قومی کیرکٹر ہر قوم کی زندگی میں اس کی مادی دولتوں سے کہیں بڑھ کر بیش قیمت ہوتا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کی اسلامی سیرت‘بڑی سے بڑی اسلامی سلطنت اور بڑے سے بڑے قومی ادارہ اور زیادہ سے زیادہ قومی ترقی اور اقتصادی خوش حالی سے زیادہ قیمت رکھتی ہے۔ کسی بڑی سے بڑی قیمت اور عظیم سے عظیم بدل پر بھی اس کے نقصان یا زوال کو گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس پر زوال آگیا یا اس میں کچھ غلط تبدیلی واقع ہوگئی تو بڑی سے بڑی مادی کامیابی اور فتح سے اس کا کفارہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تبدیلی مختلف تاریخی وسیاسی و تعلیمی و تہذیبی اسباب‘ بعض موثر اور اشتعال انگیز حالات و واقعات اور زیادہ ترقیادت کی کمزوری سے صدیوں میں پیش آتی ہے…
ایک نہایت اہم اور گہری اور انقلاب انگیز تبدیلی جو مسلمانوں کی ذہنیت و نفسیات میں اس پچاس سال کے اندر اندر واقع ہوئی ہے‘ وہ یہ ہے کہ آخرت پر ایمان عملاً کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے--- اس سے مسلمان ایک بااصول‘ بلنداخلاق‘ پختہ سیرت جماعت کے بلند مقام سے گر کر ایک بے اصول‘ ناقابلِ اعتبار‘ ابن الوقت اورمصلحت پرست قوم کی ادنیٰ سطح پر آتے جا رہے ہیں جس کے سامنے کوئی اخلاقی معیار نہیں ہے بلکہ صرف منافع و مصالح اور اغراض و مقاصد ہیں…
اخلاق و سیرت اس اُمت کے نظامِ جسم میں قلب کا درجہ رکھتے ہیں۔ لوگ تنومند و فربہ جسم کو دیکھ کر اس جسم کی صحت و طاقت کا حکم لگا دیتے ہیں‘ اور یہ نہیں دیکھتے کہ قلب کس قدر کمزور اور ماؤف ہے اور کس طرح بتدریج اس کی حرکت بند ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کی ترقی کا اندازہ مردم شماری کے اعداد‘ ان کے قومی جوش‘ ظاہری تنظیم اور سرکاری عہدوں کے تناسب سے لگانا بالکل غلط ہے۔ ایک بااصول‘ دنیا کے لیے ایک پیغام رکھنے والی‘ اور اخلاق و سیرت میں دنیا کی تمام قوموں کے لیے معیار بننے والی اُمت کی پیمایش کا ہرگز یہ صحیح پیمانہ نہیں۔ ضرورت ہے کہ دیکھا جائے کہ وہ اخلاق و اوصاف جو زندگی کے صحیح عناصر ہیں‘ اور جن سے اس اُمت کا تشخص و امتیاز ہے وہ روبہ انحطاط ہیں یا روبہ ترقی … (’’مسلمانوںکی موجودہ قومی سیرت کے بعض کمزور پہلو‘‘ ، مولانا ابوالحسن علی ندوی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۱ ۲‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۱ھ‘ دسمبر ۱۹۴۲ئ‘ جنوری ۱۹۴۳ئ‘ ص ۴۲-۴۳‘ ۵۰)