جنوری ۲۰۰۳

فہرست مضامین

’’موڈریٹ اسلام‘‘کی تلاش

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۰۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

امریکہ نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر دنیا کے طول و عرض میں دہشت گردی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اور ایک مہم کی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور توجہ ہٹانے کے لیے نت نئے اہداف کو نشانہ بنانے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس نے پوری دنیا کے چین اور سکون کو پامال کر دیا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ انسانیت کو امن و انصاف سے کوسوں دور لے جانے اور دنیا کی بیشتر اقوام کو ایک نئے سامراجی نظام کے شکنجے میں کسنے کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ طاقت کے نشے نے اسے ایسا بدمست کر دیا ہے کہ صدر جارج بش اور ان کے رفقا‘ نہ اپنے ملک کے اصحاب علم و بصیرت کی بات پر کان دھر رہے ہیں اور نہ عالمی رائے کی آہ و بکا کی انھیں کوئی پروا ہے۔ واشنگٹن اور نیویارک سے لے کر لندن‘ برلن‘ کوپن ہیگن‘ استنبول‘ سیول اور لاہور تک عوام جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں‘ لیکن افغانستان کو تباہ کرنے اور اپنی گرفت میں لے لینے کے بعد امریکہ عراق پر فوج کشی کے لیے تلا ہوا ہے اور ایران‘ سعودی عرب‘ پاکستان‘ شمالی کوریا سمیت۱۸ ممالک کو ضربِ کاری (hit list) کی زد پر رکھے ہوئے ہے‘    بین الاقوامی قانون کو عملاً ہی نہیں‘ نظری طور پر بھی rewrite کیا جا رہا ہے اور عالمی سلامتی کے لیے جو بھی برا بھلا نظام اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے تحت قائم ہونے والے اداروں‘ معاہدات اور ضوابط کی شکل میں بنایا گیا ہے اسے تہہ و بالا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ صدربش کسی شرم و حیا اور تکلف کے بغیر صاف کہہ رہے ہیں کہ:

امریکہ اپنے دشمنوں پر پیش بندی کے طور پر حملہ کرنے سے نہیں ہچکچائے گا خواہ اسے بین الاقوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ اپنی فوجی بالادستی کو خطرے میں پڑنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔عقل عام اور خود اپنے دفاع کا تقاضا یہ ہے کہ امریکہ اس طرح کے ابھرنے والے خطروں کے خلاف ان کے مکمل شکل اختیار کرنے سے پہلے اقدام کرے۔(دی گارڈین ویکلی‘ ۲۶ ستمبر تا ۲ اکتوبر۲۰۰۲ئ)

گویا:    ؎

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے

سزا خطاے نظر سے پہلے عتاب جرم سخن سے پہلے

بش صاحب یہ بھی فرما چکے ہیں کہ:

یا تو عراق اپنے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کو غیر مسلح کر دے یا امریکہ عراق کو اقوام متحدہ کی حمایت یا بغیر حمایت کے غیر مسلح کر دے گا۔

بات صاف ہے ‘ اب نہ کوئی قانون ہے اور نہ ضابطہ‘ صرف طاقت کے ذریعے فیصلے ہونے ہیں اور پوری دنیا امریکہ کی باج گزار ہے۔

دنیا امریکہ کی اس سامراجی یلغار اور استعماری مملکت سازی (empire building) کی دراندازیوں پر ششدر‘ مضطرب اور ان سے متنفرہے۔ راے عامہ کے امریکی ادارے PEW Research کے تازہ ترین جائزے کے مطابق‘ جس میں دنیا کے ۴۶ ملکوں میں ۳۸ ہزار افراد سے ۶۳ زبانوں میں انٹرویو کیے گئے‘ یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دنیا کے ہر علاقے کے عوام امریکہ سے نالاں ہیں اور ان کی امریکہ سے خفگی اور نفرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ممالک جو بظاہر اس نام نہاد جنگ میں امریکہ کے ساتھ ہیں ان کے عوام بھی اپنی حکومتوں سے نالاں اور امریکہ کے جنگی عزائم کے مخالف ہیں۔ امریکہ کے ان عالمی تصورات اور اثرات سے اگر برطانیہ کے ۵۰ فی صد عوام غیرمطمئن اور متفکر ہیں اور ان کو منفی سمجھتے ہیں تو جرمنی میں یہ تناسب بڑھ کر ۶۷ فی صد‘ روس میں ۶۸ فی صد‘ فرانس میں ۷۱ فی صد‘ ترکی میں ۷۸ فی صد‘ پاکستان میں ۸۱ فی صد اور مصر میں ۸۴ فی صد ہو جاتا ہے۔ برطانیہ میں ۴۴ فی صد‘ جرمنی میں ۵۴ فی صد اور فرانس میں ۷۵ فی صد افراد نے اس سے اتفاق کیا ہے کہ عراق پر حملے کی اصل غایت شرق اوسط کے تیل کے چشموں پر قبضہ ہے۔ ترکی کے ۸۳ فی صد عوام عراق پر حملے کے لیے ترکی کے اڈوں کو استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ لبنان میں ۷۳ فی صد‘ اُردن میں ۴۳ فی صد‘ بنگلہ دیش میں ۴۴ فی صد اور نائیجیریا میں ۴۷ فی صد عوام خودکش حملوں کی تائید میں ہیں۔

لندن کے اخبار گارڈین کا مقالہ نگار پیٹرپرسٹن اس پر پکار اٹھتا ہے کہ:

This is alienation on the grandest scale.

یہ عظیم ترین پیمانے پر بیزاری ہے (دی گارڈین‘ لندن ۹ دسمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۱۹)

راے عامہ کے اس جائزے کا خلاصہ بھی گارڈین کے اسی شمارے میں ہے۔ مکمل جائزے کے لیے دیکھیے: What The World Thinks in 2002.

Website: www.people.press.org

جرمنی‘ترکی‘ بحرین‘ مراکش‘ پاکستان‘ ارجنٹائن اور جنوبی کوریا کے انتخابات میں عوام نے   ہوا کے جس رخ کا اظہار کیا ہے وہ اس عالمی رائے کا ایک مظہر ہے۔

ایک طرف دنیا کے عوام کی بے چینی اور اضطراب کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف امریکہ کی قیادت کی رعونت اور انسانیت کو جنگ میں جھونک دینے کے عزائم روز افزوں ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس سے مجبور ہو کر امریکہ کا سابق صدر جیمی کارٹر ۲۰۰۲ء کے نوبل انعام کو وصول کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (۱۰ دسمبر ۲۰۰۲ئ) کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ انسانیت نئے ہزاریے میں ایک ایسے عالم میں داخل ہو رہی ہے جسے کسی صورت میں بھی امن و آشتی کی حالت نہیں کہا جاسکتا۔ کارٹر کے الفاظ میں:

The World is now, in many ways, a more dangerous place

حقیقت یہ ہے کہ دنیا مختلف پہلوئوں سے آج ایک بڑی خطرناک جگہ بن گئی ہے۔

وہ صاف اشاروں کے ذریعے اپنی قوم کو متنبہ کرتا ہے کہ نہ یہ صورت حال طویل عرصے جاری  رہ سکتی ہے اور نہ کوئی بھی طاقت ور ملک پیش بندی کے طور پر جنگ (pre emptive war) کا راستہ اختیار کر کے اس کے خطرناک اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

امریکہ کی یہ پالیسی پوری دنیا اور خصوصیت سے عالم اسلام کو شدید خطرات سے دوچار کررہی ہے۔ اس نے اپنے استعماری اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جن خطوطِ کار پر کام شروع کر دیا ہے‘ ان کو سمجھنا اور حکمت اور فہم و فراست کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ گذشتہ تین ماہ میں جو اہم دستاویزات امریکہ کے فیصلہ ساز اداروں نے جاری کی ہیں ان کا مطالعہ اور تجزیہ بے حد ضروری ہے۔ ان میں سب سے اہم قومی حکمت عملی کی دستاویزات (ستمبر ۲۰۰۲ئ) (US National Strategy Papers) ہیں۔ اس کے ساتھ  Nuclear Posture Review اور تازہ ترین دستاویز: عمومی تباہی کے ہتھیاروں کے مقابلے کی قومی حکمت عملی (دسمبر ۲۰۰۲ئ) کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اہم ترین نکات سامنے آتے ہیں:

۱-  امریکہ کی انتظامیہ اب نہ اقوام متحدہ کو عالمی سلامتی اور صلح و جنگ کے لیے ایک بالاتر ادارہ تسلیم کرتی ہے اور نہ عالمی راے عامہ کو کوئی اہمیت دیتی ہے حتیٰ کہ خود اپنے دستور سے بھی اپنے کو بالارکھنے کا عزم کرچکی ہے۔ جنگ اور کسی دوسرے ملک کے خلاف قوت کے استعمال کے بارے میں جو پابندی امریکی دستور نے لگائی ہے اسے بھی ضروری اقدام کے لیے عمومی اجازت کا مبہم سہارا لے کر جنگ کے اہداف‘ وقت اور نوعیت طے کرنے اور فوج کشی کرڈالنے کے سارے مطلق اختیار امریکی صدر نے خود ہی اپنے ہاتھوں میں  نہایت بے باکی سے بے جا طور پر لے لیے ہیں۔ یہ صاف لفظوں میں نئے استعمار اور استبداد کا راستہ ہے۔

۲-  گذشتہ کئی صدیوں سے عالمی صلح و جنگ کا نظام جن دو اصولوں پر چل رہا تھا‘ یعنی طاقت کا توازن اور ردِ جارحیت‘ وہ دونوں اب ازکار رفتہ ہوگئے ہیں۔ اب نیا اصول پہلے ہی فوجی اقدام ہے جس کا خود دفاعی (self defence) کے نام پر جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس کی حد پوری دنیا ہے‘ کوئی بھی افراد‘ گروہ‘ اقوام اور ممالک۔ امریکہ جہاں چاہے اور جس انداز میں چاہے‘ اس بنیاد پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور اس میں روایتی جنگ کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو بھی روا رکھا جا سکتا ہے۔ غیر ایٹمی ممالک پر بھی کیمیاوی یا گیس کے ہتھیاروں کے بہانے ایٹمی حملہ کیا جا سکتا ہے۔

