا رخ کیا تھا۔ لیکن خان یونس تک لڑائی کے پہنچنے کے بعد ایسی جگہیں کم رہ گئی ہیں، جہاں وہ جان بچانے کے لیے رُخ کرسکیں۔
شہر کے یورپین ہسپتال کے میدان اور راہداریاں ہزاروں بے گھر ہونے والے افراد سے بھری ہوئی ہیں۔ دھماکوں کی آوازوں کے درمیان ایک بچے نے کہا:’ ’جب ہم کھیل رہے ہوں اور بمباری شروع ہو جائے تو ہم فوراً دیواروں کے ساتھ خیموں میں جا کر سو جانے کا بہانا کرتے ہیں۔ ہمیں ڈر لگتا ہے۔ ہمارے اوپر کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ کر گرتے ہیں‘‘۔
ہسپتال میں ایک خاتون نے بتایا کہ ’’میں خان یونس کے مشرقی علاقے الفاخاری کی جانب گئی، تو مجھے فون کالوں کے ذریعے بتایا گیا کہ وہ جگہ ’محفوظ مقام‘ ہے۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ اس علاقے میں بہت بمباری ہو رہی ہے اور صورتِ حال بہت بُری ہے‘‘۔
’’مجھے کوئی علاقہ محفوظ نظر نہیں آتا اور نہ کسی جگہ رہا جا سکتا ہے‘‘۔
۷۵ سال کے بزرگ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’صورتِ حال کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں عورتیں اور بچے ہیں۔ ہم بڑے تو جو کچھ ہو رہا ہے برداشت کر سکتے ہیں‘‘۔
انھوں نے مزید بتایا:’’ان آوازوں کو سنیے ، کوئی کیسے محفوظ مقام پر جانے کے موقعے کے لیے بیٹھ کر انتظار کرسکتا ہے؟ تحفظ کہاں ہے؟ ہم تو محسوس نہیں کر سکتے۔ جہاں بھی ہم جاتے ہیں، جسے وہ محفوظ کہتے ہیں، ہمیں وہ نہیں ملتا‘‘۔
خان یونس مرکز میں سماح الوان دو خالی پانی کی بوتلیں لہراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے چھے بچے پیاسے ہیں۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے:’’ہم کتے بلیوں کی طرح بن گئے ہیں۔ شاید کتے اور بلیوں کو پناہ مل جاتی ہے، ہمارے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ ہم گلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کے ایک اہلکار کے مطابق غزہ میں انسانی بحران ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ بدتر ہوتا جا رہا ہے۔مجھے اپنی زندگی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جنگ کی ابتدا سے میرے اور میرے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سب کے باوجود یہ پہلی دفعہ ہے جب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے؟
مُجھ سے میری قوت ارادی اور میرا اختیار چھین لیا گیا ہے۔ اپنے گھر والوں کو محفوظ رکھنے کا اب میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ میرا تعلق شمال سے ہے لیکن میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اس وقت جنوب کی طرف روانہ ہوا، جب اسرائیلی فوج نے ہم کو حکم دیا کہ ’’ایسا کریں‘‘۔
ابھی میں اکیلا خان یونس میں ہوں اور میرے گھر والے وسطی غزہ میں ہیں اور معلوم نہیں کس حال میں ہیں؟پہلے تومیں کچھ دن بعد ان سے ملنے جاتا تھا اور ہماری ملاقات ہو جاتی تھی مگر اب حالات پہلے جیسے نہیں ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اب وہاں جانے والی ایک مرکزی سڑک کو بند کردیا ہے، جب کہ دوسری سڑک انتہائی خطرناک ہے۔
کیا مجھے جنوب میں رفح کی جانب جانا چاہیے، اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور اُمید رکھنی چاہیے کہ میرے گھر والے ٹھیک رہیں گے؟
یا پھر مجھے رپورٹنگ چھوڑ کر واپس جانے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اگر کوئی آفت ہی آنی ہے تو ہم سب پر اکٹھی آئے کم از کم ہم اکٹھے مر تو جائیں گے؟میں اُمید اور دعا کرتا ہوں کہ کبھی کسی پر ایسا کربناک وقت نہ آئے کہ اُس کے پاس انتخاب کرنے کو کچھ نہ ہو۔
اگست ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو تحلیل کرکے دو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بھارتی حکومت کے اس قدم کو درست ٹھیرایا ہے۔ ویسے سپریم کورٹ میں ۱۶دنوں تک چلنے والی طویل بحث کے بعد کورٹ کی طرف سے جموں و کشمیر کی اس آئینی خود مختاری کو بحال کرنے کے بارے میں کوئی خوش فہمی تو نہیں تھی، مگر اُمید تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کو دولخت کرنے اور اُن کو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے لیے سپریم کورٹ، حکومت کی سرزنش ضرورکرے گی، کیونکہ اس کی نظیر بھارت کے دیگر صوبو ں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
پچھلے ۷۰ برسوں میں بھارت میں مرکزی حکومتوں نے مختلف وجوہ کی بنا پر ۱۱۵ بار آئینِ ہند کی دفعہ ۳۵۶ کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو معزول کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ حزبِ اختلاف کے زیر اقتدار کسی بھی صوبائی حکومت کو نہ صرف ا ب معزول کیا جا سکے گا، بلکہ اس ریاست کو پارلیمنٹ کی عددی قوت کے بل پر براہ راست مرکزی علاقے میں تبدیل بھی کیا جاسکے گا اور صوبائی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر ہی دولخت بھی کیا جا سکے گا۔ اس لیے بھارت کے اندر کئی دانش وروں اور قانون دانوں نے اس فیصلے کے مضمرات پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ فیصلہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کو چیلنج کرتا ہے‘‘۔
افضل گورو کو سزائے موت دینے کے فیصلے کو اجتماعی ضمیر سے جوڑنے اور بابری مسجد کے معاملے پر عجیب و غریب فیصلہ دینے کے بعد، کشمیر کی خودمختاری کے سوال پر بھارتی سپریم کورٹ سے کسی مثبت فیصلے کی شاید ہی کوئی اُمید تھی۔ بہرحال، بابری مسجد پر خو د سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ: ’’اس کو نظیر نہیں بنایا جاسکتا ہے‘‘۔ کیونکہ اس میں بابری مسجد کی زمین ہندو یا مسلم فریق کو دینے کے بجائے بھگوان رام للا کو دے دی گئی تھی اور کورٹ نے جو قانونی سوالات طے کیے تھے، فیصلے کے وقت ان کو نظرانداز کردیا۔
۲؍اگست ۲۰۲۳ء سے شروع ہونے والی سماعت ستمبر کے پہلے ہفتے کو مکمل ہو گئی تھی اور کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ عدالت میں۱۳ہزار ۵۱۵ صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ۲۸جلدوں پر مشتمل۱۶ ہزار ۱۱۱ صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی تھیں۔ سماعت کے دوران کئی شہرۂ آفاق کتابیں جن میں The Federal Contract، Oxford Constitutional Theory اور وی پی مینن کی The Transfer of Power بھی کورٹ کے سپرد کی گئیں۔
چیف جسٹس چندرچوڑ کے علاوہ پانچ رکنی بنچ میں جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اورجسٹس سوریہ کانت شامل تھے۔ یہ طے تھا کہ دسمبر کے وسط میں فیصلہ آئے گا، کیونکہ جسٹس کول دسمبر میں ہی ریٹائر ہونے والے تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج تھے، اگرچہ پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا، مگر تین الگ فیصلے لکھے گئے۔ ایک چیف جسٹس نے جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کے ساتھ مل کر تحریر کیا۔ جسٹس کول نے الگ سے اپنے تاثرات تحریر کیے۔جسٹس سنجیو کھنہ نے دونوں فیصلوں سے اتفاق کیا اور صرف کچھ معاملات میں اپنی رائے بیان کی ہے۔
اس آئینی بنچ کے سامنے آٹھ معاملات تھے:
کیا بھارتی آئین میں درج آرٹیکل۳۷۰ کی دفعات کو عارضی یا مستقل حیثیت حاصل ہے اور کیا دستاویز الحاق پر دستخط ہونے کے وقت مہاراجا کشمیر نے کچھ اختیارات اپنے پاس رکھے تھے،جو ریاستی حکومت کو منتقل ہوگئے؟ کیونکہ یہی دفعہ جموں و کشمیر کے اپنے آئین کو تحفظ فراہم کرتی تھی اور اسی وجہ سے اس خطے کی انفرادیت کو تحفظ دینے کے لیے شہریت کا الگ قانون تھا۔
دوسرا سوال یہ کہ چونکہ مذکورہ قانون آئین ساز اسمبلی نے بنایا تھا اورطے تھا کہ قانون ساز اسمبلی ہی اس میں ترمیم کرسکتی ہے۔ اگست ۲۰۱۹ءکو مودی حکومت نے پارلیمنٹ کو پہلے قانون ساز اسمبلی میں تبدیل کیااور پھر اس کے ذریعے دفعہ۳۷۰ میں ترمیم کروائی۔ کورٹ کے سامنے سوال تھا کہ ’کیا آئین اس میکانزم کی اجازت دے سکتا ہے؟ ‘
تیسرا : کیا آرٹیکل۳۷۰ (۱) (d) کے تحت طاقت کے ذریعے بھارت کا پورا آئین ریاست جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا سکتا ہے؟
چوتھا: کیا آرٹیکل ۳۷۰ (۳) کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفا رش کے بغیر بھارتی صدر آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کرسکتا ہے؟
پانچواں : کیا ۲۰۱۸ء میں گورنر کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنادرست قدم تھا؟
چھٹا: اس کے چھ ماہ بعد کیا ریاست میں صدارتی راج کا نفاذ درست تھا؟
ساتواں : کیا ’جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ ۲۰۱۹ء‘ کے تحت ریاست کو دولخت کرنا آئینی طور پر درست تھا؟
آٹھواں : کیا ریاست کی حدود کو ریاستی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ ابھی تک بھارت میں جو بھی نئے صوبے وجود میں آئے ہیں، ان کی سفارش مقامی اسمبلی نے مرکزی حکومت کو بھیجی تھی۔ اس کے علا وہ کیاکسی فعال صوبے کو راتوں رات مرکزی زیر انتظام علاقے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟
پہلے سوال کے جواب میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ ’دفعہ ۳۷۰ ایک عارضی انتظام تھا اور۱۹۴۷ء میں یونین آف انڈیا میں شمولیت کے وقت مہاراجا نے کوئی اختیار اپنے پاس نہیں رکھا تھا، بلکہ تمام اختیارات حکومت ہند کو سونپ دیے تھے‘۔ نومبر ۱۹۴۹ءکو اس وقت کے صدر ریاست ڈاکٹرکرن سنگھ کا حوالہ دے کر عدالت نے کہا کہ ’بھارتی آئین، ریاستی آئین پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس لیے ریاست جموں و کشمیر کسی بھی ایسی داخلی خودمختاری کا دعویٰ نہیں کرسکتی ہے، جو دیگر صوبوں کو مہیا نہ ہو۔ آرٹیکل ۳۷۰ (۱) (d) کے تحت صدر کی طرف سے جاری کردہ متعدد آئینی احکامات جو آئین کی مختلف دفعات کی ترامیم کا اطلاق کرتے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پچھلے ۷۰ برسوں کے دوران، یونین اور ریاست نے باہمی تعاون کے ذریعے آئینی طور پر ریاست کو یونین کے ساتھ ضم کر دیا‘۔ عدالت نے کہا کہ ’اچانک ستّر سال بعد پورے بھارتی آئین کو لاگو نہیں کیا گیا بلکہ ریاست کے آئینی انضمام کا عمل جاری تھا‘۔
