جنوری ۲۰۰۳

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جنوری ۲۰۰۳ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

صابر نظامی ‘  قصور

’’قرآن پاک کا موضوع‘‘ (دسمبر۲۰۰۲ئ) ایک بڑی قابل قدر اور نتیجہ خیز تحریر ہے۔ ڈاکٹر محموداحمد غازی صاحب نے اس موضوع کے تمام پہلوئوں کو نمایاں کر کے پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مضمون پڑھنے کے بعد پہلا تاثر یہ ملتا ہے کہ تمام نیک اور قابل ثواب کاموں کا اجر مادی چیزوں اور امن و امان کا حصول ہے۔ دنیا میں گویا چھ چیزوں کا حصول یقینی ہوتا ہے‘ جب کہ آخرت میں سات اشیا نصیب ہوتی ہیں۔ اسلام پر حکومت کی شکل میں عمل درآمد کے نتیجے میں عوام کو روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘علاج‘ تعلیم‘ شادی اور امن کی سہولت ہوتی ہے جن کا ہر مسلم اور غیرمسلم دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے‘ جب کہ آخرت میں مخلص مسلمانوں کے لیے صحت یاب اور دائمی زندگی کی ضمانت بھی ان کے علاوہ ہے۔ یہ مضمون غیرمحسوس طریقے سے ایک قاری کے دل میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ اللہ کرے زورقلم اور ہو!


محمد ایوب منیر ‘ لاہور

’’حج کی تیاری‘‘ (دسمبر ۲۰۰۲ئ) میں نائیجیریا کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ دوسرے حج کے لیے لوگ مکہ ہی میں ٹھہر جاتے تھے۔ گذشتہ دنوں مراد ہوف مین کی Journey to Islam جو ان کی ۱۹۵۱ء سے ۲۰۰۱ء کی ڈائری ہے پڑھنے کا موقع ملا۔ حج کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’یہاں مراکش میں لوگوں کو خوب اچھی طرح یاد ہے کہ مکہ آنے جانے کا ۱۲ ہزار کلومیٹر کا سفر کتنا خطرناک ہوتا تھا۔ جیٹ کے زمانے سے پہلے اس میں ایک سال لگ جاتا تھا اور عام طور پر اس سفر سے واپسی نہ ہوتی تھی‘‘۔ (ص ۱۹۵)


سید بلال‘ نوشہرہ

’’حکمت دین‘‘ (دسمبر ۲۰۰۲ئ) میں بہت کام کی باتیں آگئی ہیں۔ بس تمنا ہی کی جا سکتی ہے کہ دین کے علم بردار حکمت کے یہ پہلو عملاً اختیار کریں۔ عام تاثر اور مشاہدہ تو یہ ہے کہ دینی لوگ تنگ نظر‘ متشدد‘ دوسری رائے کو تسلیم نہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس پر غور ہونا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ دین میں تو ایسی کوئی بنیاد نہیں۔ کیا ہمارے ہاں دین کی تعلیم اس طرح دی جاتی ہے کہ یہ بات پیدا ہو جاتی ہے؟


رفیق وڑائچ ‘ لاہور

’’حکمت مودودی‘‘ کے تحت مولانا مودودیؒ کے افکار کا عمدہ انتخاب دیکھنے کو ملتا ہے لیکن بسااوقات بہت پتے کی چیز سامنے آجاتی ہے۔ ’’منشورعمل‘‘ (دسمبر ۲۰۰۲ئ) پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوا۔ اگر اس منصوبۂ عمل پر عمل درآمد کیا جائے تو بہت جلد معاشرتی بگاڑ کا سدباب ہو‘ ایک تحریک مزاحمت سامنے آ جائے اور اصلاح اور خیرخواہی کی ایک نئی روح قوم میں دوڑنے لگے۔مولانا مودودیؒ تو ایک مدت ہوئی نسخہ بتاگئے لیکن اس منشور پر کس حد تک عمل درآمد کیا جاتا ہے؟


سید مظفر احمد اشرف ‘ کراچی

’’جنرل مشرف اور پارلیمنٹ کا امتحان‘‘ (دسمبر ۲۰۰۲ئ) کے حوالے سے عرض ہے کہ عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے ارباب اقتدار کو اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عائد کرنا ہوں گی اور دوستوں کو ناراض کرنا ہوگا۔ اسی طرح نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کرنا ضروری ہے‘ لیکن جو قوانین موجود ہیں ان کے حقیقی نفاذ کے لیے تدابیربھی کرنی چاہییں۔


ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی ‘ علی گڑھ‘ بھارت

معروف شیرازی صاحب نے تحریر فرمایا تھا کہ ترتیب نزولی کے مطابق "The Story of the Quran" لکھ رہا ہوں… (’’مدیر کے نام‘‘ ،اکتوبر۲۰۰۲ئ)۔ میرا خیال ہے کہ ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو مرتب کرنا‘ یہودیوں اور دوسرے اعداے قرآن کے لیے تحریف کی طرف ایک روزن کھولنے کے مترادف ہے۔ اگر ترتیب نزولی میں بعد کے زمانوں کے لیے کوئی افادیت ہوتی تو رسول کریمؐ ضرور اس کو محفوظ کرنے کا حکم دیتے۔ رسول کریمؐ کی موجودہ ترتیب ہی اصل ترتیب ہے اور یہ وحی الٰہی اور ہدایت رسولؐ کے عین مطابق ہے۔ خود رسول کریمؐ نے قرآن کو اس ترتیب سے اللہ کے حکم کے مطابق لکھوایا تھا۔ اگر کسی مسلمان کو کسی بھی زبان میں قرآن کی تفسیر یا شرح لکھنی ہے تو اس کو موجودہ ترتیب ہی پر ایمان لاکر اس کے مطابق لکھنا چاہیے۔ حتمی رائے تو کتاب دیکھ کر ہی ظاہر کی جا سکتی ہے۔ ایک نکتہ میرے ذہن میں کھٹک پیدا کر رہا تھا‘ وہ حوالۂ قرطاس کر دیا۔ واللّٰہ یھدی الی سواء السبیل۔