۳-  پچھلے چار سو سال سے عالمی نظام جس قومی حاکمیت اعلیٰ (national sovereignty) کے تصور پر قائم تھا وہ اب غیرمتعلق ہو گیا ہے۔ امریکہ کی ستمبر۲۰۰۲ء کی  قومی سلامتی کی ان دستاویزات میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ:

امریکہ کے فوجی اور متعلقہ سول اداروں میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ عمومی تباہی کے ہتھیاروں سے مسلح دشمنوں کے خلاف اپنا دفاع کرسکیں بشمول اس کے کہ جہاں ضرورت ہو پیش بندی کے طور پر دیگر اقدامات کریں۔ اس کے لیے اپنے دشمن کے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کے ذخائر کا پتا چلانا‘اس سے پہلے کہ انھیں استعمال کیا جائے اور انھیں تباہ کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔

واضح رہے کہ اس میں فوجی اور سول دونوں ایجنسیوں کو ان اختیارات سے مسلح کیا گیا ہے۔

۴-  اس اختیار کے تحت امریکی صدر نے سی آئی اے کو صاف الفاظ میں یہ اختیار بھی دے دیا ہے کہ دوسرے ممالک میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ریاست کے سربراہوں تک کو قتل کر سکتی ہے۔ اس کے لیے امریکہ میں ایک نیا سیکورٹی نظام قائم کیا گیا ہے جس کا بجٹ ۳۹ارب ڈالر ہے اور جس میں ۲ لاکھ کے قریب عملہ ہوگا۔ ۱۸ ملکوں کو‘ جن میں ۱۷ مسلمان ممالک ہیں‘ ممکنہ دہشت گرد ملک سمجھ کر‘ ان کے شہریوں کے لیے امریکہ میں داخلے پر امتیازی طریق کار اختیار کیا گیا ہے اور مستقل نگرانی کا نظام وضع کیا گیا ہے۔اس فہرست میں سعودی عرب اور پاکستان کا اضافہ سارے احتجاج کے باوجود ابھی دسمبر۲۰۰۲ء میں کیا گیا ہے۔ وزارتِ دفاع میں ایک نیا شعبہ آگاہی اطلاعات (Information Awareness Office) کے نام سے قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے عالمی سطح پر جاسوسی کا ایک ایسا نظام قائم کیا جا رہا ہے جس کی بنیاد پر پیش بندی کے نام پر اقدامات کا کاروبارچلے گا۔

افسر برائے آگاہی اطلاعات‘ ایسی اطلاعی ٹکنالوجیوں کے بارے میں سوچنے‘ ان کو نشوونما دینے‘ اُن کو بروے کار لانے‘ ان کو منضبط کرنے‘ اُن کی وضاحت کرنے اور اُن کی ترسیل کا ذمہ دار ہوگا۔ اس طرح کی مکمل آگاہی پیش بندی‘ قومی سلامتی کے لیے تنبیہات اور فیصلہ سازی میں مفید ہوگی اور ہر طرح کے خطرات کا سدباب کرنے کا باعث ہوگی۔

اس کام کے لیے جن زبانوں کو فوری طور پر high terrorist risk زبانیں قرار دیا گیا ہے وہ عربی‘ پشتو‘ فارسی‘ دری اور مسلم ممالک میں بولی جانے والی دوسری زبانیں ہیں۔ اس ادارے کے ویب پیج پر جو تصویر دی گئی ہے وہ ایک باحجاب (اسکارف پہنے ہوئے) خاتون کی ہے جو فارسی میں ایک امریکی فوجی سے ہم کلام ہے۔ صرف اس ایک ادارے کے لیے      ۲۰۰ ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں اور مشہور زمانہ سابق ایڈمرل جان پوائن ڈیکسٹر اس کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں جو صدر ریگن کے زمانے میں ایران کے معاملات کے سلسلے میں سزایافتہ ہیں اور امریکی کانگریس کے سامنے غلط بیانی اور اسے گمراہ کن معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں پانچ الزامات پر مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ دی گارڈین ویک اینڈ‘ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

۵-  ایک محاذ جو اسی حکمت عملی کا حصہ ہے اس کا عنوان ’’جمہوریت کا فروغ‘‘ رکھا گیا ہے‘ خصوصیت سے عالم اسلام اور عرب دنیا میں۔ یہ کثیرجہتی پروگرام ہے جس میں ایک طرف ان ممالک میں اخبارات‘ رسائل اور میڈیا کو متاثر کیا جائے گا‘ تربیتی نظام قائم کیے جائیں گے اور متعلقہ افراد اور اداروں کو مالی وسائل اور دوسرے ذرائع فراہم کیے جائیں گے تاکہ امریکہ کے نقطۂ نظر کو عام کیا جا سکے اور راے عامہ کو اپنا ہم نوا بنایا جا سکے۔ دوسری طرف ان ممالک کے تعلیمی اداروں کو ’’نئی روشنی‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ان ممالک میں انسانی حقوق‘ عورتوں کی بیداری اور معاشرتی ترقی کے منصوبوں کو امریکی جمہوریت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ این جی اوز اس کا خصوصی آلہ کار ہوں گی۔ ان ممالک میں حکومتوں کو ’’زیادہ جمہوری‘‘ بنانے کے لیے وہاں کی ’’ہم خیال‘‘ قوتوں کو مضبوط کیا جائے گا۔عراق میں جمہوریت لانے کے لیے وہاں کی حزب اختلاف کو لندن میں حال ہی میں جو منظم کیا گیا ہے وہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

یہ عمل ان تمام ممالک کے لیے اختیار کیا جائے گا جہاں امریکہ تبدیلی ٔ قیادت کو ضروری سمجھتا ہے۔ اب تک جمہوریت کے معنی یہ تھے کہ ملک کے عوام اپنی مرضی کی قیادت منتخب کریں۔ اب جمہوریت کے معنی یہ ہوں گے کہ فوجی یا سیاسی عمل کے ذریعے دنیا کے ممالک میں ان قیادتوں کو ہٹا دیا جائے جو امریکہ کے لیے ناقابلِ قبول ہیں اور ان کو زمام کار سونپی جائے جو امریکہ کے لیے قابلِ قبول ہیں۔ فلسطین میں یاسرعرفات کا معاملہ ہو یا عراق‘ ایران‘ پاکستان‘ سعودی عرب یا کسی بھی ملک میں سیاسی قیادت کا--- اب امریکہ کو جمہوریت کے نام پر اپنی من پسند قیادت اوپر لانے کا اختیار ہے اور جسے وہ ناپسند کرے اسے ہٹانے کے لیے جو حربہ بھی وہ استعمال کرنا چاہے وہ جائز اور روا ہے۔ سیاسی نقشے کو تبدیل کرنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد شرق اوسط اور دوسری جنگ کے بعد افریقہ کا سیاسی نقشہ استعماری قوتوں نے بنایا جس کی سزا یہ عوام آج تک بھگت رہے ہیں اسی طرح اب امریکہ نیا نقشہ بنائے گا۔ جنگ‘ سیاست‘صحافت‘ ڈپلومیسی‘ یہ سب اس کے ہتھیار ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ کیا گیا‘ اس سے پہلے بوسنیا اور کوسووا میں جو تجربہ ہوا ‘ اور اب عراق میں جو کچھ کیا جانے والا ہے وہ سب اسی حکمت عملی کے شاخسانے ہیں۔

گارڈین کا مضمون نگار ٹموتھی ایش اس کا پورا نقشہ کھینچتا ہے:

یہ نیا جمہوری اور خوشحال عراق اپنے پڑوسیوں کے لیے ایک نمونہ اور مقناطیس ہوگا جس طرح کہ مغربی جرمنی اور مغربی برلن سردجنگ کے زمانے میں اپنے غیرآزاد پڑوسیوں کے لیے تھے… پیش بیں سوچنے والے ایران کو جمہوری بنانے کے لیے نرم انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ پھر امریکہ کا مال دار‘ استبدادی دوست و حلیف سعودی عرب ہے‘ جس کے وہابی اسلام کے چشموں سے--- تیل کے چشموں کے ساتھ ساتھ‘ نفرت کے ان چشموں سے--- بہت سے دہشت گرد نکلے جنھوں نے ۹ستمبر کو امریکہ پر حملہ کیا۔ انتظامیہ میں کوئی بھی اس بات کو کھل کر کہنا نہیں چاہتا مگر عراق کو جمہوری بنانے کا واضح منطقی تقاضا سعودی عرب کو جمہوری بنانا ہے۔ اگر آپ اسلامی مچھروں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان جوہڑوں کو خشک کرنا ہوگا جہاں وہ پرورش پاتے ہیں۔ گو کھلے طور پر نہیں‘ لیکن اقتدار کے بغلی کمروں اور راہداریوں میں اب لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ پورے شرق اوسط کو نئے نقشے کے طابق بنانے کے لیے ولسن جیسے منصوبے پر عمل کیا جائے جس کا موازنہ تصور کی بلندی میں صرف یورپ کے لیے ۱۹۱۹ء اور ۱۹۴۹ء کے منصوبوں سے کیا جا سکتا ہے۔ (دی گارڈین‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

اس نقشہ جنگ کے مختلف پہلو ہیں: عسکری‘ سیاسی‘ سفارتی‘ ابلاغی‘ نظریاتی اور تہذیبی۔ دوسرے پہلوئوں کے بارے میں پہلے بھی گفتگو ہوچکی ہے اور اس تحریر میں بھی اس کے واضح اشارات موجود ہیں۔ البتہ جس پہلو کے بارے میں ہم ذرا کھل کر بات کرنا چاہتے ہیں وہ نظریاتی اور تہذیبی ہے ‘ بالخصوص عالم عرب اور عالم اسلام کے بارے میں۔

ہزار کہا جائے کہ امریکہ کی یہ جنگ صرف تشدد کے خلاف ہے‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج اگر بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور تشدد کی کوئی علامت ہے تو وہ اسلام اور مسلمان ہیں۔ نہ بھارت کی جنتا پارٹی‘ ہندو بنیاد پرستی‘ تشدد اور خون آشامی کوئی مسئلہ ہے‘ نہ اسرائیل کی لیکود (likud) پارٹی کے شیرون کی فسطائیت کوئی قابلِ قدر مسئلہ ہے اور نہ شیشان میں روس کا ظلم و ستم ہی کسی زمرے میں آتا ہے بلکہ بھارت امریکہ کی اسٹرے ٹیجک دوستی ہمیشہ سے زیادہ مستحکم ہے۔ اسرائیل امریکہ کا اسی طرح چہیتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے  اقوام متحدہ کے مبصروں کی ہلاکت پر سلامتی کونسل میں مذمت کی قرارداد کو ۱۵ میں سے۱۲ ووٹ حاصل ہوئے اور دو کے غیر جانب دار ہونے کی پروا نہ کرتے ہوئے امریکہ ویٹو کرکے اس ظلم میں شرکت اور اس کی سرپرستی کا اعزاز حاصل کر رہا ہے‘ اور سارے ظلم و زیادتی کے باوجود  اسرائیل کو روس کے صدر پیوٹن کی آشیرباد حاصل ہے۔ ان حالات میں اگر عالم اسلام یہ نتیجہ نکالے کہ امریکہ کا یہ ساراکھیل صرف مسلمانوں کے لیے ہے‘ یعنی اصل نشانہ اسلام اور مسلمان ہیں تو اسے کسی طرح خلافِ حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ اس جنگ کا اصل ہدف مسلمان اور اسلام ہیں۔ اس بارے میں کسی غلط فہمی میں رہنا تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوئی پردہ تھا تو وہ صدربش کے قریب ترین مشیروں کے ہاتھوں تار تار ہو چکا ہے۔ ان کا ایک پالیسی ایڈوائزر کینتھ ایڈلمین ہے جو وزارتِ دفاع کے دفاعی پالیسی کے بورڈ کا رکن رکین ہے‘ وہ صاف کہہ رہا ہے کہ صدربش نے جو اسلام کو ایک ’’امن پسند دین‘‘ کہا ہے وہ قبول کرنا ممکن نہیں۔ اس کے الفاظ میں:

To call Islam a peaceful relegion is increasingly hard argument to make.

اسلام کو ایک پُرامن مذہب قرار دینا ایک ایسی دلیل ہے جسے دینا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

اس کا اعلان ہے کہ اسلام عسکریت پسند (militriastic) ہے۔ وہ یہاں تک کہہ گیا ہے کہ:

بہرحال اس کے بانی محمدؐ ایک جنگجو تھے‘مسیحؑ کی طرح امن کے علم بردار نہیں تھے۔

ایک دوسرے مشیرخاص ایلیٹ کوہن جو Johns Hopkin School of International Studies کے پروفیسرہیں اور اسی بورڈ کے رکن ہیں وہ بھی فرماتے ہیں کہ امریکہ کا اصل دشمن ’’دہشت گردی‘‘ نہیں ’’عسکری اسلام‘‘ (millitant islam)ہے۔

جارج بش کا دوست اور مشہور عیسائی خطیب پیٹ رابرٹسن تو دریدہ دہنی کی اس انتہا تک جاتا ہے کہ: ایڈولف ہٹلر برا تھا لیکن مسلمان یہودیوں کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ برا ہے۔

جیری فال ویل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’دہشت گرد‘‘ (نعوذ باللہ) کہنے کی جسارت کرتا ہے اور بلی گراہم کے صاحبزادے فرینکن گراہم جنھوں نے صدربش کی  افتتاحی تقریب میں بائبل پڑھی تھی اسلام کو "evil" قرار دیتے ہیں۔ ہم نے دل پر جبر کر کے یہ تمام حوالے اس لیے دیے کہ مسلمانوں کے سامنے امریکہ کی نظریاتی جنگ کا صحیح نقشہ آسکے اورڈپلومیسی کی زبان کے پیچھے جو اصل عزائم کارفرما ہیں ان کو سمجھنے میں کوئی التباس باقی نہ رہے۔

ایک طبقہ وہ ہے جو اس طرح کھل کر اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنا رہا ہے اور امریکہ اور مغرب کی قیادتوں کو یقین دلا رہا ہے کہ اصل دشمن قوت اسلام ہے تو دوسرا زیادہ سمجھ دار طبقہ اس سے ذرا ہٹ کر یہ راستہ اختیار کر رہا ہے کہ اسلام اور موڈریٹ اسلام میں فرق کی ضرورت ہے۔ اسلام کو کھلے کھلے ہدف بنانا خلافِ حکمت اور ناقابلِ عمل ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے ان کے دین کو اس طرح چیلنج کر کے معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو بانٹنے‘ ان کے درمیان انتشار اور افتراق ڈالنے اور خود ان کو عسکری اور امن پسند‘ انتہا پسند اور معتدل‘ انقلابی اور موڈریٹ کے خانوں میں بانٹا جائے اور اندر سے نقب لگا کر ان کو اپنے رنگ میں رنگنے اور عالمی اقدار‘ جمہوریت اور آزاد روی (liberalism) کے نام پراپنے مفید مطلب کردار کے لیے تیار اور آمادہ کیا جائے۔ یہ اسلام پر سامنے سے   حملہ آور ہونے کے بجائے اسے اندر سے سبوتاژ کرکے اور مسلم معاشرے کو آپس میں بانٹنے اور لڑانے کا منصوبہ ہے۔ اس میں انھیں اپنے اعوان و انصار کے طور پر خود مسلمانوں میں سے بھی کمزور ایمان و اخلاق والے عناصر اور ان افراد اور گروہوں کے تعاون کی توقع ہے جو مغربی استعمار اور تہذیبی یلغار میں اپنی دینی اور تہذیبی جڑوں سے کٹ گئے ہیں اور مغرب کے تہذیبی تصورات اور طور طریقوں کے دلدادہ بن چکے ہیں۔