عدالت نے ڈاکٹر کرن سنگھ کے اعلامیے کا تذکرہ کیا ہے، مگر ۱۹۵۰ء میں ہونے والے اُس وقت کشمیر کے وزیراعظم شیخ محمدعبداللہ اور بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے درمیان طے پائے گئے ’معاہدہ دہلی‘ کو حیرت انگیز طور پر بالکل ہی نظرانداز کردیا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ۳ جولائی ۱۹۴۷ء کو سردار پٹیل کے ایک خط کا تذکرہ کیا ہے، جو انھوں نے راجا ہری سنگھ کو لکھا تھا:’’کشمیر کے مفادات بغیر کسی تاخیر کے بھارتی یونین اور اس کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہونے میں مضمر ہیں اور یہ کہ اس کی ماضی کی تاریخ اور روایت اس کا تقاضا کرتی ہے، اور بھارت آپ کی طرف دیکھتا ہے۔ اور آپ سے یہ فیصلہ کرنے کی توقع رکھتا ہے‘‘۔ اسی طرح ۲۷ ستمبر۱۹۴۷ء کو نہرو نے سردار پٹیل پر زور دیا کہ ’’پاکستانی حکمت عملی یہ ہے کہ کشمیر میں مداخلت کی جائے، اور جیسے ہی کشمیر آنے والے موسمِ سرما کی وجہ سے کم و بیش الگ تھلگ ہوجائے تو بڑی کارروائی کی جائے‘‘، یعنی اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر کے الحاق پر جلد کارروائی کی جائے۔ بھارت میں جو لوگ نہرو کو کشمیر پر فیصلہ نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں، اور پاکستان میں جو افراد قبائلی حملے کو ہی کلی طور پر مسئلہ کشمیر کی پیداوار قرار دیتے ہیں، ان کے لیے شاید یہ ایک دلچسپ اطلاع ہوگی کہ اس کھیل کی بساط تو اکتوبر ۱۹۴۷ء سے بہت پہلے ہی بچھائی جاچکی تھی۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ’چونکہ آئین کی تمام دفعات کو ریاست پر لاگو کرنے کے لیے آرٹیکل ۳۷۰ (۱) (d) کے تحت ریاستی حکومت کی رضامندی کی ضرورت نہیں تھی، اس لیے صدر نے بھارتی حکومت کی رضامندی حاصل کی‘۔ریاستی آئین کی بحالی کے حوالے سے عدالت نے دلیل دی کہ ’بھارتی آئین کے کچھ حصوں کے عدم اطلاق سے جو خلا رہ گیا تھا، اسے ریاستی آئین پور ا کرتا تھا۔ اب آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد چونکہ پورے بھارتی آئین کا اطلاق ریاست پر ہوتا ہے، اس لیے اب ریاستی آئین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ اب غیر فعال ہوگیاہے‘۔
عدالت نے لداخ کو ایک علیحدہ مرکزی علاقہ تسلیم کیا، یعنی ریاست کے دو لخت ہونے پر بھی مہر لگائی۔ مگر عدالت نے اس پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے کر سوال اُٹھایا ہے کہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سالیسٹر جنرل نے حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا اور یہ کہ مرکزی زیر انتظام والی حیثیت عارضی ہے۔ عدالت نے پھر اس پر کوئی حکم نہیں دیا، بلکہ اُمید ظاہر کی کہ جلد ہی ریاستی حیثیت بحال کی جائے گی۔ مگر الیکشن کے حوالے سے اس نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ ریاست میں ستمبر ۲۰۲۴ء تک اسمبلی کے انتخابات ہونے چاہییں۔ لداخ کی بطور یونین ٹیریٹری کی حیثیت برقرار رہے گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست سے کسی بھی علاقے کو الگ کرکے یونین ٹیریٹری بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
جسٹس سنجے کشن کول، جوسپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج، اور اس بنچ کے رکن تھے، انھوں نے الگ سے اپنے تاثرات درج کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس خطے نے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا سامنا کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تجویز دی کہ جنوبی افریقہ کی طرز پر ایک ’سچائی اور مفاہمت کمیشن‘ (Truth and Reconciliation Commission) ترتیب دیا جائے، جہاں متاثرین اپنا دُکھ درد بیان کرسکیں گے۔ جسٹس سنجے کول کا کہنا ہے کہ ’کشمیر میں زمینی سطح پر ایک پریشان کن صورت حال تھی، جس کا ازالہ نہیں کیا گیا‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس خطے میں زخموں کو بھرنے اور سماجی تانے بانے کو بحال کرنے کی ضرورت ہے‘۔
تاہم، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مفاہمتی یا مصالحتی کمیشن کے سامنے فوج اور سیکورٹی سے وابستہ وہ افسران حاضر ہوں گے، جو علی الاعلان ا پنے گناہوں کا اعتراف کرسکیں گے؟خیر، یہ تجویز بُری نہیں ہے، مگر اس کمیشن کا قیام کسی غیرمتازع اور آزاد ادارے کے تحت ہی ہونا چاہیے۔ کشمیر میں جو واقعات پچھلے تین عشروں میں رُونما ہوئے، ان کو ریکارڈ پر لانا اَز حد ضروری ہے۔ بہرحال،سپریم کورٹ کے اس ایک جج نے اس قدر تسلیم تو کیا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔
سپریم کورٹ میں تقریباً ۲۳ کے قریب رٹ پیٹیشنیں دائیر کی گئی تھیں -ان میں سے ایک پیٹیشنر رادھا کمار کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلہ سے خاصی مایوس ہیں ۔ رادھا کمار کو من موہن سنگھ حکومت کے دور میں مصالحت کار نامزد کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ابتدا میں یقین تھا کہ عدالت ریاست کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب حکومت نے غیر ریاستی باشندوں کے لیے ریاست میں زمینیں خریدنے کا دروازہ کھولا، تو میں نے اس پر جیسے ہی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو مجھ کو بتایا گیا کہ آخری فیصلے تک انتظار کیا جائے۔ لیکن اب عدالت کے اس فیصلے کے بعد ہم جانتے ہیں کہ زمینی حقائق کو آسانی سے نہیں پلٹا جا سکتا، لیکن پلٹنا ناممکن بھی نہیں۔‘ رادھا کمار کے مطابق ہم نے سوچا تھا کہ عدالت آرٹیکل ۳۷۰ پر ہماری حمایت نہیں کر سکتی، اور ضرور اس بات سے متفق ہو گی کہ ریاست کا خاتمہ بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳کے خلاف ہے۔ یہ بھی اُمید تھی کہ عدالت قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرے گی، مگر اس نے یہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے، پانچ ججوں نے سالیسٹر جنرل کی اس یقین دہانی کو قبول کیا ہے کہ ریاست کا درجہ 'مناسب وقت پر بحال کیا جائے گا اور الیکشن کمیشن کو اسمبلی انتخابات کرانے کے لیے مزید دس ماہ کا وقت دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ۲۰۱۹ء، ۲۰۲۰ء، ۲۰۲۱ء، اور ۲۰۲۲ء میں وزیر داخلہ امیت شا کی بار بار کی یقین دہانیوں کے بعد ریاست کا درجہ واپس کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟
اگست ۲۰۱۹ء کے فوراً بعد، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی اور کئی دیگر افراد نے خبردار کیا تھا کہ مودی حکومت نے کشمیر کو ایک لیبارٹری بنا یا ہے۔ جو کچھ وہ کشمیر میں آزما رہے ہیں، وہی بہت جلد بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی نافذ کرکے ہی دم لیں گے۔ ۱۱دسمبر ۲۰۲۳ء کو عدالت کےکشمیر پر مایوس کن فیصلے کے کچھ ہی دنوں کے اندر، ۱۴۷ کے قریب ممبران پارلیمنٹ کو دونوں ایوانوں سے معطل کیا گیا۔ ان کی غیر موجودگی میں تعزیراتی قوانین، شہادت قانون اور ضابطہ فوجداری کے تین نئے قوانین پاس کیے گئے اور برطانوی دور کے تعزیراتی قوانین کو معطل کیا گیا۔
اسی ایوان میں چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے والی کمیٹی سے چیف جسٹس آف انڈیا کو بے دخل کرکے اُن کی جگہ ایک وزیر کو رکھنے کا قانون بھی پاس کیا گیا۔ عدالت کی طرف سے کشمیر کے عوام کے حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کے بعد بھارت میں پارلیمانی جمہوریت میں کسی بحث و مباحثے کے بغیر ایسے قوانین کو پاس کرنا، جن کا عوام پر براہِ راست اثر پڑتا ہو، آخر کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟ کیا اب بھی بھارتی جمہوریت میں کچھ باقی رہ گیا ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام واحد ایسے پیغمبر ہیں، جنھیں دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے لوگ یعنی مسلمان ، عیسائی اور یہودی اپنا پیغمبر، پیشوا اور ابو الانبیا مانتے ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ہیں جن سے یہودی ، عیسائی اور مسلمانوں کی نسلیں چل پڑیں۔ اسی لیے اسلام ، یہودیت اور عیسائیت کو ابراہیمی مذاہب کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہےکہ ایک ہی پیغمبر کی اولاد ہونے کے باوجود ہمیشہ ان تینوں قوموں کے درمیان گھمسان کی لڑائیاں ماضی میں ہوئی ہیں، ابھی بھی ہو رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتی رہیں گی۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ماضی میں صلیبی جنگیں ہوتی رہی ہیں، جب کہ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی باہم جنگیں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں۔ تاہم، موجودہ دور میں یہود و نصاریٰ حکومتیں یک جان ہو کر عالم اسلام کے خلاف صف آراء ہوگئی ہیں اور نائن الیون کے وقت امریکا کے صدر جارج بش نے کہا بھی تھا کہ صلیبی جنگیں دوبارہ شروع ہوگئی ہیں۔ اس سے ایک عشرہ قبل افغانستان میں جنگ کے بعد سوویت روس کے حصے بخرے ہوئے تو اس وقت مغربی اتحادی افواج (نیٹو) کے سربراہ سے جب پوچھا گیا کہ ’’سوویت روس کی شکست اور سقوط کے بعد کیا نیٹو اتحاد کو ختم کر دیا جائے گا؟‘‘ تو اس پر نیٹو کے سربراہ نے کہا تھا کہ ’’ابھی مغرب کا اصلی معرکہ باقی ہے جو اسلام سے خطرے کی صورت میں سامنے ہے۔ اس لیے ہم نیٹو اتحاد کو ختم کرنے کا خطرہ نہیں لے سکتے‘‘۔ فرانسس فوکویاما نے سوویت روس کی شکست کے بعد کہا تھا کہ ’’دنیا کے دو بڑے نظریات یعنی سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی لڑائی میں بالآخر سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)کی جیت ہوئی اور تاریخ کا خاتمہ ہوگیا۔ اب دنیا کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کو ماننے کے علاوہ کو چارہ نہیں ہے‘‘۔ فرانسس فوکویاما نے سرمایہ دارانہ نظام کو ’اچھا آدمی‘ اور سوشلزم کو ’بُرا آدمی‘ کہہ کر اچھائی اور بُرائی کی جنگ بتایا تھا، جس میں بقول فوکویاما کے بالآخر ’اچھے آدمی‘ کی جیت ہوئی۔ اسی طرح برنارڈ لیوس اور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے مغربی نظام کے سامنے موجود دو بڑے چیلنجز اسلام اور چینی تہذیب کی نشان دہی کی تھی، جو مستقبل میں مغرب کے لیے درد سر بن سکتے ہیں۔ اسی طرح امریکی مفکر ہنری کسنجر نے بھی یہی بات بڑی تفصیل سے کہی کہ اگر کبھی مستقبل میں مسلم ممالک چین کے قریب آتے ہیں تو اسی وقت مغربی ورلڈ آرڈر کی موت واقع ہو جائے گی۔ اس پس منظر کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ دنیا کی تینوں بڑی تہذیبیں حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا باپ تسلیم کرتی ہیں۔ سوربون یونی ورسٹی کے اسکالر پروفیسر جی ایم ڈی صوفی رجسٹرار یونی ورسٹی آف دہلی، دو جلدوں میں اپنی مشہور کتاب Kashir, Being a History of Kashmir (مطبوعہ پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۱۹۴۸ء) میں کشمیریوں کی تاریخ پر قلم اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دراصل کشمیری قوم فلسطین کے باشندے ہیں، کشمیری اور فلسطینی ایک ہی باپ کی دو اولادیں ہیں اور ان کا سلسلۂ نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ ملک کنعاں (موجودہ فلسطین) کے بنی قطورہ قبیلے کی خاتون سے شادی کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ہوئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں مال و اسباب دے کر فلسطین سے مشرق کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ کنعان یعنی موجودہ فلسطین سے ہجرت کر کے یہ لوگ پہلے وسطی ایشیا پھر ترکستان کے شہر کاشغر اور آخر میں لداخ کے کوہستانی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے سونہ مرگ علاقے سے کشمیر میں داخل ہو گئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔اس زمانے میں کشمیر میں کوئی آبادی نہیں ہوتی تھی اور کشمیر آنے والے یہ پہلے لوگ تھے جو آگے چل کر یہاں کے اصلی باشندے کہلائے۔ ان لوگوں نے اس نئی جگہ کو ’کشیر‘ نام دیا۔
واضح رہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی زبان عبرانی تھی اور اس وقت ملک کنعان یعنی فلسطین کی زبان بھی عبرانی ہوا کرتی تھی۔ایک یہودی مؤرخ بھی کشمیریوں کی فلسطین سے اس ہجرت کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کشمیری قوم بڑی بہادر قوم ہے۔ یہ لوگ ہر وقت وادی کے دروں کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں اور کسی بیرونی شخص کو وادی میں آنے سے روکتے ہیں۔ فطرتاً یہ قوم جنگجو اور محنت کش ہے اور مہمان نوازی میں بھی یہ لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ لفظ ’کوشر‘ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا تلفظ داردک زبانوں جیسا ہے نہ کہ سنسکرت جیسا۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کی تاریخ پر شب خون مار کر یہاں کی تاریخ کو بھی تلپٹ کر کے رکھ دیا گیا۔ اس تاریخی بددیانتی کی ابتدا کلہن نامی شخص نے راج ترنگنی نامی کتاب لکھ کر کی تھی۔ یہ کتاب نہیں بلکہ دنیا بھر کے جھوٹ کا پلندہ اور دیو مالائی کہانیوں کا مجموعہ ہے، جو صرف اس لیے لکھی گئی تاکہ کشمیری قوم کی اسلامی شناخت کو تبدیل کر کے ہندو خاکے میں ڈھالا جا سکے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماضی میں بھی کوششیں ہوئی ہیں اور تا حال بھی ہو رہی ہیں۔ دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵-الف کاخاتمہ اسی سمت کا سفر ہے۔ جس میں یہاں پر موجود مسلمانوں کا قتلِ عام کا کام ہی باقی بچا ہے اور یہ کام ایک خاص منصوبے کے تحت جاری ہے۔
ہم چاہیں گے کہ پہلے مرحلہ وار طریقے سے کشمیری قوم کی اصل سے واقف کرائیں ، اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے آغاز اور جموں میں ہونے والے قتل عام اور مستقبل میں کشمیر میں آر ایس ایس اور بھارت کے منصوبے پر بھی بات ہوگی۔ بدقسمتی سے کلہن کے بعد آنے والے ہر مؤرخ، جس نے بھی کشمیر کی تاریخ پر قلم اٹھایا، راج ترنگنی کو حرفِ آخر جان کر اس پر آمنا و صدقنا کہا۔ کلہن، ’شیومت‘ کا ماننے والا تھا۔ اس نے کشمیریوں کی تاریخ میں ہندوانہ رسومات کا ذکر زیبِ داستان کے لیے کیا۔ کشمیریوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ یہودیوں کے گیارہ قبیلوں میں سے ایک کھویا ہوا قبیلہ ہے، ایک مفروضہ ہے۔ کلہن نے کشمیری قوم کی کنعان سے ہجرت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے بلکہ کشمیر کے ہندو بادشاہوں کا ہی ذکر کیا ہے۔ کشمیری قوم حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ضرور ہے، لیکن یہودیوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہودی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ کی اولاد ہیں، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا اور اسی نسبت سے یہودیوں کو بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہا جاتا ہے، جب کہ کشمیریوں کے بارے میں اس چیز کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
فلسطین سے ہجرت کے بعد کشمیریوں نے پہلے پہل اپنے آبائی دین ’دین اسلام‘ کو مضبوطی سے تھامے رکھا، لیکن رفتہ رفتہ صدیاں گزرنے کے ساتھ برصغیر میں پہلے بدھ مت اور پھر ہندومت کے عروج کے ساتھ کشمیریوں پر بھی ان کے اثرات پڑے اور انھوں نے پہلے بدھ مت اور پھر ہندومت کو اختیار کیا۔ اس بات کے تاریخی شواہد بھی ملتے ہیں کہ بدھ مت کے بڑے بزرگوں کی کانفرنس کشمیر میں ہی ہوتی تھی اور کشمیر میں ہی پہلی بار بدھ مت کے قوانین تانبے کی چادروں پر لکھے گئے اور پھر زمین کے نیچے دفن کیے گئے۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کو اس کے شواہد کشمیر کے خطہ لداخ میں ملے ہیں۔ کشمیر کو وسط ایشیا سے جوڑنے والا راستہ جو بانڈی پورہ کے گریز علاقے سے گزر کر گلگت سے آگے بڑھتا تھا۔ مذکورہ قوانین اسی راستے سے وسط ایشیا پہنچے اور وہاں بدھ مت کا پھیلاؤ ہوسکا۔
صدیوں بعد ترکستان سے حضرت عبدالرحمان بلبل شاہ ترکستانی اور پھر ہمدان کے میرسیّدعلی ہمدانی اسلام کی دعوت لے کر کشمیر آئے تو وہ بھی اسی شاہراہِ ریشم کے راستے کشمیر میں وارد ہوئے۔ کشمیر پہنچ کر یہاں کی ہندو آبادی کے سامنے جب انھوں نے اسلام یہ کہہ کر پیش کیا کہ دراصل یہ وہی دین ابراہیمی ہے، جس کی تعلیم حضرت ابراہیمؑ نے دی تھی، تو کشمیری قوم جوق در جوق اسلام قبول کرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ پورے کشمیر میں صرف گیارہ گھر ہی ہندو رہ گئے اور اسی وقت سے یہ مثل مشہور ہوگئی: ’کشیر چھ کاہے گھر‘ یعنی اصلی کشمیری اب صرف گیارہ گھر بچے ہیں باقیوں نے ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس بات سے خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی کہانی جان بوجھ کر الجھائی گئی ہے تاکہ اس قوم کا اسلام کے ساتھ رشتہ کاٹ دیا جائے۔ اس طرح کی ہندوانہ تاریخ لکھنے والے نام نہاد مؤرخوں کی سرکاری سطح پر ہمیشہ سے حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے، جنھوں نے صوفیت اور ریشیت کا شوشہ چھوڑ کر، جو کہ اسلام سے زیادہ ہندو مذہب کے قریب ہے، اور جو اس جھوٹ کو حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر کی تاریخ ہندو مذہب کی پروردہ رہی ہے اور ہندو مذہب ہی کشمیریوں کا حقیقی مذہب ہے۔
فلسطینیوں اور کشمیریوں کی قسمت دیکھیے کہ دونوں برادر قوموں کی ایک جیسی تقدیر ہے۔ فلسطینی قوم اگر یہود کے ہاتھوں تختۂ مشق بنی ہوئی ہے تو کشمیری قوم، اہل ہنود (ہندو قوم) کے ہاتھوں تختۂ مشق بن رہی ہے۔ اس وقت اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر بالخصوص اہل غزہ پر جو قہر ڈھایا جا رہا ہے، کچھ اسی طرح کی منصوبہ بندی کشمیری قوم کے بارے میں بھی بنائی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خاکے میں رنگ بھرنے میں کچھ عناصر رکاوٹ بنےہوئے ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر یہ رکاوٹیں دُور ہوگئیں یا کمزور پڑگئیں تو جو منظرنامہ اس وقت غزہ میں بنا ہوا ہے، وہی المیہ کشمیر میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے اور بھارت کی ایک سخت گیر ہندو فاشسٹ حکومت اسی جانب بڑھ رہی ہے۔ جنوری ۲۰۲۴ء سے جموں سرینگر ٹرین سروس شروع ہو رہی ہے، جس پر ۲۸ہزار کروڑ کی رقم خرچ کی گئی ہے۔ اگرچہ بتایا یہی جا رہا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے سے کشمیر میں ترقی کو فروغ ملے گا اور کشمیر کی سیاحت انڈسٹری میں اضافہ ہوگا۔ لیکن غور کیا جائے تو حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ دراصل یہ ٹرین پراجیکٹ کشمیر کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست کیا گیا ہے، جس سے کشمیریوں کا روز مرہ کا سفر آسان تو ہوجائے گا لیکن آزادی کی منزل بہت دُور ہو جائے گی۔
تقسیم برصغیر کے وقت کشمیر کی بھارت کے ساتھ صرف ۱۸ فی صد سرحد ملتی تھی اور وہ بھی دریائے راوی، جو پنجاب اور ریاست جموں و کشمیر کے آخری گاؤں لکھن پور کو آپس میں تقسیم کرتا تھا۔ اُس زمانے میں یہ راستہ بالکل ناقابلِ استعمال تھا، بلکہ اگر اسے راستے کے بجائے پگڈنڈی کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ چونکہ کانگریس کی قیادت پہلے ہی شیخ محمد عبداللہ کو اپنے رنگ میں رنگ چکی تھی اور کشمیر کے راجا ہری سنگھ نے بہت پہلے ہی کانگریس کے ساتھ مل کر کشمیر کو ہندستان سے جوڑنے کا منصوبہ بنالیا تھا، اس خاکے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پٹیالہ فوج ، ڈوگرہ فوج، بھارتی افواج اور آر ایس ایس کے ہتھیار بند جتھوں نے مل کر جموں صوبے میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ہزاروں مسلمان بچیوں کو اغوا کیا گیا اور ان کی عصمت دری کی گئی۔ تقسیم کے وقت پنجاب میں جو قتلِ عام کیا گیا، وہ اسی لیے تھا تاکہ کسی بھی طرح سے وادئ کشمیر پر قبضہ کیا جاسکے۔ ایک بار وادی قبضے میں آ گئی، پھر لداخ، گلگت اور بلتستان کے پہاڑی سلسلے کو ہدف بنایا جاسکتا تھا اور شاہراہِ ریشم بھارت کے تسلط میں آجاتی۔
۷۰ سال پہلے جس قتلِ عام کی ابتدا جموں صوبے سے کی گئی تھی، آج پوری ریاست میں اسی طرح کا قتلِ عام مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اب چونکہ بھارت نے دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-الف کو ختم کر کے جموں وکشمیر کو مکمل طور پر بھارتی بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا ہے، تو صورتِ حال اور بھی خوفناک ہونے والی ہے۔ مذکورہ بالا دفعات کے ہوتے ہوئے اس بات کا کم از کم یقین تھا کہ بھارت کی کسی دوسری ریاست کا باشندہ کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔ لیکن ان کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ دیوار بھی درمیان سے ہٹ گئی ہے۔
