سود کے بارے میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ ماضی کے ساہوکاری نظام میں تو یہ ظلم کا آلہ تھا مگر آج کے جدید بنک کاری نظام میں یہ خیر ہی خیر کا باعث ہے۔ اگر گہرائی میں جا کر موجودہ نظام کا مطالعہ کیا جائے تو سود آج بھی اسی طرح آلۂ ظلم ہے جس طرح ماضی کے ادوار میں رہا ہے۔ اس کا اندازہ انگلستان کے ایک تحقیقی ادارے Jubilee Research کی ایک تازہ رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے جو ترقی پذیر ملکوںکے سودی قرضوں کے بارے میں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۰ء میں تمام ترقی پذیر ملکوں پر امیر ملکوں کا مجموعی قرض ۷.۷۲ ارب ڈالر تھا۔ اس میں اس وقت کا کل قرض اور جمع شدہ سود دونوں شامل تھے۔ ۳۰ سال میں یہ قرض ۷.۷۲ ارب سے بڑھ کر ۵.۲۵۲۷ ارب ڈالر ہو گیا ہے‘ جب کہ اس پورے عرصے میں یہ ممالک قرض کی اقساط بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ ۳۰ سال میں یہ اضافہ ۳۵گنا ہے۔ آج کا قرضہ ان ممالک کی کل قومی پیداوار کے ۳۷ فی صد کے برابرہو گیا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں ۷.۷۲ ارب ڈالر کے کل قرضوں کے مقابلے میں ۱۹۹۰ء میں‘ یعنی ۲۰ سال کے بعد صرف سود اور اداے قرض کی مد میں یہ ممالک ۸.۱۶۳ ارب ڈالر سالانہ ادا کر رہے تھے جو اب سنہ ۲۰۰۰ء میں بڑھ کر ۹.۳۹۸ ارب ڈالر ہو گیاہے۔ گویا ۲۰ سال بعد اصل قرض سے ڈھائی گنا رقم صرف سالانہ سود ادا کرنے کی نذر ہو رہی تھی۔ ۲۰۰۰ء کے بارے میں یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ اس سال بیرونی امداد کے نام پر جو رقم تمام ترقی پذیر ملک وصول کر رہے تھے وہ صرف ۶۵ ارب ڈالر تھی‘ جب کہ اس سال جو سود اور ادایگی قرض انھوں نے امیرملکوں کو کیا وہ اس سے ۷ گنا زیادہ تھا ‘یعنی ۹.۳۹۸ ارب ڈالر۔
کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ سودی قرضوں کا نظام دراصل ایک نیا غلامی کا نظام ہے جس کے ذریعے امیر ملکوں نے غریب ملکوں کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور وہ ان کا خون چوس رہے ہیں۔
کل کے ساہوکارکو ہر کوئی نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اسے ظالم سمجھتا تھا مگر آج کا ساہوکار محسن بن کر آیا ہے‘اور احسان جتا کر قرض لینے والے ملکوں کو لوٹ رہا ہے اور آہستہ آہستہ معاشی جال میں پھنسا کر ان کی سیاسی آزادی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ جس معاشی ترقی کی خاطر قرض کا یہ سلسلہ چلا تھا‘ وہ ناپیدہے۔ افریقہ کے ممالک کی مجموعی پیداوار ان ۳۰ سالوں میں کم ہوئی ہے۔ غربت ہر جگہ بڑھی ہے۔ قرضوں کا بوجھ ہمالیہ صفت ہو گیا ہے۔ ان ممالک کی اشیاے پیداوار کی قیمتیں گر رہی ہیں اور سود اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ کیا وہ وقت اب بھی نہیں آیا کہ سودی بنیاد پر قائم پوری معاشی حکمت عملی پر ازسرنو غور ہو اور معاشی ترقی کا کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو فی الحقیقت غربت و افلاس کو دُور کر سکے اور عوام کے لیے حقیقی خوش حالی ممکن ہو سکے۔
______________
ترجمان القرآن کا جو شمارہ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اس میں آپ صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے کچھ تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔ آج سے ۷۰ برس پہلے ترجمان القرآن کا جو قدوقامت اس کے مؤسس مدیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترتیب دیا تھا اس پورے عرصے میں اس پر قائم رہنے کی کوشش کی گئی۔ کاغذ اور فن طباعت نے اس زمانے میں جو بھی کروٹیں لیں ترجمان ان سے متاثر نہ ہوا۔رسالے کا سائز وہی رہا ‘صفحات میں کمی اور اضافے کا سلسلہ ہوتا رہا۔ اب اس سلسلے میں ایک فیصلہ ناگزیر ہوگیا۔ جس سائز پر اب تک یہ شائع کیا جاتا رہا ہے اس میں کاغذ کی دستیابی کے علاوہ طباعت کی جدید سہولتوں کے حوالے سے بھی مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ اس لیے ادارے نے طے کیا کہ سائز میں تبدیلی کر دی جائے لیکن مطالعے کے لوازمے کی مقدار کو نہ صرف باقی رکھنے بلکہ اس میں کچھ اضافہ کرنے کے لیے صفحات کو بڑھا دیا جائے۔ اس لیے اس شمارے کا سائز پہلے سے چھوٹا ہے اور ہر صفحے پر ۲۵ کے بجائے ۲۳سطریں ہیں۔ ضخامت کے اعتبار سے ۸۸ صفحات کے بجائے ۱۱۲ صفحات پیش خدمت ہیں۔اس طرح سابقہ قیمت پر ہی ۲۴ صفحات کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
ترجمان القرآن کے اشارات کا بھی ایک اپنا ہی آہنگ ہے۔ اس کی ابتدا سید مودودیؒ نے ۷۰ سال پہلے کی تھی اور پھر برادران محترم نعیم صدیقی‘ عبدالحمید صدیقی اور خرم مراد نے اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے انداز میں اسے برقرار رکھا اور پروان چڑھایا۔ میں نے بھی مقدور بھر اسی کی کوشش کی اور دوستوں کے مختصر نگاری کے مطالبوں کے باوجود اپنی ہی ڈگر پر چلتا رہا کہ ؎
ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
اس اسلوب کا ایک نقصان یہ ہوا کہ مہینے میں ایک ہی مسئلے پر بات ہوسکی اور بہت سے موضوعات جو دعوت کلام دیتے تھے رہ جاتے تھے۔ اب ایک جدت یہ کی جا رہی ہے کہ اشارات کے بعد چند شذرات کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس عنوان کے تحت مدیر یا رفقاے ادارہ مختلف موضوعات پر نقدوتبصرہ کرسکیں گے۔ اس سے تنوع میں اضافہ ہوگا اور دوسرے لکھنے والے بھی ادارتی صفحات میں اظہار خیال کر سکیں گے۔ اس طرح ترجمان القرآن کی کہکشاں پر چاند اور تاروں کا سماں پیدا ہو سکے گا۔
یہ دونوں تبدیلیاں صوری اور معنوی اعتبار سے جدت کی طرف ایک قدم ہیں لیکن درحقیقت روایت ہی کے تسلسل کی علامت ہیں۔ گویا ؎
فصل بہار آئی ہے لے کر رت بھی نئی‘ شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رخ پر لیکن رنگ قدامت آج بھی ہے
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترجمان القرآن کی اشاعت کی توسیع کے سلسلے میں چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ترجمان القرآن روزاول سے ایک پیغام کا علم بردار رسالہ ہے۔ اس کے پڑھنے والوں نے ہمیشہ اس کے پیغام کو پھیلایا اور آگے بڑھایا ہے۔ آج جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں حقیقی اسلام کے احیا کی جو لہر اٹھی ہوئی ہے اس کا آغاز اس صدی میں سید مودودی ؒکے رسالے ترجمان القرآن نے کیا۔
۱۴۲۳ھ کے آغاز پر ہم نے اسے توسیع اشاعت کا سال قرار دیا اور اپنے سب خیرخواہوں کو متوجہ کیا کہ اس پیغام کی وسیع سے وسیع تر حلقے میں اشاعت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ ۱۴۲۳ھ کے اختتام میں صرف دو ماہ رہ گئے ہیں‘ ہم ایک دفعہ پھر توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تمام رفقا نظم کی ہر سطح پر خصوصی منصوبہ بندی کر کے ممکنہ حد تک جو کچھ کر سکتے ہیں اس میں کمی نہ کریں۔
دورانِ سال کا ہمارا تجربہ اور تاثر یہ ہے کہ دل چسپی لینے والوں نے جہاں بھی کوشش کی اس کے نتائج بڑے مثبت آئے۔ ایک ایک جگہ ۵۰ سے زائد خریدار بنائے گئے۔ جب مرکزی منصوبے میں ۲۵ فی صد اضافے کا ہدف دیا گیا ہے تو ہرسطح پر اس کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش کی جانی چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے (ایک آسان نسخہ کاغذ پر لکھنے کی حد تک تو یہ ہے کہ ہر خریدار ایک نیا خریدار بنا دے تو اشاعت دگنی ہو جائے گی)۔ ایسے فرد بھی موجود ہیں جو ۵۰۰ پرچہ لے کر فروخت کردیتے ہیں‘ لیکن اس سے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پورے پاکستان میں‘ تمام شہروں اور قصبات میں جہاں تحریک کا کام ہے‘ ایسے ۶۰ آدمیوں کے برابر کام ہو رہا ہے؟
جب ارادہ ہوتا ہے تو راستہ بھی نکل ہی آتا ہے۔ کرنے کے دس طریقے اور نہ کرنے کے سو بہانے۔ اس پرچے کو ایسے ہر شخص تک پہنچانا جو اس کا قدردان اور امکانی خریدار ہو سکتا ہے۔ متعلقہ افراد اور نظم کی ذمہ داری ہے۔ کوشش ہوگی تو اللہ تعالیٰ ضرور نتائج دے گا۔ اس کا وعدہ ہے۔ تربت جیسے ضلع اور آزاد کشمیر کی ایک یونین کمیٹی میں ۵۰ خریدار بن سکتے ہیں تو زیادہ آباد‘ اور زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ باشعور شہروں اور قصبات میں ہزاروں کیوں نہیں بن سکتے؟
متحدہ مجلس عمل کی کامیابی نے بھی ایک خداداد موقع فراہم کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اور ملک کے ہر گھرانے میں مجلس عمل موضوع ہے۔ جہاں ہم خود پہنچنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے‘ اسلام موضوع بن گیا ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تصویر پہنچائیں تاکہ وہ ہماری کارکردگی صحیح معیار سے جانچیں۔ یقینا ترجمان القرآن کا مطالعہ اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
حسن اتفاق سے ۲۰۰۳ء میں سید مودودی علیہ الرحمہ کی پیدایش کو صدسال مکمل ہو رہے ہیں۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے دو ماہ میں ان کے رسالے ترجمان القرآن کا نئے حلقوں میں تعارف کروانے اور نئے خریدار بنانے کے لیے خصوصی کوشش کریں۔ یاد کریں کہ ۷۰ سال قبل جب انھوں نے ترجمان القرآن کا آغاز کیا تھا تو اس کی اشاعت کس کس طرح اور کس جذبے اور محنت سے کی تھی۔ آج اس پرچے کو ہر طالب حق تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے‘ آیئے اس چیلنج کو قبول کریں اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کوشش میں کوئی کمی نہ چھوڑیں۔