جنوری ۲۰۰۳

فہرست مضامین

ڈاکٹر محمد حمیدؒاللہ

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۰۳ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

ترکشِ مارا خدنگِ آخریں

برعظیم پاک و ہند کے علمی اور دینی اُفق کو درخشاں کرنے والے تمام ستارے ایک ایک کر کے ڈوب گئے ہیں--- !

علامہ اقبال گئے‘ مولانا اشرف علی تھانوی گئے‘ مولانا ابوالکلام آزاد گئے‘ مولانا شبیراحمد عثمانی گئے‘ سید سلیمان ندوی گئے‘ مفتی محمد شفیع گئے‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی گئے‘ ڈاکٹر فضل الرحمن گئے‘ مولانا امین احسن اصلاحی گئے‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی گئے--- اور اب مشرق سے اُبھرنے والے اس سنہری سلسلے کا آخری تارہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مغرب کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو گیا--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

محمد حمیدؒاللہ ۱۶محرم الحرام ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹ فروری ۱۹۰۸ء حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ دولت آصفیہ ہی میں ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک کے مراحل طے کیے اور عثمانیہ یونی ورسٹی سے‘ جو برعظیم کی تاریخ میں اُردو کے محوری کردار اور اپنی اعلیٰ علمی روایات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی تھی ایم اے اور ایل ایل بی کی سندات امتیازی شان سے حاصل کر کے اسی جامعہ میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تقسیم ملک سے کچھ قبل اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے اور بون (Boun) یونی ورسٹی سے بین الاقوامی قانون کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر حمیدؒاللہ کی یہی تحقیق تھی جو بعد میں ضروری اضافوں کے ساتھ ان کی شہرہ آفاق تصنیف Muslim Conduct of State بنی۔جرمنی سے فرانس منتقل ہو گئے اور سوربون (Sorbonne) یونی ورسٹی سے عہدنبویؐ اور خلافت راشدہ  میں اسلامی سفارت کاری کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔

اس زمانے میں سقوطِ حیدرآباد (۱۹۴۸ئ) کا سانحہ رونما ہوا ۔ اس کے بعد پھر ڈاکٹر حمیداللہ پیرس ہی کے ہو کر رہ گئے۔ میرے استفسار پر ایک بار بتایا کہ میں دولت آصفیہ کے پاسپورٹ پر یورپ آیا تھا۔ پھر میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں۔ فرانسیسی شہریت بھی ساری عمر حاصل نہ کی۔ پناہ گزیں کی حیثیت پر تمام عمر قانع رہے اور محض وثیقہ راہ داری (travel documents) کے ذریعے عالمی سفر کرتے رہے جس کے تحت چھیماہ کے اندر اندر انھیں فرانس واپس آنا پڑتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی ملک کے بھی شہری نہ تھے بلکہ ذہنی اور مادی ہر دو اعتبار سے اس دنیا ہی کے شہری نہ تھے۔ ۷۰ سال بغیر پاسپورٹ کے گزارے اور بالآخروہاں چلے گئے جہاں کسی دنیوی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی--- ہاں ان کے پاس ایمان‘ عمل صالح اور علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کی جانے والی زندگی کا سرمایہ تھا اور یہی سب سے کام آنے والی چیز ہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ مشرق اور مغرب کی نو زبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور چار میں (اُردو‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ عربی) بلاواسطہ تحریر و تقریر کی خدمت انجام دیتے تھے۔ مطالعہ اور گفتگو کی اعلیٰ استعداد جرمنی‘ اطالوی‘ فارسی‘ ترکی اور روسی زبانوں میں بھی حاصل تھی۔ پیرس کے مشہور تحقیقی مرکز Centre National  de la Researche Scientifiqueسے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔

علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج کی فکر کی مہلت بھی نہ ملی اور امام ابن تیمیہؒ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھربار کے جھگڑے سے آزاد رہے اور صرف    علم کا ورثہ چھوڑا۔ عالم اسلام کی چوٹی کی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے‘ خصوصیت سے جامعہ استنبول سے طویل عرصے تک متعلق رہے۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں بھی ۱۲ خطبات دیے جوخطبات بہاول پور کے عنوان سے شائع ہوئے اوران کا خوب صورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افضل اقبال نے کیا اور   یہ The Emergence of Islam کے نام سے شائع ہوئے۔

