محترم خرم مرادؒ لاہور میں گارڈن ٹائون کی مسجد بلال میں خطبہ جمعہ سے قبل ۴۰ منٹ کا خطاب کرتے تھے۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۰ء سے جنوری ۱۹۹۶ء میں آخری سفر کے لیے برطانیہ روانگی تک‘ بیرونی سفر اور بیماری کے وقفوں علاوہ‘ مسلسل جاری رہا۔ انھوں نے یہ خطاب ایک اسکیم کے تحت ایمانیات‘ عبادات‘ عبادات قلبی‘تعلق باللہ‘ فضائل اخلاق‘ رذائل اخلاق‘ اُمت‘ دعوت و جہاد سے متعلق موضوعات پر احادیث کو بنیاد بنا کر کیے تھے۔ ۲۴ آخری سورتوں کے اور دعائوں کے درس بھی یہیں ہوئے۔ یہ خطاب وہ ہمیشہ مکمل تیاری کرکے کرتے تھے‘ کبھی وقت گزاری نہ کی۔ ان خطابات کو کیسٹ سے تدوین کر کے پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دیگر تحریکی رسائل میں بھی شائع ہو رہے ہیں۔ یہاں ان میں سے ایک پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے انسانوں کو بھی بدلا‘ ان کی سوسائٹی بھی بدلی اور ان کی پوری دنیا بھی بدل دی۔ اس کام کو آپؐ نے کیسے سرانجام دیا‘ وہ کون سی کنجی تھی جس سے آپؐ نے لوگوں کی زندگیوں کے تالے کھول دیے اور ان کوبدل کر ان کے ذریعے ساری دنیا کو بدل دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب درج ذیل حدیث میں دیا گیا ہے۔
اس حدیث کو ایک انصاری صحابی حضرت نعمان بن بشیرؓ نے روایت کیا ہے اور اس طرح روایت کیا ہے کہ جب انھوںنے یہ بیان کیا کہ میں نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو انھوں نے اپنے کانوں کی طرف اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا کہ یہ وہ کان ہیں جن سے سنا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
الْحَلاَلُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَّبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لاَّ یَعْلَمُھَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الْمُشْتَبِھَاتِ اسْتَبْرَاَلِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِیْ الشُّبْھَاتِ کَرَاعٍ یَّرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یُّوَاقِعَہٗٓ اَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی اَلاَ اِنَّ حِمَی اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ مُحَارِمُہٗ اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً۔ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلاَ وَھِیَ الْقَلْبُ (بخاری‘کتاب الایمان‘ باب فضل من استبرالدینہ)
بے شک حلال واضح اور صاف ہے اور بے شک حرام بھی واضح اور صاف ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہہ والی چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تو جس نے اپنے آپ کو شبہے والی چیزوں سے بچایا اس نے اپنے دین کو اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا۔ اور جو مشتبہ چیزوں کے اندر پڑ گیا تو پھر وہ حرام میں پڑ گیا۔ جس طرح کہ کوئی چَرانے والا کسی بادشاہ کی مخصوص چراگاہ کے گرد جائے اور قریب ہے کہ وہ اسی چراگاہ کے اندر داخل ہوکر چَرنا شروع کردے۔ اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ اللہ کی چراگاہ وہ چیزیں ہیں جن کو اس نے حرام کیا ہے ۔ اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ سدھر جائے تو ساراجسم سدھر جاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ یہ قلب ہے۔
اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں میں روایت کیا گیا ہے۔ جو الفاظ میں نے آپ کے سامنے پڑھے ہیں وہ بخاریکے الفاظ ہیں۔ دونوں کے الفاظ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن جس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے بیان کیا ہو وہ اپنی صحت کے لحاظ سے بہت اونچے درجے کی حدیث شمار ہوتی ہے۔حدیث کی بعض کتابوں کو دوسرے طبقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ پہلے طبقے میں بخاری‘ مسلم اور مؤطا امام مالک ہیں اور دوسرے طبقے میں ترمذی‘ نسائی‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ اور دارمی کی کتابیں ہیں۔ دوسرے طبقے کی کتابوں میں سے ابن ماجہ اور دارمی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور ان کے الفاظ بھی تقریباً وہی ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پڑھے ہیں۔
اس حدیث کو محدثین اور علماے کرام نے بہت عظیم الشان حدیث قرار دیا ہے بلکہ بعض لوگوں نے یہاں تک کہا ہے کہ اسلام کامدار اس حدیث پر ہے‘ یا یہ کہ یہ ان تین یا چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر پورے اسلام کی بنیاد قائم ہے۔
اس حدیث کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ حلال اور حرام اور مشتبہات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ہم تک پہنچاتا ہے اور دوسرا حصہ دل یا قلب کے بارے میں ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں حصوں کا آپس میں کوئی گہراتعلق نہیں ہے۔ محدثین نے عام طور سے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے کہ ان دونوں حصوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کیوں جمع کیا؟ ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ لیکن پہلا حصہ جو کہ حلال و حرام اور مشتبہات کے بارے میں ہے اس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے‘ اور دوسرا حصہ جو دل کے بارے میں ہے اس پر ہم پہلے گفتگو کریں گے۔ اس طرح اس حدیث کاجو مطلب ہے اور اس میں ہمارے لیے جو ہدایت ہے اس کا سمجھنا ہمارے لیے آسان ہوگا۔
دوسرے حصے میں آپؐ نے یہ فرمایا کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے‘ اگر وہ سدھر جائے‘ سنور جائے‘ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم سدھر جاتا ہے‘ اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ اچھی طرح جان لو کہ یہ قلب ہے!
پہلا سوال یہ ہے کہ یہاں قلب کا کیا مطلب ہے؟ حدیث کے الفاظ تو یہ بتاتے ہیں کہ جسم میں دل کی شکل میں گوشت کا جو ٹکڑا ہے‘ آپؐ نے اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے لیکن قرآن مجید اور حدیث میں قلب کی اصطلاح بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ اس کے مطابق ہماری پوری شخصیت کا نام قلب ہے۔ یہ جسم فنا ہوجائے گا اور انسان کی روح جس کو قرآن مجید میں قلب بھی قرار دیاگیا ہے وہ باقی رہ جائے گی۔ انسان کی شخصیت کے مختلف پہلو قلب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کی طرف قرآن مجید میں بے شمارمقامات پراشارہ کیا گیا ہے‘ مثلاً عقل اور سمجھ بوجھ‘ شعور اوراحساس‘ ان سب کا مرکز بھی قرآن کی زبان میں قلب ہے۔ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا ز (الاعراف ۷:۱۷۹) ’’ان کے دل ہیں لیکن وہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں ہیں‘‘۔ یا یہ کہ کیا ان میںایسے لوگ نہیں تھے جن کے پاس دل ہوتے اور وہ اپنی عقل سے کام لیتے۔ لہٰذا قرآن میں عقل‘ تفکر اور سمجھ بوجھ کامرکز بھی قلب کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں ارشاد ہوا: اَفَلاَیَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا ان لوگوںنے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘ گویا تدبر‘ یعنی قرآن پر غور و خوض کا مرکز بھی قلب ہے۔
قلب کا لفظ جن دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے وہ ہماری خواہشات ہیں۔ یہ خواہشات دنیوی چیزوں کے لیے بھی ہوسکتی ہیں‘ ان سے اعلیٰ چیزوں کے لیے بھی ہوسکتی ہیں۔ ان خواہشات کامرکز بھی قلب ہے۔ اسی طرح جو جذبات انسان کے اندر ہوتے ہیں‘ مثلاً شفقت کا جذبہ‘محبت کا جذبہ‘ نرمی کاجذبہ‘ نفرت اور غصے کا جذبہ‘ ان سب کا مرکز بھی قرآن و حدیث کی رو سے انسان کا قلب ہے۔ اور سب سے آخر میں وہ چیز جو انسان کوانسان بناتی ہے‘ یعنی اس کاارادہ اور نیت۔ وہ ارادہ‘ جس سے وہ اپنے اعضا کو حرکت دیتا ہے‘ کام کرتا ہے‘ کچھ چیزوں کو طلب کرتا ہے اور کچھ چیزوں سے رک جاتا ہے‘ اس کے اس ارادے کا مرکز بھی قلب ہے۔ اس لحاظ سے قلب دراصل انسان کی شخصیت کا پورامرکز ہے۔ ہاتھ پائوں نہ بھی رہیں‘کٹ جائیں‘ ختم ہوجائیں‘ جسم کے اور دوسرے اعضا بھی ناکارہ ہوجائیں لیکن ایک چیز انسان کی شخصیت ہے‘ وہ باقی رہتی ہے۔ اسی کو قلب کہا گیا ہے ۔
اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے کہ حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ’’گوشت کا ایک ٹکڑا‘‘ ہے تو اس سے کیا مطلب ہے؟ا س بارے میںہمارے محدثین نے کافی لکھا ہے اور لوگوں کا اختلاف بھی نقل کیا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک عقل دماغ میں ہے اور بعض کے نزدیک دل میں ہے۔ سائنس کی رو سے بھی گوشت کا یہ ٹکڑا صرف اتنا کام کرتا ہے کہ خون پمپ کرتا رہے اور باقی انسان کے سارے جذبات اور سوچ سمجھ کا مرکز اس کا دماغ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بحث حدیث سے بالکل غیر متعلق ہے اور میری رائے میں حدیث کو سمجھنے کے لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم یہ متعین کریں کہ فی الواقع یہ دماغ ہے یا قلب۔جب انسان آپس میں بات کرتے ہیں تو وہ اپنے مشاہدے کی بنا پر اور ادب کے پیرایے میں بات کرتے ہیں۔ اگرچہ سائنس یہ کہتی ہو کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ سورج نکل آیا اور سورج ڈوب گیا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ زمین نکل آئی اور زمین ڈوب گئی۔ اسی طرح ہماری زبان کے اندر معروف محاورہ یہ ہے کہ میرا دل یہ کہتا ہے‘ میرا دل یہ چاہتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو ادب کی زبان ہے اور اس لحاظ سے اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ متعین کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے کہ عقل کا مرکز کہاں ہے اور دماغ کا مرکز کیا ہے۔ قرآن نے یہ لفظ اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ جسد سے کیا مراد ہے؟ جب جسم کہا تو اس سے ظاہری جسم مراد ہے یا کچھ اور۔ یہاںاس سے ہمارا یہ جسم مراد ہے۔ اس کی طرف محدثین نے اشارہ کیا ہے اور یوں کہا ہے کہ جسم کی حیثیت رعایا کی ہے اور قلب کی حیثیت بادشاہ کی۔ جس طرح رعایا بادشاہ کے ماتحت ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ ہاتھ پائوں‘ ناک کان‘ آنکھ ہر چیز قلب کے تابع ہے۔ آنکھ وہ چیز نہیں دیکھے گی جو دل دیکھنا نہ چاہے بلکہ وہی چیز دیکھے گی جس کو دل دیکھنا چاہے گا۔ ہاتھ وہ چیز نہیں کمائے گا جس کے بارے میں دل نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ نہیں کمانا چاہیے اور وہی چیز کمائے گا جس کے بارے میں دل یہ فیصلہ کرلے کہ اسے کماناچاہیے۔ یہ سارے اعضا رعیت ہیں‘ رعایا ہیں اور قلب کی حیثیت ایک بادشاہ کی ہے۔
جسد کے دو اور معنی بھی ہوسکتے ہیں اگر ہم اس کو ایک استعارہ سمجھیں۔ ایک تو یہ کہ جسد سے مراد وہ شریعت ہے جس کا ذکر حدیث کے پہلے ٹکڑے میں ہوچکا ہے اور یہاں سے ان دونوں کا ربط قائم ہوتا ہے کہ وہ شریعت جو حلال اور حرام کو واضح کرتی ہے‘ اس شریعت کے قائم ہونے کے لیے قلب کی بنیاد اور قلب کی قوت ضروری ہے۔احکام کی اطاعت کے لیے سینے کے اندر دل بیدار ہونا چاہیے۔ سننے کے لیے‘ سمجھنے کے لیے‘ دیکھنے کے لیے‘ صحیح فیصلہ کرنے کے لیے‘صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے‘ صحیح راہ پر چلنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دلِ بیدار موجود ہو۔
اس کے دوسرے معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ جسد سے دراصل پوری انسانی زندگی مراد ہے۔ اس کی انفرادی زندگی بھی اور اجتماعی زندگی بھی‘ اور اس کی زندگی کا ہر پہلو۔ اگر دل میں سکون ہے تو زندگی میں سکون ہوگا‘ اگر دل میں اطمینان ہے تو زندگی میں اطمینان ہوگا ‘اگر دل میں اچھے خیال آتے ہیں تو زندگی اچھے راستے پر جائے گی۔ اور اگر دل میں برے خیال آتے ہیں تو زندگی برے راستے پر جائے گی۔ اجتماعی طور پر بھی جو خرابیاں قوم کے اندر پیدا ہوتی ہیں ‘ لوٹ مار ‘خون خرابہ یا ڈاکے پڑنا وغیرہ ان سب کے پیچھے اصل خرابی دل کی خرابی ہوتی ہے۔ انسان گناہ کرتا ہے‘ اس لیے کہ اس کے دل میں خرابی ہوتی ہے اور وہ غلطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ گویا اس حدیث کی رو سے اصلاح کاراستہ قلب ہے۔ اگر قلب کی اصلاح ہوگی تو آدمی کے اعضا بھی صحیح کام کریں گے‘ شریعت کی اطاعت کی قوت بھی اس کے اندر پیدا ہوگی اور پوری انسانی زندگی کی اصلاح ہوجائے گی۔ اگر اس میں بگاڑ پیدا ہو تو پھر اعضا بھی غلط کام کریں گے‘ شریعت بھی کتابوں میں لکھی رہ جائے گی اور اس پر عمل نہیں ہوگا۔ یوں پوری انسانی زندگی کے اندر بگاڑپیدا ہوجائے گا۔
یہاں ’’صلاح‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی دراصل ہر قسم کی اچھائی اور بھلائی اور اصلاح ہے‘ اور فساد سے بھی ہر طرح کا فساد مراد ہے۔ حدیث میں اس کا کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے کہ کس قسم کی صلاح اور کس قسم کا فساد مراد ہے۔ ہر قسم کی صلاح اور ہر قسم کا فساد مراد ہو سکتا ہے خواہ وہ انسان کی جسمانی زندگی سے متعلق ہو یا اخلاقی زندگی سے یا مادی زندگی سے‘ خواہ اس کی انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اس کی اجتماعی زندگی سے۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ ہر صلاح اور ہر قسم کی صلاح‘ ہر فساد اور ہر قسم کے فساد کاانحصار قلب پر ہے۔ قرآن مجید نے اس بات کو بہت کھول کر بیان کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ پوری انسانی زندگی میں جو کچھ بھی پیش آ رہا ہے وہ اس دل کی وجہ سے ہے۔ فرمایا : فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ (البقرہ ۲:۱۰) ’’ان کے دلوں میں مرض ہے‘‘۔ کسی منافقت ‘نافرمانی اور تغافل کے رویوں کے پیچھے جو چیز ہے وہ دراصل دلوں کامرض ہے۔ مرض کی جڑ دلوں میں ہے۔ فرمایا: فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (الحج ۲۲:۴۶)’’حقیقت یہ ہے کہ وہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔ گویا یہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں کہ دیکھنے سے انکار کردیں کہ صحیح راستہ کیا ہے اور صحیح کام کیا ہے‘ بلکہ جو دل سینوں کے اندر ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد آنکھیں دیکھتی بھی ہیں اور کان سنتے بھی ہیں‘ لیکن نہ صحیح راستہ دکھائی دیتا ہے‘ نہ صحیح آواز سنائی دیتی ہے اور نہ آدمی ہدایت قبول کرتا ہے۔ قرآن مجید نے کہا ہے کہ ایمان اور تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے: وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ (الحجرات ۴۹:۷)’’مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنا دیا‘‘۔ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی (الحجرات ۴۹:۳)‘یعنی جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزمالیاوہی اہل تقویٰ ہیں نہ کہ ظاہر کی چیزیں تقویٰ ہیں۔
اس بات کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق حضورؐ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کیا اور فرمایا کہ التقویٰ ھٰھنا ‘ تقویٰ دراصل یہاں ہے۔ تقویٰ کو تم کبھی لباس میں ڈھونڈتے ہو‘کبھی شکل و صورت میں‘ کبھی ظواہر میں‘ لیکن تقویٰ کا مرکز اور سرچشمہ تو یہاں پر ہے۔ تین دفعہ آپؐ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کرکے اس بات کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن مجید نے بھی کئی دفعہ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل پرسش قلب کے اعمال کی ہے۔ اگر کسی آدمی کو زبردستی کلمۂ کفر کہنا پڑے لیکن اس کے دل کے اندر ایمان ہو تو اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ جس کو مجبور کردیا گیا لیکن قلبہ مطمئن‘ اس کا دل ایمان کے اوپر مطمئن ہے‘ اس سے کوئی بازپرس نہ ہوگی۔ آپؐ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ تم گناہ تو کرتے ہو لیکن پرسش تو اس گناہ کی ہے جس کا دل نے ارادہ کیا ہو‘ جو دل نے کمایا ہو۔ دل کی کمائی پر انسان سراسر قابل مواخذہ ہے۔
انسان اس لیے جواب دہ اور قابل مواخذہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کوارادے کی آزادی دی ہے۔ کوئی چاہے تو نیکی کرے اور کوئی چاہے تو برائی کرے۔ اس ارادے کا سرچشمہ اور ڈوری کیونکہ قلب کے ہاتھ میں ہے اس لیے اصل ذمہ داری قلب کی ہے۔ گناہ کا ذمہ دار بھی انسان کا قلب ہے‘ یعنی اس کے اندر کی شخصیت جو اس کے جذبات اور ارادے اور محرکات اور ہر چیز کی مرکز ہے۔ قیامت کے روزبھی وہی آدمی نجات پائے گاجو صحیح سالم دل لے کر اللہ کے پاس جائے گا۔ اس کو قرآن مجید میں واضح کردیا گیا: جس دن نہ مال کام آئے گا‘ نہ بیٹے کام آئیں گے‘ نہ دولت کام آئے گی‘ نہ جایداد کام آئے گی سوائے اس کے کہ جو ’’قلب سلیم‘‘ لے کر آئے گا۔ جو سالم‘صحیح‘ درست دل لے کر اللہ کے پاس آیا‘ بس وہی نجات پائے گا۔ جو لوگ مال و دولت جمع کرتے ہیں‘ فرمایا کہ اللہ کے ہاں آگ تیار ہے‘ بھڑک بھڑک کر ان کے دلوں تک جھانکے گی۔ مختلف جگہ قرآن نے یہ اشارہ دیا ہے کہ دراصل ذمہ داراندر کی شخصیت ہے۔ جسم تو ہر پانچ سال میں نیا بن جاتا ہے اور مٹی میں مل کے دوبارہ بھی نیا بنے گا۔ اس ہاتھ میں اس وقت جو گوشت ہے وہ کوئی گناہ کرنے کاذمہ دار نہیں ہے۔ یہ تو فناہوجائے گا لیکن جو اندر کی شخصیت ہے‘ جو ارادہ کرتی ہے‘ اور اس کے نتیجے میں انسان نیکی کرتا ہے یا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے‘ وہی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔
حضورؐ نے جو بات یہاں پر فرمائی ہے یہ انسان کی زندگی کے تالے کھولنے کے لیے پہلی کنجی ہے‘ انفرادی زندگی کے بھی اور اجتماعی زندگی کے بھی۔ اصل ذمہ دار دل ہے۔ اگر دلوں کے اندر بگاڑ ہوا تو زندگی بھی بگڑے گی‘معاشرہ بھی بگڑے گا‘ سوسائٹی بھی بگڑے گی‘ ریاست بھی بگڑے گی‘ سیاست بھی بگڑے گی اور معیشت بھی بگڑے گی‘ اور اگر دل درست ہوں گے تو ہر چیز میں سدھار پیدا ہوجائے گا۔
