پروفیسر خورشید احمد


تھرپارکر کا صحرا دنیا کا چھٹا بڑا صحرا ہے، جو پاکستان اور بھارت میں مشترک ہے۔ پاکستانی حصہ ۳۳ہزارمربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جو چھے تحصیلوں پر محیط ہے اور اس کی آبادی ۱۵لاکھ کے قریب ہے۔ زیادہ آبادی ۲ہزار ۳ سو دیہات میں مکین ہے، جب کہ کچھ شہری آبادی بھی ہے۔ زیرکاشت رقبہ سوا تین لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے، جو آبادی کے ۲۰ فی صد کی ضرورتوں کو بمشکل پورا کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے خوراک کے باب میں عدم تحفظ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ ہے اور ایک مستقل مسئلہ ہے۔ گلہ بانی یہاں کے لوگوں کا دوسرا بڑا پیشہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۶۰لاکھ مویشی اس علاقے میں ہیں، جو سندھ اور خصوصیت سے کراچی کی گوشت کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ البتہ مویشیوں کے لیے بھی چارے کا مسئلہ پریشان کن ہے، جو نتیجتاً مویشیوں میں مختلف نوعیت کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ۵لاکھ سے زیادہ بھیڑبکریاں sheep pax اور دوسری بیماریوں میں مبتلا ہیں اور علاج کی سہولتیں سخت ناکافی ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سے بیمار مویشی انسانی غذا کا حصہ بنتے ہیں اوریہ چیز انسانی صحت کے لیے ایک مستقل مسئلہ اور خطرہ ہے۔

تھر کے علاقے میں خشک سالی، اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والی خوراک کی عدم فراہمی  اور غذائی قلت بچوں اور خواتین میں بیماریوں کا بڑا سبب ہیں جو قحط اور غذا کی کمیابی کی مختلف کیفیات (intensities) کے ساتھ ایک معمول بن گئی ہیں۔ علاج کی سہولتیں ناپید ہیں۔ گذشتہ ۲۰سال میں نو بار خشک سالی اور غذا کی قلت وبا کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور انسانوں اور مویشیوں کی قابلِ ذکر پیمانے پر ہلاکت کا باعث رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ علاقہ ایک مخدوش علاقہ ہے اور خشک سالی اور غذا کی قلت ایک معلوم مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور غذا، صحت، تعلیم اور روزگارکی فراہمی کا ایسا نظام ضروری ہے جو ہردو تین سال کے بعد خشک سالی سے پیدا ہونے والے مسائل کے مستقل حل کا ذریعہ ہو۔ اچھی حکمرانی کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں کے حالات اور موسم اور دوسرے قدرتی عوامل کے اُتارچڑھائو کی تاریخ اور صورتِ حال کی روشنی میں اصلاح احوال کا مستقل بنیادوں پر اہتمام کیا جائے۔ تھر کا صحرا دنیا کے ان چند صحرائوں میں سے ہے جنھیں زرخیز صحرا کہا جاتا ہے، یعنی پانی کی فراہمی کے مناسب انتظام کی صحیح منصوبہ بندی اور ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے اسے سبزہ زار بنایا جاسکتا ہے اور قدرت کے تھپیڑوں کا بڑی حد تک کامیابی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

اس پس منظر میں ۷مارچ ۲۰۱۴ء کو میڈیا پر سوا سو بچوں کے بھوک، کم خوراکی اور بیماریوں سے لقمۂ اجل بن جانے کی خبر نے پاکستان کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا اور گذشتہ دو ہفتوں میں جو حقائق قوم کے سامنے آئے ہیں، وہ جہاں نہایت افسوس ناک اور شرم ناک ہیں، وہیں سندھ کی حکومت کی غفلت ہی نہیں مجرمانہ غفلت کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب تصدق حسین جیلانی نے بجاطور پر سوموٹو نوٹس پر سماعت کے دوران تھر کی صورت حال کو  پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دینے کے مترادف قرار دیا ہے اور اس کی بنیادی ذمہ داری صوبہ سندھ کی حکومت اور اس کی پالیسیوں اور رویوں کو قرار دیا ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ تھرپارکر کے حالات اور تاریخی اعداد و شمار کوئی نئی شے نہیں۔    اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن (FAO) نے پانچ سال پہلے متنبہ کیا تھا کہ آنے والے برسوں میںاس علاقے میں خوراک کی قلت اور فاقہ کشی کے شدید خطرات ہیں، اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طور پر مناسب اقدامات کی ضرورت ہے جس کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے اور صحیح پالیسیاں وضع کر کے انھیں رُوبہ عمل لانا چاہیے___ لیکن مقامی انتظامیہ اور صوبائی حکومت غافل رہے۔

ستم یہ ہے کہ خود صوبائی حکومت نے ۲۰۱۲ء میں تھرپارکر کے پورے علاقے کو بڑی تباہی کا خطہ قرار دیا تھا اور ایک قانون کا مسودہ صوبائی حکومت نے Draft-Nutritional Policy کے عنوان سے تیار کیا تھا لیکن دوسال میں وہ ڈرافٹ صرف ڈرافٹ ہی رہا، جسے نہ حکومت کی پالیسی کی صورت اختیار کرنا نصیب ہوا اور نہ اس کی تنفیذ سے خوراک اور پانی کی فراہمی کے لیے کوئی قانون سازی ہوئی۔ خطرات منڈلاتے رہے۔ اربابِ حکومت اپنی حکمرانی کی دُھن میں مَست بانسری بجاتے رہے اور ان کی دل چسپی عوام کی مشکلات کو دُور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کی جگہ فیسٹیول منانے اور اپنے حلوے مانڈے تک محدود رہی۔

پھر اگست ۲۰۱۳ء میں محکمہ موسمیات نے وارننگ دے دی تھی کہ ۱۵؍اگست تک بارشوں کے نہ ہونے سے انسانوں اور مویشیوں کے لیے خوراک کی قلت کا شدید خطرہ ہے لیکن یہ وارننگ بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور ستمبر۲۰۱۳ء سے بچوں کی اموات کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں دسمبر۲۰۱۳ء میں تیزی سے اضافہ ہوا اور فروری ۲۰۱۴ء تک ۱۲۱بچے زندگی کی بازی ہارگئے۔      ان سطور کی تحریر کے وقت (۲۰؍مارچ ۲۰۱۴ء) تک اموات کی وہ تعداد جو رپورٹ ہوئی ہے ۱۷۲تک پہنچ چکی ہے اور خدشہ ہے کہ ایک خاصی بڑی تعداد ان بچوں کی بھی ہے جو ہسپتالوں تک نہیں لائے جاسکے اور جو اپنے اپنے دیہات یا صحرا کی ریت ہی پر دم تو ڑ گئے۔ اس طرح سیکڑوں کی تعداد میں انسانی غنچے بن کھلے ہی مرجھا گئے۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ۲۰۱۱ء میں پاکستان کے تمام علاقوں کے بارے میں غذائی اجناس کی فراہمی کے باب میں ایک اہم سروے ہوا تھا جسے Pakistan Nutritional Survey 2011  کہا جاتا ہے۔ اس کی رُو سے ملک کی آبادی کا ۵۷ فی صد غذائی عدم تحفظ (food insecurity) کا شکار ہے اور سب سے خراب صورت حال فاٹا کے  ساتھ ساتھ سندھ اور خصوصیت سے تھرپارکر کے علاقے میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کے حالات کے تمام جائزوں کے ذریعے یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ علاقہ معرضِ خطر میں ہے اور فوری اور مستقل ہردو بنیادوں پر مؤثرمنصوبہ بندی اور عملی اقدام کی ضرورت ہے، مگر صوبے کی انتظامیہ اور سیاسی قیادت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی۔

حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی اور بے حسی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلیف اور صحت کے شعبے کا کوئی وزیر ہی موجود نہیں ہے۔ جن صاحب کو عارضی چارج دیا گیا ہے، انھوں نے کبھی اس علاقے کے حالات کو جاننے اور سنوارنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ انتظامی عہدوں پر نااہل اقربا کا تقرر کیا گیا جنھیں علاقے کی فلاح و بہبود سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ سپریم کورٹ میں صوبے کے سیکرٹری صحت نے اپنے بیان میں ہسپتالوں اور صحت مراکز پر ڈاکٹروں کی غیرحاضری کا جو نقشہ کھینچا ہے اس پر انسان صرف سر ہی پھوڑ سکتا ہے۔ ارشاد ہے کہ صرف اس علاقے کے جہاں صحت اور ادویہ کی عدم فراہمی کی وجہ سے سیکڑوں بچے موت کی آغوش میں جابسے ہیں، ۴۵۰ڈاکٹر ڈیوٹی سے غائب تھے اور اب انھیں شوکاز نوٹس دیے گئے ہیں۔

صوبائی حکومت کی بے بصیرتی، غیرسنجیدگی اور بدترین نوعیت کی حکمرانی اس صورت حال کا اولین سبب ہے۔ دوم: انتظامیہ کی نااہلی، کرپشن اور احتساب اور نگرانی کے نظام کا فقدان۔ سوم: اس علاقے میں معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر کا فقدان اور منصوبہ بندی کا افلاس ہے۔ سڑکیں بنادی گئی ہیں مگر ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ ہسپتال موجود ہیں مگر ڈاکٹر اور ادویات ندارد۔ گندم کی بوریاں گوداموں میں سڑرہی ہیں اور لوگ روٹی کے دو لقموں کو ترس رہے ہیں۔ پانی کی ترسیل کا کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ ان پر مستزاد عملے کی نااہلی اور کرپشن___ قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر جو وسائل اس علاقے کے لیے فراہم کیے اس کا بمشکل ۱۰ فی صد عوام تک پہنچتا ہے اور ۹۰ فی صد کرپٹ عناصر کی ہوس زرگری کی نذر ہوجاتا ہے اور اُوپر سے نیچے تک احتساب کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔

اس سب کچھ پر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ حکومت کی بڑی ذمہ دار ہستی جسے خصوصیت سے حالات کو سدھارنے کے لیے کراچی سے تھر بھیجا گیا ہے، ان کا ارشاد ہے کہ یہ سارا فاقہ و فساد میڈیا کا کیا دھرا ہے۔بڑی شانِ بے نیازی کے ساتھ اس کے لیے ایک نئی اصطلاح وضع فرماتے ہیں کہ یہ MMD ہے یعنی Media Made Disaster۔ خود وزیراعلیٰ صاحب فرماتے ہیں: This is a normal occurence in the Thar district.  (ضلع تھر میں یہ ایک معمول کا واقعہ یا صورتِ حال ہے)___   اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ الیہ رٰجعون! یعنی یہاں پہلے بھی لوگ مرتے رہتے ہیں اور اب بھی مر رہے ہیں۔

یہ وہ حکمران فرما رہے ہیں جو ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے اور غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے کے سب سے بڑے دعوے دار تھے۔

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے پالیسی سازی کا بحران، بدترین حکمرانی اور کرپشن کے ساتھ اربابِ اقتدار کی بے حسی اور غیرسنجیدگی نے بھی حالات کو بگاڑنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اصل مسئلہ خوراک کی عدم فراہمی نہیں، بدترین طرزِ حکمرانی ہے۔ ریلیف کی فوری کوششوں کے ساتھ واضح پالیسی کی تشکیل اور انتظامی مشینری اور خدمات کی فراہمی، خصوصیت سے پہنچانے کے نظام کی اصلاح ازبس ضروری ہے۔ محض فنڈز کی فراہمی سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ حکومت کی مشینری کی نااہلی اور ناکامی کے ساتھ اگر ایک نظر غیرحکومتی خدمتی اداروں کی کارکردگی پر ڈالی جائے تو فرق صاف نظر آتا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اپنے محدود وسائل کے ساتھ ۱۹۹۸ء سے اس علاقے میں پانی کی فراہمی، تعلیم اور ادویات کی فراہمی کے لیے ایک جامع منصوبے کے تحت کام کررہی ہے۔ اس عرصے میں ۵۰۰ سے زیادہ کنویں کھودے گئے ہیں، جسے زم زم پراجیکٹ کا عنوان دیا گیا ہے اور ہزاروں افراد کو پینے کا صاف پانی میسر آیا ہے۔ حالیہ بحران کے موقعے پر بھی الخدمت فائونڈیشن مؤثر خدمات انجام دے رہی ہے۔ اسی طرح جماعت الدعوۃ، پیماریلیف، ایدھی فائونڈیشن اور خود فوج کے دستوں نے بڑی مفید خدمات انجام دی ہیں۔

اگر یہ ادارے انسانی جانوں کو بچانے اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اتنا کچھ کرسکتے ہیں، تو پھر حکومت کیوں اپنے اربوں روپے کے ترقیاتی پروگراموں اور ہزاروں افسروں اور کارندوں کے لائولشکر کے باوجود کوئی مؤثر خدمت انجام نہیں دے سکی؟ ___ وقت آگیا ہے کہ  جن کے ہاتھوں میں حکومت کی زمامِ کار ہے اور جو قوم کے وسائل کے استعمال پر مامور ہیں، ان کا پورا پورا احتساب کیا جائے اور قوم کے وسائل قوم کی بہبود کے لیے استعمال کیے جانے کا اہتمام کیا جائے۔

برادر محترم عبدالقادر مُلّا شہید کے غم کو ابھی دو مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ مولانا ابوالکلام محمدیوسف کے دورانِ حراست رحلت کی خبر دل پر بجلی بن کر گری۔ اس طرح بنگلہ دیش، تحریک اسلامی اور اُمت مسلمہ اپنے ایک اور نام وَر خادم سے محروم ہوگئی :  اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

مولانا اے کے ایم یوسف کو یہ اعزازبھی حاصل ہوا کہ میرے علم کی حد تک جماعت اسلامی کے وہ پہلے قائد ہیں جنھوں نے جیل میں جاں جانِ آفریں کے سپرد کی ۔ یوں وہ ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بے گناہی کا اعلان اور حق کی خاطر اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کا پورے عزم اور اعتماد سے دفاع کرتے ہوئے اپنے رب سے ملاقات کے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ الحمدللہ ۸۸سال کے اس جواں عزم رکھنے والے مجاہد نے کسی موقعے پر بھی کوئی کمزوری نہ دکھائی اور اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو سچا کر دکھایا:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)  ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچاکر دکھایا___ اور ان میں کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

مولانا ابوالکلام محمد یوسف ۲فروری ۱۹۲۶ء کو بنگلہ دیش کے ایک گائوں راجیہ (سارن کھالہ) ضلع باگرہاٹ میں پیدا ہوئے اور ۹فروری ۲۰۱۴ء کوشمیور سنٹرل جیل ڈھاکہ میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد بنگلہ بندھو میڈیکل یونی ورسٹی ہسپتال لے جاتے ہوئے ربِ حقیقی سے جاملے۔ بنگلہ دیش کی منتقم حکومت نے ان کو ۱۲مئی ۲۰۱۳ء کو جنگی جرائم کے جھوٹے الزامات کے نام پر گرفتار کیا تھا۔ دل کا دورہ پڑنے کے بعد، پولیس انھیں قریب ترین ہسپتال میں لے جانے کے بجاے ایک دُور کے ہسپتال لے کر گئی اور وہاں پہنچتے پہنچتے وہ اللہ کو پیارے ہوگئے    ؎

یہ خون جو ہے مظلوموں کا، ضائع تو نہ جائے گا لیکن

کتنے وہ مبارک قطرے ہیں، جو صرفِ بہارا ں ہوتے ہیں

مولانا ابوالکلام محمد یوسف نے ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں حاصل کی پھر اسی سفر کو جاری رکھا تاآنکہ ۱۹۵۲ء میںدینی تعلیم کی اعلیٰ ترین سند ممتاز المحدثین حاصل کر کے ایک معلم اور داعی کی حیثیت سے عملی کردار کا آغاز کیا۔ مدرسہ عالیہ سے بھی دینی علوم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر دینی مدارس میں تدریس کی ذمہ داریاں ادا کیں اور اعلیٰ تدریسی و انتظامی صلاحیتوں کے سبب ۱۹۵۸ء میں مدرسے کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ دورانِ تعلیم ہی میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے استفادہ کیا اور پھر تحریکِ اسلامی میں رچ بس گئے۔ مولانا عبدالرحیمؒ مشرقی پاکستان میں بنگلہ بولنے والے پہلے رکن جماعت اسلامی تھے اور مولانا ابوالکلام محمد یوسف کو دوسرا رکن ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ ۱۹۵۶ء میں کھلنا ضلع کے امیر مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں مرکزی مجلس شوریٰ میں منتخب ہوئے اور ۱۹۷۱ء تک اس ذمہ داری کو بہ حُسن و خوبی ادا کیا۔ اس زمانے میں مشرقی پاکستان جماعت اسلامی کے سیکرٹری اور نائب امیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

پاکستان قومی زندگی میں مولانا ابوالکلام محمد یوسف کی سیاسی جدوجہد کا آغاز ۱۹۶۲ء میں مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کا رُکن منتخب ہونے سے ہوا۔ ۸جون ۱۹۶۲ء کو حلف لے کر غیرجماعتی ایوان میں کلمۂ حق بلند کرنے کا آغاز کیا۔ وہ ۱۹۶۹ء تک اسمبلی کے رکن رہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان ڈاکٹر محمد مالک کی صوبائی حکومت میں چند ہفتوں کے لیے وزیرمال بھی رہے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء کے سانحہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد قیدوبند کی صعوبتوں کو جھیلا، جس سے دسمبر ۱۹۷۵ء میں نجات ملی۔ پھر زندگی کے آخری سال میں ایک بار حسینہ واجد کی آتشِ انتقام کا نشانہ بن کر پابند سلاسل ہوئے اور نام نہاد وارکرائمز ٹربیونل کی انتقامی کارروائی سے پہلے ہی حکم ربانی کے تحت باعزت اور نہ ختم ہونے والی رہائی حاصل کرلی  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

مولانا اے کے ایم یوسف مرحوم سے میری ملاقاتوں اور پھر قریبی تحریکی تعلق کاآغاز ۱۹۶۲ء ہی سے ہوا جب وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر اسمبلی میں جماعت اسلامی ہی نہیں، بلکہ تمام دینی اور تعمیری قوتوں کی آواز بن گئے۔ مشرقی پاکستان سے جماعت کی حمایت سے تین ارکان منتخب ہوئے تھے___ دو ارکان اور ایک متفق: یعنی مولانا ابوالکلام محمدیوسف اور جناب عبدالخالق صاحب رکن جماعت تھے اور بیرسٹر اخترالدین صاحب متفق اور ہم نوا مگر پوری طرح جماعت کے نظم کے پابند اور اس کی فکر کے ترجمان۔ البتہ اسمبلی میں مولانا ابوالکلام محمدیوسف جماعت کے پارلیمانی لیڈر کا کردار ادا کرتے تھے۔ اخترالدین احمد انگریزی اور مولانا بنگالی میں اور کبھی کبھی بنگالی اور اُردو میں اظہارِ خیال فرماتے تھے۔ وہ اپنی تقاریر میں ہمیشہ دلائل کے ساتھ قومی اُمور پر جماعت اسلامی کے موقف کو پورے اعتماد اور وقار سے پیش کرتے تھے۔ وہ طبعاً بڑے لطیف مزاج تھے، اور اپنے اس ذوق کو موقع بہ موقع بڑی خوب صورتی سے استعمال کرتے تھے اور سب اس سے لطف اُٹھاتے تھے۔ جہاں تک بنگلہ زبان کا تعلق ہے مولانا محمد یوسف اس کے شعلہ بیان مقرر تھے نیز اُردو میں بھی وہ بڑی روانی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔

جماعت اسلامی کے پارلیمانی کردار کا آغاز مولانا محمد یوسف نے ۱۱جون ۱۹۶۲ء کو مولوی تمیزالدین صاحب کے اسپیکر منتخب ہونے پر مبارک باد میں کی جانے والی تقریر سے کیا اور پارلیمانی بحث پر تحریکی فکر کے نقوش مرتسم کردیے۔ اس پہلی تقریر میں قیامِ پاکستان کے اصل مقصد، یعنی اسلامی نظام کے قیام کا بھرپور انداز میں اظہار کیا۔ فوجی ڈکٹیٹر محمد ایوب خان کے جس دستور کے تحت یہ اسمبلی بنی تھی، اس پر تنقید کی، اسے ایک غیراسلامی دستور قرار دیا اور بڑے لطیف انداز میں کہا کہ بس اس دستور کا ایک خوش آیند پہلو یہ ہے کہ اس میں ترمیم ہوسکتی ہے اور ان شاء اللہ وہ ہم جلد کریں گے اور اسے اسلام کے مطابق ڈھال کر دم لیں گے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار جناب عبدالخالق نے بھی کیا۔ انھوں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں یہ بات بھی کہہ دی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اصل رشتہ اسلام کا ہے اور صرف اسلام کے مطابق انصاف ہی کی بنیاد پر یہ ملک ترقی کرسکتا ہے، نیز یہ کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے سیاسی جماعتوں کی بحالی اور ان کا بھرپور کردار ضروری ہے۔

صدرفیلڈمارشل ایوب خان نے اپنی قوت کے نشے میں ۱۹۶۲ء کے دستور سے قراردادِ مقاصد خارج کردی تھی۔ مملکت کا نام جو ۱۹۵۶ء سے دستور میں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ تھا بدل کر صرف ’جمہوریہ پاکستان‘ کردیا تھا اور قانون سازی کے سلسلے میں قرآن وسنت کی جگہ صرف ’اسلام‘ کا ذکر کیا تھا اور  عدالتوں کے ذریعے اس شق کے نفاذ کو (justiciable ) دستور میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

جماعت اسلامی اور ہم آواز اسلامی قوتوں کی مساعی کے نتیجے میں پہلے ہی مہینے سیاسی جماعتوں کا قانون بڑی رد و کد کے بعد وضع کیا گیا۔ جولائی ۱۹۶۲ء میں سیاسی جماعتیں بحال ہوئیں اور اس بحث کے دوران اسلام کو ملک کی آئیڈیالوجی کے طور پر بھی ایوبی آمریت کے کارندوں کی ساری رکاوٹوں کے باوجود منظور کرایا گیا۔ اس کا موقع اس طرح پیدا کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری قرار دیاگیا تھا کہ ’’وہ پاکستان کی سالمیت کو مجروح کرنے والی کسی سرگرمی میں ملوث‘‘ نہیں ہوں گی،جب کہ مولانا ابوالکلام محمدیوسف اور دوسرے اسلام پسند ارکان کے اصرار پر اس شرط کے ساتھ ’نظریۂ پاکستان کی مخالفت‘ کو بھی شامل کیا گیا اور پھر واضح الفاظ میں نظریۂ پاکستان کی یہ وضاحت بھی شامل کی گئی کہ اسلام ہی نظریۂ پاکستان ہے۔

قومی اسمبلی میں کی جانے والی بحث کا یہ حصہ بڑا چشم کشا ہے۔ اس وقت کے وزیرقانون  جناب سابق جسٹس محمد منیر تھے، جو پنجاب کے ۱۹۵۳ء کے فسادات کے سلسلے میں تیار کی جانے والی رپورٹ کے مصنف تھے اور پاکستان کی اسلامی اساس کے منکر تھے۔ انھی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کا یہ بل متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوا۔ سب کمیٹی نے، جس میں بیرسٹر اخترالدین احمدصاحب تھے، متفقہ طور پر ’پاکستان آئیڈیالوجی‘ کا لفظ اضافہ کیا۔ اسمبلی میں ترمیم کے ذریعے   اس وضاحت کا مزید اضافہ کیا گیا کہ پاکستان آئیڈیالوجی کے معنی اسلام ہیں۔ سیکولر طبقے سے یہ اضافہ ہضم نہیںہو رہا تھا اور طرح طرح کے  حیلے بہانے کیے گئے لیکن بالآخر اس ترمیم کو منظور کرنا پڑا۔ اس طرح ۱۹۶۲ء میں، نہ کہ ۱۹۶۹ء میں جنرل شیرعلی یا ۱۹۷۷ء میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اسلامی آئیڈیالوجی بحیثیت پاکستان آئیڈیالوجی ان ہی الفاظ میں قانون کا حصہ بنی، اور پھر اسمبلی اور تمام اہم مناصب پر مامور افراد کے حلف کا حصہ بنی۔

اس کامیابی میں مولانا ابوالکلام محمدیوسف کا دوسرے اہم ارکان کے ساتھ بڑا نمایاں حصہ تھا۔ بالآخر سابق جسٹس منیر کو بھی شرمسار ہوکر اس ترمیم کو ایوان کی مرضی کے طور پر تسلیم کرنا پڑا اور ان کے مندرجہ ذیل الفاظ کارروائی ہی کا نہیں تاریخ کا حصہ بن گئے۔افسوس کا مقام ہے کہ اس واقعے کے سات سال بعد شائع ہونے والی کتاب From Jinnah to Zia جس کے مصنف بھی یہی سابق جسٹس محمد منیرہیں، وہ اس میں ایک بار پھر وہی راگ الاپتے نظر آئے کہ: ’پاکستان، نیز اسلامی آئیڈیالوجی کے ’مسلط‘ کرنے کا کام جنرل ضیاء الحق نے انجام دیا جو محمدعلی جناح کے تصور کے برعکس تھا‘۔ لیکن نتیجہ یہ ہے کہ اسمبلی کے ایوان میں سابق جسٹس منیر کے یہ الفاظ ان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں جو کبھی مٹایا نہ جاسکے گا:

ڈپٹی اسپیکر:

تحریک پیش کی جاتی ہے کہ ’’بل کی دفعہ ۲کے پیرا (c) کے بعد درج ذیل پیرا شامل کیا جائے:

(d) آئیڈیالوجی آف پاکستان کا مطلب ہے اسلام

مسٹر محمد منیر: جناب عالی! اصل بل میں لفظ ’آئیڈیالوجی‘ شامل نہیں تھا اور جب مَیں یہ بل ڈرافٹ کر رہا تھا تو میں نے اس سوال پر غور کیا کہ لفظ ’آئیڈیالوجی‘ شامل ہو یا نہ ہو؟ مَیں نے آخری فیصلہ یہ کیا کہ اس لفظ کو شامل نہ کیا جائے کیوں کہ مَیں محسوس کرتا ہوں کہ الفاظ ’پاکستان کی آئیڈیالوجی‘ کی تعریف کرنا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ لیکن سلیکٹ کمیٹی نے اس لفظ کو شامل کیا ہے اور اب یہ ایک ترمیم ہے کہ الفاظ ’پاکستان کی آئیڈیالوجی‘ کی تعریف اس طرح کی جائے کہ اس کا مطلب اسلام ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں اس لفظ سے مکمل طور پر بے تعلق ہوں کہ لفظ ’آئیڈیالوجی‘ یہاں ہو یا لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کو حذف کردیا جائے، یا لفظ ’آئیڈیالوجی‘ کی تعریف اسلام کے لفظ سے کی جائے۔ مَیں یہ ایوان پر چھوڑتا ہوں۔(قومی اسمبلی پاکستان کی کارروائی، ۱۱ جولائی ۱۹۶۲ء، ص ۱۳۳۴)

مولانا ابوالکلام محمدیوسف نے دستور میں پہلی ترمیم کے سلسلے میں بھی بڑا مثبت بلکہ  جارحانہ کردار ادا کیا اور بالآخر اسمبلی کو پاکستان کا اصل نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ بحال کرنا پڑا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ دستور اپنی اصل شکل میں دستور کا دیباچہ بنائی گئی۔ قانون سازی کے باب میں ’اسلام‘ کی جگہ اصل الفاظ ’قرآن وسنت‘ بحال کیے گئے اور ان سے متصادم قانون سازی پر پابندی لگائی گئی۔ نیز ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ڈھالنے کی ان شقوں کو بحال کیا گیا جو ۱۹۵۶ء کے دستور میں تھیں، مگر ۱۹۶۲ء کے دستور میں ان کو عملاً غیرمؤثر کردیا گیا تھا۔ دستور میں اس بنیادی ترمیم میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ گیا، لیکن جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی، مفتی محمود صاحب اور مسلم لیگ کے کچھ ارکان کی مشترکہ کوششوں سے ۲جولائی ۱۹۶۲ء ہی کو ایک قرارداد اسمبلی میں پیش کی گئی اور ۳جولائی کو اسے متفقہ طور پر منظور کرایا گیا کہ: ’’ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کیا جائے گا‘‘۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار     جن لوگوں نے ادا کیا، ان میں محمد ایوب، میاں عبدالباری اور مفتی محمود کے ساتھ ساتھ مولانا یوسف، جناب عبدالخالق صاحب اور بیرسٹر اخترالدین احمد نے ادا کیا اور سابق جسٹس محمد منیرصاحب پیچ و تاب کھاتے رہے مگر   ع  

رہ گئے وہ بھی ہاں کرتے کرتے!

مولانا ابوالکلام محمدیوسف نے اسمبلی میں جو تقاریر کی ہیں، وہ ان کی بالغ نظری، جرأتِ ایمانی اور پاکستان اور تحریک اسلامی سے وفاداری کی روشن نظیر ہیں۔ ان میں انھوں نے خارجہ پالیسی، بجٹ سازی، اُمور حکمرانی (governance)، غرض ہر مسئلے پر کلام کیا اور قدرتِ کلام کا مظاہرہ کیا ہے۔ بجٹ پر ان کی تقاریر اسلامی اور معاشی ہردواعتبار سے بڑا مبسوط و مربوط تبصرہ ہیں۔ ان تقاریر میں انھوں نے صرف سود، اسراف اور غلط معاشی ترجیحات ہی پر احتساب نہیں کیا ہے، بلکہ زندگی کے ہرشعبے پر کلام کیا ہے۔

اسی طرح خارجہ پالیسی پر ان کی کئی تقاریربڑی چشم کشا ہیں، جن میں انھوں نے   خارجہ پالیسی کے عدم توازن کا بھانڈا پھوڑا۔ سفارت خانوں کی کارکردگی پر احتساب کیا ہے ۔ امریکا کی گودمیں بیٹھ جانے پر شدید تنقید کی ہے اور امریکا کے ناقابلِ اعتبار دوست ہونے کی حقیقت بیان کی۔ خصوصیت سے جب ۱۹۶۲ء میں امریکا نے پاکستان سے کیے گئے وعدوں کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کو اسلحے کی سپلائی شروع کی تو اس پر ان کی تنقید بڑی بھرپور اور جامع ہے۔ انھوں نے روس اور چین سے تعلقات کو نظرانداز کرنے اور صرف امریکا پر بھروسا کرنے پر سخت گرفت کی۔ اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا ہے کہ امریکا نے سیٹو اور سینٹو میں پاکستان کی شرکت سے لے کر ۱۹۶۲ء تک، یعنی ۱۰سال میں جو امداد دی، بھارت کو صرف تین مہینے میں اس سے ۸گنا زیادہ کااسلحہ فراہم کیا۔ یہ بھی یاد دلایا کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی اپنا یہ وعدہ بھول گئے کہ پاکستان سے مشورے کے بغیر بھارت کو کوئی اسلحہ فراہم نہیں کریں گے۔ بڑے لطیف انداز میں انھوں نے کہا کہ امریکا کی پاکستان سے دوستی ہم پاکستانیوں کی مرغی سے دوستی کی طرح ہے کہ جب دل چاہا مرغی کو ذبح کر کے دسترخوان کی زینت بناڈالا۔

۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۹ء تک مشرقی پاکستان کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی تھیں۔ مولانا محمدیوسف نے ان پر بھی بھرپور کلام کیا ہے۔ سوالات کی شکل میں بھی اور بحث اور دوسرے مواقع پر  اپنی تقاریرکے اندر بھی۔ تعجب ہوتا ہے کہ حج تک کے معاملے میں ناانصافی کی گئی۔ اپریل ۱۹۶۳ء کے ایک سوال کے جواب میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان سے حج کے لیے جانے والوں میں ایک اور چار کی نسبت تھی اور ۱۹۶۳ء میں مشرقی پاکستان سے صرف ۴۸۰۰حاجی جاسکے، جب کہ اس سال مغربی پاکستان سے حج کے لیے جانے والوں کی تعداد ۱۱۳۰۰ تھی۔ اسی طرح ہرشعبے میں ملازمتوں میں، ترقیاتی اخراجات میں، غرض زندگی کے ہر شعبے میں مشرقی پاکستان کے حقوق پامال کیے جارہے تھے۔ یہ آواز جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی نے ساٹھ کے عشرے میں اُٹھائی، جو تاریخ کا حصہ ہے۔

مسلمانانِ پاکستان ’ریڈ کراس سوسائٹی‘ (سرخ صلیب) کے نام پر ہمیشہ سے معترض تھے۔ اس میں عیسائی مشنری اور سامراجی سیاسی رشتے کی جو جھلک نظر آتی ہے، اس سے خلاصی چاہتے تھے۔ ۷۰ کے عشرے میں غالباً جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ریڈکراس سوسائٹی کا نام تبدیل کرکے اسے پاکستان ریڈکریسنٹ (ہلالِ احمر) سوسائٹی قرار دیا گیا، لیکن کم لوگوں کو علم ہے کہ   اس تبدیلی کا سب سے پہلے مطالبہ مولانا محمد یوسف نے اسمبلی میں اپریل ۱۹۶۳ء میں کیا تھا اور عملاً۱۳؍اپریل ۱۹۶۳ء کو ایک بل اس تبدیلی کے لیے اسمبلی میں داخل کردیا تھا، جس پر بحث کے دوران ارکان کی بڑی تعداد نے اس کی تائید کی۔ اس تائیدی لہر سے خائف ہوکر اس وقت کی حکومت نے بڑی چال بازی کے ساتھ اس بل کو کمیٹی کے سپرد کردیا، لیکن جب بھی نام میں یہ تبدیلی ہوئی اس کا اصل اعزاز مولانامحمدیوسف ہی کو جاتا ہے۔

اسی طرح وقت بے وقت آرڈی ننس جاری کرکے حکمرانی کرنے پر بھی مولانا محمد یوسف نے اسمبلی میں بھرپور تنقید کی اور لطیف انداز میں کہا کہ ہم تو مطالبہ کر رہے تھے: ’’بھارت میں ۵۰کے قریب آرڈی ننس فیکٹریاں ہیں، جہاں سے اسلحہ تیار ہو رہا ہے اور بڑی مشکل سے ایک اسلحہ ساز فیکٹری کا پاکستان میں آغاز ہوا،لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے دوسری نوعیت کی  تین آرڈی ننس فیکٹریاںکھولی ہوئی ہیں اور یہ تینوں ہمہ وقتی گولہ باری کررہی ہیں: ایک ایوانِ صدر سے اور دو گورنر ہائوسز سے۔ یہ آرڈی ننس فیکٹریاں اسمبلی میں قانون سازی کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اسمبلی کے دو سیشنوں کے درمیان گیارہ گیارہ اور سات سات گولے داغے جارہے ہیں۔ یہ اسمبلیوں کے حق پر کھلی دست درازی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے‘‘۔ اس سلسلے میں ان کی سب سے مؤثر اور دل چسپ تقریر ۲۷بومبر ۱۹۶۳ء کو اسمبلی میں ہوئی، جس نے ایوان کو کشت ِ زعفران بنادیا۔

اسی طرح آمریت پر انسانی حقوق کی پامالی اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاریوں پر انھوں نے باربار کڑی تنقید کی اور صدر ایوب کو خطاب کر کے ایک بار یہاں تک کہا کہ: ’’جمہوریت ڈنڈے کے ذریعے نہیں آتی، اور اگر ڈنڈا یہ کام کرسکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کو انبیا ؑ بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، جو تعلیم و تلقین کے ذریعے انسانوں کو بدلتے اور دنیا میں امن و آشتی اور انصاف کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں بلکہ صرف ڈنڈا نازل فرما دیتے‘‘۔ قبائلی علاقوں میں انتظامی قوانین (FCR) پر بھی انھوں نے بھرپور تنقیدکی۔ عدلیہ کی آزادی اور سیاست سے ججوں کے دُور رہنے پر بھی انھوں نے باربار کلام کیا اورسابق جج محمدمنیر کی موجودگی میں یہاں تک کہا کہ: ’’عدلیہ کی آزادی کے لیے    یہ ایک خطرہ ہے کہ جج وزیر بن جائیں اور وزیر جج بننے کے لیے کوشاں ہوں۔ ان کی دُوری ہی عدلیہ کی آزادی کی ضمانت ہے‘‘۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی کے ارکان نے ہردور میں: ۶۲-۱۹۶۹ء ، ۷۲-۱۹۷۶ء اور ۱۹۸۵ء سے اب تک جو کردار ادا کیاہے وہ قوم کے سامنے لایا جائے۔ نئی نسلوں کو حتیٰ کہ جماعت کے اپنے حلقوں میں لوگوں کو احساس نہیں کہ اس سلسلے میں جو بات جماعت آج کہہ رہی ہے کس دیانت اور استقامت کے ساتھ اس نے ہر دور میں وہی بات کہی ہے۔

مولانا محمد یوسف سے میرے تعلقات ۵۲سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو ایک اچھا انسان، ایک سچا مسلمان ، اور محب ِ وطن پاکستانی ،اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بنگلہ دیش اور سب سے بڑھ کر تحریکِ اسلامی اور اُمت مسلمہ کا خادم پایا۔ ان کی طبیعت بے حد سادہ، ان کی باتوں میں خلوص کی خوشبو، اور ان کے معاملات میں دیانت اور خیرخواہی کا جذبہ فراواں پایا جاتا تھا۔ ان کی تنقید میں اصلاح کی جستجو ہوتی تھی۔ حق کی جدوجہد میں ہردور میں انھوں نے استقامت دکھائی۔ خدمت ِ خلق ان کا شعار تھا۔ کسانوں کے حالات میں بہتری لانے اور مساجد اور مدارس کے قیام میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ۴۰۰ سے زیادہ مساجد، مدارس اور یتیم خانے ان کی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہوئے، جو ان کے لیے صدقۂ جاریہ کے طور پر ان شاء اللہ ان کے حسنات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ وہ ان خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں،   جن کے بارے میں ہمارے مالک نے فرمایاہے:

یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo (الفجر ۸۹: ۲۷-۳۰) اے نفس مطمئن! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔

حالات کو بڑی تیزی سے ایک ہولناک تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ قوم اور اس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو متنبہ کیا جائے کہ وہ کوئی انتہائی فیصلے کرتے وقت ہوش کے ناخن لے اور ملک و ملّت کو تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ آج دانا دشمن اور نادان دوست دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں ملک کو ایک نئے تصادم کی طرف لے جانے میں سرگرم ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ محب وطن دینی اور سیاسی قوتیں خاموش تماشائی نہ بنیں اور مل کر اور پوری دانش مندی کے ساتھ حکومت اور برسرِاقتدار قوتوں کو ملک کو آگ اور خون کے اس گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کے ذمہ داران سے، خصوصیت سے وزیراعظم، وزیرداخلہ، ارکانِ پارلیمنٹ، عسکری قیادت اور میڈیا کے ذمہ دار عناصر سے ہماری درخواست ہے کہ حالات کا ٹھنڈے دل سے دلیل،     زمینی حقائق اور تاریخ کے تجربات کی روشنی میں جائزہ لے کر قومی سلامتی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی اور پروگرام مرتب کریں۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور دینی قیادت کو اعتماد میں لیں، اور پوری قوم کو ساتھ لے کر ان حالات کا مقابلہ کریں۔

زمینی حقائق کے اِدراک کی ضرورت

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر وہ پالیسی اور اقدام جو بیرونی یا اندرونی دبائو کا نتیجہ ہو یا جسے بڑی حد تک جذبات، غصے اور انتقام کے جذبے کے تحت اختیار کیا جائے، وہ تباہ کن ہوتا ہے۔ دورِحاضر میں اس کی بدترین مثال وہ ردعمل ہے، جو امریکا نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے دہشت گردی کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے ردعمل کے طور پر اختیار کیا، اور جس کے نتیجے میں نہ صرف  یہ کہ دہشت گردی کا سدِّباب نہ ہوسکا، بلکہ اس کو عالمی سطح پر ہزار گنا زیادہ فروغ حاصل ہوگیا۔  آج دنیا، بشمول امریکا، ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی غیرمحفوظ ہے۔ بلاشبہہ ان ۲۹۰۰؍ افراد کی ہلاکت ایک دل دوز سانحہ اور کھلا ظلم تھا، جو نائن الیون کے اقدام کا نشانہ بنے۔ لیکن کیا اس حقیقت سے آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کیجنگ‘ کے نتیجے میں ان تقریباً ۳ہزار جانوں کے مقابلے میں افغانستان میں تقریباً ایک لاکھ ۲۰ ہزار افراد اور عراق میں ۶لاکھ افراد موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں۔ صرف افغانستان میں اب تک خود امریکا کے ۲۸۰۶فوجی ہلاک ہوئے اور ۱۸ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ امریکا کے جتنے فوجی افغانستان گئے ہیں  ان میں ۱۰فی صد ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں نے خودکشی کی ہے اور دسیوں ایسے ہیں، جنھوں نے دیوانگی کے عالم میں اپنے ہاتھوں امریکی اور ناٹو افواج ہی کو نشانہ بناڈالا ہے۔ برطانیہ کے ۴۴۷فوجی ہلاک اور کئی ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ امریکا صرف افغانستان کی جنگ پر ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور برطانیہ ۴۰ ارب پونڈ اس آگ میں جھونک چکا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور ناٹو افواج کو ذہنی اور سیاسی و عسکری دونوں قسم کی شکست سے سابقہ ہے۔ افغانستان  خود امن و چین سے محروم ہے۔ افغانستان کی فوج اور معیشت دونوں امریکا کی مدد کی محتاج ہیں۔ افغان بجٹ کا ۸۰ فی صد امریکی امداد پر منحصر ہے، اور باقی بجٹ کا بڑا انحصار افیون کی تجارت پر ہے۔

رہی افغان عوام کی حالت ِ زار تو افغانستان کے پے درپے دوروں کے بعد ایک امریکی مصنف اور صحافی پیٹرک کک برن (Patrick Cockburn) کاؤنٹرپنچ کے ۱۳جنوری ۲۰۱۴ء کے شمارے میں لکھتا ہے:

بلاشبہہ جو رقم افغانستان پر خرچ کی جارہی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ افغانستان میں خرچ کی جارہی ہے۔ لیکن اس بات کو پیش نظر رکھ کر بھی بہت بڑی بڑی رقمیں خرچ کرنے کے باوجود سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۶۰ فی صد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں اور صرف ۲۷ فی صد افغانوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہے۔ بہت سے باہر سے رشتہ داروں کی بھیجی ہوئی رقم سے زندہ ہیں یا منشیات کے کاروبار سے جو افغانستان کی قومی آمدن کا ۱۵ فی صد تک ہے۔

یہ اعداد و شمار افغانستان اینلسٹ نیٹ ورک کابل سے وابستہ تھامس رٹنگ کے جائزے:  ’’افغانستان میں بین الاقوامی مداخلت کے ۱۲سال‘‘ سے سامنے آئے ہیں۔ اس مستند جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج افغانستان کہاں کھڑا ہے؟

یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی فوجی مداخلت مکمل ناکامی پر منتج ہوئی ہے۔ طالبان کچلے نہیں جاسکے ہیں جو ملک کے تمام حصوں میں فعال ہیں، اور ہلمند جیسے صوبوں میں امریکا اور برطانیہ کی افواج کے جاتے ہی اقتدار سنبھال لیںگے۔ غیرملکی فوجوں کی پشت پناہی کے باوجود حکومت ِ افغانستان کا کنٹرول دارالحکومت کے ضلع سے باہر چندکلومیٹر کے فاصلے پر ختم ہوجاتا ہے۔ پورے افغانستان پر عموماً فوجی طورطریقوں کے بارے میں بات چیت کی جاتی ہے، جب کہ امریکا برطانیہ کی ناکامی کی سب سے اہم وجوہ سیاسی ہیں۔ بہت سے افغان بدتر انجام سے خوف زدہ ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ۲۰۱۴ء میں ۱۹۹۰ء کے عشرے کا ظلم اور انارکی کا دور جب جہادی دستے افغانستان پر حکومت کرتے تھے، آجائے گا۔

امریکا کو اس جنگ کے نتیجے میں بدنامی، شکست اور پسپائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ افغانستان تباہ و برباد ہوگیا۔ جس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دنیا کو اور خصوصیت سے افغانستان، پاکستان اور شرق اوسط کو جنگ کی آگ میں جھونکا گیا، وہ سب ماقبل سے بُرے حال میںہیں۔ یہ نتیجہ ہے ایک بدمست سوپرپاور کے اس ردعمل کا، جس کی بنیاد دلیل، حق و انصاف کے اصول اور زمینی حقائق کے صحیح اِدراک اور حکمت و توازن کی بنیاد پر پالیسی سازی کے فقدان پر مبنی ہے۔ طاقت کے زعم میں، سیاسی اور عسکری غرور وتکبر اور سب سے بڑھ کر غصے اور انتقام کے جذبات سے آلودہ تھی۔ اس ساری تباہی کی بڑی وجہ امریکی صدربش کا وہ ردعمل تھا، جس کی کوئی عقلی بنیاد نہ تھی بلکہ غرور، غصے اور انتقام کے جذبات تھے جن سے مغلوب ہوکر واحد سوپرپاور کے صدر نے امریکا کی سیاسی اور معاشی قوت پر ضرب لگانے والوں کو تہس نہس کرنے کے جذبات میں بہنا پسند کیا۔ موصوف نے مناسب تحقیق کے بغیر اور عالمی قانون کو حقارت سے نظرانداز کرتے ہوئے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر افغانستان پر فوج کشی کرڈالی اور پھر اس کا دائرہ بلاجواز عراق تک بڑھا دیا۔ پاکستان کو کان پکڑ کر اس جنگ میں جھونکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیا ۱۲برس سے اس عذاب میں مبتلا ہے۔ عراق سے تو امریکی افواج واپس چلی گئیں مگر عراق خانہ جنگی کی آگ میں آج تک جل رہا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا ٹائم ٹیبل دیا جارہا ہے مگر خانہ جنگی اور علاقائی بدامنی کے بھوت فضا میں منڈلا رہے ہیں اور امن اورسلامتی کا دُور دُور پتا نہیں۔

ماضی کی حکمت عملی کے نتائج

اگر امریکا نے جذبات سے مغلوب ہوکر غرور، غصے اور انتقام کی بنیاد پر دنیا کو جنگ میں جھونکا، تو پاکستان کے سیاہ و سفید پر قابض جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی دبائو میں شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ، اور قومی مفادات اور عوامی جذبات کو یکسرنظرانداز کرکے امریکا کی اس جنگ میں اپنے کو شریک کرکے اپنے مسلمان ہمسایہ برادر ملک پر فوج کشی کے لیے امریکا کو   نہ صرف ہرسہولت دے ڈالی، بلکہ اپنی زمینی اور فضائی حدود پر امریکا کو تسلط اور غلبہ عطا کیا۔ امریکا کے احکام پر اپنے شہریوں اور برادر ملک کے ان مہمانوں کو جو ہماری امان میں تھے، ڈالروں کے عوض امریکا کے حوالے کیا اور اس سلسلے میں سفارتی اور اسلامی آداب کو بھی بُری طرح پامال کیا۔ اس کی شرم ناک داستان پاکستان میں افغانستان کے سفیر مُلّا عبدالسلام ضعیف کی کتاب My Life with the Taliban میں دیکھی جاسکتی ہے۔

پاکستان کو ان ۱۲ برس میں دینی، سیاسی، عسکری، معاشی، غرض یہ کہ ہر میدان میں بے پناہ نقصانات ہوئے اور پاکستان عملاً اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوکر رہ گیا۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہارگئے، جن میں ۶ سے ۸ہزار افراد کا تعلق فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ زخمیوں کی تعداد اس سے دو تین گنا زیادہ ہے، اور جو نقل مکانی پر مجبور ہوئے ان کی تعداد ۳۰لاکھ سے متجاوز ہے۔ مالی اور معاشی اعتبار سے نقصان کا کم سے کم اندازہ ایک سو ارب ڈالر کا ہے اور سب سے بڑھ کر پورے ملک کا امن اور چین درہم برہم ہوگیا۔

جو دوست تھے وہ دشمن بن گئے اور جو دشمن تھے انھوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنے اثرات بڑھا لیے۔ ملک کے حالات اور پالیسیوں میں امریکا کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا اور اس کی  خفیہ ایجنسیوں اور کارندوں کو ایسے ایسے مقامات تک رسائی حاصل ہوگئی، جس سے ہماری سالمیت معرضِ خطر میں ہے۔ عوام اور حکمرانوں، عوام، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں دُوری بڑھ گئی۔ جن کے درمیان رشتے کی امتیازی خصوصیت اعتماد، افتخار اور محبت تھی، وہ بُری طرح متاثر ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بے اعتمادی اس حد کو پہنچ گئی کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے باقاعدہ فوجی اہلکاروں کو ہدایت دی کہ عام سواریوں میں فوجی وردی میں سفر نہ کریں۔ جس فوج کو عوام اپنی زندگی، آزادی اور عزت کا نگہبان سمجھتے تھے اور جس سے نسبت پر فخر محسوس کرتے تھے، اس سے تعلقات او راعتماد میں یہ کمزوری صرف اور صرف اس وجہ سے رُونما ہوئی کہ اس وقت کی قیادت نے عوام کے جذبات اور قومی مفادات سے صرفِ نظر کرکے، امریکا کی اس جنگ میں ملک اور اس کی قانون نافذ کرنے والی قوتوں کو جھونک دیا تھا۔

۲۰۰۱ء میں امریکا کے لیے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کو کھول دیا گیا تھا۔ پھر ۲۰۰۴ء سے عملاً پاکستانی افواج کو بھی آہستہ آہستہ اس جنگ میں شریک کردیا گیا، جس میں ۲۰۰۷ء کے بعد شدت آگئی۔ یہی وہ سال ہے جب پاکستان کے قبائلی علاقے میں باقاعدہ تحریکِ طالبان پاکستان کی تشکیل ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ روز بروز تصادم بڑھتا گیا ، اور معصوم عوام دونوں طرف سے نشانہ بننے لگے۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ سرکاری املاک، فوجی چھائونیاں اور پولیس کی چوکیاں دہشت گردی سے محفوظ ہیں اور نہ مساجد، امام بارگاہیں، دینی مدارس، تعلیمی ادارے اور عام آبادیاں امن کا گہوارا ہیں۔

دہشت گردی آج ملک عزیز کی سلامتی کے لیے ایک اہم ترین خطرہ بن گئی ہے۔ دہشت گردی کی ہرشکل سے نجات وقت کی ضرورت ہے، خواہ اس کا ارتکاب افراد، گروہ یا مسلح تنظیمیں کررہی ہوں یا خود ریاستی ادارے اپنی حدود سے بڑھ کر ان کے مرتکب ہورہے ہوں۔   اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام دینی اور سیاسی قوتیں اور قوم کے تمام محب وطن عناصر مل کر قومی سلامتی کی پالیسی مرتب کریں اور سب مل جل کر اس پر عمل کو یقینی بنائیں۔ جو پالیسی بیرونی دبائو کے تحت بنے گی یا جو اصول قومی عزائم اور مفادات کے مقابلے میں، گروہی جذبات، غصے، انتقام یا مفاد پرست لابیوں کے اثرونفوذ کے نتیجے میں وجود میں آئیں گے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ گذشتہ ۱۲برسوں میں برپا ہونے والی تباہی کا بڑا سبب وہ پالیسیاں ہیں جو بیرونی دبائو یا اندرونی کمزوری کے تحت بنائی گئی تھیں۔ اب اس روش سے مکمل اجتناب کے ساتھ خالص قومی مقاصد، ملکی مفادات، عوام کے جذبات اور احساسات کی بنیاد پر نئی پالیسیوں کی تشکیل اور تنفیذ کی ضرورت ہے۔

جذباتی انداز میں یہ کہہ دینا کہ ’’پہلے یہ جنگ ہماری نہیں تھی، لیکن اب بن گئی ہے‘‘ ایک نامعقول اور فریب خوردگی پر مبنی دعویٰ ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی اور اس کی مختلف اقسام اور ان کے اسباب سب پر نگاہ ڈالی جائے، اور حالات کے معروضی تجزیے کے بعد ایسی ہمہ گیر پالیسی بنائی جائے، جو مسئلے کے ہرہرپہلو کا احاطہ کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حقائق کو بنیاد بنایا جائے اور جذبات اور تعصبات کو فیصلوں پر اثرانداز نہ ہونے دیا جائے۔

اس وقت کچھ طاقت ور لابیاں ایک خاص زاویہ بنانے میں مصروف ہیں اور ایک ایسی جذباتی فضا بنانے کے درپے ہیں، جس میں حق و صداقت اور انصاف اور توازن کی بات نامطلوب بن جائے۔ انجامِ کار ملک اور فوج کو ایک ایسے آپریشن میں جھونک دیا جائے، جو امریکا کے مقاصد، مفادات اور ایجنڈے کا تو حصہ ہو اور اوباما اور جان کیری کی ’do more‘ [اور مارو]کی تعمیل پر پاکستان کو جنگ کی ایک ایسی آگ میں جھونک دے، جو افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد بھی پاکستان اور افغانستان کو بھسم کرتی رہے۔

یہ وقت ٹھنڈے دل سے پورے معاملے کے صحیح تجزیے کے بعد ایسی پالیسیاں وضع کرنے کا ہے جو پاکستان، افغانستان اور اس علاقے کے مفاد میں ہوں اور فوری اور دُور رس امن و سلامتی کی ضمانت دے سکیں۔ امریکا کو تو یہاں سے جانا ہے، لیکن پاکستان اور افغانستان دائمی ہمسایہ ممالک ہیں اور ہمیں ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بننا ہے۔ اس کے لیے حالات کو امریکا کی نگاہ سے دیکھنے اور امریکی مفادات کے چنگل سے نکل کر اپنے اور اپنے برادر ملک کے مفادات کی روشنی میں حالات کی صورت گری کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

ہمیں اس امر کو سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کا کھیل ناکام ہوچکا ہے۔ اب پاکستان اور افغانستان کو مل کر آگ بجھانے اور نئی زندگی کی بساط بچھانے کی فکر کرنا ہے۔ بلاشبہہ آج کا افغانستان بدامنی اور تصادم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور پاکستان بھی، خصوصاً اس کے شمالی اور مغربی علاقے کے طول و عرض میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ کراچی شہر اور صوبہ بلوچستان بھی اپنے اپنے طور پر دہشت گردی کی گرفت میں ہیں ۔ نو سال سے جاری فوجی اور نیم فوجی آپریشنوں کے باوجود حالات قابو میں نہیں آرہے۔ جس پالیسی کے نتیجے میں گذشتہ نو سال میں امن قائم نہیں ہوا، بھلا اس کو کچھ اور بھی دوآتشہ کرکے کس طرح کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جب خود امریکا اپنی ساری عسکری اور معاشی طاقت اور ٹکنالوجی کی فوقیت کے باوجود ۱۲برس تک آگ اور خون کی بارش کر کے  افغانستان سے ناکام و نامراد واپسی اور پسپائی پر مجبور ہوچکا ہے، تو اس تناظر میں یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ہم اس ناکام حکمت عملی کے وارث اور ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے اسیر بن جائیں۔

بلاشبہہ گذشتہ چند دنوں میں ایسے ہولناک واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے لیکن غصے اور انتقام کے جذبات کے زیراثر ردعمل کبھی مفید نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت ٹھنڈے دل سے غوروفکر کرنے اور تمام ضروری پہلوئوں کو سامنے رکھ کر نئی حکمت عملی بنانے کا ہے۔ورنہ اس عاجلانہ قوت آزمائی کے نتائج ان تباہ کن نتائج سے مختلف نہیں ہوسکتے، جو جارج بش اور ان کے حواریوں کے نائن الیون کے موقعے پر جذباتی اور انتقامی ردعمل سے رُونما ہوئے، اور جن کی آگ میں آج تک سب جل رہے ہیں۔

عالمی راے عامہ اور ردعمل

گیلپ انٹرنیشنل نے نائن الیون کے واقعے کے بارے میں امریکی قیادت کے ردعمل کے بارے میں، عالمی راے عامہ کی جو تصویر پیش کی ہے، اسے آج نگاہوں کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ۱۹ستمبر ۲۰۰۱ء کو اصل واقعے سے صرف آٹھ دن بعد دنیا کے ۲۹ممالک میں سے ۲۷ کی آبادی کی اکثریت نے افغانستان پر فوجی حملے کی مخالفت کی تھی۔ گیلپ رپورٹ کے الفاظ ہیں:

یہ بات دل چسپ ہے کہ ۲۹ ممالک میں سے جن ۲۷ میں یہ عالمی جائزہ گیلپ انٹرنیشنل نے لیا، اکثریت نے فوجی کارروائیوں کی مخالفت کی۔ دو استثنا میں ایک امریکا تھا جہاں ۵۴فی صد لوگوں نے فوجی کارروائیوں کی حمایت کی، اور دوسرا اسرائیل، جہاں ۷۷ فی صد لوگوں نے فوجی کارروائیوں کی حمایت کی۔

واضح رہے کہ امریکامیں بھی ۴۶ فی صد عوام نے اس فوج کشی کی مخالفت کی یا کم از کم تائید نہیں کی۔ پاکستان کی راے عامہ کی جو تصویر اس جائزے میں آتی ہے، وہ پاکستانی عوام کی سیاسی بصیرت کا مظہر ہے۔ صرف ۷ فی صد کی راے تھی کہ پاکستانی حکومت کو امریکی کارروائی کا ساتھ دینا چاہیے، جب کہ ۶۳ فی صد کا فیصلہ یہ تھا کہ اس وقت کی افغانستان حکومت کا ساتھ دیا جائے اور ۲۷فی صد نے غیرجانب دار رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ گویا عملاً ۹۰ فی صد نے امریکا کی اس جنگ سے الگ رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اس وقت پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ۹۰ فی صد عوام کی راے کو ٹھکرا کر امریکی دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور پورے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔  یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے اسے کبھی اپنی جنگ نہیں تصور کیا اور آج بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے اور ۵۰ہزار سے زیادہ افراد کی قربانی دینے کے باوجود، وہ اسے اپنی جنگ نہیں سمجھتے اور اس سے نکلنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔

پاکستانی عوام کی نگاہ میں امریکا کو نائن الیون کے اصل مجرموں کو قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے، بین الاقوامی قانون کے مطابق کارروائی کرنا چاہیے تھی اور اُس وقت کی افغان حکومت ہرممکن تعاون کے لیے تیار بھی تھی۔ لیکن امریکا طاقت کے نشے میں بدمست تھا اور انتقام کی آگ میں دہک رہا تھا۔ اس نے بین الاقوامی قانون اور عالمی راے عامہ، اخلاق اور انصاف، انسانیت اور بُردباری سبھی کچھ کو نظرانداز کرکے فوج کشی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اس زعم میں تھا کہ چند ماہ میں کامیاب و کامران ہوجائے گا۔ امریکی جنگ باز قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ افغان عوام ایسی مزاحمت کریں گے کہ امریکی اور ناٹو افواج کو ۱۲برس بعد ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑے گا۔ امریکی اور عالمی تجزیہ نگار بہ یک زبان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ: ’’یہ جنگ غلط تھی‘‘ اور اب امریکا اور اس کے اتحادی جان بچاکر نکل جانے کے لیے سرگرداں ہیں۔

نیویارک ریویو آف بکس کے ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں War on Terror  پر ایک اہم کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میلسی روتھوین لکھتی ہیں کہ: ’’اس کے علاوہ کوئی نتیجہ     نکالنا مشکل ہے کہ امریکا نے ایک غلط جنگ، غلط حکمت عملی سے اور غلط دشمن کے خلاف لڑی۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کے نتائج بھی غلط کے علاوہ کچھ اور نہ ہوسکتے تھے‘‘۔

امریکا اور یورپ کے چوٹی کے تجزیہ نگار صاف الفاظ میں لکھ رہے ہیں کہ: ’’امریکا یہ جنگ ہارچکا ہے‘‘ ۔ دسیوں کتابوں اور بیسیوں مضامین میں اس کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ: ’’امریکا کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ یا کھلی شکست کا اعتراف کرے یا پھر مذاکرات کے ذریعے کوئی فرار کی راہ نکالے‘‘۔ مثال کے طور پر امریکا کے موقر جریدے فارن افیئرز کے ایک تازہ شمارے (ستمبر،اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں علمِ سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون ’افغانستان میں جنگ کا خاتمہ‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ: ’’شکست یا مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں‘‘۔ ساری بحث کا خلاصہ بس یہ ہے کہ:

اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں، جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں۔ ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں، گو یہ بھی کوئی امرت نہیں لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔

لندن کے معروف اخبار دی گارڈین نے ۲۳جنوری ۲۰۱۴ء کے اداریے میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ: ’’آج تمام دنیا کے عوام جنگ سے تنگ آگئے ہیں اور جرنیلوں کی مہم جوئی سے نالاں ہیں۔ وقت کی اصل ضرورت یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حکمت عملی اب تک بنائی گئی تھی، اس پر نظرثانی کی جائے اور زمینی حقائق کی روشنی میں سیاسی مسائل کے سیاسی حل کا راستہ اختیار کیا جائے، کیونکہ فوجی حل کہیں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ عوام جس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں وہ یہ ہے کہ عراق کی جنگ مکمل طور پر ناکام تھی اور افغانستان میں بھی جنگ کا نتیجہ اس سے مختلف  نظر نہیں آتا‘‘۔

برطانیہ کی پالیسیوں پر گرفت کرتے ہوئے اداریے میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ: ’’دونوں محاذ پر برطانیہ نے سخت ٹھوکر کھائی۔ فوجی محاذ پر اس جنگ میں شرکت اور ملکی سلامتی کے محاذ پر ایسے قوانین بنائے جو حقوقِ انسانی پر ضرب کی حیثیت رکھتے تھے‘‘۔(دی گارڈین، ۲۳جنوری ۲۰۱۴ء)

طالبان اور پاکستانی راے عامہ

دراصل ہم اہلِ پاکستان کا مسئلہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ عبرت کا مقام یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں، جہاں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے فوجی آپریشن اور ملک میں سخت قوانین جو انصاف کے مسلّمہ اصولوں اور حقوقِ انسانی کے معروف ضابطوں سے انحراف پر مبنی اقدام کی ناکامی کا کھلم کھلا اعتراف ہیں، وہاں بھی سیاسی حل کے لیے نئے راستے تلاش کیے جارہے ہیں مگر ہم ہیں کہ آنکھیں بند کرکے انھی ناکام پالیسیوں کے اتباع میں مکھی پر مکھی مارنے کو اپنی معراج  سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ خود پاکستان میں عوام کی سوچ بالکل مختلف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گیلپ اور PEW کے جو جائزے پاکستان کے عوام کی سوچ کے عکاس ہیں، ان کو بھی مختصراً بیان کردیں، تاکہ ہمارے حکمرانوں کو، اگر وہ بیرونی تجربات اور رجحانات اور خود اپنے ملک کے عوام کے جذبات اور احساسات کا کچھ بھی لحاظ کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی روشنی میں، نئی حکمت عملی مرتب کرسکیں۔

۱- گیلپ کے ۱۶ستمبر ۲۰۱۳ء کے سروے کے مطابق پاکستانی عوام کے ۷۱فی صد کی راے میں پاکستان کو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہرگز تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ ۲۷فی صد کی راے میں تعاون کرناچاہیے۔ تعاون نہ کرنے والوں کی صوبہ وار پوزیشن یہ ہے:

خیبرپختونخوا:..........۸۹ فی صد

بلوچستان:...............۷۷ فی صد

پنجاب:...................۶۸  فی صد

سندھ :...................۶۶  فی صد

واضح رہے کہ خیبرپختونخوااور بلوچستان زیادہ متاثرہ علاقے ہیں اور وہاں کے ۸۹ فی صد اور ۷۷ فی صد لوگ جنگ سے عدمِ تعاون اور اپنا دامن بچانے کے خواہش مند ہیں۔

۲- چند سال پہلے منعقد ہونے والے عالمی جائزے میں، جسے گیلپ نے Voice of the Peoples Survey 2006 کہا تھا اور جو ۶۳ممالک کے۵۹ہزار افراد کے سروے پر مشتمل تھا، اس میں دنیا کی آبادی کے ۳۶ فی صد لوگوں نے امریکا کی اس جنگ کو ناکام قرار دیا تھا۔

۳- اسی طرح  PEW Survey کے Global Attitude Project میں، جو ۲۷جون ۲۰۱۲ء کو منعقد ہوا تھا، ۷۴ فی صد پاکستانیوں نے امریکا کو ’ایک دشمن‘ ملک قرار دیا تھا۔

۴- PEW  تحقیقاتی مرکز کے Global Attitude Project کی ۳۰جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ Support for Compaign Against Extremist Wanes (انتہاپسندی کے خلاف عسکری کارروائیوں کی تائید میں کمی ) میں راے عامہ کا  یہ چشم کشا فیصلہ پیش کیا گیا ہے، کہ فاٹا میں فوجی آپریشن جو ۲۰۰۷ء میں شروع ہوا تھا، اسے حاصل شدہ عوامی تائید میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ ۲۰۰۹ء میں ’دہشت گردی‘ اور ’انتہاپسندی‘ کے خلاف فوج کے استعمال کی تائید کرنے والوں کی تعداد ۵۳ فی صد تھی، جو ۲۰۱۱ء میں کم ہوکر ۳۷ فی صد رہ گئی ہے۔ رپورٹ کا یہ حصہ ہمارے اہل حل و عقد سے سنجیدہ غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے:

شدت پسند گروپوں کے خلاف حکومت پاکستان کی فوجی مہم کی حمایت حالیہ برسوں میں کم ہوگئی ہے۔ صرف ۳۷ فی صد اس کی حمایت کرتے ہیں کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے پاکستانی فوج استعمال کی جائے۔ یہ سطح دو سال قبل  کی سطح سے کافی نیچے ہے، جب دو سال قبل کے ایک ایسے جائزے میں جو کہ سوات میں حکومت اور طالبان کے حامی گروپوں میں تنازعے کے بعد کیا گیا تھا جس میں ۵۳ فی صد نے اس کی حمایت کی تھی کہ ان گروپوں سے فوج لڑے۔

۵- واضح رہے کہ پاکستانی عوام دہشت گردی کو ایک اہم مسئلہ سمجھتے ہیں، لیکن تمام ہی راے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے Threat Perception (اندیشوں پر مبنی خیال) میں امریکا سب سے اُوپر ہے، اور آبادی کا ۷۳ فی صد اسے خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارت کو خطرہ سمجھنے والوں کی تعداد ۵۹فی صد ہے، جب کہ طالبان کو خطرہ سمجھنے والوں کی تعداد ۲۳ فی صد ہے۔

۶- گیلپ نے ۱۹۸۰ء سے ۲۰۱۰ء تک کا ۳۰ برس کا ایک جائزہ پاکستان میں جرائم اور خصوصیت سے دہشت گردی کے بارے میں پیش کیا ہے۔ اس میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔عوام کے اندیشے کو سمجھنے کے لیے اس کی حیثیت ایک آئینے کی سی ہے اور کوئی پالیسی ساز ادارہ اس عوامی احساس کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔۱؎

واضح رہے کہ عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی ذمہ داری بھارتی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں پر ہے، یعنی ۳۲ فی صد اور ۳۱ فی صد۔ گویا ۶۳فی صد کی نگاہ میں اس بدامنی، تشدد اور دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ سب سے اہم عامل ہے، خواہ اس کا ذریعہ کوئی بھی ہو۔ 

1- 30 years of Polling on Crimes, Violence, Terrorism, and Social Evils  (1980-2010): Perceptions and Fears of Pakistan's Public, Gallup, January 6, 2011, p 46.

دہشت گردوںکو براہِ راست ذمہ دار ٹھیرانے والے ۲۶ فی صد ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں طالبان کا نام لینے والے صرف ایک فی صد تھے۔ بعد کے متعدد جائزوں میں اس اندازمیں سوال نہیں پوچھا گیا، تاہم ’گیلپ‘ اور ’پیو‘ (PEW) دونوں ہی کے جائزوں میں طالبان کی تائید میں نمایاں کمی آئی ہے اور طالبان کی کارروائیوں کی مذمت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ’پیو‘ کے ۲۰۱۱ء کے   سروے میں ۲۳ فی صد نے طالبان سے خطرہ محسوس کیا اور اور گیلپ کے ایک سروے کے مطابق دسمبر ۲۰۰۹ء میں طالبان کے حوالے سے منفی تصور ۷۲ فی صد تک بڑھ گیا۔ عام انسانوں کی ہلاکت اور مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، اسکولوں اور مدرسوں پر حملوں کے ردعمل میں طالبان کے بارے میں منفی رجحان میںاضافہ ہوا ہے۔ البتہ گیلپ کے سروے کی روشنی میں دہشت گردی کے متعین واقعات کے بارے میں، طالبان یا ان کے نام پر ذمہ داری قبول کیے جانے کے اعلانات کے باوجو د عوام کا تصور بڑا چشم کشا ہے۔ مثلاً پشاور/بنوں کے ۲۰۰۹ء کے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری کے سلسلے میں عوام کا ردعمل یہ تھا:

۱- یہ واقعات انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کا ردعمل ہیں......۴۴ فی صد

۲- ان واقعات میں غیرملکی ایجنسیاں ملوث ہیں.....................۴۲ فی صد

۳- معلوم نہیں..................................................۱۴ فی صد

واضح رہے یہ دونوں واقعات خودکش حملوں کا نتیجہ تھے۔

اسی طرح ۲۰۰۹ء میں راولپنڈی جی ایچ کیو (پاکستانی مسلح افواج کے مرکز) پر کیے جانے والے حملے کے بارے میں کہ ذمہ دار کون ہے؟ عوامی راے یہ تھی:

بھارت:...............۱۹ فی صد

طالبان:...............۲۵ فی صد

امریکا:...............۱۶ فی صد

فارن ایجنسی:........۲۷ فی صد

لوکل ایجنسی:........۲ فی صد

سیاسی جماعتیں:.....ایک فی صد

ہم نے یہ چند مثالیں عوامی جذبات، احساسات اور ان کی سوچ کے رُخ کو سمجھنے کے لیے دی ہیں۔ مزید تفصیل ان جائزوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔

۷- عوام کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ایک سروے کی طرف مزید اشارہ کرنا ضروری ہے۔   یہ گیلپ کا سروے ہے جو دسمبر ۲۰۱۳ء میں امیرجماعت سیّدمنور حسن صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب کی جانب سے بیت اللہ محسود کے امریکی ڈرون کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے پر ردعمل سے متعلق تھا۔

سوال: ’’حال ہی میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سیّدمنورحسن اور مولانا فضل الرحمن نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا ہے۔ آپ اس بیان کی کس حد تک حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟‘‘

بہت زیادہ حمایت:........۱۴ فی صد

بہت زیادہ مخالفت:.......۲۹ فی صد

کسی حد تک حمایت:.....۲۵   فی صد

کسی حد تک مخالفت:....۲۹   فی صد

مجموعی حمایت:.........۳۹   فی صد

مجموعی مخالفت:........۵۸   فی صد

معلوم نہیں:............۱۰    فی صد

قابلِ غور بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام (ف) کو مجموعی طور پر ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں ۵ فی صد ووٹ ملے اور دونوں قائدین کے بیانات کے بعد میڈیا پر ان کے مخالفین نے ایک طوفان برپا کردیا تھا، لیکن آبادی کے تقریباً ۴۰ فی صد نے ان کی راے سے اتفاق کا اظہار کیا، جو عوام کی سوچ کا غماز ہے۔(گیلپ انٹرنیشنل، ۹دسمبر ۲۰۱۳ء)

یہاں مقصد کسی قانونی، فقہی یا سیاسی پہلو کو زیربحث لانا نہیں ہے، صرف توجہ کو اس طرف مبذول کرانا ہے کہ ملک کے عوام طالبان اور طالبان کے نام پر جو کچھ کیا یا کہا جارہا ہے اسے    اس کے ظاہری خدوخال پر نہیں لیتے، بلکہ پورے مسئلے، یعنی دہشت گردی اور اس میں امریکا کے کردار کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ان دو عالمی جائزوں سے مختلف پہلوئوں کو سامنے لانے سے ہمارا مقصد اصل مسئلے اور اس کے جملہ پہلوئوں کی طرف توجہ کو مبذول کرانا ہے۔

نئی حکمت عملی کے رہنما خطوط

ان معروضات کی روشنی میں، پالیسی سازی کے لیے چند نہایت اہم پہلو سامنے آتے ہیں، جن کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں:

۱- پالیسی سازی میں اصل اہمیت ملک اور قوم کے مقاصد، اس کے مفادات اور اس کے عوام کی سوچ، خواہش اور عزائم کی ہونی چاہیے۔ جو پالیسی بیرونی دبائو یا گروہی اور کسی خاص اداراتی سوچ، عصبیت یا جذبات کی روشنی میں بنائی جائے گی، وہ مفید اور مناسب نہیں ہوگی۔

۲- اصل مسئلہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ‘ ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ بلاشبہہ دوسری انواع کی دہشت گردیاں بھی ہیں اور ان کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اور پروگرام درکار ہیں، لیکن مرکزی اہمیت بہرحال امریکا کی اس جنگ اور اس میں ہمارے کردار سے منسوب ہے۔ طالبان کیا مطالبہ کر رہے ہیں اس سے قطع نظر، پاکستانی قوم کا اس جنگ کے بارے میں ایک واضح تصور ہے اور ہمارے پالیسی ساز اداروں کو اصل اہمیت عوام کی اس راے کو دینا چاہیے۔

پاکستانی عوام اس جنگ کو ہرگز جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ پاکستان کو امریکا کی اس جنگ سے نکالنے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے کے حق میں ہیں۔ مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں انھوں نے اُن جماعتوں کو رد کردیا، جو اس جنگ میں پاکستان کی شرکت کی ذمہ دار تھیں اور ان جماعتوں کو اعتماد کا ووٹ دیا جو آزاد خارجہ پالیسی کی داعی اور اس جنگ سے نکلنے اور مسائل کے سیاسی حل کی خواہش مند تھیں۔ عوام کا یہ موقف ۲۰۰۱ء سے واضح تسلسل رکھتا ہے۔

۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ بنی تھی، اس نے بھی عوام کے ان جذبات کو تسلیم کیا تھا اور ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفقہ قرارداد میں آزاد خارجہ پالیسی، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں نظرثانی، مسائل کے سیاسی حل اور مذاکرات، ترقی اور ردِ جارحیت (deterrance) کے سہ نکاتی فارمولے کا واشگاف اظہار کیا تھا۔ پھر اپریل ۲۰۰۹ء میں پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی نے بھی، جس میں تمام جماعتوں کو نمایندگی حاصل تھی، مکمل اتفاق راے کے ۵۵نکات پر مشتمل ایک واضح پروگرام قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ اسی طرح پارلیمنٹ نے ایک بار پھر ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قرارداد میں اس پالیسی کا اظہار کیا تھا اور ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی کُل جماعتی کانفرنس میں مذاکرات کو اولین ترجیح دے کر موجودہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے اس پالیسی کی توثیق کی تھی۔

اصل مسئلہ پالیسی کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں ابہام کا نہیں ہے، حکومت اور  اس کے اداروں کی طرف سے قومی پالیسی پر عمل نہ کرنے کا ہے۔

۳- پاکستان میں پائی جانے والی دہشت گردی کی کم از کم پانچ بڑی شکلیں ہیں جن میں  ہر ایک کی نوعیت، اسباب اور اہداف کو سمجھنا اور ان کی روشنی میں اس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانا ضروری ہے:

  • پہلی اور سب سے اہم شکل وہ ہے جس کا تعلق امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، افغانستان پر فوج کشی، افغانستان میں امریکی استعمار کی مزاحمت، اور پاکستان کے اس جنگ میں امریکا کے حلیف اور مددگار بننے سے رُونما ہوئی ہے۔ جس وقت تک پاکستان نے امریکا کے دبائو میں عملاً اپنی فوج کو اس جنگ میں نہیں جھونکا تھا، پاکستان کی سرزمین پر اس راستے سے دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن جب ہماری فوج کو اس میں جھونک دیا گیا، تو افسوس ناک ردعمل بھی رُونما ہوا، جو بڑھتے بڑھتے خود ایک فتنہ بن گیا۔ خودکش بمبار بھی اس کا ایک آلۂ کار بن گئے۔ باجوڑ اور اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ بھی اس خونیں سلسلے کے سنگ میل بن گئے۔ پھر مسجد اور مدرسہ، سرکاری دفاتر اور افواج کے مورچے، حتیٰ کہ بازار اور گھربار سب نشانہ بننے لگے اور معصوم انسانوں کا لہو ارزاں ہوکر بہنے لگا۔ بچے، عورتیں، مسافر، مریض، کوئی بھی اس خون آشامی کی زد سے نہ بچ سکا۔ شریعت، قانون، اخلاق، روایات کون سی حد ہے جو اس میں پامال نہیں کی گئی اور بدقسمتی سے ہرفریق کی طرف سے یہ ظلم روا رکھا گیا۔ معصوم انسانوں کی ہلاکت اور قومی وسائل کی تباہی، جس کے ہاتھوں بھی ہوئی، قابلِ مذمت ہے۔ لیکن انتقام در انتقام مسئلے کا حل نہیں، بلکہ بگاڑ کا راستہ ہے۔ اس لیے لفظی نزاکتوں اور عملی کوتاہیوں  کو نظرانداز کرتے ہوئے ،ملک کے وسیع تر مفاد میں مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہی اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ہے۔ دنیا میں ایسے معاملات کا فوجی حل نہ کبھی پہلے ہوا ہے اور نہ آج ہوسکتا ہے۔ امریکا خود افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی راہیں تلاش کررہا ہے اور اب تو ان کے اپنے مقرر کردہ افغان صدر حامد کرزئی تک نے بھی  کہہ دیا ہے کہ: ’’امریکا طالبان سے مذاکرات کرے اور پاکستان اس کی معاونت کرے، اس کے بغیر افغانستان میں امن نہیں آسکتا‘‘۔ برسرِ جنگ عناصر ہی کے درمیان مذاکرات سے امن کی راہیں نکلتی ہیں۔ اس سلسلے میں سطحی جذباتیت حالات کو بگاڑ تو سکتی ہے، اصلاح کی طرف نہیں لاسکتی۔
  • دہشت گردی کی دوسری بڑی شکل فرقہ واریت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہ نائن الیون سے بہت پہلے سے موجود ہے اور بدقسمتی سے اس میں مقامی عناصر کے ساتھ بیرونی ہاتھ بلکہ حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ الحمدللہ، عوامی سطح پر کوئی نفرت اور تصادم نہیں ہے، لیکن مخصوص عناصر بڑے ہولناک انداز میں یہ آگ بھڑکانے اور معصوم انسانوں کو نشانہ بنانے کا گھنائونا خونیں کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہاں بھی مذاکرات، افہام و تفہیم، تعلیم و تلقین کا ایک اہم کردار ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک مجرمانہ سرگرمی ہے، جس پر آہنی ہاتھوں سے قابو پانا ضروری ہے۔ تمام مذہبی فرقوں کے معتبر اور مقتدر افراد کو مل کر اس فتنے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معلومات فراہم کرنے والی مددگار ایجنسیوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نیز جو بھی بیرونی قوتیں ملوث ہیں ان پر مؤثر گرفت اور تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔
  • دہشت گردی کی تیسری شکل کا تعلق ان قوتوں سے ہے، جو علیحدگی پسندی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ہماری سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ محض قوت کے استعمال سے ان رجحانات کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ جہاں بھی مذاکرات اور سیاسی حل کی ضرورت ہے، وہاں حقیقی مشکلات اور محرومیوں کو دُور کیا جانا چاہیے۔ یہ محرومیاں محض معاشی ہی نہیں، سیاسی بھی ہیں اور خصوصیت سے سیاسی عمل میں صحیح مقام نہ ملنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا سیاسی حل ضروری ہے۔ البتہ جو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لے یا معصوم انسانوں پر ظلم کرے اور ان کے جان و مال پر حملہ کرے، اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ کارروائی ردِ جارحیت (deterrance) کی نوعیت کی ہونی چاہیے اور جرم پر قانون کے مطابق گرفت کی شکل میں بھی۔
  • سیاسی میدان میں دہشت گردی کی ایک اور قبیح شکل وہ ہے، جو چند سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس بدترین منظرنامے کا اصل گہوارا کراچی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں نام لے کر بتادیا ہے کہ کون کس کس شکل میں یہ گھنائونا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ دستورِ پاکستان کی واضح خلاف ورزی ہے اور محض سیاسی مفاہمت کے لالچ میں  نہ صرف یہ کہ اسے برداشت کیا گیا ہے، بلکہ فروغ دیا گیا ہے اور فروغ دیا جارہا ہے۔ آج بھی روزانہ اعلان ہوتا ہے کہ اتنے ٹارگٹ کلر پکڑے گئے ہیں، جن کا ایک سیاسی جماعت سے تعلق ہے، لیکن نہ اس جماعت کا نام لیا جاتا ہے اور نہ اس کے خلاف دستور اور قانون کے مطابق معاملہ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں مذاکرات نہیں قانون کے مطابق کارروائی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سب سے زیادہ منافقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
  • دہشت گردی کا پانچواں میدان وہ ہے، جس کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے، بلکہ وہ    کھلے کھلے جرم کی قبیل میں آتی ہے۔ لینڈمافیا، بھتہ مافیا، ڈرگ مافیا، اغوا براے تاوان، گلی محلے کے جرائم وغیرہ، یہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں اور ان کا مقابلہ بھی قانون کی آہنی گرفت سے کیا جانا چاہیے۔ اس نوعیت کی دہشت گردی کے لیے فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں۔ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے، اور پولیس مؤثرانداز میں اس کا سدباب کرسکتی ہے، بشرطیکہ پولیس کو سیاست بازی سے پاک رکھا جائے، اسے ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔ مناسب تربیت ہو اور وہ دستور اور قانون کے مطابق آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے سکے۔ پولیس کو سیاسی دبائو کی آلایشوں سے پاک کرکے اس میں پیشہ ورانہ کمال  پیدا کرنے کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہو تو وقتی طور پر دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی دستور کے تحت مدد لی جاسکتی ہے، لیکن مستقل حل پولیس کی اصلاح، تربیت، وسائل کی فراہمی اور نگرانی کا مؤثر انتظام ہے۔

یہاں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ان جرائم کی قوتِ محرکہ اور مددگار عامل دراصل اس غیرقانونی اسلحے کی فراوانی ہے، جس نے پورے ملک کو لاقانونیت اور دھونس کی آگ میں دھکیل رکھا ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ گذشتہ ۱۲برسوں کے دوران اس خودکار اور آتشیں اسلحے کو ضبط کرنے کے بیانات تو ضرور نظرنواز ہوتے رہے ہیں، مگر اس سمت میں ایک قدم بھی بامعنی طور پر نہیں اُٹھایا جاسکا۔ اور یہ سب شاخسانہ ہے، سیاسی پشت پناہی اور فیصلوں پر عمل کرنے سے راہِ فرار اختیار کرنے کا۔ اس لیے حکومت اور انتظامیہ کو اس عفریت پر قابو پانا چاہیے ورنہ یہ تمام دعوے اور اقدامات خواب و خیال ہی رہیں گے۔

۴-  فوجی آپریشن کے بارے میں ہم بہت صاف الفاظ میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ    فوج ملک کی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہے۔ ملک میں امن و امان کا قیام بنیادی طور پر پولیس کی ذمہ داری ہے، اور اس فرق کو سختی سے ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ فوج کی تربیت ایک خاص انداز میں ہوتی ہے اور اسے امن و امان کے قیام کے کاموں میں اُلجھانا اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور سول نظام کے ارتقا کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ غیرمعمولی حالات میں وقتی طور پر دستور میں فوج کے استعمال کی گنجایش موجود ہے، لیکن وہ مخصوص حالات تک محدود ہے اور اسے معمول بنادینا پورے نظام کو تباہ کرنے کا باعث ہوسکتا ہے۔

پھر پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانی کے جو تلخ تجربات رہے ہیں، اس کی روشنی میں تو یہ ہرگز قرین حکمت نہیں کہ فوج کو ان معاملات میں اُلجھایا جائے۔ فاٹا اور سوات میں جو کام فوج کو سونپا گیا، وہ اس غلط حکمت عملی کا حصہ تھا، جس پر مشرف دور سے عمل ہورہا ہے۔ سوات میں فوج پانچ سال سے موجود ہے اور اب تک سول نظام وہاں ذمہ داری اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، حالانکہ یہ کام زیادہ سے زیادہ ایک دو سال ہی میں ہوجانا چاہیے تھا۔ شمالی علاقہ جات کا معاملہ   اس سے بھی نازک ہے۔ وہاں کی اپنی تاریخ اور روایات ہیں۔ ان کو نظرانداز کرکے جو انتظام قائم کیا گیا ہے، وہ چلنے والا نہیں ہے۔ بندوق اور ایف-۱۶ کی بم باری سے امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ کلاشنکوف یا خودکش بمباری سے شریعت کا نفاذ ہوسکتا ہے۔

 ہم صاف الفاظ میں متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان علاقوں میں فوج کا اقتدار قائم ہوتا ہے تو اسے کوئی چیز دوام سے نہ روک سکے گی۔ الجزائر اور مصر کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ جب فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا یا اسے یہ کردار ادا کرنے دیا جائے گا تو پھر اقتدار پر  اسے بُراجمان ہونے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ ہمیں اس خطرناک کھیل سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔

ان علاقوں میں امن اس وقت قائم ہوسکتا ہے اور قائم رہ سکتا ہے، جب ہم اس پالیسی کو بحال کریں جو قائداعظم نے ۱۹۴۸ء میں اختیار کی تھی اور جس کی بدولت ۵۰برس تک کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تھا۔ ہاں، جو غلطی ہم نے کی، وہ یہ تھی کہ اس کے تقاضوں کو پورا نہ کیا اور سیاسی ارتقا کا جو عمل ۱۹۴۸ء کے بعد شروع ہوجانا چاہیے تھا، وہ دستورسازی کے باوجود شروع نہ ہوا کہ ہماری قیادتوں نے دستور کے عمل دخل سے پورے شمالی علاقہ جات کو باہر قرار دے دیا۔ انگریز کے سامراجی دور کے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے ذریعے وہاں حکمرانی ہوتی رہی اور وہاں کے روایتی نظام کو جو مَلک، جرگہ اور پولیٹیکل ایجنٹ پر مشتمل تھا، باقی ملک کے نظام سے مربوط نہ کیا گیا۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ بلاتاخیر شمالی علاقہ جات کو اس کے تاریخی نظام اور روایات کی روشنی میں باقی ملک کے نظام سے پیوست کیا جائے۔ پاکستان کے دستور اور عدالتی نظام کا وہاں پورا پورا اطلاق ہو۔

اس علاقے کو وہاں کے لوگوں کے مشورے سے یا صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کیا جائے، جیساکہ FATA کے سلسلے میں کیا جاچکا ہے، یا پھر ان کو ایک صوبے کی حیثیت دی جائے اور وہ پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا پورا کردار ادا کرسکیں۔ جو مضحکہ خیز صورت اس وقت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تو وہ نمایندگی رکھتے ہیں، مگر اسمبلی اور سینیٹ کو ان کے علاقے کے بارے میں کوئی اختیار نہیں، یہ دو رنگی ختم ہونا چاہیے۔ اس بنیادی تبدیلی کے نتیجے میں بہت سی وہ خباثتیں آپ ختم ہوجائیں گی، جو خرابی کا باعث ہیں اور سیاسی، معاشی ، سماجی اور تعلیمی ترقی کا وہ عمل بھی مؤثر ہوسکے گا، جو اس وقت ٹھٹھرا ہوا ہے۔

شمالی علاقہ جات کے مستقبل کا انحصار اس بنیادی تبدیلی پر ہے۔ آگاہ رہنا چاہیے کہ  فوجی آپریشن حالات کو بگاڑ تو سکتا ہے مگر اصلاح کی راہیں استوار نہیں کرسکتا۔ اس لیے ہم حکومت  پاکستان کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ ملک اور فوج دونوں کو کسی نئی تباہی سے دوچار کرنے سے مکمل طور پر احتراز کرے اور اصلاحِ احوال کے لیے وہ راستہ اختیار کرے، جو عوام کی خواہشات کے مطابق ہو اور جو قائداعظم کے وژن اور ان کے دکھائے ہوئے راستے کا تسلسل ہو۔

ہم اپنی معروضات کو ختم کرنے سے پہلے ملک کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ حالات کی سنگینی کو محسوس کریں اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔ ہم خصوصیت سے تمام مکاتب ِ فکر کسے علماے کرام سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنا دینی، اخلاقی اور سماجی اثرورسوخ استعمال کریں اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں سرگرم حصہ لیں۔ نیز ہم طالبان کے تمام ہی گروپوں سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایسی تمام سرگرمیوں کو سختی سے روکیں، جن کے نتیجے میں معصوم انسانوں کا خون    بہہ رہا ہے، ظلم اور فساد رُونما ہورہا ہے، ملک و ملت کے وسائل تباہ ہورہے ہیں اور اسلام کے   روشن چہرے پر بدنما داغ لگ رہے ہیں۔

اسلام رحمت اور عدل و انصاف کا دین ہے۔ تمام انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاطت کا ضامن ہے۔ اسلام کے مفاد اور شریعت کی بالادستی کا وہی طریقہ معتبر اور محترم ہے، جو    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہے، اور جس کے اتباع کا انھوں نے ہمیں حکم دیا ہے۔ ہرمسلمان ہی نہیں، ہر انسان محترم ہے، جیساکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)۔ اسلام انسانوں کو جوڑنے کے لیے آیا ہے، ان کو بانٹنے اور کاٹنے کے لیے نہیں    ؎

تو براے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

آیئے! سب مل کر اس ملک کی تعمیر، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے مطابق کریں۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے یہ ملک قائم ہوا تھا اور یہی منزل دستور میں اس    کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ جو بھی کوتاہی ہمارے عمل میں رہی ہے، اسے مل جل کر مشاورت سے  دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور دوسری طرف    ایک دوسرے کا سہارا بن کر اسلامی شریعت کے نفاذ اور دستور پر مکمل عمل کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبروحکمت کے ساتھ انصاف، ترقی اور خدمت کی راہوں پر چلنے کی توفیق  عطا فرمائے اور تصادم کی راہ سے محفوظ و مامون رکھے، آمین!

قرآنِ پاک نے ایک جانب انسانی جان کی حُرمت کا حکم دیا ہے، تو دوسری جانب جائز طور پر جان لینے کے بارے میں عدل اور قصاص کی شرط کو ایک ابدی اصول کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہی وہ اصل الاصول ہے جس کی بنیاد پر انسانی معاشرے میں جان کا تحفظ اور امن و آشتی کا قیام ممکن ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲)   جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا، کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی، اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔

اس آیت مبارکہ سے انسانی زندگی کے کم از کم تین بنیادی اصول سامنے آتے ہیں

اوّل:انسانی جان سب سے محترم شے ہے۔ زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت میں زندہ رہنے کا حق تمام انسانوں کو حاصل ہے، اِ ّلا یہ کہ وہ خونِ ناحق کے مرتکب ہوں یا زمین پر فساد پھیلانے کا ذریعہ بن کر دوسروں کے لیے جینا محال کردیں۔ اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے تو وہ اپنے زندہ رہنے کے حق سے اپنے کو محروم کرلیں گے۔ لیکن سزا کا یہ نظام قانون اور عدل کے مسلّمہ طریقے کے مطابق ہوگا ورنہ فساد فی الارض کا موجب ہوگا۔

دوم:بات خواہ ایک ہی فرد کی زندگی کی حفاظت یا قانون کے مطابق کی ہو، لیکن ہرفرد کی زندگی اتنی اہم ہے، جتنی پوری انسانیت کی زندگی۔ اگر ایک جان بھی ناحق جاتی ہے اور اس کا صحیح احتساب نہیں ہوتا تو پھر کسی کی زندگی بھی محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور اپنے نتائج اور عواقب کے اعتبار سے یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے۔

سوم:اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی موجود ہے کہ بات صرف قتلِ ناحق پر ختم نہیں کردی گئی، بلکہ ایک جان کو بچانے اور زندگی دینے کا بھی اس آیت میں ذکر کردیا گیا ہے، تاکہ یہ پیغام بھی مل جائے کہ قتلِ ناحق پر خاموش نہ رہو۔ مراد یہ ہے کہ ایک معصوم کی جان بچانا بھی پوری انسانیت کو زندگی دینے کے مترادف ہے اورجان کی حفاظت اور شریعت کے احکام اور ضابطوں کے مطابق قصاص بھی ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کو جہاں ناحق خون بہانے سے روکا گیا ہے، وہیں خونِ ناحق سے انسانوں کو بچانے کی ترغیب بھی دی گئی ہے، تاکہ زندگی کا سفر رواں دواں رہ سکے۔

اس آیت ِ مبارکہ کی روشنی میں ہرمسلمان کو اپنا احتساب کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آج دنیا میں، اور خصوصیت سے خود مسلم دنیا میں جس طرح معصوم انسانوں کا خون ارزاں ہوگیا ہے،  اس سے کیسے نجات پائی جائے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما جناب عبدالقادر مُلّا کو محض سیاسی انتقام کے  جنون میں جس طرح شہید کیا گیا ہے، وہ عدالتی قتل کی بدترین مثال ہے جس نے ہردردمند آنکھ کو اَشک بار کردیا ہے۔ اسلامی دنیا کے طول و عرض میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور بنگلہ دیش کو سیاسی خلفشار اور تصادم کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ ان سطور کی تحریر تک سال ۲۰۱۳ء کے دوران میں ۴۰۰سے زیادہ افراد صرف ان جعلی مقدمات کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے جان کی بازی ہارچکے ہیں اور صرف پچھلے دو مہینوں میں حسینہ واجد کی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد ۱۱۵ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، جس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

ان حالات میں اُمت مسلمہ اور انسانیت کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے ہرممکن تدابیر کریں اور اپنے ایک برادر ملک کو تباہی کی طرف بگ ٹٹ دوڑنے سے روکیں کہ دوستی اور بہی خواہی کا یہی تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کے اہم پہلوئوں کو اچھی طرح سمجھ لیاجائے اور حالات کے معروضی تجزیے کی روشنی میں پالیسی اور حکمت عملی کے خطوطِ کار مرتب کیے جائیں۔

بنگلہ دیش جنگی جرائم کا ٹربیونل

۱۹۷۱ء میں پاکستان کیوں دولخت ہوا؟ اور بنگلہ دیش کن حالات میں اور کن وجوہ سے وجود میں آیا؟ یہ ہماری تاریخ کا ایک الم ناک باب ہے اور اس پر سنجیدگی اور دیانت سے غور کرنے اور اس سے سبق سیکھنے کی اپنی جگہ بے حد اہمیت ہے۔ البتہ اب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ سب نے کھلے دل کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ بنگلہ دیش ہمارا ایک آزاد اور خودمختار برادر ملک ہے اور اہلِ پاکستان دل کی گہرائیوں سے اس کی ترقی اور سلامتی کے طالب ہیں۔

فروری ۱۹۷۴ء میں ماضی کے تلخ باب کو بند کر کے پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں نے   بہتر مستقبل کی تعمیر اور باہمی تعاون کا عزم کیا تھا اور اس راہ پر گامزن بھی ہوئے تھے، لیکن اچانک بنگلہ دیش کی عوامی لیگ کی قیادت نے ۲۰۱۰ء میں ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے نام پر ایک نام نہاد  بین الاقوامی ٹربیونل بنا کر، اپوزیشن کی جماعتوں ، خصوصیت سے جماعت اسلامی اور ایک حد تک  بی این پی (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی)کو نشانہ بنایا ہے اور سیاسی انتقام اور ریاستی دہشت گردی کا ایک خطرناک کھیل شروع کردیا ہے۔ خود بنگلہ دیش میں قوم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے اور بھائی بھائی کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔ ریاست کی قوت کو سیاسی مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ سرکاری میڈیاسے ایک خاص نقطۂ نظر کو ذہنوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جھوٹے مقدمات کے ذریعے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی قیادت کو ہدف بنایا جارہا ہے۔

یہ سلسلہ ۲۰۰۹ء میں دستور اور قانون میں ترامیم کے ذریعے شروع ہوا۔ پھر ۲۰۱۰ء میں ایک نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل قائم کیا گیا اور ۲۰۱۱ء میں گرفتاریاں اور مقدمات شروع ہوگئے جن کے ذریعے اب تک سات افراد، یعنی: علامہ دلاور حسین سعیدی، ابوالکلام آزاد،محمدقمرالزمان،   علی احسن مجاہد، صلاح الدین قادر، معین الدین، اشرف الزماں کو سزاے موت، پروفیسر غلام اعظم کو عمرقید اور عبدالقادر مُلّا کو پہلے عمرقید اور پھر کھلے کھلے سیاسی دبائو کے ڈرامے کے بعد سزاے موت کا اعلان کیا گیا۔ اسی طرح بی این پی کے عبدالعلیم کو عمرقید سنائی اور مزید دو درجن افراد پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

اس سلسلے نے۱۳دسمبر ۲۰۱۳ء کو ایک خطرناک شکل اختیار کرلی جب آخرالذکر، یعنی جناب عبدالقادر مُلّا کو عملاً سولی پر چڑھا کر حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت نے عدالتی قتل سے اپنے ہاتھ خون آلود کرلیے۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی مسئلہ پاکستان پر الزام تراشی اور حقوقِ انسانی کی پامالی، بنگلہ دیش کی موجودہ قیادت کا غیرآئینی، غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدام ہے، جن کی وجہ سے برادر مسلم ملک بنگلہ دیش بحران کا شکار ہے۔ سیاسی عمل درہم برہم ہے، معیشت پر بُرے اثرات پڑ رہے ہیں اور ملک کا آئینی نظام نئے خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔   یہ حکومت ملک کی اسلامی قوتوں کو نشانہ بناکر اپنی سیاسی ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ایک ہیجانی فضا ہموار کرنا چاہ رہی ہے۔

ملک اور ملک سے باہر اس صورت حال پر شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز،  ماضی میں عوامی لیگ کی حکومت کی جائز اور ناجائز تائید ہی کرتا رہا ہے، مگر اب اس نے اپنے دو ادارتی کالموں میں بنگلہ دیش کے سیاسی بحران کو حکومت کی پے درپے غلطیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ان مذکورہ مقدمات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مذمت کی ہے۔ جنگی جرائم کے مقدمات کی اصولی تائید کرنے کے باوجود، ان میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو جس طرح پامال کیا گیا ہے اور ثبوت اور معروف عدالتی طریق کار کے بغیر جس طرح لوگوں کو  پھانسی اور عمرقید کی سزائیں دی جارہی ہیں، ان پر مذکورہ اخبار نے شدید گرفت کی ہے۔ اپنے ۲۰نومبر ۲۰۱۳ء کے اداریے میں اس نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ:’’لگتا ہے کہ بیگم حسینہ یہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ جنوری [۲۰۱۴ء] میں ہونے والے انتخابات سے پہلے اقتدار سے چمٹی رہیں، اور  جن ذرائع سے بھی ضرورت ہو اپنے مخالفین کو بے اثر کریں‘‘۔

ان نام نہاد بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل کے بارے میں اخبار لکھتا ہے:’’مقدمے نے حزبِ اختلاف کے لیڈروں کو ہدف بنایا اور یہ دوسرا حربہ ہے جس کے ذریعے سیاسی مخالفوں کی آواز کا گلا گھونٹا جا رہا ہے‘‘۔

نیویارک ٹائمز نے نشان دہی کی ہے کہ بنگلہ دیش کے سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ حسب ذیل تین نکات پر مشتمل ہے:

  1. عدلیہ کی آزادی کی بحالی اور اس کے سیاسی استعمال سے گریز۔
  2. انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی گرفتاریوں اور تعذیب کا خاتمہ۔
  3. تمام سیاسی قوتوں بشمول حزبِ اختلاف کے مشورے سے ایک حقیقی، غیر جانب دار عبوری حکومت کا قیام جس پر سب کا اعتماد ہو اور جو جنوری ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کا اہتمام کرائے۔

اصل ایشو یہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کیوں بنا اور کس نے تائید کی اور کس نے مخالفت___ اس وقت اصل ایشو یہ ہے کہ ۴۳سال کے بعد مقدمات کا ڈراما کیوں رچایا جا رہا ہے، اور عدل و انصاف اور ملکی اور عالمی قانون کو پامال کرتے ہوئے محترم اور مقتدر سیاسی شخصیات کو میدان سے ہٹانے   اور جماعت اسلامی کو سیاسی دوڑ سے نکالنے کا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے، جسے سمجھنا ضروری ہے۔  یہ سب ۲۰۱۴ء میں بنگلہ دیش کے انتخابات کو ہائی جیک کرنے کے لیے ہے، جو جمہوریت کے قتل پر منتج ہوسکتا ہے۔

۲۵دسمبر ۲۰۱۳ء کے الجزیرہ (انگریزی) کی ویب سائٹ پر ایک بنگالی نژاد سیاسی تجزیہ نگار ضیاحسن کا مضمون شائع ہوا ہے۔ مقالہ نگار ’جنگی جرائم‘ کے مقدمے کے حق میں اور جماعت اسلامی کے بارے میں مخالفانہ راے رکھنے کے باوجود لکھتے ہیں:

بنگلہ دیش کو جنگی جرائم کے ٹربیونل کی واقعی ضرورت تھی، لیکن اس عمل کے دوسال بعد زیادہ تر لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ مقدمے کو حکمران پارٹی کے لیے سیاسی ہتھیار میں تبدیل کرنے کی کوشش نے اسے بیرونی مداخلتوں کے لیے آسان ہدف بنا دیا ہے۔ ایسی صورت میں سیاست، عدلیہ، انتخابات اور انصاف کے درمیان حدود زیادہ مبہم ہوتی جارہی ہیں۔ [بنگلہ دیش کی] ساری آبادی اب نظریاتی طور پر دو واضح کیمپوں، یعنی ٹربیونل کے حامی اور ٹربیونل کے مخالف میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ججوں میں سے ایک جج کے اسکائپ اکائونٹ کے ہیک ہونے سے سامنے آنے والی گفتگو کے انکشاف، اور سزائیں سنانے کے لیے عوامی لیگ کی بے تابی نے انتخابات کو مکتی باہنی کے مخالف یا حامی ہونے کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے۔

اس مضمون کا عنوان ہے: How not to do a war crimes tribunal: the case of Bangladesh  (کس طرح ایک جنگی جرائم کا ٹربیونل نہ چلایا جائے___ بنگلہ دیش کی مثال)۔ انھوں نے آگے چل کر اس کھیل کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:

ٹربیونل کے قابلِ اعتماد آغاز کے بارے میں پہلے یہ خیال تھا کہ عوام کو قریب لائے گا لیکن اب وہ سیاسی طاقتوں کی کش مکش اور اقتدار کی سیاست کا حصہ بن گیا ہے.... بہت سے لوگ یقین رکھتے تھے کہ جنگی جرائم کا ٹربیونل ملک کو ماضی کی بھول بھلیوں سے نجات دلانے کا باعث ہوگا، لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹربیونل کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بے تابی نے آبادی میں ایک تفریق پیدا کردی ہے۔

جماعت اسلامی کے ایک مخالف کا یہ تجزیہ مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے میں مددگار ہے:

  1. مقدمات ایک سیاسی کھیل ہیں، انصاف اور قانون سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
  2. ملک ایک نئے بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت کے ظلم اور انصاف کشی کے خلاف ہماری تنقید کا کوئی تعلق بنگلہ دیش کی آزادی یا خودمختاری سے نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی پامالی، معصوم انسانوں کے عدالتی قتل اور ظالمانہ قیدوبند، اور عوام کے حقوق اور سیاسی تبدیلی کے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کے اقدامات سے ہے۔ یہ انسانی اور عالمی معاملات ہیں، محض کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔

جماعت اسلامی محض سیاسی انتقام

جماعت اسلامی کا بجاطور پر دعویٰ ہے کہ اس کا اور اس کے کارکنوں کا دامن الحمدللہ ایسے تمام مبینہ جرائم سے پاک ہے، جو اس کی قیادت کی طرف منسوب کیے جارہے ہیں۔ وہ احتساب سے بھاگنے والی جماعت نہیں ہے۔ وہ عدل و انصاف کی میزان کی علَم بردار ہے اور آئین اور قانون کے مطابق ہرجواب دہی کے لیے تیار ہے۔ جماعت اسلامی نے ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا تھا اور ان کے مطابق انتقالِ اقتدار کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان جو ’لا الٰہ الااللہ‘ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس کے دستور ، اس کی آزادی، سالمیت اور استحکام کی علَم بردار تھی اور سیاسی اختلافات کے علی الرغم سقوطِ ڈھاکہ تک، پاکستان کے دفاع میں کمربستہ رہی۔ لیکن جب بنگلہ دیش ایک آزاد ملک کی حیثیت سے قائم ہوگیااور ۱۹۷۴ء میں پاکستان، اسلامی دنیا اور اقوامِ متحدہ نے اسے تسلیم کرلیا تو جماعت اسلامی سے وابستہ تمام افراد جو بنگلہ دیش میں تھے، اس کی آزادی، سالمیت اور استحکام کے لیے سرگرم ہوگئے۔

یہی وہ پس منظر تھا جس میں ۱۹۷۸ء میں جماعت اسلامی کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت ملی اور پھر ایک مقدمے کی طویل سماعت کے بعد پروفیسر غلام اعظم صاحب کی شہریت وہاں کی سپریم کورٹ نے بحال کردی۔ اس وقت سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش ایک نظریاتی تحریک کی حیثیت سے بنگلہ دیش میں زندگی کے ہرشعبے میں خدمات انجام دے رہی ہے اور ملک کی سیاسی تعمیرِنو کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔بحالی جمہوریت کی تحریک میں اس نے تمام سیاسی جماعتوں بشمول عوامی لیگ کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور بحالی جمہوریت کے بعد پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے اور بی این پی کے ساتھ حکومت میں بھی شریک رہی ہے۔

۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۱ء تک سات سال جماعت اسلامی اور عوامی لیگ ایک جمہوری تحریک میں شانہ بشانہ شریکِ کار تھے اور جماعت کی تمام قیادت بشمول پروفیسر غلام اعظم صاحب،    مولانا اے کے ایم یوسف، مطیع الرحمن نظامی، عبدالقادرمُلّا، علی احسن محمد مجاہد اور عوامی لیگ کی قیادت بشمول شیخ حسینہ واجد، عبدالصمد آزاد مرحوم، عبدالجلیل، صلاح الدین قادر چودھری، طفیل احمد، سرجیت سین گپتا اور مسز ساجدہ چودھری ایک ہی محاذ پر سرگرم تھے، حتیٰ کہ ۱۹۹۱ء میں عوامی لیگ نے انتخابات کے بعد جماعت کو کابینہ میں شمولیت کی دعوت بھی دی تھی، جسے جماعت نے شکریے کے ساتھ قبول نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جماعت اسلامی اور اس کی قیادت جنگی جرائم کی مرتکب تھی تو عوامی لیگ کو کیا اس وقت اس بات کا علم نہیں تھا؟ اور کیا یہ انکشاف ۲۰۰۹ء کے بعد ہوا؟

اگر ۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۶ء تک جماعت میں کوئی خرابی نہ تھی تو پھر اس سے کیسے انکار کیاجاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء میں نئی سیاسی مصلحتوں کی خاطر یہ افسانہ تراشا گیا اور انھی افراد کو جن کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جدوجہد کی جارہی تھی، اب سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

رہا معاملہ ۱۹۷۱ء کے واقعات کا، تو یہ ایک حقیقت ہے کہ تشدد کی سیاست کا آغاز    عوامی لیگ نے کیا اور ۱۹۶۹ء میں اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ)کے رہنما عبدالمالک کو شہید کیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کو جلسہ نہ کرنے دیا گیا جس میں تقریر کرنے کے لیے مولانا مودودی ڈھاکہ پہنچ گئے تھے اور اس کے متعدد کارکنوں کو شہید اور بیسیوں کو زخمی کیا گیا۔ عوامی لیگ کے عسکری ونگ کے طور پر مکتی باہنی کا قیام مئی۱۹۷۰ء میں کرنل عثمانی کے ہاتھوں ہوا۔ مارچ ۱۹۷۱ء سے ۱۰ ماہ پہلے مکتی باہنی نے پاکستان کی فوج اور پولیس سے بغاوت کرنے والے عناصر کے ساتھ مل کر قتل و غارت اور لُوٹ مار کا بازار گرم کیا، جس کے نتیجے میں ۵۰ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی افواج نے جب ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء کو آپریشن شروع کیا تو اس دوران بھی زیادتیاں ہوئیں اور شرپسندوں کے ساتھ ساتھ بعض جگہوں پر بے گناہ افراد بھی ہلاک ہوئے۔ یوں بدقسمتی سے زیادتیاں دونوں طرف سے ہوئیں اور ان کا کچھ نہ کچھ ریکارڈ بھی ایک حد تک موجود ہے۔

بیسیوں کتابیں ہیں جن میں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دوسرے مصنفین نے ذاتی مشاہدے کی بنا پر اس الم ناک دورکا نقشہ کھینچا ہے۔ خود حمودالرحمن کمیشن نے بھی تینوں فریقوں، یعنی پاکستانی فوج اور اس کے معاونین، مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے کارکن، اور خود بھارتی افواج کے خونیں اور  شرم ناک کردار کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے اور مناسب احتساب کی ضرورت کو بھی واضح کیا ہے۔ اس تکلیف دہ اور خون آشام دور کے بارے میں دو ہی طریقے ہوسکتے تھے: ایک بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر آزاد اور غیر جانب دار عدالت کے ذریعے احتساب، اور دوسرا غلطیوں کے مجموعی اعتراف کے ساتھ عفو و درگزر اور آیندہ کے حالات کی اصلاح کا راستہ۔

بنگلہ دیش کی مجیب الرحمن حکومت نے ۱۹۷۲ء میں Collobarators Act کے تحت  سول سوسائٹی کے افراد اور ۱۹۷۳ء کے انٹرنیشنل کرائمز ایکٹ کے تحت فوجی اور نیم فوجی ادارے سے متعلق افراد پر مقدمہ چلانے کا راستہ اختیار کیا۔ پھر فوجی دائرے میں ۱۹۵؍ افراد کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا۔ دوسری جانب سول سوسائٹی میں ۳۷ہزار۴سو۷۱ لوگوں پر الزام عائد کیا گیا، لیکن ان میں سے ۳۴ہزار۶سو۲۳ کو ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے رہا کردیا گیا۔عملاً مقدمہ ۲ہزار۸سو۴۸ ؍افراد پر چلا، جن میں سے ۷۲۰ کو سزا ہوئی، اور ۲ہزار سے زیادہ افراد کو بری کردیا گیا۔ واضح رہے کہ    ان ۳۷ہزار افراد میں جماعت اسلامی کا کوئی فرد شامل نہیں تھا اور جن افراد کو آج الزام دیا جا رہا ہے، ان میں سے پروفیسر غلام اعظم کے سوا تمام افراد اس وقت بنگلہ دیش میں موجود تھے اور کہیں چھپے ہوئے نہیں تھے۔

البدر پس منظر اور جدوجہد

غلطی کا ارتکاب کسی بھی فرد سے ممکن ہے، تاہم یہ بات پوری ذمہ داری سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعت کے کارکنوں اور البدر کے رضاکاروں کا دامن ہرقسم کے فوج داری یا اخلاقی جرائم سے پاک ہے۔ انھوں نے دفاعی خدمات ضرور انجام دیں، لیکن کسی قتلِ ناحق یا بداخلاقی اور لُوٹ مار میں وہ ہرگز ملوث نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ کل بھی اور آج بھی وہ شفاف عدالتی نظام میں   اپنے آپ کو پیش کرنے کو تیار ہیں۔ جماعت اسلامی نے کسی سے بھی رحم کی درخواست نہیں کی۔ جب تک وہ حصہ پاکستان تھا، اس وقت تک جماعت اسلامی کے کارکنوں نے دینی، اخلاقی، قومی اور قانونی فریضہ سمجھ کر مشرقی پاکستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے جدوجہد کی اور بھارتی مداخلت کاروں سے وطن کو بچانے کے لیے دفاعی پوزیشن اختیار کی۔ جب بنگلہ دیش کو قبول کرلیا تو اس کے ساتھ وفاداری کا معاملہ کیا۔ لیکن یہ صریح ظلم ہے کہ ۴۳سال کے بعد ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرکے انصاف کا کھلے بندوں خون کیا جارہا ہے اور سیاسی طور پر محکوم ٹربیونل کے ذریعے ان کو سزائیں دلوائی جارہی ہیں۔ ہمارا احتجاج انصاف اور انسانیت کے اس قتل کے خلاف ہے۔

البدر‘ کے نوجوانوں کا کیا کردار تھا؟اس بارے میں کتاب البدر (۱۹۸۵ء)کو پڑھا جاسکتا ہے۔ اسی ضمن میں روزنامہ نئی بات میں شائع ہونے والے آصف محمود صاحب کے مضمون: ’یہاں بھی غدار، وہاں بھی غدار‘ کا ایک اقتباس پیش ہے۔ واضح رہے کہ صاحب ِ مضمون کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے نہیں اور نہ میجر ریاض حسین ملک کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے تھا:

کیا ہم جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟ یہ تنظیم [بلوچ رجمنٹ کے]میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔ میجر سے میرا تعلق دوعشروں پر محیط ہے۔ میجر ریاض بتاتے ہیں کہ [میمن سنگھ] میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ ہم پُلوں اور راستوں کی نگرانی کرسکیں۔ ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاعِ وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آسکیں تو حاضر ہیں۔ ان نوجوانوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ میجر ریاض نے انھیں کہا: ’’ٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پُلوں پر پہرا دیجیے‘‘۔ ایک نوجوان نے کہا: ’’میجرصاحب ہمیں اپنی حفاظت کے لیے بھی کچھ دیں‘‘۔ یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آچکا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیرمسلح کردو۔ میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورئہ یٰسین کا ایک نسخہ اس نوجوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں تمھیں اس کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔ وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں بلکہ میجر کے دیے مشن پر۔ بانس کے ڈنڈے انھوں نے بنالیے اور ندی نالوں اور پُلوں پر جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی، پہرے شروع کر دیے۔ میجرریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے اسلحہ نہیں مانگا، لیکن میجرکے مَن کی دنیا اُجڑچکی تھی۔ فوجی ضابطے انھیں عذاب لگ رہے تھے۔ ایک روز ۳۰کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ انھیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کرلیں۔ ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے اسے کہا: بیٹا! آپ بہت چھوٹے ہو واپس چلے جائو۔ وہ بچہ اپنے پنجوں پر کھڑا ہوگیااور کہنے لگا: میجرشاب ہن تو بڑا ہوئے گاشے‘ (میجرصاحب! اب تو بڑا ہوگیا ہوں)۔ میجر تڑپ اُٹھے، انھیں معوذؓ اور معاذؓ یاد آگئے، جن میں ایک نے نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اُٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔ میجرنے اس بچے کو سینے سے لگالیا۔  ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ان جوانوں کو مسلح کردیا اور جنگ ِ بدر کی نسبت سے اس رضاکاردستے کو ’البدر‘ کا نام دے دیا۔ کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوا، تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں پر عدم اعتماد نہیں کیا۔ میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے۔ تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کردی گئی۔

ایک روز مَیں نے میجرسے پوچھا کہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی نہیں ہے۔ ’البدر‘ نے ظلم تو بہت کیے ہوںگے اپنے سیاسی مخالفین پر۔ یہ سوال سن کر میجر کو ایک چپ سی لگ گئی۔ کہنے لگے: آصف تم میری بات کا یقین کرو گے؟ میں نے کہا: میجرصاحب آپ سے ۲۵سال کا تعلق ہے، میرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ میجر نے کہا: میں اپنے اللہ کو حاضرو ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے ’البدر‘ کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اور نیک لڑکے نہیں دیکھے، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے۔ میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انھوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔ مجھے تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے تو اشتیاق پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے؟ برسوں بعد جب میں بھارت کی قید سے رہا ہوا تو میں اپنے گھر نہیں گیا، میں سیدھا اچھرہ گیا، مودودی صاحب کے گھر، مَیں دیکھنا چاہتا تھا  وہ شخص کیسا ہے جس نے ایسے باکرداراور عظیم نوجوان تیار کیے۔

آج یہی ’البدر‘ پھانسی پر لٹک رہی ہے۔

ہم تحدیث نعمت کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ ’البدر‘ کوئی کرایے کی فوج (mercenary) نہیں تھی، بلکہ اللہ کے دین کی خدمت کرنے والے مجاہدین کا گروہ تھے، جو صرف اللہ سے اپنے اجر کے طالب تھے اور جو ایک مقدس عہد کر کے اپنے کو اس خدمت کے لیے وقف کرتے تھے۔ ہرکارکن جو حلف لیتا تھا، وہ اس کے جذبات و احساسات، اس کے عزائم اور اس کے ضابطۂ اخلاق کا آئینہ ہے۔

البدر کا ہر مجاہد مختصر تربیت کی تکمیل کے بعد اپنے ساتھیوں کے رُوبرو یہ حلف نامہ پڑھتا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ

مَیں خداے بزرگ و برتر کو حاضرناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ:

  •   پاکستان کی سالمیت پر آنچ نہ آنے دوں گا۔
  •   پُرامن شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کروں گا۔
  •   اسلام اور پاکستان کے لیے ہرسطح پر جیتے جی جنگ جاری رکھوں گا اور اپنے جان و مال کو اس مقصد کے لیے وقف کردوں گا۔

اللہ میرا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

اسی طرح البدرمجاہدوں کا اجتماعی حلف نامہ یہ ہوتا تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

خدا کو حاضرناظر جان کر اقرار کرتے ہیں کہ ہم البدر کے رضاکار:

  •  سیاسی مخالفت یا خاندانی رنجش کی بنا پر کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
  • کسی فرد کے خلاف محض عوامی لیگ کا حامی یا ہندو ہونے کی بناپر تادیبی کارروائی نہیں کریں گے، تاآنکہ پوری تحقیق کے بعد غداروں کی اعانت کرنے یا براہِ راست ملکی مفاد کو نقصان پہنچانا ثابت نہ ہوجائے۔
  • متحدہ پاکستان کے لیے پُرامن جمہوری ماحول کی تیاری اور عام زندگی کے معمولات کی بحالی کے لیے تمام مثبت اقدامات کریں گے۔
  • ذرائع مواصلات کو درہم برہم کرنے اور پُلوں کو تباہ کرنے والوں، لُوٹ مار،    قتل و غارت اور عزت و ناموس پر حملے کے مرتکب افراد کے خلاف جدوجہد کریں گے۔

خدا ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!

ہم بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ الحمدللہ! ہمارے کارکنوں کا دامن ظالمانہ اور انتقامی کارروائیوں سے پاک ہے۔ بیسیوں کتابیں اس پر شاہد ہیں جو ضروری تحقیق کے بعد لکھی گئی یا جن میں دیانت داری سے اس زمانے کے حالات کو شخصی مشاہدے کی بنیاد پر بیان کیا گیا ہے۔ ان میں ’البدر‘ پر متعین الزامات کا کوئی وجود نہیں۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ سے لے کر بنگلہ دیش کے مصنّفین، بشمول سابق فوجی اور سفارت کار لیفٹیننٹ کرنل(ر) شریف الحق دالیم کی کتاب Bangladesh Untold Facts اور حمیدالحق چودھری کی خودنوشت Memoires، بھارتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) جے ایف آر جیکب کی Surrender at Dacca: Birth of a Nation  اور پروفیسر شرمیلا بوس کی کتاب Dead Reckoning ، اسی طرح غیرجانب دار بلکہ پاکستان کی حکومت کے ناقد پاکستانی مصنّفین، مثلاً لیفٹیننٹ جنرل (ر) کمال متین الدین کی Tragedy of Errors: East Pakistan Crises 1968-1971 اور میجر جنرل (ر) خادم حسین راجا کی A Stranger in My Own Country ۔ ان میں پاکستانی فوج اور خصوصیت سے اس کی قیادت پر سخت تنقید ہے مگر البدر کی کسی غلط کاری کا کوئی ذکر نہیں۔

پھر وہ دل دہلا دینے والی کتابیں جو ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں، جیسے سابق سفارت کار قطب الدین عزیز کی کتاب Blood and Tears ہے جو ۷۰ کے چشم دید واقعات پر مشتمل ہے، یا مسعود مفتی کی دل دہلا دینے والی تصانیف لمحے اور چہرے اور مہرے اور نسرین پرویز کی داستان سلمٰی کا مقدمہ: ڈھاکہ سے کراچی تک، یا پھر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب Pakistan Divided۔ ان اور دوسری تمام مستند کتابوں میں دونوں طرف کی زیادتیوں کا ذکر ہے، مگر البدر پر متعین طور پر الزام کہیں بھی نہیں ملے گا بلکہ کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب Witness to Surrender (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا)میں اعتراف کیا ہے کہ البدر کے نوجوان بڑے جانثار اور مقصد سے وفادار تھے، جو اسلام اور پاکستان سے محبت کی بناپر خطرات انگیز کرنے کے لیے کمربستہ تھے اور : ’’ان میں سے بعض نے قربانی کے ایسے جذبے کا مظاہرہ کیا، جس کا دنیا کی بہترین افواج سے مقابلہ کیا جاسکتا تھا‘‘ (ص ۱۰۵)۔ صدیق سالک نے پاکستانی فوج کے چند اہل کاروں کی غلط کاریوں کا اعتراف کیا ہے، لیکن ’البدر‘ کے جان نثاروں کا دامن ایسے خبائث سے پاک تھا۔

انسانیت کا قتل اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی

ہم ایک بار پھر بہت ہی انکسار اور اللہ سے عفوودرگزر کی طلب کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ کے سامنے ہمارے کارکن انصاف کے حصول کے لیے اور اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے ہرلمحہ تیار ہیں۔ لیکن جو خونیں اور شرم ناک ڈراما    بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل کے نام سے کھیلا گیا ہے، وہ ظلم اور انتقام کا بدترین کھیل ہے۔ اس کا عدل اور انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ انسانی حقوق کی پامالی اور معصوم انسانوں کی کردارکشی اور ان کے لیے قیدوبند اوردارورَسن کا بازار سجانے کی کوشش ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس ڈھونگ کا پردہ چاک کریں اور عالمی راے عامہ کو اس کے خلاف متحرک کریں، تاکہ عدل اور انسانیت کے قتل کا یہ سلسلہ روکا جاسکے۔

جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ پہلا راستہ عدل و انصاف کا ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں اور دوسرا راستہ مفاہمت اور عفوودرگزرکا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوجی و سیاسی قیادت کی حماقتوں اور بھارت کی سیاسی اور عسکری مداخلت کے نتیجے میں رُونما ہونے والی زیادتیوں کے اس تلخ باب کو بند کر کے ایک نئے باب کو کھولنا حکمت اور دانش مندی کا راستہ تھا۔ اس کا آغاز بھی شملہ معاہدے اور پھر ۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی شکل میں ہوا، جس پر پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے وزراے خارجہ نے دستخط کیے اور جس کی حیثیت ان ممالک کے درمیان ایک عہدوپیمان (treaty) کی ہے۔

اس معاہدے ہی کے نتیجے میں بھارت میں قید ۱۹۵ پاکستانی فوجیوں کو معافی (clemency) ملی، جن کو بنگلہ دیش کے بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل نے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا تھا۔ اس کے نتیجے ہی میں پھر پاکستان اور بنگلہ دیش نے سفارتی تعلقات قائم کیے، تجارت اور دوسرے میدانوں میںتعاون اور اشتراک کا دروازہ کھلا۔ اس میں ماضی کی غلطیوں پر افسوس کا اظہار بھی ہے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے اور درگزر کا اعلان بھی ہے، جسے حسینہ واجد صاحبہ نے  بھلا دیا ہے، اور بین الاقوامی معاہدہ شکنی کی مرتکب ہوئی ہیں۔ طے شدہ اُمور کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی ہے اور پرانے زخم تازہ کیے ہیں۔ ان کا یہ رویہ نہ حق و انصاف اور سفارتی عہدوپیمان کے محکم اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ مصلحت اور حکمت سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس معاہدے کے الفاظ پر غور کرلیا جائے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ گاڑی کے پہیے کو پیچھے کی طرف چلانے کی جو مذموم کوشش کی جارہی ہے، اس کی اصلیت کیا ہے۔ معاہدے کی شق۱۴ اور ۱۵ میں معاملات کو یوں طے کیا گیا ہے:

اس بارے میں تینوں وزرا نے نوٹ کیا کہ اس معاملے کو تینوں ملکوں کے اس عزم کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ وہ صلح صفائی کے لیے پُرعزم اقدامات کریں گے۔ وزرا نے مزید یہ بھی نوٹ کیا کہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے بعد وزیراعظم پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے وزیراعظم کی دعوت پر بنگلہ دیش آئیں گے۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے عوام سے یہ اپیل کی کہ وہ صلح صفائی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ماضی کی غلطیوں کو معاف کردیں اور بھول جائیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے وزیراعظم نے بنگلہ دیش میں ۱۹۷۱ء کی تباہی اور مظالم کے حوالے سے یہ اعلان کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عوام ماضی کو بھول جائیں اور ایک نیا آغاز کریں۔

مذکورہ اُمور کی روشنی میں اور خاص طور پر وزیراعظم پاکستان کی بنگلہ دیش کے عوام سے ماضی کی غلطیوں کے بارے میں عفوودرگزر کرنے اور بھول جانے کے پس منظر میں  بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ      عام معافی کے اقدام کے طور پر مقدمات میں مزید پیش رفت نہیں کرے گی۔ یہ بات بھی طے پائی کہ ۱۹۵جنگی قیدی بھی پاکستان اُن دوسرے قیدیوں کے ساتھ جو معاہدہ دہلی کے تحت واپس بھیجے جارہے ہیں، بھیج دیے جائیں گے۔

اس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ قبل ازیں بنگلہ دیش کو دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس، لاہور کے موقعے پر تسلیم کیا گیا اور شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے بعد پاکستان کے تین سربراہانِ حکومت نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا، یعنی ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمدضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی دونوں وزراے اعظم، یعنی   خالدہ ضیا اور خود حسینہ واجد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ تجارتی تعلقات میں برابر مضبوطی آئی، پاکستان کے سرمایہ کاروں نے بڑھ چڑھ کر بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی اور عالمی فورم پر دونوں کے درمیان بھرپور تعاون ہو رہا تھا، حتیٰ کہ اس دور میں چشم تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب بنگلہ دیش کو بھارت اور مغربی ممالک نے اسلحے کی فراہمی روک دی تو جنرل ضیاء الرحمن کی خواہش پر جنرل ضیاء الحق نے بنگلہ دیش کو اسلحہ فراہم کیا اور اس کی قیمت وصول کرنے سے بھی انکار کردیا جس کا اعتراف    کرنل (ر) شریف الحقدالیم نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا ہے (اُردو ڈائجسٹ، دسمبر۲۰۱۳ء)۔ نیز ڈھاکہ میں جب پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہوا تو بنگلہ دیش کے عوام نے پاکستان کی ٹیم کی کامیابی کے لیے اس طرح کردار ادا کیا جس طرح متحدہ پاکستان کے دوران کرتے تھے لیکن  افسوس صدافسوس کہ ۲۰۰۹ء میں عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔ واضح رہے کہ Collaborators Act جس کے تحت غیرفوجی عناصر پر مقدمات قائم کیے گئے تھے، اس کے تحت سزا پانے والوں میں سے بھی سنگین ترین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو چھوڑ کر ۱۹۷۵ء میں سب کو معافی دے دی گئی اور بالآخر ۳۱دسمبر ۱۹۷۵ء کو خود اس قانون کو بھی کالعدم قرار دے دیاگیا۔

 ۱۹۷۴ء ہی میں شیخ مجیب الرحمن نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرکے پورے عالمی میڈیا کے سامنے کہا تھا کہ Let The World know how Bengalies can forgive (دنیا جان لے گی کہ بنگالی کس طرح معاف کرتے ہیں)۔ لیکن مجیب صاحب کی صاحب زادی نے ایک نئی مثال قائم کی ہے کہ والد جو سربراہِ مملکت تھے، کی جانب سے معاف کر نے کے بعد  ان کی بیٹی نے کس بھونڈے انداز میں انتقام کی آگ بھڑکائی ہے۔

اس وقت جو کچھ بنگلہ دیش کی حکومت نے کیا ہے وہ بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون، بنگلہ دیش کے دستور اور پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاہدے، سب کے خلاف ہے، اور پاکستان کو صرف انسانی حقوق ہی کے باب میں نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کے سلسلے میں بھی احتجاج اور سفارتی ردعمل کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ اس پر فرض بھی ہے۔

 عبدالقادر مُلّا کا اصل جرم اور مقدمہ

اس اصولی بحث اور وسیع تر قانونی، سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں پر گفتگو کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ مختصراً عبدالقادر مُلّا کے مقدمے اور شہادت کے بارے میں بھی چند گزارشات پیش کریں۔

عبدالقادر مُلّا کا اصل جرم یہ نہیں ہے کہ وہ کسی فوج داری یا اخلاقی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مقدمے کی پوری کارروائی پڑھ لیجیے، کوئی الزام ان پر ثابت نہیں ہوتا اور محض سنی سنائی اور  بے سروپا تضاد بیانیوں کی بنیاد پر ان کو ’مجرم‘ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے،جو بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ہم نے ٹربیونل کا فیصلہ بغور پڑھا ہے۔ یہ پورا فیصلہ سیاسی دستاویز ہے جس میں زبان کے تنازعے سے لے کر تفریق تک کو اصل پس منظر مقرر فرما کر کارروائی کی ہے۔ اس طرح بلاثبوت   سنی سنائی باتوں اور نام نہاد circumstantial evidence پر سزاے موت دینے کی جسارت کی ہے جو بین الاقوامی اور خود ملکی قانون سے متصادم ہے۔ اور اس پورے پس منظر اور سازش کے نام پر جو اصل جرم سامنے آتا ہے، وہ بنگلہ دیش کی تحریک میں عدم شرکت ہے حالانکہ یہ ایک سیاسی پوزیشن توضرور ہے مگر قانون کی نگاہ میں کوئی جرم نہیں۔ دنیا کے جتنے ممالک نے بھی آزادی حاصل کی ہے ان کی آزادی کے حصول سے قبل کسی کی جو بھی سیاسی پوزیشن ہو وہ نئے دور میں غیرمتعلق ہوجاتی ہے جس کا واضح ثبوت قیامِ پاکستان کے بعد انڈین نیشنل کانگرس کے ان ہندو ارکان کو جو مشرقی پاکستان میں تھے، ریاست اور پارلیمنٹ میں برابر کا مقام دیے جانے میں دیکھا جاسکتا ہے۔

اس فیصلے میں انصاف کا کس طرح خون کیا گیا ہے اس کا اندازہ درج ذیل حقائق سے کیا جاسکتا ہے

عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء میں موضع امیرآباد، ضلع فریدپور میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۸ء میں بی ایس سی تک فریدپور شہر میں تعلیم پائی۔ ۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے، مگر ۲۵مارچ کو فوجی آپریشن کے شروع ہونے سے دو ہفتے قبل یونی ورسٹی بند کردی گئی۔ اس پر عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ ’چھاترو لیگ‘ کا قبضہ تھا۔ ہوسٹل بند کردیے گئے اور عبدالقادر مُلّا اپنے گائوں فریدپور چلے گئے جہاں وہ ۱۹۷۲ء کے آخر تک رہے۔

۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ میں خوں ریز ہنگاموں کے اس پورے زمانے میں عبدالقادر مُلّا کی عدم موجودگی کی حقیقت کو تو ٹربیونل نے یکسر نظرانداز کردیا حالانکہ فریدپور جہاں وہ وسط مارچ ۱۹۷۱ء سے دسمبر ۱۹۷۲ء تک رہے، پورا شہر اس حقیقت کی گواہی دے رہا تھا۔ لیکن جس دوسری حقیقت کو بھی اس نام نہاد عدالت نے قابلِ اعتنا نہ سمجھا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ دسمبر ۱۹۷۲ء میں عبدالقادر مُلّاڈھاکہ یونی ورسٹی میں آگئے جو عوامی لیگ کا گڑھ تھا، وہ مزید تعلیم کے لیے وہیں ہوسٹل میں رہے۔ دو سال میں ’تعلیمی انتظامیات‘ میں ایم اے کیا۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ کسی کو اس وقت ان کے ’میرپور کے قصاب‘ ہونے کی ہوا نہ لگی۔ پھر دو سال انھوں نے بنگلہ رائفلز (Bangla Rifles)  میں ٹریننگ لی اور یہاں بھی ان کے بارے میں کسی کو شبہہ نہ ہوا۔ پھر تین سال انھوں نے ایک سرکاری اسکول میں استاد کی حیثیت سے اور پھر پرنسپل کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر حکومت کے تحقیقی ادارے اسلامک فائونڈیشن میں، جہاں ملک کے تمام ہی دانش وروں سے ربط رکھنا ہوتا ہے،    اس میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد صحافت اور سیاست میں نمایاںکردار ادا کرتے رہے۔

سات سال تک عوامی لیگ کے ساتھ جماعت اسلامی کی ٹیم کے حصے کے طور پر کام کرتے رہے اور سب کے ساتھ ان کے فوٹو اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ وہ ’میرپور کے قصاب‘ سے شب و روز مل رہے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا رہا اور کسی نے عبدالقادر مُلّا پر انگشت نمائی نہ کی۔ پھر اچانک ۲۰۱۰ء میں عوامی لیگ پر یہ راز فاش ہوا کہ عبدالقادر مُلّا’میرپور کا قصاب‘ ہے اور اس کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی پاداش میں نام نہاد انٹرنیشنل ٹربیونل میں گھسیٹ لیا گیا۔

عبدالقادر شہید پر چھے میں سے پانچ الزامات کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء کے واقعات سے ہے، جب کہ وہ ڈھاکہ یا اس کے گردونواح میں موجود ہی نہیں تھے۔  عبدالقادر شہید کے وکلاے صفائی نے عبدالقادر مُلّا کے ڈھاکہ میں نہ ہونے اور تمام الزامات کے زمینی حقائق سے متصادم ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ۹۶۵ گواہ پیش کرنے کی اجازت چاہی اور تمام گواہوں کے کوائف سے ٹربیونل کو مطلع کیا۔ لیکن اسی ٹربیونل نے عدالتی عمل کی تاریخ میں یہ نادر اور مضحکہ خیز پوزیشن اختیار کی کہ: ’’یہ استغاثہ کا کام ہے کہ وہ جرم ثابت کرے اور دفاع کرنے والوں کو متبادل شہادت لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالانکہ ان تمام گواہوں کا موقف یہ تھا کہ ۱۹۷۱ء کے جس زمانے کے بارے میں عبدالقادر مُلّا پر الزام لگایا جارہا تھا وہ اس زمانے میں فریدپور میں تھے جنھیں شب و روز ان تمام افراد نے دیکھا۔ بڑی رد و کد کے بعد عدالت نے ۹۶۵ میں سے صرف چھے گواہوں کو پیش کرنے کی اجازت دی اور ۹۵۹ گواہوں کو سننے تک سے انکار کردیا۔ پھر ان چھے گواہوں کی شہادت کو بھی کسی دلیل کے بغیر رد کردیا۔

اپنے فیصلے تک میں اتنی مضحکہ خیز بات لکھی ہے کہ: ’’ایک گواہ کی گواہی میں تضاد تھا کہ عبدالقادر مُلّا کا دعویٰ ہے کہ: وہ وسط مارچ ۱۹۷۱ء سے نومبر ۱۹۷۲ء تک فریدپور میں تھے اور وہاں ایک دکان بھی چلا رہے تھے، جب کہ گواہ نے یہ کہا کہ اس نے ان کو فریدپور میں مارچ ۱۹۷۱ء سے مارچ ۱۹۷۲ء تک دیکھا، یعنی ڈیڑھ سال نہیں ایک سال‘‘۔ سوال یہ ہے کہ عبدالقادر مُلّا پر جو چھے الزامات ہیں، ان میں سے پانچ کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء تک ہے اور صرف ایک کا تعلق نومبر ۱۹۷۱ء سے ہے۔ لیکن یہ تمام اس ایک سال ہی سے متعلق ہیں، جس کے بارے میں گواہ گواہی دے رہا ہے کہ اس نے شب وروز ان کو فریدپور میں دیکھا ہے، یعنی مارچ ۱۹۷۱ء سے مارچ ۱۹۷۲ء تک۔ عدالت کی جانب داری، حقائق سے آنکھیں بند کرنے، بودے اور مضحکہ خیز تضادات کا سہارا لے کر پہلے سے طے شدہ فیصلوں پر مہرتصدیق ثبت کرنے کی اس سے زیادہ بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے؟

ضمنی طور پر یہ بھی عرض کردوں کہ جن پانچ الزامات کا تعلق ۲۶مارچ ۱۹۷۱ء سے وسط اپریل ۱۹۷۱ء سے ہے، ان کا انتساب ’البدر‘ سے کیا گیا ہے حالانکہ ’البدر‘ قائم ہی ۲۱مئی ۱۹۷۱ء کو ہوئی تھی، اور وہ بھی ڈھاکہ یا فریدپور میں نہیں، بلکہ بہت دُور شیرپور، ضلع میمن سنگھ میں۔استغاثہ اور خصوصی عدالت دونوں ہی کے علم اور دیانت پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔

استغاثہ نے ۴۹ گواہ پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا، مگر وہ صرف ۱۲ گواہ لاسکے جن میں سے کسی کی شہادت بھی عینی گواہی کی نہیں تھی۔ سب نے یہی کہا کہ انھوں نے ایسا سنا ہے اور اس طرح یہ اور اس سلسلے کے تمام مقدمے سنی سنائی باتوں، غیرتصدیق شدہ افواہوں اور اخبار کے تراشوں اور  سیاسی گپ شپ کی بنیاد پر طے کیے جارہے ہیں۔ ٹربیونل کا دعویٰ ہے کہ ایسے سنگین جرائم کے باب میں سنی سنائی (heresay ) باتوں کو بھی معتبر قرار دے کر شریف اور معتبر انسانوں کو موت یا عمرقید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ غضب ہے کہ خود ۱۹۷۲ء کے ریاستی قانون میں عدل و انصاف کے تمام  مسلّمہ اصولوں اور قواعد کو معطل کردیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے قانونِ فوج داری اور قانونِ شہادت دونوں کو ان مقدمات کے لیے غیرمؤثر (excluded) کردیا گیا ہے اور اس طرح شہادت کو مذاق بنادیا گیا ہے۔

عبدالقادر مُلّا کو موت کی سزا جس ایک نام نہاد شہادت کی بنیاد پر دی گئی ہے، وہ ۱۹۷۱ء میں ۱۳سال کی ایک لڑکی کی شہادت ہے، جو خود یہ کہہ رہی ہے کہ وہ پلنگ کے نیچے چھپی ہوئی تھی اور اس نے یہ سنا کہ ’عبدالقادر‘ نے اس کے باپ کو قتل کیا ہے حالانکہ یہی لڑکی اس سے پہلے بنگلہ دیش قومی عجائب گھر کو یہ بیان ریکارڈ کرا چکی ہے کہ وہ اس دن گھر پر موجود نہیں تھی اور اسی لیے اس کی جان بچ گئی۔ اس کا یہ بیان بنگلہ دیش کے سرکاری عجائب گھر میں آج موجود ہے جو جنگی جرائم کے محفوظات کو ریکارڈ کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ اس بیان کی فوٹوکاپی وکلا کی دفاعی ٹیم نے مذکورہ خصوصی عدالت میں پیش کی، لیکن اس عدالت نے جو ’سنی سنائی‘ باتوں کو معتبر قرار دیتی ہے، اس دستاویز کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا۔ اسی طرح اسی خاتون نے ایک اخباری بیان جو واقعے کے چند سال بعد کا ہے اور جس میں اس کے موقع واردات پر موجود نہ ہونے کا اعتراف ہے، نظرانداز کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ٹربیونل کی کارروائی پر ملک اور ملک سے باہر ماہرین قانون کی بڑی تعداد نے صاف لکھا ہے کہ ٹربیونل کی پوری کارروائی ہر دواعتبار سے، یعنی بنیادی عدل (substantive justice) اور عدالتی طریق کار (procedural justice) کی شدید بے قاعدگیوں سے بھری پڑی ہے۔ اور اسے کسی صورت میں بھی تقدیرِ عدل (dispensation of justice)  نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ قانون اور انصاف کا خون ہے اور عبدالقادر کو عدالتی قتل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

عبدالقادر مُلّا نے اعتماد، اطمینان، ہمت اور شجاعت کے ساتھ اس مقدمے میں اپنا دفاع کیا، ہرموقعے پر اپنی پاک دامنی کو ثابت کیا اور پھر عمرقید اور سزاے موت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ انھوں نے، ان کی صابروشاکر اہلیہ اور اہلِ خانہ نے اس ظلم کا پول کھولا اور کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائی، حتیٰ کہ رحم کی اپیل سے بھی انکار کر دیا۔ پھر جو وصیت عبدالقادر نے لکھی اور جس شان سے تختہ دار پر گئے، وہ ان کی معصویت اور صداقت کی دلیل ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے ماہر نفسیات کو یہ ساری داستان سنادیجیے، کبھی کوئی مجرم اس طرح معاملہ نہیں کرسکتا ۔ عبدالقادر کے بے گناہ ہونے کے لیے اگر کوئی اور شہادت اور لوازمہ موجود نہ بھی ہوتا، تب بھی صرف ان کا یہ عزیمت سے سرشار کردار ہی ان کے دامن کے پاک ہونے کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے    ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں

نام نہاد ٹربیونل ایک کھلا تضاد

ایک اور قابلِ ذکر پہلو وہ تضادبھی ہے کہ ایک طرف تو جن کا دامن پاک ہے ان کو سولی پر لٹکایا جا رہا ہے اور دوسری طرف جو دن دھاڑے انسانوں کے قتل، لُوٹ مار اور ظلم وستم  میں سرگرم رہے ہیں، یعنی عوامی لیگ کے جیالے اور جو ۱۹۷۰ء سے آج تک کشت و خون اور سیاسی انتقام اور کرپشن کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور جن کے انسانیت سوز کارناموں کی داستانیں چپے چپے پر پھیلی ہوئی ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ محفوظ ہیں بلکہ بڑی ڈھٹائی سے جج اور منصف بنے بیٹھے ہیں۔ ٹربیونل کے تمام ہی ارکان عوامی لیگ کے کارکن یا سرگرم کمیونسٹ کامریڈ رہے ہیں۔ استغاثہ کے ارکان میں سے چار افراد، جنوری ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے لیے عوامی لیگ کے نمایندے ہیں۔ عدلیہ عوامی لیگ کے کارکنوں سے بھر دی گئی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ افراد بھی جو ۱۹۷۱ء کے فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی جرنیل اے اے کے نیازی کے شریکِ کار (collaborators) تھے، وہ بھی عوامی لیگ کی بنائی ہوئی عدالتوں میں جج بن گئے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال     انتھونی مسکارن ہیس نے، جو ۱۹۷۱ء کے کشت و خون کے حقائق اور افسانوں کا پہلارپورٹر تھا اور  جس کے مضامین لندن ٹائمز میں شائع ہوئے تھے اور جس نے ۳۰لاکھ افراد کے قتل کا ’راز‘  طشت ازبام کیا تھا، اسی رپورٹر نے شیخ مجیب کے حکمران بننے کے بعد ۷۴-۱۹۷۳ء میں عوامی لیگ کے ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کو اپنی کتاب Bangladesh: Legacy of Blood میں بیان کیا ہے۔ اس نے اس میں یہ واقعہ بھی لکھا ہے، جو بنگلہ دیش میں انصاف کے قتل اور منصف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کے چہروں پر سے پردہ اُٹھانے کا ذریعہ بناہے:

حامیوں کے اولین مقدمات جیسور میں منعقد ہوئے۔ ایم آر اختر اپنی کتاب میں ایک دل چسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کٹہرے میں جو شخص کھڑا تھا جس پر رضاکار ہونے کا الزام تھا، خاموشی سے کھڑا رہا۔ جب مجسٹریٹ نے اس سے باربار پوچھا کہ تم مجرم ہو یا نہیں؟ کچھ وکلا اس پر چیخ پڑے کہ تم کیوں نہیں اپنا مقدمہ شروع کرتے؟ بالآخر    اس شخص نے جواب دیا کہ مَیں سوچ رہا ہوں کہ کیا کہوں؟ مجسٹریٹ نے پوچھا کہ تم کیا سوچ رہے ہو؟ ملزم نے مجسٹریٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ جو آدمی کرسی پر بیٹھا ہے، وہی تو ہے جس نے مجھے رضاکار بھرتی کیا تھا۔ اب وہ مجسٹریٹ بن گیا ہے۔ یہ تقدیر کا کھیل ہے کہ میں کٹہرے میں ہوں اور وہ میرا مقدمہ چلا رہا ہے۔

ایک اور دل چسپ تبصرہ برطانوی رکن پارلیمنٹ رابرٹ میکلین کا ہے، جو مقدمے میں آبزرور تھے۔ انھوں نے کہا کہ کٹہرے میں دفاع کرنے والے اس سے زیادہ قابلِ رحم ہیں جتنا کہ استغاثہ کے اُلجھے ہوئے گواہوں کا سلسلہ.... انھوں نے بھی پاکستان حکومت کی ملازمت کی، مگر اب یہ حلف اُٹھانے کو تیار ہیں کہ ان کی حقیقی وفاداری بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کے ساتھ تھی۔ پورا معاملہ انصاف کے ساتھ مذاق تھا۔ حکومت نے بالآخر اس کو ختم کردیا لیکن بدنظمی بڑھ جانے کے بعد۔

اس آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کے زمانے میں کیا ہوا ،اور اب حسینہ واجد کے زمانے میں کیا کیا جارہا ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک محترم جج نے جو جنگی جرائم کے ایک حقیقی بین الاقوامی ٹربیونل کے ممبر رہے ہیں، صاف الفاظ میں کہا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش کے ٹربیونل اور حقیقی بین الاقوامی ٹربیونل میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اس کی کارروائیوں کو کسی اعتبار سے بھی عالمی انصاف کی میزان پر صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

پھر عبدالقادر شہید کے سلسلے میں تو دستور، قانون اور اصولِ انصاف کا اس طرح خون کیا گیا ہے کہ اس نام نہاد ٹربیونل نے بھی کمزور گواہی کی بناپر ان کو عمرقید کی سزا دی تھی۔ لیکن پھر عوامی لیگ کے کارکنوں کے شاہ باغ میں احتجاج کی بنیاد پر ٹربیونل کے قانون مجریہ ۱۹۷۲ء میں فروری ۲۰۱۳ء میں ترمیم کی گئی اور حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ سزا میں اضافے کے لیے سپریم کورٹ میں جاسکتی ہے اور عدالت کو بھی سزا میں اضافے کا اختیار دے دیا گیا اور اس قانون کو قانون کے بننے سے پہلے کے جرائم پر بھی لاگو کردیا گیا ہے۔ قانون کی تاریخ میں بدنیتی پر مبنی قانون سازی کی یہ منفرد مثال ہے،جسے تمام ہی عالمی ، قانونی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ظالمانہ اور انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔

فیصلے کے خلاف عالمی ردعمل

یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھی سوچنے سمجھنے والے اہلِ دانش: قانون اور دستور کی ان خلاف ورزیوں پر یریشان ہیں اور اسے آمریت اور ظالمانہ کارروائیوں کے دروازے کھولنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں، اور عالمی سطح پر ان تمام اقدامات کی شدید مذمت ہورہی ہے۔ دی گارڈین، لندن کے کالم نگار اور مصنف جان پلجر (John Pilger)  نے اپنے ۱۵دسمبر ۲۰۱۳ء کے مضمون: The Prison that is Bangladesh میں اس کی سخت مذمت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ: ’’مُلّا کی موت ہرگز واقع نہیں ہونا چاہیے تھی‘‘۔

اقوام متحدہ کی کمشنر براے انسانی حقوق نیوی پلّاے (Navi Pillay) نے پورے عدالتی طریق کار اور کارروائی پر سخت تنقید کی ہے۔ انھوں نے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے عبدالقادر مُلّاکی پھانسی کو روکنے کی اپیل کی تھی۔ یورپی پارلیمنٹ کے ۲۵؍ارکان، امریکی کانگریس کے چھے کانگریس مین، برطانیہ کے متعدد ایم پیز، حماس کے ترجمان، ترکی کے وزیراعظم سمیت ساری دنیا میں اس عدالتی قتل کی مذمت کی گئی ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک سابق آرمی چیف، لیفٹیننٹ جنرل(ر) محبوب الرحمن نے جنگی جرائم کے ٹربیونل کے حق میں اصولی بات کہنے کے بعد موجودہ ٹربیونل اور اس کے فیصلوں کے بارے میں کہا ہے کہ:’’عوامی لیگ کی حکومت محض سیاسی محرکات کے تحت جنگی مجرموں پر مقدمے چلانے کے لیے پیش رفت کررہی ہے‘‘۔

اسی بات کا اظہار بنگلہ دیش کے ایک مشہور وکیل اور سابق وزیر مودود احمد نے کیا ہے اور اس پوری کوشش کو seeking a vendetta against political opponents (سیاسی مخالفوں سے جذبۂ انتقام کی کوشش)قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے مضبوط اور جان دار تنقید برطانیہ کے مشہور قانون دان اور جنگی جرائم کے مقدمات کے باب میں عالمی شہرت کے حامل بیرسٹر ٹوبی کیڈمین نے کی ہے:’’جنابِ مُلّا کو ایک منصفانہ ٹرائل نہیں ملا۔ ان کو اچانک پھانسی پر چڑھا دیا گیا، جسے ایک عدالتی قتل ہی کہا جاسکتا ہے‘‘۔

بنگلہ دیش کے سابق وزیرخارجہ اور شیخ مجیب کے دست راست ڈاکٹر کمال حسین کے داماد ڈیورڈ برگ مین، جو ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں اور بنگلہ دیش کے اہم اخبارات میں خدمات انجام دے چکے ہیں،اس مقدمے کو ابتدا سے دیکھ رہے ہیں اور مسلسل لکھ رہے ہیں۔ ان کے مضامین اور بلاگ اس پورے عدالتی ڈرامے اور گندے سیاسی کھیل کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ہم ان کے صرف چند جملے پیش کرتے ہیں:

بین الاقوامی قانون اور جرائم کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جس قانون کے تحت عبدالقادر مُلّا کا مقدمہ چلایا گیا، وہ ناقص اور قانونی سقم سے پُر تھا.... دو کلیدی وجوہ جن کی بنا پر مَیں نے یہ سوچا کہ مُلّا کی سزاے موت غیرمعمولی طور پر قابلِ اعتراض تھی: پہلی یہ کہ جن جرائم کی وجہ سے انھیں سزاے موت دی گئی، ان کے لیے قابلِ اعتماد گواہی کا مکمل فقدان تھا۔ دوسری وجہ مُلّا کو مناسب دفاع سے روکنا ہے۔ مُلّا کو صرف پانچ گواہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی، جب کہ استغاثہ جتنے چاہے گواہ لاسکتا تھا۔

ٹوبی کیڈمین نے بنگلہ دیش کی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ:’’ جو کچھ اس نے کیا ہے اس پر وہ خود جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے اور ایک دن آسکتا ہے جس میں خود اسے اس کی جواب دہی کرنا پڑے‘‘۔پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ہے:’’بین الاقوامی برادری کو اس پر    ذمہ دارانہ ردعمل دینا چاہیے‘‘۔

پاکستان کا مطلوبہ کردار

یہ ہے عالمی ردعمل، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ خود پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں اور حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا اور ہورہا ہے وہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ ہے۔ اس سے زیادہ بے حکمتی اور بے حمیتی کی بات کا تصور بھی مشکل ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ کسی بھی ملک کا محض داخلی معاملہ نہیں ہے۔ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کہیں بھی ہو، تمام دنیا کے لوگوں اور حکومتوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ انسانوں اور انصاف کے قتل کو رُکوانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر ستم ظریفی ہے کہ اس معاملے میں تو بنگلہ دیش کی حکومت نے خود اسے ’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل‘ کا نام دیا ہے، لیکن اب اسے خالص داخلی معاملہ قرار دے رہی ہے۔ نیز اسی طرح بحیثیت مسلمان ہمارا حق ہی نہیں فرض بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان ظلم کا ارتکاب کر رہا ہے تو اسے ظلم سے روکنے کی کوشش کریں۔ یہ حق ہم صرف اپنے لیے نہیں طلب کررہے کہ یہ حق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کے تمام افراد کو دیا ہے اور اس حق میں بنگلہ دیش کے مسلمان بھی برابر کے شریک ہیں۔

پھر پاکستان کا تو ان مقدمات سے براہِ راست تعلق ہے کہ یہ اس زمانے سے متعلق ہیں جب بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا اور جن لوگوں کو آج ظلم اور ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ   اس وقت پاکستان کے شہری تھے۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی رُو سے اس سیاہ باب کو بند کردیا گیا تھا۔ معاہداتی ذمہ داری (treaty obligation) کے اصول کے مطابق اگر آج بنگلہ دیش اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو بحیثیت ریاست ہمارا فرض ہے کہ اس پہلو سے معاہدہ شکن حکومت کے فعل پر اس کی گرفت کریں اور بین الاقوامی سیاسی، سفارتی اور قانونی ہرمحاذ پر اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ نے کثرت راے سے مذمتی قرارداد منظور کر کے ایک ادنیٰ مگر    صحیح اقدام کیا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے پارلیمنٹ کی حاکمیت اور بالادستی کا دعویٰ کرنے والی  وزارتِ خارجہ اور اس کے ترجمان: قانون، معاہدہ اور پارلیمنٹ کی قرارداد کسی کو بھی پِرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ اور وہ جماعتیں جنھوں نے اس قرارداد کی تائید نہیں کی، انھوں نے بھی قوم کو اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے کہ وہ کہاں تک پاکستان، اس کے دستور، اس کے دفاع اور اس کی عزت کی محافظ ہیں۔ اگر عوام اب بھی ہماری قومی قیادت کے ان دو مختلف چہروں کو نہیں پہچانتے تو یہ مستقبل کے لیے کوئی نیک فال نہیں۔   

ع ۔  ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

عالمی اور علاقائی حالات کے پس منظر میں ۲۰۱۴ء غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس امر میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ سیاسی ، معاشی اور تہذیبی ہی نہیں مواصلاتی، ٹکنیکیاتی اور ماحولیاتی اعتبار سے بھی یہ سال اہم ہوگا اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان اور علاقے کے باب میں بھی یہ سال ایک تاریخی دوراہے (historical crossroads) کی حیثیت رکھتا ہے ۔

امریکا اور ناٹو کی افواج ۱۲ سال کی ناکام جنگ کے بعد افغانستان چھوڑ نے کا اقدام کرنے والی ہیں اور اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہے ۔ پھر افغانستان میں اپریل ۲۰۱۴ء میں نئے صدارتی انتخابات منعقد ہونا ہیں ۔ اس انتخابی معرکے کی وجہ سے بھی ایک غیر یقینی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی اور امریکا کے آیندہ کردارکے بارے میں اہم سوالیہ نشان اٹھا رہی ہے ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں ۱۱ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں ایک  نئی حکومت قائم ہوچکی ہے جو قوم کے مطالبے کے باوجود، ملک کو امریکی جنگ کی اس دلدل سے نکالنے کے لیے ابھی تک کم سے کم پیش رفت میں بھی ناکام ہے۔ اس لیے مستقبل کے لیے کوئی نقشۂ کار واضح نہیں ہے ۔ اس پس منظر میں ’کیسا ہوگا ۲۰۱۴ء‘کا سوال کچھ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے ۔

آنے والے سال کے بارے میں میرے اندازے ، توقعات اور خدشات میرے اس تجزیے اور نتائج فکر پر مبنی ہیں جس پر میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے، اور اس پر امریکا کے غیر متوازن اور وحشیانہ رد عمل اور، گذشتہ ۱۲ سال میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے کردار، اور امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ اور پاکستان کی دونوں سابقہ حکومتوں کے کردار کے با ب میں ایک سوشل سائنٹسٹ کی حیثیت سے پہنچا ہوں۔ اس لیے پہلے میں مختصراً اپنا تجزیہ پیش کرتا ہوں اور پھر ان سوالات کے بارے میں کچھ عرض کروں گا جو ذہنوں کو پریشان کر رہے ہیں اور واضح جواب کے لیے پکار رہے ہیں ۔

۱۔ دہشت گردی کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کے ایک نہیں دسیوں روپ ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ و آہنگ ہے ۔ نہ اس مسئلے کا جنم دن ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ہے اور نہ ۲۰۱۴ء میں اگر امریکا اور ناٹو افواج کا افغانستان سے مکمل انخلا واقع ہو جاتا ہے ، جو بہت مشتبہ ہے ، کیا تب بھی یہ دہشت گردی ختم ہوجائے گی ؟ عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سب نے دیکھ لیاہے کہ وہاں اب بھی دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور صرف ۲۰۱۳ء کے پہلے ۱۰مہینے میں ۸ہزار سے زیادہ افراد  لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دہشت گردی محض ایک عسکری مسئلہ نہیں ہے، گو عسکری پہلو بھی ایک جہت کی حیثیت سے ضرور موجود ہے ۔ بنیادی طور پر اس کی جڑیں سیاسی مسائل اورناانصافیوں ہی میں پائی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان مسائل کے قرار واقعی حل کے بغیر اس کا حل ممکن نہیں۔

۲۔ اس وقت اہم ترین مسئلہ افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کا قبضہ ہے اور اگر افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا نہیں ہوتا تو افغانستان میں امن کے قیام کا کوئی امکان نہیں۔ اس صورت میں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ پاکستان آگ کے اس سمندر سے نکل سکے ۔

۳۔ سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر کوئی کچھ بھی کہے لیکن دو حقیقتوں کا اعتراف ضروری ہے، اور عالمی سطح پر بھی آزاد حلقوں میں اب اس بارے میں کھل کر اعتراف کیا جا رہا ہے کہ:

الف۔ افغانستان اور عراق دونوں میں فوج کشی کا کوئی حقیقی جواز نہیں تھا۔ امریکا نے محض ایک عالمی طاقت ہونے کے زعم میں اور امریکی بالادستی اور استثنائیت ((American hegemony and exceptionalism کومحض قوت کے زور سے دنیا پر مسلط کرنے کے لیے یہ جنگ لڑی اور منہ کی کھائی ۔ The New York Review of Booksکے ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں وار آن ٹیرر پر ایک اہم کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میلسی روتھوین(Malisi Ruthven) ایک جملے میں پوری خونچکاں داستان کو یوں بیان کرتا ہے :It is difficult to escape the conclusion that the United States has been fighting the wrong war, with the wrong tactics, against the wrong enemy and therefore the results can be nothing but wrong. ’’اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نکالنا مشکل ہے کہ امریکا نے ایک غلط جنگ ، غلط حکمت عملی سے غلط دشمن کے خلاف لڑی اور اس لیے نتائج بھی غلط کے علاوہ کچھ اور نہ ہو سکتے تھے ‘‘۔

روزنامہ دی گارڈین لندن کا کالم نگار سیومس ملن (Seumus Milne)۱۳ دسمبر ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں مغربی دانش وروں کی سوچ کا خلاصہ یوں بیان کرتا ہے کہ: The wars unleashed or fuelled by the US, Britain and their allies over the past 12 years have been shameful. Far from accomplishing their missions, they have brought untold misery, spread terrorism across the world and brought strategic defeat to those who leashed them. ’’امریکا، برطانیہ اور ان کے حلیفوں نے جو جنگیں گذشتہ ۱۲برسوں میں شروع کیں اور ان کو ایندھن فراہم کیا ، شرم ناک تھیں۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بجاے یہ غیرمعمولی تحریک لائیں، دہشت گردی کو ساری دنیا میں پھیلا دیا اور جنھوں نے اس کا آغاز کیا ان کی اسٹرے ٹیجک شکست کا باعث بنیں‘‘۔

یہ ہے افغانستان اور عراق پر مسلط کی جانے والی ۱۲ سالہ جنگوں کا حاصل اور وہ بھی چھے لاکھ کے قریب انسانوں کی ہلاکت، ۴۰ سے ۵۰ لاکھ کی خانہ بربادی اور نقل مکانی اور ۳سے ۴ہزار ارب ڈالروں کو اس جنگ میں پھونکنے کی قیمت پر!

ب- افغانستان میں امریکا اپنی تمام فوجی قوت اور ٹکنالوجیکل برتری اور اتحادیوں کی رفاقت کے باوجود جنگ ہار چکا ہے ۔ اس کا احساس اوباما کو جولائی ۲۰۰۹ میں ہی ہو گیا تھا جب اس نے اعتراف کیا تھا کہ:We are not trying to win this war militarily. Victory is not possible. ’’ہم اس جنگ کو فوجی بنا پر جیتنے کی کوشش نہیں کر رہے ۔ فوجی فتح ممکن نہیں ہے ‘‘۔

لیکن اس کے باوجود فوج کے اصرار پر اس نے ۳۰ ہزار افوج مزید بھیج کر جنگ کا پلڑا بدلنے کی ناکام کوشش کی اور اب سب اعتراف کر رہے ہیں کہ جنگ ہاری جا چکی ہے ۔ امریکی مؤقر جریدے فارن افیرز کے تازہ شمارے (ستمبر، اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی کے علمِ سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون Ending the War in Afghanistan  میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ: ’’شکست یا مذاکرات ان کے سوا کوئی اور راستہ نہیں‘‘۔اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں۔ ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہو جائیں، گو یہ بھی کوئی امرت نہیں ہے لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔

 امریکا اپنا کوئی بھی اعلان شدہ مقصد حاصل نہیں کر سکا اور دنیا اور امریکا دونوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے باوجود آج امریکا معاشی طور پر کمزور اور عدم تحفظ کے عوامی احساس کے بارے میں اُس سے ابتر حالت میں ہے جس میں۱ ۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے تھا۔ تازہ ترین راے عامہ کے سروے یہ بتا رہے ہیں کہ خود امریکا میں ۷۰ فی صد سے زیادہ افراد اپنے آپ کو آج غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں، یعنی وہی کیفیت جو ۲۰۰۲ء میں تھی۔

۳۔ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت جن وجو ہ اور مجبوریوں کے تحت بھی ہوئی ہو، اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ شرکت پاکستان کے لیے نقصان، تباہی اور بے حد و حساب بگاڑ اور فساد کا ذریعہ بنی ہے ۔ امریکا ہم سے ناخوش ہے اور ہمیں برملا ’ناقابلِ اعتبار‘قرار دے رہا ہے ۔ افغان عوام ہم سے بے زار ہیں کہ ہم نے ایک عالمی طاقت کا آلۂ کار بن کر ان پر فوج کشی کی راہ ہموار کی اور امریکی قبضے کے قیام میں معاونت کی ۔ افغان حکومت ہم سے شکوہ سنج ہے کہ پاکستان طالبان کی در پردہ پشت پناہی کر رہا ہے ۔ بھارت نے افغانستان میں اپنے لیے ایک کردار وضع کر لیا ہے حالانکہ روس کے فوجی قبضے کی تائید کر کے اس نے افغانستان میں اپنے کو ایک مبغوض ملک بنا لیا تھا، اور خود پاکستان میں دہشت گردی کے نت نئے روپ رونما ہو رہے ہیں۔ ملک کا امن و امان تہہ و بالا ہے اور معاشی حیثیت سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق ان ۱۲سال میں ہمیں اس نام نہاد امداد کو ایڈجسٹ کرنے کے با وجود جوسامراجی قوتوں کی خدمات کے معاوضے میں ہمیں دی گئی ہے، یعنی Net terms  میں پاکستان کے عوام کو ۱۰۰ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے ، اور اس پر مستزاد وہ ۵۰ ہزار افراد ہیں جو ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سے زیادہ زخمی ہیں ا ور خود ملک میں ۳۰ لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ اس لیے اس عذاب سے نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

۴- امریکا ہو، ناٹو ہو یا خود پاکستان ہو، اس مسئلے کے سیاسی حل کے سوا کوئی نجات کا راستہ نہیں ہے ۔ اس سے انکار نہیں کہ امن و امان کے قیام اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے ریاستی قوت کے استعمال کا ایک معروف کردار ہے جو دستور اور قانون کے مطابق ادا کیا جانا چاہیے لیکن سیاسی مسائل کا حل کبھی محض عسکری قوت سے ہوا ہے اورنہ ہو سکتا ہے ۔ افغانستان کے باب میں اس کا ادراک اب بہت دیر سے ہورہا ہے حالاں کہ اصحابِ بصیرت بہت پہلے سے یہ بات کہہ رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے افغانستان کے لیے خصوصی نمایندے Tom Koenigs نے جرمن روزنامہ Berliner Zeitingکو ۱۳؍ اپریل ۲۰۰۷ء کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ :If there is to be a chance for peace , we must talk to everyone, including alleged war criminals . The aim is to stabilize Afghanistan.  ’’اگر امن کے لیے کوئی امکان ہو تو ہمیں ہر ایک سے بشمول جنگی مجرموں کے بات چیت کرنا ہو گی۔ مقصد افغانستان کو مستحکم کرنا ہے ‘‘۔

اب جون ۲۰۱۳ میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے افغانستان کے دورے کے دوران اعتراف کیاہے کہ: 2002 was the correct time to carry negotiations with the Taliban. ’’طالبان سے مذاکرات کے لیے ۲۰۰۲ء صحیح وقت تھا‘‘۔ اور افغانستان میں خود ناٹو کے نائب کمانڈر جنرل زگ کارٹر نے ارشاد فرمایا ہے کہ: Negotiations with Taliban should have been conducted in 2002. ’’طالبان سے مذاکرات ۲۰۰۲ میں کر نے چاہیے تھے ‘‘۔

اس پر اس کے سوا اورکیا کہا جاسکتا ہے کہ ع    ’ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘۔

حالات کے اس تجزیے کی روشنی میں ۲۰۱۴ء کے لیے پاکستان کے لیے صحیح حکمت عملی یہ ہے کہ وہ :

الف- دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے بے تعلقی کا اعلان کرے اور پوری خارجہ پالیسی کو اپنے ملکی مفاد اور عوامی جذبات اور خوااہشات کی روشنی میں از سر نو ترتیب دے جیسا کہ خود پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ ء اور ۱۴ مئی ۲۰۱۱ء کی دو قراردادوں میں مطالبہ کیا ہے ۔

ب- افغانستان میں افغانیوں کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ترغیب دیں کہ وہ قومی مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے افغان مسئلے کا افغان حل نکالیں اور سب سیاسی اور مذہبی قوتوں کو اس میں شریک کریں۔

ج- افغانستان کے معاملات میں امریکا، پاکستان، بھارت، ایران کوئی بھی مداخلت نہ کرے، البتہ علاقائی امن کی خاطر افہام و تفہیم سے حالات کو بہتر بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔

د- پاکستان امریکی جنگ سے بے تعلقی اختیار کرنے کے ساتھ خود اپنے ملک میں ، طالبان اور جو بھی دوسرے عناصر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیے ہوئے ہیں، ان کو سیاسی عمل کے ذریعے سے دہشت گردی سے باز رکھنے کے عمل کا سنجیدگی سے آغاز کرے ۔ اس سلسلے میں ایک ہمہ جہتی حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے جو پارلیمنٹ کے دیے ہوئے خطوط کی روشنی میں مذاکرات ، ترقی اور تعمیر نو اور ریاستی رٹ کی بحالی بذریعہ سدجارحیت (deterrence) پر مشتمل ہو۔ نیز فاٹا کے مخصوص حالات کی روشنی میں اس علاقے کو جلد از جلد ایک واضح پروگرام کے تحت ملک کے دستور ی نظام کا حصہ بنایا جائے اور جو کام ۶۶ سال سے معلق ہے اسے بلاتاخیر انجام دیا جائے، تا کہ وہاں حقیقی معنی میں حکومت کی رٹ قائم ہو سکے اور دستور اور قانون کی حکمرانی کا آغاز ہو سکے ۔

ہ۔ امریکا اورناٹو کے بارے میں یہ موقف مضبوطی سے اختیار کیا جائے کہ ان کے افغانستان سے مکمل انخلا کے بغیر افغانستان اور علاقے میں امن قٗائم نہیں ہو سکتا۔

میری نگاہ میں افغانستان اور خود پاکستان میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے ایک بڑے حصے سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا ہو جس کا امکان بظاہر کم ہی ہے ۔ امریکا کی پوری کوشش ہے کہ وہاں ایک خاص تعداد میں اس کی فوج موجود رہے ۔تین سے نو فوجی اڈے اس کے قبضے میں ہوں اور اس طرح وہ افغانستان، چین، پاکستان اور وسط ایشیا کے بارے میں جو بھی ایجنڈا رکھتا ہے اس کے حصول کے لیے ایشیا کے قلب میں بیٹھ کر اپنا کھیل کھیل سکے ۔ یہ بڑا خطرناک اور مسلسل تصادم کو جاری رکھنے والا راستہ ہے ۔ پھر امریکی افواج کے لیے جس استثنا (immunity) کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور جو کرزئی حکومت تک امریکی افواج کو دینے کو تیار نہیں، اس کی موجودگی میں افغانستان میں امن کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر امریکی افواج وہاں رہتی ہیں تو جنگ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی اور حالات مخدوش رہیں گے ۔ اور پاکستان بھی جنگ اور دہشت گردی کی اس دلدل سے نہ نکل سکے گا جس میں ۱۲ سال سے پھنسا ہوا ہے ۔

اس کے ساتھ دوسرا مسئلہ افغانستان کے مستقبل کے سیاسی انتظام کا ہے۔قرائن یہ ہیں کہ اپریل کا الیکشن کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ مستقبل کا سیاسی نقشہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد ہی صورت پذیر ہوگا، البتہ اس امر کا خدشہ ہے کہ اگر اس مسئلے کو آج طے نہ کیا گیا تو خدانخواستہ افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہے گی اور ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۶ء تک کا دور واپس آ سکتا ہے جو بڑا تباہ کن ہوگا۔ جنیوا معاہدے کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں اصل بر سرِ جنگ قوتوں کو شامل کیے بغیر اوپر ہی اوپر معاملات طے کیے گئے تھے اور سب سے اہم مسئلے، یعنی روس کی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد ملک کا انتظام و انصرام کیا ہوگا کو نظرانداز کر دیا اور اس طرح خانہ جنگی اور مسلسل تصادم کو ملک کا مقدر بنا دیا گیا۔ اگر آج بھی اس پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو خیر کی توقع نہیں ۔

مُلّا عمر کا عید الفطر کے موقعے پر بیان بہت اہم ہے جس میں اس نے مستقبل کے بارے میں چند اہم اشارے دیے ہیں یعنی :

۱-  امریکی اور غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا۔

۲-  ملک کے تمام عناصر کی مشاورت سے ایک ایسے نئے انتظام کا اہتمام، جس میں سب کی شمولیت ہو(inclusive)-

۳- تعلیم اور ملکی ترقی کے باب میں ایک مؤثر کوشش۔

۴- عام مسلمانوں اور معصوم انسانوں کا خون بہانے سے اجتناب۔

پاکستان میں امن کا بڑا انحصار پاکستان کے اندر دہشت گردی کے باب میں صحیح اور ہمہ جہتی حکمت عملی اپنانے اور اس پر خلوص سے عمل کے ساتھ افغانستان میں افغان قومی مفاہمت پر مبنی سیاسی انتظام کے جڑ پکڑنے پر ہے ورنہ خدا نخواستہ افغانستان خانہ جنگی کی آماج گاہ بنا رہے گا تو پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوگا اور اس پر مستزاد افغانستان سے نقل مکانی کی نئی لہر کا بھی شدید خطرہ ہے ۔ اگر آج افغان مسئلے کا صحیح خطوط پر حل نہیں ہوگا تو پھر افغانستان اور پاکستان دونوں کو تباہی کے ایک نئے طوفان کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ اس کی پیش بندی کا وقت آج ہے ، کل نہیں ہوگا۔

دہشت گردی اور فکری ٹکراؤ اور انتہاپسندی کی سوچ کا بھی ایک تعلق ضرور ہے لیکن ان دونوں اُمور کو مکمل طور پر گڈمڈ کر دینا بڑا خطرناک اور زمینی اور تاریخی حقائق کے ساتھ مذاق ہوگا۔ اختلاف راے ، فکری مباحث، اسٹیٹس کو (status quo)کو چیلنج اور نئی راہوں کی تلاش انسانی زندگی کی ایک حقیقت اور ترقی کے لیے زینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ عمل ،فکری اختلاف ،ذہنی ٹکرائو اور خیالات و افکار کی جنگ کی صورت اختیار کرتا رہا ہے اور پھر اسی کش مکش اور تصادم سے نئے افکار اور نئے فکری سمجھوتے وجود میں آتے رہے ہیں۔ ہیگل اور مارکس کا تو فلسفۂ تاریخ ہی اس تصادم کے سہ رکنی سفر (tringular journey) پر ہے، یعنی تھیسس جس کا مقابلہ دوسری انتہا پر اینٹی تھیسس کرتی ہے اور پھر اِمتزاج (synthesis) پیدا ہوتا ہے جو مرور زمانہ سے ایک بار پھر تھیسس بن جاتا ہے اورپھر یہی عمل جاری رہتا ہے ۔ محض انتہاپسندی کا رونا رو کر فکری سفر کے اس پورے تناظر کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

اسی طرح جب کسی معاشرے میں جبر اور تشددکا دور دورہ ہو ، جب عدل اور انصاف کا فقدان ہو، جب عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر دیا گیا ہو ،خواہ بیرونی قبضے کی شکل میں یا اندرونی آمریت اور استحصالی نظام کی وجہ سے تو پھر ان حالات کا بالآخر جو رد عمل رُونما ہوتا ہے، اس میں تشد د کا کردار نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ اس پر تشدد رد عمل کو جواز فراہم کرنے کے لیے فکری میدان میں بھی نظریات جنم لیتے ہیں اور فکر اور عمل دونوں میدانوں میں اس سے سابقہ پیش آتا ہے ۔   واضح رہے کہ یہ معاملہ کسی خاص مذہب ، تہذیب، علاقے یا قوم سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہمہ گیر تاریخی عمل ہے اور اپنے تمام نشیب و فراز کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں اور دنیا کے سب ہی علاقوں میں رونما ہوتا رہاہے ۔یہ عمل اپنے تمام تعمیری اور تشکیلی پہلوئوں اور تمام تخریبی اور تباہ کن شکلوں کے ساتھ ہی تاریخ میں ایک اہم منظرنامہ پیش کرتا ہے ۔ بلاشبہہ فکری محاذ پر تصادم کو کم کرنے اور افہام و تفہیم کی نئی راہیں تلاش کرنے کا عمل از بس ضروری ہے ۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو ان اُمور پر کھل کر بحث کرنی چاہیے لیکن دہشت گردی کا رشتہ دینی فکر اور تصورِ جہاد سے جوڑ کر دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی روش غلط ہے اور اس سے اجتناب اولیٰ ہے ۔

یہ وہ پس منظر ہے جس میں خود پاکستان اور عالم اسلام میں آج انتہا پسندی اور تشدد کے رجحانات کے مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے ۔ ولیم بلوم (William Blum) جو ایک مشہور سفارت کار، دانش ور اور مصنف ہے جو امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا رہاہے اور جس نے جنگ، دہشت گردی، تشدد اور انتہا پسندی کے موضوع پر اور ان جرائم میں امریکا کے کردار پر نصف درجن سے زائد کتابیں لکھی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین کتابAmerica's Deadliest Export: Democracy (اشاعت:  وسط ۰۱۳ ۲ء) اس مسئلے پر بھی بحث کرتی ہے ۔ اس میں اس نے امریکا کی پالیسیوں کو پوری دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت ، شدت پسندی، اور دہشت گردی کے فروغ کا اصل سبب قرار دیا ہے اور یہ تک کہا ہے کہ طالبان اگر ایک ذہن اور سوچ کے انداز (mindset)کا نام ہے تو وہ صرف افغانستان یا پاکستان میں نہیں، واشنگٹن اور مغربی ممالک میں بھی موجود ہے ۔ الفاظ اور اصطلاحات مختلف ہیں لیکن حقیقت اور جوہر میں کوئی فرق نہیں۔ وہ صاف الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ: ’’جنگ امریکا کے لیے ایک مذہب کی شکل اختیار کر گئی ہے‘‘ اور جو بھی امریکا کے اس مذہب کو تسلیم نہیں کرتا، خواہ وہ افغانستان اور پاکستان میں ہو یا کہیں اور،  وہ امریکا کی نگاہ میں توہین مذہب (blasphemy) کا مجرم ہے اور اس طرح وہ قتل کا سزاوار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں پرموت کی بارش کی جاتی ہے ۔ امریکی دہشت گردی اور افغان اور مسلم دہشت گردی کا مقابلہ و موازنہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ: "What is the difference between them and Mumtaz Qadri? Qadri was smiling in satisfaction after carrying out his holy mission. The CIA man sits comfortably in room in Neveda and plays his holy video game, then goes out to a satisfying dinner while his victims lay dying. Mumtaz Qadri believes passionately in something called Paradise. The CIA men believe passionately in something called American Exceptionalism!. (page. 328)". ’’ممتاز قادری اور ان لوگوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟ قادری اپنا مقدس مشن پورا کر کے اطمینان سے مسکرا رہا تھا ۔ سی آئی اے کا اہل کار بھی نوادا میں اپنے کمرے میں آرام سے بیٹھ کر اپنی مقدس وڈیو گیم کھیلتا ہے اور پھر اپنے اہداف کو مرتے ہوئے اطمینان سے دیکھتا ہے ۔ ممتاز قادری نہایت جذبے سے جس چیز کو جنت کہتا ہے ، اس پر یقین رکھتا ہے۔ سی آئی اے کے اہل کار بھی ایسے ہی جذبے سے جس چیز پر یقین رکھتے ہیں وہ جسے امریکی بالا دستی اور استثنائیت کہا جا تا ہے ‘‘۔

کاش! ہم اس پیچیدہ اور عالم گیر مسئلے کو تعصبات کی عینک سے دیکھنے کے بجاے تاریخی اور زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھیں اور اسباب تک پہنچ کر حالات کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں ورنہ نتائج بگاڑ میں اضافے کے سوا اورکیا ہو سکتے ہیں؟

رہا معاملہ پاکستان میں دینی جماعتوں کے فکری رجحانات اور سیاسی موقف کا تو وہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہیں اور ان پر دہشت گردی یا انتہاپسندانہ تصورات کے اثرات پڑنے کا خدشہ ایک واہمے سے زیادہ نہیں۔ پاکستان کی دینی جماعتیں بہت ہی متوازن سوچ کی علَم بردار ہیں ، انھوں نے تبدیلی کے لیے جمہوری راستے کو منتخب کیا ہے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں ۔ علماے کرام نے بالعموم اعتقادی اور سیاسی اُمور کے سلسلے میں قوت کے استعمال کو ناقابل بردا شت قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس سلسلے میں قرآن کا حکم بہت واضح ہے کہ دین کے معاملات میں کوئی جبر نہیں۔ (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ)۔اسلام کی نگاہ میں خون ناحق ایک صریح ظلم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے خواہ   اس کا ارتکاب کوئی بھی کرے ، فرد، گروہ یا حکومت اور خواہ اس کے لیے کوئی بھی عنوان استعمال کیا جائے، مذہبی یا سیکولر۔

۲۰۱۴ء کیسا ہوگا؟ اس کا بڑا انحصار اس پر ہوگا کہ ہم ۲۰۱۴ء کے چیلنجوں کا کس طرح جواب دیتے ہیں۔ حالات کا تجزیہ کتنی حقیقت پسندی اور دیانت داری کے ساتھ کرتے ہیں اور اپنی  حکمت عملی کتنی صحیح بنیادوں پر مرتب کرتے ہیں اور سب سے اہم یہ ہے کہ جو بھی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اس کے بارے میں عملاً کتنے مخلص ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس پر عمل کے لیے دیانت اور اعلیٰ صلاحیت دونوں کا کس حد تک مظاہر ہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ناگفتہ بہ حالات میں بڑا دخل حالات کے صحیح تجزیے کے فقدان کے ساتھ قیادت کا عدم خلوص اور اچھی حکمرانی کی صلاحیت سے محرومی ہے ۔ اگر ہم اپنی پالیسیاں صحیح بنیادوں پر تشکیل دیں اور اپنی صلاحیتوں کو صحیح انداز میں  بروے کار لائیں اور اچھی حکمرانی پر عمل پیرا ہوں، تو ۲۰۱۴ء ساری مشکلات اور چیلنجوں کے باوجود بہتری کے سفر میں ایک سنگ میل بھی بن سکتا ہے اور یہی ہماری کوشش ہونی چاہیے ۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ۲۰۱۴ء ویسا ہوگا جیسا ہم اسے بنانے کی کوشش کریں گے اور اللہ پر بھروسے کے ساتھ خود وہ کچھ کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں جو مطلوب ہے۔ صحیح پالیسی، قیادت کی یکسوئی اور اچھی حکمرانی کے ذریعے تشکیلِ نو کی سعی و جہد میں ہی نجات ہے اور غیروں کی ذہنی ، معاشی اور سیاسی غلامی سے نکلے بغیر اور خود اپنی قوم اور اپنے وسائل پر انحصار کا راستہ اختیار کیے بغیر حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ یہ لمحہ ایک بنیادی فیصلہ کرنے کا ہے اور اگر ہم نے اسے ضائع کردیا تو یہ بڑا قومی سانحہ ہوگا۔

انسان بنیادی طور پر دو ایسی ضروریات کا محتاج ہے جن سے وہ ایک لمحے کے لیے بھی صرفِ نظر نہیں کرسکتا۔ ایک طرف اسے ان اشیا و وسائل کی ضرورت درپیش ہے جو اس کی مادی احتیاجات کو پورا کریں، جن کے ذریعے وہ اپنے جسم اور روح کے رشتے کو قائم و استوار کرے اور بقاے حیات کے مادی تقاضوں کو پورا کرے۔ دوسری طرف وہ اس ہدایت اور رہنمائی کا محتاج ہے جس کی روشنی میں وہ اپنی اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی زندگی کی تشکیل صحت مند بنیادوں پر کرسکے اور  اس طرح انسانیت کے حقیقی مقاصد کی بوجہِ احسن تکمیل کرسکے۔

اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ِ عامہ کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرے۔ پہلی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس نے زمین و آسمان میں وسائلِ معیشت کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ودیعت کر دیا ہے اور انسان ان وسائل کے ذریعے اپنی مادی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔ پوری کائنات انسان کے لیے اپنا دامن پھیلائے ہوئے ہے اور اپنے سینے سے وہ وسائل اُگل رہی ہے جو انسانیت کی بے شمار اور ہر آن بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو بحسن و خوبی پورا کررہے ہیں    ؎

دما دم رواں ہے یمِ زندگی

ہر اِک شے سے پیدا رمِ زندگی

انسان کی دوسری بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت اور اپنے نبی مبعوث فرمائے تاکہ وہ انسان کو زندگی کی حقیقت سے روشناس کرائیں۔ انھیں زندگی کے معنی اور اس کے مقاصد سے آشنا کریں، انھیں جینے کے طریقے سکھائیں اور اُن اصولِ تمدن کی تعلیم دیں جو زندگی کو اس کے اصل مقاصد سے ہم کنار کردیں، اور خدا کی زمین پر ایک صحت مند نظام قائم کریں جس میں زمین اپنی نعمتیں اُگل دے اور آسمان اپنی برکتیں نازل کرنے لگے۔

انبیا ؑ کی بعثت کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ خدا اور بندے کے تعلق کو توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد کی بنیادوں پر استوار کرائیں اور دعوتِ دین اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے تاریخ کی رو کو موڑ دیں اور الہامی ہدایت کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر کریں۔ سورئہ حدید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسول ؑ واضح نشانیاں دے کر بھیجے اور ان کے ساتھ قرآن (یعنی قانونِ حیات) اور میزانِ عدل اُتاری تاکہ انسانوں پر انصاف قائم کریں۔

سورئہ صف میں رب السمٰوات والارض کا ارشاد ہے:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ(الصف ۶۱:۹) وہی ہے (ذات باری تعالیٰ) جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام نظام ہاے زندگی پر غالب کردے۔

یہ ہے انبیا ؑ کا مشن اور یہی وجہ ہے کہ نبی کی جو حیثیت اس کی تمام حیثیتوں سے نمایاں اور ممتاز ہے وہ داعی الی الحق کی حیثیت ہے۔ اسلام کا اصل مقصد انسانی زندگی کو ایک خاص نہج پر چلانا ہے۔ اسلام کوئی پوجاپاٹ کا جامد نظام نہیں بلکہ ایک زندہ اور متحرک تحریکِ فکروعمل ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ہدایت الٰہی کا پابند بناتی ہے۔ اسلام ایک دعوت ہے جو انسانوں کو خدا کے دین کی طرف بلاتی اور ان کی زندگیوں کو نورِ الٰہی سے منور کرتی ہے۔ اسلام ایک مکمل دین، ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے تمام پہلوئوں پر حاوی ہے اور اس کی تمام وسعتوں پر حاکمیت ِ الٰہی قائم کرنے کا دعوے دار ہے۔ انبیا ؑ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جو اس دعوت کے داعی اور اس تحریک کے قائدین ہیں اور جن کی رہنمائی میں یہ اصلاحی جدوجہد برپا ہوئی اور جس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔

قرآن پاک آپؐ کی بعثت کا مقصد اس چیز کو قرار دیتا ہے:

ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیـّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (الجمعہ ۶۲:۲) وہی تو ہے جس نے اَن پڑھوں میں انھی میں سے (یعنی حضرت محمدؐ کو) پیغمبر بناکر بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے، ان کا تزکیہ کرتے اور خدا کی کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور اس سے پہلے تو یہ صریح گمراہی میں تھے۔

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط (المائدہ ۵:۶۷) اے رسولؐ، جو حق تم پر تمھارے رب کی جانب سے اُتارا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔

فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ط وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج (شورٰی۴۲:۱۵) پس اسی راہ کی دعوت دو اور اس پر استقامت کے ساتھ جمے رہو جس طرح کہ تمھیں حکم دیا گیا ہے۔

ان آیاتِ ربانی سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی حیثیت داعی کی حیثیت ہے۔ آپ کا اصل مشن یہ تھا کہ خدا کی ہدایت لوگوں تک پہنچا دیں، انھیں خدا کی کتاب اور حکمت و دانش کی تعلیم دیں اور انھیں دعوت دیں کہ وہ دین کو اپنی پوری زندگی پر غالب کردیں۔ پھر جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہیں انھیں ایک تحریک اور ایک اُمت میں منظم کریں، ان کے اخلاق کا تزکیہ کریں، ان میں کردار کے جوہر پیدا کریں اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے اپنی قیادت و رہنمائی میں وہ تہذیب و تمدن قائم کریں جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسلام فکرونظر اور علم و عمل میں ایک ہمہ گیر  انقلاب کا داعی ہے۔ وہ انسان کو غیراللہ کی ہرغلامی سے نجات دلا کر اس کی زندگی کو خدا کے لیے خالص کرنا چاہتا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ زندگی کے ہرشعبے پر، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، سماجی ہو یا سیاسی، معاشی ہو یا معاشرتی، قومی ہو یا بین الاقوامی، خدا کی حاکمیت قائم کرو۔ ہراطاعت پر  خدا کی اطاعت اور ہرقانون پر خدا کا قانون مقدم ہے    ؎

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حاکمیت ِ الٰہی کی دعوت تھی اور آپؐ  کی سیرتِ پاک کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ آپؐ نے دعوتِ اسلامی کے کام کو باقی تمام کاموں پر مقدم رکھا اور ہر دور اور ہرحالت میں اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف رہے۔ آپؐ  اوّل بھی داعی تھے اور آخر بھی داعی__ اور صرف داعی الی اللہ!

آیئے! آپؐ  کی دعوتی زندگی کے چند اہم پہلوئوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو آپؐ کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں ادا کرنے کی کوشش کرسکیں۔ اس لیے کہ داعی الی الحق کی جو ذمہ داری آپؐ  کے مبارک شانوں پر تھی، اب وہ پوری اُمت مسلمہ کے کندھوں پر ہے:

لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج (الحج ۲۲:۷۸) تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔

یعنی جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی شہادت اور گواہی دی اب اسی طرح پوری اُمت کو تمام انسانیت کے سامنے اس حق کی شہادت دینی ہے۔

۱- آپؐ  کی دعوتی زندگی کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ جو تعلیم آپؐ  نے دنیا کو دی اس پر سب سے پہلے ایمان لانے والے آپؐ  خود تھے۔

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط (البقرہ ۲:۲۸۵) رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسولؐ کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔

آپؐ اس ہدایت پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور اپنی زندگی کو سب سے پہلے اس کے تابع کرنے والے تھے۔ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ’’میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں‘‘۔ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ’’میں سب سے پہلا مسلم ہوں‘‘۔

جو دعوت آپؐ نے دی آپؐ کی پوری زندگی اس کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ بقول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، آپؐ کی زندگی سراپا قرآن تھی۔ دنیا میں بے شمار مُصلح اور فلسفی آئے جو گفتار کے غازی تو ضرورتھے مگر کردار کے غازی نہ تھے۔ جو تعلیم انھوں نے دی وہ خود اس پر عامل نہ تھے مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپؐ  نے اپنی دعوت کے ہرپہلو پر خود عمل کرکے دکھا دیا اور انسانیت کے لیے بہترین نمونہ پیش فرمایا، تاکہ لوگ صرف آپؐ  کے ارشادات ہی سے ہدایت حاصل نہ کریں بلکہ آپؐ  کے افعال و اعمال کی بھی پیروی کریں اور زندگی کا کوئی گوشہ اور قلب و دماغ کا کوئی حصہ بھی ایسا باقی نہ رہے جس پر آپؐ کے سیرت و کردار کی گہری چھاپ موجود نہ ہو۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ  (الاحزاب ۳۳:۲۱)’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔

۲- دوسری بنیادی چیز یہ ہے کہ آپؐ نے جزوی اصلاح کے مقابلے میں کلّی انقلاب کی جدوجہد کی۔ آپؐ  کا مقصد چند جزئیات میں تبدیلی پیدا کرنا نہ تھا بلکہ پوری زندگی کو ہدایت ِ الٰہی کے مطابق استوار کرنا تھا۔ آپؐ  نے لوگوں کے خیالات اور نظریات کی اصلاح کی اور انھیں ایک ایمان دار جوشِ زندگی بخشا۔ آپؐ  نے ان کے اخلاق و کردار کو سنوارا اور ایک نیا انسان پیدا کیا۔ آپؐ  نے تمدن و معاشرت کی اصلاح فرمائی اور ایک نئی سوسائٹی کی تعمیر کی۔ آپؐ  نے طاغوت کو زندگی کے ہرمیدان میں شکست فاش دی اور پھر وہاں حاکمیت ِ الٰہی کے تخت بچھائے۔ یہ ایک ہمہ گیر انقلاب تھا اور انسانی تاریخ کا وہ واحد انقلاب ہے جس نے انسانیت کی پوری زندگی کی اصلاح و تعمیر کی۔

پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حضور سرور کائنات کو دین کی فتح و کامرانی اور اس کی سربلندی پر ہمیشہ گہرا اور غیرمتزلزل یقین رہا۔ عین اُن پُرآشوب حالات میں جب مسلمانوں کی کشتی مخالفتوں کے طوفانوں میں گِھری ہوئی تھی اور دُور دُور ساحل کا کہیں نام و نشان نہ ملتا تھا اور روشنی کی کوئی رمق موجود نہ تھی، آپؐ اُس وقت بھی قطعاً مایوس نہ ہوئے۔

مکّی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ مسلمان قریش کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ہرمسلمان کی جان خطرے میں تھی۔ صبح ہوتی تھی شام کا بھروسا نہ تھا اور شام ہوتی تھی تو صبح کا اعتبار نہ تھا۔ بظاہر اسلام کا کوئی مستقبل نظر نہ آرہا تھا اور جو دن گزرتا تھا غنیمت معلوم ہوتا تھا۔ ایسی حالت میں ایک مظلوم مسلمان حضرت خبابؓ آپؐ  کے پاس آئے۔ آپؐ  بیت اللہ کے سامنے بیٹھے تھے۔ حضرت خبابؓ نے کہا: یارسولؐ اللہ! اب تو پانی سر سے گزرا جارہا ہے،آپؐ  ہمارے لیے دعا کیجیے۔ آنحضرتؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آپؐ  نے فرمایا: بس خبابؓ! گھبرا گئے؟ پہلی اُمتوں میں تو یہ ہوا کہ مومن کو گڑھا کھود کر گاڑدیا گیا اور سر پر آرا چلایا گیا یہاں تک کہ اس کے بدن کے دو ٹکڑے ہوکر گرگئے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کا گوشت ہڈیوں سے جدا کیا گیا مگر اُس کے پاے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔ خدا کی قسم! اللہ اپنے دین کو مکمل کرے گا یہاں تک کہ (اس دین کی عمومیت اور غلبے) کا یہ حال ہوگا کہ سوار صنعاء سے حضرموت تک سیکڑوں میل کی مسافت طے کرتا چلا جائے گا اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا کھٹکا نہ ہوگا سواے اس کے کہ اس کو بھیڑیئے سے خطرہ ہو کہ وہ اس کی بکریوں پر حملہ کرے۔ لیکن تم جلدی بہت کرتے ہو۔

یہ واقعہ کئی حیثیت سے بڑا اہم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی کو اپنی دعوت پر کتنا اعتماد ہے کہ بڑی سے بڑی مشکل اور آزمایش کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی عمومیت اور غلبے کا مقصد اپنے تمام تضمنات کے ساتھ اس کے سامنے اس وقت بھی تھا جب غلبہ و حکمرانی بظاہر ناممکن نظر آتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی استقامت کے اس مقام پر ہوتا ہے جہاں سے کوئی چیز اس کے ارادے کو متزلزل نہیں کرسکتی۔

۳- تیسری چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ آپؐ   نے بعثت سے لے کر اپنی آخری سانس تک دین کی دعوت کو پھیلانے کی کوشش اس انہماک اور تندہی سے کی کہ اس کی نظیر تاریخِ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپؐ  کا ہرلمحہ اسی فکر میں بسر ہوتا تھا کہ کس طرح خدا کا پیغام خدا کے بندوں تک پہنچائیں اور ان کو جہنم کی آگ اور دنیا کے خسران سے بچائیں۔

یہ فکر آپؐ  کو اس درجہ دامن گیر رہتی تھی کہ ایک مرتبہ آپؐ  دن بھر کی تبلیغی جدوجہد اور دشمنوں کی اذیت رسانی سے چُور ہوکر رات کو تھکے ہارے گھر واپس آئے۔ بدن بخار سے تپ رہا تھا اور آپؐ  چند منٹ کے لیے لیٹ گئے۔ اتنے میں اطلاع ملی کہ مکہ سے چند میل پر ایک پہاڑی کے نیچے ایک قافلہ آکر رُکا ہے۔ یہ سنتے ہی آپؐ  فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے تاکہ ان تک خدا کا پیغام پہنچائیں۔ لوگوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ  بہت تھکے ہوئے ہیں۔ قافلے والوں سے کل صبح مل لیں۔ آپؐ  نے فرمایا: کیا معلوم صبح تک مجھے موت آجائے یا وہ قافلہ راتوں رات کہیں اور چلاجائے اور اس صورت میں میرا فرض نامکمل رہ جائے___ دیکھیے دعوتِ اسلامی کے کام کو حضوؐر کتنی اہمیت دیتے ہیں اور فرض کی بجاآوری کو کیا مقام آپؐ  نے دیا۔ فرض شناسی کی یہ مثال ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔

۴- پھر آپؐ  کی دعوتی زندگی کا یہ بھی ایک نمایاں پہلو ہے کہ آپؐ  نے ہرمرحلے اور ہردور کے حالات کے مطابق دعوتِ دین کی راہیں نکالیں اور ہرزمانے میں نہایت حکمت و دانش مندی کے ساتھ کلمۂ حق کا اظہار کیا اور بالآخر دینِ حق کو قائم کیا۔ بعثت کے فوراً بعد خاموشی کے ساتھ آپؐ  نے اپنی دعوت کا آغاز کردیا اور قریبی حلقوں میں دین کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ بعثت کے تیسرے سال جب دعوتِ عام کی اجازت ملی تو آپؐ  نے تمام قریش کو فاران پر جمع کیا اور اسلام کی دعوت ان تک پہنچائی۔ پھر معززین قبیلہ کو خصوصی دعوت دی اور کھانے پر بلاکر ان کو خدا کے کلام سے آگاہ کیا۔ آپؐ  ایک ایک قبیلے، ایک ایک خاندان، ایک ایک گروہ اور ایک ایک فرد تک پہنچے اور ان کو اسلام سے روشناس کرایا۔ نجی گفتگوئیں، مکالمات و مذاکرات، تقریرو وعظ، الغرض ہرممکن طریق سے اسلامی تعلیمات اُن کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی۔ جب تک دعوت کی راہیں کھلی رہیں آپؐ  برابر حق کی طرف برملا بلاتے رہے اور جب کھلے بندوں تبلیغ کا امکان نہ رہا تو خاموشی سے نجی ملاقاتوں کے ذریعے اپنے مشن کی تبلیغ کرتے رہے۔ جب آپؐ  کو شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا تو آپؐ  خاموشی کے ساتھ جن جن مقامات پر جاسکتے تھے، اس زمانے میں بھی ان مقامات پر دعوت پہنچانے سے آپؐ نہ رُکے۔ پھر جب مکہ میں دعوت کے مزید پھیلانے کا امکان نہ رہا تو آپؐ  نے مکہ سے باہر جاکر دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیا۔ میلوں اور جلسوں کے موقع پر باہر کے قبائل سے ملے، طائف کا سفر کیا اور دوسرے بیرونی قبائل کو اپنی دعوت کی طرف بلایا حتیٰ کہ بیرونی قبائل میں اس کوشش ہی کے نتیجے میں اسلامی دعوت کا نیا مرکز مل گیا، اور اہلِ مکہ کی سختی اور ان کا تشدد ذریعہ بنے دین حق کے نئے مرکز___ مدینۃ الرسولؐ ___کے قیام اور اس کے ذریعے بالآخر دعوتِ اسلامی کے غلبے کا!

پھر مدینہ میں جب اسلام کو قوت و اقتدار حاصل ہوگیا تو آپؐ  نے ریاست کی تمام طاقتیں دعوتِ اسلامی کے فروغ کے لیے وقف کردیں۔ ایک طرف مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی اور دوسری طرف اس ریاست کے ذریعے تمام عرب اور بالآخر پوری دنیا کو اسلام کی دعوت دی۔

۵- پھر آپؐ  کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوتِ اسلامی کا لازمی تقاضا ہے کہ ہرکونے اور جہت سے اس کی مخالفت کی جائے اور مخالفت کی نت نئی صورتیں نکالی جائیں۔ آپؐ  کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں۔ آپؐ  کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپؐ  کو سبّ و شتم کا نشانہ بنایا گیا۔ آپؐ  کے گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا گیا۔ عین حالت ِسجدہ میں آپؐ  کی پیٹھ پر اُونٹ کی اوجھڑی تک رکھ دی گئی۔آپؐ  کے ساتھیوں کو آگ پر لٹایا گیا، ریت پر گھسیٹا گیا، پتھر کی سلوں کے نیچے دبایا گیا، اتنا مارا گیا کہ وہ شہید ہوگئے__لیکن ہرحال میں آپؐ  ثابت قدم رہے، آپؐ  نے دعوتِ اسلامی کا کام جاری رکھا اور راہ کی کوئی مشکل اور مصیبتوں کا کوئی طوفان آپؐ  کی پیش قدمی کو نہ روک سکا۔ اسی طرح کوئی لالچ اور کوئی ترغیب خواہ وہ دولت کی ہو یا سرداری کی یا بادشاہت کی، آپؐ  کو اپنے مشن سے ہٹا نہ سکی اور ہرحالت میں آپؐ  نے کہا تو یہی کہا:

خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ کر کہیں کہ مہروماہ کے عوض مَیں تبلیغ دین کا کام ترک کردوں تو مجھے منظور نہیں۔ اگر اس راہ میں مجھے ہلاکت نظر آئے تب بھی مَیں پیچھے نہ لوٹوں گا__ حتیٰ کہ یہ مشن کامیاب ہو یا مَیں اس میں کام آجائوں…

یہ تھا داعی کا عزم! اور سچ ہے کہ داعی اگر اپنے مشن میں سچا اور اپنی دھن کا پکا ہو تو انھی مشکلات سے کامیابی کی راہیں پھوٹیں گی اور دینِ حق فاتح و کامران ہوگا۔ جس طرح کلی کی موت ہی کے بعد پھول خندہ زن ہوسکتا ہے، اور جس طرح آگ کے جلے بغیر روشنی اور حرارت ممکن نہیں___ اسی طرح آزمایش اور ابتلا کے بغیر دعوتِ حق کی کامیابی کا امکان نہیں۔ فتح مکہ کی منزل  شعب ابی طالب کی گرفتاری، طائف کی ہزیمت اور بدر و اُحد کی خوں پاشی کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے اور یہی فطرت کا قانون ہے۔

وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلً ا o (الاحزاب ۳۳:۶۲) اور تم خدا کے طریقے میں تبدیلی نہ پائو گے۔                        (ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۲ء)

ڈرون حملے پہلے دن سے غلط اور پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کے لیے ایک چیلنج تھے، جنھیں کسی بھی شکل میں اور کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جانا چاہیے تھا اور نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے سابقہ حکومتوں نے اس بارے میں مجرمانہ غفلت اور شاطرانہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور ملک و ملت کی آزادی اور عزت دونوں کو بُری طرح پامال کیا۔ توقع تھی کہ ۱۱مئی۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت ماضی کی روش کو یکسر تبدیل کرے گی اور عوام سے جس بنیاد پر اس نے مینڈیٹ حاصل کیا ہے، اس کی روشنی میں ایک خودمختار اور آزاد ریاست کے مفادات کے مطابق خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے نکلنے کا راستہ اختیار کرے گی۔ لیکن ان چھے مہینوں میں مرکزی حکومت نے ویسے تو ہرمیدان میں قوم کو مایوس کیا ہے، تاہم جس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ ناکام رہی ہے، وہ امریکا سے تعلقات کو ازسرِنو مرتب کرنا اور دہشت گردی کی امریکی جنگ سے نکلنے کے لیے قومی جذبات اور سیاسی اتفاق راے کے مطابق مؤثر اقدام ہے۔

امریکا نے اپنی جارحانہ پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھا ہے، بلکہ ان کو ایک نئی جہت دینے کی کوشش کی ہے۔ جس کے نتیجے میں مذاکرات کے سیاسی عمل کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کو وہ مسدود کر رہا ہے اور پاکستان کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کا کھیل کھیل رہا ہے۔

یکم نومبر۲۰۱۳ء کو فاٹا میں میران شاہ کے مقام پر ڈرون حملہ مذاکراتی عمل کو اس کے آغاز سے پہلے ہی تباہ کرنے کی کھلی کھلی کوشش ہے، اور پھر ۲۰نومبر کو خیبرپختون خوا کے آباد علاقے ہنگو میں ایک دینی تعلیمی ادارے پر حملہ اس جنگ کو وسعت دینے کی ایک ناپاک اور شرانگیز جسارت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو حالات میں جوہری تبدیلی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ قوم کے لیے اپنی آزادی، خودمختاری اور عزت کی حفاظت کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ اپنی آزادی، مفادات اور عزت کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور پالیسی تبدیل کرنے کے لیے حکومت پر مؤثر سیاسی دبائو ڈالے۔

امریکی اور ناٹو افواج کے لیے پاکستان کی سرزمین کے راستے رسد جانے کو روکنا خود مطلوب نہیں بلکہ اصل ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک مؤثر، پُرامن اور قابلِ عمل ذریعہ ہے، تاکہ نہ صرف یہ کہ ہماری ملکی سرحدات کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر مؤثراقدامات کیے جاسکیں، بلکہ امریکا کی اس جنگ سے ہم نکل سکیں اور توجہ کا مرکز ، مسائل کا سیاسی حل بن سکے۔ اس کے نتیجے میں راہ کی تمام رکاوٹوں کو دُور کیا جاسکے گا اور ملک میں امن و امان کی وہ کیفیت پیدا کی جاسکے گی، جس میں عوام سُکھ کا سانس لے سکیں، معیشت رُوبہ ترقی ہوسکے اور ۱۲سال سے جس آگ میں ملک جل رہا ہے اس سے نجات پائی جاسکے۔

اصل ہدف امریکی جنگ سے نکلنا، اس جنگ کو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پورے علاقے میں ختم کرنے کی راہ ہموار کرنا، ڈرون حملوں کو فوری طور پر بند کروانا اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ یہ تمام اُمور اس طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں کہ ان سے الگ الگ پنجہ آزما نہیں ہوا جاسکتا۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور قوم میں بھی اس مصلحت کے بارے میں مناسب اور مؤثرانداز میں تفہیم کا اہتمام کرنا چاہیے کہ سپلائی لائن کو روکنے کی کوشش ایک ذریعہ ہے، تاکہ ایک طرف عوام کو متحرک کیا جاسکے، تو دوسری طرف مرکزی حکومت اور عالمی راے عامہ کو ڈرون حملوں کو رُکوانے، دہشت گردی کے خلاف اس ۱۲سالہ جنگ کی ناکامی کو الم نشرح کرنے، اور مسئلے کے حل کے لیے متبادل حکمت عملی پر فی الفور اور سرگرمی سے کوشش کو ممکن بنایا جائے۔

ڈرون حملے خود اپنی جگہ ایک ظلم، ایک جرم اور تباہی کا سبب ہیں اور اس کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنیادی حکمت عملی کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ بظاہر امریکا کو یہ ایک آسان راستہ نظر آیا ہے کہ اپنی فوجوں کو جانی نقصان سے بچانے کے لیے جدید ٹکنالوجی کے ذریعے انسانوں کا قتل عام کرے اور سمجھے کہ اس طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس ظلم کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بلانام کے ایک دہشت گرد کی ہلاکت کے نتیجے میں دسیوں نئے دہشت گرد پیدا ہورہے ہیں، اور پوری پوری آبادیاں اپنے پیاروں سے محروم ہوکر غم و غصے اور ہیجان میں مبتلا ہی نہیں ہورہیں بلکہ نفرت اور انتقام کی آگ میں بھی جل رہی ہیں۔ اس طرح یہ حملے بگاڑ اور خطرات میں اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

ایک امریکی دانش ور ڈیوڈ سوان سن نے کاؤنٹرپنچ کے ۲۶نومبر۲۰۱۳ء کے شمارے میں افغانستان میں امریکی فوجوں کو مزید روکے رکھنے کی پالیسی پر سخت تنقید کی ہے اور اس جنگ سے جو کچھ حاصل ہوا ہے، اسے ایک جملے میں بڑی خوب صورتی سے بیان کردیا ہے، یعنی:

ہم افغانستان کی جنگ پر ہر گھنٹے ۱۰ملین [یعنی ایک کروڑ] ڈالر خرچ کر رہے ہیں مگر ہمیں جو کچھ حاصل ہوا وہ یہ ہے کہ ملک میں ہم زیادہ غیرمحفوظ ہیں اور دنیا بھر میں ہم سے نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔

’دہشت گردی کے خاتمے‘ کے نام پر اس جنگ سے امریکا کے اعلان شدہ مقاصد یہ تھے کہ: امریکا کو ہم محفوظ بنارہے ہیں اور دنیا کے دل و دماغ جیتنے کی سعی کر رہے ہیں، مگر امریکی مقتدرہ کو ان دونوں مقاصد میں ناکامی ہوئی ہے۔ یہ تو اعلان شدہ مقاصد تھے۔ اصل مقاصد تو دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا تھا (global hegemony) اور اس کے دن بھی اب گنے جارہے ہیں۔

امریکا کو ویت نام اور عراق کی طرح افغانستان میں بھی ناکامی کا سامنا ہے اور اپنی آبرو بچانے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت اس جنگ کو ایک ناکام مہم جوئی قرار دے رہی ہے اور اس سے نجات کا مطالبہ کررہی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ماسوا، اسرائیل اور بھارت، امریکا کی مقبولیت کا گراف اتنا گرچکا ہے کہ ۵۰ سے ۹۰ فی صد لوگ اس سے متنفرہیں۔ پاکستان میں ۹۳فی صد اسے دوست نہیں سمجھتے اور اب تو خود افغانستان کے وہ عناصر جن پرامریکا کو تکیہ تھا، اس جنگ کی ناکامی اور امریکا سے نجات کی بات کر رہے ہیں۔

۲۳نومبر ۲۰۱۳ء کابل میں امریکا کے ساتھ دوطرفہ معاہدے کے بارے میں جولویہ جرگہ

منعقد ہوا ہے، اس میں حامد کرزئی کی تقریر کے دوران ایک خاتون شریکِ جرگہ نے بلندآواز سے کہا: ’’امریکی افواج نے بہت زیادہ افغان خون بہایا ہے، یہ اب رُکنا چاہیے‘‘، جس نے تمام شرکا کو ششدر کردیا اور عالمی میڈیا کو اس فطری ردعمل کا نوٹس لینا پڑا (الجزیرہ، انگلش، ۲۵ نومبر ۲۰۱۳ء)۔ حامدکرزئی اور امریکا میں اعتماد کا فقدان ہے جس کا اظہار کرزئی نے جرگہ سے اپنے خطاب میں ان الفاظ میں کیا:  ’’مجھے امریکا پر زیادہ اعتماد نہیں ہے۔ میں ان پر اعتبار نہیں کرتا، وہ مجھ پر اعتبار نہیں کرتے‘‘۔

اس موقع پر، جب کہ امریکی سفیر جیمز کوٹنگم بھی سامنے موجود تھا، حامدکرزئی نے جو کچھ کہا ہے وہ اہم ہے اور اس میں پاکستان کے ان دانش وروں اور خصوصیت سے لبرل لیفٹ لابیز کے بلندآہنگ سورمائوں کے لیے بڑا سبق ہے جو امریکا کی اس جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ افغان صدر نے کہا: ’’اگر ہم نے جنگ کا آغاز کیا ہوتا تو ہم ہی اسے ختم کرسکتے تھے۔ اگر ہم نے آغاز نہیں کیا تو ہم اسے ختم نہیں کرسکتے۔ اس جنگ کا آغاز ہمارے علاوہ کسی اور نے کیا‘‘۔

اسی طرح حامدکرزئی نے چند دن پہلے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے جنگ کی ناکامی کا کھلے الفاظ میں اعتراف کیا ہے جسے امریکا نے بڑی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ افغان صدر کا ارشاد ہے:’’سلامتی کے محاذ پر ناٹو کی تمام مشقیں بہت زیادہ تکالیف اور جانیں جانے کی وجہ بنی ہیں‘‘۔اور پھر نہایت مایوسی سے اعتراف کیا کہ: ’’اور کچھ حاصل نہیں ہوا، اس لیے کہ ملک محفوظ نہیں ہے‘‘۔

اس تباہ کن جنگ کا آغاز بھی امریکا نے کیا ہے اور اسے ختم بھی اسے ہی کرنا ہوگا۔ افغانستان اس کی اصل آماج گاہ ہے لیکن پاکستان کو بھی اس جنگ میں زبردستی شریک کرلیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنی اس جنگ کے اخراجات کے ایک حصے کا بل بھی امریکا ہی ادا کر رہا ہے جسے پاکستان کے باب میں کولیشن سپورٹ فنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان تاریخی حقائق اور اُجرت کی جزوی وصولی، جو کبھی کبھی حقارت آمیز تک ہوجاتی ہے، کے باوجود ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک حصہ اسے اپنی جنگ کے طور پر پیش کرنے لگا ہے اور اب تو انتہا یہ ہے کہ یہ لابی ڈرون حملوں پر ظاہری تشویش کا اظہار کرنے کے بعد ان کی افادیت، ضرورت اور ناگزیریت تک کی باتیں کررہی ہے، اور امریکا اور ناٹو افواج کے لیے رسد کو بھی اس لیے ضروری قرار دے رہی ہے کہ اس کا تعلق بین الاقوامی معاہدے سے ہے اور اس سے امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی میں مدد ملے گی۔

ضرورت ہے کہ ان تمام اُمور پر کھل کر بات کی جائے اور پاکستان کی آزادی اور سلامتی کی حفاظت اور اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے واضح پالیسی بنائی جائے، اور دنیا کی تمام سیاسی قوتوں سے صرف قومی مفاد اور وقار کے مطابق معاملہ کیا جائے۔ اس وقت ڈرون حملوں کو رُکوانا اور اس کے لیے بشمول سپلائی لائن کو بند کرنے کے مختلف leverages استعمال کرنا قوم و ملت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔ لیکن ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ ڈرون حملے امریکی جارحیت اور مداخلت کا صرف عنوان ہیں اصل ایشو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنا اور امریکا سے تعلقات کی خیالی نہیں بلکہ حقیقی بنیادوں پر تشکیل نو کرنا ہے۔ اس کے لیے ڈرون حملوں کا رُکنا اولین ضروری قدم ہے اور سپلائی لائن روکنے کی کوشش کا مقصد حکومت کی پالیسی اور کارروائی میں وہ تبدیلیاں لانا ہے جو اس مقصد کے حصول کو ممکن بناسکے۔ طالبان سے مذاکرات کا مقصد بھی دہشت گردی اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دونوں ختم کرانے اور ملک میں امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنے کی کوششوں کے باب میں حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم مذاکرات چاہتی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں نے اسی قومی طلب کو۹ستمبر کی ’کل جماعتی کانفرنس ‘ کی قرارداد کی شکل میں پیش کیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو امریکا نہیں چاہتا اور امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وہ ہراس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم ہے جو اس کے ایجنڈے کے مطابق نہیں۔

بنیادی حقائق

آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک بار اُن بنیادوں کو واضح طور پر بیان کردیا جائے جن کا اِدراک صحیح حکمت عملی کے بنانے کے لیے ضروری ہے:

۱- پاکستان اور افغانستان دینی، سیاسی، تہذیبی، قبائلی، خاندانی اور معاشی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ وہ صرف جغرافیائی طور پر ہی ہمسایہ نہیں۔ یہ رشتہ ہمہ جہتی اور تاریخی اعتبار سے صدیوں کے تعلق کی بنیاد پر استوار ہے اوراپنے بہت سے اختلافات کے باوجود ہر بُرے وقت میں یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے پشتی بان اور مددگار رہے ہیں۔ گذشتہ ۱۲برسوں میں اس رشتے میں جو دراڑیں پڑی ہیں وہ امریکا کی افغان جنگ کی وجہ سے ہیں۔ دونوں ممالک کی قیادت اور عوام کا فرض ہے کہ اپنی اپنی غلطیوں کا احساس اور اعتراف کرتے ہوئے دوستی، بھائی چارہ اور باہمی تعاون کے اصل رشتوں کو استوار کریں۔ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے مکمل گریز کریں اور سیاسی اُمور کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے طے کریں۔ ان ۱۲برسوں میں امریکا کا کردار بڑا منفی رہا ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کو بڑا عظیم نقصان ہوا ہے جس کی تلافی اب ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے لیے افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ضروری ہے۔ اگر امریکی افواج ۱۰ یا ۱۲ہزار کی تعداد میں مع نو فوجی اور ہوائی اڈوں کے وہاں رہتی ہیں تو نہ افغانستان میں یہ جنگ ختم ہوگی اور نہ پاکستان اس آگ کی لپٹوں سے بچ سکے گا۔

۲-افغانستان میں ضروری ہے کہ قومی مفاہمت کی بنیاد پر افغانستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتیں مل کر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر، اپنے معاملات کو طے کریں، اور ملک کو نہ صرف خانہ جنگی کے خطرات سے بچائیں بلکہ قومی تعمیرنو اور ترقی کے ایک نئے دور کے لیے سب مل کر سرگرمِ عمل ہوجائیں۔ اس سلسلے میں مُلّاعمر نے عیدالاضحی کے موقعے پر جو پیغام دیا ہے وہ بڑا اہم ہے کہ اس میں امریکی اور ناٹو افواج کے مکمل انخلا کے ساتھ تین اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی:

ا- افغانستان میں ایک ایسا سیاسی انتظام جس میں وہاں موجود تمام افغان قوتیں اور عناصر شریک ہوں، یعنی سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نقطۂ نظر۔

ب- تعلیم اور دوسرے اُمور کے بارے میں وسعت نظر کا عندیہ۔

ج- معصوم انسانوں کو ہلاکت کا ہدف بنانے سے مکمل احتراز۔

کچھ دوسرے بیان بھی اپنے اندر نئی اور کھلی سوچ کا پیغام رکھتے ہیں۔ یہ مثبت اشارے ہیں۔ پاکستان اور دوسرے حقیقی ہمسایہ ممالک خصوصیت سے ایران کی کوشش ہونی چاہیے کہ افغان مسئلے کا افغان حل نکالا جائے اور سب مل کر ملک کے استحکام کے لیے کوشش کریں۔ پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور وہ بیرونی عناصر خصوصیت سے امریکا اور بھارت کے کھیل کا حصہ نہ بنے۔ ہمیں افغانستان کے معاملات کو افغان بھائیوں پر مکمل طور پر چھوڑ دینا چاہیے تاکہ ایک طرف ہمارے مشترک مفادات کا حصول ہوسکے تو دوسری طرف دونوں کے اپنے اپنے مفادات کا احترام ہو۔ یہ تعلق سچائی اور شفافیت پر مبنی ہونا چاہیے، اسی میں خیر ہے۔

۳- پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ امریکا کی اس جنگ سے ایک متعین نظام الاوقات کے مطابق اپنے تعلق کو ختم کرے، اور اس جنگ میں شراکت اور امریکا سے معمول کے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات جو دو الگ الگ ایشوز ہیں، ان پر الگ الگ معاملہ کرے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے اور اس میں امریکا کے شریکِ کار نہ رہنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم امریکا سے ٹکرائو یا جنگ چاہتے ہیں، البتہ یہ ایک حقیقت ہے اور امریکا کے ۶۶سالہ تعلقات کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ امریکا سے ہماری اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ نہ کبھی تھی اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ اس لیے کہ زمینی حقائق اس کے لیے سازگار نہیں۔ جہاں تک عمومی دوستی کا تعلق ہے، جسے سفارت کاری کی اصطلاح میں transactional relationsکہا جاتا ہے وہ دونوں کے مفاد میں ہیں اور ماضی میں ہمارے حقیقی تعلقات اس سطح سے کبھی بھی بلند نہیں ہوسکے۔ اس لیے زمینی حقائق کی روشنی میں تعلقات کو معروف دوستی اور مشترک مفادات کے باب میں تعاون کی بنیاد پر ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک شفاف انداز میں اس جنگ سے ہم نکلیں اور اگر ہمیں نکلنے نہ دیا جائے تو پھر اپنے مفادات کی روشنی میں مناسب اقدام کریں۔

اس کے لیے حکومت کو کیا کرنا چاہیے وہ ہم ضروری وضاحت کے ساتھ قوم اور حکومت اور اس کے تمام اداروں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان اُمور پر کھل کر دلیل کے ساتھ بات ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کی مذموم کوشش سے مکمل احتراز کیا جائے، جو بدقسمتی سے اس وقت کی جارہی ہے اور اس کا خصوصی نشانہ جماعت اسلامی پاکستان اور تحریک انصاف ہیں۔ یہ روش نہایت نقصان دہ ہے۔ ہم دلیل سے بات کرنے کے لیے ہروقت تیار ہیں اور دلیل سے قائل کرنے اور قائل ہونے کو صحیح راستہ سمجھتے ہیں لیکن غیرمتعلقہ بحثوں کو اُٹھا کر ایک اصولی تحریک کو نشانہ بنانے کی کوشش نہ ماضی میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ آج ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نے مختلف اَدوار میں ایسے حملوں کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور یہی توقع ہم تحریکِ انصاف اور دوسری تعمیری قوتوں سے بھی رکھتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے بڑی سچی بات کہی تھی کہ برسرِاقتدار عناصر یہ نہ سمجھیں کہ اصولی جماعتوں کو دھونس، دھمکیوں اور غلط بیانیوں سے مغلوب کیا جاسکتا ہے، بلکہ ان کی حیثیت لوہے کے چنوں کی سی ہے جن کو چبانے کی کوشش کرنے والے کے دانت ٹوٹ تو سکتے ہیں مگر ان لوہے کے چنوں کو چبایا نہیں جاسکتا___ ان شاء اللہ۔

واضح رہے کہ عوام احتجاج اور دھرنوں پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ حکومت اور ذمہ دار افراد اور ادارے معروف سیاسی راستوں کو عملاً غیرمؤثر بنادیتے ہیں اور سیاسی معاملات کے سیاسی حل سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو ایسے معاملات میں بھی مداخلت کرنا پڑتی ہے جو بالعموم ان کے دائرے میں داخل نہیں، لیکن دستور میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کے محافظ کی حیثیت سے جب متعلقہ ادارے دادرسی میں ناکام رہتے ہیں تو پھر عدالتوں کو اقدام کرنا پڑتا ہے۔

ڈرون حملوں کی مخالفت کے اسباب

ڈرون حملوں کا مسئلہ کسی ایک علاقے یا کسی ایک جماعت اور گروہ کا مسئلہ نہیں۔ یہ پاکستان کی پوری قوم اور ملک کی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عزت و وقار کا مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور پاکستان کے دستور سے ہے جن کی ان کے ذریعے دھجیاںبکھیری جارہی ہیں۔   یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور عالمی انسانی قانون (International Humanitarian Law)سے اس کا قریبی تعلق ہے۔ یہ ملک میں دہشت گردی کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے اور پورے پورے علاقے کے امن و امان اور لاکھوں انسانوں کی زندگی کے سُکھ اور چین سے اس کا تعلق ہے۔ لیکن حکومت اس سلسلے میں  اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ ڈرون حملے امریکی استعمار کا ایک شرم ناک ہتھیار ہیں جسے انتقام اور شبہے کی بنیاد پر انسانوں کے قتل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے ایوانوں میں، یورپین پارلیمنٹ میں اور خود امریکا میں صرف دانش وروں اور قانون سے متعلق حلقوں ہی میں نہیں خود امریکی کانگرس کی کمیٹیوں کی سطح پر بھی اس پر تنقید ہورہی ہے لیکن ہماری حکومت کا رویہ ناقابلِ فہم ہی نہیں قابلِ مذمت ہے۔

ڈرون حملے کم از کم مندرجہ ذیل بنیادوں پر ناقابلِ برداشت ہیں:

۱- یہ پاکستان کی علاقائی حاکمیت اور خودمختاری پر حملہ ہیں۔ پاکستان کسی بین الاقوامی وارزون کا حصہ نہیں اور اس کی فضائی اور زمینی سرحدات کو جو بھی پامال کرے اور بے دردی سے پامال کرتا رہے      وہ ہمارے خلاف جنگی اقدام کا مرتکب ہورہا ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ دستور پاکستان کی سرزمین، اس کی سرحدات اور پاکستان کے شہریوں کے جان و مال اور عزت کی محافظت کی ضمانت دیتا ہے۔ امریکا اس کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور پاکستان اور اس کے ذمہ دار ادارے پاکستان کے دستور، اس کی سرحدات، اس کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

۲- امریکا کے یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون، اور خود امریکا کے دستور کی خلاف ورزی ہے۔ سلامتی کونسل نے امریکا کو پاکستان کی سرزمین پر کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا، حتیٰ کہ امریکی کانگرس میں بھی یہ سوال اُٹھا دیا گیا ہے کہ کانگرس تک سے خفیہ رکھ کر امریکی سی آئی اے اور انتظامیہ جو اقدام کر رہی ہے وہ امریکی دستور کے خلاف ہے۔

۳- عالمی طور پر مسلّمہ تصورِ انصاف اور قانونی پراسس کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس نے پورے criminal justice کے نظام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ ماوراے عدالت قتل اور ہدفی (targetted) قتل خواہ افراد کریں یا حکومتیں، جرم ہیں اور اگر ان کا ارتکاب بین الاقوامی سطح پر کیا جائے تو یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جیساکہ خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے Repporteur نے بار بار کہا ہے اور اکتوبر ۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں صاف اور سخت الفاظ میں اس کا اعادہ کیا ہے۔

۴-غیرمتحارب شہریوں بشمول خواتین، بچے اور بوڑھے انسانوں کا قتل، کسی عدالتی عمل کے بغیر، اگر بڑے پیمانے پر ہو تو نسل کشی شمار کیا جاتا ہے جو انسانیت کے خلاف ایک عظیم جرم ہے۔ امریکا کی اس جنگ میں ڈرون کے بے محابا استعمال سے ایک امریکی تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہلاک کیے جانے والوں میں متعین طور پر دہشت گردوں اور ان کے رہنمائوں کی تعداد بمشکل ۳فی صد ہے، جب کہ ۹۷ فی صد کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں کہ ان کا کوئی تعلق کسی بھی درجے میں کسی دہشت گرد گروپ سے تھا۔ امریکی حکومت نے اپنے ناجائزاقدام پر پردہ ڈالنے کے لیے متحارب کی ایک نئی تعریف وضع کی ہے، یعنی متحارب وہ نہیں جو عملاً کسی جنگ یا دہشت گردی میں ملوث ہو بلکہ اس علاقے میں جسے امریکا جنگ کا علاقہ سمجھتا ہے، ہر وہ مرد جو ۱۶ سے ۶۰سال کی عمر میں ہو دہشت گرد تصور کیا جائے گا۔ اس تعریف کو دنیا میں کسی نے قبول نہیں کیا اور نہ اسے قبول ہی کیا جاسکتا ہے کہ اگر اس کا دائرہ اس طرح وسیع کیا جائے تو پھر دنیا کا کوئی بھی مرد کسی نہ کسی کے ڈرون کا نشانہ بننے کا مستحق ٹھیرتا ہے۔

امریکا کے اپنے تحقیقی اداروں کی اب چھے سے زیادہ رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں اور جو مبنی ہیں ان ٹوٹی پھوٹی معلومات پر جو میسر ہیں، اور ان کا حاصل یہ ہے کہ ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والے تین سے چار ہزار افراد میں سے ۴۰۰ سے ۹۰۰ تک کو معلوم طور پر سویلین قرار دیا جارہا ہے اور ان میں عورتوں اور بچوں کی تعداد ۳۰۰ سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔

۵-پھر ایک اور انسانی پہلو یہ ہے کہ ڈرون صرف لوگوں کو متعین طور پر ہی نشانہ نہیں بناتے بلکہ پوری پوری آبادیوں پر گھنٹوں پرواز کرنے اور فضا کو اپنی مکروہ آواز سے پراگندا کرتے ہیں اور اس طرح ان علاقوں میں بسنے والے تمام لوگوں پر مسلسل خوف کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں، اور تمام آبادی میں خصوصیت سے بچوں اور عورتوں میں ذہنی امراض کا سبب بن رہے ہیں۔ اس طرح یہ ایک اور انداز میں نسل کشی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔

گویا عالمی قانون، ملک کا دستور، عالمی انسانی قانون، اور انسانی معاشرے کے بنیادی آداب، ہر پہلو سے ڈرون حملے ناجائزاور اس ملک اور اس کے باسیوں کے خلاف اقدامِ جنگ اور کھلے کھلے ظلم کا ارتکاب ہیں۔ ان کے لیے جواز فراہم کرنا ذہنی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی دلیل ہے۔

۶-یکم نومبر کو جو ڈرون حملہ ہوا ہے اس نے ایک نئے پہلو کا اضافہ کردیا ہے، یعنی امن کے مذاکرات اور سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذموم سعی۔

فوری اقدامات

ان چھے وجوہ سے پاکستانی قوم اور حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ ڈرون حملوں کے فی الفور بند کیے جانے کا مطالبہ کرے اور اس سلسلے میں کم از کم مندرجہ ذیل اقدام کرے:

۱-حکومت کی طرف سے ان حملوں کے ناجائز اور ناقابلِ قبول ہونے کا اسٹیٹ پالیسی کے طور پر برملا اعلان اور امریکا سے مطالبہ کہ انھیں فی الفور بند کیا جائے ورنہ حکومت اور قوم ان کا توڑ کرنے کے لیے ہرضروری اقدام کرے گی۔ امریکی حکومت کو واضح الٹی میٹم تاکہ اس باب میں کوئی عذر باقی نہ رہے۔ ماضی میں اگر کسی نے کوئی اشارہ دیا بھی ہے تو اس کی تنسیخ اور واضح قومی پالیسی کا اعلان، حالانکہ بین الاقوامی قانون کا یہ اصول بھی مسلّمہ ہے کہ انفرادی حیثیت سے کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری فرد کا کوئی قول ایسے معاملات میں جہاں معاملہ ملک کے دستور اور قانون، حکومت کے ضابطۂ کار اور بین الاقوامی قانون بشمول بین الاقوامی قانون بسلسلہ انسانی حقوق کا ہو،کبھی معتبر نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم صاحب کے واشنگٹن کے دورے کے موقعے پر امریکا کے اداروں نے پاکستان کے سیاسی اور عسکری ذمہ داروں کے ملوث ہونے کے بارے میں جو دستاویزات شائع کی ہیں ان کے قانونی طور پر ناقابلِ قبول ہونے کا اظہار اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی Ristof Heyne Report سے بھی کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈان میں ۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:

پاکستان کا واضح حوالہ دیتے ہوئے ہینز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے مطابق: فوجی یا خفیہ افسران کی اجازت امریکا کے کسی بیرونی ملک پر ڈرون حملے کرنے کا قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں۔

ہینز کی رپورٹ جس میں دنیا میں مسلح تنازعات میں ڈرون کے استعمال کی قانونی شرائط بیان کی گئی ہیں، کے مطابق: کسی ریاست کی اعلیٰ ترین سرکاری مقتدرہ ہی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ طاقت کے استعمال کی اجازت دے۔ یہ کافی نہیں ہے کہ علاقائی اتھارٹی یا کچھ خاص ایجنسیوں سے یا حکومت کے شعبوں سے کوئی تائید حاصل کرلی جائے۔

ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن اب حکومت کو صاف الفاظ میں ڈرون حملوں کے بند کیے جانے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور پھر امریکا کو عالمی عدالت اور اقوام متحدہ کے کٹہرے میں لانے کے لیے مؤثر اقدام کرنے چاہییں۔ رپورٹ میں اس سلسلے میں بھی واضح رہنمائی موجود ہے:

’’طاقت استعمال کرنے کی اجازت جس لمحے واپس لی جائے تو جو ریاست ڈرون حملے کر رہی ہے بین الاقوامی قانون اس کو پابند کرتا ہے کہ وہ اس لمحے کے بعد مزید کسی حملے سے احتراز کرے‘‘۔ رپورٹ مزید کہتی ہے: ’’ریاستیں اپنی مملکت میں بین الاقوامی حقوق، انسانی قانون اور انسان دوست قانون کی کسی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتی‘‘۔

۲-دوسرا اہم اقدام یہ ہے کہ اگر امریکا ڈرون حملے نہیں روکتا تو سرکاری طور پر سپلائی لائن فی الفور بند کردینی چاہیے اور اس سلسلے میں جو بھی معاہدہ ہوا ہے، جو خود ظلم اور جبر پر مبنی ہے اسے ختم کیا جائے۔ واضح رہے کہ وسط ایشیا سے لے جانے والی سپلائز پرامریکا ۱۷ہزار۵سوڈالر فی ٹرک خرچ کر رہا ہے، جب کہ پاکستان کو صرف ۲۵۰ڈالر فی ٹرک دیا جاتا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس سے کم از کم پانچ گنا زیادہ ’بھتہ‘ ہر ٹرک پر خود طالبان کو دیا جاتا ہے۔ ٹرکوں کی اس آمدورفت سے پاکستان کی سڑکوں اور انفراسٹرکچر کو جو نقصان گذشتہ ۱۲سال سے ہوا ہے اس کے بارے میں محتاط ترین سرکاری اندازہ یہ ہے کہ ہمیں ۱۰۰ بلین روپے سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس راہ داری کی وجہ سے اگر ایک طرف کرپشن کا طوفان آیا ہے تو دوسری طرف اسمگلنگ اور خود اسلحے کی اسمگلنگ کا بازار گرم ہوا ہے اور ۱۹ہزار ٹرکوں کے غائب ہوجانے کا معمہ تو آج تک سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر ہم یہ پابندی لگائیں تو اس سے دوسرے ممالک سے ہمارے تعلقات خراب ہوں گے، حالانکہ یہ ایک بے معنی واہمہ ہے۔ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معاہدہ کرنے اور ختم کرنے کا ہمیں اختیار ہے اور دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں، tariff کے ہتھیار کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اب معروف طریقے ہیں اور ان سے کوئی قیامت برپا نہیں ہوتی۔

اسی طرح اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ اس وقت پابندی سے امریکی افواج کے انخلا پر اس کا اثر پڑے گا۔ ابھی تو سپلائز افغانستان جارہی ہیں، اصل واپسی تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی، نیز واپسی کا انتظام ہماری نہیں امریکا کی ذمہ داری اور ضرورت ہے۔ اگر وہ ہماری شرائط پر ہماری سہولتیں استعمال نہیں کرنا چاہتا تو شوق سے جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ ہمیں اس کے لیے پریشان ہونے کیا ضرورت ہے۔ ڈرون کا معاملہ ہو یا راہ داری کا معاملہ، ہمارے لیے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اصل پیمانہ ہماری اپنی آزادی اور حاکمیت اور قومی مفادات کا ہے، اور اگر ہم اپنے قومی مفادات کو دوسروں کے تابع کردیتے ہیں تو یہ آزادی کا نہیں غلامی کا راستہ ہے۔ ہم ہی نہیں دوسرے بھی اس کا احساس رکھتے ہیں۔ مثلاً خود بارک اوباما کے ایک سابق مشیر مائیکل بوے لی (Michael Boyle) اپنے ایک حالیہ مضمون میں اعتراف کرتا ہے کہ :

پاکستانی علاقے میں ڈرون حملے حکومت امریکا کے سامنے جرنیلوں کی بے بسی اور تابع داری کی نہایت طاقت ور علامت ہیں۔(بحوالہ الجزیرہ، انگلش، ۱۱نومبر ۲۰۱۳ء)

اب یہ فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم آزادی کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا غلامی اور بے چارگی کا!

۳- تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ ملک میں امریکا کے جاسوسی نظام پر کاری ضرب لگائی جائے۔ امریکی سفارت خانوں اور سفارت کاروں کو ان کی سفارتی حدود میں پابند کیا جائے اور ملکی اور غیرملکی مخبروں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ڈرون حملے اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ امریکا کا مؤثر جاسوسی نظام ملک کے اندر موجود ہو اور اسے معلومات اندر سے فراہم کی جارہی ہوں۔ اس سلسلے میں فوری اقدام ضروری ہے۔ واضح رہے کہ اسنوڈن نے جو سرکاری دستاویزات شائع ہونے کے لیے فراہم کی ہیں اور ان میں سے جو دی گارڈین اور نیویارک ٹائمز میں شائع ہوگئی ہیں، ان کی رُو سے سی آئی اے نگرانی پر جو ۶۰۰ملین ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے اس میں پاکستان کا حصہ تقریباً ۵۰ فی صد ہے۔ یہ ایک ہولناک صورت حال ہے اور اس سلسلے میں حکومت اور ہماری اپنی خفیہ ایجنسیوں کی خاموشی اور مداہنت تشویش ناک ہے۔ یہ پالیسی فوراً تبدیل ہونی چاہیے۔

۴-عالمی سطح پر اس مسئلے کو پوری تیاری کے ساتھ اُٹھایا جائے۔ آج عالمی فضا بدل رہی ہے۔ جگہ کی قلت کے باعث ہم اس کی تفصیل نہیں دے سکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ۱۲برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کے انسانی حقوق کے معروف ادارے اس مسئلے کو اُٹھا رہے ہیں اور اس کی بازگشت امریکا، برطانیہ اور جرمنی کی پارلیمنٹ تک میں سنی جاسکتی ہے۔ ہماری سفارت کاری بڑی کمزور ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک مؤثر اور جارحانہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہانہ انداز میں گزارشیں پیش کرنے کا طریقہ ترک کرنا ہوگا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔ دنیا ہماری بات سننے پر مجبور ہوگی اور ہمیں اعوان و انصار ہرجگہ سے مل جائیں گے۔ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جو رپورٹ Will I be Next? US Drone Strikes in Pakistan کے نام سے شائع ہوئی ہے، اس نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ اسی طرح ڈرون کی تباہ کاریوں اور انسان کشی کے بارے میں جو ڈاکومنٹری ’جمائما فائونڈیشن‘ نے جاری کی ہے اس نے عالمی میڈیا کے یک رُخے پروپیگنڈے کا توڑ کیا ہے۔

ضرورت ہے کہ سفارتی محاذ، سیاسی پلیٹ فارم، میڈیا اور سوشل میڈیا، ہرجگہ اس سلسلے میں مؤثر کارروائی کی جائے۔ اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور راے عامہ تبدیل ہوگی۔ ضرورت یکسوئی کے ساتھ منظم انداز میں بڑے پیمانے پر جدوجہد ہے___ کیا ہماری حکومت اس کے لیے تیار ہے؟

واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے ایک واضح فیصلے میں ڈرون حملوں کو پاکستان کی آزادی اور علاقائی سالمیت پر حملہ اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان کو روکنے کے لیے سیاسی، سفارتی کارروائی کرے اور ان کے غیرمؤثر ہونے کی صورت میں سپلائی لائن کو بند کرنے اور ڈرون حملوں کو عسکری قوت سے روکنے کا اقدام کرے۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جس کے معنی یہ ہیں کہ اب اس کی دستوری ذمہ داری ہے کہ ڈرون کو رُکوانے کے لیے مؤثر اقدام کرے۔

نئی سلامتی پالیسی کے خطوط

صوبہ خیبرپختونخوا اور ملک کے دوسرے مقامات پر جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف ناٹو کی سپلائی لائن روکنے کے لیے جو جمہوری اور قانونی جدوجہد کر رہی ہیں وہ اس لیے ہے کہ قوم بیدار ہو اور مرکزی حکومت پر دبائو ڈالے کہ وہ ڈرون حملے بند کرانے کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرے اور ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی پالیسی ترک کرے۔ نیز یہ بھی دراصل امریکا سے اپنے تعلقات کی تشکیل نو کے لیے ایک قدم ہے۔ ساتھ ساتھ امریکا سے جن خطوط کے اندر تعلقات استوار ہونے چاہییں ان کو قومی مشاورت کے ساتھ مرتب کیا جائے، اوردو آزاد ممالک کے درمیان باوقار دوستی اور تعاونِ باہمی کا جو رشتہ ہونا چاہیے اس کے قیام کے لیے نئی پالیسی مرتب کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ محکومی کی پالیسی کو ختم ہونا چاہیے۔ دسیوں چھوٹے ممالک ایسے ہیں جنھوں نے سوپرپاورز کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ باہمی اور مشترک مفادات کے حصول کے لیے پالیسیاں ترتیب دی ہیں اور دھونس اور دبائو کے ہر حربے کو غیرمؤثر بنادیا ہے۔ کیوبا اور ایران اس کی اہم مثالیں ہیں۔ جنوبی امریکا کے متعدد ممالک نے اپنی آزادی، عزت اور مفادات کی روشنی میں کامیاب خارجہ پالیسیاں بنائی ہیں اور امریکا کو بھی ان کا پاس کرنا پڑا ہے۔

نیوکلیرپاورکے سلسلے میں امریکا اور ایران کا حالیہ معاہدہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔ شام پر فوج کشی کے امریکی اقدام کو لگام دینے کے سلسلے میں برطانیہ اور امریکا کی پارلیمنٹ نے جو کردار ادا کیا اور امریکا اور یورپی ممالک کو کس طرح اپنی پالیسی کی تشکیل نو کرنا پڑی، وہ سب حالیہ واقعات ہیں۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ عراق اور افغانستان کی جنگ نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اب سوپرپاور کی پاور غیرمحدود نہیں اور وہ ملک جسے کل تک ناگزیر ریاست کہا جارہا تھا، اب اس کے اپنے دانش ور برملا کہہ رہے ہیںکہ وہ اب   غیرضروری  (dispensible)ریاست ہے۔ ولی نصر کی تازہ کتاب اس کی مثال ہے۔

اس لیے ہمیں بھی کھلے ذہن کے ساتھ تمام معاملات کا جائزہ لے کر پوری حکمت اور حقیقت پسندی کے ساتھ، لیکن کسی بھی قسم کی مرعوبیت اور مجبوری کی سطح سے بلند ہوکر، اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے باربار آزاد خارجہ پالیسی، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے اور مسئلے کے سیاسی حل اور مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت کے فریم ورک میں نئی پالیسی کی ضرورت کا مکمل اتفاق راے سے اظہارکیا ہے، مگر حکومتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب وقت آگیا ہے پالیسیاں قوم اور ملک کے مفاد میں اور عوام کی مرضی اور اُمنگوں کے مطابق بنائی جائیں اور عوام کے ساتھ دھوکے اور دوغلے پن کی روش کو یکسر ترک کردیا جائے۔ حکومت کو جس پالیسی پر پورے اعتماد اور تیاری کے ساتھ اور پوری قوم اور اس کی قیادت کو ساتھ لے کر عمل پیرا ہونا چاہیے اس کے چند اہم پہلو یہ ہیں:

۱- خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ہمہ جہتی پالیسی کو تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی مشاورت سے مرتب کیا جائے، اور ملک اور علاقے کی روایات کی روشنی میں نہ صرف اسے مرتب کیا جائے بلکہ ان کی تنفیذ کے لیے بھی صحیح اور جامع حکمت عملی بنائی جائے۔

۲-حکومت قوم اور سیاسی اور دینی قیادت سے حقائق چھپانے کی پالیسی ترک کرے اور شفافیت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے اعتماد کی فضا قائم کرے۔

۳- حکومت اور اس کے تمام اداروں اور ایجنسیوں کے درمیان مناسب ہم آہنگی ہونی چاہیے۔پالیسی سازی میں ہر ایک اپنا کردار ادا کرے لیکن پالیسی بننے کے بعد ہر ادارہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے حصے کی ذمہ داری کو ادا کرے اور ریاست میں ریاست کی کیفیت نہ پیدا ہو۔ اسی طرح پالیسی کو دوغلے پن کے بدنما سایے سے مکمل طور پر پاک ہونا چاہیے۔

۴- پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء ، پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کی اپریل ۲۰۰۹ء کی سفارشات، پارلیمنٹ کی ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قرارداد اور کُل جماعتی کانفرنس کی ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی قرارداد کو پالیسی کی بنیاد بنایا جائے اور اس سلسلے میں باہمی مشاورت سے ایک ہمہ گیر پالیسی تشکیل دی جائے جس پر سب سختی سے عمل پیرا ہوں۔ پالیسی کے نفاذ کی نگرانی کا مؤثر نظام ہو اور پارلیمنٹ میں اس بارے میں کارکردگی کو بار بار پیش کیا جائے تاکہ قوم کو اعتماد رہے۔

۵- اس وقت اصل ہدف ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ سے نکلنے، ملک میں ڈرون حملے رُکوانے اور بیرونی حکومتوں کی دراندازیوں اور خفیہ سرگرمیوں کو روکنے کو قرار دیا جائے۔ خودمعیشت کی بحالی کے لیے امن کا قیام ضروری ہے۔امریکا کو اپنی پالیسی کے بارے میں تفصیلی طور پر باخبر رکھا جائے۔ جہاں جہاں تعاون ممکن نہیں وہ لال خطوط سے بھی واضح کردیے جائیں۔ پھر ان کا پورا احترام کیا جائے۔ جہاں تک اندرونِ ملک مسئلے کے حل کا تعلق ہے اس سلسلے میں مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت کے سہ گانہ تقاضوں کو سامنے رکھ کرایک مربوط پالیسی اور پروگرام وضع کیا جائے۔

۶-حکومت کی پالیسیوں اور عوام کے جذبات، عزائم اور توقعات میں جو خلیج واقع ہوگئی ہے اسے دُور کیا جائے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

۷- جس طرح امریکا اور افغانستان کی حکومت اور وہاں کی دوسری قوتوں سے مذاکرات کیے جائیں، اسی طرح ملک میں بھی طالبان سے مذاکرات کے بارے میں پوری حقیقت پسندی کے ساتھ پالیسی بنائی جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا کے بارے میں اور دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے کے سلسلے میں ہماری پالیسی کے واضح ہوجانے اور اس پر عمل شروع ہونے سے پورا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوجائے گا اور طالبان کو بھی ہرقسم کی دہشت گردی سے اجتناب کرنے کے راستے پر لانا ممکن ہوگا۔ ریاست کی رٹ کا قیام ضروری ہے مگر وہ محض قوت سے قائم نہیں ہوسکتی۔ گو قوت کا استعمال بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ رٹ قائم ہوتی ہے قانونی استحقاق (legal legitimacy) اور اخلاقی قوت اور باہمی اعتماد سے، صرف ڈنڈے سے نہیں قائم ہوتی۔ ڈنڈے سے قبضہ (occupation) تو ہوسکتا ہے، حکمرانی نہیں۔ اور یہی ہمارا مسئلہ ہے۔ فاٹا کو ہم نے ۶۶برس تک ’علاقہ غیر‘ بنا رکھا ہے اور اس پر دستور تک نافذ نہیں جس کی دفعہ ۲۵۶ نے اسے دستور کی دسترس سے باہر رکھ دیا ہے اور باتیں کرتے ہیں حکومت کی رٹ کی۔ ایک تدریج سے، مقامی حالات اور روایات کی پاس داری کے ساتھ پہلے اس علاقے کو دستور کی دسترس میں لایئے، وہاں قانون کی حکمرانی اور حقوق کے احترام کا اہتمام کیجیے، تو پھر ان شاء اللہ رٹ بھی قائم ہوگی اور ناپسندیدہ افراد سے بھی نجات پائی جاسکے گی۔

۸- بلاشبہہ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ معیشت کی اصلاح اور استحکام اور ایک ایسی معاشی پالیسی کا اجرا ضروری ہے جو ملک کو خودانحصاری کے راستے پر گامزن کرسکے۔ سیاسی آزادی، حاکمیت اور قومی وقار کا حقیقی تحفظ اور اظہار اسی وقت ممکن ہے جب معاشی طور پر ملک میں خودانحصاری کی کیفیت ہو۔ بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کو بتدریج ختم کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے نئی اور مؤثر حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔ بیرونی تعلقات میں بنیادی بات جو امداد یا قرض یا سرمایہ کاری سے بھی کہیں زیادہ ہے، وہ شرائط ہیں جن پر یہ معاملات طے ہوتے ہیں۔ مشروط امداد جو بیرونی قوتوں کے ایجنڈے کا حصہ ہوں غلامی کی زنجیریں ہیں جن کو کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ رہا تجارت اور باہم رضامندی کی بنیاد پر معاشی اور مالی تعلقات تو وہ خودانحصاری سے متصادم نہیں۔ ان کو گڈمڈ کرنا صحت ِ فکر کے منافی ہے۔ پھر تاریخ بتاتی ہے کہ بیرونی امداد کی بنیاد پر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکی لیکن محنتی اور خوددار اقوام پابندیوں کے باوجود ترقی کرتی ہیں بلکہ ان حالات میں زیادہ اچھے انداز میں ترقی اور خودانحصاری کے اہداف کو حاصل کرسکی ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کی نئی پالیسی کے ایک اہم حصے کے طور پر معاشی پالیسی کی تشکیل نو بھی ضروری ہے۔ اس قوم میں بڑی صلاحیت ہے بشرطیکہ اسے صحیح مقاصد کے لیے صحیح طریقے سے منظم اور متحرک کیا جائے ۔

 ع   ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کی اسلامی اور جمہوری قوتیں دستور کے مطابق پاکستان کے سارے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہیں۔ کسی کو بھی اپنے نظریات قوت کے ذریعے دوسروں پر مسلط کرنے کا اختیار نہیں۔ لیکن موجودہ کیفیت سے نکلنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان سب کا اہتمام کرنا ہوگا۔ کوئی وجہ نہیں کہ سب کے لیے قانون کی بالادستی اور افہام و تفہیم اور جمہوری اور معروف ذرائع سے ملک کے معاملات طے کرنے کے مواقع کی فراہمی کے نظام کے قائم ہونے کے بعد کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے یا ماوراے قانون اقدام کرنے کا کوئی جواز باقی رہے گا۔ ایسی صورت میں جو بھی دستور اور قانون کی خلاف ورزی کرے، اس کے ساتھ قانون اور عدل کے نظام کے مطابق معاملہ کرنا ہی حق و ثواب کا راستہ ہوگا۔ لیکن اس کیفیت تک پہنچنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے، وہ کرنا ضروری ہیں اور یہی وقت کی اصل ضرورت ہے۔

 

۱۰محرم الحرام کو راولپنڈی میں جو الم ناک اور خون آشام واقعہ رُونما ہوا ہے، اس پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر زبان مصروفِ مذمت ہے۔ مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ، سب کا تقدس بے دردی اور بے شرمی سے پامال کیا گیا۔ کم از کم ۱۱؍افراد شہید ہوئے اور ۱۰۰ کے قریب زخمی، جب کہ  ۲۰۰دکانیں نذرِآتش کی گئیں۔ قیمتی جانی اور مالی نقصان کا ابھی پورا جائزہ لینا ممکن نہیں۔ توقع ہے کہ جو تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا گیا ہے وہ پورے حالات کا بے لاگ جائزہ لے کر تمام صورتِ حال قوم کے سامنے لائے گا۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ پوری قوم مغموم اور مشتعل ہے۔ بڑے بنیادی سوالات ہیں جو ہرذہن کو پریشان کر رہے ہیں اور ان کے واضح جواب تلاش کرنا اربابِ حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ قوم کے سامنے تمام حقائق آسکیں اور اس خونیں واقعے کے تمام ذمہ داران کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا مل سکے۔

بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ واقعہ محض اتفاقی نہیں اور قوم کو فرقہ واریت کی جنگ کی طرف دھکیلنے کے کسی منصوبے کا پیش خیمہ ہے، اور حکومت کی بے تدبیری، نااہلی اور پوری انتظامی مشینری کی غفلت یا کچھ سرکاری عناصر کی معاونت سے اتنا بڑا واقعہ رُونما ہوا ہے۔ پانچ گھنٹے تک معصوم انسان مرتے رہے۔ عبادت گاہیں، مدرسے اور دکانیں جلتی رہیں اور پوری سرکاری مشینری غیرحاضر یا غیرمؤثر تھی اور بالآخر شہر میں کرفیو لگانا پڑا اور فوج کو انتظام سپرد کرنا پڑا۔ جو عناصر اس تباہی کے ذمہ دار ہیں ان کو پوری دیانت اور سُرعت سے حقیقی آہنی ہاتھوں سے قانون کے مطابق گرفت میں لانے کی ضرورت ہے۔ روایتی تحقیقات اور لیپاپوتی نے حالات کو بگاڑ کی اس انتہا پر پہنچا دیا ہے جہاں آج ہم ہیں۔ اس مجرمانہ روش کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

مسئلے کے تین پہلو ہیں جن کی طرف ہم توجہ دلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں:

اوّلاً: پورے معاملے کی بے لاگ تحقیق اور پوری شفافیت کے ساتھ اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کم سے کم مدت میں اس تحقیق کی روشنی میں مؤثر کارروائی۔ شرپسند عناصر اور ان کے پشتی بانوں کو گرفت میں لانا اور مؤثر اور فی الفور عدالتی کارروائی کے ذریعے انھیں ان کے گھنائونے جرائم کی پوری پوری سزا۔ اس سلسلے میں شرپسند عناصر کے ساتھ پولیس، انتظامیہ اور خفیہ اداروں کی کارکردگی پر بھی مؤثر گرفت ہونی چاہیے اور جس کی جتنی ذمہ داری ہے اس کے مطابق اسے سزا ملنی چاہیے تاکہ انصاف ہو اور انصاف ہوتا نظر آئے، اور مجرموں کو کھلے عام سزا ملے تاکہ وہ نشانِ عبرت بنیں اور آیندہ کے لیے ایسے واقعات سے ملک کو محفوظ کیا جاسکے۔

اس کے ساتھ جو افراد متاثر ہوئے ہیں ان کی فوری امداد___ شہدا کے خاندانوں اور زخمیوں کی مدد، اور جن کی دکانیں جل گئی ہیں اور عمربھر کی پونجی سے وہ محروم ہوگئے ہیں ان کی معاشی بحالی کا فوری انتظام، نیز مسجد، مدرسہ اور دکانوں کی فوری تعمیرنو، تاکہ متاثرہ افراد اور اداروں کی تلافی ہوسکے۔ یہ تمام کام پوری مستعدی سے اور کم سے کم وقت میں انجام پانے چاہییں، اور راولپنڈی کی دینی اور سیاسی قیادت کو اس پورے عمل کی نگرانی کرنی چاہیے۔

دوسرا بنیادی مسئلہ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی ہے جو اس واقعے کے نتیجے میں رُونما ہوئی ہے۔ اِکّادکّا واقعات پہلے بھی رُونما ہوتے رہے ہیں۔ چند گروہ مختلف شکلوں میں اور مختلف مقامات پر یہ کھیل کھیلتے رہے ہیں اور حکومت نے ان عناصر کو قابو کرکے اور قانون کی گرفت میں لانے کے بارے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ الحمدللہ بحیثیت مجموعی پاکستانی معاشرے میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع شانہ بشانہ زندگی گزار رہے ہیں اور شرپسند عناصر ان کے درمیان منافرت کے فروغ اور تصادم کے کھیل میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن اس واقعے نے نئے خطرات کو جنم دیا ہے اور پورے ملک میں جذبات میں بے حد اضطراب بلکہ اشتعال ہے۔ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسئلے کو پوری سنجیدگی سے لیا جائے اور اس چنگاری کو بجھانے کے لیے کوشش کی جائے تاکہ یہ کسی بڑی آگ کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔

۱۹۹۰ء کی دہائی میں بھی ایسے حالات پیدا ہوئے تھے مگر ملک کی تمام ہی دینی جماعتوں نے بڑی حکمت اور بالغ نظری کے ساتھ حالات پر قابو پایا ، ملّی یک جہتی کونسل کی شکل میں ایک منظم تحریکی قوت بن کر تمام مکاتب فکر کو ایک دوسرے سے قریب لایا گیا، ایک دوسرے کی بات کو  کھلے دل سے سنا گیا اور حقیقی شکایات کا ازالہ کیا گیا، اور ملی یک جہتی، رفاقت باہمی اور رواداری کی راہیں استوار کی گئیں۔ آج اس کی ضرورت ماضی سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ جس طرح اس وقت فرقہ وارانہ  ہم آہنگی پیدا کرنے اور غلط فہمیوں اور دُوریوں کو پیدا کرنے والے عوامل کی نشان دہی کرنے کے ساتھ متفقہ طور پر ایک ضابطۂ اخلاق طے کیا گیا آج اس کے احیا اور اس پر سختی سے عمل کی ضرورت ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور ملک کے تمام دینی اور سیاسی عناصر اس سلسلے میں اپنا کردار پوری مستعدی کے ساتھ انجام دیں۔ملّی یک جہتی کونسل کو بھی اس سلسلے میں ازسرِنو پہل کرنا چاہیے۔ اسی طرح مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ان اصولوں کی روشنی میں فی الفور ضروری قانون سازی کا اہتمام کرنا چاہیے، نیز مسجدومحراب، اسکول اور مدرسہ، اور میڈیا سے ان اصولوں کی باربار تلقین کی جائے اور عملاً ان کے احترام کا اہتمام کیا جائے۔

ملّی یک جھتی کونسل کا طے کردہ ضابطۂ اخلاق

                ۱- اختلافات اور بگاڑ کو دُور کرنے کے لیے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر نظم مملکت اور نفاذِ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہوں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ہم ۳۱سرکردہ علما کے ۲۲نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں۔

                ۲-  ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے خلاف سمجھنے، اس کی پُرزور مذمت کرنے اور اس سے اظہارِ براء ت کرنے پر متفق ہیں۔

                ۳- کسی بھی اسلامی فرقے کو کافر اور اس کے افراد کو واجب القتل قرار دینا غیراسلامی اور قابلِ نفرت فعل ہے۔

                ۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و حُرمت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور آنحضوؐر کی کسی طرح کی توہین کے مرتکب فرد کے شرعاً و قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہونے پر ہم متفق ہیں۔ اس لیے توہین رسالتؐ کے ملکی قانون میں ہم اس میں ہرترمیم کو مستردکریں گے اور متفق اور متحد ہوکر اس کی مخالفت کریں گے۔ عظمت اہلِ بیت اطہار و امام مہدی رضی اللہ عنہم، عظمت ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اور عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین ایمان کا جز ہے۔ ان کی تکفیر کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابلِ مذمت و تعزیری جرم ہے۔

                ۵- ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا جو کسی بھی مکتبۂ فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔

                ۶- شرانگیز اور دل آزار کتابوں، پمفلٹوں اور تحریروں کی اشاعت، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے گی۔

                ۷- اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پر مبنی کیسٹوں پر مکمل پابندی ہوگی اور ایسی کیسٹیں چلانے والا قابلِ سزا ہوگا۔

                ۸- دل آزار، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز نعروں سے مکمل احتراز کیا جائے گا۔

                ۹- دیواروں، بسوں اور دیگر مقامات پر دل آزار نعرے اور عبارتیں لکھنے پر مکمل پابندی ہوگی۔

                ۱۰- تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔

                ۱۱-تمام مکاتب فکر کے مقاماتِ مقدسہ اور عبادت گاہوں کے احترام و تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔

                ۱۲-جلسوں، جلوسوں، مساجد اور عبادت گاہوں میں اسلحہ خصوصاً غیرقانونی اسلحے کی نمایش نہیں ہوگی۔

                ۱۳-عوامی اجتماعات اور جمعہ کے خطبات میں ایسی تقریریں کی جائیں گی جن سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے میں مدد ملے۔

                ۱۴-عوامی سطح پر ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں جن سے تمام مکاتب فکر کے علما بیک وقت خطاب کر کے ملّی یک جہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔

                ۱۵- مختلف مکاتب فکر کے متفقات اور مشترکہ عقائد کی تبلیغ اور نشرواشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔

                ۱۶- باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل و رواداری کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔

                ۱۷-ضابطۂ اخلاق کے عملی نفاذ کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو اس ضابطے کی خلاف ورزی کی شکایات کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ صادر کرے گا، اور خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گا۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم ایک تیسری بات بھی کہنا چاہتے ہیں اور پوری ذمہ داری اور بے باکی کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ ایک مدت سے مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکا کے پالیسی ساز اداروں اور خود امریکی حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ مسلم دنیا کو تقسیم در تقسیم کا  نشانہ بنایا جائے، اور اس میں نسلی اور زبانی عصبیتوں کے ساتھ مذہبی، مسلکی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کو اُبھارا جائے اور ان کی بنیاد پر مسلم ممالک کو تقسیم کیا جائے۔

اس سلسلے کا آغاز مغربی استعمار کے مسلم دنیا پر غلبے کے ساتھ ہی ہوگیاتھا اور دولت ِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ان ہی عصبیتوں کو اُبھارا گیا تھا۔ پھر ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہنری کسنجر نے عرب دنیا کو امریکا کے قابو میں رکھنے اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے مذموم مقاصد کو یقینی بنانے کے لیے جو حکمت عملی تجویز کی تھی، اس میں نسلی اور مذہبی عصبیت کی بنیادوں پر عرب ممالک کے سیاسی نقشے کی ازسرنو تشکیل کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ متعدد امریکی تھنک ٹینک انھی خطوط پر پالیسی سازی کے مشورے دیتے رہے ہیں اور نئے سیاسی نقشے بنانے میں مصروف ہیں۔

رابن رائٹ نے نیویارک ٹائمز میں ۲۸ستمبر ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں مشرق وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ تجویز کیا ہے جو نئی سُنّی اور شیعہ ریاستوں سے عبارت ہوگا اور آج کے پانچ ممالک ۱۴ملک بن جائیں گے۔ عراق اس کی پہلی بڑی تجربہ گاہ بنائی گئی تھی اور شام، بحرین اور افغانستان کو     اس آگ میں دھکیلنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور پاکستان بھی اس مذموم ایجنڈے کا حصہ ہے۔ مقصد یہ کہ جہاں بھی کسی ملک کو فوری طور پر تقسیم کیاجاسکتا ہو، وہاں اس کے لیے فضا سازگار کی جائے اور جہاں فرقہ وارانہ اور مسلکی ریاستیں نہ بھی بن سکتی ہوں وہاں بھی فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کا کھیل کھیلا جائے ،اور اس میں امریکا ہی نہیں چند مسلمان ممالک کے کچھ حکمران بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

عراق میں امریکا نے یہ سارا کھیل کس طرح کھیلا ہے، اس کی پوری تصویر ایک تجزیہ نگار  ایشلے اسمتھ (Ashley Smith)  نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں پیش کی ہے جو کاؤنٹرپنچ کے ۱۱نومبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس سے چند اقتباس پیش کیے جاتے ہیں تاکہ سامراجی قوتوں کے اصل کھیل کو سمجھاجاسکے اور ان لبرل دانش وروں کا اصل چہرہ بھی دیکھا جاسکے جو اس خطرناک کھیل میں آلۂ کار بن رہے ہیں۔

بلاشبہہ بیرونی قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنا کھیل کھیل رہی ہیں لیکن ان کو اعوان و انصار ہمارے اپنے درمیان سے مل رہے ہیں، اور ہماری فکری اور سیاسی قیادت اپنی لاعلمی یا مفادات کی پرستش میں شعوری یا غیرشعوری طور پر ان کے مقاصد کے آگے بڑھانے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ ضرورت ہے کہ قوم ان بیرونی سازشوں کو بھی سمجھے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے گھر کی حفاظت اور اپنی صفوں کو ایسے عناصر سے پاک کرنے کی فکر کرے جو اس خطرناک کھیل کا حصہ بن رہے ہیں۔

ایشلے اسمتھ صاف لفظوں میں کہتا ہے:

عراق اور خطے میں فرقہ واریت پھیلنے کے پیچھے اصل مجرم امریکا ہے۔

 بش انتظامیہ سُنّیوں اور شیعوں دونوں کی اس مزاحمت کے خلاف جنگ کی مرتکب ہوئی جو وہ بیرونی استعمار کے خلاف کر رہے تھے۔ امریکی افواج نے پہلے سُنّی مزاحمت کو بہت زیادہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا اور گھروں پر حملے، عام آدمیوں کی پکڑدھکڑ، ابوغریب میں قیدیوں پر ٹارچر، اور پورے پورے شہروں، جیسے فلوجہ میں تباہی پھیلانے کو ہدف بنایا۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے شیعہ رہنما مقتدا الصدر اور اس کی مہدی فوج کو جبروتشدد کا نشانہ بنایا۔ ایک مختصر عرصے کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ وہ ٹوٹی پھوٹی سُنّی اور شیعہ مزاحمت جو متحد ہونے والی ہے، اس کو روکنے کے لیے واشنگٹن نے سامراج کی پٹاری کا پرانا نسخہ: ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کو استعمال کیا۔ اس طرح امریکا نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے فرقہ واریت کو بڑھایا جس کے ذریعے عراق میں جاری تشدد کا بیج ڈالا گیا۔

ایشلے اسمتھ نے اپنے مضمون میں صدربش کے دور میں رُوبۂ عمل لائی جانے والی حکمت عملی کا قدم بہ قدم ذکر کیا ہے اور پوری تفصیل سے امریکی اقتدار کے چھے سال کا جائزہ لے کر دکھایا ہے کہ کس طرح عراق میں شیعہ سُنّی تصادم کی آگ کو بھڑکایا گیا، اور اب عراق شیعہ، سُنّی اور کرد     تین حصوں میں عملاً بٹ چکا ہے۔

اپنے اس تجزیے کی تائید میں ایشلے اسمتھ نے ایک اور مصنف نیر روزن (Nir Rosen ) کی کتاب  Aftermath: Following the Bloodshed of America's Wars in the Muslim World کا حوالہ دیا ہے جس کا ایک اقتباس چشم کشا ہے:

گو شیعہ اور سُنّیوں کے درمیان کبھی بھی مکمل ہم آہنگی نہیں رہی، لیکن ان کے درمیان عراق پر امریکی حملے کے وقت تک خانہ جنگی کی تاریخ بھی نہیں تھی۔ آج اس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر فروغ دینے والی فرقہ واریت، ذرائع ابلاغ میں مباحث کی بھرمار اور  سیاست دانوں اور علما کے جو مباحثے نظر آرہے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں تھی، لیکن عراق پر قبضے کے بعد جو علاقے امریکا کے قبضے میں تھے ان میں سُنّیوں اور شیعوں کے درمیان خونیں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں تک کہ شیعہ اور سُنّی تعلقات اس سطح تک پہنچ گئے کہ اگر آپ کسی اجنبی سے ملیں تو پہلی بات یہ جاننا چاہیں گے کہ وہ شیعہ ہے یا سُنّی۔

اسی طرح خود رینڈ کارپوریشن جو امریکا کا ایک بہت ہی معروف اور بااثر تحقیقی ادارہ ہے، اس کی ایک اہم رپورٹ The Muslim World After 9/11 جو صدر جارج بش کے دوسرے دور میں شائع ہوئی تھی اور جو باقاعدہ امریکا کی ایئرفورس کی دعوت پر تیار کی گئی تھی اور اس واضح مقصد کے لیے تیار کی گئی تھی کہ مسلم دنیا میں وہ کون کون سے کمزور پہلو ہیں جن کا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ تحقیق کروانے والوں کے اپنے الفاظ میں:

فرقہ ،نسل ، علاقہ اور قوم کی بنیاد پر جو تفریق موجود ہے اس کی تشخیص کرنا اور یہ اندازہ کرنا کہ اس تفریق سے امریکا کے لیے کس طرح کے چیلنج اور مواقع پیدا ہورہے ہیں۔

رینڈ کارپوریشن نے اس تحقیقی رپورٹ میں یہ مشورہ دیا تھا کہ:’’شیعہ سُنّی اور عرب اور غیرعرب کے اختلاف کو مسلم دنیا میں امریکا کے پالیسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے‘‘۔

اس رپورٹ میں اس توقع کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ نئے حالات میں خود سعودی عرب کی شیعہ آبادی امریکا کی طرف اپنے جھکائو کا مظاہرہ کرے گی:

ان کی اُمید یہ ہے کہ عراق میں جمہوریت کے ذریعے شیعہ اکثریت کو اس ملک میں سیاست میں زیادہ مقام ملے گا اور سعودی عرب میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح کی اُمیدیں امریکا کے لیے یہ مواقع پیدا کرتی  ہیں کہ وہ اپنی پالیسی کو شیعہ جذبات سے ہم آہنگ کرے تاکہ جن ملکوں میں دوسرے لوگ حکمران ہیں وہاں انھیں زیادہ سے زیادہ مذہبی اور سیاسی اظہار کی آزادی ملے اور اپنے معاملات میں ان کی راے کا وزن بڑھے۔

یہ ہے وہ نقشۂ جنگ جو ہمارے دشمنوں نے ترتیب دیا ہے اور ہم ہیں کہ اس جنگ میں شریک ہوکر اپنے ہی دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے جرم میں شریک ہورہے ہیں۔

مسلمانوں کے تمام ہی معروف فرقے اور مسالک صدیوں سے ایک اُمت کے حصے کے طور پر اپنا اپنا کردارادا کر رہے ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ کو اپنا رب ماننے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی اور آقا، اور سند تسلیم کرنے کے بعد ہم سب ایک رشتے میں جڑگئے ہیں اور اختلافات جو بھی ہیں، وہ اپنی اپنی دلیل پر مبنی ہیں جن کا ماخذ اور سند بالعموم قرآن و سنت ہی ہیں، اور ہر ایک کا مقصد اور خواہش اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہی ہے:

اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً  ز وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ o وَ تَقَطَّعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ ط کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَo (الانبیاء ۲۱:۹۲-۹۳) یہ تمھاری اُمت حقیقت میں ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو ، مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ) انھوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا___ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ:

وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo (اٰل عمران ۳:۱۰۳) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے   تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔

معلوم ہوا کہ اللہ کی رسی، یعنی دین اور شریعت کو مضبوطی سے تھامنا ہی دنیا میں راہِ ثواب کے حصول اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے اور اُمت کی وحدت کتاب و سنت پر قائم رہنے پر منحصر ہے۔ پھر تفرقہ اور آپس میں پھوٹ ڈالنے سے واضح طور پر منع فرمایا ہے کہ یہ اُمت کو پارہ پارہ کرنے کا راستہ ہے۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اختلاف سے منع نہیں کیا، تفرقے سے روکا ہے اور دونوں میں جوہری فرق ہی یہ ہے کہ اختلاف ، اخلاص اور دیانت سے، دلیل کی بنیاد پر، تلاشِ حق کے جذبے ہی کی خاطر ایک فطری عمل ہے جس کی روایت دور رسالت مآبؐ اور صحابہؓ سے آج تک اُمت کی روشن شاہراہ کا حصہ رہی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:  اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ  ’’میری اُمت کے درمیان اختلاف راے ایک رحمت ہے‘‘۔

مفتی محمد رفیع عثمانی ’اختلاف‘ اور ’تفرق‘ کا فرق یوں واضح فرماتے ہیں کہ ’’اختلاف کا حاصل اور لب ِ لباب تین چیزیں ہیں: ایک یہ کہ جو اختلاف قرآن و سنت کی بنیاد پر اخلاص و للہیت کے ساتھ ہو، اور اختلاف کرنے والوں میں وہ اہلیت بھی موجود ہو جو اس کے لیے ضروری ہے، تو   یہ اختلاف ممنوع نہیں بلکہ اُمت کے لیے رحمت ہے۔

دوسرے یہ کہ یہ اختلاف ایسے مسائل میں ہو جن میں قرآن و سنت نے کوئی دوٹوک فیصلہ نہیں کیا ، اور ایسے مسائل میں جن میں اجتہاد کی گنجایش ہوتی ہے، یعنی ایک سے زیادہ آراکا احتمال ہوتا ہے۔ ان میں جو فریق بھی جو راے دلائل کی بنیاد پر قائم کرلے وہ ناجائز اور ناپسندیدہ نہیں ہوتی۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہم جو، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ ہم حنفی ہیں اور فلاں شافعی یا مالکی یا حنبلی ہے، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ امام ابوحنیفہؒ کا قول ہی یقینا، یقینا صحیح ہے، اور امام شافعیؒ کا قول یا کسی اور امام، مثلاً امام احمد بن حنبلؒ یا اما م مالکؒ کا قول جو اس کے مقابلے میں ہے، وہ یقینا غلط ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا قول مَظْنُوْنُ الصَّوَابْ اور  مُحْتَمَلُ الْخَطَائِ ہے، جب کہ دوسروں کا قول مَظْنُوْنُ  الْخَطَائِ  اور مُحْتَمَلُ الصَّوَابِ ہے،یعنی ظنِ غالب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کا قول صحیح ہے، اگرچہ احتمال اس کے غلط ہونے کا بھی ہے۔ دیگر ائمہ کے بارے میں  ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہمارا ظن غالب یہ ہے کہ وہ خطا ہے لیکن احتمال یہ بھی ہے کہ وہ صحیح ہو۔

دوسری چیز ہے ’تفرق‘، یعنی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا۔ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ شریعت نے کسی بھی حالت میں اس کی اجازت نہیں دی۔ خنزیر کا گوشت کھانا جتنا بڑا حرام ہے، مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اس سے بڑا حرام ہے۔ خالص انگور کی شراب پینا جتنا بڑا گناہ ہے، مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اس سے بڑا گناہ ہے..... لیکن مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی اجازت کسی حالت میں نہیں دی۔ جتنا ہم نے قرآن و سنت میں غور کیا اور جتنا ہمارے بزرگوں نے ہمیں سکھایا، ہمیں یہی نظر آیا کہ ’تفرق‘ اور فرقہ بندی کے جواز کی کوئی صورت نہیں‘‘۔

اور پھر رواداری اور رحماء بینھم بننے کا نسخہ بھی یوں بیان کرتے ہیں:’’اس سلسلے میں حکیم الامت حضرت تھانوی کا ملفوظ جو بہت مختصر ہے، یاد رکھنے کے قابل ہے، وہ یہ کہ ’’اپنا مسلک چھوڑو نہیں، دوسروں کا مسلک چھیڑو نہیں‘‘۔ جو جس مسلک کا پیروکار ہے وہ اپنے مسلک پر عمل کرے، لیکن دوسروں کو نہ چھیڑے۔ پس میری گزارشات کا خلاصہ یہ نکلا کہ اختلاف راے جائز ہے اور اختلاف کرنے والوں کی آرا کا احترام لازم ہے لیکن افتراق کسی حال میں جائز نہیں۔    ہم اسی افتراق کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں۔ آج کفر ہمیں مٹانے پر تلا ہوا ہے، اور ہم آپس میں جھگڑے کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مسلک پر عمل کرے اور بھائیوں کی طرح مل کر رہیں اور مل کر کفر کا مقابلہ کریں‘‘۔

علامہ اقبال نے مسلمانوں کی حالت اور وقت کی ضرورت دونوں کو کس خوبی سے پیش کیا ہے:

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

 

دہشت گردی کی جس آگ میں ملک گذشتہ ۱۲سال سے جل رہا ہے اور جس آگ کی تپش بڑھتی ہی جارہی ہے، اس سے نجات ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مسئلہ مختلف وجوہ سے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود دہشت گردی کی نوعیت کو سمجھنے میں بڑا ذہنی انتشار ہے جسے بیرونی طاقتوں اور خصوصیت سے امریکا کے کردار اور مفادات نے اور بھی اُلجھا دیا ہے۔

ملک میں برپا دہشت گردی کے ایک بڑے حصے کا تعلق امریکا کی افغانستان میں برپا   نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں پاکستان کی جونیئر پارٹنر کے طور پر شرکت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کے عسکری اور سیاسی پہلوئوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور امریکا کے افغانستان سے انخلا اور مسئلے کے سیاسی حل کے بغیر عسکریت کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن وہ دہشت گردی جس کی لپیٹ میں اس وقت پورا ملک آچکا ہے، اس میں کچھ دوسرے عناصر اور قوتیں بھی شریک ہیں اور ان میں علیحدگی پسند تحریکوں، علاقائی مفادات کا کھیل کھیلنے والی قوتوں، مذہبی اور مسلکی منافرت پھیلانے والے عناصر، بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے تخریب کاروں اور پیشہ ور مجرموں، سب کا کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حالات کا  مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کی چھتری تلے ہرہرنوعیت کی دہشت گردی کا اس انداز میں مقابلہ کیا جاسکے جس کا وہ تقاضا کرتی ہے اور جس کے نتیجے میں بالآخر امن و امان بحال ہوسکے۔

ان حالات میں ۹ستمبر ۲۰۱۳ء کی کُل جماعتی کانفرنس نے متفقہ طور پر جو رہنمائی فراہم کی ہے، وہ بڑی حقیقت پسندانہ ہے مگر حکومت نے اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے آج تک کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی ہے، جب کہ مخالف قوتیں اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ایک طرف امریکا اور اس کے گماشتوں کا کردار ہے جو فکری اور عملی، دونوں محاذوں پر سیاسی عمل کو پٹڑی سے اُتارنے (de-rail  کرنے) میں مصروف ہیں تو دوسری طرف کچھ  عسکریت پسند گروہ بھی حالات کو بگاڑنے کے لیے بڑی چابک دستی کے ساتھ تباہ کاریوں اور خون خرابے میں سرگرم ہیں۔ ادھر حکومت کا یہ حال ہے کہ وہ اس خطرناک کھیل کا مقابلہ کرنے کے لیے پورے شعور اور زمینی حالات کے اِدراک کے ساتھ ایک فعال پالیسی اختیار کرنے کے بجاے گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے اور ہمت اور حکمت دونوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے۔

ان حالات میں ایک طرف وزیراعظم صاحب امریکا تشریف لے گئے ہیں اور دوسری طرف ان کی حکومت نے ۱۵ دن کے اندر دو آرڈی ننس نافذ فرمائے ہیں جن میں سے ایک کے ذریعے ۱۹۷۹ء کے دہشت گردی کے خلاف قانون میں بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں، اور دوسرے نئے آرڈی ننس کا عنوان ہے: تحفظ پاکستان (Protection of Pakistan) آرڈی ننس ۲۰۱۳ء۔ اس کا ہدف حکومت کی رٹ قائم کرنا اور ان عناصر کی سرکوبی کرنا ہے جن کو ملک دشمن تصور کیا جائے۔

دہشت گردی کے حوالے سے جو بھی قوانین ملک میں رائج ہیں، ان پر ضرورت کے مطابق نظرثانی کوئی معیوب شے نہیں بلکہ کچھ حالات میں مطلوب بھی ہے لیکن تین چیزیں ایسی ہیں جو تشویش کا باعث ہیں اور بڑے بڑے سوالیہ نشان اُٹھا رہی ہیں:

۱- ان قوانین کے نفاذ کا وقت ۔

۲- دستور اور جمہوری روایات کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کا راستہ ترک کرکے ۱۵ دن میں تابڑتوڑ دو آرڈی ننسوں کے ذریعے ان کا نفاذ۔

۳- ان قوانین میں دستور میں طے کردہ اصولوں اور حدود کی نزاکتوں کو نظرانداز کرکے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے افراد اور اداروں کے لیے ایسے بے قید اختیارات کا حصول جو بنیادی حقوق اور دستور کی دفعہ ۱۰ (الف) میں ضمانت دیے ہوئے due process of law (ضروری قانونی عمل) کے حق سے ہم آہنگ نہیں۔ان تینوں نکات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ۱۰؍اکتوبر اور ۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو نافذ کیے جانے والے دونوں آرڈی ننسوں میں جو اختیارات حاصل کیے گئے ہیں اور نظامِ عدل اور قانون کا جو نقشہ ان کے تحت بنتا ہے، اسے سمجھ لیا جائے۔

تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے تحت رنگ، نسل، قومیت یا مذہب سے قطع نظر خوف و ہراس پھیلانے اور دہشت گردی کے مرتکب یا اس کا قصد کرنے والے افراد کو ریاست کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ ایسے افراد کو محض سرکاری اطلاعات کی بنیاد پر گرفتار کیا جاسکتا ہے اور تین مہینے تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس آرڈی ننس کے تحت دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات میں سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے تعاون کرسکیں گے اور گمان غالب کی بنیاد پر بھی کارروائی ہوسکے گی، نیز قانون نافذ کرنے والے افراد کو وارنٹ کے بغیر تلاشی اور ہرمقام تک رسائی کا اختیار حاصل ہوگا، اور مزاحمت کی شکل میں یا اس کے خدشے کی صورت میں بھی قوت کے استعمال کا استحقاق ہوگا۔ پھر جن پر جرم ثابت ہو، ان کو کڑی سزا دی جاسکے گی جو کم از کم ۱۰سال قید پر مشتمل ہوگی۔ سنگین مجرموں کے لیے خصوصی جیلیں بنیں گی۔ مخصوص جرائم کے مقدمات کے جلد اندراج اور فوری تحقیقات کے لیے الگ تھانے ہوں گے اور آرڈی ننس کی دفعہ۳۷کے تحت ان مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی وفاقی عدالتیں تک قائم کی جائیں گی۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ سول اور فوجی اہل کاروں کو اپنے فرائض کی بجاآوری میں آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور احتساب اور نگرانی کا کوئی نظام اس نئے قانون کا حصہ نہیں ہے۔

تحفظ پاکستان آرڈی ننس سے ۱۰ دن پہلے جو آرڈی ننس اینٹی ٹیررزم ایکٹ میں بنیادی ترامیم کے لیے نافذ کیا گیا تھا اس کے تحت گواہوں کو اور عدلیہ کو خصوصی تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور  نئی ٹکنالوجی کو تفتیش کے لیے استعمال کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا ہے جس میں وڈیوٹیپس اور فرانزک شواہد کو بطور شہادت استعمال کرنا شامل ہے۔ اسی طرح وڈیو لنکس کے ذریعے مقدمات کی سماعت کی گنجایش پیدا کردی گئی ہے اور حکومت کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی علاقے میں درج دہشت گردی کے کسی بھی مقدمے کو ملک کی کسی بھی عدالت میں منتقل کرسکتی ہے۔

ان قوانین کے تحت ان تمام قانون نافذ کرنے والے افراد اور اداروں کو جس کا تعلق رینجرز، فرنٹیئرکور ، فرنٹیئر کانسٹیبلری یا کسی بھی دوسرے ادارے سے ہو، ان کو پولیس کے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ بھتہ خوری، اغوا براے تاوان، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ہی نہیں، خوف و ہراس پھیلانے والے عناصر کو بھی اپنی گرفت میں لے سکیں گے۔

بلاشبہہ دہشت گردی اور اس کی مختلف شکلوں سے نبٹنے کے لیے قانون کا مؤثر ہونا اور قانون نافذ کرنے والوں، گواہی دینے والوں اور عدلیہ کو معقول اور قرارواقعی تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔ لیکن جتنا یہ پہلو اہم ہے اتنا ہی اہم یہ پہلو بھی ہے کہ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور قانون کے تحت مکمل انصاف کے حصول کو یقینی بنایا جائے اور قانون کے غلط استعمال کے ہردروازے کو بند کردیا جائے۔ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ایک گھنائونا جرم ہے، لیکن دہشت گردی اور خوف و ہراس پھیلانے کے نام پر ایک بھی معصوم انسان کا نشانہ بنایا جانا بھی اتنا ہی گھنائونا جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مناسب checks & balance کے بغیر اورہر کسی کے لیے قانون کے اندر جواب دہی (accountability) کے مؤثر نظام کے بغیر معاشرے میں نہ عدل قائم ہوسکتا ہے اور نہ امن و امان اور عزت اور جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں میں توازن ضروری ہے۔

یہ ضرورت اس وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں مسلسل بگاڑ کے باعث جس طرح عوام کے ایک حصے میں جرم کے رجحانات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن افراد اور اداروں پر قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے، ان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شتربے مہار بن گئے ہیں اور کرپشن اور ظلم و زیادتی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔    یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ عوام دونوں طرف سے پس رہے ہیں___ مجرموں کا بھی وہ نشانہ ہیں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے افراد میں ایسے لوگ خاصی تعداد میں موجود ہیں جو آلۂ ظلم بن گئے ہیں اور عملاً اپنے کو قانون سے بالا تصور کرتے ہیں بلکہ ان کا زعم ہے کہ وہ خود ہی قانون ہیں___ معاذاللہ!

یہی وجہ ہے کہ جس قسم کے غیرمعمولی وسیع اختیارات ان آرڈی ننسوں میں سرکاری اہل کاروں کو دیے گئے ہیں، ان پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح خصوصی وفاقی عدالتوں کے قیام کا جو تصور ان میں دیا گیا ہے، اور وفاقی نظام میں نئے پولیس اسٹیشنوں اور خصوصی جیلوں کے قیام کی بات کی گئی ہے، وہ اپنے اندر بڑے دُوررس مضمرات رکھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دو متوازی نظام ہاے عدل کے قائم ہونے کا خطرہ ہے جو دستور کے واضح ڈھانچے سے متصادم ہوگا، اور جس کی کوشش اس سے پہلے بارھویں ترمیم کی شکل میں میاں نواز شریف کے پہلے دورِحکومت میں کی گئی تھی مگر پارلیمنٹ اور عدالت دونوں نے اسے رد کردیا تھا۔

اس تلخ تجربے کے باوجود اس نئے آرڈی ننس کے ذریعے ایک ایسی تجویز کو کتابِ قانون میں داخل کرنا جس کے دُور رس منفی اثرات ہوں، حکمت اور عدل دونوں کے تقاضوں پر پورا نہیں اُترتا۔ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتیں موجود ہیں۔ اگر ان کی تعداد کم ہے تو انھیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر ان میں کچھ دوسری اصلاحات کی ضرورت ہے تو وہ بھی اس قانون کے دائرے میں ہی کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ایک طرف صوبائی قانون کے تحت انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں ہوں اور دوسری طرف وفاقی عدالتیں ہوں اور فیڈریشن کو یہ اختیار بھی ہو کہ جس مقدمے کو جس عدالت اور جس صوبے سے جہاں چاہے منتقل کردے، اس میں بڑے خطرات پوشیدہ ہیں۔ ہماری نگاہ میں یہ دروازہ کھولنا محلِ نظر ہے۔

ان دونوں آرڈی ننسوں کو دستور کی متعلقہ دفعات اور عدل و انصاف اور ہرفرد کے بنیادی حقوق اور حق دفاع کی دستوری ضمانتوں کی میزان پر پرکھنا ہوگا۔ نیز فیڈریشن کے مسلّمہ اصولوں اور خصوصیت سے اٹھارھویں ترمیم کے بعد جو نقشہ مرکز اورصوبوں کے اختیارات کا بنا ہے، اس کسوٹی پر بھی ان کو پرکھنا ہوگا۔ جلدبازی میں اور دہشت گردی کا ہوّا دکھاکر ایسی قانون سازی جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو، جمہوریت اور اسلام دونوں کے مقاصد اور مزاج سے متصادم ہوگی۔

تحفظ پاکستان آرڈی ننس میں دہشت گردی کو قانون کے ذریعے ختم کرنے اور فوج داری قانون کے ذریعے اس کا مقابلہ کرکے معروف راستے سے ہٹ کر جارج بش اور امریکی انتظامیہ کے وضع کردہ War Paradigm (بہ مثل جنگ)کو بھی پہلی مرتبہ پاکستان کی کتابِ قانون میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے کسی شکل میں بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی ایک جرم ہے اور ایک جرم ہی کی حیثیت سے اس کا قلع قمع کیا جانا چاہیے۔ اسے جنگ قرار دے کر انتظامیہ کے لیے شتربے مہار بن جانے کے مواقع فراہم کرنا بے حد خطرناک ہے، اور امریکا نے جو کچھ گذشتہ ۱۲برسوں میں کیا ہے اس کی موجودگی میں یہ کوشش کہ ہماری کتابِ قانون میں بھی یہ تصور جگہ پالے، بے حد خطرناک اور ناقابلِ قبول ہے۔ اس آرڈی ننس میں جس طرح دہشت گردی کو Waging of war against Pakistan کے انداز میں پیش کیا گیا ہے، وہ اپنے اندر بہت دُوررس مضمرات رکھتا ہے۔ اسی طرح قوت کے استعمال کے لیے ہونے والے جرم کے معقول خدشے (reasonable apprehension of a scheduled offence)کو کافی قرار دے دیا گیا ہے۔ قوت کے استعمال کا یہ اختیار بھی ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنے اندر بڑے خدشات لیے ہوئے ہے۔ بلاشبہہ خاطرخواہ تنبیہہ (sufficient warning) کی بات بھی کہی گئی ہے لیکن محض خدشے کی بنیاد پر قوت کا ایسا استعمال جس میں جان ضائع ہوجائے، ایک ایسا اختیار ہے جس کے غلط استعمال کا بڑا خطرہ ہے اور جو ظلم و زیادتی کا راستہ کھولنے کا باعث ہوسکتا ہے جیساکہ ’مقابلہ میں مارے جانے‘ کے نام پر ماضی میں ہوتا رہا ہے۔

اسی طرح جہاں جرم کے ثبوت کے لیے نئی ٹکنالوجی کا استعمال مفید ہوسکتا ہے، وہیں یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سرکاری اداروں کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ معاشرے کے تمام افراد کی نجی زندگی (privacy) کو مجروح کرنے کے حربے استعمال کریں اور ٹیلی فون اور ای میل میں مداخلت کریں جس کے نتیجے میں ایک مہذب معاشرہ ایک پولیس اسٹیٹ بن جاتا ہے۔ فرد کی آزادی ایک سراب بن جاتی ہے اور چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوتا ہے،    اس سلسلے میں گذشتہ ۱۲برسوں میں امریکا نے جس طرح خود اپنے شہریوں اور دنیا کے دوسرے انسانوں، اداروں اور حکومتوں کے ڈھکے اور چھپے سب ہی معاملات تک پر جاسوسی کے ذرائع سے رسائی حاصل کی ہے اس نے خود مغربی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ وکی لیکس اور اب سنوڈین کے ذریعے جو معلومات سامنے آئی ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے دوست اور دشمن، سب ہی کی نجی زندگی کو پامال کیا ہے، اور دوسروں کے گھروں ہی تک رسائی نہیں حاصل کی ہے بلکہ حکومتوں کے پالیسی سازی کے اداروں کو بھی اپنی الیکٹرانک مداخلت کا نشانہ بنایا ہے جس پر امریکا کے قریب ترین دوست ملک بھی چیخ اُٹھے ہیں۔ ان دونوں آرڈی ننسوں میں شہادت کے لیے جن چیزوں کو معتبر کہا گیا ہے اس سے یہاں بھی ایک غلامانہ ریاست (servilliance state) کے قیام کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اُٹھانا ضروری ہے لیکن اس باب میں صحیح حدود کا تعین بھی ضروری ہے جس کا کوئی اشارہ ان قوانین میں نظر نہیں آتا۔

ہم حکومت، پارلیمنٹ کے ارکان، وکلابرادری اور خصوصیت سے انسانی حقوق کی علَم بردار تنظیموں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان قوانین پر انسانی حقوق اور عدل اور قانون کی حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں غور کریں اور محض طالبان دشمنی کے جذبے میں قانون میں ایسی چیزوں کو دَر آنے کا موقع نہ دیں جو معاشرے کی بنیادوں کو ہلا دیں، اور جو ریاست کے اداروں کو حقوق کی پامالی کے لیے کھلی چھٹی دے دیں۔ یاد رہے کہ آج نشانہ جو بھی ہو، کل ہم میں سے ہر ایک بھی نشانے پر آسکتا ہے۔ اس وقت تو ہمارے وہ دوست جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں بڑے جوش سے کہہ رہے ہیں کہ ’’طالبان کو مارو اور بھسم کردو‘‘ لیکن ریاست کو مضبوط کرنے(strengthening of the State) کے نام پر جو اختیارات ان اداروں کو آج آپ دے رہے ہیں، کل وہ کس کس کے خلاف اور کہاں کہاں استعمال ہوسکتے ہیں، اس سے خدارا صرفِ نظر نہ کریں۔

ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان دونوں قوانین کو آرڈی ننس کے ذریعے ملک پر مسلط  کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ۱۱مئی کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے چار اجلاس ہوچکے ہیں۔ قانون سازی کے باب میں موجودہ اسمبلی کی اب تک کی کارکردگی صفر رہی ہے۔ ان چار ماہ میں اسمبلی میں صرف تین سرکاری بل قانون سازی کے لیے تجویز کیے گئے ہیں، جب کہ حکومت کے تین کے مقابلے میں چار پرائیویٹ بل غور کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ گو ابھی تک سرکاری یا غیرسرکاری کوئی ایک بھی بل کتابِ قانون کا حصہ نہیں بن سکا ہے۔ توقع ہے کہ ایک ہفتے میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے والا ہے۔ ایسی کیا عجلت تھی کہ دو ہفتے کے عرصے میں دو آرڈی ننس جاری کردیے گئے اور ایک ہفتہ مزید انتظار نہیں کیا گیا کہ اسمبلی ان قوانین پر پوری طرح غوروخوض کرلیتی، کمیٹیوں میں ان پر تفصیلی بحث ہوسکتی۔ پریس اور پبلک دونوں ہی کے لوگ ان قوانین کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور اس طرح افہام و تفہیم اور بحث و مشاورت کے نتیجے میں پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کے تعاون سے مناسب قانون سازی کی جاسکتی۔

ماضی میں ہم سب نے بشمول مسلم لیگ (ن) آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کی مخالفت کی ہے۔ اٹھارھویں ترمیم میں آرڈی ننس کی تجدید کے بارے میں کچھ پابندیاں بھی اس  طریقِ قانون سازی کو مشکل بنانے کے لیے عائد کی گئی ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کو نظرانداز کر کے اس ناپسندیدہ طریقے کو جس کا جواز صرف حقیقی ایمرجنسی میں ہی ہوسکتا ہے ، اختیار کیا گیا ہے۔   لطف کی بات یہ ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈی ننس میں تو یہ عجیب و غریب تضاد بھی موجود ہے کہ   ایک طرف اسے فوری طور پر اور پورے ملک میں آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے اور دوسری طرف اس کے عملی نفاذ کے معاملے کو کھلا چھوڑ دیاگیا ہے جس کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسی کوئی فوری ایمرجنسی نہیں تھی کہ اسے اسمبلی سے بالا ہی بالا نافذ کردیا جائے۔ ملاحظہ ہو دفعہ ۳، جس میں صاف لکھا ہے کہ:’’یہ ایسی تاریخ یا تاریخوں سے نافذالعمل ہوگا جو وفاقی حکومت اس بارے میں طے کرے، نیز اس آرڈی ننس کی مختلف شقوں کے نفاذ کے لیے مختلف تاریخیں بھی مقرر کی جاسکتی ہیں‘‘۔

اختیارات تو لے لیے گئے ہیں لیکن نفاذ کو ابھی معلق رکھا گیا ہے، گویا ان کے استعمال کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی۔ اس وقت جلدی میں پارلیمنٹ میں بحث کے بغیر غیرمعمولی اختیار لے لیا گیا ہے اور اب یہ مرکزی حکومت کی صواب دید ہے کہ اس کو جب اور جتنا نافذ کرنا ہو، کرسکے۔ اگر فوراً ہی اسے نافذ نہیں کیا جارہا تو پھر ایسی جلدی کیا تھی کہ اسمبلی کو نظرانداز (bypass)  کیا جائے اور جو قانون اسمبلی کے ذریعے چند ہفتوں میں منظور کرایا جاسکتا ہے وہ اُوپر سے مسلط کردیا جائے۔

جیساکہ ہم نے شروع میں اشارہ کیا کہ ایک پہلو ان قوانین کے نفاذ کے وقت کا بھی ہے۔ ایک طرف آپ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ جنگ کے اعلان کی تیاریاں کررہے ہیں اور تلواریں سونت کر اکڑفوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اسے انگریزی محاورے میں blowing hot and cold in the same breathکہتے ہیں جو کبھی بھی اچھی حکمت عملی نہیں ہوتی۔

آخیر میں ہم ایک بنیادی بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اصل مسئلہ قانون کی موجودگی کا نہیں، قانون کے احترام اور اس کے عملی نفاذ کا ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ۱۹۹۷ء سے قانون موجود ہے جس میں ایک درجن سے زیادہ ترامیم ہوچکی ہیں اور مزید بھی ہوسکتی ہیں، لیکن عملاً اس پر اور دوسرے قوانین پر عمل نہیں ہورہا۔ پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور افراد اپنی صلاحیت کار کے اعتبار سے وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ سروسز میں کرپشن نے گھر کرلیا ہے اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوں نے ان کی وفاداری، ساکھ اور کارکردگی ہر ایک کو تباہ کردیا ہے۔ ٹکنالوجی اور ٹریننگ دونوں کے اعتبار سے وہ بہت خام ہیں اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومتوں کا اپنا رویہ بھی صاف ستھرا (above board) نہیں۔ وہ دستور، قانون اور قومی مفاد کے مقابلے میں ذاتی اور گروہی مفادات کو فوقیت دیتے ہیں۔ پولیس میں ہزاروں کی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر یا رشوت لے کر تقرریاں ہوئی ہیں اور ہربرسرِاقتدار پارٹی نے اپنے اپنے دور میں بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔ اسی طرح مالی وسائل اور بجٹ کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر پولیس تفتیش، جیلوں اور عدالتوں کا ایک نیا ملک گیر نیٹ ورک پیش نظر ہے تو اس کے لیے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے؟اگر ان تمام پہلوئوں کو نظرانداز کردیا جائے اور قانون پر قانون بنائے جائیں تو اس سے تبدیلی اور خیر کی توقع عبث ہے۔اتنے اہم مسئلے پر جلدبازی سے کچھ حاصل نہیں۔ پارلیمنٹ اور میڈیا دونوں ان تمام اُمور پر کھل کر بحث کریں۔  وکلابرادری اور سیاسی اور سول سوسائٹی کو اپنی راے کے اظہار کا موقع دیا جائے اور اس طرح وسیع تر قومی مشاورت سے ان نازک اُمور پر مناسب قانون سازی کی جائے۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کو اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے اور وہ راستہ اختیار کرنا ہوگا جو حقیقی مشاورت پر مبنی ہو۔ اس میں سب کے لیے خیر ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔

 

جنگ دو دھاری تلوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ جہاں انسانیت کے لیے فساد فی الارض سے نجات کا وسیلہ بن سکتی ہے، وہیں وہ اسے ایک عظیم تر فساد کی آگ میں جھونکنے کا ذریعہ بھی   بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے جو قانون دیا ہے، اور جو اپنی آخری اور مکمل شکل میں قرآن اور سنت نبویؐ میں محفوظ ہے، اس میں اس بارے میں ایسی رہنمائی دی گئی ہے جو انسانیت کو فساد سے بچاسکے اور عدل وا نصاف کی راہیں ہموار کرسکے۔

اس قانون کی رُو سے جنگ کے باب میں دو اہم ترین شرطیں واضح کردی گئی ہیں ، یعنی: اول یہ کہ جنگ زر اور زمین کے حصول، محض سیاسی قوت، معاشی بالادستی اور دوسرے مفادات، تعصبات یا محض جہاں گیری اور اپنی قوت کے غلبے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ مبنی برحق جنگ وہی ہوسکتی ہے جو دفاع یا ظلم کے مقابلے کے لیے ہو۔ اس اصولی اور ابدی ہدایت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جنگ کے جواز کو حق اور عدل سے مشروط کردیا۔ اس کے ساتھ دوسری اہم تحدید یہ بھی کردی کہ خود جنگ کے دوران ہر قسم کے ظلم اور انسان سوز زیادتیوں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ دشمن کی عسکری قوت پر بھرپور ضرب ہو لیکن عام انسانوں، خصوصیت سے معاشرے کے ان تمام عناصر کے جان، مال اور آبرو کی مکمل حفاظت کی جائے جو شریکِ جنگ نہیں ۔ (non-combatants)  دشمن کی عبادت گاہوں، عورتوں، بچوں، حتیٰ کہ پھل اور سایہ دار درختوں اور کھڑی فصلوں تک کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس لیے کہ جنگ کا ہدف صرف حقیقی امن اور انصاف کا حصول ہے اور جنگ کے دوران میں عام انسانوں اور بستیوں کو تباہی سے بچانا اور امن کے پیامبر ہونے کا ثبوت پیش کرنا جنگ کے آداب کا حصہ ہے۔

اسلام کی ان تعلیمات کا دورِ جدید کے بین الاقوامی قانون کے ارتقا پر واضح اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ سولھویں صدی کے بعد جو قانون وجود میں آیا ہے، اس میں سفارت کاری کے اصول و آداب کی حد تک ہی سہی، بین الاقوامی کنونشنز (conventions) پر مبنی برحق جنگ (just war) اور جنگ کے دوران عدل و انصاف کے اہتمام (justice in war) کے اصولوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جن اقوام کو ’مہذب‘ اقوام ہونے کا دعویٰ ہے، انھوں نے ان دونوں حیات بخش اور امن پرور اصولوں کو بُری طرح پامال کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین اور اندوہناک مثال دہشت گردی سے دنیا کو پاک کرنے کے نام پر وہ جنگ ہے، جو امریکا نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعات کا سہارا لے کر پوری دنیا پر مسلط کی ہے اور عالمی دہشت گردی کا ایک شرم ناک خونیں باب رقم کردیا ہے۔

بظاہر ۲۰۱۴ء میں افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی کے اعلانات کیے جارہے ہیں، مگر ان کے باوجود جنگ و جدال اور ریاستی اور مزاحمتی دہشت گردی کی آگ کے ٹھنڈے ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ اگر امریکی افواج ہزیمت و شرمندگی کے ہاتھوں مجبور ہوکر  افغانستان سے واپس چلی بھی جائیں، تب بھی یہ علاقہ اور دنیا کے دوسرے حساس علاقے جنگ کی آگ میں سلگتے رہیں گے اور کسی نہ کسی طرح ان ممالک پر مغرب زدہ نام نہاد لبرل سیکولر نظام کے حاشیہ بردار اور وہاں کی سیاسی اور عسکری قوت کے گٹھ جوڑ سے عوام کو، خصوصیت سے اُمت مسلمہ کو، اپنی گرفت میں رکھا جائے گا، تاکہ اس کے قومی و معدنی وسائل کی لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے، اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو کھل کھیلنے کے مواقع حاصل رہیں۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے اور اس کے نام پر شروع کی جانے والی جنگ کو ۱۲برس ہوگئے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان ۱۲برسوں کا بے لاگ جائزہ لیا جائے۔ یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس جنگ کے ذریعے امریکا نے کیا حاصل کیا اور کیا کھویا اور اس سے بھی بڑھ کر اس کے نتیجے میں ان ممالک کو کیا ملا، جو امریکا کے حلیف بنے یا جن کو امریکا نے اپنا ہدف بنایا۔اس لیے کہ   اس جنگ کی سب سے بڑی حقیقت ہے ہی یہ کہ مغربی اقوام نے اسے اُمت مسلمہ کی سرزمین پر  لڑا ہے، اور وقتی اسباب جو بھی ہوں، اپنے عالمی ایجنڈے کے مطابق لڑا ہے۔ بظاہر مقصد القاعدہ کو ختم کرنا تھا، پھر طالبان ہدف بنے، پھرعراق کے ایٹمی ہتھیار جن کا کوئی وجود نہ تھا۔ پھر جمہوریت کے فروغ، عورتوں کے حقوق کی پاس داری، تعلیم کے فروغ اور معاشی ترقی کے خواب دکھائے گئے، لیکن اصل مقاصد صرف اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر عمل تھا اور اس کے لیے ان ممالک میں، خصوصیت سے افغانستان، عراق، یمن اور خود پاکستان میں ایسے عناصر کو آلۂ کار بنایا گیا جو ملک و ملّت کے مفادات کو ذاتی اقتدار اور مفادات پر بے دریغ قربان کرنے کو تیار ہوں۔ وقت آگیا ہے کہ اس پورے دور کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اور اس کی روشنی میں آگے کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس موضوع کا حق ایک مقالے میں ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ موضوع تو ایک یا ایک سے بھی زیادہ کتابوں کا تقاضا کرتا ہے۔ مغرب میں یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور مسلمان اہلِ علم کو بھی اپنے مقاصد، اہداف اور مفادات کی میزان پر اس دور کی پالیسیوں اور رُونما ہونے والے نتائج اور حالات کا صحیح صحیح تجزیہ کرکے    نفع و نقصان کے پورے اِدراک کے ساتھ آگے کا نقشۂ کار تیار کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اس وقت ۱۱مئی کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومتیں وجود میں آگئی ہیں جن میں عوام نے تبدیلی کا پیغام دیا ہے۔ اگر نئی حکومتیں اس تاریخی موقع کو ضائع کردیتی ہیں اور امریکا ہی کے احکام پر عمل پیرا رہتی ہیں تو اس سے بڑی غداری کا تصور بھی مشکل ہے۔

خانہ جنگی کا خدشہ

اس جنگ کے ۱۲برس پورے ہونے پر نئی حکومت اور پوری قوم کو دعوت غوروفکر دینے کے لیے ہم چند اہم گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کی اہمیت اس بحث کے پس منظر میں مزید  بڑھ گئی ہے کہ اس نازک وقت پر بھی پاکستان کی امریکی جنگ میں شرکت اور اس کی تمام تباہ کاریوں کا مزہ چکھنے کے باوجود شمالی علاقہ جات ہی نہیں، پورے پاکستان میں فوجی آپریشن اور قوت کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نئی اور وسیع تر معرکہ آرائی کے لیے فضا ہموار کی جارہی ہے۔ یوں ملک کو ایک نہ ختم ہونے والی خونیں جنگ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس میں امریکی اور اس کی حلیف بھارتی لابی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیکولر اور لبرل قوتیں پیش پیش ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ  یہ بھی نظرآرہا ہے کہ اس میں خود اسلام اور پاکستان کے ناراض دوستوں کا بھی ایک کردار ہے ، یا انھیں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو اس کے عالمی اور ملکی پس منظر میں دیکھا جائے اور جو بھی پالیسی بنائی جائے، وہ بہت سوچ سمجھ کر، قوم اور اس کی قیادت کو اعتماد میں لے کر، تاریخی تجربات سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بنائی جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے ملک کے حقیقی مفادات اور قومی مقاصد کے حصول کے لیے صحیح معنی میں ایک قومی پالیسی ہونا چاہیے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے لازمی ہے کہ عوام کے عقائد، وژن، احساسات اور توقعات کی روشنی میں پالیسی بنائے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو پالیسیاں بیرونی مفادات کے حصول کے لیے بنی ہوں یا جن کی تشکیل جبر اور دبائو کے تحت ہوئی ہو، یا جن کے محرکات غرور، طاقت کا زعم، انتقام اور غصہ ہوں، وہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ایک بار نہیں بار بار طاقت کا زعم رکھنے والوں نے ایسی پالیسیاں بنائی ہیں اور ان کے نتیجے میں انسانیت کو ظلم و طغیان کی آگ میں دھکیلا ہے، بڑے بڑے علاقے تاراج کیے ہیں، لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے، اور اربوں اور کھربوں ڈالر کے وسائل اس آگ میں جھونک دیے ہیں۔

نائن الیون: پس منظر اور کارفرما ذھنیت

اکیسویں صدی کا آغاز بھی ایسے ہی تباہ کن اور اندوہناک حالات میں ہوا ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی، جس کا آغاز بظاہر آسٹرین شاہی خاندان کے ڈیوک فرانسس فریڈرک کے قتل سے ہوا، جسے ۲۸جون ۱۹۱۴ء کوسرائیو کے مقام پر ہلاک کردیا گیا تھا،اور اس ایک چنگاری سے ایسی آگ بھڑکی کہ پورا یورپ استعماری جنگ کی آماج گاہ بن گیا۔ انجام کار ۵۰لاکھ فوجی اور عام شہری موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ امریکا پہلی بار یورپی جنگوں میں شریکِ کار بن گیا، نئی ٹکنالوجی انسانیت کی خدمت کے بجاے اسے تباہ کرنے   کے لیے استعمال ہونے لگی۔ پھر بیسویں صدی ۱۰۰ سے زیادہ جنگوں کا میدان بن گئی، جن میں دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے ۵کروڑ انسانوں سمیت ۱۰کروڑ انسان لقمۂ اجل بنے۔

اکیسویں صدی نے دوسرے عشرے کا بھی انتظار نہ کیا کہ اس کے دوسرے ہی سال میں نیویارک اور واشنگٹن کے واقعات رُونما ہوگئے۔ یوں انسانیت کو ایک دوسرے ہی قماش کی جنگ کی آماج گاہ بنادیا گیا۔ استعماری قوتوں نے ویت نام اور افغانستان کے تجربات سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جنگ، جو ماضی میں دو ممالک یا چند ممالک کے درمیان فوجی معرکے سے عبارت تھی اور جس کی نوعیت، جس کا ہدف، جس کا میدان اور علاقہ بڑی حد تک متعین ہوتا تھا، اس کے تصور ہی کو  بدل ڈالا گیا۔ حکومت اور غیرحکومتی عناصر (نان اسٹیٹ ایکٹرز ) میں تصادم، ریاست کی حدود کے  اندر تو مختلف شکلوں میں ہوتا تھا مگر اب جنگ ریاستوں اور غیرریاستی مہم جُو عناصر کے تصادم تک بڑھا دی گئی اور اسے بھی عالمی سطح تک پھیلا دیا گیا۔ اس طرح ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘   میں ایک طرف ریاست یا ریاستیں فریق بن گئیں تو دوسری طرف ایک مبہم، غیرمتعین عنصر، جو  مکانی اعتبار (space wise) سے بھی بے حدوحساب علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح پوری دنیا اس جنگ کا میدان بنادی گئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون کس کے خلاف لڑرہا ہے مگر ہرطرف خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور ملک کے ملک تاراج کیے جارہے ہیں۔

دہشت گردی کی تاریخ پیدایش۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء نہیں۔ یہ تو صدیوں سے انسانی معاشرے میں ایک دھونس، دھاندلی اور جبر کے ’نظام‘ کی حیثیت سے موجودرہی ہے۔ کچھ کے لیے پسندیدہ راستے کے طور پر اور کچھ کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابلِ برداشت۔ خود امریکا میں دہشت گردی کے واقعات امریکی ری پبلک کے قیام سے ۲۰۰۱ء تک بارہا اور بڑی ہولناک شکلوں میں ہوتے رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں نیویارک کے ٹریڈ سنٹر ( ۱۹۹۳ء) کو ہدف بنایا گیا اور اس کے ذمہ دار افراد کو ملک کے فوجداری قانون کے تحت مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ یمن کے سمندر میں یوایس کول نامی بحری جہاز کا واقعہ رُونما ہوا اور اس کو بھی اسی طرح ملکی قانون کے تحت نمٹایا گیا۔ پھر اوکلاہوما کا خونیں واقعہ رُونما ہوا، جس میں ۱۶۸؍افراد کو ایک سفیدفام قدامت پرست امریکی دہشت گرد نے ہلاک کیا اور ۷۰۰؍ افراد زخمی ہوئے، لیکن اس واقعے پر بھی قانون کی مشینری ہی حرکت میں آئی، طبل جنگ نہیں بجایا گیا۔ لیکن ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء ایک ایسا واقعہ بن گیا جس کی بنیاد پر عالمی قانون اور ملکی فوج داری قانون دونوں کے پورے نظام فکروعمل ہی کو بدل کررکھ دیا گیا۔

امریکی صدر جارج بش اور پوری مغربی دنیا نے اس کے زیراثر، دہشت گردی کے اس قابلِ مذمت واقعے کو جس میں ۲ہزار۹سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں امریکا میں موجود ہرنسل، ملک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد لقمۂ اجل بنے تھے، ’امریکا کے خلاف جنگ‘ قرار دیا۔ ناٹو نے دفعہ ۵ کا سہارا لے کر امریکا پر حملے کو ناٹو پر حملہ قرار دیا۔ اقوام متحدہ نے بھی ایک مبہم قرارداد میں قوت کے استعمال کے لیے ایک ایسا بودا سا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی، جس کو علمی قانونی حلقوں میں چیلنج کیا گیا۔ امریکی کانگریس نے بھی ایک مجہول قرارداد کے ذریعے امریکی صدر کو دہشت گردی کے خلاف ہر ذریعہ اور قوت استعمال کرنے کا پروانہ دے دیا۔ لیکن اب اس کے بارے میں بھی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں اور اس بحث کی روشنی میں امریکی صدر کے لیے شام پر فوج کشی کی اجازت حاصل کرنا مشکل ہوگئی ہے۔۱؎

یہ ۱۲سالہ جنگ جدید مغربی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے اور اس کی تباہ کاریاں بھی  بے حساب ہیں۔ اس کا کوئی جواز نہ بین الاقوامی قانون میں ہے اور نہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں، جو صرف دفاعی جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ اگر واضح خطرے کے پیش نظر اور حقیقی دفاع کے لیے  چارٹر میں اقدام میں پہل کی گنجایش پیدا کی گئی ہے، تو وہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کی حدود میں اور اقوام متحدہ کو اطلاع ہی نہیں اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والی فوج کی شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ لیکن امریکی صدر نے طاقت کے زعم میں، امریکا کے سامراجی اہداف کے حصول کے لیے، جن کی ایک مدت سے منصوبہ سازی کی جارہی تھی، اس عجیب و غریب جنگ کا آغاز کیا۔ صرف القاعدہ نہیں، افغانستان اور اس کے ساتھ عراق، ایران اور شمالی کوریا پر بھی اپنے جنگی اور جارحانہ عزائم کے اظہار کے ساتھ دبائو کا آغاز کیا۔ اس کے لیے یہ اصول وضع کیا کہ جو امریکا کے ساتھ نہیں،      وہ دہشت گرد ہے یا دہشت گردوں کے ساتھ ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے جنگی اقدام کے لیے ایک جائز ہدف ہے۔

صدربش کے یہ الفاظ اس جنگ کے اصل اہداف کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ سامنے رہنے چاہییں:

  • وہ دہشت گرد جنھوں نے یہ اقدام کیے، اور وہ جو ان کو پناہ دیتے ہیں، ہم ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتیں گے (۱۲ستمبر ۲۰۰۱ء)
  • یہ صلیبی جنگ دہشت گردی کے خلاف کچھ عرصہ چلے گی (۱۲ستمبر۲۰۰۱ء)
  • عراق، ایران اور شمالی کوریا جیسی ریاستیں بُرائی کا محور تشکیل دیتی ہیں، جو اس دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے لیے اسلحہ فراہم کر رہی ہیں۔(قوم سے خطاب، نیوزویک، ۱۱فروری ۲۰۱۲ء)

یہ ہے وہ ذہن (mind-set)، جسے سمجھے بغیر اس نام نہاد جنگ کی حقیقت، اس کے اصل عزائم اور اہداف اور امریکا کی عالمی سیاست میں اس کے کردار کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس سلسلے میں گذشتہ ۱۲برسوں میں جو ناقابلِ انکار شہادتیں سامنے آگئی ہیں، ان کا احاطہ جگہ کی تنگی کے باعث یہاں ممکن نہیں۔ تاہم ان کے صحیح اِدراک پر ہی پاکستان کے لیے ایک قومی مفادات سے ہم آہنگ قومی سلامتی پالیسی بن سکتی ہے اور دہشت گردی کی امریکی جنگ سے نکلنے اور ملک میں حقیقی امن اور رواداری کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔

سیاسی حل، نہ کہ قوت کا استعمال

 دہشت گردی ایک تاریخی اور سیاسی مسئلہ ہے، جس کا مقابلہ دہشت گردی پر قابو پانے کی سیاسی اور غیرسیاسی حکمت عملی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی کی بلاشبہہ کوئی متفق علیہ تعریف موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے اقوام متحدہ میں اس مسئلے پر ۶۰برس سے بحث جاری ہے۔ اقوام متحدہ نے جہاں عام حالات میں سیاست میں قوت (violence) کے استعمال کو ناروا اور ناقابلِ قبول قرار دیا ہے، وہیں خاص سیاسی حالات میں حق خود ارادی کی مسلح جدوجہد کو ’دہشت گردی‘ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

قانون، سیاسیات اور سماجیات کے محققین اس پر متفق ہیں کہ ’دہشت گردی‘ کے اسباب کے تعین اور ان کے حل کے بغیراس سے نمٹنا ناممکن ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے  سیاسی حکمت عملی ہی مؤثر ہوسکتی ہے، گو کہ مخصوص حالات میں کچھ حدود کے اندر ریاستی قوت کے استعمال کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ محض قوت کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی بیش تر مساعی بُری طرح ناکام رہی ہیں اور ان کے نتیجے میں دہشت گردی میں بالعموم اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے دہشت گردی کو ملکی دستور اور قانون کے ڈھانچے میں اور سیاسی اور انسانی حالات کی روشنی میں حل کرنے ہی میں خیر ہے۔ ہر دوسرا راستہ ایسی قباحتوں اور خرابیوں کی طرف جاتا ہے جو انسانی معاشرہ، امن و امان، عدل و انصاف، جمہوریت اور آزادی کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہیں۔

امریکا کے تھنک ٹینک رانڈ کارپوریشن نے افغانستان میں ۱۲برس تک لڑی جانے والی جنگ کے پس منظر میں دنیا میں دہشت گرد تنظیموں، کارروائیوں اور مسلح تحریکوں کو قابو کرنے کی عالمی کوششوں کا جائزہ لیا ہے، اور اس رپورٹ کے نتائجِ تحقیق صاف اشارہ کررہے ہیں کہ بالآخر مذاکرات کے علاوہ کوئی اور راستہ مؤثر نہیں ہوتا۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی ان تمام دہشت گرد تحریکوں کے مقابلے اور بڑے خون خرابے کے بعد بالآخر جو حل نکلا ہے اس کی تصویر کچھ ایسی ہے:

  •  ۴۳ فی صد تحریکوں پر قابو پانے کے لیے خالص سیاسی راستہ اختیار کرنا پڑا، جو کامیاب رہا۔
  •  ۴۰ فی صد میں سیاسی راستے کے ساتھ اور ایک تائیدی حربے کے طور پر سول پولیس کو استعمال کیا گیا اور بالآخر سول نظام کے دائرے میں مسائل حل ہوئے۔
  •  ۱۰ فی صد میں سرکاری قوتوں کو شکست ہوئی، دہشت گرد تحریک کامیاب ہوئی اور سیاسی تبدیلی واقع ہوئی۔
  •  ۷ فی صد میں فوجی قوت کے استعمال سے دہشت گردی کو ختم کیا جاسکا۔

جن مقامات پر قوت کے ذریعے سیاسی بنیادوں پر رُونما ہونے والی دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، ان میں سب سے زیادہ ’کامیاب مثال‘ سری لنکا کی پیش کی جاتی ہے جہاں ۱۹۸۳ء میں تامل ٹائیگرز نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ خودکش بمباری کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا ’سہرا‘ بھی انھی کے سر ہے۔ سری لنکا کے ایک صدرمملکت اور ایک فوجی سربراہ کو بھی انھوں نے دہشت گردی کا نشانہ بناکر ہلاک کیا۔ ۲۶سال پر پھیلی ہوئی اس دہشت گردی اور اس کے خلاف فوجی قوت کے بے دریغ استعمال میں ۴۰ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ۳۰ہزار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عام شہری تھے۔ ۲۰۰۹ء میں سری لنکن فوج کو غلبہ حاصل ہوا، لیکن ایسی بے دردی سے قتل عام کے بعد کہ پوری دنیا چیخ اُٹھی اور چارسال سے اس نسل کشی (genocide) کے خلاف دنیابھر میں آواز اُٹھائی جارہی ہے اور سری لنکا کی سیاسی اور فوجی قیادت پر جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا مطالبہ ہورہا ہے۔

اگر ہم سری لنکا کے مخصوص جغرافیائی، نسلی، لسانی اور تاریخی پہلوئوں سے صرفِ نظر بھی کرلیں اور اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیں کہ یہ مسئلہ ایک مخصوص اور محدود علاقے اور اس کی خودمختاری یا آزادی سے متعلق تھا، تب بھی جس قیمت پر یہ فتح حکومت کو حاصل ہوئی، وہ عسکری حل کو دوسروں کے لیے پُرکشش نہیں بناسکتا۔ لیکن تعجب ہے کہ ہمارے ملک کا لبرل سیکولر طبقہ اور امریکی اور بھارتی لابی کے ہم نوا بڑھ چڑھ کر اس خونیں حکمت عملی کے اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں اور اخبارات اور ٹی وی کے ٹاک شو اس سے بھرے پڑے ہیں، لیکن تاریخ اپنا لوہا منوا کر رہتی ہے۔

ابھی ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو سری لنکا میں علاقائی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان کے نتائج نے اس حکمت عملی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ جافنا اور تامل علاقے میں TNA (The Tamil National Alliance) جو سابق تامل ٹائیگرز کا سیاسی محاذ تھا، اسے ان انتخابات میں حیران کن کامیابی ہوئی ہے۔ صدر راجا پاکسا کی پارٹی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹی این اے نے ۳۸میں سے ۳۰ نشستیں حاصل کی ہیں، جب کہ صدر مہندرا راجا پاکسا اور ان کے اتحادیوں کی کولیشن کو صرف سات نشستیں ملی ہیں۔ ایک نشست مسلمانوں کی جماعت نے حاصل کی ہے۔

رائٹر کے نمایندے نے اسے صدر راج پاکسا کے لیے، جو ۲۰۰۵ء سے صدر ہیں، ’شرمناک شکست‘ قرار دیا ہے۔ اس نے عوام کے اس فیصلے کو اس انتخاب کا اصل پیغام قرار دیا ہے: ’’یہ بین الاقوامی برادری کے لیے ایک بھرپور پیغام ہے کہ تاملوں کی ضرورت ایک سیاسی حل ہے‘‘۔

اس انتخاب میں ۶۸ فی صد نے ووٹ ڈالے اور ٹی این اے نے جافنا جو تحریک کا مرکز ہے، اس میں ۸۴ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ اس کے علاوہ دوسرے ملحقہ علاقوں میں بھی ان کو    ۸۱فی صد اور ۷۸ فی صد ووٹ ملے۔ یہ ہیں وہ تمام علاقے، جہاں فوج نے اندھی قوت کے ذریعے تحریک کو ختم کیا تھا، مگر پہلا موقع ملتے ہی عوام نے انھی مطالبات اور ایشوز کو اُٹھا دیا، جن کو ختم کرنے کے لیے عسکری آپریشن اختیار کیا گیا تھا اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ سُلاکر امن کا پیغام دیا تھا۔ ٹی این اے کے فتح یاب نمایندے ایم اے سماندھیران نے صاف الفاظ میں اعلان کیا ہے :

ہم نے جو سیاسی موقف اختیار کیا تھا، یہ اس کی ایک بڑی تائید ہے۔ ہمارے عوام تشدد اور دھمکیوں کے سامنے جھکے نہیں، کھڑے رہے ہیں۔ اب صدر کو اس فیصلے کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ (ڈیلی سٹار، ۲۲نومبر ۲۰۱۳ء)

ٹی این اے نے مزید مطالبہ کیا ہے کہ: ’’تمام علاقے سے فوج واپس بلائی جائے، جس نے علاقے میں بے پناہ مظالم کیے ہیں‘‘۔ عالمی سطح پر بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوج کی زیادتیوں پر محاسبہ ہو، عالمی قوانین کے مطابق ان سب لوگوں پر مقدمہ چلایا جائے جو جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور سیاسی مفاہمت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اس سارے خون خرابے کے بعد بات پھر سیاسی حل ہی پر آکر رُکی ہے اور امریکا کے دانش ور بھی اس کی تائید کر رہے ہیں۔

’دہشت گردی‘ کے مسئلے کا کوئی حل سیاسی گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے سوا نہیں۔ یہ نہ کسی کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس عمل کو بروقت اور صحیح انداز میں کیا جائے یا بعد از خرابیِ بسیار___ ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ اس عمل کو سبوتاژ کرانے میں امریکا، بھارت اور اسرائیل کا ہاتھ ہے اور ان کے گماشتے یہ کھیل کھیل رہے ہیں___ بلاواسطہ بھی اور بالواسطہ بھی۔ حالانکہ افغانستان میں خرابیِ بسیارکے بعد امریکا سیاسی حل کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے اور    ؎

آنکہ داناں کند ، کند نادان
لیک بعد از خرابیِ بسیار

کی تصویربنا ہوا ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل نے امریکا کے طور طریقوں کے بارے میں ایک بار بڑی پتے کی بات بڑے لطیف انداز میں کہی تھی جو آج بھی حقیقت کا رُوپ دھارتی نظر آرہی ہے، یعنی:’’ہم، امریکیوں کو ہمیشہ ان لوگوں میں شمار کرسکتے ہیں، جو صحیح کام تب کرتے ہیں جب وہ دوسرے تمام ذرائع کو ہرطرح سے آزما چکے ہوتے ہیں‘‘۔

امریکا اور برطانیہ کے بڑے خصوصی تعلقات ہیں، اس لیے بالآخر امریکا ان سے صحیح معاملہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے، لیکن پاکستان اور دوسرے ممالک اتنے خوش نصیب کہاں___ وہ تو غلط اقدامات کی چکّی ہی میں پستے رہتے ہیں۔

۱۲سالہ جنگ، کس قیمت پر؟

افغانستان پر امریکی حملہ عالمی قانون، عالمی چارٹر براے انسانی حقوق، ریاستی حاکمیت،  حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اپنے چارٹر اور خود امریکی دستور سے بھی متصادم تھا۔ لیکن طاقت کے زعم، سیاسی اور معاشی غرور و استکبار اور جذبۂ انتقام سے سرشار امریکی قیادت نے قانون کے راستے کو ترک کرکے، اندھی قوت کا استعمال کیا اور چھے ہفتے میں افغانستان کو خاک و خاکستر بنانے، القاعدہ کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے اور طالبان کو ان کی حکم عدولی کی سزا دینے کے لیے ایک ’گلوبل وار آن ٹیررزم‘ کا آغاز کیا۔ ۱۲برس پر پھیلے ہوئے خون خرابے کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اب افغانستان سے بے نیل و مرام نکلنے اور طالبان سے مفاہمت اور مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔

امریکا اور ناٹو کے ۴ہزار سے زیادہ فوجی افغانستان میں ہلاک ہوچکے ہیں، جو۱۱ستمبرکے واقعے میں جاں بحق ہونے والوں سے زیادہ ہیں۔ زخمی ہونے اور اپاہج ہوجانے والے فوجیوں کی تعداد ۳۰ہزار سے زائد ہے۔ جو امریکی فوجی واپس ہوئے ہیں، ان میں خاص طور پر اور خود ان فوجیوں میں جو افغانستان میں ہیں خودکشی عام ہے۔ پھر وہی افغان فوج اور پولیس جسے اربوں ڈالر خرچ کر کے اور بڑے چائو کے ساتھ تربیت دے کر طالبان کے مقابلے کے لیے تیار کیا گیا تھا، اس کے جوانوں نے امریکی اور ناٹو فوجیوں ہی پر حملے شروع کردیے ہیں اور اس کے لیے Green on Blue  (سبز بمقابلہ نیلا) کی نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ اب خود افغان فوج اور امریکی اور ناٹو کی افواج ایک ہی محاذ پر کھڑی نظر نہیں آتیں۔ نہ صرف اعتماد کا رشتہ ختم ہوچکا ہے بلکہ عملاً بھی ان کے درمیان رابطے کو کم کیا جارہا ہے، بلکہ امریکی افواج کو افغان افواج سے محفوظ رکھنے کی تدابیر بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ بن گئی ہیں۔

جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکی حکام نے اس پر بُرا منایا تھا کہ تھنک ٹینکس اور کچھ فوجی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس جنگ کے ذریعے امریکا پر ۱۰۰؍ارب ڈالر کی چپت پڑسکتی ہے۔ لیکن تجربہ اور مشاہدہ یہ بتارہا ہے کہ امریکا کو فوج اور افغانستان پر ۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زیادہ ہرسال خرچ کرنا پڑرہے ہیں اور صرف افغانستان میں ان ۱۲برسوں میں ۱۲۰۰؍ارب ڈالر کا بوجھ امریکی معیشت پر پڑچکا ہے۔ اگر عراق کی جھوٹ پر مبنی جنگ کے اخراجات اور یمن وغیرہ میں دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے اخراجات کو بھی شامل کرلیا جائے تو بلاواسطہ اخراجات ۳ہزار ارب ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن اگر بلواسطہ معاشی بوجھ کا اندازہ کیا جائے تو وہ ۵ہزار ارب ڈالر سے متجاوز ہیں، جو امریکا کے سالِ رواں کے کُل جی ڈی پی کا ۳۰ فی صد بن جاتا ہے۔

پھر اس جنگ کا جو کردار ۲۰۰۸ء سے رُونما ہونے والے معاشی بحران کے باب میں رہا ہے، اس کا بھی جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا اس جنگ کے عذاب میں جھلستی نظر آرہی ہے۔ امریکا میں ۲ہزار۹سو افراد کی ہلاکت ایک سانحہ تھا، جس کی تمام دنیا نے مذمت کی۔ خود طالبان نے سرکاری طور پر اور مُلّاعمرنے اپنے بیان میں اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ سابق افغانی صدر اور طالبان کے مخالف پروفیسر برہان الدین ربانی نے نہ صرف مذمت کی، بلکہ دعوے سے کہا کہ افغانستان سے کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی کوئی کارروائی کرسکے یا کرواسکے۔ لیکن جرم بے گناہی کی سزا میں ڈیڑھ لاکھ افغان موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، اور ۳۰لاکھ ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔

اسی طرح عراق میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۰لاکھ بتائی جاتی ہے، جس میں ۵لاکھ بچے بھی ہیں۔ خود پاکستان میں ۴۰ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں فوجی جوانوں اور افسران کی تعداد ۵ہزار سے متجاوز بتائی جاتی ہے، جب کہ کتنے اصل دہشت گرد مارے گئے کسی کو علم نہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کی نگاہ میں اپنے چند ہزار فوجیوں یا عام شہریوں کی ہلاکت تو اہمیت رکھتی ہے، لیکن باقی دنیا میں صرف اس ۱۲سالہ جنگ میں کتنے معصوم انسانوں کو لقمۂ اجل بنادیا گیا ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ حالانکہ جو کردار امریکا نے اس جنگ میں اختیار کیا ہے، اس کے بارے میں ہرآزاد اور باضمیر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ امریکی اور ناٹو قیادت نے انسانیت کے خلاف بڑے پیمانے پر جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اسے ایک نہ ایک دن ان کا حساب دینا ہوگا۔

امریکی راے عامہ کی نظر میں

 یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ امریکا افغانستان اور پوری دنیا میں اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہارچکا ہے۔ عراق سے ذلیل و خوار ہوکر اسے نکلنا پڑا، البتہ عراق کو اس نے   تباہ کردیا اور وہاں آج بھی خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ امریکا نے اس جنگ کے آغاز میں ایک دعویٰ کیا تھا کہ اس جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا، مگر عملاً دنیابھر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ القاعدہ جو افغانستان میں ایک پناہ گزین گروہ تھا، اب دنیا کے طول و عرض میں ایک قوت بن گیا ہے۔ اگرچہ امریکیوں کے دعوے کے مطابق اس کی مرکزی تنظیم کمزور ہوگئی ہے، لیکن اس ایک القاعدہ کے بطن سے اب درجنوں القاعدہ گروہ رُونما ہوگئے ہیں۔ جو راستہ انھوں نے اپنے حالات کی مجبوری میں اختیار کیا تھا، وہ اب دنیا کے دوسرے حصوں میں بلاروک ٹوک اختیار کیا جا رہا ہے اور امریکا کے تمام دعوے خاک میں مل گئے ہیں۔

امریکی خود جنگ سے تنگ آگئے ہیں۔۱۲برس کے کارناموں کا حاصل یہ ہے کہ اب امریکا میں بھی راے عامہ کے تمام جائزے یہ بتارہے ہیں کہ عوام جنگ سے تنگ ہیں اور تازہ ترین سروے کے مطابق ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد ۲۰۰۲ء میں امریکی آبادی کی جتنی عظیم اکثریت (۷۵ فی صد) اپنے کو غیرمحفوظ سمجھ رہی تھی، ۲۰۱۳ء میں بھی عدم تحفظ کی یہی صورت حال برقرار ہے۔ شام پر فوج کشی کے عندیہ کا اظہار کرکے خود امریکی وزیرخارجہ جان کیری کو کہنا پڑا: ’’امریکی عوام جنگ سے بے زار ہیں اور میں بھی بے زار ہوں‘‘ لیکن پھر ٹیپ کا بند وہی تھا کہ عالمی قانون اور ریڈلائنز کی حفاظت کے لیے فوجی قوت استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

فارن افیئرز امریکا کا مؤقر ترین مجلہ ہے۔ اس کے تازہ ترین شماروں میں اس جنگ اور اس میں استعمال ہونے والے ذرائع، خصوصیت سے ڈرون حملوں کی ناکامی کا واشگاف اعتراف کیا گیا ہے۔ اپنے مضمون Why Drones Fail? میں پروفیسر اوڈری کورتھ کرونن اعتراف کرتا ہے:

ڈرون حملوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ القاعدہ کا پروپیگنڈا بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا ہے، بلکہ انھوں نے اس میں نمایاں طور پر اضافہ کردیا (فارن افیئرز، جولائی/اگست ۲۰۱۳ء،ص ۴۶)۔

وہ کہنے پر مجبور ہے کہ:

پُرتشدد جہادیت، جو نائن الیون سے بہت پہلے بھی موجود تھی جب ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ آخرکار ختم ہوگی تو اس کے بعد بھی طویل عرصے تک جاری رہے گی۔

اور یہ کہ:

 واشنگٹن اب اپنے آپ کو جغرافیائی طور پر پھیلے ہوئے غیرمتعین دشمن کے ساتھ ایک مستقل جنگ میں پاتا ہے، جس کا نائن الیون کے اصل سازش کرنے والوں کے ساتھ بڑا ہی موہوم تعلق ہے۔ اس نہ ختم ہونے والے مقابلے میں امریکا کے لیے اپنے دشمنوں کے تعداد میں بہت بڑھ جانے اور ملک پر حملہ کرنے کے ان کے جذبے میں اضافے کے اندیشے ہیں (ص ۴۸)۔

ڈرون حملوں سے امریکا کو جو کچھ حاصل ہورہا ہے وہ منفی ہے:’’لیکن اس وقت واشنگٹن جو واحد یقینی کام کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ امریکا کے لیے عالمی حمایت کم ہوجائے اور مقامی آبادی اس سے برگشتہ ہوجائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۰)

فارن افیئرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر /اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں علم سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون Ending the War in Afghanistan میں صاف اعتراف کیا ہے کہ اب امریکا کے سامنے مکمل شکست یا طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں:

اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں، جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں ہے: ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں۔ یہ کوئی امرت نہیں ہے لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔ (ص ۵۰)

حالات کے مفصل جائزے کے بعد لکھتا ہے: ’’طالبان کے ساتھ صلح ایک کڑوی گولی کی طرح نگلنا ہوگی، مگر اس مرحلے پر یہ دوسرے متبادل کے مقابلے میں کم درجے کی قربانی ہوگی‘‘۔(ص۵۵)

اسے اعتراف ہے کہ مشکلات حائل ہیں، لیکن پھر بھی راستہ یہی ہے۔ انجامِ کار اس کا برملا مشورہ اس کڑوی گولی کو نگلنا ہی ہے:

مذاکرات کی بنیاد پر تصفیے میں رکاوٹیں بہت ڈرانے والی ہیں، تاہم اس طرح کا معاملہ ابھی بھی افغانستان میں امریکا کے لیے سب سے آخری بُرا متبادل ہے۔ اگر وائٹ ہائوس تصفیے کی ایک سنجیدہ کوشش کی قیمت قبول کرنے کے لیے رضامند نہیں ہے ، تو پھر یہ وقت ہے کہ امریکا اپنے نقصان کم کرے اور افغانستان سے ابھی باہر آجائے۔(ص ۵۷)

انگلستان کے مؤقر جریدے Prospect (پراسپیکٹ)نے ستمبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں ایک پورا حصہ جس موضوع کے لیے وقف کیا، وہ یہ ہے:

Admit it - We Lost: Why did the Afghan war go wrong?

تسلیم کرو! ہم ہار گئے ہیں: افغان جنگ کیوں غلط تھی ؟

مضمون نگار رسالے کا مدیر ہے اور اس نے صاف الفاظ میں اس ۱۲سالہ ناکام تجربے کے بارے میں کہا ہے کہ: ’’یہ جنگ غلط تھی۔ ہمارے سارے دعوے حقیقت پر مبنی نہیں تھے‘‘ اور یہ کہ انگلستان کے لیے یہ جنگ نہ صرف ناکام جنگ تھی، بلکہ ناکام ترین جنگ ثابت ہوئی، جو عراق میں جنگ کی شکست سے بھی کچھ زیادہ ہی ناکام رہی۔ وہ افواج جو افغانستان کو امن اور سلامتی فراہم کرنے اور طالبان کا قلع قمع کرنے کے لیے گئی تھیں، ان کا سپریم کمانڈر ،یعنی ملک کا وزیراعظم  اب یہ کہنے پر مجبور ہے کہ: ’’طالبان کے ان سارے ’دقیانوسی خیالات‘ اور ’غیرمہذب طور طریقوں‘ کو بھول کر، جو جنگ کا سبب قرار دیے گئے تھے، ہم افغانستان میں امن اور استحکام چاہتے ہیں۔    ہم طالبان کی ان کے ملک میں واپسی چاہتے ہیں‘‘۔

برون وین مڈوکس نہ صر ف جنگ کی تباہ کاریوں کو بیان کرتے ہوئے شکست کا اعتراف کرتا ہے اور جنگ کے خاتمے اور افواج کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتا ہے، بلکہ ایک آزاد اور مؤثر تحقیقات کا بھی مطالبہ کرتا ہے، تاکہ جنگ میں جانے اور جنگ میں ادا کیے جانے والے کردار کا بھرپور محاسبہ ہوسکے اور آیندہ ایسے تباہ کن تجربات سے بچاجاسکے۔ شاید یہ اس جنگ کا سایہ ہی تھا جس نے برطانوی وزیراعظم کو شام پر فضائی حملہ کرنے کا شوق پورا کرنے سے محروم رکھا۔

سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے سبق

افغانستان میں جنگی ناکامی اور دہشت گردی کے مسئلے کے فوجی حل کے دیوالیہ پن اور سیاسی حل کی ضرورت پر حال ہی میں ایک بڑی دل چسپ کتاب شائع ہوئی ہے جس میں ہمارے سیاست دانوں اور عسکری قیادت کے لیے چشم کشا حقیقتیں درج ہیں۔ یہ کتاب افغانستان میں برطانیہ کے سابق سفیر شیرارڈکوپل نے اپنے افغانستان میں قیام کے دوران کی یادداشتوں پر مشتمل Cables from Kabul کے نام سے لکھی ہے جو ہارپر پریس لندن نے شائع کی ہے۔ اس کے مفصل اقتباسات دی سنڈے ٹائمز نے اپنی ۲۳جولائی ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع کیے ہیں۔ ان میں سے چند ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں، جو توقع ہے کہ اُن تمام افراد کے لیے بڑے مفید ہوں گے جو کُل جماعتی کانفرنس کے تجویز کردہ سیاسی حل اور مذاکرات کے ذریعے امن کی حکمت عملی کو ہدفِ تنقید بنارہے ہیں، بلکہ اس جنگ کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ مزید فوجی آپریشن کے ذریعے حالات کو بگاڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں:

آہستہ آہستہ یہ واضح ہوگیا کہ طالبان کمزور ضرور ہوئے ہیں، لیکن شکست سے بہت دُور ہیں۔ انھیں امن کے عمل میں مصروف کرنے کے بجاے امریکیوں نے یہ یقین کرنے کی تباہ کن غلطی کی کہ وہ طالبان کو محض طاقت سے شکست دے سکتے ہیں۔ عراق کی  غلط مثال کی پیروی کرتے ہوئے وہ فوجوں کی تعداد میں باربار اضافہ کرتے رہے۔

یہی نہیں افغانستان کے آزادی پسند لوگوں پر باہر سے دستور مسلط کیا گیا اور عوام اور مزاحمت کرنے والی قوتوں سے یورپ میں تیار ہونے والے اس دستور پر عمل کی توقع کی گئی: اس کے بعد ہم نے جو مہینے گزارے، ان میں ہم نے ایک امریکی کو یہ اجازت دے کر اپنی غلطی میں اضافہ کیا کہ وہ افغانوں پر ایسا دستور نافذ کرے، جو ایک فرانسیسی نے مرتب کیا تھا۔ یہ اٹھارھویں صدی کے یورپی دستوری نمونے کا مکمل چربہ تھا، جو افغانستان کے اصل سیاسی جغرافیے اور تاریخ کے بالکل خلاف تھا۔ اس میں اگلے ۲۰برسوں میں ۱۴قومی انتخابات تجویز کیے گئے تھے۔ دستوری کانفرنس میں موجود بیش تر افغان مندوبین کی خواہشات کے برعکس، بہت محبوب افغان بادشاہت کو بھی ختم کردیا گیا۔ یہ وہ دستور ہے جس کے لیے ہمارے سپاہی لڑ رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔

طالبان اور دوسرے آزادی پسند عناصر نے اگر کچھ لچک کا مظاہرہ بھی کیا، تو اس کا بھی ان کو کوئی مثبت ردعمل نہ ملا۔ نتیجتاً افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج جنگ کی دلدل میں مزید دھنستے چلے گئے۔ ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کوشش بھی کی، مگر لاحاصل:

القاعدہ سے علیحدگی کے واضح اشارے کے طور پر طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان کو ایک ایسے اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جہاں سے دوسرے ملکوں پر حملے کیے جائیں۔ اس بات کی شہادت بھی موجود تھی کہ پٹھان کسانوں میں جو سوچنے سمجھنے والے تھے اور جو طالبان کی افواج کا بیش تر حصہ تھے، وہ اپنے گھروں اور کھیتوں کو واپس جانا چاہتے تھے۔ مگر ان زیادہ معتدل رجحانات کے ساتھ کام کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے بجاے ناٹو کا جواب یہ تھا کہ: ’تشدد میں اضافہ کردیا جائے‘۔ ۲۰۱۰ء کے موسم گرما میں جب افغانستان میں کمانڈر کی حیثیت سے جنرل اسٹینلے کے بجاے جنرل ڈیوڈ پیٹرس آیا، تو اسپیشل فورسز کے فضائی حملوں اور رات کی کارروائیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ناٹو کے نئے کمانڈر کے آنے کے بعد فضا سے بمباری تین گنا بڑھ گئی۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر اوباما کے پہلے خصوصی نمایندے رچرڈ ہال بروک نے اپنے سفارتی کیریئر کا آغاز  جنوبی ویت نام میں خارجہ افسر کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف طاقت کا استعمال بغاوتوں کو دبا تو سکتا ہے، مگر ان کو ختم نہیں کرسکتا۔

امریکی حکمت عملی کا ایک اور اہم حصہ افغانستان میں اپنی پسند کے سیاست دانوں کو مضبوط کرنا اور اپنی خواہشات اور مفادات کے مطابق فوج اور پولیس تیار کرنا تھا۔ اس پر بھی اربوں ڈالر ہرسال خرچ کیے گئے، معاشی ترقی کے منصوبوں سے بھی زیادہ۔ مگر اس کا حشر بھی قابلِ دید ہے:

افغانستان کو مغربی فوجوں کے بجاے افغان فوجوں کے ذریعے گیریژن (حفاظتی نقطۂ نظر سے تعیناتی ) کی حکمت عملی کی کامیابی کی سب باتوں کے باوجود، افغان فوج اور پولیس کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں۔ مزید جیساکہ افغانستان کے ایک اعلیٰ برطانوی افسر نے بتایا ہے ساڑھے تین لاکھ کی فوج ہرسال ۵۰ہزار ملازمت سے بھاگنے والے برداشت نہیں کرسکتی۔

برطانوی سفیر کی نگاہ میں سیاسی حل ہی واحد حل ہے، جس کے بارے میں وہ بڑے وثوق سے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے، سفیرصاحب کے اس تجزیے میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے بھی بڑا سبق ہے، بشرطیکہ وہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان تاریخی حقائق پر غور کریں:

جیساکہ دنیا کے بیش تر تنازعات میں ہوتا ہے بشمول شمالی آئرلینڈ، وہی بات افغان جنگ کے لیے بھی درست ہے، یعنی وسیع حدود میں ایک ہی دانش مندانہ حل ہے۔

شمالی آئرلینڈ سے جو دوسرا سبق سیکھا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے آغاز سے ہی یہ یقینی بنایا کہ فوجی کوششیں ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوں، جو باغیوں کو نئے دستوری تصفیے میں کوئی مقام دیتی ہوں۔ بہت پہلے ۱۹۷۲ء میں، جو خونیں اتوار کا سال تھا، جب سیکرٹ انٹیلی جنس سروس کے بہادر افسروں کو اختیار دیا گیا کہ وہ آئرلینڈ کے  طول و عرض میں سفر کریں تاکہ پرویژنل آرمی کونسل کو یہ پیغام جائے کہ اگر IRA (آئرش ری پبلکن آرمی)تنازعے کو ختم کرنا چاہتی ہے تو مذاکرات کا راستہ کھلا ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ افغان جنگ میں امریکا ایک بہت آسان اور یک رُخے نقطۂ نظر پر جما رہا، یعنی کائوبوائے والا رویہ! سوچ کے دائرے بڑے محدود رہے:   اچھے لوگ اور بُرے لوگ، افغان افواج اور دہشت گرد طالبان۔ بیش تر امریکی گہرے قدامت پسند اور شدت سے مذہبی بنیاد پرست طالبان اور القاعدہ کے عالمی عرب جہادیوں کو ایک جیسا سمجھتے تھے۔

حالیہ دنوں تک اعتدال پسند طالبان سے معاملہ کرنا، تاکہ ان کے اور ان کے جنگ جُو،   نہ ماننے والوں کے درمیان دراڑ ڈال کر انھیں ان کے سابق عرب مہمانوں سے علیحدہ کردیا جائے، اس کا مغربی حکمت عملی میں کوئی حصہ نہ تھا۔ دہشت گردوں سے بات چیت کرنا ان کو ممنون کرنا سمجھا جاتا تھا۔ جرنیلوں کو اجازت دی گئی کہ وہ فوجی فتح کا نہ صر ف وعدہ کریں بلکہ زیادہ حیرت انگیز طور پر اس کا اعلان بھی کردیں۔

افغانستان کے اندر اور اس کے ہمسایوں کے درمیان امن کے لیے واحد قابلِ عمل راستہ مذاکرات ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب جب ناٹو سنجیدگی سے بات کرنا چاہ رہی ہے، شاید طالبان نہیں چاہ رہے۔ افغانستان کی تکالیف ابھی کچھ عرصہ جاری رہیں گی۔

افغانستان جانے سے پہلے ۲۰۰۷ء میں ناٹنگم شائر کے ایک کارکن نے مجھ سے کہا:   ’’تمھیں طالبان سے بات چیت کرنا پڑے گی‘‘۔ ہزاروں جانیں بچ جاتیں اور اربوں پائونڈ بچ جاتے اگر عقل عام کی اس معمولی بات پر تب عمل کرلیا جاتا، اب نہیں۔

کیا اب بھی یہ راستہ استوار ہوسکے گا؟ کہنا مشکل ہے، مگر راستہ اس کے سوا کوئی اور نہیں اور پاکستان میں تو افغانستان کے مقابلے میں ۱۰ہزار گنا زیادہ ضروری ہے۔ وہی قومی سلامتی پالیسی بارآور ہوسکتی ہے، جو حقائق پر مبنی ہو اور تاریخی حقائق، اور ہمارے حالات اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنائی جائے۔ ملک اس وقت بڑے نازک مرحلے میں ہے اور طالبان کا نام لینے والے چند عناصر کی کارستانیاں بھی ایک منفی کردار ادا کررہی ہیں اور اس سمت میں ملک کو دھکیل رہی ہیں،  جو علاقے کے لیے امریکی اور بھارتی عزائم کے لیے مفید اور ملک کی سیکولر لبرل لابی کی تمنا ہے۔

سیاسی عمل اور مذاکرات کو آغاز سے پہلے ہی سبوتاژ کرنے کے لیے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا جارہا ہے کہ بات چیت سے پہلے یہ اصول تسلیم ہونا چاہیے کہ دوسرا فریق دستور کو تسلیم کرے اور اس کے فریم ورک میں مذاکرات ہوں۔ سیاست، اور جنگ اس کا ایک حصہ ہے، کام ہی دوستوں اور دشمنوں دونوں سے معاملات کرنے کا ہے۔عین جنگ کے عالم میں بھی مذاکرات ہوتے ہیں اور  فتح و شکست سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہائی جیکنگ اور اغواکاری کے واقعات بڑے تلخ اور صبرآزما ہوتے ہیں لیکن ہائی جیکر اور اغواکار سے بھی معاملات کیے جاتے ہیں۔ ایجاب و قبول کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ دستور کو پہلے منوانے کی بات وہ سیاسی بقراط بھی کررہے ہیں جو خود دستور کی اساس___ یعنی اسلام اور قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے کھلے کھلے داعی ہیں۔ جن کی دستور سے وفاداری کا عالم یہ ہے کہ وہ  کسی بھی بنیادی معاملے میں دستور کے واضح احکام پر اپنی راے کو فوقیت دینے اور دستور کے نفاذ کو بے اثر ( subvert)کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ دستور سود کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، وہ سود کے محافظ ہیں۔ دستور فحاشی اور بداخلاقی کی مخالفت کرتا ہے، وہ اس کے فروغ میں مصروف ہیں۔ دستور قرآن و سنت کی تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کو دین کے ہراثر سے پاک کردینا چاہتے ہیں۔ دستور قانون کی حکمرانی کا داعی ہے اور مقررہ قانونی کارروائی (due process of law)  کے بغیر کسی شہری کو اس کی آزادیوں سے محروم نہ کیے جانے کی ضمانت دیتا ہے، اور ان کا عمل یہ ہے کہ ہزاروں افراد لاپتا ہیں اور ریاست کی عمل داری (writ) کی کسی کو فکر نہیں۔ پھر جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے، اس علاقے کو تو دستور کے ان پاسبانوں نے دستور کی دسترس سے خود ہی باہر کردیا ہے اور دوسروں سے دستور کو پہلے ماننے کی بات کررہے ہیں۔ ہم بھی دل سے دستور کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے لیے سرگرم ہیں لیکن جن حالات میں ملک کو ان حکمرانوں نے جھونک دیا ہے ان سے نکلنے کے لیے حکمت اور تدبیر کے ساتھ انسانی تاریخ کے کامیاب تجربات کی روشنی میں راستہ نکالنا ہوگا اور سیاسی عمل کو مؤثر بنانے کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں یا ڈالی جارہی ہیں ان کو دُور کرنا ہوگا۔ اس دلدل سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔

 اُوپر کی بحث کی روشنی میں نئی سلامتی پالیسی کیا ہونی چاہیے اور اسے کن کن پہلوئوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے؟ اس کے لیے چند اشارات پیش کیے جارہے ہیں۔

سلامتی پالیسی کے لیے رھنما خطوط

۱- قومی سلامتی کی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ اسے عوام کی تائید حاصل ہو۔ حکومت کی  اور عوام کے جذبات،احساسات، توقعات اور عزائم میں اگر بُعد ہوگا تو وہ پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دہشت گردی کے سلسلے میں جنرل مشرف کے دور سے جو پالیسیاں ملک پر مسلط کی گئی ہیں، ان کو قوم کی تائید حاصل نہیں رہی اور صحیح نتائج نہ نکلنے میں بڑا دخل اس اندرونی تضاد کا ہے۔

۲- دہشت گردی کے مسئلے کی اصل حقیقت کو سمجھے بغیر کوئی پالیسی نہیں بن سکتی۔ اس مسئلے کے کم از کم چار پہلو ایسے ہیں، جن کا سمجھنا اور ان کی روشنی میں صحیح پالیسی بنانا ضروری ہے:

اوّل: مسئلے کا گہرا تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی، علاقے کے بارے میں امریکی پالیسی اور اس پر عمل درآمد بشمول ڈرون حملے، پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت، معیشت اور فوج کے معاملات پر ان کے اثرات، افغانستان میں ان کی کارروائیاں اور ان کے پاکستان پر اثرات سے ہے۔ اس لیے محض دہشت گردی کے خلاف پالیسی کے کوئی معنٰی نہیں۔ خارجہ پالیسی، افغانستان میں امریکا کا کردار اور پاکستان کی اس میں شرکت اور خود پاکستان میں اس کے اثرات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو الگ کر کے کوئی مؤثر پالیسی نہیں بنائی جاسکتی۔ یہ وہ بنیادی بات ہے، جس کو پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء، اور ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قراردادوں میں واضح کیا گیا ہے اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی نے اس پر تفصیلی ۶۰نکات سے زیادہ پر مبنی اپنی رپورٹ دی ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔

دوم: دہشت گردی کے خلاف پالیسی اور بغاوت کے خلاف پالیسی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان کو گڈمڈ کرنے کے نتائج بڑے خوفناک ہوسکتے ہیں۔ سری لنکا کی مثال سرکاری حلقے اور میڈیا باربار دے رہے ہیں، لیکن وہ اس مغالطے پر مبنی ہے کہ بغاوت کے خلاف پالیسی کو دہشت گردی کے خلاف پالیسی بنایا جاسکتا ہے۔ سری لنکا کا مسئلہ کئی اور پہلوئوں سے بھی مختلف ہے اور اس کی بھی جو قیمت قوم کو دینا پڑی ہے اور مسلسل دے رہی ہے، وہ ایک الگ پہلو ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ اور ملک میں مستقلاً آمرانہ نظام کا قیام الگ پہلو ہے، لیکن اپنی اصل اور جوہر کے اعتبار سے وہ پالیسی دہشت گردی کے خلاف مؤثر نہیں ہوسکتی۔

سوم: پاکستان میں جس چیز کو دہشت گردی کہا جا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ افغان طالبان الگ شے ہے۔ جسے پاکستانی طالبان کہا جاتا ہے، وہ بھی مختلف عناصراور گروہوں کا مرکب ہے، جس میں باہم کوئی ربط یا وحدتِ نظم نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد ایک الگ شے ہے۔ مرکز گریز اور علیحدگی پسندی کے لیے کام کرنے والے گروہ مختلف نوعیت کا چیلنج پیش کرتے ہیں، جب کہ عام مجرموں نے جس طرح اس صورت حال کا فائدہ اُٹھایا ہے یا کچھ مخصوص سیاسی اور  مذہبی گروہوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے لیے الگ الگ حکمت عملی اور اقدام کی ضرورت ہوگی۔اسی طرح کراچی کا مسئلہ اپنا الگ رنگ رکھتا ہے اور اس میں  سیاسی اور دوسرے عناصر سے نبٹنے کے لیے الگ حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔

چہارم: ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی، شدت پسندی، تشدد، فرقہ واریت، عدم رواداری ___ ہر ایک کا اپنا مخصوص مسئلہ ہے اور اصلاح کا راستہ مختلف ہے۔ ان سب کو باہم دگر ملادینا سخت نقصان دہ اور غیرحقیقت پسندانہ پالیسی ہے۔

ان چاروں پہلوئوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ہر پہلو کے لیے الگ پالیسی اور اقدامات درکار ہوں گے۔ یہ سب مجموعی قومی سلامتی پالیسی کے اجزا ہوں گے، لیکن ہر ایک کو مجموعی پالیسی کے فریم ورک میں  دیکھنا ہوگا۔

۳- بنیادی مسئلے کا حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، لیکن دوسرے متعلقہ پہلوئوں کے لیے دستور اور قانون کے دائرے میں ریاستی قوت کا صحیح استعمال بھی درکار ہوگا۔ اس کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے، ان سب کا اہتمام ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کی قراردادوں میں یہ بار بار کہا گیا کہ مسئلے کا اصل حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ البتہ اس کے لیے اپنے اپنے دائرے میں اور اپنے اپنے آداب کے ساتھ پیش رفت اور رکاوٹ (deterrance) دونوں ضروری ہیں۔ موجودہ حالات میں اس فریم ورک میں نیا نقشۂ کاربنانا ہوگا۔

۴- حکومت کی پالیسی کی سطح پر ناکامی کے ساتھ پانچ مزید پہلو ہیں، جن کے لیے مناسب اقدام کرنے ہوں گے:

  •                خفیہ معلومات کی فراہمی میں ناکامی اور  متعلقہ اداروں میں باہمی رابطے کی کمی۔
  •                پولیس، انتظامیہ اور انٹیلی جنس میں سیاسی اثرونفوذ، تقرریاں اور سیاسی عناصر کا کردار۔
  •                سیاسی قیادت اور انتظامیہ کی نااہلی، جانب داری، سیاسی مفاد پرستی یا مفاہمت ۔
  •                مرکز اور صوبوں میں ہم آہنگی کی کمی۔
  •                سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی کی کمی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جواب دہی میں ناکامی۔

کوئی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ان پانچ اُمور کو صحیح طور پر طے نہ کرلیا جائے۔

۵-پاکستانی سیاست، دہشت گردی کے خلاف اقدام، مذہبی منافرت، علیحدگی پسندی کی تحریکیں، ان سب میں بیرونی قوتوں کے کردار کو محض ’سازش‘ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔  یہ مداخلت اور کردار بھی ایک حقیقت ہے اور اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کئی ممالک اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار خطرناک حد تک موجود ہے۔ امریکا اور بھارت بڑے کردارہیں لیکن مقامی قوتیں بھی اپنا اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ جامع پالیسی کے ذریعے ان تمام پہلوئوں کا بھی پورا پورا توڑ کرنا ضروری ہے۔

۶- قومی سلامتی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام پہلوئوں کا اِدراک کیا جائے اور حقیقت پسندی، جرأت، بیرونی دبائو سے آزاد ہوکر، قومی مفاد میں اور قوم کو اعتماد میں لے کر اس کے عزائم اور احساسات کی روشنی میں اسے تشکیل دیا جائے۔ اس سلسلے میں اس وقت برطانیہ کی اس مثال کو پیش نظر رکھا جائے کہ برطانوی حکومت جو شام پر حملہ کرنا چاہتی تھی، اسے کس طرح پارلیمنٹ اور عوام کی راے کے دبائو میں پالیسی بدلنا پڑی ہے۔ امریکا میں بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان میں عوام کی راے کو جس بے دردی سے نظرانداز کیا گیا وہ مہلک تھا۔ اب اس روش کو یکسر تبدیل ہونا چاہیے اور نئی پالیسی تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر بنانے کی ضرورت ہے۔

۷-یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے، کہ اس نوعیت کے تنازعات اور دہشت گردی کے باب میں پیدا ہوجانے والے حالات میں مذاکرات کا کوئی ایک ٹریک نہیں ہوسکتا۔ نیز مذاکرات  ٹی وی شو کے ذریعے نہیں کیے جاتے۔ ہمارے مخصوص حالات میں اس امر کی ازبس ضرورت ہے کہ مذاکرات، مذاکرات سے پہلے کے اقدام اور ان کی ترجیحات، مذاکرات کے اصل اہداف اور سب سے بڑھ کر ملک کے حالات اور علاقے کی روایات کی روشنی میں بہت سوچ سمجھ کر، مشاورت کے ساتھ اور اپنے حالات کی مناسبت سے ترتیب دیا جائے۔

۸- یہ امر بھی سامنے رہے کہ مذاکرات اور پورے سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے والی قوتیں بہت سرگرم ہیں اور ہوشیار بھی ہیں۔ ان تمام خطرات، رکاوٹوں اور دراندازیوں کی بھی پیش بندی کرنا ہوگی جو اس نوعیت کے حالات کا لازمی حصہ ہیں۔ اس کام کے لیے اہداف کا صحیح صحیح تعین، روڈمیپ کا شعور اور اس کی تیاری، مفید قوتوں سے تعاون اور مخالف اور مذاکرات کو درہم برہم کرنے والی قوتوں کو قابو کرنے اور ان کے شر سے اس عمل کو محفوظ بنانے کے لیے کب اور کون سی تدابیر ضروری ہیں، ان کا اِدراک اور اہتمام بھی ضروری ہے۔ ایسے پیچیدہ حالات میں غیرحکیمانہ حل کی تلاش اور جلدبازی میں حکمت عملی میں تبدیلیاں تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ان مسائل کی اہمیت اور پیچیدگیوں کو سامنے رکھ کر حکمت اور استقامت کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے اور راستے کی مشکلات اور مواقع کو سامنے رکھ کر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی قومی اہداف کے  حصول کے لیے کوشش کی جائے، اور کسی بھی معاملے کو اَنا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور جذبات اور اندرونی و بیرونی دبائو، دونوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے___ وما علینا الا البلاغ

 

۱۹۶۳ء میں ماہنامہ چراغِ راہ کے ’تحریک اسلامی نمبر‘ میں مَیں نے ایک طالب علمانہ کوشش یہ کی تھی کہ مولانا مودودیؒکی ان تحریروں کو جو ترجمان القرآن میں جماعت اسلامی کے قیام سے پہلے شائع ہوئی تھیں، اور جو باقاعدہ لٹریچر کا حصہ نہیں تھیں، مگر تحریک، اس کی تاریخ، اس کے مزاج اور سب سے بڑھ کر داعی کے افکار و احساسات، جذبات و محرکات اور عزائم کی آئینہ دار تھیں، ان کو جمع کروں۔یہ تحریر تحریک اسلامی: ایک تاریخ، ایک داستان کے عنوان سے شائع ہوئی اور پھر کتابی شکل میں بھی اسے شائع کیا گیا۔ یہ داستان ہماری تاریخ کے ایک ایسے باب سے متعلق ہے جس سے بعد کے اَدوار میں تحریک سے وابستگی اختیار کرنے والے بالعموم واقف نہیں تھے، حالانکہ یہ تحریریں تحریک کے مزاج اور اس کی روح کو سمجھنے کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔

’منشورات‘ اس کتاب کا نظرثانی شدہ دوسرا اڈیشن شائع کر رہا ہے۔ اس موقع پر مَیں نے ضروری سمجھا کہ اس تحریر کی شکل میں تحریک کے فراہم کردہ تصورِ دین کو جو قرآن و سنت پر مبنی ہے، اور منہجِ نبویؐ کی صحیح ترجمانی ہے، مختصر الفاظ میں پیش کردوں۔ یہ کتاب میںبطور ’مقدمہ‘ شامل ہے۔ مدیر

زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اللہ اور اس کی عنایت کی ہوئی وہ نعمتیں ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اگر ہم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہیں تو انھیں گن نہیں سکتے۔ بلاشبہہ وہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے (وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَااِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo النحل ۱۶:۱۸)۔ یہ محض ایک معروضی سچ کا اعتراف ہی نہیں، ہرباشعور انسان کا ہرلمحے واقع ہونے والا تجربہ بھی ہے___ اور اس پر اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے ، کم ہے۔

اپنی زندگی پر غور کرتا ہوں تو دل شکر کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے کہ خالق کائنات نے اپنے کرم سے انسان بنایا، ورنہ جمادات، نباتات، حیوانات، کسی بھی دائرے میں وجود بخش سکتا تھا۔ پھر انسان ہی نہیں بنایا، مسلمان گھرانے میں پیدا کیا جس کی بدولت ایمان کی دولت شیرِمادر کے ساتھ میسر آئی۔ دنیا میں زندگی کے سفر کا آغاز کلمہ اور اذان کی آواز سے ہوا، اورایک اچھے دینی گھرانے میں پرورش کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر جس دور میں زندگی بخشی وہ بڑا انقلابی اور تبدیلیوں کا دور تھا۔ پیدایش برطانوی سامراج کے دور میں ہوئی۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں آزادی کی جدوجہد میں شرکت نصیب ہوئی، اور پھر ایک آزاد مسلمان ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور زندگی کے سفر کی اگلی منزلیں طے کرنے کا موقع ملا۔ پھر آزادی ہی کی نعمت سے نہیں نوازا بلکہ اُس دور میں شعور کی آنکھیں کھولنے کا موقع ملا جب برعظیم میں تحریکِ اسلامی بھی سرگرمِ عمل تھی ورنہ کتنی ہی نسلیں ہیں جو ایسے کسی دور کو نہ پاسکیں جب غلبۂ اسلام کی عملی جدوجہد ہورہی ہو۔ پھر طالب علمی ہی کے دور میں تحریکِ اسلامی سے واقفیت اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے کی سعادت سے بھی نوازا، اور الحمدللہ زندگی کے لیے جو راستہ ۱۹۴۹ء کے آخر میں اختیار کیا تھا، اس پر اپنی ساری کمزوریوں اور حالات کے نشیب و فراز کے باوجود سرگرم رہنے کی توفیق بخشی۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ  کے تمام ہی انعام و اکرام میں یہ نعمت سب سے قیمتی اور دنیا اور آخرت دونوں کی اعلیٰ ترین متاع ہے، فالحمدللّٰہ علٰی ذٰلِک۔

تحریکِ اسلامی اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام ہے، اس پر جتنا بھی غور کرتا ہوں دل میں ایک تلاطم برپا ہوتا ہے، آنکھیں اَشک بار ہوجاتی ہیں اور سر سجدۂ شکر میں جھک جاتا ہے۔ ایمان اور اسلام کی دولت تو الحمدللہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے اور دینی ماحول والے گھر میں پرورش پانے سے حاصل ہوگئی تھی لیکن اس دولت کا اصل شعور صرف تحریک اسلامی کو سمجھنے اور اس کا حصہ بننے سے حاصل ہوا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے زندگی کے اصل مقصد کا شعور بخشا اور جینے اور مرنے کے اُس اسلوب سے واقف کردیا جو ہمارے پیدا کرنے والے کو مطلوب اور اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔

تحریکِ اسلامی نے مجھے اور مجھ جیسے لاکھوں انسانوں کو غفلت، جہالت اور بغاوت کی تاریکیوں سے نکال کر اسلام کی روشن شاہراہ کی طرف رہنمائی کی، اور اپنی تمام کمزوریوں، کوتاہیوں، غلطیوں کے باوصف ہم اس قافلے کا حصہ ہیں اور اپنے رب کی رضا اور اس کی رحمتوں کے سائل اور طلب گار ہیں۔ تحریک نے ہمیں یہ سمجھنے کا موقع دیا کہ ہماری، تمام انسانوں کی، اور کم از کم ان تمام انسانوں کی جو اپنے رب کو پہچان لیں، اس زندگی میں اصل حیثیت اللہ کے خلیفہ اور نمایندہ کی ہے اور اس طرح، استخلاف ہی ہمارا اصل تشخص ہے جو ہمیں اپنے رب سے جوڑتا ہے۔ رب سے ہمارا رشتہ آقا، مالک اور معبود کا ہے، اور ہماری معراج اس کا عبد ہونے میں ہے۔  اللہ سے اس رشتے کے تقاضے کے طور پر انسان اس دنیا اور تمام انسانوں سے ایک نئے رشتے میں جڑ جاتا ہے۔ اللہ کو رب ماننے والوں کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا کو جانیں، اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں، اور اللہ کی مرضی کو اس کی زمین پر پھیلانے اور قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ اس طرح تحریک نے ہمیں اپنے صحیح مقام کو سمجھنے اور اللہ، اللہ کے بندوں، دنیا کے تمام وسائل اور کائنات کے پورے نظام سے اپنے رشتے اور تعلق کو شعوری طور پر اس ہدایت کی روشنی میں استوار کرنے کا شعور، عزم اور موقع دیا جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنے انبیاے کرام ؑ کے ذریعے فراہم کی ہے۔ اور جو اپنی آخری اورمکمل شکل میں قرآن اور سنت ِ رسولؐ کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔

اسلام کا جو وژن تحریک نے دیا ہے، اس کے پانچ پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ کا واضح حکم ہے کہ:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo(البقرہ۲:۲۰۸) ’’اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ اور___ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَـہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳) ’’کہو، میری نماز، میرے تمام   مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سراطاعت جھکانے والا مَیں ہوں‘‘۔

اسلام کی پہلی اور سب سے اہم بنیاد ایمان ہے: اللہ پر، اللہ کے رسولؐ پر، اللہ کی کتاب پر، اللہ کے فرشتوں پر اور یومِ جزا و سزا پر ۔یہ ایمان صرف زبان کے اقرار ہی سے عبارت نہیں، بلکہ دل کی گہرائیوں سے تصدیق اور اس کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کا عزم اور کوشش اس کا لازمی حصہ ہے۔ اللہ ہی اوّل اور آخر ہے اور صرف اس کی رضا ہی اصل مقصود و مطلوب ہے۔ اللہ سے گہرا قلبی تعلق، اس سے محبت اور اس کا خوف ہی زندگی کی سب سے بڑی کارفرما قوتیں ہیں، اور ایمان کا لطف اور مزہ انسان اسی وقت حاصل کرسکتا ہے جب وہ صرف اللہ کو اپنا رب، اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آقا اور رہبر، اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت اسلام کو اپنا نظامِ زندگی بنالے اور اس پر صرف قانع ہی نہ ہو، اس پر راضی اور مطمئن ہوجائے۔ اس کے سوا رہنمائی کے لیے کسی اور سمت نہ دیکھے جیساکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذَاقَ طَعْمُ الْاِیْمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّد رَسُوْلًا (بخاری،  مسلم)’’ایمان کا مزہ چکھا اس شخص نے جو اللہ کو اپنا رب ماننے اور اسلام کو اپنا دین ماننے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول تسلیم کرنے پر راضی ہوگیا‘‘۔

