سینیگال افریقہ کے مغرب اور موریتانیا کے جنوب میں واقع ایک اسلامی ملک ہے۔ ۹۵ فی صد آبادی (تقریباً ایک کروڑ) مسلمان ہے لیکن اس کے باوجود اسلامی بیداری اور سیکولر حلقوں کے درمیان گذشتہ ۵۰ برس سے کش مکش جاری ہے۔ یہ سیکولر طبقہ فرانسیسی استعمار کا وارث ہے۔ اس کے علاوہ عیسائی بھی ان کے پشتی بان ہیں۔ بے روزگاری‘ غربت‘ ناخواندگی اور معاشرتی انتشار عام مسائل ہیں۔ اس پر مستزاد سینیگال کے ایک حصے میں علیحدگی کی تحریک ہے جسے فرانسیسی استعمار نے سینیگال کے حکمران کے راستے میں کانٹے کے طور پر بویا ہے تاکہ اس پر دبائو برقرار رہے۔
سینیگال میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں۔ اہم مناصب پر عیسائی براجمان ہیں۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں خاص طور پر مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ تعلیم اور صحت کے مراکز پر عیسائی چھائے ہوئے ہیں۔ البتہ مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ کوئی مسلمان ملک کے کسی بھی حصے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے‘ اپنے دین کے بارے میں تقریر کر سکتا ہے۔ اسلامی اداروں اور تنظیموں کے قیام اور اُن کی سرگرمیوں پر بھی کوئی پابندی نہیں‘ لیکن وہ کسی قسم کی سیاسی پارٹی (مذہب کی بنیاد پر) تشکیل نہیں دے سکتے۔ اگرچہ ملک میں سیکولر اور کمیونسٹ پارٹیاں موجود ہیں لیکن مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی جماعت نہیں بنائی جا سکتی۔ حکومت کا یہ موقف ہے کہ سینیگال ایک سیکولر ملک ہے اس لیے اس میں مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی پارٹی تشکیل نہیں دی جا سکتی۔
ملک کا دستور سیکولر ہے اور اس کے آغاز میں درج ہے کہ سینیگال ایک سیکولر ملک ہے۔ یہ وہ مشکل ہے جو ۱۹۶۰ء میں فرانسیسی استعمارکے جانے کے بعد سے سینیگال کو ورثے میں ملی ہے۔ ملک کا پہلا سربراہ لیولولاسنجور عیسائی تھا جس نے دستور میں یہ بات درج کی تھی۔ اس کے بعدعبدہ ضیوف ملک کے صدر بنے لیکن انھوں نے دستور میں یہ شق برقرار رہنے دی لیکن موجودہ صدر عبداللہ واد‘ اس شق کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کے بارے میں متردد ہیں۔ اس شق کے خاتمے کے لیے دبائو ڈالنے میں بھی کچھ رکاوٹیں ہیں۔ بعض مسلمان دستور سے اس شق کے خاتمے کوحکمت کے خلاف سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح مغرب کا دبائو بڑھ جائے گا کہ سینیگال میں مسلمان اسلامی حکومت کے قیام کے ذریعے عیسائیوں کے لیے عرصۂ حیات کو تنگ کرنا چاہتے ہیں۔
دستور میں اس شق کی موجودگی نے نصاب‘ نظام تعلیم اور ذرائع ابلاغ کوبھی متاثر کیا ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اس کے اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم اور ابلاغ کے شعبے ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود فرانسیسی استعمار کے تربیت یافتہ ہیں۔ یہ لوگ سیکولر رجحانات کی حفاظت کرتے ہیں اور حکومت کی پالیسیوں میں بھی یہ رجحانات نمایاں نظر آتے ہیں۔ لیکن گذشتہ دو سالوں سے حکومتی سطح پر سیکولر تقریبات‘مثلاً سال نو کی آمد اور کرسمس ڈے منانے میں وہ سرگرمی اور جوش و خروش نظر نہیں آتا جو ماضی کا حصہ تھا۔
سینیگال میں دو نظام ہاے تعلیم رائج ہیں‘ ایک آزاد‘ یا پرائیویٹ اور دوسرا حکومتی۔ ذریعۂ تعلیم سرکاری زبان فرانسیسی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمام مراحل میں عربی زبان کی تدریس بھی کی جاتی ہے۔ یونی ورسٹی میں ’’کلیہ آداب‘‘ میں ایک شعبہ عربی زبان کا بھی ہے۔ رہے وہ اسکول جو پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں انھیں اختیار ہے‘ چاہے وہ صرف عربی زبان کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر استعمال کریں یا عربی اور فرانسیسی دونوں کو۔ سرکاری اسکولوں میں کسی بھی دین کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ البتہ پرائیویٹ اسکولوں میں دینی تعلیم دی جاتی ہے۔