اب ہم حدیث کے پہلے حصے کی طرف آئیں تو اس کا مفہوم بہت صاف اور واضح ہوجاتا ہے۔ حضورؐ نے بات کا آغاز اس طرح کیا کہ حلال بالکل واضح اور صاف ہے‘ اور حرام بھی واضح اور صاف ہے۔ جو چیزیں اللہ نے حلال کردی ہیں ان میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے اوران کو بیان فرمادیا ہے۔ حلال کے واضح ہونے کے معنی دراصل یہ ہیں کہ اس کے اندر کوئی شبہہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح شراب‘ جوا اور سود کے بارے میں بھی کوئی شبہہ نہیں پیدا ہوسکتا۔ یہ وہ حرام ہیں جوبالکل واضح ہیں۔ اسی طرح حلال بھی واضح ہیں۔ اس میں آپؐ نے بیّنکا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ میرے فہم کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس قدر روشن اور کھلی بات ہے کہ اگر شرعی دلیل نہ بھی ہو تب بھی انسان اپنی عقل اور فطرت سے بھی حلال و حرام اور برا بھلا سمجھ سکتا ہے۔ یہ بات قرآن مجید میں مختلف انداز میں کئی جگہ بیان کی گئی ہے‘ مثلاً نیکی کو معروف کہا‘ یعنی وہ چیز جو انسان کی جانی پہچانی ہے اور برائی کو منکر کہا‘ یعنی وہ چیز جو انسان کے لیے اجنبی ہے۔ اس کی فطرت اس سے خود ہی کہتی ہے کہ یہ بات بری ہے۔ انسان نے کتنے ہی گناہ کیے ہوں‘ کتنی ہی برائیوں کے اندر پڑا ہو‘ کتنے ہی فلسفے بنائے ہوں لیکن انسانوںکی عظیم اکثریت آج تک اس بات پر متفق نہیںہوئی کہ کوئی نیکی جو مسلمہ نیکی ہو‘ برائی ہے اور کوئی برائی نیکی۔ دنیا میں کبھی قوموں نے مل کر اس بات کو نہیں مانا‘ یہاں تک کہ وہ قومیں جو دن رات شراب پیتی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ شراب مضر ہے۔ جو سود کھاتی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ سود کے اندر نقصان ہے‘ اور جو زنا کرتی ہیں وہ بھی اسے برا کہتی ہیں۔ زنا کی کوئی تعریف نہیں کرتا کہ زنا اچھی بات ہے۔ اس کو گوارا کرلیا گیا‘ اس کے لیے دلائل گھڑے گئے لیکن اگر آپ اسلاف کی تاریخ نکال کر پڑھیں تو کبھی بھی انسانوں کی اکثریت نے اس برائی کو اچھائی نہ سمجھا۔ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جن کا ذائقہ بگڑ جائے لیکن انسانوں کی بڑی اکثریت نے کبھی معروف نیکیوں کے برے ہونے پر اصرار نہیں کیا اور معروف برائیوں کے اچھے ہونے پر اصرار نہیں کیا۔
اس کا مطلب یہ ہواکہ جو آدمی ایمان کے راستے پر آئے گااور جس کے پاس سالم دل ہوگا جس کی اصلاح ہوچکی ہوگی وہ حرام اور حلال کی پابندی تو لازماً کرے گا۔ جو چیز روزِروشن کی طرح دِکھ رہی ہے اور بیّن ہے‘ جیسے سورج چمک رہا ہو‘ اور آدمی کومعلوم ہو کہ یہ راستہ میرے گھرکی طرف جاتا ہے تو پھر وہ دوسرے راستے پر کیوں جائے گا۔ یہ تو اس طرح سے بیّنات ہیں کہ جس کے دل میں ایمان کی روشنی ہے وہ ان میں سے کسی حلال کو نہ حرام کرسکتا ہے نہ حرام کو حلال۔
آپؐ نے ایک بات اور فرمائی: فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان ایک چیز اور ہے جو شبہے والی ہے۔ لَا یَعْلَمُوْنَھُنَّ کَثِیْرَ مِّنَ النَّاسْ‘ اکثر لوگ اس کوجانتے نہیں۔ شبہے والی چیزوں سے کیا مطلب ہے؟ یہ بڑااہم سوال ہے۔ شبہے والی چیزو ںسے یہ مراد ہے کہ وہ چیزیں جن کے بارے میں قرآن و سنت کے دلائل سے واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعی حلال ہیں یا حرام‘ یا جس پر اختلاف ہوجائے۔ اس سے وہ چیزیں مراد نہیں ہیںجن کو اللہ تعالیٰ نے بالکل حلال کردیا ہے۔ اب آدمی خواہ مخواہ شبہہ پیدا کرے کہ پتا نہیں یہ پانی حلال ہے یا نہیں‘ یا پتا نہیں یہ جانور کھانے کے لائق ہے یا نہیں۔ اس قسم کے شبہات سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے ہدایت کی گئی ہے کہ یہ سارے وسوسے ہیں‘ ان کے پیچھے مت پڑو۔ لیکن جہا ں پر شرعی دلائل کی بنیاد پر آدمی شبہے میں پڑجائے کہ یہ بات حلال ہے یا حرام‘اور آج کی موجودہ دنیا میں بے شمار نئی چیزیں پیدا ہوئی ہیں جن کے بارے میں شبہہ پیدا ہوا ہے‘ جن کو اکثر لوگ نہیں جان سکتے‘ اس کے لیے شریعت اور دین کاعلم ضروری ہے۔
فرمایا کہ جس نے اپنے آپ کو ان چیزوں سے بھی بچایا‘ یعنی مشتبہ چیزوں سے‘ اس نے اپنے دین کو شریعت کے لحاظ سے برا ہونے سے بچا لیا اور اپنی عزت کو دنیا کے اندر محفوظ کرلیا۔ یہ جو فرمایاکہ دین اور عزت دونوں کوبچالیا اور شبہے سے اپنے آپ کو بچایا‘ تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی حرام اور حلال کی تو پروا نہ کرے اور جو چیزیں مشتبہ ہیں ان سے اپنے آپ کو بچائے۔ اس قسم کامضمون اور بھی بہت سی حدیثوں میں آیا ہے۔ مشہور حدیث قدسی ہے کہ ایک بندہ فرائض اداکرتے کرتے مجھ سے قریب ہو جاتا ہے اور وہ مجھے بہت محبوب ہے۔ پھر وہ نوافل بھی ادا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں‘ اس کا کان بن جاتا ہوں‘ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نوافل کا درجہ فرائض سے اونچا ہے بلکہ اس میںجوبات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب دل اتنا بیدار اورحساس ہوجاتا ہے کہ حرام اور حلال کی لازماً پابندی کرے تو وہ چیز جو مشتبہ ہو اس سے بھی اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ جو آدمی بہت پاک صاف رہتا ہو اگر شبہہ بھی ہوجائے کہ کپڑوں پر گندگی کاداغ لگ گیا ہے تو وہ اس سے اپنے آپ کو بچائے گااور اسے صاف کرے گا۔ یہ دراصل دل کی اس کیفیت کااظہار ہے۔ یہ نہیں کہ مشتبہات کا درجہ حلال و حرام سے اونچا ہے۔ اصل چیز تو حلال و حرام سے بچنا ہے لیکن یہاں دل کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تقویٰ کی کیفیت ہے۔ جس کے اندر تقویٰ ہوگا‘ جس کا دل صالح اور سالم ہوگا تو وہ ان مشتبہات سے بھی دور رہے گا۔ فرمایا کہ اس طریقے سے اس کا دین بھی محفوظ ہوجائے گا اور اس کی عزت بھی محفوظ ہوجائے گی۔
دین کس طرح محفوظ ہوگا؟ اس کی تفصیل بھی یہ بتائی کہ جو مشتبہ چیزوں کے پیچھے جائے گا وہ بالآخر حرام میں پڑ جائے گا۔ یہ کس طرح ہوگا؟ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب آدمی ایک مشتبہ چیز کے پیچھے جائے گا کہ چلو یہ تو بہت چھوٹی بات ہے‘ اس کے بہت دلائل ہیں‘ توکل اس سے زیادہ مشکوک چیز کی طرف جائے گا‘ اور پرسوں اس سے بھی زیادہ مشکوک چیز کی طرف جائے گا اور بالآخر حرام کو بھی حلال ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ طبیعت کے اندر سستی پیدا ہوجائے گی۔ وہ طبیعت جس کو چست و چالاک ہونا چاہیے‘ کوئی ذرا سی بات ایسی نہ ہو جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہو‘ جواللہ کو ناپسند ہو‘ مشتبہات کرتے کرتے اس کی طبیعت کی حس کمزور پڑجائے گی اور جب یہ غائب ہوجائے گی تو پھر آدمی لازماً حرام کا بھی ارتکاب کر بیٹھے گا۔ اس لیے طبیعت کی چستی ضروری ہے۔
یہاں آپؐ نے بڑی خوب صورت مثال اور تشبیہ دی ہے۔ پرانے زمانے میں جو بادشاہ اور عرب قبائل کے سردار ہوتے تھے ان کو چراگاہیں بہت محبوب ہوتی تھیں‘ جہاں جانور چَرائے جاتے تھے۔ وہ بعض چراگاہوں کو اپنے لیے مخصوص کرلیتے تھے کہ اس کے اندر کوئی جانورنہیں لائے گا‘ کوئی نہیں چَرائے گا۔ اگر آئے گا تو سزا ملے گی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس طرح جب ایک مخصوص چراگاہ کے قریب کوئی جانور چر رہا ہو تو جب وہ اس کی چار دیواری کے پاس پہنچ جائے گاتو اس بات کا بھی امکان ہے کہ اندر سے لہراتا ہوا سبزہ نظر آئے اور حرام کی ترغیب و کشش ہوگی تو وہ ممنوعہ چراگاہ میں بھی چرنے لگے۔قریب تو اس لیے آتا ہے کہ یہاں تک تو میں آسکتا ہوں لیکن پھر وہ اچانک احاطے کے اندر بھی داخل ہوجائے گا۔ اس کے لیے بخاری میں تو حدیث کے الفاظ ہیں کہ وہ احاطے میں داخل ہوجائے گا اور مسلم میں ہیں کہ یرتع یزنع۔ یہ آہستہ آہستہ چگنے کے معنوں میں آتا ہے۔ یوں وہ چگنا شروع کردیتا ہے۔ پھر آپؐ نے بہت ہی تاکید کے ساتھ اور بہت زوردار انداز میں کہا کہ ہر بادشاہ کے لیے ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو چراگاہ اپنے لیے مخصوص کرلی ہے جس میں کسی کو داخل نہیں ہونا چاہئے وہ محارمات ہیں جن کو اس نے حرام کردیا ہے۔ پھر فرمایا کہ الا وان فی الجسد مضغۃ‘ غور سے سنو کہ جسم میں گوشت کاایک ٹکڑا ہے۔ الاوھی القلب ‘ سن لو‘یہ دل ہے۔ آپؐ نے چار دفعہ الا کہا۔
ان دونوں حصوں کے درمیان جو بظاہر غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں‘ کیا ربط ہے؟ اس مسئلے سے محدثین اور علما نے کوئی بحث نہیں کی لیکن میں نے اس پر غور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کے درمیان بڑاگہرا ربط ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دل کی زندگی کا انحصار اس پر ہے کہ آدمی اطاعت گزارہو۔ یہ سارے شیطانی وسوسے ہوتے ہیں کہ عمل سے یا عبادات سے کیا ہوتا ہے‘ اصل چیز تو دل کی نیکی ہے‘ اخلاق ہیں۔ دل کی فلاح‘ اچھائی اور سنورنا ہے۔ اس کاانحصار اس پر ہے کہ آدمی اللہ کی اطاعت کرے‘ حرام اور حلال میں تمیز کرے۔ اگر اس کی حس تیز ہو‘ دل زندہ ہو تو ان چیزوں سے بھی بچے جو حرام اور حلال کے درمیان ہیں‘ جن کے اندر شبہہ ہے۔ یہ توایک وجہ ہے دونوں کے درمیان ربط کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ حرام اور حلال کی حدود کو ہم سب جانتے ہیں۔ آج آپ کسی مسلمان سے پوچھ لیں کہ حلال کیا ہے تو وہ آپ کو بڑے بڑے حلال بتادے گا۔حرام پوچھ لیں تو بڑے بڑے حرام گنوا دے گا۔ لیکن اس کے اندر اتنی استعداد اور قوت نہیں ہے کہ اپنے آپ کو حرام سے بچائے اور حلال کے راستے پر لے کر جائے۔ ابھی حال میں ایک سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ سیورریفل کے ٹکٹ کو کتنے لوگ اسلام کی رو سے جائز سمجھتے ہیں‘ تو سب نے کہا کہ یہ ناجائز ہے۔ پوچھا گیا کہ کتنے لوگوں نے ٹکٹ خریدا ہے‘ ہر دو میں سے ایک آدمی نے ٹکٹ خریدا ہوا تھا‘ یعنی علم تھا کہ یہ حرام ہے لیکن عمل اس سے مختلف ہے۔ لہٰذا یہ قوت‘ نفس کے اندر یہ استعداد جس سے آدمی شریعت کی عمارت کا بار اٹھاسکے اور احکام کابوجھ اپنے اوپر لے سکے اور اس عمارت کی پوری تعمیر شریعت پر کرسکے‘ اس کا سرچشمہ آدمی کا قلب اور اس کادل ہے۔ دل کے اندر اگر یہ ایمان اور یہ جذبہ ہوگا‘ یہ قوت اور استعداد ہوگی اور یہ کیفیت ہوگی تو پھر جو شریعت میں حلال و حرام طے کیا گیا ہے آج ہم اس کی پابندی کریں گے‘ اور اگر یہ نہیں ہوگی تو ہزار وعظ کہے جائیں‘ تقاریر کی جائیں‘ لیکن اگر دل کے اندر یہ نور نہیں ہوگا‘ یہ قوت نہیں ہوگی‘ یہ استعداد نہیں ہوگی تو حلال و حرام کتابوں میں لکھا رہے گا‘ وعظ کے اندر بیان ہوگا‘ علما کی زبان پر بھی ہوگا‘ غلط اور صحیح سب کو معلوم ہوگا لیکن عمل نہیں ہوگا‘ اور جب عمل مختلف ہوگا تو عمل کا اثر دل پر بھی پڑے گا۔
اب یہاں یہ حدیث ایک اور اہم مسئلہ طے کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں شریعت اور طریقت کی اور ظاہر اور باطن کی مسلسل بحث چلتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شریعت الگ چیز ہے‘ اور طریقت الگ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حدیث میں دونوں کو ایک جگہ جمع کرکے اور جسم کی مثال دے کر رسولؐ اللہ نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ یہ تو ایک وحدت ہے۔ دل ہو یا شریعت‘ اندر کی زندگی ہو یا باہر کی‘ جس طرح دل کاتصور جسم کے بغیر نہیں ہوسکتا‘ اخلاق اور روح اور دل کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کہاںباقی رہے گا اگر نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ اور حلال و حرام کی پابندی نہ ہو۔ اسی طریقے سے جسم کاتصور بھی دل کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں‘ ایک ہی چیز کا حصہ ہیں‘ ایک ہی چیز کے ٹکڑے ہیں‘ اور ایک دوسرے کے ساتھ بالکل مربوط ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ یہ حدیث بالکل واضح طور پر طے کردیتی ہے کہ انسان ایک وحدت اور ایک اکائی ہے۔ اس کادل و دماغ اور جسم سب یکساں ایک ہی طرح ڈھلے ہوئے ہیں۔ یہ بات قرآن نے بار بار کہی ہے کہ ظاہر کے اعمال کا اثر دل پر پڑتا ہے اور دل ظاہر کے اعمال کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کر صحیح یا غلط راستہ پر لے جاتا ہے۔ فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط (الصّف ۶۱:۵)‘ یعنی جب لوگوں نے برائی کاراستہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کوبھی ٹیڑھا کردیا۔ جب لوگوں نے اللہ کے ساتھ اطاعت اور بندگی کے اپنے عہد کو توڑ دیا تو ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ان کے اوپر لعنت ہے۔ ظاہر کے اعمال کا اثر دل پر اور دل کے اعمال کا ظاہر پر کیسے اثر ہوتا ہے‘ یہ بات روز مرہ مشاہدے میں آتی ہے۔ ہم روز اس بات کو دیکھتے ہیں کہ کوئی آپ کو گالی دے تو دل کی حرکت تیز ہوجائے گی‘ جبڑا اُوپر چڑھ جائے گا‘ کنپٹی سرخ ہوجائے گی۔ ایک ایک لفظ کااثر جسم پر پڑتا ہے۔ اگر کوئی آپ کی تعریف کردے تو دل کو بڑی راحت اور اطمینان محسوس ہوگا۔ باہر کی بات اور باہر کے اعمال کا اثر دل پر پڑتا ہے اور دل کا اثرباہر پڑتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں کی فکر کرنے ہی سے انسانی زندگی درست اور صحیح راستے پر چلے گی۔یہ وہ بات ہے جس کی بنا پر اس حدیث کوبڑی عظیم حدیثوں میں شمار کیا گیا ہے۔ بعض محدثین نے تو یہ تک کہا ہے کہ جن تین یا چار احادیث پر پورے دین کی عمارت قائم ہے ان میں سے ایک حدیث یہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دل کی اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ اس سوال کا میں ایک مختصر جواب دے رہا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے پر پانی گرے تو اس کو زنگ لگ جاتا ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑجاتا ہے اور استغفار نہیں کرتا‘ توبہ نہیں کرتااور پھر گناہ کرتا ہے تو ایک اور داغ پڑ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پورے کا پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے‘ پورے کاپورا سیاہ ہوجاتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضورؐ اس کاعلاج کیا ہے؟ دل کیسے صاف ہوسکتا ہے؟ فرمایا کہ کثرۃ ذکر الموت و تلاوت القرآن۔ یہ بیہقی کی حدیث ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ موت کو کثرت سے یاد رکھو اور قرآن کی تلاوت کرو ۔اگر اِعراب تھوڑاسا بدل کر پڑھے جائیں تو اس کا ایک ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ موت کوبھی کثرت سے یاد رکھو اور قرآن کی تلاوت بھی کثرت کے ساتھ کرو۔ ان اعراب کے ساتھ حدیث میں روایت تو نہیں آئی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترجمہ بھی ممکن ہے۔ چنانچہ کثرت کے ساتھ موت کو یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا ہے‘ اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا یہ وہ چیزیں ہیں جن سے دل کی برائیاں دور ہوتی ہیں‘ زنگ دھلتا ہے‘ سیاہی صاف ہوتی ہے اور دل چمکتا ہے۔ اس کے اندر ایمان کا نور پیدا ہوتا ہے‘ اور اس سے پوری زندگی کی اصلاح ہوتی ہے۔ دل کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہوجائے‘ اللہ کی یاد دل کے اندر بس جائے تو یہی چیز دل کو صحیح راستے پر لگاتی ہے۔
میرے بھائیو اور بہنو! اگر ہمیں اپنی زندگی کی تعمیر اس نقشے پر کرنا ہے جو نبی کریمؐ نے ہمیں دیا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اسی چیز سے آغاز کرنا ہوگا۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم عمل کو چھوڑ دیں گے۔ یہ میں نے بالکل واضح کردیا ہے‘ جیسا کہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عمل بھی ساتھ ساتھ ہوگا‘ لیکن دل نقطہء آغاز ہے۔ اس میں اللہ کی محبت‘ اس کاخوف‘اس پر یقین و بھروسا‘ اچھے خیالات کو اگر آپ پروان چڑھائیں گے تو دل میں زندگی پیدا ہوگی۔ دل میںزندگی پیدا ہوگی تو آپ کے اندر وہ قوت اور استعداد آئے گی جس سے آپ اللہ کی اور اس کے نبیؐ کی راہ پر چل سکیں گے۔
جب ڈوری بہت زیادہ الجھ جائے تو آپ کوشش یہ کرتے ہیں کہ اس ڈوری کاکہیں سے سرا پکڑ لیں تو پھر آہستہ آہستہ پوری ڈوری کھلتی چلی جاتی ہے۔ آج ہماری زندگی اس ڈوری کی طرح بہت ساری گرہوں میں الجھ گئی ہے۔ معیشت میں‘ سیاست میں‘ معاشرت میں‘ روزمرہ کی زندگی میں‘ اپنی نفسیاتی زندگی میں‘ معاشرتی زندگی میں‘ گھر میں‘ غرض بے شمار گرہیں ہیں جو زندگی کی اس ڈوری کے اندر پڑچکی ہیں۔ ہم کو کہیں سے اس سرے کو پکڑنا ہے۔ پکڑ کر بیٹھ ہی نہیں جانا بلکہ پوری رسی کو کھولنا ہے۔ انسان کا سرا‘ اس کا دل ہے۔ جب بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ڈوری ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور زندگی ہمارے ہاتھ سے نکل کر خرابی کے راستے پر چل نکلی ہے تو پھر ہمیں واپس جاکر وہیں سے اپنے کام کو شروع کرنا چاہیے‘ اس کی نگرانی کرناچاہیے‘ اس پر نگاہ رکھنا چاہیے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی ہمیں فکر کرنا چاہیے۔ دن میںجتنی بار بھی ممکن ہو اس بات کو یاد کریں کہ اللہ سے ملاقات کرنا ہے اور جتنا وقت بھی اللہ توفیق دے اس کی کتاب کی تلاوت کریں۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید کابیشتر حصہ دراصل موت کی یاد دلاتا ہے اور موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کی دعوت دیتا ہے۔ گویا یہ دونوں چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔
یہ ایک عظیم الشان حدیث کامفہوم ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)