اُمت مسلمہ کے المیے سے نجات کے لیے پہلی ضرورت ایسے نوجوان تیار کرنے کی ہے، جو قرآن عظیم، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسلک ہوںاور ہم عصر علوم پر بھی دسترس رکھتے ہوں، نیز اہل مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی صلاحیت و قابلیت رکھتے ہوں۔ اگر ہم نے ایسے نوجوان پیدا نہیں کیے تو ایک لاکھ حفاظ اور قاری بنالینے سے وہ قوت پیدا نہیں ہوگی جو مطلوب ہے۔
دُنیا میں کمیونٹیز کلب بنائےجاتے ہیں۔ یہودیوں نے ایجوکیشنل کلب بنایا ہے جس کا یہ کام ہے کہ پوری یہودی دُنیا سے دس ایسے نوجوانوں کا انتخاب کیا جائے، جو ذہین ترین بچّے ہوں اور پھر پوری یہودی کمیونٹی ان کی تعلیم پر خرچ کی ذمہ دار ہے۔ جب یہ دس نوجوان آگے بڑھتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایٹم بم بنانے والا نکلتا ہے اور کوئی ان میں سے چاندکی تسخیر کرنے والا نکلتا ہے۔ وہ کمیونٹی اپنے بچوں کو اس طرح تیار کرتی ہے کہ ’’یہی ہمارا مستقبل ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ماہرِفن بن گیا تو پوری دُنیا پر حکومت کرے گا‘‘۔
کیا کبھی ہم نے اپنے معاشرے میں ذہین ترین مسلمان بچوں کی تعلیم کے بارے میں کچھ سوچا ہے؟ کیا ہم نے اجتماعی طور پر یہ ذمہ داری قبول کی ہے؟آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ علم ان کو دیا جن کا آپؐ سے دُور پرے تک کوئی رشتہ ناتا نہ تھا۔ مسجد نبویؐ میں صفہ کا چبوترہ قائم کیاگیا تو وہاں کون پڑھ رہے ہیں؟ سلمان فارسیؓ، بلال حبشیؓ اور صہیب رومیؓ وہاں پڑھ رہے ہیں۔ گویا وہ لوگ وہاں پڑھ رہے تھے، جن کا آپؐ سے کوئی خون، برادری، قبیلے کا رشتہ ناتا نہ تھا، جو مفلوک الحال تھے، جو اسلام لانے سے پہلے یہودیوں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے، مگر علم سب سے زیادہ ان کے حصے میں آیا۔ اس لیے کہ اجتماعی نظام ان کی تعلیم و تربیت کے لیے سرپرستی کر رہا تھا۔
آج میری اور آپ کی سوچ تعلیم کے سلسلے میں گھر کی ڈیوڑھی پہ آکر رُک جاتی ہے۔ مجھے اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینیربناناہے۔ یہ میرے مقاصد ہیں، اس کے لیے میں دن رات ایک کردیتا ہوں کہ میرا بچہ ڈاکٹر یا انجینیر بن جائے۔ لیکن جو بچہ میرے اور آپ کے پڑوس میں ہے اور جو آپ کے بچّے سے زیادہ ذہین ہے، اس کی تعلیم کی کوئی ذمہ داری ہم نے اپنے سر نہیں لی ہوئی ہے۔ اس کے لیے اس کا باپ جانے یا اس کی ماں جانے۔ اگر اس کے باپ کے پاس تعلیم کے لیے پیسے نہیں ہیں تو یہ ہمارے مسلم معاشرے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کومٹ جانا یا برباد ہوجانا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ اس ذمہ داری کے لیے میں اور آپ کیا تعاون کرتے ہیں؟ ہم نے کتنے بچوں کی تعلیم کے لیے کبھی سوچا یا غور کیا ہے؟
ہماری اتنی محدود سوچ ہے کہ میرا بچہ وہ ہے جو میرے گھر میں پیدا ہوا ہے۔ یہ جو میرے پڑوس میں رہتا ہے، یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ اگر میرے پاس دولت ہے تو میرا بچہ کسی اعلیٰ اسکول یا گرامر اسکول میں جائے گا۔ اگر پڑوس میں کوئی ڈرائیور رہتا ہے اور اس کا بچہ ذہین ترین بچہ ہے، تو اس کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ وہ بوٹ پالش کرے گا یا گاڑیوں وغیرہ کی صفائی کرے گا۔ اس لیے کہ وہ اُمت کا بچہ نہیں ہے۔ یہ تو ڈرائیور کا بچّہ ہے، وہ جانے اور اس کا کام۔
ہم ان قوموں کا کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں جو پورے قومی وسائل خرچ کرکے ایک ایک بچّے کو اعلیٰ ترین سطح تک تعلیم دلواتے ہیں؟ یہی نظام ہمارے ہاں اسماعیلیوں اور بوہریوں کے اندر چل رہا ہے۔ یہ جو چھوٹی چھوٹی کمیونیٹیز ہیں، یہ سال میں دس دس بچوں کا انتخاب کرتی ہیں اور انھیں آگے لے جارہی ہیں، اور جو ہمارے ہاں بھیڑ ہے، اس کی بنیاد پر ہم انگلیوں پر صرف تعداد گنتے رہتے ہیں کہ ہم ۹۰ فی صد ہیں یا ۱۰ فی صد ہیں۔ شام میں ۳ فی صد، دروزی ۹۷ فی صد آبادی پر حکومت کر رہے ہیں۔ وہ ۹۷ فی صد ریت کا ڈھیر ہیں یا ریت کے ذرّات کی مانند ہیں۔ وہ کیوں حکومت کر رہے ہیں؟اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس لیے بہترین چیز جو آپ اُمت کو دے سکتے ہیں، وہ اُمت کے ذہین ترین بچوں کی تعلیم کی ضمانت ہے، براہِ کرم انھیں تعلیم کی اعلیٰ سطح پر لے جایئے۔ اگر ان میں سے ایک بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نکل آیا تو وہ ملک کو کہاں لے جاسکتا ہے۔ وہ ایٹمی پروگرام کے ساتھ سامنے آیا، اور ساری دُنیا اس کو تلاش کرتی رہی کہ اس کو اغوا کیسے کیا جائے؟ اس کو گولی کیسے ماری جائے اور اس کو کہاں سے اُٹھایا جائے؟ کبھی فرانسیسی سفیر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، اور کبھی کوئی دوسرا جاسوس۔ ان کی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح اس اُمت سے یہ ایک ڈاکٹر عبدالقدیر چھین لیا جائے۔ اگر یہ اُمت دس عبدالقدیر خان پیدا کردے تو پھر اندازہ کیجیے اس کی قوت کا!
ہم دینی تعلیم میں تخصص اور کمال (ایکسی لینس) کی نفی نہیں کر رہے۔ہم نے دین اور دُنیا میں اپنے نظامِ تعلیم کو تقسیم کردیا ہے۔ ہمیں تو دس نہیں پچاس عبدالقدیر خان کی ضرورت ہے۔جب تک یہ لوگ میسر نہیں آئیں گے، ہم ایک قوت نہیں بن سکتے۔ پھر یہ وہ لوگ ہیں جو دین کا شعور بھی رکھتے ہوں اور تربیت بھی اور ملک و ملّت کا درد بھی رکھتے ہوں۔ روحانی اور مادی وسائل کی یکجائی کے بعد ہی ہمیں سربلندی حاصل ہوسکتی ہے۔
یہ کس قدر بدبختی اور بدنصیبی کی بات ہے کہ ہم ایک دن میں ۲۰۰ روپے کی آئس کریم کھاجاتے ہیں، ۱۰۰ روپے کے سگریٹ پی جاتی ہیں لیکن اگر کسی چیز پر ہم رقم صرف نہیں کرتے تو وہ قوم کو تعلیم یافتہ بنانے کا مسئلہ ہے جس پر ہم رقم صرف نہیں کرتے۔ ہمیں کتاب مہنگی نظر آتی ہے، رسالے مہنگے نظر آتے ہیں، اخبار کا بل بہت بھاری دکھائی دیتا ہے، جب کہ وہیں بیٹھے بیٹھے ایک ہی محفل کے اندر کتنے ہی روپے کی کولڈ ڈرنک پی جاتے ہیں اور یہ سارے پیسے یہودیوں کی جیب میں ڈال دیتے ہیں اور ہم کو اس کا کوئی صدمہ نہیں ہوتا۔ صدمہ صرف علم کے نام پر خرچ ہونے والی رقم کا ہوتا ہے۔
یہ زوالِ علم ہے جو ہماری بربادی کا سبب ہے۔ جب علم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس ’علم‘ میں دینی علوم اور ہم عصر علوم، سب کے سب شامل ہیں۔ علم ان دونوں پر محیط ہے۔ خدا کرے کہ یہ شعور عام ہو اور اُمت مسلمہ سربلند ہو۔
یہ جو آپ محلات کے محلات بناتے چلے جارہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے مدائن صالح کے محلات کی طرف جو اشارہ کیا ہے، مجھے تو یہ وہی نقشہ نظر آتا ہے۔ یہ محلات آپ کی قوت نہیں بلکہ آپ کی کمزوریاں ہیں۔ جب آپ ایک عالیشان عمارت بنا لیتے ہیں تو وہ آپ کو قوت بہم نہیں پہنچاتی بلکہ وہ آپ کو کمزور کردیتی ہے۔ یہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ اگر جنگ چھڑگئی اور ایک گولہ بھی اسے آکر لگ گیا تو یہ عالیشان عمارت ملبے کا ڈھیر ثابت ہوگی اور برباد ہوجائے گی۔ یہ عمارات اور یہ سارا سازوسامان قوموں کے زوال کی علامت ہے، ان کی ترقی کی علامت نہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ پیدل چل رہے ہوں اور آپ کے کندھے پر ایک چھوٹا سا تھیلا رکھ دیا جائے تو آپ کی رفتار اگر پانچ کلومیٹر ہوگی توو ہ ڈھائی کلومیٹر فی گھنٹہ رہ جائےگی۔ اگر آپ کے ہاتھ میں دو تھیلے تھما دیئے جائیں تو آپ کی رفتار اور بھی کم رہ جائے گی۔ اسی طرح جب کسی قوم پر تمدن کا بوجھ بڑھتا ہے، تو اس میں ٹھیرائو آجاتا ہے۔ وہ سمٹنے لگتی ہے، غالیچے بچھنے لگتے ہیں اور بالآخر قومیں ختم ہوجاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قومیں بدویت اور سادگی مگر وقار کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔
ترقی کیا ہے؟ ہم نے اتنی عمارتیں بنالی ہیں، پچھلے سال اتنی تھیں___ عمارتیں، کاریں، فریج یا ٹیلی ویژن وغیرہ یہ کوئی قوت نہیں ہیں۔ یہ سب زوال کے اسباب ہیں۔ اگر آپ کے ملک میں چپل تیار کرنے والا کارخانہ لگ جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترقی ہے۔ اگر ایک سوئی بنانے والا کارخانہ لگ گیایا پلاسٹک کا کھلونا بنانے والا کارخانہ لگ گیا تو یہ ترقی ہے۔لیکن اگر صنعتی پیداوار اور سائنسی ترقی نہیں ہے اور دُنیا بھر کے کھلونے آجائیں یا کاریں آجائیں تو یہ قوت نہیں کمزوری ہے۔ طاقت جس چیز کا نام ہے وہ ان عمارتوں میں ہے، نہ سازوسامان میں بلکہ اخلاقی قوت کی معراج اور مادی پیداوار میں عادلانہ، منصفانہ اور انسانیت دوست ترقی کو بڑھانے میں ہے۔ خدا کرے کہ ہم بحیثیت اُمت اس ذمہ داری کو پورا کرسکیں۔
اس وقت ہم ڈکیتی، لُوٹ مار ، جعل سازی، دھوکا دہی اور ٹیکس چوری وغیرہ کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بدنصیبی دیکھیے کہ جب امریکا سے بہت زیادہ ناراض ہوئے تو کہتے رہے کہ اس سے رسّہ تڑوائو، یہ ہمارا استحصال کررہا ہے اور روس کی طرف چلنے لگے۔ جب روس کے کمبل نے بہت زیادہ پریشان کیا تو اُسے اُتارنے کی کوشش میں امریکا کی طرف چلے گئے۔ مصر کا المیہ کیا ہے؟ ناصر کے دور میں ماسکو کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزرا، لیکن جب سادات آئے تو کہا کہ ہم تو مارے گئے، برباد ہوگئے اور ہمارا ملک بھی چلا گیا۔بڑا زور لگایا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ امریکا میں سجدئہ سہو ہوا اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوگیا۔ مراد یہ ہے کہ ایک لعنت سے بچتے ہیں تو دوسری لعنت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسروں پر انحصار کے نشے میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ہم کسی کے سہارے کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ جب تک ہم ان بیساکھیوں کو ترک نہیں کریں گے، ہم اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ سوال پیدا ہوگا کہ گاڑی اور پٹرول کہاں سے آئے گا؟ دشمن ملک سے لڑنے کے لیے اسلحہ کہاں سے آئے گا؟اپنی حفاظت کے لیے سازوسامان کہاں سے مہیا ہوگا؟ موجودہ صورتِ حال میں بہرحال ہمیں بھکاری ہی بن کر رہنا پڑے گا۔ کشکول لیے کبھی ایک کے دروازے پر اور کبھی دوسرے کے دروازے پر۔ جب تک یہ کشکول نہیں چھوٹے گا اور جب تک ہمارے ہاتھوں میں یہ قوت پیدا نہیں ہوگی کہ ہم ان چیزوں کو خود تیار کرسکیں جو ہم دُنیا سے مانگتے ہیں۔ اُس وقت تک ہمارے پاس قوت نہیں آئے گی اور عزّت کے ساتھ زندہ رہنے کا طریقہ سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے دینی ذوق اور فہم میں ترقی کے ساتھ جدید تعلیمی میدان میں شان دار پیش رفت ضروری ہے، جس کے لیے ہمارے معاشرے کو آگے بڑھ کر سرپرستی کرنا ہوگی۔
