--- بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے ہمیں اپنا حریف سمجھ لیا ہے حالاں کہ ہم کسی انسان‘ گروہ‘ یا فریق کے حریف نہیں ہیں۔ ہم تو معاشرے کی برائیوں کے مخالف ہیں۔ ہماری عداوت شر اور فساد سے ہے۔ ہم انسانوں کے دشمن نہیں بلکہ ہمدرد ہیں۔ اگر ہم نے اصلاح کے لیے کبھی کوئی سخت طریقہ اختیار کیا تو ہمارا رویہّ دشمن کا سا نہیں بلکہ اس ڈاکٹر کا سا تھا جو مرض کو ختم کرنے کے لیے مریض سے سختی روا رکھتا ہے۔ محض اخلاص کی بنا پر ہماری تنقید میں سختی تھی۔ ہماری طرف سے کسی کو بدنام کرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف توجہ اور اصلاح کی خاطر بنیادی برائیوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ پھر اس کارِخیر کے لیے ہم اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھے تھے کہ ہم فرشتے اور اس قوم کے صالح ترین لوگ ہیں بلکہ اس معاشرے کی اصلاح کے لیے ‘ جس کے ساتھ ہمارا مرنا‘ جینا ہے۔ اس خیال سے اٹھے کہ اگر عذابِ الٰہی آیا تو ہم سب میں سے کوئی نہ بچ سکے گا۔ برائیوں کے برے نتائج سے بچنے کے لیے ہم اپنی اور خلق خدا کی اصلاح چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے گروہ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں نے خود اپنا‘ معاشرے کا اور پوری قوم کا نقصان کیا ہے۔ بہرحال یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں پھر کام کا موقع عطا فرمایا۔
ہمارے ملک اور قوم کا اخلاقی انحطاط پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جرائم کی کثرت‘ فواحش کی زیادتی اور اخلاق کا بگاڑ--- یہ ساری کیفیت آپ کے سامنے ہے۔ ہر اخلاقی حس رکھنے والا آدمی بگاڑ کی اس رفتار کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو‘ اپنی طاقت اور ذرائع استعمال کر کے اس رفتار کو روکا جائے اور قوم کو برائی سے روکنے اور بھلائی کی طرف موڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس موقع پر‘ جب کہ ہم یہ کام شروع کر رہے ہیں ضرورت ہے کہ ہم ایک مرتبہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اصل کام کیا ہے؟ خود وہ حالات کیا ہیں جن میں ہمیں کام کرنا ہے‘ اور اس کام کو انجام دینے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر اور اس کے ساتھ باہر کیا کیا تبدیلیاں لانی ہیں۔
جماعت اسلامی کے پیشِ نظر اوّل روز سے یہ مقصد رہا ہے کہ پورے نظام زندگی کو جو خدا کی بندگی سے بے نیاز اور آزاد ہو کر چل رہا ہے‘ تبدیل کیا جائے اور اسے ازسرنو اللہ کی بندگی اور انبیاے کرام ؑ کی لائی ہوئی تعلیمات پر استوار کیا جائے۔ جماعت کسی جزوی مقصد کے لیے کام نہیں کر رہی۔ ویسے وہ محدود مقاصد کو برا نہیں سمجھتی اور نہ ان کی مخالف ہے۔ اس زمانے میں‘ جب کہ کوئی اللہ کی بندگی کی طرف بلاتا ہو اور چاہے صرف کلمہ ہی کیوں نہ پڑھواتا ہو وہ بہرحال نیکی کا کام ہے۔ شیطان کی طرف بلانے والوں کے مقابلے میں نیکی کی طرف بلانے والے کا ہم خیر مقدم ہی کرتے ہیں۔ چاہے وہ ہمیں غلط کہے۔ اسی طرح اگر کوئی علم دین کا کام کررہا ہے تو ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا اس کے کام میں برکت دے مگر ہمارے پیش نظر جو کام ہے وہ نظامِ زندگی کی بحیثیت مجموعی اصلاح اور پورے نظامِ زندگی کا دین حق کی بنیاد پر قیام ہے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے انبیا ؑ بھیجے جاتے رہے ہیں۔ ا نبیاؑ کسی جزوی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ کلی اصلاح کے لیے آئے تھے۔ خدا سے بے نیازی اور بغاوت ختم کر کے اس کی بندگی اور قانونِ شرعی کی پیروی کے سوا ہم کوئی اور مقصد نہیں رکھتے۔ اس مقصد کو ہم اوّل روز سے واضح کرتے چلے آئے ہیں۔
یہ ایک اجتماعیت پذیر دور ہے۔ اس میں لیڈرشپ ایک فیصلہ کن عامل کی حیثیت سے سیاسی‘ فکری‘ ذہنی اور اخلاقی حیثیتوں سے نظامِ زندگی کو کنٹرول کرتی ہے۔ اسی لیڈرشپ کے مرتب خطوط پر ذہنیتیں بنتی ہیں اور اسی کے مقرر کردہ اصولوں پر زندگی کے شعبے چلتے ہیں۔ عدالت‘ قانون اور معاش سب پر ان کا کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ گویا جب تک یہ بنیادی تبدیلی نہ ہو‘ اس وقت تک نظامِ زندگی میں تبدیلی کا امکان نہیں۔ اس سب کچھ کے ساتھ جس حد تک وہ ہمیں مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے کا موقع دیں گے‘ اسی حد تک ہم مسلمانوں کی سی زندگی بسر کر سکیں گے‘ ورنہ اسلامی زندگی کا دائرہ سکڑتا چلا جائے گا۔ اس سیلاب میں ہم نہ چاہیں گے تب بھی ہمیں چلنا پڑے گا۔ کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ قدم جما کر اس سیلاب میں ٹھہر جائے۔ اسی لیے زندگی کے ہر شعبے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ صرف سیاسی تبدیلی ہمارے پیشِ نظر ہے۔ نہیں! ہم ہر شعبے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ جو کام ہمارے پیشِ نظر ہے وہ جوے شیر لانے سے زیادہ سخت ہے۔ پہاڑوں کو کاٹنا آسان ہے لیکن یہ کام مشکل ہے۔ یہ کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہے۔
یہاں سب سے پہلے پورے نظامِ تعلیم کو بدلنے کی ضرورت ہے جو لاکھوں انسانوں کو تبدیل کر رہا ہے۔ معاش‘ قانون‘ عدالت‘ کاروبار‘ صنعت--- غرض زندگی کے تمام شعبے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جن کے اصولوں‘ نظریات اور طور طریقوں کو مغربی تعلیم نے تبدیل کر دیا ہے۔ ان حقائق کی موجودگی میں اس نظامِ زندگی کو بدلنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک خیالات اور ذہنوںکو تبدیل نہ کیا جائے۔
اس نظامِ تعلیم نے ہمارے اخلاقی نظریات اور اقدار کو تبدیل کر دیا ہے۔ جسے دین برا سمجھتا ہے وہ ثقافت اور شائستگی بن گئی ہے‘ اور دین جن کاموں کو بہترین قرار دیتا ہے وہ رجعت پسندی‘ مولویت اور مضحکہ قرار دے دیے گئے ہیں۔ یہ کیفیت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آزادی کے بعد سے اس کی رفتار خصوصاً تیز ہے۔ پہلے باہر کے لوگ ہماری اندرونی زندگی میں دخل نہیں دیتے تھے لیکن اب اپنوں نے ہماری معاشرتی اور اندرونی زندگی میں گھس کر اس رفتار کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ آج سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ پہلے ہمارے اخلاق اور معاشرتی زندگی کا اسلام سے اتنا اختلاف نہ تھا‘ جتنا آج ہے۔ معاشی زندگی اس وقت پہلے سے کئی گنا زیادہ سودی نظام پر مبنی ہو چکی ہے بلکہ وہ تمام چیزیں جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے شدت سے پھیل رہی ہیں۔ ایک آدمی کے لیے حلال روٹی کمانا اور حرام سے بچنا کئی گنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس چیز نے رفتہ رفتہ لوگوں پر مادہ پرستی مسلط کر دی ہے۔ اب انھیں ایک ہی شے مطلوب ہے اور وہ مادی خوش حالی ہے۔ وہ دولت کے پیچھے عزت و آبر اور ایمان ہر چیز کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور اس کیفیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں ذہن بگڑ جائیں‘ اخلاقی قدریں تبدیل ہو جائیں‘ فواحش کی کثرت ہو جائے‘ فسق و فجور پھیلنے لگے وہاںاسلامی نظام کے قیام میں رکاوٹیں بڑھتی چلی جاتی ہیں‘کم نہیں ہوتی۔ یہ کیفیت جیسے جیسے بڑھے گی‘ اسلامی نظام کا قیام مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ اس رفتار کو روکنے کی ضرورت ہے۔
ان لوگوں کا تسلط بڑھتا جا رہا ہے جو اپنے مفاد کو دنیا کی ہر چیز کے مقابلے میں زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں خواہ وہ ایمان‘ اخلاق‘ انسانیت اور شرافت ہی کیوں نہ ہو۔ ان حالات کو بدلنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ حقیقت میں ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اصلاح کیسے ہو سکے گی۔ ایک طرح کی مایوسی ہوتی ہے کہ اس بگاڑ کو درست کرنا کسی طرح ممکن نہیں--- لیکن یہ حقائق کی دنیا ہے اور حقائق کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ مشکلات کا تصور کر لینے کے بعد ایک مسلمان کو سوچنا یہ چاہیے کہ کیا میں سپرڈال دوں؟ اور یہ سیلاب مجھے بھی بہا لے جائے اور آیندہ نسلوں کو بھی‘ یا اصلاح کی جدوجہد کرنی چاہیے خواہ میں اسی میں ختم ہوجائوں۔ ہر آدمی کو سوچنا چاہیے کہ کیا مایوسی کا تقاضا یہ ہے کہ بگاڑ کو قبول کر لیا جائے۔ حقیقت میں ایک مسلمان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بہرحال اس صورتِ حال کی مزاحمت کی جائے اور جیسی کچھ بھی طاقت ہو اصلاحِ احوال کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ا نبیاؑ پر بھی حالت بدلنے کی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ دعوت دینے کی ذمہ داری تھی۔
ایک مومن کا کام کوشش کرنا ہے۔ اللہ کی مرضی اگر ہے کہ اس قوم کو تباہی سے بچائے تو وہ ہماری کوششوں میں طاقت اور برکت عطا فرمائے گا۔ اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو بے شک ہم اس دنیا کے نقطۂ نظر سے ناکام رخصت ہوں‘ اس کے ہاں کامیاب ہوں گے۔ مسلمانوں کی حیثیت سے ہمارا کام اصلاح کی کوشش کرنا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ وہ اگر کامیابی عطا کرے تو اس کی عنایت ہوگی ورنہ دنیا کی ناکامی کا نام ناکامی نہیں بلکہ آخرت کی ناکامی کا نام ناکامی ہے۔ اس نقطۂ نظر کو ہمیشہ اپنے ذہن میںرکھنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اصلاح کے لیے جو کوشش کریں وہ اندھا دھند نہیں ہونی چاہیے۔ یونہی ہاتھ پائوں نہ ماریں۔ کوشش کا قدرتی تقاضا یہ ہے کہ حکمت اور معاملہ فہمی سے کام کیا جائے۔ قانونِ فطرت کے مطابق جو کوشش کی جائے وہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ آگ جلانے کے لیے سوکھی لکڑیاں ہوں‘ دیاسلائی ہو اور پھر لکڑیوں کو ہوا ملے تب وہ بھڑک اٹھتی ہیں۔ کوئی اور طریقہ جو قانونِ فطرت کے مطابق نہ ہو تو اس کے ذریعے سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ بگاڑ کی نوعیت کیا ہے اور کام کس طرح کرنا ہے۔ معاشرے میں کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ضروری ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ہمہ گیر‘ ہمہ پہلو اور قانون فطرت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حکیمانہ طریقے سے کوشش کرنی چاہیے۔
اوّلین بات یہ ہے کہ جو لوگ اصلاح کی یہ کوشش کرنے کے لیے اٹھیں‘ وہ پہلے اپنے آپ کو انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے تیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق کے بعد اپنے یہ اوصاف ہی اس راستے میں کام آتے ہیں اور اللہ کی مدد بھی تب ہی آتی ہے جب ان اوصاف کے مطابق کام کیا جائے۔ ہماری تربیت گاہوں کا مقصد بھی ایسے اوصاف پیدا کرنا ہے۔ اگر یہ اوصاف پیدا نہ ہوں تو ہم اصلاح کے لیے اہل اور موزوں نہیں۔
۱- اسلام کا صحیح فہم: ہم اسلام کا نظامِ حیات قائم کرنے کے لیے اٹھے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بجائے خود کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کیا ہے؟ اس کی تعلیم کیا ہے؟ دین کے صحیح فہم سے مراد پورا مولوی ہونا ہی نہیں ہے۔ پورے علوم دینی کی تحصیل اگرچہ مطلوب ہے لیکن دینی نظام کے قیام کی خاطر عام آدمیوں کے لیے اتنا دین جاننا ضروری نہیں۔ عرب کے بدو برسوں کی درس و تدریس سے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ انھیں دین کا اتنا خلاصہ معلوم ہو جاتا تھا کہ برائی کیا ہے جسے مٹانا ضروری ہے اور بھلائی کیا ہے جسے قائم کرنا چاہیے۔ دین کے اتنے سے فہم کے ساتھ موجودہ زمانے کی ذلالتوں اور گمراہیوں اور ان کے اثرات سے صحیح آگاہی کافی ہے۔
کارکنوں کے لیے جو تربیتی نصاب مقرر کیا گیا ہے آپ کو چاہیے کہ اس نصاب کو نگاہ میں رکھیں۔ پانچ چھ برس پہلے کی پڑھی ہوئی چیز کو بھی دوبارہ پڑھنا ضروری ہے کیونکہ واقعات کے سطحی مطالعے اور اتار چڑھائو سے دماغوں میں کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاج کے لیے تربیتی نصاب کا بار بار مطالعہ ضروری ہے۔
۲- پختگی ٔ ایمان: دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے اندر ایمان کو زیادہ سے زیادہ پختہ اور مضبوط کریں۔ یہ زمانہ ایسا ہے کہ ہر وقت ایمان کو متزلزل کرنے والی طاقتیں اس طرح مصروفِ کار ہیں کہ پختہ آدمی کا ایمان بھی ہل جاتا ہے۔ کسی مرحلے پر بھی متزلزل نہ ہوں اور ایمان کو اٹل اور مستحکم رکھیں۔