اس جنگ کا ایک فکری محاذ ہے۔ اسلام کے بارے میں وہ سارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا پچھلی صدی میں کافی و شافی جواب دیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف دینی تعلیم کے نظام کو ہدف بنایا جا رہا ہے تاکہ علم دین اور تہذیبی روایت کے یہ محافظ ڈانواڈول ہو سکیں۔ معاشی ترقی اور مادی سہولتوں کے نام پر ایسے منصوبے فروغ دیے جا رہے ہیں جو ایک مفاد پسند طبقے کو جنم دے سکیں اور وہ مغربی استعمار کا آلۂ کار بن سکے۔ اسلام کو مسجد اور گھر کی چار دیواری میں محصور کرنے اور دین و سیاست کے دائروں کو الگ الگ کرنے کا سبق پڑھایا جارہا ہے اور یہ سب کچھ اسلام ہی کے ایک مطلوب کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اسلامی اداروں اور تحریکوں کو مادی اور مالی وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے اور ساری دنیا میں خوف و ہراس کی ایک ایسی فضا بنا دی گئی ہے اور اسے مزید مستحکم کیا جا رہا ہے کہ اسلامی سرگرمیوں کو مالیات فراہم کرنے کے آزاد ذرائع مفقود ہو جائیں اور صرف وہ میدان میںرہیں جو سرکار دربار کے ہم نوا ہیں۔ ہم اس سلسلے میں چند اہم حوالے صرف ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے دے رہے ہیں جو اب بھی امریکہ کی قیادت اور مغربی کوچہ گردوں سے کسی خیر کی توقع رکھتے ہیں۔

امریکہ کے نائب وزیر دفاع پال وال فووٹز نے لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز میں ابھی پچھلے مہینے اپنے خطاب میں سارے پتے کھول کر میز پر رکھ دیے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

جدید ترکی اس امر کا مظہرہے کہ ایک جمہوری نظام یقینا اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور ریاست سے مذہب کو جدا کیا جا سکتا ہے جو انفرادی نیکی کے ساتھ مکمل موافقت رکھتا ہے۔

اس خطبے میں موصوف نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ:

اسلام کی ایک اصلاح شدہ اور معتدل شاخ جمہوریت پر مبنی آفاقی اقدار کے نظام کی ایک شاخ کے طور پر سامنے آئے گی۔ اگر اقدار آفاقی ہوں گی تو تہذیبوں کا کوئی تصادم نہیں ہوگا۔

موصوف کو کون یاد دلائے کہ ترکی میں فوج سیکولرزم کے نام پر جمہوری قوتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے‘ کس طرح انھیں کان سے پکڑ کر پارلیمنٹ اور سیاست سے باہر کر رہی ہے اور پورے نظام کو اپنے فوجی بوٹ تلے دبائے ہوئے ہے۔ رہا معاملہ آفاقی اقدار کا‘ تو اگر موصوف اس میں ’’مغربی‘‘ کا اضافہ کر دیتے تو بات صاف ہو جاتی!

سارا مسئلہ ہی اسلام کو غیر سیاسی بنانے کا ہے جو خالص مغربی تصور ہے۔ اسلام تو اس کی ضد ہے  ع

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

لیکن مغرب کا اسلامی دنیا میں ہدف یہی دین و سیاست کی تفریق ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ کرسٹیناروکا کے لیے امریکہ کی سفیرصاحبہ کے گھر پر منعقد ایک تقریب میں سفیرصاحبہ نے ساری بات ایک جملے میں ادا کردی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ ’’ہم پاکستان کو ایک روادار‘ سیکولر ملک کے طور پردیکھنا چاہتے ہیں‘‘ (نوائے وقت‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ئ)۔ پس یہی کانٹے کی بات ہے۔

تھامس فریڈمین امریکہ کے ان صحافیوں میں سے ہے جو سیاست دانوں سے زیادہ اہم ہے۔ سعودی ولی عہد نے فلسطین کے بارے میں اپنے خیالات اسی کے ذریعے امریکہ اور دنیا کے سامنے پیش کیے تھے۔ وہ مسلسل لکھ رہا ہے کہ ہماری اصل جنگ اس اسلام سے ہے جو جہاد کے تصور کو دین کا حصہ سمجھتا ہے۔ وہ صاف لکھتا ہے کہ:

اگر پاکستان جیسی قومیں غربت میں زندگی گزارتی رہیں‘ اگر اُن کے عوام صرف ان مذہبی مدارس کے مصارف ہی برداشت کر سکتے ہوں جو صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں تو پھر ہم خوف ہی کے عالم میں زندگی گزاریں گے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘  آئی ایچ ٹی‘ ۹ دسمبر ۲۰۰۲ئ:  Cause to worry)

اور اس سے بھی کھل کر اس نے نیویارک ٹائمز اور انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں بالی کے واقعے کے بعد صدربش کی طرف سے مسلم ممالک کے تمام قائدین کے نام ایک فرضی خط کی شکل میں امریکہ کے پورے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی قیادت کو مطعون کرنے کے بعد بش کی زبان سے موصوف یوں گویا ہوتے ہیں:

آپ کہتے ہیں کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں--- میرا خیال ہے کہ اس کا تعلق آپ کے درمیان اسلام کی ایک شدید  غیرروادار قسم کے عروج سے ہے جو محض اسرائیل کے خلاف ایک ردعمل نہیں ہے بلکہ آپ کی ناکام ریاستوں‘ تیل کی ضائع شدہ دولت‘ شکستہ نظریات (ناصرازم) اور نسل درنسل آمریت اور ناخواندگی کا جواب ہے۔ یہ سخت گیر بنیاد پرستی جو مسلح اور ناراض ہے ایسا لگتا ہے کہ اب اعتدال پسند مسلمانوں کو بھی خوف زدہ کر رہی ہے۔ لیکن جن اقدار کی یہ تبلیغ کرتی ہے ‘ یہ آپ کے لیے تباہی لائیں گی اور ہمارے ساتھ تنازع کا باعث بنیں گی۔ جیسا کہ کیٹو (CATO) ادارے کے برنک لنٹسے نے نیشنل ریویو میں لکھا ہے: ’’کوئی مذہب جو قدیم کتابوں کا رٹا لگائے‘ ناقدانہ تجسس اور اختلاف کو دبائے‘ خواتین کو محکوم رکھے‘ اقتدار کے آگے غلاموں کی طرح جھکنا سکھائے‘ تہذیبی زوال کے علاوہ کسی چیز کا نسخہ نہیں ہے۔ وسط میں موجود شائستہ لیکن غیرسرگرم مسلمانوں کو اس سخت بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کرنا چاہیے۔

اور اس خط کو یوں ختم کرتا ہے:

دوستو! جب تک تم خود اپنی تہذیب کے اندر جنگ نہیں کرتے تو ہماری تہذیبوں کے درمیان جنگ ہوں گی۔ ہم ا س سے صرف ایک اور ۹ ستمبر کے فاصلے پر ہیں۔ اس لیے آیئے ہم تہیہ کرلیں کہ آیندہ برس ہم اپنے درمیان عدم روادری کے خلاف لڑیں گے تاکہ ہمارے باہمی تعلقات قائم رہ سکیں۔ (دی ایشین ایج‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۱۴)

اصل ایشو کیا ہے؟ اس کا اس سے واضح بیان اور کہاں سے حاصل ہوگا۔ اگر اس    پس منظر میں سعودی وزیرداخلہ کے اس بیان کو پڑھا جائے جو پچھلے ایک مہینے میں انھوں نے دو بار دیا ہے اور اخوان المسلمون کو اپنے سارے عتاب کا نشانہ بنایا ہے تو بات سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ اس لیے کہ سعودیوں کو بھی امریکہ کی قیادت اور صحافت نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی نیا وار کر کے وہ اسے حواس باختہ کیے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف محض نام نہاد اور نامعلوم ’’دہشت گردوں‘‘ کی مالی معاونت نہیں‘ اس ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کی تلاش ہے۔

امریکہ کے ایک دانش ور جن کا پالیسی ساز اداروں پر بڑا اثر ہے جم ہوگ لینڈ ہیں‘   وہ صاف لفظوں میں لکھتے ہیں کہ:

دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ اور پیٹروڈالر کے وافر ذخائر کے غائب ہونے نے سعودی حکمرانوں کو فیصلے کی نازک گھڑی میں لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ اکیسویں صدی میں اپنی بقا کے لیے اُن کو دہشت گردوں اور رقمیں وصول کرنے والوں کے کام کو سرگرمی سے بند کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ اُن کو تحفظ دیں اور رقم فراہم کریں۔ سب سے بڑی تبدیلی اپنے گھر میں آنی چاہیے۔ آل سعود کو وہابی فرقے کے ساتھ اپنے عہدکو ختم کر دینا چاہیے جس کو بادشاہت کی حمایت کے بدلے میں مملکت کے اجتماعی‘ اقتصادی اور سیاسی زندگی میں غیرمعمولی غلبہ حاصل ہے۔ وہابی علما نے اسلامی خیرات کو شرق اوسط اور وسط ایشیا میں دہشت گردی نفرت پھیلانے کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کیا۔ سعودی بادشاہت کو انتہا پسندوں سے دست کش ہوجانا چاہیے اور اُن کا جواز ختم کر دینا چاہیے… یا دنیا سے نیست و نابود ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امریکیوں کو سعودیوں کو دیانت داری سے بتا دینا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کو حقیقی تحفظ فراہم کرنے کی یہ واحد صورت ہے۔(آئی ایچ ٹی ‘۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