جب انسان اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے تو پھر وہ اس مقام کو حاصل کرلیتا ہے جسے  اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود اس کے بندے کا ولی اور دوست بن جانے کے اعلیٰ مقام سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بندے کی خواہشات اپنے مالک کی رضا سے اس طرح ہم آہنگ ہوجاتی ہیں کہ اس کی پوری زندگی اپنے آقا کی رضا کی مظہر بن جاتی ہے۔ پھر بندہ اللہ کی طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو مالکِ حقیقی اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے ،جیساکہ حدیث قدسی میں آتا ہے:

 سُبْحَانَ اللّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ:عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَقُولُ اللّٰہُ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ ، وَاَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ، فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ، ذَکَرْتُہٗ فِی نَفْسِیْ ، وَ اِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَائٍ، ذَکَرْتُہٗ فِی مَلَاٍء خَیْرٍ مِنْہ، وَ اِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعاً  تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعاً ، وَ اِنْ أَتَانِیْ یَمْشِیْ، اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً - (رواہ البخاری وکذٰلک مسلم و الترمذی و ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میرا بندہ مجھ سے جو توقع رکھتا ہے اور جیسا گمان اس نے میرے متعلق قائم کر رکھا ہے ویسا ہی مجھے پائے گا۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگروہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے تنہائی میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے کسی جماعت کے ساتھ بیٹھ کر یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اس کو یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھ جاتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف چار ہاتھ بڑھتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف آہستہ آہستہ آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔

اللہ پر کامل ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگی کا تقاضا ہے کہ بندہ اپنے آپ کو    اپنے رب اور محبوب کی مرضی کے مطابق ڈھالے اور وہ سیرت و کردار اختیار کرے جو مالک کے انسانِ مطلوب کا طرۂ امتیاز ہے۔ تزکیۂ نفس ایمان کا فطری مطالبہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی اولین ذمہ داری تلاوتِ کتاب اور تعلیمِ کتاب کے ساتھ تزکیۂ نفس ہے___ یعنی انسان سازی ۔ تزکیے کا یہ دائرہ محض ذاتی کردار تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہرپہلو پر حاوی ہے جس میں انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ہرپہلو شامل ہے۔ البتہ ایمان کی بنیاد پر اور اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی تبدیلی میں مرکزی حیثیت فرد کی ہے اور دنیا اور آخرت میں آخری جواب دہی ہرہرفرد کی ہے۔ رہا معاملہ دنیا کا، تو یہاں بھی ’ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا‘۔ یہی وجہ ہے کہ  جن اینٹوں سے یہ عمارت تعمیر ہوتی ہے، ان میں ہراینٹ کا مضبوط ہونا ضروری ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی نے اسلام کا جو وژن دیا ہے اس کی پہلی بنیاد ایمان ہے تو دوسری بنیاد فرد کی اصلاح اور تزکیہ ہے۔

فرد کی اصلاح اور سیرت سازی کو یہ مرکزی مقام دینے کے ساتھ اسلام یہ بھی واضح کرتا ہے کہ عملِ صالح اور صراطِ مستقیم کا دائرہ صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں بلکہ انسان کے تمام تعلقات___ سب انسانوں سے اور معاشرے اور اس کے تمام اداروں سے___  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراہم کردہ رہنمائی کے مطابق ہونے چاہییں اور اس میں کسی بھی پہلو کو اللہ کی حاکمیت اور اس کی ہدایت کی فرماں روائی سے باہر رکھنا اللہ سے بغاوت اور طاغوت سے سمجھوتے کے مترادف ہے۔ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے روایتی مفہوم میں مذہب نہیں کہا گیا بلکہ الدین کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف الفاظ میں فیصلہ فرما دیا ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَھُمْ م وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرزِعمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا، اور جو کوئی اللہ کے احکام اور ہدایات کی اطاعت سے انکار کردے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

پھر یہ بھی صاف لفظوں میں انسان کو بتا دیا کہ اللہ کی ہدایت مکمل ہے اور اس میں نہ کسی کمی کی گنجایش ہے نہ کسی اضافے کی ضرورت۔ یہ بجاے خود مکمل (self-contained) ہے اور ہردور کے لیے اس میں وہ تمام گنجایشیں موجود ہیں جن کے باعث اہلِ ایمان اس دین کی حدود (frame work) میں رہتے ہوئے زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔ اور ساتھ ہی یہ انتباہ (warning) بھی فرما دیا کہ: وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اٰل عمرٰن۳:۸۵) ’’اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا‘‘۔

پس اہلِ ایمان کے لیے کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے مکمل اطاعت، سپردگی اور رب کی مرضی کے حصول کی پیہم جدوجہد کا راستہ ، فرمایا: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے، پھر اس میں کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔

ایمان کے استحکام اور اس کی افزایش، سیرت و کردار کی تعمیر اور پوری زندگی کو اللہ کی ہدایت اور اس کی مرضیات کے تابع کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ایک چوتھا تقاضا اللہ کے دین کو  اللہ کے تمام بندوں تک پہنچانے کی سعی و جہد ہے۔ فرد اور اُمت دونوں کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ شہادتِ حق کی ذمہ داری کو ادا کریں۔ اسلام ہماری زندگیوں ہی کو نورِ الٰہی سے منور کرنے پر قانع نہیں۔ وہ بلاشبہہ ہرصاحب ِ ایمان کو نور کا ایک مینار بنادینا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے یہ نور زمین و آسمان میں پھیلے اور پوری دنیا اس سے رہنمائی حاصل کرے اور پورا عالم اس سے منور ہوجائے۔

یہ ایک تاریخی جدوجہد ہے جس میں تمام ہی انبیاے کرام ؑ شامل رہے ہیں اور یہ آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کبریٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ سورئہ فاتحہ میں جس صراطِ مستقیم کی دعا کی تعلیم بندے کو دی گئی ہے اس میں یہ حقیقت بھی اُسے سمجھا دی گئی ہے کہ یہ سیدھا راستہ کوئی محض نظری چیز نہیں بلکہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں اور جن کا شمار انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین میں ہوتا ہے:وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o (النساء ۴:۶۹) ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آجائیں‘‘۔

معلوم ہوا کہ استخلاف کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ اہلِ ایمان کی زندگی، دعوت اور تحریک کی زندگی ہو۔ اللہ کے انعام یافتہ افراد کی رفاقت کے طلب گاروں کو اللہ کے دین کے قیام اور حق کی شہادت کی ذمہ داری کو اپنی زندگی کا مقصد اور اپنی تمام سعی و جہد کا آخری ہدف بنانا ہوگا۔ ہرمسلمان کو بحیثیت مسلمان اور اُمت مسلمہ کو بحیثیت قوم اور ایک منظم گروہ، یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ انسانوں کو خیر کی طرف بلانے والے، بدی سے روکنے والے، حق کی شہادت دینے والے اور دین کو قائم کرنے والے بنیں: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط(البقرہ۲:۱۴۳)’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔

اور___ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط(اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

پھر واضح الفاظ میں اقامت ِ دین کو اُمت کا اصل نصب العین قرار دیا:

شَرَعَ لَکُمَ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط(الشوریٰ۴۲:۱۳) ’’لوگو! اس نے تمھارے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو  دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اورموسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔

ایمان، اصلاحِ نفس، پورے نظامِ زندگی کی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں صورت گری اوردین کی اس دعوت کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی جدوجہد اور بالآخر اقامت ِ دین اور مال اور جان کی قربانی کے ساتھ غلبے کی جدوجہد___ یہ ہے وہ تصورِ دین جو قرآن و سنت سے ہمارے سامنے آتا ہے، جو اسوئہ نبویؐ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج انقلاب کا طرئہ امتیاز ہے۔  یہی وہ چار بنیادیں ہیں جن کے تقاضے کے طور پر پانچویں چیز رُونما ہوتی ہے اور وہ، وہ عملی اورمنظم جدوجہد ہے جو دین کے قیام اور غلبے کے لیے برپا کی جائے اور صرف اللہ کی رضا کے لیے برپا کی جائے___حالات خواہ کیسے بھی ہوں۔ البتہ یہ کام مقصد کے واضح شعور، اور ان اخلاقی حدود کی مکمل پاس داری کے ساتھ انجام دینا مطلوب ہے جن کا شریعت حکم دیتی ہے۔ اس کے لیے قلب و نظر اور جان و مال کے تمام وسائل کو اس اجتماعی اور منظم جدوجہد کے لیے بخوشی پیش کردینا شریعت کا تقاضا ہے۔ یہ کام ہر دور میں حکمت اور اپنے زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کے اِدراک کے ساتھ انجام دینا مطلوب ہے۔

یہی وہ پانچ عناصر ہیں جن سے اسلام کا مفصل وژن عبارت ہے اور جن کا نام آج کے دور میں ’تحریکِ اسلامی‘ ہے۔جہاں یہ جدوجہد اپنے متعین مقاصد، اہداف، لائحۂ عمل، حکمت عملی اور پروگرام رکھتی ہے وہیں داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے جدوجہد کرے اور اس راستے میں جو بھی مشکلات پیش آئیں، ان کا مقابلہ صبر اور استقامت کے ساتھ کرے۔

تحریکِ اسلامی کی پہچان یہ دعوت اور داعی کی وہ کیفیات ہیں جو اسے اللہ کے انعام پانے والوں کی صف میں شامل ہونے کی سعادت بخشتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کے دونوں پہلو ایک تصویر کے دو رُخ ہیں___داعی کی عملی جدوجہد اور اس کی قلبی کیفیات اور محرکات۔

حضرت آدم ؑکے بعد قرآن حضرت نوح ؑکی دعوت کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے___ اللہ کی بندگی کی دعوت، تقویٰ اور اللہ کے رسول کی اطاعت اور انسان کی پوری زندگی کو رب کی مرضی کے تابع کرنے کی دعوت___  سورئہ نوح میں اس کا بڑا ایمان افروز اور تاریخی حقائق پر مبنی احوال اللہ کے نبی ؑ ہی کے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

اس نے کہا: اے میری قوم کے لوگو، میں تمھارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا (پیغمبر) ہوں۔ (تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، اللہ تمھارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمھیں ایک وقت ِ مقرر تک باقی رکھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا، کاش تمھیں اس کا علم ہو۔ اس نے عرض کیا: اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ اور جب بھی مَیں نے اُن کو بلایا تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی رَوش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔ میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اُس نے طرح طرح سے تمھیں بنایا ہے۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور اُن میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟ اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اُگایا، پھر وہ تمھیں اِسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اِس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔ اور اللہ نے زمین کو تمھارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو۔ نوحؑ نے کہا: میرے رب، اُنھوں نے میری بات ردّ کردی اور اُن (رئیسوں) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پاکر اور زیادہ نامراد ہوگئے ہیں۔ اِن لوگوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے۔(نوح ۷۱:۲-۲۲)

اللہ کے تمام انبیاے کرام ؑ نے یہی دعوت دی اور اسی تحریک کو برپا کیا بلالحاظ اس کے کہ ردعمل کیا ہو۔ اسی دعوت کا ایک منظر فرعون کے دربار میں نظر آتا ہے جب حضرت موسٰی ؑ کی دعوت کی تائید میں ایک صاحب ِ ایمان وقت کے فرعون اور اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہتا ہے:

وہ شخص جو ایمان لایا تھا، بولا: ’’اے میری قوم کے لوگو، میری بات مانو، میں تمھیں صحیح راستہ بتاتا ہوں۔ اے قوم، یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے، ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے۔ جوبُرائی کرے گا اُس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اُس نے بُرائی کی ہوگی اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن،ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔ اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ مَیں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو! تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اُن ہستیوں کو شریک ٹھیرائوں جنھیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمھیں اُس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں۔ نہیں، حق یہ ہے اور اِس کے خلاف نہیں ہوسکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اُن کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے ، نہ آخرت میں، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں۔ آج جو کچھ مَیں کہہ رہا ہوں، عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اُسے یاد کرو گے۔ اور اپنا معاملہ مَیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے۔(المومن ۴۰:۳۸-۴۴)

اس انقلابی دعوت کو اللہ کے جن برگزیدہ بندوں نے پیش کیا وہ بے غرضی و بے لوثی کا مجسمہ تھے۔ وہ اپنی قوم سے کسی اجر کے طالب نہیں تھے ۔ وہ صرف اللہ کے بندوں کو جہنم کے عذاب سے بچانے اور زمین و آسمان کے خالق کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی کی شاہراہ دکھانے والے تھے۔ وہ خیرخواہی، دل سوزی اور درمندی کے ساتھ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اس میں اپنی جان تک ہلکان کردیتے ہیں: وَیٰــقَوْمِ لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًا طاِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (ھود ۱۱:۲۹) ’’اے برادرانِ قوم، میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور میں ان لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنھوں نے میری بات مانی ہے‘‘۔

داعی اپنے تمام مخاطبین کے لیے سراپا رحمت اور محبت ہوتا ہے اور تکلیف دینے والوں کے لیے بھی دوست اور بہی خواہ کا کردار ادا کرتا ہے۔

دیکھیے قرآن اس کا سراپا کس طرح بیان کرتا ہے:

لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ ق لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ ط تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo (التوبہ ۹:۱۲۸-۱۲۹) ’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسولؐ آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے___ اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبیؐ، ان سے کہہ دو کہ ’’میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگروہ، اُسی پر میں نے بھروسا کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا‘‘۔

اور اس دعوت میں وہ جس طرح اپنی جان کھپاتا ہے اور دوسروں کے لیے جس طرح فکرمند رہتا ہے اس کا بیان زبانِ حق نے یوں کیا ہے: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا (الکھف ۱۸:۶)’’اچھا، تو اے نبیؐ! شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو، اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے‘‘۔

تحریکِ اسلامی نے دین کا یہ وژن ہمیں دیا ہے اور اس کے مطابق عملی جدوجہد کے راستے پر بھی گامزن کردیا ہے۔ استخلاف کی زندگی حق و باطل کے درمیان کش مکش کی زندگی ہے اور زندگی کا اصل لطف حق کا ساتھ دینے اور غلبۂ حق کی جدوجہد میں مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور اس جدوجہد کے درمیان لگنے والی ہرچوٹ کو اعزاز اور افتخار کے جذبات کے ساتھ انگیز کرنے میں ہے:

وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o لَوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَھْوًا لَّاتَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّآ ق اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَo بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ وَ لَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ o (الانبیاء۲۱:۱۶-۱۸) ’’ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے، کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے۔ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سرتوڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اورتمھارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو‘‘۔

اس کش مکش میں اہلِ حق کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق پر جمے رہیں: فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ھُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ وَّاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمُ اللّٰہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ لَنَـآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ لاَحُجَّۃَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَللّٰہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا وَاِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ o (الشورٰی۴۲:۱۵) ’’اے محمدؐ! تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو، اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو، اور ان سے کہہ دو کہ ’’اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے مَیں اس پر ایمان لایا۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ ہمارے اور تمھارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اس کی طرف سب کو جانا ہے‘‘۔

پھر اسی راہ پر استقامت دکھانے والوں کو اللہ کی مدد کی یقین دہانی ایمان افروز انداز میں کرائی جاتی ہے اور انھیں دعوت پر قائم رہنے اور بدی کو نیکی سے دفع کرنے کی تلقین کی جاتی ہے:

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر ثابت قدم رہے ،یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہوجائو۔ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے وہ سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے‘‘ اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا، اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔(حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۰-۳۵)

آخرت کی کامیابی کے ساتھ ان کو دنیا میں بھی عزت اور کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے بشرطیکہ وہ اپنے ایمان میں سچے ہوں اور دعوت اور جدوجہد کا حق ادا کریں۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(اٰل عمرٰن۳:۱۳۹)

دعوت اور جہاد کیسی نفع بخش تجارت ہے۔ اس کا صاف الفاظ میں اظہار کردیا گیا ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتائوںتم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں دے گا۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔(الصّف ۶۱:۱۰-۱۳)

اور پھر لسانِ نبوتؐ سے دلوں میں طمانیت پیدا کرنے والی یہ خوش خبری بھی سنوا دی گئی کہ: وَ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

تحریکِ اسلامی نے اسلام کا جو فہم دیا ہے، اس نے زندگی کی اس حقیقت کو روزِ روشن کی طرح واضح کردیا ہے کہ زندگی نام ہے کش مکش کا اور قرآن وہ کتابِ ہدایت ہے جو حق و باطل کے درمیان کش مکش میں قدم قدم پر رہنمائی فرماتی ہے اور کش مکش کے ہرمرحلے میں راہِ صواب کی نشان دہی کرتی ہے۔ سیدمودودی نے تفہیم القرآن کے مقدمے میں جس مؤثر انداز میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر دینی ادب میں مشکل سے ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ اور فکروعمل کی یہی وہ شاہراہ ہے جسے سامنے لانا تحریکِ اسلامی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ مولانا مذکورہ مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’لیکن فہم قرآن کی اِن ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھِری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اوروقت کے علَم برداران کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔

ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کرکے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفرودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے، اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدرو اُحد سے لے کر حُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے ، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔

یہ ایک اور ہی قسم کا ’سُلوک‘ ہے جس کو مَیں ’سُلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیںگے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلداوّل، ص ۳۳-۳۴)

قرآن، اس کے پیغام اور اس کی دعوت کی صحیح صحیح تفہیم، اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی قرآن کی روشنی میں ۲۳سالہ جدوجہد، جس نے تاریخ کے رُخ کو موڑ دیا اور رہتی دنیا تک انسانیت کی رہنمائی کا سامان فراہم کردیا، وہ ہردور میں اُس دور کے حالات کی روشنی میں انھی خطوط پر تبدیلی اور تعمیرنو کے لیے نمونہ فراہم کرتی ہے۔

بیسویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جن نیک بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ اپنے اپنے حالات کے مطابق اسلام کو ایک تصورِ حیات اور مکمل نظامِ زندگی اور ایک دعوت اور تحریک کے طور پر پیش کریں اور اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو اس تاریخی جدوجہد میں لگادیں جو اقامت ِ دین کے لیے مطلوب ہے، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ان میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے برعظیم پاک و ہند میں اس دعوت کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن کے ذریعے کیا تھا۔یہ دعوت ایک فکری تحریک کی شکل میں آغاز کرنے کے بعد اجتماعی اصلاح کی ایک انقلابی تحریک کی شکل میں ۱۹۴۱ء میں منظم ہوسکی اور الحمدللہ، آج پاکستان ہی نہیں برعظیم کے تمام ہی ممالک میں اپنے اپنے آزاد نظم کے ساتھ سرگرمِ عمل ہے اور اس کے اثرات برعظیم تک محدود نہیں، دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔

کئی صدیوں کے سامراجی دور، مغربی تہذیب کے غلبے، اور خود مسلمانوں کے ذہنی جمود کے نتیجے میں دین کے قرآنی تصور اور منہج نبویؐ پر جو پردے پڑگئے تھے یا ’تجدد‘ ، ’اصلاح‘ اورموڈرنٹی (modernity)کے نام پر جس قطع و بُرید کا ان کو نشانہ بنایا گیا تھا، الحمدللہ تحریکِ اسلامی نے   اس فکری انتشار اور خلفشار کا بھرپور مقابلہ کیا اور اسلام کی روشن شاہرا ہ کو ہرگردوغبار سے پاک کرکے اس کی اصل شکل میں پیش کیا اور قرآن و سنت کے محکم دلائل کے ساتھ پیش کیا اور پھر اس فکر کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی تبدیلی کی جدوجہد کو عملی طور پر برپا کیا جو آج پوری دنیا میں حق و باطل کی کش مکش کی بنیاد ہے۔

 

۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں عوام کے فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ ملک کے نظام اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔ پرویز مشرف اور زرداری،گیلانی، پرویز اشرف اور ان کے اتحادیوں نے اپنے ۱۴سالہ دورِ حکومت میں ملک کے پورے نظام کو   جس طرح درہم برہم کیا تھا اور ملک کی آزادی، حاکمیت، سالمیت اور نظریاتی شناخت سے لے کر امن و امان، جان و مال اور آبرو کے تحفظ، اور معاشی اور معاشرتی، تعلیمی اور اخلاقی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد اس زمانے میں رُونما ہوا، اس نے زندگی کی ہرسطح پر تباہی مچادی۔ کرپشن اور بدعنوانی کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور ایک عام آدمی کے لیے زندگی اجیرن ہوگئی۔ قوم کے سامنے ایک طرف وہ سیاسی پارٹیاں تھیں جو اس ۱۴سالہ دور کی نمایندہ بنیں، یعنی پیپلزپارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ(ق) اور ایک حد تک جے یو آئی۔ اور دوسری طرف وہ جماعتیںتھیں جو اس اسٹیٹس کو (status quo) کو چیلنج کررہی تھیں اور قوم کو تبدیلی کا پیغام دے رہی تھیں۔

قوم نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو سندھ میں اپنے اپنے حلقوں میں اگر بظاہر کامیابی ہوئی بھی تو وہ عوامی مینڈیٹ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس مینڈیٹ کو جبر اور دھوکے سے اغوا کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں  واضح مینڈیٹ ملا اور صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور ایک حد تک جماعت اسلامی کو۔      جناب میاں نواز شریف نے ۱۱مئی کی رات ہی کو اپنی فتح کا اعلان کردیا اور گو وزارتِ عظمیٰ کا چارج انھیں ۶جون کو ملا لیکن ان کے فی الواقع (virtual) اقتدار اور آزمایش کا آغاز ۱۱مئی ہی سے ہوگیا۔ چونکہ وہ اس سے پہلے دو بار وزیراعظم کی ذمہ داریاں اُٹھاچکے تھے، ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء تک سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار حاصل تھا اور مرکز میں بھی اس زمانے میں مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی اور سینیٹ میں معقول تعداد میں موجود ہونے کے باعث حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی، اس لیے توقع تھی کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ تبدیلی کے سفر کا آغاز کرے گی اور قوم کے سامنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک نئی راہ کھل جائے گی۔

پارلیمانی جمہوریت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ حزبِ اختلاف دراصل منتظر حکومت (Government in waiting) کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے پاس شیڈوکیبنیٹ کی شکل میں متبادل قیادت ہرلمحہ موجود ہوتی ہے اور وہ متبادل پالیسیوں کے باب میں بھی ہرلمحہ تیار ہوتی ہے۔ پھر مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس بہتر اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے۔ اس نے دو سال کی تیاری اور بحث و مباحثے کے بعد ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے لیے قوم کے سامنے ایک مفصل منشور  پیش کیا تھا اور اس امر کی توقع تھی کہ ذمہ داری سنبھالنے کے فوراً بعد معروف جمہوری روایات کی روشنی میں وہ پہلے ۱۰۰ دن کا پروگرام قوم کے سامنے پیش کرے گی۔ پھر چونکہ ذمہ داری سنبھالتے ہی ۱۰دن کے اندر اسے نیا بجٹ پیش کرنا تھا جس کے لیے عملاً اس نے ۱۱مئی کے بعد ہی کام شروع کردیا تھا۔ وہ ایک نادر موقع تھا کہ کم از کم نئی پالیسیوں کا ایک مربوط نقشہ قوم کے سامنے پیش کردیا جائے لیکن بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن رہا اور ان سطور کے لکھتے وقت تک ۱۰۰ میں سے ۵۰دن گزر چکے ہیں لیکن نئے پروگرام کی کوئی جھلک قوم کے سامنے نہیں آسکی۔

ایک بظاہر تجربہ کار ٹیم کی طرف سے یہ کارکردگی بڑی مایوس کن اور ملک کے مستقبل کے لیے تشویش ناک ہے۔ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی پوری قیادت کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ ہم اپنے تمام اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفاد میں دعاگو ہیں کہ وہ سیاسی قوتیں جنھیں قوم نے حالات کو سنبھالنے اور بگاڑ کی اصلاح کے لیے مینڈیٹ دیا ہے، وہ سنجیدگی، دیانت اور اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور عوام کو اس دلدل سے نکالیں جس میں ان کو دھنسایا گیا ہے، ورنہ قوم خاص افراد ہی نہیں، سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل سے مایوس ہوسکتی ہے جو سب کے لیے خسارے کا سودا ہے۔

قوم کی توقعات اور حکومتی روش

نئی حکومت سے یہ توقع تھی کہ اسے واضح مینڈیٹ ملا ہے۔ وہ معلّق پارلیمنٹ کی آزمایش سے بچ گئی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کے بلیک میل کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ آگے بڑھ کر خارجہ اور داخلہ دونوں میدانوں میں ایک واضح لائحہ عمل قوم کے سامنے لائے گی اور کوشش کرے گی کہ زیادہ سے زیادہ اُمور پر قومی اتفاق راے پیدا کرے اور عوام کو ایک نئی اُمید اور اُمنگ دے کر سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھے۔ بلوچستان کے گمبھیر حالات کی بناپر جو ابتدائی روش مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اختیار کی، اس سے اچھی اُمیدیں پیدا ہوئی تھیں لیکن ۵۰دن گزرنے کے باوجود اب تک صوبے میں کابینہ کا نہ بننا ایک پریشان کن صورت حال کی خبر دے رہا ہے۔ نیز دہشت گردی اور لاقانونیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ فاٹا اور کراچی کے حالات بھی دگرگوں ہیں اور سارے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جامع قومی سلامتی پالیسی بنائے جانے کا خواب ایک خوابِ پریشان بنتا جارہا ہے۔ قومی سلامتی کے مسئلے پر کُل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کی ایک تاریخ  (۱۲جولائی) دینے کے باوجود اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی اُمور کے بارے میں کوئی واضح سوچ بھی موجود نہیں۔ سب سے پریشان کن چیز سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی اور یک سوئی کے باب میں متضاداشاروں کا ظہور ہے۔ ایبٹ آبادکمیشن کی رپورٹ کے نام سے جو دستاویز سامنے آئی ہے اور جس طرح سامنے آئی ہے اس نے سیاسی سطح پر بڑے سوالیہ نشان مرتسم کردیے ہیں۔

ڈرون حملے بند کرانے اور امریکا سے دہشت گردی کی جنگ کے باب میں تعلقات پر مکمل نظرثانی قوم کے لیے اوّلین ترجیح کا عالمی مسئلہ تھا اور ہے۔ توقع تھی کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ(ن) نے مناسب ہوم ورک کررکھا ہوگا جس کا وہ عندیہ بھی دیتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے کوئی واضح خطوطِ کار موجود نہیں ہیں اور خود اپنے منشور میں جو باتیں انھوں نے کہی ہیں، ان کو بھی کسی واضح اور متعین پالیسی میں ڈھالنے اور قوم کو ساتھ لے کر ایک حقیقی طور پر آزادخارجہ پالیسی مرتب کرنے کے باب میں ان ۵۰دنوں میں وہ پہلا قدم بھی نہیں اُٹھا سکے۔ نہ معلوم کس مصلحت کے تحت وزیراعظم صاحب نے خارجہ اُمور اور دفاع دونوں شعبے اپنے پاس رکھے ہیں اور عملاً کوئی مستقل وزیر ان اہم ترین شعبوں میں نہیں مل سکا۔ وزیراعظم کے مشیر براے خارجہ اُمور اور سلامتی اور معاون خصوصی کے درمیان بھی ہم آہنگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ عالمِ سیاست کے دو اہم ترین مراکز، یعنی واشنگٹن اور لندن دونوں کے لیے مسلم لیگ(ن) کی حکومت مناسب سفیروں کا انتخاب نہیں کرسکی ہے۔ واشنگٹن میں ڈیڑھ مہینے سے کوئی سفیر نہیں ہے اور لندن میں زرداری صاحب کے معتمدخاص  سفارتی تجربہ نہ رکھنے کے باوجود بطور ہائی کمشنر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں جو کچھ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں آیا ہے، اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ افغانستان سے تعلقات پر کھچائو اور بے اعتمادی کے سایے صاف نظرآرہے ہیں۔ طالبان امریکا مذاکرات کی جو دگرگوں کیفیت ہے، وہ پاکستان کے لیے بھی بڑے مسائل پیدا کر رہی ہے اور آگ بجھانے کی کچھ کوششیں تو ہورہی ہیں لیکن اصل مسئلہ یعنی ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ سے نکلنے اور اس آگ سے خود افغانستان کو بچانے کے لیے جس داعیے (initiative) کی ضرورت ہے، اس کے اِدراک کا دُور دُور پتا نہیں۔

بہارت دوستی اور درست ترجیحات کا فقدان

خارجہ پالیسی کا سب سے تشویش ناک پہلو بھارت کے بارے میں نہایت سطحی اور جذباتی انداز میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ پالیسی اشارے ہیں جو ناقابلِ فہم ہیں۔ انتخابی نتائج کے آتے ہی بھارت سے پینگیں بڑھانے کا عندیہ دیا گیا۔ بھارت سے آئے ہوئے ایک سکھ وفد کے سامنے جن جذبات کا اظہار کیا گیا اور جن میں تحریکِ پاکستان کے مقصد ِ وجود تک کی نفی کردی گئی، اس نے پوری قوم کو چونکا دیا۔ اگر تحریکِ پاکستان کی بنیاد، یعنی دو قوموں اور دو تہذیبوں کا اپنا اپنا مستقل وجود ہی محض ایک واہمہ تھا تو پھر پاکستان کا جواز ہی کہاں باقی رہتا ہے۔ یہ بات اگر بھارت میں گونجنے والی آواز کی بازگشت نہیں تو کیا ہے؟ پھر بھارت کے وزیراعظم کو حلف برداری کی تقریب میں بلانے کی بات کسی ہوم ورک کے بغیر اور ان کے ٹکے سے جواب کے بعد بھی شیروشکر ہونے کی باتیں کن عزائم کی غماز ہیں؟ بھارت میں ان د و مہینوں میں پاکستان کے خلاف اور خصوصیت سے کشمیر میں جس طرح بے دردی سے نوجوانوں کا قتل اور قرآنِ پاک کی بے حُرمتی ہورہی ہے، اس پر قرارواقعی ردعمل کا فقدان، بلکہ اس سب کے باوجود تجارت ہی نہیں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز قومی سلامتی کے باب میں کسی اعلیٰ اور جامع وژن اور ملک کے حقیقی مفادات کے باب میں صحیح ترجیحات کے فقدان کی بدترین مثال ہے۔

بھارت امریکا کے تعاون سے پاکستان میں، افغانستان میں اور اس پورے خطے میں جو کھیل کھیل رہا ہے، اس کو نظرانداز کرکے خوش فہمیوں پر مبنی جو اقدام کیے جارہے ہیں خواہ ان کا تعلق معیشت اور تجارت سے ہو یا سیاسی تعلقات اور بنیادی تنازعات کے بارے میں صحیح رویے سے،     وہ کم سے کم الفاظ میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ اور ملکی سلامتی پر منفی اثرات رکھنے والے ہیں۔ بھارت سے دوستانہ تعلقات ہم بھی چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی قربانی یا ان کو  پسِ پشت ڈالنے کی قیمت پر نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک ناکامی کشمیر کے مسئلے کے بارے میں مؤثر اور مضبوط ردعمل پاکستان کی طرف سے مؤثر ردعمل ظاہر نہ کیا جانا ہے۔ نیز عالمی سطح پر ان اُمور کو جس طرح ہمیں اُجاگر کرنا چاہیے تھا، اس کی کوئی فکر دُور دُور نظر نہیں آتی ہے۔ کشمیر میں نوجوان روزانہ اپنے خون سے اپنا احتجاج رقم کر رہے ہیں اور قرآن کی بے حُرمتی کے واقعے پر سروں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت بے جان تحفظات کے اظہار کے تکلف سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔

بھارتی پارلیمنٹ پر دسمبر ۲۰۰۱ء کے حملے کا الزام بھارت نے پاکستان کو دیا تھا اور ایک سال تک بھارتی فوجیں پاکستان کی سرحدوں میں کیل کانٹے سے لیس کارروائی کے لیے پَر تولتی رہیں،اب اس واقعے کے بارے میں بھارت کے ایک سابق انڈر سیکرٹری نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک حلفیہ بیان دیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ حملہ کسی پاکستانی گروہ کے ایما پر نہیں خود بھارت کی اپنی ایجنسیوں کے ایما پر ہوا تھا اور سارا منصوبہ خود انھی کا تیار کردہ تھا۔ لیکن ہماری وزارتِ خارجہ کا یہ عالم ہے کہ اس نے صرف وضاحت حاصل کرنے کا تکلف کیا ہے اور عالمی سطح پر اس سے جو فائدہ اُٹھانا چاہیے تھا اس کا کوئی احساس دُور و نزدیک نظر نہیں آتا ہے۔ حالانکہ صرف یہ بیان ہی بھارت کی ایجنسیوں کے اس معاملے میں کردار کا غماز نہیں، اس سے پہلے خود بھارت کے آزاد مبصرین اور محقق اس راے کا اظہار کرچکے ہیں جس کی تفصیل خود بھارت کی پینگوئن پبلشرز کی شائع کردہ کتاب The Strange Case of The Parliament Attack میں موجود ہے جو ۲۰۰۶ء میں واقعے کے پانچ سال بعد شائع ہوئی ہے، اور جس میں بھاررت کی مشہور دانش ور ارون دھتی رائے نے اس پورے واقعے کے بارے میں ۱۳سوال اُٹھائے ہیں اور صاف الفاظ میں وہی بات کہی ہے جو اب بھارتی وزارتِ داخلہ کا انڈرسیکرٹری روی شنکرمانی ، بھارت کے خفیہ ایجنسی کے افسر ستیش چندرا ورما  کی روایت کی روشنی میں کہہ رہا ہے۔ گویا اس کے اور ممبئی کے ۲۰۰۸ء کے خونیں واقعے کے پیچھے خود بھارت کا ہاتھ تھا اور یہ دونوں خونی ڈرامے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیے گئے۔ ارون دھتی رائے جس نتیجے پر ۲۰۰۶ء میں پہنچی، وہ اسی کے الفاظ میں پڑھنے کے لائق ہے کہ سات سال پہلے اس نے وہی بات کہی جو آج سپریم کورٹ میں حلف نامے پر کہی جارہی ہے اور پاکستان کی قیادت منہ میں گھونگنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ اپنے ۱۳سوالات کی روشنی میں ارون دھتی رائے کہتی ہے:

ان سوالات کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ نااہلیت سے بہت زیادہ سنگین صورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو الفاظ ذہن میں آتے نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں: شرکت، سازش، خفیہ سازباز۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم صدمے کا جھوٹا اظہار کریں اور نہ ان خیالات کے سوچنے یا ان کو بلندآواز میں کہنے سے پیچھے ہٹیں۔ حکومتیں اور ان کی خفیہ ایجنسیاں ایک پرانی روایت رکھتی ہیں کہ اس طرح کے اسٹرے ٹیجک واقعات کو، جیساکہ یہ ہے، اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں (دیکھیے: جرمنی میں Reichstag کا جلنا اور ۱۹۳۳ء میں نازی طاقت کا عروج یا آپریشن گلے ڈیو جس میں یورپی    خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کی کارروائیاں خود کیں، خصوصاً اٹلی میں، جن کا مقصد جنگ جوُ گروہوں جیسے Red Brigades کو منتشر کرنا خیال کیا جاتا ہے۔  (دی گارڈین، لندن، India's Shame از ارون دھتی رائے، ۱۵ دسمبر ۲۰۰۶ء)

واضح رہے کہ ممبئی حملے کے بارے میں صرف مانی اور ورما کے بیانات سوالیہ نشان نہیں اُٹھا رہے، ممبئی حملے میں جس طرح سمجھوتا ایکسپریس کے بارے میں بھارتی فوج کے حاضر سروس افسر کے کردار کا راز فاش کرنے والے پولیس افسر کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، اور پھر جس طرح حال ہی میں  حصولِ معلومات کے حق (Right to Information) کے ذریعے حاصل کی جانے والی معلومات کے ذریعے یہ حقائق سامنے آئے کہ ممبئی کے میونسپل آفس سے اس تاج محل ہوٹل کے بارے میں جو اس واقعے کا مرکزی مقام تھا، تمام میونسپل ریکارڈ غائب کردیے گئے ہیں جسے بھارتی اخبارات نے ایک بڑا سیکورٹی رسک قراردیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، ایوننگ نیوز ڈائجسٹ، ۱۶جولائی ۱۳،۲۰ء رپورٹ کا عنوان: Taj Hotel Files went Missing before 26/11 attacks)

بات ذرا طویل ہوگئی لیکن مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ بھارت سے دوستی کے شوق میں ہماری قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کے ذمہ دار کس طرح زمینی حقائق کو نظرانداز کررہے ہیں، اور وہ پاکستان کے خلاف بھارت کے پروپیگنڈے کا مؤثر توڑ کرنے اور اصل حقائق دنیا کے سامنے لانے کے مواقع کو ضائع کر رہے ہیں۔

ہم بڑی دل سوزی کے ساتھ وزیراعظم صاحب کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے اُمور پر لب کشائی سے پہلے ٹھنڈے غوروفکر سے کام لیں اور خارجہ سیاست کے نشیب و فراز سے واقف ماہرین سے مشورہ کرلیا کریں۔ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم بھارت سے معاملات کو اس مقام سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں ۱۹۹۹ء میں واجپائی صاحب کے ساتھ طے ہوئے تھے۔ ان کی خواہشات اپنی جگہ، اوّل تو جو کچھ اس موقع پر ہوا وہ نمایش زیادہ اور حقیقت (substantion)  کم تھا۔ پھر لاہور کی بس ڈپلومیسی کے بعد کارگل واقع ہوا۔ جس نے حالات کو بدل دیا۔ اس زمانے میں بھارت میں بی جے پی کی پوزیشن اور سیاسی کردار میں زمین آسمان کا فرق واقع ہوچکا ہے۔ دسمبر ۲۰۰۱ء اور جولائی ۲۰۰۸ء کے دہلی اور ممبئی کے ڈراموں نے حالات کو بدل دیا ہے۔ بھارت امریکا تعلقات میں اس زمانے میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں انھوں نے پوری علاقائی سیاسی بساط کو متاثر کیا ہے۔ افغانستان اور بلوچستان میں بھارت کے کردار نے بھی مستقبل کے سیاسی منظرکو متاثر کیا ہے۔ چین اور بھارت کے تعلقات کے نشیب و فراز بھی ہوا کے نئے رُخ کا پتا دے رہے ہیں۔ کشمیر میں اس زمانے میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ڈیم تعمیر کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ اپنے خاص تقاضے رکھتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان ۱۴برسوں میں برعظیم کے سیاسی پُلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا ہے اور اب ۱۹۹۹ء کے پروسس کا اُس مقام سے بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ اس خواہش کی بحالی کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مشرف نے اس زمانے میں کشمیر کے مسئلے کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کے منفی اثرات بھی ناقابلِ انکار ہیں۔ نئی پالیسی کو اصولی پوزیشن ، زمینی حقائق اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں مرتب کیا جانا چاہیے۔ شاعرانہ خوش خیالیوں کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ انھیں بھارت کے بارے میں اپنی سوچ پر بنیادی نظرثانی کرنا ہوگی ورنہ وہ خدانخواستہ پاکستان کے مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ریاست کے اُمورپر اگر ’عمرا جاتی‘ کے جذباتی احساسات کا سایہ پڑنے دیا جائے تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں ہم پوری دردمندی سے ان کو متنبہ کرنا اپنا دینی اور ملّی فرض سمجھتے ہیں۔

اس سلسلے کی سب سے تکلیف دہ اور شرمناک مثال دفترخارجہ کا وہ بیان ہے جو بنگلہ دیش کے بارے میں دیا گیا ہے۔ وہاں کی عوامی لیگی حکومت ۱۹۷۱ء کے واقعات کے سلسلے میں جنگی جرائم کے نام پر ایک ڈراما کر رہی ہے جو دو سال سے جاری ہے۔ اس نتیجے میں پروفیسر غلام اعظم صاحب اور جماعت اسلامی کے پانچ قائدین کو شرمناک سزائیں دی گئی ہیں۔ ان کا ہدف صرف جماعت اسلامی کی قیادت نہیں بلکہ پاکستان، اس کی حکومت اور فوج ہے جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہورہا ہے۔ جس مقدمے کا سارا بھانڈا خود لندن کے اکانومسٹ نے ٹربیونل کی غیرقانونی کارروائیوں کے پورے ریکارڈ کی بنیاد پر پھوڑا ہے، جس پر کئی مسلم اور مغربی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج کیا ہے اور  اس کے خلاف بنگلہ دیش کے عوام گذشتہ پانچ مہینے سے احتجاج کر رہے ہیں اور سیکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں اور ۵۰ہزار افراد اس وقت جیلوں میں ہیں، لیکن شرم کا مقام ہے کہ ہمارے دفترخارجہ کے ترجمان اسے بنگلہ دیش کا ’داخلی معاملہ‘ فرما رہے ہیں۔

امن و امان کی دگرگوں صورتِ حال

بدقسمتی سے داخلی میدان میں بھی ان دنوں میں کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آرہی اور  ع

وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے

سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی، لاقانونیت، قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور جرائم پر قابو پانے کا تھا لیکن چند خوب صورت بیانات کے سوا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے دامن میں کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ سپریم کورٹ ہر روز اسی طرح شکوہ سنج ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں۔ اس کے احکامات سے اسی طرح رُوگردانی کی جارہی ہے جس طرح ماضی میں ہورہی تھی۔ لاپتا افراد بھی اسی طرح لاپتا ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے( جولائی ۲۰۱۳ء میں سپریم کورٹ نے ۵۰۴ لاپتا افراد کی بازیابی کا حکم دیا ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے مزید ۲۵۴ کا)، اور بوریوں میں لاشیں اسی طرح مل رہی ہیں۔ پولیس اور ایف سی کی روز سرزنش ہوتی ہے مگر ’زمیں جُنبد نہ جُنبد گُل محمد ‘کی کیفیت ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عدالت عالیہ کو پولیس کے آئی جی، ڈی آئی جی اور فوج کی خفیہ ایجنسیوں کے کرنل صاحبان تک کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا پڑ رہے ہیں۔ کراچی اُسی طرح میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ نئے وزیرداخلہ صاحب نے جوش میں ایک مہینے میں حالات درست کرنے کی وارننگ دے دی تھی مگر پھر خود ہی اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ لیاری ہی نہیں پورے شہرقائد میں جس طرح انسانوں کا خون ارزاں ہے اور بھتہ خور جس طرح دندناتے پھررہے ہیں، وہ بڑے بنیادی بگاڑ کی خبر دے رہے ہیں۔ کسی بڑے اقدام کے بغیر ان حالات کی اصلاح ممکن نظر نہیں آرہی۔ اصل وجہ مجرموں سے ناواقفیت نہیں، مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت اور سیاسی عزم اور اقدام کا فقدان ہے۔ سپریم کورٹ اپنے ۲۰۱۱ء کے فیصلے میں نام لے کر پولیس اور دوسری ایجنسیوں کی جوائنٹ رپورٹ کے حوالے سے ان عناصر کی نشان دہی کرچکی ہے اور ان کے خلاف باربار اقدام کا مطالبہ کر رہی ہے مگر صوبے کی حکومت حسب سابق غافل ہے اور مرکز ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنا ہوا ہے۔

توانائی کا بحران

بجلی اور توانائی کا بحران ایک عفریت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ۴۸۰؍ارب روپے گردشی قرضے کے سلسلے میں ادا کیے جاچکے ہیں لیکن ابھی تک بجلی کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کی کمی کی شکل میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا۔کن اداروں کی کتنی مدد کی گئی ہے اور کن شرائط پر؟ اس کی کوئی تفصیل قوم یا پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آئی ہے۔ جس طرح قومی سلامتی کی پالیسی ایک خواب اور خواہش سے آگے نہیں بڑھ پارہی، اسی طرح قومی توانائی پالیسی بھی ابھی تک پردۂ اخفاء میں ہے، حالانکہ یہ دونوں چیزیں ایسی تھیں جنھیں حکومت کے بننے کے بعد فوری طور پر واضح شکل میں قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ ایک متعین ٹائم ٹیبل طے ہونا چاہیے تھا جس میں ہر ماہ کا ٹارگٹ ہوتا تاکہ کم از کم ان دونوں میدانوں میں فوری نتائج قوم کے سامنے آنا شروع ہوجاتے۔ کوئی بھی  یہ توقع نہیں رکھتا کہ فقط ایک دو ماہ میں یہ مسائل حل ہوجائیں گے لیکن یہ توقع تو ضرور کی جارہی تھی کہ فوری طور پر نئی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے ہوگا اور قوم یہ محسوس کرسکے گی کہ ہرماہ ہم اپنی منزل کی طرف چند قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش واضح پالیسی کا فقدان اور عملی نتائج کی طرف پیش رفت کے نقشے کا نہ ہونا ہے۔اندازِ حکمرانی اور نتائج و ثمرات عوام تک پہنچانے کے نظام میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی اور یہ سب سے تشویش ناک پہلو ہے۔

اچہی حکمرانی کے دعوے کی حقیقت

ہم سیاسی انتقام کو ایک اخلاقی اورقانونی جرم سمجھتے ہیں لیکن اہم قومی اداروں اور دستوری ذمہ داری کے مقامات پر صحیح لوگوں کا شفاف انداز میں تقرر اچھی حکمرانی اور نظامِ کار میں تبدیلی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ سب سے بڑا صوبہ دو مہینے سے گورنر سے محروم ہے۔ سندھ میں ۱۱سال سے ایک ہی شخص سیاسی گٹھ جوڑ کی علامت بنا ہوا ہے۔ اہم قومی ادارے بشمول نیب سربراہ سے محروم ہے اور درجنوں مرکزی اداروں اور پبلک سیکٹر (enterprises) پر وہ لوگ براجمان ہیں جو اہلیت اور صلاحیت کو نظرانداز کرکے ذاتی یا گروہی مفادات کی خاطر مقرر کیے گئے تھے جو ان اداروں کی تباہی اور قومی وسائل کے ضیاع کا سبب رہے ہیں، لیکن آج تک نہ نئے افراد کے تقرر کا شفاف نظام بنایا گیا ہے اور نہ صحیح افراد کے تقرر کا عمل شروع ہوا ہے۔ بدقسمتی سے جہاں نئی تقرریاں ہوئی ہیں وہاں وہی پرانی روش جاری ہے۔ اس سلسلے میں پی آئی اے کی مثال میڈیا میں آرہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود، نئی حکومت بھی مناسب اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔ شخصی پسندوناپسند اور ذاتی وفاداریوں، دوستیوں اور احسانات کا بدلہ اُتارنے کے عمل کے تاریک سایے آج بھی منڈلاتے نظرآرہے ہیں۔ پنجاب میں لگژری مکانات پر ٹیکس ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کے ساتھ وزرا اور بااثرافراد کے اپنے لگژری مکانات کو کیٹگری ۲ میں لانے کے بارے میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ اسی بیماری کا پتا دیتی ہے جس کے علاج کے لیے قوم نے قیادت کی تبدیلی کا اقدام کیا تھا۔ سرکاری وسائل کا شخصی استعمال اب بھی ہورہا ہے۔ اگر زرداری صاحب اپنے سرکاری دوروں پر بلاول اور آصفہ کو لے جاتے تھے تو اب چین کے دورے پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اپنے اپنے صاحب زادوں کو لے کر گئے ہیں حالانکہ ان کو ایسے اہم اور حساس سیاسی دوروں میں شامل کیے جانے کا کوئی جواز نہیں۔ قوم سابقہ دور کی کرپشن سے بے زار تھی اور روزانہ سپریم کورٹ میں اُس دور کی کرپشن کے کسی نہ کسی واقعے کی شرمناک داستان بے نقاب ہورہی ہے۔ سابقہ حکمرانوں نے ترقیاتی فنڈز کو جس طرح ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے وہ شرمناک ہی نہیں مجرمانہ فعل ہے جس پر قانون کے مطابق گرفت ہونی چاہیے۔

ہم توقع رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت بدعنوانی اور کرپشن کے تمام دروازوں کو بند کرے گی اور سپریم کورٹ جس طرح بدعنوانی کے ایک ایک معاملے کو بے نقاب کر رہی ہے، حکومت نہ صرف  ان اتھاہ کنوئوں(bottomless sinks) کو بند کرے گی بلکہ قوم کی لُوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں واپس لائے گی اور کرپشن کے ان شہزادوں کو قانون کے مطابق قرارواقعی سزا دلوائے گی۔ لیکن وزیراعظم کے حالیہ چینی دورے کے ضمن میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ بڑی پریشان کن ہیں اور ان کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ نندی پور پروجیکٹ کے باب میں سابق حکومت نے مجرمانہ غفلت برتی اور مشینری ایک سال سے بندرگاہ پر پڑی سڑ رہی تھی، اس پروجیکٹ کو بحال کرنا ایک مفید اقدام ہے لیکن یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ ۳۳؍ ارب روپے کے اس پروجیکٹ کو چشم زدن میں ۵۷؍ارب روپے کا کیسے بنا دیا گیا اور چشم زدن میں متعلقہ وزارت کی سمری اور پلاننگ کمیشن سے منظوری اور غالباً وزارتِ مالیات کی طرف سے رقم کی فراہمی، یہ سب کیسے ہوا؟ اخباری اطلاعات ہیں وزارتِ خزانہ نے انکوائری شروع کردی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ سب ہوا کیوں؟ اس سلسلے میں ایک سابق ایم ڈی پیپکو کا ایک خط بھی اخبارات میں آیا ہے جس سے بڑی ہولناک صورت حال سامنے آرہی ہے (ملاحظہ ہو روزنامہ دنیا کا کالم ’میرے دوستوں کو اتنی جلدی کیوں؟‘)۔ اس کا فوری سدباب ضروری ہے۔

تبدیلی کی سمت؟

ہم سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت کو مناسب موقع ملنا چاہیے لیکن نئی حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ واضح پالیسیوں کا اعلان کرے، پالیسیوں پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے لائے۔ اس نقشے کے مطابق احتساب کا نظام مرتب کیا جائے جس پر پوری شفافیت کے ساتھ عمل ہو اور قوم اور پارلیمنٹ کو ہرقدم پر پوری طرح باخبر رکھا جائے۔ میڈیا کو بھی پوری دیانت اور ذمہ داری سے مگر کسی مداہنت کے بغیر نگران (watch-dog)  کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حزبِ اختلاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور تمام اہم اُمور پر احتساب کا فریضہ پوری ذمہ داری اور مستعدی سے انجام دیں۔

اس سلسلے میں تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان پر خصوصی ذمہ داری آتی ہے کہ وہ قوم کے ضمیرکا کردار ادا کریں اور پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کو عوام کے حقوق کے تحفظ اور  قوم کے وسائل کے صحیح استعمال کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کریں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی اصل رپورٹ کو فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آنا چاہیے تاکہ وہ کنفیوژن ختم ہو جو ایک ابتدائی مسودے کے ایک پُراسرار انداز میں شائع کیے جانے سے رُونما ہوا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے فیصلوں کے سلسلے میں بھی حکومت اور پوری انتظامیہ کے رویے میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ان فیصلوں پر ٹھیک ٹھیک عمل ہو۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اگر حکومتیں اور ریاست کے تمام ادارے اپنے اپنے کام ٹھیک ٹھیک انجام دیں تو عدالتوں کو انتظامی اُمور میں مداخلت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ عدالتوں کو اس میدان میں احکام جاری کرنے کی ضرورت بھی صرف اس وجہ سے پڑرہی ہے کہ حکومت اور دوسرے ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے اور لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں یا عدالت کو خود نوٹس لینا پڑتا ہے تاکہ ذمہ دار اداروں کی بے حسی پر ضرب لگا سکے۔ اندازِ حکمرانی کی فوری اصلاح ہی سے حالات صحیح رُخ پر آسکتے ہیں۔

ہم ہرگز معجزات کی توقع نہیں رکھتے لیکن قوم کا یہ حق ہے کہ کم از کم اس کے سامنے یہ چیز تو آئے کہ تبدیلی کی سمت کیا ہے اور منزلِ مقصود کی طرف کوئی قدم اُٹھ بھی رہا ہے یا نہیں۔ سفر بلاشبہہ طویل ہے اور قوم صبروہمت کے ساتھ راستہ کاٹنے کے لیے تیار ہوگی اگراسے یہ نظر آئے کہ منزل کا ٹھیک ٹھیک تعین ہوگیا ہے، پالیسیاں واضح ہیں، نقشۂ کار سب کے سامنے ہے، اور عملاً قدم اس سمت میں اُٹھائے جانے لگے ہیں۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی چیز بھی نظر نہ آئے اور تبدیلی ایک سراب سے زیادہ نہ ہو تو پھر  ع

میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کرلوں!