ہم ’’عبادالرحمن‘‘ کے مدارس میں عربی اور فرانسیسی دونوں کی تدریس کرتے ہیں کیونکہ عربی مدارس سے فارغ التحصیل اہم مناصب پر پہنچ نہیں پاتے‘ مثلاً نائب وزیر یا وزیر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے فرانسیسی زبان پر اچھی دسترس رکھنا ضروری ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ایک مسلمان اپنے دین کا اچھا فہم رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تبدیلی لانے میں بھی شریک ہو۔ اس ضمن میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ ہماری جماعت کے ایک فرد ایک صوبے میں اہم عہدے پر فائز ہیں۔ بعض طلبہ ڈاکار یونی ورسٹی یا عرب ممالک یا مغربی جامعات میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں۔ اس طرح جدید و قدیم تعلیم کے امتزاج کے ساتھ ہم تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
ہمارے انسٹی ٹیوٹ (انسٹی ٹیوٹ آف عریبک فرنچ) میں‘ جس کی بنیاد ۱۹۶۲ء میں رکھی گئی‘ ایک پروگرام اسلامی تہذیب کا ہوتا ہے۔ میں بھی اس پروگرام کے شرکا میں شامل تھا۔ اس پروگرام میں مکمل اسلامی تہذیب کی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ محض چند مضامین کی تدریس نہیں ہوتی‘ جیسے عقیدہ‘ حدیث یا سیرت کے مضامین۔ موجودہ صدر نے اس سال کے آغاز میں یہ عندیہ دیا کہ ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے دین یا مذہب کی تعلیم کی اجازت دی جائے گی۔ مسلمان اسلام کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھ سکتے ہیں اور عیسائی اپنے دین کو پڑھ سکتے ہیں۔ عربی زبان کی تدریس ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ لیکن ہم حقیقت پسند بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عربی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان کی تدریس بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے مدارس میں عربی اور فرانسیسی دونوں زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔
ہمارا نظام حکومت ‘ سیکولر جمہوری ہے لیکن یہ ترکی کے سیکولر نظام کی طرح نہیں کہ مسلمانوں کو اپنے شعائر پر عمل کرنے کی آزادی نہیں اور ایک مسلمان خاتون کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہمارے ہاں وزرا اور حکومتی اہل کار اسلامی تنظیموں کے کارکنان کا احترام کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے مدارس ہیں۔ مختلف موضوعات پر ہم خطبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ۴۰ پارٹیاں ہیں۔ بعض ایسی پارٹیاں ہیں جن میں اسلامی رجحان پایا جاتا ہے‘ مثلاً سوشل ڈیموکریٹک موومنٹ (الحرکۃ الدیمقراطیۃ الاجتماعیۃ)۔ اس کے سربراہ ایک امام مسجد ہیں۔
سیاسی پارٹیوں کی آزادی محدود ہے۔ انھیں بیرونی امداد لینے کی اجازت نہیں اور نہ وہ کسی دین یا مذہب کے بارے میں گفتگو کر سکتی ہیں اور نہ سیکولرازم پر تنقید کر سکتی ہیں۔ لیکن اسلامی تنظیموں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے اور یہ تنظیمیں دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہیں اور اس طرح اس کے ارکان پارلیمنٹ میں پہنچ سکتے ہیں۔
جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کہ اسلامی تنظیموں کے سیاست میں حصہ نہ لینے سے اسلام کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور سیاست کا میدان اور اقتدار سیکولر طبقے کے ہاتھ میں رہے گا تو اس ضمن میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہم سیاسی پارٹی کی حیثیت کو قبول نہیں کرتے اور ’’جماعت‘‘ ہونے کی حیثیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں سرِدست اس حکمت عملی کے نتیجے میں ہم اپنے مقاصد کو بہتر طور پر حاصل کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ سیاسی پارٹیوں کے قیام کے حق میں ہیں۔ ہم ان کی مخالفت نہیں کرتے‘ تاہم یہ مسئلہ گہرے غوروخوض کا متقاضی ہے۔
فرانسیسی استعمار سے کچھ مخصوص مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ ان مشکلات میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی حکومت کے قیام کا مطلب دوسری اقلیتوں کو حقوق سے محروم کرنا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا اقتصادی‘اجتماعی اور صحت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اسلام کی طرف رجوع کریں جو ان مشکلات کا حل پیش کرتا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیم کے سلسلے میں ہمیں مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ اس تعلیم کے خلاف پروپیگنڈا ہے۔ قرآن مجیدکی تعلیم کے سلسلے میں اب کچھ مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ ماضی میں ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ پہلے اگر کوئی اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دلوانا چاہتاتھا تو وہ اپنے بچوں کو دیہات بھجوا دیتا تھا لیکن اب تو دارالحکومت میں بھی تحفیظ القرآن کے مدارس موجود ہیں۔
اسلامی قوتوں کے مقابلے میں دیگر عناصر اور قوتیںبھی موجود ہیں جو رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں اور مسائل کھڑے کرتی رہتی ہیں۔ان میں ماسونی تحریکیں اور سیکولرطبقہ نمایاں ہے۔ ماسونی تحریکیں زیرزمین سرگرم ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں اہم مناصب پر قبضہ کیا جائے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا وزارت کے قلم دان تک نہ پہنچ سکے۔
سیکولر طبقہ بھی مشکلات اور مسائل پیدا کرتا ہے۔ یہ مشکلات علانیہ نہیں ہوتیں بلکہ خفیہ طریقے سے دبائو ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سینیگال کے معاشرے میں مشائخ کا اثر و رسوخ ہے جس سے معاشرے میں دینی رجحانات نمایاں ہیں۔ اس لیے کوئی شخص بھی علانیہ اسلام کی مخالفت کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ درحقیقت یہ طبقہ تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ ان کا ہدف سیاست کا میدان ہے۔ ابھی تک ان کا دائرہ اثر ان خواتین تک محدود ہے جو فرانسیسی زبان بولتی ہیں۔ ان خواتین کا ہدف تعدد ازدواج جیسے مسائل ہیں‘ لیکن اس طبقے میں بھی ان کا اثر ورسوخ کم ہے۔ بعض خواتین جو تعدد ازدواج کے خلاف سرگرمی سے تحریک چلا رہی ہیں‘ خود ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں جہاں ان کے شوہروںکی کئی کئی بیویاں ہیں۔
ہمارا ایک مسئلہ ’’کاز اماس‘‘ کے صوبے میں خانہ جنگی ہے۔ وہاں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ یہ بھی فرانسیسی استعمار کا پیدا کردہ مسئلہ ہے۔ جاماکون سانجورا اس تحریک کی قیادت کر رہا ہے لیکن نئے صدر نے حکمت کے ساتھ اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ صدر نے مذاکرات اور ملکی سلامتی کے استحکام کی طرف دعوت دی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ عرصے کے بعد یہ تحریک ختم ہو جائے گی۔ اس کا اثر ورسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔
دراصل یہ تحریک ایک ٹائم بم ہے جو استعمار نے صدیوں پہلے نصب کیا تھا۔ فرانسیسیوں کی یہ منصوبہ بندی تھی کہ جب کبھی کوئی مسلمان صدر بنے تو وہ اس علاقے میں علیحدگی کی تحریک کو ہوا دیں کیونکہ اس علاقے میں عیسائی اکثریت میں ہیں۔ اس لیے جب کوئی عیسائی سربراہ مملکت بنتا ہے تو علیحدگی کی کوئی تحریک نظر نہیں آتی۔ جب عبدہ ضیوف نے صدارت کی کرسی سنبھالی تو یہ تحریک بھی شروع ہو گئی اور ۲۰ سال جاری رہی۔
سینیگال کو اس وقت زیادہ تر معاشرتی مسائل کا سامنا ہے۔ غربت‘ موسیقی اور مغربی ثقافت کی طرف میلان اور شہوات کی پیروی جیسے مسائل ان میں نمایاں ہیں۔ ان مشکلات کے حل کے لیے معاشرے کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ملک کی ۵۰ فی صدسے زیادہ آبادی خط ِافلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور نان شبینہ تک کی محتاج ہے۔
سینیگال میں مشنری تنظیمیں بھی سرگرم عمل ہیںلیکن انھیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ البتہ تعلیم کے میدان میں انھوں نے اپنا رنگ جمانے کی کوشش کی ہے۔ عیسائیوں کے زیرانتظام بہت سارے اسکول ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت ان اسکولوں میں زیرتعلیم ہے۔ جب یہ بچے اسکولوں سے فارغ ہوتے ہیں تو وہ عیسائیت کو توقبول نہیں کرتے لیکن سیکولر افکار کے حامل بن کر نکلتے ہیں اور عیسائیوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ آگے چل کر اہم مناصب اور عہدوں پر یہی لوگ فائز ہوتے ہیں۔ دارالحکومت میں مقدس مریم نامی اسکول میں تقریباً ۳ ہزار کے قریب طالب علم زیرتعلیم ہیں۔ ان میں ۹۵ فی صد مسلمان ہیں۔ یہ طالب علم ’’عیسائیت‘‘ بطور مضمون نہیں پڑھتے لیکن عیسائیت زدہ ماحول سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار اسکول سینیگال کے گوشے گوشے میں پائے جاتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں عیسائی بہت آگے ہیں۔ تقریباً ۵۰ کے قریب ڈسپنسریاں ہیں جو عیسائیوں کے زیرانتظام ہیں۔ ہماری جماعت کی بھی تین ڈسپنسریاں ہیں لیکن مسلمانوں کا کوئی ہسپتال سینیگال میںنہیں ہے۔
مشنری سرگرمیوں کے مقابلے کے لیے جذبے کی تو کمی نہیں ہے البتہ بنیادی رکاوٹ غربت اور وسائل کی کمی ہے۔ ہماری ترجیحات دینی تعلیم‘ صحت اور معاشرتی خدمات ہیں۔ اگر ہمارے مدارس اور اسکول بھی بڑی تعداد میں ہوں تو ہم مشنری سرگرمیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ لوگ عیسائیوں کے بجائے ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔
اسلامی بیداری کے حوالے سے خاصی پیش رفت ہے۔ گذشتہ ۵۰ سال سے اسلامی بیداری موجود رہی ہے لیکن اب زیادہ واضح رنگ نظر آتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب اسلامی تحریکوں کے دعوتی کام کی وجہ سے نمایاں پیش رفت ہے جو تعلیم کے میدان میں بھی کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ چینلوں پر اسلامی موضوعات پر لیکچر نشر ہوتے رہتے ہیں جس سے لوگوں کو اسلام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ حکومتی ذرائع ابلاغ دین کے فہم کو عام کرنے کے لیے کم وقت دیتے ہیں۔ البتہ اس کمی کو دعوتی سرگرمیوں‘ تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ چینل کے ذریعے مختلف پروگراموں سے کسی نہ کسی طور پر پورا کرنے کی کوشش جاری ہے‘ اور اس سے اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اسلامی معاشرے کا قیام ہماری تمنا اور خواہش ہے۔ اس لیے پہلے دن سے ہم نے اس کو نصب العین قرار دیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو اسلام کے مطابق زندگی بسر کرے‘ ہماری سب سے بڑی تمنا ہے‘ ہمارا نصب العین ہے اور اسی کے لیے ہم سرگرم عمل ہیں۔ جب ہماری یہ تمنا بر آئی تو ہماری تمام آرزوئیں پوری ہو جائیں گی۔
ہمیں تنظیمی حوالے سے اور ملکی سطح پر کئی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم اور تنظیم کا فقدان سب سے بڑی مشکل ہے۔ اسلامی سرگرمیاں منتشر ہیں۔ ان میں ربط اور ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بعض اسلامی جمعیتیں مخلص (سنجیدہ) نہیں ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ملک کے لوگ فعال اور غیرفعال میں فرق نہیں کرسکتے۔ اس لیے انتشار اور تفرقہ ہماری بڑی مشکل ہے‘ تاہم مجموعی طور پر پیش رفت ہے۔ ہم ان مسائل کے حل کے لیے تگ و دو بھی کر رہے ہیں اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
سینیگال میں اسلام کے مستقبل کے حوالے سے میں بہت زیادہ پُرامید ہوں۔ عوام میں بیداری پائی جاتی ہے۔ دعوتی کام کی آزادی ہے۔ ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ۵۰سال پہلے کوئی خاتون پردہ نہیں کرتی تھی لیکن اب پردے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یونی ورسٹیوں میں بھی طالبات پردے کا التزام کرتی ہیں حتیٰ کہ فرانسیسی تعلیم حاصل کرنے والی ماڈرن خواتین بھی پردہ کرتی ہیں۔ بہت سارے لوگ اپنے بچوں کو عام اسکولوں سے نکال کر ہمارے مدارس میں داخل کروا رہے ہیں۔ یہ دین سے دل چسپی اور دین کی طرف رجوع کے حوالے سے اچھی علامت ہے۔ مجموعی طور پر عوام کی دل چسپی اسلام سے بڑھ رہی ہے اور ان کا رجحان اسلام کی طرف ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے۔ (انٹرویو : عبدالرحمن سعد‘ المجتمع‘ شمارہ ۱۵۱۲‘ ۲۱ اگست ۲۰۰۲ئ)