مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۲۱

ایک صالح معاشرے کی پہچان، اس میں بسنے والے افراد کا وہ رویہ اور طرزِعمل ہوتا ہے، جس میں اعتدال و توازن ، انسانی ہمدردی ، انسانی حقوق کا احترام اور بالخصوص جان ، مال اور عزّت و عصمت کا تحفظ پایا جائے ۔ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہونے والے ایک صالح معاشرے کا ترقی پذیر ہونا ایک عقلی تقاضا ہے۔ کیوں کہ جس معیشت ،معاشرت ،اور قانون و ثقافت کی بنیاد حقوق و فرائض کی ادائیگی پر ہوگی، وہ پس ماندہ ، مفلس اور اخلاقی بیماریوں دھوکا ، جھوٹ ، فریب ، چوری، بے حیائی اور فحاشی کا مرکز نہیں ہو سکتا ۔اس میں معروف ، بر، خیر ، فلاح، حیا ، نیکی، ایفائے عہد، معاشی،اخلاقی اور قانونی پیمانوںکا احترام لازمی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے باوجود صدیوں تک مسلم معاشرہ اپنی اخلاقی برتری ، ذمہ دارانہ طرزِ عمل ، حیا اور ایمان داری کے لیے مثال بنا رہا۔ اگست ۱۹۴۷ء میں سیاسی آزادی کے حصول سے قبل بازار میں اگر کبھی کسی مسلمان گاہک نے ایک ہندو ساہوکار سے کہا کہ ’’فلاں دوکان پر اس شے کی قیمت اتنی کم ہے تو اس نے جواب میں صرف ایک ہی بات کہی ، میاں آپ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہو گا ، آپ اسی قیمت پر یہ چیز لے سکتے ہیں۔گویا مسلمان کی پہچان سچائی اور امانت سے منسلک تھی، جیسا کہ حدیثِ نبویؐ سے واضح ہے کہ ’’جس میں امانت نہیں ، اس میں ایمان نہیں‘‘۔

لیکن یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی و جغرافیائی آزادی کے حصول کے ساتھ ہی ہم نے اپنے روایتی رویوں اور طرزِ عمل سے بھی، جو ہماری پہچان تھے،آزادی حاصل کر لی اور گذشتہ دوعشروں میں اس کے زہریلے پھل ہمارے سامنے آنے لگے ۔ملک کے ہر حصے میں بچوں کے ساتھ زیادتی ، خواتین کی بے حُرمتی ، خودکشی اور نشہ آور اشیا کے کاروبار اور بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ شیطانی مافیائوں کا وجود پکار پکار کر ہمارے قومی ضمیر سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس غیر ذمے دارانہ بلکہ مجرمانہ غفلت کا انفرادی و اجتماعی احتساب کرتے ہوئے ان اسباب کو دُور کیا جائے، جو ان شرمناک واقعات کے پیچھے کار فرما ہیں ۔

گھر اور خاندان

ان اسباب میں سب سے اوّلین چیز والدین کی غفلت اور ذمہ داری سے فرار ہے۔ معاشی دوڑ میں گرفتار شوہر اور بیوی اپنے آپ کو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان (دادا، دادی، چچا ، تایا ، نانا، ماموں ، خالہ ودیگر رشتوں)سے پہلے ہی آزاد کر چکے ہیں۔ پھر دو تنخواہوں کی طلب میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ سکون کے ساتھ موقع اور محل کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں یا ان کے ساتھ کچھ وقت چہل قدمی کرتے ہوئے یا انھیں کسی قریبی مسجد تک لے جاتے ہوئے یہ پوچھ سکیں کہ انھوں نے اپنے سکول یا کالج میں دن کیسے گزارا،دوستوں سے کیا بات چیت کی؟ کلاس میں ان کا درجہ اوّلین پانچ طلبہ میں ہے یا وہ سب سے آخری درجے پر ہیں؟ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اخلاقی نصیحت تو ایک طرف، اُن معاملات پر بھی بات کا وقت نہیں ملتا کہ جن پر والدین اپنی محنت کی کمائی صرف کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر رہے ہیں ۔ خاندان کا نظام سکڑکر ماں، باپ اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے اور ان برکتوں سے محروم ہوچکا ہے، جو گھر میں دادا، دادی ، نانا ، نانی ، خالہ، پھوپھی، چچی اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے دن رات رابطے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا تھا ۔

تعلیم گاہ

جو تعلیمی نظام ہم نے ورثے میں انگریز سامراج سے پایا تھا اور جس کا مقصد ہی ہماری نئی نسلوں کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کاٹ کر مغرب کی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا، آزادی ملنے کے باوجود نہ صرف اسے جاری رکھا ہے بلکہ اسے بہت زیادہ بگاڑ بھی لیا ہے، حالانکہ اُسے درست کرکے اسلامی، تہذیبی،قومی اور عصری ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔چنانچہ یہ تعلیمی ادارے مولانا مودودی کے الفاظ میں تعلیم گاہوں سے زیادہ قتل گاہیں ثابت ہورہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم میں محض ’دینیات‘ کا ایک پرچہ شامل کرنے سے کوئی بڑا جوہری فرق واقع نہیں ہوا، اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔

یہ سمجھنا ایک بڑا مغالطہ ہے کہ اگر اسکول کی بارہ سالہ تعلیم اور کالج کی چار سالہ تعلیم میں ہفتہ میں بہ مشکل ۵۰منٹ کی ایک کلاس پڑھا دی جائے، جس میں روایتی طور پر چند مختصر سورتیں اور عقیدے کی تعلیم شامل ہو، تو اس طرح طالب علم اسلام کی منشا اور مرضی کو سمجھ جائے گا اور اس میں نظریۂ پاکستان سے محبت بھی پیدا ہوجائے گی، اور ملک و قوم کی تعمیروترقی کا بے لوث جذبہ بھی اس کے دل و دماغ میں موج زن ہوجائے گا۔

نصاب میں مغرب سے مستعار لی گئیں کتب جو لادینی ذہن پیدا کرتی ہیں، ہم نے ان کی متبادل کتب تیار کرنے کی کوئی فکر نہیں کی، نہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، نہ طلبہ و طالبات کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ اخلاقی رویوں سے روشناس کرایا اور یہ سمجھ لیا کہ ہرپیدایشی مسلمان ایمان داری، ایفائے عہد ، شرم وحیا اور صداقت و امانت پر خود بہ خود عمل کرنے والا ہو جائے گا۔ایک غلط مفروضے پر قائم توقعات کا نتیجہ کرپشن ، دھوکا دہی ، ملکی خزانے کے ناجائز استعمال کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا؟

ابلاغ عامہ

یہی شکل ہمارے ابلاغ عامہ کی ہے، خصوصیت سے گذشتہ ۲۰برسوں میں آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے نام پر جس طرح تھوک کے بھاؤ ٹی وی چینل، کاروباری بنیادوں پر حکومت اور سرمایہ داروں کی سرپرستی میں قائم ہوئے اور انھوں نے ہر جانب سے مغربی اور ہندو تہذیب وثقافت، الحاد و دہریت اور جنسی مساوات کے نام پر جنسی اخلاقیات کی پامالی کو اپنا مقصد قرار دے کر نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ یہ صرف تفریح کے پروگراموں ہی کا خاصہ نہیں، بلکہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ بہت سے نام نہاد، اسلامی موضوعات پر رمضان کے دوران لڑکوں ، لڑکیوں کو زرق برق لباسوں کے ساتھ بطور رول ماڈل پیش کیا جارہا ہے اور کسی کی آنکھ نہیں کھلتی۔ کسی خبر نامے کو اس وقت تک مکمل نہیں سمجھا جاتا، جب تک اس میں ایک خاتون پوری زیبایش کے ساتھ خبریں نہ پڑھے۔ ڈراموں میں مرو وعورت کا آزادانہ اختلاط ، جسم کے خدوخال کی نمائش اور اشتہارات میں عورت کا تجارتی استحصال ہر ٹی وی چینل کی ضرورت بن گیا ہے۔

اس ماحول میں اگر ایک شخص خود کو پڑھا لکھا ، نیم پاکستانی اور معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے وابستہ سمجھتے ہوئے، کسی ایسے ہی طبقے کی خاتون سے غیر اخلاقی تعلقات قائم کرتا ہے اور پھر اس خاتون کو اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیتا ہے، تو جہاں وہ اس گھناؤنے جرم کا ذمہ د ار ہے، وہاں دوسری طرف ان تمام عوامل پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جو اس شخص کو اخلاقی بے راہ روی کی طرف لے جانے پر اُکساتے رہتےہیں،یعنی تعلیم ، والدین کی عدم توجہی ، ابلاغِ عامہ اور خصوصاً علما، مشائخ اور اساتذہ کی طرف سے عصری مسائل و معاملات پر خاموشی۔

قرآن کریم نے بنی اسرائیل اور نصاریٰ کی گمراہی و فحاشی میں مبتلا ہونے کا ایک سبب ان کے علما اور راہبوں کو قرار دیا، جنھوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ لوگ حرام کھا رہے ہیں ، حرام کا ارتکاب کررہے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا ہیں ، مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی اور اس طرح عملاً  بُرے اعمال میں ان کی مدد کی ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصلاحِ احوال کیسے ہو ؟

اسلام ایک جامع ، قابلِ عمل اور اصلاحی نظام ہونے کی بنا پر ایسے تمام مسائل کا عملی اور آزمودہ حل پیش کرتا ہے۔ ہم آج جس اخلاقی زوال اور ظلمت کا شکار ہیں، بالکل یہی صورتِ حال تھی جب اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے، معاشرے کی تاریکی، گمراہی اور پس ماندگی کو بڑی حکمت کے ساتھ اور کامیابی سے ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کر دیا، جہاں حیا، عدل ، احترام ،تحفظ ، ترقی، فلاح و سعادت معاشرے کی پہچان بن گئی ۔ اس اصلاحِ احوال میں باہمی تعاون و احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشرے میں موجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں ریاست کو کلیدی کردارادا کرنا ہے۔ لیکن جتنی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اتنی ہی یہ معاشرے کے تمام کارفرما اداروں اور افراد پر بھی عائد ہوتی ہے، اور سب کا فرض ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

والدین کا کردار

والدین کو اپنے اوقاتِ کار کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کے اصلاحِ احوال کے لیے قربان کرنا ہوگا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر اور انھیں اپنے ساتھ بٹھاکر قرآن وسنت کے پیغام کو ان کے دل و دماغ میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ جاگزیں کرنے میں صرف کرنا ہو گا ۔یہ کام یک طرفہ طور پر وعظ و نصیحت سے نہیں ہوگا، بلکہ خود اولاد سے قرآن وسنت کے کسی حصے کا مطالعہ کروا کر ایک غیر رسمی مکالمہ کی شکل میں کرنا ہوگا۔ کوشش کیجیے کہ بچے والدین کے ساتھ مل کر اجتماعی غوروفکر کی عادت کو اپنائیں اور اس طرح اپنے دماغوں کو قرآنی اخلاقیا ت اور پیغام سے منور کریں ۔

یہ سارا کام محض تعلیمی اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔بلاشبہہ تعلیمی اداروں کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن آج ستم یہ ہے کہ بیش تر تعلیمی اداروں نے تعلیم کو بطور تجارت اختیار کیا ہواہے ۔ ان کے سامنے سیرت و کردار کی تعمیر اور نظریۂ پاکستان سے وفاداری کا حصول بطور ہدف اور ترجیح موجود ہی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے والدین کی ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

تعلیمی اصلاح

حکومت ِوقت جو بھی ہو، اس کو اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرنا ہو گی کہ وہ اس ملک کی آبادی کو قرآن وسنت سے آگاہ کرنے کے لیے ’یکساں نظامِ تعلیم‘ کے تحت مجموعی نصاب میں اسلامی اخلاقی تعلیمات کو درسی مضامین کا حصہ بنائے اور ہر طالب علم کو اس سے قطع نظر کہ اس کامذہب و مسلک کیا ہے ، یکساں نصاب سے گزارے ۔ دنیا کے تمام نام نہاد ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں مسلک کے اختلاف کے باوجود یکساں نظام تعلیم پر عمل کیا جاتا ہے، اوراس میں کہیں بھی کسی انسانی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔پاکستان میں خصوصاً ۳فی صد غیر مسلم آبادی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ۹۷ فی صد اکثریتی آبادی کے عقائد ، نظریات ، تہذیب سے آگاہ ہوں تاکہ کوئی ثقافتی ، تناؤ اور ٹکراؤ نہ پیدا ہو اور معاشرے میں افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو۔ اس سلسلے میں اقلیتوں کی قیادت سے افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب انتظام کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ دیگر مذاہب کے حامل ہم وطنوں کے لیے اکثریت کے عقائد سے واقفیت حاصل کرنے کا مطلب ان پر عقائد تھونپنا ہرگز نہیں ہے۔ جہاں تک معاشرے کی اخلاقیات کا تعلق ہے، اس باب میں انسانی طرزِ عمل کی اصلاح کے لیے جوتعلیمات قرآن و سنت نے دی ہیں، وہ عالم گیر ہیں اور ان پر ایک غیر مسلم کا عمل کرنا اتنا ہی مطلوب ہے جتنا ایک مسلمان کا۔  کیا کوئی صاحب ِعقل یہ چاہے گا کہ ایک مسلمان سے تو یہ مطالبہ ہو اور اسے تدریس و تربیت کے ذریعے یہ سکھایا جائے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا ، چوری نہیں کرے گا ، قتل و غارت نہیں کرے گا، شرم و حیا کے ساتھ رہے گا ، ہمسایے کے حقوق ادا کرے گا ، خواتین ، معمر افراد اور بچوں کے حقوق ادا کرے گا،لیکن دوسری طرف غیر مسلم کو ان تعلیمات سے بے بہرہ رکھا جائے اور وہ پاکستان کے شہری کی حیثیت سے جو چاہے رویہ اختیار کرے؟

ابلاغ اور نقار خانے کی آواز

آج سوشل میڈیا نے جو ابلاغی مقام حاصل کر لیا ہے، اس میں روایتی صحافت بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میٖڈیا کو تعمیری کام کے لیے استعمال کیا جائے اور سنسنی خیز اطلاعات یا لطیفے اورا فراد پر تیشہ زنی کی جگہ گھریلو امن ، حیا ، پاکیزگی ،رشتوں کے احترام کی بحالی اور معاشرے سے فحاشی اور عریانی کو ختم کرنے کے لیے تدابیر کی جائیںاور اس سلسلے میں جہاد اور اجتہاد کے طریقوں سے کام لیا جائے۔یہ کم خرچ بالا نشین حکمت ِعملی تحریک اسلامی سے وابستہ نوجوانوں کے ذریعے ملک گیر مہم بن سکتی ہے، اور عوام و خواص کو آج اخلاقی مسائل کی اصلاح کی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔

اصلاحِ احوال کے لیے علماو مشائخ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ مسجد وہ اہم مقام ہے، جہاں سے ہر جمعے کو اگر سنجیدہ تعمیری پیغام دیا جائے تو عام مسلمان جو بنیادی طور پر آج بھی دین کو اہمیت دیتا ہے، فحاشی و بے حیائی اور سماجی و معاشی استحصال کے خلاف جہاد میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگا ۔

قانون اور  ریاست

قانونی ذرائع ہر معاشرے میں اہمیت رکھتے ہیں، لیکن جب تک قانون کا نفاذ جیسا اس کا حق ہے نہ کیا جائے، تو محض قانون کا بنانا ایک کاغذی عمل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ہے۔

’اسلامی نظریاتی کونسل‘ نے قانون سازی کے سلسلے میں سال ہا سال سے جو قیمتی تجاویز دی ہیں، افسوس ہے کہ تمام حکومتوں اور ملک کی پارلیمنٹ نے انھیں نظرانداز کیا ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کی روشنی میں حکومت قانون سازی کرے، پھر قوانین کے نفاذ کے لیے قانون نافذکرنے والے تمام ادارے بشمول انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس، اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ سیاسی قیادت بھی ساتھ دے اور عوامی دبائو بھی ڈالا جائے۔

تحریک اسلامی کا کردار

دعوت و اصلاح کا بنیادی مقصد: معروف اور بھلائی کا قیام اور منکر ، فواحش، باطل اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنا ہے ۔ معاشرتی مفاسد سے نجات کے لیے مثبت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی جس کے نتیجے میں معاشرے میں خاندان کے تحفظ اور خصوصاً خواتین اور بچوں کی جان اور عزت کے تحفظ کے معاملات کو اسلامی فکر اور روح کے مطابق بہتر بنایا جا سکے ۔ ایسی دعوتی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں خاندانوں کو شریک کروایا جائے ۔ اسلامی تعلیمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورتوں اور بچوں کے لیے اجتماعی سرگرمیوں کا اہتمام بھی ضروری ہے، نیز خاندانی نظام کی مضبوطی کے لیے خصوصی جدوجہد مطلوب ہے۔ اس سلسلے میں ہرسطح پر گفتگو ، مذاکروں، تقاریر اور عمومی تعلیم کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔

 عوامی شعور کی بیداری میں مسجد کا ادارہ انتہائی کلیدی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ مساجد  اور خطبا سے رابطہ کاری کا مؤثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے انھیں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کو درپیش اہم مسائل، مثلاً خاندانی نظام کا تحفظ ، بزرگوں کااحترام ، معاشرتی رواداری ، عریانی و فحاشی کے خلاف رائے عامہ کی بیداری ، بچوں کی تربیت، گھر کے ماحول کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی ضرورت و اہمیت اور اس جیسے بیسوں اہم مسائل پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔

تحریکی فکر کے حامل تعلیمی اداروں کو مرکز بناتے ہوئے کئی اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان اداروں کی معاونت سے طلبہ و طالبات کے والدین کو تعلیمی اداروں میں مدعو کیا جائے۔ ان کو خاندانی نظام کے استحکام اور معاشی مشکلات سے نجات کے لیے اسلام کے مطابق سادہ زندگی گزارنے کی ضرورت و اہمیت بتائی جائے اور بچوں کی تربیت اور نفسیاتی و خانگی مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی برکات سے آگاہ کیا جائے۔

اگر مستقل طور پر یہ عمل جاری رکھا جائے تو اس سے تحریک کی دعوت کو بھی فروغ ملے گا۔ سوشل میڈیا کے ساتھ اُردو اور انگریزی اخبارات میں مضامین ، خطوط اور کالم لکھے جائیں، اور انھیں صوبائی اور مرکزی پارلیمانوں میں پہنچایا جائے۔ ہم خیال صحافیوں ، وکلا اور اساتذہ کی طرف سے ملک گیر پیمانے پر دستخطی مہم چلائی جائے اور اس طرح جو لوگ دستخط کریں ان کے ای میل، سوشل میڈیا رابطہ ایڈریس حاصل کیے جائیں، تاکہ مہم کے نتائج سے انھیں آگاہ کیا جائے اور مستقل بنیادوں پر ان سے آیندہ بھی دعوتی رابطہ کاری ہوتی رہے ۔بڑے اجتماعات کی جگہ چھوٹے اجتماعات، جن پر خرچ بھی کم ہوگا منعقد کیے جائیں اور خصوصاً مساجد اور اسکولوں کو اس مقصد کے لیے بنیاد بنایا جائے۔

ان تمام اقدامات کے ساتھ حکومت اور میڈیا کو فساد اور انتشار کے اس چیلنج کے مقابلے اوراسلامی اقدار کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔دراصل یہ ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی جواب دہی کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم اپنی ان گزارشات کا اختتام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو زریں ارشادات پر کرنا چاہتے ہیں، جن کے مخاطب مساوی طور پر حکمران اور عامۃ المسلمین ہیں:

حضرت تمیم داریؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلدِّیْنُ النصیحہ اور یہ ارشاد تین بار فرمایا۔ ہم نے پوچھا: لِمَنْ، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:لِلّٰہِ وَلکِتبِہِ ولرسولہِ ولائمۃ المسلمین وعامیتھم ،یعنی دین سراپا نصیحت اور خیرخواہی ہے___ اللہ کے لیے ، اللہ کی کتاب کے لیے،اس کے رسولؐ کے لیے، مسلمانوں کی قیادت کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔

 عربی میں نصیحہ سے صرف خیرخو اہی ہی مراد نہیں بلکہ صحیح بنیادوں پر تعلق استوارکرنا اور اس کے تقاضوں کوپورا کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔ اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ سے خیرخواہی کے معنی ان پر حقیقی ایمان، ان سے گہرا تعلق، اور اس ایمان اور تعلق کے تقاضوں کی صحیح ادائیگی ہے۔  یہ ہرفرد کے لیے لازم ہے جو اسلام کا دعوے دار ہے۔ سب سے بنیادی چیز اللہ کی ہدایت اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں خودسادہ زندگی گزارنا اور معاشرے اور زندگی کے پورے نظام کی اس کے مطابق تشکیل کو اپنی زندگی کا مقصد اورسعی و جہد کا محور بنانا ہے۔ قیادت سے خیرخواہی جہاں حق بات اُن تک پہنچانے، صحیح مشورہ دینے، معروف میں اطاعت کرنے پر مشتمل ہے،وہیں اصلاحِ احوال کے لیے ان میں غلطی اور ناروا رویے پر تنقید و احتساب بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ اور عامۃ الناس کے لیے خیرخواہی امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے تاکہ معاشرہ اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہوسکے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد، دُنیا اور آخرت میں ہرشخص کے لیے اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہی کا اصول مقرر فرماتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت صحت مند احتساب، قانون کی حکمرانی، بے لاگ انصاف، خیر کی حوصلہ افزائی ور شر کی سرکوبی ہے۔ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے اس ارشاد میں اُمت کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے:

قَالَ : اَلَا کُلُّکُمْ  رَاعٍ   وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ  عَنْ  رَّعِیَّتِہٖ  ،فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ  رَاعٍ   وَّھُوَ  مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ، وَالرَّجُلُ   رَاعٍ  عَلٰٓی  اَھْلِ  بَیْتِہٖ  وَھُوَ  مَسْئُوْلٌ  عَنْ  رَّعِیَّتِہٖ  وَالْمَرْأَۃُ   رَاعِیَۃٌ  عَلٰی  اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا  وَوَلَدِہٖ   وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ  عَنْھُمْ ، وَالْخَادِمُ  فِیْ  مَالِ  سَیِّدِہٖ  رَاعٍ   وَھُوَ  مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ     اَلَا فَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ

عَنْ رَّعِیَّتِہٖ (بخاری، کتاب الاستقراض، باب العبد، راعٍ  فی مال سیدہ، حدیث:۲۳۰۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے،اور تم میں سے ہرایک شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ وہ امام جو لوگوں پر نگران ہے، اس سے رعیت کے متعلق بازپُرس ہوگی، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگران ہے، اس (عورت) سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے تو اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ سن لو کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں جواب دہی کی تیاری کے لیے، اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

قرآنِ مجید وہ صحیفۂ ہدایت ہے، جسے اس دُنیا کے خالق و مالک نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے سب سے آخر میں نازل فرمایا ہے۔ یہ کتاب انسان کی صلاح و فلاح اور رُشدوہدایت کے لیے ہرپہلو سے کامل و اکمل ہے۔ قیامت تک پیدا ہونے والی ساری انسانیت اس کی مخاطب ہے۔ اس میں انسانی مسائل کا صحیح، اطمینان بخش اور فطری حل موجود ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی زمانے یا کسی بھی جگہ سے کیوں نہ ہو، جو انسان کی ہدایت و ضلالت سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس کے احکامات کی مکمل پیروی جہاں کامیابی کا یقینی ذریعہ ہے، وہیں اس سے ذرا سی بھی بے توجہی یا دُوری کا نتیجہ انتہائی خطرناک اور نوعِ انسانی کے لیے نہایت ناخوش گوار ہوتا ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت سے لے کر آج تک کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔

قرآنِ مجید کی طرف سے بے توجہی اور اس سے دُوری کے نتیجے میں جو بے شمار فکری اور عملی کوتاہیاں شعوری یا غیرشعوری طور پر مسلمانوں میں پیدا ہوگئی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ذہنوں میں عذابِ الٰہی کا ایسا تصور قائم کرلیا ہے، جو کسی بھی طور پر قرآنی تصریحات سے مَیل نہیں کھاتا۔ ان کے نزدیک گویا ضروری ہے کہ عذابِ الٰہی بھی معجزات کی طرح خرقِ عادت کی شکل میں نمودار ہو، اور اس دُنیا میں طبعی اسباب و عوامل کا جو سلسلہ چل رہا ہے، اس کی خلاف ورزی ہو، ورنہ اسے سب کچھ کہا اورسمجھاجاسکتا ہے، لیکن عذابِ الٰہی نہیں۔ لہٰذا ، وہ اس بات کو بعید سمجھتے ہیں کہ وہی اشیا جن سے وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں مستفید ہو رہے ہیں، جن پر ان کی زندگی کا انحصار ہے، اور ان کے بغیر وہ چند لمحے بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہدایت الٰہی سے رُوگردانی کے نتیجے میں مشیت الٰہی کے تحت کسی بھی وقت ان کے لیے تازیانۂ عذاب میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج اُمت مسلمہ ان عذابوں سے بار بار دوچار ہونے کے باوجود، ان پر اس پہلو سے غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی کہ کہیں یہ ہمارے اعمالِ بد کی پاداش میں ہمارے لیے عذاب کی کوئی صورت تو نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے طبعی اسباب و عوامل تلاش کرکے مطمئن ہورہتی ہے۔ اور اس طرح ان میں اصلاح و تذکیر کا جو پہلو تھا، اس سے غافل رہ جاتی ہے۔ ان کی حالت قرآن کی اس آیت کے مصداق ہے:

اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۱۲۶ (التوبہ ۹:۱۲۶) کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہرسال ایک دومرتبہ یہ آزمایش میں ڈالے جاتے ہیں؟ مگر اس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں ، اور نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔

یا ان لوگوں کی مثال اس اُونٹ سے دی گئی ہے، جس کو اس کا مالک کبھی کھول دیتا ہے اور کبھی باندھ دیتا ہے، لیکن اس کو کچھ پتہ نہیں کہ کیوں اس نے اس کو باندھا اور کیوں کھول دیا۔

قرآنِ مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عذابِ الٰہی کی ہر زمانے میں نہ تو کوئی متعین شکل رہی ہے اور نہ اس کے لیے طبعی عوامل کی خلاف ورزی ضروری ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ مجرم اور گنہگار قوموں کو اسی ماحول اور انھی حالات میں، انھی اسباب کے ذریعے سے عذاب سے دوچار کرتا ہے، جن سے وہ اپنی عام زندگی میں مستفید ہوتے تھے اور ان کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ چیز نہیں آتی کہ یہی اسباب جو آج ہمارے لیے زندگی کا سامان بنے ہوئے ہیں، کبھی ہمارے لیے ہلاکت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

دُنیا میں عذابِ الٰہی کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: پہلی قسم وہ عذاب ہے جو ایسی قوم پر بھیجا جاتا ہے، جس پر حجت تمام ہوچکی ہو اور اصلاحِ احوال کی اُمید معدوم ہوچکی ہو، اور اب اس میں کسی خیر کے پنپنے کے امکانات پوری طرح ختم ہوچکے ہوں، تو عذاب کے ذریعے پوری قوم کو نیست و نابود کردیا جاتا ہے اور صفحۂ ہستی کو اس کے ناپاک وجود سے پاک کردیا جاتا ہے۔

اس قسم کی جو مثالیں قرآنِ مجید نے بیان کی ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:

۱- غرق کرنا: اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان میں سے ایک اہم نعمت یہ بھی ہے کہ اس نے سمندروں کو اس کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ لکڑی کی ایک معمولی سی کشتی کے ذریعے وہ سمندر کی پشت پر دندناتا پھرتا ہے۔ وہ اپنے رزق کا ایک بڑا حصہ سمندری مخلوقات سے حاصل کرتا رہا ہے۔ اس سے طرح طرح کے قیمتی موتی اور آرایش و زینت کی دیگر اشیا نکالتا ہے۔ دوسری جانب اس کے روح پرور نظارے اور خوب صورت و دل کش مناظر انسانی طبیعت کو سرور، خوشی اور راحت سے ہم کنار کرتے ہیں۔ بہت زیادہ وزنی اشیا کے نقل و حمل کے لیے آج بھی سمندر ہی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔

لیکن جب انسان سرکشی پر اُتر آتا ہے، اور اس کے نتیجے میں مشیت الٰہی کارفرما ہوتی ہے، تو یہی سمندر جو ایک لمحہ قبل تک اس کے لیے نفع بخش تھا، اسے ڈبو دیتا ہے، اور اس کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ اس الٰہی پکڑ سے اس کو رحمت ِ الٰہی کے علاوہ کوئی اور نجات نہیں دے سکتا :

وَ اِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْہُمْ فَلَا صَرِيْخَ لَہُمْ وَلَا ہُمْ يُنْقَذُوْنَ۝۴۳ۙ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنَّا (یٰس ۳۶:۴۳-۴۴) ہم چاہیں تو ان کو غرق کر دیں، کوئی اِن کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جاسکیں۔ بس ہماری رحمت ہی ہے جو انھیں پار لگاتی ہے۔

فرعون نے جب سرکشی اختیار کی تو خدائی کا دعوے دار ہوا، اور حضرت موسٰی و ہارون ؑ کی رسالت کو ماننے سے انکار کیا۔ بنی اسرائیل کو آزاد کرنے سے بھی انکار کردیا۔ اور حضرت موسٰی اور بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی اور بنی اسرائیل کو بحرقلزم میں راستہ دے کر پار کرا دیا، اور اسی سمندر میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا۔ قرآن نے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی یہ عظیم نعمت یاد دلاتے ہوئے بیان فرمایا ہے:

وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَيْنٰكُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۰  (البقرہ ۲:۵۰)یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمھارے لیے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمھیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمھاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔

۲- ہَـوا : جن بنیادی اشیا پر انسانی زندگی کا انحصار ہے، ان میں سے ایک ’ہوا‘ بھی ہے۔ ہرجان دار سانس کے ذریعے سے اسے اپنے بدن میں داخل کرتا ہے اور اسی ذریعے سے خارج کرتا ہے۔ اگر سانس کی یہ ڈور کٹ جائے یا سانس لینے کے لیے مناسب ہوا میسر نہ ہو، تو چند لمحوں میں ایک جیتا جاگتا وجود بے جان لاشے میں تبدیل ہوجائے۔ انسانی زندگی کے لیے ہوا، غذا اور پانی سے بھی زیادہ اہم ہے۔

سمندر کی طرح اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے فائدے کے لیے مسخر کیا ہے۔ ہوا بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہانک کر لے جاتی ہے اور بارش کا سبب بنتی ہے۔ خوش گوار موسم میں جب بادِ صبا چلتی ہے، تو انسان پر سُرور و نشاط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔انجن کی ایجاد سے قبل سمندری سفر اور کشتیوں کی آمدورفت کا مکمل انحصار ہوا پر ہی ہوتا تھا۔ آج بھی سمندری سفر کی خوش گواری اور ناخوش گواری میں ہوا کی سازگاری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جدید سائنس نے نباتاتی پہلوسے ہوا کے چلنے کے مختلف فوائد دریافت کیے ہیں۔ یہی ہوا مرطوب بن کر فصلوں کو نشوونما دیتی اور پروان چڑھاتی ہے۔ گرم اور خشک ہو کر ان کو پکاتی اور تیار کرتی ہے۔ حضرت سلیمانؑ اسی ہوا کے ذریعے مہینوں کی مسافت گھنٹوں میں طے کرلیا کرتے تھے۔(سورئہ سبا ۳۴:۱۲)

لیکن یہی ہوا، اگر مشیت الٰہی چاہے تو انسانوں کی ہلاکت کا پیغام لے کر آتی ہے۔ ’قومِ عاد‘ نے جب اپنے نبی حضرت ہودؑ کی بات ماننے سے انکار کر دیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک تیزوتند ہوا بھیجی، جو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر چلتی رہی(الحاقۃ ۶۹:۶)۔ اس کی زد میں جو چیز بھی آتی، وہ ہلاک ہوجاتی تھی (الذاریات۵۱:۴۲ ، الاحقاف۴۶:۲۵)۔ یہاں تک کہ قومِ عاد باوجود اپنے لحیم و شحیم طاقت ور جسموں اور مضبوط اور بلندوبالا ستونوں والے گھروں کے ہلاک ہوگئے اور ان کی لاشیں ایسی بے حس و حرکت پڑی تھیں، جیسے کھجور کے کھوکھلے اور بوسیدہ تنے(الحاقۃ۶۹:۷)۔

اسی لیے جب تیز ہوا چلتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہوجاتے اور اللہ سے لَو لگاتے:

عَنْ عَائِشَۃَ   قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّم اِذَا  عَصَفَتِ  الرِّیْحُ ، قَالَ:  اللّٰھُمَّ  اِنِّیْ  اَسْأَلُکَ  خَیْرَھَا وَخَیْرَ  مَا فِیْھَا  وَخَیْرَ  مَا  اُرْسِلَتْ  بِہٖ،   وَاَعُوْذُبِکَ  مِنْ  شَـرِّھَا  وَشَـرِّ  مَا  فِیْھَا  وَشَـرِّمَا اُرْسِلَتْ  بِہٖ  حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب کبھی تیز ہوا چلتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا فرماتے کہ اے اللہ! میں آپ سے اس کی بھلائی، اس میں جو کچھ پنہاں ہے، اس کی بھلائی، اور جس مقصد سے یہ بھیجی گئی ہے، اس کی بھلائی کا طلب گار ہوں، اور اس کی بُرائی اور اس میں جو کچھ پوشیدہ ہے اس کی بُرائی اور جس غرض سے یہ بھیجی گئی ہے اس کی بُرائی سے میں تیری پناہ کا خواستگار ہوں۔

نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس بات کا حکم دیا کرتے تھے:

عَنْ   اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  رَضِیَ  اللہُ  عَنْہُ  قَالَ  سَمِعْتُ  رَسُوْلَ اللہِ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمْ  یَقُوْلُ الرِّیْـحُ   مِنْ  رَوْحِ اللہِ  تَاْتِیْ   بِالرَّحمَۃ  وَبِالعَذَاب  فَلَا  تَسُبُّوْھَا  وَسَلوا اللہ        مِنْ خَیْرِھَا   وَاسْتَعِیْذُوْا  بِہٖ  مِنْ  شَرِّھَا   حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہوا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے۔ رحمت اور عذاب لے کر آتی ہے۔ لہٰذا تم اُسے بُرا بھلا نہ کہو، بلکہ اللہ سے اس کی بھلائی طلب کرو اور اس کے شر سے پناہ چاہو۔

۳-  آواز: آواز بھی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، جو اس نے انسان کوعطا فرمائی ہے۔ جب تک انسان نے لکھنے پڑھنے کافن نہیں سیکھا تھا، اس وقت تک مافی الضمیر کو ادا کرنے اور باہم رابطے کا ذریعہ صرف آواز ہی تھی۔ فنِ کتابت کی ایجاد اور آلاتِ رسل و رسائل اور کتابت میں گوناگوں ترقی کے باوجود آج بھی آواز پیغام رسانی اور لوگوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنے میں کتابت سے زیادہ فائدہ مند اور زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ آواز کے ذریعے سے انسان نہ صرف مختلف جانوروں کے درمیان تمیز کرتا ہے بلکہ وہ ابنائے انسانی کے مختلف افراد کے درمیان امتیاز کابھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ سُریلی، شیریں اور دل کش آواز سے انسان محظوظ ہوتا ہے ، اور وجد میں آجاتا ہے۔ دل کش آوازوں کی پسند کی وجہ سے انسان نے مختلف آلات موسیقی اور اشعار کے لیے اوز ان ایجاد کیے۔

لیکن جب اللہ تعالیٰ چاہتاہے تو یہی آواز انسان کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ ’قومِ ثمود‘ نے جب حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور ان کی قوم کے بدبخت عناصر نے اس اُونٹنی کو قتل کر دیا، جو ان کے معجزہ طلب کرنے پر پتھر سے پیدا کی گئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور ہولناک آواز کے ذریعے پوری قوم کو نیست و نابود کر دیا۔ ان کے وہ مضبوط اور محفوظ گھر جو انھوں نے چٹانوں کو تراش تراش کر بنائے تھے، وہ عذابِ الٰہی کو روک نہ سکے (الحجر ۱۵: ۸۲،۸۴) اور نہ کوئی اور تدبیر ان کے لیے کارگر ثابت ہوسکی (الذاریات۵۶:۱۱)۔ صرف حضرت صالح علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے افراد اس عذاب سے نجات پاسکے (ھود۱۱:۶۶)۔

موجودہ دور میں، جب کہ ہم دھماکوں اور صوتی آلودگی سے ہونے والے واقعات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں، اس عذاب کی نوعیت اور اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ کرنا قطعاً مشکل نہیں۔ ’اصحابِ مدین‘ کے عذاب کی بھی یہی کیفیت تھی  جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے:

اَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ كَـمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۝۹۵ۧ (ھود ۱۱: ۹۵) سو، مدین والے بھی دُور پھینکے گئے، جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔

۴- سنگ باری : جس طرح ہوا کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسانے کا انتظام کیا ہے، جس سے اس دُنیا کی ساری چہل پہل ہے(الانبیاء۲۱: ۳۰)۔ رزق کا بیش تر دارومدار اسی پانی پر ہے، جو بارش کی صورت میں اللہ تعالیٰ ہوا کے ذریعے سے عطا فرماتا ہے۔  پانی کے ساتھ آسمان سے کبھی اولے بھی برسنے لگتے ہیں۔

لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو تباہ و برباد کرنے کا فیصلہ فرما لیتا ہے، تو آسمان سے   پتھر برسنے لگتے ہیں۔ جس جگہ پر سنگ باری ہوتی ہے، وہ پوری طرح تہس نہس ہوکے رہ جاتی ہے۔ قومِ لوطؑ کے گناہوں کا پیمانہ جب لبریز ہوگیا اور انھوں نے حضرت لوطؑ کی تعلیمات پر ایمان لانے سے انکار کیا اور اپنی اخلاقی بُرائیوں میں مگن رہے یہاں تک کہ جب عذابِ الٰہی کے فرشتے انسانی شکل میں حضرت لوطؑ کے پاس پہنچے تو انھوں نے ان کے ساتھ بھی وہی کچھ کرنا چاہا، جس کے وہ عادی تھے(ھود۱۱:۷۷،۸۰)۔ اور حضرت لوطؑ کی تمام تر تعلیمات اور ان کی منت سماجت کا بھی ان پر کوئی اثر نہ ہوا (الحجر۱۵:۶۷،۷۲)۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بستیوں کو تلپٹ کرکے رکھ دیا اور ان پر ایسے پتھروں کی بارش برسائی، جس پر نشان لگے ہوئے تھے:

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّيْلٍ۝۰ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙ   مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّكَ۝۰ۭ (ھود ۱۱:۸۲-۸۳) پھر جب ہمارے فیصلہ کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تلپٹ کردیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے جن میں ہرپتھر تیرے ربّ کے ہاں نشان زدہ تھا۔

اس سنگ باری سے صرف حضرت لوطؑ اور ان پر ایمان لانے والے افراد ہی محفوظ رہ سکے (القمر۵۴:۳۴، الشعراء۲۶:۱۷۰)۔ خود حضرت لوطؑ کی بیوی بھی اس عذاب میں ہلاک کردی گئی، کیونکہ اس نے اپنی قوم کی طرف داری کرتے ہوئے حضرت لوطؑ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تھا (الحجر ۱۵:۶۰، التحریم۶۶: ۱۰۰، اعراف ۷:۸۳)۔

کفارِ مکّہ کو بھی قرآنِ مجید نے ان کے کفر اور ناشکری پر اس عذاب کی دھمکی سنائی:

اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا (بنی اسرائیل ۱۷:۶۸) کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے، یا تم پر پتھرائو کرنے والی آندھی بھیج دے۔

اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا۝۰ۭ (الملک ۶۷:۱۷) کیا تم اس  سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھرائو کرنے والی ہوا بھیج دے؟

۵-  آگ کی بارش : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک عظیم نشانی بادل ہے، جو آسمان اور زمین کے درمیان بغیر کسی ظاہری سہارے کے معلق رہتا ہے۔ ہوائیں اسے دھکیل دھکیل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں اور انھیں جوڑ کر اللہ تعالیٰ ان سے پانی برساتا ہے (النور ۲۴:۴۳)۔ اسی بادل کو چھتری کی طرح بناکر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے ’سینا ‘کے بے آب و گیاہ صحرا میں سایہ کا انتظام کیا تھا(البقرہ ۲:۵۷، اعراف۷: ۱۷۱)، جس کے ذریعے وہ دھوپ کی حدت اور شدت سے محفوظ رہتے تھے۔

لیکن جب ’اصحاب الایکہ‘ نے حضرت شعیب ؑ کو جھٹلایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دیں(الشعراء۲۶:۱۸۷) تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بادل کے ذریعے سے آگ کی بارش برسائی:

فَكَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّۃِ ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۱۸۹ (الشعراء  ۲۶:۱۸۹) آخرکار چھتری والے دن کا عذاب ان پر آگیا، اوروہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا۔

ان آیات کی تفسیر میں ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ان پر کپکپی اور سخت گرمی طاری کردی، جس سے ان کی جان پر بن آئی (اور دم گھٹنے لگا) لہٰذا، وہ لوگ جنگل کی طرف بھاگے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک بادل بھیجا، جس کی وجہ سے نہ صرف انھیں دھوپ کی گرمی سے نجات ملی بلکہ اس کے سایے میں انھیں ٹھنڈک اور لذت کا بھی احساس ہوا۔ جب ان لوگوں نے بلا بلا کر اپنی پوری قوم کو بھی اس کے نیچے جمع کرلیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ بھیج دی۔ اس کے بعد حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ذٰلِکَ عَذَابُ یَوْمُ الظُّلَّۃِ، ’’یہی ہے چھتری والے دن کا عذاب‘‘۔

حضرت قتادہؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے: اللہ تعالیٰ نے ان پر سات دن تک دھوپ مسلط کردی ۔ کسی بھی چیز کے ذریعے انھیں اس سے راحت نہیں مل رہی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک اَبر بھیجا۔ ان میں سے ایک آدمی نے جاکر اس سے سایہ حاصل کیا تو اسے ٹھنڈک اور راحت محسوس ہوئی ۔ اس نے اپنی قوم کو اس بات سے آگاہ کیا اور ساری قوم سایے کی تلاش میں اس کے نیچے چلی گئی۔ اس وقت ان پر آگ برسا دی گئی(حوالہ سابق)۔

جمہور مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں اسی قول کو اختیار کیا ہے، جن میں سے چند نمایاں نام یہ ہیں: ابن جریر طبری، فخرالدین رازی، خازن، زمخشری، بغوی، ابوالسعود، ابن کثیر، قرطبی، قاضی بیضاوی، جلالین، رشید رضا اور شیخ الہند محمودحسن۔

۶- زمین میں دھنسانا :اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا میں انسان کے لیے جو سہولیات مہیا کی ہیں، ان میں زمین ایک نمایاں اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے رہنے بسنے کے لائق بنایا۔ زمین پھاڑ کر اس کے لیے رزق کے وسائل فراہم کیے۔ نہ صرف زمین کی پشت پر بلکہ اس کے پیٹ میں بھی انسان کے فائدے کے لیے طرح طرح کی چیزیں رکھیں، تاکہ انسان تلاش و جستجو سے انھیں حاصل کرے اور صحیح مصرف میں استعمال کرے۔

جس طرح زمین کے اُوپر اللہ تعالیٰ نے انسان کی عبرت پذیری کے لیے بہت سی نشانیاں رکھی ہیں، اسی طرح خود زمین کو بھی عبرت کا ایک اہم سامان بنایا۔ جب انسانوں کی خودسری اور سرکشی حد سے گزرجاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ ایسے انسانوں کو اس زمین میں دھنسا کر اوروں کے لیے عبرت کا نمونہ بنادیتاہے۔ اس طرح کی ایک مثال قرآن مجید نے بیان کی ہے۔ قارون نے جو حضرت موسٰی کی قوم کا ایک فرد تھا، جسے اللہ تعالیٰ نے بے انتہا مال و دولت سے نوازا تھا۔ جب اس نے اپنی مال داری پر غرور کیا اور اسے اپنی ذاتی لیاقت کا نتیجہ قرار دیا، اور زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے خزانوں سمیت اسے زمین میں دھنسا دیا:

فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ  ۝۰ۣ فَمَا كَانَ لَہٗ مِنْ  فِئَۃٍ  يَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ ۝۰ۤ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ۝۸۱ (القصص ۲۸:۸۱) آخرکار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔ پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کرسکا۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو بھی اس نوع کے عذاب کی دھمکی سنائی:

ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِيَ تَمُوْرُ۝۱۶ۙ (الملک ۶۷:۱۶) کیا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے، تمھیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے۔

اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ (بنی اسرائیل ۱۷:۶۷) تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے۔

۷-  پانی کی کثرت  : زمین کی رونق و دل کشی اور اس پر پائے جانے والی جان دا ر اشیا کی زندگی کا دارومدار جن چیزوں پر ہے، ان میں ایک اہم شے ’پانی‘ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے زبردست انتظام کیا ہے۔ سمندر کا پانی سورج کی گرمی سے بھاپ بن کر اُوپر اُٹھتا ہے۔ فضا کی ٹھنڈک سے بادل کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر پانی بن کر اس زمین پر لوٹ آتا ہے۔ انسان اس کا بہت تھوڑا حصہ ہی روک پاتا ہے۔ بیش تر حصہ ندی نالوں کے ذریعے واپس سمندر میں پہنچ جاتا ہے، یا زمین کے نیچے چلا جاتا ہے۔ پھر بوقت ِ ضرورت انسان زمین کھود کر اس کو حاصل کرتا رہتا ہے۔ جہاں پانی کی قلت سے دُنیا کے اُس حصے کی رونق ختم ہوجاتی ہے، وہیں اس کی زیادتی بھی اس دُنیا کے لیے کم نقصان دہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اندازے کے مطابق اتنا ہی پانی اُتارتا ہے، جتنی ضرورت ہوتی ہے (المومنون ۲۳:۱۸)۔

بعض اوقات اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو اس کی بداعمالیوں کا مزہ اس دُنیا میں چکھانا چاہتا ہے تو جس طرح اس پر پانی کی تنگی کردیتا ہے، اسی طرح بعض قوموں کو اللہ تعالیٰ نے پانی کی کثرت سے بھی ہلاک فرمایا ہے۔

قومِ نوح علیہ السلام کے عذاب کا جو نقشہ قرآن نے بیان فرمایا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ ان پر آسمان خوب ٹوٹ کر برسا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا پورا آسمان چھلنی ہوگیا ہے، جس سے پانی برس رہا ہے۔ دوسری جانب زمین سے بھی پانی اُبلنا شروع ہوگیا اور پوری سطح زمین ایک چشمۂ آب میں تبدیل ہوگئی۔ پانی کی اتنی کثرت ہوگئی کہ وہ فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں تک جاپہنچا۔ پوری قوم اس میں ڈبو کر ہلاک کردی گئی۔ نہ تو ان کے بنائے ہوئے گھر ان کے کام آئے، نہ اُونچے اُونچے ٹیلے اور نہ بلندوبالا پہاڑ۔ صرف حضرت نوح ؑ اوران پر ایمان لانے والے ایک کشتی کے ذریعے بہ حکمِ الٰہی اس سے نجات پاسکے:

فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَاۗءِ بِمَاۗءٍ مُّنْہَمِرٍ۝۱۱ۡۖ وَّفَـجَّــرْنَا الْاَرْضَ عُيُوْنًا فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓي اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۝۱۲ۚ  وَحَمَلْنٰہُ عَلٰي ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ۝۱۳ۙ  تَجْرِيْ بِاَعْيُنِنَا۝۰ۚ جَزَاۗءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ۝۱۴ (القمر۵۴: ۱۱-۱۴) تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کر دیا اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدر ہوچکا تھا اور نوح کو ہم نے ایک تختوں اور کیلوں والی (کشتی پر) سوار کرا دیا جو ہماری نگرانی میں چل رہی تھی۔ یہ تھا بدلہ اس شخص کی خاطر جس کی ناقدری کی گئی تھی۔

۸-  پرندوں کے ذریعے سنگ باری :پرندے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہیں۔ ان کو پرواز کرتا دیکھ کر انسان کے دل میں بھی پرواز کا شوق پیدا ہوا۔ یہ کائناتِ ارضی کی زینت کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کی سُریلی آوازوں اور خوش نما رنگوں سے انسان محظوظ ہوتا ہے۔ ان سے پیغام رسانی کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ ان کے لذیذ گوشت سے انسان اپنے رزق کا ایک بڑا حصہ حاصل کرتا ہے۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے سینا کے بیابان میں ان پرندوں کے ذریعے رزق عطا فرمایا (اعراف ۷:۱۶۰)۔ نباتاتی نقطۂ نظر سے بھی ان کے بے شمار فوائد ہیں۔ اسی طرح بہت سے پرندوں کی کمزوری اور عاجزی بھی نمایاں ہے۔ ان کی بیش تر اقسام اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ معمولی کنکر کی چوٹ کی بھی تاب نہیں لاسکتیں اور وہی ان کی موت یا انھیں زخمی اور معذور کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے، اوراتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ ان سے ایک آدمی کا پیٹ بھی نہ بھرسکے۔

لیکن جب انسان اپنی حیثیت فراموش کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کا شکرگزار ہونے کے بجائے ان پر اِترانے لگتا ہے اور بڑائی کا دعویٰ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں چھوٹے چھوٹے کمزور پرندوں کے ذریعے اس کو اس کی حیثیت یاد دلاتا ہے۔

یمن کے عیسائی حاکم اَبرہہ نے جب کعبۃ اللہ کو مسمار کرنا چاہا، اور اس کے لیے تنومند ہاتھیوں اور فوج کے ساتھ مکہ تک آپہنچا تو اللہ تعالیٰ نے چھوٹی چھوٹی چڑیاں بھیجیں۔ جن کے منہ اور پنجوں میں چھوٹے چھوٹے کنکر تھے۔ وہ چڑیاں ان سنگریزوں کو ان پر برساتی تھیں اور وہ جسے لگ جاتے وہ وہیں ہلاک ہوجاتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی پوری فوج کو ہلاک کرکے داستانِ عبرت بنا دیا۔ قرآنِ مجید نے اس واقعے کو ایک مستقل سورت میں بیان فرمایا ہے:

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ۝۱ۭ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَہُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ۝۲ۙ  وَّاَرْسَلَ عَلَيْہِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ۝۳ۙ  تَرْمِيْہِمْ بِحِـجَارَۃٍ  مِّنْ سِجِّيْلٍ۝۴۠ۙ  فَجَــعَلَہُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ۝۵ۧ (الفیل۱۰۵:۱-۵) تم نےدیکھا نہیں کہ تمھارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نہیں کردیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے، پھر ان کا یہ حال کر دیا جیسے (جانوروں کا) کھایا ہوا بھوسا۔

۹-  شکلوں کا بدل دیا جانا  : اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو عظیم احسانات فرمائے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے بہت خوب صورت سراپا عطا فرمایا۔ اس کی رہنمائی کے لیے رسولوں اور کتابوں کے ساتھ اسے عقل بھی عنایت فرمائی، تاکہ وہ بھلے اور بُرے کے درمیان تمیز کرے اور اس طریقۂ زندگی کو اختیارکرے، جو اس کے مقام و مرتبہ کا تقاضا ہے۔ لیکن جب انسان ان نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔ عقلِ سلیم کے تقاضوں سے منہ موڑ کر جانوروں کی طرح من مانی کرنے لگتا ہے، اور اس طریقۂ زندگی کو اختیار کرتا ہے، جو اس کے مقام و مرتبے سے فروتر ہو، تو غضب الٰہی جوش میں آجاتا ہے اور اس کے اعمال کی پاداش میں بسااوقات اس کی ظاہری شکل و صورت کو تبدیل کرکے جانوروں کی طرح بنا دیا جاتا ہے۔

جب ’اصحاب السبت ‘نے حکمِ خداوندی سے انحراف کیا اور ’سبت ‘کے دن کی حُرمت کو پامال کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی صورتوں کو مسخ کرکے بندروں کی طرح بنا دیا ہے:

فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُہُوْا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ كُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـِٕـيْنَ۝۱۶۶ (اعراف ۷:۱۶۶) پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے، جس سے انھیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا بندر ہوجائو ذلیل اور خوار۔

اسی طرح مشرکین مکہ کو ان کی بداعمالیوں پر متنبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انھیں چوکنا فرمایا:

وَلَوْ نَشَاۗءُ لَمَسَخْنٰہُمْ عَلٰي مَكَانَـتِہِمْ فَمَا اسْـتَــطَاعُوْا مُضِيًّا وَّلَا يَرْجِعُوْنَ۝۶۷ۧ (یٰس ۳۶:۶۷)ہم چاہیں تو انھیں ان کی جگہ پر ہی اس طرح مسخ کرکے رکھ دیں کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے ہٹ سکیں۔

۱۰-  سرکشی سے پہلے چھوٹے عذاب: عذابِ الٰہی کی دوسری قسم وہ ہے، جس سے کسی قوم کا بالکلیہ استیصال مقصود نہ ہو بلکہ وہ عذاب اس لیے بھیجے جاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو جو غفلت کی وجہ سے بداعمالیوں میں مبتلا ہیں، خوابِ غفلت سے چوکنا کردیں۔ عذاب سے وہی لوگ سبق سیکھ سکتے ہیں، جن کے دلوں میں قبولِ حق کی صلاحیت موجود ہو۔ جن کے دلوں کی کھیتی پوری طرح بنجر نہ ہوگئی ہو، بلکہ وہ ان مصیبتوں کو عذابِ الٰہی سمجھ کر اس کے بعد اپنی پچھلی کوتاہیوں کا ازالہ کریں اور مستقبل میں ان سے بچنے کی کوشش کریں۔

البتہ جن لوگوں کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں قبولِ حق کی کوئی صلاحیت نہیں رہ جاتی ہے۔ان کے لیے یہ عذاب ایک ایسے بڑے عذاب کا پیش خیمہ ہوتے ہیں، جو ان کا استیصال کرنے والا ہوتا ہے:

وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۲۱ (السجدہ ۳۲ :۲۱) اورہم ان کو بڑے عذاب کے سوا قریب کا عذاب بھی چکھائیں گے تاکہ یہ رجوع کریں۔

اس قسم کی درج ذیل مثالیں قرآن کریم نے بیان کی ہیں:

       ۱-    آسمانی بلائیں : جیسے طوفان، قحط سالی اورفصلوں میں کمی۔ (اعراف۷:۱۳۳)

       ۲-    موذی جانوروں کی کثرت (ایضاً)

       ۳-    اشیائے ضروریہ کا ناقابلِ استعمال ہوجانا (ایضاً)

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی اور حضرت ہارونؑ کو فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کےلیے بھیجا، لیکن وہ دلائل کے مقابلے میں عاجز ہوگئے۔ معجزات کے ذریعے ان کی بے بسی اور حضرت موسٰی اور حضرت ہارونؑ کی رسالت کی تصدیق ہوگئی۔ اس کے باوجودانھوں نے حضرت موسٰی کی بات  ماننے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پہلے مختلف چھوٹے چھوٹے عذابوں میں مبتلا کیا، تاکہ اگر ان میں بھلائی کا ذرا سا بھی عنصر ہو تو وہ اپنی اصلاح کرلیں اور ان بداعمالیوں کو ترک کر دیں۔ لیکن جب ان تمام کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو غرق کرکے صفحۂ ہستی کو ان سے پاک کر دیا گیا۔

غرق سے پہلے ان پر جو عذاب آئے تھے۔ قرآن نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے:

وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّـنِيْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّـرُوْنَ۝۱۳۰ … وَقَالُوْا مَہْمَا تَاْتِنَا بِہٖ مِنْ اٰيَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِہَا۝۰ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ۝۱۳۲ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ۝۰ۣ فَاسْـتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ۝۱۳۳ (اعراف ۷: ۱۳۰، ۱۳۲، ۱۳۳) ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے…انھوں نے موسٰی سے کہا کہ تو ہمیں مسحور کرنے کے لیے، خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں۔ آخرکار ہم نے ان پر طوفان بھیجا،   ٹڈی دَل چھوڑے، سُرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کرکے دکھائیں مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔

ان آیات کی تفسیر میں سیّدالتابعین حضرت سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں: جب فرعون نے حضرت موسٰی کے مطالبے (بنی اسرائیل کی آزادی) کو تسلیم نہ کیا، تو حق تعالیٰ نے بارش کا طوفان بھیجا، جس سے کھیتوں وغیرہ کی تباہی کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔ آخر گھبرا کر حضرت موسٰی سے دُعا کی درخواست کی کہ تم اپنے خدا سے کہہ کر یہ طوفان دُور کرا دو، ہم بنی اسرائیل کو آزادی دے کر تمھارے ساتھ روانہ کردیں گے۔ حضرت موسٰی کی دُعا سے بارش بند ہوگئی اور بجائے نقصان کے پیداواربہت کثرت سے ہوئی۔ قومِ فرعون عذاب سے بے خوف ہوکر اپنے عہدپر قائم نہ رہی۔ تب اللہ تعالیٰ نے تیار کھیتیوں میں ٹڈی دَل بھیج دیا، جسے دیکھ کر پھر گھبرائے کہ یہ نئی آفت کہاں سے آگئی۔   پھرحضرت موسٰی سے دُعا کی درخواست کی اور پختہ وعدے کیے کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم بنی اسرائیل کو ضرور آزاد کردیں گے۔ جب یہ عذاب بھی اُٹھا لیا گیا تو وہ پھر مطمئن ہوگئے اور سب وعدے فراموش کردیئے۔ آخر جس وقت غلّہ اُٹھا کر مکانوں میں بھرلیا تو خدا کے حکم سے غلّہ میں گھن لگ گیا۔ پھر حضرت موسٰی سے دُعا کرائی اور بڑے پکے عہدوپیمان کیے، لیکن جیسے ہی وہ حالت ختم ہوئی بدستور سابق سرکشی اور بدعہدی کرنے لگے تو خدا نے ان کا کھانا اور پینا بے لطف کر دیا۔ مینڈک اس قدر کثرت سے پیدا کر دیئے گئے کہ ہرکھانے اور برتن میں مینڈک نظر آتا تھا۔ جب کھانے یا بولنے کے لیے منہ کھولتے تو مینڈک جست لگا کر منہ میں پہنچ جاتا تھا اور ویسے بھی اس جانور کی کثرت نے رہنا سہنا مشکل کر دیا۔ اِدھر پینے کے لیے جو پانی لینا چاہتے تھے، وہی خدا کے حکم سے برتنوں میں یا منہ میں پہنچ کر خون بن جاتا تھا۔ غرض کھانے پینے تک سے عاجز ہورہے تھے۔

اسی قسم کی تفسیر ابن عباس، سدی، قتادہ، اور علما کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے۔

مندرجہ بالا آیات کے اس مختصر مطالعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ یہ دُنیا دارالاسباب ہے۔ یہاں ہر کام اس کے طبعی اسباب و عوامل کے تحت ہی انجام پاتا ہے۔  عذابِ الٰہی کی ہرزمانے اور ہرقوم میں نہ کوئی متعین صورت ہی رہی ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور صورت سے عذاب نہیں آسکتا اور نہ اس کے لیے طبعی اسباب و عوامل کی خلاف ورزی ہی ضروری ہے، بلکہ وہی اشیا و اسباب جن سے انسان اس دنیا میں شب و روز فیض پا رہا ہے، جن پر اس کی زندگی کا دارومدار ہے، اور خدا کی وہ بے حدوحساب نعمتیں جو اس پر ہرلمحہ ہورہی ہیں، اگراس کے اعمال میں انحراف پیدا ہوجائے اور وہ ان اشیا کو غلط مقصد کے لیے استعمال کرنے لگے تو وہ اس کے لیے عذابِ الٰہی میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ وہی اشیا جو چند لمحے پیش تر اس کے لیے حیات بخش تھیں اچانک اس کے لیے ہلاکت کا پروانہ ثابت ہوتی ہیں اور نعمتیں نقمتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔

عَن النَّبِیِّ  صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّم اٰمُرُکُمْ  بِخَمْسٍ  ، اَلْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ  وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ  وَالْجِھَاد  فِیْ  سَبِیْلِ  اللہِ (بخاری: ۲۸۳۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمھیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کے ساتھ رہنا، بات سننا، اطاعت کرنا، ہجرت کرنا اور جہادفی سبیل اللہ کرنا۔
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو صاف صاف یہ حکم دیا ہے کہ وہ اجتماعی زندگی بسر کریں۔ اجتماعی زندگی کے لیے بنیادی چیز یہ ہے کہ اُن کے اندر ایک ہستی ایسی ضرورہونا چاہیے، جو اُن کی زندگی کے بارے میں ہدایات جاری کرے اور لوگ اس کی اطاعت کریں۔ ایسی زندگی جس میں حکم دینے اور اطاعت کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو، آںحضور صلی اللہ  علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں اسلامی زندگی نہیں ہے۔ آپؐ نے اپنی اُمت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہرگز منتشر زندگی نہ گزاریں۔آپؐ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ مسلمانوں کا اپنا کوئی اجتماعی نظم نہ ہو۔
 اجتماعیت: پہلی چیز جس کی ہدایت دی گئی وہ جماعت ہے اور جماعت افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ لیکن ایسا مجموعہ نہیں کہ جسے ہم بھیڑ کہتے ہیں۔ اگر یوں ہی کسی جگہ لوگ اکٹھے ہوجائیں تو انھیں ہم جماعت نہیں کہتے۔ جماعت لوگوں کے ایک ایسے مجموعے کو کہتے ہیں، جس کے اندر کسی ایک مقصد پر اتحاد ہوگیا ہو۔اگراُن کی زندگی کے کاموں میں انتشار ہے اور وہ کسی ایک مقصد پر متحد نہیں ہیں تو اُنھیں جماعت نہیں کہہ سکتے۔
دوسری ضروری چیز جو جماعت بننے کے لیے مقصد ِاتحاد سے بھی زیادہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی ہو، محبت اور رواداری ہو اور صاف طور پر یہ محسوس ہو کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اُن کی راہیں ایک ہیں، اور یہ مل جل کر ایک ہی منزل کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ ’جماعت‘ کے ایک لفظ میں وہ پوری تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے، جس شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری اُمت کو دیکھنا چاہتے تھے۔
  سمع و طاعت: جماعت کا تصور سامنے آتے ہی یہ ضرورت خود بخود سامنے آجاتی ہے کہ کوئی اس جماعت کا سربراہ ہو، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسولؐ اللہ کے ارشادات کی روشنی میں اُمت کی رہنمائی کرے اور اُمت کے افراد اس کی بات سنیں اور اطاعت کریں۔ اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظوں میں ’سمع اور طاعت‘ کہا گیا ہے، یعنی ’سننا اورکہنا ماننا‘۔ یہ سمع اور طاعت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ سمع اور طاعت کے بغیر جماعت کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا اور یہی وہ الفاظ ہیں، جن سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُمت مسلمہ اپنے مزاج اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس بات کی محتاج ہے کہ اس میں حکم اور طاعت کا نظام ہو۔ ایسا نظام جو کسی دوسرے نظام کے تابع نہ ہو، کسی کے زیراثر نہ ہو اور اپنے حدود اوراختیارات میں بالکل آزادہو۔
سمع و طاعت کے الفاظ احادیث میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں اور اگر ان سب کو سامنےرکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایک ایسے نظام کو قائم کرنا اُمت مسلمہ کی ایک لازمی اور فطری ذمہ داری ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امروطاعت کا کوئی نظام نہ کبھی آپ سے آپ قائم ہوا ہے اور نہ قائم ہوسکتا ہے۔ اس کے قائم کرنے کے لیے بھی کوشش شرط ہے اور اس کے قائم رکھنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتاہے۔ یہ ہمیشہ انسانی گروہ کی کوششوں سے ہی قائم ہوا کرتا ہے۔
 اس لیے رسولؐ اللہ کے ارشادات کے مطابق یہ نظام بھی اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک اُمت مسلمہ خود اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرے اور اس کے لیے ضروری کوششیں انجام نہ دے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ اس نظام کی ’اطاعت‘ صرف ’معروف‘ میں ہے، معصیت میں نہیں، یعنی صرف ان باتوں میں اطاعت فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسلامی شریعت کے خلاف نہ ہوں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اطاعت صحیح نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں جماعت، سمع اورطاعت کے الفاظ سے جونقشہ ہمارے سامنے آتا ہے، اس کا خلاصہ اُوپر جو پیش کیا ہے، یہ چیز ایسی نہیں ہے کہ صرف خواہشوں سے حاصل ہوجائے یا بار بار اس کا تذکرہ کرنے سے کام بن جائے۔ دُنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی نظام چاہے ، وہ حق ہو یا باطل، اس وقت تک قائم ہی نہیں ہوا، جب تک اس کے لیے کوششیںنہیں کی گئیں۔
 اسلام جس قسم کی سمع و طاعت کا نظام قائم کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے بھی کوشش شرط ہے اور اس کوشش کے بھی دو عنوانات ہیں: ایک ہجرت اور دوسرا اللہ کی راہ میں ’جہاد‘۔ افسوس یہ ہے کہ ان دونوں الفاظ کا صحیح مفہوم ہمارے سامنے نہیں آیا۔ پھر غیروں نے اِن الفاظ میں جو رنگ بھر دیا ہے، اس سے تصویر اور بھی غلط ہوگئی ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو آج دُنیا کی کوئی تمدنی ترقی ان دو لفظو ں کی حقیقت سے خالی نہیں ہے۔ ہرنظام جو آج قائم ہے یا جسے قائم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، لازماً اپنے خیرخواہوں سے وہی مطالبہ کرتا ہے، جو اسلام ہجرت اور جہاد کی صورت میں اپنے پیرووں کے سامنے رکھتا ہے۔
  ہجرت: ’ہجرت‘ کا مقصد یہ ہے کہ انسان اعلیٰ مقاصد کی خاطر کم ترفوائدکو قربان کردے اور اس کی راہ میں جو چیزیں بھی حائل ہوں اُنھیں چھوڑدے: آرام و راحت، مال و دولت، ملک وو طن، اہل و عیال سب اس میں شامل ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ دُنیا کے تمام نظام جب اپنے پیروکاروں سے ’ہجرت‘ کا مطالبہ کرتے ہیں، تو اُن کے سامنے جو بھی اعلیٰ سے اعلیٰ مقصد رہتا ہے، جس کی خاطر وہ قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں، اُس کا تعلق صرف اسی زندگی سے ہوتا ہے۔ وہ اگر چاہتے ہیں کہ لوگ آج اپنے آرام و آسایش کو چھوڑ دیں یا اپنا مال و دولت قربان کردیں، تو صرف اس لیے کہ کل انھیں اوراگر انھیں نہیں تو اُن کے بعد آنے والی نسلوں کو بہت زیادہ آرام وراحت اور مال و دولت ملنے کی اُمید ہو۔
لیکن اسلام جس ’ہجرت‘ کا مطالبہ کرتا ہے، اس کے بدلے کے طور پر وہ اُس زندگی کی نعمتوں کو رکھتا ہے، جو اس زندگی کے بعد یقینا آنے والی ہے اور جو ہمیشہ رہے گی۔ یہاں اس تفصیل کا موقع نہیں کہ اس فرق کی وضاحت کی جائے، جو نقطۂ نظر کے اس اختلاف سے اسلام کی خاطر جدوجہد کرنے والے اس گروہ اور دوسرے نظاموں کی خاطر جان کھپانے والے لوگوں میں فطری طور پر واقع ہوجاتا ہے۔ لیکن آپ یقین رکھیے کہ اسلام کا اپنے مقصد کے لیے ہجرت کا مطالبہ نہ کوئی انوکھا مطالبہ ہے اور نہ کسی پچھلے ’غیرترقی یافتہ‘ دور کی یادگار۔ یہ ایک منطقی، جائز اور فطری مطالبہ ہے اورایک لازمی شرط۔ بشرطیکہ اُمت مسلمہ اس زندگی کو اپنانے کا فیصلہ کرے، جو اللہ کے رسولؐ نے پسند فرمائی ہے اور جس کا نقشہ قرآن کے ایک ایک صفحے پر ہمارے سامنے ہے۔
جہاد: اب دوسری چیز ’جہاد‘ کو لیجیے۔ اس کا نقشہ تو غیروں ہی نہیں بہت سے اپنوں کی نظروں تک میں اور بھی بھیانک ہے۔ ’جہاد‘ کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ انسان جس مقصد کو عزیز رکھتا ہے، اس کو حاصل کرنے اور اسے اس کے دشمنوں سے بچانے کے لیے اپنی جان اور مال سے انتہائی درجے کی کوشش کرے اور اس کی خاطر اپنا سب کچھ لگا دے۔ ذرا غور کیجیے کہ کیا دُنیا میں کوئی قوم، کوئی ملک، کوئی جماعت، کوئی قبیلہ، کوئی گھر، انتہا یہ کہ کوئی وجود کیا اس کوشش کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟
 اگر آپ اپنے دشمنوں کو دفع کرنا جرم سمجھ لیں، اگرآپ اپنے وجود کو باقی رکھنے کی کوششوں کو غلط سمجھنے لگیں، تو کیا اس زمین کے اُوپر کوئی ایسی قوت ہے، جو آپ کے وجود کو برقرار رکھ سکے؟ یہ کام تو ہرقوم کر رہی ہے اور کرتی رہتی ہے۔ بس فرق صرف ایک ہے۔ یہ کہ اگر کوئی قوم اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے یا اپنے دشمنوں کے ہاتھوں مٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتی تو اس کے سامنے سوائے اپنی قومی برتری کے اور کوئی جذبہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ملکوں کا حال ہے، اور یہی روح جماعتوں، قبیلوں اور افراد سب میں کام کر رہی ہے۔
البتہ اسلام جس جہاد کے لیے ہمیں تیار کرتا ہے، اس کی ایک لازمی شرط ’فی سبیل اللہ‘ قرار دیتا ہے۔ اس شرط کے سامنے آتے ہی کیفیت بالکل بدل جاتی ہے۔ اب نہ کسی قوم کو دوسری قوم پر غالب کرنے کا سوال باقی رہتا ہے اور نہ کسی ملک کی حدود کو بڑھانے یا اس کا لوہا منوانے کی خواہش سامنے آتی ہے اور نہ کسی جماعت یا کسی قبیلے پر دوسری جماعتوں اور دوسرے قبیلوں کی بالادستی قائم کرنے کا کوئی خیال دل میں باقی رہتا ہے، بلکہ اس کے برخلاف جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کھپا کر کمال درجے کی سعی و محنت کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں، ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے۔ وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے، وہ انسانیت کے دُکھوں کو دُور کرنا چاہتے ہیں، بھٹکے ہوئے انسانوں کو صحیح راستہ دکھانا چاہتے ہیں اور جن لوگوں کی نظریں صرف اِسی دُنیا میں اُلجھ کر رہ گئی ہیں، انھیں اس ہمیشہ رہنے والی زندگی میں کامیاب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ جب وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنی جان اور مال کو کھپا کر کمال درجے کی سعی و محنت کرنا قبول کرلیں؟ لیکن جب وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے تو اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ اِس دُنیا میں ملنے والے کسی نفع یا کسی بدلے کی خاطر یہ پاپڑ نہیں بیلتے۔ ان کے دلوں میں یہ حقیقت بہت اچھی طرح بیٹھ جاتی ہے کہ اصل معاملہ اُس زندگی کا ہے ،جو موت کے بعدشروع ہوتی ہے اور جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ وہ جو کچھ چاہتے ہیں، اُسی زندگی میں چاہتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں، اُسی زندگی کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔
نقطۂ نظر کی یہ تبدیلی دونوں قسم کے جہادوں میں، یعنی ’جہاد فی سبیل اللہ‘ میں اور ’جہاد فی سبیل غیراللہ‘ میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کردیتی ہے۔ ایک میں خلوص، محبت، ہمدردی اور اصلاح کے جذبات کام کرتے ہیں، اور دوسرے کی بنیاد مفاد پرستی، نفرت اور ذاتی، قومی اور ملکی برتری کے سوا کچھ نہیں۔
یہ تو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک حدیث ہے۔ آپؑ جانتے ہیں کہ احادیث میں یہ مضمون بار بار آیا ہے اور قرآن کی دعوت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ’’ہم وہی زندگی گزاریں جو اسلام نے ہمارے لیے پسند کی ہے اور جس کے نتیجے میں ہماری ہمیشہ رہنے والی زندگی سُدھر سکتی ہے‘‘۔ اس بات کی ضرورت نہیں کہ ان احکامات کے مقابلے میں اُمت مسلمہ کی موجودہ حالت تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کی جائے ۔ ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ ہم اس منزل سے دُور ہی نہیں ہیں بلکہ اب تو شاید ہم نے اس منزل کو بھلا ہی دیا ہے ، یہی سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔
 یقین جانیے کہ اُمت مسلمہ پر فرض تو نہیں کیا گیا ہے کہ وہ اگر کبھی غیراسلامی زندگی کا شکار ہوجائیں تو وہ اسے آناً فاناً بدل کر ہی رکھ دیں، لیکن یہ یقینا ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صحیح مقام کو ہمیشہ نظروں کے سامنے رکھیں اور اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہیں۔
ان کوششوں کی ابتدا ’جماعت‘ اور’ سمع و طاعت‘ ہے، اور آخری منزل ’ہجرت‘ اور ’جہاد‘۔