چلیے سعودی عرب کا تو قصہ پاک ہوا۔ اب باقی عالم اسلام کو لے لیجیے۔ ایک اور مشہور مفکر اور کالم نگار ولیم یف ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے عنوان سے صورت حال کی یوں نقشہ کشی کرتے ہیں:

مبصرین جب اسلامی دنیا میں جدیدکاری کے بحران پر گفتگو کرتے ہیں تو دراصل وہ تنازعے کی حقیقی وجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وجہ اسلامی معاشرے کی اور جدید مغرب کی اقدار میں عدم مطابقت ہے۔

مغرب کا غلبہ اور مادی رفتارِ ترقی ایک ایسے نظام اقدار سے علیحدہ نظر نہیں آتا جس کا مطالبہ ہے کہ مسلمان اپنے اخلاقی تشخص کو ترک کر دیں۔ ایک تازہ کتاب میں برطانوی مصنف ریجر سکروٹن یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہم اسلام کو مغربی ٹکنالوجی‘ مغربی ادارے اور مذہبی آزادی کے مغربی تصورات کو رد کرنے کی کوشش کرنے کا الزام کیوں دیں جب کہ ان میں ان تصورات کو مسترد کیا گیا ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے: اللہ کا ناقابل تغیرفرمان جو اُن کے نبی پر نہ تبدیل ہونے والے مجموعہ قانون کی شکل میں ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لیے نازل کیا گیا۔

آخر مغرب نے خود ہی سے کیوں یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے موجودہ مذہبی تصورات کو بہ زور ختم کر دیا جائے‘ صرف اس لیے نہیں کہ وہ مغرب کو موافق نہیں آتے بلکہ اس لیے کہ مغرب یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ خودمسلمانوں کے لیے بھی مناسب حال نہیں۔

اسلامی حکومتوں پر مسلسل مغربی دبائو ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مغربی تصورات کے مطابق ہو جائیں اور آزادانہ اور ناقدانہ مذہبی فکر کی حوصلہ افزائی کریں۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ اصل ایشو ہی یہ ہے کہ عالم اسلام اپنا تشخص اسلامی رکھنا چاہتا ہے یا ’’ماڈرن اسلام‘‘ کے عنوان تلے اپنے کو مغرب کے رنگ میں رنگنے اور اس کے تہذیبی اور معاشی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ اصل جنگ ہے جو سیاست اور عسکری میدانوں میں لڑی جا رہی ہے اور فکری‘ تہذیبی‘ معاشی اوراخلاقی میدانوں میں بھی۔ امریکہ اور اس کے کارندے ہر محاذ پر سرگرم ہیں۔ بات افغانستان پر فوج کشی اور نام نہاد امن فوج کی کارگزاریوں کی ہو یا عراق پرحملہ اور عمومی ماس کے ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی مہم جوئی کی‘ پاکستان کے جوہری وسائل کا تعاقب ہو یا ایران پر جوہری صلاحیت کے حصول کے الزامات--- یہ سب تو سیاسی اور عسکری دبائو کا حصہ ہیں لیکن ان کے ساتھ معاشی ترغیبات و ترہیبات اور ثقافتی‘ تعلیمی اور ابلاغی جارحیت اس ہمہ جہتی جنگ کے اہم پہلو ہیں۔ آسٹریلیا کی نیشنل یونی ورسٹی کے دفاعی اور اسٹرے ٹیجک مطالعات کے شعبے کے ڈائرکٹر ایل ڈنیورٹ نے جنگ کے اس محاذ کی یوں نقشہ کشی کی ہے:

ایک ایسی جنگ مذہبی مدارس اور ان کے ہوسٹلوں میں لڑی جانی چاہیے جو مستقبل کے انتہا پسندوں کی پرورش گاہ (incubator) ہیں۔ یہ جنگ جنوب مشرقی ایشیا کے ظہور پذیر سول سوسائٹی کے مدیران جرائد‘ اسکولوں کے اساتذہ‘ مذہبی رہنمائوں‘ سیاست دانوں‘ غیر حکومتی انجمنوں اور دیگر عناصر کو لڑنا چاہیے اور معتدل مسلمانوں کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

نقشہ جنگ آپ کے سامنے ہے۔ ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کی تلاش بالکل اسی نوعیت کی کوشش ہے جیسی برطانوی استعمار نے اپنے عروج کے زمانے میں جہاد کے خلاف محاذ قائم کیا اور ایسی نبوتوں کی افزایش کی کوشش کی جو جہاد کو منسوخ قرار دیں تاکہ اس طرح برطانوی استعمار کے سائے میں زندگی کو عین اسلامی قرار دینے کی سعادت حاصل ہو لیکن جس طرح وہ حکمت عملی ناکام رہی اسی طرح یہ حکمت عملی بھی بارآور نہیں ہو سکتی۔

اصل نقشۂ جنگ کو سمجھنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری جوابی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ اس پر آیندہ شمارے میں اظہارِ خیال کیا جائے گا۔