جنوری ۲۰۰۳

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جنوری ۲۰۰۳ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

دعوت کا کام اور خاوند کی اطاعت

سوال: میں جماعت اسلامی کی کارکن ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر شوہر کی رضامندی نہ ہو کہ اُس کی بیوی جماعت میں کام کرے تو وہ بیوی کیا کرے؟ میری ساس خود بھی دعوت کا کام سرگرمی سے کرتی رہی ہیں لیکن اب مزاحم ہیں۔ وہ اور میرے میاں کوشش کرتے ہیں کہ میں گھر کے کاموں میں ہی مصروف رہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک کارکن (لڑکی) کو اُس کی ساس اور اُس کے میاں گھر کے کاموں میں ہی مسلسل مصروف رکھنے کی کوشش کریں تو بیوی کہاں تک تابعداری کرے؟ ایک بیوی اپنے شوہر یا اپنے رب کی ناراضی میں سے کس چیز سے ڈرے؟ میرے ابھی بچے نہیں ہیں‘ لہٰذا میں یہ چاہتی ہوں کہ جتنا کام ہو سکے ابھی کر لوں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میری عمر بھی کام کرنے کی ہے۔ میری رہنمائی فرمایئے۔

جواب: اسلام کے نظم اجتماعی اور معاشرتی نظام میں اخلاق کی بنیادی اہمیت ہے۔ دونوں نظاموں میں ہر وہ کام مطلوب اور جائز ہوتا ہے جو اخلاق کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایک کارکن کے لیے نظم کے کسی فیصلے کی اطاعت ایمان کے تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ قرآن و حدیث نے اولی الامر کی ہر اس بات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے حکم کے مطابق ہو۔ یہی شکل معاشرتی نظام میں ہے۔ گھر میں ذمہ دار فرد سربراہ خاندان‘ یعنی بیوی کے لیے شوہر اور بچوں کے لیے والدین قرار پائیں گے۔ ایک بیوی شوہر کی ان تمام خواہشات کو پورا کرنا چاہے گی جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔ یہی مطلب ہے اس کی رضامندی کا‘ اور یہی مفہوم ہے اس حدیث کا جس میں کہا گیا ہے کہ لاطاعۃ المخلوق فی معصیۃ الخالق (اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔

اب یہ بات تو آغاز ہی میں طے ہوگئی کہ شوہر کی رضامندی سے مراد ہر الٹی سیدھی خواہش نہیں ہے بلکہ ہر وہ خواہش ہے جس کے لیے بنیاد اور دلیل قرآن وسنت میں موجود ہو‘ مثلاً اگر شوہر یہ کہے کہ بغیر حجاب اس کے ساتھ کسی مخلوط پارٹی میں شرکت کی جائے تو یہ خواہش قرآن و سنت دونوں سے متصادم ہے۔ اگر شوہر کی اطاعت اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں انتخاب ہو تو بیوی ہی کو نہیں خود شوہر کو اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے بیوی سے اپنی بندگی کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اللہ اور رسولؐ دونوں کی ناراضی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

جماعت اسلامی میں کام کا واضح مفہوم دعوت دین ہے۔ دعوت دین ایک خاتون کارکن مختلف شکلوں میں دے سکتی ہے۔ اپنے محلے میں‘ کسی اسکول یا تنظیم کی خواتین کے ساتھ حلقہ  درس قرآن کے ذریعے اور دینی موضوعات پر تبادلۂ خیال کرکے‘ یا کسی بستی میں فلاحی کام کرکے‘ یا اپنے ہی گھر میں شوہر‘ ساس‘نند یا جو بھی اہل خانہ ہوں ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرکے اور خود شوہر کو حکمت کے ساتھ دعوت کے قریب لا کر کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کھانے کے دوران یہ تجویز رکھیں کہ چھٹی کے دن گھر کے تمام افراد نصف گھنٹے کے لیے ساتھ بیٹھ کر قرآن کریم کی چند آیات ترجمے کے ساتھ مطالعہ کریں اور آغاز آپ کے شوہر کریں‘ یا آپ کی ساس یا نند کریں تو خود بخود ترجمہ سننے کے دوران کوئی سوال ایسا اٹھے گا جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے آپ کو کسی تفسیر کا حاشیہ پڑھنا پڑے گا۔ فرض کیجیے کہ آپ نے تفہیم القرآن‘ تدبر قرآن‘ معارف القرآن‘ فی ظلال القرآن یا کسی بھی تفسیر کو اس غرض کے لیے بنیاد بنایا اور خود آپ کے شوہر نے وہ حاشیہ پڑھ کر سنایا تو اسی کا نام دعوت دین اور جماعت اسلامی کا کام ہے۔

یہ کام گھر سے باہر جائے بغیر گھر ہی میں ہو سکتا ہے۔ یہ کام صرف تین ماہ کر لیجیے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کے شوہر اور ساس خود آپ سے کہیں گے کہ بیٹی‘ اگر اللہ نے تمھیں دوسروں کو بات سمجھانے کی صلاحیت دی ہے اور تم ہماری وجہ سے اس کا استعمال نہیں کرو گی تو جواب دہی ہم سے بھی ہوگی کہ تمھیں اس کام سے کیوں روکا۔

دعوت دین کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے گھر میں درس قرآن کا حلقہ قائم کر لیجیے۔ اس طرح دیگر خواتین کے ساتھ ساتھ آپ کے اہل خانہ کو بھی شرکت کا موقع ملے گا۔ آپ بھی کبھی درس دے سکیں گی۔ اس طرح دعوت کا کام بھی ہو جائے گا اور اہل خانہ بھی قرآن سے اثر لیں گے اور وہ مزاحمت نہ ہوگی۔

دعوت دین‘ امر بالمعروف ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے اور شوہر اور بیوی دونوں پر یکساں طور پر عائد ہوتا ہے۔ اگر اس کا شعور اس وقت آپ کے شوہر کو نہیں ہے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ حکمت کے ساتھ انھیں متوجہ کرتی رہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی دے گا۔ ان شاء اللہ!

ممکن ہے کہ ان کی والدہ نے دعوتی کام میں زیادہ مصروفیت کی وجہ سے خود ان پر توجہ نہ دی ہو جس کے ردعمل کے طور پر وہ آپ کو دعوتی کام میں زیادہ مشغول نہ دیکھنا چاہتے ہوں۔ اس کا حل صرف اور صرف صبرواستقامت اور حکمت کے ساتھ مستقل مزاجی سے اچھے اخلاق اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنا کام کرتے رہنا ہے۔

اگر انتخاب رب کی ناراضی یا شوہر کی ناراضی میں ہو تو اسلام کا اصول واضح ہے کہ رب کو کسی شکل میں بھی ناراض نہ کیا جائے اور شوہر کو محبت و احترام سے یہ بات سمجھائی جائے۔

اگر شوہر اور ساس جان بوجھ کر دعوتی کام سے دُور رکھنے کے لیے گھریلو کاموں میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں حکمت کے ساتھ ان کی غلطی سے آگاہ کریں۔ اس معاملے کو   براہِ راست ٹکرائو اور گرما گرم جنگ کی شکل نہ بننے دیں۔ حکمت کے ساتھ مسلسل کوشش کریں۔ اگر اس کے باوجود آپ کو دعوتی کام کرنے کی فرصت نہ مل سکے تو جو گھریلو کام بھی آپ نے اس دوران کیا ہے اس کا اجر دعوتی کام کے برابر ہی آپ کو ملے گا کیونکہ دین میں آپ کی نیت اور آپ کا اخلاص ہی اجر کی بنیاد ہے۔ دو تین ماہ صبر کے ساتھ اور حکمت سے کوشش کیجیے‘ ان شاء اللہ آپ کے شوہر بھی آپ کی طرح کارکن بن جائیں گے۔ فی الوقت گھر کے ماحول کو پُرسکون اور مودت و رحمت سے معمور کیجیے۔ یہی دعوتی حکمت کا تقاضا ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)


شادی سے قبل ملاقاتیں

س: ایک پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا افہام و تفہیم کے لیے ملنا جلنا اور تبادلۂ خیالات کوئی زیادہ بری چیز نہیں۔ اس کے خیال میں قباحت تو لازم ہے مگر خلوصِ نیت اور مقاصد کی بلندی کے پیشِ نظر ’’چھوٹی برائی والا نظریہ‘‘ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مخصوص حالات میں اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے جھوٹ  اور حرام تک جائز ہے تو پھر خوش گوار ازدواجی زندگی کے نقطۂ نظر سے لڑکے اور لڑکی کا تنہا ملنا جلنا کیوں جائز نہیں‘ جب کہ والدین بھی صورت حال سے آگاہ ہوں اور رضامند ہوں۔ براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کیجیے کہ شادی سے پہلے فریقین کے لیے کم سے کم حدود کا تعین کیا ہے؟

ج: شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی کا ’’افہام و تفہیم کے لیے ملنا جلنا‘‘اور ’’بالغ ذہنی‘‘ اور کسی نفسانی جذبات سے بلند ہو کر باہم تبادلۂ خیال کرنا بظاہر بہت معصوم اور بے ضرر سی بات نظر آتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام اہل ایمان کے درمیان حُسنِ ظن ہی کو اصل اور مثبت بنیاد قرار دیتا ہے اور سوء ظن سے منع کرتا ہے لیکن بات صرف یہ نہیں ہے کہ کتنی اچھی نیت کے ساتھ یہ بات چیت کی جا رہی ہے۔ ایک ایسا کام جو بجائے خود غلط ہو‘ نیک نیتی اور بالغ نظری کے ساتھ کرنے سے درست نہیں بن سکتا۔ اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلام کے اخلاقی نظام میں غیرمحرموں کے درمیان تنہائی یا خلوت کے بارے میں کیا حکم پایا جاتا ہے۔

ہمارا عام مشاہدہ یہی ہے کہ روایتی معاشروں میں شادیاں عموماً خاندان یا برادری ہی میں ہوتی ہیں اور چونکہ خاندان کے افراد ایک دوسرے کے مزاج اور پسند ناپسند سے واقف ہوتے ہیں اس لیے شادی سے قبل یہ ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ لڑکے یا لڑکی کا تفصیلی انٹرویو یا اس کے ساتھ ایک تحقیقاتی ملاقات کرنے کے بعد رشتے کے مناسب ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ شہری معاشروں میں جہاں پہلے سے واقفیت نہیں پائی جاتی‘ یہ سوال اٹھتا ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی قبل از نکاح ملاقات کہاں تک ایک دوسرے کو پسند ناپسند اور مزاج سے واقف کرنے میں مفید ہوسکتی ہے۔

نفسیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو شادی جیسے اہم اور نازک معاملے میں اس نوعیت کی ملاقات عموماً انتہائی مصنوعی اور غیرحقیقی ماحول میں ہوگی۔ ایک لڑکی ہی نہیں‘ لڑکا بھی جب اس صورتِ حال میں ہو تو معلومات کا تبادلہ مصنوعی ہی ہوگا اور اصل چہرہ ہمیشہ چھپا رہے گا۔

جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے‘ اسلام دین فطرت ہونے کے سبب انسانی زندگی کے تمام معاملات کو ایک اخلاقی ضابطے (مقاصدِ شریعہ) کی روشنی میں طے کرتا ہے۔ سب سے پہلے وہ نکاح کو محض ایک مادی ضرورت نہیں سمجھتا بلکہ اسے تکمیلِ ایمان کا ذریعہ قرار دیتاہے۔مجرد افراد کے نکاح کروانے کو ریاست اور افرادِ معاشرہ کی ایک ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ ساتھ ہی ایک لڑکی کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار آزادانہ طور پر کرسکے اور اگر اس کی مرضی کے خلاف نکاح کر دیا جائے تو اسے فسخ کروا سکے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس رشتۂ مودت و رحمت کے وجود میں آنے سے قبل اگر لڑکا لڑکی کے چہرے کو دیکھنا چاہتا ہو تو اسے یہ حق حاصل ہو۔ حدیث شریف میں واضح طور پر مثال ملتی ہے کہ ایک ایسے قبیلے کی لڑکی کے رشتے کے بارے میں جس میں عموماً لڑکیوں کی آنکھ میں کوئی عیب پایا جاتا تھا حضور نبی کریمؐ نے ایک صحابی ؓ کو یہ اجازت دی کہ وہ شادی سے قبل لڑکی کا چہرہ ایک نظر دیکھ لیں۔ اس حدیث کے مفہوم کو وسعت دیتے ہوئے یہ قیاس کرنا کہ نہ صرف چہرہ بلکہ مفصل ملاقاتیں تحقیق مزاج کے لیے کرلی جائیں‘ شارع علیہ السلام کی اجازت کا بالکل ناجائز استعمال ہوگا۔

جہاں تک سوال ’’کم تر برائی‘‘ کا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ شیطان اپنے تمام وار اسی راستے سے کرتا ہے کہ یہ تو کوئی ایسی حرام بات نہیں ہے چاہے اس میں کراہیت پائی جائے۔ اسی طرح وہ مکمل حرام تک پہنچاتا ہے۔ جو دین غض بصر‘ نفس صوت‘ چلنے کے آداب‘ سوال کا جواب دینے کے آداب وحی الٰہی کے ذریعے متعین کر دیتا ہو اور شارع علیہ السلام کے ذریعے غیرمحرموں کے تنہائی میں ایک چھت کے نیچے بیٹھنے کو حرام قرار دیتا ہو‘ اس میں یہ گنجایش نکالنا دین کے ساتھ زیادتی ہے۔ بجائے ’’کم تر برائی‘‘ میں پڑنے کے کیوں نہ بھلے طریقوں کو اختیار کیا جائے کہ ایک نوجوان جن افراد پر پورا اعتماد کرتا ہو‘ مثلاً اس کی والدہ‘ بہن‘ خالہ‘ پھوپھی یا بھاوج یا کوئی اور قریبی عزیز خاتون‘ اس کے ذریعے لڑکی کے بارے میں جو معلومات درکار ہوں ان کی تحقیق کرلے اور ساتھ ہی استخارہ کرکے دل کو یکسو کرلے۔ اچھی نیت کے ساتھ ایک ممنوع کام کرنا‘ اسلام کے اخلاقی ضابطے کے منافی ہے۔ adjustment کے جو مراحل نکاح کے بعد ہرشادی شدہ جوڑے کو پیش آتے ہیں انھیں نکاح سے قبل گزار لینے کی خواہش نہ مسئلے کا حل ہے اور نہ شادی کو زیادہ خوش گوار بنانے میں مدد کرتا ہے۔

مغربی تہذیب میں dating کا رواج اسی غرض سے عام ہوا کہ شادی سے قبل محض ایک دوسرے کو جاننے کے لیے معصوم سی ملاقات کر لی جائے۔ لیکن یہی مغربی تہذیب میں فساد‘ فحاشی‘ اخلاقی بے راہ روی اور بداخلاقی کا ذریعہ بن گیا۔ انسان وہی ہے جو دوسروں کی غلطیوں سے سبق لے اور شیطان کے بہکاوے میں نہ آئے۔ (۱ - ۱ )