میری نگاہ میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ مسلمانوں میں پہلے اور آخری مستشرق (orientalist) تھے۔ مستشرق میں ان کو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انھوں نے مستشرقین کے طریق تحقیق (methodology) پر ایسی ہی قدرت حاصل کر لی تھی جیسی غزالی نے یونانی فلسفے پر۔ وہ تحقیق اور طریق تالیف کے باب میں مستشرق ہوئے لیکن اس پہلو سے مستشرقین سے مختلف تھے کہ ان کا قبلہ درست تھا۔ ان کے اصل مآخذ قرآن و سنت اور مسلمانوں کے معتبر اہل علم کی تصانیف تھیں۔ انھوں نے اسلام کو‘ جیساکہ وہ ہے‘ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ البتہ تحقیق و تصنیف‘ تلاش و جستجو‘ نقد و احتساب کے ان تمام ذرائع کو کامیابی اور قدرت کے ساتھ استعمال کیا جو مستشرقین کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے ہیں اور اس طرح علمی میدان میں اہل مغرب کا جو قرض مسلمانوں پر تھا‘ اسے فرض کفایہ کے انداز میں ڈاکٹر صاحب نے چکا دیا اور ساتھ ساتھ وہ کیا جسے انگریزی محاورےpaying in the same coin کہا جاتا ہے۔ الحمدللہ!

ڈاکٹر حمیداللہ فکرونظر کے اعتبار سے ٹھیٹھ مسلمان تھے۔ انھوں نے سلف کے نقطۂ نظر کو پوری دیانت سے جدید زبان اور استشراق کے اسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیش کیا اور ایک حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلامی علوم اور دورِ جدید کے طلبا اور محققین کے درمیان ایک پُل بن گئے۔

ڈاکٹر حمیداللہ کی علمی دل چسپیوں کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور اس حیثیت سے ان کا کام  کثیرجہتی (multi dimensional) تھا۔ انھوں نے تحقیق کے مختلف میدانوں میں بڑے معرکہ کی چیزیں پیش کیں لیکن شاید ان کی سب سے زیادہ دین (contribution) مسلمانوں کے بین الاقوامی قانون کے میدان میں ہے جس میں انھوں نے علمی دنیا سے یہ منوا لیا کہ بین الاقوامی قانون کے اصل بانی مسلمان فقہا اور علما ہیں‘ سترھویں صدی کے مغربی مفکرین نہیں۔ تدوین حدیث کے باب میں بھی ان کا کام بڑا وقیع ہے اور صحیفہ ھمام ابن مُنبّہ کی تالیف اور اشاعت ان کا بڑا کارنامہ ہے جس نے یہ ثابت کر دیا کہ حدیث کی کتابت دور رسالت مآبؐ اور دور خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئی تھی۔ یہ مسودہ ان کو جرمنی کی ایک لائبریری سے ملا جس کو مناسب انداز میں تدوین کرکے اور یہ دکھا کر کہ اس اولین مسودے میں لکھی ہوئی احادیث اور بعد کے مجموعوں میں پائی جانے والی احادیث میں کوئی فرق نہیں ‘ہے انھوں نے بڑے سائنسی انداز میں حدیث کی صحت کو منوانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی‘ آپؐ کے غزوات‘ سفرہجرت‘ خطوط اور وثائق کی تلاش اور ترتیب--- ان سب میدانوں میں ڈاکٹر حمیداللہ نے تحقیق اور تسوید کے وہ نقوش قائم کیے ہیں جو تادیر چراغ راہ رہیں گے۔

اسلامی فقہ کی تدوین اور خصوصیت سے امام ابوحنیفہؒ کی methodology پر ان کا کام راہ کشا حیثیت رکھتا ہے۔اسلامی قانون اور قانون روما کے فرق کو بھی انھوں نے بڑے قاطع دلائل سے ثابت کیا اور مستشرقین کے اس غبارے سے ہوا نکال دی کہ اسلامی قانون دراصل قانون روما سے ماخوذ ہے۔دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کے ترجموں کی معلومات کو جمع کرنا بھی ان کا ایک پسندیدہ موضوع تھا اور اس سلسلے میں ان کی کاوش  اساسی اور بنیادی کوشش کا مقام رکھتی ہے۔ ان کے طرزِ تحقیق میں صرف کتابی محنت ہی شامل نہ تھی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرہجرت کی تحقیق میں انھوں نے پاپیادہ اور گھوڑے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس راستے پر عملاً سفر کیا جس سے حضورپاکؐ نے ہجرت فرمائی تھی اور اس طرح اس شاہراہ کو متعین کیا جو روایات میں دھندلی ہوگئی تھی۔ قرآن پاک اور سیرت مبارکہ ان کی زندگی کے صورت گر ہی نہ تھے‘ ان کی علمی دل چسپی کا بھی محور تھے۔

فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان ہی میں دو جلدوں میں سیرت پاکؐ کی تدوین بھی ان کے نمایاں کاموں میں سے ایک ہے۔ سیرت کی کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خود ہی کیا ہے جو شائع ہو گیا ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ مقالے اور مضامین   ان کے قلم سے نکلے اور اہل علم کی تشنگی دُور کرنے کا ذریعہ بنے۔ یقینا ان کی چھوٹی بڑی کل کتب کی تعداد ۱۵۰ سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ سے میری پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب میں ابھی طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھا اور وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو اسلامی دستور سازی میں مدد دینے کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ مولانا سید سلیمان ندوی‘ مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفراحمد انصاری کے ساتھ مجلس تعلیمات اسلامی کے رکن تھے اور اسمبلی کی عمارت ہی کے ایک حصے میں ان کا دفتر تھا۔ ان کے علم کی وسعت اور اس کے رعب کے تحت میرے ذہن نے ان کی ایک تصویر بنا لی تھی لیکن ان کو دیکھ کر مجھ کو ایک دھچکا سا لگا۔ میں نے ان کو ایک دبلاپتلا اور سادہ سا فقیرمنش انسان پایا۔ اکہرا بدن‘ لمباقد‘ صاف رنگ‘ کتابی چہرہ‘ اوسط لمبائی کی مگر غیرکفی ڈاڑھی‘ پُرنور آنکھیں--- اور ان سب سے بڑھ کر انکسار کا مجسمہ‘ تواضع کا پتلا‘ سادگی کا پیکر اور جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ اسمبلی کے دفتر میں کرتے پاجامے میں ملبوس اور پائوں میں کھڑاوں--- پتا نہیں آج کی نسل اس شے سے واقف بھی ہے یا نہیں۔ ہمارے بچپن میں وضو کے لیے لکڑی کی سادہ سی چپل ہوتی تھی جسے کھڑاوں کہتے تھے اور جو بالعموم غسل خانے میں رکھی جاتی تھی۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہ آ سکتا تھا کہ کوئی اسمبلی کے دفتر میں کھڑاوں پہنے بیٹھا ہوگا۔

حیرانی کی یہ کیفیت چند ہی لمحات میں ان کی شفقت اور پیار سے بھری باتوں سے دُور ہو گئی اور تبحرعلمی کے ساتھ ان کا انکسار دل پر نقش ہوگیا۔ بات آہستہ آہستہ دھیمے لہجے میں‘ کچھ کچھ رک کر اور سر ہلا ہلا کر کرتے تھے مگر اس طرح کہ دل میں اتر جاتی تھی۔

پھر ڈاکٹر صاحب نے اس وقت مجھے چونکا دیا جب چراغ راہ کے اسلامی قانون نمبر کی اشاعت پربالکل غیر متوقع طور پر ان کا تین صفحے کا خط موصول ہوا۔ اور تین صفحے بھی ایسے کہ ان میں ۱۰ صفحوں کا لوازمہ موجود تھا‘ کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہلکے کاغذ پر چھوٹے حروف میں اس طرح لکھتے تھے کہ مختصرحاشیے کے سوا ہر جگہ بھری ہوتی تھی۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات ان کی محنت تھی۔ اسلامی قانون نمبر پر بہت خوش تھے۔ بڑی فراخ دلی سے اس کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی بڑے انکسار سے لکھا کہ آپ کو زحمت سے بچانے کے لیے دوسرے ایڈیشن کے لیے کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی کر رہا ہوں--- اور اس طرح صفحہ اور سطرکے تعین کے ساتھ تین صفحوں میں انھوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی بے احتیاطی کی تلافی کا سامان کر دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے مگر کس دل سے لکھوں کہ اس کا بیشتر حصہ محفوظ نہ رہ سکا! آخری خط میری مختصر کتاب Family Life of Islam کے فرانسیسی ترجمے پر ان کی تصحیح و تنقید سے عبارت تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۴۸ء میں جو فلیٹ پیرس میں کراے پر لیا تھا‘ وہ ایک ایسی عمارت کی چوتھی منزل پر تھا جس میں لفٹ نہ تھی۔ انھوں نے پیرس کے قیام کے آخری ایام تک اسی میں سکونت رکھی۔ اس فلیٹ کا ایک ایک کونہ بشمول باورچی خانہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی دولت تھی۔ زندگی اتنی سادہ کہ کپڑے کے چند جوڑوں اور کھانے کے چند برتنوں کے سوا ان کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ کھانے کے بارے میں بھی اتنے محتاط تھے کہ حلال گوشت نہ ملنے کے باعث زمانہ طالب علمی میں ہی گوشت کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ سبزی اور پنیر پر گزارا کرتے تھے اور جب یہ شبہہ ہوا کہ پنیر میں بھی جانورکی آنتوں کی چربی استعمال ہوتی ہے تو اس سے بھی دست کش ہوگئے۔ علم و تقویٰ ‘ قناعت اور سادگی میں سلف کی مثال تھے۔

میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ متعدد علمی مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن سب سے زیادہ یادگار وہ مخیّم (تربیتی کیمپ) تھا جو فرانس میں ایک دیہاتی علاقے میں فرانس کی مسلمان طلبہ کی اسلامی تنظیم (UMSO) کے تحت منعقد ہوا تھا اور جس میں پانچ دن رات ہم نے ساتھ گزارے۔ ڈاکٹر صاحب بھی عام طلبہ کی طرح زمین پر سوتے اور اپنے برتن اپنے ہاتھ سے دھوتے تھے۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ کمالِ التفات سے ڈاکٹر صاحب نے میری تقاریر کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ فرمایا۔ جزاھم اللّٰہ خیرا الجزائ۔

وقت کی پابندی میں بھی ڈاکٹرصاحب اپنی مثال آپ تھے۔ اس کی کوئی دوسری مثال اگر میں دے سکتا ہوں تو وہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے۔ یہاں اس واقعے کا ذکر بھی شاید غیرمتعلق نہ ہو (اور اس کے راوی ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ ساتھی اور میرے بزرگ دوست احمد عبداللہ المسدوسی مرحوم ہیں) کہ حیدرآباد کا نوجوان حمیداللہ اپنی پوری طالب علمی کے دور میں صرف ایک بار کلاس میں تاخیر سے پہنچا (غیرحاضری کا تو سوال ہی نہ تھا) اور یہ وہ دن تھا جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ تدفین کے بعد یہ نوجوان سیدھا جامعہ گیا اور کلاس میں شریک ہوگیا    ؎

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

ڈاکٹر حمیداللہ صرف علم و تحقیق ہی کے مرد میدان نہ تھے‘ دعوت و تبلیغ میں بھی ڈوبے ہوئے تھے۔ پیرس کی جامع مسجد میں ایک مدت تک تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔ انفرادی ملاقاتوں سے لے کر تبلیغی دورے اور ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسیں--- ہر جگہ انھوں نے دعوت کا کام انجام دیا۔ فرانس میں وہ صرف شمالی افریقہ کے مسلمانوں کا ہی مرجع نہ تھے بلکہ فرانسیسی مسلمانوں کا بھی ایک حلقہ ان کے گرد قائم تھا۔ طلبہ اورنوجوانوں میں وہ بے حد مقبول تھے۔ وہ ان کو وقت دینے میں بے پناہ فراخ دل تھے۔

ڈاکٹر حمیداللہ سیاسی آدمی نہ تھے۔ اربابِ حکومت نے ان کو قریب لانے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ ان سے کنارہ کش رہے۔ علمی اور ادبی اعزازات سے ان کا پیچھا کیا لیکن وہ ہمیشہ ان سے دامن کش رہے۔ مجھے علم ہے کہ فیصل ایوارڈ میں ان کا نام آیا لیکن انھوں نے معذرت کرلی۔ پاکستان نے ہجری ایوارڈ ان کو پیش کیا مگر انھوں نے رسمی طور پر قبول کرنا پسند نہ کیا اور رقم اسلامک یونی ورسٹی کے لیے وقف کر دی۔ سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ آزاد حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدر آباد دکن کبھی واپس نہ آئے بلکہ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں تو بڑے دکھے دل سے کہا کہ میں اس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے۔

ڈاکٹرحمیداللہ اس وقت تک تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مصروف رہے جب تک قویٰ نے ساتھ دیا۔ جب بیماریوں نے اس طرح آلیا کہ یہ کام جاری نہ رکھ سکے تو اپنی جان سے قیمتی لائبریری علمی کاموں کے لیے وقف کر دی اور خود امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے۔ جب مجھے ایک اعلیٰ پاکستانی افسر اور سید حسین نصر کے توسط سے ان کی اس حالت کا علم ہوا تو میں نے کوشش کی کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں اور اس سلسلے میں صدرمملکت کو میں نے ایک خط بھی لکھا جس کا مثبت جواب ملا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے اعزہ کی پیش کش کو ترجیح دی اور فلوریڈا منتقل ہو گئے۔ افسوس پاکستان ان کے اس آخری دور میں ان کی خدمت کی سعادت سے محروم رہا۔ ۲۰۰۲ء کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک صدی (۹۵ سال) اس عالم ناپایدار میں گزار کر‘ علم و دعوت کی سیکڑوں شمعیں روشن کر کے‘ اللہ کا یہ بندہ اپنے رب کی طرف مراجعت کر گیا تاکہ عبادالرحمن کے ابدی مسکن کو پا لے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری لغزشوں سے صرفِ نظر کرے اور انھیں جنت کی بہترین وادیوں میں جگہ دے ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے