خدا خدا کر کے جمہوری عمل شروع ہوا۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو انتخابات ہوئے‘ نتائج آنا شروع ہوئے تو اس طرح کہ جو علاقہ جتنا دُور تھا اس کا نتیجہ اتنا ہی جلدی آگیا اور جو جتنا قریب تھا وہاں کا نتیجہ آنے میں اتنی ہی دیر لگی اور شکوک و شبہات کا ایک دفترکھل گیا۔ جن علاقوں میں حزب اختلاف کو کامیابی حاصل ہوئی وہاں ووٹوں کی تعداد ملکی اوسط کے قریب تھی اور جہاں سے سرکاری لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی وہاں ڈبوں سے نکلنے والے ووٹوں کا اوسط ایک دم زیادہ تھا اور ریفرنڈم کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ اس بار انجینیری زیادہ سمجھ داری سے کی گئی۔
لیجیے نتائج مکمل ہو گئے مگر پارلیمنٹ کی ولادت ہے کہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی التوا کا نیا دور شروع ہو گیا۔ پھر ووٹوں کی خرید وفروخت‘ لوٹوں کی آمدورفت‘ گھوڑوں کی تلاش و تجارت‘ پارٹیوں کی شکست و ریخت‘ غرض سارے ہی جتن پورے ہوئے اور بالآخر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگیا اور انتخاب کے ۶ ہفتے کے بعد مرکزی حکومت قائم ہوگئی خواہ ایک ووٹ کی اکثریت سے اور وزارت میں لوٹوں کی بھرمار کے ساتھ!
صوبہ سندھ کا معاملہ سب سے اہم اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن تھا۔ سرحد میں جیسے تیسے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی حکومت بن گئی۔ پنجاب میں بھی جیسی بھی تھی اکثریت واضح تھی اور بڑی پارٹی ہی کی حکومت بنی۔ لیکن سندھ میں ساری کوشش تھی کہ سب سے بڑی پارٹی کی حکومت نہ بننے پائے اور اس کے لیے وہ وہ جتن ہوئے کہ شیطان بھی امان پائے۔ جوڑ توڑ‘ دھونس دھاندلی‘ وفاداریوں کی تبدیلی‘ نیب اور عدالتوں کے سزا یافتہ افراد سے معانقہ‘ جو نوگوایریا تین سال سے نظر نہیں آ رہے تھے ان پر یورش‘ جو عدالتوں کو مطلوب تھے ان کو سیاست کا چاند تارا بنانے کی سازش‘ فارورڈ بلاک کی تشکیل‘ نامزدگیوں کے وقت میں غیر قانونی تبدیلیاں‘ اسمبلی پر پولیس کی یورش اور ۱۰ گھنٹے کا محاصرہ‘ رکن اسمبلی کی اسمبلی کے احاطے میں گرفتاری اور ارکان اسمبلی بشمول خواتین ارکان کی مارپیٹ‘ جعلی ڈگریوں کی بازگشت‘ فوج کے باوردی اعلیٰ افسروں اور سول سروس کے سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا حلف لینے والے ملازمین کی کھلی یوریش--- یہ سب ہوا اور بالآخر سندھ کی اسمبلی بھی وجود میں آگئی اور وزارت اعلیٰ کا ہُما ایک اقلیتی جماعت کے فرد کے سر پر آبیٹھا--- لیکن اس سارے معاملے میں جمہوریت کی جو تصویر اُبھر کر آئی وہ ایسی مکروہ تھی کہ اسمبلی کے درودیوار بھی شرمندہ ہوگئے ۔ چلتے پھرتے سیاست دانوں اور ان کی باگ ہلانے والے فوجی اور سول افسران کو شرم نہ آئی‘ ان کی غیرت کا رونا روتے ہوئے بے جان ایوان کی بجلیاں ضبط نہ کر سکیں اور شرم سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ کہا تو یہی گیا کہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے اسمبلی تاریکی میں ڈوب گئی--- تاریکی تو ایسی جمہوریت کامقدر ہے لیکن اس اسمبلی کے درودیوار نے اس طرح اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا جس نے ۵۵ سال پہلے اسی ہال میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا پورا اجلاس دیکھا تھا اور پاکستان زندہ باد کی گونج سنی تھی۔
کیا یہی وہ جمہوریت کا جوہر (substance)ہے جس کی نوید جنرل پرویز مشرف نے دی تھی۔ کیا یہ اس "sham democracy" سے بدتر نہیں جس کی مذمت کرتے جنرل صاحب تھکتے نہ تھے۔ کیا جمہوریت کی بحالی کا یہی وہ وعدہ ہے جس کے ایفا کے اعلانات جنرل صاحب اور ان کے نامزد وزیراعظم کر رہے ہیں ع
جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ!