پروفیسر خورشید احمد


تجدید و احیاے دین، اسلامی تاریخ کی ایک روشن روایت اور عقیدۂ ختم نبوت کا فطری نتیجہ اور دینِ اسلام کے مکمل ہونے کا تقاضا ہے۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ برگزیدہ بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ دین کی بنیادی دعوت پر مبنی اللہ کے پیغام کو، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نمونے کی روشنی میں، اپنے دور کے حالات کا جائزہ لے کر بلاکم و کاست پیش کریں۔ دورِحاضر میں جن عظیم ہستیوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء - ۱۹۷۹ء) کا نام سرفہرست ہے۔
ویسے تو مسلم تاریخ کے ہر دور میں نشیب و فراز نظر آتا ہے، لیکن ۱۹ویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بڑی منفرد ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں پہلی بار مسلمان ایک عالمی قوت کی شناخت اور حیثیت سے محروم ہوئے۔ اس دوران چار کمزور ممالک اورنام نہاد حکومتوں کو چھوڑ کر پورا عالمِ اسلام مغرب کی توسیع پسندانہ اور سامراجی قوتوں کے زیرتسلط آگیا۔ یہ صورتِ حال ۲۰ویں صدی کے وسط تک جاری رہی۔ اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ یہ دور مسلم تاریخ کا تاریک ترین دور تھا، جو فکری و نظریاتی اور اخلاقی انحطاط کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور تہذیبی، گویا ہراعتبار سے اُمت کی محکومی کا دور تھا۔
پھر اسی دور میں،کسی نہ کسی پہلو سے تجدید و احیاے دین کی خدمت انجام دینے والی عظیم شخصیات: میں جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہٗ، ابوالکلام آزاد، سیّد رشید رضا، حسن البنا، علّامہ محمد اقبال، سعید نورسی، سیّدقطب، سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور مالک بن نبی جیسے نمایاں ترین رجال شامل ہیں۔ ان سب کی سوچ کا دھارا، کئی اُمور اورمعاملات میں اختلاف کے باوجود، مقصد اور ہدف کے اعتبار سے   ایک جیسا تھا، اور وہ یہ تھا: اللہ کے دین کو اس کی اصل شکل میں پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس دین کے مطابق اپنی اور انسانی زندگی کی تشکیلِ نو اور تعمیرِنوکی دعوت دی جائے۔ اللہ تعالیٰ ان سب محسنوں پر اپنی رحمت کی بارش فرمائے، اور ان کی اور ان کے رفقاے کار کی کاوشوں کو قبولیت اور فروغ عطا فرمائے۔یہی ہیں وہ رہنما کہ جن کی مساعیِ جمیلہ کے نتیجے میں، اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص سے تاریخ نے کروٹ لی اور محکومی کی تاریک اور طویل رات ختم ہوئی ۔ اسلام ایک بھرپور دعوت، انقلابی قوت اور ہمہ پہلو پیغام کی حیثیت سے ایک بار پھر اپناکردار ادا کرنے کی طرف رواں دواں ہے۔
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۹۲۰ء سے صحافت اور علم و ادب کے میدان میں  گراں قدر خدمات کا آغاز کیا۔ ۲۴برس کی عمر میں انھوں نے الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آرا کتاب لکھی، جو ۱۹۳۰ء میں، برعظیم میں علمی، تحقیق اور اشاعت کے بڑے باوقار ادارے دارالمصنّفین، اعظم گڑھ نے شائع کی۔ اس کتاب کے لیے تحقیق و جستجو مولانا مودودی کے فکری ارتقا میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ 
پھر یہی ہے وہ فیصلہ کن موڑ ( turning point) جہاں سے انھوں نے پیغامِ دین کے لیے عزم و ہمت کا عہد کیا اور عملی قدم اُٹھایا۔۱۹۳۳ء سے ماہ نامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباددکن کے ذریعے اسلامی فکر اور دعوت کے نئے چراغ روشن کرتے رہے۔ ۱۹۳۸ء میں ادارہ دارالاسلام  کی تاسیس کی۔ ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت اسلامی قائم کی اور اس کے امیر منتخب ہوئے۔ فروری ۱۹۴۲ء سے تفہیم القرآن کی تحریر واشاعت کا آغاز کیا۔ ستمبر۱۹۷۹ءیعنی اپنی وفات تک فکرورہنمائی کے ہر میدان اور تجدیدو احیاے دین اسلام کے بارے میں گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔مولانا مودودی کی زندگی اور ان کی فکر میں سب سے نمایاں چیز اللہ تعالیٰ سے  ان کا تعلق اور قرآنِ کریم کو زندگی کے ہرہرپہلو کے لیے اپنا رہنما بنانا ہے۔
الحمدللہ، ۳۰برس تک میرا، مولانا مودودی سے ایسا تعلق رہا ہے کہ جس میں وہ میرے استاد، قائد، محسن اور مربی کی حیثیت سے قدم قدم پر رہنمائی سے نوازتے رہے۔ اس مناسبت سے گواہی دیتا ہوں کہ مَیں نے جس چیز کو مولانا کی زندگی میں فکروعمل کا سرچشمہ اور روشنی و ہدایت کا منبع پایا ہے، وہ قرآن پاک ہے۔ اسی بنا پر مولانا کی زندگی کی اہم ترین متاع جن چیزوں کو قرار دیا جاسکتا ہے، ان میں سب سے پہلی، بنیادی اور مرکزی متاع قرآنِ کریم ہے۔ پھر قرآنِ کریم اور صاحب ِ قرآن خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک ہی کی روشنی میں دینِ حق کا تصور ہے، اور تیسری چیز ہے: ان دونوں کا تقاضا دعوت، اصلاح اور اقامت ِ دین کی منظم جدوجہد۔ یہی وہ  تین میدان ہیں، جن میں مولانا مودودی نے بڑا تاریخ ساز کردار (contribution) اداکیا ہے۔

قرآن ہی شاہِ کلید ہے !

قرآنِ پاک سے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے تعلق کو سمجھنے کے لیے تین چیزیں بڑی اہم اور چشم کشا ہیں:
۱۹۴۶ء میں مولانا محمد عمران خاں ندوی صاحب نے غیرمنقسم ہندستان کے اٹھارہ اکابر علما،   دانش وروں اور رہنمائوں سے دریافت کیا کہ ’’آپ کی محسن کتاب کون سی ہے؟‘‘ دیگر افراد نے اپنی اپنی پسندیدہ کتاب کے بارے میں بتایا، لیکن ان میں واحد مولانا مودودی تھے، جنھوں نے سب سے مختصر جواب دیا۔یہ جواب مولانا کی شخصیت اور ان کی پوری زندگی کا غماز ہے اور سب پہ بھاری بھی۔ انھوں نے لکھا:
جاہلیت کے زمانے میں، مَیں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ مَیں قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اُتار چکا ہوں ، مگر جب آنکھیں کھول کر قرآن کو پڑھا تو بہ خدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا، علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں اُلجھتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کرڈالیں، پھر بھی حل نہ کرسکے، ان کو اِس کتاب نے ایک ایک دو دوفقروں میں حل کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر یہ غریب اس کتاب سے ناواقف نہ ہوتے تو کیوں اپنی عمریں اس طرح ضائع کرتے؟ میری اصلی محسن بس یہی ایک کتاب ہے۔ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے۔ حیوان سے انسان بنادیا ، تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی، ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں، حقیقت اس طرح برملا مجھے دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے۔  انگریزی میں اُس کنجی کو ’شاہ کلید‘ (Master Key) کہتے ہیں، جس سے ہرقفل کھل جائے۔ سو، میرے لیے یہ قرآن ’شاہ کلید‘ ہے۔ مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، وہ کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔

قرآن اور اقامتِ  دین

مولانا مودودی کے لیے سب سے بڑی دولت اور زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ،  اللہ کی آخری ہدایت یہ کتاب ہی ہے۔ قرآن ہی وہ اَبدی ہدایت ہے، جو خود خالق حقیقی نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کو زندگی میں کامیابی کا راستہ دکھانے کے لیے عطا فرمائی۔ مولانا مودودی کے نزدیک:قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا کتاب اللہ ہونا ہے، یعنی یہ رہنمائی کسی انسان کی طرف سے نہیں ہے۔ اس کا ذریعہ اور وسیلہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ کو جاننے،    اللہ سے جوڑنے اور اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کا واحد راستہ قرآن کی ہدایت کو تسلیم کرنا،اور اس کے مطابق اپنی ذات کو اور ساری دنیا کو ڈھالنا ہے۔ اس کے تین پہلو ہیں: 
پہلا اور سب سے اہم خداشناسی ہے، جس سے ہم اللہ کو پہچان سکتے ہیں اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کو ڈھال سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ پر ایمان اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کو ڈھالنا ، زندگی کو گزارنا، قرآن سے تعلق کو جوڑنا،اور قرآن کا فہم حاصل کرنا نہایت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ قرآن کا اصل مخاطب انسان ہے اور قرآن کا اصل مقصودتمام انسانوں کی دست گیری ہے۔ جو اسے قبول کریں، ان کے لیے یہ سراپا ہدایت ہے اور رہنمائی عطا کرتا ہے۔ یہی خداشناسی اسلام کی بنیاد اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے اصل سہارا اور قوت ہے۔
دوسرا پہلو خودشناسی ہے، یعنی یہ سمجھنا اور جاننا کہ اللہ ہمیں کیسے انسان کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے؟ یہ دیکھنا کہ ہمیں کیا کام سونپا گیا ہے، اور کس معیار پر ہمیں کامیابی اور اجر ملے گا؟ اس چیز کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تووہ ہے ’استخلاف‘۔ اس کے لیے فرد کا تزکیہ کرنا، اس کی کردار سازی کرنا اور علم وعمل کے اعتبار سے اس لائق بنانا کہ وہ اللہ کی زمین پر، اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، یعنی تقویٰ کا حصول۔
تیسرا پہلو ہے خلق شناسی۔ اس سے مراد ہے: انسانوں سے، اداروں سے، معاشروں سے، اقوام سے اور کائنات میں خلق کی ہوئی ہرشکل سے قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق ربط و تعلق قائم کرکے معاملہ کرنا، تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور دنیا عدل، امن اور احترامِ آدمیت کا گہوارا بن جائے۔
ان تینوں بنیادوں کو قرآن نے جامع اصطلاح ’اقامت ِ دین ‘ میں سمو دیا ہے اور یہی معنی عبادت کے ہیں۔یہ دوسرا پہلو ہے: قرآنِ کریم سے مولانا کے تعلق کا، جسے انھوں نے بڑی تفصیل سے مختلف اسالیب میں بیان کیا ہے اور وضاحت فرمائی ہے۔

اقامتِ  دین کا اہم تقاضا

مولانا نے بتایاہے کہ قرآن صرف اللہ کی کتاب اور کتابِ ہدایت ہی نہیں بلکہ کتابِ انقلاب ہے۔ جہاں اس کے مخاطب تمام انسان ہیں، وہاں اس کا خاص طور پر خطاب انسانوں کے ایسے گروہ سے ہے، جو اسے قبول کرتا ہے۔ قرآن انھیں رہنمائی فراہم کرتا اور تیار کرتا ہے کہ وہ کس طرح خود کو اور پوری انسانی زندگی کے ہر شعبے اور دائرہ کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے دعوت، شہادتِ حق اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا ہے اور ہدف دین کے پیغام کو عام کرنا اور اللہ کی مرضی کو غالب کرنا بتایا ہے۔ اس مقصد کو تفہیم القرآن  کے مقدمے میں مولانا مودودی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
 فہم قرآن کی ساری تدبیروں کے باوجود، آدمی قرآن کی رُوح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا، جب تک عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دُنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رُموز حل کرلیے جائیں۔  یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر، خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم بردارانِ کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفرودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں؟ 
اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں، جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے ،اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے، جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکّے اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجَہل اور ابولَہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’سُلوک‘ ہے، جس کو میں ’سُلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خودسامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے   رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی رُوح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔
پھر اسی کُلیّے کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آ ہی نہیں سکتے، جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کررکھا ہو، اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔(تفہیم القرآن، اوّل، ص ۳۳-۳۵)

اسلام، ایک ہمہ گیر تحریک

قرآن سے اس تعلق کے ساتھ مولانا نے دوسری اہم فکری خدمت (contribution)  یہ انجام دی ہے کہ دین اسلام کو آج کی زبان میں، ایک مکمل لائحہ عمل کے طور پر بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے، جس میں دین اور دنیا کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے اور عبادت اس کا مظہر بھی ہے اور اس کے تقاضوں کے لائق بنانے کا ذریعہ بھی۔ لیکن اصل ہدف اور مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ ہرشعبۂ زندگی کو اللہ کی مرضی کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنا ہے۔    اس میں نجی، خانگی، اجتماعی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، ملکی، عالمی سطح کے تمام تعلقات شامل ہیں۔
اس ضمن میں مولانا مودودی نے بنیادی نوعیت کے چار مزید کام انجام دیے، جو ان کی فکری خدمات میں نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں:

  • اسلامی فکر ، بـے لاگ جائزہ: قرآنی بصیرت و رہنمائی کی روشنی میں، انھوں نے   مسلم معاشرے اور اُمت ِ مسلمہ کی فکر، اس کی تنظیم اور اس کے اجتماعی اہداف پر تنقیدی و تجزیاتی نظر ڈالی۔ جہاں اُن بنیادی وسائل کی قدر، تائید اور پشت پناہی کی جو اسلام کے پیغام اور دعوت کو محفوظ کرنے اور دین کے علم کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے موجود تھے، وہیں اس امر پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا کہ عملاً ہردور میں اہلِ خیر کی کوششوں کے باوجود ایسی کمزوریاں اور خامیاں دَر آتی رہی ہیں، جو آخرکار مسلمانوں کی کمزوری اور زوال کی راہوں کو ہموار کرنے کاسبب بنیں اور آج بھی اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کے وقار میں اضافے کی راہ میںرکاوٹ ہیں۔

مسلم معاشروں میں دین سے عدم واقفیت، اور جاہلیت کی گرفت بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک صاحب ِ ایمان مسلمان علم، اخلاق اور دیانت کے بغیر کسی بھی میدان میں کام نہیں کرسکتا۔ علوم کی تقسیم دین اور دنیاوی دائروں میں اس حد تک تو گوارا کی جاسکتی ہے کہ مختلف علوم کے دائروں کو متعین کیا جائے، لیکن اسلام کے تصورِعلم میں اللہ کی مرکزیت اور اللہ کی ہدایت کو علم کے ہرشعبے میں مطابقت (relevance) کے ساتھ پیش کرنا اور ہروقت اس کا احساس بیدار کرنا فہمِ دین کا بنیادی اصول ہے۔ ہمارےدورِ زوال میں شعوری یا غیرشعوری طور پر علم کا تصور محدود تر ہوگیا۔ کم از کم علمی سطح پر دین کے دائروں اور دینی ہدایت کو شخصی زندگی اور عبادات تک محدود کردیا گیا۔ اجتماعی زندگی اور اجتماعی علوم کے باب میں دین حق نے جو رہنمائی فراہم کی ہے اور جو دورِ عروج میں ہماری شان رہی ہے، اس سے ہم بہت دُور ہوگئے ہیں۔ جب تک یہ ترتیب اور مطابقت علوم اور تربیت کا حصہ نہیں بنتی، احیاے اسلام ممکن نہیں ہوگا۔ اس مقصد کے لیے مولانا مودودی نے مسلم معاشروں کی فکری ساخت کا تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی مرض کی نشان دہی کی۔

  • قانون سازی کی بنیاد : مولانا مودودی نے بتایا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کے سلسلے میں جو ترتیب عطا فرمائی ہے، اس میں روشنی کا بلاشبہہ اصل سرچشمہ قرآنِ پاک ہی ہے۔ لیکن اللہ کی اس مکمل ہدایت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا ہے، اس کی تعلیم دی ہے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا نمونہ ہمارے لیے چھوڑا ہے۔ اس طرح قرآن کے بعد ہدایت کا دوسرا سب سے بنیادی اور مرکزی ذریعہ سنت ِ رسولؐ اور سیرتِ پاکؐ ہے۔

اس کے بعد قرآن و سنت کی روشنی میں نئے مسائل حل کرنے کے لیے استدلال، قیاس، استنباط اور اجتہاد کی بنیاد پر قانون سازی ہے۔ یہی ہے وہ عمل کہ جس سے فقہ کا قیمتی سرمایہ وجود میں آیا۔ پھر فقہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے علم اور تقلید کی روایت نے سفر شروع کیا۔ مولانا مودودی کے نزدیک احیاے دین کے لیے صحیح ترتیب قرآن، سنت، فقہ اور تاریخ ہے۔ جس کی روشنی میں نئے مسائل کا حل قرآن و سنت اور اجتہاد و استنباط ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دورِ زوال میں یہ ترتیب اُلٹ کر رہ گئی۔   یوں تقلید و تاریخ نے عملاً اوّلیت اختیار کرلی، پھر فقہ، اس کے بعد سنت ِ رسولؐ، حکایاتِ بزرگانِ دین اور اس کے بعد قرآن۔ گویا کہ جس چیز، یعنی قرآن کو سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا، وہ سب سے آخر میں چلا گیا۔ یہی بدقسمتی مسلمانوں میں مروج نظامِ تعلیم کے ساتھ ہوئی اور وہاں پر بھی ترتیب اُلٹ گئی، اور قرآن سب سے آخر میں اور وہ بھی محدود تر دائرے میں شاملِ نصاب ہوا۔ 
مولانا مودودی نے اس بات کی طرف متوجہ فرمایا کہ مسلم معاشرے میں اصل اصلاح طلب چیز، حقیقی اور مطلوب ترتیب کو بحال کرنا ہے۔ فقہ کو نظرانداز کرنا یا دریابُرد کرنا خودکشی کے مترادف ہے، مگر رہنمائی کے لیے ترتیب میں قرآن ، سنت اور پھر فقہ وتاریخ کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ یہ ایک انقلابی نکتہ ہے، جسے مولانا مودودی نے ابن تیمیہ، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ سے گاہے اتفاق اور کچھ اختلاف کے ساتھ پیش کیا اور اس جرأتِ اظہار کی بڑی قیمت ادا کی۔

  • مغربی فکر و تہذیب کا محاکمہ :تیسرا نکتہ ہے مغربی فکر اور مغربی تہذیب کے غلبے سے پیدا شدہ صورتِ حال اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا اسلام سے معاملہ۔ بلاشبہہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی اور دینی آزادی کے تحفظ کے لیے استعماری قوتوں کے خلاف جہاد کیا اور اس میدان میں بڑی روشن مثال قائم کی۔ تاہم، جہاد کے محاذ پر کامیاب نہ ہونے کے بعد اہلِ خیر کی ایک بڑی تعداد نے تصادم سے پسپائی کی روش ضرور اختیار کی، مگر اس کا مقصد دینی روایت کا تحفظ اور دینی علوم سے رشتے کو جاری اور مضبوط رکھنا تھا۔ اس محدود حد تک تحفظ دین کی یہ حکمت عملی مفید رہی، لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ ضرور رُونما ہوا کہ اجتماعی زندگی اور اس کی رہنما اقدار سے اسلام بے دخل ہوتا گیا۔ کچھ حلقوں نے مغرب کی مکمل تقلید اور اپنے کو مغرب کے رنگ میں رنگنے کا راستہ اختیار کیا، تو کچھ دوسروں نے عملاً تو مغربی تقلید کی روش اختیار کی، مگر اس کے لیے بہت سی اسلامی اصطلاحات کا سہارا بھی لیا۔ ’اصلاح مذہب‘ کی تحریکیں مختلف شکلوں میں رُونما ہوئیں، جنھوں نے اصلاح کا کام کم اور دین میں تحریف اور مغرب کی نقالی کا کھیل زیادہ کھیلا۔ اس تہذیبی تبدیلی کو اکبرالٰہ آبادی نے اپنے مخصوص انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:

نہیں اس کی کوئی پرسش کہ یاد اللہ کتنی ہے
یہی سب پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اور یہ کہ :
ہم کیا کہیں، احباب کیا کارِ نمایاں کرگئے
بی اے ہوئے، نوکر ہوئے، پنشن ملی پھر مر گئے

مولانا مودودی نے اقبال اور دوسرے علما و مصلحین کے ساتھ مغربی تہذیب کا بھرپور محاکمہ کیا اور بہت صاف صاف الفاظ میں یہ بات کہی کہ: ’’مغربی سامراج سے صرف سیاسی آزادی مطلوب نہیں بلکہ فکری، نظریاتی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی آزادی بھی مطلوب ہے، تاکہ مسلمان اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی کو مرتب اور منظم کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے محض مسجد بنادینا اور صرف نماز پڑھ لینا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے خاندانی نظام کا تحفظ اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیربھی ضروری ہے۔ نیز سیاسی آزادی اور اختیار بھی مطلوب ہے تاکہ دینی اقدار بالادست ہوں اور یوں اجتماعی زندگی اسلامی بنیادوں پر استوار ہو‘‘۔ اقبال نے بڑے لطیف انداز میں کہا:

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اور یہ کہ:
جدا ہو دیں سیاست سے،تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسلام، درحقیقت سیاسی و تہذیبی اور فکری و سیاسی میدان میں آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ غلامی کی ہر رمز اور محکومی کی ہر علامت کو رَد کرتا ہے، تاکہ اسے قبول کرنے والے زندگی کی تشکیلِ نو کرسکیں۔ مولانا مودودی نے اس موقف کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے۔ ان کے متوازن ذہن اور محتاط قلم نے مغرب زدگان کو دلیل کے میدان میں بے بس کر دیا ہے اور یہی چیز مغرب کو کھائے جارہی ہے۔ جس کے لیے کبھی اس کے ترجمان ’سیاسی اسلام‘ جیسی نامعقول، مہمل اور مضحک (absurd) اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور کبھی اسلام کے ڈانڈے فاشزم اور انتہاپسندی سے جوڑتے ہیں ۔ حالاں کہ سچ بات یہ ہے کہ مسلمان اپنا حق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حق کہ وہ اپنی انفرادی اور اپنی اجتماعی زندگی کو اپنی اقدار و تہذیب اور قانون و ضابطے کے مطابق گزار سکیں۔
جس طرح مولانا مودودی نے مسلم معاشروں کا جائزہ لے کر ان کی خامیوں کو متعین کیا، اسی طرح انھوں نے مغربی تہذیب کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ یہاں بھی انھوں نے اندھی تنقید اور اندھی تقلید دونوں کے مقابلے میں ایک آزاد، نظریاتی، منطقی اور اعتدال پر مبنی رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے تعصب پر مبنی تحقیق و مطالعے کو عدل اور شرفِ انسانی دونوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ مولانا نے مغرب اور مغربی تہذیب کو اس کے مآخذ کے مطالعے اور سرچشموں کے مشاہدے سے جاننے کی جستجو کی ہے۔ پھر ان بنیادوں پر تنقید کی ہے، جو خدا ناشناسی یا خدا کی قدرت کے محدود تصور پر مبنی ہیں۔ 
مولانا مودودی نے مغرب کے سامراجی کردار اور نظریاتی و سیاسی پہلوئوں کا ہمہ پہلو محاکمہ کیا ہے۔ پھر مسلم دنیا کو مغرب کے اس اثر سے نکالنے کے لیے سیاسی، فکری، اجتماعی جدوجہد کی دعوت دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ مغرب میں یا مغرب کی ہر چیز غلط نہیں، اور نہ مشرق میں اور مشرق کی ہر چیز خیرہے۔ ہمیں کھلے ذہن اور کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے کہ ’خیر‘ کے لیے   کس چیز سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ اس ضمن میں انسانی زندگی کے معاملات، سیاسی تجربات اور  سائنسی علوم کو ایک صاحب ِ ایمان فرد کی حیثیت سے پرکھنا چاہیے کہ کہاں اور کس قدر خیر ہے، خیر کو شر سے چھانٹ کر انسانی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے اور شر سے انسانیت کو بچانا چاہیے۔ یہ حس اور یہ صلاحیت اس کھلے ذہن سے پیدا ہوسکتی ہے کہ جس کی میزان لازمی طور پر اسلامی ایمانیات پر استوار ہو اور جس کی کسوٹی اسلامی اصولوں کے ساتھ تصادم یا مطابقت کے سوال سے مشروط ہو۔
 جو چیز اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم نہیں، وہ انسانیت کی میراث ہے۔ البتہ اندھی تقلید اور اندھی تنقید غلط چیز ہے۔ جو اچھا ہے، اسے قبول کرلو اور جو بُرا ہے، اسے مسترد کردو۔ خیر تک رسائی اور خیر کے استعمال و اختیار کے لیے پوری دنیا ایک میدان ہے۔ ایک صاحب ِ ایمان فرد کسی ایک علاقے اور کسی ایک زمانے تک محدود نہیں رہ سکتا۔ اسے معتدل طریقے سے یہ خدمت انجام دینی چاہیے۔
مسلم اور مغربی معاشروں کے تنقیدی جائزے کے بعد مولانا نے بتایا ہے کہ اسلامی احیا ہی انسانی زندگی کے لیے خیر اور فلاح کا سرچشمہ ہے، جس کا ماخذ قرآن ہے۔ قرآن کی بنیاد پر دین کو سمجھا جائے، قرآن کی حکمت عملی کو سمجھا جائے اور قرآن کے زیرسایہ اسلامی احیا کی تحریک کو  منظم کیا جائے۔ یہ کام دعوت اور نظم و ضبط سے، افراد کی تیاری اور اداروں کی تعمیروترقی ہی سے ممکن ہے، جس میں سب سے مرکزی اور بنیادی ادارہ خاندان ہے۔ مولانا محترم نے زور دے کربتایا ہے کہ جدید دور میں، جدید ذرائع اور جدید اسلوب کو دعوت و تنظیم اور عمومی بیداری کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اسی لیے انھوں نے جدید زمانے میں تنظیم سازی کے لیے بہترین انداز سے جماعت اسلامی اور دوسرے دعوتی اداروں کو منظم کیا۔

  • تبدیلی کا  اسلامی راستہ: چوتھا یہ کہ مولانا مودودی نے صرف دین ہی کا جامع تصور نہیں دیا، بلکہ عملاً یہ بھی بتایا کہ اسلامی نظام کے خدوخال کیا ہوں گے؟ تبدیلی کا عمل اور تدریج کیا ہوگی؟ انھوں نے جہاد اور قتال کے بارے میں معذرت خواہی یا مداہنت نہیں برتی بلکہ اس کی حدود کو واضح کیا ہے۔ آج کے معاشرے، ریاست اور قانون کو اسلامی شریعت سے قریب تر لانے کے لیے اجتہادی اُمور کی جانب متوجہ کیا ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ آج ریاست کو کیسے چلانا ہے؟ دستور کس طرح بنانا ہے؟ اسلامی خاندان اور مسلم معاشرے کی وسیع بنیادیں کیا ہیں؟ مسلم اکثریتی علاقوں میں کس طرح زندگی بسر کرنی ہے؟ مسلم اقلیتی ممالک میں زندگی کو کس طرح برتنا ہے؟ انسانی معاشرہ مجموعی طور پر کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے یا اس کےاصول کیا ہونے چاہییں؟ خاص طور پر سیاست، معیشت اور تعلیم کے میدان میں بہت ہی متعین انداز میں رہنمائی دی اور درست سمت بتائی ہے۔اس پورے علمی و فکری سفر میں مولانا مودودی کے ہاں ارتقا ہے، تضاد نہیں۔ انھوں نے اجتہاد اور علم کی بنیاد پر کئی نئے راستے کھولے ہیں اور کئی شاہراہوں کی نشان دہی کی ہے۔

مولانا مودودی نے یہ بھی بتایا ہے کہ قومی ریاستیں (Nation States)مسلمانوں کی منزل نہیں، البتہ مسلم ممالک اور دنیا کے حالات کی روشنی میں وہ مسلم اُمہ کے اتحاد واشتراک کی جانب رواں سفر کا ایک ذریعہ بن سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ نظریاتی اساس پر اپنی تعمیر کریں۔ہماری قومی ریاستیں مغرب کی طرح علاقائی اور جغرافیائی اکائیاں نہیں ہیں، بلکہ ایک نظریے کی علَم بردار اور ایک جسد ِ واحد کا حصہ ہیں، جنھیں ایک جان دار جسم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی ہے وہ سبق، جو قرآنِ کریم نے ہرمسلمان کو پڑھایا اور سمجھایا ہے۔ 
اس حوالے سے مولانا مودودیؒ کی فکر کو سمجھنے کے لیے بنیادی نکات دو ہیں: قرآن اور اقامت دین۔ ان کا سارا علمِ کلام اس کی تفسیر ہے اور ان کی تمام سرگذشت ِ زندگی انھی کے مدار میں رواں رہتی اور پھلتی پھولتی ہے۔
ایک اہم بات جس کا ادراک بہت ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے ایک طرف قرآن و سنت اور تاریخ تجدید و احیا کے گہرے مطالعے اور تجزیے کی روشنی میں اسلام کے تصورِحیات کو اس کی مکمل شکل میں پیش کیا۔ ایمان اور تزکیے کے ساتھ زندگی کے پورے نظام کی اسی بنیاد پر تعمیر و تشکیل کا واضح تصور اور نقشہ پیش کیا۔ پھر اس کے مطابق زندگی کے نقشے کو بدلنے کے لیے دعوت اور منظم تحریک کی ضرورت اور حکمت کو واضح کیا، وہیں سوچ کا ایک انداز، تحقیق کا ایک اسلوب اور افکار اور حکمت عملی کی تشکیل کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں خطوطِ کار مرتب کیے، جسے مَیں مولانا مودودی کا منہج (methodlogy ) کہتا ہوں۔ اس عمل میں انھوں نے قرآن و سنت سے مکمل وفاداری پر زور دیا ہے۔ تاریخی روایت کے تسلسل کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات اور زمانے کے تقاضوں کا ادراک کرنے اور اُن کی روشنی میں حدود اللہ کی پاس داری اور مقاصد ِ شریعت سے وفاداری کو لازم قرار دیا ہے۔ پھر زبان و بیان، دلیل و استدلال، تنظیم اور نظامِ کار اور پالیسی کے میدان میں نئے تجربات کی ضرورت اور حدود کو بھی معین فرمایا۔ ان اُمور کی روشنی میں مسلمانوں کی اپنی تاریخ اور دورِحاضر کی غالب تہذیب دونوں کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا اور نئے تجربات کیے۔ 
مولانا محترم کے اندازِ فکر اور تحقیق و تجزیے کے اسلوب، دونوں میں ہمارے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ مسلمانوں کو عہد ِ حاضر میں تجدید و احیاے دین کے لیے سرگرم اور متحرک کرنے پر  اللہ تعالیٰ انھیں بہترین انعامات سے نوازے، آمین۔
[صحت کی خرابی کے باعث یہ مضمون، نائب مدیر کو املا کرایا گیا۔ مدیر]

مدینہ منورہ کی ریاست کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان بار بار یہ کہتے ہیں کہ ان کا آئیڈیل مدینہ کی ریاست اور حکومت ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے یقینا ان کا دل بھی یہی چاہتا ہوگا کہ وہ یہ کام کریں اور اس کی عملی تشکیل کی سمت میں بامعنی قدم بڑھائیں۔ ہمیں اس خواہش کو محض سیاسی بیان سمجھنے کے بجاے ان کے قول کواقبال، قائداعظم اور تحریک ِ پاکستان کے تصورِ پاکستان کا اعادہ سمجھنا چاہیے اور حکومت اور قوم دونوں کی ذمہ داری ہے کہ عملاً اس سمت میں پوری یکسوئی کے ساتھ پیش قدمی کریں۔

یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم متعین کرکے بتائیں کہ یہ ماڈل کیا ہے؟ پھر اس بات کو واضح کیا جائے کہ اس ماڈل کو حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ ہم نے جو نکات نومبر۲۰۱۸ء کے ترجمان میں بیان کیے تھے ،وہ اس باب میں معاون ہوسکتے ہیں ۔

ریاست مدینہ کے ماڈل کے حوالے سے بنیادی طور پر غورطلب باتیں حسب ِذیل ہیں:

  • مدینہ کے ماڈل میں خود حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مرکزیت حاصل ہے، یعنی آپؐ کے فرمودات (جو وحی پر مبنی ہوتے تھے)، آپؐ کا کردار،آپؐ کے فیصلے اور بحیثیت مجموعی آپؐ کا قائم کردہ طرزِ حکمرانی ہی اصل ماڈل ہے۔ چنانچہ حضوؐر کی ذات سے تعلق، ان سے رہنمائی لینا اور سنت کو معیار (criteria) بنانا، یہ اس ریاست کی پہلی ضرورت ہے۔
  • مدینہ ، مکّہ کا تسلسل:دوسری بات یہ ہے کہ مدینہ دراصل مکّہ میں پیش کی جانے والی دعوت، جدوجہد، کش مکش اور تربیت کا تسلسل اور تکمیل ہے۔ مدینہ کا معنی صرف مدینہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد مکّہ اور مدینہ کا رسالت ِمحمدیؐ کا پورا دور ہے۔ گویا کہ مکّہ اور مدینہ میں دوئی نہیں یک رنگی اور یک جائی ہے۔
  •  میثاق:تیسری چیز یہ ہے کہ مدینہ کی سیاسی تنظیم اور بنیاد دو میثاق ہیں۔ یہ دونوں اہم تاریخی دستاویزات ہیں جن کا ازسرِنو مطالعہ اور تجزیہ کرنے اور ان سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ ان کی اشاعت بھی اس کے لیے مفید اور ضروری ہے۔
  1. پہلا میثاق وہ ہے جو حضوؐر اور اہلِ مدینہ میں سے قبولِ اسلام کرنے والوں کے درمیان ہوا، خاص طور سے ’بیعت عقبۂ ثانی‘۔ اس بیعت میں جس چیز پر لوگوں نے بیعت کی وہ حضوؐر کو صرف نبی ماننا ہی نہیںتھا بلکہ انھیں قائد، سربراہِ مملکت اور مدینہ کا سربراہ تسلیم کرنا تھا۔ بیعت عقبۂ ثانی کے موقعے پر پوری بحث کو پڑھیں تو وہاں یہ الفاظ بیان ہوئے تھے کہ مدینہ سے آنے والے   ایک یا ایک سے زیادہ لوگوں نے یہ کہا کہ سوچ لو تم کیا بات تسلیم کرنے جا رہے ہو؟ یہ ماننے کے بعد ساری دنیا تمھارے خلاف اُٹھ کھڑی ہوگی اور تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے اور ان کے دفاع اور دین کے لیے جان دینے کا عہد کر رہے ہو۔ یہ اُن کا وژن تھا۔انھوں نے کہا کہ ہاں، ہم سمجھتے ہیں کہ کیا عہد کر رہے ہیں اور ہمیں یہ قبول ہے۔ گویا یہ حضوؐر کو نبی ماننا، ان کو پولٹیکل اتھارٹی ماننا اور ان کی بنیاد پر ایک مملکت قائم کرنا ہے۔ یہ پہلے میثاق کی بنیاد تھی۔ یہ حضوؐر کے اور حضوؐر کے ماننے والوں کے درمیان میثاق ہوا تھا۔
  2. دوسرا ’میثاقِ مدینہ‘ ہے جو پہلی ہجری میں غیرمسلموں کے ساتھ ہوا تھا، جس میں خصوصیت سے بنی اسرائیل، مدینہ کے قبائل اور قبائل کے سردار شامل تھے۔ اس معاہدے کی روح یہ ہے کہ حضوؐر نے غیرمسلموں کو غیرمسلم رہتے ہوئے اسلامی ریاست کا شہری مانا، ان کے حقوق طے کیے اور یہ اہداف طے کیے کہ کس طرح سے مل کر دفاع کریںگے۔ طے ہوا کہ یہود اپنے دفاعی اخراجات خود برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے دفاعی اخراجات خود برداشت کریں گے۔

معلوم ہوا کہ شہریت، حقوق اور ذمہ داریاں ان دونوں میثاقوں کی بنیاد ہیں۔ اس سے    یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مختلف عقائد کے حامل افراد ایک ریاست کے شہری ہوسکتے ہیں اور اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مشترک تعلقات (joint relationship) کے ساتھ ریاست کا نظام چلایا جاسکتا ہے، یعنی ایک یہ کہ مسلمانوں کا حضوؐر کو بحیثیت نبی ماننا اورریاست کا سربراہ ماننا، اور غیرمسلموں کا حضوؐر کو نبی تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی انھیں ریاست کا سربراہ ماننا، آخری سیاسی اتھارٹی تسلیم کرنا۔ پھر یہ کہ ایک اسلامی قیادت اور اسلامی مملکت کا غیرمسلموں کے حقوق اور ان کے مقام کا تعین کرنا۔ مدینہ کا ماڈل سمجھنے کے لیے یہ دونوں معاہدے بنیاد ہیں۔

  • مسجد :حضوؐر نے مدینہ میں آتے ہی پہلا کام یہ کیا ہے کہ جہاں آپؐ کی اُونٹنی بیٹھی، آپؐ نے وہ زمین حاصل کرکے وہاں مسجد کی تعمیر فرمائی۔ ہمارےوزیراعظم صاحب کو جاننا چاہیے کہ یہ مسجد عبادت گاہ بھی تھی اور مشاورت کے لیے آج کی اصطلاح میں پارلیمنٹ بھی، مقامِ عدل و قضا بھی تھا اور اُمورِخارجہ و اُمورِ دفاع کا مرکز بھی۔ یہ تمام اُمور اللہ کے گھر میں، اللہ کی رہنمائی اور رسولؐ کی قیادت میں، آخرت کی جواب دہی اور انسانیت کی فلاح کے لیے انجام پاتے تھے۔
  • مدرسہ : پھر اس مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ قائم کیا اور تعلیم کاسلسلہ شروع کیا جس کا مطلب ہے کہ ریاست مدینہ میں جتنی اہمیت مسجد کی ہے، اسی قدر اہمیت قرآن و سنت کی تعلیم و تدریس اور علم کی بھی ہے۔
  • ماں : اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کا دین میں بڑا بنیادی کردار ہے۔ انھوں نے حضوؐر کی تسکین، مالی معاونت، وفاداری،اولاد کی تربیت کی اورصحابیات نے مکّی دور میں بے پناہ قربانیاں دیں۔ تاہم، ماں کا کردار مدینہ میں آکر ایک اور شان کے ساتھ نمایاں ہوتا ہے۔ خاندان کی تشکیل ، مذکورہ تمام قربانیوں سے بڑی قربانی یہ کہ اُمت کی اصلاح اور تربیت کے لیے اُم المومنین کا اپنی   نجی زندگی کوعام کر دینا ہے۔ یہ مرحلہ مدینہ منورہ میں پیش آیا، جس نے رسولؐ کی نجی زندگی کو پبلک زندگی میں تبدیل کر دیا اور نجی اور مجلسی زندگی کا ہرپہلو اُمت کے لیے سنت اور نمونہ قرار پایا۔
  • مواخات :اس کے بعد آپؐ نے اسلامی معاشرت اور مواخات کے فروغ کے لیے معاہدئہ مواخات کیا، یعنی مدینہ کی نئی آبادی مہاجروانصار کے درمیان نئے تعلقات قائم کیے۔ فنی طور پر دیکھیں تو دو مختلف قومیں، مختلف روایات کی علَم بردار ہیں۔ قریش عرب میں ایک اُونچا مقام رکھتے تھے مگر یہاں وہ ایک مجبور اور مہاجر کی حیثیت سے آئے تھے ۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا کہ کیسے سوسائٹی کے اندر ایک نیا بھائی چارہ، نئی اخوت قائم کی جائے اور معاشرتی تعلقات قائم کیے جائیں؟ اس کو مواخات کہا جاتا ہے اور یہی مواخات اسلامی وحدت اور اُمت بنانے کی بنیاد بن گئی اور مدینہ کو صحیح معنوں میں مدینہ بنا دیا۔ پھر مدینہ محض انصار اور مہاجروں کا مسکن نہیں رہا بلکہ اُمت مسلمہ کا مرکز و محور بن گیااور ہمیشہ رہے گا۔
  • مساوات:یہاں سے مساوات کا تصور اُبھرتا ہے۔ ایسی مساوات کہ جس میں: مسلم و غیرمسلم کے درمیان، امیر اورغریب کے درمیان،اعلیٰ نسب اور کم نسب کے درمیان اور غلام اور آقا کے درمیان انصاف کرنا ہے بلکہ انصاف سے آگے بڑھ کر اپنا حق دوسرے کے لیے قربان کرنا، یعنی احسان کا رویہ اپنانا۔
  • مفادِ عامہ:یہاں سے مفادِ عامہ سامنے آتا ہے۔ اسلام میں جہاں اللہ سے تعلق اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، وہیں ہماری اجتماعی زندگی اور معاشرت کا مرکز مفادِ عامہ ہے، یعنی فلاحی ریاست میں فلاحی معاشرے کا قیام ضروری ہے۔ قرآنِ پاک میں جس طرح نماز اور زکوٰۃ کی تلقین ہے، اسی طرح حقوق العباد کی ادایگی کا حکم بھی ہے۔ خون کے رشتوں کے احترام اور ان کو نفقہ اور میراث کے قوانین کے ذریعے ایک سوشل سیکورٹی کے نظام میں مربوط کرنا ضروری ہے۔ پھر سوسائٹی کے مظلوم اور محروم طبقات، خصوصیت سے یتامٰی، مساکین اور بیوائوں کی کفالت کے لیے فکرمندی اور زکوٰۃ اور زکوٰۃ سے بھی زیادہ انفرادی اور اجتماعی ایثار کے ذریعے وسائل فراہم کرنے کی ہدایت۔ اسلام کا یہ فلاحی نظام اخلاق اور قانون دونوں کو مؤثر طور پر استعمال کرتا ہے اور یتیم اور مسکین کے حق سے لاپروائی کو دین اور یومِ آخرت کے انکار سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ عمل مدینہ کے فلاحی نظام کو تاریخ کا ایک منفرد نظام بنا دیتا ہے۔
  • مجاہدہ اور جہاد: پھر تمام غزوات اور سرایا اسی زمانے میں ہوتے ہیں اور جہاد  فی سبیل اللہ، دعوت، ہجرت براے دعوت۔ نیز ہجرت دعوت بھی تھی اور ظلم سے بچنے کا ذریعہ بھی ۔ حضوؐر کے دور میں اور حضوؐر کے بعد دنیا کےگوشے گوشے میں لوگوں کو دعوت کے لیے بھیجا گیا۔ اس مجاہدے کا آغاز دعوت اور اس کا فطری نتیجہ ، حق و باطل کی کش مکش اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی کوشش ہے۔ اس کا ایک مرحلہ مقابلہ اور تصادم بھی ہے۔ جہادفی سبیل اللہ ان تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ شرک اور نفاق، بیرونی اور اندرونی چیلنجوں سے نبٹنے کے مراحل میں جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے۔
  • مذاکرات : حضوؐر نے مدینہ کے دورِ حکمرانی میں، اس زمانے کے تمام حکمرانوں کے نام خطوط لکھ کر سفیروں کو روانہ کیا۔ اسی طرح قریش کے ساتھ مذاکرات کیے اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ حق کی آبیاری کے لیے دعوت، دفاع اور مذاکرات سب چیزیں ضروری ہیں۔
  • معبود حقیقی کا قرب: ان سب چیزوں کا ہدف اور مقصود معبودِ حقیقی کا قرب ہے، اس کی رضا کا حصول ہے اور اس کے حصول پر کامیابی ہے۔

یہ ۱۲کے ۱۲ نکات ’میم‘ سے شروع ہوتے ہیں: محمدؐ، مدینہ، میثاق، مسجد، مدرسہ، ماں، مواخات، مساوات، مفادِ عامہ، مجاہدہ اور جہاد، مذاکرات اور معبودِ حقیقی کا قرب۔

یہ ہے مدینہ کا ماڈل اور یہ ہیں اس ماڈل کے بنیادی اجزا۔ آج کے زمان و مکان (Time and Space) میں آپ جتنا بھی رنگ بھرلیں اوراس کو وسعت دے لیں، آپ کے لیے، اُمت کے لیے اور انسانیت کے لیے سعادت مندی کا راستہ آں حضوؐر کی قائم کردہ ریاست ِ مدینہ کے اتباع ہی میں مضمر ہے۔

(سفرِ برطانیہ کے دوران یہ نکات برادرِ عزیز سلیم منصور خالد کو اِملا کرا دیے تھے)

پاکستان اس وقت ایک غیرمعمولی صورتِ حال سے گزر رہا ہے اور ایک کے بعد دوسرے گرداب میں گھرا ہوا ہے۔ مَیں بڑے دُکھ سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ وطنِ عزیز کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے حکومت ، احزابِ اختلاف، میڈیا اور سوشل میڈیا وہ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے، جو قومی مفاد کی مناسبت سے ان پر عائد ہوتی ہے۔

تین منظرنامے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں جن میں:پہلا اور اوّلین ملک کا اندرونی منظرنامہ ہے۔ دوسرا علاقائی منظرنامہ اور پھر تیسرا عالمی منظرنامہ۔ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ان چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے الگ الگ پالیسیاں، متضاد اور متناقض رویے اختیار کرنا سخت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

ملکی منظرنامہ

یہاں ان وجوہ کا تذکرہ نہیں کیا جارہا جن کی بنا پر ۷۰برس کے دوران میں ہم نے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔البتہ ملکی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قیامِ پاکستان کے جو چار بنیادی اہداف تھے، انھیں پیش نظر رکھا جائے۔ اوّلیں اور سب سے اہم ہدف ہے: ایک حقیقی اسلامی معاشرے اور مملکت کا قیام۔ دوسرا ہدف اسلام کی روح کے مطابق ایک ایسے جمہوری نظام کا قیام ہے کہ جس میں عوام اپنی قسمت اور مستقبل کے ذمہ دار ہوں اور اس کی تشکیل اور تعمیر میں اپنے منتخب نمایندوں کے ذریعے سے کردار ادا کریں، اور یہ منتخب نمایندے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔ تیسرا ہدف یہ ہے کہ ملک کا نظامِ حکومت دستور، قانون اور ضابطۂ کار کے مطابق چلے۔ اور چوتھا   یہ کہ حکومت کا مقصود عوام کی بھلائی، ان کی بہبود اور ان کے معیارِ زندگی کے ساتھ ان کے معیارِ اخلاق کو بلند کرنا بھی ہو۔ اس کے لیے دُنیوی وسائل اور جدید ٹکنالوجی کا حصول ضروری ہے، تاکہ ترقی کے لیے مؤثر قوتِ کار فراہم کی جاسکے۔

ان بنیادی اہداف کے ساتھ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ یہ زمینی حقائق ہیں کہ ہم بہرحال ایک وفاق ہیں،اور ہمارے ہاں ایک تنوع پایا جاتا ہے۔ بجاے اس کے کہ ہم گروہی، علاقائی اور قومیتی عصبیتوں میں مبتلا ہوں، مناسب ہوگا کہ اختلاف کے باوجود اتفاق و اتحاد اور رواداری اور افہام و تفہیم کے ماحول میں محنت اور جدوجہد کریں اور موجودہ حکومت کو موقع دیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے پیش رفت کرے۔

قائداعظم نے ان تمام چیزوں کو ان تین الفاظ میں جمع کر دیا: ایمان، اتحاد اور تنظیم۔     یہ بھی کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ ایمان پہلے آتا ہے یا اتحاد پہلے آتا ہے۔ میرے علم کی حد تک قائداعظم نے اسے دونوں طرح استعمال کیا ہے لیکن زیادہ تر ایمان پہلے آیا ہے، اتحاد اس کے بعد اور تنظیم آخر میں ہے۔ یہ الفاظ ایک دوسرے سے مربوط ہیں، ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں اور برابر کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ملک کی صورتِ حال پر نظر ڈالیے۔ اس وقت قوم کو لفظی بحثوںمیں اُلجھایا جارہا ہے، اس سے قوم کو معاف رکھا جائے۔ قیامِ پاکستان کے بنیادی اصول و اہداف (objectives) جنھیں ہم بھول گئے ہیں، انھیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

لفظوں کی ترتیب کی بہرحال ایک معنویت ہوتی ہے، اسی لیے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ’ایمان، اتحاد اور تنظیم‘ کو قومی موٹو قرار دیا گیا۔ قرآن ہمیں ایمان، عمل اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ انبیاے کرام ؑ کا مقصد تلاوتِ آیات، تزکیہ، تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت ہے:

كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ (البقرہ ۲:۱۵۱) ’’ہم نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا، جو تمھیں ہماری آیات سناتا ہے، تمھاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔

خاص طور پرپچھلے ۲۰ برس قومی زندگی کے لیے اہم ہیں کہ ان میں پچھلے ۱۰سالہ فوجی آمریت کا دور، پھر پانچ سالہ پیپلزپارٹی کا دور اور سابقہ پانچ سالہ نون لیگ کا دور___ یہ تینوں حکمران اپنے دیے ہوئے اہداف کے حصول میں ناکام رہے۔ مزیدبرآں پاکستان کی آزادی اور خودمختاری، سالمیت، معاشی صلاحیت میں ترقی، نظریاتی استحکام ، جمہوری روایات، دستور، قانونی اداروں کی حکمرانی کو ہرایک نے اپنے اپنے انداز سے پامال کیا ہے۔یہ ہے عوام کی مایوسی کی وہ بنیاد جس نے تبدیلی کی لہر کو جنم دیا ہے۔

تبدیلی اور مدینہ کی ریاست کے ماڈل کو مرکزیت دے کر پاکستان کو اس کے سیاسی، تہذیبی، اخلاقی اور معاشی بحران سے نکالنا جماعت اسلامی کا مقصد ہے۔ ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے منشور کا مرکزی موضوع بھی یہی تھا، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب ہم اپنے موضوع و مقصد کو عوام اور اپنے ووٹروں کے لیے باعث ِ کشش نہیں بنا سکے تو عمران خان اور ان کی پارٹی نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں مختلف سطحوں پر نمایاں گڑبڑ ہوئی ہے اور یہ گڑبڑ ماضی کے مقابلے میں زیادہ فن کارانہ انداز میں ہوئی ہے۔ لیکن یہاں پر حسب ذیل دو باتوں کا ادراک ضروری ہے اور انھیں انتخابات میں مداخلت کے علی الرغم اہم عوامل کی حیثیت سے زیرغور لانا چاہیے:

پہلی بات یہ کہ عوام تبدیلی چاہتے تھے اور چاہتے ہیں ، اسی لیے انھوں نے سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک تیسری قوت کو آگے لانا ضروری سمجھا۔ اس خواہش کو انتخابی اعتبار سے نتیجہ خیز بنانے کے لیے کس نے کیا کیا کردار ادا کیا، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، جس پر الگ سے تحقیق اور گفتگو ہونی چاہیے۔لیکن جو اندرونی مسئلہ ہے، یعنی تبدیلی اور وہ بھی ایک خاص سمت میں اور روایتی  سیاسی قیادت اور اداروں کی ناکامی___ یہ ایک حقیقت ہے اور یہی بڑا چیلنج ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان صاحب کی حکمتِ عملی میں یہ چیزیں مرکزی اہمیت کی حامل تھیں۔

دوسری بات جس کے بارے میں مجھے کوئی تحفظ نہیں، وہ یہ ہے کہ انتخابات میں اثرانداز ہونے کا معاملہ نیا نہیں ہے۔ ایسا کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتا رہا ہے، بلکہ برملا کہوں گا کہ پاکستان میں کوئی بھی انتخابات آج تک حقیقی معنوں میں شفاف نہیں ہوئے، بشمول ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے جس کے بارے میں یہ غلط تاثر بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ بہت غیر جانب دارانہ تھے۔ حالاںکہ ان انتخابات میں بھی مغربی پاکستان میں نسبتاً کم لیکن مشرقی پاکستان میں بہت زیادہ مداخلت ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں انتخابی عملہ اور پولنگ اسٹیشن مکمل طور پر عوامی لیگ کے قبضے میں تھے۔ عوامی لیگ نے سارا سال کسی دوسری پارٹی کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی اور پورے انتخابی عمل کو آغاز سے انجام تک اغوا کیے رکھا۔مگر حیرت ہے کہ ہمارے دانش ور اسے ’آزادانہ انتخابات‘ کہتے ہیں، حالاں کہ وہ صرف ’عوامی لیگ کے انتخابات‘ تھے۔پھر اس کے نتائج ہم نے قومی سطح پر بھگتے۔

حالیہ انتخابات میں تمام تر بے اعتدالیوں کے باوجود، مَیں سمجھتا ہوں کہ انتخابی نتائج کو تحفظات کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو کام کرنے دینا چاہیے اور جہاں جو چیز غلط ہوئی ہے، اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔

حزبِ اختلاف احتجاج کر رہی ہے اور احتجاج اس کا حق ہے، مگر کوئی ایسا احتجاج جس سے جمہوری عمل متاثر ہو یا خدانخواستہ ناکام ہوجائے، یہ ہمیں اس سے بڑی مصیبت کی طرف لے جائے گا، اس لیے ہمیں ان دونوں باتوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ: ایک یہ کہ عوامی رو موجود ہے اور حقیقی ضرورت بھی ہے اور اس کو ایک سیاسی جماعت نے اپنے لیے بامعنی بنایا بھی ہے۔ بعض قوتیں کوشش کر رہی ہیں کہ ملک کسی طرح تصادم کی طرف جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تباہی کا راستہ ہے، اس سے ہمیں ہرصورت میں بچنا چاہیے۔

پھر راستہ کیا ہے؟

راستہ یہ ہے کہ ہم دستور اور جمہوری نظام کے اندر سیاسی مکالمے، احتساب اور سیاسی عمل کے ذریعے سے بہتری لانے کی کوشش کریں۔ اس میں حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے اور اپوزیشن بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت یہی ایک راستہ ہے، تصادم کوئی راستہ نہیں ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ تصادم خواہ شکست خوردہ قوتیں کرنا چاہ رہی ہیں یا وہ سیاسی قوتیں جو کرپشن کا  ہدف بننے کی وجہ سے (بجاے اس کے کہ کرپشن سے اپنی پاک دامنی کو ثابت کریں) سیاسی نظام کو عدم استحکام سے دوچار اور اداروں کو تصادم کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن رہی ہیں، وہ سب قابلِ مذمت ہیں۔ یہ طرزِعمل حددرجہ افسوس ناک ہے، اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔

علاقائی منظرنامہ

اب علاقائی (regional) منظرنامے کو دیکھیے۔ خطے میں بہت اہم علاقائی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ان علاقائی تبدیلیوں میں امریکا کا بہت دخل ہے۔ اس نے نائن الیون کو اپنے گھٹیا مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ افغانستان کو مسلسل جنگ کے نتیجے میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں معقولیت کے ساتھ معاملات کو سلجھانے کے بجاے عراق پر حملہ کیا اور پھر ۲۰۰۳ء سے لے کر آج تک (۱۵سال ہوگئے ہیں کہ) عراق، شام اور لیبیا، امریکی سامراجیت کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں۔ پورا خطہ تصادم اور تباہی و بربادی سے دوچار ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں، آگے بڑھ کر مشرق وسطیٰ میں شیعہ سُنّی تصادم کی فضا پیدا کی اور قوت کا استعمال کر کے یمن کو نشانہ بنایا گیا۔

امریکا کے علاوہ ایران کا کردار بھی متعددحوالوں سے غیرتسلی بخش ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ عراق میں ایران نے کچھ مقامات پر القاعدہ یا اس سے نکلنے والے افراد کی مدد کی ہے۔ ادھر لبنان کی حزب اللہ نے شیعہ سُنّی ٹکرائو میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ بھی واضح ہے۔ شام کے معاملے میں جس طرح شیعہ سُنّی کا مسئلہ اُٹھایا گیا اور پھر یمن پر حملہ،پھر قطر کو دیوار سے لگادینا اور اسے تنہائی سے دوچار کرنا۔ گویا عرب اور عجم کو لڑانا، عرب اور عرب کو لڑانا اور اس طرح سب کو     اپنا دست نگر بنانا امریکی پالیسیوں کا ہدف ہے۔ پھر امریکا کا ایک طرف یہ کہنا کہ ہم القاعدہ اور داعش کے خلاف ہیں اور دوسری طرف اس کا داعش کے ان گروپوں کی مالی اور اسلحے کی شکل میں مدد دینا جو ترکی کے خلاف بھی صف آرا ہیں، ایک ظالمانہ شیطانی کھیل ہے ۔سی آئی اے ان کو مالی امداد فراہم کر رہا تھا اور امریکی اہل کار ان کے پاس پہنچ رہے تھے۔ یہ عجیب و غریب منظر دل کو      دہلا دینے والا اور آنکھوں کو کھول دینے والا ہے، لیکن بدقسمتی سے مسلم ممالک اب بھی غفلت کا شکار ہیں اور امریکا اور استعماری قوتوں کے چنگل سے نکلنے کی کوشش نہیں کررہے۔

اس صورتِ حال میں پاکستان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں، لیکن بہرحال پاکستان بہت سی ایسی چیزوں سے بچ بھی گیا ہے جن سے اسے بچنا چاہیے تھا۔ ترکی، پاکستان، ملایشیا اور انڈونیشیا   یہ چار ممالک ہیں جو اس پوری صورتِ حال میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے لیے اس منظرنامے میں بھارت کا کردار اہم ہونے کے ساتھ خطرناک بھی ہے۔

بھارت نے اس زمانے میں دُوراندیشی سے ایک طرف روس سے اپنے تعلق کو باقی رکھا ہے، ایران سے دوستی بڑھائی ہے تو دوسری جانب ایران اور امریکا کے ذریعے افغانستان میں اپنے اثرات بڑھائے ہیں۔ امریکا کے ساتھ حقیقی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بنائی ہے۔اس وقت امریکا بھارت اتحاداس پورے خطے میں بھارت کو آگے بڑھانے اور چین کو ہدف بنانے کے لیے پوری قوت سے متحرک ہے۔اس گمبھیر ، اُلجھی ہوئی اور نازک صورتِ حال کا اِدراک اور خارجہ پالیسی کو حکمت و بصیرت کے ساتھ مرتب کرنا بہت ضروری ہے ورنہ پاکستان کے لیے بڑے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

عالمی منظرنامہ

تیسرا منظرنامہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر پورا ورلڈ آرڈر (عالمی نظام) بدل رہا ہے۔ یہ عمل نائن الیون سے پہلے شروع ہوگیا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکا کو توقع تھی کہ وہ واحد عالمی سوپرپاور کی حیثیت سے پوری دنیا پر حاوی ہوجائے گا ، مگر اللہ کی حکمت سے معاملہ اس کے برعکس ہوگیا۔    اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکا میں دُوری، روس کا نیا کردار، چین کا مؤثر کردار اور خود امریکا میں ’امریکافرسٹ‘ (سب سے پہلے امریکا)کے نعرے کا عام ہونا ایک نئی صورتِ حال کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد امریکا اپنے آپ کو نہ صرف ورلڈ آرڈر سے نکالنے بلکہ اسے تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس کے تحت اس نے اقوام متحدہ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فورم اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو ہدف بنایا ہے۔ ایران سے جوہری پروگرام کی تحدید کا معاہدہ چھے ممالک سے ہوا تھا، اس معاہدے سے نکل کر امریکا نے تباہی کی ایک نئی صورتِ حال پیدا کر لی ہے۔ پیسفک کے ۱۲ممالک کے معاہدے سے امریکا نکلا ہے، میکسیکو اور کینیڈا سے بھی کھچائو اور کشاکش کا کھیل جاری و ساری ہے۔یہ عالمی سطح پر بگاڑ اور انتشار کی علامت ہے۔

پھر اس کے ساتھ ساتھ دولت اور غربت کا ارتکاز تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس زمانے میں حقیقی قوتِ خرید انسانوں کی عظیم اکثریت کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والے ادارے اور افراد کھل کر اور چالاکی سے اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کررہے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں جو معاشی بحران شروع ہوا، وہ نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہو رہا بلکہ    اس نے سرمایہ داروں، کارپوریشنوں اور بنکوں کو تقویت پہنچائی اور مضبوط بھی کیا ہے۔ عام انسان، حتیٰ کہ امریکی صدر اوباما کے دور میں عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے جو کوشش کی گئی تھی (کہ کسی طرح ہائوسنگ، انشورنس، صحت کے مسئلے پر عوام کو کچھ سہولت دی جائے)۔ امریکا اب اس سے بھی پیچھے ہٹ رہا ہے۔ شعبۂ تعلیم و تحقیق، امریکا کا بہت بڑا اثاثہ رہا ہے، لیکن ترجیحات کے اُلٹنے سے اب تعلیم ہر جگہ خریدوفروخت کی چیز بن گئی ہے۔ مفت تعلیم جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا ہے، وہ نہ صرف امریکا میں بلکہ پوری دنیا میں رُوبہ زوال ہے۔

ان تینوں منظرناموں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کا جائزہ لینے اور عصری حالات میں بہتر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے، البتہ اس میں میری نگاہ میں اصل اور بڑا چیلنج داخلی ہے۔ ہم علاقائی اور عالمی صورتِ حال کو نظرانداز کرکے داخلی صورتِ حال کو بہتر نہیں بناسکتے۔ داخلی صورتِ حال ہی اصلاح اور مضبوطی کا ذریعہ ہے کہ جس سے خارجی حالات کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔

اس لیے داخلی استحکام ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ رہی عالمی اور علاقائی صورتِ حال،  تو اس کے بارے میں جہاں تک ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں، کرنا چاہیے۔ پھر ہمارے اس خطۂ ارضی کو بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں سفاکی نے خطرناک بنادیا ہے۔ اسی طرح دیگر مسلم ممالک کے مسائل ہیں جنھوں نے گلوبل ڈس آرڈر (عالمی بدنظمی) کو رواج دیا ہے۔ ان مسائل اور ان کے متاثرین کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کا ہم آواز ہونا ___ ہماری نگاہ میں رہنا چاہیے۔

اب سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

درپیش چیلنج اور حکومت کے اقدامات

تحریکِ انصاف کی حکومت نے دو تین پہلوئوں سے شروع ہی میں لوگوں کو مایوس کیا ہے اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ بلاشبہہ ان کے لیے پہلا موقع ہے، خاص طور پر عمران خان کے لیے کہ اس سے پہلے کبھی ان کی حکومت نہیں رہی ۔ انھیں بہت کچھ سیکھنا ہوگا اور ماہرین کی آرا سے فائدہ  اُٹھا کر، قابلِ اعتماد اور باصلاحیت افراد سے استفادہ کرتے ہوئے اور خود اپنی ٹیم کو رہنمائی دینا ہوگی۔یاد رکھنا ہوگا کہ وہ دوسروں پر سخت جارحانہ تنقید کرتے رہے ہیں، اور اب انھیں اپنے دامن کو ایسے تمام داغوں سے بچاکر چلنا ہوگا۔

مجھے خود اس بات کا تجربہ ہے کہ جب اگست ۱۹۷۸ء میں پلاننگ کمیشن میں بطور وزیر آیا تو وزارت میں جماعت اسلامی کے تین محترم رفقا پروفیسر عبدالغفوراحمد صاحب، محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور محترم محمود اعظم فاروقی صاحب بھی پاکستان کی وفاقی کابینہ میں شامل تھے۔ پروفیسر غفورصاحب اور محمود اعظم فاروقی صاحب مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن میں اچھی گرفت اور تجربہ رکھتے تھے، لیکن ان کے برعکس میرا سارا علم کتابی اور تجربہ دعوتی کام کا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب فوج میں رہے تھے اور پھر انھیں جماعت کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے انتظامی اُمور کو چلانے کا تجربہ بھی میسر تھا۔

اس تناظر میں ہمیں اندازہ ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد ایک دم کس طرح ایک نئی دنیا آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ الحمدللہ ،ثم الحمدللہ ہم آٹھ نو ماہ تک حکومت میں رہے ہیں لیکن کوئی ایک مثال نہیں دی جاسکتی کہ ہمارے بیانات میں تضادات ہو یاہم نے  قابلِ ذکر غلطیاں کی ہوں یا ہم نے جو فوری اقدامات کیے، وہ ندامت کا باعث بنے ہوں۔ دوسرا یہ کہ جماعت اسلامی نے ہماری تربیت کی تھی، چنانچہ ہم نے مشاورت میں ہمیشہ تحمل سے بات کی اور سنی بھی، اس طرح بولنے سے پہلے ہرمرحلے پر سوچا بھی کہ اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ پھر فوجی حکمرانی میں انتظامی حدود کے جو زمینی حقائق تھے، ان کو سامنے رکھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھا اور پھر عمل کر کے دکھایا بھی کہ کس طرح کام ہوتا ہے۔

اصولی موقف سے پیچھے ہٹنا

مجھے یہی توقع تھی کہ عمران خان بھی اپنے تجربات کی بنا پر ایسا کریں گے، لیکن محسوس     یہ ہوتا ہے کہ ۲۰۱۳ء سے جن مسائل و معاملات پر وہ یکسوئی سے بات کر تے رہے ہیں، ان سے وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹے ہیں۔ اس میں یہ دو تین چیزیں اہم ہیں: ایک یہ کہ ان کے سیاسی موقف کا بہت اہم حصہ یہ تھا کہ انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے بارے میں دیکھنا ہوگا کہ  وہ باصلاحیت ہوں اور ان کا دامن صاف ہو۔  ان کی اس بات میں بڑی اپیل تھی مگر عملاً وہ اس سے پیچھے ہٹے۔ دوسری طرف نوجوانوں نے آنکھیںبند کرکے ان کا ساتھ دیا ہے۔ یہ بہت بڑی قوت تھی اور ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں باصلاحیت افراد موجود ہیں۔ ریاست کی انتظامی مشینری میں بھی باصلاحیت اور اچھے لوگ موجود ہیں۔ میں نے خود پلاننگ کمیشن میں آنے کے بعد پہلا کام یہی کیا تھا کہ سب سے پہلے محنتی اور باصلاحیت افراد کی ٹیم بنائی تھی۔ اگر وہاں اچھی ٹیم نہ بناتاتوجو کچھ خدمات انجام دے سکا، وہ مَیں انجام نہ دے سکتا تھا۔ اس معاملے میں عمران خان توقعات پرپورا نہیں اُترے اور انتخابی کامیابی حاصل کرنے والے افراد کے چکّر میں، یا دوستیوں کی بنا پر وہ   اس سے پیچھے ہٹے ہیں۔ حالاںکہ ان کا ایک خاص منصوبہ بھی رہا ہے کہ ایک ٹیم بنائی جائے۔   وہ جن لوگوں کو آگے لائے ہیں ان میں کچھ اچھے اور لائق لوگ بھی ہیں، ان کے نظریاتی کارکن بھی اور کچھ نوجوان بھی آئے ہیں لیکن ایک خاصی بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جن کی شہرت اچھی نہیں اور جن پر الزامات ہیں۔ ان کی وجہ سے ان کا عمومی تاثر خراب ہوا ہے۔

تنقید کا نامناسب انداز

دوسری چیز جو پریشانی کا باعث رہی، ان کی سوچ اور گفتگو کا انداز ہے۔ انھوں نے تنقید کا جو انداز اپنایا اور جو الفاظ استعمال کیے، وہ ہماری اخلاقی اور تہذیبی روایات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس چیزکو جاری رکھنا اگرچہ خواہ پہلے کی نسبت کم ہوا ہے، لیکن ان کا اوران سے بھی زیادہ ،ان کے ترجمانوں کا مخالفین پر تنقید کا انداز بہت نقصان دہ ہے۔

عاجلانہ فیصلے

تیسری چیز یہ ہے کہ مشورے اور گہری سوچ کے بغیر اہم فیصلے کرنا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ فیصلوں کا قبل از وقت اعلان کرنا ہے۔ یہ چیز انتظامیات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی اور شوریٰ کے اصول کے بھی خلاف ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ ہرمعاملے پر علی الاعلان اظہارِ خیال ان کی حکومت کا طرزِعمل بنتا جارہا ہے۔ ایک جانب جلدبازی میں فیصلوں کا اعلان کردیتے ہیں اور پھر اچانک فیصلہ بدل دیتے ہیں، جو باعث ِ ندامت ہوتا ہے۔ ڈپلومیسی ۹۰ فی صد خاموشی کا نام ہے اور ۱۰فی صد اس کا اظہار زبانی (vocal ) اور بہ آوازِ بلند (loud) ہوتا ہے۔ مگر عمران حکومت نے معاملہ اس کے اُلٹ کر دیا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ڈپلومیسی بھی ٹویٹر (tweeter) کی مرہونِ منت ہوگئی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ اڑھائی مہینے کے دوران میں عوام کی توقعات کو صدمہ پہنچا ہے۔

بُردباری اور تحمل کی ضرورت

ان تمام کمزوریوں، خامیوں اور تضادات کے باوجود حکومت کرنے کا انھیں موقع دیا جائے۔ جو کام یہ ٹھیک کریں، اس کی تائید کی جائے، محض مخالفت براے مخالفت نہ کی جائے۔ البتہ جو کام پالیسی کے اعتبار سے غلط کریں، ان پر گرفت اور تنقید کی جائے، لیکن یہ تنقید بھی جارحانہ نہیں بلکہ تعمیری ہونی چاہیے، تاکہ اس سے معاملات میں بہتری آسکے۔ اس میں حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اپنے رویوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ان کے درمیان باہمی رابطے اور افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ اس وقت رابطے اور افہام و تفہیم میں دونوں کی طرف سے کوتاہی کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے یہ بے نیازی زیادہ ہے۔ حکومت کو پہل کرتے ہوئے زیادہ بُردباری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

کھلے دل سے تعاون کی ضرورت

 اس وقت یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہم ایک منقسم قوم ہیں اور مختلف سطحوں پر گروہ بندی (polarlization) کا شکار ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف راے اور مسابقت اپنی حدود کے اندر رہنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ قومی فریم ورک پر اتفاق بھی رہنا چاہیے۔ قومی فریم ورک کا دفاع اور اسے مضبوط کرنے کی کوشش، یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ گروہ بندی سے نکلا جائے اور سخت نوعیت کی تقسیم کو ختم کیا جائے یا کم کیا جائے۔ باہمی رابطے کا راستہ اختیار کیا جائے اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔

اداراتی بحران سے نکلنے کی ضرورت

دوسرا مسئلہ اداراتی بحران کا ہے۔ کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو صورتِ حال شدید اداراتی بدنظمی کا نوحہ سناتی ہے۔ مَیں اسے مکمل اداراتی ناکامی نہیں کہتا مگر یہ حقیقت ہے کہ اداروں پر اعتبار و اعتماد کی فضا موجود نہیں ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، انتظامیہ، میڈیا، سوشل میڈیا اس وقت بڑے بڑے مؤثر عوامل ہیں مگر یہ سب ایک سطح پر نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنا دستوری، سیاسی اور تہذیبی کردار خاطرخواہ طریقے سے ادا نہیں کر رہا۔ مداخلت، گروہ بندی ، لوگوں کو خریدنا، اپنی لابی بنانا، نان ایشوز کو ایشوز بنانا___ یہ انھی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ نتیجہ ہے: ذہنی انتشار جو ہمارے دشمن اور عالمی اور علاقائی بحران پیدا کرنے والوں کے مقاصد پورا کرنے میں معاون بن رہا ہے۔ ’انسٹی ٹیوشنل ڈس لوکیشن‘ سے نکلنا اور اس کی اصلاح کی جائے۔

میری نگاہ میں آج بھی ملک میں معقول تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں، جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاکر بہت کم وقت میں اداروں کو مؤثر اور متحرک کیا جاسکتا ہے۔ ہردائرے میں اچھے لوگ موجود ہیں بشرطیکہ ہم اپنی ذاتی پسند اور ناپسند سے بالا ہوکر انھیں اداروں میں لائیں اور ان کو اختیار دیں اور موقع بھی دیں۔ پنجاب میں اصلاحِ احوال کے لیے ایک ایسے باصلاحیت شخص کو لایا گیا جس نے خیبرپختونخوا میں پولیس کی اصلاح کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کیا تھا، اور جسے سب نے سراہا تھا۔ لیکن پنجاب میں وہ ایک مہینے سے زیادہ چل نہ سکا۔ خیبرپختونخوا میں اپنی پسند سے جس شخص کو احتساب کے لیے مقرر کیا ، قانون بنایا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ قانون نیب کے قانون سے اچھا تھا لیکن اس قانون پر کچھ عرصہ بھی عمل نہ ہوا اور پھر بالآخر وہ ادارہ ہی ختم کرنا پڑگیا۔ اس اداراتی بحران کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

کرپشن کا خاتمہ

تیسری چیز کرپشن ہے۔ کرپشن فی الحقیقت ایک بہت بڑی بیماری ہے، بہت بڑی لعنت ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، مقدار و معیار بھی دونوں اعتبار سے۔ اور بدعنوانی کی واردات میں ملوث افراد کے ہاں کرپشن کی نئی نئی صورتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ کرپشن برطانوی دورِغلامی میں بھی تھی۔ یاد رہے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی قائداعظم نے تمام معاملات سے پہلے کرپشن اور اقرباپروری، تنگ نظری، مگر عصبیت، گروہ بندی، لسانیت اور قومیت پرستی پر ضرب لگائی تھی۔ مگر افسوس کہ کرپشن اس کے باوجود آگے بڑھی ہے۔

پہلے ۱۰ برسوں میں شاذشاذ ہی مالی کرپشن ہوتی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں ہم لوگ   فریئر روڈ کراچی پر رہتے تھے اور ساتھ ہی گورنمنٹ سیکرٹریٹ تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے   ان لوگوں کو دیکھاجنھوں نے توبہ کی اور عہد کیا کہ: ’’ہم نے انگریزکے زمانے میں رشوت لی تھی لیکن اب نہیں لیں گے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے‘‘۔ کلرکوں نے قلم دوات تک اپنے پاس سے لا کر کام کیا ہے۔ یہ جذبہ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ پرمٹوں کا چکّر، اقرباپروری، زمینیں، مہاجرین کے حقوق پر دست درازی اور بی ڈی ممبرسسٹم سے کرپشن بڑھتی چلی گئی۔ اس کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کے زمانے میں صنعتی اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس سے اداروں میں سیاسی مداخلت زیادہ ہوگئی، جس نے مزید کرپشن کا راستہ کھول دیا اور خاص طور پر بے نظیر صاحبہ اور نوازشریف صاحب اور مشرف صاحب کے زمانے میں تو یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں کرپشن تھی ضرور، لیکن اس نے وبائی شکل اختیار نہیں کی تھی، اس کے بعد یہ ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی۔

ضرورت ہے کہ جہاں اور جب احتساب ہو، سب کا ہو۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ احتساب کے ذریعے انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ احتساب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور نہ جمہوریت کو بچانے کے نام پر اپنی بدعنوانی پر پردہ ڈالا جائے یا ڈالنے کی اجازت دی جائے۔

اس حوالے سے موجودہ نیب کی کارکردگی افسوس ناک ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ موجودہ نیب اور اس سے پہلے کی نیب بھی وہ تھی جو مسلم لیگ نون اور پی پی کے مشورے سے بنی تھی۔ مَیں خود اس کے حق میں تھا کہ حزبِ اختلاف سے نیشنل اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ ہونا چاہیے۔ گو،    ہم ۱۸ویں ترمیم میں اسے لا نہیں سکے لیکن یہ ہماری خواہش تھی۔ اس کے بعد اس پر عمل ہوا اور چودھری نثار علی خاں نے اس پر بڑی محنت اور دیانت داری سے کام کیا۔ ان کے استعفے کے بعد پیپلزپارٹی نے بھی اس روایت کو اُس حد تک اور اُس سطح پر تو نہیں لیکن بہرحال اسے کچھ نہ کچھ  قائم رکھا۔ اس کے بعد نوازشریف کے دور میں یہ بالکل غیرمؤثر ہوگئی اور صاف نظر آنے لگا کہ   پبلک اکائونٹس کمیٹی اور سب سے بڑھ کر نیب اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح ان شبہات کو روز بہ روز تقویت مل رہی ہے کہ احتساب کے نام پر ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے کھیل کھیلا جا رہا ہے یا پھر بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اپنا کام نکالا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم جس طرح بنائی اور پالی پوسی گئی ، اسی طرح اسے تقسیم کیا گیا ہے۔ تاہم آج بھی اسے سیاسی درجۂ حرارت حسب ِ ضرورت بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور شاید آیندہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہ بڑی پیچیدہ اور ملک کے لیے اور خود جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑی خطرناک صورتِ حال ہے۔

کرپشن کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے نیب کے کردار پر اَزسرِنو غور کرنا ہوگا۔ نیب میں ایسے افراد لانا ہوں گے جو دیانت دارہوں، اہل اور باصلاحیت ہوں، اپنے شعبوں میں تخصص رکھتے ہوں، ہرطرح کے دبائو کو برداشت کرسکیں اور تفتیشی عمل اور عدالتی عمل کے جملہ مراحل میں مقدمے کو احسن طریقے سے پیش کرسکیں۔

محمد نواز شریف صاحب ، ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل میمن اور ایان علی وغیرہ کے مقدمات سامنے آئے ہیں۔ ان میں صاف نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو چوٹی کے وکلا ہیں جو دفاع کر رہے ہیں اور دوسری طرف نیب کا وکیل یا پراسیکیوشن کمزور سے کمزور چیز لے کر آتا ہے اور اہم اور مضبوط چیزوں کی موجودگی کے باوجود دانستہ طور پر کیس کمزور رہتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے میاں نوازشریف کے مقدمے کے سلسلے میں اصل فیصلے اور مشترکہ تفتیشی ٹیم کی کارروائی کی ۱۰ جلدوں کو دیکھیے تو بالکل دوسری تصویر سامنے آتی ہے، اور آخری فیصلے کو پڑھیے تو بالکل ہی مختلف تصویر سامنے آتی ہے۔ بلاشبہہ کرپشن اس ملک کا تیسرا اہم مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا ازبس ضروری ہے مگر اس کے لیے بڑے حکیمانہ طریقِ کار، بالغ نظری اور غیر جانب داری کی ضرورت ہے۔

معاشی بحران

ملک کا چوتھا بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ معیشت کے حوالے سے ہمارے ملک اور قوم میں  بے پناہ صلاحیت ہے۔ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے باوجود ہم ابھی تک محفوظ چلے آرہے ہیں۔  سچی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے بھی کمزور پالیسی اختیار کی تھی لیکن نوازشریف کے زمانے میں تو اس سے بھی زیادہ تباہ کن پالیسی اختیار کی گئی۔ قرض پر انحصار کیا گیا، میگا پراجیکٹس کے اُوپر،     غلط ترجیحات، بروقت اقدامات سے غفلت،ہرمنصوبے کی اصل لاگت اور حقیقی لاگت میں زمین آسمان کا فرق، یہ سب چیزیں معاشی بحران کا سبب بنیں۔ پھر برآمدات گھٹتی اور درآمدات بڑھتی چلی گئیں اور ان کا فرق بھی ہرسال بڑھتا چلا گیا۔مالیاتی خسارہ، تجارتی خسارہ اور بین الاقوامی مالیاتی خسارہ ،  یہ تینوں خسارے جس مقام پر پہنچ گئے ہیں، وہ بالکل ناقابلِ فہم ہیں۔

اس پہلو سے عمران حکومت کو بہت ہی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)کے حوالے سے نظریاتی اور قومی سطح پر میری راے یہی ہے کہ ہمیں اس کے چنگل سے نکلنا چاہیے، لیکن اب ملک جس معاشی دلدل اور دبائو میں پھنس چکا ہے، صاف نظر آرہا ہے کہ کچھ وقت کے لیے مجبوراً اس کا سہارا لینا پڑے گا۔ تاہم اس مسئلے میں حکومت کا طرزِعمل کوئی اچھا تاثر نہیں پیش کرہا۔ اس میں بالغ نظری اور بصیرت کہیں نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہرین سے مشورہ کرکے ایک راستہ بنایا جائے۔ اس کے بعد Internal fiscal control (اندرونی مالیاتی کنٹرول)، ٹیکس ڈھانچے میں تبدیلی، لوگوں کی شرکت، مقامی وسائل کی دریافت اور ان کے استعمال، کرپشن کے خاتمے، برآمدات کے فروغ، زراعت کو اہمیت دینے، سمال انڈسٹری اور میڈیم انڈسٹری کی طرف توجہ، کاروباری طبقات کی شرکت وغیرہ۔ اس کے لیے فوری، درمیانے اور طویل درجے کے منصوبے بنائے جائیں۔

پلاننگ کمیشن، پیپلزپارٹی اور نواز شریف کے زمانے میں اور پھر مشرف کے دورِ حکومت میں ایک عضوِ معطل رہاہے۔ قومی پلاننگ کمیشن کو معاشی پالیسیوں کے حوالےسے حکومت کا دماغ اور مرکز ہونا چاہیے۔ جب تک آپ اس کو یہ حیثیت نہیں دیں گے، پلاننگ کمیشن اور وزارتِ خزانہ کے درمیان تعاون نہ ہوگا اور تمام معاشی وزارتوں میں ہم آہنگی نہ ہوگی تو اسٹیٹ بنک اپنا کردار  ادا نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح نیشنل اکنامک کونسل کا قیام اور اس کی صحیح رہنمائی میسر نہ ہوگی تو معاشی بحران پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ یہ تمام کرنے کی چیزیں ہیں۔

مَیں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں ہرگز ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ چھے ماہ سے ایک سال کے اندر اندر ہم معاشی بحران سے نکلنے کے راستے پر آسکتے ہیں۔ پھر ہم اگلے چند برسوں میں ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ صحیح اور ٹھیک اقتصادی پالیسی بنالیں۔

آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے وژن اور اپنی منزل مقصود کے بارے میں بہت واضح ہونا چاہیے اور اس کو سامنے رکھ کر ایک تسلسل سے جدوجہد کی ضرورت ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی زندگی میں انتخابات ہمیشہ ہی بنیادی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ انتخابات کو جمہوری نظام کے وجود اور ارتقا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس ذریعے سے عوام حکمرانی کے نظام کی صورت گری اور قیادت کی تبدیلی میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں، اور جن حکمرانوں کی کارکردگی سے وہ مطمئن نہیں ہوتے، انھیں نکال کر اپنی زمامِ کار بہتر لوگوں کے سپرد کر سکتے ہیں۔ دی اکانومسٹ نے جمہوریت کی اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی جامع بات کی ہے کہ:

جمہوریت، انتخابی عمل سے بھی برتر چیز کا نام ہے، جس کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہیں: آزاد عدالتیں، گروہی تقسیم سے بالاتر ریاستی افسران کی موجودگی، مضبوط ریاستی ادارے، قانون کی عمل داری کے ساتھ ساتھ شفاف حقِ ملکیت، آزاد ذرائع ابلاغ، آئینی نظم و ضبط اور احتساب کا خودکار نظام کہ جو ہرقسم کے تہذیبی و نسلی تعصبات سے بالاتر ہو، اور   جس میں خصوصاً اقلیتوں کے لیے احترام و برداشت کا اہتمام ہو۔ یہ سب بجا، لیکن ووٹروں کا یہ اختیار اور صلاحیت کہ وہ متعین وقفوں کے بعد ایسے افراد کو اُٹھا کر سیاست سے باہر پھینک سکتے ہیں ، جو بددیانت اور بدعنوان ہیں، جمہوریت کی ناگزیر شرط اور وجۂ جواز ہے۔(دی اکانومسٹ، لندن، ۲۴ ؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)

 ۲۵ جولائی ۲۰۱۸ء کے انتخابات پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی تاریخی موقع فراہم کر رہے ہیں، جسے بھرپور انداز میں استعمال کرنا اہلِ وطن کی قومی اور دینی ذمہ داری ہے۔ حکومت پر تنقید بلکہ اس سے بے زاری، اپنے دُکھوں کے بارے میں اس کی بے حسی پر تڑپنا بجا، لیکن اصلاح اور تبدیلی کا راستہ محض شکایات کی تکرار اور آہ و فغاں میں نہیں ہے۔ اس کے لیے الیکشن کے موقعے پر صحیح اقدام اور مؤثر جدوجہد ضروری ہے۔اگر عام شہری اور ہر ووٹرصحیح وقت پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اس تاریخی موقعے پر ہم قوم کے ہرفرد سے پوری دل سوزی سے اپیل کرتے ہیں کہ سوچ سمجھ کر اور اپنے ضمیر اور ایمان کے مطابق، ہرمفاد، تعصب اور جانب داری سے بلند ہوکر ملک و قوم کے مفاد میں ایسی قیادت کو بروے کار لانے کے لیے بھرپور کوشش کریں، جو ملک و قوم کو اُس تباہی سے نکال سکے کہ جس اندھے گہرے کنویں میں نااہل اور مفاد پرست خاندانی قیادتوں نے انھیں جھونک دیا ہے اور جس کے نتیجے میں ملک اپنے نظریے، اپنی آزادی و خودمختاری، اپنی تہذیب و ثقافت ہی سے دُور ہی نہیں جارہا،بلکہ عوام کی زندگی بھی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔

ابتر معاشی صورتِ حال

ملک کے معاشی حالات بدسے بدتر ہورہے ہیں، عوام کی اکثریت مشکلات سے دوچار ہے اور چند ہزار خاندانوں کی دولت و ثروت میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔ ملک کی دولت ملک سے باہر جارہی ہے۔ عام انسان بدسے بدتر حالت کی طرف جارہا ہے۔ آج پاکستانی برآمدات ۲۰ اور ۲۲؍ارب ڈالر سالانہ پر رُکی ہوئی ہیں ، جب کہ ہماری درآمدات ۵۰؍ارب ڈالر کی حد کو چھو رہی ہیں، اور تجارتی خسارہ ۳۰؍ارب ڈالر کی خبر لارہا ہے۔

ملک میں غربت کی شرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۰فی صد اور حقائق کی روشنی میں ۵۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ ۸۰ فی صد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں، ۴۰ فی صد سے زیادہ آبادی خوراک کے باب میں خودکفیل نہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں عوام کے بڑے حصے کو میسر نہیں۔ برآمدات میں مسلسل کمی آرہی ہے اور صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ زراعت کئی سال سے بحران کا شکار ہے اور حکمرانوں کو صرف اپنے اثاثے بڑھانے اور شاہانہ طرزِ حکمرانی کو فروغ دینے میں دل چسپی ہے۔

صرف پچھلے دس برسوں میں ملک پر قرض کا بار ڈھائی گنا ہوگیا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں پاکستان ۳۷؍ارب ڈالر کا مقروض تھا، جو ۲۰۱۸ء میں ۹۲؍ارب ڈالر کی حدوں کو پار کرگیا ہے۔       آج ہرنومولود بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ۱۲ماہرین کی تازہ ترین رپورٹ کی روشنی میں ہرسال تقریباً ۱۵؍ارب ڈالر ملک سے سرکاری طور پر باہر بھیجے جارہے ہیں اور تقریباً اتنی ہی رقم سالانہ ہنڈی کے ذریعے باہر جارہی ہے۔ ملک کو لوٹنے اور عوام کو اپنے ہی ملک کے وسائل سے محروم کرنے کے جرم میں ایک جماعت نہیں، گذشتہ ۴۰برس میں حکمران رہنے والی سبھی سول اور فوجی حکومتیں___ اور خصوصیت سے گذشتہ دس برس کے دوران حکمرانی کرنے والی حکمران جماعتیں اور ان کی قیادتیں شامل ہیں:

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں

کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے

انتخابات یا فیصلے کی گھڑی!

وقت کی سب سے بڑی ضرورت اس خودپسند، مفادپرست اور کوتاہ اندیش قیادت سے نجات حاصل کرنا ہے، جس نے ملک و قوم کو اس حال میں پہنچا دیا ہے۔ انتخاب کا موقع ہی وہ راستہ فراہم کرتا ہے جس پر قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ اور اپنے وسائل کولٹیروں سے واپس لینے اور خود اپنے تصرف میں لانے کا کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اس فیصلے کی گھڑی میں ضروری ہے کہ قوم ایک ایسی قیادت کو سامنے لائے، جس کا دامن داغ دار نہ ہو، جو اسلامی نظریے پر یقین رکھتی ہو اور حقیقی، اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کو قائم کرنے کے جذبے اور صلاحیت سے مالا مال ہو۔ اگر قوم اس وقت اپنے اس اختیار کو استعمال نہیں کرتی تو محض روایتی آہ و بکا سے حالات ہرگز تبدیل نہیں ہوسکتے۔ یہ ہمارے اپنے مفاد اور ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کا تقاضا ہے اور یہی ان بے تاب روحوں کی پکار ہے، جنھوں نے تحریک ِ پاکستان کے دوران اپنے جان ومال اور عزت و آبرو کی قربانی دی۔ آج وہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ پاکستان کو بچانے اور اس کو مقصد ِ وجود کے مطابق بنانے کے لیے بھی اسی طرح جدوجہد کریں، جس طرح اسے قائم کرنے کے لیے کی تھی۔

ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو اس کے صحیح حق داروں کو سونپنے کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے کہ ہم ایک شخص کو پاکستان کے اقتدار کی امانت کے باب میں امین تصور کرتے ہیں اور یہ امانت اس کے سپرد کر رہے ہیں۔ ووٹ کا غلط استعمال جھوٹی گواہی اور شرعی اعتبار سے امانت میں خیانت کے مترادف ہے، جس کے لیے دُنیا میں بھی ہمیں نتائج بھگتنا ہوں گے اور آخرت میں بھی جواب دہی ہوگی:

اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝۵۸ (النساء ۴:۵۸) مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے، اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔

مذکورہ بالا معروضات کا حاصل یہ ہے کہ:

                ۱-            قومی انتخابات قومی زندگی میں ایک فیصلہ کُن لمحے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ووٹ کے صحیح استعمال کے ذریعے ہم اور آپ ملک میں حقیقی تبدیلی لاسکتے ہیں۔

                ۲-            جمہوریت کے حقیقی فروغ کے لیے بہت سے اقدام ضروری ہیں جن میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق کی ضمانت اور پاس داری، دستوری اداروں کا استحکام اور اس میں طے کردہ حدود (check and balance) کا اہتمام، شخصی حکمرانی سے اجتناب اور اصول و ضوابط کی پابندی اور احترام کے ساتھ ریاستی ذمہ داریوں کی ادایگی اور امانتوں کی حفاظت بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے لیے مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد اور انتخاب کے موقعے پر ووٹر کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔

                ۳-            ضروری ہے کہ ووٹر: (الف) اپنے حق راے دہی کو استعمال کرے۔(ب) دوسروں کو بھی ترغیب دے کہ وہ نکلیں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں، اور(ج) اس ذمہ داری کو اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ امانت داری سے استعمال کریں۔ خاندان، برادری، قومیت، گروہی عصبیت ، مفاد، ہر ایک سے بالاہوکر صرف ایک معیار پر فیصلہ کرے کہ پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کی خدمت کون سا فرد اور جماعت انجام دے سکتی ہے۔ ووٹ صرف اور صرف اس شخص اور جماعت کو دے، جو اپنے نظریے، کردار اور عملی کارکردگی (performance) کی بنیاد پر مطلوبہ معیار پر پورے اترتے ہوں، یا اس سے قریب تر ہوں۔ آزمائے ہوئے کو آزمانا کوئی دانش مندی نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

پاکستان میں ووٹ کے استعمال کا تناسب بڑا غیرتسلی بخش ہے اور بدقسمتی سے برابر کم ہورہا ہے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخاب میں ۶۴ فی صد ووٹرز نے ووٹ کا حق استعمال کیا تھا۔۱۹۷۷ء میں   یہ ۶۲ فی صد ہوگیا۔جو ۱۹۹۰ء کے عشرے میں کم ہوکر۴۰ فی صد پر آگیا، یعنی نصف سے بھی کم، جب کہ اس زمانے میں بھارت میں یہ اوسط ۶۰ فی صد رہا ہے اور ترکی کے انتخابات (۲۴جون ۲۰۱۸ء)میں یہ تناسب ۸۷ فی صد رہا ہے۔ آج پاکستان میں نوجوان ووٹرز کا تناسب ۶۰ فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ کے لیے نکلیں، دوسروں کو نکالیں، تاکہ ووٹ کی قوت کو تبدیلی کے لیے مؤثرانداز میں استعمال کیا جاسکے۔

انتخابی مہم : مثبت پہلو

۲۰۱۸ء کے انتخابات کے ماحول پر نگاہ ڈالی جائے تو ان میں سے کچھ مثبت اور کچھ منفی چیزیں سامنے آئی ہیں، اور دونوں ہی کی روشنی میں ووٹر کو متحرک اور صحیح کردارادا کرنے کے لائق بنانے کی صحیح حکمت عملی اور پروگرام کی ضرورت ہے۔ بمشکل چند ہفتوں پر مشتمل اس وقت میں  تحریک ِ اسلامی کے کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک ایک لمحہ اس فیصلہ کن مہم کے لیے وقف کردیں۔

  • مثبت پہلوئوں میں ہماری نگاہ میں نوجوانوں کی بیداری اور متحرک ہونا سب سے اہم ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران میں نے یہی کیفیت دیکھی تھی۔ طالب علم اور نوجوان اس میں  پیش پیش تھے۔ قائداعظم جو ہمیشہ طلبہ کو تعلیم کو اوّلیت دینے کی تلقین کرتے تھے، انھوں نے اس موقعے پر صاف فرمایا کہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا لمحہ ہے، اور اس موقعے پر آپ تعلیم کو چھوڑ کر تحریک میں شرکت کریں اور نوجوانوں نے ان کی اپیل پر لبیک کہا۔ تقریباً دوتین مہینے ہم نے دن رات ایک کردیے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے نتائج بھی دکھائے۔ اگلے چند ہفتے بھی اسی طرح اہم ہیں۔
  • دوسرا مثبت پہلو میڈیا کی نسبتاً آزادی اور سوشل میڈیا کا متحرک ہونا ہے۔ اگرچہ اس کے منفی پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جہاں کچھ پابندیوں اور دخل اندازیوں کے باوجود ماضی کے ہر دور کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور زیادہ آزاد ہیں، وہیں ان میں گروہ بندی اور مخصوص مفادات اور اشتہارات کا کھیل صاف نظر آتا ہے۔ ہمیں اس سے دل گرفتہ ہونے کے بجاے ، جو اور جتنا موقع میسر ہے، اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی ایک بڑا مؤثر ہتھیار اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے نگران و محتسب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے محنت، شوق اور حکمت کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جعلی، جھوٹی اور گمراہ کن خبروں یا اطلاعات کے طوفان کا مقابلہ بڑے بھرپور انداز میں دیانت اور دلیل سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اشتعال سے بچا جائے، دلیل کو برتا جائے، اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں بلکہ کلمۂ حق، توازن اور شائستگی سے دیا جائے۔ ان شاء اللہ سچ جھوٹ پر غالب ہوکر رہے گا۔

انتخابی مہم: منفی پہلو

اسی طرح جو چیز بڑی پریشان کن ہے، وہ بحث و گفتگو کی سطح، انداز اور سیاسی جوڑ توڑ کا   وہ آہنگ ہے، جو گذشتہ چند مہینوں میں تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ انتخابات میں صرف چند ہفتے ہیں، مگر متحدہ مجلس عمل کے علاو ہ کسی ایک جماعت نے بھی ان سطور کے تحریر کیے جانے کے وقت  (۲۸ جون ۲۰۱۸ء) تک اپنا منشور قوم کے سامنے پیش نہیں کیا ہے۔ ایک پارٹی نے منشور کی جگہ پہلے ایک سو دن کے پروگرام کا اعلان کیا۔ حالاں کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے پہلے منشور پیش کرتی ہیں اور کامیابی کے بعد کامیاب جماعت پہلے ۱۰۰ دن کا پروگرام دیتی ہے، لیکن اس مثال میں  تو گھوڑا اور گاڑی دونوں گڈمڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔

سیاسی قائدین کی تقریریں الزام تراشیوں سے پُر اور نظریے، پالیسی اور پروگرام کے ذکر سے خالی ہیں۔ جس سطحی بلکہ بازاری انداز میں تنقید اور مکالمہ ہو رہا ہے، اسے دیکھ ، سن اور پڑھ کر نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ جس رفتار اور انداز سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جارہی ہیں، اور پھر پارٹیوں میں اس کے نتیجے میں جس طرح کے ٹکرائو وجود میں آرہے ہیں، اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالی جارہی ہیں وہ نہایت تکلیف دہ مشاہدہ ہے۔ بڑے فخر سے کہا جارہا ہے کہ ’نظریاتی سیاست کا دور ختم ہوگیا اور اب سارا کھیل منتخب ہونے والے چہروں (electables )کا ہے‘۔   اس سوچ کی پذیرائی جمہوریت کے مستقبل کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔

ہم تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں سے دل سوزی کے ساتھ اپیل کرتے ہیں کہ قومی سیاست کو اس سطح پر نہ گرائیں کہ یہ طرزِفکروعمل جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرناک ہوگا۔ بحث کا محور ملک کے حالات اور اس کو درپیش چیلنج ہونے چاہییں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پالیسی اور پروگرام توجہ کا مرکز ہونے چاہییں۔ جن چیزوں پر قومی اتفاق راے پایا جاتا ہے ان ایشوز کو متنازع بنانا، یا انھیں محدود سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنا دُور رس انتشار اور نقصان دہ نتائج کا باعث ہوسکتا ہے۔

ہربات کے کہنے کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے، جس کو نظرانداز کرکے بات کہنا بڑے نقصان کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ پارٹیوں کے اندر مشورے کی محفلوں کی باتوں کو پبلک میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے طشت ازبام کرنا، کسی مہذب معاشرے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے ہمیں  نہ صرف تجسس اور بدگمانی سے منع کیا ہے، بلکہ محفل اور مجلس کی بات کو امانت سمجھنے کی تلقین بھی کی ہے اور تحقیق کے بغیر خبر پھیلانے کو افترا اور بدمعاملگی قرار دیا ہے۔ سورۃ الحجرات ان آداب کی تعلیم سے مالا مال ہے۔ یہ آیات اللہ کے احکام اور مسلم معاشرے کے آداب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آج ان ہدایات کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے، اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟

دو ناگزیر قومی تقاضے

دو مسائل اور بھی ہیں، جن کی طرف ہم توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن ان پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ چندا اُمور کو واضح کردیں، جن کی حیثیت پاکستانی قوم کے لیے مسلمات کی ہے اور ان کو متنازع بنانا ملک وقوم کے لیے تباہ کن ہوگا:

  • اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سیاسی و تہذیبی تشخص ہے۔ ہم دُنیا کے دوسرے تمام ممالک، بشمول اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے دوستی اور خیرسگالی کا رشتہ چاہتے ہیں، لیکن اسے برابری اور ایک دوسرے کے مکمل احترام پر مبنی ہونا چاہیے۔بین الاقوامی تعلقات میں برابری اور ادلے کا بدلہ (reciprocity) ایک مسلّمہ اصول ہے۔ دوسرا ملک بڑا ہو یا چھوٹا، ایک دوسرے کے احترام اور ایک دوسرے کے مفادات کے بارے میں حساسیت، وہ بنیادیں ہیں جن پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا: چاہے وہ امریکا ہو یا بھارت، سعودی عرب ہو یا ایران۔
  • دوسری چیز پاکستان کی نظریاتی اساس اور شناخت ہے۔ پاکستان اسلام کی بنیاد پر  قائم ہوا ہے اور اسی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے اور ان شاءاللہ رہے گا۔ اسلام جہاں توحید اور سنت نبویؐ کی بنیاد پر انفرادی زندگی کی تشکیل اور اجتماعی نظام کا قیام چاہتا ہے، وہیں انسانی حقوق کی پاس داری اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بھی مکمل ضمانت دیتا ہے۔ پاکستان کی اجتماعی زندگی کی بنیاد اسلام ہے اور تحریک ِ پاکستان میں ان مقاصد کو دو اور دو چار کی طرح بیان کردیا گیا تھا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ اور پاکستان کے ہر دستور نے، خصوصیت سے ۱۹۷۳ء کے دستور اور خصوصیت سے ’۱۸ویں دستوری ترمیم‘ (۸؍اپریل ۲۰۱۰ء) نے ان مقاصد اورحدود کو بڑی قوت سے واضح کر دیا ہے۔ غیرمسلموں کو ملک کے شہری کی حیثیت سے تمام بنیادی حقو ق حاصل ہیں، اور دستور کی بنیادوں اور اصول و ضوابط پر مبنی فریم ورک وہی ہے، جن پر مملکت قائم ہے۔ اس کے تمام شہری اس سے وفاداری اور اس کی اطاعت کے عہد کی بنیاد پر اس ملک کے شہری قرار پاتے ہیں۔ علمی گفتگو اور اختلاف زندگی کا حصہ ہیں، لیکن آزادی کے نام پر اجتماعی زندگی کی بنیاد پر تیشہ چلانے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ جو بھی اپنے کو پاکستان کا شہری کہتا ہے، اس کا فرض ہے کہ دستور کا پابند اور وفادار ہو۔ دستور یہ صاف اعلان کرتا ہے کہ ’’پاکستان عدل کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہوگی‘‘ اور ’’اسلام مملکت کا مذہب ہوگا اور قراردادِ مقاصد احکام کا مستقل حصہ ہوگی‘‘۔

اس کی روشنی میں دستور کی دفعہ۴  ہر شہری کو قانون کا تحفظ اور قانون کے مطابق سلوک کی ضمانت دیتی ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد دفعہ۵ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ: ’’مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے‘‘ اور یہ کہ ’’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری، خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہروہ شخص جو فی الوقت پاکستان میں ہو (واجب التعمیل) ذمہ داری ہے‘‘۔

ایک طبقہ بڑے سوچے سمجھے انداز میں پاکستان کی اساس کو مشتبہ بنانے، اور اس کے بارے میں متنازع سوالات اُٹھانے کی مذموم کوشش کر رہا ہے اور خصوصیت سے انگریزی پریس  کا ایک حصہ یہ کام بڑے تسلسل کے ساتھ کر رہا ہے۔ اس ضمن میں یہ شوشا بھی چھوڑا جارہا ہے کہ ’اب نظریاتی دور ختم ہوگیا ہے اور مادی ترقی، زندگی کا اصل ہدف ہے‘۔ آزادیِ اظہار سر آنکھوں پر اور علمی بحث و مباحثہ کا دروازہ بھی ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے، لیکن ریاست کی بنیادوں پر تیشہ زنی اور انھیں پامال کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔

بے لاگ احتساب ، انصاف کا تقاضا

دوسرا اہم مسئلہ احتساب کا ہے۔ احتساب جمہوریت کی روح اور حالات کو بگاڑ سے بچانے کے لیے ’سیفٹی والو‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’دین خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔اور احتساب اس خیرخواہی کا لازمی حصہ ہے۔ آپؐ کا ارشادِ مبارک ہے: ’’اپنا احتساب کرلو، قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اجتماعی نظام میں خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا خودکار انتظام موجود ہیں۔ ’احتساب سب کا اور احتساب انصاف کے مسلّمہ اصولوں کے دائرے میں‘ اسلام کا تقاضا اور جمہوریت کی روح ہے۔ انصاف ہونا بھی چاہیے اور انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ یہ ہیں وہ بنیادی مسلّمات، جن کے بارے میں اختلاف کی کوئی گنجایش موجود نہیں۔

بدقسمتی سے اس وقت وطن عزیز میں ایک ایسی فضا بنائی جارہی ہے کہ جس سے احتساب کا پورا عمل مشتبہ ہوکر رہ جائے۔ نیب (NAB: قومی احتساب بیورو) کی کارکردگی اور طریق پر ہمیں اور دوسرے بہت سے افراد کو شدید تحفظات ہیں۔ اس ادارے کو جس طرح جنرل پرویز مشرف نے شروع کیا اور پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی کے اَدوارمیں استعمال کیا گیا، وہ نہایت غیرتسلی بخش تھا۔ اگرچہ اِس وقت پہلے کے مقابلے میں صورتِ حال بہتر ہے، اس کے باوجود پُرانی بُری روایات کا سایہ نظر آتا ہے اور بلاتفریق احتساب کے دعوئوں کے باوجود جس طرح مرضی اور ترجیح کی بنیاد (pick and choose) پر احتسابی سلسلہ جاری ہے، وہ ناقابلِ اطمینان اور اصلاح طلب ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے احتساب کے عمل کو متحرک کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ لائق تحسین اور وقت کی ضرورت ہیں۔

اس پس منظر میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب اور ان کے خاندان کی جو گرفت ہورہی ہے، وہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے، مگر بہت تاخیر سے اُٹھایا گیا ہے۔ احتساب کے اس عمل کو کسی خاص فرد یا جماعت تک ہرگز محدود نہیں ہونا چاہیے اور بلاتفریق ان تمام افراد اور خاندانوں کو قانون کی گرفت میں آنا چاہیے، جو گذشتہ برسوں میں حکمران رہے ہیں اور ان کا دامن داغ دار گردانا جاتا ہے۔ بہت سے مقدمات جو شروع تو کیے گئے،مگر پھر ان کو منطقی نتائج تک پہنچائے بغیر داخل دفتر کردیا گیا۔ درجنوں مقدمات ایسے ہیں، جو برسوں سے زیرغور ہیں، حتیٰ کہ کچھ لوگوں کو قیدوبند کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا، لیکن صدافسوس کہ نہ تو یہ تفتیش مکمل ہوئی اور نہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا ۔ یہ انصاف کا خون ہے اور احتساب کے ساتھ مذاق۔

جہاں یہ ضروری ہے کہ احتساب کا عمل لازمی اور مؤثر انداز میں آگے بڑھنا چاہیے،  تفتیش پوری دیانت اور محنت اور پیشہ ورانہ انداز میں ہونی چاہیے، وہیں مقدمات کا فیصلہ بھی متعین وقت میں اور انصاف کی روح کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس سے احتسابی عمل پر بھروسا اور اعتماد بڑھے گا۔  اس کے نتیجے میں بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کا دروازہ بند ہوسکے گا، اور عوام کے وسائل محفوظ ہوسکیں گے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف ٹیکس کے بارے میں کم از کم چار ہزار ارب روپے سالانہ چوری ہورہے ہیں۔ عالمی بنک اور ہمارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اندازے کے مطابق موجودہ ٹیکس نظام کے تحت، جو سالانہ ٹیکس ۸کھرب روپے ہونا چاہیے، وہ اس سے نصف ہے۔    یہ اس صورت میں ہے، جب کہ ٹیکس نیٹ میں ۲۲کروڑ کی آبادی میں بلاواسطہ ٹیکس ادا کرنے واے صرف ۸لاکھ افراد ہیں،جب کہ موبائل ٹیلی فون استعمال کرنے والوں کی تعداد۱۵کروڑ ہے اور سمارٹ فون استعمال کرنے والے ساڑھے ۹ کروڑ ہیں، جن میں سے ۵۰ لاکھ کا سالانہ ٹیلی فون کا بل ۳۰ہزار سے زیادہ ہے۔ اندازاً ان کی سالانہ آمدنی ۲۰لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ پاکستانیوں نے جو جایدادیں دبئی اور دوسرے مغربی ممالک میں خریدی ہوئی ہیں اور جو بنک اکائونٹ سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور دبئی میں ہیں، ان کا کوئی حسا ب کتاب نہیں۔ حالیہ انتخاب کے موقعے پر جو نمایندے کھڑے ہوئے ہیں، ان میں ۲۷۰۰ اُمیدوار ایسے ہیں، جن پر بدعنوانی، کرپشن، اس نوعیت کے الزامات پر مقدمے چل رہے ہیں اور ۸۰۰؍ارب روپے کے خرد برد کے الزامات ہیں، مگر کسی احتساب کے بغیر انھیں انتخاب میں شرکت کی اجازت دینا عدل و انصاف کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔

عدلیہ اور فوج نشانہ ٔ  تنقید

اس پس منظر میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نوازشریف صاحب اوران کے خاندان پر جو الزامات ہیں، بار بار موقع ملنے کے باوجود اپنی صفائی پیش کرنے میں نہ صرف یہ کہ وہ ناکام رہے ہیں بلکہ انھوں نے اس احتساب کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کھلی کھلی کوشش کی ہے۔ ان کے وکلا نے عدالت کے واضح سوالات اور اپنے متضاد بیانات کی وضاحت کرنے کے بجاے بات کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے۔ حد یہ ہے کہ انھوں نےاپنی صفائی میں دستاویزات یا گواہ لانے سے بھی احتراز کیا ہے۔

پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہر چیز کا ریکارڈ موجود ہے، ریکارڈ تو کیا اس کا ایک حصہ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ دو بار انھوں نے خود قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے اپنی تقریروں میں کہا کہ ایون فیلڈ کے فلیٹ ابوظہبی سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدے گئے۔ لیکن خریداری کا کوئی ریکارڈ بار بار کے مطالبے کے باوجود پیش نہیں کیا گیا۔ کوئی منی ٹریل نہیں دی گئی۔ نیب عدالت کے نصف سے زیادہ سوالوں کے جواب میں ’مجھے نہیں معلوم‘ یا ’مجھ سے نہیں، میرے بیٹے سے پوچھو‘ ارشاد فرمایا۔ دستاویزات اور ثبوت فراہم کرنے میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے بے جا طور پر عدلیہ اور فوج دونوں کو نشانہ بنانے اور اپنی مظلومیت کا بے جا غلغلہ بلند کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح سول قیادت اور ’اسٹیبلشمنٹ‘ جس سے مراد فوج اور اعلیٰ عدلیہ ہے، انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ایک بڑی مذموم حرکت اور قومی مفادات کے خلاف جسارت ہے۔

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ فوج اور عدلیہ دستوری ادارے ہیں اور ملک کی سلامتی کا ستون ہیں۔ دوسرے اداروں کی طرح وہ بھی دستور کے تحت وجود میں آئے ہیں اور دستور کے دائرے ہی میں ان کی کارکردگی کو محدود ہونا چاہیے۔ دستور نے عدلیہ کو انسانی حقوق کے تحفظ، دستور کی پابندی اور عدلیہ کی آزادی اور اسلامی دفعات اور اسلامی قانون سازی کی پاس داری کے سلسلےمیں جو اختیارات دیے ہیں، ان کے دائرے میں ان کو اپنے فرائض انجام دینے چاہییں اور ’عدالتی مہم جوئی‘ (Judicial activism)  اور ’عدالتی ضبط و احتیاط‘ (Judicial restrain) کے درمیان توازن قائم رکھنا چاہیے۔

اسی طرح فوج، ملک کی سلامتی اور سرحدوں کے تحفظ اور دستور کے تحت اپنی دوسری ذمہ داریوں کی ادایگی کی پابند ہے۔ ملکی سیاست میں مداخلت اور دستور سے ماورا کسی کارروائی کا اختیار اسے حاصل نہیں ہے۔ البتہ قومی سلامتی کے سلسلے اور خارجہ پالیسی کے امور کے بارے میں اس کی راے، احساسات اور تحفظات پر اسی طرح غور ضروری ہے جس طرح پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور تحقیقی اداروں کے خیالات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ البتہ اس قومی ضرورت سے ماورا، ریاست میں فوج کی بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت، اس کے فرائضِ منصبی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ البتہ یہ بات مستحسن ہوگی کہ فوج اور سول قیادت کے درمیان مشاورت اور  قومی سلامتی کے اُمور کو مسلسل، مستقل اور اداراتی انداز میں انجام دیا جائے۔ قومی مفاہمت اور یک رنگی سے معاملات کو چلایا جائے۔ تمام ہی جمہوری ممالک میں اس کا اہتمام ہوتا ہے۔ تاہم، اس کی بنیاد پر سیاسی نظام میں مداخلت کا کوئی حق اور جواز نہیں۔

پروفیسر سیموئیل ہن ٹنگٹن نے فوج کے کردار کے بارے میں بڑی اہم کتاب ۱۹۵۷ء میں The Soldier and the State کے نام سے لکھی تھی۔ اس کتاب میں امریکا کی تاریخ اور خصوصیت سے دوسری جنگ ِ عظیم اور اس کے بعد فوج اور سول حکومت کے تعلقات پر بڑی گہرائی میں جاکر بحث کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ خود امریکا میں دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج کا جو سیاسی کردار نمودار ہوا تھا، اسے جنگ کے بعد کس طرح، کس ترتیب سے اور کس حد تک قابو میں کیا گیا۔ اس طرح قومی سلامتی سے متعلق مختلف اُمور پر، فوج کی سوچ کے حوالے سے سیاسی ماہرین نے engagement (مشارکت)کا دل چسپ لفظ استعمال کیا ہے،جو جمہوری ممالک میں ایک معروف عمل ہے۔ ہن ٹنگٹن کے الفاظ میں یہ رشتہ کچھ اس طرح ہے:

A healthy society must preserve the autonomy of the military, while simultaneously integrated it into an important decision making role.

ایک صحت مند معاشرے کو فوج کی خودمختاری کا اس طرح تحفظ کرنا چاہیے کہ وہ اسے ساتھ ساتھ ایک اہم فیصلہ کرنے والے کردار کا حصہ بنادے۔

امریکا کی نیشنل سیکورٹی کونسل یہ اداراتی کردار ادا کرتی ہے اور پاکستان میں بھی یہ ادارہ کابینہ کی کمیٹی کی شکل میں ذمہ داری ادا کر سکتا ہے، جو ماضی میں مناسب انداز میں متحرک نہیں رہا۔

سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے جس طرح عدلیہ اور فوج کے خلاف محاذ کھولا ہے، وہ اپنے دُور رس مضمرات کے اعتبار سے بہت نقصان دہ اور خطرات سے بھرپور ہے۔بالکل اسی طرح فوج نے بھی پاکستان کی تاریخ میں سیاسی مداخلت کی بڑی بُری مثال قائم کی ہے۔ جس میں چار بار فوجی حکومت کا قیام ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اگرچہ دستور کی دفعہ۶ میں آیندہ کے لیے فوجی مداخلت کا دروازہ بند کیا گیا ہے، لیکن اصل دروازہ بند کرنے کا طریقہ محض قانون سازی نہیں ہے بلکہ مناسب اداروں کا قیام اور صحیح رویوں (attitudes) کا اختیار کیا جانا ہے۔ اس سلسلے میں   سول اور فوجی قیادت دونوں کو نہ صرف سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے بلکہ مناسب مشاورت اور مشارکت  کے ذریعے طریق کار اور حدودِ کار طے کرنی چاہیے۔

فوج اور ریاست کا کردار

مَیں جہاں تک حالات کا تجزیہ کرسکا ہوں، فوج کی قیادت نے ابتدا ہی سے اپنا ایک کردار بنانے کی کوشش کی۔ اوّلیں دور میں یہ صرف فوجی قیادت کی اپنی سوچ تھی اور اس میں فوجی قیادت اور   سول انتظامیہ (خصوصیت سے گورنر جنرل ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا) میں سازباز تھی۔ جنرل محمد ایوب خاں اور جنرل آغا محمد یحییٰ خان دونوں کا فوج نے ساتھ دیا، لیکن بظاہر فیصلہ صرف اُوپر کے چند جرنیل حضرات کا تھا، اور نظامِ حکومت میں فوج کا عمل دخل (involvement) محدود اور صرف اُوپر کی سطح تک محدود رہا۔

جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے اَدوار میں محسوس ہوتا ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت بحیثیت فوجی قیادت اور فوج بحیثیت ایک ادارہ ان کے فیصلوں میں شریک ہوگئی۔ دوسرے دواَدوار میں فوج کی قیادت نے سیاست، انٹیلی جنس اور بڑے کاروباری منصوبوں میں بھی اپنے قدم جمالیے اور اس طرح ایک خاموش اداراتی تبدیلی واقع ہوئی۔جنرل محمد ضیاء الحق نے کئی مواقع پر خود مجھ سے اور دوسرے افراد سے کہا کہ: ’’فوج میرا حلقۂ انتخاب (constituency) ہے اور مجھے اس کی سوچ کا لحاظ رکھنا ہوتا ہے‘‘۔ گذشتہ دس برسوں میں الحمدللہ فوج کی کوئی براہِ راست سیاسی مداخلت تو سامنے نہیں آئی، لیکن بالواسطہ اثرانداز ہونے سے انکار ممکن نہیں۔ البتہ غورطلب مسئلہ  یہ ہے کہ اس کردار کو کس طرح اور کس حد تک تبدیل کیا جائے اور اس میں مشارکت کا طریق کار کیا ہو؟

بلاشبہہ یہ کام اس براہِ راست ٹکرائو سے نہیں ہوسکتا، جو اس وقت نوازشریف نے اختیارکیا ہے اور یہ اس طریقے سے بھی نہیں ہوسکتا جو انھوں نے اپنے اقتدار کے اَدوار میں تسلسل سے اختیار کیا۔ جس طرح ہم فوج کی قیادت کے کردار کو قابلِ گرفت سمجھتے ہیں، اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ نوازشریف صاحب نے بھی منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے سول اور فوجی تعلقات کو صحیح سمت میں رواں دواں نہ رکھ کر فاش غلطیاں کی ہیں۔ آصف علی زرداری صاحب نے بھی اپنی صدارت کے دوران اپنی نام نہاد مفاہمتی حکمت عملی اور اپنی دوسری کمزوریوں کی وجہ سے حالات کو اصلاح کی سمت لانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

نواز شریف صاحب پہلے دن سے اپنے ہاتھوں میں مکمل اختیارات کے ارتکاز کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کے اس طرزِفکر کا اندازہ اور تجریہ مجھے خود ان کے وزیراعظم بننے کے بعد ہی ہوگیا تھا، جب بارھویں دستوری ترمیم (۲۸جولائی ۱۹۹۱ء) میں انھوں نے یہ اختیار حاصل کرنا چاہا کہ وہ دستور کی جس شق کو جب چاہیں اور جتنے عرصے کے لیے چاہیں معطل کرسکتے ہیں۔ میں نے اور محترم قاضی حسین احمد مرحوم نے صاف لفظوں میں اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اوریہی ہمارے اور ان کے درمیان گہرے اختلاف اور بے اعتمادی کا آغاز تھا۔ لیکن ہم نے اس سلسلے میں مضبوط موقف اختیار کیا حالاں کہ وہ اس ترمیم کو کابینہ سے منظور کرا چکے تھے۔

نواز شریف صاحب سے دو دن اس امر کے بارے میں ہمارے تلخ و ترش مذاکرات ہوتے رہے۔ پھر ان کی کابینہ کے ارکان بھی اس میں شریک ہوئے۔ ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈرانِ کرام نواز شریف صاحب کے سامنے تو اس مجوزہ ترمیم کی تائید کرتے یا زیادہ سے زیادہ خاموش رہے، لیکن جنھیں اختلاف تھا، وہ بھی کھل کر بات کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ کم از کم تین افراد نے بعد میں مجھ سے کھل کر کہا کہ: ’’ہم آپ حضرات کے ممنون ہیں کہ آپ اس پر ڈٹ گئے۔ ہم بھی ناخوش تھے مگر مخالفت نہ کرسکے۔ جنرل مجید ملک مرحوم نے سب سے پہلے یہ بات مجھ سے کہی،اور پھر وسیم سجاد صاحب اور حامد ناصر چٹھہ صاحب نے ملاقاتوں میں دُہرائی۔ یہ دونوں حیات ہیں اور ان شاء اللہ گواہی دیں گے کہ پنجاب ہائوس میں انھوں نے یہ بات کہی تھی۔ بہرحال صدر غلام اسحاق خاں صاحب بھی اس کے مخالف تھے،   اس طرح بارھویں ترمیم سے نواز شریف صاحب کے من پسند حصے نکال دیے گئے۔

اس سے نواز شریف صاحب کے ذہن کو سمجھا جاسکتا ہے۔وزیراعظم کی حیثیت سے ہر دور میں ان کے اس مزاج کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں بہت سی خوبیاں ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا ناانصافی ہوگی، لیکن انانیت اور ہرچیز کو اپنی ذات کے گرد محصور کرلینا، ذاتی وفاداری کو اہمیت دینا اور فیصلوں میں من مرضی پر اڑ جانا ان کا امتیازی وصف ہے، جو شورائیت اور جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سول اور فوجی تعلقات کو ان کے دور میں خراب کرنے میں اگر فوج کی قیادت کے رجحانات کا عمل دخل ہے، تو سول قیادت کی اس ذہنیت کا بھی اس میں کردار کچھ کم نہیں۔

محمد نوازشریف صاحب وہ واحد وزیراعظم ہیں، جنھوں نے چھے فوجی سربراہ مقرر کیے،اور پہلے سے ذمہ داری ادا کرتے ہوئے تین سربراہانِ فوج کے ساتھ بھی انھیں کام کرنا پڑا (سواے چند گھنٹوں کے لیے ضیاء الدین بٹ کے) ان کے تعلقات کسی بھی فوجی سربراہ سے خوش آیند نہیں دیکھے گئے۔فوجی سربراہ کے انتخاب میں بھی ذاتی پسند اور متوقع وفاداری کو اہمیت دینا خرابی کی  بڑی وجہ بنی___اسی طرح فوجی سربراہ کو اس کی متعین مدت کے بعد توسیع دینا بھی بہت سے فتنوں کا باعث بنا ہے۔ میں نے اٹھارھویں ترمیم کے وقت بہت کوشش کی تھی کہ اس مدت (term) کو’ناقابلِ تجدید‘ (non-renewable) سے بدلوا لوں، لیکن مسلم لیگ (ن، ق) اور پیپلزپارٹی اس کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔

 اصلاحِ احوال کے لیے دونوں جانب سے پُرخلوص اور حکمت آمیز کوششوں اور تعاون کی ضرورت ہے۔ اور اس میں بھی کرپشن سے پاک، پُرعزم اور تعصبات سے بالاتر قیادت کا وجود ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ترکی کی مثال بڑی چشم کشا ہے۔ فوج جس نے ترکی کی آزادی کی جنگ لڑ کر عوامی جمہوریہ کو قائم کیا تھا۔ پھر تحریری طور پر اسے دستور کے محافظ ہونے کا کردار دیا گیا تھا۔ وہاں بھی فوج کے بار بار مارشل لا لگانے اور سول حکومت کو ناکوں چنے چبوانے، کھلی اور ڈھکی چھپی مداخلت کے باوجود، ایک اچھی سول قیادت نے اپنی کارکردگی اور حکمت عملی کے ذریعے فوج کو دستوری کردار سے فارغ کردیا، لیکن اسے سول نظام کی قیادت میں باعزت اور فعال (participting) انداز میں نظام کا حصہ بنالیا۔ جب جولائی ۲۰۱۶ء میں فوج کے ایک عنصر نے بغاوت کی کوشش کی تو جہاں عوام نے جان دے کر جمہوری اور سول نظام کا دفاع کیا، وہیں فوج کی عظیم اکثریت نے بھی سول نظام کا ساتھ دیا اور اس کے تحت کام کرنے کے راستے کو قبول کیا۔

مناسب حکمت ِعملی اور اداراتی اصلاح کے ذریعے اس نوعیت کا کام انجام دیا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت بدقسمتی سے ہردور میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ انتخابات اس پس منظر میں ہورہے ہیں اور نئی قیادت کو اس نازک مسئلے کو بڑی حکمت اور مشاورت سے حل کرنا ہوگا۔

سیاسی جماعتوں کا مطلوبہ کردار

ان انتخابات کے سلسلے میں ایک اور پریشان کن پہلو سیاسی جماعتوں کے کردار کا ہے،  جس میں متعدد پہلو ایسے ہیں جن پر تفصیل سے بحث کرکے اور قومی سطح پر باہم مشاورت سے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں ہم چند اہم ترین پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کریں گے:

۱-  سیاسی جماعتوں میں جو خرابیاں اور کمزوریاں نمایاں ہوکر سامنے آرہی ہیں، ان میں سب سے اہم چیز نظریات، افکار اور وژن کی بنیاد پر پالیسیوں اور پروگراموں کی کمی ہے۔ علمی محاذ تو سبھی میں کمزور ہے اور تحقیق ناپید ہے۔ ماہرین سے استفادہ اور علم و تجربے کی بنیاد پر مسائل کا ادراک، ان کے مختلف حل کا جائزہ، عالمی حالات و رجحانات اور ملکی وسائل اور مسائل کا بے لاگ جائزہ لینے کی روایت موجود ہی نہیں ہے۔

۱۹۸۰ءکے عشرے تک کسی نہ کسی شکل میں نظریات پر مبنی پالیسیاں اور ان کے بارے میں بحث و مباحثہ دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے بعد یہ رجحانات کمزور پڑتے گئے۔ بلاشبہہ عالمی سطح پر بھی اس دور میں نظریات میں بڑا اُتار چڑھائو نظر آتا ہے اور مباحث کے رُخ بھی بدلتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں، حکومتی اداروں، حتیٰ کہ پلاننگ کمیشن تک نظر آتا ہے کہ  فکری اور نظریاتی اعتبار سےیہ غیرمؤثر ہوگئے ہیں۔ کچھ برسوں سے وژن اور مستقبل بینی کے نام پر بھی جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں، ان میں سرے سے حقیقی وژن ہی کا فقدان ہے۔ نظریے کے مقابلے میں شخصیت اور خاندان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس طرح اپنی فطرت اور اصل کے اعتبار سے بڑی پارٹیاں سیاسی، جماعتی اور فکری تحریکات کے بجاے ’پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں‘ بن کر رہ گئی ہیں۔

دینی جماعتوں کا معاملہ کچھ بہتر ہے، لیکن ان کے باب میں بھی اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ شریعت کا نفاذ اور پارلیمنٹ سے اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست کا قیام تو ایک تسلسل سے ان کی ترجیح رہا ہے، لیکن ان اصولی اور آفاقی تصورات کو اپنے ملکی احوال اور عوام کے حالات، مسائل کے اُلجھائو اور توقعات کے پس منظر میں قابلِ عمل پروگرام کی ایسی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پروگرام ان کے دل کی آواز اور ان کو اجتماعی جدوجہد اور قربانی پر آمادہ کرنے کا ذریعہ بن جائے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک مثبت قوت اور ایک واضح منزل کا شعور اور پروگرام رکھنے کے باوجود، دینی قوتوں کے سامنے اس اخلاقی اور نظریاتی وژن (vision)کو سیاسی وزن (political weight & power) میں ڈھالنے کے لیے بڑے پیمانے پر ابلاغ (communication) اور پیش کاری (projection) کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اس وقت قوم کو سب سے زیادہ توقع دینی جماعتوںاور خصوصیت سے تحریک اسلامی سے ہے کہ اس نے جس طرح دستور کی حد تک ایک جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کے بنیادی خدوخال کو دستور کا حصہ بنوایا، اسی طرح وہ اسے زندگی کے پورے نظام انفرادی، اخلاقی، اجتماعی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی، سب میدانوں میں واضح اہداف اور پالیسیوں کے ذریعے قائم کرنا چاہتی ہے۔

اصولی اور بنیادی باتیں بہت واضح انداز میں پیش کی گئی ہیں، لیکن جس تفصیل کے ساتھ، جس انداز میں اور جس زبان میں آج پیش آنے والے سوالات کی تشریحِ نو کی ضرورت ہے،    اس باب میں اسی تسلسل سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

۲-  دوسرا سانحہ یہ ہے کہ قومی جماعتیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے سکڑ کرمقامی جماعتوںمیں تبدیل ہوگئی ہیں۔ بڑی جماعتوں کا ارتکاز کسی ایک صوبے یا علاقے تک ہی محدود نظر آتا ہے، جب کہ علاقائی جماعتیں توہیں ہی مخصوص مفادات یا علاقوں کے لیے۔فیڈریشن کے مستقبل کا بڑا انحصار اور قومی یک جہتی کی بنیادی ضرورت قومی جماعتوں پر منحصر ہے، جن کے ہر علاقے میں اثرات ہوں اور وہ تمام صوبوں، علاقوں اور گروہوں کو مربوط اور منظم رکھ سکیں۔

۳-  تیسری بنیادی چیز سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت اور شورائیت کا فقدان یا کمی ہے، دھڑے بندیاں ہیں،شخصیات یا خاندان وفاداریوں کے محور بن گئے ہیں۔جماعتیں نہ عمودی (vertical ) طور پر منظم ہیں اور نہ اُفقی (horizontal) سطح پر مربوط۔تنظیمی ڈھانچا اُوپر سے نیچے تک موجود نہیں ہے اور تربیت کا کوئی نظام نہیں ہے۔نئے لوگوں کو فکری اور تنظیمی اعتبار سے ضم کرنے کا عمل خام ہے۔ احتساب کا نظام مفقود ہے۔ لیڈرشپ سے ذاتی وفاداری کے نتیجے میں میرٹ اور اہلیت غیرمتعلق ہوکر رہ گئے ہیں، جس سے کارکنوں میں بددلی پیدا ہوئی ہے۔

۴- چوتھی چیز کرپشن کے موضوع پر پارٹیوں کا رویہ ہے۔ معاشرے میں شدید اخلاقی انحطاط ہے اور پارٹیوں کے اندر بھی کرپٹ عناصر کو نہ صرف برداشت کرنے بلکہ افسوس ناک حد تک انھیں پُرکشش (glamourize) کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ذاتی اخلاق و کردار اور اجتماعی کردار اگر غیرمتعلق نہیں ہوگئے ہیں تو غیراہم ضرور سمجھے جارہے ہیں۔یہ بڑا ہی افسوس ناک اور خطرناک پہلو ہے۔ سیاست میں اصل قوت اخلاقی برتری اور کردار کی پختگی ہے۔ ہر دوسری کمی پوری کی جاسکتی ہے لیکن اگر امانت اور دیانت کا جوہر موجود نہ ہو تو اس کا کوئی متبادل نہیں۔     آج ہماری سیاست، سیاسی جماعتوں اور اجتماعی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی نہ صرف عام ہے بلکہ اس کا بُرا اور ناپسندیدہ سمجھا جانا بھی رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جارہا ہے۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔ اگر اب بھی اس کی فکر نہ کی گئی تو پھر کوئی چیز ملک کو تباہی سے نہیں بچاسکتی۔ اگر ’ناخوب‘ ہی ’خوب‘ بن جائے تو پھر زندگی میں باقی رہ کیا جاتا ہے؟

تحریکِ اسلامی کا فریضہ

ان حالات میں دینی جماعتوں اور خصوصیت سے تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ  ایک صالح معاشرے کے قیام اور ایک صالح قیادت کو بروے کار لانے کے لیے مؤثر قومی اور کلیدی کردار ادا کرے۔ الحمدللہ، جماعت اسلامی کا دامن اس جدوجہد میں آج تک پاک رہا ہے۔ اس میں شخصیت پرستی اور موروثی سیاست کا کوئی وجود نہیں۔ جماعت کے اندر جمہوریت ہرسطح پر موجود اور مشاورت کا نظام قائم ہے۔ قیادت کا انتخاب ارکان کے آزادانہ انتخاب سے ہوتا ہے۔ غیر جانب دار محققین کے جائزے، اندرونی طور پر جماعت میں جمہوری اور شورائی نظام کی کارفرمائی کے  معترف ہیں۔ حکومت یا حکومت سے باہر جہاں بھی جس حد تک بھی ذمہ داری اس پر آئی ہے، اس کے کارکنوں نے دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلی، صوبائی وزارتیں جہاں بھی ان کو ذمہ داری دی گئی ہے، ان کا ریکارڈ نمایاں اور بے داغ رہا ہے۔ جس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور مزید کی توفیق طلب کرتے۔

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق گورنر اور مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر عشرت حسین کی تازہ ترین کتاب: Governing the Ungovernable: Institutional Reforms for Democratic Government  ابھی حال ہی میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔ اس سے دو اقتباس ہدیۂ ناظرین ہیں:

دو بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں، جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام مختلف اطراف (sideline) سے آکر سیاسی منظر پر غالب آجاتی رہی ہیں، لیکن یہ دونوں قومی سطح پر کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔ بہترین نتائج انھوں نے اس وقت حاصل کیے جب تمام کی تمام چھے مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل (MMA) بنائی اور صوبہ سرحد میں انتخابات جیت کر حکومت بنالی، اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت میں شامل ہوگئی۔

فی الوقت جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی حکومت کا حصہ ہے، جب کہ جمعیت علماے اسلام وفاقی حکومت میں چند وزرا شامل کرانے میں کامیاب رہی ہے۔ جماعت اسلامی سب سے زیادہ منظم اور ضابطے کے تحت چلنے والی جماعت رہی ہے۔

افتخار ملک کے مطابق، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا امتیازی وصف ان کی ’موقع پرستی کی سیاست‘ رہی ہے، جہاں ذاتی مفاد کو باہم شادیوں اور کاروباری مہم جوئی کے ذریعے مستحکم کرلیا گیا اور نظریہ پچھلی نشستوں پر دھکیل دیا گیا، سواے جماعت اسلامی کے، جو کہ ریاست کو اسلامی بنانے کے نصب العین سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔

’پاکستانی سیاسی جماعتیں اتحاد اور جوابی اتحاد بناتے ہوئے ان اخلاقی تقاضوں کا خیال نہیں رکھتیں۔ نسل در نسل حکومت کرتے، ۵۰ کے قریب خاندانوں کے ذاتی مفادات نے، جنھیں باہمی شادیوں اور کاروبار نے استحکام بخشا ہوا ہے، ہمیشہ موقع پرستی کی سیاست کو مسلط کیا ہے۔ یہ نظریاتی اختلافات، مسائل کا جائزہ اور اس کے حوالے سے رویے کا تعین، اور نظریات کا مقابلہ سیاسی جماعتوں سے پہلو بچاکر گزر جاتے ہیں، سواے جماعت اسلامی کے، جو ریاست کو اسلامی بنانے کا واضح نصب العین سینے سے لگائے ہوئے ہے۔

کراچی کے سابق امیر جماعت اور کراچی کے سابق میئر نعمت اللہ خاں کے بارے میں ڈاکٹر عشرت حسین لکھتے ہیں:

جماعت اسلامی کے ۸۱ سے ۸۹ سال کے بوڑھے میئر نعمت اللہ خاں، ایک ایسے  ایمان دار فرد تھے جو زیرتکمیل کاموں کی مستعدی اور باقاعدگی سے نگرانی کرتے تھے، ان پر نظر رکھنے کے ساتھ لوگوں کی شکایات اور تکالیف کا ازالہ کرنے، اُن کی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، دانش مندی اور انصاف سے معاملہ کرتے تھے۔

اچھے لوگ بلاشبہہ، ہر جماعت اور ہرطبقے میں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتی اور گروہی عصبیت سے بلند ہوکر اصول، صلاحیت،کردار اور میرٹ کی بنیاد پر اچھی قیادت کو برسرِاقتدار لایا جائے، تاکہ زندگی کا نقشہ بدل سکے اور پاکستان کو صحیح معنوں میںایک جدید اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس سمت میں ایک مؤثر قدم اپنے ووٹ کے ذریعے ۲۵جولائی کو اُٹھایا جاسکتا ہے۔ آج پاکستان کو اُسی جذبے اور اسی نوعیت کی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے جیسی قائداعظم کی قیادت میں ۴۷-۱۹۴۰ء میں مسلمانانِ پاک و ہند نے کی تھی۔ کیا پاکستانی قوم اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ مستقبل کا انحصار آپ کے اور ہمارے آج کے فیصلے پر ہے:

یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار

جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

اور:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا

 

(کتابچہ منشورات ، منصورہ سے دستیاب ہے۔ قیمت: 13 روپے ، سیکڑے پر خصوصی رعایت۔ فون: 042-35252211)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ضبط ِگریہ تو ہے پر دل پہ جو اِک چوٹ سی ہے

قطرے آنسو کے ٹپک پڑتے ہیں دو چار ہنوز

جس طرح دن ایک حقیقت ہے، اسی طرح رات بھی ایک حقیقت ہے۔ روشنی اور تاریکی، سپید و سیاہ ، سکون و اضطراب، بہا ر و خزاں، شیریں و تلخ، یہ سبھی زندگی کے حقائق ہیں، اور قافلۂ زندگی ان تمام مراحل سےدوچار رہتا ہے۔ زندگی نام ہی نشیب وفراز سے گزرنے کا ہے۔

کارخانۂ قدرتِ حق ایک صورت کو دوسری صورت سے بدلنے میں ہمہ وقت مصروف ہے اور انسان کا اصل امتحان اسی دھوپ چھائوں کے درمیان رازِ حیات کی تلاش و جستجو میں ہے۔ گردشِ لیل و نہار کی اصل اہمیت یہی ہے کہ یہ جانا جائے کہ ہر تبدیلی کے مقابلے میں انسان کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔ آیا  وہ بھی ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ ہوا کے رُخ کی سمت میں اُڑنا شروع ہوجاتاہے، یا اپنے    نہ بدلنے والے مقاصد ِ حیات کی خدمت کے لیے نیا عزم اور نیا راستہ تلاش کرنے کی جستجو میں مصروف ہو جاتاہے۔

ہرتبدیلی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرورِ ایّام کی ہر کروٹ کارزارِ زندگی میں کچھ نئے میدانوں کا اضافہ کرتی ہے۔ لیل و نہار کی ہر گردش ایک نئی آزمایش کا باب کھولتی ہے۔ اصل اہمیت زمانے کی اس گردش کی نہیں، بلکہ اس ردعمل کی ہے جو اس کے نتیجے میں رُونما ہوتا ہے اور انسان کے بلند عزم یا پست ہمتی کا پتا اسی ردعمل سے چلتا ہے۔ گردش لیل و نہار کے اس پہلو کا مطالعہ ہدایت ربّانی کی روشنی میں کیا جائے تو بڑے اہم، سبق آموز اور ہوش ربا پہلو نگاہوں کے سامنے آتے ہیں۔ 

O

قرآنِ پاک، زمین و آسمان کے خالق و مالک کے اقتدار اعلیٰ اور اس کی نشانیوں کی طرف اس طرح اشارہ کرتا ہے:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ (لقمٰن۳۱:۲۹)  کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں؟

روشن دن کا رات کی آغوش میں دم توڑ دینا اور پھر تاریک رات کے بطن سے روشنی ٔ سحر کا رُونما ہونا ربِّ جلیل و کریم کی قدرت اور اس کے اقتدار کی دلیل ہے اور سوچنے سمجھنے والوں کے لیے ایک نشانی بھی۔ یہ کائنات کے قوانین اور زمانے کی گردش کی آئینہ دار ہے اور خود انسانی زندگی اور معاملات کے لیے اس میں عبرت ، بصیرت اور رہنمائی کے بے شمار پہلو اور اسباق پوشیدہ ہیں:

يُقَلِّبُ اللہُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۝۴۴ (النور ۲۴:۴۴) رات اور دن کا اُلٹ پھیر وہی [اللہ] کر رہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے، آنکھوں والوں کے لیے۔

قرآن کا یہ خاص اسلوب ہے کہ وہ ایک معلوم و محسوس چیز کی طرف توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ایسی چیز جو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے، جو ہمارے لیے اتنی واضح اور بیّن ہے کہ ہم اس پر سے یونہی گزر جاتے ہیں۔ قرآن کریم ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم کائنات کی ان نشانیوں پر سے یونہی نہ گزر جائیں، بلکہ ایک لمحہ توقف کر کے ان پر غور کریں اور دیکھیں کہ تفکّر و تدبر کے بے شمارگوشے وہ اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں۔ دن اور رات کی آمدورفت، جو ہمارے لیے بس ایک روز مرّہ کی سی حیثیت اختیار کرچکی ہے،کوئی بے معنی شے نہیں ہے۔ اس کے دامن میں عبرت و معرفت کے دفتر پنہاں ہیں۔ قرآن پاک اس نگاہ کوبیدار کرنا چاہتا ہے، جو گردش لیل و نہار کے پیچھے کام کرنے والی قوتوں کو  دیکھ اور سمجھ سکے اور انسان اس علم و بصیرت کی روشنی میں ایک دانش مندانہ رویہ اختیار کرسکے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے یہاں پر وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کو لانا بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ کسی کی طاقت نہیں کہ رات میں دن ظاہر کردے یا دن میں رات نمودار کردے، یا ان کی آمدوشد میں  منٹ یا سیکنڈ کا فرق ہی پیدا کردے۔ فرمایا کہ ان تمام باتوں کے اندر، اہلِ نظر کے لیے بڑا سامانِ عبرت ہے۔ ’عبرۃ‘ کا مفہوم ایک حقیقت سے دوسری حقیقت تک عبور کر جانا [بھی]ہے، یعنی جو لوگ وہ نظر رکھتے ہیں، جو ظاہر کے اندر باطن اور جزئیات کے اندر کلیات کو دیکھنے والی ہے، ان کو اِن مشاہدات کے بعد اس بات میں ذرا بھی شک باقی نہیں رہ سکتا کہ یہ کائنات ایک خداے حکیم و قدیر کی بنائی ہوئی ہے، جو اس ساری کائنات پر یکّہ و تنہا حاکم و متصرف ہے۔ اس وجہ سے  تنہا وہی حق دار ہے کہ اس کی عبادت و اطاعت کی جائے۔ یہ امرملحوظ رہے کہ ’عبرۃ‘ انسانیت کا اصلی جوہر ہے۔ اگر یہ جوہر کسی کے اندر نہیں ہے تو وہ انسان نہیں بلکہ حیوان ہے، اور جو آنکھ    ظاہر کے اندر باطن نہ دیکھ سکے وہ کور ہے۔(تدبر قرآن، ج۵، ص ۴۲۱)

قطرے میں دجلہ کھائی نہ دے اور جزو میں کُل

کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدئہ بینا نہ ہوا

سیّد قطب شہیدؒ نے اپنی معرکہ آرا تفسیر فی ظلال القرآن میں تحریر فرمایا ہے:

’’گردش لیل و نہار کے نظام پر غوروفکر، قرآنِ مجید کا ایک اہم موضوع ہے۔ رات اور دن کے بدلنے کا یہ نظام مسلسل چل رہا ہے اور اس کے اندر ایک لمحے کا تغیّر و تبدل رُونما نہیں ہوا ہے۔ اس سے وہ ناموسِ کائنات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے، جو اس کائنات میں کارفرما ہے۔ اس ناموسِ کائنات پر غوروفکر سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس باریکی کے ساتھ اس نظام کو چلا رہا ہے۔ قرآنِ کریم اپنے مؤثر اندازِ بیان کے ساتھ ان مناظر کے ان اثرات کو تازہ کردیتا ہے، جو بالعموم مانوس ہونے کی وجہ سے انسانی ذہن اور یادداشت سے مٹ گئے ہوتے ہیں۔مگر آیاتِ قرآنی کے مطالعے کے بعد انسان ان مناظر کو ایک نئے احساس کے ساتھ دیکھتا ہے اور ہربار ان سے بالکل نیا تاثر لیتا ہے۔ ذرا یہ بات ذہن میں لایئے کہ اگر انسان گردش لیل و نہار کو پہلی مرتبہ دیکھے تو اس کا تاثر کیا ہو؟ لیکن انسانی احساس اور اِدراک، دن اور رات کی گردش کے مناظر کو دیکھتے دیکھتے بجھ سا گیا ہے، حالاں کہ رات اور دن کے اس نظام نے اپنی خوب صورتی اور انوکھے پن میں کسی چیز کی کمی نہیں پیدا ہونے دی۔ درحقیقت جب انسان اس کائنات پر سے غافلوں کی طرح گزر جاتا ہے تو وہ زندگی کی ایک بڑی مسرت اور خوشی کو گنوا دیتا ہے، اس طرح اس کائنات کی حقیقی خوب صورتی اس کی نظروں سے اوجھل ہوکر رہ جاتی ہے۔ قرآن عظیم کا یہ کمال ہے کہ وہ ہماری بجھی ہوئی حِس کو تازہ کردیتا ہے، اور ہمارے چھپے ہوئے شعور اور خوابیدہ احساسات کو تجدید و توانائی بخشتا ہے۔ ہمارا سرد مہر دل پُرجوش اور ہمارا کُند وجدان تیز تر ہوجاتا ہے۔ پھر ہم کائنات کو یوں دیکھنے لگتے ہیں کہ  گویا ہم نے اس کائنات کو پہلی مرتبہ دیکھا ہو۔ پھر ہم اس کائنات کے مظاہر پر غور کرتے ہیں۔  پھر ہمیں نظر آنے لگتا ہے کہ دست ِ قدرت ہرجگہ کام کر رہا ہے۔ ہمارےماحول کی ہرچیز میں اسی خالق و مالک کی صنعت کاری ہے اور اس کائنات کی ہرچیز میں اسی پروردگار کے نشانات روشن ہیں، اور ہمارے لیے عبرتیں ہی عبرتیں ہیں___اللہ تعالیٰ ہم پر یہ کتنا بڑا احسان فرماتا ہے کہ جیسے ہی ہم اس کائنات کے مناظر میں سے کسی منظر پر غور کرتے ہیں، تو ہمیں ایک حیاتِ تازہ مل جاتی ہے۔ ہمیں اس کائنات کی ہرچیز کے بارے میں ایک نیا احساس اور ایسی مسرت ملتی ہے کہ گویا ہم اس منظر کو پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ اگر حساس نگاہوں سے دیکھا جائے تو یہ کائنات بہت ہی خوب صورت ہے اور ہماری فطرت، فطرتِ کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ فی الحقیقت ہماری فطرت اس سرچشمے سے پھوٹی ہے، جس سے اس کائنات نے وجود پایا۔ جب ہم اس کائنات کی روح سے پیوست ہوجاتے ہیں، تو ہمیں عجیب اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے۔ خوشی، محبت اور طمانیت ملتی ہے، بالکل اسی طرح ، جیسے کوئی شخص براہِ راست اپنے محبوب سے مل جائے۔

’’اس کائنات کی گہری معرفت کے نتیجے میں، ہمیں اس میں اللہ کا نُور نظر آتا ہے اور یہی ہے مفہوم اللہ کے نور سماوات والارض ہونے کا۔ جب ہم اپنے وجود، اپنے نفس اور اس کائنات کا گہرا مشاہدہ کرتے ہیں، تو اس میں ہرجگہ، ہرسمت اللہ کا نُور نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم بار بار  ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ ہم اس کائنات کے روز مرہ مناظر کو ذرا گہرے غوروفکر کے ساتھ دیکھیں۔ قرآن دعوت دیتا ہے کہ: اُن مظاہر اور مناظر پر سے غافل لوگوں کی طرح نہ گزر جائو آنکھیں بند کرکے، کیوں کہ اس دنیا میں تمھارا یہ سفر نہایت بامقصد ہے۔ یہاں سے کچھ لے کر جائو، لیکن افسوس: انسان ہیں کہ خالی ہاتھ جارہے ہیں‘‘۔(فی ظلال القرآن، ترجمہ: معروف شاہ شیرازی، ج۴، ص۹۲۲، ۹۲۳)

وقت کی ان کروٹوں کو آیاتِ الٰہی قرار دیا گیا اور ان کو ذریعہ ذکر بتایا گیا ہے:

وَہُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا۝۶۲ (الفرقان ۲۵:۶۲) وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہراس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے یا شکرگزار ہونا چاہے۔

دوسرے مقام پر دن رات کو ’آیات‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:

اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝۸۶ (النمل ۲۷:۸۶) کیا ان کو سجھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات   ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا؟ اس میں بہت سی نشانیاں تھیں ان لوگوں کے لیے، جو ایمان لاتے تھے۔

ان آیات پر غور کرنے سے جہاں گردش لیل و نہار کی طبیعی اور اخلاقی حکمتوں کا علم ہوتا ہے۔ وہیں ہمیں غوروفکر کا ایک اسلوب بھی ملتا ہے، جس کے ذریعے ہم صرف دن اور رات ہی کی گردش نہیں، بلکہ گزرتے ہوئے زمانے کے برسوں، مہینوں، دنوں حتیٰ کہ لمحوں کی ہر کروٹ پر بصیرت کی نگاہ ڈال سکتے ہیں۔ اس سے عبرت کے درس حاصل کرسکتے ہیں اور حال و مستقبل کی تعمیر کے لیے روشنی اور رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔

رات صرف تاریک نہیں ہوتی ، بلکہ قدرت کے اس نظام میں اس کا بھی بڑا اہم وظیفہ ہے۔ اور دن صرف روشن ہی نہیں ہوتا، اس روشنی کے پہلو بہ پہلو بہت سے سایے بھی ہوتے ہیں، جو کچھ حلقوں کو سورج کی روشنی کے باوجود دامِ سیاہ میں گرفتار رکھتے ہیں، اور کچھ انسانوں کے لیے کمرِہمت کسنے کی دعوت اور گوشۂ آرام طلبی کو مسترد کرنے کی پکار بن جاتے ہیں۔ قرآن کریم جہاں ان حقائق زندگی سے ہمیں بلند تر اخلاقی حقائق کو سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے، وہیں ہمیں یہ تعلیم بھی دے رہا ہے کہ اس نقطۂ نظر سے زندگی کے چند در چند پہلوئوں اور زمانے کی ہر گردش پر نگاہ ڈالیں اور ان اخلاقی حقائق کو سمجھیں، جو سطح بین نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل رہتے ہیں۔

O

دن اور رات اور ماہ و سال کی یہ گردش ہمیں اس حقیقت کا احساس بھی دلاتی ہے کہ تبدیلی اور تغیّر محض کوئی ماضی کے واقعات یا اتفاقی حادثات نہیں ہیں، بلکہ فطرت کا ایک قانون ہیں۔

’ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں‘۔ زندگی نام ہی تبدیلیوں کا ہے۔ یہ تبدیلیاں خوش آیند بھی ہوسکتی ہیں، ناپسندیدہ بھی۔ بلندی کی سمت میں بھی ہوسکتی ہیں اور پستی کی طرف بھی۔ ان سے روشنیوں میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور تاریکیوں میں بڑھوتری بھی۔ یہ تعمیر کی راہ ہموار کرنے والی بھی ہوسکتی ہیں اور اس راہ میں کانٹے بکھیرنے والی بھی۔لیکن جس کی نگاہ زندگی کے حقائق پر ہے، وہ ان میں سے کسی تبدیلی پر بھی قناعت کرکے نہیں بیٹھ جاتا۔ نہ ’خیر‘ کی سمت میں کوئی کامیابی اس میں غلط بھروسا، غرّہ یا غفلت پیدا کرتی ہے اور نہ ’شر‘ کے کسی جھونکے کا وقتی غلبہ اس میں مایوسی، ہمت شکنی اور بے کیفی کا کہرام برپا کرتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ شمع کی لَو جتنی تیز ہوگی اور روشنی کا ہالہ جتنا بڑھے گا، تاریکیوں سے مقابلے کا میدان بھی اتنا ہی وسیع سے وسیع تر ہوجائے گا۔{ FR 1133 } اور حق و باطل کی کشمکش کا دائرہ بھی اتنا ہی بڑھ جائے گا۔ حق و باطل کی اس کشمکش میں ذرا سی غفلت بھی بے پناہ گھاٹے اور نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کبھی ایسے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے، جو ناخوش گوار اور ناموافق ہیں، تو اسے یہ یقین رہتا ہے کہ اس ناخوش گوار حالت کو دوام حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ قابلِ تغیّر ہے اور اسے بدلنے کی کوشش ہی ایک صاحب ِ بصیرت کے لیے کرنے کا کام ہے۔ وہ مایوسی کا شکار نہیں ہوتا اور وقت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتا ۔ وہ کسی ایک تبدیلی کو بھی مستقل اور دائمی نہیں سمجھتا، بلکہ تاریخ کی طول طویل شاہراہ پر نگاہ ڈال کر صاف صاف نشانِ منز ل دیکھ لیتا ہے۔

وقت، تاریخ اور زمانے کے تغیّرات کا یہ شعور انسان کے لیے بڑا قیمتی سرمایہ ہے اور شب و روز کی گردش کا ہرلمحہ اسی کا درس دیتا ہے۔ اگر یہ احساس نہ ہو تو انسان نہ کامیابیوں میں علم اور برداشت کا مظاہرہ کرسکے اور نہ ناکامیوں میں صبر اور وقار کا اظہار۔ نہ فتح مندیاں اس کا دماغ خراب کردیں اور نہ شکستیں اس کا کلیجہ پھاڑ دیں۔ نہ اچھے حال میں وہ راہِ اعتدال پر قائم رہ سکے اور نہ بُرے حال میں وہ خودشکنی و خودکُشی کی راہ پر دوڑ پڑے۔ اسی گردشِ ایام پر غوروفکر انسان میں شعورِ زمان (Time Consciousness)پیدا کرتا ہے اور اسے یہ سکھاتا ہے کہ وہ محض ایک لمحہ حال (Moment in Time)میں زندگی نہ گزارے بلکہ پورے جادئہ وقت (Time Stream) کو اپنی نگاہ میں رکھے۔ اسلام صبر، قناعت، شکر اور مجاہدے کی جن اقدار کا درس دیتا ہے، ان کو صرف اسی ذہنی پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے اوراسی فضا میں ان پر عمل ہوسکتا ہے۔

O

قرآنِ پاک میں رات کی آمد کو ایک ایسا واقعہ قرار دیا گیا ہے، جس سے ذہن کو فوری طور پر اس خالقِ لیل و نہار کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جس کے قبضۂ قدرت میں ہر شے ہے اور جس کی مرضی کے بغیر زمانے کی سطح پر کوئی جنبش نہیں ہوتی:

وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الَّيْلُ۝۰ۚۖ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ۝۳۷ۙ  (یٰسین۳۶:۳۷) اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے ، ہم اس کے اُوپر سے دن ہٹادیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

قدرتِ الٰہی سے روشن زمین و آسمان پر تاریکی کا پردہ غالب آجاتا ہے اور انسان نیچے، اُوپر، دائیں بائیں غرض ہر سمت میں تاریکی ہی تاریکی کو غالب پاتا ہے۔

انسان اس تاریکی سے نیند کی آغوش میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ دوسری آیت ِ قرآنی انسان کو اس کے ربّ کی قدرت اور اس کے اقتدار و اختیار کا احساس دلاتی ہے:

وَہُوَالَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْہِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى۝۰ۚ ثُمَّ اِلَيْہِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۶۰ۧ (الانعام ۶:۶۰) وہی ہے جو رات کو تمھاری روحیں قبض کرتاہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے، پھر دوسرے روز وہ تمھیں اسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقررہ مدت پوری ہو۔آخرکار اسی کی طرف تمھاری واپسی ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو؟

ان قرآنی آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رات اور دن کی یہ گردش اس ابدی سچائی جاننے اور پہچاننے کی دعوت دیتی ہے کہ اس کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے، اُسے سمجھا جائے اور جن مقاصد کے لیے وہ رفتارِ زمانہ میں یہ تبدیلیاں کر رہا ہے، ان کو پورا کرنے کی سعی کی جائے۔ رات محض تاریکی کا ایک پردہ نہیں، دراصل یہ ایک مہلت ہے جو اس ہستی کی طرف سے انسان کو ملتی ہے، جس کے ہاتھ میں انسانوں کی جان ہے، جس میں وہ ہمیں کاروبارِ حیات سے کھینچ کر اس حالت میں لے آتا ہے،کہ جس میں محنت اور جدوجہد کے دوران صرف کی ہوئی قوت کو بحال کیا جائے اور پھر دوبارہ کاروبارِ عالم کی طرف انسانوں کو بھیج دیا جائے۔ اس حقیقت کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ:

وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُـبَاتًا وَّجَعَلَ النَّہَارَ نُشُوْرًا۝۴۷ (الفرقان ۲۵:۴۷)وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمھارے لیے لباس، اور نیند کو سکونِ موت اور دن کو جی اُٹھنے کا وقت بنایا۔

ان آیات سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں:

                ۱-            یہ گردش لیل و نہار بے مقصد نہیں ہے۔ اس کو سطحی نظر سے نہ دیکھا جائے، بلکہ اس کے ذریعے انسان ان مقاصد کا شعور حاصل کرنے کی کوشش کرے، جن کی خاطر حکیم مطلق نے دن اور رات، روشنی اور تاریکی کا یہ نظام بنایا ہے۔

                ۲-            اس کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ انسان کی کام اور آرام کی فطری ضرورتیں پوری ہوں۔ انسان کے جسم و جان کے یہ تقاضے ہیں کہ ان میں جدوجہد اور راحت و آرام کے درمیان ایک فطری توازن قائم ہو۔ لیکن یہ آرام محض براے آرام نہیں ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ کارگہِ حیات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے انسان اپنے آپ کو تیار کرے۔ وہ آرام، جس کے بعد انسان نئی طلوع ہوتی صبح کے تقاضوںکو پورا کرنے کے لیے نہیں اُٹھتا اور جو نئی جدوجہد پر منتج نہیں ہوتی، وہ راحت اور آرام نیند کا آرام نہیں، موت کی علامت تھا۔ خالق کا عطاکردہ آرام دراصل وہ آرام ہے ،جو جدوجہد کا ایک حصہ ہے۔ اگر انسان اس کو نظرانداز کردے، تو وہ اپنے مقصد کو کھو دیتا ہے اور اس کی سرحدیں موت سے جاملتی ہیں۔ یہ رات کا ایک حرکی تصور (dynamic view) ہے جو قرآن سے ملتا ہے، اور جس کی بناپر صبح و شام اوردن اور رات انسان کی عملی زندگی کے لیے علامتیں (symbols) بن جاتے ہیں۔ پھر ان علامتوں کی مدد سے انسان زندگی کے وسیع میدان میں بے شمار چیزوں کو  سمجھ سکتا ہے اور انھیں ان کے صحیح پس منظر میں ان کے ٹھیک ٹھیک مقام پر رکھ کر ان کے بارے میں صحیح رویہ اختیار کرسکتا ہے۔

                ۳-            قرآن ہمیں یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ زندگی کے ان واقعات سے اپنے ذہن کو ان کے    پسِ پشت کارفرما قوتوں پر غوروفکر کی طرف راغب کریں اور صرف مادی اور طبیعی پہلوئوں ہی پر غور نہ کریں بلکہ ان کے اخلاقی پہلوئوں پر بھی توجہ صرف کریں۔ پھر اسبابِ حیات ہی کو انتہاے زندگی نہ سمجھ لیں، بلکہ ان اسباب کے ذریعے مسبب الاسباب تک پہنچیں اور اس کے دامنِ رحمت کے سایے کی طلب میں بے چین و بے قرار ہوکر، اس کی مرضی جاننے اور اس پر چلنے کی دیوانہ وار کوشش کریں۔لاریب، وقت کی ہر کروٹ اور زمانے کی ہر جنبش کے پیچھے اس کی حکمت ِ بالغہ کام کر رہی ہے۔ عقل مند وہ انسان ہے، جو اس حکمت کو پانے کی جستجو کرتا ہے اور اپنے ربّ سے اپنا تعلق استوار کرتا ہے۔

O

اگر ہم اس معاملے پر دوسرے پہلو سے غور کریں تو محسوس کریں گے کہ رات دوقسم کے کرداروں کو نمایاں کرتی ہے:

 ایک گروہ وہ ہے جسے روشنی سے نفرت ہے اور جو تاریکی کا پرستار ہے۔ دن کے اُجالے میں بھی یہ تاریکیوں ہی کی تلاش میں مصروف رہتا ہے اور رات کی چادر کے جلد از جلد پھیل جانے کی آرزو کرتا ہے۔ رات کی آمد اس کی تمنائوں کی بہار ہوتی ہے۔ اس کی ساری سرگرمیاں شب کے اندھیروں میںفروغ پاتی ہیں۔ انسانی معاشرے میں جس فساد کو پھیلاکر یہ گروہ اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ اندھیروں کے پردے ہی میں برپا کیے جاسکتے ہیں۔ جرائم کے ارتکاب اور سازشوں کے جال پھیلانے سے لے کر، دوسروں کے مال، جان اور عزّت و آبرو پر حملہ کرنے کے لیے رات کی تاریکی اس گروہ کو بہترین مو اقع فراہم کرتی ہے ۔ اس لیے یہ اس کی تمنا کرتا ہے اور اسی کے لیے یہ رات کو استعمال کرتاہے۔ انسانی معاشرے پر جب اندھیرا چھاتا ہے تو یہ گروہ  سرگرمِ عمل ہوتا ہے اور صبح کی روشنی جب اُفق کو پُرنور کردیتی ہے، تو یہ اپنی پناہ گاہوں میں جا چھپتا ہے۔ جس رات کو مالک نے آرام کے لیے بنایا تھا، یہ گروہ اسے انسانوں کے لیے حرام کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اور فساد فی الارض کا باعث ہوتا ہے۔ زمین میں فساد نام ہے اللہ کے دیے ہوئے احکام کو توڑنے اور اس کی جگہ دوسرے طریقوں کو رائج کرنے کا:

اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ ۝۰ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۵۷) ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انھیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔

اہلِ کفر اور اہلِ فساد کی یہی روش ہے اور رات ان کو بالکل بے نقاب کردیتی ہے۔ جس طرح چمگادڑ اندھیرے میں ظاہر ہوتی ہے، اسی طرح یہ شیطانی گروہ بھی اندھیرے کے دوران میدان میں آتا ہے اور معاشرے کا صاحب ِ بصیرت گروہ اس کو دیکھ بھی لیتا ہے اور اس کے مقابلے میں مدافعت اور جان،مال اور آبرو کی حفاظت کا بندوبست بھی کرتا ہے۔

انسانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے، جس نے نُورِ ہدایت سے اکتساب کیا ہے۔ اس کے لیے رات ’لباس‘ اور ’سکینت‘ ہے۔ وہ اس سے نئی قوتِ کار حاصل کرتا ہے۔ تاریکی کا کوئی پرتو اس کے روشن دل ودماغ پر نہیں پڑتا۔ وہ اس موقعے کو جسم کے آرام اور روح کی غذا کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ ایسی نیند سے اجتناب کرتا ہے جو غفلت کا رنگ لیے ہو،اور جو چوروں اور نقب زنوں کا سہارا ہو۔ وہ رات کی تاریکیوں میں اپنی، اپنے اہلِ خانہ اور اپنے معاشرے کی حفاظت کا بندوبست کرتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے ایک فوج رات کے وقت دشمن کے شب خون کی مدافعت کے لیے سامان کرتی ہے۔ ایسے چوکنّے اور ہوشیار لوگ ہی ان خطرات سے محفوظ رہتے ہیں، جو فسادپرست عناصر سے ان کو لاحق ہیں اور جن کے لیے رات ان عناصر کو موقع فراہم کرتی ہے۔ پھر یہ گروہ آرام تو ضرور کرتا ہے لیکن مزید کام کے لیے تیار ہونے کی خاطر، اس کا آرام بے مقصد نہیں ہوتا، بامقصد ہوتا ہے۔ اس کا مقصد کبھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ رات کی تاریکی میں دل زندہ چراغ کی طرح روشن رہتا ہےاور اندھیروں کو کبھی غالب نہیں ہونے دیتا۔

یہ گروہ رات کو صرف جسم کے آرام ہی کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ روح کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صرف کرتا ہے۔ جس طرح جسم آرام اور نیند کا مطالبہ کرتا ہے،اسی طرح روح محاسبہ، عبادات اوردُعا کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ جسم کا تقاضا ہے تو یہ روح کی غذا ہے۔ خدا پرست انسانوں کا یہ گروہ رات کو آرام کے لیے بھی استعمال کرتا ہے اور محاسبہ، عبادت اور دُعا کے لیے بھی:

قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۲ۙ  نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِيْلًا۝۳ۙ  اَوْ زِدْ عَلَيْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا۝۴ۭ  اِنَّا سَـنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا۝۵  اِنَّ نَاشِـئَۃَ الَّيْلِ ہِيَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا۝۶ۭ  (المزمل۷۳: ۲تا ۶) (اے محمدؐ) رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو یا کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو ٹھیرٹھیر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔درحقیقت رات کا اُٹھنا، نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور (قرآن) ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔

محاسبے اور دُعا کے لیے بھی یہ بہترین وقت ہے، جیساکہ متعدد احادیث ِ مبارکہ میں آتا ہے کہ اس وقت بندے اور رب کے درمیان کوئی شے حائل نہیں ہوتی اور دینے والا سب کچھ دینے کے لیے سب سے زیادہ آمادہ ہوتا ہے اور پکارتا ہے:’ہے کوئی مانگنے والا؟‘ سمجھ دار وہ ہے جو رات کو ان کاموں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پھر رات کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور شب کے پردوں کے باوجود نُور غالب رہتا ہے:

اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۝۰ۙ يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ(البقرہ ۲:۲۵۷) جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے، اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔

O

رات کا طول بھی اپنے اندر غوروفکر کے چند پہلو رکھتا ہے۔ ہر رات برابر کی طویل نہیں ہوتی ۔ ایک ہی سال میں رُونما ہونے والی ہر رات دوسری سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ محض ایک طبیعی حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ اس امرواقعہ کی معنویت کے پہلو بے شمار ہیں۔

اسی طرح رات کی گراں باری ہرہر فرد کے لیے مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ جو اپنے مقصد کو سمجھتا ہے اور اس کے لیے خلوص اور توکّل کے ساتھ مصروفِ کار ہے، وہ نہ رات سے گھبراتا ہےاور نہ رات کے اندھیروں سے خوف کھاتا ہے۔ اس کا کام اپنا چراغ روشن رکھنا ہے۔ وہ چراغ جو پہاڑی کا چراغ ثابت ہوتا ہے اور دُور دُور تک اندھیروں کا سینہ چیر کر رہ نوردوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن، جس کی نگاہ اپنے اصل سے ہٹ گئی ہو، اس کے لیے ہر رات پہاڑ ہوجاتی ہے، جسے  صبح کرنا ’لانا ہے جوئے شِیر کا!‘

دراصل رات کے اصل طول کے احساس کا انحصار انسان کے وجدان اور رویے پر ہے۔ بات شاعری کی نہیں لیکن ’شب ِ ہجر‘ اور ’شب ِ وصل‘ میں جو فرق ہے، وہ ساعتوں کے طول کا نہیں احساس کی کیفیت اور شدت کا ہے۔ اس لیے جس کی نگاہ ایک انمٹ مقصد پر ہو اور جس کا کام اللہ کے دین کو قائم کرنا ہو (جو ایک مسلمان کا مقصد وجود ہے) اس کے لیے دن اور رات میں کوئی فرق نہیں۔ سرما کی رات ہو یا گرما کی، خزاں کی شب ہو یا بہار کی۔ اسے اپنا کام انجام دینا ہے۔ رات اس کے لیے جو معنویت رکھتی ہے، اس کی پیمایش ساعتوں اور لمحوں سے نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے لیے تو: ’جاوداں ، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘ کی سی سرشاری چاہیے۔

O

قرآنِ پاک میں دن اور را ت کا ذکر جس انداز میں کیا گیا ہے، اس میں ایک بڑا معنی خیز پہلو یہ ہے کہ دن سے رات اور رات سے دن کے رُونما ہونے کا منظر ۔ ہر رات کو ایک دن ختم ہونا ہے۔ کامیاب ہیں وہ خوش نصیب، جو رات کا استقبال اس طرح کرتے ہیں کہ صبحِ نو کے لیے تیاری کریں:

یوں اہلِ توکّل کی بسر ہوتی ہے

ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

جس طرح بیماری سے انسان کو صحت کی ضرورت و عظمت کا احساس ہوتا ہے، اسی طرح رات بھی دن کے نُور کی اہمیت اور اس کی ضرورت کے احساس کو تیز تر کرنے کا ذریعہ ہے۔ جس نے رات سے یہ سبق سیکھ لیا، اس کی رات احساس سے محروم انسانوں کے ’دن‘ سے ہزار گنا بہتر ہے:

شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی

کچھ مصلحت اسی میں ہو پروردگار کی

۲۳مارچ ۱۹۴۰ء ہماری تاریخ کا ایک نہایت سنہری اور تابناک دن ہے ۔ اس روز  برعظیم پاک و ہندکے مسلمانوں نے قائداعظم محمدعلی جناح کی پُرعزم قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خودمختار ملک کے قیام کا مطالبہ کیا۔ ایسا ملک کہ جہاں وہ اپنے دین و ایمان، اپنی تہذیب و ثقافت، اپنے نظامِ قانون و اخلاق، اپنی روایات، اپنے سیاسی عزائم اور مفادات کے مطابق اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں۔

برعظیم کے مسلمان برطانوی استعمار کے غلبے سے پہلے آٹھ نو سو سال تک ہندستان کی حکمران قوت تھے۔ برطانوی دورِ اقتدار میں اپنے دینی، تہذیبی اور سیاسی تشخص کی حفاظت کے لیے انھوں نے مختلف محاذوں پر جدوجہد کی، اور سامراج سے آزادی کی تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا لیکن اس جدوجہد میں ایک تلخ حقیقت نے ان کی سوچ اور ان کے سیاسی اہداف کو یکسر بدلنے پر مجبور کردیا۔

تب ہندستان کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد صرف ایک چوتھائی تھی اور عددی اعتبار سے اکثریت ہندوئوں کو حاصل تھی۔ مسلمانوں کی کوشش تھی کہ وہ اپنے دینی، تہذیبی اور سیاسی تشخص کو محفوظ اور مستحکم رکھتے ہوئے اکثریت کے ساتھ مل کر محض ایک قومی ریاست (Nation State) نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست قائم کریں، جس میں ہرقوم اپنے نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی تشخص کو مستحکم کرسکے اور اس طرح ایک کثیر قومی ریاست (Pluralistic State) اور کثیرثقافتی ریاست (Multi-cultural State) کا نیا نمونہ دُنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے لیکن نصف صدی پر پھیلی ہوئی بھرپور سیاسی جدوجہد کے تجربات نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندو قوم کسی ایسے تصور کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔

یہ وہ پس منظرتھا جس میں مسلمانوں نے دو قومی نظریے کو فکری، سیاسی اور عملی ہرسطح پر پیش کیا اور اس کے فطری تقاضے کے طور پر مسلمان قوم کے لیے بحیثیت قوم حق خود ارادیت کو تسلیم کرا کے ایک الگ ریاست قائم کرنے کا عزم کیا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اگر وہ اپنے لیے ایک الگ آزاد ملک کے حصول کا راستہ اختیار نہیں کرتے جہاں وہ اپنے نظریے، عقیدے، تہذیب اور سیاسی اور معاشی مفادات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کرسکیں، تو اس کا صاف نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ انگریز کی غلامی سے نجات پاکر ہندوئوں کی غلامی کا شکار ہوجائیں گے۔ مغربی جمہوریت اور اس میں عددی اکثریت کے فیصلہ کن کردار کا یہ منطقی نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو اسلامی قومیت کی بنیاد پر برعظیم کے ان علاقوں میں، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، ان کی آزاد ریاست کے قیام کی منزل کا اعلان کیا گیا۔ یہی تھا وہ تاریخی لمحہ، جب ہندستان کی تحریک ِ آزادی میں مسلمانوں نے اپنے جداگانہ کردار کو ایک واضح اور متعین رُخ دے دیا۔

۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہونے والی اس قرارداد میں لفظ ’پاکستان‘ نہیں تھا، صرف الگ ریاست کا تصور تھا۔ البتہ اگلے ہی سال مسلم لیگ کے دستور میں آزاد مسلم ملک ’پاکستان‘ کے حصول کو سیاسی جدوجہد کا مقصد قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد ہرسطح پر، شب و روز پاکستان کے وژن کو نکھارنے اور اس پر برعظیم کے مسلمانوں کو متحد اور منظم کرنے کی جدوجہد برپا کی گئی۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۴۶ء کے مرکزی اور صوبائی سطح کے انتخابات میں مسلم لیگ کو مرکز اور صوبوں میں فقیدالمثال کامیابی حاصل ہوئی۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نومنتخب مسلمان ارکان کا کنونشن دلّی میں منعقد ہوا، اور اس کی قرارداد اور حلف نامے میں اس تصور کو اور بھی وضاحت سے پیش کیا گیا۔

اس طرح صرف سات سال کی جدوجہد میں، ایسی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں اور  اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص سے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو (جو ۲۷رمضان المبارک تھا) مسلمانوں کی آزاد ریاست اور ۲۰ویں صدی میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی پہلی ریاست قائم ہوئی۔ دشمنوں کا خیال تھا کہ یہ ملک چند ہی سال میں اپنا وجود کھو دے گا اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ساری مشکلات اور آزمایشوں کے باوجود اور بہت سے نشیب و فراز کے ساتھ پاکستان کے استحکام کا سامان کیا۔ ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کو  سقوطِ مشرقی پاکستان، سانحہ بڑا دل خراش تھا، جو اللہ کی طرف سے ایک تازیانہ اور تنبیہہ بھی تھا،  لیکن اس کے علی الرغم برعظیم میں ایک نہیں دو مسلمان ملک پاکستان اور بنگلہ دیش اپنے اپنے انداز میں قائم و دائم ہیں اور ترقی کے مراحل طے کر رہے ہیں، جس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

تحریکِ پاکستان کا وژن

۲۳مارچ جہاں یومِ تشکر ہے، وہیں یومِ احتساب بھی ہے، تاکہ ہم دیانت داری سے حالات کا جائزہ لیں۔ جہاں اپنی کامیابیوں پر اللہ کا شکر ادا کریں، وہیں اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا بھی جائزہ لیں اور اصلاحِ احوال کے لیے نقشۂ کار بنائیں اور اس کے حصول کے لیے سرتوڑ کوشش کریں، تاکہ جن مقاصد کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی اور پاکستان کی شکل میں ایک آزاد اور اسلامی ملک کے قیام کے لیے قربانیاں دیں، اس کا حق ادا کرسکیں۔ یہاں ہم خصوصیت سے ان کروڑوں مسلمانوں کے جذبات، احساسات اور احسانات کو یاد کرنا چاہتے ہیں، جو یہ جانتے تھے کہ وہ ہندستان ہی میں رہ جائیں گے اور ایک مدت تک اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی آزادی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کی قیمت ادا کرتے رہیں گے۔ اگر ہم پاکستان کو ایک طاقت ور اسلامی فلاحی جمہوری ملک بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو وہ صرف اہلِ پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے خطّے کے لیے ایک رحمت اور ایک مثبت قوت ہوگا۔ یہی وہ وژن تھا جو اقبال اور قائداعظم نے پیش کیا تھا، اور جس نے برعظیم کےمسلمانوں کو قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں سب کچھ لٹا دینے کے عزم و ہمت سے سرفراز کیا تھا۔

قائداعظم نے ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء پنجاب یونی ورسٹی لاہور کے اسٹیڈیم میں خطاب فرماتے ہوئے صاف الفاظ میں قوم کو حصولِ آزادی کے اصل مقصد کی یاد دہانی ان الفاظ میں کرائی تھی:

ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دُنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینےکے لیے آمادہ ہوگا۔

اور یہی بات آپ نے ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سول، بحری اور فضائی افواج کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی:

قیامِ پاکستان، جس کے لیے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، آج اللہ کے فضل و کرم سے وہ ایک مسلّمہ حقیقت بن چکا ہے، مگر کسی قومی ریاست کا معرضِ وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں ہوسکتا، بلکہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں، جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح سانس لے سکیں، جسے ہم اپنی صواب دید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔

دیکھیے ،پاکستان کا وژن قائداعظم کی نگاہ میں کتنا واضح ہے۔ یہی وژن پوری تحریک ِ پاکستان کی روحِ رواں تھا۔ اسی منزل کے حصول کے لیے برعظیم کے تمام مسلمان، وہ بھی جن کو پاکستان کی نعمت ملنی تھی اور وہ بھی جو ہندستان میں جانے تھے اور جنھیں مستقبل میں مصائب کا شکار ہونا تھا، وہ سب ایک اعلیٰ وژن کی خاطر اس جدوجہد میں سب سے آگے تھے۔ پچھلے ۷۰سال پر مَیں نگاہ ڈالتا ہوں تو جہاں اللہ کے انعامات پر دل احساسِ تشکر سے لبریز ہے ، وہیں اپنی قیادتوں کی کوتاہیوں اور بے وفائیوں پر دل خون کے آنسو بھی روتا ہے۔

میں بڑے دُکھ سے یہ سطور لکھ رہا ہوں کہ ہم نے اپنی تاریخ اور اپنے شرکاے سفر کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ نہ صرف یہ کہ پاکستان کی تاریخ، اس کے بنیادی محرکات، تصورِ مملکت اور ملکی اور عالمی کردار کا حق ادا نہیں کیا، بلکہ اپنے ذاتی، گروہی اور علاقائی مفادات کی خاطر ملک اور عوام دونوں کے باب میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی طرح ہم نے اپنی نئی نسلوں کو اپنی تاریخ اور تحریک ِ آزادی کے مقاصد کا صحیح شعور نہیں دیا اور ہمارے حکمرانوں نے الا ماشاء اللہ ملک کی تعمیروترقی اور عوام کی خدمت اور خوش حالی کے باب میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا۔

 حقیقت یہ ہے کہ جو وسائل اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو دیے ہیں، اگر ان کو ٹھیک ٹھیک استعمال کیا جاتا تو پاکستان آج دُنیا کے لیے ایک مثال ہوتا اور قیادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتا۔ اس اعتراف کے ساتھ، اس احساس بلکہ یقین کا ادراک بھی ضروری ہے کہ آج بھی جو مواقع حاصل ہیں، وہ بے پناہ ہیں اور ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اگر آیندہ کے لیے   صحیح لائحۂ عمل مرتب کیا جائے اور مخلص، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو آگے لایا جائے، تو چند برسوں میں صورتِ حال بدل سکتی ہے اور ان شاء اللہ بدلے گی۔ چند مہینوں میں ملک نئے انتخابات کی طرف جارہا ہے اور یہ ایک تاریخی موقع ہے ،جب قوم اپنے اصل مشن کے حصول کے لیے نئی قیادت اور نئے پروگرام کے تحت نئے سفر کا آغاز کرسکتی ہے۔

۲۳مارچ ۲۰۱۸ء کا یہی پیغام ہے کہ اگر مارچ ۱۹۴۰ء میں ظلمت کی گہرائیوں کے باوجود منزل کے صحیح شعور اور اس کے بارے میں یکسوئی کے ساتھ قومی عزم اور منظم جدوجہد کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے صرف سات سال میں پاکستان حاصل کیا جاسکتا ہے، تو آج ۲۱کروڑ انسانوں کو بیدار اور منظم کر کے قدرتی وسائل سے مالا مال اور ایٹمی صلاحیت اور جدید ٹکنالوجی سے آراستہ یہ مملکت ایک نئی تاریخ کیوں رقم نہیں کرسکتی؟ مشکلات خواہ کتنی ہی ہوں لیکن ایمان اور عزمِ صمیم کے ساتھ صحیح مقاصد کے لیے منظم اور مؤثر جدوجہد کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت دیتا ہے اور بظاہر ناممکن کو ممکن ہی نہیں بناتا، بلکہ مشکل کو آسان کردیتا ہے:

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۝۵ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۝۶ۭ (الم نشرح ۹۴:۵-۶) پس حقیقت یہ ہےکہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے، بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔

یوں اہلِ توکّل کی بسر ہوتی ہے

ہرلمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے

تحریک پاکستان اور تحریک اسلامی سے گہرا تعلق اور عشق کی حد تک وابستگی میری زندگی کی سب سے قیمتی متاع اور اس تاریخ ساز جدوجہد میں گذشتہ ۷۰، ۷۵ سال کی شرکت کی یادیں اور کیفیات سرمایۂ حیات ہیں۔ ۱۲،۱۳سال کی عمر میں شعوری طور پر تحریکِ پاکستان سے وابستگی اور قائداعظم سے گھر کے ماحول میں احترام اور والد ِ محترم کی مسلم لیگ میں دہلی کی قیادت سے قربت اور اجلاسوں میں شرکت کے نتیجے میں گہرا تعلق پیدا ہوا۔ پھر عملاً اینگلوعربک ہائر سیکنڈری سکول کی بزمِ ادب کے پلیٹ فارم سے تحریک ِ پاکستان میں شرکت اختیار کی۔ ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں قائداعظم کے ارشاد کی تعمیل میں دومہینے تعلیم سے بس واجبی تعلق رکھا اور سارا وقت الیکشن کی مہم میں صرف کیا۔ ڈاکٹر عبدالغنی قریشی ہمارے علاقے سے مسلم لیگ کے نمایندہ تھے، جو عظیم اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ الحمدللہ، اس دور کے سارے نشیب و فراز کا مَیں گواہ ہی نہیں، ایک ادنیٰ سا کردار بھی ہوں اور اس امر کی شہادت دے سکتا ہوں کہ تحریک ِ پاکستان کی پوری جدوجہد آزادی، اسلام کی سربلندی اور مسلمان قوم کے لیے اس کا اصل مقام حاصل کرنے سے عبارت تھی۔

۱۹۴۶ء کا مسلم لیگ کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا کنونشن ہمارے ہی اسکول کے سبزہ زار میں منعقد ہوا تھا، اور مَیں اور میرے بڑے بھائی اس میں رضاکار کے طور پر شریک تھے۔ مئی ۱۹۴۷ء کو امپریل ہوٹل، دلی میں ہونے والے مسلم لیگ کے کنونشن میں میرے والد محترم بحیثیت منتخب کونسلر شریک تھے اور ہم بھائی ،کارکنوں کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ پھر میں نے ہندو مسلم فسادات کے سارے مناظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ قرول باغ دہلی میں اپنا بھرا پُرا گھر لٹتا دیکھا ہے اور تن کے کپڑوں میں جان بچانے کے لیے باڑہ ہندواڑ کے مسلم علاقے میں پناہ لینے کا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ پھر باڑہ ہندواڑکی وہ رات بھی مَیں کیسے بھول سکتا ہوں، جس میں بلوائیوں سے جان بچانے کے لیے ایک رات میں چار جگہیں ہمیں تبدیل کرنی پڑیں اور بالآخر ہمایوں کے قلعے میں مہاجر کیمپ میں پناہ لینی پڑی، جہاں ایک ماہ سے زیادہ زمین پر سوئے اور خیمے میں زندگی گزارنے کا تجربہ ہوا۔ باڑہ ہندواڑ کی ایک رات کی یہ تلخ یادیں کیسے بھول سکتا ہوں کہ جن تنگ گلیوں میں ہم ایک مکان سے دوسرے مکان میں پناہ لے رہے تھے، تو پاس کے گھروں سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور انسانی چربی کے جلنے کی بُو دل و دماغ کو مائوف کر رہی تھی اور موت کے سایے ہر طرف منڈلاتے نظر آرہے تھے۔ مَیں ان تمام مراحل سے گزرا ہوں اور ان کا شاہد ہوں، لیکن الحمدللہ ایک لمحے کے لیے بھی تحریک ِ پاکستان کی صداقت اور کامیابی کے لیے کوئی شبہہ نہیں ہوا۔ بالآخر ۱۲فروری ۱۹۴۸ء کو خاندان کے ساتھ پاکستان پہنچا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ایک آزاد وطن کی نعمت سے مالا مال کیا۔

میں نے ’اشارات‘ میں آج پہلی بار ترجمان کی ادارت سے وابستگی کے بائیسویں برس، ذاتی نوعیت کی یہ باتیں صفحۂ قرطاس پر مرتسم کی ہیں اور ۲۳مارچ کے مبارک موقعے پر لکھی ہیں لیکن اس کا محرک وہ بہت سی تحریریں، بیانات اور تبصرے ہیں،جو کچھ دانش ور اور سیاست دان تحریک ِ پاکستان کی ’ناکامی‘ اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اوہام و خدشات کے باب میں پوری دیدہ دلیری سے بیان فرما رہے ہیں اور جنھیں میڈیا پوری قوت سے اُچھال رہا ہے۔  مَیں اپنی صحت کی خرابی، بینائی کی مشکلات اور ذاتی مجبوریوں کے باعث وطن سے دُور ہوں، لیکن دل مستقلاً پاکستان میں اٹکا ہوا ہے اور الحمدللہ پاکستان کے روشن مستقبل کے بارے میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی شک نہیں ہوا۔ مَیں جہاں زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کو ضروری سمجھتا ہوں، وہیں اللہ پر بھروسے اور حق کے غلبے کے یقین میں کبھی کوئی لرزش محسوس نہیں کرتا۔ اللہ نے مایوسی کو کفر قرار دیا ہے اور اپنی رحمت سے مایوس ہونے سے دوٹوک الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ مالک کائنات کا ارشاد ہے:  لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ  ط(الزمر ۳۹:۵۳) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو‘‘ اور لَا تَحْزَنْ  اِنَّ  اللہَ مَعَنَا ج  (التوبہ ۹:۴۰)’’غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔

تاریخ کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، اس نے الحمدللہ مجھے اس یقین سے مالا مال کیا ہے۔ کفر، ظلم اور فساد کی قوتیں ان شاء اللہ شکست سے دوچار ہوں گی اور حق کو بالآخر فتح ہوگی۔ البتہ اس کے لیے اصل ضرورت منزل کے صحیح شعور، اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل ایمان اور اعتماد اور مقصد کے حصول کے لیے صحیح حکمت عملی کے مطابق صبرواستقامت کے ساتھ مؤثر جدوجہد کی ہے۔ بندہ اگر ان کا قرارواقعی اہتمام کرے، تو پھر ربِّ کریم بھی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے کہ اس کا ارشاد ہے:

وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳۹ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

مزید ارشاد ہوتا ہے:

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)اور اعلان کرو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے تبدیلی، اصلاح اور اسلام کی سربلندی کے لیے جو راستہ مقرر فرمایا ہے، اس کو بہت صاف الفاظ میں ہمیں سمجھا بھی دیا ہے کہ:

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ۝۰ۭ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۹ۧ  يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَۃٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۱۰  تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۱ۙ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَۃً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۲ۙ وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا ۝۰ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۳ (الصف ۶۱:۸-۱۳) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نُور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نُو ر کو پورا پھیلا کر رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے، جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو  وہ تجارت، جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور اَبدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا، یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح، اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

اللہ تعالیٰ کی ان آیات کا سبق ہمارے لیے یہ ہے کہ:

  1. اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں کہ حالات بالآخر بدل کر رہتے ہیں۔ اللہ، کوشش اور جدوجہد اور وہ بھی صحیح جذبے، صحیح نیت، صحیح حکمت عملی، صحیح تدابیر اور صبرواستقامت کے ساتھ کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
  2. کش مکش ہی سے تبدیلی اور ترقی کا راستہ نکلتا ہے۔
  3.  آخری کامیابی حق ہی کو حاصل ہوگی ___ البتہ نشیب و فراز اس کا لازمی مرحلہ ہیں۔
  4. اصل قوت ایمان، اللہ کی مدد، اللہ کے دین کی صحیح تفہیم اور اس کے قیام کی مؤثر کوشش، ایمان، عمل صالح، امربالمعروف، نہی عن المنکر اور جان و مال سے مسلسل جدوجہد اس کا راستہ ہیں۔
  5. نظر آخرت کی کامیابی پر ہونی چاہیے اور بالآخر دُنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوکر رہے گی۔

تحریک ِ پاکستان کی کامیابی اور تاریخِ پاکستان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے آئینے میں بھی اللہ کے اس قانون اور سنت کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ ہماری نگاہ مثبت اور منفی ہر دو پہلوئوں پر ہونی چاہیے اور دیانت داری کے ساتھ زمینی حقائق کے صحیح ادراک اور مطلوبہ مقاصد و اہداف تک پہنچنے کے لیے منصوبہ بندی اور مؤثر لائحۂ عمل کی تیاری اور اس پر صبرواستقامت کے ساتھ عمل ہی اصلاح اور تبدیلی اور بالآخر کامیابی کا صحیح راستہ ہے۔

درپیش چیلنج اور تقاضے

اس بنیادی یاد دہانی اور تذکیر کے ساتھ ہم چاہتے ہیں کہ نہایت اختصارکے ساتھ ان چند مثبت اور منفی پہلوئوں کی طرف اشارہ کردیں، جو اس وقت اہمیت کے حامل ہیں:

  • پاکستان کا قیام ایک عظیم نعمت اور تاریخی کامیابی ہے اور اس کی حفاظت، ترقی اور استحکام کے حصول کے لیے پیہم جدوجہد ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ایک طبقہ اس سلسلے میں جو ذہنی انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا مؤثر جواب اور اصل تاریخی حقائق اور قومی مقاصد کے باب میں یکسوئی پیدا کرنے کے لیے اصلاحِ احوال ضروری ہے، جس کی فکر ہمیں کرنی چاہیے۔
  • قیادت اور عوام، افراد اور اداروں، ہرسطح پر خیر اور شر اور روشن مثالیں اور بدترین نمونے ہماری زندگی کی حقیقت ہیں لیکن تمام کمزوریوں کے باوجود آج بھی ملک اور معاشرے میں بڑا خیر ہے اور اس خیر کو مضبوط تر کرنے کی جدوجہد سے مستقبل کو روشن کیا جاسکتا ہے۔ مایوسی اور غفلت ہمارے بدترین دشمن اور راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اُمید، مشن اور اہداف کا صحیح ادراک اور اَن تھک کوشش ہی کامیابی کا راستہ ہیں اور اس کا کوئی متبادل نہیں۔
  • جمہوری قوتوں اور آمریت میں کش مکش:گذشتہ ۷۰برسوں کی تاریخ، جمہوری قوتوں اور آمریت کے علَم برداروں کے درمیان کش مکش اور سمجھوتوں کی تاریخ ہے۔ لیکن اگر دُنیا کے دوسرے ترقی پذیر ملکوں اور خود مسلم دنیا کے حالات کو سامنے رکھا جائے، تو یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ آمرانہ قوتیں یہاں اپنے غلبے کو دوام نہیں دے سکیں اور جمہوری قوتیں اپنی بے شمار کمزوریوں کے باوجود آمریت کی گرفت سے نکلنے میں کامیاب رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آمرانہ قوتیں گو بار بار پسپائی اختیار کرتی رہی ہیں، لیکن یکسر میدان سے باہر نہیں ہوئیں۔ یہی حال جمہوری قوتوں کا ہے کہ بار بار مواقع ملنے کے باوجود وہ کماحقہ اپنا کردار ادا نہیں کرسکیں۔

فوج اور عدلیہ، عوام کے لیے معتبر ترین ادارے ہونے کے باوجود اپنے اپنے دائرے میں بھی صرف جزوی طور پر کامیاب ہوسکے ہیں اور جب بھی دوسرے دائروں میں انھوں نے مداخلت کی ہے، تو کچھ جزوی مثبت نتائج کے ساتھ، واقعہ یہ ہے کہ کہیں زیادہ بڑے نقصانات کا   وہ باعث ہوئے ہیں۔ سیاسی قوتوں نے بھی بار بار کے تجربات کے باوجود قوم کی توقعات کو پورا نہیں کیا اور اس کی بھی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بالعموم دستور، مقاصد اور عوام کی فلاح و بہبود کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر، اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو اوّلیت دی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود جو بہت بڑی نعمت ہمیں حاصل رہی ہے، وہ قرارداد مقاصد اور ۱۹۷۳ء کا دستور ہے، جو ایک قومی اور اجتماعی معاہدے (National and Social Contract) کی شکل میں ملک و قوم کی کشتی کے لیے لنگر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دستور وہ فریم ورک فراہم کرتا ہے، جس پر دیانت اور تدبر سے کام کرکے ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جو آج درپیش ہیں۔

موجودہ انتشار اور تنائو کی صورتِ حال سے نکلنے کا مؤثر ترین راستہ دستور کو مضبوطی سے تھامنے اور اس کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک مناسب ترتیب سے اصلاحِ احوال کے لیے قومی سطح کی جدوجہد ہے، جسے باہم مشاورت سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ، عدلیہ اور قومی عساکر پر مشتمل اداروں کے درمیان تصادم کی جو فضا بنتی جارہی ہے، وہ ہماری نگاہ میں قومی نقطۂ نظر سے بہت پریشان کن بلکہ انتہا درجے کی خطرناک صورت ہے۔ اسے مزید ہوا دینا، جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت، ملک کی سیاسی اور دینی جماعتوں، فوجی قیادت ، اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا، ہر ایک کا کردار بہت اہم ہے۔ دستور، جمہوریت کے آداب اور روایات اور تاریخ، سب کا سبق یہ ہے کہ تصادم کے راستے کو بند کیا جائے اور مل بیٹھ کر موجودہ تنائو کی صورتِ حال سے نکلا جائے۔

بدقسمتی سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عدلیہ اور فوج دونوں کو جس طرح ہدف بنایا ہے، اس نے حالات کو بڑے خطرناک رُخ پر ڈال دیا ہے۔ عمل اور ردِعمل، حالات کو بگاڑ تو سکتے ہیں، انھیں سنوار نہیں سکتے ، جب کہ وقت کی ضرورت آگ پر تیل چھڑکنا نہیں، اسے بجھانا ہے۔ اَنا کی پرستش مزید تباہی کا راستہ ہے اور یہ ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ سیاسی قیادت، تمام پارلیمانی جماعتیں، عدلیہ، وکلا برادری، سول سوسائٹی کے نمایندے، میڈیا اور فوج کے  ذمہ داروں پر لازم ہے کہ حالات کی نزاکت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے تمام معاملات کو دستور میں دیے ہوئے خطوط کے اندر حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں نہ کسی کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ اور کیا بات ہوگی کہ قومی اسمبلی کا اسپیکر بھی احتجاج میں واک آؤٹ کرے، اور ملک کے وزیراعظم صاحب سینیٹ کے چیئرمین کی تضحیک کریں۔ ’ن‘ لیگ کے ’تاحیات رہبر‘ کی صاحب زادی اور مشیر، عدالت عظمیٰ اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف روز اعلانِ جنگ کریں اور فوج کے سربراہ کو مجبوراً صحافیوں کو بریفنگ دینا پڑے اور ملک کا چیف جسٹس روز بیان دے اور وضاحتیں کرے:

بات کرنی مجھے مشکل، کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل، کبھی ایسی تو نہ تھی

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں: مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک ِ انصاف نے جو انداز اختیار کیا ہے اور جو زبان وہ روزانہ استعمال کر رہےہیں، وہ جلتی پر تیل کا کام تو انجام دے سکتی ہے اصلاحِ احوال کی کوئی صورت اس میں نظر نہیں آتی۔ جب تک دینی سیاسی جماعتوں کا اتحاد وجود میں نہیں آیا تھا، اس کے بارے میں دو آرا ہوسکتی تھیں لیکن اب اس کے قیام میں آجانے کے بعد فوری اور اہم چیلنج اس کے سامنے یہ ہے کہ وہ ملک کو فوری طور پر اس بحران سے نکالنے کے لیے کوئی اقدام کرے کہ ماحول ٹھنڈا ہو اور ملک و قوم انتخابات کے ذریعے صحت مند تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوسکے۔

مسلم لیگ (ن) کا سانحہ یہ ہے کہ وہ ایک دستوری اور قانونی معاملے کو سیاسی رنگ دے کر اداروں اور سیاسی قوتوں کو تصادم کی طرف لے جارہی ہے۔ وہ بیک وقت حکومت اور حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہےاور اپنے پونے پانچ سالہ دورِاقتدار میں اپنی کارکردگی کی بنا پر انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے غیرحقیقی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عدل اور سلامتی کے اداروں کے خلاف محاذآرائی سے سیاسی فاصلے طے کرنا چاہتی ہے ۔ یہ ان کی قیادت کی خام خیالی ہے کہ اس طرح وہ انتخاب میں ایسی دو تہائی اکثریت حاصل کرسکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ دستور کا تیاپانچا کرنے کی قوت حاصل کرپائے، اور شخصی آمریت کا وہ خواب جو محترم نواز شریف ۲۳سال سے دیکھ رہے ہیں، وہ پورا ہوسکے۔

ہم صاف الفاظ میں انتباہ کرنا چاہتے ہیں کہ سیاست میں فوجی مداخلت نے نہ ماضی میں کوئی قومی خدمت انجام دی ہے، نہ آیندہ دے سکتی ہے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور ملک کی سول حکومت کی تائید اور معاونت ہے۔ بلاشبہہ قومی سلامتی، دفاع اور ملک کے مفادات کے سلسلے میں فوج کے نقطۂ نظر کو سمجھنا اور باہم مشاورت سے ایک دوسرے سے استفادہ کرنا ہی صحیح سیاسی اور دستوری طریق کار ہے۔ اسی طرح اگر قانون سازی، پالیسی سازی، اچھی حکومت و انتظامی صلاحیت ِ کار، پارلیمنٹ اور حکومت کی ذمہ داری ہے، تو قانون کا احترام، انصاف کا قیام اور دستور کی حفاظت اور تعبیر اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری اور استحقاق ہے۔ اس باب میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور نے بڑی واضح رہنمائی دی ہے اور اعلیٰ عدالتوں کی تعبیرات کی روشنی میں اختیارات میں تحدیدو توازن (check and balance) کا ایک واضح نقشہ سب کے سامنے ہے۔ اس میں عدالتی فعالیت (Judicial activeness) اور عدالتی احتیاط (Judical restraint) دونوں کاایک مقام ہے، جس کا احترام ہونا چاہیے۔ لیکن، ایک دوسرے کے دائرے میں کھلی یا دھمکی (Overt and Covert)، مداخلت ِ دستور اور قومی مفاد دونوں کے احکام اور روح سے مطابقت نہیں رکھتی۔

یہی معاملہ مسلح افواج اور قومی سلامتی کے معاملات کا ہے۔ اس وقت اس سلسلے میں اگر  ’بگٹٹ آزادی‘ (free for all ) کی کیفیت نہ بھی ہو، تو ایک دوسرے کے پائوں پر پائوں رکھ کر راستہ روکنے کی کیفیت تو نظر آتی ہے، جس کی اصلاح باہم مشورے سے ضروری ہے۔ جس ملک میں نظامِ حکومت تحریری دستور کی بنیاد پر قائم ہو، وہاں بالادستی صرف دستور کو حاصل ہوسکتی ہے اور باقی سب دستور کی تابع اکائیاں (Creatures) ہوتی ہیںاور انھیں دستور ہی جائز حق (legitimacy) دیتا ہے،اور دستور کے دائرے ہی میں وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرسکتے ہیں۔ دستور نے اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دستور کی تعبیر کرے اور ایسی قانون سازی ، پالیسی سازی کو خلافِ دستور قرار دے، جو دستور کے انسانی حقوق کی دفعات سے متصادم ہوں، یا وہ جو قرآن وسنت کے احکام کے منافی ہوں۔ عوام کے ووٹ کے تقدس اور بالادستی کے نام پر دستور اور قانون سے کوئی بالادست نہیں ہوسکتا۔

دفعہ ۶۲ اور ۶۳پر تنقید کی حقیقت :دستور کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ نے یہ اصول طے کر دیا ہے کہ جہاں پارلیمنٹ اور حکومت عوام کے ووٹ سے وجود میں آئے گی، وہیں محض ووٹ کی طاقت سے ان دفعات پر پورا نہ اُترنے والا شخص نہ پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہے اور نہ رکن رہ سکتا ہے۔ اور یہ اصول جمہوری دُنیا میں بھی ایک مسلّمہ اصول کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ ووٹ لینے والا قانون سے بالاتر مخلوق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر وہ قانون کی گرفت میں آنے کے بعد اپنی اہلیت کھو دیتا ہے تو محض ووٹ کی قوت سے اسے قیادت کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا۔

دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کے بارے میں یہ بات بھی بے معنی ہے کہ یہ صدر جنرل محمدضیاء الحق کی داخل کردہ ہیں۔ بلاشبہہ یہ دفعات ۱۹۷۳ء کے اصل دستور میں موجود تھیں، البتہ ان میں بعد میں اضافے اور تبدیلیاں ہوئی ہیں، جن میں اہم تبدیلیاں آٹھویں، سترھویں اور اٹھارھویں ترامیم کے ذریعے ہوئی ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے جو آخری شکل ان دفعات کو دی گئی ہے، وہ پارلیمنٹ کی متفقہ تجاویز کی بنیاد پر ہیں اور اب ان کی ملکیت (ownership) کا اعزاز جنرل ضیاء مرحوم سے ہٹ کر پارلیمنٹ اور قوم کو منتقل ہوچکا ہے۔ یہاں ضمنی طور پر ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں ’صادق‘ اور ’امین‘ ہونے کے سلسلے میں جو باتیں ایک نام نہاد سیکولر طبقہ ایک مدت سے اُگل رہا ہے اور اب اس میں مسلم لیگ (ن) کے ترجمان اور دانش ور، جو کل تک اس کے مؤید تھے، وہ بھی شریک ہوگئے ہیں، ایک بہت سطحی اور افسوس ناک غوغا آرائی ہے۔ علمِ سیاست ہی نہیں بلکہ مینجمنٹ اور حکمرانی کا ہر طالب علم واقف ہے کہ ہر سیاسی نظام ہی میں نہیں بلکہ چھوٹی اور بڑی  کاروباری قیادت تک کے لیے امانت، دیانت اور صداقت بنیادی صفات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلامی نظام میں تو یہ اوّلین شرائط ہیں، لیکن دنیا کے ہر نظام میں دیانت(Honesty)، اعلیٰ کردار (Integrity) اور معاملہ فہمی (Prudence) لازمی اوصاف تصور کیے جاتے ہیں۔

مشہور مصنف سر آئیور جیننگ[Ivor Jennings ، م: ۱۹۶۵ء] نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب Cabinet Government میں لکھا ہے کہ:’’ ایک وزیر اور وزیراعظم کی اوّلین اور ناقابلِ سمجھوتا خصوصیت اس کا اعلیٰ کردار (Integrity) ہے۔ اگرچہ صلاحیت کے باب میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، جس کی تلافی مشیر اور معاونین کے ذریعے ہوسکتی ہے لیکن اگر صداقت اور دیانت کے باب میں قیادت مطلوبہ معیار سے فروتر ہے تو اس کا کوئی متباد ل نہیں ہوسکتا‘‘۔

دفعہ ۶۲ میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

کیمبرج  ڈکشنری Honesty کی تعریف یہ کرتی ہے:

سچا یا اعتماد کے قابل، جس کے بارے میں یہ امکان نہ ہو کہ وہ چوری کرےگا، دھوکا دے گا یا جھوٹ بولے گا۔

اسی طرح کولن انگلش ڈکشنری کے بقول:

اگر آپ کسی کو ایمان دار قرار دیتے ہیں تو آپ کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور لوگوں سے دھوکا دہی نہیں کرتے اور نہ قانون کو توڑتے ہیں۔

ہفنگٹن پوسٹ (Huffington Post )کے الفاظ میں:

اخلاقیات میں اخلاقی بلندی (integrity) سے مراد دیانت داری، راست بازی، سچائی اور اعمال کی درستی ہوتے ہیں۔

اسی طرح Integrity کی تعریف لغت کی رُو سے یہ ثابت ہوتی ہے:

اخلاقی اصولوں پر سختی سے عامل، اخلاقی کردار کی درستی اور مضبوطی، دیانت داری۔

انتظامیات (مینجمنٹ) کی کتب میں یہ اصول اور معیار بیان کیا گیا ہے کہ:

اخلاقی بلندی (Integrity) بنیادی اقدار میں سے ایک ہے، جن کی آجر کو اپنے اجیر میں، ملازم رکھتے ہیں، تلاش ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی امتیازی خصوصیت ہوتی ہے، جو اپنے کام میں ٹھوس اخلاقی اصولوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ آج حکمرانی کے منصب پر فائز رہنے والوں کی طرف سے دستور کی  دفعہ۶۲ اور ۶۳ نکالنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہاں مسلم لیگ کی وہ قیادت اور اس کے ہم نوا کالم نگار جو طرح طرح کی گُل افشانیاں کر رہے ہیں اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں،   وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سینیٹ آف پاکستان نے متفقہ طور پر (رولز آف بزنس) اصول و ضوابط بنائے ہیں اور جن پر ضیاء الحق مرحوم کا کوئی سایہ بھی کبھی نہیں پڑا، ان میں بھی مذکورہ دفعات موجود ہیں۔ فاعتبروا یااولی الابصار۔

ضابطہ اے-۲۲۶ کی تشریح سینیٹ آف پاکستان کے رولز کے ضمیمے میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:

اپنے پارلیمانی اور سرکاری فرائض کی انجام دہی میں، ارکان سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ چال چلن یا طرزِعمل کے درج ذیل اصولوں کی پابندی کریں گے، جن کی نشان دہی اخلاقیات کی کمیٹی نے کی ہے۔ ان ا صولوںکو اس وقت مدنظر رکھا جائے گا جب ضابطے کے حصہ پنجم میں دیے گئے طرزِعمل کے اصولوں کی خلاف ورزی کے الزامات کی  تحقیق و تعیین مقصود ہوگی۔

  • احتساب / جواب دہی: ارکان اپنے فیصلوں اور اعمال کے لیے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔
  • دیانت داری:سرکاری عہدوں پر فائز افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کے سرکاری فرائض سے اگر ان کے کوئی ذاتی مفادات وابستہ ہوں تو ان کا سرعام اعلان کریں، اور اس صورت میں پیدا ہونے والے تصادم کو ایسے طریقے سے حل کرنے کے لیے اقدامات کریں کہ جس سے عوام کے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔
  • اخلاقی بلندی :عوامی/ سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو افراد یا انجمنوں کے مالی طور پر یا کسی اور لحاظ سے اس طریق پر رہینِ منّت نہیں ہونا چاہیے، جس سے ان کے سرکاری فرائض کی بجاآوری پر اثر پڑسکتا ہو۔
  • معروضیت: عوامی/ سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو سرکاری اُمور سرانجام دیتے ہوئے، جس میں سرکاری عہدوں پر لوگوں کو متعین کرنا، ٹھیکے دینا، یا انعامات اور فوائد کے افراد کی سفارش کرنا شامل ہے، انتخاب کے لیے فیصلے میرٹ پر اور ضوابط اور قوانین کے مطابق کرنے چاہییں۔
  • بـے غرضی:سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو فیصلے محض مفادِ عامہ کو سامنے رکھ کر کرنے چاہییں۔ ان کو یہ فیصلے مالی یا دیگر مادی مفادات کے حصول کے لیے نہیں کرنے چاہییں۔
  • شفافیت اور کھلا پن /  صراحت :ارکان کو اپنے کیے گئے تمام فیصلوں اور اُٹھائے گئے تمام اقدامات میں ہرممکن حد تک کھلا اور شفاف ہونا چاہیے۔

ان بقراطوں کے سامنے ہم یہ سوال رکھتے ہیں کہ: دستور کی دفعات ۶۲، ۶۳ کا مطالبہ وفاقِ پاکستان کی علامت ایوانِ بالا کے ان اُمورِ کار سے کچھ مختلف ہے؟ اور اگر کوئی رکن ان دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے،تب بھی کیا وہ ووٹ کی عظمت اور عزّت کے نام پر پارلیمنٹ کا رکن رہ سکتا ہے؟

غلط بیانی، دستاویز میں جعل سازی، جھوٹی گواہی، کتمانِ حق، یعنی سچی بات کو چھپانا، وہ اخلاقی اور سماجی بُرائیاں ہیں جو انسان کو ناقابلِ اعتبار بنا دیتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ فرد ان کے ارتکاب کے بعد سیاسی ذمہ داری کی اہلیت کھو دیتا ہے۔ یہ اسلام کا بھی ایک معیاری اصول ہے   اور دُنیا کے دوسرے تمام نظاموں ، خصوصیت سے پارلیمنٹ اور حکومت کے مناصب کے باب میں اس احترام کا بنیادی تقاضا ہے۔ دنیا کے بعض دستوری اور قانونی نظاموں میں جھوٹی گواہی، غلط بیانی اور حقائق چھپانا ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے اور اگرکوئی منتخب نمایندہ یا عہدے دار اس جرم، جیسے Perjury (نقضِ عہد، جھوٹی گواہی) کا مرتکب پایا جاتا ہے، تو اسے نہ صرف عہدے سے فارغ کردیا جاتا ہے بلکہ سزا بھی دی جاتی ہے۔

Webster ڈکشنری کی رُو سےPerjury کی تعریف یہ ہے:

(قانونی اہمیت کے حامل معاملے کے بارے میں) جان بوجھ کر دروغ گوئی کا عمل یا جرم، جب کہ (ایسا کرنے والا) حلف اُٹھا کر بیان دینے کی وجہ سے یا (حلف اُٹھائے بغیر) صدق دلانہ بیان دینے کی وجہ سے یا کسی سرکاری طور پر جاری اعلامیہ کے تحت اس بات کا پابند ہو کہ وہ جو کہہ رہا ہے ، تحریر کررہا ہے، یا جس کا وہ دعویٰ کر رہا ہے، درست اور سچ ہے۔

’Perjury ‘ برطانیہ میں کامن لا کا حصہ ہے اور امریکی قانون میں بھی ایک جرم ہے   جس کی مختلف حلقوں میں اور امریکا کی مختلف ریاستوں میں مختلف سزائیں ہیں۔ برطانیہ، کینیڈا اور امریکا میں یہ سزائیں ایک سے پانچ سال تک قید اور جرمانے پر مشتمل ہیں۔

جہاں تک اسلامی قانون کا تعلق ہے، اسلامی ریاست میں امیر، قاضی اور عُمال کے لیے عادل اور صالح ہونا بنیادی اور لازمی شرط ہے۔ کسی بھی معاملے میں خواہ اس کا تعلق شادی بیاہ، طلاق، وصیت سے ہو یا کاروباری معاملات سے، گواہ کے لیے عادل ہونا لازمی شرط ہے۔ جھوٹی گواہی پر حضرت عمرؓ نے ۴۰کوڑوں کی سزا بھی دی ہے اور جھوٹے گواہ کو آیندہ گواہی کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ ہی نہیں ہر مہذب معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی،  اخلاقی اور معاشرتی جرائم ہیں۔ علم الرجال کے اصولوں کے مطابق اگرکسی راوی سے کسی معمولی سے معاملے میں بھی خلافِ واقعہ روش کی کوئی جھلک نظر آئی ہے تو اس سے روایت قبول نہیں کی گئی ہے۔

اس امر پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ محض اپنی ذات کو بچانے کے لیے اسلام کے مسلّمہ اصول اور دستور کی واضح دفعات کا مذاق اُڑایا جا رہاہے اور انھیں تبدیل کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، تاکہ وہ افراد جو دیانت و امانت اور صدق و صفا کے معیار پر پورے نہ اُترتے ہوں، وہ ملک و قوم کے سیاہ و سفید کے مالک بن سکیں۔ اس سے بڑا ظلم جمہوریت اور عوام کے ووٹ پر کیا کیا جاسکتا ہے کہ ووٹ لینے والے کو ہرقانون و دستور اور بنیادی اخلاقی اصولوں سے بالا کر دیا جائے اور محض اس بنا پر چوںکہ اسے ووٹ حاصل ہوتے ہیں، اس کے لیے یہ جرم اور قانون شکنی جائز ہوجائے۔ جس طرح ووٹ جمہوریت کا ستون ہے، اسی طرح قانون کا احترام، قانون کی نگاہ میں سب کی برابری، دستور اور قانون کے مطابق سب کا احتساب، جمہوریت کے فروغ اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے ضروری شرط ہے۔ پاکستان کا مستقبل، جمہوریت کا فروغ اور عوام کی فلاح و بہبود کا انحصار دستور کے احترام، قانون کی بالادستی اور سچائی، دیانت، عدل و انصاف اورعوام کی خدمت اور خوش حالی کے لیے تمام وسائل کے استعمال اور سردھڑ کی بازی لگا دینے میں ہے۔ اقبال کا یہ ارشاد ہمارے لیے رہنما اصو ل ہونا چاہیے:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

دِل توڑ گئی ان کا دوصدیوں کی غلامی

دارُو  کوئی سوچ اُن کی پریشاں نظری کا

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!

دے اُن کو سبق خودشکنی ، خودنِگری کا

ظلم و استبداد اور تخریب و فساد کی داستان بڑی عبرت انگیز ہے۔ تاریکی کے علَم بردار ہمیشہ ’خیروصلاح‘اور’ہمدردی‘ کا لبادہ اُوڑھ کر آتے ہیں۔ ظلم اپنے کریہہ چہرے پر نیکی ہی کا پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ بدی نے نیکی کا پہلا استحصال اس دن کیا تھا، جب شیطان نے آدم ؑ و حواؑ کو خیرخواہی کے پردے میں گمراہ کیا اور ملکیت اور اَبدیت کے نام پر عدمِ اطاعت کے لیے اُکسایا۔ یہ نیکی اور حق کا اعتراف بھی تھا اور شیطنت و گمراہی کےطریقِ کار کا اظہار بھی۔

نیکی پر بدی کی اس دست درازی ہی کا نتیجہ دھوکا اور نفاق ہیں، جو آغازِ تاریخ سے     آج تک ظلم و گمراہی کے بہترین رفیق کار بھی رہے ہیں اور آزمائے ہوئے ہتھیار بھی۔ظلم و استبداد  انھی بیساکھیوں کے سہارے کھڑے ہوتے ہیں۔ کسی ملک، کسی دور، کسی قوم اور کسی دائرۂ کار کو بھی لے لیجیے، شکلیں بدلی ہوئی ہوسکتی ہیں لیکن ظلم و باطل کے حربے ہمیشہ یہی رہے ہیں اور رہیں گے  ع   

شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے 

1

مغربی سامراج تجارتی سرگرمیوں کا بھیس بدل کر برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوا اور دوسو سال کی پیچ در پیچ ریشہ دوانیوں کے ذریعے پورے ملک پر قابض اور حکمران ہوگیا۔ استعمار نے یہ سارا کھکیڑ اس دعوے کے ساتھ کیا تھا کہ وہ یہاں کے باشندوں کو ’تہذیب کادرس دے‘۔اس مقصد کے لیے Civilising Mission اور White-Man's Burden جیسے پُرکشش نعرے وضع کیے گئے اور نصف دنیاکو اپنا محکوم بنا لیا گیا۔ بُرے کاموں کے لیے اچھے ناموں کا استعمال، مذموم مقاصد کے لیے حسِین اصطلاحات کی تراش خراش، ظلم و استبداد کے لیے لطیف سے لطیف وجۂ جواز، دوسروں کو غلام بناکر انھی کے مفاد کے تحفظ کا ڈھونگ رچانا، سامراجی اور استبدادی قوتوں کا شعار رہا ہے۔

آزادی کے نام پر دوسروں کو آزادی سے محروم کرنا، تہذیب و تمدن کے فروغ کے نام پر تہذیب کی تمام اَقدار کو پامال کرنا، تعلیم کے نام پر علم کی شمعیں گُل کرنا، ترقی کے نام پر سرمایۂ حیات کو لوٹ لینا، امن و آشتی کے نام پر قوموں اور ملکوں کو تاراج کرنا، جمہوریت کے فروغ کی خاطر جمہور کاخون چُوس لینا، مضبوط حکومت کی ضرورت کے نام پر انسانی حقوق کو روند ڈالنا___ یہ ہے سامراجی استبداد کی پوری تاریخ اور اس کے اندازِ کار کا خلاصہ۔ ہرملک میں مغربی سامراج نے یہی کیا، اور برعظیم پاک و ہند کی سرزمین بھی اسی ظلم و فساد، دھوکے اور بے رحمانہ نفاق کی آماج گاہ بنی اور ہر دیکھنے والی آنکھ نے دیکھا کہ:

یہ صحن و روش، یہ لالہ و گُل ، ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں

تعمیر جنوں کے پردے میں، تخریب کے ساماں ہوتے ہیں

استبدادی نفسیات

یہی وہ ذہن ہے جس کی عکاسی مشہور برطانوی ادیب جارج برنارڈشا [م: ۲نومبر ۱۹۵۰ء] نے اپنے مشہور ناول The Man of Destiny  (۱۸۹۶ء) میں ایک مقام پر اس طرح کی ہے:

ہر انگریز پیدایشی طور پر خزانۂ اَبد سے دُنیا کا حاکم اور آقا بننے کی معجزانہ قوت لے کر آتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں اس کو چاہتا ہوں، بلکہ وہ خاموشی سے صبر کرتا اور پورے اطمینان کے ساتھ انتظار کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے دل میں یہ یقین کامل القا ہوتا ہے [یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ نازل کہاں سے ہوتا ہے؟] کہ: ’یہ اس کی اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری ہے، اِن لوگوں کو فتح کرے، جن کے پاس وہ شے ہے‘۔ یہ احساس شدید تر ہوتا ہے اور بالآخر ناقابلِ ضبط ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مفید مطلب اور اخلاقی رویے کے باب میں وہ کبھی کوتاہ دامن نہیں رہتا۔آزادی اور قومی حُریت کے علَم بردار ہونے کی حیثیت سے وہ آدھی دُنیا کو ہڑپ کر جاتا ہے اور اس کا نا م رکھتا ہے ’نئی آبادی‘۔ جب اسے اپنی مانچسٹر کی ملاوٹ زدہ مصنوعات کے لیے ایک نئی منڈی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس سرزمین کے باسیوں کو صحیفۂ امن کے اسرارورُموز سکھانے کے لیے مشنریوں کو بھیج دیتا ہے۔وہاں کے باشندے مشنری کو قتل کردیتے ہیں۔ نتیجتاً مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے اور عیسائیت کی حفاظت و مدافعت کے لیے فوجیں دوڑ پڑتی ہیں، اُس کی خاطر جنگ ہوتی ہے اور ملک فتح کیا جاتا ہے۔ رہی تجارتی منڈی تو وہ تو عطیۂ خداوندی کی حیثیت سے آپ اس کی جھولی میں آپڑتی ہے۔

پھر مذکورہ بالا ’اعلیٰ مقاصد‘ ہی کے لیے اس تسلط کو برقرار، مستحکم اور مضبوط کیا جاتا ہے۔ ملک کے اصلی باشندوں کی خیرخواہی میں بیرونی راج کو طویل سے طویل تر کیا جاتا ہے۔ آزادی کی تحریکوں کو ’بغاوت‘ کا نام دے کر کچلا جاتا ہے۔ عوام کو سیاسی نابالغی کے نام پر بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے نام پر ذہنی، فکری اور تمدنی غلامی کی زنجیروں کو مضبوط تر کیا جاتا ہے، اور اگر مجبور ہوکر کچھ مطالبات ماننے پڑتے ہیں تو اس ’مجبوری‘ کو انسانیت پرستی، حُریت پسندی، وسعت ِ قلبی اور بالغ نظری کے خوب صورت ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔کل کا انگریزی استعمار ہو یا فرانسیسی یا روسی اور اطالوی یا پھر آج کا امریکی استعمار___ سب کا کردار، مقاصد اور اندازِ کار ایک ہی جیسا ہے۔

استبداد کا دریا ہمیشہ اسی رُخ پر بہتا ہے!

ظلم اور اُس کے ہتھیار

انسان کی فطرت راستی اور نیکی پر قائم ہے۔ ایک ہی قانون ہے جو فرد کی پوری زندگی میں اور کائنات کے سارے نظام میں جاری و ساری ہے۔ ہر وہ راستہ جو اس فطرت کے مطابق ہے، خیروفلاح کا راستہ ہے۔ اسے اختیار کرنا آسان اور سہل ہے اور اس کے نتائج سب کے لیے نافع اور اطمینان بخش ہیں۔ ظلم، اس فطرت سے انحراف اور اس کے خلاف بغاوت کا نام ہے۔ چونکہ یہ انحراف دل و دماغ اور انسان کی فطری کیفیت اور طبیعت کے خلاف ہے، اس لیے اسے بروے کار لانے کے لیے وہ ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں جو فطرت کو مسخ کریں۔ بنیادی طور پر یہ ذرائع دو قسم کے ہیں: وہ جو دھوکے اور جھوٹ سے عبارت ہیں، اور دوسرے وہ جن کا سرچشمہ جبر اور تشدد ہیں۔

جھوٹ اور دھوکے کے ذرائع سے عقل و ذہن کو غلط راستے پر ڈالا جاتا ہے، قلب و روح کو مسخ کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو اختیار و ارادہ دیا ہے، اس کے ناروا ، غلط اور ناجائز استعمال کی راہ پیدا کی جاتی ہے۔ اگر جھوٹ اور دھوکے کے حربے کامیاب نہ ہوں تو پھر جبروتشدد کے ہتھیاروں سے فطرت کو انحراف پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ترغیب و ترہیب، غلط بیانی، جھوٹ، دھوکا، فریب، ظلم و زیادتی، جبروتشدد اور شقاوت و استبداد ہی وہ ہتھیار ہیں، جو اہلِ باطل نے ہمیشہ ، ہر دور میں، اور ہر مقام پر استعمال کیے ہیں۔ یہی کچھ ماضی میں کیا جاتا رہا، یہی حال میں کیا جارہا ہے، اور یہی مستقبل میں کیا جاتا رہے گا۔ انھی ہتھیاروں کو برطانوی سامراج اور اس کی تہذیبی اور سیاسی ذُریت نے حکومت اور اقتدار کے نشے میں اس برصغیر کے باشندوں کے خلاف استعمال کیا اور یہی ہتھیار آج کی استعماری قوتیں استعمال کر رہی ہیں، خصوصیت سے ’امریکا سب سے پہلے‘ اور ’دہشت گردی‘ کو نیست و نابود کرنے کے نام پر مغربی اقوام اور مسلح افواج کی خونیں کارگزاریاں۔

2

استعمار کے خطرناک کھیل کو سمجھنے کے لیے برطانیہ کی برصغیر پاک و ہند میں سامراجی حکمت عملی کو سمجھنا بہت ضروری اور چشم کشا ہے۔

برطانیہ کے اربابِ اختیار جس طریقے سے اس ملک پر غالب آئے، اس کی داستان بڑی شرم ناک ہے۔ انھیں اس ملک کے باشندوں نے دعوت نہ دی تھی،خود منتخب نہ کیا تھا، بلکہ پسند تک نہ کیا تھا۔ ہاں، البتہ ان سے جو عظیم گناہ سرزد ہوا ،وہ یہ تھا کہ سامراجیوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر چند بدیسیوں کو کچھ حقوق اور تحفظات دے دیے تھے ___ اور یہ حقوق اور تحفظات بھی بڑی حد تک تجارت اور تجارتی اثاثے کی حفاظت سے متعلق تھے، مگر وہ ایسا دروازہ بن گئے، جن سے استعماری قوتیں داخل ہوکر دو صدیوں کے لیے قابض حکمران بن گئیں، اور جس ذہنیت کو انھوں نے پروان چڑھایا وہ استعمار کے سیاسی غلبے کے ختم ہوجانے کے باوجود ذہنی اور تہذیبی غلامی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ آج ’گلوبلائزیشن‘ (عالم گیریت) اور ’معاشی امداد‘ کے حسین ناموں سے یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔

عیارانہ چالوں سے آمد

بس یہی وہ چیز تھی، جس نے ہمارے دروازوں کو غیروں کے لیے کھول دیا۔ ان کی تجارتی کوٹھیوں [یعنی سامراجی تجارتی کمپنیوں]کا اثرونفوذ بڑھنا شروع ہوا، اور سیاسی چالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اہلِ ملک کے ایک طبقے کو دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جانے لگا۔ غداروں کو چھانٹ چھانٹ کر بلندمناصب پر بٹھایا گیا۔ مقامی افواج میں بغاوت اور بے وفائی کی سرنگیں لگائی گئیں۔ یہ کھیل تقریباً دو سو سال تک کھیلا گیا اور بالآخر لومڑی کی یہ عیّارانہ چالیں  شیر کو چاروں شانے چِت گرانے میں کامیاب ہوگئیں۔

ظلم اور تشدد

اربابِ ظلم کی ہمیشہ سے یہ روش رہی ہے کہ وہ فوج کے غلط استعمال اور بالواسطہ قسم کے ہتھکنڈوں کے استعمال سے اپنے اقتدار کا تخت بچھاتے ہیں۔ بہادر انسانوں کی طرح میدان میں مقابلہ کرنے کے بجاے محلاتی سازشوں کے ذریعے اپنا تسلط قائم کرتے ہیں۔

اقتدار پر متمکن ہوجانے کے بعد سامراجی حکمرانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اپنے اہم ترین مخالف کی کمر توڑنا تھا۔ ظاہر ہے یہ مخالف مسلمان تھا، جو اس ملک پر تقریباً آٹھ سو سال سے حکمران تھا اور جو غلامی کے ساتھ خود کو سازگار بنانے کے لیے کسی قیمت پر تیار نظر نہ آتا تھا۔    رہ رہ کربغاوت اور مہم جوئی کے ذریعے کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس قسم کی تمام کوششوں کو جبروقوت اور چالاکی اور عیاری کے ذریعے کچلا گیا۔ سیّداحمد شہید[م: ۶مئی ۱۸۳۱ء] کی سربراہی میں ’تحریک ِ مجاہدین‘ ، حاجی شریعت اللہ [م: ۱۸۴۰ء] کی قیادت میں ’فرائضی تحریک‘، ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی، خیبرپختونخوا میں ۱۸۶۳ء میں امبیلا کی سرفروشانہ جنگیں،موپلوں کی بغاوت اور بے شمار مقامی نوعیت کی لہوگرمانے والی لڑائیاں اس جدوجہد کا عنوان ہیں۔ ان سب کو قوت و تشدد کے ساتھ کچل کر مسلمانوں کی کمر توڑ دی گئی۔ آزادی و حُریت کی شاہراہ پر گام زن لاکھوں جاںبازوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ ان کے پورے کے پورے خاندانوں کو تہِ تیغ کیا گیا۔ پورے ملک پر خوف اور دہشت کی ایک فضا قائم کرنے کے بعد، اس زخم خوردہ شیر کے دست و بازو بھی کاٹ دیے، تاکہ اسے مقابلے کے لائق ہی نہ چھوڑا جائے۔

یہ بھی اربابِ ظلم کا دائمی طریقہ ہے کہ وہ فتح و کامیابی اور استحکامِ اقتدار کے بعد شریف انسانوں اور جواں مردوں کی طرح مخالفین کے ساتھ عزت اور احسان کا رویّہ اختیار نہیں کرتے بلکہ اُن کے نام و نشان کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں، اور جہاں کہیں اختلاف کی بُو بھی سونگھ لیتے ہیں وہاں تشدد کی انتہا کر دیتے ہیں۔

پیٹ کی مار

سامراجی قوتیں صرف اسی پر رضامند نہ ہوئیں بلکہ اپنے اس اہم حریف کو اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں سے بے دخل کرنے اور اُس کی آنے والی نسلوں کو بے حیثیت اور غیرمؤثر کر دینے پر تُل گئیں۔ اُن تمام صنعتوں کو تباہ کیا گیا، جن کے ذریعے قوم کو معاشی استحکام حاصل تھا۔ ماہرین فن اور کاری گروں کے ہاتھ تک کاٹ دیے گئے۔ زرعی نظام کی قلب ِ ماہیت کی گئی اور اپنے اقتدار کو محفوظ کرنے کے لیے زمین داری کا دوامی [یعنی مستقل] نظام قائم کیا۔ اس طرح جاگیر داری نظام کو قائم کیا گیا،جو برطانوی راج کا ستون بن گیا۔

پھر مسلمانوں کو معاشی ، سیاسی، عدالتی، انتظامی، غرض زندگی کے ہرشعبے سے بےدخل کیا گیا۔ ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے گئے۔ تجارت و صنعت کو تباہ کیا گیا، جو افراد پہلے سے اجتماعی زندگی میں ایک مقام رکھتے تھے، ان کو آہستہ آہستہ مٹا دیا گیا۔ مسلمانوں کے مقابلے میں غیرمسلم اقوام کو شہ دی گئی۔ آخرکار یہ حالت ہوگئی کہ ملک کی سرکاری مشینری میں مسلمانوں کا تناسب۵، ۶ فی صد سے بھی کم رہ گیااور وہاں بھی جو آسامیاں ان کے پاس تھیں، وہ اعلیٰ انتظامی عہدے نہیں تھے بلکہ وہ صرف کلرک، محرر، چپراسی اور خاکروب بن کر رہ گئے۔{ FR 649 }

گویا اس شکست کھائے ہوئے شیر کو صرف پنجرے میں بند ہی نہیں کیا، بلکہ اس کو پیٹ کی مار بھی دی گئی، تاکہ اس کے قویٰ دوبارہ مجتمع ہی نہ ہوسکیں۔ ظالم حکمرانوں کا یہ بھی طریقہ ہے کہ وہ سیاسی لڑائی کے لیے معاشی میدان میں بھی دندناتے ہوئے اُترتے ہیں اور اپنے مخالفین کے لیے  نہ صرف معاش کے دروازے بند کرتے ہیں بلکہ تجارت، صنعت، ملازمت، غرض ہرشعبے سے ان کو چُن چُن کر نکال باہر پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دین سے محبت نکال دو

بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس ملک کے اصل مالکوں کے ذہن سے آزادی اور خودمختاری کے احساس ہی کو مٹانے کے لیے تعلیم وتربیت اور پروپیگنڈے اور نشرواشاعت کا ایک ہمہ گیر پروگرام اختیار کیا گیا۔ جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ فرد جو غلامی کو قبول نہیں کر رہا ہے، اسے زیر کرنے کے لیے اس کے ذہن کو غلام بنا لیا جائے، جو اُس کے جسم پر حکمرانی کرتا ہے۔ اس طرح نئی نسلوں کے فکرونظر کو بدل دیا جائے، تاکہ ’باغیوں‘ کی اولاد کو ’غلامی کے اسرار‘ سکھائے جاسکیں اور اُس سرچشمے کو گدلا کر دیا جائے، جس سے زندگی اور غیرت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے تعلیم کے نظام کو بدلا گیا اور اس نئے ’تیزاب‘ میں مسلمان کی ’خودی‘ کو ڈال کر ایسا ملائم بنادیا گیا کہ اسے جدھر چاہیں موڑ لیں۔ یہ تھی وہ تدبیر جس سے ’سونے کا ہمالہ‘ مٹی کا ایک ڈھیر بن گیا۔ اقبال نے اس چال کو ان الفاظ میں فاش کیا ہے:

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے ، اسے پھیر

تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹّی کا ہے اک ڈھیر

پھر معاشرت، سماجی طور طریقے، تمدنی ادارے، غرض پوری ثقافت کو بدلنے کی کوشش کی گئی اور دینی برتری،تمدنی روایات اور عسکری روح کی جگہ آدابِ غلامی میں طاق کرنے کی کوشش کی گئی کہ:

محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی

موسیقی و صُورت گری و علمِ نباتات

اصول پرستی کی جگہ موقع پرستی اور عسکریت کی جگہ بزدلی اور ’آرٹ پرستی‘ پیدا کی گئی۔ خارہ شگافی کی جگہ ’فنِ شیشہ گری‘ سکھایا گیا اور پروپیگنڈے اور نشرواشاعت کے سارے دروازے اس مقصد کے لیے استعمال کیے گئے کہ:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

غرض غلامی کی نفسیات کو اس کی رگ و پے میں سرایت کر دینے کی ہرممکن کوشش کی گئی:

بہتر ہے کہ شیروں کو سِکھا دیں رمِ آہُو

باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

یعنی یہ شیر، شیر ہی نہ رہے بلکہ اس میں بکری کا ذہن پیدا ہوجائے اور یہ اُسی کی طرح ممیانے لگے۔ ظالم حکمرانوں کی یہ بھی روش ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو اپنے خیال میں مستقل اور   دائمی کرنے کے لیے قوم کے ’نفسیاتی قتل‘ کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں سے بہادری، شجاعت، اصول پرستی، عزت نفس، خودداری، حق پسندی، جفاکشی اور جذبۂ جہاد کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے غلط تعلیم اور اخلاق باختہ ثقافت کے ذریعے لذت پرستی، مفاد پرستی، بزدلی اور خوشامد کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ امراض پوری قوم کو گھن کی طرح کھا جاتے ہیں اور سیرت کی وہ بنیادیں ہی ختم ہوجاتی ہیں، جن سے قوم میں وہ افراد پیداہوسکیں جو بلند کردار، وفاشعار، اصولوں کے پرستار اور  حق کے فداکار ہوں اور جو ان کے ظالمانہ اقتدارکے لیے خطرہ ثابت ہوسکیں۔

من پسند تاویلیں

پھر چوں کہ سامراجی حکمران یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ مسلمانوں کی قوت کا اصل سرچشمہ ان کا دین اور اس دین سے والہانہ وابستگی ہے، اس لیے ایک طرف ان کو اس سرچشمے سے کاٹنے کی کوشش کی ، تو دوسری طرف یہ انتظام کیا کہ جس سے ایسے لوگ اُبھریں، جو قرآن و سنت کی تعلیمات کو مدافعت پسندوں (Apologists) کی معذرت خواہانہ تاویلات کے پھندے میں جکڑنے کی کوششیں کریں۔ تیسری جانب اسلام کے احکامات کو متجدّدین (Revisionists) کے ہاتھوں مسخ کرکے حکمرانوں کے لیے مفیدمطلب بنادیں، جہاد کو منسوخ بتائیں اور سود کے جواز کا فتویٰ دیں۔ ناچ رنگ، مصوری اور مجسمہ سازی کی گنجایش پیدا کریں اور سب سے بڑھ کر اُمت کی بنیادوں ہی کو منہدم کرڈالیں۔ یہی نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ایک ’جعلی نبوت‘ کا بُت تراشیں___ اور جو اس مذہبی ’جعل سازی‘ کی مخالفت کرے اسے تنگ نظر، دقیانوس، مذہبی جنونی اور کٹھ مُلّا قرار دے کر نکّو بنا دیں۔

اس طرح ’دینِ شیری‘ محض ایک ’فلسفۂ روباہی‘ بن کر فرعونی قوت کا مرید ہوجائے:

دینِ شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ

دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۂ رُوباہی

ہو اگر قُوّتِ فرعون کی درپردہ مُرید

قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللّٰہی

اہلِ ظلم کا یہ بھی ایک مخصوص حربہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر محکوم قوم کے دین تک کو بچوں کا کھیل بنا دیتے ہیں اور سرکاری خزانے اور اثرو رسوخ کو استعمال کرکے احکامِ دین کو مسخ کراتے ہیں، من مانی تاویلات کراتے ہیں، اور اہلِ مذہب میں سے مفاد پرستوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ وہ ان کے ہرغلط اقدام کے لیے دین کی ’سند‘ گھڑ کر پیش کریں۔

موقع پرستوں کی قیادت

ملک کی قیادت میں انتشارپیدا کرنے اور میدان کو اپنے لیے ہموار کرنے کے لیے برطانوی سامراج نے ایک طرف قوم کے جوہرِ قابل کو چُن چُن کر قتل کیا، جلاوطن کیا، یا جیلوں میں ڈال دیا۔ دوسری طرف اہلِ وطن ہی میں سے اُن عناصر کو، جو ذاتی مفاد کی خاطر سب کچھ، حتیٰ کہ اصولِ دین اور قوم کا مفاد تک قربان کرنے کو تیار ہوتے گئے، چھانٹ چھانٹ کر اُوپر لاناشروع کیا۔ زمین داروں اور جاگیرداروں کی کھیپ تیار کی گئی۔ خان بہادروں اور خاں صاحبوں کی ایک فوجِ ظفر موج میدان میں اُتاری گئی۔ وہ جنھوں نے اپنا ’سر‘ برطانوی سامراج کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا، ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ مناصب پر لایا گیا، تاکہ اصول کے لیے جان کی بازی لگادینے والوں کی جگہ ملک کی قیادت ایسے بے ضمیر موقع پرستوں کے ہاتھوں میں آجائے:

ترے بلند مناصب کی خیر ہو، یاربّ!

کہ ان کے واسطے تُو نے کیا خودی کو ہلاک

شریکِ حُکم غلاموں کو کر نہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط اُن کا جوہر اِدراک!

نااہل موقع پرستوں کو قیادت کے مناصب پر فائز کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ  اپنے گرد خوشامدیوں کا ایک لشکر جمع کرلیتے ہیں۔ وہ گاڑی جو صلاحیت اور تدبیرسے نہیں چلائی جاتی اسے خوشامدی اور حاشیہ نشین کھینچ کھینچ کر آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح قوم کا مزاج بگاڑ کی انتہائی پستیوں کو چھونے لگتا ہے:

کر تُو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد

دستور نیا ، اور نئے دَور کا آغاز

معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت

کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر ’رات کا شہباز!‘

اور یہ سب کچھ اس لیے کہ شیر کی ہر خوبو کو ختم کر کے اُسے لومڑی کے دربار کا دربان بنا دیا جائے۔ یہ بھی ظالم حکمرانوں کی فطرت ہے کہ وہ جوہرِخالص کو تو نشانۂ ستم بناتے ہیں اور مفاد پرستوں اور خوشامدیوں کو اپنے گرد جمع کرلیتے ہیں۔ انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلۂ کار بناتے ہیں اور یہ زرپرست و زردار ہر بُرے سے بُرے مقصد کے لیے بھی آلۂ کار بننے میںفخر ہی محسوس کرتے ہیں۔

3

برطانوی سامراج نے اپنے اقتدار کو برصغیر میں قائم کرنے اور مستحکم کرنے کے لیے یہ طریقِ کار اختیار کیا۔ جھوٹ اوردھوکا، ترغیب اور پروپیگنڈے کا ہرحربہ استعمال کیا گیا۔ جب اور جہاں یہ ہتھیار غیرمؤثر ثابت ہوئے، وہاں جبر و تشدد اوراستبداد کے تمام ہتھکنڈے بے دریغ استعمال کیے گئے۔ عیاری اور ظلم کے باوجود جب آزادی اور حقوق کی تحریک نے قوت پکڑی اور وہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی، تو برصغیر کی سیاسی تاریخ کے ابواب، سامراج کی تلوار اور اہلِ وطن کے خون سے لکھے گئے۔

انتظامیہ کے غیرمحدود اختیارات

انگریز سامراج نے سول انتظامیہ کو غیرمعمولی اختیارات سے مسلح کیا اور اس سلسلے میں متعدد قوانین بغاوت (Sedition Laws) منظور کیے، جن کی وجہ سے جلسے اور جلوس ممنوع کیے گئے۔ تقریر و تحریر پر نئی نئی پابندیاں لگائی گئیں، انتظامیہ اور پولیس کو یہ اختیارات دیے گئے کہ وہ شبہے کی بنا پر گرفتاریاں کرسکتے ہیں۔ مجسٹریٹوں کو بغیر مقدمہ چلائے اور بغیر صفائی کا موقع دیے، املاک ضبط کرنے کے اختیارات تفویض کر دیے گئے، اور جب اس پر بھی دل خوش نہ ہوا تو ۱۹۰۸ء کا ’کرمنل ا مینڈمنٹ ایکٹ‘ لایا گیا، جس کے ذریعے جس تنظیم کو چاہیں غیرقانونی قرار دیں اور جب تک چاہیں پابند رکھیں۔ جس شخص کو چاہیں، غیرقانونی سرگرمیوں کے عنوان سے گرفتار کرلیں۔  جن املاک کو چاہیں، حکومت کے قبضے میں لے لیں۔ نیز دفعہ ۱۲۴-الف کا اضافہ کیا گیا جس کی رُو سے عملاًحکومت پر ہر تنقید ’بغاوت‘ (sedition)کے معنی میں داخل کر دی گئی۔

اخبارات کی زباں بند

بہ جبر اخبارات کی زباں بندی اور ان پر دہشت کی فضا مسلط کرنے کے لیے فوج داری قانون کے تحت بیوروکریسی، پولیس اور مجسٹریٹوں کو اخبارات کو بند کرنے ، اخبار نویسوں کو گرفتار کرنے، سیکورٹی طلب کرنے اور املاک ضبط کرنے کے اختیارات دیے گئے۔ جو کسر رہ گئی وہ ۸جون کو Newspaper (Incitement to offences) Act 1908 کے نفاذ نے پوری کر دی۔ جس کی رُو سے مجسٹریٹوں کو مقدمے کی سماعت سے قبل ہی پریس ضبط کرنے کا حق دیا گیا اور جس کے تحت ۱۴سال اور ۲۰سال تک کی قید رکھی گئی۔ پھر فروری ۱۹۱۹ء میں ’رولٹ ایکٹ‘پاس کیا گیا، جس نے صحافت کو اُلٹی چھری سے ذبح کر دیا اورجس کے خلاف بے مثال ملک گیر احتجاج ہوا۔

ان قوانین کو استعمال کر کے ہزاروں افراد پر مقدمے چلائے گئے اور بلاشبہہ لاکھوں افراد کو جیلوں میں ٹھونسا گیا۔ ایک ایک شہر کی جیلوں میں تین تین اور چار چار ہزار آدمی بند کیے گئے۔ گرفتاریاں اس پیمانے پر ہوئیں کہ جیل کی عمارتیں ناکافی ثابت ہوئیں اورخیمے لگا کر اور فوجی کیمپ قائم کر کے آزادی کے سپاہیوں کو محبوس کیا گیا۔

قتل کے کیا کیا سامان؟

اخبارات کو بند کرنے اور ان سے ضمانتیں طلب کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور بلاشبہہ سامراج نے آخری ۵۰برسوں میں سیکڑوں اخبارات اور رسائل کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ اندازہ اس بات سے کیجیے کہ:

  • صرف ایک سال میں، یعنی ۱۹۳۴ء میں، صرف ایک صوبہ، یعنی بنگال میں دو ہزار ایک سو نظربند (detenus) تھے۔ یعنی وہ جو مقدمہ چلائے بغیر جیل کے باڑے میں بند کردیے گئے تھے۔ جن پر بغاوت اور قانون شکنی (بسلسلہ سول نافرمانی) وغیرہ کے مقدمات چلے تھے، وہ الگ رہے۔ تشدد اور عدم رواداری کی انتہا یہ ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور [۱۸۶۱ء-۱۹۴۱ء] جیسے شخص کو، ایک غیرسیاسی مضمون پر وارننگ دی گئی اور جس رسالے نے اُن کا وہ مضمون شائع کیا تھا، اُس کے خلاف فوج داری بنیاد پر کارروائی کی گئی۔
  • صرف پانچ سال، یعنی ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۵ء تک صرف مرکزی حکومت نے ۵۱۴ اخبارات (رسائل وغیرہ کو چھوڑیئے) سے ضمانتیں طلب کیں، ۳۴۸ کی اشاعت بند ہوئی اور  بطور زرِ ضمانت کے ۲لاکھ ۵۲ ہزار۸سو ۵۲ روپے حکومت نے وصول کیے۔
  • ’کرمنل امینڈمنٹ ایکٹ‘ کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوا اور صرف ۱۹۳۲ء میں کئی سو تنظیموں کو اس کے تحت غیرقانونی قرار دیا گیا۔ کانگریس کے ساتھ جن اداروں کو خلافِ قانون قرار دیا گیا اُن کی فہرست کئی صفحات پر پھیلی ہوئی تھی اور ان کی تعداد کئی سو سے تجاوز تھی۔{ FR 847 }

یہ صرف چند برسوں کی داستان ہے۔ اسی پر پورے دورِ استبداد کا اندازہ کرلیجیے:

قیاس کن ز گلستان من بہار مرا

آرڈی ننس کا راج

قانون ساز اداروں میں سامراجی حکمرانوں کو قابلِ اعتماد اکثریت حاصل تھی اور اپنے  من مانے قوانین بلادقّت منظور کراسکتے تھے، لیکن اس کے باوجود پورے ملک پر آرڈی ننسوں کا راج تھا۔ زندگی کے ہر شعبے کو آرڈی ننسوں کے ذریعے جکڑ دیاگیا تھا اور اسمبلیوں کی حیثیت محض ربڑ کی مہر کی ہوگئی تھی۔ سر سیمویل ہور سیکرٹری آف اسٹیٹ براے ہند نے برطانوی پارلیمنٹ میں  کہا کہ: ’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ جو آرڈی ننس ہم نے نافذ کیے ہیں، وہ نہایت سخت اور انتہا درجے کے جابرانہ ہیں۔ یہ آرڈی ننس اہلِ ہند کی زندگی کے تقریباً ہرپہلو پر حاوی ہیں‘‘۔

چودھری خلیق الزماں آرڈی ننسوں کے اس حربے کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ: ’’گاندھی جی [۱۸۶۹ء-۱۹۴۸ء] کی گرفتاری کے بعد وائسراے نے ایک آرڈی ننس نکال کر، کانگریس کے تمام دفتروں کو ناجائز قرار دے دیا اور انھیں بند کرا دیا۔ سول نافرمانی کرنے والوں کو اب صرف جیل کی سزا ہی نہیں دی جاتی تھی، بلکہ ان کی جایداد بھی ضبط کرلی جاتی… وائسراے کا یہ نیا نسخہ بہت کڑوا تھا‘‘۔

خون کی ہولی

بے رحم ظالموں نے اس ملک میں کیا کچھ کیا، اس کا اندازہ اُن سیکڑوں واقعات سے ہوسکتا ہے، جن میں انسانوں کے خون سے بے رحمی کے ساتھ ہولی کھیلی گئی۔ ایسے ہی واقعات میں سے ایک جلیانوالہ باغ کا واقعہ [۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء]ہے۔

فروری ۱۹۱۹ء میں منظور شدہ ’رولٹ ایکٹ‘ ۱۸مارچ کو نافذکر دیا گیا۔ جس پر ملک بھر میں احتجاج شروع ہوگیا۔ تحریک ِ خلافت اور ستیہ گرہ کی تحریک، دونوں کا اثر پورے ملک میں اپنے شباب پر تھا۔ اُسی دور کے اُبھرتے ہوئے مسلمان لیڈر ڈاکٹر سیف الدین کچلو [۱۵جنوری ۱۸۸۸ء- ۹؍اکتوبر ۱۹۶۳ء] نے امرتسر میں جلسے کا اعلان کیا، لیکن انھیں جلسے کے منعقد ہونے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ احتجاجی جلوس نکلا تو پولیس نے دخل اندازی کرکے بات پتھرائو، لاٹھی چارج  اور گولیوں تک پہنچا دی۔ اہلِ ہند تو خدا جانے کتنے رزقِ خاک بن گئے اور جوابی طور پر پانچ انگریز بھی اس میں کام آئے۔

پھر کیا تھا، شہر کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا اور فوج کرنل ڈائرکی قیادت میں نہتے شہریوں کے خلاف صف آرا ہوگئی۔ جلیانوالہ باغ میں احتجاجی جلسہ ہورہا تھا۔ باغ چاروں طرف سے بند تھا، صرف ایک دروازہ کھلا تھا اور اس سے کرنل ڈائر رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ساتھ دندناتا ہوا داخل ہوا۔ وارننگ کے نتائج واثرات کا بھی انتظار نہ کیا اور اندھادھند فائرنگ شروع کر دی گئی۔ اُس کے اپنے اعتراف کے مطابق ۱۶۹۹ گولیاں چلائی گئیں اور فائرنگ اس وقت بند کی گئی جب اسلحہ ختم ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ۴۰۰ لاشیں تڑپنے لگیں اور ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ شاید کرنل ڈائر کی ایک بھی گولی خالی نہ گئی۔

بات جلسے تک نہ رہی، پورے شہر کو ظلم و استبداد اور وحشت و درندگی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوگوں کا گھروں سے نکلنا دوبھر ہوگیا۔ ایک پوری بارات کو جس میں دولہا بھی شامل تھا، بلاوجہ پکڑ کر کوڑوں سے پٹوا ڈالا گیا۔ ریل گاڑی میں ہندستانی باشندوں کے سفر کی ممانعت کر دی گئی۔ عورتوں کی کھلے منہ بے حُرمتی کی گئی۔ امرتسر میں ایک گلی مقرر کی گئی، جس میں سے ہر شخص کو پیٹ کے بل رینگتے ہوئے گزرنا پڑتا تھا۔جس شخص کو جو گورا نظر آئے، لازم کیا گیا کہ اس کو سلام کرے، ورنہ کوڑے مارے جائیں گے۔ فوج کی طرف سے جو اشتہار لگائے گئے اُن کی حفاظت انھی اہلِ خانہ کے سپرد کی گئی، جن کے گھر کی چہاردیواری پر انھیں آویزاں کیا گیا تھا۔ اشتہار پھٹنے کی صورت میں اہلِ خانہ کے لیے سزا مقرر کی گئی۔ سر فضل حسین [۱۸۷۷ء-۱۹۳۶ء]، خلیفہ شجاع الدین [۱۸۸۷ء-۱۹۵۵ء] اور پیر تاج الدین [۱۸۷۸ء-۱۹۵۴ء] جیسے معززین کے مکانوں پر بھی اس قسم کے اشتہار چسپاں کیے جاتے تھے اور انھیں تمام دن مکان سے باہر کھڑے رہنے کی ذلّت برداشت کرنا پڑتی تھی۔

اس سب پر مستزاد، فوجی عدالتیں تھیں، جنھوں نے پلک جھپکتے ہی۲۹۸ مقدمات کا فیصلہ سنادیا۔ ۵۱ کو سزاے موت، ۴۶ کوعمرقید، دو کو ۱۰سال کی قید، ۶۹ کو سات سال کی، ۱۰ کو پانچ سال کی قیدبامشقت اور ۱۳۰ کو تین برس سزا دی گئی۔ پھر ’عدالت‘ کا جو ڈھونگ رچایا گیا،اس میں یہ جدت بھی کی گئی کہ ملزموں کو وکیل کے ذریعے اپنے دفاع کا حق نہ تھا۔

جباروں کی یہ فطرت رہی ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے بھی انصاف کے دروازے بند کیا کرتے ہیں۔ انصاف سے ان کی ازلی دشمنی ہوتی ہے! اور یہ بھی ایک دل خراش حقیقت ہے کہ بقول چودھری خلیق الزماں، جلیانوالہ باغ، امرتسر پر حملہ آور جنرل ڈائر کی یہ ’فوج‘ ۵۰؍ انگریز سپاہیوں اور ۱۰۰ ہندستانی جوانوں پر مشتمل تھی۔

ظالم ظلم کے لیے بھی مظلوموں ہی کے اپنوں میں سے کچھ کو استعمال کرتے ہیں اور ان کو ایسی ذلّت آمیز مدد کرنے والے مل ہی جاتے ہیں۔ اہلِ ہند کے خون سے یہ ہولی صرف امرتسر میں نہیں، پورے ملک میں کھیلی گئی۔ ہم نے صرف ایک واقعے کا تذکرہ کیا ہے۔ ورنہ یہی خونیں کہانی، مسجد شہید گنج، مسجد کانپور، قصہ خوانی بازار، موپلوں کی پوری پوری بستیوں اور بیسیوں جگہ دُہرائی گئی۔

ظالمانہ اقتدار کی ’برکتیں‘

پنجاب میں اس خونیں ڈرامے کے علاوہ جو مظالم ہو رہے تھے، ان کے بارے میں  نیشنل کانگریس کی ایک کمیٹی نے مفصل رپورٹ تیار کی تھی، جس کا ایک اقتباس یہاں دیاجاتا ہے:

اوڈوائر { FR 760 } نے قانون تحفظ ہند سے ناجائزفائدہ اُٹھا کر حددرجہ معمولی اور پیش پا افتادہ عُذر تراش کرکے سیکڑوں آدمیوں کو جیل میں بند کر دیا۔ اُردو اخبارات کا گلا گھونٹ دینے میں کوئی کسر باقی نہ رہی اور بیرونِ پنجاب چھپنے والے قومی اخبارات کی پنجاب میں آمد روک دی گئی۔ حد یہ ہے کہ اُردو کے وہ اخبار جو چھپنے سے پہلے حکومت کے ہاتھوں باقاعدہ سنسر کیے جاتے تھے، اُن کی اشاعت بھی بند کردی گئی۔ اب پنجاب میں نہ تقریر کی آزادی باقی تھی اور نہ تحریر کی آزادی کا وجود تھا۔ اس قسم کا سکوتِ مرگ طاری کرکے اور اس طرح لوگوں کے قلم اور زبان پر پہرے بٹھا دینے کے بعد اوڈوائر نے گویا یہ سمجھ لیا تھا کہ پنجاب کے باشندے اس کے زیرسایہ بالکل مطمئن اور خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں۔{ FR 854 }

یہ تھا وہ سلوک جو اس ملک کے باشندوں کے ساتھ سامراجی حکمران کر رہے تھے۔ ظلم کا  یہ خونیں ڈراما پورے ملک میں کھیلا جارہا تھا۔ غم کسی ایک غنچے کا نہیں، رونا پورے گلستان کا تھا۔   ظلم و استبداد کی آکاس بیل پورے چمنِ ہند پر چھا گئی تھی اور اہلِ نظر خون کے آنسو رو رہے تھے۔

4

ظلم و استبداد کی یہ خوں چکاں داستان بڑی دل خراش بھی ہے اور نہایت عبرت انگیزبھی۔ لیکن اس کا ایک پہلو اتنا شرم ناک ہے کہ شیطان بھی اس پر عش عش کر اُٹھا ہوگا۔ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ استبداد اور ظلم تاویلات کے ریشمی لبادے اُوڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ظالم ہمیشہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں :جو کچھ ہم کر رہے ہیں، وہ عوام ہی کے فائدے اور بھلائی کی خاطر کر رہے ہیں۔ جو طریقِ حکمرانی انھوں نے اختیار کیا ہے وہ ملک کے حالات اور لوگوں کے مزاج کے بالکل مطابق ہے۔ صرف انھی کا بنایا ہوا نظام حقائق سے مطابقت رکھتا ہے اور جو کوئی ان کے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے یا ان کے طریقے سے اختلاف کرتا ہے، وہ شرپسند، فسادی، ملک دشمن اور سولی چڑھا دینے کے لائق ہے۔ آزادیوں پر پابندی  بے حد ضروری ہے۔ جمہوریت کے لیے فضا سازگار نہیں ہے، حقوق کی بحث محض مفاد پرستوں کی اُٹھائی ہوئی ہے۔ انتخابات اور عوام کے حق راے دہی کے مطالبے محض سیاسی ڈھکوسلے ہیں۔ نمایندہ اداروں میں عوام کے منتخب اور معتمدعلیہ لوگوں کو لیے جانے کے مطالبے محض خودغرضی پر مبنی ہیں اور سیاسی انتشار پیدا کرنے کے لیے ہیں اور ان سب باتوں کا مقصد حکومت کے وقار اور  حقِ حکمرانی کو مجروح کرنا ہے۔ اصل مسئلہ نہ آزادی سے متعلق ہے اور نہ حقوق، نمایندگی، انتخابات یا جمہوریت سے کچھ تعلق رکھتا ہے۔ اصل ضرورت تو بس مضبوط حکومت اور معاشی ترقی اور خوش حالی کی ہے، اور ساری سیاسی فتنہ انگیزی صرف اس لیے ہے کہ توجہ ان اصل اُمور سے ہٹ کر آزادی اور سیاسی حقوق جیسے لایعنی نعروں پہ لگ جائے اور انتشار رُونما ہو!

ظالم اپنے ظلم کے لیے ایسی ہی تاویلیں تراشتے ہیں، جن کی بنیاد پر ان کا اقتدار استبداد پر قائم ہو۔ اپنی ہر زیادتی کے لیے وہ ایسے ہی جوازپیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہرذلیل سے ذلیل حرکت کو خوش نما بنا کر پیش کرنے ہی کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں کی نیتوں پر بے دریغ حملے کرتے ہیں اور آزادی، جمہوریت اور عوامی اصلاح کی ہر تحریک کی مخالفت کرتے ہیں، اس کا مذاق اُڑاتے ہیں، اس کا راستہ روکتے ہیں، اسے نقصان دہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نظامِ ظلم ہی میں عوام کے لیے ’خیروفلاح‘ کے پہلو نکال نکال کر دکھاتے ہیں۔

یہ ہے وہ ذہن، جس سے سامراجی حکمرانوں نے اس ملک پر ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک حکومت کی، اور جب حالات سے تنگ آکر انھیں اقتدار چھوڑنا پڑا، تب بھی وہ ملک پر احسان رکھ کر رخصت ہوئے۔ آیئے، سامراجیوں، جباروں اور ظالموں کے ذہن کے اس پہلو پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈالیں، تاکہ تاریخ برعظیم کا یہ گوشہ بھی ہمارے سامنے آجائے۔

’ظلم نہیں، محض اداے فرض‘

سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ظالم جو کچھ بھی کرتا ہے،وہ یہ باور کرانے پر زور لگاتا ہے کہ  وہ یہ سب کچھ ’احساسِ فرض‘ سے مجبور ہوکر کرتا ہے، جو بالکل صحیح ہوتا ہے۔ اس سے غلطی سرزد نہیں ہوتی۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ سارا کھیل کھیلتا ہے اور اسی میں دوسروں کی فلاح سمجھتا ہے۔ دیکھیے جنرل ڈائر، جلیانوالہ باغ کے خونیں ہنگامے کی تحقیقات کرنے والی ’ہنٹر کمیٹی‘ کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کیا کہتا ہے؟

سوال: مسٹر جسٹس رنکن: معاف کیجیے جنرل، اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ آپ کی جلیانوالہ باغ میں کل کارروائی خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کی گئی تھی، تو؟

جواب:جنرل ڈائر: نہیں، بالکل ایسا نہیں تھا۔ مجھے ایک بہت اندوہناک فرض (duty) ادا کرنا تھا۔میرا خیال یہ ہے کہ جوکچھ میں نے کیا وہ ایک رحم دلانہ اقدام (merciful thing) تھا۔ کیوں کہ مَیں سمجھتا تھا کہ مجھ کو گولی چلانی ہے اور سخت گولی چلانی ہے تاکہ میرے بعد کسی اور کو گولی چلانے کی ضرورت نہ پڑے۔یہ بالکل ممکن ہے کہ میں مجمعے کو گولی چلائے بغیر منتشر کردیتا، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ تھوڑی دیر بعد دوبارہ جمع ہوجاتے اور ٹھٹھے لگاتے اور میں بے وقوف بن کر رہ گیا ہوتا۔

واقعی لوگوں کو ہنسنے کا موقع دینے سے بڑا ’جرم‘ اور کیا ہوسکتا ہے؟ جو کام خون کی ایک بوند بھی بہائے بغیر ہوجائے، اس سے بھلا شانِ حکمرانی کا اظہار کہاں ہوسکتا ہے؟ اور پھر کمزور اور    بے وقوف عوام، صاحب ِ اختیار حکمرانوں کا مذاق اُڑائیں، یوں انھیں بے وقوف بنائیں؟ ان کا تو علاج ہی یہ ہے کہ ان کو توپ سے اُڑا دیا جائے، گولیوں کی بوچھاڑ سے بھون ڈالا جائے تاکہ یہ سراُٹھانے کے لائق ہی نہ رہیں، اور یہ ’رحم دلانہ‘ کام احساسِ فرض کے ساتھ انجام دو، کہ خون میں  تڑپتی ہوئی لاشوں کا رقص، نہتے اور پُرامن انسانوں کی ہنسی ٹھٹھے سے زیادہ خوش کن ہوتا ہے۔ جب تک پانی کی جگہ خون نہ بہالیا جائے، ظالم کی پیاس نہیں بجھتی!

’جمہوریت کے لیے ناموزوں‘

پھر سامراجی حکمران اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ملک جمہوریت کے لیے قطعاً ناسازگار ہے۔ عوام میں اتنا شعور نہیں کہ اپنا مفاد خود سمجھ سکیں۔ اس لیے انھیں ’سیاسی مائی باپ‘ کی ضرورت ہے، جو ان ناپختہ ، ناسمجھ، نابالغ اور آسانی سے گمراہ ہوجانے والے عوام کو ان کا ’بھلا‘ سمجھائے اور یہ سمجھیں یہ نہ سمجھیں، مگر حکمران انھی کے ’بھلے ‘کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائیں اور زبردستی ان سے وہ کچھ کرائیں، جسے یہ اپنی نادانی میں بُرا سمجھ رہے ہیں۔ اصل ’خیرخواہ‘ تو وہی ہے، جو نادانوں کی بات کو نظرانداز کرکے وہی کرے، جو اس کے خیال میں ان کے لیے بہترہے۔

یہی ہے وہ راگ جو سامراجی دورِ استبداد کے حکمران برابر الاپتے رہے، ملک اور ملک سے باہر ان کے ہم نوا دانش ور، مفکر، مصلح،معلم اور صحافی سب اس آواز میں آواز ملاتے رہے۔ یہاں صرف چند نمایندہ مثالیں دی جاتی ہیں، ورنہ اس پہلو سے تو اتنا مواد ہے کہ اس سے متعدد کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔

برطانیہ کے مشہور آزاد خیال مدبر جان مورلے [۱۸۳۸ء-۱۹۲۳ء] نے بیان دیا: ’’ہندستان کے لیے جمہوریت قطعاً مفید نہیں، صرف مستقبل قریب ہی میں نہیں بلکہ میں تو صاف دیکھتا ہوں کہ مستقبل بعید میں بھی اس کا کوئی امکان نہیں کہ یہ خطّۂ زمین جمہوریت کے لیے سازگار ہوسکے‘‘۔

برطانیہ کے استعماری اور آمرانہ ذہن کا بہترین ترجمان پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل اوڈوائر تھا۔ اس کی تمام تقاریر و تحریریں ایک استبدادی ذہن کی آئینہ دار ہیں۔ ہم چند اہم قومی مواقع پر اس کی تقاریر سے بطورِ نمونہ دو چار اقتباس پیش کرتے ہیں، تاکہ ظالم سامراجی حکمرانوں کا ذہن پوری طرح بے نقاب ہوجائے۔ اس سے ان کے استدلال کے طریقے، عوامی تحریکات اور مطالبات پر ان کا ردعمل اور لوگوں کو مطمئن کرنے (یعنی بے وقوف بنانے یا دراصل خود بے وقوف بننے) کے حربے بے نقاب ہوتے ہیں۔

’استحکام‘ نہ کہ ، عوامی نمایندگی

گورنری کے عہدے پر متمکن ہونے کے بعد اوڈوائر نے حالات کا جائزہ لیا، تو آزادی اور جمہوری اختیارات کی تحریک اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھی اور اس نے طے کرلیا کہ    وہ حکومتی استحکام اور عوام کی فلاح کا ایک فلسفہ گھڑ کر تحریک ِ آزادی کے چہرے پر کالک مل کر رہے گا۔ ایسی کسی چیز کوبرداشت کرنا نظامِ ظلم کی فطرت کے خلاف ہے لیکن ظالموں اور فرعونوں میں اتنی اخلاقی جرأت کہاں کہ صاف صاف  اس کا اعتراف کریں۔ اب یہاں دیکھیے انگریز گورنر اوڈوائر کی نکتہ آفرینیاں:

مجھے صوبائی حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ میرے پاس بعض لوگوں نے ایسی تجاویز بھیجنا شروع کر دی ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ آیندہ اس صوبے کے نظم و نسق میں کیا کیا اصلاحات ہونی چاہییں۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت ِ خود اختیاری کے حصول کے لیے عوام جو اُمیدیں اور آرزوئیں قائم کیے بیٹھے ہیں، مجھے ان کی پذیرائی کیونکر کرنی چاہیے۔ عدالتی اور انتظامی اُمور کو ایک دوسرے سے الگ کر دینے کی بھی تحریک ہورہی ہے۔ میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی خیالی اور غیرحقیقی باتیں اپنی جگہ کتنی ہی دل کش اور جاذبِ نظر کیوں نہ ہوں، اَمرِواقعہ یہ ہے کہ حکومت کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کی جائے۔ اگر یہ مختلف تجویزیں [یعنی جمہوری تقاضوں کی تجاویز] بھیجنے والے لوگ مجھے یہ بتاتے کہ حکومت کو اپنے اصل مقصد سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کون سے بہتر ذرائع اختیار کرنے چاہییں، تو وہ اپنی قوم اور صوبے پر زیادہ احسان کرتے۔

’تنہا حاکمِ اعلٰی‘

جب اس ’قیمتی نصیحت‘ کا کوئی خاص اثر نہ ہوا اور جمہوری اداروں کا مطالبہ بڑھتا چلا گیا، عوام کی نمایندگی کے لیے ہر طرف سے آوازیں اُٹھنے لگیں اور گورنر سے نمایندہ انتظامی کو نسل کی ضرورت پر شدت سے اصرار کیاجانے لگا، تو اوڈوائر صاحب کو سخت غصہ آیا اور وہ ’استحکام‘ اور ’ترقی‘ کا سہارا لے کر عوام پر یوں برسے:

مجھے یہ تجویز سن کر بے حد تعجب ہوا ہے۔ اس صوبے کے لوگ ابتدا سے لیفٹیننٹ گورنر کو صوبے کا تنہا حاکمِ اعلیٰ اور یہاں کے نظم و نسق کا بلاشرکت غیرے واحد ذمہ دار سمجھنے کے عادی ہیں۔ اس نظام کے تحت پنجاب نے خوب ترقی کی ہے اور مَیں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ضمن میں پنجاب، ہندستان کے کسی صوبے سے پیچھے نہیں رہا۔ پھر بتایئے کہ انتظامی کونسل کی کیا ضرورت ہے؟ 

گویا کہ فی الحقیقت ایسے ’استحکام‘ اور ایسی ’ترقی‘ کی موجودگی میں نمایندہ کونسلوں ، اور جواب دہ اداروں کے مطالبے کا مقصد بجز ’انتشار‘ پھیلانے کے اور کیا ہوسکتا ہے!

آہ! دیہاتی! سیاست چھوڑ

بات انتظامی کونسل ہی کے مطالبے پر نہ رُکی، بلکہ نمایندہ قانون ساز اسمبلی، آزاد انتخابات اور عوام کے حق راے دہی تک پہنچی۔ اب تو تنہا حاکمِ اعلیٰ اور بلاشرکت غیرے واحد ذمہ دار صاحب کا پارہ ہی چڑھ گیا۔ گویا ہوئے:

آج کل یہ عالم ہے کہ چاروں طرف سے سیاسی تقریروں کا شور سن کر ہمارے کان بہرے ہوئے جارہے ہیں اور سیاسی دستاویزوں اور یادداشتوں کی بھرمار دیکھ دیکھ کر ہماری آنکھیں چندھیائی جارہی ہیں۔ کیا اس شوروشغب میں میرا یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس طوفانِ بدتمیزی کو ختم کر کے ہمیں اپنے دل و دماغ کو لایعنی تصورات اور بے مصرف توہمات سے پاک کر دینا چاہیے، اور لمحے بھر کے لیے سوچنا چاہیے کہ آخر اس ساری سیاسی شعبدہ بازی کا ان غریب دیہاتیوں کو کیا فائدہ پہنچے گا، جن کی زندگیاں ہل چلانے، فصلیں بونے اور پھر ان فصلوں کو آفاتِ ارضی و سماوی سے محفوظ رکھنے کے لیے وقف ہوچکی ہیں۔

اللہ اللہ ، دیہاتیوں کی قسمت کہ کون ان کے حقوق، قوم کو یاد دلارہاہے!

کمیشن رپورٹیں دریا برد کردو!

لیکن اسے کیا کہیے کہ ’سیاسی شعبدہ بازوں‘ کے ’لایعنی تصورات‘ برابر مقبول ہوتے گئے اور سیاسی اصلاحات کے لیے حکومت کو کمیٹی پر کمیٹی اور کمیشن پر کمیشن بٹھانے پڑے۔ ’مانٹی گوچیمس فورڈ کمیشن‘  قائم ہوا اور اوڈوائر بھی اس کا معزز رکن تھا۔ تمام حالات کا جائزہ لے کر کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ عوام کو کچھ نہ کچھ حقوق دینے پڑیںگے اور کسی نہ کسی درجے میںعوامی نمایندگی کا اہتمام کرنا ہوگا۔ کمیشن ہزار سرکاری سہی، اور سرکار ہی کے نامزد افراد پر مشتمل سہی، لیکن حقائق سے کہاں تک چشم پوشی کرسکتا ہے؟

مگر واہ رَے ’دیہاتیوں کی فلاح‘ اور ’عوام کے مفاد‘ کا محافظ! کمیشن کچھ بھی کہے گورنر اوڈوائر اپنی بات پر قائم ہے۔اختلافی نوٹ میں اوڈوائر نے نام لے لے کر مسٹر محمدعلی جناح ، ڈاکٹر اینی بیسنٹ [م:۲۰ستمبر ۱۹۳۳ء] اور راجا صاحب محمود آباد [م:۲۳مارچ ۱۹۳۱ء]کوبُرا بھلا کہا۔ اس نے ان لیڈروں کی نیتوں پر حملہ کرکے انھیں خودغرض اور شورش پسند قرار دیا۔ ہوم رول تحریک کی جی بھر کر مذمت کی اور ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کو عوام کا بدخواہ ظاہر کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو اس نے ایک نہایت غیرنمایندہ جماعت قرار دے کر حکومت کو متنبہ کیا کہ مسلم لیگ نے مسلمان عوام کی نمایندگی کا جو دعویٰ کیا ہے، وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ اور آخر میں لکھا: 

یہ امر بالکل واضح ہے کہ اصلاحات کا تقاضا ملک کے عوام نے بالکل نہیں کیا۔ حالاںکہ عوام ہی کے مفاد کی نگہداشت حکومت کا فرض اوّلین ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ ہندستان کے باشندوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کی طرف سے پیش ہوا ہے، جو محض اپنی ذاتی اغراض کی وجہ سے اقتدار کی خواہاں اور عہدوں کی بھوکی ہے۔ اگر ہمیں اپنے اس عہد کا کچھ پاس ہے، جو ہم نے ہندستان کی بے زبان مخلوق کی حفاظت کے لیے کیا تھا تو بلاشبہہ ہمارا یہ فرض ہونا چاہیے کہ ہم اس بے زبان رعایا کے مفاد کو مقدم درجہ عطا کریں، اور سیاسی لیڈروں کے شوروشغب کی کچھ پروا نہ کریں، خواہ وہ اس شور سے قیامت ہی کیوں نہ برپا کردیں۔ میں یہاں[ایڈمنڈ] برک [م: ۹جولائی ۱۷۹۷ء]کے وہ یادگار الفاظ درج کرنے پر مجبور ہوں کہ: اگر میدان کے کسی گوشے میں جھاڑی کے نیچے نصف درجن ٹڈے جمع ہوکر اپنی ٹیں ٹیں کے مکروہ شور سے آسمان سر پر اُٹھا لیں اور اسی میدان میںشاہِ بلوط کے اُونچے اُونچے سایہ دار درختوں کے نیچے سیکڑوں گائے، بھینسیں اطمینان سے بیٹھی جگالی کر رہی ہوں، تو ہمیں اس غلط فہمی میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ میدان میںصرف چیخ پکار کرنے والے ٹڈے ہی آباد ہیں۔ اس سارے قضیے میں جو چیز بالکل عیاں اور واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان مجوزہ اصلاحات کا خاکہ تیار کرنے میں ہمارے سامنے صرف تعلیم یافتہ جماعت کے ایک محدود طبقےکی خوش نودی تھی۔ کیا ہمارا یہ فعل کسی اعتبار سے عقل مندی یا دانائی کی دلیل سمجھا جاسکتا ہے؟تعلیم یافتہ جماعت کا یہ محدود طبقہ، جس کی خوش نودی کو ہم نے ہرحال میں مقدم سمجھ رکھا ہے، یہ دیہات کے عوام کی نمایندگی کا بھی دعوے دار ہے، حالاں کہ یہ دعویٰ قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔

میرے اس قول کی صداقت کو آزمانے کے لیے آپ جو معیار چاہیں مقرر کرلیں، اس میں: مذہبی فسادات کی روک تھام کا سوال ہو یا فرقہ وارانہ اختلافات کو مٹانے کا مسئلہ درپیش ہو، فوجی بھرتی کے لیے رنگروٹوں کی فراہمی کا معاملہ ہو یا ملک کے دفاع کا سوال پیش نظر ہو، ہرحال اور ہرصورت میں شہروں کے تعلیم یافتہ سیاسی لیڈر آگے آنے کے بجاے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک وقوم کے لیے مفید اور نفع بخش تحریکوں میں شرکت کرنا یہ لوگ گناہ سمجھتے ہیں۔ ہاں، جہاں فتنہ و فسادبرپا کرنے یا شرانگیزی کی آگ بھڑکانے کی گنجایش ہوگی، آپ ان کو ہمیشہ آگے آگے پائیں گے۔

کیا آپ سمجھے کہ یہ ’فتنہ و فساد اور شرانگیزی کی آگ بھڑکانے والے‘ کون ہیں؟ تاجِ برطانیہ کے سرخیل سر مائیکل اوڈوائر، مسلم قائدین کی نیتوں پر حملے کرتے ہیں۔ ظالم حکمرانوں کا خاصا ہے کہ وہ صرف تعمیری اور اصلاحی تحریکوںکی مخالفت ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے معزز مخالفین کو بدنیت اور بدقماش بھی کہتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھ کے بڑے بڑے شہتیروں کو نظرانداز کردیتے ہیں اور دوسروں کی آنکھ میں کوئی تنکا نہ بھی ہوتو وہاں ان کو شہتیر ہی شہتیر نظر آنے لگتے ہیں اور ظالم حکمرانوں کو چبھتے بھی ہیں۔

اس ڈھٹائی کی انتہا ہـے کوئی

اوڈوائر ہر بے ہودہ سے بے ہودہ اور ظالمانہ سے ظالمانہ قانون کی مدافعت کے لیے سینہ سپر ہوجاتا ہے۔ رولٹ ایکٹ جو انتہائی سفاکانہ قانون تھا، جس کے متعلق سارا ملک چیخ اُٹھا تھا اور جسے وائسراے ہند کو اپنے خصوصی اختیارات سے نافذ کرنا پڑا تھا کہ انگریزوں کے اپنے ادارے (قانون ساز اسمبلی) کے غیرسرکاری ارکان میں سے ایک بھی تائید کے لیے تیار نہ تھا (کم از کم اس وقت اتنی غیرت تو تھی)۔ جس کے استبدادی انداز سے (arbitrarily) نافذ کرنے پر قائداعظم نے مرکزی اسمبلی سے بطورِ احتجاج استعفا دے دیا تھا اور جس کے ظالمانہ ہونے کا احساس خود گورنمنٹ کوبھی اس درجہ تھا کہ ’راج ہٹ‘ میں اسے منظور تو کرلیا، لیکن عالم گیر احتجاج کے پیش نظر اس کی پوری مدتِ عمر جو تین برس تھی، اس میں ایک بھی اقدام نہ کیا۔اس گھنائونے قانون کی مدافعت کے لیے عوام کے ’مفاد کا محافظ‘ سر مائیکل اوڈوائر اس نفرت بھرے ذہن کے ساتھ کلام کرتاہے:

آپ نے گذشتہ ہفتوں کے واقعات [اشارہ ہے ’رولٹ ایکٹ‘ کے خلاف ملک گیر احتجاج اور اس کےبعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کی طرف جس میں جلیانوالہ باغ کا خونیں واقعہ بھی شامل ہے] اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں کہ ایک ایسے قانون کو، جو لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے وضع کیا گیا تھا اور جس کا تنہا مقصد یہ تھا کہ بدامنی اور بغاوت کے طوفان کا سدباب کیا جائے، کس کس انداز سے توڑ مروڑ کر اور  مسخ شدہ صورت میں عوام کے سامنے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ جھوٹ پر مبنی ان ہتھکنڈوں سے لوگوں کو گمراہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہ سب کچھ ایک ایسے طبقے کے افراد کر رہے ہیں، جن کی تعداد بے حد قلیل ہے، لیکن شور مچانے اور چیخ پکار کرنے میں بہت ماہر ہیں۔ یہ لوگ اس قانون کو ایک خطرناک ہوّا بناکر عوام کو خوف زدہ کرنا چاہتے ہیں، حالاں کہ اس قانون کا مقصد صرف یہ ہے کہ غیرمعمولی حالات میں عوام کے جان و مال کی حفاظت کیوں کر کی جاسکے۔ موجودہ تحریک بے معنی اور غلط ہے۔ تحریک چلانے والوں کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے خلاف بددلی پھیلائی جائے اور سرکار[برطانیہ] کے نمک خواروں کو ذلیل کیا جائے۔ حکومت کے وفادار باشندوں کا فرض ہے کہ وہ اس شرانگیز تحریک کا مقابلہ کریں۔ آپ کے سیاسی خیالات کچھ بھی ہوں، آپ کا فرض ہے کہ حکومت کے دست و بازو بن کر موجودہ تحریک کو کچلنے میں ہماری مدد کریں۔{ FR 871 }

افسوس اس کا نہیں کہ اوڈوائر نے ایسی لچر،پوچ اور خیانت سے لبریز بات کہی۔ افسوس اس کا ہے کہ اہلِ ملک ہی میں سے اسے استبداد کے ہاتھ مضبوط کرنے والے مل گئے۔

راج ہٹ

جب حالات قابو میں آتے دکھائی نہیں دیتے ہیں تو سامراج کا گلِ سرسبد اور ظلم کا پیکر سرمائیکل اوڈوائر خون کی ندیاں بہانے کے لیے بھی آمادہ ہوجاتا ہے اور اس ’کارِخیر‘ کے لیے بھی اہلِ وطن ہی کی مدد حاصل کرتا ہے۔ اسی طویل تقریر میں آگے جاکر کہتا ہے:

حالات نازک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور فوری اقدام کے محتاج ہیں۔ اب آپ مزید تامل نہ کیجیے اور فوراً کمرہمت باندھ لیجیے۔ حکومت نے تو گومگو کی پالیسی  ترک کر دی ہے۔ آپ بھی اُٹھ کھڑے ہوں ، حکومت اس مہم میں ہرلمحہ آپ کے لیے پشت پناہ ثابت ہوگی۔ حکومت نے قانون کے نفاذ کا مصمم ارادہ کرلیا ہے، خواہ اس کام میں خون کی ندیاں کیوں نہ بہہ جائیں۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو یاد رکھنا چاہیے کہ اس تمام خون خرابے کی ذمہ داری ہم پر نہیں، بلکہ ان پر عائد ہوگی جو قانون شکنی کی تلقین کررہے ہیں[یعنی جو رولٹ ایکٹ کی مخالفت کی تحریک چلا رہے ہیں]۔

سرمائیکل اوڈوائر ایک فرد نہیں، بلکہ وہ استعمار کی زبان ہے، ظلم کا نمایندہ ہے، نظامِ استبداد کا ترجمان ہے اور اس کا ذہن آمریت کے ذہن کا آئینہ دار ہے۔ اس کی تقاریر میں وہ پوری فکر موجود ہے، جس کی حکمرانی برعظیم پاک و ہند پر رہی ہے اور جو ہمیشہ سے اربابِ ظلم کی ذہنیت رہی ہے۔ ایک ہی طرز پر سوچنے اور کام کرنے سے یہ ذہن اتنا پختہ ہوجاتاہے کہ صرف دوسروں ہی کے سامنے جھوٹ کو سچ، ظلم کو رحم اور استبداد کو استحکام بناکر پیش نہیں کرتا، بلکہ اپنے کو بھی دھوکا دینے لگتاہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ: ’’غلام اپنی زنجیروں سے محبت کرنے لگے ہیں اور ان کا قائم کردہ آمرانہ نظام دراصل ایک جمہوری اور نمایندہ نظام ہے اور عام انسانوں کی خواہش کےعین مطابق ہے‘‘۔

لارڈ لیٹن جو بڑے جمہوریت پسند اور برطانوی لبرل پارٹی کے ایک لیڈر تھے۔ وہ ہندستان میں ایک صوبے کے گورنر کے فرائض بھی انجام دے چکےتھے۔ ۱۹۳۵ء کے ’قانونِ ہند‘ کے آنے سے کچھ ہی قبل، اس وقت جب پورے ملک میں سیاسی بیداری کا غلغلہ تھا اور نمایندہ حکومت اور جمہوری اصلاحات کا مطالبہ ہورہا تھا، ہائوس آف لارڈز میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ فرماتے ہیں:

ہندستان کے سیاست دانوں اور کانگریس کے مقابلے میں حکومت ِ ہند کہیں زیادہ نمایندہ ہے۔ یہ حکومت سرکاری حکام، فوج، پولیس، نوابوں اور مہاراجوں اور ہندوئوں اور مسلمانوں کی فوجی یونٹوں کے نام پر اور ان کی طرف سے گفتگو کرسکتی ہے۔ مَیں جب ہندستان کی راے عامہ کی بات کرتا ہوں تو میری مراد وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے تعاون پر مجھے بھروسا کرنا ہوتا ہے اور جن کے تعاون پر آیندہ کے وائسراے اور گورنروں کو اعتماد کرنا ہوگا۔

یہ ہے وہ فلسفۂ حاکمیت جو استعماری حکمرانوں نے وضع کیا، ظلم و استبداد اور آمریت کے انتہائی گھنائونے نظام کا نام ’جمہوریت‘ اور ’نمایندہ حکومت‘ رکھا، اور عوام کے نام پر ان کے مفاد کا  نعرہ لگاکر انھی کا گلا گھونٹنے اور ان کو اُلٹی چھری سے ذبح کرنے کی سعی کی۔

5

یہ سامراجی دورِ اقتدار، نفاق، سیاسی دھوکے بازی اور بین الاقوامی غنڈا گردی کی بدترین مثال پیش کرتا ہے۔ اس کے ریکارڈ پر ایک نگاہ ڈالنے سے انسانیت شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہے، ضمیر بغاوت کرتا ہے اور روح کانپ اُٹھتی ہے کہ انسان شیطان کا اتنا بڑا حلیف بھی بن سکتا ہے بلکہ اس سے دوچار ہاتھ آگے بھی نکل سکتا ہے۔

اس گھر کو آگ لگ گئی…

اس شرم ناک داستان کا ابھی ایک باب اور بھی ہے، جو انتہائی کریہہ اور گھنائونا ہے اور جس کے ذکر پر آنکھیں شرم سے جھک جاتی اور خون کے آنسو بہاتی ہیں۔ یہ ہے انگریزوں کے ہندستانی وفاداروں کا کردار!

اگر ظالم حکمران ہماری ہڈی پسلی ایک کر دیتے اور ایک ایک فرد کو ذبح کرڈالتے تو انسانیت خواہ اس پر کتنا ہی ماتم کرتی، لیکن اہلِ وطن کے لیے شرم و ندامت کا کوئی موقع نہ ہوتا___ اپنا سر فخر سے بلند کرکے کہہ سکتے کہ: ’’غیروں نے ہمارے اُوپر ظلم کیا اور ہم نے سینہ سپر ہوکر اس کا مقابلہ کیا‘‘۔

باعث ِ افتخار ہیں وہ مظلوم جنھوں نے اپنی جانیں دے دیں لیکن اپنے ضمیر نہیں بیچے۔ لیکن افسوس کہ خاکِ وطن ہی سے کچھ ایسے بے ضمیر بھی نکل آئے، جو ظالموں کا آلۂ کار بنے اور اس وقت جب استعمار اور استبداد کے نمایندے ابناے وطن کا گلا گھونٹ رہے تھے، انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان ظالموں کے ہاتھ مضبوط کریں گے، تاکہ وہ مظلوموں کا گلا اور بھی قوت کے ساتھ گھونٹ سکیں، آہ!

جعفر از بنگال و صادق از دکن

ننگِ آدم و ننگِ دیں، ننگِ وطن

ملک کے غدار، سامراج کے وفادار

سامراجیوں کو آخری وقت تک ’میرجعفروں‘ اور ’میرصادقوں‘ کی بِس بھری فصل ملتی رہی اور انھوں نے ملک و ملّت کے ساتھ غداری ہی نہیں کی، بلکہ اپنی اس وفادار ذُریت کو بھی زندگی کے ہرشعبے پر مسلط کرنے اور آگے بڑھانے کی منظم اور مربوط کوشش کی۔ سفاک رومی شہنشاہ نیرو [م:۶۸ء] کا صرف یہ جرم تھا کہ جب روم جل رہا تھا تو وہ بانسری بجا رہا تھا، مگر پاک و ہند کے نیرو صرف بانسری ہی نہیں بجا رہے تھے بلکہ آگ پر تیل بھی چھڑک رہے تھے اور شعلوں کے اُٹھنے اور مظلوموں کے کراہنے اور چیخنے سے جو خوف ناک منظر رُونما ہورہا تھا، اس کے ’حُسن و جمال‘ کی تعریف میں تقریریں بھی کر رہے تھے۔ دل پر جبر کرکے اپنی تاریخ کے اس سیاہ باب سے بھی چند منتشر اوراق یہاں پیش کیے جارہے ہیں، تاکہ اس طبقے کا رُخِ کردار بھی سامنے رہے۔

اگر ملکی غدار انگریزوں کا ساتھ نہ دیتے تو وہ ہندستان کو کبھی فتح نہ کرسکتے تھے۔ ان کو یہاں سے مخبر اور فوجی ہی نہ ملے بلکہ اعلیٰ سرکاری افسر بھی مل گئے، جنھوں نے ملک اور حکومت سے غداری کی اور وطن کے دروازے غیروں کے لیے کھول دیے۔ نواب سراج الدولہ اور فتح علی ٹیپو سلطان [۱۷۵۰ء-۴مئی ۱۷۹۹ء] کو انگریزوں کی قوت نے زیر نہیں کیا، ان کی چالاکی اور عیاری اور اپنوں کی بے وفائی اور غداری نے شکست سے دوچار کیا، اور جب حفاظت و دفاع کی یہ دونوں مضبوط فصیلیں ٹوٹ گئیں تو انگریز پورے ملک پر حکمران ہوگیا   ع

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

انگریز کے پورے دورِ اقتدار میں ’سرکار پرستوں‘ کا ایک طبقہ تھا، جو استعماری حکمرانوں کے آگے پیچھے پھرتا رہا اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کے اقتدار کو مستحکم کرنے میں مصروف رہا۔

سامراج کے خلاف خفیہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا، تو اپنوں نے مخبری کی۔ مولانا محمودحسن صاحب [۱۸۵۱ء-۱۹۲۰ء] کی انقلابی سرگرمیوں سے دیوبند ہی کے چند طلبہ نے انگریزی حکومت کو مطلع کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی [۱۸۷۲ء-۱۹۴۴ء]کو جو رقوم مولانا شوکت علی [۱۸۷۳ء- ۱۹۳۸ء] نے افغانستان اور عرب دنیا میں کام کرنے کے لیے بھیجی تھیں، ان کا راز انھی کے ایک بدبخت شاگرد نے فاش کیا۔ آزادی کے حصول کی کم و بیش تمام قومی تحریکوں میں انگریزوں کے جاسوس گھسے ہوئے تھے اور ان سرفروشوں کی سرگرمیوں سے ان کو باخبر رکھتے تھے۔ پھر انگریز کی وفاداری اور اس کے راج کی ’برکات‘ کو بیان کرنے کے لیے سیکڑوں افراد نے اپنی خدمات پیش کر رکھی تھیں اور عوام کو افیون کی یہ گولی کھلائی گئی کہ: ’’مزے سے زندگی گزارو، آزادی اور غلامی کے چکّر میں پڑکر اپنی دُنیا کیوں خراب کرتے ہو؟‘‘

باطل نظام میں حصہ ڈالنے اور معمولی سے معمولی مناصب کے لیے بھاگ دوڑ کرنے اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خدمت اور وفاداری کا یقین دلانے کا کام بھی ایک طبقے نے انجام دیا اور اس طبقے کے لیے: خان صاحب، خان بہادر، راے بہادر، سردار بہادر اور نائٹ ہوڈ کے اعزازات وضع کیے گئے۔ اگر انگریز حاکم، اہلِ ہند کو انتظامیہ میں لینے پر مجبور ہوا تو یہی لوگ اس کے خدمت گزار بن کر سامنے آئے اور انگریز کے نمک خوار کی حیثیت سے ہمیشہ پیش پیش رہے۔ آزادی اور جمہوریت کی تحریک کو کچلنے، اس کی راہ میں روڑے اٹکانے اور لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ ’’انگریز کے راج میں ہرقسم کی آزادی ہے‘‘، اس طبقے نے وہ وہ باتیں گھڑ لیں کہ ان کو پڑھ کر آدمی شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر:

  • جب مطالبہ کیا گیا کہ ’ہندستان کی فوج کا کمانڈر ہندستانی کو ہونا چاہیے‘ تو ایک سرصاحب نے ارشاد فرمایا: ’’ہندستان میں کوئی اس کا اہل بھی ہے کہ کمانڈر انچیف ہوسکے‘‘۔ اور  اسی بنیاد پر رام پور کے نواب سر رضا علی خاں{ FR 876 } [۱۹۰۸ء-۱۹۶۶ء] نے ۱۹۳۱ء کے  کُل ہند مسلم لیگ سیشن میں حصولِ آزادی کی قرارداد کی کھل کر مخالفت بھی کی۔
  • خدا بخش [۱۸۴۲ء-۱۹۰۸ء] ، سر امیر علی [۱۸۴۹ء-۱۹۲۸ء] اور سرآغا خان [۱۸۷۷ء- ۱۹۵۷ء]کی حیثیت کے لوگ بھی انگریزی اقتدار اور اس کے فوائد و برکات کے قصیدہ خواں رہے اور زیادہ سے زیادہ جو بات سوچ سکے، وہ انگریزوں کی حکومت میں کچھ مراعات کا حصول تھی۔اس سے زیادہ سوچنا ان کی نگاہ میں بغاوت تھا۔
  • ریاستوں میں جمہوری اداروںکے قیام کا سوال اُٹھایا گیا تو برطانوی مقبوضہ پنجاب کے گورنر سر میلکم ہیلے [۱۸۷۲ء-۱۹۶۹ء] نے اس کا مذاق اُڑایا اور ریاستوں میں مطلق العنان حاکمیت کا دفاع کیا۔ راجوں اور مہاراجوں نے بڑا شور مچایا، کانفرنسیں کیں اور اس رجحان کی مخالفت کی تو اس موقعے پر ایک سر مرزا محمد اسماعیل [۱۸۸۳ء- ۱۹۵۹ء] نے ۲۱جون ۱۹۲۴ء کو ارشاد فرمایا: ’’مجھے ریاستوں میں غیرمعمولی اصلاحات کے مطالبے نے اچنبھے میں ڈال دیا ہے۔ تعجب ہے کہ یہاں جمہوریت کا مطالبہ کیا جارہا ہے، جب کہ پارلیمانی جمہوریت ساری دنیا میں رُوبہ زوال ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ریاست کا ضمیر اس پر مطمئن ہےکہ جو اساسی دستور یہاں رائج ہے، وہ تمام عملی مقاصد کے حصول کے لیے خاطرخواہ حدتک جمہوری ہے‘‘۔
  • اور وہ اعلان تو ابھی تک بہت سے لوگوں کے کانوں میں گونج رہا ہے، جو صوبہ پنجاب کے ایک اور بڑے مشہور ، سر فیروز خان نون [۱۸۹۳ء-۱۹۷۰ء]نے خود اقوامِ متحدہ میں کیا تھا کہ: ’’ہندستان کی آزادی کا سوال مضحکہ خیزہے۔ ہم تو آزاد ہیں، اور دیکھو، مَیں ایک ہندستانی، ہندستان کے نمایندے کی حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت کر رہا ہوں‘‘۔

یہ ہے وہ طبقہ، جس کا کردار برعظیم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اس نے آزادی کی جنگ کو کمزورکرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ اس کی وجہ سے آزادی کی جدوجہد غیر ضروری طور پر طویل اور صبرآزما ہوئی۔ اس کی بنا پر انگریز اپنے اقتدار کو ایک طویل مدت تک کھینچ سکا اور اہلِ وطن پر مظالم و شدائد کے پہاڑ توڑ سکا۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ، جب آخرکار انگریز کا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا اور قومی حکومتیں بننے لگیں، تو یہی طبقہ پوری بے شرمی اور عیاری کے ساتھ انھی تحریکوں میں شامل بھی ہوگیا۔ اسے اپنا مسلک بدلنے میں اتنی دیر بھی نہ لگی جتنی کوٹ بدلنے میں لگتی ہے۔ اس نے یہ سب کچھ کیا اور ضمیر کی کوئی چبھن محسوس نہ کی:

یہ مسجد ہے، یہ میخانہ ، تعجب اس پہ آتا ہے

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

اس طبقے کے کردار پر بہترین تبصرہ خود اسی کے ایک ولیِ نعمت مسٹر لائیڈ جارج [۱۸۶۳ء-۱۹۴۵ء] سابق وزیراعظم برطانیہ [۱۹۱۶ء-۱۹۲۲ء] کا یہ جملہ ہے:

Specimens of these changable reptiles who adopt  their hue to their enviroments.

زمین پر رینگنے والے تغیر پذیر جانوروں کی وہ طرفہ مخلوق جو ہرماحول کے مطابق اپنے رنگ بد ل لیتی ہے۔

اقتدار کے سورج کو نئے محور پر گردش کرتے دیکھ کر اس طبقے نے بلاشبہہ اپنا رنگ بدل لیا۔ لیکن کیا اس کے سوچنے کا انداز،گفتگو کا طریقہ اور کام کرنے کے آداب بھی بدل گئے یا وہی پرانا ذہن باقی رہا؟ دورِ سامراج کی تربیت بڑی پختہ تھی اور جو طبقہ برطانیہ کی استعماری مشینری کا کُل پُرزہ تھا اس نے اپنا قبلہ تو ضرور بدلا مگر دل نہ بدلا۔اس میں وہی لات و منات موجود رہے اور اسی سامراجی ذہن نے اظہار کے لیے نئے نئے میدان تلاش کرلیے۔

یہاں پر صرف ایک مثال، پاکستان کے پہلے صدر [مارچ ۱۹۵۶ء-اکتوبر ۱۹۵۸ء] اسکندر مرزا  کی تقریر سے پیش کی جارہی ہے، جس سے اس طبقے کی اصل ذہنی کیفیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ یہ ہے اُس شخص کی تقریر کا اقتباس، جو ملکِ عزیز کے اہم ترین منصب ِ صدارت پر فائز رہا۔اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جس کو اقتدار سے ہٹائے جانے پر نہ صرف یہ کہ ایک آنکھ بھی نہ روئی اور ایک زبان بھی شکوہ سنج نہ ہوئی، بلکہ پوری قوم نے اطمینان کا سانس لیا۔ اسکندر مرزا ایک فرد نہیں ایک ذہن کے ترجمان تھے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آج کل بڑے فخر سے استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح میں ’ایک نظریہ‘ تھے۔ ذرا یہ بھی دیکھیے کہ ان کے سوچنے کے انداز اور بولنے کے طریقے میں اور جنرل اوڈوائر کے فکروگفتار میں کتنی یک رنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ جناب اسکندر مرزا کا ارشاد (۳۱؍اکتوبر ۱۹۵۴ء) ہے:

اس ملک کے عوام کی عظیم اکثریت جاہل اور اَن پڑھ ہے۔ ان کو سیاست سے کوئی حقیقی دل چسپی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی نہایت احمقانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، جیساکہ مشرقی پاکستان کے حالیہ انتخابات [۱۹۵۴ء] میں انھوں نے اختیار کیا۔ اور پھر جیسا ان کے منتخب نمایندوں نے دستور ساز اسمبلی میں اختیار کیا۔ اس ملک کے عوام کی اصل ضرورت مضبوط اور مستحکم حکومت ہے، اسی لیے ابھی ایک مدت تک ان کو پابند اور محدود جمہوریت (Controlled Democracy) دی جانی چاہیے۔ 

دیکھیے، وہی ذہن کس طرح کام کر رہا ہے۔ جنرل اوڈوائر کی تقریر ہٹایئے اور اسکندر مرزا کی تقریر سامنے رکھیے، کوئی فرق آپ محسو س کرتے ہیں؟ ایک ہی ذہن ایک ہی زبان ہے، ایک ہی انداز ہے، ایک ہی قسم کے وعدے ہیں اور ایک ہی طرح استحکام، مضبوط حکومت اور عوام کے مفاد کا رونا ہے   ع

انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں، زبان میری ہے بات اُن کی

6

سامراج کے وحشیانہ استبداداور وطن کے چند ناخلف فرزندوں کی غداری نے حالات کو اتنا ابتر اور تاریک کر دیا تھا کہ ظلم و استعمار کی اس طویل رات کے ختم ہونے کا امکان نظر نہ آتا تھا۔ لیکن اللہ کی رحمتیں ہوں اُن مجاہدوں اور جان فروشوں پر، جنھوں نے ظلمت کے ان طوفانوں میں حق پرستی اور آزادی و جمہوریت کے چراغ روشن کیے اور اپنے خون سے ان کو تابندہ تر کیا۔ چمگادڑیں تو یہ منصوبہ بناچکی تھیں کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو، لیکن روشنی و نور کے علَم بردار اپنی جانوں پر کھیل کر بھی   فضا کو منور کرنے میں مصروف رہے۔بالآخر مزاحمت کی ہوائیں چلیں جو تاریک بادلوں کو اُڑا کر لے گئیں اور آفتابِ آزادی ضوفشاں ہوا۔

ظلم کے اندھیروں میں روشنی کے مینار

ذرا چشمِ تصوّر سے ماضی کے تاریک دھندلکے میں دیکھیے، کیسے کیسے حسین جگنو چمکتے دکھائی دیتے ہیں اور کیسی کیسی شمعیں فضا کو منور کرنے کے لیے اپنے کو جلاتی نظر آتی ہیں:

  • امپریلزم کے ایجنٹ مکر و سازش کے اسلحے سے مسلح جنوب کی طرف بڑھ رہے ہیں اور سلطان حیدر علی خان [۱۷۲۰ء-۱۷۸۲ء] اور ٹیپو سلطان آہنی دیوار بن کر ان کا راستہ روک لیتے ہیں۔ آزادیِ وطن کی خاطر ہروار اپنے سینے پر برداشت کر لیتے ہیں، حتیٰ کہ یہ کہتے ہوئے آخر کار جان بھی دے دیتے ہیں کہ: ’’شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘۔
  •  تحریک ِ مجاہدین کے جاں باز ملک کے گوشے گوشے سے کھنچ کر سرحدی صوبہ (موجودہ خیبرپختونخوا) میں جمع ہوتے ہیں اور دینِ حق اور آزادیِ وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیتے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کا معرکۂ آزادی گرم ہوتا ہے اور ہزاروں انسان آزادی کی خاطر پروانہ وار فدا ہوجاتے ہیں۔
  • استعمار کے خلاف آزادی کی کھلی اور خفیہ تحریکیں اُبھرتی ہیں اور سیکڑوں نہیں ہزاروں نوجوان اس جدوجہد کی کامیابی کے لیے اپنی زندگیاں تج دیتے ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب، مولانا محمد جعفر تھانیسری[۱۸۳۸ء-۱۹۰۵ء]، مولانا سیّد حسین احمد مدنی [۱۸۷۹ء-۱۹۵۷ء] اور سیکڑوں جاں باز اس انقلابی کام کے لیے قیمتی قربانیاں دیتے ہیں۔

ایسی چنگاری بھی یارب …

مولانا محمد علی جوہر [۱۸۷۸ء-۴جنوری ۱۹۳۱ء] کی قیادت میں تحریک ِ خلافت اور تحریک ِ عدم تعاون اُٹھتی ہے تو سارے ملک میں ایک تہلکہ مچ جاتا ہے۔ اوکسفرڈ اور کیمبرج   یونی ورسٹیوں کے پڑھے ہوئے نوجوان ڈاڑھیاں رکھ لیتے ہیں۔ پوری قوم انگریزی لباس ترک کر دیتی ہے، سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا بائیکاٹ کر دیتی ہے، ملازمتیں چھوڑ دیتی ہے۔ جذبۂ سرفروشی سے سرشار جوانانِ وطن جیلوں کو بھر دیتے ہیں اور اہلِ دولت اس فراخ دلی کے ساتھ ان تحریکوں کی مالی مدد کرتے ہیں کہ تقریباً ۲۰ہزار خاندانوں کی کئی سال تک مالی دست گیری کی جاتی ہے۔ ملک و قوم پر دولت نثار کرنے والوں میں ایسے بھی ہیں جو روپیہ لٹاکر لکھ پتی سے کنگال ہوگئے۔

  • تحریک ِ خلافت کے روحِ رواں محمدعلی جوہر تھے لیکن ان کا کردار کیا ہے؟ مولانا محمدعلی جوہر کے سامنے ایک طرف ایک ریاست کی وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش کا خط ہے اور دوسری طرف بھیک مانگ مانگ کر قوم کی خدمت کا سودا ___ دو دن تک خط جیب میں پڑا رہتا ہے اور بالآخر اس خط کو پھاڑ کر اخبار  Comradeنکال لیا جاتا ہے۔
  • مولانا جوہر، ترکی کے خلاف انگریزوں کی جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس جنگ میں مسلمان فوجیوں کی شرکت کو حرام قرار دے رہے ہیں۔ اس حق گوئی پر حکومت گرفتار کرلیتی ہے۔ خالق دینا ہال، کراچی میں بغاوت کا مقدمہ چلتا ہے لیکن قوم کا عزم ملاحظہ ہو کہ مولانا کی ۶جولائی ۱۹۲۱ء والی تقریر ، جس پرستمبر۱۹۲۱ء میں سات سال کی قید سنا دی گئی۔ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۱ء کو ملک کے ہر گوشے میں اسی عزم کو دُہرایا جاتا ہے کہ:

گر اِک چراغِ حقیقت کو گل کیا تم نے

تو موجِ دود سے صد آفتاب اُبھریں گے

  •  خلافت اور عدم تعاون کی تحریک میں لاکھوں افراد جیلوں میں جاتے ہیں اور کروڑوں روپے کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔
  •  ترکِ موالات کی تحریک اُٹھتی ہے تو ۲۰ہزار مسلمان بے سروسامانی کے عالم میں ہندستان کو چھوڑ کر افغانستان ہجرت کرتے ہیں۔
  •  ’رولٹ ایکٹ‘ پاس ہوتا ہے تو ملک کے گوشے گوشے سے اس کی مخالفت کا اعلان ہوتا ہے اور لوگ اپنے خون سے اس اعلانِ بغاوت پر دستخط کرتے ہیں۔
  •  ’سائمن کمیشن‘ آتا ہے{ FR 879 } تو سارے ملک میں کالی جھنڈیوں سے اور ’سائمن گوبیک‘ کے نعروں سے اس کا استقبال ہوتا ہے۔

ایک وہ بھی اسپیکر تھے!

سرکار پرستوں میں سے بھی کچھ کا ضمیر جاگتا ہے، ان کو بے چین کردیتا ہے اور وہ اپنے خطابات واپس کردیتے ہیں، عہدے چھوڑ دیتے ہیں اور میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھیے کہ مرکزی اسمبلی کے پہلے غیرسرکاری اسپیکرو ٹھل بھائی پٹیل نے ۱۹۳۰ء میں مستعفی ہوکر وائسراے کو لکھا:

میرے ہم وطن اس وقت موت اور زندگی کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ ملک کے سیکڑوں نام وَر لوگ جیلوں میں قید ہیں۔ ہزاروں اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں اور لاکھوں ایسے ہیں جو اس زبردست تحریک کی خاطر زندان کی کال کوٹھڑی میں جانے کو بخوشی آمادہ ہیں۔ جہادِ حُریت کی تاریخ کے اس نازک موقعے پر میرا یہ کام نہیں کہ اسمبلی کی کرسیِ صدارت پر بیٹھا رہوں، بلکہ میرا فرض یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے پہلو بہ پہلو آزادیِ وطن کی جنگ میں حصہ لوں۔

بھگت سنگھ [۱۹۰۷ء-۲۳ مارچ ۱۹۳۱ء] اور اس کے ساتھی سنٹرل جیل لاہور میں جس وقت مقدمے کی کارروائی کے دوران خوش الحانی کے ساتھ یہ ترانہ گاتے تھے کہ:

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوے قاتل میں ہے

تو اس ترانے سے کمرئہ عدالت ہی نہیں، پوری جیل کی فضا بدل جاتی تھی۔ جوش، تہور اور ایثار و سرفروشی کی چنگاریاں سنٹرل جیل کی دیواروں کو چیر کر نوجوانوں کو آتش بجاں اور شعلۂ بداماں کر دیتی تھیں۔ کونے کونے سے آزادی کے ترانے سنائی دیتے تھے ، کوڑے پڑتے تھے ،   بَید لگتے تھے لیکن زبان سے یہی نغمے ارتعاش پیدا کرتے تھے۔

مَیں جیل اور گولی کے لیے تیار ہوں!

علّامہ محمد اقبال جن کی امن پسندی اور طبیعت کی خاموشی ضرب المثل تھی، وہ بھی ان حالات میں سرفروشی کے جذبے سے اس قدر سرشار تھے کہ قائداعظم کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ذاتی طور پر مَیں ایک ایسے مسئلے کی خاطر جس کا تعلق اسلام اور ہندستان سے ہے، جیل جانے کو تیار ہوں۔

علّامہ اقبال دوسال سے صاحب ِ فراش تھے، سرگرم سماجی زندگی معطل تھی اورعملاً ہل جل نہیں سکتے تھے۔ لیکن مسجد شہید گنج کے واقعے پر ان کی طبیعت میں شدید بے چینی اور اشتعال تھا۔  وفات سے تین ماہ قبل ۲۶جنوری ۱۹۳۸ء کو ہائی کورٹ کے فل بنچ نے مسجد شہید گنج کی اپیل خارج کر دی تو مسلمانوں میں سخت ہیجان پیدا ہوگیا۔ اسی شام غلام رسول خاں نے ڈاکٹر محمداقبال کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ: ’’اب کیا کرنا چاہیے تو ڈاکٹرصاحب رو پڑے اور کہنے لگے:

مجھ سے کیا پوچھتے ہو میری چارپائی کو اپنے کندھوں پر اُٹھائو اور اس طرف لے چلو جدھر مسلمان جارہے ہیں۔ اگر گولی چلی تو میں ان کے ساتھ مروں گا۔{

اندھیرا چھٹتا ہـے!

انھی جاں فروشوں کے جہد ِ مسلسل، قربانیوں اور خون سے تحریک ِ آزادی اور تحریک ِ پاکستان کے چراغ روشن ہوئے، اور دُنیا کے نقشے پر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان وجود میں آیا۔ خلوص اور جذبۂ قربانی کے ان چراغوں کی گرمی نے غلامی اور استبداد کی زنجیروں کو پگھلا دیا۔ ظلم کی تلوار کو حق کے لیے جاں بازی کے اخلاقی ہتھیار نے کاٹ کر رکھ دیا۔

ظلم و استبداد بظاہر کتنے ہی مرعوب کن کیوں نہ ہوں، بہ باطن بہت کمزور ہوتے ہیں اور اہلِ حق جب مقابلے پر ڈٹ جاتے ہیں تو اربابِ ظلم بہت جلد ہمت چھوڑ دیتے ہیں۔ آہنی حصار تارِ عنکبوت ثابت ہوتے ہیں اور بظاہر کمزور اہلِ حق کے خلوص، عزم اور قربانی کے ریلے میں اس طرح بہہ جاتے ہیں، جس طرح سیلاب میں خس و خاشاک۔ یہی فطرت کا قانون ہے، یہی اللہ کی سنت ہے، یہی تاریخ کا سبق ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اللہ کی زمین ظلم و فساد سے بھر جائے:

کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ O وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ O فَھَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ قف وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ ط وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لا  لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ  O (البقرہ ۲:۲۴۹-۲۵۱) بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنےوالوں کا ساتھی ہے۔ اور جب وہ جالوت اور اُس کے لشکروں کے مقابلے پر نکلے، تو انھوں نے دُعا کی: ’’اے ہمارے ربّ! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔ آخرکار   اللہ کے اذن سے اُنھوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داوٗد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اُسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا، اُس کو علم دیا___ اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑجاتا، لیکن دُنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اس طرح دفعِ فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)۔

مسئلہ فلسطین اور خاص طور پر بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ۶دسمبر ۲۰۱۷ء کا شرم ناک اعلان، جہاں فلسطین اور عالمِ اسلام کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کی حیثیت رکھتا ہے، وہیں بین الاقوامی قانون، جنیوا معاہدات (جنیوا کنونشن) اور اقوامِ متحدہ اور    اس کے چارٹر سے بھی عملاً امریکا کی لاتعلقی کا اعلان ہے۔ فکری اور عملی، ہردواعتبار سے اس کے بڑے دُور رس اثرات ہیں جن کو سمجھنا اور ان کے شرسے بچنے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی اور لائحۂ عمل بنانا وقت کا اصل چیلنج ہے۔ 
عالمِ اسلام کے لیے خاص طور پر اور عالمی برادری کے لیے عام طور پر، اس ضمن میں افسوس اور غصے کا اظہار بالکل فطری چیز ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خطرناک اعلان کے جو تباہ کن اثرات اور نتائج و عواقب (consequences) ہیں، ان کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس سلسلے کے چند اہم ترین پہلوئوں کی نشان دہی کریں اور مسلم اُمت اور عالمی برادری کو اس طرف متوجہ کریں کہ امریکا کی موجودہ قیادت، قیامت کی جو چال چل گئی ہے، اس کا کس طرح مقابلہ کیا جائے؟
درحقیقت صدر ٹرمپ سے بالکل ایسی ہی عاقبت نااندیشی، حماقت اور سفاکی کے اقدام کا خطرہ تھا، اس لیے یہ بیان کسی پہلو سے بھی غیرمتوقع نہیں ہے۔ جو اہلِ قلم ، دانش ور اور سیاست دان اس سے کسی بھلے اقدام کی توقع رکھتے تھے یا سمجھتے تھے کہ عالمی سوپرپاور کا صدر اتنا غیرذمہ دار نہیں ہوسکتا، وہ صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے اصل ایجنڈے کا اِدراک ہی نہیں رکھتے اور نوشتۂ دیوار کو پڑھنے میں غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اسرائیل اور شرقِ اوسط کے بارے میں صدر ٹرمپ کے اصل بھروسے کے لوگوں میں تین افراد بہت اہم ہیں: ۱- جیسن گرین بی لاٹ (صدر ٹرمپ کے ڈپلومیٹک ایڈوائزر)،۲- ڈیوڈ فریڈمین (اسرائیل میں امریکا کے سفیر اور ایک مدت سے سرزمینِ فلسطین پر صہیونی آبادکاری کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے)، ۳- جارید کشنر (موصوف کے داماد، نیتن یاہو کے وفادار اور صدر امریکا کے دست ِ راست)۔ یہ تثلیث مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ایک خطرناک منصوبے پر کاربند ہے۔

نیا صہیونی منصوبہ

اس منصوبے کے مطابق شرقِ اوسط میں سُنّی اور شیعہ تصادم کا فروغ، اسرائیلی اور ’سُنّی اسلام‘ کا متحدہ محاذ، فلسطین کی آزاد ریاست کے تصور کو دفن کر کے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارالحکومت بنانا اور فلسطینیوں کے لیے ایک ایسی بے معنی ضمنی ریاست کا قیام جو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں پر مشتمل ہو، جس کی کوئی مستقل فوج نہ ہو، جس کا دارالحکومت بیت المقدس سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر ایک گائوں ابودیس (Abu Dis) ہو، اور جو ایسی کٹی پھٹی، لولی لنگڑی اور کمزور (نام نہاد) ریاست ہو، جو معاشی طور پر کبھی خودکفیل نہ ہوسکے اور جو ہمیشہ مالی اعتبار سے امریکا اور چند دوسرے ممالک پر منحصر رہے۔ 
اس شیطانی منصوبے کے لیے امریکا اور اسرائیل نے جو لائحۂ عمل بنایا ہے اور امریکی اخبارات کے مطابق جس کے سلسلے میں کچھ عرب ممالک کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے، اسے ۲۰۱۸ء کے شروع میں ارضِ فلسطین پر مسلط کرنے کا پروگرام ہے۔ اس اصل پروگرام کے پیش خیمہ کے طور پر ہی ۶دسمبر کا اعلان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی  بیت المقدس میں منتقلی کے بارے میں ۱۹۹۵ء کا جو امریکی قانون ہے، اس کے تحت ہر چھے مہینے گزرنے پر صدر کو سفارت خانہ منتقل نہ کرنے کے لیے مزید مہلت کی دستاویز پر دستخط کرنا پڑتے ہیں اور اس مشق پر ۲۲سال سے عمل ہورہا تھا۔ اسی تسلسل میں خود صدر ٹرمپ نے جون ۲۰۱۷ء میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ اب اس روش کو تبدیل کرکے نئے منصوبے کی طرف پیش رفت کے لیے سفارت خانے کی منتقلی کا لائحہ عمل دینا مطلوب ہے۔
ٹرمپ اور اس کے حواریوں کا خیال تھا کہ یہ پہلا قدم، مختصر نمایشی احتجاج کے ساتھ قبول کرلیا جائے گا اور پھر جنوری/فروری ۲۰۱۸ء میں پورے منصوبے کا اعلان ہوگا۔ لیکن صدر ٹرمپ اور اسرائیل کا یہ خطرناک کھیل پہلے ہی قدم پر زمین بوس ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسے فلسطینیوں،  اُمت مسلمہ اور عالمی برادری کی بڑی اکثریت نے جارحانہ اقدام اور ’ریڈلائن‘ کو روندنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اس اعلان کو عملاً بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے اور اسرائیلی جارحیت کو  سند ِ جواز فراہم کرنے کی جارحانہ کارروائی قرار دیا، نیز فلسطین اور اُمت مسلمہ نے اسے اقدامِ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ مزیدبرآں اقوامِ متحدہ میں امریکا کو منہ کی کھانا پڑی۔ ساری دھونس، دھمکی اور سامراجی فرعونیت کے اظہار کے باوجود،سلامتی کونسل میں امریکا بالکل تنہا رہ گیا اور باقی چودہ کے چودہ ارکان نے اس اقدام کو غلط، غیرقانونی اور ناقابلِ قبول قرار دیا، البتہ امریکی ’ویٹو‘ (حقِ استرداد)کی وجہ سے قرارداد نامنظور ہوگئی۔ اس کے جواب میں جنرل اسمبلی نے ۹ کے مقابلے میں ۱۲۸ووٹوں کی اکثریت سے امریکا کے اس اقدام کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے باطل اور بے اثر (null and void)  قرار دیا، جو امریکا کے منہ پر ایک بھرپور طمانچا ہے۔ عرب لیگ نے کمزور الفاظ میں،  جب کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) نے استنبول میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں دوٹوک الفاظ میں اسے رد کر دیا۔
 عیسائی دُنیا کے اہم ترین اداروں اور شخصیات بشمول رومن کیتھولک سربراہ پوپ فرانسس، گریک آرتھوڈوکس کے سربراہ پیٹریارک تھیوفیلوس سوم اور مصر کے قبطی چرچ کے سربراہ نے نہ صرف اس کی مذمت کی، بلکہ امریکی نائب صدر سے ملنے سے بھی اسی طرح انکار کر دیا، جس طرح فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمودعباس نے انکار کیا ہے۔ فلسطین کی عیسائی قیادت نے بھی اس اقدام کو تسلیم کرنے سے صاف لفظوں میں انکار کر دیا۔ یروشلم کے آرچ بشپ عطالاحنا کے الفاظ ہیں: ’’ہم فلسطینی، مسیحی اور مسلمان، امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں‘‘۔
مسلم اُمت نے پوری یک جہتی سے اور عالمی برادری کی عظیم اکثریت نے امریکا کے اس جارحانہ قدم کو رد کیا ہے۔ الحمدللہ، یہ اقدام بیداری کی ایک سبیل (wake up call) بن گیا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ امریکا اور اسرائیل کے ہاتھوں مسئلہ فلسطین کوتتربتر( liquidate ) کرنے کے منصوبے کو خاک میں ملانے اور اس کے خلاف صف آرا ہونے کی تحریک کو قوت اور تحرک عطا کرنے کا باعث ہوگا۔ انسان کیا سوچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کیا ہوتی ہے؟

فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًاO (النساء ۴:۱۹) ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔

مسئلہ فلسطین، بنیادی حقائق

یہاں چند بنیادی حقائق بہت ہی اختصار کے ساتھ پیش نظر رہیں، تاکہ درپیش چیلنج کی وسعت اور حقیقی نوعیت کو بہتر طورپر سمجھا جاسکے اور آگے کی حکمت عملی کے خدوخال طے کیے جاسکیں:

  • ارضِ فلسطین سےقلبی تعلق ایک چیز ہے اور ارضِ فلسطین پر اقتدار اور اس کے نظمِ مملکت پر اختیار بالکل دوسری چیز۔ ابوالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُمت کی ہر شاخ کا ارضِ فلسطین سے تعلق ہے اور اس کا احترام صرف سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ حق و انصاف کا تقاضا ہے۔ اس پہلو سے یہودی، عیسائی اور مسلمان اپنی اپنی وجوہ سے جو جذبات رکھتے ہیں، ان کا احترام ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے پورے دورِ اقتدار میں اس کا قرار واقعی احترام و اہتمام کیا۔ جہاں یہودیوں کے عیسائیوں پر اور عیسائیوں کے یہودیوں پر مظالم، تاریخ کا کرب ناک حصہ ہیں، وہیں مسلمانوں نے احترامِ حقوق اور رواداری کی جو مثالیں قائم کی ہیں، وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے اور دوست اور دشمن اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ 

بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور بنی اسرائیل کی نافرمانیاں نہ صرف تاریخ کا حصہ ہیں بلکہ خود ان کی مقدس کتب اور قرآنِ پاک ان پر شاہدہیں۔ بنی اسرائیل کو ارضِ فلسطین پر کم از کم گذشتہ دوہزار سال میں کبھی اقتدار حاصل نہیں رہا اور ان کا یہ دعویٰ کہ: ’’یروشلم تین ہزار سال سے ان کا دارالحکومت ہے‘‘، اور صدرٹرمپ کا اسے ایک حقیقت (reality) کے طور پر پیش کرنا تاریخی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔ صہیونی تحریک ایک سیکولر، خالص سیاسی اور اپنی اصل کے اعتبار سے سامراجی تحریک ہے، جس نے مذہب کی اصطلاحات اور جذبات کو استعمال کیا ہے اور آج کے منظرنامے کو سمجھنے کے لیے اس پہلو کی تفہیم ضروری ہے۔ 

مسلمانوں کے ۱۳سو سالہ دورِ حکومت میں، ارضِ فلسطین میں جو یہودی بھی آباد تھے وہ ریاست کے شہریوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں جب صہیونی تحریک نے ارضِ فلسطین میں دَراندازی شروع کی، تو فلسطین کے مسلمان ہی نہیں، وہاں کے نسلاً بعد نسلاً رہنے والے یہودی بھی اس کے مخالف تھے۔ ہماری اس گزارش کا مقصد بھی دو اُمور کی وضاحت ہے: ایک یہ کہ ارضِ فلسطین پر یہودیوں کا وجود نہ کبھی مسئلہ تھا اور نہ آج کوئی قضیہ ہے۔ دوسرا یہ کہ فطری انداز میں انتقالِ آبادی پر بھی کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔ لیکن صہیونی تحریک نے سامراجی انداز میں، قوت اور دولت کی بنیاد پر پہلے دولت ِ عثمانیہ کی قیادت کو رشوت کی پیش کش کی گئی، لیکن وہ قبول نہ کی گئی، پھر سلطنت ِ عثمانیہ کے خلاف سازشیں کیں، اور بعدازاں ارضِ فلسطین پر فرانسیسی اور برطانوی سامراج کے قبضے کے بعد ان کی سرپرستی میں ایسی منظم انتقالِ آبادی کی، جس نے فلسطین میں آبادی کے تناسب (demographic composition ) کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد یہ افسانہ وضع کیاکہ: ’’فلسطین ، وہ سرزمین ہے جہاں انسان نہیں ہیں، اور یہودی وہ قوم ہیں جنھیں زمین میسر نہیں‘‘___ دراصل یہ حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے کہ فلسطین کی آبادکاری اور بازیافت یہودیوں کا تاریخی مشن ہے۔ یہ صریح جھوٹ ہے جس کا پردہ چاک ہونا چاہیے۔ ۱۹۱۷ء میں اعلانِ بالفور کے وقت فلسطین کی آبادی ۸لاکھ افراد سے زیادہ تھی ، جب کہ  کُل یہودی ۵۳ہزار کے قریب تھے، اس طرح یہود، کُل آبادی کا ساڑھے تین فی صد تھے.

  • اسرائیل کا قیام کسی حق خود ارادیت (Right of Self-determination) کی بنیاد پر نہیں ہوا۔ ۱۹۴۷ء میں بھی جب برطانیہ کا مینڈیٹ ختم ہورہا تھا اور اس نے اقوامِ متحدہ میں آیندہ کے بندوبست کا مسئلہ پیش کیا، تو بھی تمام دھونس دھاندلی کے باوجود، یہودیوں کی تعداد فلسطین کی  کُل آبادی کا ۱۰فی صد سے زیادہ نہ تھی۔ اسرائیل دنیا کی واحد ریاست ہے جو قومیت کی بنیاد پر،یا حق خود ارادیت کی بنیاد پر قائم نہیں ہوئی، بلکہ غیرفطری انداز میں ایک Settler State (وضع کردہ ریاست) کے طور پر صرف اور صرف برطانوی استعمار کی سرپرستی اورمنصوبہ بندی (engineering) کے ساتھ،اور امریکا اور عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے وجود میں آئی۔ اصل منصوبے میں اسرائیل کی ریاست کو فلسطین کی آبادی کے ۱۰فی صد یہودیوں کے لیے ارضِ فلسطین کا ۵۱ فی صد دیا گیا اور بیت المقدس (یروشلم) کو عالمی انتظام کے تحت رکھا گیا۔

عرب ممالک کی کمزوری اور اہلِ فلسطین سے بے وفائی کے نتیجے میں، ۱۹۴۵ء-۱۹۴۷ء کی جنگ کے دوران اسرائیل نے ارضِ فلسطین کے ۷۵ فی صد حصے پر قبضہ کرلیا۔ پھر جون ۱۹۶۷ء کی جنگ کے نتیجے میں پوری ارضِ فلسطین اور اس کے علاوہ سطح مرتفع گولان (Golan Heights) اور صحراے سینا کے پورے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح علمِ سیاست کی اصطلاح میں اسرائیل متعین سرحدیں رکھنے والی ریاست نہیں ہے، بلکہ یہ قابض اور وضع کردہ جارح ریاست ہے۔

  • اسرائیل کے قیام اور بین الاقوامی قانون کی رُو سے اس کے ایک’جائز‘ ریاست ہونے کی بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ صرف اقوامِ متحدہ کی ایک ایسی قرارداد ہے، جسے امریکا نے بڑی چابک دستی، دھونس اور اپنے اثرونفوذ کے بے جا استعمال سے منظور کروایا تھا۔ اس ’جائز‘ بنیاد کی حقیقت یہ ہے کہ اس قرارداد کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہورہی تھی۔ ووٹنگ کو غیراخلاقی طور پر مؤخر کرایا گیا۔ تین دن کے بعد لاطینی امریکا کی چند امریکی باج گزار ریاستوں کے ووٹ حاصل کرکے نام نہاد منظوری حاصل کی گئی۔ 
  • اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل کونسل نے ۱۹۴۶ء سے لے کر آج تک مسئلہ فلسطین کے بارے میں سو سے زیادہ قراردادیں منظور کی ہیں اور جون ۱۹۶۷ء کے پورے ارضِ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے بعد جنرل اسمبلی ہی نہیں سلامتی کونسل نے بھی متفقہ طور پر جن اُمور کا بار بار اعادہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’جنگ میں قوت کے ذریعے سے جو علاقے قبضے میں کیے گئے ہیں، وہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں، اور اسرائیل اور فلطین کی دو آزاد مملکتوں کا اپنی اپنی متعین سرحدی حدود میں قیام ابھی ہونا باقی ہے‘‘۔ ۲۲نومبر ۱۹۶۷ء کی قرارداد (نمبر۲۴۲) صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ: ’’اسرائیل کے لیے لازم ہے کہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں جو بھی علاقے اس نے اپنے قبضے میں لیے ہیں بشمول مشرقی یروشلم، ان سے اپنی افواج واپس بلائے‘‘۔ اس کے بعد آٹھ قراردادوں میں ذرا مختلف الفاظ میں، مگر اسی اصول اور اس کے تقاضوں کا اعادہ کیا گیا ہے۔{ FR 1091 } مگر اسرائیل کی استعماری، جارحانہ اور باغیانہ روش میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اسرائیل نے ۱۹۸۰ء میں مشرقی یروشلم کے بارے میں ایک قانون منظور کیا، جس میں مغربی یروشلم کو ضم کرنے اور پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا جس پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۲۰؍اگست ۱۹۸۰ء کو ایک اہم قرارداد (نمبر۴۷۵) جو تمام ممالک پر قانونی طور پر لازمی تھی، منظور کی۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ تاہم،امریکا نے اس میں ووٹ نہیں دیا لیکن اسے ویٹو بھی نہیں کیا۔ 

طرفہ تماشا دیکھیے کہ صدر ٹرمپ نے اس قرارداد اور اس کے بعد کی قراردادوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ۶دسمبر کا اعلان کیا ہے، جو صریح طور پر بین الاقوامی قانون، اقوامِ متحدہ کے واضح قانونی اور قابلِ تنفیذ احکام اور خود امریکا کی اپنی قبول کردہ پالیسی کے خلاف ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا خلاصہ یہ ہے:

  • کہ اسرائیل کے یروشلم پر [اپنے] ’بنیادی قانون‘ کے نفاذ اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد سے انکار پرشدید لفظوں میں سخت مذمت کی جاتی ہے۔ 
  • کہ اسرائیل کے ’بنیادی قانون‘ کا نفاذ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
  • یہ تعین کرتی ہے کہ اسرائیل کے ان تمام انتظامی اقدامات اور اختیارات کو، جو مقدس شہر یروشلم کی حیثیت کو تبدیل کر رہے ہیں، انھیں لازماً مسترد کیا جائے۔
  • کہ یہ اقدام شرقِ اوسط میں جامع، منصفانہ اور دیرپا امن کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کردیتا ہے۔
  • کہ جن ممالک نے یروشلم میں سفارتی وفود بھیج دیے ہیں، اس مقدس شہر سے وہ اُنھیں واپس بلا لیں۔

قرارداد کے یہ پانچوں نکات بہت واضح (incisive) اور قطعی (categorical) ہیں۔ امریکی صدر نے ۶دسمبر کے اعلان کے ذریعے ان سب کی خلاف ورزی کی ہے، جس سے امریکا اقوامِ متحدہ ہی نہیں عالمی قانون اور پوری عالمی برادری کی عدالت میں ایک مجرم بن گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے اس اعلان کے بعد اپنی ۱۹۸۰ء کی قرارداد کا اعادہ  کیا ہے، اور جنرل اسمبلی نے ۲۱دسمبر ۲۰۱۷ء کو ۹ کے مقابلے میں ۱۲۸ ووٹوں کی اکثریت سے امریکی اقدام کی جو مذمت کی ہے اور اسے غلط اور غیرقانونی قراردیا ہے، وہ اسی پوزیشن کا تازہ ترین اظہار و اعلان ہے۔

امریکی پالیسی کے مضمرات

ان گزارشات کی روشنی میں اگر امریکی صدر کے اس اعلان کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل اُمور واضح ہوتے ہیں:

  • یہ بات کہ ’’یروشلم اسرائیل کا ۳ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے‘‘___ محض ایک ذہنی خلل ، تاریخ کے ساتھ ایک بے ہودہ مذاق اور صریح جھوٹ کی بنیاد پر پالیسی سازی کی مکروہ مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۳ ہزارسال کی بات کو چھوڑیے اسرائیل کا تو یہ دعویٰ بھی قانونی، سیاسی اور اخلاقی، ہراعتبار سے بے بنیاد ہے کہ ۱۹۶۷ء کے بعد سے یروشلم اس کا دارالحکومت ہے۔ صدرٹرمپ کا اسے ’حقیقت‘ اور ’امرواقعہ‘ (reality) کہنا تاریخی غلط بیانی اورعالمِ انسانیت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
  • دوسری بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ خارجہ پالیسی اور عالمی معاملات کو طے کرنے کی بنیاد: اصول اور قومی مفاد تو ہوسکتے ہیں، محض اَمرِواقعہ نہیں ہوسکتے۔اس دُنیا میں ظلم، بے انصافی، جھوٹ، چوری، دغا، بدعنوانی کون سی بُرائی ہے جو حقیقت نہیں؟ کیا محض حقیقت ہونےسے وہ صحیح اور جائز اور مطلوب بھی بن جاتی ہیں؟ یہ کج فہمی اور خلط مبحث کی ایک شرم ناک مثال ہے۔
  • صدر ٹرمپ نے اسے ’امریکا کی پالیسیوں کا تسلسل‘ بھی کہا ہے، حالاں کہ اقوامِ متحدہ کی مذکورہ بالا تمام ہی قراردادوں کو امریکا نے قبول کیا اور کبھی ان سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا۔   اس طرح صدرٹرمپ کا یہ دعویٰ بھی صداقت کے منافی ہے۔
  • صدر ٹرمپ کے اس اعلان نے بین الاقوامی قانون، جنیوا کے معاہدات، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی راے عامہ، سب کی خلاف ورزی کی ہے اور دُنیا میں امریکا کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ راےعامہ کے تمام اہم جائزے بشمول گیلپ اور پیو(PEW) جو امریکی ادارے ہیں، کم از کم تین عشروں سے یہ تصویر پیش کر رہے ہیں کہ اسرائیل اور بھارت کے سوا دنیا کے تمام ہی ممالک میں امریکا کے خلاف نفرت اور اس سے بے زاری کے جذبات بڑھ رہے ہیں، اور آدھے سے زیادہ ممالک میں جو دنیا کی آبادی کا ۷۰،۸۰فی صد ہے، یہ بے زاری آبادی کی اکثریت میں پائی جاتی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس اعلان نے بلاشبہہ اس بے زاری میں اضافہ کیا ہے۔ کیا صدر ٹرمپ یہ سوچنے کی زحمت گوارا کریں گے کہ وہ اپنے اس اقدام سے امریکا کی ساکھ اور خیرسگالی میں عالمی سطح پر کوئی اضافہ کر رہے ہیں یا اسے نقصان پہنچا رہے ہیں؟ محض اسرائیل کی خوشنودی اور امریکا کی صہیونی لابی اور ایونجلیکل کنزرویٹوو عیسائیوں کو خوش کرنے کےلیے ان کا    یہ فعل اور اسی قسم کے دوسرے اقدامات امریکا کی کون سی خدمت ہیں؟

اقوامِ متحدہ کے ارکان کو ڈرانے، دھمکانے اور امداد کی چھڑی استعمال کرنے کے جو بھونڈے ہتھکنڈے انھوں نے خود اور ان کی بھارتی النسل اقوام متحدہ میں مستقل نمایندہ ’نِکی ہیلی‘ نے استعمال کیے ہیں، اس سے امریکا کے چہرے سے وہ نقاب اُترگئی، جو اس کے بدنما داغوں کو ڈھانپے ہوئے تھی۔امریکا نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے لیے اپنی مالی اعانت میں ۲۸کروڑ ۵۰لاکھ ڈالر کی کٹوتی کرے گا اور خلاف ووٹ دینے والے ممالک کو بھی بیرونی امداد بندکرنے یا کم کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ 
بین الاقوامی مسائل کے بارے میں اپنے تعصبات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے مالی ہتھیار کا اس طرح استعمال امریکا کی خارجہ پالیسی اور اس کے اندازِ حکمرانی کی بڑی مکروہ شکل پیش کرتا ہے، اور معاشی ترقی اور انسانی ہمدردی کے تمام دعوئوں کی قلعی کھول دیتا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس کا بڑا مؤثر جواب دیا ہے کہ: ’’ہماری راے اور عزت کوئی قابلِ فروخت شے نہیں ہے‘‘، اور دولت کے بھروسے پر ضمیر خریدنے کا یہ کاروبار کسی بھی قوم کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔ امریکی صدر، امریکا کے چہرے کو اور بھی داغ دار کررہے ہیں۔ 
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار رک گلیڈسٹون اور مارک لینڈلرنے ۲۲دسمبر کی اشاعت میں اسے اقوامِ عالم کی طرف سے امریکا کے لیے ایک واضح سرزنش اور ملامت (rebuke) قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ دنیا کی اقوام نے امریکا کی دھمکیوں کو کوئی وقعت نہیں دی۔ کالم نگاروں نے اس پورے عمل کو صدرٹرمپ کے لیے ایک شکست خوردگی (setback)  بھی کہا ہے۔

  • عالمی سطح پر بھی ردعمل بحیثیت مجموعی منفی رہا ہے اور امریکا کے اپنے اتحادیوں کی   بڑی تعداد نے صدرٹرمپ کے اس اقدام کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ کسی قسم کے دبائو میں آنے سے انکار کر دیا ہے، جو ایک مثبت علامت ہے۔ قابلِ ذکر ممالک میں سے زیادہ سے زیادہ چار پانچ ہیں، جنھوں نے امریکا کے خلاف ووٹ سے اجتناب کیا ہے ،مگر اس کے حق میں ووٹ انھوں نے بھی نہیں دیا۔ امریکا کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح کچھ مسلم اور عرب ممالک اس کاساتھ دے دیں ،یا کم از کم اس کے خلاف ووٹ نہ دیں، لیکن اس مقصد میں بھی اسے ناکامی ہوئی اور تمام مسلم ممالک نے بلااستثنا مذمتی قرارداد کے حق میں اور امریکا کے خلاف ووٹ دیا۔ 

اسی طرح امریکا کے اہم اخبارات اور دانش وروں اور سابقہ پالیسی سازوں کی ایک تعداد نے اس فیصلے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ Congressional Progressive Caucus کے سربراہ نے اس اقدام کو امریکا کے مفاد سے متصادم اور علاقے میں امن کے قیام کی کوششوں کی راہ میں مشکلات کے اضافے کا باعث قرار دیا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا سروے وہ ہے، جو امریکی یہودیوں کے ایک نمایندہ ادارے Global Jewish Advocacy  (AJC) نے ستمبر ۲۰۱۷ء میں کروایا تھا، اور جس کے مطابق اس اقدام سے پہلے، متوقع راے عامہ کو معلوم کرنے والے اس جائزے کی رُو سے ۴۴فی صد امریکی یہودیوں کا خیال ہے کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل نہیں ہونا چاہیے۔۳۶ فی صد کا خیال ہے کہ اگر اسے منتقل کرنا ہی ہے تو یہ مسئلۂ فلسطین کے بارے امن مذاکرات کے حصے کے طور پر ہونا چاہیے، اور صرف ۱۶ فی صد اس راے کے حامی ہیں کہ اسے منتقل کر دینا چاہیے۔ اسی طرح دوامریکی یونی ورسٹیوں کے زیراہتمام کیے جانے والے سروے میں، عام امریکیوں کی راے کے مطابق ۶۱فی صد کے نزدیک منتقلی درست نہیں۔ اگرامریکی راے عامہ کے رجحانات کے بارے میں یہ سروے درست ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خود امریکا میں اس سلسلے میں مؤثر مزاحمتی تحریک کو فروغ دینے کے بارے میں امکانات خاصے روشن ہیں۔ (میڈابنجمن، ایریل گولڈ: Where are the Democrats?   ، [ commondreams.org]بحوالہ دی نیوز، ۱۴دسمبر۱۷ء)
سی این این کے انٹرنیشنل ڈپلومیٹک ایڈیٹر نِک روبرٹسن نے بھی ۱۰دسمبر ۲۰۱۷ء کو ادارے کی ویب پر شائع کردہ مضمون: Trump has to Live with the Consequences of his Israel Decision میں فلسطین کے عوام اور سفارتی حلقوں دونوں کے ردعمل کی روشنی میں اس راے کا اظہار کیا ہے کہ: ’’ٹرمپ نے اس وقت اس مسئلے کو چھیڑ کر بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے اور امریکا کے لیے اس کے اثرات مضر ہوں گے‘‘۔

بیداری کی نئی لہر اور تقاضے

حالات اور رجحانات کے اس جائزے کی روشنی میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ امریکی صدر کے اس اقدام کے اثرات محض وقتی نہیں ہوں گے بلکہ بڑے دُور رس ہوں گے۔ بحیثیت مجموعی اس سے امریکا کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے دوستوں میں کمی آئے گی اور مخالفت میں اضافہ ہوگا۔ ویسے بھی دنیا کے حالات بدل رہے ہیں۔ امریکا گو اب بھی دنیا کی اہم ترین عسکری اور سیاسی قوت ہے، لیکن گذشتہ ۲۰برسوں میں اس کی قوت اور اثرات میں کمی واقع ہوئی ہے، کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ 
روس کے ۱۹۹۰ء کے عالمی قوت کی حیثیت سے غیرمؤثر ہونے کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی تھی، اور اس کے فوراً بعد دوعشروں میں امریکا کے نہ صرف واحد سوپر پاور ہونے اور    اس حیثیت کو ۲۱ویں صدی میں بھی برقرار رکھنے کے لیے جو غوغا آرائی اور سخن سازی کی گئی تھی،   وہ پادر ہوا ہو رہی ہے۔ اس زمانے میں عوامی جمہوریہ چین نے غیرمعمولی ترقی کی ہے اور وہ دوسری عالمی قوت کی حیثیت سے اُ بھرا ہے۔ روس نے بھی گذشتہ ۱۰برسوں میں نئی کروٹ لی ہے۔ امریکا اور مغربی اقوام ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کے اثرات سے اب تک نہیں نکل سکے۔ صدرٹرمپ نے ’سب سے پہلے امریکا‘ عالم گیریت سے شدید بے زاری، دائیں بازو کے قوم پرستانہ خیالات و اہداف کی حوصلہ افزائی، تجارت میں داخلیت کی طرف جھکائو، اقوامِ متحدہ، یورپین یونین،ناٹو اور راے عامہ کے عالمی اداروں کے بارے میں سردمہری کا جو مظاہرہ کیا ہے، اس سے امریکا کے عالمی کردار کے محدود ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ یک قطبی (Unilateral) نظام سے کثیر قطبی (Multilateral)نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 
مسلم دُنیا خصوصیت سے شرقِ اوسط، معاشی اور سیاسی اعتبار سے کمزور ہورہا ہے۔ لیکن ترکی، ایران، انڈونیشیا اورملایشیا رُوبہ ترقی ہیں اور ان کا کردار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان اپنی بے پناہ استعداد (potential) کے باوجود اندرونی کمزوریوں اور خودشکنی کی وجہ سے اپنا صحیح مقام حاصل اور کردار ادا نہیں کرپا رہا۔ شام، عراق، افغانستان، لیبیا، یمن بُری طرح تباہ ہوچکے ہیں۔ مصر بھی وسائل اور امکانات کے باوجود، دوڑ میں نہ صرف بہت پیچھے بلکہ داخلی اعتبار سے   تباہ کن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ تیونس اور مراکش میں زندگی اور تبدیلی کے آثار ہیں۔ ان حالات میں سیاسی، عسکری اور معاشی، ہر میدان میں نئی صف بندی کی ضرورت ہے۔ 
صدرٹرمپ کے حالیہ اقدام کے منفی پہلو تو بے شمار ہیں، لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہوسکتے ہیں جن کی فکر کرنے کی ضرورت ہے:

  • پہلی اہم چیز مسئلہ فلسطین کا دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بن جانا ہے۔ یہ ردعمل اپنے اندر بڑے اہم امکانات رکھتا ہے اور فلسطین میں اور عالمی سطح پر مزاحمت اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کی تحریک کو نئی زندگی دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بڑے عرب ممالک کا ردعمل مایوس کن ہے، لیکن خود فلسطین اور اہلِ فلسطین کے ردعمل میں بڑی جان ہے۔ اسی طرح اُردن اور قطر نے مضبوط موقف اختیار کیا ہے۔ ترکی کا ردعمل سب سے مؤثر اور بلند آہنگ ہے۔ اصولی طور پر پاکستان کا حکومتی اور عوامی موقف بھی صحیح سمت میں ہے، گو اصل ضرورت اسے مستحکم کرنے اور اس کے فروغ کے لیے عالمی سطح پر مؤثرانداز میں ربط ضبط کی ہے۔ 
  • امریکا پر انحصار یا امریکا کے بارے میں خوش فہمی: دونوں تباہی کے راستے ہیں۔ لیکن    یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا ہو یا کوئی بھی اور ملک، جہاں متعین ایشوز پر مناسب ردعمل کا اظہار اَزبس ضروری ہے، وہیں رواں اور دیرپا پالیسیاں بنانے کا کام بڑی گہرائی، تسلسل اور بالغ نظری کا تقاضا کرتا ہے۔ 
  • رنج، خوف اور غصّے میں جو پالیسیاں بنتی ہیں وہ کبھی متوازن اور حقیقت پسندانہ نہیں ہوسکتیں۔مقاصد اور اہداف کا تعین بہت سوچ سمجھ کر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح وسائل اور ان کا صحیح استعمال بھی حقیقت پسندانہ انداز میں ضروری ہے۔ فوری اہداف اور دیرپا مقاصد کا فرق ملحوظ رکھنا اور اس فرق کی روشنی میں پالیسیاں بنانا بھی ضروری ہے۔ پالیسی سازی میں قومی مفاد کا صحیح صحیح تعین بے حد ضروری ہے۔ ذاتی اور گروہی مفادات کے تاریک سایوں سے ان کو محفوظ رکھنا کامیابی کی اوّلین شرط ہے۔ مشاورت اور قوم کو اعتماد میں لے کر قومی مقاصد اور عوامی جذبات دونوں میں توازن قائم کرتے ہوئے پالیسی بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ 
  • امریکا کے موجودہ اقدام سے ہمیں ایک تاریخی موقع ملا ہے کہ اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی اور پاکستان اور ترکی بالخصوص تمام حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیں اور ہمہ گیر پالیسی بنانے کی کوشش کریں۔ اس عمل کی تشکیل ہرسطح پر مشاورت سے ہو اور قومی اتفاق راے پیدا کرکے اس پر عمل کیا جائے۔ اسی طرح تمام ہم خیال ممالک کو مشاورت میں شریک کرنا اور مل جل کر اجتماعی پالیسی بنانا بھی ازبس ضروری ہے۔
  • صدر ٹرمپ کے اس اقدام نے نہ صرف امریکا سے بے زاری میں اضافہ کیا ہے بلکہ حالات کی تفہیم اور مسائل کے حل کے لیے بیداری کی نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ امریکا سے ربط ضبط (engagement ) حکمت کا تقاضا ہے۔ اختلاف اور احتجاج کے ساتھ افہام و تفہیم اور مذاکرات (dialogue)کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔ تاہم، یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کے اپنے مقاصد، مفادات ، ترجیحات اور مطالبات ہیں اور ہمارے اپنے مقاصد، ترجیحات اور مفادات۔ مثبت مشترکات میں تعاون کا باب کبھی بند نہیں ہونا چاہیے، مگر دھونس اور دبائو (dictation ) کے ذریعے جو پالیسی بنائی جاتی ہے، وہ کسی کے مفادات کی محافظ نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مطالبات اور دبائو کے تحت پالیسی بنائے جانے کے باب کو یکسر بند کردیا جائے۔ ’لالچ اور خوف‘ کے تحت بننے والی پالیسیاں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں، چند مسائل کے دیرپا اور مستقل حل کے باب میں ۔
  • اس کے لیے ضروری ہوگا کہ دست نگری کے چکّر سے نکلنے اور خودانحصاری کی راہ کو اختیار کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ دوستی دوستی رہے، وہ غلامی اور چاکری میں تبدیل نہ ہوجائے۔ اسی طرح اختلاف اور تصادم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اختلاف انسانی معاشرے کی ایک حقیقت ہے، لیکن اس کا اظہار اور اس کی روشنی میں صحیح رویوں کا اہتمام ناگزیر ہے، جب کہ جنگ و جدال کا رُوپ دھارنا کسی کے لیے بھی مفید و مطلوب نہیں ہوسکتا۔
  • ملک اور اُمت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان حدود کا صحیح صحیح تعین کرلے جن کے اندر  رہ کر معاملات کو طے کیا جاسکتا ہے۔ حدِفاصل کا تعین اور اس کا احترام بھی اتنا ہی ضروری ہے    جتنا مشترک مقاصد اور مفادات کے باب میں تعاون، افہام و تفہیم اور لین دین۔ پاکستان، فلسطین، مسلم دنیا اور عالمی برادری سبھی کو ان مسلّمات کی روشنی میں عملی اقدام کا اہتمام کرنا چاہیے۔ امریکا سے تعلق مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ سب سے اہم مسئلہ خود اپنے گھر کی اصلاح اور اپنے وسائل پر اپنا اختیار اور ان کا قومی مقاصد اور عوام کے بہترین مفاد میں استعمال ہے۔
  • اس تجزیے اور ان اصولی باتوں کی روشنی میں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیاہے، اس امر کی ضرورت ہے کہ مسئلہ فلسطین، اسرائیل کی حالیہ پوزیشن، امریکا کی پالیسی اور اسرائیل کی سرپرستی، فلسطینی قیادت اور تحریک ِ مزاحمت کی موجودہ صورتِ حال، عرب اور مسلم ممالک خصوصیت سے ان کی قربانیوں، ان کی قیادتوں کا رویہ، عرب اور مسلم عوام کے جذبات، احساسات اور جدوجہد کے عزائم اور امکانات کے ساتھ عالمی راے عامہ اور عالمی اداروں کے کردار کا جائزہ لیا جائے۔ اپنی کمزوریوں کا بھی ادراک ہو اور مقاصد کے حصول کے لیے کس کس میدان میں کس کس نوعیت کی جدوجہددرکار ہے، اس کی مناسب منصوبہ بندی بھی کی جائے۔ 

ہم اپنے قارئین کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنے خیالات اور نتائجِ فکر سے ادارے کو مطلع کریں اور ہماری بھی کوشش ہوگی کہ اپنی معروضات ان شاء اللہ مستقبل قریب میں  آپ کے اور اُمت مسلمہ کے غوروخوض کے لیے پیش کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین!
 

گذشتہ تین صدیوں میں انسانیت، مغرب کی زیر قیادت چار بڑے معاشی نظاموں کے تجربے سے گزری ہے: سرمایہ داری، سوشلزم [اشتراکیت]، قوم پرستانہ فاشزم اور فلاحی ریاست___ مغربی فکر سے جنم لینے والے ان تمام نظاموں کی اساس اس تصور پر استوار تھی کہ انسان کے معاشی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے، مذہب اور اخلاقیات کی چنداں ضرورت نہیں ہے، اور معاشی معاملات کا بہترین حل صرف معاشی رویوں اور سیاسی ضابطوں کے تحت تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ:

  •  سرمایہ داری نے اپنا فلک بوس محل: فرد کی بے قید آزادی، لامحدود نجی ملکیت کے اصول، اندھی طاقت سے لیس نفع بخش محرک اور منڈی کی شعبدہ کاری پر کھڑا کیا۔
  •  سوشلزم نے فرد کو ریاست کا بے جان پُرزہ بنا دیا اور سبھی کچھ قومی ملکیت میں لے لیا۔ سیاسی و سماجی عمل کو جکڑ دیا، غیرفطری انداز میں سماجی ترغیبات کو پروان چڑھایا، معیشت کو مرکزی منصوبہ بندی کے نظام میں کس دیا اور اسی اجتماعی عمل کو تمام مسائل کا حل سمجھ لیا۔
  •   فاشزم (قوم پرستانہ فسطائیت) نے قومی افرادی قوت اور ریاستی سرمایہ داری کو نسلی تفاخر، سیاسی قوت کے ارتکاز اور فوجی مہم جوئی کی آگ میں جھونک دیا۔
  •   فلاحی ریاست کا تصور سرمایہ داری اور اشتراکیت کے امتزاج سے محدود و متعین سماجی سہولتوں اور آسایشوں کے جلو میں مخلوط معیشت کا علَم بردار بنا۔

بلاشبہہ کچھ مخصوص میدانوں میں ان سب نے بعض نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، مگر اس کے باوجود یہ چاروں نظریات، حقائق کی دنیا میں انسانیت کے معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں قوم پرستانہ فاشزم سب سے پہلے ردی کی ٹوکری کی نذر ہوا۔   پھر اس کارگہِ حیات میں گرنے اور بکھرنے والا بت، سوشلزم ہے۔ بلاشبہہ دوسرے دونوں نظریات بظاہر ابھی تک صحت مند دکھائی دے رہے ہیں، لیکن غور سے دیکھا جائے تو اپنے باطن میں وہ بھی موت آفریں کش مکش میں مبتلا ہیں۔ غربت، بے روزگاری، افراطِ زر اور قرض کے ناقابلِ برداشت بوجھ نے ان کی چولیں ہلا رکھی ہیں اور کوئی تدبیر تاریخ کا رُخ بدلتی نظر نہیں آرہی۔ اہلِ نظر، اقبال کے   ہم نوا ’منتظر روزِ مکافات‘ ہیں:

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

دُنیا ہے تیری منتظر روزِ مکافات

ہمارے خیال میں یہ ایک غیر دانش مندانہ مفروضہ ہے کہ ’’سوشلزم کے انہدام سے سرمایہ داری اور فلاحی ریاستی تصور نے نہ صرف اپنا انتقام لے لیا ہے، بلکہ اب یہی ایک فاتح اور زندہ رہنے والے نظام کی حیثیت سے بقاے باہمی کی اس دوڑ میں باقی رہ گیا ہے‘‘۔ اور سرمایہ دارانہ جمہوری استعمار کی شیخی پر مبنی یہ غلط فہمی کہ سوویت یونین [یعنی سوشلسٹ روسی سلطنت اور نظریے]کے زوال نے گویا ’نظریاتی پیکار کی تاریخ کے خاتمے‘ کا اعلان کر دیا ہے، مغربی اہل دانش کے جذباتی طرزِ فکر کی غمازی کرتی ہے۔

یہ اَمرواقعہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام اور سوشلزم کے زوال نے بہت سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایسے سوالات کہ جن کا تعلق انسانیت کے نظریاتی و سماجی مستقبل سے ہے، مثلاً یہ کہ:

                ۱-            کیا سوشلزم کا خاتمہ درحقیقت مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور سیاسی لبرل ازم کی قطعی فتح مندی کا مظہر ہے؟ (جس کا دعویٰ مغربی سرمایہ داری کے علَم بردار کرتے ہیں)

                ۲-            کیا سوشلزم کی اس ’موت‘ نے واقعی ’نظریاتی پیکار کے تاریخی عمل‘ کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے؟ یا پھر ایک نئے مرحلے کو جنم دیا ہے کہ جو تاریخ کے ایک نہ ختم ہونے والے بہائو اور نشیب و فراز کی کشاکش کی طرف رواں ہے؟

                ۳-            اگر سوشلزم اپنے فکری و عملی تضادات کے بوجھ تلے دم توڑ دیا گیا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خود سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے داخلی و خارجی تضادات، غیرمنصفانہ رویوں اور دیگر بہت سی سماجی ناکامیوں پر قابو پالیا ہے؟

                ۴-            اگر سوشلزم کا عروج جزوی طور پر اس چیز کا مظہر تھا کہ اسے سرمایہ دارانہ نظام کا بے رحمانہ استحصالی پہلو دکھائی دے رہا تھا، جس کے پکے ہوئے ناسور پر اس نے نشتر لگایا، تو پھر کیا سوشلزم کے انہدام کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سرمایہ داری کا جو استحصالی پہلو دیکھا تھا   وہ کوئی گمراہ کن فریب نظر تھا؟

                ۵-            کیا آج کی ترقی یافتہ اقوام سے تعلق رکھنے والا انسان، اعلیٰ مادی معیارات پر مشتمل سہولت بخش زندگی پالینے کے نتیجے میں واقعی سکون و طمانیت کے دامن میں اپنے آپ کو موجود پاتا ہے؟ یا پھر یہ مراعات یافتہ انسان بھی فکروعمل کی دنیا میں، اپنی داخلی، سماجی اور معاشی زندگی کو جوں کا توں گہرے بحران میں مبتلا ہی پاتا ہے؟

                ۶-            کیا اس سارے عمل نے انسانیت کو ایک متبادل، سماجی اور معاشی نظام کی تلاش کے رستے پر ڈال دیا ہے؟ اور انسانی معاشرہ آج بھی انصاف اور سکون اور چین کے حصول سے اسی طرح محروم ہے، جس طرح کل سوشلسٹ انقلاب سے پہلے تھا؟

مندرجہ بالا سوالات ذہنوں اور ضمیروں میں نہ صرف اضطراب پیدا کر رہے ہیں، بلکہ شافی جواب کے بھی طلب گار ہیں۔

سوشلزم یا مارکس ازم انیسویں صدی کے بہت سارے نظریات اور مفروضوں کا ملغوبہ ہے، جس میں فریڈرک ہیگل [م: ۱۸۳۱ء]کی جدلیات، لوردویگ فویرباخ [م: ۱۸۷۲ء]کی مادیت، جولیس مچل [م: ۱۸۷۴ء] کی طبقاتی کش مکش، ایڈم اسمتھ [م: ۱۷۹۰ء] اور ڈیوڈ رکارڈو [م:۱۸۲۷ء] کی معاشی فکر ، انقلابِ فرانس کے جارحانہ نعروں۱ اور چارلس ڈارون [م: ۱۸۸۲ء] کے ’حیوانی نظریۂ ارتقا‘ نے اس سیکولر روشن خیالی کو سینچا۔ خود کارل مارکس [م: ۱۸۸۳ء] انھی سیکولر اور مذہب مخالف افکار میں پروان چڑھا۔۲

سوشلزم کی تجربہ گاہ سوویت یونین اور سفاکانہ سرمایہ داری کے مراکز امریکا و یورپ کے مابین اسٹرے ٹیجک عسکری ’سرد جنگ‘ اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔ اس کی جگہ اسٹرے ٹیجک معاشی جنگ نے لے لی ہے اور نئے جنگی کھیل کے نئے کھلاڑی سامنے آگئے۔۳ اور یوں ترقی، دولت اور ٹکنالوجی کی مالک ریاستوں کا غیراعلان شدہ مقصد تو دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ جمانا اور ان تہذیبوں کو مغربی تہذیب کا خوشہ چیں بنانا ہی ٹھیرا ہے، جب کہ اعلان شدہ مقصد اپنے اور محض اپنے شہریوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا ہے۔۴ اور وہ بھی تین چوتھائی سے زیادہ انسانوں کو حسرتوں، محکومیوں، ذلتوں اور غلامی کے گرداب میں پھنسا کر!

سوشلزم یا مارکس ازم کا انہدام خود مغربی دانش وروں کے لیے ایک ہوش ربا معما ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’چنگیز خان [م: ۱۲۲۷ء] یورپ فتح کرنے کی خواہش لیے آگے بڑھ رہا تھا،     کہ اچانک اس کے بڑھتے ہوئے قدم رُک گئے۔ وہ فوری طور پر پلٹا اور وسطی ایشیا میں جاکر دم لیا۔ اس اعتبار سے کمیونزم کی اچانک موت بھی چنگیز خان کی اسی پُراسرار پسپائی سے مشابہت رکھتی ہے‘‘۔۵ لیکن یہ تحیر آمیز مسئلہ صرف ان دانش وروں کا ہے، جنھوںنے انسانی زندگی کے اجتماعی رویوں اور مسئلوں کو محض مادی طاقت اور حیوانی جذبوں کی میزان پر رکھ کر پرکھا ہے، وگرنہ اہلِ نظر تو اس عبرت ناک انجام کی خبر بہت پہلے سے دے رہے تھے۔۶

برصغیر پاک و ہند میں احیاے اسلام کی تحریک نے دیگر نظاموں اور استعماری فتنوں کے ساتھ اشتراکیت کو بھی اپنے سنجیدہ مطالعے کا موضوع بنایا۔۷ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو اپنی ظالمانہ نوآبادی بنانے، مسلمان ملکوں میں اندھی بہری آمریتوں کو سہارا دینے اور اباحیت و دہریت کو پروان چڑھانے کے ساتھ غیرفطری معاشی نظام کا بھی     علَم بردار تھا۔ اگرچہ اس سے قبل مغربی نوآبادیاتی تسلط اور الحادی تحریک کے بالمقابل اسلامی فکر کے علَم بردار پوری قوت سے نبردآزما تھے (جس کا بہت بڑا ثبوت آزادی کی تمام تحریکوں میں اسلامی فکروعمل کے حامل افراد کا شان دار کردار ہے)، لیکن سمرقند و بخارا کے المیے نے مسلمانوں کو اس فتنے کا اور زیادہ وسعت کے ساتھ ادراک کرنے پر اُبھارا۔ یہ الگ بات ہے کہ اشتراکی فکر کو     نہ صرف جدید تعلیم یافتہ،بلکہ مسلم مذہبی فکر کے دعوے داروں میں سے بھی ایک گروہ تائید و حمایت دینے کے لیے ملتا رہا۔

سوشلسٹ تہذیب، سوشلسٹ معیشت اور سوشلسٹ عسکریت کے انسانیت پر دُور رس مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ کام گہرے اور ٹھوس فکرومطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی طرح روسی فیڈریشن میں محکوم مسلم ریاستوں کی حالت ِ زار پر تحقیق، تجزیے اور جدوجہد کی تائید کے لیے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔۸

اس تحقیق و تجزیے کا مقصد محض تاریخ کا ریکارڈ دیکھنا پرکھنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ زندگی کے فکری معاملات اور عملی مسائل کا ادراک اور ان کا حل پیش کرنا بھی ہونا چاہیے۔ تاریخ کا وہی مطالعہ حیات بخش ہے، جو عصری اور مستقبل کی زندگی کو روشنی عطا کرے۔

 حواشی

۱-            ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا، Islam and The Economic Challenge ، دی اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، برطانیہ، ۱۹۹۲ء، ص ۷۲

۲-            ’سوشلزم‘ بنیادی طور پر ’سیکولرزم‘ ہی کا ایک نتیجہ ہے، کیوں کہ سوشلسٹ تحریک نے انقلابِ فرانس کا ’تصور انسان دوستی‘ (Humanism) وراثت میں پایا اور حقیقت یہ ہے کہ سوشلزم: فرانس،بلجیم، آئرلینڈ، اٹلی، اسپین اور لاطینی امریکا کی ہسپانوی تہذیبوں میں نمو پانے والے جارحانہ الحاد کا کڑوا پھل تھا۔

                                Geroge Lichtheim ، A Short History of Socialism ، ۱۹۷۸ء، ص ۳۰۸-۳۰۹

۳-            فوجی سپر طاقتوں کے ’سرد معرکے‘ میں ایک طاقت (سوویت یونین )فنا کے گھاٹ اُتر گئی اور دوسری قیادت (امریکا) عسکری طاقت کے حوالے سے ڈیڑھ عشرے تک فتح یاب قرار پائی۔ دوسری طرف معاشی وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے یورپی یونین اور جاپان اور امریکا اور چین گویا کہ تین فریق برسرِپیکار ہیں۔ اور تیسری دنیا جو تین چوتھائی سے زیادہ آبادی کی مالک ہے، وہ اسی طرح خوار و زبوں حالی کا شکار رہے گی کہ جس کے تعلیمی، سیاسی اور معاشی مستقبل کے فیصلے معاشی دنیا کے یہ محکوم لوگ نہیں کریں گے، بلکہ مادی ترقی سے سرشار اور ٹکنالوجی سے ہم کنار تین چار ممالک ہی یہ کردار ادا کریں گے۔

۴-            پروفیسر لسٹر تھرو کے بقول: ’’ان سوپر طاقتوں کے درمیان اس عالمی معاشی جنگ کا ایک ہدف یہ ہے کہ وہ اکیسویں صدی کے پہلے نصف میں اپنے شہریوں کو ان سات شعبوں میں وافر سہولتیں بہم پہنچا دیں، مثلاً: مائیکرو الیکٹرانک، بائیوٹکنالوجی، نیومیٹریل سائنس انڈسٹری، ٹیلی کمیونی کیشن، شہری ہوابازی، مشینی سازوں سے لیس روبوٹ اور کمپیوٹر مع سافٹ ویئر ۔ لسٹر تھرو، Head to Head: The Coming Battle Among Japan, Europe and America ، وارنر بکس، امریکا (۱۹۹۳ء)

۵-            لسٹر تھرو، ایضاً، ص ۱۲-۱۳

۶-            مولانا مودودیؒ نے ۳۰دسمبر ۱۹۴۶ء کو سیالکوٹ کے مضافات میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم خودماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ نسل پرستی اور قوم پرستی  خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی‘‘۔ (شہادتِ حق،ص ۲۲)

۷-            اس ضمن میں اُردو میں مولاناسیّدابوالاعلیٰ مودودی، مولانا مسعودعالم ندوی، مظہرالدین صدیقی، اعظم ہاشمی، چودھری علی احمد خان، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، نذر محمد خالد، عبدالکریم عابد، چودھری غلام جیلانی، مولانا خلیل احمد حامدی، آبادشاہ پوری، حسین خان، سیّد اسعد گیلانی، مختارحسن، محمود احمد مدنی، مسلم سجاد، عطاء الرحمان، انیس احمد، رفیع الدین ہاشمی اور دیگر رفقا کی تحریریں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، جب کہ نعیم صدیقی صاحب کی زیرنگرانی ادارہ دارالفکر، لاہور اور راقم کی ذمہ داری میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی کے پیش کردہ مطالعے اور خصوصاً ماہنامہ چراغِ راہ، کراچی کے ’سوشلزم نمبر‘ (۱۹۶۸ء) کا اپنا مقام ہے۔

۸-            آباد شاہ پوری، ترکستان میں مسلم مزاحمت (۱۹۸۳ء)، آبادشاہ پوری، مسلم اُمہ سوویت یونین میں (۱۹۸۸ء)، ڈاکٹر سفیر اختر (مدیر) دو ماہی، وسطی ایشیا کے مسلمان ، ڈاکٹر طاہر امین، Afghanistan Crisis: Implications and Option for Muslim World, Iran and Pakistan  (۱۹۸۲ء)،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔

صلح حدیبیہ کا ایک تاثراتی مطالعہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارت کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا۔ ان کے جانے کے بعد یہ خبر اڑ گئی کہ: ’’قریش نے ان کو شہید کر دیا ہے‘‘۔یہ وہ ظلم تھا جسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہ کیا جا سکتا تھا۔ حضوؐر اور آپؐ کے ساتھی سب زیادتیوں کو گوارا فرما رہے تھے لیکن اعلیٰ مقصد کے لیے___ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو حضوؐر کے سفیر تھے، شہید کردیا گیاہے، تو یہ کھلا کھلا اعلان جنگ ہے۔ امن پسندی اور عفوورحم اسلام کا شعار ہے لیکن ظالم جب ساری حدود کو پھاند جانے کے در پے ہو تو پھر انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا جائے اور جو تلوار مظلوموں پر اُٹھی ہے اسے توڑ ڈالاجائے۔

موت پر بیعت

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سارے ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کی بیعت کی۔ یہ بیعت مر مٹنے کے وعدے پر تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عثمانؓ کے خون کا قصاص لینا فرض ہے ‘‘۔ ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ کر آپؐ نے صحابہؓ سے جاں نثاری اور آخری سانس تک لڑنے کی بیعت لی۔ اس بیعت میں مردوزن سبھی شامل تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے جوش اورولولے کا یہ عالم کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں اور بے چین اور بڑھ چڑھ کر آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے گئے۔ خدا قرآن میں اس کا ذکر اس طرح کرتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْج (الفتح ۴۸:۱۰) اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔

لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ(الفتح ۴۸:۱۸)

اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔    ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا اس لیے اُس نے ان پر سکینت نازل فرمائی۔

دعوتِ اسلامی کی خصوصیت ہے کہ آزمایش کے وقت اس کے پیروکاروں کے جذبۂ عمل اور شوقِ قربانی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، فدا کاری کی ایک لہر صرف افراد کے سراپے ہی میں نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت تک میں دوڑ جاتی ہے، حق کے لیے جان کی بازی لگادینے کا ولولہ ہر فرد میں پیدا ہوجاتا ہے___  اور یہ وہ ادا ہے جو حق تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔ اس نے ایسے لوگوں کے لیے اپنی رضا مندی اور جنت لکھ دی ہے  ؎

نگاہ یار جسے آشناے راز کرے

وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

محبوب کی رضا طلبی کی خواہش اور اس کی خوشی پر فخر ونازہی کی کیفیت میں حضرت براء  رضی اللہ عنہ نے محبت میں ڈوبے ہوئے تاریخی الفاظ کہے تھے جو بخاری میں مرقوم ہیں:

’’ تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور ہم بیعت رضوان کو (اصل فتح ) سمجھتے ہیں‘‘۔ 

اس بیعت نے مسلمانوں کے جذبات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔ ہر شخص کفن سر سے باندھے،  حق کے لیے جان کی بازی کھیل جانے کے لیے تیار تھا اور اس میں کیف وسرشاری محسوس کر رہا تھا   ؎

دست از طلب ندارم تاکار من برآید

یاتن رسد بہ جاناں یا جاں زتن برآید

[میں نے کام میں ہاتھ اس لیے نہیں ڈالا کہ میری غرض پوری ہو بلکہ یہ کام اس عزم کے ساتھ کر رہا ہوں کہ مَیں محبوب تک پہنچ جائوں یا اسی کام میں اپنی جان ہار دوں۔]

عزم واستقلال کے اس مظاہرے نے قریش کے ہوش اڑا دیے___  اپنی ساری اکڑفوں اور کبرواستکبار کے باوجود وہ صلح پر آمادہ ہو گئے۔

لیکن، مسلمانوں کے لیے ابھی کچھ اور آزمایشیں بھی تھیں ۔ دارورسن کے لیے تو وہ آمادہ وتیار تھے ہی۔ لیکن نئی آزمایش ایک اور ہی نوعیت کی تھی!

اب انھیں ایک ایسی صورت کے لیے تیار ہونا تھا جس میں کمزوری اور شکست خوردگی کی سی کیفیت کا نمایاں اظہار تھا، جس کی وجہ سے کعبۃ اللہ کے دیدار سے آنکھوں کے مشرف ہونے کا جو امکان پیدا ہو گیا تھا، اس سے محرومی تھی۔ جذبۂ جہاد میں جو قدم آگے بڑھے تھے، ان کو حکمت الٰہی کے تحت پیچھے ہٹانا تھا___

یہ آزمایش جان لٹانے سے بھی زیادہ سخت تھی !

دعوت اسلامی کی اخلاقی قوت

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر غلط نکلی ! عروہ بن مسعود ثقفی قریش کے نمایندے کی حیثیت سے آیا اور صلح کی گفت وشنید کی۔ بظاہر عروہ بہت رکھ رکھائو سے معاملات طے کر رہا تھا۔ قریش کا سراُونچا رکھنے ، ان کی ضد پر پردے ڈالنے اور ان کی مٹی میں ملتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے اس نے ہر ممکن جتن کیے۔ اپنی بڑائی کو ظاہر کرنے کے لیے بہت سی نازیبا حرکتیں بھی کیں ۔ کبارصحابہ ؓ سے، جن میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت مغیرہ ؓ شامل تھے بدزبانی تک سے باز نہ آیا لیکن داعیانِ حق کے اس کیمپ میں جو منظر اس نے دیکھا، اس نے اس کے دل کو مسخر کر لیا ۔ کم تعداد اور نہتے مسلمانوں کا رعب اس کے دل ودماغ پر قائم ہو گیا، اور قریش کو شرائط پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر کامیاب رہا۔

وہ کیا چیز تھی جس نے اس کے دل ودماغ کو مائوف کر دیا ؟ وہ کون سی قوت تھی جس کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دیے ؟ صحابہ کرامؓ کی وہ کون سی خصوصیت تھی، جس نے مخالفین کو بھی خاموشی کے ساتھ مسخر کر لیا؟ عروہ ہی کی زبانی سنیے۔ قریش میں واپس جا کر وہ کہتا ہے:

اے قریش! میں نے کسریٰ اور قیصر اور نجاشی جیسے باد شاہوں کے دربار دیکھے ہیں ۔ مگر خدا کی قسم! میں نے اصحابِ محمدؐ کو جس طرح محمدؐ کا فدائی دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ جب محمدؐ وضو کرتے ہیں تو صحابہؓ آپؐ کے وضو کے پانی کی ایک بوند بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے ___  پس، اب تم لوگ سوچ لو کہ تمھارا مقابلہ کس سے ہے؟ (سیرت ابن    ہشام ، ص ۴۵۱)

قریش کے ہاں سنّاٹا چھا گیا ___ وہ کہنے لگے: ’’اے چچا ، جیسے تم مناسب سمجھتے ہو کرو‘‘۔

دیکھیے ! وہ کیا چیز ہے جس نے دلوں کو فتح کر لیا، مادی قوت نہیں، اسلحے کی سج دھج نہیں ، فوج کی تعداد نہیں ، ظاہری رعب ودبدبہ نہیں___  وہ چیز ہے اخلاقی قوت ، باہمی محبت___  یک رنگی، وحدت اور نظم واطاعت ! اخلاق کی قوت مادی طاقت اور ابلیسی سیاست پر غالب آئی اور بحث کے لیے صفحۂ تاریخ پر یہ فیصلہ ثبت کر گئی کہ :’’آخر ی فتح اخلاق ہی کی قوت کو حاصل ہوتی ہے ‘‘۔

رسولؐ اللہ ، کیا یہ الفاظ مٹائے سے مٹ جائیں گے !

اب آزمایش کا ایک دوسرا ورق کھلتا ہے۔ انسان کی نگاہ چند قدم ہی تک دیکھتی ہے لیکن حکمت الٰہی کے لیے زمان ومکان کی کوئی حد اور قید نہیں۔ انسان اپنی سمجھ اور خواہشات اور تمنّائوں کے مطابق فیصلے چاہتا ہے، لیکن مشیّت ربانی کی جو حکمت بالغہ کار فرما ہے وہ ہماری تمنّائوں کی پابند نہیں۔

 مسلمانوں کا دل اب صلح سے زیادہ معرکے اور زیارت بیت اللہ کے لیے بے تاب تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہی تھی۔

مسلمانوں کے لیے ایک بڑا ہی دل پاش پاش کر دینے کا لمحہ آیا، آزمایش نے ایک نیا رُوپ دھارا۔ صلح کی شرائط طے ہو گئیں، قریش کی طرف سے سُہیل بن عَمرو، ایک وفد کے ساتھ آیا اور حضوؐر سے گفت وشنید کے بعد منجملہ اور چیزوں کے یہ طے پایا کہ: 

                ۱-            دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔

                ۲-            اس دوران میں قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے پاس جائے گا، اسے آپؐ واپس کردیں گے، اور آپؐ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا، اسے وہ واپس نہ کریں گے۔

                ۳-            قبائلِ عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا، اسے اس کا اختیار ہوگا ۔

                ۴-            محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] اس سال واپس جائیں گے اور آیندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکّہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ نیاموں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں، اور کوئی سامانِ جنگ ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہلِ مکّہ، ان کے لیے شہر خالی کردیں گے (تاکہ تصادم نہ ہو) مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔

ان شرائط پر مسلمانوں میں ایک خاموش اضطراب ، ایک دبی ہوئی بے چینی اور ایک شدید گھٹن کی سی فضا پیداہوگئی تھی۔ کوئی شخص ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ جنھیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں۔ پھر جب معاہدہ لکھنے کا آغاز ہوا توحضرت علی ؓ نے لکھنا شروع کیا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

سہیل نے کہا: ’’ہم اس کو پسند نہیں کرتے باسمِکَ اللّٰھم لکھو ‘‘۔

آپؐ نے فرمایا: ’’اچھا یہی سہی‘‘ ___ 

دوسرا جملہ تھا: من محمد رسول اللہ ___ سہیل نے پھراختلاف کیااور کہا: ’’اگر ہم  آپ کو رسول اللہ مانتے تو جھگڑا ہی کیا تھا، ’’محمد بن عبداللہ ‘‘ لکھیے۔ مسلمانوں کے لیے یہ اعتراض ناقابلِ برداشت تھا۔ ان کی بے چینی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔

حضور ؐ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ ’رسول اللہ کے لفظ مٹا دو‘___  لیکن حضرت علی ؓ کے ہاتھوں کی جنبش رُک گئی۔ حضوؐر نے حکم دیا، مگر علی ؓ تعمیل نہیں کر پاتے ! آہ! محبت میں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے کہ محبوب کی عزت اور مقامِ نبوت کی عظمت وعصمت کی خاطر اطاعت کیش ہاتھ پائوں بھی رُک گئے___ یہ عدم اطاعت نہیں تقدیس اور عظمت وعقیدت کا وہ نازک مقام ہے کہ جہاں اطاعت بھی محبت کے آگے سپر ڈال دیتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان الفاظ کو، جن کے لیے ساری دنیا کو چھوڑا تھا، کیسے مٹا سکتے تھے؟

حضوؐر اس پر خفا نہیں ہوئے، اپنے دست مبارک سے وہ الفاظ مٹا دیے اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا گیا۔ یہ تھی نبیِؐ برحق کی حکمت عملی ___ !

باطل پرستوں کی نادانی پر زمین وآسمان کی قوتیں خندہ زیرلب کے ساتھ گویا تھیں کہ ان الفاظ کے مٹانے سے کہیں حق مٹ سکتا ہے ! یہ تو محض ایک قانونی وسیلہ ہے تمھاری اس چھچھوری حرکت پر، اس میں کیا فرق پڑجائے گا۔ ایسے قانونی کرتب کہیں دعوت اسلامی کو بھی متاثر کرتے ہیں!

زمین وآسمان کے اس اعلان پر حق تعالیٰ نے خود شہادت دی:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(الفتح ۴۸:۲۹ ) محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔

یہ زور دار اعلان قریش کی اوچھی حرکت کی کلّی تردید ہے ! قرآن کے ان تین اہم ترین مقام میں سے ایک، جہاں نام لے کر حضور ؐ کی رسالت کا اثبات واظہار نہایت قوت وتہدی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔

نئی آزمایش

لیکن یہ ساری باتیں تو کچھ بعد کی ہیں، فوری طور پر تو مسلمانوں کے جذبات میں شدید ارتعاش پیدا ہو گیا ۔ ان کی نگاہیں مستقبل کے دھندلکوں میں پوشیدہ کامیابیوںکو دیکھنے سے قاصر تھیں۔    وہ ان حکمتوں سے بھی ناواقف تھے، جو اللہ کے فیصلوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں ___  ان کے سامنے تو غلبے کی اُمید کے بعد ظاہری کم زوری یا کھلے لفظوں میں ناکامی کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تو زیارتِ کعبہ کی توقعات کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ وہ تو ظالموں کی بات کے وقتی طور پر بظاہر حاوی ہوجانے پر مضطرب تھے۔ وہ اپنی امیدوں کے ٹوٹنے پر پریشان اوربے چین تھے___ وہ آئے تو اس ارادے سے تھے کہ متکبروں کی اکڑی ہوئی گردن کو جھکا دیں گے یا قلم کر دیں گے ___ لیکن بظاہر انھیں نظر ا ٓ رہا تھا کہ اس گردن کے خم میں تو کچھ اور بھی کجی رُونما ہو گئی ہے۔

ابھی صلح نامے پر آخری دستخط نہ ہوئے تھے کہ ایک مسلمان حضرت ابو جندل ؓ آئے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ سہیل ان پر سخت مظالم کر رہا تھا۔ اس وقت بھی ہاتھ اور پائوں میں زنجیریں تھیں اور انھوں نے مسلمانوں کے سارے مجمعے کے سامنے اپنے زخم اور دھنکی ہوئی کمر دکھائی___  یہ منظر دیکھ کر سب کے دل دہل گئے، خون جوش میں آگیا۔ حضوؐر نے ابو جندل ؓ کو معاہدے سے مستثنیٰ کرانے کی بہترین کوشش کی، لیکن سہیل بن عَمرو اڑ گیا۔ بالآخر آپؐ نے معاہدے کی پابندی کی اور فرمایا:

’’ابو جندلؓ ، چند روز اور صبر کرو، اجر کی اُمید رکھو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمھارے اور دوسرے مظلوموں کے لیے کشادگی پیدا کرے گا۔ میں مجبور ہوں کہ میں نے عہد کر لیا ہے اور عہد کے خلاف نہیں کر سکتا ‘‘۔ اور حضرت ابو جندلؓ کو پابہ زنجیر واپس جانا پڑا ۔

یہ آزمایش مسلمانوں کے لیے بہت کڑی تھی___ ذلت گوارا کریں اور پھر اپنے بھائیوں کو آنکھوں دیکھے ظالموں کے ہاتھ میںدے دیں۔

ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں ؟

ان واقعات پر سب ہی مضطرب تھے، لیکن زبان کھولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہورہی تھی، بالآخر حضرت عمر ؓ کو ضبط کا یارانہ رہا اور وہ بے چین ہوکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور بوجھل دل سے کہا: ’’کیا حضوؐر، اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلّت کیوں اختیار کریں؟‘‘

ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا: ’’اے عمر، وہ اللہ کے رسولؐ ہیں ، اور اللہ ان کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا‘‘۔

حضرت عمرؓ کا اضطراب ختم نہ ہوا، اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے :

عمر ؓ : یا رسولؐ اللہ ! کیا آپ پیغمبرؐ برحق نہیں ہیں؟

حضور ؐ نے فرمایا : ہاں، ہوں۔

عمر ؓ : کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟

فرمایا : ہاں، ہم حق پر ہیں۔

عمر ؓ : تو ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟

فرمایا : میںخدا کا پیغمبرؐ ہوں اور خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، خدا میری مدد کرے گا۔

عمرؓ: کیا آپؐ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ کعبہ کا طواف کریں گے؟

فرمایا: ہاں، لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی کریں گے۔ (بخاری، سیرت النبی ؐ ، از شبلی نعمانی، ص ۴۵۵-۴۵۶)

معاہدے کی تکمیل کے بعد آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ یہیں قربانی کی جائے لیکن جو کعبہ کی زیارت کی ولولہ انگیزتوقعات کے ساتھ نکلے تھے، جوببول تلے ابھی جاں نثاری کی بیعت کر چکے تھے، جو شہادت کو چشم تصور سے دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے، جو پرشوق اُمیدوں کے سہارے تخیل ہی تخیل میں معلوم نہیں کتنی بار کعبہ کا پروانہ وار طواف کر چکے تھے___ سکتے کے عالم میں تھے ___ ہر شخص دل شکستہ ، ہر جانباز پژمُردہ اور نااُمید ___ حضوؐر نے قربانی کے لیے کہا، مگر کوئی نہیں اٹھا ۔ تین بار زبانِ رسالتؐ سے اس خواہش کا اظہار ہوا، لیکن پرستارانِ حق اور عازمین حرم کی توقعات ابھی بالکل نہیں ختم ہوئی تھیں۔ وہ ابھی تک سوچ رہے تھے کہ شاید اب بھی زیارت کی کوئی صورت نکل آئے ! حضوؐر بے چین ہوکر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔    اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ سے فرمایا: میرے ان ساتھیوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ حضرت اُمِ سلمہؓ نے مشورہ دیا کہ آپؐ کچھ خیال نہ فرمائیںبلکہ خود اپنی قربانی کر دیں اور احرام اتارنے کے لیے     بال منڈوا لیں۔ آپ نے باہر نکل کر اپنی قربانی کر دی___  اب آخری توقع بھی ٹوٹ گئی اورسب کو یقین ہوگیا کہ خدا کا فیصلہ آ چکا ہے۔ ہماری توقعات وخواہشات کچھ بھی ہوں لیکن اس سال ہم اپنے محبوب کی زیارت سے محروم ہی رہیں گے ___  ابھی کچھ دن اور صبر کرناہوگا، ابھی ہجر کی کچھ اور گھڑیاں باقی ہیں۔ زیارت محبوب کی تمنّا کو ابھی سوزِ قلب کی بھٹیوں میںاور پکانا ہوگا   ؎

نالہ ہے بلبل شوریدہ، ترا خام ابھی

اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

جب یہ یقین ہو گیا تو اطاعت کا دریا پھر جوش میں آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے بعد سب نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کر دیں اوراحرام اتار دیے۔

یہاں پر یہ گمان نہ ہو کہ اس نازک لمحے میں جاں نثارانِ محمد ؐ میں عدم اطاعت کا مرض پیدا ہوگیاتھا۔ ہرگز نہیں، اطاعتِ رسولؐ تو ان کا ایمان اور ان کی معراج تھی۔ اس کی وجہ صرف اضطراب اور پریشانی کے عالم میں زیارت کعبہ کی ایک آخری امید تھی___  توقعات ٹوٹ رہی تھیں، اضطراب بڑھ رہا تھا، لیکن اس اُمید شکن ماحول میں بھی بار بار یہ خواہش ابھر رہی تھی کہ کاش! کوئی صورت نکل آئے ___  اور اسی لیے قربانی کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن جب یہ توقع بالکل ختم ہو گئی تو اس کے باوجود اطاعت میں کوئی کمی نہ رہی۔ 

ان سخت صبر آزما حالات میںبھی اطاعت کی مثال اگر دیکھنی ہے تو صلح نامے پر دستخط کرنے والوں کی فہرست پر نگاہ ڈالیے۔ جب حضوؐر کی مہر اس پر ثبت ہوئی تو وہی عمر ؓ جو سخت مضطرب تھے، انھوں نے ایک اشارے پر اس معاہدے پر بطورِ گواہ دستخط کر دیے ہیں۔کیا اس اطاعت شعاری کا کوئی جواب ہو سکتا ہے!

 جسے تم ذلّت سمجھ رہے ہو !

مسلمانوں کا یہ اضطراب حق کے جوش اور اس کی محبت میں تھا ، کسی جاہلی جذبے کی بنا پر نہیں تھا۔ اس لیے دیکھیے حق تعالیٰ اس پر نکیر فرمانے کے بجاے کس کس پیار سے ان کو سمجھاتا ہے۔  فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اس میں بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ہم ہی نے تم کو ان کافروں پر فتح یاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے تھے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے:

وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْھُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْھِمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاo (الفتح ۴۸: ۲۴) وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، حالاں کہ وہ ان پر تمھیں غلبہ عطا کر چکا تھا، اور جو کچھ تم کر رہے تھے، اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔

پھر سمجھایا جارہا ہے کہ اہل مکہ میںبہت سے چھپے ہوئے مسلمان ہیں جو اس وقت جنگ کی شکل میں مشکل میں پھنس جاتے بلکہ تمھارے ہی ہاتھوں قتل ہو جاتے۔ ہم نے تاخیر اس لیے کی ہے کہ وہ کھل کر دائرۂ حق میں داخل ہو جائیں:

وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآئٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْھُمْ اَنْ تَطَئُوْھُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ م بِغَیْرِ عِلْمٍ ج لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ج (الفتح ۴۸: ۲۵)  اگر [مکّہ میں] ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنھیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انھیں پامال کردو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی۔ روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔

حضوؐر نے ایک مختصر جملے میں کتنی بلیغ بات ارشاد فرمائی کہ ’’ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی عمرہ کریں گے‘‘، یعنی خدا کا وعدہ سچا ہے ، لیکن اس کا وقت بھی متعین ہے۔ بے صبری اور جلدبازی اس راہ میں حرام ہے۔ اپنے وقت پر اس کا وعدہ لازماً پورا ہو گا۔ ہمارا یہ کام نہیں کہ خدا کے فیصلوںکے لیے وقت متعین کریں___  وہ اپنے ہر کام کو اس کے مناسب وقت پر خود انجام دیتاہے۔

مسلمانوں کو اس کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ تمھاری مدد اور منکرین حق کی تعذیب کے لیے خدا کے لشکر ہر وقت تیار ہیں، پلک جھپکتے میںوہ فیصلہ کر دیں گے___ تاخیر خدانخواستہ کسی کمزوری کی بنا پر نہیں تھی، مصلحت اور حکمت اس کی وجہ تھی اور خدا کی ساری حکمتیں تمھارے سامنے نہیں تھیں:

وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۴) زمین اور آسمان کے سب لشکر اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔

پھر بڑے لطیف انداز میں ان کو متوجہ کیا گیا کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، دنیا میں غلبہ ملانہ ملا___  یہ تو کوشش اور جدوجہد کا زمانہ ہے۔ اس میں نتائج کے بارے میں اتنے نازک طبیعت نہ ہو جائو ۔

ایمان واطاعت کی راہ میں بہت سے مراحل آئیں گے، تمھاری نگاہ ہر مرحلے میں رب کی رضا اور آخرت کی کامیابی پر ہونی چاہیے ___ یہی اصل کامیابی ہے:

لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَیُکَفِّرَ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ ط وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الفتح ۴۸: ۵) (اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے)تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی بُرائیاں اُن سے دُور کر دے___ اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔

سمجھایا جا رہا ہے کہ اسلام نام ہے خوشی اور ناخوشی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کا۔ تمھاری توجہات کا مرکز یہ نہ ہو کہ کیا پایا ؟ یہ ہو کہ حکم کی اطاعت کہاں تک اور کس جذبے سے کی___  اگر تلوار اٹھانے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار اٹھانا نیکی ہے،اور اگر تلوار کھینچ لینے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار کھینچ لینا نیکی ہے۔ اگر زیارت کے لیے چلنے کا حکم ہے تو محبوب کی زیارت کا شوق دل ونگاہ کی تسکین کا سامان ہے، اور اگر حکم مزید انتظار کا ہے تو سکون وراحت کا منبع  ہجر اور لذتِ انتظار کو بن جانا چاہیے  ع 

    ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

نگاہ ہمیشہ اصل جو ہر پر رہے اور وہ یہ ہے کہ :

وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ج وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۱۷) جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا، اللہ اُن جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور جو منہ پھیرے گا، اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔

اس محبت بھری تفہیم کے بعد یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ تمھارے خلوص کی بنا پر ہم نے تمھارے دلوں پر سکینت نازل کر دی ہے، تا کہ پریشانی اطمینانِ قلب میں بدل جائے اور پھر جمعیت خاطر کی نعمت سے تم مالا مال ہو جائو ۔ یہ خدا کی مددونصرت کا ایک پہلو ہے___  اور نادانو!  تم جس چیز کو ذلت سمجھ رہے ہو، وہ صرف تمھاری کوتاہ بینی ہے ، یہ تو ہم نے فتح کے لیے زمین تیار کی ہے۔ دعوت کے پھیلنے کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ غلبے کے امکانات روشن کیے ہیں اور ایک نہیں  کئی کئی فتوحات تمھارے لیے مقرر کر دی ہیں ۔ بہت جلد تم کو خیبر میں فتح حاصل ہو گی، مال ودولت بھی ہاتھ آئے گا، اور پھر قریش پر غلبہ بھی حاصل ہو گا:

فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا o وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَھَا ط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا o (الفتح ۴۸: ۱۸-۱۹ ) اور جو (صدق وخلوص ) ان کے دلوں میں تھا، وہ اس نے معلوم کر لیا تو ان پر تسلی اور سکینت نازل فرمائی اور انھیں جلد فتح عنایت کی___  اور بہت سی غنیمتیں جو انھوں نے حاصل کیں اور خدا غالب اور حکمت والا ہے۔

خلوصِ دل ، اطمینان قلب، دنیوی فتح اور مالی خوش حالی میں جو ربط وتعلق ہے، وہ ان آیات میں پوری طرح ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ توقعات کے حسین تاج محل اس لیے منہدم کیے جاتے ہیں کہ خلوص اور دل کی کیفیت معلوم کر لی جائے۔ اگر اس میں کھوٹ نہیں ہے تو پھر انعامات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ دل میں اطمینان القا کیا جاتا ہے، مادی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں، اور بالآخر فتح وغلبہ عطا کیا جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، اور ہمیشہ رہے گی:

وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا o سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o (الفتح ۴۸: ۲۲-۲۳)

یہ کافر لوگ اگر اِس وقت تم سے لڑ گئے ہوتے تو یقینا پیٹھ پھیر جاتے اور کوئی حامی و مددگار نہ پاتے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔

اپنے پیغمبر ؐ کو اس نے دین حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ اس دین کو تمام نظاموں پر غالب کر دے اور یہ ہو کر رہے گا ۔ حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًاo(الفتح ۴۸: ۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔

اس لیے وہ چیز جسے مسلمان کمزوری سمجھ رہے تھے اور جس میں دین کی ذلت دیکھ رہے تھے، حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے اسے ’فتح مبین ‘قرار دیا:

اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(الفتح ۴۸: ۱) اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔

یعنی وہ صلح جس کو شکست سمجھا جارہا تھا، اللہ کے نزدیک وہ فتح عظیم تھی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا: ’’آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے، جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے‘‘۔ پھر یہ سورت تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمرؓ کو بلا کر سنایا، کیوںکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔

اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سن کر حضوؐر سے پوچھا : ’’یارسولؐ اللہ!کیا یہی فتح ہے ‘‘۔

 آپؐ نے فرمایا: ’ہاں ‘۔(ابن جریر)

ایک اور صحابیؓ حاضر ہوئے اور انھوں نے بھی یہی سوال کیا، تو آپؐ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقینا یہ فتح ہے‘‘۔(مسنداحمد، ابوداؤد)

یہی ارشاد تھا جس نے مضطرب دل کو مطمئن کر دیا ___ ایمان اور ہے ہی کیا ؟ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات پر یقین واطمینان ___ اس کی تائید وتصدیق ___اور اس کے وعدے پر اعتماد اور پھر بھروسا!

اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ  (یونس ۱۰:۵۵) اللہ کا وعدہ سچا ہے، مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں۔

شکست ، فتح میں بدل گئی

بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے ! یہی صلح جو بظاہر ذلت کا نشان معلوم ہوتی تھی دراصل فتح کا سبب ، اس کا پیش خیمہ اور ذریعہ بنی ___  ایک نہیں، متعدد فتوحات کا !

  • پہلی فتح تو یہ تھی کہ مادی سہاروں اور دنیوی توقعات سے مسلمانوں کی نگاہیں ہٹ کر اطاعت الٰہی اور پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لگ گئیں، قلب مطمئن ہونے لگے اور سرشاری میں اضافہ ہونے لگا ۔ اصل فتح تو یہی ہے ۔
  •  پھر اس معرکے میںجو شریک تھے، ان سے حق تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا اور حضوؐر نے فرمایا کہ بیعت رضوان میں شرکت کرنے والوں کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی___  یہ دوسری فتح ہے!
  • پھر مسلمانوں کا اخلاقی رعب، منکرین حق کے دلوں پر بیٹھ گیا۔ ان کا عزم، ان کی ہمت، ان کا اخلاق وکردار ، اس کا جذبۂ جہاد وقربانی ، ان کی سمع واطاعت___  یہ سب تیر کی طرح دلوں میں پیوست ہو گئے ۔ مکہ کے دروازے چاہے مسلمانوں پر بند رہے ہوں، لیکن اہلِ مکہ کے دلوں کے دروازے کھل گئے___  یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد خود اہل مکہ میں مسلمانوں کی تعداد برابر بڑھتی رہی، اور وہی جو حدیبیہ کے موقعے پر مقدمتہ الجیش کو لے کر آئے تھے، اس معاہدے کے کچھ ہی عرصے کے بعد خود دائرہ اسلام میں آگئے___ یہ تیسری فتح تھی !
  •  بات صرف اہل مکہ ہی تک نہ تھی، بلکہ اس صلح کے ذریعے پورے عرب میں اسلام کے پھیلنے اور قبائل کو حلیف بنانے کا موقع پیدا ہو گیا، ایک راستہ بند ہوا تو سو نئے راستے کھل گئے۔  ملک اور ملک کے باہر وفود بھیجے گئے، دعوت وتبلیغ کا کام بڑے پیمانے پر ہوا، اور بقول ابن ہشام دعوتِ اسلامی کا حلقہ اثر جتنا صلح حدیبیہ کے بعد کے دو برسوں میںبڑھا ہے، اتنا اس سے قبل کے ۱۹برسوں میں نہیں بڑھا تھا___ یہ چوتھی فتح تھی!
  •  اسی طرح اس صلح کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان چھپے ہوئے مسلمانوں کو بچا لیا، جو کفّار کے جور و جبر کے باعث اعلانِ حق کرنے کا موقع نہیں پاتے تھے ___  جب ایک آدمی کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے تو بیسوں اور سیکڑوں کلمہ گوئوں کو بچانا ایک عظیم فتح کیوں نہ ہو___  یہ پانچویں فتح تھی!
  • پھر اگلے سال مسلمانوں نے پوری شان وشوکت کے ساتھ عمرہ کیا۔ چودہ سو کے بجاے دوہزار زائرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے ۔ مشرکین مکہ کو چھوڑ کر چلے گئے اور وہی جنھیں مکہ سے نکالا گیا تھا، سینہ تان کر اور سر حضورِ رب میں جھکا کر لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے داخل ہوئے___  اللہ اللہ ، کیا منظر ہوگا! سات سال کے بعد ترسی ہوئی آنکھوں نے بیت اللہ کا دوبارہ نظارہ کیا ہو گا، سوکھے ہوئے ہونٹوں نے حجرِ اسود کو چوما، اورخشک زبانوں نے آب زم زم سے دہن ودل کی پیاس بجھائی ہو گی!

کفار نے یہ افواہ اڑا دی تھی کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں۔ اسی لیے حکم ہوا کہ طواف میں جب ان مقامات سے گزر و جو مشرکین کے سامنے ہیں تو تیز تیز چلو ، سینہ تان کر چلو، کندھے ہلائو ، اور اپنی قوت اور شان وشوکت کا مظاہرہ کرو ___ آج تک یہ چیز مناسک حج کا جزو ہے ۔

مکہ میں مسلمانوں کا یہ داخلہ فتح مکہ کی ریہرسل تھا___ ایک ہی سال بعد مسلمان فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اللہ کا وعدہ پورا ہو گیا ___ اور یہ چھٹی فتح تھی!

فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء۴:۱۹) ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔

  o

میں سورئہ فتح کا مطالعہ نہیں کر رہا تھا، تاریخ میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی تھی اور دل ودماغ کے فتحِ ابواب کا کام انجام دے رہی تھی۔ نئے نئے گوشے میرے سامنے ابھر رہے تھے۔ میں نے ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سفر زیارت بیت اللہ کے لیے تھا، اسی کا اہتمام تھا، لیکن جو معاہدہ ہوا وہ خالص سیاسی تھا۔ دینی سفر کا سیاسی پہلو، زیارتِ کعبہ اور معاہدۂ صلح؟

اسلام میں دین وسیاست کس طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں___  طواف کے وقت بھی مسلمانوں کے دبدبے کو قائم کرنے کا خیال___ معروف اصطلاح میں سیاست، لیکن اس مقدس مقام پر بھی اس کا لحاظ ! قربانی کے اونٹ لائے گئے تو ان میں ابو جہل کا اونٹ بھی تھا، تا کہ مسلمانوں کی قوت معلوم ہو اور مشرکین کو کڑھن ہو___کیا اسے بھی سیاست کہیں گے؟___  افسوس ! اسلام کا جو امتیاز تھا، اب اس پر کچھ کور ذہنوں کو وحشت و شرمندگی ہونے لگی۔ نبیِؐ برحق نے تو دین اور سیاست کو ایک وحدت میں اس طرح سمو دیا تھا کہ ان میں کوئی فرق باقی نہ رہا تھا، وہ ایک ہی حقیقت کے دوپہلو بن گئے تھے۔ اور حیرت اس بات پر کہ ’ کم کوشوں ‘ نے اس حقیقت کو گم کر دیا۔

منافقین کا رول اس موقعے پربھی وہی تھا، جیسا ہمیشہ رہا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کا رسولؐ اور اس کے یہ ساتھی اب کیا واپس آئیں گے ___  خوش ہو رہے تھے___  چلو قصہ ختم ہوا، لیکن  اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ آئے بھی اور فاتح بھی ہوئے اور منافقین آگ پر لوٹنے لگے۔ مخالفینِ حق کے اندازے اللہ تعالیٰ ہمیشہ غلط کرا دیتا ہے اور بالآخر ان کو ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔

اہلِ حق کی محبت کا اصل سر چشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کی اطاعت ہے۔ ان کی طاقت باہمی محبت واخوت اور باطل اور ظلم کے لیے سختی میں ہے۔ ان کی کامیابی کا راز اللہ کے  حضور سجدہ ریز ہونے ، اس سے مغفرت طلب کرنے اور صرف اسی پر بھروسا کرنے میں ہے۔  فتح کی خوش خبری کے ساتھ ہی ان کے جو اوصاف بتائے جا رہے ہیں، وہ یہی ہیں:

اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْہِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ط (الفتح ۴۸: ۲۹) وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے اُنھیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوش نودی کی طلب میں مشغول پائو گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔

یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے اہل حق اپنی لڑائی لڑتے اور بالآخر بازی جیتتے ہیں۔

o

میں سورۃ الفتح کو پڑھ رہا تھا___ کئی بار اس کی تلاوت کی، میرے ذہن پر سے بوجھ  اَب اُتر چکا تھا، تاریکیوں اور مایوسیوں کا ایک ایک پردہ اٹھ گیا اور اجالا پھیلنے لگا۔ میرے دل نے گواہی دی کہ حق کا پیغام باطل پرستوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود پھیلے گا اور ان شا اللہ غالب ہوکر رہے گا۔ یہ نام کہیں مٹائے سے نہیں مٹتا !___ راہ میں نشیب وفراز تو بہت سے ہیں، لیکن آخری کامیابی حق ہی کی ہے___ اور ایک نہیں بہت سی کامیابیاں ہیں۔

 حق سے وابستگی اور اس پر استقامت خود اپنی جگہ ایک کامیابی ہے۔ مایوسیوں کے عالم میں اللہ کی ذات بابرکات پر اطمینان اور اس کی سکینت کا نازل ہونا بھی ایک کامیابی ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر حق کے لیے ڈٹ جانا ایک کامیابی ہے، پھر غلبۂ حق بھی ان شاء اللہ اس سلسلے کی ایک کامیابی ہے ___ لیکن سب سے بڑی اور اصولی کامیابی تو اللہ کا راضی ہو جانا ہے۔ اگر وہ حاصل ہو جائے تو سب کچھ حاصل ہو گیا !

غم اورپریشانی کے بادل اَب چھٹ چکے تھے، اطمینان اور سکون کی ایک نئی دولت سے دل مالا مال تھا، فَالْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔

                                 

تصحیح: ’جدید فرعون کی جیل میں‘ (جولائی ۲۰۱۷ء) محمد حامد ابوالنصر کی تحریر کا ترجمہ حافظ محمد ادریس صاحب نے کیا تھا۔ ان کا نام درست شائع نہ ہوسکا جس پر ادارہ معذرت خواہ ہے۔ ادارہ

الحمدللہ، قیامِ پاکستان کو۷۰برس بیت گئے ہیں۔ تخلیقِ پاکستان کے لیے ہمارے آباواجداد نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ فی الحقیقت وہ خون کا دریا عبور کرکے اس خطۂ ارضی تک پہنچے۔ انھوں نے اپنے گھربار چھوڑے، رشتے ناتے توڑے، اور صدیوں سے آباد اپنے مسکن ہندو اور سکھ بلوائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے۔ اتنی بڑی قربانی اور اتنی بڑی ہجرت کی غرض محض ’مادی ترقی کا خواب‘ نہیں تھا، (یہ کیسی ’مادی ترقی‘ کی دوڑ تھی کہ سب کچھ جلتا چھوڑ دیا اور عزت و آبرو بھی قربان کر دی؟) نہیں، بلکہ مادی ترقی سے بالاتر ایک خواب تھا کہ ہم دو قومی نظریے کی بنیاد پر، یہ وطن حاصل کررہے ہیں، جہاں دینِ اسلام کی منشا کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرح ڈالیں گے۔

ان میں ایک تو وہ تھے جنھوں نے بے پناہ قربانی دی۔ دوسرے وہ تھے جنھوں نے اپنے اِن لُٹے پٹے بہن بھائیوں کو مشرقی بنگال، مغربی پنجاب اور سندھ بشمول وفاقی دارالحکومت کراچی میں خوش آمدید کہا۔ پھر تیسرے وہ ہیں جو پاکستان کے لیے قربانی دیتے ہوئے بھارت میں، برہمنی استبداد کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن نے قربانی، ہمت، کامیابی اور ناکامی کے ان ۷۰ برسوں کی تکمیل پر ایک قلمی مذاکرے کا اہتمام کیا ہے، جس میں مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہلِ دانش کو دعوت دی ہے کہ وہ مختصراً ۷۰برسوں کا جائزہ لے کر، بہتر مستقبل کے لیے رہنما خطوط متعین کریں۔ ہماری دعوت پر قلیل وقت میں جن کرم فرمائوں نے قلمی تعاون فرمایا، ان میں سے چند تحریریں آیندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہیں ، جب کہ دیگر تحریریں آیندہ اشاعت ستمبر ۲۰۱۷ء میں پیش کی جائیں گی۔ پیش کردہ تحریروں کے متن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ بعض نکات سے اختلاف کے باوجود من و عن پیش کی جارہی ہیں۔ (ادارہ)

۲۶جون ۲۰۱۷ء عیدالفطر کے مبارک موقعے پر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی واشنگٹن میں ملاقات سے صرف دو گھنٹے پہلے، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ’حکم نامے‘ بعنوان ’Diplomacy in Action‘ (اقدامی سفارتی حکمت عملی) کے ذریعے      ’حزب المجاہدین‘ کے سپریم کمانڈر جناب سیّد صلاح الدین کو ایک ’نادر تحفہ‘ دیتے ہوئے ان کا نام  اس فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ جسے امریکا اپنی اصطلاح میں ’خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد‘ (Specially Designated Global Terrorist) کہتا ہے، اور جس کی تعریف خود اس حکم نامے میں یہ درج ہے:

غیر ملکی افراد جنھوں نے دہشت گردی کی ایسی کارروائیاں کی ہیں، یا جن کی طرف سے ایسی کارروائیوں کا واضح خدشہ موجود ہے، جو امریکی شہریوں یا امریکا کی قومی سلامتی ، خارجہ پالیسی یا معیشت کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

اس حکم نامے میں سیّد صلاح الدین صاحب کے جن ’جرائم‘ کا ذکر ہے، دُور و نزدیک سے ان کا کوئی تعلق امریکا، اس کی سلامتی اور امریکیوں کی زندگی سے نہیں ہے۔مجمل انداز میں کہا گیا ہے کہ:

ستمبر ۲۰۱۶ء میں صلاح الدین نے عہد کیا کہ وہ کشمیر کے تنازعے کے کسی بھی پُرامن حل کا راستہ روکے گا۔ اس نے مزید کشمیری خودکش بمبار وں کو تربیت دینے کی دھمکی دی اور عہد کیا کہ وہ وادیِ کشمیر کو بھارتی فوجیوں کے قبرستان میں بدل دے گا۔ صلاح الدین کے ’حزب المجاہدین‘ کے سینیر رہنما ہونے کی مدت کے دوران حزب المجاہدین نے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں اپریل ۲۰۱۴ء میں ہونے والا بارودی حملہ بھی شامل ہے، جس میں ۱۷ لوگ زخمی ہوئے۔

اس ’چارج شیٹ‘ کی بنیاد پر حکم صادر ہوا ہے کہ :

صلاح الدین دہشت گردی کی کارروائیوں کا مرتکب ہوا ہے یا اس کی طرف سے ایسی کارروائیوںکے ارتکاب کا شدید خطرہ ہے، اس لیے اس کو ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا ہے۔

اصولوں سے انحراف

اگر اس ’حکم نامے‘ کا تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ قانون اور انصاف کے   متفق علیہ اصولوں کی سراسر ضد ہے۔ وہ امریکا جو جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے باب میں اپنے کو عالمی برادری کا لیڈر قرار دیتا ہے، یہاں کس ڈھٹائی اور سفّاکی سے انصاف، قانون اور جمہوری اقدار کا خون کر رہا ہے۔ یہ کام محض بھارت سے معاشی فوائد کے حصول اور علاقائی سیاسی مفادات کی خاطر دنیا کی معتبر اور مقتدر شخصیات پر دہشت گردی کی چھاپ لگا کر کیا جا رہا ہے۔

اس ’حکم نامے‘ کا بغور مطالعہ کریں تو اس میں سیّد صلاح الدین صاحب کے مبیّنہ ’جرائم‘ کا کہیں دُور و نزدیک، کسی امریکی شہری یا خود امریکا کے کسی مفاد پر پڑنے والی ضرب، یا اس کے لیے کسی واضح یا موہوم خطرے تک کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی، ان چند تحریکوں میں سے ہے، جو صرف اور صرف اپنے علاقے تک محدود ہیں۔ اس تحریک کا ہدف صرف اہلِ کشمیر کے مادرِ وطن پر غاصب اور ناجائز طور پر قابض فوج (Occupying Force) کا مقابلہ اور اس کے تسلط سے آزادی کا حصول ہے۔

’ حزب المجاہدین‘ تو وہ تنظیم ہے، جس نے پہلے دن سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور عالمی اقوام کے وعدوں کی بنیاد پر جمہوری طریقے (عوامی استصواب) سے عمل کا مطالبہ کیا ہے۔ سیّد صلاح الدین نے اس منزل کے حصول کے لیے اصلاً معروف جمہوری راستے کو بھی اختیار کیا اور خود ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ یوں گویا الیکشن کا وہ ذریعہ بھی اختیار کرکے دیکھ لیا، جسے بھارتی سرکاری مشینری نےمحض بھارتی جمہوری ڈراما بناکر حسب ِ روایت دھاندلی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اسی طرح بعد کے مراحل میں کشمیر کی حق خود ارادیت کی تحریک میں ان اصولوں کی مکمل پاس داری کے ساتھ جدوجہد کی، جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون اور معاہدوں (conventions) کے دائرے میں آتی ہیں۔ حتیٰ کہ ’حزب المجاہدین‘ نے کبھی کوئی کارروائی ریاست جموں و کشمیر کی حدود سے باہر اس قابض قوت کے خلاف نہیں کی۔ ’حزب المجاہدین‘ نے ’حُریت کانفرنس‘ کی سیاسی جدوجہد کی ہمیشہ تائید کی ہے۔ اس کی ساری جدوجہد کا صرف ایک ہدف ہے:

جموں و کشمیر کے عوام کا یہ حق کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے، اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ وہ حق جو ان کا پیدایشی حق ہے، جس کی ضمانت اقوامِ متحدہ کا چارٹر آرٹیکل ۱ اور ۵۵ اسے دیتے ہیں۔ جس کا وعدہ ان سے اقوامِ متحدہ نے ۲۲ سے زیادہ قراردادوں کی شکل میں کیا ہوا ہے۔جس کا وعدہ خود بھارت کی حکومت، پاکستان کی حکومت اور پوری   عالمی برادری نے کیا ہے، اور جس کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے صاف الفاظ میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ جموں و کشمیر میں کوئی نام نہاد دستورساز اسمبلی یا کسی اسمبلی کے انتخابات اس استصواب اور عوامی راے شماری کا بدل نہیں ہوسکتے، جس استصواب راے کا وعدہ بھارت، پاکستان اور اقوامِ متحدہ نے ان سے کیا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ہم تاریخ کے سینے پر نوشتۂ دیوار کے طور پر اس ضابطۂ اخلاق کا پورا متن دے رہے ہیں، جس کا ’حزب المجاہدین‘ اپنے تمام مجاہدین کو پابند کرتی ہے۔ یہ اس تحریکِ آزادی کے لیے Standing Code of Conduct (مستقل ضابطۂ اخلاق)کی حیثیت رکھتا ہے۔     اس ضابطے اور آدابِ کار کے لوگوں کو دہشت گرد قرار دینا بدترین ظلم اور ناانصافی ہے:

ضابطہ اخلاق براے مجاہدین جموں و کشمیر

ریاست جموں و کشمیر میں جاری تحریک جہاد سے وابستہ ہرمجاہد کو اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ:

  •                             جہاد میں شریک ہونے سے اس کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی لِتَکُونَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا [تاکہ اللہ کا بول بلند ہو]کے مطابق صرف اور صرف   اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اس کے دین کی سربلندی ہوگا۔
  •                            وہ اپنی پوری زندگی میں اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کی کوشش کرے گا، تاکہ اس کی زندگی اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ بن جائے۔
  •                             وہ جہاد کے تمام احکام و آداب اور شرائط پر پوری طرح عمل درآمد کرے گا، اور اس کے لیے وہ جہاد کے احکام و آداب اور شرائط کا تفصیلی علم حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
  •                             وہ اپنی روز مرہ زندگی میں فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال و مشاغل کو زیادہ سے زیادہ اپنانے کا اہتمام کرے گا، جن سے اللہ کے ساتھ تعلق زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو، مثلاً تلاوتِ قرآنِ کریم، نمازِ تہجد، اذکارِ مسنونہ، نوافل وغیرہ کا اہتمام، تاکہ اللہ تعالیٰ کی حمایت و نصرت یقینی ہو۔
  •                             وہ اپنی روز مرہ زندگی میں کبائر سے بچنے کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال و مشاغل سے بھی سختی کے ساتھ اجتناب کرے گا، جو اسلامی احکام اور جہادی زندگی کے تقاضوں کے منافی ہوں، مثلاً سگریٹ نوشی، گانے اور موسیقی سننا، نامحرم عورتوں سے میل جول وغیرہ۔
  •                             وہ ایسے تمام اخلاقِ رذیلہ سے، جنھیں اسلام نے ناپسندیدہ قرار دیا ہے، مثلاً غیبت، جھوٹ، چغلی، بدگمانی، وعدہ خلافی وغیرہ سے سختی سے اجتناب کرے گا۔
  •                             وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی مَنْ اَطَاعَ الْاَمِیْرَ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ، وَمَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ [جس نے امیرکی اطاعت کی، اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی]کے مطابق معروف میں اپنے امیر/نظم کی اطاعت کو ایک دینی فریضہ سمجھتے ہوئے بجا لائے گا۔
  •                             وہ اپنے تمام مجاہد ساتھیوں کے ساتھ تعاون و احسان اور ایثار کا رویہ اپنائے گا۔
  •                             وہ جہادی امانتوں، بیت المال یا مالِ غنیمت کی پوری طرح حفاظت کرے گا اور ان میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرے گا۔
  •                             وہ ایسے تمام کاموں سے اجتناب کرے گا، جن سے تنظیم میں انتشار و خلفشار پیدا ہونے کا امکان ہو یا جس سے تحریک ِ جہاد کو بالواسطہ طورپر کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔
  •                            قرآنِ کریم کے ارشاد تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ[المائدہ ۵:۲۔جو کام نیکی اور خداترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو] کے مطابق دوسری تمام مجاہد تنظیموں یا ان سے وابستہ مجاہدین کے ساتھ اس کا رویہ تعاون و احسان اور ایثار کا ہوگا۔ اور وہ ایسی تمام کارروائیوں سے سختی کے ساتھ اجتناب کرے گا، جن کے نتیجے میں کسی دوسری مجاہد تنظیم یا اس سے وابستہ مجاہدین کو گزند پہنچنےکا احتمال ہو، یا دو مجاہد تنظیموں کے مابین محاذ آرائی کا خدشہ ہو۔
  •                             وہ قولاً اور عملاً ایسی تمام کارروائیوں سے مکمل طور پر اجتناب کرے گا جن کے نتیجے میں کسی مسلمان کے جان و مال اور عزت کو گزند پہنچنے کا احتمال ہو، قطع نظر اس بات کے کہ اس کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہو یا آزاد کشمیر سے یا پاکستان سے۔
  •                             وہ کسی شخص کے خلاف بھارتی مخبر یا ایجنٹ ہونے کے بارے میں محض شک یا اس سلسلے میں کسی شکایت کی بنا پر اس وقت تک کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرے گا، جب تک کہ باقاعدہ تحقیقات سے ایسا ثابت نہ ہوجائے، نیز اس سلسلے میں بالائی نظم کی طرف سے تحقیقات کے بعدباقاعدہ ہدایت نہ مل جائے۔
  •                             وہ کسی شخص یا گروہ کے ذاتی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرےگا اور نہ دو فریقوں کے درمیان کسی اختلاف یا تنازع کی صورت میں فریق بنےگا۔
  •                             وہ سویلین غیرمسلم عورتوں اور بچوں کے جان و مال سے کسی قسم کا تعرض نہیں کرے گا۔ اور اگر کسی غیرمسلم سویلین کے بارے میں کبھی یہ شکایت ملے کہ وہ بھارتی فوج کے لیے کام کرتا ہے یا اس کی سرگرمیاں مجاہدین یا تحریکِ جہاد کے لیے براہِ راست کسی خطرے کا باعث ہیں، تو اس بارے میں بھی باقاعدہ تحقیقات کے بعد بالائی نظم کی باقاعدہ اجازت کے بعد صرف متعلقہ فرد کے خلاف کارروائی کرے گا۔

اس صاف شفاف لائحۂ عمل اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ضابطوں کی پاس داری  کے علی الرغم ’حزب المجاہدین‘ اور اس کے سربراہ کو عالمی دہشت گرد قرار دینا، دراصل اپنی جگہ پر عالمی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے، جو امریکا کی جانب داری، مفاد پرستی اور اس کے ناقابلِ اعتماد ہونے کی واضح دلیل ہے۔ بی بی سی لندن (اُردو سروس) نے اس پہلو کی یوں نشان دہی کی ہے:

’حزب المجاہدین‘ ، جس کے دیرینہ سربراہ صلاح الدین ہی ہیں، کشمیریوں کی مقامی مسلح تنظیم ہے۔ حزب نے ۲۷سال کے دوران کبھی کسی عالمی ایجنڈے کا ذکر نہیں کیا۔   یہ تنظیم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں راے شماری چاہتی رہی ہے اور اس نے اکثر اوقات القاعدہ اور دولت اسلامیہ [داعش] کی لہر سے اعلاناً فاصلہ بنائے رکھا۔

بی بی سی کے اسی نامہ نگار نے اس خطرے تک کا اظہار کیا ہے کہ:

صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد کشمیری عسکریت پسند لوکل ایجنڈے کی افادیت پر سوال اُٹھا سکتے ہیں اور کشمیر کی مسلح مزاحمت کو شام اور افغانستان میں جاری مزاحمت کے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کشمیر کی مسلح تحریک جس کا ابھی تک کردار بھی مقامی اور ایجنڈا بھی مقامی رہا ہے، ممکن ہے کہ ایک گلوبلائزڈ جہادی نیٹ ورک کا حصہ بننے میں عافیت سمجھے۔(’’صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دیے جانے کا تحریکِ کشمیر پر کیا اثر پڑے گا؟‘‘ از ریاض مسرور، بی بی سی ڈاٹ کام، سری نگر، ۲۷جون ۲۰۱۷ء)

یہ ہیں اصل حقائق___ کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ امریکا اپنے ان حالیہ اقدامات سے عالمی دہشت گردی کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یا پھر اسے فروغ دینے میں دانستہ طور پر حصہ ڈال رہا ہے؟ اور جو عالمی سطح پر کسی کے لیے کوئی نہ کبھی خطرہ تھے اور نہ آج خطرہ ہیں، ان کو خطرہ بنانے کی خدمت انجام دے رہا ہے؟

امریکا اور بھارت کے اس مذموم کھیل سے ’حزب المجاہدین‘ اور تحریک ِ آزادی کشمیر کو باخبر رہنا چاہیے اور اس جال (Trap)سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانے اور عالمی راے عامہ کو ساتھ لے کر چلنے کی ہرکوشش بجا، لیکن سمجھ لینا چاہیے کہ تحریک کا مقامی، محدود اور متعین کردار ہی اس کی بڑی طاقت ہے۔ اس سلسلے میں تحریکِ آزادی اور حزب المجاہدین کا پہلے دن سے اب تک جو کردار پورے تسلسل کے ساتھ رہا ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے۔

ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس اقدام کے ذریعے امریکا نے ایک مسلّمہ اور جائز تحریک ِ مزاحمت کا رُخ بلاوجہ اپنی طرف موڑنے کی حماقت کی ہے یا بھارت کی چال میں آکر یہ اقدام کیا ہے اور اس کے تمام اثرات اور نتائج کا ادراک نہیں کیا ہے۔ آج تک اس تحریک کا رُخ صرف ایک قابض قوت بھارت کی طرف تھا اور ہے۔ امریکا سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ حق و انصاف، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے ماضی کے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے بھارت پر اثرانداز ہوگا، اور حق و انصاف کے مطابق مسئلے کے حل کے لیے کردار ادا کرے گا۔لیکن امریکا کے اس غیرمنصفانہ اقدام نے اس کی پوزیشن کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ یوں امریکا سے جو توقعات کشمیر کے مظلوم عوام کو تھیں،   وہ بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

مذموم بھارتی مقاصد کی تکمیل

اہلِ کشمیر نے آج تک صرف بھارت کا جھنڈا جلایا ہے اور بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔ صرف بھارت کی اس فوجی قوت کو، جو اِن پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، نشانہ بنایا ہے۔ بھارت کا شاطرانہ کھیل یہ ہے کہ اب بھارت کے ساتھ امریکا بھی کشمیری عوام کے غم و غصے کا ہدف بنے۔ نادانی اور جلدبازی میں امریکا اس دلدل میں پھنس گیا ہے، جس سے اسے جلداز جلد نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہاں پر تحریک ِ آزادی کشمیر کے ذمہ داران سے بھی ہماری اپیل ہے کہ وہ بھارت کی حکومت اور افواج ہی کو اپنا مخاطب اور ہدف رکھیں اور امریکا کو اپنے کیس کے مؤید اور اس کے حل کے لیے سہولت کار ہی کی حیثیت سے متحرک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اگرچہ خود اس نے ہدف بننے کی جو حماقت کی ہے، اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی اصل جدوجہد جاری رکھیں۔

اس ’حکم نامے‘ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے شاطر اہل کاروں نے امریکا کو بڑی چابک دستی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان الزامات کا سہارا لیا ہے، جو خود مشتبہ ہیں (اور اگر صحیح ہیں تب بھی)، ان کا تعلق صرف اور صرف بھارت سے ہے، جو اس علاقے پر قابض قوت ہے۔ ان کا کوئی تعلق امریکا، امریکی شہریوں یا امریکی مفادات سے نہیں ہے۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکا نے کیوں ان کو بہانہ بناکر بھارت کے غاصبانہ تسلط میں شریکِ کار اور اس کا محافظ بننے کی حماقت کی ہے؟ جتنی جلد ہوسکے، امریکا کا اس کھیل سے نکلنا علاقائی اور عالمی امن کے لیے بہتر ہے۔

اس حکم نامے میں ایک لفظ ایسا ہے جس کو بڑی مرکزی اہمیت حاصل ہے اور جو خود امریکا اور اقوامِ متحدہ کے اصولی موقف کا عکاس ہے۔ یہی وہ لفظ ہے، جس کی روشنی میں بھارت کے بُنے ہوئے اس جال سے نکلا جاسکتا ہے اور وہ ہے اس امر کا اعتراف کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ ایک Indian  Administrated Jammu and Kashmir  (بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر) ہے۔ جس کے صاف معانی یہ ہیں کہ یہ متنازع علاقہ (Disputed Territory) ہے، اور Indian Administration (بھارتی انتظامیہ)دراصل Indian Occupation (بھارتی قبضے) کا نتیجہ ہے۔ نیز علاقے کے مستقبل کا فیصلہ یہاں کے عوام کے حق خود ارادیت کے اصول کے مطابق ہونا باقی ہے۔

یہی مسئلے کا اصل حل ہے اور یہی وہ چیز ہے، جو جموں و کشمیر کے عوام صبح و شام کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہمارا معاملہ نہ مالیات اور ملازمتوں کے حصول کا ہے اور نہ سیاسی و سماجی مفادات کا ہے، بلکہ آزادی اور حق خود ارادیت کا ہے‘‘۔ اور یہی وہ بات ہے جس پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت نے دہشت گردی کے پردئہ ابہام (smoke-screen) سے مسئلے کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے۔ کشمیری عوام سادہ الفاظ میں یک زبان ہوکر اپنی بات کہہ رہے ہیں: ’’ہم کیا چاہتے؟ ___ آزادی، آزادی!‘‘۔

تحریکِ آزادی اور دہشت گردی میں فرق

تحریکِ آزادی کشمیر کا آغاز تو ۱۹۳۱ء میں ہی ہوگیا تھا، لیکن ۱۹۴۷ء سے آج ۷۰سال گزر نے تک اس منزل کے حصول کے لیے تقریباً پانچ لاکھ افراد کی قربانی، لاکھوں شہریوں کی خانماں بربادی اور دربدری، اربوں کھربوں روپوں کی مالیت کے نقصانات کے علی الرغم، نت نئے جوش و خروش کے ساتھ یہ تحریک برپا اور جاری ہے۔ خصوصیت سے ۱۹۸۹ء سے جو دور شروع ہوا ہے، وہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ یہ ایک قومی تحریکِ آزادی ہے، جس میں آبادی کا بڑا حصہ عملاً شریک ہے۔ یہ ایک عوامی اور جمہوری تحریک ہے، جسے بھارت جبر، ظلم اور ننگی قوت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہاں کے بے بس عوام نے بھارتی اندھی بہری قوت کے آگے سپر ڈالنے سے انکار کر دیا ہے اور بوڑھے اور جوان، مرد اور عورتیں، حتیٰ کہ اسکولوں اور کالجوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی بے خوف و خطر اس میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور کیفیت  یہ ہے کہ  ع

بڑھتا ہے یہاں ذوقِ جرم ، ہر سزا کے بعد

یہاں اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ: ’’سیاسی مقاصد کے لیے ’دہشت گردی‘ عسکریت کے ایسے استعمال کو قرار دیا جاتا ہے، جس سے عام شہری نشانہ بنیں۔ ’تحریکِ آزادی‘  اس کے بالکل برعکس ایک مظلوم قوم کے حق خودارادیت کی سیاسی جدوجہد کا نام ہے، جسے بالعموم قابض قوتیں محض طاقت اور ریاستی ظلم و جبر (State Violence) کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کش مکش میں مزاحمت کے دوران مظلوم انسانوں کو بھی جوابی طور پر مزاحمت کرنا اور ضرب لگانا پڑتی ہے۔ حق خود ارادیت اور آزادی کی یہ جدوجہد (struggle for self determination) ایک سیاسی عمل ہے۔ حتیٰ کہ اگر اس میں غاصب ریاست کی قوتوں کے خلاف عسکری قوت بھی استعمال کرنا پڑجائے، تب بھی وہ جدوجہد ایک تحریکِ مزاحمت ہی رہتی ہے، کسی صورت میں بھی اسے ’دہشت گردی‘ نہیں کہا جاسکتا اور نہیں کہا جاتا۔۔ اس جائز اور فطری حق کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر (دفعہ ۱، شق ۲ اور دفعہ ۵۵) اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں، خصوصاً قرارداد نمبر۱۵۱۴ (xv)  ۱۹۶۰ء جسے Declaration on Granting Independence to Colonial Countries and People  (نوآبادیات اور وہاں کے لوگوں کو آزادی عطا کرنے کا فرمان) قرار دیا ہے اور جس میں ملک ہی نہیں، ایک متعین علاقے کے عوام کو بھی نوآبادیاتی یا قابض قوتوں کے خلاف جدوجہد کا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح جنرل اسمبلی کی دوسری اہم قرارداد نمبر ۲۶۲۵ (xxv) ۱۹۷۰ء ہے جس کا عنوان ہے:

Declaration on Principles of International Law concerning Friendly Relations and Cooperation among States.

ریاستوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور تعاون سے متعلقہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ۔

یہ دونوں قراردادیں اب بین الاقوامی قانون کا تسلیم شدہ حصہ ہیں۔ اسی طرح International Covenant on Civil and Political Rights   (شہری اور سیاسی حقوق کا عالمی اقرار نامہ ) اور International Covenant on Economic, Social and Cultural Rights  (معاشی ، سماجی اور ثقافتی حقوق کا عالمی عہد نامہ )۔

دفعہ ۱، شق ۱ میں کہا گیا ہے کہ:

.....all people have the right of self determination. By virture of that right they freely determine their political status and freely pursue their economic, social and cultural development.

تمام اقوام کو حق خود اختیاری حاصل ہے ۔ اپنے اس حق کی وجہ سے وہ اپنی سیاسی حیثیت کو آزادانہ طور پر متعین کرتے ہیں اور اپنی معاشی ، سماجی اور ثقافتی ترقی کے لیے آزادانہ جستجو کرتے ہیں۔

اس جدوجہد کے دوران اگر قابض قوت ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے اور اقتدار کی شکل وہ ہوجاتی ہے، جسےجارحانہ اور جنگ جویانہ قبضہ (Belligerent Occupation) کہتے ہیں، تو اس کے مقابلے کے لیے سول نافرمانی (Civil Disobedience) اور جائز قوت (Legitimate Force) کا استعمال بھی تحریکِ مزاحمت کا حق ہے اور اسے قانون کی اصطلاح میں Right to Self Defence (ذاتی تحفظ کا حق)تسلیم کیا جاتا ہے۔ تھامس جیفرسن [۱۷۴۳-۱۸۲۶ء] کی قیادت میں امریکی جنگ ِ آزادی سے لے کر آئرلینڈ، الجزائر، کینیا، جنوبی افریقا، غرض سو سے زیادہ ممالک کی آزادی کی تحریکات کا شمار اسی ذیل میں ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثالیں جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور، بوسنیا، کوسووا، فلسطین اور کشمیر ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون، طاقت کے ہراستعمال کو تشدد اور ’دہشت گردی‘ قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ، جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی، ایک معروف اور معلوم حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور  حصولِ آزادی کے لیے اجتماعی طور پر قوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں، مجلسِ اقوامِ متحدہ نے ان کی تائید کی اور ان اقوام کے حصولِ آزادی کے بعد انھیں آزاد اور جائز مملکت تسلیم کیا ہے۔بین الاقوامی قانون کا ایک ماہر کرسٹوفر او کوے (Christopher O. Quaye) نے اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:

تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں میں ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مند قرار دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law، فلاڈلفیا، ٹمپل یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۱ء، ص ۲۸۲)

اسی مصنف نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ:

دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ (ایضاً، ص ۱۷)

نیز یہ کہ:

اقوامِ متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ حقِ خود ارادی کی ہرجدوجہد قانونی اور جائز ہے۔ (ایضاً، ص ۲۶۱)

بین الاقوامی اُمور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہراستعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔

بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:

دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک آدمی، ایک کے لیے ’دہشت گرد‘، دوسرے کے نزدیک ’آزادی کا سپاہی‘ ہے، اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کرسکا ہے۔ (The Penguin Dictionary of International Relations، از گراہم ایونز، رچرڈ نیون ہیم، ،ص ۱۷۷)

تاہم، اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حق خود ارادیت آج ایک مسلّمہ حق ہے، جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں:

سیاسی حق خود ارادی کے اصولوں کے تحت لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے [امریکی] اعلانِ آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوقِ انسانی میں مضمر ہے۔ اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔ (ایضاً،ص ۴۷۷-۴۷۸)

اس بحث کی روشنی میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کا کوئی تعلق دہشت گردی سے نہیں ہے اور سیّد صلاح الدین کو ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دے کر امریکا نے     بین الاقوامی قانون اور عالمی عرف کے اصولوں سے صریح انحراف کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح امریکا نے سیّد صلاح الدین کو جس قافلۂ حُریت میں شامل کر دیا ہے، وہ مختلف اقوام کی جدوجہد ِ آزادی کے حوالے سے پہلے امریکی صدر جیفرسن سے لے کر  نیلسن منڈیلا، جومو کنیاٹا، موگابے، عبدالقادر الجزائری، سبھاش چندربوس اور بھگت سنگھ وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔

امریکی بھارتی تعلقات کا دُہرا معیار

امریکا کے رویے کے تضادات کی ایک اور چشم کشا مثال خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں اس کا رویہ ہے، جس پر گجرات کے فسادات میں ۲ہزار معصوم مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل کی سرپرستی کے الزام کے تحت، امریکا میں اس کے داخلے پر ۲۰۰۵ء میں پابندی لگائی گئی تھی، اور جو ۲۰۱۴ء تک جاری رہی۔ ان ۹برسوں کے دوران میں باربار کوشش کے باوجود مودی صاحب کو امریکا کا ویزا ’دہشت گردی‘ کی سرپرستی کے الزام کی وجہ سے نہیں دیا گیا تھا، لیکن جب ۲۰۱۴ء میں وہ وزیراعظم منتخب ہوگئے تو دامن کے ان تمام خونیں دھبوں سمیت    نہ صرف ان کو ویزا دے دیا گیا، بلکہ وہ بڑے طمطراق سے ہرسال امریکا کے دورے کر رہے ہیں۔ وائٹ ہائوس میں ان کا استقبال ہورہا ہے، امریکی پارلیمنٹ سے وہ خطاب کر رہے ہیں اور اب انھیں جون ۲۰۱۷ء میں سیّد صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کا تحفہ بھی دےدیا گیا ہے، جس پر وہ اور بھارت کی سیاسی قیادت بغلیں بجارہی ہے، اور ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہی ہے۔ البتہ، کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران بھارت کو کوئی گھاس نہیں ڈالی، بلکہ ’پیرس معاہدہ‘ اور ’ماحول کی حفاظت کے مسئلے‘ پر مودی پر الزام لگایا گیا کہ بھارت نے اس معاہدے کے تحت ایک ارب ڈالر اینٹھ لیے ہیں۔ لیکن اب بھارت جو کہ امریکا سے پچھلے پانچ برسوں میں ۱۵؍ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا ہے اور چوں کہ پھر مودی صاحب نے امریکا آنے سے پہلے دو ارب کے ۲۲؍امریکی ڈرون (گارڈین، ایم کیو ۹بی) خریدنے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ یوں ٹرمپ اور مودی شیروشکر ہیں۔

ایک بھارتی اسکالر وجے پرشاد (Vijay Prashad)نے جو Left World Book کے چیف ایڈیٹر ہیں ، الجزیرہ ڈاٹ کام ۲۷جون ۲۰۱۷ء پر شائع شدہ  اپنے مضمون Modi and Trump: When the Titans of Hate Meet (مودی اور ٹرمپ: جب نفرت کے دیوتا ملتے ہیں) میں، امریکاکی بے اصولی کا تذکرہ اس طرح کیا ہے:

نو برس تک مودی پر امریکا میں داخلے پر پابندی تھی۔ [لیکن] امریکی مفادات کی آبیاری کے لیے مودی سے راہ و رسم کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں گجرات کے خونیں فسادات کے سرپرست کے لیے مودی پر الزامات بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔  گویا کہ ’عملیت پسندی‘ (Pragmatism) کا مطلب یہ ہوا کہ اخلاقیات جائے جہنّم میں۔

مودی اور ٹرمپ نہ صرف ایسی تحریکوں کی رہنمائی کر رہے ہیں جن کی بنیاد نفرت پر ہے، بلکہ وہ مادہ پرستی کی ایک قدیم فیشن کی شکل کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ لیکن مودی ٹرمپ کے لیے جو کر سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مزید امریکی ہتھیار خرید لے۔ بھارت دنیا میں ہتھیاروں اور اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، جب کہ امریکا دنیا میں اسلحے کاسب سے بڑا فروخت کنندہ ہے۔

امریکی کانگریس کا چشم کشا تبصرہ

کشمیر کی تحریکِ آزادی کے مردِ مجاہد سیّد صلاح الدین کو آج امریکا دہشت گرد قرار دے رہا ہے اور کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور تشدد کے باب میں اس کی آنکھیں بند اور اس کے      لب خاموش ہیں۔ ہم امریکی صدر اور امریکی عوام کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ انسانی حقوق اور ایک مظلوم قوم کے حق خود ارادیت کے سلسلے میں ماضی میں ان کا موقف کیا رہا ہے؟ آج جو کچھ کیا جا رہا ہے، ذرا اس کا مقابلہ خود ’امریکی کانگریس کی سب کمیٹی براے ایشیا اینڈ پیسفک‘ کی یکم جون ۱۹۹۳ء کی رپورٹ سے کرلیں، کہ اس تحریک ِ آزادی کے بارے میں کمیٹی کا فیصلہ کیا تھا، اور آج اسے کس رنگ میں پیش کیا جارہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج ۲۰۱۷ء کی تحریک بھی اسی تحریک کا تسلسل اور اس کا حقیقی فراز ہے: ’’تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘:

مسئلۂ کشمیر انسانی حقوق کے حوالے سے، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کی امکانی وجہ کے طور پر خطرناک حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک [اہم] مسئلے کے طور پر بھارت اور امریکا کے تعلقات میں خلل ڈال رہا ہے۔ یہ مسئلہ گذشتہ چندبرسوں میں فوری توجہ اور کارروائی کا متقاضی ہو گیا ہے۔

بھارت کو جموں اور کشمیر میں ایک پُر زور ، بنیادی طور پر مقامی بغاوت کا سامنا ہے اور ایسی علامات کم ہی ہیں جن سے یہ اشارہ ملے کہ جموں وکشمیر کے عسکریت پسند یا بھارتی حکومت اس جدوجہد سے عاجز آ رہے ہیں۔ اس بات کا امکان بالکل نہیں ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک فریق دوسرے پر فوجی حل ٹھونس سکے، یا پھر مسلسل خوں ریزی ہی قابلِ قیاس مستقبل کا سب سے زیادہ ممکنہ منظر نامہ لگتا ہے۔

ذیلی کمیٹی نے بھارتی حکومت اور کشمیری عسکریّت پسندوں دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایک منصفانہ اور پایدار سیاسی حل کے لیے جستجو کریں، لیکن ساتھ ہی کمیٹی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ دہلی اور کشمیر یوں کے درمیان کسی حقیقی سیاسی مکالمے کے امکانات  حوصلہ شکن ہیں۔ عوامی سطح پر ، دہلی کے بارے میں لگتا ہے کہ اسے یقین ہے کہ بغاوت بنیادی اور اوّلین طور پر پاکستانی دخل اندازی کا شاخسانہ ہے۔ اگرچہ شواہد اس نظریے کی تائید نہیں کرتے۔ کمیٹی ایسی کسی قابلِ فہم حکومتی حکمت عملی سے بے خبر ہے جس کا مقصد کشمیری عوام کی جائز سیاسی شکایات کا ازالہ کرنا ہو۔

اس معاملے پر ایک روز افزوں اتفاق راے سامنے آ رہا ہے کہ بھارتی مسلح افواج، کشمیرمیں باغیوں اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں ، سرسری سماعت کے بعد سزاے موت، قیدیوں پر تشدد ، منظم طریقے سے آتش زنی، اور طبی عملے اور انسانی حقوق پر نظر رکھنے والوں پر حملوں میں حالیہ مہینوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ذیلی کمیٹی نے بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ذمہ داروں کو دیوانی اور فوج داری سزائیں دے۔ اور مسلح افواج کے ان ارکان کی فہرستیں مہیا کرے جنھیں ان کے غیر قانونی اقدامات پر سزائیں دی گئی ہیں۔

ارکان اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ سینیر بھارتی سیاست دانوں کا تشدد پھیلانے میں کردار رہا ہے اور یہ کہ ایسے پولیس افسران بھی ہیںجو بلوائیوں کی کاروائیوں کے شکار معصوم لوگوں کو تحفظ دینے کے بجاے ایک طرف کھڑے رہے۔( تشدد کے شکار ) ان لوگوں کی اکثریت مسلمان تھی۔ اگر اس قسم کا تشدد جس نے دسمبر اور جنوری میں ملک ہلا ڈالا تھا جاری رہا تو بھارتی سیکولرزم کی بنیادیں تک مشکوک ہو سکتی ہیں۔ ذیلی کمیٹی کے ارکان اپنے اس عقیدے اور یقین کے اظہار میں قطعاً مبالغہ نہیں کر رہے کہ بھارت میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے مذہبی اور سیاسی رواداری قطعی طور پر ضروری ہے۔ (US Parliamentry Sub Committee on Asia and Pacific )

اصل سوال یہ ہے کہ جو کچھ کشمیر میں قابض بھارتی حکمران اور افواج کر رہی ہیں، ان کی روشنی میں دہشت گرد کون ہے؟ حکمران اور افواجِ ہند دہشت گرد ہیں یا کشمیر کے مظلوم انسان اور مزاحمت کرنے والے بڑی حد تک غیرمسلح نوجوان؟ خود بھارتی حکومت کے ذمہ دار افراد کے مطابق مسلح افراد کی تعداد آج چندسو سے زیادہ نہیں اور چند ہزار سے زیادہ کبھی بھی نہ تھی، جب کہ وہاں بھارتی فوج اور پیراملٹری جوانوں کی تعداد ۷ لاکھ اور پولیس کی تعداد ۵ لاکھ ہے۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے فرمان میں سیّد صلاح الدین کی ۲۷سالہ جدوجہد میں متعین طور پر صرف ایک واقعے کا ذکر ہے، جس میں ۱۷؍افراد صرف زخمی ہوئے تھے۔ اس کے مقابلے میں ٹرمپ صاحب اور امریکی محکمہ خارجہ کا ان تمام مظالم اور ریاستی دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں کیا ارشاد ہے، جن کا اعتراف امریکی پارلیمنٹ کی کمیٹی کی اس رپورٹ میں کیا گیا ہے، اور جن میں گذشتہ برسوں کے دوران دسیوں گنا اضافہ ہوگیا ہے، جس کا اعتراف خود اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے تک کر رہے ہیں؟

تحریکِ آزادی کا موجودہ اُبھار

نوجوان بُرہان مظفر وانی [۱۹۹۴ء داداسرا، ترال- ۸جولائی ۲۰۱۶ء بوم ڈورا، کوکرناگ] کی شہادت سے تحریک کے جس دور کا آغاز ہوا اور جس کے دوران تین سو سے زائد معصوم بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں، تین ہزار سے زیادہ بینائی سے محروم ہوچکے ہیں، زخمیوں کی تعداد ۱۲ہزار سے متجاوز ہے اور حراست میں لیے جانے والوں اور لاپتا ہوجانے والوں کی تعداد ۲۰ہزار سے زائد بتائی جارہی ہے۔ کئی مہینے مسلسل ہڑتال رہی ہے، ۶۰دن سے زیادہ عرصے تک کرفیو مسلط رہا ہے، لیکن ایسے ہرظلم اور تشدد کے باوجود تحریکِ آزادی شباب پر ہے۔ ہر کوئی اعتراف کر رہا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک ہے۔ ہرگھر اس میں شریک ہے، اسکولوں کے بچوں، بچیوں سے لے کر ہرطبقے سے متعلق افراد سبھی دل و جان سے شرکت کرر ہے ہیں۔ بھارتی اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق فوجی، پولیس افسراور سول حکمران کھلے اور چھپے اعتراف کررہے ہیں کہ پوری قوم بغاوت پر آمادہ ہے۔ اس دوران دو ضمنی انتخاب ہوئے اور ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب ۷ فی صد اور ۲ فی صد رہا۔ قابض بھارتی حکومت حیران ہے کہ لوگوں کے دلوں سے ریاستی جبر اور گولی کا خوف بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے اور لوگ جان کی بازی کھیلنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھارتی اخبار The Economic Times کے نمایندے نے۸ مئی ۲۰۱۷ء کے شمارے میں تعجب سے لکھا ہے:

جموں اور کشمیر آج عسکریت پسندی کا جو نمونہ پیش کر رہے ہیں، اس نے ۰۳-۲۰۰۲ء کے بڑے عسکری حملوں کے تقریباً ۱۵ برس کے وقفے کے بعد ریاست کو ایک پُرتشدد چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ اپنی بدلتی ہوئی حکمت عملی اور سماجی تصرف کی بدولت عسکریت پسندی، پولیس کے مشاہدے میں، نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہے، بلکہ بڑے پیمانے پر اپنی طرف توجہ بھی مبذول کروا رہی ہے۔ لوگ عسکریت پسندوں کو اپنے سیاسی نظریے کا محافظ خیال کرتے ہیں۔

اسی طرح بھارتی اخبار The Wire میں عدنان بھٹ نے، جو دہلی اور سری نگر سے رپورٹنگ کرتے ہیں ، لکھا ہے:

لڑائی سے فرار کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے، نوجوان مرد اور لڑکے مقابلے کی جگہوں پر بھاری ہتھیاروں سے لیس مسلح افواج کا پتھروں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہجوم در ہجوم جمع ہو جاتے ہیں۔ اس سیاسی تعلق نے کشمیر میں اکیسویں صدی کی نوجوان نسل کے غصے کو اور بھی ہوا دی ہے۔

حکومت اور علیحدگی پسنددونوں سے غیر مطمئن ہو کر ، مقامی عسکریت پسند نوجوان،    جن میں سے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اپنی پُرآسایش زندگیاں ترک کر کے احتجاج کنندگان کی حمایت میں نکل آئے ہیں، ان کو ایسے لوگوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو کشمیری نوجوانوں کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ لہٰذا، بھارتی فوج اور پولیس سے مقابلوں کے دوران موت کا شکار ہونے سے بچ نکلنے کے لیے وہ ان کی مدد کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران، چاہے اس میں ان کی اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے، واحد درست کام لگتا ہے۔

گذشتہ برس (۲۰۱۶ء)سے، عسکریت پسندی کی عوامی حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کئی پولیس افسروں نے اعتراف کیا ہے۔ پولیس کے ایک سینیرعہدے دار نے دی وائر کو بتایا: میں کہوں گا گذشتہ سال سے حالات بہت زیادہ بدل گئے ہیں، خصوصاً جنوبی کشمیر میں۔ ہمیں کچھ خفیہ اطلاعات ملی ہیں کہ کچھ نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا ان نوجوانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔

وجوہ جو بھی رہی ہوں، نوجوان عسکریت پسندوں کو اپنے نصب العین کے لیے حتمی قربانی دینے کے فیصلے نے کشمیری عوام اور خصوصاً کشمیری نوجوانوں میں ان کے مداحوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔

یہ تحریکِ مزاحمت ایک فطری، قومی اور عوامی تحریک ہے۔ اسے دہشت گردی سمجھنا یا کہنا، خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ سیّد صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد کہہ کر اس تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ عوام کی آواز کو سنا جائے اور ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔

پاکستان، امریکا اور پوری عالمی برادری کا فرض ہے کہ ان مظلوم انسانوں کا ساتھ دیں،  ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں، ظالموں کے ہاتھ کو روکیں اور خطے کو حقیقی امن کی طرف لانے کے لیے سیاسی عمل کو متحرک و مؤثر کریں۔ ’دہشت گرد سازی‘ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حالات کو بگاڑنے کا مجرب نسخہ ہے، اصلاحِ احوال کا نہیں۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت ہے کہ وہ کبھی ’شر‘ سے ’خیر‘برآمد کرتا ہے:

عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ  o (البقرہ ۲:۲۱۶) ہوسکتا ہے کہ تمھیں ایک چیز ناگوار ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر ہو، اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لیے بُری ہو، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

 امریکی حکومت کا یہ اقدام اور بھارتی حکومت کا اس پر فخرو اطمینان، اس امر کا پیش خیمہ ہے کہ کشمیر کے جس مسئلے کو ’شملہ معاہدے‘ (۲جولائی ۱۹۷۲ء) کا سہارا لے کر بھارت نے محض ’دو طرفہ‘ (Bilateral) قضیہ بنانے کی کوشش کی تھی، امریکا کے اس اقدام (۲۶ جون ۲۰۱۷ء) نے اسے پھر عالمی مسئلہ بنادیا ہے،جو وہ پہلے دن سے تھا۔ پنڈت نہرو نے ۸جولائی ۱۹۴۹ء کو اپنے بیان میں مسئلۂ کشمیر کو ’ایک عالمی مسئلہ‘(A World Problem) کہا تھا۔

آج اس اقدام کی روشنی میں نہ صرف اس مسئلے کو بین الاقوامی مسئلے کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ بھارت کے لیے دوبارہ شملہ معاہدے کا نام لے کر اسے محض دو ملکوں کا قضیہ قرار دلوانا ممکن نہیں رہے گا۔

حالیہ عالمی صورتِ حال اور کشمیر پالیسی کی تشکیل

امریکا کے اس حالیہ اقدام کی وجہ سے پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری دوچند ہوگئی ہے۔ اس اقدام پر وزارتِ خارجہ کا رِدّعمل کمزور اور روایتی تھا۔ صدر آزاد کشمیر جناب مسعود خان اور چودھری نثار علی خاں صاحب نے کھل کر اور دلیل کے ساتھ بات کی ہے، لیکن جناب وزیراعظم، مشیرخارجہ اور فوج کا رِدّعمل یہ سطور لکھنے تک سامنے نہیں آیا۔ سب سے زیادہ پریشان کن خاموشی پاکستان کی کشمیر کمیٹی کی ہے، جسے اپنے فرض کی ادایگی کا کوئی احسا س ہی نظر نہیں آرہا۔

 ہماری نگاہ میں یہ وقت ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور خصوصیت سے اس کی قومی سلامتی کمیٹی فوری طور پر تمام معاملات پر غور کرے اور پاکستان کے تاریخی موقف اور وقت کی ضرورت کی روشنی میں کشمیر پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی کو مرتب اور اس پر مؤثر انداز میں نقشۂ کار وضع کرنے اور اس نقشے کے مطابق کارکردگی کو یقینی بنانے کا اہتمام کرے۔

ہم اس موقعے پر اپنی ان معروضات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں، جو ہم مسئلۂ کشمیر کے سلسلے میں باربار قوم کے سامنے پیش کرچکے ہیں۔ لیکن بصد افسوس کہ تھوڑے بہت ارتعاش کے سوا کوئی  حقیقی پیش رفت (break through ) نظر نہیں آرہی۔ بہرحال، ایک بار پھر پوری دردمندی اور  دل سوزی کے ساتھ قومی پالیسی کی تجدید اور سب سے بڑھ کر تنفیذ کی درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا مقصد، پاکستان اور علاقے کے مسلمانوں کے لیے امن اور حقیقی مفادات کا حصول ہونا چاہیے___ اس سلسلے کے بنیادی حقائق یہ ہیں:

                ۱-            مسئلۂ کشمیر، ریاست جموں و کشمیر کے سوا کروڑ سے زائد مسلمانوں کے ایمان، عزت، آزادی اور سیاسی اور تہذیبی مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ تقسیم ہند [۱۹۴۷ء] کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یہ محض دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں ہے، اس لیے ہماری سیاسی ترجیحات میں اسے اوّلیت دینا چاہیے۔

                ۲-            مسلمانانِ جموں و کشمیر نے اپنی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھا ہے، اور اس وقت اسے اس مقام تک پہنچا دیا ہے، جہاں بھارت اور دنیا کے دوسرے ممالک یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ، اس مسئلے کے فریق پاکستان، بھارت اور اقوام متحدہ بھی ہیں۔ پاکستان کا فرض ہے کہ ایک فریق کی حیثیت سے مسئلے کو لے کر اُٹھے اور ہرمیدان میں اس کے حل کے لیے سرگرم ہو۔ تحریکِ آزادی کی مدد کے ذریعے بھی، اور عالمی راے عامہ کو منظم اور مسخر کر کے بھی۔

                ۳-            پاکستان کا اصل موقف یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر کا حل صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو پوری جرأت، تسلسل اور دانش مندی سے پیش کرے۔ پاکستان یہ بات بھی واضح کردے کہ الحاق کے فیصلے کے بعد، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر میں تعلقات کی نوعیت، نظم و نسق اور انتظام و انصرام کا نقشہ اور خود اختیاری کی شکل و نوعیت کیا ہو؟    یہ تمام اُمور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق طے ہوں گے۔

                ۴-            پاکستان کا فرض ہے کہ تحریک ِ آزادیِ کشمیر کی بھرپور مدد کرے اور اس کے اعلان میں شرمندگی نہ محسوس کرے۔ پاکستان نے کشمیر کی خاطر گذشتہ ۷۰برسوں میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ آج جب کشمیر کے نوجوان کشمیر اور پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستان کی ریاست اور پاکستان کے عوام کا فرض ہے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی مدد کریں اور ان کی ہرضرورت کو پورا کریں۔

                ۵-            اسی طرح اس جدوجہد میں آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام پر بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کی طرح آزاد کشمیر کی حکومت بھی اپنے اصلی مشن کو بھول چکی ہے۔  وہ محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، اور مقبوضہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی اس کا اوّلین مقصد ہے۔ اسی لیے اسے ’بیس کیمپ‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ گروہی سیاست سے بالاتر ہوکر آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام، تحریک میں بھرپور حصہ لیں اور اپنی ترجیحات کو یکسر بدل کر تحریکِ آزادی کو اس کے منطقی اور فطری نتیجے تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔

                ۶-            حکومت ِ پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ یہ مقصد محض سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے حاصل نہیں ہوسکتا، مگر اس کے باوجود سیاسی اور سفارتی مہم بہت اہم ہے اور اب تک اس کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاسکے ہیں۔ محض چند وفود باہر بھیجنے سے بات نہیں بنے گی، اس کے لیے بڑے ہمہ گیر، منظم اور مؤثر کام کی ضرورت ہے، جس کے تحت پوری دنیا میں ہرعلاقے کے حالات کے مطابق، تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے تعارف اور اس کی تائید کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہماری وزارتِ خارجہ بالعموم اس مقصد میں ناکام رہی ہے۔

                                اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے وزارتِ خارجہ کی تنظیمِ نو ہو اور کشمیر ڈیسک سب سے اہم ڈیسک ہو۔ ہراس ملک میں جہاں پاکستانی سفارت خانہ ہے، کشمیر سیل (Cell) قائم کیا جائے۔ علم اور صلاحیت رکھنے والے افراد کو، جو کشمیر کے لیے صحیح جذبہ رکھتے ہوں، اس کام پر لگایا جائے اور اس طرح عالمی سطح پر ایک مؤثر تحریک چلائی جائے۔

                ۷-            پوری پاکستانی قوم کو حالات سے آگاہ رکھنا اور قومی سلامتی کے لیے جذبۂ جہاد سے سرشار کرنا بھی اس پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ جب تک پوری قوم کو اس تحریک کے لیے متحرک نہیں کیا جائے گا، کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہراسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں، ہرشہر، قصبے اور دیہات میں، ہرمسجد اور مدرسے میں، ہرکارخانے اور بازار میں، جہادِ کشمیر سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے اور اس میں شرکت کے لیے مال سے اور جان سے، ہرصورت میں آمادہ کیا جائے۔ قوم میں حقیقی جذبہ موجود ہے، لیکن اسے آج تک صحیح انداز میں متحرک و منظم نہیں کیا گیا۔

                ۸-            حکومت پاکستان کو اپنا بجٹ بھی ان ترجیحات کی روشنی میں ازسرِنو مرتب کرنا ہوگا۔ جہادِکشمیر کی ضروریات کو اوّلیت دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوکلیر پاور کی مناسب ترقی، فوج کو چوکس رکھنا اور قوم کے نوجوانوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔ اس بات کا خطرہ ہے کہ جب کشمیر میں حالات بھارت کی گرفت سے بالکل نکلنے لگیں گے تو وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کرے گا۔ کشمیر پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جنگ کے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو قوم جنگ سے خائف رہی ہے، وہ اپنی آزادی سے بھی محروم ہوگئی ہے اور جو قوم جنگ کے لیے تیار رہی ہے، وہی اپنے ایمان، عزت و آزادی کو محفوظ رکھ سکی ہے۔

                                سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن[م: اپریل ۱۹۹۴ء] نے بہت صحیح کہا تھا کہ ’’ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قوت کے استعمال سے دست برداری ، دراصل دشمن کو اپنے خلاف قوت کے استعمال کی دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘، بلکہ نکسن نے تو یہاں تک کہا ہے:  ’’صرف تیار ہی نہ رہو، مخالف کو یہ پیغام بھی دے دو کہ تم ہرقوت کے استعمال کے لیے تیار ہو، یہ وہ چیز ہے جو دشمن کو تم پر دست درازی سے روکے گی‘‘۔

                                اسی بات کو امریکی پالیسی ساز ہنری کسنجر نے دوسرے انداز میں کہا ہے: ’’اگر امن کے معنی محض جنگ سے بچنا ہی لیے جائیں، اور یہ چیز ایک قوم یا بہت سی اقوام کے مجموعے کا بنیادی مقصد بن جائے، تو سمجھ لو عالمی سیاسی نظام سب سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ملک کے رحم و کرم پر ہوگا‘‘۔ اس لیے جنگ سے بچنے کا بھی سب سے مؤثر راستہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہے۔

                ۹-            بھارت پر مؤثر دبائو ڈالنے کے لیے چار ہی اہم طریقے ہیں اور ان چاروں کو مؤثرانداز میں اور مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال ہونا چاہیے:

  •                                  تحریک ِ آزادیِ کشمیر کی بھرپور اور مؤثر مدد، تاکہ مقبوضہ کشمیر میں قابض قوت پر اتنا دبائو پڑے اور اسے قبضے کی اتنی گراں قیمت ادا کرنی پڑے کہ وہ پُرامن حل کے لیے تیار ہوجائے۔
  •                                 عالمی راے عامہ کو منظم کرنا، اور اس کا دبائو اتنا بڑھانا کہ بھارت، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے کے لیے مجبور ہو۔ اگر فرانس کو الجزائر چھوڑنا پڑا، اگر اقوامِ متحدہ کو نمیبیا میں استصواب راے کرانا پڑا، اور اگر جنوبی افریقہ تین سو سالہ نسلی امتیاز کے نظام کو ختم کرنے پر مجبور ہوا، اگر اسکاٹ لینڈ میں پانچ سو سالہ رفاقت کے باوجود استصواب راے ہوسکتا ہے اور اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکلتے ہوئے استصواب کا راستہ اختیار کرسکتا ہے، اگر جنوبی سوڈان الگ ہوسکتا ہے اور اگر مشرقی تیمور کی ریاست انڈونیشیا سے کٹ کر استصواب کے سہارے قائم ہوسکتی ہے، تو بھارت کو بھی کشمیر میں استصواب پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور بہت جلد کیا جاسکتا ہے۔
  •                                 پاکستان بھارت اور اس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی عالمی مہم کا آغاز اس سے   تجارتی تعلقات منقطع کرکے کرے۔ تمام مسلمان ممالک کو اس کی ترغیب دی جائے کہ اوآئی سی کی اپریل ۱۹۹۳ء کی قرارداد کے مطابق بھارت کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس وقت صرف مشرق وسطیٰ میں بھارت کی کل برآمدات کا تقریباً ۵۰ فی صد جارہا ہے۔ اگر ایک مؤثر عوامی اور سرکاری تحریک چلائی جائے تو یہ معاشی دبائو بھی بھارت کو مجبور کرے گا کہ کشمیر میں استصواب کرائے۔ پھر عالمی پلیٹ فارم پر بھی معاشی پابندیوں کا مطالبہ کیا جائے۔ سلامتی کونسل میں، جنرل اسمبلی میں، دنیا کی مختلف پارلیمانوں میں یہ قراردادیں منظور کرائی جائیں۔ عوامی بائیکاٹ کی مہم کے ساتھ ساتھ سرکاری پابندیوں کی تحریک بھی چلائی جائے۔ اگر اس واضح ہدف کے لیے کام کیا جائے، تو جلد فضا تبدیل ہوسکتی ہے۔
  •                                  قوم کو جہاد کے لیے تیار کرنا ، فوج کا چوکس رہنا اور ایٹمی ڈیٹرنس کا صحیح درجے میں موجود ہونا، ایک طرف یہ چیز بیرونی جارحیت کے لیے مؤثر رکاوٹ ثابت ہوگی اور دوسری طرف ہم کو وہ استطاعت حاصل رہے گی کہ اگر دشمن کوئی دست درازی کرتا ہے تو اس کا مؤثر جواب دیا جاسکے۔ ایٹمی قوت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بھرپور جنگ سے اجتناب ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس دفاعی اسٹرے ٹیجی میں نیوکلیر پاور کا مؤثر کردار ہے۔

                ۱۰-         اس عظیم جدوجہد کو اپنی اصل بنیادوں پر قائم رکھنے اور کامیابی سے ہم کنار کرانے کے لیے جہاں یہ امر ضروری ہے کہ بھارت اور اس کے ہم نوائوں کی سازشوں سے نہ صرف باخبر رہا جائے، بلکہ پورے اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ ان کا بھرپور مقابلہ بھی کیا جائے۔  تحریکِ آزادیِ کشمیر، الحمدللہ ، مخلص نوجوانوں اور تجربے کار مخلص قائدین کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے درمیان بے اعتمادی پیدا کرنے، غلط فہمیوں کو ہوا دینے اور خلیج ڈالنے کی خطرناک کوششیں شروع ہوچکی ہیں، جن سے باخبر رہنا اور مکمل باہمی اعتماد کے ذریعے انھیں ناکام بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب غاصب اور جابر قوتیں، اپنے بہیمانہ جبر اور عریاں جارحیت کے ہتھیاروں سے، مزاحمت اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے میں ناکام ہوجاتی ہیں، تو پھر وہ لازوال قربانی کی تاریخ رکھنے والی تحریکوں کے مختلف عناصر کو ایک دوسرے کے خلاف بدگمان اور صف آرا کرنے کی مذموم کوششیں کرتی ہیں۔ ظالموں کی ان دونوں حکمت عملیوں کا پوری سمجھ داری سے مقابلہ کرنے کے لیے: اتفاق و اتحاد، تحمل و دُور اندیشی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسے کی ضرورت ہے۔ اللہ کی تائید آزادی کے لیے کوشاں تحریکوں کو ان شاء اللہ ثمرآور کرے گی۔ ضرورت ہے کہ جدوجہد کو پوری قوت، بہترین حکمت عملی اور مکمل یک جہتی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ ان شاء اللہ کامیابی اہلِ کشمیر کے قدم چومے گی۔

                ۱۱-         مندرجہ بالا خطوط پر مرتب کردہ کشمیر پالیسی کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کے نفاذ کے لیے بھی ایک مؤثر مشینری وجود میں لائی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ پالیسی اور اس کی تنفیذی مشینری، قومی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مناسب ابتدائی اقدامات کرنے چاہییں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کا کردار بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کام کے لیے ایک قومی تحریک کی ضرورت ہے۔

جس طرح کشمیر کے نوجوانوں نے چند برسوں میں وہاں کی فضا تبدیل کر دی ہے ، اسی طرح اگر پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام اپنے فرض کی ادایگی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، تو حالات بہت کم وقت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف تحریکِ آزادیِ کشمیر اور بالآخر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی شکل میں ہی نہیں ہوگا، بلکہ قوم کو نئی زندگی اور نیا جذبہ ملے گا، اور اس نئی زندگی اور نئے جذبے سے پاکستان کو ایک حقیقی اور مضبوط اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ یہی تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد تھا اور یہی تحریکِ کشمیر کی بھی قوتِ محرکہ ہے۔