انسانوں کی شناخت، اجتماعیت پسند مخلوق کے طورپر کی جاتی ہے۔ وہ سماجی تعلقات کو قائم رکھتے ہوئے معاشروں کی صورت میں پروان چڑھتے ہیں۔ جوچیز انھیں دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے، وہ اخلاقی بنیادوں پر صحیح اور غلط کے درمیان تمیزکرنے کی صلاحیت ہے۔ انسان میں یہ اخلاقی صفت اس لیے ودیعت کی گئی ہے تاکہ اس میں کردار سازی کا عمل بتدریج نشوونماپاکر راسخ ہوجائے۔ جس سے ایک معاشرے کا قیام ممکن بنایا جاسکے، جہاں وہ مل جل کر رہ سکیں اور ترقی کرسکیں۔ لوگوں میں اس آگہی اور کردار سازی کا مقصد صرف انسان کی تشکیل نہیں ہے بلکہ انھیں گراں قدر کردار کا حامل بنانا بھی ہے۔ عصرِحاضر میں ’قابلِ قدر‘ (valuable)کی اصطلاح سے مراد عموماً مادی افادیت لی جاتی ہے۔ وہ تعلیمی ادارے جہاں ہم تعلیم پاتے ہیں، وہ یونی ورسٹیاں جہاں ہم تحصیلِ علم کرتے ہیں اور جو قابلیت حاصل کرتے ہیں، وہ ہمیں مالی وسائل اور مادی فوائد کے حصول کے ساتھ ساتھ اس دُنیا میں اپنے وجود کی بقا کے لیے صلاحیتوں سے آراستہ کرتے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم بنیادی طور پر مادیت پرستی کے مقاصد کے حصول کے ایک ذریعے میں تبدیل ہوگئی ہے، جس نے کردار سازی کے اپنے بنیادی مقصد کو دُنیوی مفادات کے حصول کی بے رحم جدوجہد میں پس پشت ڈال دیا ہے۔ معاشروں کے ارتقائی سفر کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ ان کا آغاز نامعلوم غیریقینی صورت حال اور خطرات سے بچنے کی خواہش سے ہوا تھا۔ جانوروں سے لاحق خطرات اور غیرمتوقع قدرتی آفات نے انسانوں کو معاشروں کی تشکیل پر مجبور کیا۔ اس کے برعکس، عصری منظرنامے سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے آباواجداد جن خطرات سے دوچار تھے وہ ختم ہوچکے ہیں، لیکن سب سے زیادہ اذیت ناک منظرنامہ یہ ہے کہ موجودہ دور کے انسان اپنے ساتھی انسانوں کے لیے اہم خطرہ بن چکے ہیں۔
عصری معاشروں میں بُرائیوں کی بھرمار ہے، اور قومیں غیراخلاقی تنازعات میںا ُلجھی ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے کا خوف سماجی تعلقات میں بڑی گہرائی تک سرایت کرگیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ا نسانی ارتقا کی تاریخ میں کیا انحراف ہوگیا ہے؟ ہم جس طرح سے افراد کی تشکیل کرتے ہیں، اس مشق میں پوشیدہ اور پائی جانے والی خامی واضح طور پر عیاں ہے۔ جس کا تشویش ناک پہلو یہ ہےکہ ہمارا تعلیمی نظام جو ہماری نسلوں کو ڈھالتا ہے اور جو نتائج برآمد کرتا ہے بڑی بے بسی سے اس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ بات بڑے دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتی ہے اور اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیمی ڈھانچہ افراد کے کردار کو مستحکم کرنے میں بُری طرح ناکام ہوا ہے، جس کے فطری نتیجے میں سماجی انتشار اور باہمی اختلافات نے جنم لیا ہے۔ تعلیم باہمی احترام کے لیے رہنمائی کرتی ہے۔ یہ محض روزگار کے تحفظ کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ روشن خیالی کے سرچشمے کی خدمت بھی انجام دیتی ہے۔ تعلیم سے پیدا ہونے والی اخلاقی، صبروتحمل اور برداشت کی قوت ایسی ہونی چاہیے کہ افراد اخلاقی اصولوں پر پوری ثابت قدمی سے جمے رہیں، یہاں تک کہ قانون کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے کے واضح امکانات بھی موجود ہوں۔
اگر ہماراتعلیمی نظام اپنے اصل مقصد پر قائم رہتا تو شاید ہم ایک پُرسکون معاشرہ تشکیل دے پاتے۔ وسیع پیمانے پر پائی جانے والی معاشرتی خرابیاں اور بدعنوانی ایک روایتی عمل اور معمول بن چکا ہے۔ مگر اس میں بھی جو چیز پریشان کن ہے، وہ وسیع پیمانے پر پایا جانے والا ایسا تصور ہے کہ سماجی تعلقات میں باہمی انحصار تو بہت کم ہے، مگر اس کے باوجود یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہرفرد کردار کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھے۔ یہ تضاد واقعی حیران کن ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہم بدقسمتی سے ایسے واقعات دیکھتے ہیں جہاں خواتین اور بچوں کو شدید مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات کو میڈیا پر بڑے پیمانے پر پیش کیا گیا ہے، مگر اس کے باوجود ظالموں کو ان کے بااثر حلقوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے خلاف جنسی زیادتی، بچوں کے ساتھ بدسلوکی، یا بے گناہ افراد کا بلاجواز قتل اور وسیع پیمانے پر ملاوٹ و جعل سازی اور تعمیراتی منصوبوں میں ناقص میٹریل کا استعمال جیسے واقعات کا ارتکاب دراصل سماجی حلقوں میں طاقت ور مجرموں کے اثرورسوخ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان مجرموں کو جو ہمارے درمیان رہتے ہیں، مثالی سزائیں نہیں دی جاتی ہیں، جس سے فائدہ اُٹھاکر وہ وحشیانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پھر اس سے بھی زیادہ پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ ایسے غیرانسانی رویے کے مرتکب لوگ بغیرکسی شرم کے، بڑی آن بان سے زندگی گزارتے ہیں۔ کیا ہم واقعی ایک پڑھے لکھے معاشرے میں رہ رہے ہیں؟ کیا تعلیم اس نوعیت کے افراد کو معصوم شہریوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنے کی اجازت دیتی ہے، جو ایک دن ان کے جرائم کا شکار ہوسکتے ہیں؟ دوسری طرف، ریاست کے لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ وہ تن دہی سے عوام کی خدمت کررہے ہیں، اس کے باوجود عوام نے سماجی اور سیاسی معیارات میں انحطاط دیکھا ہے۔ اگر قیادت کے نزدیک واقعی سب کچھ ٹھیک ہے، تو پھر ہم اُن کے دعوئوں اور وعدوں کے مطابق سہولیات کی فراہمی میں ناکامی کا مشاہدہ کیوں کرتے ہیں؟
بلاشبہہ، تعلیمی نظام افراد کو مؤثر رہنما بنانے میں ناکام رہا ہے، جس کے نتیجے میں قیادت کا خلا پیدا ہوا ہے۔ اگر نوجوانوں کی خواہشات کا جائزہ لیں، تو آپ کو بے پناہ دولت اور بے مثال شہرت کی مشترکہ خواہش ملے گی۔ کیا تعلیم کا وجود صرف ایسے افراد کی آبیاری کے لیے ہے، جو دولت اور شہرت کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس سے بھی زیادہ دل شکنی کی بات یہ ہے کہ بقائے باہمی، سب کے لیے انصاف، متنوع نقطۂ نظر کا احترام اور صحیح کی تعریف کرتے ہوئے غلط کام کی مذمت کرنے کی اخلاقی قوت جیسی خوبیوں کا موجودہ دور سے کوئی تعلق نہیں نظر آتا ہے۔
سماجی ترقی اور خوش حالی کے فروغ کے لیے کردار سازی پر مبنی تعلیم کو ترجیح اوّل قرار دینا ناگزیر ہے۔ یہ بات کوئی آئیڈیل ازم کی اپیل نہیں ہے۔ ایسے افراد کو پروان چڑھانا اور ان کی شخصیت کی تعمیر کرنا مکمل طور پر ممکن ہے، جن کی اعلیٰ اخلاقی اقدار انھیں معاشرے کا مثالی رکن بناتی ہیں۔ ایمان داری کو حصولِ تعلیم میں بنیادی قدم کے طور پر اُبھارنا چاہیے۔ باقی تمام خوبیاں کسی فرد کے کردار کی ایمان داری سے پیدا ہوتی ہیں، سماجی تعلقات میں انقلاب برپا کرتی ہیں اور انفرادی اور سماجی ترقی کو فروغ دیتی ہیں۔
کردار کی ایمان داری کی بنیاد، خامیوں کو تسلیم کرنے اور ذاتی ترقی کے لیے کوشش کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس سے ہر ایک کو فائدہ ہوتا ہے۔ کردار سازی کے لیے تعلیم کا مقصد انصاف قائم کرنا ہے اور اس کا آغاز خاندان کے اندر سے ہوسکتا ہے۔ بچوں کو اپنے ساتھیوں کے حقوق کا احترام کرنے کی اہمیت سکھانا بہت ضروری ہے۔ والدین کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ ان حقوق کی خلاف ورزی کا نتیجہ اُن میں انسانیت کے خاتمے کا ہم معنی ہے۔
ہماری نسل کو ایک ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو مستقبل کے لیڈروں میں اپنی ناکامیوں کا احتساب کرنے کی جرأت پیدا کرے اور اگر وہ ناکام ہوجائیں تو اقتدار سے دستبردار ہونے پر آمادہ ہوجائیں۔ کردار کے لیے تعلیم خواتین کے احترام کو ترجیح دیتی ہے اور بچوں کے لیے محبت کی پرورش کرتی ہے۔ ان کے خلاف منفی رجحانات کو ختم کرتی ہے اور ایک محفوظ،زیادہ سازگارسماجی ماحول کو فروغ دیتی ہے۔ اخلاقی تعلیم ایسے معاشرے کو فروغ دیتی ہے،جہاں افراد اجتماعی طور پر بدسلوکی کے خصائل کو مسترد کرتے ہیں اور پاکیزگی و دیانت کو اپناتے ہیں، اور ہم آہنگی کے ساتھ بقائے باہمی کے لیے شمولیت کو فروغ دیتے ہیں۔کردار کے لیے تعلیم کو ترجیح دینے والے معاشرے میں نفرت، منفی تنقید اور بہتان تراشی جیسی بُرائیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ کردار سازی کے لیے تعلیم سے امن و سکون میسر آتاہے۔ لوگوں کو قناعت کی ترغیب ملتی ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے، اس پر مطمئن رہیں۔ کردار سازی کی تعلیم ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے کی غیرصحت مند خواہش کو کم کرتی ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ یہ وہ ماحول ہے جہاں ہمارے بچّے نشوونما پائیں گے، آگے بڑھیں گے اور جوان ہوں گے۔ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ایک ایسا سماجی نظام قائم کریں جہاں انصاف، دیانت، کردار اور انسانیت سے محبت معیار بن جائے۔ اس کے بغیر، سماجی تانے بانے کا نازک ڈھانچہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ جیسا مکروہ قانون کے سامنے بے بس ہوجائے گا، جو معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دے گا۔
پاکستان کے سرسبز و شاداب کھیتوں پر مبنی منظرنامہ جو اپنی پیداواری صلاحیت کے لیے معروف اور مسرت و سرشاری کا باعث ہے، آج ایک زبردست چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ زرعی فضلے کا تشویش ناک مسئلہ اور سموگ کے بڑھتے ہوئے بحران کا اہم سبب ہے۔ اس پیچیدہ مسئلے کی جڑیں روایتی کاشتکاری کے طریقوں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور فضلہ کی تلافی کی مؤثر حکمت عملیوں کے فقدان سے جڑی ہوئی ہیں۔ چونکہ پاکستان کو زرعی فضلے کو جلانے سے سموگ کے بحران کا سامنا ہے، اس لیے ایسے پائیدار حل کی فوری ضرورت ہے، جو آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں درپیش چیلنج کا سامنا کرسکے۔
پاکستان میں کسان محدود متبادل ذرائع کی وجہ سے روایتی طریقوں کو اپنانے پر مجبور ہیں اور اکثر پائیدار طریقوں کے بارے میں فہم نہیں رکھتے۔ نتیجتاً زرعی فضلہ تلف کرنے کے لیے جلانے کے پرانے طریقہ کا سہارا لیتے ہیں۔ گنے، گندم اور چاول جیسی فصلوں کی باقیات کو جب آگ لگائی جاتی ہے تو فضا میں آلودگی کا ایک نقصان دہ کاک ٹیل خارج ہوتا ہے۔ سموگ دراصل دھوئیں اور دھند کا ایک خطرناک امتزاج ہے جو فضا اور صحت عامہ کے لیے شدید خطرہ ہے۔ سموگ کی تشکیل سے بہت سے مضر نتائج سامنے آ رہے ہیں، جن میں زمین کی زرخیزی کا متاثر ہونا، قیمتی غذائی اجزا کا نقصان اور کسانوں کی صحت کو لاحق خطرات براہِ راست سموگ اور اس فضا کا نتیجہ ہیں۔
پاکستان میں زرعی فضلہ کی صحیح مقدار کا تعین کرنا کاشتکاری کے مختلف طریقوں اور فصلوں کی پیداوار میں تغیر کی وجہ سے ایک مشکل کام ہے۔ تاہم، مختلف اندازوں کے مطابق سالانہ لاکھوں ٹن زرعی فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر صرف گندم کے بھوسے کی پیداوار کا تخمینہ ۳۵سے ۴۰ملین ٹن سالانہ ہے۔ فضائی آلودگی اور سموگ پاکستان میں خاص طور پر شہری اور صنعتی علاقوں میں ایک بڑی ماحولیاتی تشویش کا باعث بن چکے ہیں۔ گاڑیوں سے دھوئیں کا اخراج، صنعتی آلودگی اور زرعی فضلے کے جلانے سے زہریلے مرکبات سے فضا بہت زیادہ آلودہ اور زہرناک ہے۔ سموگ نہ صرف بینائی کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے سانس کے مسائل، دل کے امراض اور دیگر سنگین بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سموگ سے متعلقہ مسائل کا حل بائیو ریفائنریوں کے قیام سے ممکن ہے۔ اس سے مراد زرعی فضلہ کو مفید مصنوعات میں تبدیل کرنے کے لیے حکمت عملی کے ساتھ ڈیزائن کی گئی سہولیات ہیں۔ اس نقطۂ نظر کا مقصد زرعی فضلہ کو قیمتی وسائل میں تبدیل کرنا ہے اور کسانوں کو فصلوں کی باقیات کو جلانے کے نقصان دہ عمل سے بچانے کے لیے معاشی طور پر قابلِ عمل متبادل فراہم کرنا ہے۔ بائیو ریفائنریاں ایک کیمیائی محلول پر کام کرتی ہیں جو زرعی فضلے میں موجود مفید سیلولوز اور سائیکلک مرکبات کی صلاحیت کو زیراستعمال لاتی ہیں۔ جدید ٹکنالوجی سے ان مرکبات کو صنعتی عمل میں ڈھال کر چپ بورڈز اور بائیومیٹریلز جیسی مصنوعات تیار کی جاسکتی ہیں۔ یہ ٹکنالوجی سموگ کے بحران کو کم کرتی ہے اور ایک پائیدار اور ترقی پذیر معیشت کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ڈنمارک کی ڈونگ انرجی ایک بائیور ریفائنری چلاتی ہے، جو زرعی باقیات، جیسے بھوسے کو بائیوایتھانول میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ عمل فضلہ کو استعمال کرکے نہ صرف کاربن کے اثرات کو کم کرتا ہے بلکہ بایوایندھن کو ایک پائیدار ذریعہ بناکر معاشی خوش حالی میں بھی حصہ ڈالتا ہے۔ اسی نوعیت کے پلانٹ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ’بائیوانرجی‘ تیار کرتے ہیں جو زرعی باقیات بشمول مکئی کے خالی سِٹوں کو سیلولوسک ایتھنول میں تبدیل کرتا ہے۔جنوبی افریقہ میں ساپی کی نگوڈوانا انرجی بائیو ریفائنری توانائی پیدا کرنے کے لیے جنگلات کی صنعت سے حاصل ہونے والے فضلہ کو استعمال کرتی ہے۔ قابلِ تجدید وسائل کو استعمال کرتے ہوئے، یہ بائیوریفائنریاں صنعت میں روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہیں اور روایتی ایندھن کے بہتر متبادل کی پیداوار کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے اور اقتصادی خوش حالی کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔
کمپریسڈ مشینوں کے استعمال اورکیمیائی عمل سے ایک مکینیکل حل نکلتا ہے۔ یہ مشینیں زرعی فضلہ کی بڑی مقدار کو مربوط شکلوں میں تبدیل کرسکتی ہیں اور دوبارہ تیار کرنے میں سہولت فراہم کرتی ہیں، جسے بآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ کمپریسڈ باقیات جلانے کے روایتی عمل سے ہٹ کر ایک صاف اور مؤثر ایندھن کے طور پر کام کرسکتی ہیں۔ کمپریسنگ ٹکنالوجی نہ صرف سموگ کی فوری تشویش کو کم کرتی ہے، بلکہ ایک زیادہ پائیدار اور ماحول دوست طریقہ کی طرف منتقلی کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ کمپریسڈ زرعی فضلہ کا ایندھن کے طور پر استعمال، فوسل ایندھن پر انحصار کو کم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سموگ کے بحران میں اضافہ کرنے والی نقصان دہ آلودگی کے اخراج کو بھی روکتا ہے۔
پاکستان میں سموگ کے بحران کے بنیادی اسباب سے نمٹنے کے لیے علاقائی بائیو ریفائنریوں کے قیام کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ فی الحال، متبادل ذرائع نہ ہونے اور عجلت پسندی کے سبب کسان بائیوفضلہ کو ٹھکانے لگانے کے لیے جلانے کو واحد قابلِ عمل حل سمجھتے ہیں۔ حکومتی اقدامات اور پرائیویٹ سیکٹر بائیو ریفائنریوں کے فروغ اور معاونت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ کسانوں کو ایسے متبادل فراہم کرسکتے ہیں، جو فضلہ کے مسئلے کو حل کریں اور روزگار کی فراہمی میں مثبت کردارادا کریں۔ کاشت کاروں کو بائیو ریفائنریوں کے فوائدکے بارے میں آگاہ کرنا اور انھیں ضروری آلات اور وسائل سے آراستہ کرنا ایک پائیدار مستقبل کی جانب لازمی اقدام ہے۔ اس تبدیلی کے لیے ایک اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے، جس میں پالیسی ساز، زرعی ماہرین اور کسان برادری شامل ہوں۔ بائیو ریفائنری کے طریقوں کو اپنانے کے طویل مدتی فوائد کے بارے میں بیداری پیدا کرنا، جلانے کے روایتی چکّر کو توڑنے اور زیادہ پائیدار اور ماحولیاتی نظام کی ابتدا کے لیے ناگزیر ہے۔
سموگ کے بحران کے پیش نظر، پاکستان کو اس مسئلے پر فوری توجہ دینے اور ٹھوس کوششوں کا احیا ناگزیر تقاضا ہے۔ بائیو ریفائنریز کو اپنانا، آگاہی مہموں اور ایکسپورٹ پالیسی کے ساتھ، نہ صرف فوری مسائل کو کم کرنے ، بلکہ زرعی فضلے کو قیمتی وسائل میں تبدیل کرنے اور ملک کے لیے صحت مند اور پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے کی کلید ہے۔ حقائق پر مبنی اعداد و شمار اس مسئلے کی طرف فوری توجہ کا تقاضا کرتے ہیں، اور مقامی اور قومی سطح پر باہمی اور مؤثر حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
انصاف، حکومت کی روح ہے۔ ’انصاف تک رسائی‘ کی اصطلاح جن معنوں میں سمجھی اور استعمال کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی شخص اور اس کی ذات یا جائیداد کے ساتھ کی گئی نا انصافی کے ازالےکے لیے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کی خاطر عدالتی اداروں سے رجوع کیا جائے۔
پاکستان کے آئین کے دیباچہ میں، جو بنیادی طور پر ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کی ’قرارداد مقاصد‘ پر مبنی ہے، جسے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا، یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ آئین بنیادی حقوق کی ضمانت دے گا، جن میں حیثیت، مواقع اور قانون کے سامنے مساوات و برابری ہوگی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل ہوگا۔ سوچ، اظہاررائے ، عقیدہ، ایمان، عبادت اور اجتماع اور تنظیم سازی کی آزادی ہوگی، بشرطیکہ وہ قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں ہوں ۔
اس میں عدلیہ کی خود مختاری کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جو انصاف تک رسائی کے لیے ایک ناگزیر لازمہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۳۷ ریاست کے لیے یہ ہدف متعین کرتا ہے کہ وہ سستا اور تیز تر انصاف کو یقینی بنائے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین، ریاست کی عدالتی طاقت کو استعمال کرنے والی عدالتوں اور دیگر ٹربیونلوں کے قیام کے لیے وسیع تر انتظامات کرتا ہے۔ عدالتی اہرام کی چوٹی پر سپریم کورٹ آف پاکستان ہے ،جو اپیل اور اصل دائرہ اختیار کا استعمال کرتی ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت سترہ جج ہیں۔ پانچ ہائی کورٹ ہیں، چاروں صوبوں میں ایک ایک اور اسلام آباد دارالحکومت علاقے کے لیے ایک۔ صوبائی ہائی کورٹس میں ان کی بنیادی نشستوں کے علاوہ دیگر جگہوں پر بنچ ہوتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں تین بینچ ہیں، جہاں ججوں کو ایک سال کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے بنچ سکھر میں اور سرکٹ بنچ حیدرآباد اور لاڑکانہ میں ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے بنچ سبی اور تربت میں ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان اور مینگورہ سوات میں بنچ ہیں۔ ہائی کورٹوں کے پاس آئینی، اپیل اور نظرثانی کا دائرۂ اختیار ہے۔ ان بنچوں کے قیام کا مقصد فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔
ریاست اور صوبے کی سطح پر درج بالا آئینی اور اپیلیٹ عدالتوں کے علاوہ، ضلع اور سیشن کی سطح پر صوبائی قوانین کے تحت دیوانی اور فوجداری عدالتیں بھی موجود ہیں۔ عدالتوں کی ایک بڑی تعداد خصوصی قوانین کے تحت بنائی گئی ہیں۔ مثلا: انسداد دہشت گردی کی عدالتیں، بنکنگ کورٹ، کسٹم کے لیے خصوصی عدالت، انسداد منشیات کی عدالتیں وغیرہ۔یہ تمام عدالتیں آئین کے تحت تین ضروری کام انجام دیتی ہیں: پہلا اور سب سے اہم مسئلہ افراد کے درمیان یا ریاست اور افراد کے درمیان تنازعات کا حل ہے۔ یہاں ریاست کا مطلب حکومت کی ایک شاخ ہے۔
دوسرا، عدالتیں حکومت کی ایگزیکٹو اور قانون ساز شاخوں کے خلاف، عوام کے بنیادی اور آئینی حقوق کو نافذ کرنے اور ان کی حفاظت کرنے کی پابند ہیں۔ یہ آئینی عدالتوں،ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ، کا دائرۂ کار ہے ، اور یہ عدالتی یا آئینی نظرثانی کے اختیارات انھیں آئین پاکستان کے آرٹیکل ۸، ۱۸۴ (۳) اور ۱۹۹ کے تحت حاصل ہیں۔
ان آئینی عدالتوں کا تیسرا اور سب سے مشکل کام آئین کا دفاع اور نفاذ ہے۔ چونکہ عدلیہ کے پاس نہ دولت ہے نہ ہتھیار، بلکہ صرف اخلاقی اختیار ہے، اس لیے یہ کام مکمل طور پر آزاد اور نڈر ججوں پر منحصر ہے۔ جو لوگ دوسروں کا فیصلہ کرنے بیٹھتے ہیں اور خودبھی چاہتے ہیں کہ عوام کی عدالت سے ان کا فیصلہ ہو تو یہ ضروری ہے کہ ان کا اپنا دامن صاف ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے حکومت کی دیگر شاخوں کی طرح عدالتی شاخ بھی احتساب سے اپنے پاؤں سمیٹ رہی ہے۔ گذشتہ ۷۵ برسوں میں ہائی کورٹوں کے صرف تین ججوں کو بددیانتی کے الزامات ثابت ہونے پر ہٹایا گیا۔
پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں مختلف اداروں کے جمع کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کا انبار معاملات کی افسوسناک حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ دیگر عدالتوں میں بھی ہزاروں مقدمات اور اپیلیں زیر التوا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق عام طور پر کسی کیس کو اپنے آخری عدالتی مراحل مکمل کرنے میں ۲۰ سال لگتے ہیں۔
پاکستان میں انصاف تک رسائی تین بنیادی وجوہ کی بنا پر حاصل کرنا مشکل ہے: ایک، عدالتوں اور ججوں کی خاطر خواہ تعداد فراہم کرنے کے لیے ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ سال ۲۰۰۰ء کے اوائل میں ۳۵۰ ملین ڈالر سے زیادہ کا قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔ قرض، عدالتوں میں نوآبادیاتی ہارڈویئر اور فرنیچر کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ذیلی عدالتی افسروں کی تربیت پر بہت ہی کم رقم خرچ کی گئی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اور ذیلی عدلیہ کے لیے مختص شدہ سالانہ بجٹ بنیادی طور پر تنخواہوں، پنشن اور دیگر مراعات پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس طرح انصاف کی فراہمی کے نظام کی بہتری کے لیے بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔
دوسرا، عدالتی نظام، جو کہ پہلے سے کمزور اور انتہائی غیر محتسب ہے، اسے انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فوجداری اور دیوانی مقدمات کی فہرست جھوٹے، فضول اور چھوٹے موٹے مقدمات سے بھری پڑی ہے۔ اس بڑے التوا کے لیے ہمارے بلا وجہ کے ’مخاصمتی رویے‘ بہت حد تک ذمہ دار ہیں، جو اصل حق داروں کو فوری انصاف تک رسائی سے محروم رکھتے ہیں۔
تیسرا، ریاستی ادارے بھی بنیادی طور پر ایگزیکٹو برانچ اور کسی حد تک قانون ساز اور عدالتی شاخیں، انصاف تک رسائی میں رکاوٹ کی ذمہ دار ہیں۔ اگر عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا سروے کرایا جائے، تو ایگزیکٹو برانچ، وفاقی اور صوبائی دونوں، پاکستان میں سب سے زیادہ مقدمہ چلانے والے ثابت ہوں گے۔ یہ بنیادی طور پر دو وجوہ کی بنیاد پر ہے: ایگزیکٹو طاقت پر اندرونی جانچ پڑتال کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔ چونکہ ریاستی عہدے داروں کو حاصل اختیارات زیادہ تر صوابدیدی ہیں، جس کے نتیجے میں بدعنوانی اور کرپشن ایک لامتناہی قانونی چارہ جوئی میں تبدل ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ لائسنس کلچر، پبلک کنٹریکٹس ، پولیس کی طاقت کا غلط استعمال اور کاروبار اور تجارت کے ضابطے سب وہ صوابدیدی اختیارات ہیں، جو قانونی چارہ جوئی کی بنیادی وجہ بنتے ہیں۔
مقننہ تو قوانین کم ہی غور و فکر کر کے پاس کرتی ہے۔ قانون سازی کے طریق کار پر عمل کیے بغیر راتوں رات دسیوں قوانین منظور کر لیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ تقریباً ہر قانون، اصول اور ضابطے کو عدالتوں میں چیلنج کیا جارہا ہوتا ہے۔ عدلیہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے بر بنائے ’جوڈیشل ایکٹوازم‘ (عدالتی فعالیت)، سیاسی مسائل اور ’پالیسی ڈومین‘ میں اُلجھی ہوئی ہے۔ اسی ’عدالتی فعالیت‘ نے سیاسی اور پالیسی سازی کے عمل میں مداخلت کرکے عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔
فوری اور سستے انصاف تک رسائی، چند بنیادی تبدیلیاں کرکے اور کچھ عملی اقدامات اٹھا کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک تو، پورے برصغیر میں جرگہ/پنچایت کے ادارے ہوا کرتے تھے، جو کامیابی سے فوری اور سستا انصاف فراہم کرتے تھے۔ تمام چھوٹے مسائل (بکری کی چوری، جائیداد کے چھوٹے موٹے جھگڑے وغیرہ) ان پنچایتوں میں جا سکتے ہیں۔ ہندستان میں، ان پنچایتوں کو آئینی شناخت اور تحفظ حصہ IX (نہم) ہندستانی آئین کے تحت دیا گیا ہے۔ اس سے سماجی ہم آہنگی اور سماجی اداروں کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ یہاں تک کہ خاندانی جھگڑے بھی ان اداروں کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارا عائلی قانون، ثالثی کونسل کا انتظام کرتا ہے، لیکن ہمارے مخاصمتی رویوں کی وجہ سے یہ ناکام ہو چکا ہے۔ مندرجہ بالا سماجی اداروں کے علاوہ، ریاست کو تنازعات کے حل کے لیے متبادل طریقوں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
عدالتوں کو ’حقیقی‘ اور ’مثالی اخراجات‘ دینا شروع کر دینے چاہییں۔ اخراجات کی گرانٹ کا کوئی رواج نہیں ہے۔ وکلا اور قانونی چارہ گر کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب میں جہاں عدالتیں اصل اخراجات دیتی ہیں، وکلا اور مدعیان غریب نہیں مرتے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اخراجات کا سرٹیفکیٹ طلب کرنا شروع کر دیا ہے۔جلد ہی وہ ’اصل اخراجات‘ دینا شروع کر دیں گے۔ علاوہ اَزیں سپریم کورٹ نے بھی فضول قانونی چارہ جوئی پر اخراجات عائد کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اب اسے چاہیے کہ متاثرہ فریقوں کو ’اصل اخراجات‘ دینا شروع کردے۔
ریاست کو عدلیہ کے لیے مزید وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ ججوں کی میرٹ پر شمولیت اور وسائل کی مناسب اور متناسب تقسیم، انصاف کی فراہمی کے نظام کو تیز تر اور سستا بنائے گی۔
عورت کے بغیر انسانی معاشرے کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گھر بنتا ہی عورت سے ہے۔ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ کوئی گھر بغیر عورت کے وجود میں آسکے، اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ کوئی معاشرہ عورت کی کوشش، دخل اور اثر کے بغیر بن یا بگڑ سکے۔
مردوں عورتوں کی تعداد تقریباً ہر زمانے میں برابر رہتی ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عورت کمزور ہے اور مرد طاقت ور۔ اس لیے جب مرد اور عورت مل جل کر رہتے ہیں، تو مرد کی مرضی پوری ہوکر رہتی ہے۔ لیکن اگر حالات کو ذرا گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو معاملہ برعکس ہے۔ مرد باوجود طاقت ور ہونے کے ہرمعاملے میں بالکل بے بس ہے، جب تک یہ ’کمزور‘ مخلوق اپنا دلی تعاون پیش نہ کردے۔ گویا مرد کی مرضی نہیں بلکہ عورت کی مرضی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ وہ سب پر چھا جاتی ہے اور سب کو اپنا مطیع وفرماں بردار بنا لیتی ہے۔
عورت میں سختی کے بجائے لچک ہے۔ ظاہر ہے کہ سخت چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں لیکن لچک دار چیزیں عارضی طور پر جھک تو جاتی ہیں، لیکن ٹوٹتی نہیں۔ فرعون باوجود ’فرعون‘ ہونے کے حضرت آسیہ کو اپنی راہ سے نہ روک سکا، بلکہ خود اپنے لائولشکر سمیت غرق ہوگیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے جب اپنی خوشی سے آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیکی اورپرہیزگاری کو قبول فرما لیا تو قوم اور خاندان کی مخالفت یا اپنے تمدن یا معاشی مرتبے کا خیال ان کی راہ میں کچھ بھی مزاحم نہ ہوسکا۔ اسی طرح کوئی عورت اگر بگاڑ پر تُل جائے تو پیغمبر ؑ تک اس کی اصلاح نہیں کرسکتے۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہم السلام کی بیویوں نے غلط منصوبے باندھے اور غرق یا تباہ ہونے تک انھی پر اَڑی رہیں۔
ہے تو سب کچھ اللہ کے اختیار میں، کہ وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ لاریب، جب کسی قوم کے بھلے دن آتے ہیں تو اس کی عورتیں خدا پرست بن جاتی ہیں اور آخرکار مردوں کو بھی ویسا ہی بناکر چھوڑتی ہیں، اور جب کسی معاشرے کا زوال شروع ہوتاہے تو اس کی عورتیں خدا کے بجائے ادنیٰ چیزوں کی پرستش شروع کردیتی ہیں۔ جب عورت کا دل دُنیا میں اَٹک جائے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے شوہر، بچوں اور دوسرے مددگاروں کو بھی حصولِ دُنیا میں مشغول نہ کردے؟ اور جب کسی عورت کو آخرت کی فکر ہو تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں اور اپنے جگرگوشوں کو اپنی اس فکر میں شریک نہ کرے؟ اسے جب کوئی ہلکی سی مغموم کرنے والی خبر ملتی ہے تو وہ روپیٹ کر سب کو پریشان کردیتی ہے۔ پھر جب اسے دوزخ جیسی خوفناک چیز کا یقین ہو، اور وہ دیکھ رہی ہو کہ اس کے بچّے، شوہر، باپ، بھائی اس کی طرف اندھا دھند لپک رہے ہیں اور اس میں گرنے کے بالکل قریب ہیں تو وہ کیسے چپ بیٹھ سکتی ہے؟ وہ یہ کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ جن جسموں کو لذیذ کھانوں، عمدہ لباسوں اور صاف سجے ہوئے گھروں میں آرام پہنچاتی رہی، پالتی رہی اور ان کے آرام و آسایش کی خاطر راتوں کی نیند اور دن کا آرام اپنے اُوپر حرام کرلیا۔ وہ جسم دوزخ میں جلنے کی تیاریاں کرنے لگیں۔ اور وہ بھی اس کی نظروں کے سامنے۔
عورت، مرد سے بڑھ کر دُور اندیش ہوتی ہے۔ بیٹی اور بیٹا جوان ہوجائے تو مرد سے بڑھ کر اس کو یہ فکر کہ اس کے لیے زیادہ جہیز تیار ہو، اچھی جگہ رشتہ ہو۔ مکان نہ ہو تو مرد سے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی دُھن سوار ہوتی ہے۔ گھر میں غلّہ ایندھن وغیرہ ختم ہوں تووہ پریشان۔ افراد کنبہ کے کپڑے پھٹ جائیں تو اس کو بے چینی۔ کوئی بچہ بیمار ہو تو اس کے دوا علاج کے لیے وہ سرگرداں، غرض کسی وقت وہ آرام سے نہیں بیٹھ سکتی۔ عورت کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ سب کا غم کھائے اور سب کو سُکھ پہنچائے۔ خصوصاً ان کو جو اس کے اپنے عزیز ہوں، یا کم از کم جن کو وہ اپنا عزیز سمجھتی ہو اور جن کی جان اس کو پیاری ہو،ان کے بھلے بُرے کی فکر تو اس کو اپنے سے بڑھ کر رہتی ہے۔