اس فلسفے سے کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ دنیا میں قومیں اور معاشرے جس بنیاد پر زندہ رہتے ہیں وہ بنیاد انصاف ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل [م:۱۹۶۵ء]سے جنگی تباہ کاریوں اور معاشی بدحالی کا شکوہ کیا گیا تو اُس نے پلٹ کر سوال کیا: ’’کیا برطانوی عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں؟‘‘ جب جواب ’ہاں‘ میں ملا، تو اُس نے کہا: ’’پھر کچھ بھی غلط نہیں۔ ہماری قوم اور حکومت ان مشکلات سے بھی نکل آئیں گی‘‘۔
پاکستان آج کل جن مشکلات کا شکار ہے اس کو سمجھنے کے لیے درج ذیل تاریخی حقائق پیش نظر رہنے چاہییں:
تحریک پاکستان کے قائدین نے واضح طور پر مسلمانان پاک و ہند کو یقین دلایا تھا کہ مسلمانوں کا علیحدہ وطن نہ صرف ایک خطۂ زمین ہوگا بلکہ اس میں اللہ کی مرضی کے مطابق حکومت کا سارا نظام چلایا جائے گا اور کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف رُوبہ عمل نہیں لایا جائے گا۔
اللہ نے پاکستان کی نعمت سے سرفراز فرمایا تو اللہ اور اُس کی مخلوق سے کیے گئے وعدوں پر عمل کرنے کا مرحلہ آیا۔بہت سے مصائب کا سامنا کرنے اور دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ۱۹۷۳ء میں متفقہ طور پر آئین پاس ہوگیا۔ چار ہی سال بعد آئین میں کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا اور۱۹۷۷ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے نتیجے میں جنرل محمد ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر مارشل لا نافذ کر دیا اور مذہبی، سیاسی جماعتوں اور عوام کے مطالبے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ اسلامی اقدامات اُٹھائے گئے، جن میں سے ’نفاذِ حدود قوانین‘ اور ’وفاقی شرعی عدالت‘ کا قیام قابلِ ذکر ہے۔
قرار دادِ مقاصد جو کہ دستور پاکستان کا فعال اور مؤثر حصہ (Operative Part) بن چکی ہے، واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ مُطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ لہٰذا، اس قرارداد کے مطابق دستور کی رو سے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اسلامی اصولوں کی پوری اتباع کی جائے گی۔
قرار دیا گیا کہ دستورِ پاکستان کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مُقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں اور نظام عدل کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے ’وفاقی شرعی عدالت‘ کا قیام عمل میں آیا۔
وفاقی شرعی عدالت: ساخت اور دائرۂ اختیارات
 ۲۶ مئی ۱۹۸۰ء کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا اور بعدازاں اسے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے قومی اسمبلی نے دستورِ پاکستان کے حصہ ہفتم باب سوم (الف) کے طور پر اس کی باقاعدہ توثیق کر دی۔
دستور کے مطابق یہ عدالت قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) سمیت آٹھ مسلم ججوں پر مشتمل ہے، جن میں پانچ جج ایسے ہوتے ہیں جو ہائی کورٹ کے جج بننے کے اہل ہوں یا جج رہ چکے ہوں اور تین جج جید علمائے کرام میں سے لیے جاتے ہیں۔
l اصل اختیارات : دستور کے مطابق عدالت خود اپنی تحریک پر (Suo-Moto Jurisdiction) یا پاکستان کے کسی شہری، وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی درخواست پر اس سوال کا جائزہ لے کر فیصلہ کرسکے گی کہ آیا کوئی قانون یا اُس کا کوئی حکم ان اسلامی احکام کے منافی تو نہیں جن کا قرآنِ حکیم اور رسول کریمؐ کی سنت میں تعین کیا گیا ہے؟ اگر عدالت کسی قانون کو اسلامی احکام کے منافی قرار دے گی تو وہ اپنا فیصلہ دلائل کے ساتھ صدرِ مملکت، گورنر اور متعلقہ حکام کو بھیجے گی اور ساتھ ہی یہ تعین بھی کرے گی کہ اس کا فیصلہ کس تاریخ سے مؤثر ہوگا۔

اختیارِ اپیل: عدالت حدود کے نفاذ سے متعلق قوانین کے تحت کسی فوجداری عدالت کی طرف سے فیصلہ شدہ مقدمے کا ازخود جائزہ لے سکتی ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی سن سکتی ہے۔
اختیارِ نظرثانی:عدالت اپنے دیئے گئے فیصلے یا صادر کردہ حکم پر نظرثانی کا اختیار رکھتی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں اپیل: وفاقی شرعی عدالت کے کسی فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں متاثرہ فریق اپیل دائر کرسکتا ہے۔ اس اپیل کا فیصلہ سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بنبچ کرے گا جس کی ساخت حسبِ ذیل ہوگی:
عدالت عظمیٰ کے تین سینئر مسلمان جج،  دو جج علمائے کرام میں سے عارضی بنیادوں (Adhoc Basis) پر لیے جائیں گے اور جب بھی یہ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی جائیں گی تو انھیں بلا لیا جائے گا، ان کی حیثیت مستقل جج کی نہیں ہوگی۔ پانچ ججوں پر مشتمل اس بینچ کا سربراہ سپریم کورٹ کا سینئر جج ہوگا۔
قابلِ غور نکتہ: یہ نکتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’اگر کسی فیصلے کے خلاف شریعت اپیلیٹ بینچ میں اپیل دائر ہو جائے تو وہ فیصلہ معطل تصور ہوگا اور سپریم کورٹ کے فیصلے تک وہ قابلِ عمل نہیں ہوگا اور اس اپیل کے فیصلہ کرنے کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے‘‘۔ لہٰذا، اس کے نتیجے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے ایک عضوِ معطل کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قرآن و سنت کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیلوں پر نظر ڈالی جائے تو اِس نکتے کی اہمیت مزید واضح ہو جائے گی۔
عدالتِ عظمیٰ میں زیرالتواء اپیلوں کی تفصیل
بیگم رشیدہ پٹیل (بنام وفاقِ پاکستان)نے سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں ۱۹۸۹ء میں دائر کیں، جو گذشتہ ۳۱ سال سے زیرسماعت ہیں۔
بیگم رشیدہ پٹیل نے شریعت پٹیشن (۱۵-۱۱/۱۹۸۹ء)کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت میں درج ذیل نکات اٹھائے تھے:

  • نفاذ حدود میں عورت کی گواہی کی حیثیت
  • زنا بالجبر میں نصاب شہادت
  • جرمِ زنا میں تعزیری سزا کی حیثیت
  • نفاذِ حد زنا میں چار مرد گواہوں کی شرط۔

وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا کہ ’’نفاذِ حد کے لیے چار مرد گواہوں کی شرط لازم ہے، البتہ اگر مرد گواہ موجود نہ ہوں تو عورتوں کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے مگر اس کے نتیجے میں حد نافذ نہیں ہوگی بلکہ تعزیری سزا دی جائے گی‘‘۔
 شریعت پٹیشن نمبر۱۹۸۵ (۱۰، ۱۳) مسترد کر دی گئیں،جب کہ شریعت پٹیشن نمبر ۱۹۸۳ (۱۴)، ۱۹۸۵ (۲)کو جزوی طور پر قبول کیا گیا۔ فیصلہPLD 1989 FSC 95میں شائع ہوا ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان اور صوبوں نے سپریم کورٹ میں شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل ۱۹۹۲ (۶۱، ۶۴) دائر کر دی۔ یہ اپیل ۱۹۹۲سے اب تک زیرالتواہے۔ اس اپیل کا پس منظر یہ ہے: درخواست گزار اشفاق احمد نے بذریعہ شریعت پٹیشن نمبر۵ (۱/۱۹۸۵) وفاقی شرعی عدالت میں ’کنٹونمنٹ رینٹ رسٹرکشن ایکٹ ۱۹۶۳ ‘ کو چیلنج کیا تھا، جس میں عمارت کے مالک اور کرایہ دار کے حقوق کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا کہ ’’ہر ذاتی جائیداد کے مالک کے حقوق پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی اور یہ مالک اور کرایہ دار کی معاہدہ کرایہ داری کی شرائط کے مطابق ہی درست تصور ہوگا‘‘۔ اس شریعت درخواست میں عدالت نے درج ذیل قوانین کا بھی جائزہ لیا: ’پنجاب اربن رینٹ رسٹرکشن آرڈی ننس ۱۹۵۹‘، ’ویسٹ پاکستان اربن رینٹ رسٹرکشن آرڈی ننس ۱۹۵۹ ‘جو سرحد میں بھی نافذ ہے، ’بلوچستان اربن رینٹ رسٹرکشن آرڈی ننس ۱۹۵۹‘،’ سندھ،رینٹڈ پرمسز آرڈی ننس ۱۹۷۹‘۔
شریعت درخواست ۵ (۱/۱۹۸۵) مسترد کر دی گئی، تاہم ۱۹۹۰ (۹) اور ۱۹۹۰ (۷۱) کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔ وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہPLD 1992, FSC 286 میں رپورٹ ہوا ہے۔
گورنمنٹ آف پاکستان وزارت قانون نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل (حکومت پاکستان بنام ملک عثمان، حبیب وہاب الخیری وغیرہ ۱۹۸۹، ۱۹-۲۴) دائر کر دی جوکہ گذشتہ  ۳۲برسوں سے زیرسماعت ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مختلف درخواست گزاروں نے ’محمد صلاح الدین بنام حکومت پاکستان‘ اور چار دیگر درخواست گزاروں نے درخواستوں میں درج ذیل قوانین کو خلافِ اسلام ہونے کی بنیاد پر چیلنج کیا :
پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ ۱۹۷۶ء کی چار دفعات mممبران پارلیمنٹ کی کوالیفکیشن سے متعلق دفعات۱۴، ۲۵ آف نیشنل اینڈ پراونشل اسمبلیز الیکشن ایکٹ ۱۹۷۷ الیکٹورل رول ایکٹ ۱۹۷۴کی دفعات ۱۶ اور ۲۶ عوامی نمایندگی ایکٹ آف ۱۹۷۶ کی دفعہ ۹۹
وفاقی شرعی عدالت نے ان میں سے کچھ دفعات کو کلی یا جزوی طور پر خلاف اسلام قرار دیا۔ مکمل فیصلہPLD 1990, FSC 1 پر دیکھا جاسکتا ہے۔
 اپیل ’حکومت سندھ بنام نصرت بیگ مرزا‘ (۷۹/۱۹۹۲) پچھلے ۲۹برس سے سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔
نصرت بیگ مرزا نے وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کی کہ سندھ رولز ۱۹۷۴ اور سول سرونٹس ایکٹ ۱۹۷۳ء میں جو کوٹہ سسٹم کی گنجایش رکھی گئی ہے، اسے قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں غیراسلامی قرار دیا جائے۔ ۲۳؍ اپریل ۱۹۹۲ء کو عدالت نے یہ اپیل منظور کرلی۔ فیصلہPLD 1992, FSC 412 پر رپورٹ ہوا ہے۔ لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دی گئیں، جوکہ ابھی تک فیصلے کی منتظر ہیں۔
 ’وفاقی حکومت بنام ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل‘ (۶۲،۱۹،۱۳/۱۹۹۱)اور (۷۸/۱۹۹۲) مرکزی حکومت کے علاوہ پنجاب، سرحد اور سندھ حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل کے خلاف ۱۹۹۱ء میں اپیل دائر کردی، جو پچھلے ۳۰ برسوں سے سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہیں۔
ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں ۱۹۹۰ء میں (۱/۲۸) درخواست دائر کی کہ کورٹ فیس ایکٹ ۱۸۷۰ء کی دفعہ ۴ غیراسلامی ہے، لہٰذا اسے قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں غیراسلامی قرار دے کر قرآن و سنت کے دائرے میں لانے کی ہدایات جاری کی جائیں۔ یہ درخواست ۲۷؍اپریل ۱۹۹۱ء کو منظور کرلی گئی۔ فیصلہ PLD 1992, FSC 195 میں چھپ گیا، مگر حکومت پاکستان، حکومت صوبہ پنجاب، حکومت صوبہ سندھ اور حکومت صوبہ سرحد نے سپریم کورٹ میں مذکورہ بالا اپیل دائر کر دی جوکہ آج تک زیرسماعت ہے۔
’وفاق پاکستان بنام حبیب وہاب الخیری ‘ ۱۹۹۱ء (۲۲، ۲۱، ۲۰) تین اپیلیں گذشتہ ۳۰برس سے سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہیں۔حبیب وہاب الخیری نے ۱۹۹۱ء میں وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ ’قانون ضابطہ فوجداری‘ کی دفعات ۴۹۵، ۴۹۴، ۴۰۲، ۴۰۱، اور دفعہ ۱۰ (۴) آف پاکستان فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ ۱۹۵۸ء غیراسلامی ہیں، لہٰذا پیش کردہ دلائل کی روشنی میں ان کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ جس کا فیصلہ ۸؍اگست ۱۹۹۱ءکو کر دیا گیا، جو PLD 1999, FSC 236 میں رپورٹ ہوا ہے۔ مگر اس کے خلاف حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی، جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔
’’وفاق پاکستان اور دیگر‘‘ کی چار اپیلیں رانا شبیر بنام اسماعیل قریشی (۸۰/۱۹۹۲) وفاقِ پاکستان بنام اسماعیل قریشی (۸۷-۱۹۹۲)، نیشنل بنک بنام خالد فاروق (۹۲/۱۹۹۲)، نیشنل بنک بنام اسماعیل قریشی (۹۲/۱۹۹۳) عدالت عظمیٰ میں گذشتہ ۲۹ سال سے زیرالتواء ہیں۔ایم اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے ’نفاذ شریعہ ایکٹ ۱۹۹۱‘ کی دفعہ ۳کی ذیلی دفعہ۲  کو چیلنج کیا کہ یہ خلاف اسلام ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے متعدد سماعتوں کے بعد ۱۳ مئی ۱۹۹۲ء کو اپیل منظور کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا جوکہ PLD 1992, FSC 445 پر رپورٹ ہوا ہے۔
 اپیلیں ۱۹۹۲ (۸۸، ۸۹، ۹۰) عدالت عظمیٰ میں گذشتہ ۲۹ سال سے زیرسماعت ہیں۔
روشن دین روشن نے پراویڈنٹ فنڈ ایکٹ ۱۹۲۵ کی دفعات۲  اور۵  کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا تھا کہ یہ دفعات خلافِ قرآن و سنت ہیں۔ متعدد سماعتوں کے بعد عدالت نے ۱۰؍ اگست ۱۹۹۲ءکو درخواست گزار کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیا جو کہ SD 1993 1 پر شائع ہوچکا ہے۔
’’صوبہ پنجاب اور سرحد [خیبرپختونخوا] کی جامعات بنام ڈاکٹر ایم اسلم خاکی‘‘ والی تین اپیلیں ۲۰۰۵ (۱،۳،۴) گذشتہ ۱۶ سال سے عدالتِ عظمیٰ کی خصوصی توجہ کی منتظر ہیں۔
ڈاکٹر اسلم خاکی نے گومل یونی ورسٹی ایکٹ ۱۹۷۴ کی دفعات ۳۹ اور ۲۱، بہاءالدین زکریا یونی ورسٹی ایکٹ ۱۹۷۵ کی دفعات ۲۵ اور ۴۳، اسی طرح انجینئرنگ یونی ورسٹی لاہور ایکٹ ۱۹۷۴ کی دفعات ۲۳ اور ۴۱ کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی بنا پر شرعی عدالت میں ۱۹۹۲ میں چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے درخواست دہندہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے ۶ دسمبر۲۰۰۴ء کو فیصلہ دے دیا جوکہ PLD 2005, FSC 3   میں رپورٹ ہوا ہے۔ اس پر  تمام یونی ورسٹیوں نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دیں، جو ابھی تک زیرالتواءہیں۔
یہ دو اپیلیں ۲۰۰۸ (۲،۳)  وفاق پاکستان کی طرف سے دائر کی گئی تھیں، عدالت عظمیٰ میں گذشتہ ۱۳سال سے زیرالتواءہیں۔
کرنل (ریٹائرڈ) محمد اکرم نے وفاقی شرعی عدالت میں شریعت درخواست نمبر۱۹۹۳ (۴) دائر کرکے ’پاکستان آرمی ایکٹ ۱۹۵۲ ‘کی دفعہ ۱۳۳ (الف، ب) کو خلافِ اسلام قرار دینے کی درخواست کی، جوکہ عدالت نے ۲ ستمبر ۲۰۰۸ء کو منظور کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت جاری کی کہ وہ فیصلے کی روشنی میں اس دفعہ کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق بنائے۔ فیصلہ ۲۰۱۰ کے PLJ 2010, FSC 291میں رپورٹ ہوا ہے۔مگر حکومتِ پاکستان نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر دی جس کا فیصلہ تیرہ سال گزرنے کے باوجود نہیں ہوسکا۔
تین اپیلیں، تنویر جہاں (۲،۱/۲۰۰۰)، قطب الدین (۱/۲۰۰۴)، ملک عبدالرحمان (۳/۲۰۰۴) بنام حکومت ِ پاکستان ، گذشتہ ۲۱ اور ۱۷ برس سے عدالت عظمیٰ میں سماعت اور فیصلے کی منتظر ہیں۔ اللہ رکھا نے شریعت درخواست نمبر۱۹۹۳ (۲۹ آئی) کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت میں مسلم عائلی قانون ۱۹۶۱ء کی دفعات۴، ۵، ۶، ۷  کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی بنا پر چیلنج کیا۔ عدالت نے ۵جنوری ۲۰۰۰ءکو دفعہ ۴، دفعہ ۷ (۳) اور ۷ (۵) کو  خلافِ اسلام قرار دے دیا۔ فیصلہPLD 2000, FSC 1 میں رپورٹ ہوا ہے۔
یہ آرڈیننس اسلام کے عائلی قوانین سے بحث کرتا ہے اور خصوصاً یتیم پوتے کی وراثت، تعدد ازواج، نکاح رجسٹریشن اور طلاق کے بارے اس میں بہت اہم نکات وضاحت طلب ہیں۔ فیلڈمارشل ایوب خاں کے دورِ حکومت کے اس قانون کے تحت ۱۹۶۱ءسے بہت سے لوگوں کو ناجائز فائدہ پہنچا اور بہت سے لوگ ناجائز طور پر اپنے حقوق سے محروم کیے گئے، لہٰذا یہ مقدمہ اسلامی نقطۂ نظر سے بہت حساس نوعیت کا حامل ہے، مگر افسوس یہ عدالت عظمیٰ کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
’حکومت پاکستان بنام کیپٹن (ر) مختار شیخ (۳/۲۰۰۹)، اپیل گذشتہ ۱۲ سال سے عدالتِ عظمیٰ میں توجہ کی طالب ہے۔
کیپٹن (ریٹائرڈ) مختار احمد شیخ نے قانونِ شہادت آرڈر ۱۹۸۴ کی آرٹیکل۱۸۱ کی ذیلی دفعہ ۴کو وفاقی شرعی عدالت میں ۱۹۹۸ میں بذریعہ شریعت درخواست نمبر ۱۹۹۸ (۷۱) اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی ہے۔ عدالت نے مؤرخہ ۱۱ فروری ۲۰۰۹ء کو یہ درخواست منظور کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا کہ حکومت چھے ماہ کے اندر اس کو قرآن و سنت کی روح کے مطابق بنائے مگر حکومتِ پاکستان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جوکہ ابھی تک زیرِالتواءہے۔ شرعی عدالت کا یہ فیصلہPLD 2009, FSC 65 میں  رپورٹ ہوا ہے۔
اپیل خان محمد بنام وفاق پاکستان (۲/۲۰۰۵)گذشتہ ۱۶ سال سے عدالتِ عظمیٰ میں زیرِسماعت ہے۔
خان محمد نے وفاقی شرعی عدالت سے استدعا کی تھی کہ قانون ضابطہ فوجداری کی دفعہ  ۳۴۵ (۲) میں قتلِ عمد زیردفعہ ۲۰۳ (ب) ’قانون تعزیراتِ پاکستان‘ کے سلسلے میں جو جزوی مصالحت کی اجازت دی گئی ہے، اسے خلافِ قرآن و سنت قرار دیا جائے۔ عدالت نے یہ استدعا ابتدائی سماعت میں ہی مسترد کر دی۔ خان محمد نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل ۲۰۰۵ (۲) دائر کردی جو آج تک زیرِالتواءہے۔
چھے اپیلیں ’وفاق بنام عبدالرزاق عامر‘ ۲۰۱۱ء (۱-۶) عدالت عظمیٰ میں ایک ہی فیصلے کے خلاف گذشتہ ۱۰ برس سے زیرالتواءہیں۔دراصل، جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دورِ حکومت میں عمومی طور پر اسلامی قوانین اور رویوں کی حوصلہ شکنی کرنے کا ایک رحجان تھا، لہٰذا انھوں نے تحفظ خواتین کا نام لے کر حدود قوانین کو اس طرح سے محدود کرنے کی کوشش کی کہ یہ عملی طور پر ختم ہوکر رہ جائیں۔ حالانکہ اگر ان میں کوئی نقص تھا تو اس کی نشان دہی کرکے ان میں مثبت انداز سے اصلاحات کی جاسکتی تھیں۔
’تحفظ ِ خواتین ایکٹ‘ ۶ (۲۰۰۶) پارلیمنٹ سے پاس کرایا گیا اور حدود قوانین کے تحت درج مقدمات کے خلاف سماعت اپیل کے اختیارات وفاقی شرعی عدالت سے لے کر متعلقہ ہائی کورٹوں کو سونپ دیئے گئے اور اس طرح ہائی کورٹوں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔
اس ایکٹ کو میاں عبدالرزاق عامر ایڈووکیٹ نے وفاقی شرعی عدالت میں۲۰۰۷ء میں چیلنج کر دیا، جس کا فیصلہ تین سال کی سماعتوں کے بعد ۲۲دسمبر۲۰۱۰ء کو سنا دیا گیا اور یہ فیصلہ PLD 2011, FSC 1 میں  رپورٹ ہوا۔ اس کے خلاف چودھری محمد اسلم گھمن، ویمن ایکشن فورم اور فیڈریشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دیں، جو کہ آج تک زیرالتواءچلی آرہی ہیں۔
یہاں پر صرف چودہ اپیلوں کا ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ شریعت کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ۲۹شریعت اپیلیں اور ۳۱ فوجداری اپیلیں اس وقت تک عدالتِ عظمیٰ میں زیرالتواءہیں۔
برطانوی وزیراعظم ولیم ای گلیڈسٹون [م: ۱۸۹۸ء] کا یہ مشہور قول ہے کہ Justice delayed is justice denied ’انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار ہے‘۔
جب عوام کو عدالتوں سے انصاف نہ ملنے یا انصاف میں تاخیر کا اندیشہ ہو تو لوگ عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں، اور ایک ایسی لاقانونیت معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، جس میں امن و امان اور تحفظِ جان و مال شدید خطرے میں پڑ جا تا ہے۔یہ خبریں آئے دن اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ ’’مقتول گروہ کے ورثاءنے قتل کے ملزموں کو احاطۂ عدالت کے اندر فائرنگ کرکے قتل کر دیا‘‘۔ہمارے اہل حل و عقد اور عدالتی نظام کے رکھوالوں کے لیے یہ بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔
غلام سرور اور غلام قادر کو جب سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دے کر باعزّت بری کر دیا تو معلوم ہوا کہ ’’جیل حکام نے ان دونوں بھائیوں کو ایک سال قبل پھانسی چڑھا دیا ہے‘‘۔ اگرچہ یہ ایک انتظامی خرابی ہے، پھر بھی یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے عدالتی نظام کی گرفت، انصاف کی فراہمی پر مضبوط نہیں ہے۔ جس کی ایک بہت بڑی وجہ فراہمی انصاف میں تاخیر ہے، چاہے اُس کی وجوہ عدالتوں پر مقدمات کا ناروا بوجھ ہو یا عدالتوں میں ججوں کی کم تعداد۔
اسی طرح محمد انار اور مظہر فاروق دو ایسے ملزمان تھے،جنھیں عدالتِ عظمیٰ نے تمام الزامات سے بری کر دیا، مگر وہ اس وقت تک بالترتیب ۲۴ اور ۱۱ سال کی قید کاٹ چکے تھے۔ ۲۱ستمبر ۲۰۲۱ء  کے روزنامہ دنیا میں خبر شائع ہوئی ہے کہ اغوا برائے تاوان کے دو ملزموں کو سولہ سال بعد ناکافی شواہد کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے بری کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی قید کا دورانیہ کسی بھی طرح ان کو لوٹایا نہیں جاسکتا، حالانکہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل -۱۰،الف ہر ملزم کو ’راست مقدمے اور آزادانہ پیروی‘ کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور آرٹیکل ۳۷ سستے اور فوری انصاف کو یقینی بناتا ہے۔
فقہ اسلامی کی مشہور کتاب البحر الرائق جلد ششم میں ہے کہ ’’اگر قاضی بلاوجہ دیر میں فیصلے کرتا ہے تو وہ گناہگار ہے، ایسے قاضی کو معزول کرکے سزا دی جائے گی۔ ہاں، اگر وہ اس اُمید پر فیصلہ کرنے میں تاخیر کرتا ہے کہ فریقین صلح کرلیں گے یا مدعا علیہ کو مناسب مہلت دینا مقصود ہے تو یہ جائز ہے… اگر دلائل کی سماعت اور ثبوت کی فراہمی کے بعد بھی قاضی فیصلہ کرنے میں دیر کرتا ہے تو فاسق ہے اور اگر انکار کرتا ہے تو اس کے کفر کا خطرہ ہے (اس لیے کہ حق دار کو اس کا حق دینے سے خدا کے واضح حکم کے باوجود انکار کر رہا ہے)۔
قرآن کریم کی سورۂ مائدہ (آیات ۴۴،۴۵ اور ۴۷ ) میں بہت واضح طور پر اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے نہ کرنے والوں کے حق میں تین حکم ثابت ہیں:ایک یہ کہ وہ کافر ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔
مولانا مودودیؒ تفہیم القرآن میں ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”جو شخص حکم الٰہی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے، وہ مکمل کافر، ظالم اور فاسق ہے اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے، اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر اور ظلم و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اُسی تناسب کے ساتھ ہے، جس تناسب کے ساتھ اُس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے‘‘۔
سورۃ التکویر میں فرمایا گیا کہ وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُىِٕلَتْ۝۸۠ۙ بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ۝۹ۚ  (۸۱: ۸-۹) ’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘
تاویلِ خاص کے تحت تو عرب جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی طرف اشارہ ہے، مگر تاویل عام کے اعتبار سے ہر اُس مظلوم کی طرف اشارہ ہے، جسے بغیر کسی جرم کے سزائے موت یا سالہا سال کی قید بھگتنی پڑی اور جب اس کی موت یا قید مکمل ہونے کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل ہوئی تو معلوم ہوا کہ ملزم کو جس جرم میں سزا دی گئی تھی وہ تو ثابت ہی نہیں ہوا۔پھر اس کی ذمہ داری کا بوجھ کس کی گردن پر ہوگا؟
آخر جس شخص کے اختیار میں لوگوں کے جان و مال اور عزّت و آبرو کا فیصلہ کرنا ہو اور اُس نے زندگی بھر لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے فیصلے کیے ہوں تو اِس کو آخرت میں کس قدر سخت حساب کتاب دینا پڑے گا۔ اس کی ایک جھلک درج ذیل حدیثوں میں دکھائی گئی ہے:
بریدہ اسلمی کے صاحبزادے اپنے والد سے نقل کرتے ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:’’قاضی تین طرح کے ہیں: ان میں دو جہنم میں اور ایک جنّت میں ہوگا۔ وہ قاضی جس کو حق معلوم ہوا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنّت میں ہوگا اور جس شخص نے جہالت سے فیصلہ کیا وہ جہنّم میں ہوگا اور اسی طرح وہ شخص جس نے فیصلے میں ظلم کیا وہ بھی آگ میں ہوگا۔ (ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب الحاکم، یجتہد فیصیب الحق، حدیث :۲۳۱۲)
امام حاکم نے المستدرک میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ”حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دس آدمیوں کا والی بنایا گیا اور اُن کے مابین اُن کی پسند اور ناپسند کا لحاظ رکھے بغیر وہ فیصلے کرتا رہا، اس کو قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اُس کے ہاتھ اُس کی گردن سے بندھے ہوں گے۔ اب اگر اُس نے یہ سب فیصلے اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق کیے ہوں گے، نہ اپنے فیصلوں میں رشوت لی ہوگی، نہ کسی کی پروا کی ہوگی، تو اللہ تعالیٰ اُس دن اُس کے یہ بند کھول دے گا، جس دن اس کے علاوہ کسی کا بند نہیں ہوگا، لیکن اگر اُس نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کے علاوہ کسی اور چیز کے مطابق فیصلے کیے ہوں گے، اپنے فیصلوں میں رشوت لی ہوگی اور جانب داری سے کام لیا ہوگا، تو اُس کا دایاں ہاتھ اُس کے بائیں ہاتھ سے باندھ دیا جائے گا اور اُس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔
قرآن میں عدل کے تقاضے اور اہمیت
اللہ جل جلالہ نے قرآن پاک میں عدل کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔(الحدید ۵۷:۲۵)
 پس اے محمدؐ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمھاری طرف نازل کی ہے۔ اگر یہ اُس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔ (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) ﴾ تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہوسکتاہے۔ (المائدہ ۵: ۴۹-۵۰)
اے نبیؐ ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ تم بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو۔(النساء۴:۱۰۵)
تجاویز:کسی بھی ملک کی عدالت عظمیٰ میں اعلیٰ ترین دماغ ہوتے ہیں۔ یہاں پر عدل کے حوالے سے کچھ مسائل کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے ہم توقع رکھتے ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ اپنے طور پر اِن مسائل کا حل تلاش کرتے ہوئے ہماری پیش کی گئی تجاویز پر بھی غور فرمائے گی:
    ۱-     قوانین کی اسلامائزیشن کا آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے عدالتِ عظمیٰ اپنے ضابطۂ عمل میں یہ بات طے کرسکتی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف دائر شدہ اپیلوں کا فیصلہ ایک مخصوص مدت کے اندر اندر کر دیا جائے گا۔
    ۲-     عدالتِ عظمیٰ اس آئینی ترمیم کی ہدایت بھی جاری کرسکتی ہے کہ شریعت اپیلٹ بینچ کے دوعلماجج مستقل بنیادوں پر تعینات کیے جائیں تاکہ اپیلوں کی سماعت مستقل بنیادوں پر باقاعدگی کے ساتھ ہوتی رہے اور تاخیر سے بچا جاسکے۔

دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۳۷-ڈی کہتی ہے کہ ’’ریاست سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی‘‘۔ سبھی اہلِ دانش جانتے ہیں کہ جہاںانصاف نہیں ہوگا وہاں ظلم ہوگا۔ چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علیؓ نے کہا ہے کہ ’’ظلم کے ساتھ کوئی حکومت اور ریاست قائم نہیں رہ سکتی‘‘۔
ملکی عدالتوں میں فیصلوں کے منتظر مقدمات انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں۔ اس وجہ سے غریب اور مظلوم طبقہ، بالخصوص خواتین کے ساتھ شدید ناانصافی ہورہی ہے۔ اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں کُل ججوں کی تعداد ۳ہزار ۶۷، جب کہ ایک ہزار ۴۸ ججوں کی آسامیاں خالی ہیں، یعنی جتنی تعداد میں جج عدالتوں میں ہونے چاہییں تھے، ان میں ایک ہزار ۴۸  جج کم ہیں۔
اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں زیرالتواء یا زیرسماعت مقدمات کی تعداد ۲۱ لاکھ ہے۔سپریم کورٹ میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد۵۱ ہزار ایک سو ۳۸ ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ۱۶ہزار ۳سو۷۴ اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس میں ۵۱ہزار ۸ سو ۴۹ مقدمات زیرالتواء ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کچھ عرصہ قبل ایک سروے کروایا تھا، جس میں خود سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بہت سےLitigants (سائلین اور درخواست گزاران)ایسے ہیں، جن کو اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے بارے میں فیصلہ سننے کا موقع نہیں ملتا۔ اس سروے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جائیداد کے حوالے سے دائر کیے گئے مقدمات دائر ہونے سے لے کر فیصلہ ہونے تک ۳۰ سال لیتے ہیں۔ کیا یہ عمل انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہیں؟ انصاف کی فراہمی میں تاخیر لوگوں کو انصاف سے محروم رکھنا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک انصاف نہیں ہوگا اس وقت تک ظلم کا دور دورہ رہے گا۔
۲۱لاکھ زیرالتواء مقدمات کمزور اور پسے ہوئے طبقات، بالخصوص خواتین کے ساتھ جائیداد کے معاملات میں شدید ناانصافی کا پتا دیتے ہیں۔ مقدمات کے اس التواء کا سب سے زیادہ فائدہ ایلیٹ کلاس، اشرافیہ اور مافیا کو ہورہا ہے اور غریب عوام اس کے نتیجے میں پِس کر رہ جاتے ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ زیرالتواء مقدمات کی یہ تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ججوں کو جو مراعات (privileges ) حاصل ہیں ان کے حوالے سے پاکستان دُنیا کے ۱۸۰ ممالک میں سے پہلے دس ممالک میں آتا ہے، مگر انصاف کی فراہمی میں ہماری عدلیہ ۱۲۴ویں نمبر پر آتی ہے، جو حیرت اور افسوس کی بات ہے۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تنخواہیں بہت بلند ہیں۔ لیکن انصاف سُست رفتار اور کم یاب ہے۔ مراعات، سہولیات، تنخواہیں،پنشن، پروٹوکول تو خوب ہیں، لیکن۲۱ لاکھ سائلین عدالتوں اور کچہریوں میں دربدر ہیں، ان کو انصاف نہیں مل رہا۔ اعلیٰ عدالتوں تک رسائی کے لیے سونا چاہیے۔ جس کے پاس سونے کی چابی نہ ہو، اس کے لیے حصولِ انصاف کے لیے عدالت کے ایوان تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس طرح انصاف خاص طبقے تک محدود ہے۔ غریب پاکستانی عوام انصاف سے محروم ہیں۔
جج صاحبان بعض اوقات مقدمات کی سماعت کے دوران فرماتے ہیں کہ عدل اور قانون کی نگاہ میں کوئی ’مقدس گائے‘ نہیں ہے۔ لیکن ہم جج صاحبان سے عرض کرتے ہیں جب اتنی بڑی تعداد میں مقدمات زیرالتواء ہیں، تو عدلیہ کی اس کارکردگی کے ساتھ کیا ہماری اعلیٰ عدلیہ اور جج صاحبان، توہین عدالت کی آڑ میں کہیں خود ’مقدس گائے‘ نہیں بنے ہوئے ہیں؟
اگر ان کا کوئی خودکار احتسابی نظام ہے اور اگر جائزہ اور کارکردگی جانچنے کا کوئی نظام موجود ہے تو پھر ۲۱لاکھ مقدمات پاکستان کی عدالتوں میںزیرالتوا ء کیوں ہیں؟ یہ پہلو توجہ چاہتا ہے۔
جج صاحبان سے یہ کہتا ہوں کہ آپ کسی نہ کسی انداز سے سیاست میں ملوث ہوتے ہیں، آئے دن سیاسی رائے دیتے ہیں اور بہت سے مسائل پر سوموٹو اقدام کرتے ہیں اور مختلف چیزوں کی طرف جاتے ہیں جو آپ کا کام ہی نہیں ہے۔ لیکن جو آپ کا بنیادی کام ہے، پاکستان کے عوام کو انصاف فراہم کرنا، اس کو ٹھیک کرنے کی طرف کیوں توجہ نہیں ہے؟ روز بروز پاکستان میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟ کون سا مافیا ہے جو عدالتوں نے پکڑا ہے؟ پانامہ پیپر، پینڈورا پیپر، چینی مافیا، پٹرول مافیا، گندم مافیا، کون سا مافیا ہے جس کو ہماری عدالتوں نے بے نقاب کیا ہے اور جن کا احتساب کیا ہے اورعوام پر جو ظلم ہورہا ہے ، اس کا سدباب کیا ہے؟ یہ بہت بڑا ایشو ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ تجاویز بھی پیش ہیں:
    ۱-    عدلیہ کی تقریباً ایک ہزار ۴۸ خالی آسامیوں پر ججوں کا فوری طور پر تقرر کیا جائے۔
    ۲-    عدلیہ میں سیکنڈ شفٹ شروع کی جائےاور متحرک عدالتی نظام قائم کیا جائے۔
    ۳-    وڈیو لنک اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے لوگوں کو انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔
    ۴-    قانونی اُمور میں ججوں کی تربیت کی جائے۔ عدلیہ کی طرف سے اکثر صورتوں میں زبان و بیان اور ابہام زدہ اسلوب میں کمزور فیصلے آتے ہیں۔ جس کا ایک سبب قانونی اُمور میں ججوں کی پوری طرح گرفت نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ وہ انگریزی میں فیصلے لکھنے کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ حقیقی مشاہدہ اور درست نقطۂ نظر لکھنے میں لفظوں کے جنگل میں گم ہوجاتے ہیں۔
    ۵-    اُمورِ دستور کی الگ عدالت قائم کی جائے،اور ہرصوبے میں الگ سپریم کورٹ قائم کی جائے۔
    ۶-    بار کونسل ایکٹ میں ترمیم کی جائے، اور پیشیوں سے فرار اور التواء کا رویہ اپنانے والے وکلا کے بارے میں کوئی ضابطہ مقرر کیا جائے، تاکہ مقدمات طوالت کا شکار نہ ہوں اور انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکے۔
لوگ بھوکے رہ سکتے ہیں، اپنے دیگر حقوق پر بھی سمجھوتا کرسکتے ہیں لیکن انصاف کے بغیرکوئی نہیں رہ سکتا۔ انصاف نہیں ہوگا تو بدامنی ہوگی۔ انصاف نہیں ہوگا تو اضطراب ہوگا۔انصاف نہیں ہوگا تو طبقاتی تقسیم ہوگی۔ انصاف نہیں ہوگا تو حکمران اشرافی طبقے استحصال کریں گے اور استحصالی طبقے عوام کا خون چوسیں گے۔ اسی لیے انصاف کی فراہمی بنیادی چیز ہے۔ اس کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنے عوام کو کم از کم انصاف تو فراہم کرسکیں۔

ایک سائنسی سروے اور تجزیے کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا چوتھا فرد ڈپریشن یا مایوسی  اور افسردگی کا شکار ہے۔ ڈپریشن کا مطلب ذہنی عدم توازن کا شکار ہونا ہے۔ یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔ ڈپریشن دراصل اس بات کی علامت ہے کہ فرد داخلی طور پر شدید بحران کا شکار ہے۔ اس کا شعور، لاشعور سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے شدید اذیت میں مبتلا ہے۔
ڈپریشن کے ظاہری اسباب کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

  •         مہنگائی کی بڑھتی ہوئی لہر، جس نے لوگوں سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے۔
  •         شہروں سے لے کر قصبوں تک بے روزگار نوجوانوں کے غول پھر رہے ہیں۔
  •         شہر، محلّے سے لے کر قومی سطح تک سرمایہ داروں اور مال داروں کی طرف سے مفلوک اور مسکینوں کی دست گیری کے نظام کا نہ ہونا اور ان کے لیے دو وقت کی روٹی تک کے انتظام کا نہ ہونا۔
  •         قومی وسائل کے بڑے حصے کا لُوٹ مار، رشوت اور غبن وغیرہ کے ذریعے دوچار فی صد افراد کے قبضہ میں چلے جانا اور عام لوگوں کو قومی وسائل میں شریک کرنے کا انتظام نہ ہونا۔
  •         خواہشات کا بنیادی ضرورت کی صورت اختیار کرنا، جب خواہشات پر مبنی ضروریات کے حصول کی صورت پیدا نہیں ہوتی تو افسردگی کا شکارہونا۔
  •         خوش حال طبقات کی طرف سے زندگی کا جو مصنوعی معیار قائم کیا گیا ہے، اس کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے دل گرفتگی کا ہونا۔
  •         خوش حال اور مال دار طبقوں میں ہونے والے ڈپریشن میں مال کی بڑھتی ہوئی ہوس کا ہونا۔ یہ مال چونکہ اکثر یا تو ناجائز طریقوں سے حاصل ہوتا ہے، یا عوام کو مہنگائی کی بلا میں مبتلا کرنے کی صورت میں، اس لیے مال کی یہ ہوس آگ کی صورت میں خوش حال افراد کے دلوں کو جلانے کا باعث بنتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مال دار افراد ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ڈپریشن خواص میں ہو یا عوام میں، اس کا بنیادی سبب انسانی شعور اور عمل کا آپس میں ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ شعور بھٹکتا پھرتا ہے تو اسے زندگی بے معنی نظر آتی ہے۔ ایسی زندگی جس کا کوئی پاکیزہ مقصد نہ ہو، جو دل اور روح کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ ہو، جو محبت کے حقیقی تقاضے سے عدم مطابقت رکھتی ہو، اس طرح کی زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور مایوسی کا ذریعہ بھی۔
یہ ایسی قابلِ رحم حالت ہے، جس پر درد مند افراد خون کے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پاکستانی ملت کے اگر کروڑہا افراد اس بیماری، یعنی ڈپریشن کا شکار ہوں تو اجتماعی زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔
ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قوم و ملّت کے ذہین افراد کی ذہنی توانائیاں اس بات پر صرف ہوتیں کہ ملّت اس بحران سے کیوں دوچار ہے؟ اور اسے اس بحران سے کس طرح نکالا جاسکتا ہے؟ لیکن بے حسی اور بے بسی ملاحظہ ہو کہ اتنے بڑے المیہ کے باوجود کہ ہمارے کروڑہا افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ افراد اور قوم کو اس بحران سے نکالنے کے لیے قومی سطح پر کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی، جو لوگ مرض کی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں، انھیں ان نفسیاتی ماہرین کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جو زندگی بھر افراد کو نشہ آور یا نیندآور گولیوں پر چلاتے رہتے ہیں۔
سچ پوچھیے تو ڈپریشن کی اس بڑھتی ہوئی بیماری کا ذریعہ مادیت پرستی، ہیجان خیز جنسی مناظر اور انسانی ہمدردی کے احساس میں فساد کا نتیجہ ہے۔ احساس میں جب پاکیزگی کے بجائے فساد برپا ہوجاتا ہے، احساس میں جب روحانیت کے بجائے مادیت کے اجزا غالب آجاتے ہیں، احساس جب محبوبِ حقیقی سے محبت کی ہم آہنگی کے بجائے مادی مقاصد سے رشتہ جوڑ لیتا ہے، تو فرد اور افراد کی داخلی زندگی شدید ہیجان خیزی، شدید اضطراب اور بے قراری کے انگاروں پر لوٹنے لگتی ہے۔ اس سے انسانی ذہن شل ہوجاتا ہے۔ وہ پاکیزہ اور صحیح مقصد ِزندگی نہ پاکر مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہی مایوسی اس کے ذہنی توازن میں خلل پیدا کردیتی ہے اور ڈپریشن کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
ڈپریشن کے مریض کے سامنے آپ دولت کے ڈھیر پیش کردیں، مادی حُسن کا وافر ذخیرہ سامنے کر دیں، ذہنی دبائو کے شدید حملے کی وجہ سے ان چیزوں کی موجودگی سے اس کا ذہنی سکون بحال نہیں ہوسکتا۔ یعنی ڈپریشن دل اور روح کے اس بحران کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اسے محبوبِ حقیقی کی معرفت اور اللہ کی محبت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس عمل میں فرد کا اپنا ذاتی قصور ہو یا معاشرے کا، سردست اس سے بحث نہیں، لیکن بڑھتے ہوئے ڈپریشن کا ایک بنیادی سبب یہ ہے۔
ڈپریشن کے بڑھتے ہوئے بحران سے بچائو کی صورت یہ ہے کہ ہم اس سلسلے میں مغربی ماہرین نفسیات کی تحقیق سے بلند ہوکر، اپنے تاریخی، تہذیبی پس منظر میں اس کا علاج تلاش کریں۔  مسلم نفسیات کے ماہرین جنھیں ’اہل اللہ‘ کہنا زیادہ صحیح ہے، جب ہم ان کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی خود اختیار کردہ فقر سے عبارت تھی۔ فقر کی اس حالت میں رہ کر ، انھوں نے ہزاروں لاکھوں افراد میں زندگی کی رَو دوڑا دی تھی۔ انھیں خود اعتمادی سے سرشار کر دیا تھا اور انھیں خودشناسی اور اللہ شناسی سے اس طرح آشنا کر دیا تھا کہ ڈپریشن ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے سارے سوچنے والے مؤثر طبقات کے ذہنوں پر ہرمعاملے میں مغرب کی نقالی اور جاہلانہ تقلید کی روش غالب ہے۔ وہ زندگی کے سارے معاملات میں مادہ پرست اہلِ مغرب کو ماہر، رہبر اور اپنا استاد سمجھ کر ان کے اختیار کردہ نسخوں پر عمل پیرا ہیں۔ اس صورت میں صحیح سمت میں سوچ کا عمل ہی دشوار ہے۔
یاد رکھیں کہ اگر ہم نے مادیت پرستی کی غیرفطری روش کو جاری رکھا اور نوجوان نسل کی فطرت سے ہم آہنگ پاکیزہ نصب العین سے مطابقت کی صورت پیدا نہ کی تو ہماری آنے والی نسلیں طرح طرح کی سنگین بیماریوں کا شکار ہوتی رہیں گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوعمر افراد اس قدر فکری انتشار کا شکار ہیں کہ ایک طرف الحاد اور دہریت کے اسیرہیں، تو دوسری طرف جانوروں کی سی جنسی آزادی اور روش پر مٹے چلے جارہے ہیں، اور تیسری جانب امراضِ دل، شوگر اور بلڈپریشر کے بھی دائمی مریض بن رہے ہیں۔ ہمیں اپنی نسلوں پر رحم کھاتے ہوئے، اپنی پاکیزہ تہذیب سے ہم آہنگی اختیار کرنا ہوگی۔ اس کے بغیر بچائو کی ساری صورتیں مسدود ہیں۔
جب اپنی پاکیزہ تہذیب سے ہم آہنگی کی صورت پیدا ہوگی تو اس سے معاشی ناہمواری، امیرکے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے کی فضا میں کمی پیدا ہوگی۔ اس لیے کہ پاکیزہ اسلامی تہذیب ہمیں اُن ہدایات پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کرے گی۔ جن میں فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے لیے جو کچھ چاہتا ہے، وہی کچھ اپنے دوسرے بھائی کے لیے نہ چاہے۔ (حدیث شریف)
قرآنِ مجید میں ہے: وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ  قُلِ الْعَفْوَ۝۰ۭ  (البقرہ ۲:۲۱۹) ’’یہ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں؟ ان سے کہو کہ ضرورت سے زیادہ سب کا سب‘‘۔ قرآنِ مجید میں ایک دوسری جگہ ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۥۭ (الِ عمرن۳:۹۲) ’’تم نیکی کو ہرگز نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ جس چیز سے تمھیں محبت ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو‘‘۔
اپنی پاکیزہ تہذیب پر عمل کرنے اور فطرت میں موجود محبت کے طاقت ور پاکیزہ نصب العینی تقاضے کی تسکین سے ایک تو ذہن، دل، روح اور نفسیات کے درمیان توازن اور مطابقت پیدا ہوگی، جس سے بے پناہ سکون حاصل ہوگا اور ڈپریشن قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔ دوسرا یہ کہ اس سے ایسا معاشرہ جنم لے گا، جس کے افراد محبوب حقیقی سے محبت کے جذبات کے ارتقا کی خاطر معاشرے کے مفلوک الحال افراد کو اپنی دولت میں شریک کریں گے، یعنی زکوٰۃ کے علاوہ صدقات وخیرات کی صورت میں اپنی وافر دولت غریبوں کی غربت ختم کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر صرف کریں گے۔ اس کام کو وہ اللہ کی رضا اور اللہ سے محبت کی دولت پانے کا ذریعہ سمجھیں گے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے نظام کو، اپنے حالات کو اور اپنے مزاج اور نفسیات کو بدل کر صحت مند خطوط پر تشکیل دیں؟ اور ایمانی تقاضوں کو پورا کریں؟