۳- مقصدِ وحید: ہم اعلاے کلمۃ اللہ کو اپنا مقصدِزندگی قرار دے چکے ہیں۔ لیکن یہ بات نگاہ میں رکھیں--- یہ جماعت کا نہیں بلکہ آپ کا اپنا مقصد ہے۔ بسااوقات آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ جماعت پر احسان کر رہا ہے۔ حالانکہ اگر وہ اسے اپنا مقصد سمجھے تو ایسی بات ذہن میں بھی نہیں آسکتی۔ سمجھنا یہ چاہیے کہ اگر جماعت نہ رہی تب بھی مجھے یہ کام کرنا ہوگا۔ یہ چیز نہایت اہم ہے۔ کیونکہ جب تک کوئی شخص اسے اپنی زندگی کا مقصد قرار نہیں دیتا تب تک صحیح کام نہیں ہوسکتا۔ اپنا مقصد قرار دے لینے کے بعد اگر کوئی آدمی جماعت چھوڑ بھی دے تو بھی مقصد تو نہ چھوٹے گا۔ اگر کسی شخص کا بچہ بیمار ہو تو وہ بچے کو نہیں چھوڑ سکے گا۔ لیکن کسی دوسرے شخص کے بیمار بچے کے علاج میں وہ کوتاہی برت سکتا ہے اور اپنے گھر بیٹھ سکتا ہے۔ اپنا مقصد قرار دینے والا آدمی جماعت میں ہو یا نہ ہو‘ مضبوطی کے ساتھی یہی کام کرتا چلا جائے گا۔
۴- یک رنگی: چوتھی چیز یہ ہے کہ ہم اپنے اندر دو رنگی‘ تناقض‘ تضاد اور منافقت نہ پیدا ہونے دیں۔ ایک دو رنگی وہ ہوتی ہے جو معاشرے میں گھرے ہونے کی وجہ سے ناگزیر طور پر آدمی میں پائی جاتی ہے اور دوسری وہ جسے آپ اپنے اختیار سے پسند کریں اور اس پر راضی ہو جائیں۔ دونوں میں فرق ہے۔ مثلاً ایک آدمی ہوش میں آنے پر خود کو گندگی کے تالاب میں گرا ہو اپاتا ہے۔ اب وہ وہیں گندے پانی میں ہاتھ پائوں مارنے پر مجبور ہے۔ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ یہ گندا پانی ہے‘ وہ اس سے نہیں بچ سکتا۔ اس کے باہر بلاشبہہ گندگی ہے اور یہ ناگزیر ہے مگر قلب میں طہارت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس میں ڈوب کر مر جائے لیکن اس کا قلب پاک ہوگا--- اس کے مقابلے میں دوسرا شخص وہ ہے جو خود گندگی میں رہنا چاہتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے--- دونوں میں فرق ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دانستہ دو رنگی کو اپنے اندر نہ آنے دیں جس حد تک آپ کے بس میں ہو۔ کوشش کر کے اپنے آپ کو یک رنگ بنائیں۔ جس کی زندگی میں تناقض اور تضاد ہو‘ اس کا قول اور عمل بے اثر ہوتا ہے۔ آپ کے نظریات اور عمل میں فرق ہوگا تو لوگ آپ کی بات آپ کے منہ پر دے ماریں گے۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے کوشش کیجیے کہ جن نظریات کو آپ پیش کرتے ہیں‘ ان کی جھلک آپ کی عملی زندگی میں نظر آنی چاہیے۔
۵- اہلیت پیدا کرنا : پانچویں ضروری چیز یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان قابلیتوں سے آراستہ کریں جن کی اس دنیا میں کام کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ جس حد تک بس میں ہو خود کو ذہنی اور اخلاقی حیثیت سے اس قابل بنائیں کہ آپ میںاُس نظامِ زندگی کو چلانے کی اہلیت پیدا ہو‘ جس کے لیے آپ کوشش کر رہے ہیں۔ جس قابلیت کی بہت بڑی ضرورت ہے وہ حکمت اور دانائی ہے۔
دین کبھی بے وقوفوں کے ہاتھ سے قائم نہیں ہوا۔ اس کے لیے معاملہ فہمی اور معاشرے کی اُلجھنوں سے واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ بات کرنے والے شخص کو سمجھیں۔ اگر اسے نہ سمجھیں گے تو اسے سیدھے راستے پر لانے کے بجائے اُلٹے راستے پر ڈال دیں گے۔ حکمت نہ ہوگی تو بنتے کام کو بگاڑ دیں گے اور اگر حکمت ہوگی تو بگڑتے کام کو بھی سنوار لیں گے۔ اس کے لیے قرآن پاک‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیرت اور صحابہؓ کی سیرت سے سبق حاصل کریں۔ پھر دنیا کے معاملات کو چلانے کے لیے جو عقل و دانائی درکار ہے اس کو نشوونما دیں۔ ہر آدمی کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اگر کوئی ساتھی حکمت کے خلاف کوئی کام کر رہا ہو تو اسے بروقت متنبہ کر دیا جائے--- پوری جماعت میں عقل و دانائی کی ضرورت ہے۔ ایک آدمی چاہے کتنا ہی دانا کیوں نہ ہو‘ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر وقت دانائی کے بلند معیار پر قائم رہے۔ جماعت بحیثیت مجموعی عقل مند اور دانا ہونی چاہیے۔
۶- صبروحکمت: دوسری صفت صبر کی ہے جو اتنی ہی اہم ہے جتنی حکمت--- دونوں صلاحیتوں کی پہلے بھی تاکید کی جاتی رہی ہے‘ اور اب بھی کی جا رہی ہے۔ جس میں صبر نہ ہو‘ وہ جلدبازی سے کام کرنا چاہتا ہے لیکن وہ بڑے مقصد کے لیے کام نہیں کر سکتا اور نہ کامیاب ہو سکتا ہے۔موجودہ حالات میں تو صبر کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ حالات کو سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے اور جتنا قدم اٹھانا ناگزیر ہو‘ اتنا ہی اٹھانا چاہیے۔ پھر جو مزاحمتیں اور مخالفتیں ہوں‘ اگر ان کے مقابلے میں تحمل اور برداشت نہ ہو تو اصلاح کے بجائے خرابی ہوگی۔ ایک آدمی میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ سخت اشتعال انگیز حالت میں دماغ کو ٹھنڈا رکھے۔ جو کہنے کی بات نہ ہو‘ زبان سے نہیں نکلنی چاہیے۔ پھر بات جتنی کچھ کہنی ہو‘ اس سے آگے نہ بڑھیں۔ شیطان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دین کا کام کرنے والوں کو غصہ دلائے مگر انھیں صبروضبط اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بے موقع زبان کو نہ کھولیں۔ گالیاں سنتے رہیں لیکن جواب میں کچھ نہ کہیں۔ اس کے بغیر کام ممکن نہیں ہے۔ الزام تراشی کے جواب میں اگر آپ بھی الزام تراشی شروع کر دیں گے تو آپ بھی اسی مقام پر کھڑے ہو جائیں گے جہاں دوسرا فریق کھڑا ہے۔
۷- قربانی کا جذبہ: ایک اور اہم مطلوب صفت قربانی کا جذبہ ہے۔ وقت‘ مال اور محنت کی قربانی تو دی جاسکتی ہے لیکن سب سے زیادہ سخت قابلیتوں کی قربانی ہے۔ ایک آدمی جب یہ محسوس کرتا ہے کہ مجھ میں شہرت اور منصب حاصل کرنے کی قابلیتیں موجود ہیں‘ تو اس کے لیے ضبط کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دنیاوی مواقع کو چھوڑ کر قربانی دینا دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ آدمی پیسہ دے جاتا ہے‘ وقت بھی دے جاتا ہے لیکن ایک ایسے کام میں پڑنا جو دنیاوی لحاظ سے بنجر ہو اور جس میں روٹی چٹنی بھی مشکل سے میسر آئے‘ کسی آدمی کے لیے حقیقی امتحان ثابت ہوتا ہے۔ یہاں پتا چلتا ہے کہ وہ کس حد تک قربانی دینے کو تیار ہے۔ آپ اپنے اندر جذبۂ قربانی کو بیدار کیجیے۔ یہ اس مقصدِعظیم کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ جس قدر یہ سپرٹ پیدا ہوگی‘ اتنا ہی زیادہ کام ہوگا۔ اگر قربانی کا جذبہ ہم میں پیدا ہو جائے تو ہم ہزار گنا زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ ہم میں جذبۂ قربانی کی کمی ہے۔
قربانی کے معنی یہ نہیں کہ اندھا دھند چھلانگ لگا دی جائے--- نہیں! حالات کا جائزہ لے کر اور سوچ سمجھ کر یہ متعین کرنا چاہیے کہ ہمیں اپنی ذات اور اپنے متعلقین کے لیے کتنا کچھ مطلوب ہے۔ اس کے لیے ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ--- اپنی ذات کا بھی انسان پر حق ہے۔ اپنی ذات کے علاوہ بچوں اور بیوی کا بھی حق ہے۔ ان حقوق کو تلف نہیں کرنا ہے--- غیر معتدل رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں‘ جس حد تک اوسط درجے کی زندگی کے لیے ضروری ہو‘ وہ کافی ہے--- اگر یہ کام ہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ یقین کریں کہ ہماری جتنی تعداد اس وقت ہے ہم اسی تعداد کے ساتھ موجودہ حالت کی نسبت بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں۔
۱- باہمی ہمدردی و خیرخواہی: کوئی جماعت دنیا میں مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک اس کے رفقا اور شرکا میں باہمی محبت نہ ہو۔ محض میل جول کافی نہیں ہے۔ کسی سے محبت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے متعلق کوئی برا خیال نہ رکھیں۔ محبت وہ چیز ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے سے پیوستہ کرتی اور انھیں بنیان مرصوص بناتی ہے اور محبت کی کمی انھیں پھاڑتی ہے۔ کسی ساتھی میں کوئی برائی محسوس ہو تو وہ درد مندی اور اخلاص کے ساتھ اس سے کہی جائے تاکہ وہ بھی یہ محسوس کرے کہ یہ میری اس برائی پر خوش ہو کر نہیں بلکہ جذبۂ ہمدردی کے تحت کہہ رہا ہے--- اس طرح کہیے کہ زخم نہ لگے۔ اگر آپ اس برائی کو دوسروں کے سامنے بیان کریں گے تو یہ محبت نہ ہوگی۔ ایک دوسرے کے متعلق برے خیالات دلوں میں ہوں تو کوئی بھلا کام نہیں ہو سکتا‘ اور نہ اس طرح کوئی جماعت قائم ہی رہ سکتی ہے۔ باہمی ہمدردی و اخلاص اور خیرخواہی جماعتی زندگی کی اوّلین شرط ہے۔ جب اس چیز کی کمی محسوس ہو تو آپ کو فکرمند ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کی تلافی روپے پیسے کی بارش یا دنیا کی کسی دوسری چیز سے نہیں ہوسکتی۔
۲- نظم و ضبط: دوسری اہم چیز نظم و ضبط اور سمع و اطاعت کی صفت ہے۔ جب تک نظم اور ڈسپلن موجود نہ ہو‘ جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کوئی ایسی فوج جسے پکارا جائے اور وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے‘ وہ کہیں دھاوا نہیں بول سکتی۔ ڈسپلن نہ ہو تو کام نہ ہوگا۔ جن لوگوں کو احساس ہو‘ انھیں خود بھی بدنظمی سے بچنا چاہیے اور جماعت کو بھی بدنظمی و انتشار سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کوئی کام اپنے ذمے نہ لینا اس سے بہتر ہے کہ ذمے لے کر نہ کیا جائے۔ جو فیصلے جماعت کے اندر ہوں‘ انھیں تسلیم کرنا کارکنوں کا فرض ہے۔
۳- باہمی مشورہ: تیسری صفت یہ ہے کہ باہمی مشورے سے کام کیاجائے۔ قرآن اہل ایمان کی صفات کی تعریف کرتا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو مشورے سے طے کرتے ہیں۔ بغیر مشورے کے کوئی فیصلہ کرنا جماعتی زندگی کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ جس فیصلے میں آپ کی اپنی رائے بھی شامل ہو‘ اس پر عمل کرنا آسان ہوتا ہے۔ محض دوسرے کی رائے پر خوش دلی کے ساتھ عمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں‘ اور جن کی رائے کے خلاف فیصلہ ہو‘ وہ اپنی رائے کے خلاف فیصلہ ہونے کے باوجود اطاعت کریں‘ الا یہ کہ جماعت دین سے باہر ہو جائے۔ جماعت بڑا ظلم کرے گی اگر وہ آزادی رائے کا حق نہیں دے گی۔ لیکن جب اتفاق رائے یا کثرت رائے سے کوئی فیصلہ ہو جائے تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی رائے کو نہیں بلکہ جماعت کے فیصلے کو کامیاب کرنے کے لیے زور لگا دے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ خود پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کسی معاملے میں جہاں نصِ صریح موجود ہو‘ وہ تو درست مگر جہاں اجتہاد کا معاملہ ہو وہاں ایک آدمی پوری جماعت کے مقابلے میں زیادہ دانا اور عقل مند نہیں ہو سکتا۔ اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرلینا چاہیے۔ مشورے میں پوری آزادی ہونی چاہیے اور ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ ہر شخص پوری قوت سے اپنی رائے بیان کرسکے۔ لیکن جب بحثیں ہو چکیں اور اکثریت سے فیصلہ ہو جائے تو لوگوں کا کام ہے کہ اس کے ساتھ چلیں۔
آخر میں دوباتیں اور کہنا چاہتا ہوں--- ان تمام اوصاف کو جو بیان کیے گئے ہیں‘ اپنے اندر انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں ملحوظ رکھیں مگر چند باتیں ایسی ہیں جن سے بڑی شدت کے ساتھ پرہیز کریں۔
پہلی چیز یہ ہے کہ آپ کے اندر کبر اور فخر نہ ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ جماعت کے افراد میں اور جماعت کے اندر مجموعی طور پر فخر اور تکبر کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے۔ بسااوقات باتیں کرتے ہوئے‘ مخالفین اور مخالفتوں کا ذکر کرتے ہوئے مجبوراً ایسی بات کرنی پڑتی ہے جس سے یہ بتانا ہوتا ہے کہ مخالفین جو الزامات و تہمتیں ہم پر لگاتے ہیں‘ اس کے برعکس ہم میں یہ اور یہ خوبیاں ہیں--- ایسے موقعوں پر اگر اس طرح کی کوئی بات کہہ بھی دی جائے تو جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں اس میں کبر تو نہیں پایا جاتا۔ جس روز ہم نے سمجھ لیا کہ ہم بڑی چیز ہیں‘ اسی روز چھوٹی چیز ہو جائیں گے۔ خودپسندی اور تعلّی فرد اور جماعت دونوں کو گرا دیتی ہے۔
دوسری چیز جس سے بچنا لازم ہے ‘وہ ریاکاری‘ نمود و نمایش اور خلقِ خدا کی تحسین کا معاملہ ہے۔ ہمیں جو کچھ کرنا ہے اللہ کے لیے کرنا ہے۔ کسی کی تحسین کی حاجت نہیں ہے۔ دنیا خواہ تعریف کرے یا برائی‘ہمیں بہرحال خدا کا کام کرنا ہے۔ لیکن اگر کام میں ریا آگیا تو ساری نیکی بربادہو جائے گی۔ ریا کو حدیث میں شرک کہا گیا ہے‘ یعنی تحسین چاہنے والا انسان گویا دوسروں کو معبود بنا لیتا ہے اور انھیں خوش کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ جو آدمی خدا کے لیے کام کرنے والا ہے‘ اسے کسی دوسرے کی جزا مطلوب نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر رفیق ان باتوں کو اپنی گرہ میں باندھ لے اور خالص خدا کے لیے کام کرے۔ (اچھرہ‘ لاہور میں تربیت گاہ سے خطاب‘ ۳۰ مئی ۱۹۶۵ئ‘رپورٹ: رفیع الدین ہاشمی۔ ہفت روزہ آئین‘ لاہور‘ ۶جون ۱۹۶۵ئ)