آپ دیکھتے نہیں، آج کل عورت ہی تو ہے جو مادہ پرستی کی سب سے بڑی مبلغ بنی ہوئی ہے۔ اس نے ادنیٰ چیزوں کو اپنا خدا بنا لیا ہے اور وہ انھی جھوٹے خدائوں کی بندگی پر باپ،بھائی، شوہر، بچوں اور دُور و نزدیک کے سب رشتے داروں، پڑوسیوں، ملنے والوں کو آمادہ کر رہی ہے۔ عورت کی زبان تو مشہور ہے کہ کسی وقت بیکار نہیں رہتی۔ بس جس چیز کو عورت سب سے بہتر خیال کرے، جس کی محبت اس کے دل میں بیٹھ جائے، چوبیس گھنٹے وہ اسی کی خوبیوں کے گن گاتی رہے گی۔ پھر ماں کا راگ بچوں کا راگ ہوگا اور بچوں کا راگ پوری قوم کا راگ بن کر رہتا ہے کیونکہ وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور بالآخر وہی ہوتا ہے جو عورت چاہے۔
مگر افسوس کہ ان دنوں اس نے فکر ِ آخرت سے بے نیازی اختیار کرلی ہے۔ اسے جنّت کی نعمتوں اور دوزخ کی تکلیفوں کا یقین نہیں رہا، تو یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پوری قوم ہی اس یقین اور ایمان سے بے نیاز ہوگئی ہے۔ جب ماں نے اپنا مقصد ِ زندگی صرف کھانے، پہننے اور عیش کرنے کا بنالیا تو اس کے بچّے کیوں نہ یہی سبق سیکھتے؟ صدر اور وزیراعظم سے لے کر معمولی معاشی سرگرمی میں مصروف فرد تک، سب عورت ہی کے بچّے ہیں اور اس کے سکھائے ہوئے اسباق پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر وہ، ان کو اپنے قول و عمل سے یہ سکھاتی کہ ’’اللہ تمھارا اصل مالک و حاکم ہے، تم اس دُنیا میں اپنے مالک و مختار نہیں ہو بلکہ اس آقا کے نوکر ہو‘‘ تو خدا فراموشی کے یہ مناظر آپ کو کیوں نظر آتے؟
آپ کی آنکھوں کے سامنے شراب چل رہی ہے، جوا چل رہا ہے، سود خوری ہورہی ہے، ظلم و بے انصافی کی کوئی حد نہیں۔ غریب بھوکے مر رہے ہیں اورقوم کے رہنما اپنے عیش میں مست ہیں۔ قتل، چوری، دھوکابازی، رشوت، غبن، کون سا جرم ہے جس کا ارتکاب نہیں ہورہا؟ عورتوں اور مردوں کو جو کچھ دیکھنا حرام تھا، آپ کے فرزندانِ ارجمند اور دخترانِ نیک اَطوار پیسے خرچ کرکے وہ کچھ دیکھ رہی ہیں۔ جو کچھ سننا ممنوع تھا، اسے سننے کے لیے بڑی سے بڑی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ جو کچھ کھانا حرام تھا، اس کو کھلم کھلا کھایا جارہا ہے اور جس طرزِ لباس کو اختیار کرنے کی ممانعت تھی، اسی کو آپ کی بیٹیاں علی الاعلان اختیار کررہی ہیں۔ جو مشاغل مردوں کے لیے مخصوص تھے وہ عورتیں اختیار کرر ہی ہیں۔ اور جو صفات اور عادات و اَطوار عورتوں کا زیور تھے وہ مرد اپنا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ مرد نے ایسا کرنا چاہا؟ ہرگز نہیں! عورت نے خود ایسا کرنے کی اجازت اور بسااوقات حکم دیا تب ایسا ہوسکا۔ اب عورت ہی اپنا رُخ پلٹے گی، اپنا قبلہ بدلے گی۔ لندن، نیویارک اور ماسکو کی اندھی تقلید کے بجائے مدینہ منورہ کی ان رہنما خواتین کی پیروی اختیار کرے گی جن کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت دی تھی، تو قوم کی حالت بدل سکے گی، ورنہ نہیں۔
سوال : برادری کے نام پر ووٹ طلب کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟قطع نظر اس کے کہ اُمیدوار بھلا ہو یا بُرا؟
جواب:اسلامی نقطۂ نگاہ سے اگر برادری کے نام پر ووٹ دینا یا لینا جائز ہوتا تو ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش کے جو لوگ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے، وہ آپؐ کے رشتے دار ہی تو تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے برادری کے نام پر تعاون کی اپیل کرسکتے تھے۔ لیکن ووٹ لینے کا کیا سوال، آپؐ نے ان کے خلاف تلوارکھینچنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
جماعت اسلامی سے قطع نظر، ووٹ دینے والے کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ جسے وہ ووٹ دے رہا ہے وہ اسلام کے اصولوں کا پابند بھی ہے یا نہیں؟ اور وہ کامیاب ہونے کے بعد خدا کے دین کی خدمت کرےگا یا اپنے نفس کی خدمت میں لگ جائے گا؟ کیا اس کی ظاہری زندگی اس کے دعوئوں کی شہادت دے رہی ہے؟ جو آدمی اس کا اہل نظر آئے، ووٹ دینے والے کو چاہیے کہ وہ اس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرے، اور جو آدمی اس کا اہل نہ ہو تو خواہ وہ ووٹر کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو، اسلام اس کے حق میں رائے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
اسلام، دوستی اور برادری کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ حق اور باطل کی بنیاد پر دوٹوک فیصلہ دیتا ہے۔(سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۵؍اکتوبر ۱۹۷۰ء)
ہماری قوت کا سرچشمہ بہ حیثیت اُمت قرآن کریم ہے۔ قرآن پاک اور سنت ِ رسولؐ اور سیرتِ رسولؐ کے ذریعے ہی مسلمانوں نے دُنیا میں عزت پائی ہے۔ علمائے اُمت نے اس راز کو پاکر ہمیشہ قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر اور سیرتِ رسولؐ کو اہمیت دی ہے۔ ماضی قریب میں برعظیم میں حضرت شاہ ولی ؒ اللہ کے خاندان نے قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر کا آغاز کیا اور اس راہ میں تکالیف بھی برداشت کیں۔ شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمۃ اللہ علیہ نے مالٹا کی قید سے واپسی کے بعد ایک اجتماع میں فرمایا: میں نے مالٹا کی اسیری کے دوران غور کیا تو مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب قرآن پاک سے دُوری ہے اور دوسرا سبب تفرقہ اور باہمی تنازعات ہیں۔ میں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ ان دو بیماریوں کا علاج کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے اس کے لیے قرآن پاک کا ترجمہ کیا اور تفسیر مولانا علامہ شبیراحمدؒ عثمانی نے کی۔
خدمت ِ قرآن کے سلسلے میں ایک اہم خدمت معلم القرآن ہے۔ یہ کوشش پروفیسر قاری جاویدانور صدیقی صاحب نے کی ہے، تاکہ آسانی کے ساتھ ایک شخص محض قرآن پاک کے تحت اللفظ ترجمے کے ساتھ بین السطور بریکٹ میں مختصر تفسیری نکات کے ذریعے قرآن پاک کو مطالعے کے دوران سمجھ سکے۔ فاضل مترجم کی یہ کوشش بھی قابلِ قدر ہے۔ تاہم، اس کی افادیت کو پرکھنے کے لیے لوگوں میں اس کا مطالعہ کرنے اور قرآن پاک کو سمجھنے اور پڑھنے کے قابل ہونے سے ہوگا۔ ان شاء اللہ یہ خدمت مترجم کے لیے اجروثواب کا باعث ہوگی۔(مولانا عبدالمالک)
ہرزمانہ کسی نہ کسی فکر کے غالب دھارے میں اپنا سفر جاری رکھے ہوتا ہے۔ بہرحال، زیادہ تر ’جاہلیت کی فکر‘ ہی کی فرماں روائی رہی ہے، جسے تبدیل کرنے کے لیے انبیاؑ و رُسلؑ آئے، اور پھر یہ سلسلہ خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد صلحائے اُمت سے منسوب ہوا۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے معروف استاد جناب عبیداللہ فہد فلاحی نے اسلامی فکر کی ٹھوس بنیادوں کو اُجاگر کرتے ہوئے، زیرنظر کتاب میں خاص طور پر عہد حاضر کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس طرح انھوں نے اسلامی تحریکوں کے سامنے یلغار کرتے ہوئے مغربی اور تجددپسندانہ افکار کی ماہیت کو متعین کیا ہے۔ پھر حقیقی چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے معاصر اسلامی مفکرین اور محققین اور میدانِ عمل میں سرگرم افراد کے قول، فعل اور فکر کا تجزیہ کیا ہے۔
اسلامی فکر آج دو بڑے مسائل سے دوچار ہے۔ ایک طرف روایتی طرزِفکر ہے تو دوسری جانب خود دینِ اسلام کو عصرحاضر کے مطابق ڈھالنے کا خبط دندنا رہا ہے۔ اس عمومی رواج کے بارے میں وہ مولانا مودودی کا قول درج کرتے ہیں: ’’وہ ہرشخص جو نیا طریقہ نکالے اور اس کو ذرا زور سے چلا دے، اور اپنے زمانے کی برسرِ عروج جاہلیت سے مصالحت کرکے اسلام اور جاہلیت کا نیا مخلوطہ تیار کردے، یا فقط نام باقی رکھ کر اس قوم کو پوری جاہلیت کے رنگ میں رنگ دے، ان کو ’مجدد‘ کے خطاب سے نواز دیا جاتا ہے، حالانکہ وہ ’مجدد‘ نہیں ’متجدد‘ ہوتے ہیں، اور ان کا کام تجدید نہیں، ’تجدد‘ ہوتا ہے‘‘ (تجدید و احیائے دین، ص۴۳)۔ یوسف القرضاوی کہتے ہیں: ’’یہ لوگ ’مبدّدین‘ (دین کو ملیامیٹ کرنے والے) ہیں، مجددین نہیں‘‘(ص۱۷۶)۔ اس پس منظر میں وہ ایک جگہ جاوید احمد غامدی صاحب کی فکری پرواز پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انھوں نے اپنے تفردات کے لیے نئی زمینوں کی تلاش شروع کی‘‘ (ص۱۷۸)۔
جناب فہد نے اس کتاب میں نہ صرف اس سے ملتی جلتی صورتوں کو پیش کیا ہے، بلکہ خود اسلامی تحریکوں میں، اسلامی فکر کے جدید چیلنجوں کی مناسبت سے جواب دینے میں کمی کو بھی نمایاں کیا ہے۔(س م خ)
پورا معاشرہ توحید کی بنیاد پر قائم ہوجائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم، مذہب، قانون، رسم و رواج، سیاست، معیشت، غرض ہرشعبۂ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہوجائیں، جو خداوند ِ عالم نے اپنی کتاب اور رسولؐ کے ذریعے سے دیئے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتاہے، قانون اسی کو جرم قراردے،حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے، تعلیم وتربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیارکرے، منبرومحراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہرکاروبار میں وہ ممنوع ہوجائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے، قانون اس کی حمایت کرے، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے، منبرومحراب اسی کی تلقین کریں، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اُس پر قائم کردے، اور کاروبارِ معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اورمادّی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں، کیونکہ اس میں بندگی ٔربّ اور بندگی ٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہوجاتا ہے۔
اسلام کی دعوت اگرچہ ہرہر فردکو یہی ہے کہ بہرحال وہ توحیدہی کو اپنا دین بنالے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی صورت پیدا کرنا ہے، اور تمام انبیا علیہم السلام کی کوششوں کا مدّعا یہی رہا ہے کہ ایک اُمت ِ مسلمہ وجود میں آئے، جو کفر اور کفّار کے غلبے سے آزاد ہوکر ’من حیث الجماعت‘ اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیاعلیہم السلام کی سعی و جہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے، اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذ و قائم کرنا سرے سے ان کا مقصود ہی نہیں رہا ہے۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۴، جنوری ۱۹۶۴ء، ص ۲۴-۲۵)