کوئی سنگ دل انسا ن ہی حیدر پورہ، سرینگر میں ۱۵نومبر کو ہونے والے ’جعلی مقابلے‘ کے دوران جاں بحق محمد الطاف بٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کے لواحقین اور ان کی کم سن بچیوں کی فریادیں سن کر خون کے آنسو نہ رویا ہوگا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ انصاف کے حصول یا ظالموں کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے کے بجائے الطا ف اور مدثر کی لاشوں کی تدفین اور نماز جنازہ کے حق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ شدید عوامی دبائو کے بعد ان کی لاشیں ورثا کے سپرد تو کی گئیں ، مگر پولیس کی نگرانی میں چند لوگوں کی معیت میں رات کے اندھیرے میں تدفین کی اجازت سے مشروط کرکے۔جموں کے رام بن ضلع کا مزدر عامر ماگرے ، بھی اس مقابلے میں ہلاک ہوا۔ اس کی لاش بھی روتے پکارتے وارثوں کے سپر د نہیں کی گئی۔ اس کے والد کو بھارتی فوج نے ۲۰۰۴ء میں ’حب الوطنی‘ کی سند عطا کی تھی، کیونکہ اس نے پتھر سے ایک عسکریت پسند کو ہلاک کردیا تھا۔

اگرچہ کشمیر میں اس طرح کی ہلاکتیں کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر ۲۰۱۹ء کے بعدلاشوں کو ورثا ء کو سپرد کرنے کے بجائے کئی سو کلومیٹر دور نامعلوم قبروں میں دفنانے کا ایک سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ پچھلے تین برسوں کے دوران کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سیکورٹی فورسز کے ۱۷۲ ؍اہل کاروں کے مقابلے میں ۸۳۷؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرل کے پاس آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔

 جموں وکشمیر کے طول وعرض میں گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران ایسے لاتعداد المناک واقعات رُونما ہوئے ہیں، جنھیں ضبط تحریر میں لانے سے خوف اور دہشت کے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کے دیگر تنازعات کی رپورٹنگ پیش کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ان کے مقابلے میں کشمیر میں ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی پامالی بہت کم عالمی پریس میں آتی ہے۔ کشمیر میں ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں میڈیا کی رسائی ہی نہیں ہوسکتی۔

مجھے یاد ہے کہ ۹۰کے عشرے میں ہندواڑہ کے لنگیٹ علاقے میں جنگلوں سے ایندھن کی لکڑیا ں لادنے والے گھوڑا گاڑی والوں کے لیے لازم ہوتا تھا کہ وہ لکڑیوں کا ایک حصہ راستے میں  ملٹری کیمپوں میں جمع کرائیں۔یہ سلسلہ برسوں تک چلتارہا۔ پھر ایک دن ۱۹۹۷ء میں منزپورہ کا غلام احمد وانی، جو مقامی ممبر اسمبلی عبدالاحد کار کا رشتہ دار تھا، اس نے کچھ کم مقدار میں لکڑیاںجمع کروائیں جس پر ملٹری کے سیکورٹی گارڈ کے ساتھ اس کی تو تو مَیں مَیں ہوگئی۔ چونکہ ۱۹۹۶ء میں اسمبلی انتخابات کے بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں نام نہاد حکومت قائم ہوئی تھی، اس لیے وانی، ممبر اسمبلی کے ساتھ اپنی رشتہ داری کو طاقت سمجھنے کی حماقت کر بیٹھا۔ چند میٹر دُور اسکول کے بچے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ۔ ملٹری گارڈ نے مورچے سے باہر نکل کر اپنی بندوق گھوڑاگاڑی بان کے سینے کی طرف موڑکر گولی چلا دی اور وانی کے سینے سے گرم گرم خون کے فوارے سڑک کو لہورنگ کرگئے۔ گھوڑا فائرنگ کی آواز سن کر بھاگنے کے بجائے اپنے مالک کی لاش کے گرد محافظ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ اس گھوڑے کی وفاداری کو آج بھی اس علاقے میں لوگ یاد کرتے ہیں۔

اسی علاقے میں شاہ نگری گائوں میں حزب المجاہدین سے وابستہ غلام حسن کمارکا گھر تھا۔ اس کی بوڑھی ماں اوربیوی کا سپاہیوںنے جینا دوبھر کر دیا تھا۔ وہ بدنصیب ساس اور بہو علاقے سے ہجرت کرجاتے، لیکن ان کے پاس نہ کوئی وسائل تھے اور نہ گھر میں کوئی مرد موجود تھا۔ غلام حسن کا دوسرا بھائی محمدیوسف کمار بھی فوج کے ہاتھوں کافی تشدد برداشت کرنے کے بعد جیل میں تھا، جب کہ غلام حسن کی دس سالہ اکلوتی بیٹی آنکھوں کی مہلک بیماری کے سبب دیکھنے سے معذور تھی۔ غلام حسن کی بیوی جانہ بیگم کاپائوں بھاری تھا ۔ پھر ایک رات لگ بھگ نو بجے اخوانیوں (سرکاری بندوق برداروں)کی ایک ٹولی نے ان کے گھر پر دستک دی۔ جیسے ہی جانہ بیگم دروازہ سے باہر نکلی تو بندوق برداروںنے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ سے جسم میں اتنی زیادہ گولیاں پیوست کیں کہ اس کے بطن میں پلنے والے بچے کی ٹانگ، بازو اور جسم کے ٹکڑے ہوکر باہر بکھر گئے۔ اگلے دن جب جانہ بیگم اور اس کے بچے کا جنازہ اٹھا تو کسی کو رونے کی اجازت نہیں تھی۔ بدنصیب اندھی بیٹی نے اپنی ماں کی قبر پر ننھے معصوم ہاتھوں سے کچھ مٹی بھی ڈال دی ۔ بوڑھی ساس نے آخری بار قبر اور اس کے ساتھ اپنے اُجڑے ہوئے گھر کی طرف دیکھا اور پھر آنکھوں سے معذور ننھی پوتی کو لے کر وہ کسی نامعلوم منزل کی جانب چل دی۔ سارا گائوں بھیگی پلکوں اور گھٹی آہوں کے ساتھ بڑھیا اور اس کی پوتی کو الوداع کہہ رہا تھا، لیکن کسی میں بھی ان کو روکنے یا ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی ہمت نہ تھی، کیونکہ یہ موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس کے آدھے گھنٹے کے بعد دیہاتیوں کو حکم ملا کہ ان کا مکان گرا دیا جائے اور اس کی ساری لکڑی اپنے کاندھوں پر لاد کر  چار کلومیٹر دُورقلم آباد کے ملٹری کیمپ میں جمع کرا دی جائے۔

اسی طرح سیرعلاقے کے ۷۰سالہ نمبردار شمس الدین کو ملٹری کیمپ میں بلا کر بتا یا گیا کہ اس کے گائوں میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس کی ساری ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ ابھی وہ اپنی صفائی دینے کے لیے کچھ کہنے ہی والے تھے کہ بھارتی میجر نے انھیںپاس ہی کیچڑ کے گڑھے میں کھڑا ہونے کو کہا۔ سپا ہیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ کیچڑ نمبردار صاحب کے چہرے اور کپڑوں پر مَل دیں۔ علاقے کی اس ذی عزت شخصیت کو بتایا گیا کہ وہ بھر ے بازار سے ہوتے ہوئے ایسے ہی گھر جائے۔ اس واقعے کا ان پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے اور پھر کچھ عرصے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

ذرا آپ کو پیچھے لے کر چلتے ہیں:

یہ ۲۰۱۶ء کی بات ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زیر علاج آٹھ سالہ آصف کو بہلانے، اس کا دھیان بٹانے اور آنکھوں کے نُور کے بغیر زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس کے والد عبدالرشید جب بچے کو صبر کی تلقین کی باتیں سنارہے تھے، تو ظالم سے ظالم انسان بھی ان کی باتیں سن کر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا تھا۔

 شوپیاں کی ۱۴سالہ انشاء بی بی کا پورا چہرہ چھرّوں سے چھلنی تھا۔ پیلٹ گنوں سے شدید مجروح پانچ مریضوں کو سرینگر سےیہاں ریفر کیا گیا تھا۔ کانگریس کے مرکزی رہنما راہول گاندھی نے جب اس ہسپتال کا دورہ کیا تو وارڈ میں بینائی سے محروم اور اپنے کنبے کے واحد کفیل، سوپور کے اس ۲۵سالہ آٹو ڈرائیور فردوس احمد نے ان کو بتایا: ’’کشمیر میں مجھ جیسے سیکڑوں افراد مصیبت میں مبتلا ہیں۔ میں آنکھوں کے نور سے محروم ہو گیا ہوں تو کیا ہوا، اگر میری بینائی سے محرومی بھارت کے سیاسی رہنمائوں کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو یہ سودا برا نہیں۔‘‘ اس صابر نوجوان کے سوال پر کانگریسی لیڈر گردن جھکا کر چلے گئے۔ بھارت کے امراض چشم کے معروف سرجن ڈاکٹر ایس نٹراجن کے مطابق: ’’اس طرح کے کیسوں کے ساتھ ہمیں پہلی بار واسطہ پڑا ہے۔ دنیا کے کسی بھی جنگ زدہ خطے میں اس طرح کے مریض دیکھنے میں نہیں آتے‘‘۔

جموں وکشمیر ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس حسنین مسعودی کے مطابق سرینگر کے صدر ہسپتال میں امراض چشم کا وارڈ اس وقت کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں، کیوں کہ بیش تر زخمیوں کو کئی بار سرجری کے عمل سے گزار کر بھی آنکھوں کی روشنی واپس ملنے کی اُمید بہت کم ہے۔ وارڈ نمبر۸ کا منظر کسی بھی خوفناک فلم سے کم نہیں، جہاں مضروب نوجوان معمولی سی آہٹ سے بھی خوف محسوس کرتے۔ وارڈ میں ان دنوں آنکھوں کی سرجری سے گزرنے والے غیر معمولی مریضوں کی بڑی تعداد زیر علاج تھی۔ بیش تر زیر علاج زخمیوں کو دوبار عمل جراحی سے گزرنا پڑا۔ تاہم ان کی آنکھوں میں بصارت نہیں لوٹی۔ ایسے مریض بھی بڑی تعداد میں تھے، جن کے ساتھ کوئی تیماردار نہیں تھا۔ والدین اپنے بچوں کی حالت ِ زار دیکھ کر رو رہے تھے اور ان کا مستقبل تاریک ہونے پر افسردگی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ جج مسعودی صاحب کے بقول ’’ہر طرف آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے کم عمر بچوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے‘‘۔

۲۰۱۰ء میں بھارت کے سینئر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر ڈیوڈرائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدے دار رہ چکے تھے، اور انتفاضہ [یعنی ’حماس تحریک ‘ کے زیراثر عوامی سطح پر غیرمسلح مزاحمتی تحریک] کے دوران فوج اور پولیس کے اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ اس پس منظرمیں بھارتی صحافی ان سے یہ معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھے کہ ’’آخر آپ غیرمسلح فلسطینی مظاہرین سے کیسے نمٹے تھے؟‘‘ موصوف نے کہا: ’’۱۹۸۷ء کے ’انتفاضہ‘ کے دوران ہماری آرمی پولیس نے پوائنٹ 4 کے پیلٹ گن استعمال کیے تھے، مگر اس  کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اب ان ہتھیاروں کی کھیپ کو اسلحہ خانہ کا زنگ کھا رہا ہے۔‘‘ رائزنر نے تسلیم کیا: ’’مسلح جنگجوئوں کے برعکس،پُرامن مظاہرین سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، خصوصاً جب عالمی میڈیا اس کی رپورٹنگ بھی کر رہا ہو۔‘‘ لیکن یہ کیسی خوف ناک حقیقت ہے کہ ہمارے دورے کے چند ہی مہینوں کے بعد وہ ہتھیار جو اسرائیل کے اسلحہ خانوں میں زنگ آلود ہو رہے تھے، کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے بھارت کی وزارت داخلہ نے خرید لیے۔

اسی نشست میں رائزنر نے بتایا تھا: ’’ہم نے ربر سے لپٹی ہوئی اسٹیل کی چھوٹی چھوٹی گولیوں اور بے ہوش کرنے والی گیس کا بھی فلسطینی مظاہرین پر تجربہ کیا تھا، مگر فلسطینی بچوں پر ان کے دُور رس مہلک اثرات کے سبب ان کے استعمال پہ بھی پابندی لگا دی گئی۔‘‘ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو یہ بتاکر شرمندہ اور دُکھی کر دیا، جب اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی افسروں کے ’کارنامے‘ سنانے شروع کیے، اور یہ بتایا: ’’بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیں کہ شورش زدہ علاقوں میں بھلامسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوں کی جائے؟‘‘ اسرائیلی افسر نے بتایا: ’’حال ہی میں اسرائیل کے دورے پرآئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے ہم کو بتایا کہ کشمیر میں پوری آبادی کو گھیر کر ہم گھروں میں گھس کر تلاشیاں لیتے ہیںکیونکہ ہمارے نزدیک کشمیر کا ہر گھر دہشت گرد کی پناہ گاہ ہے‘‘۔  رائزنر نے کہا: ’’ہم نے بھارتی جنرل کو جواب دیا کہ اسرائیل دنیا میں بدنام ہونے کے باوجود اس طرح کے آپریشن بغیر کسی انٹیلی جنس اطلاع کے نہیں کرتا‘‘۔

خیر، یہ تو اسرائیل کا اپنی وکالت میں بیان تھا، اوریہاں پر اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد اسرائیلی جرائم کی شدت کو کم کرنا نہیں بلکہ صرف اس طرف متوجہ کرانا ہے کہ کشمیر کس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر مظالم کی کم ترین تشہیر کے درجے پر واقع ہے۔ رائزنر نے بھارتی جنرل کا نام تو نہیں لیا، مگر کہا:’’ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں تفریق نہ کرکے آپ کشمیر میں صورت حال کو بہت زیادہ پیچیدہ بنا رہے ہیں‘‘۔

دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوںکے برعکس عالمی میڈیا نے بڑی حد تک کشمیر کو نظر انداز کیا ہے۔ اگر ابلاغی سطح پر رپورٹنگ ہوئی بھی ہے تو دُور دراز علاقوں تک رسائی نہیں ہو سکی، حتیٰ کہ سرینگر کا میڈیا بھی کشمیر کے بیش تر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔ چند برس قبل بھارت کے ایک معروف دانش وَر اور قانون دان اے جی نورانی صاحب کے ہمراہ میں نے شمالی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوب صورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پُر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً ۳۰ کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں بھارتی فوجی جوان نظر آئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اپنے گھروں کے مالک تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور ان تمام گھروں کی دوسری منزل بھارتی فوج کے اہل کاروں کے لیے مخصوص ہے۔ ان دیہاتیوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو دیکھا تھا۔

اسی طرح اگر شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، سری نگر کے آرکائیوز کو کھنگالا جائے تو ایسے ہوشربا کیسوں کی تفصیلات ملیں گی، جو وہاں کے ڈاکٹروں کے مطابق: ’’میڈیکل کی تاریخ میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم [۴۵-۱۹۳۹ء] کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے بدنامِ زمانہ ادارے ’گسٹاپو‘ کے تفتیشی اور اذیتی مراکز میں رپورٹ ہوئے ہیں‘‘۔ یہاں ایک فائل عربی کے استاد ۳۷سالہ مظفر حسن مرزا کی میری نظروں سے گزری، جس کو ترال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جب اس کو ہسپتال لایا گیا تو اذیتوں کی وجہ سے وہ Rhabdomylosis نامی بیماری کی انتہائی پیچیدہ نوعیت کا شکار ہو چکا تھا۔ جس کے نتیجے میں اعصاب تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، اور سارا مدافعتی نظام مائع کی صورت تحلیل ہو کر پیشاب کے راستے باہر آ رہا تھا۔ دورانِ تفتیش پٹرول اور ڈیزل سے تر لوہے کی سلاخ اس کی مقعد میں داخل کی گئی تھی جس نے مرزا مظفر کی انتڑیوں، معدے اور پردہ شکم کو چاک کرکے پھیپھڑوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ہسپتال میں جان کنی کے عالم میں رہ کر تین ہفتے بعد ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

اس خطّے میں ایسی بہت سی رودادیں منظر عام پر آنے کےلیے محنتی و جرأت مند صحافیوں اور دردمند دل رکھنے والے مصنفوں کی منتظر ہیں۔ وقت آچکا ہے کہ واقعات سے پردہ اٹھایا جائے۔ یہ بات اب عیاں ہے کہ کشمیر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جو نسل تیار ہوئی ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

میں نے چند سال قبل اپنے ایک مضمون میں خبردار کیا تھا کہ ’’ممکن ہے کشمیر میں بظاہر عسکریت دم توڑتی نظر آرہی ہو، مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے، خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ بندوقوں کی آوازیں خواہ تھم گئی ہوںمگر جو جنگ دماغوں میں جاری ہے، جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے اس کا سدباب کیسے ہوگا؟‘‘ کشمیر میں آئے روز مظاہروں نے یہ تسلیم کرا دیا ہے کہ کشمیر میں خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے، تاہم فوجی طاقت کا زور اب بھی باقی ہے۔ اگر کشمیر میں آگے پیچھے آنے جانے والی حکومتیں اس تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بدترین عدم استحکام کا شکار ہی رہے گا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لیے جمہوریت، رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔ علاقے پر تسلط کے بجائے علاقے کے عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

بھارت کی سیاسی پارٹیوں میں ،چاہے وہ کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، دونوں کا رویہ کشمیریوں کے ساتھ یکساں رہا ہے۔ بی جے پی نے مخملیں دستانے اُتار کر پھینک دیے ہیں، جب کہ کانگریس حکومت مرنے مارنے کے بعد لفظی جمع خرچ سے مرہم لگانے کا کام کیا کرتی تھی۔ معروف بھارتی دفاعی جریدہ Force میں غزالہ وہاب نے لکھا ہے کہ ’’کشمیر ایک بڑی اوپن جیل بن چکا ہے، جہاں کے مکینوں کو لگتا ہے کہ وہ قید ی ہیں‘‘۔

بھارتی حکومت کی پالیسی ہے کہ اہل کشمیر کے دلوں میں خوف و دہشت کی دھاک بٹھائی جائے۔ اس کی حالیہ مثال اس طرح سامنے آتی ہے کہ ٹی-۲۰ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارتی ٹیم کے مقابلے میں جیت کے بعد آگرہ کے تاریخی شہر میں انجینیرنگ کالج کے کشمیری طلبہ پر غداری کا مقدمہ درج کردیا گیا، اور خود سرینگر میڈیکل کالج کے طلبہ پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ آگرہ کی بار ایسوسی ایشن نے ان طلبہ کو قانونی معاونت فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ طلبہ کی طرف سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر معمولی سی خوشی کا اظہار بھی دہشت گردی سے کم جرم نہیں ہے۔

ادھر جنوبی ہند میں کرناٹک میں انڈین نیشنل کانگریس کی طلبہ تنظیم نے کشمیری طلبہ کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔اسی طرح کشمیر میں سرکاری ملازمین کو بیک جنبش قلم برطرف کرکے بے روزگارکرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ان سے کوئی وضاحت بھی طلب نہیں کی جاتی ہے۔ بس اتنا بتایا جاتا ہے کہ و ہ ’ملک دشمن سرگرمیوں‘ میں ملوث ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عمل داری سے بالکل آزاد ہے۔ یہاں حکمران لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کی طرف دھکیلنے میں کوئی شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ کشمیر نے پچھلے تین عشروں میں ایسے ہیبت ناک مظالم دیکھے ہیں،جنھیں بیان کرنے کے لیے پتھر کا دل چاہیے۔ پتہ نہیں کب تک یہ بدقسمت اور مظلوم قوم تاریخ کے بھنور میں پھنسی رہے گی؟یہ بھی سچ ہے کہ ظلم و درندگی کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ بس اس دن کا انتظار ہے  ؎

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

بوسنیا اور ہرذی گووینا میں سربیائی اور کروشیائی افواج نے مشترکہ طور پر ۱۹۹۲ء سے لے کر ۱۹۹۵ء کے دوران میں ساڑھے تین سال پر پھیلا مسلمانوں کا طویل قتل عام کیا۔ ۲۱ نومبر ۱۹۹۵ء کو امریکی ریاست اوہایو کے شہر ڈیٹن میں رائٹ پیٹرسن ایئرفورس بیس پر ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے گئے، جو ’ڈیٹن امن معاہدہ‘ کے نام سے معروف ہے۔ اسی تسلسل میں ایک ماہ بعد ۱۴دسمبر ۱۹۹۵ء کو پیرس میں مزید معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

بوسنیا کی خوں ریزی میں سرب وحشیوں نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان مرد، عورتیں، بچّے قتل کیے تھے۔ ۶۰ہزار سے زیادہ خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ یورپی اقوام کی نظروں کے سامنے یہ خونیں کھیل کھیلا گیا اور عالمی طاقتیں دانستہ تماشائی بنی رہیں۔ اس یک طرفہ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے امن فوج بھیجنے میں تین سال لگا دیئے تھے۔ اس کھیل کو بڑی طاقتوں کی ’حیوانی صلیبی جنگ‘ کہنا درست ہے، کیوں کہ اس قتل عام میں سربیائی افواج کے علاوہ ویٹی کن اور مغربی مافیا، بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی (Genocide) میں شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل کورٹ آف کریمنل جسٹس نے سرب فوج کے جنرل راتکو ملادیچ کو بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کا مجرم قرار دے کر عمرقید کی سزا سنائی تھی۔

۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے مطابق بوسنیا ہرذی گووینا کی جملہ آبادی ۳۳لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جس میں قدامت پسند عیسائیوں کی آبادی ۳۱ فی صد ہے اور رومن کیتھولک ’روٹس‘ عیسائیوں کی آبادی ۱۵ فی صد نفوس پر مشتمل ہے۔ سرب اور کروٹس عیسائیوں کی مجموعی آبادی تقریباً ۴۶ فی صد ہے، جب کہ مسلمانوں کی آبادی ۲۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جو ملک کی کُل آبادی کا ۵۱ فی صد ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو آبادی میں عیسائیوں پر ۶ فی صد کی برتری حاصل ہے۔

نومبر ۱۹۹۵ء میں خون ریزی سے متاثرہ بوسنیا کی زندہ بچ جانے والی قیادت کو ہلاکت خیز دبائو ڈال کر ’ڈیٹن معاہدے‘ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت دُنیا کا پیچیدہ سیاسی نظامِ حکومت تشکیل دیا گیا۔ امریکی صدر کلنٹن نے ’امن معاہدے‘ کے نام پر ایک مرتبہ پھر بوسنیائی مسلمانوں کو وحشی سرب و کروٹس عیسائی جنگجوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، اور ایسا حکومتی نظام تشکیل دیا، جس میں کبھی بوسنیائی مسلمانوں کو آزادی و خودمختاری حاصل نہیں ہوسکتی۔

یورپ میں درجن بھر ایسے ممالک ہیں، جن کی آبادی ۱۰لاکھ سے کم ہے، مگر انھیں مکمل آزادی و خودمختاری حاصل ہے۔ امریکا اور اس کے حواری اگر چاہتے تو بوسنیا کو خودمختار مملکت تسلیم کیا جاسکتا تھا، مگر فرقہ پرست عیسائی، خصوصاً پوپ آف ویٹی کن کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول تھی کہ یورپ میں کوئی مسلم ملک دوبارہ وجود میں آئے۔ اس حقیقت کا پتہ ’ڈیٹن معاہدے‘ کے وقت ہی چل گیا تھاکہ مقتدر عالمی عیسائی طاقتوں کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ بوسنیا ہرذ ی گووینا میں مجلس نمایندگان کے لیے ۴۲ اور ’مختارِ کُل مجلس سیاسی‘ کے لیے پانچ نشستیں طے کی گئیں۔ ملک میں ہردو،دوسال کی میعاد کے ساتھ تین صدور ہوں گے، یعنی دو سال مسلمان، دو سال سرب، دو سال کروٹس کا صدرمملکت ہوگا۔ ۱۵فی صد کروٹس اور ۳۱ فی صد سرب عیسائیوں کو ۵۱ فی صد بوسنیائی مسلمانوں کے مساوی دستوری اختیارات دیئے گئے، جس میں اکثریتی آبادی کا واجبی حق تسلیم کیا گیا۔ پھر حکومت کی باگ ڈور پانچ افراد پر مشتمل مجلس قائدین کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔

ہولناک مظالم کے خوں ریز مناظر،مسلم عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کی دردناک داستانیں،سننے اور پڑھنے والوں کو لہو کے آنسو رُلا دیتی ہیں۔ جان بچانے کے لیے پہاڑوں اور جنگلوں میں پناہ لینے والے ہزاروں مسلمانوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے بعض تو ابھی تک پہاڑوں سے اپنے جگر گوشوں کی ہڈیاں تلاش کرکرکے تدفین کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جب میدانوں اور پہاڑوں پہ بکھرے ہوئے معصوم مسلمانوں کے ڈھانچے اور ہڈیاں دیکھتے ہیں تو غم کے مارے سینہ کوبی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

سربوں اور کروٹس کو عیسائی دُنیا سے زبردست مالی امداد ملتی رہتی ہے۔ لیکن ۲۶سال پر پھیلے اس طویل عرصے میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) اور مسلم ممالک نے بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی بقا اور بہتری کے لیے کوئی خاطرخواہ مدد نہیں دی۔ مسجدوں کی مرمت اور قبرستان اور دینی مدارس کے لیے کچھ مخیر عربوں کی نجی سطح پر تو امداد ملتی رہی، مگر ان کی معاشی لحاظ سے تباہی و بربادی کا کوئی حل نہیں نکالا گیا۔ بے روزگاری عام ہے، تجارت اور انڈسٹری نہیں ہے۔ بوسنیا ایک زرعی ملک ہے، مگر صرف کھیتوں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔

۲۰۱۸ء میں ’بوسنیا پریذیڈنسی‘ کے تین ارکان کے انتخابات ہوئے۔ مسلم نمایندہ سیفک ڈظفرک (Safik Dzafarric)، کروٹس نمایندہ زجکوکسک (Zejkokosic) اور سرب نمایندہ ملارڈ ڈوڈک (Milorad Dodik) منتخب ہوئے۔ ایک چھوٹے سے ملک میں، جہاں کی آبادی صرف ۳۳لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ۴۶ فی صد کی عیسائی اقلیت کے سرب اور کروٹس کو ایک ایک صدر اور اکثریتی مسلمانوں کی آبادی کو صرف ایک صدر دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ دونوں مل کر گذشتہ ۲۶برسوں سے ہرمسلمان صدر کو ناکارہ بناتے آئے ہیں اور حکومت کی باگ ڈور عملی طور پر اپنے ہاتھوں میں رکھے ہوئے مسلمان صدر کو کبھی سُکھ چین سے حکومت چلانے نہیں دیتے۔

ملارڈ ڈوڈک (سرب) نے ۲۰۱۸ء میں صدارتی رکنیت کے لیے منتخب ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف سخت نفرت آمیز مہمات منظم کی ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں ملارڈ ڈوڈک نے یہ اعلان کیا ہے: ’’۱۹۹۵ء سے پہلے سربوں نے نہ کوئی نسل کشی کی تھی اور نہ قتل عام کیا تھا۔ مسلمان یہ سب جھوٹ بول کر حکومت میں آچکے ہیں‘‘۔ اس نے یہ بھی کہا ہے: ’’۲۶ سال پہلے جو ہوا، ہم اس کی تاریخ دوبارہ مرتب کریں گے اور آیندہ اگر ۱۹۹۲ء کے قتل عام کا کوئی الزام ہم پر لگائے گا تو پھر اس کا انجام وہی ہوگا، جو ۲۶سال پہلے ان لوگوں کا کیا گیا تھا‘‘۔ وہ بہت ڈھٹائی اور جھوٹ کی بنیاد پر ایک نیا خونیں قلعہ تیار کر رہا ہے۔ ملارڈ نے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں قصاب جنرل ملادیچ کو قومی ہیرو قرار دے کر اس کے خلاف شائع ہونے والے مواد اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی پوسٹوں پر سخت قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دی ہے۔

ملارڈ نے ایک پریس کانفرنس میں مظلوم متاثرہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سبھی لوگوں سے انصاف کے پابند ہیں، اور یقین دلاتے ہیں کہ ۱۹۹۵ء سے پہلے ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کو قبرستانوں میں حاضری دینے کے لیے پاسپورٹ ساتھ رکھنے کی پابندی عائد نہیں کریں گے‘‘۔

انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے اس خطرناک صورتِ حال پر اقوام متحدہ اور نیٹو کو متنبہ کیا ہے کہ اگر فوری احتیاطی تدابیر کے ساتھ متحدہ عالمی فوج، بوسنیا ہرذی گووینا میں تعینات نہ کی گئی، تو ایک مرتبہ پھر بوسنیا کے مسلمان طویل اور بدترین قتل عام کا شکار ہوں گے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق کروٹس اور سرب، گھرگھر کلاشنکوف کی تقسیم عمل میں لارہے ہیں، جب کہ مسلمانوں کے پاس ایک یورو اورایک ڈالر بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے کوئی معمولی سا پستول بھی خرید سکیں۔

۲۰۲۰ء میں سربوں نے اپنی علیحدہ فوج بنالی ہے۔ بوسنیا میں جولائی ۲۰۲۱ء سے مسلسل خطرناک سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ سرب صدارتی رکن ملارڈ ڈوڈک نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ’’ہم ملک کی عدلیہ،انتظامیہ اور فوج کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ ان کی جانب سے حکومت کے تمام محکموں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ وہ کام روک دیں۔ نومبر۲۰۲۱ء کے پہلے ہفتے میں اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’’۱۹۹۵ء کے ڈیٹن معاہدے کو ہم مسترد کرچکے ہیں، اب ہم ہرگز اسے تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ غیرمتوقع طور پر روسی فیڈریشن اور جرمنی کے قدامت پسند عیسائی، سربوں کی تائید کر رہے ہیں۔

حالات نہایت خطرناک ہوچکے ہیں، مگر عالمی برادری خاص کر اقوام متحدہ ابھی تک اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہی اور بڑی طاقتیں ظلم، قتل و خوں ریزی کے گہرے بادل اُمڈتے دیکھنے کے باوجود ٹس سے مَس نہیں ہو رہی ہیں۔

مسلم دُنیا کی بے حسی، بے بسی اور مجرمانہ غفلت کی اس کیفیت میں کون ہے، جو ان مظلوموں کی ڈھارس بندھائے اور ان کو حفاظت اور امن کی طمانیت دے؟ بوسنیا کے تعلق سے اگر انسانی حقوق کے اداروں اور ہمارے مسلم ملکوں کی ایسی ہی ظالمانہ خاموشی رہی تو بوسنیا کے مسلمان یورپ کے ’روہنگیا کے تباہ حال مسلمان‘ بنا دیئے جائیں گے کہ جو زمین پر قتل کیے جارہے ہیں، بھوک و بیماری سے مارے جارہے ہیں اور کھلے سمندر کی لہروں پر دھکیلے جانے کے بعد خونیں موجوں میں ڈوب رہے ہیں۔ ۱۸ لاکھ مسلمانوں کو بکھیر دینا اور لاکھوں کو موت کے گھاٹ اُتار دینا  ان وحشی طاقتوں کے لیے ایک معمولی کام ہے۔

سربیا افواج نے بوسنیا کے اہم شہروں سرائیوو،بنجالوکا،زینکا، تزلا، زاڈر وغیرہ پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ بوسنیا کی آبادی تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ روزانہ اموات ۱۰۱ ،اور مقامی شہریوں کی ہجرت اوسطاً ۲۵ افراد کی ہورہی ہے۔ بچوں کی پیدایش ۷۰ سے بھی کم ہے۔ معاشی تنگی اور خوف کی وجہ سے بوسنیائی مسلمان، یورپ کے دوسرے ممالک کو ہجرت کررہے ہیں، جو ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے، جس سے آیندہ چند برسوں میں مسلمان اقلیت بن جائیں گے۔

۲۰۰۱ء سے پہلے مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں مسلمانوں کے معروف رفاہی ادارے مصیبت زدہ مسلمانوں کی آبادکاری اور تعمیرنو کے لیے بڑے فنڈز رکھتے اور صرف کرتے تھے۔ نائن الیون کے پردے میں امریکی صدر بش نے مشرق وسطیٰ اور یورپ و امریکا میں ایسے تمام اداروں کو ’دہشت گردوں کی امداد‘ کا الزام عائد کرکے خطرناک مقدمات دائر کرکے بند کردیا ہے۔ امریکا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خودمختار، آزاد ادارہ گلوبل فائونڈیشن بھی امریکی سپریم کورٹ کے ہاتھوں کوئی خدمت انجام دینے سے قاصر بنادیا گیا ہے۔ ان رفاہی اداروں سے ان مظلومین کے نان و نفقہ کا انتظام ہوجایا کرتا تھا۔ ۱۹۹۵ء کی تباہ کن صورتِ حال میں ان اداروں نے بڑی زبردست خدمات انجام دی تھیں، جو عیسائی دنیا کو کھٹکنے لگی تھیں کہ یورپ کی سرزمین پر مسلمانوں کی امداد ناقابلِ برداشت ہے۔ بعد میں امریکا کی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے ان کی توقعات پوری کرکے بڑی تباہی مچائی اور امداد کا سب نظام بند کر دیا گیا۔

بوسنیا ہرذی گووینا چاروں طرف سے کٹر عیسائی مملکتوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ بوسنیائی مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟ ہجرت کریں یا بھاگیں بھی تو کہاں بھاگیں؟ بہرحال، مایوس کن حالات کے باوجود ہمیں بہتری کی اُمید رکھنی چاہیے۔ اگر آج بھی امریکا اور طاقت ور مسلم ممالک اس جانب توجہ کریں تو حالات میں سدھار آسکتا ہے، پختہ اور دیرپا امن قائم ہوسکتا ہے۔

سوڈان کے وزیر اعظم عبداللہ حمدوک اپنی بحالی کے لیے فوجی جنتا کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کے بعد، انھی سیاسی گروپوں کی جانب سے ملک کی سڑکوں پر عوامی غصّے کا نشانہ بن رہے ہیں، جنھوں نے ماضی میں ان کی پشتی بانی کی تھی۔جرنیلوں سے کیے جانے والے معاہدے سے پہلے ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد کئی ہفتے تک جاری ہلاکت خیز بدامنی کے دوران معزول وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو بھرپور عوامی حمایت حاصل تھی۔

فوج کے ساتھ معاہدے سے متعلق سیاسی پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی، جب سوڈان کی مزاحمتی کمیٹیوں اور پیشہ وارانہ تنظیموں نے اتوار [۲۱ نومبر] کے روز بھی فوجی بغاوت اور طے پانے والے معاہدے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوڈان کے حالیہ مظاہروں میں کئی سرکردہ سیاسی جماعتوں کی شرکت کے باعث ان کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ ان مظاہرین میں سابقہ حکمران اتحاد میں شامل ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ (FFC)بھی شامل رہی۔ ماضی میں ایف ایف سی حمدوک کے حامیوں میں شامل تھی۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ بغاوت کے اثرات زائل کرنے کے لیے طے پانے والے سیاسی معاہدے میں جو اُمور طے پائے ہیں، ان میں گرفتار سیاسی کارکنوں کی رہائی، خود مختار ٹیکنوکریٹس پر مشتمل کابینہ کی تشکیل جیسے امور کو عملی جامہ پہنانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔بغاوت کے بعد حکومت کے خاتمے اور پھر عملی نظر بندی کی مدت میں عبداللہ حمدوک کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوتا رہا، اور ان کی حمایت میں مظاہروں کے دوران ۴۱سوڈانی شہری ہلاک کر دیئے گئے۔

فوج کے ساتھ ’سیاسی معاہدے‘ پر دستخط کی خبر سے وہ مظاہرین ’سکتے‘ میں آ گئے ہیں، جو عبداللہ حمدوک کی تصویریں لہرانے اور سڑکوں پر ان کے حق میں نعرے لکھنے میں مصروف تھے۔  وہ ایک مہینے سے حمدوک کو مجسم جمہوریت سمجھ کر ان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتے رہے تھے۔ مگر فوج کے ساتھ معاہدے کی روشنی میں عبوری دور حکومت ۲۰۲۳ءکو ہونے والے انتخاب تک جاری رہے گا۔ اسی معاہدے کی روشنی میں حمدوک کی وزارت عظمیٰ بحال ہونا قرار پائی ہے۔

۳۰؍اکتوبر کو لاکھوں افراد سوڈان کی سڑکوں پر ایک حالیہ فوجی بغاوت [۲۵؍اکتوبر] کے خلاف مظاہروں میں موجود رہے۔ باغی فوج کی پُرتشدد کارروائیوں کے باوجود تختہ الٹنے کی فوجی کارروائی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں سوڈانی عوام کی جوق در جوق شرکت معنی خیز بات تھی۔ سوڈان میں فوج اور سول انتظامیہ کے درمیان تنازعے میں ایک طرف سویلین فورسز تھیں، جن کی نمایندگی مزاحمتی کمیٹیوں، جمہوریت پسند رضا کاروں، ’فورسز فار فریڈیم اینڈ چینج گروپ‘ اور عبوری وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کر رہے تھے۔دوسری جانب کئی فوجی اور نیم فوجی فورسز سرگرم عمل تھیں۔ ان میں چند مسلح باغی گروپ، اقتدار سے برخاست کیے گئے سابق حکمران عمر البشیر کی باقیات سوڈان کی مسلح فوج بھی میدان میں تھی۔

۲۵؍اکتوبر کی بغاوت کے بعد نئی تشکیل شدہ بااختیار کونسل میں ہونے والی دھڑے بندی نے سوڈان کو، فوجی بغاوت کے حامی اور مخالف کیمپوں میں تبدیل کر دیا۔ سوڈان میں ہونے والی بغاوت میں چار کردار نمایاں تھے: بااختیار کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان، الفتاح کے نائب جنرل محمد حمدان المعروف ’حمیدتی‘، وزیر مالیات جبریل ابراہیم اور دارفور کے گورنر جنرل میناوی شامل تھے۔ سوڈان میں روز بروز تبدیل ہوتی صورت حال دیکھ کر لگتا ہے کہ چار رکنی باغی گروپ کئی حوالوں سے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو گا۔

جنرل البرہان اور جنرل حمیدتی کے درمیان تناؤ ایک کھلی حقیقت ہے، جس کے باعث فوج کی صفوں میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ یاد رہے فوجی جنتا نے بغاوت کی حمایت اداراتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کی۔ ماضی کے باغی جبریل ابراہیم اور میناوی کا بھی یہی حال ہے، کیونکہ عبوری انتظام میں نمایندہ حیثیت کے باوجود انھیں حکومتی عہدے نہیں ملے، جس وجہ سے انھوں نے بغاوت کی حمایت کی تھی۔

حالیہ بغاوت کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے جنرل عبدالفتاح البرہان نے یہ دلیل گھڑی: ’’ہم نے حکومت اس لیے برخاست کی تھی کیونکہ ہم ملک کو خانہ جنگی سے بچانا چاہتے تھے‘‘۔  نئی بااختیار کونسل کی سربراہی کے بعد انھی جنرل صاحب نے وفادار سول نمایندوں اور اسلام پسند حلقوں کو اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کرنا شروع کر رکھا ہے۔

جنرل عبدالفتاح البرہان غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے عالمی برادری اور سوڈانی عوام کو یہ باور کرانے میں تاحال ناکام ہیں کہ وہ ملک میں ’آزاد اور شفاف انتخابات‘ منعقد کرائیں گے۔بہت سے غیرحل شدہ مسائل ایسے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ فوجی جنتا نے اپنی صلاحیتوں پر زیادہ اعتماد کرلیا ہے۔ اولاً جنرل البرہان اپنی قیادت میں کی جانے والی بغاوت کے لیے مطلوبہ قانونی جواز نہیں گھڑ سکتےکہ جسے بنیاد بناتے ہوئے انھیں سویلین ٹیکنوکریٹوں کوورغلا کر عبوری نظام کا حصہ بنانا تھا۔

تقریباً تمام سیاسی جماعتیں بیک آواز ہو کر فوجی بغاوت کو مسترد کر چکی ہیں۔ ایسے میں نئی حکومت خود کو کس کا نمایندہ بنا کر پیش کرے؟ یہ امر اتنا آسان نہیں۔ نئی عبوری حکومت میں اگر اسلام پسند حلقوں کو شامل کیا جاتا ہے تو علاقائی سیاست کے فریم ورک میں مصر، متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب اس کی سخت مخالفت کریں گے۔

باغی حکومت ٹیکنوکریٹوں کو ہم نوا بنا کر بھی عبوری انصاف، کرپشن، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مؤثر انداز میں کنڑول کرنے کا دعویٰ اس لیے نہیں کر سکتی کہ وہ خود اس ساری خرابی کی روح رواں تھی۔ تاہم اس وقت تک سوڈان کی فوجی کونسل کے علاقائی اتحادیوں میں مصر، اسرائیل، سعودی عرب اور یو اے ای شامل ہیں اور افریقی ملک سے تعلقات کو ’سلامتی‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

 مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر ’عرب بہار‘ کے بعد خطے میں کچھ تبدیلیاں تو وقتی ثابت ہوئیں جیساکہ مصر۔’عرب بہار‘ سے متاثر ہونے والے ممالک میں شام ایک اہم مثال ہے، جہاں ہونے والی تباہی کی بڑی وجہ غیرمقامی اور بیرونی عناصر کی شمولیت تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوامی بےچینی کی نئی لہر میں اب سوڈان بھی بیرونی عناصر کی مداخلت کا ایک نیا اکھاڑا بننے جا رہا ہے؟شام کے ساتھ سوڈان کے حالات کا موازنہ شاید نامناسب بات ہو، لیکن مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری کی پہلی مہم میں دکھائی دینے والی بعض نشانیاں، سوڈان میں دیکھی ضرور جا رہی ہیں۔

سوڈان میں ۲۵؍ اکتوبر کو فوج نے اس خود مختار کونسل پر شب خون مارا، جس کے ساتھ فوجی قیادت نے شرکت اقتدار کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو گرفتار کر کے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ جنرل عبدالفتاح البرہان کے بقول: ’’بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی نے سوڈان کو خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا اسی لیے فوج کو انتہائی اقدام اٹھانا پڑا‘‘۔

یہاں ایک عجیب منظر دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماضی میں مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی شہیدؒ کی منتخب حکومت کے خلاف جنرل عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت کو امریکا اور مغربی ممالک نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا ، لیکن اس وقت سوڈان میں ہونے والی فوجی اکھاڑ پچھاڑ پر یہی ممالک اس  فوجی جنتا کو قبول نہیں کررہے۔سوڈانی فوج کے اقدام کو نہ ملک میں پذیرائی ملی اور نہ بین الاقوامی طاقتوں نے اس کی حمایت میں زبان کھولی۔ یہی وجہ سے کہ سوڈان کے طول وعرض میں مظاہرے ہونے لگے ہیں، جن پر سوڈان کی اپنی ہی قومی فوج نے گولیاں برسائیں۔

فوجی بغاوت کے بعد سوڈان میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران، خود ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اس بحران کی وجہ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول عبوری سیاسی نظام کی بےقاعدگی اور اس کے پشتی بانوں کا باہم پیچیدہ تعلق ہے۔ اس عبوری سیاسی انتظام کا آغاز طویل عرصے تک سوڈان کےصدر عمر البشیر کو ۲۰۱۹ء میں زبردستی اقتدار سے الگ کرنے والی عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد ہوا۔

  • ماضی کا ورق: ماضی میں بھی سوڈان میں کئی بار ایسے ہی پیچیدہ عبوری سیاسی بندوبستوں کے ذریعے ملکی نظام چلایا جاتا رہا ہے۔ ۵۵-۱۹۵۳ء کے دوران سوڈان، تاج برطانیہ کی نو آبادی کے طور پر بھی ایک عبوری سیاسی انتظام کی بھینٹ چڑھا تھا۔ اس سیاسی انتظام کی ابتدا ایک انتخاب کے ذریعے ہوئی، جس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت نے ’خود اختیاری کا قانون مجریہ ۱۹۵۳ء ‘ منظور کیا۔ اس قانون کی روشنی میں منتخب ایوان اور کابینہ کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی، البتہ ریاست کی سربراہی برطانوی گورنر جنرل ہی کرتے رہے۔

اس قانون کے مطابق ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ سوڈان کا الحاق مصر سے ہو گا یا پھر یہ ایک مکمل آزاد ملک کے طور پر طلوع ہوگا۔ پارلیمنٹ نے ریفرنڈم کے بغیر ہی سوڈان کی آزادی کے حق میں ایک قرارداد منظور کر لی۔خود اختیاری کے قانون کو جلد ہی سوڈان کی آزاد ریاست کے دستور کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس طرح ملک کا انتظام چلانے کے لیے تاج برطانیہ کے نامزد گورنر جنرل کی جگہ پانچ رکنی خودمختار کونسل نے لے لی۔ ۱۹۶۴ء کے انقلاب کے وقت بھی خودمختار عبوری کونسل کا فارمولا کام آیا۔ اس انقلاب میں میجر جنرل ابراہیم عبود کا اقتدار ختم ہوگیا تھا۔  آگے چل کر ۱۹۸۵ءمیں سوڈان کے صدر جعفر نمیری کو بھی ایسی ہی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

  • طویل ترین عبوری حکومت: ان ’انقلابات‘ یا بغاوتوں میں عبوری حکومتیں راتوں رات تشکیل پاتی رہیں ،جب کہ حال ہی میں اپنے انجام کو پہنچنے والا عبوری سول انتظام، نو مہینوں کی صبر آزما جدوجہد کے بعد تشکیل پایا۔ عمر البشیر اور سوڈان کی پیپلز لبریشن موومنٹ/آرمی کے درمیان ۲۰۰۵ء میں طے پانے والے ’جامع امن معاہدے‘ سے ملک کے جنوب میں جنگ کے بادل چھٹے اور جنوبی سوڈان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کا ٹائم ٹیبل طے پایا۔ ’جامع امن منصوبے‘ کی روشنی میں سوڈان نے جمہور کی حکمرانی کا عبوری سفر طے کرنا تھا اور اس معاہدے کو علاقائی طاقتوں نے طے کروایا، اور بین الاقوامی طاقتوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا۔

یہی معاہدہ آگے چل کر ۲۰۰۵ء میں نئے سوڈانی دستور کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا، جس میں اختیاراتی تقسیم سمیت انسانی حقوق پر بہت زور دیا گیا تھا۔ چھے سالہ عبوری دور ہم آہنگی کے فقدان کے باوجود بہت اچھا گزرا۔ معاہدے کے نتیجے میں امن، شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی بحالی اور سیاسی جماعتوں کے احترام کی راہ ضرور ہموار ہوئی۔اس معاہدے سے دارفور میں ۲۰۰۳ء سے جاری جنگ تو ختم نہ ہو سکی، تاہم سوڈانی معاشرے میں مذہب، اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم اور جمہوری شراکت جیسے اصولوں سے متعلق سوچ بچار کی راہ ہموار ہوئی۔

’جامع امن معاہدہ‘ مطلق العنان عسکری اختیارات رکھنے والی دو جماعتوں کے درمیان تھا، جس میں انھوں نے اقتدار میں شراکت کے ساتھ تیل کی آمدن کو بھی باہم تقسیم کرنا تھا۔ فریقین کو اپنا مکمل بااختیار علاقہ ترتیب دینے کا حق حاصل تھا، خواہ اس کے لیے انھیں انتخابات میں ہیراپھیری ہی کرنا پڑے۔ اس طرح جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد دونوں علاقوں میں جنگ چھڑ گئی۔

جنوبی سوڈان کی ملک سے علیحدگی کے موقعے پر بعض سیاسی مبصرین پُرامید تھے کہ حالات معمول پر لانے کے لیے اعتماد سازی کے مراحل طے ہوتے ہی بڑے متنازع امور بھی خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گے، لیکن بدقسمتی سے یہ خواب شرمندۂ تعبیرنہ ہوا۔

ایتھوپیا کی مدد اور افریقی یونین کی ثالثی میں اگست ۲۰۱۹ءکو فوجی کونسل اور سویلین تنظیموں کے اتحاد ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں بہت سی خامیاں موجود تھیں۔ اس دستاویز میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے فوج کے تابع ’ریپڈ سپورٹ فورسز‘ [آر ایس ایف] نامی قبائلی ملیشیا کو سند جواز فراہم کرتے ہوئے اسے سوڈانی فوج کا حصہ بنا دیا گیا۔ آر ایس ایف کے رہنما محمد حمدان دقلو [حمیدتی] خود مختار کونسل کے نائب صدر بن گئے اور عبوری بندوبست میں یہ ملیشیا ترقی کرتے ہوئے ایک اہم معاشی اور سیاسی طاقت بن کر ابھری اور ریاست کے اندر ریاست بن بیٹھی۔ ملیشیاؤں کی موجودگی میں جمہوریت کا خیال ایک دھوکا ہے۔

آر ایس ایف پر رواں برس ۳ جون کے خونی واقعات میں ملوث ہونے کے الزام سے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے، کیونکہ عبوری حکومت ان واقعات کی تحقیقات کا مینڈیٹ لے کر آئی تھی تاکہ خوں ریزی کے ذمے دار عناصر کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔ ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ نے اس معاہدے کی تائید خوش دلی سے نہیں، بلکہ سابق حکومت کے حامیوں کے خوف سے کی تھی۔ اگست۲۰۱۹ء کے معاہدے کی پہلی ترجیح عمر البشیر کے حامیوں کا بالخصوص اور فعال اسلامی عناصر کا بالعموم قلع قمع کرنا تھا، کہ کہیں وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آجائیں۔

اس معاہدے کے تحت جنرل عبدالفتاح البرہان کو اگلے ماہ خود مختار کونسل سے سبکدوش ہوجانا تھا اور اس وقت ایف ایف سی کے کسی منتخب نمایندے کو سربراہ مملکت بننا تھا، جس کے بعد سویلین حکومت اپنے ایجنڈے کے بڑے بڑے نکات پر عمل کرنے کے قابل ہو جاتی۔

  • فوجی جنتا کے خدشات:ان میں ایک بڑا نکتہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احتساب کرنا تھا۔ یاد رہے کہ سوڈان کی یہ حکومت ماضی میں وعدہ کر چکی تھی کہ وہ ’’سابق صدر عمرالبشیر کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت (انٹرنیشل کرمنل کورٹ) کے حوالے کر دے گی‘‘۔ لیکن جنرل البرہان اور پارلیمان کی ریپِڈ سپورٹ فورسز کے جنرل محمد حمدان سمیت، سابق صدر عمرالبشیر کے ساتھیوں کی خواہش تھی کہ سابق صدر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ سوڈان میں ہی مقدمہ چلایا جائے۔سابق صدر کے ساتھیوں کا یہ خوف درست تھا کہ اگر عمرالبشیر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے کر دیا گیا تو وہ دارفور کی لڑائی میں کیے جانے والے مبینہ مظالم کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کا نام بھی لے لیں گے۔

جنرل البرہان اور ان کے ساتھیوں کو یہ خطرہ بھی ستاتا رہا ہے کہ اگر ۲۰۱۹ء میں خرطوم میں ہونے والی قتل وغارت کی تفتیش کا معاملہ سامنے آیا، تو اس سلسلے میں بھی انھی لوگوں پر انگلیاں اٹھیں گی۔خرطوم میں یہ قتل وغارت فوج کی طرف سے عمرالبشیر کو اقتدار سے الگ کرنے کے دو ماہ بعد ہوئی تھی، جب پُرامن مظاہرین سوڈان میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

 جرنیل اس پر پریشان تھے کہ سویلین حکومت بدعنوانی پر قابو پانے کے ساتھ دفاعی شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے پر بھی عمل کرنا چاہتی تھی۔ ان ترجیحات کے ساتھ عبوری دور میں طے پانے والے معاہدے غیر معمولی حالات کا سبب بننے لگے۔ اس طرح فوج اور ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ کے درمیان پیچیدہ باہمی انحصار خطرے میں دکھائی دینے لگا۔

کسی بھی سویلین حکومت یا فریق کو قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول فوج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بنیادی معاشرتی تبدیلیوں کے لیے ملنے والا مینڈیٹ پوری طرح نافذ کرسکیں، لیکن سوڈان میں سول حکومت کے لیے بدقسمتی سے قومی فوج کی یہ حمایت مفقود رہی۔

  • خود مختار کونسل کی من مانیاں:معاہدے میں خود مختار کونسل میں شامل عسکری نمایندوں کو چادر سے باہر پاؤں پھیلانے سے روکنے کا بھی کوئی طریقۂ کار موجود نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کونسل کے سربراہ جنرل البرہان نے سوڈان کے ’ڈی فیکٹو‘ سربراہ کے طور پر اختیارات استعمال کرنا شروع کر دیے۔ جناب حمیدتی، سول گورنمنٹ کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ تھے اور باغی جتھوں سے معاملات طے کرنے کے لیے بزعم خود اعلیٰ مذاکرات کار بن بیٹھے۔

فوجی جنتا نے سویلین کابینہ کو بتائے بغیر ہی خارجہ پالیسی کی تشکیل، امن وجنگ کے معاہدے کرنا شروع کر رکھے تھے۔ سول کابینہ کو بتائے بغیر ان فوجی گروؤںکی جانب سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کا فیصلہ دراصل سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بات تھی۔ گذشتہ برسوں میں (اور اب بھی) نہ صرف سوڈان میں قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوج کو جاتا رہا، اور فوج کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ بھی حاصل رہی ہے۔ اکثر ٹھیکوں میں بدعنوانی کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔

جس بحران کے نتیجے میں عبداللہ حمدوک کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا، اس کی ایک اور وجہ ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ کی صفوں میں انتشار بھی ہے۔ حالیہ انتشار کا باعث دارفور کے بااثر فریق بنا۔ بیجا قبائیلیوں نے سیاسی معاہدوں میں عدم شمولیت پر احتجاج کرتے ہوئے سوڈان کی بندرگاہ بندکردی، جس نے وزیراعظم کی مشکلات میں اضافہ کیا، تو جولائی کے مہینے میں انھوں نے خوف کے عالم میں کابینہ میں رد وبدل کی، لیکن یہ تدبیر بھی ان کے کام نہ آئی۔

سوڈانی فوج اس لحاظ سے خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی کہ اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک دوسرا فریق ماضی میں فوج کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کے احتساب کی بات کرتا رہتا ہے اور ساتھ ہی وہ فوج سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کا بہ تکرار مطالبہ کرتا ہے۔

حمدوک حکومت نے فوج کو ہدایت کی کہ وہ بیجا قبائیلیوں کی جانب سے بندرگاہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کریں، لیکن یہی فوج اس دوران وزیر اعظم کا بوریا بستر گول کرنے کا منصوبہ تیار کر چکی تھی، اس لیے انھوں نے کمزور سیاسی حکومت کا حکم ماننے سے انکار کیا۔

  • طاقت کے بل پر جوا:لیکن اب طاقت کے بل بوتے پر غیرآئینی قبضہ کر کے جنرل البرہان ایک بڑا جُوا کھیل چکے ہیں۔ وہ سوڈان کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کر رہے۔ ان کے پاس معیشت، جمہوریت کی بحالی اور ملک میں امن جیسے سوالوں کا کوئی شافی جواب نہیں ہے اور یوں وہ ملک کے اندر افراتفری اور قتل وغارت،جب کہ ملک کے باہر مکمل تنہائی کا خطرہ مول لے چکے ہیں۔ فوج نے ۲۰۱۹ء میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کو بُری طرح کچلا تھا تو اس وقت امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے چار رکنی اتحاد کے ذریعے پس پردہ،  افریقی یونین کی مدد سے مذاکرات میں ایک حل نکال لیا تھا۔شاید سوڈان کو کھائی میں گرنے سے بچانے کے لیے اس مرتبہ بھی اسی قسم کی کوشش کی ضرورت ہے؟

حیدر آباد دکن سے دینی و علمی ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے۔ یہ رسالہ مغربی تہذیب و افکار کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا، ایک ایک کرکے ازالہ کر رہا تھا اور اسلامی تعلیمات کو منفرد علمی و تحقیقی انداز میں پیش کر رہا تھا۔ اس ماہنامے میں ’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ کے نام سے ایک سلسلۂ مضامین شروع ہوا۔ جس میں مولانا مودودیؒ نے اِلٰہ،رب، عبادت اور دین کے مفہومات کو عربی لغت اور قرآنی آیات کی روشنی میں تفصیل سے بیان فرمایا تھا۔ میں اِن دنوں درسِ نظامی کا ایک طالب علم تھا۔ یہ مضامین میری نظر سے بھی گزرے، اندازِ بحث اور طرزِ استدلال میں کچھ نیاپن ضرور تھا، مگر جہاں تک اِن اصطلاحات کے مفہوم کا تعلق تھا، میرے لیے اس میں کوئی نئی یا انوکھی بات نہ تھی۔ میں نے اکابر علماے دیوبند اور علماے ندوہ سے جو دینی فکر پایا تھا، مولانا مودودی کا فکر اُس سے ہم آہنگ تھا۔

اسی دوران میں ترجمان القرآن میں ایک اور سلسلۂ مضامین ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ کے عنوان سے شروع ہوا۔ اِس کے پہلے دو حصوں میں مولانا مودودی نے ’انڈین نیشنل کانگریس‘ کی لادینی سیاست پر مدلل اور مفصل تنقید کی تھی۔ اسی طرح متحدہ قومیت کے فتنے کا تجزیہ کرتے ہوئے ’مسئلہ قومیت‘ کے مباحث اُٹھائے، اور اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں اُس کے مہلک اثرات واضح کیے تھے۔ اور آج تک ایک طویل عرصے میں مسلمانوں نے اُس [متحدہ قومیتی] سیاست کے ہولناک نتائج کو مسلسل بھگتا ہے۔پھر  ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘  کے تیسرے حصے میں مولانا نے مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کے مسلم قوم پرستانہ نظریات و اعمال پر مُدلل محاکمہ کیا تھا اور اِن دونوں راہوں سے ہٹ کر ملک و ملّت کو اسلا می نظام کی راہ دکھائی تھی۔

’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ حصہ سوم کے مضامین کے بنیادی نکات یہ تھے:

       ۱-    اسلام ایک عالم گیر اور بین الاقوامی دین ہے، یہ صرف مسلمانوں کا مذہب نہیں۔

       ۲-    ’اُمت مسلمہ‘ کوئی نسلی یا وطنی قوم نہیں ہے، بلکہ ایک جماعت اور ایک اصولی و بین الاقوامی پارٹی ہے، جو اسلام کی بنیاد پر نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے تشکیل پائی ہے۔

       ۳-    مسلمانوں کے لیے لادینی وطنی سیاست اور مسلم قوم پرستانہ سیاست، دونوں ہی غلط ہیں۔ مسلمان، حقوق و مفادات کی جنگ کے لیے نہیں، اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے پیدا ہوا ہے۔

       ۴-    انبیا علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نقطہ ’اللہ کی حاکمیت‘ ہے اور اُمت مسلمہ کا نصب العین دُنیا میں اللہ کی حاکمیت کا قیام ہے۔

       ۵-    مغربی تہذیب اِس وقت زوال پذیر ہے اور اسلامی نظام کے قیام کے روشن امکانات ہیں، بشرطیکہ اُس کے لیے جدوجہد کرنے والی کوئی صالح جماعت موجود ہو۔

اس سلسلۂ مضامین سے جہاں نیشنل کانگریس، جمعیۃ العلماے ہند اور مسلم لیگ سے وابستہ کچھ علماے کرام مولانا مودودیؒ کے مخالف ہوگئے، وہیں مولانا مودودیؒ کے ہم فکراصحاب کا، جن میں علماے دین بھی تھے، ایک حلقہ پیدا ہوا۔ مولانا مودودی ؒ کی دعوت پر اُن میں سے اکثر اصحاب ۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء کو دفتر ترجمان القرآن، لاہور میں جمع ہوئے اور غوروفکر اور بحث و گفتگو کے بعد جماعت اسلامی کی شکل اختیار کرلی۔ مولانا مودودیؒ اِس جماعت کے امیر منتخب ہوئے۔

جماعت اسلامی کی تشکیل کے بعد نیشنل کانگریس، جمعیۃ العلماے ہند اور مسلم لیگ سے وابستہ کچھ افراد کی جانب سے جماعت اسلامی کی مخالفت کا آغاز ہوگیا۔ یہ مخالفت جماعت کی دعوت کے پھلنے پھولنے کے ساتھ بڑھتی ہی گئی۔ اِس کے محرکات دینی سے زیادہ سیاسی تھے اور اُن میں ذاتی و گروہی محرکات کی آمیزش بھی تھی۔ میں ایک نوعمر طالب علم کی حیثیت سے مختلف گروہوں کے افکار و نظریات اور مولانا مودودیؒ کی اسلامی تحریک کا بہ غور مطالعہ کر رہا تھا کہ ایک کتاب نظر سے گزری۔ یہ مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی [۱۹۱۳ء-۱۹۹۹ء]کی تصنیف سیرت سیّد احمد شہیدؒ تھی۔میں اِس کتاب اور حضرت سیّد احمد شہیدؒ [۱۷۴۶ء-۱۸۳۱ء]کی تحریک سے، جس میں برصغیر کے علما و مشائخ اور دین دار رؤساء اور عوام نے اقامت ِ دین کے لیے بے مثال مالی و جانی قربانیاں دی تھیں، بے حد متاثر ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ مولانا مودودیؒ بھی اِسی تحریک کو لے کر اُٹھے ہیں۔ سو، میں بھی اس تحریک کا کارکن بن گیا۔ مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی بھی اِس کاررواں میں شامل ہوگئے، مگر اس کے ساتھ وہ ’تبلیغی جماعت‘ سے بھی وابستہ رہے۔ کچھ مدت کے بعد مولانا مودودیؒ کے اس مشورے پر کہ وہ کسی ایک جماعت کے لیے یکسو ہوجائیں۔وہ تبلیغی جماعت کے لیے یکسو ہوگئے۔

۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان قائم ہوا، اور ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہندستان آزاد اور تقسیم ہوا، نتیجہ یہ کہ بھارت اور پاکستان کی صورت میں دو مستقل مملکتیں وجود میں آگئیں۔ چند مہینوں ہی میں اندازہ ہوگیا کہ دو مستقل اور آزاد مملکتوں کے وجود میں آجانے کے بعد جماعت اسلامی کی  ایک متحدہ تنظیم قابلِ عمل نہیں ہے، چنانچہ ہندستان کی طرح جماعت اسلامی بھی تقسیم ہوگئی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ قرارپائے۔ہندستان میں رہ جانے والے افراد نے اپریل ۱۹۴۸ء میں ’جماعت اسلامی ہند‘ کے نام سے ایک الگ جماعت کی تشکیل کی اور مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی [۱۹۱۳ء-۱۹۹۰ء] اُس کے امیرتسلیم کیے گئے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ اور دو آزاد تنظیمیں تھیں۔ عقیدے اور نصب العین کے اشتراک کے علاوہ ان میں باہم کوئی ربط و تعلق نہ تھا۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ جماعت اسلامی ہند کے نہیں، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر تھے اور اُن کے کسی قول و فعل کی ذمہ داری جماعت اسلامی ہند پر نہیں آتی تھی، مگر جماعت اسلامی ہند کے مخالف علما یہ بات ماننے کو تیار نہ تھے۔ ہندستان کے اربابِ اقتدار کا بھی یہی خیال تھا کہ جماعت اسلامی ہند کا، پاکستان اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق ہے، مگر اُن کے پاس بھی اس بات کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ دراصل جماعت کے کچھ مخالفین نے، جن کی نئی دہلی میں اربابِ حکومت تک رسائی تھی، حکومت کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا تھا۔

جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی پاکستان کی تشکیل کے، کچھ ہی مدت بعد دونوں طرف کے اربابِ اقتدار اور دونوں طرف کے کچھ علما، جماعت اسلامی کے خلاف برسرِپیکار ہوگئے اور ایک طویل مدت تک مخالفت کی یہ مہم جاری رکھی۔ علماے کرام کی جانب سے اعتراضات، فتوؤں، بہتان تراشیوں اور وابستگانِ جماعت کے خلاف بائیکاٹ کی روش قائم رہی، اور حکومت کے ذمہ داراور اس کا ہم نوا پریس، دونوں جماعت اسلامی کے خلاف مہم میں مصروف رہے۔

 جماعت کےافراد ملازمتوں سے نکالے گئے۔ جیل کے مصائب و آلام کا شکار ہوئے۔  جماعت سے وابستہ کچھ افراد کو شہید کیا گیا۔ دوسری طرف مولانا مودودیؒ پر قاتلانہ حملہ ہوا، حکومتِ پاکستان نے مولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا سنائی، جس سے وہ اللہ کے فضل و کرم اور عالمِ اسلام کے شدید احتجاج کے نتیجے میں محفوظ رہے۔ جماعت اسلامی ہند پر پابندی لگی، اُس کے دفاتر، مکتبے اور اخبارات ورسائل بند کردیئے گئے۔ اُس کی املاک اور بیت المالوں کو سیل کر دیا گیا اور جماعت کے ذمہ دار اور اکثروبیشتر وابستگان جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند رہے، طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنے اور اِن اذیتوں کے نتیجے میں کتنے ہی افراد جیل کے اندر اور باہر جاں بحق ہوئے۔

اسلامی تحریک کے لیے اِس طویل مدت میں علما اور اربابِ اقتدار کی جانب سے جماعت اسلامی کی مخالفت کی جو مہم چلی، اُس میں دونوں کا اشتراک اتفاقیہ تھا یا اُن کے مابین کوئی تعلق تھا؟ اس کے لیے سرسری نہیں، علمی و تحقیقی جائزے کی ضرورت ہے۔

یہ جائزہ کوئی غیر جانب دار اور انصاف پسند مبصر ہی لے سکتا ہے۔وہ جماعت اسلامی ہند کے سلسلے میں، ہندستان کے اربابِ اقتدار کے بیانات و اقدامات، نیز حکومت کے ہم نوا پریس اور رہنمائوں کے، جماعت کے خلاف الزامات اور پروپیگنڈوں کو اور [جماعت اسلامی کے] مخالف علماے کرام کے اعتراضات، بیانات، اقدامات اور فتوئوں کو جمع کرے، ان کا گہرا مطالعہ کرے۔ پھر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ اِن دونوں مہموں کے پیچھے کچھ خفیہ ہاتھ تو نہیں رہے ہیں؟ یہ دیکھے کہ دونوں ممالک میں، اور دونوں قوتوں کی طرف سے یہ مہم کیا ایک ساتھ یا کچھ آگے پیچھے شروع ہوئی ہے اور ان میں کب تیزی آئی ہے؟ یہ معلوم کرے کہ کن کن جماعتوں اور کن علما کا وقت کی حکومت یا برسرِاقتدار پارٹی سے تعلق رہا ہے اور دانستہ یا نادانستہ اُس کے آلۂ کار یا شریکِ کار تو نہیں بنے؟ ایسا تو نہیں ہے کہ اربابِ اقتدار سے خوف کھاکر اپنے آپ کو، اپنی جماعت کویا اپنے دارالعلوم کو حکومت کے عتاب سے بچانے کے لیے انھوں نے جماعت اسلامی کے خلاف کچھ اقدامات کیے ہوں؟ یہ ایک انتہائی اہم اور بنیادی کام ہے، جسے اب تک انجام نہیں دیا گیا ہے اور دین و ملّت کے لیے کسی بھی تعمیری کام کے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تحقیقی جائزہ لیا جائے۔

جیساکہ سب کو معلوم ہے، [اگست ۱۹۴۷ء کے دوران]آزادی کی صبح طلوع ہوتے ہی دہلی، مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب (پاکستان) میں ہولناک اور وسیع و ہمہ گیر فسادات بھڑک اُٹھے تھے۔ خیال تھا کہ یہ ایک ہیجانی دور ہے ، جو جلد ختم ہوجائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ ہندستان اور پاکستان دونوں ممالک میں خون ریز ہندومسلم فسادات کا سلسلہ چلتا رہا۔ تاہم، پاکستانی حکومت نے کچھ مدت کے بعد اپنے آہنی ہاتھوں سے فسادات کے اس سلسلے کو کچل دیا، لیکن ہندستانی حکومت اس میدان میں ناکام رہی۔ حال یہ ہےکہ ان مسلم کُش فسادات کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور  ان فسادات نے پوری دُنیا میں ہندستان کی ذلّت و رُسوائی کا سامان کیا ہے۔ یہ فسادات اس مدت میں ہزارہا ہوئے، لیکن حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار کےمطابق جو اصل سے ہمیشہ کم ہوتے ہیں ___ اِن فسادات کا اوسط بعض برسوں میں دن میں ایک یا ایک سے زائد فساد کا تھا۔ اِن فسادات سے عظیم ترین مالی و جانی نقصانات ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانیت، اخلاق، مذہب اور باہمی اعتماد، ہرچیز کا خون ہوا اور ملک دُنیا میں ذلیل و رُسوا ہوا۔

فسادات میں ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹوں، مختلف سیاسی پارٹیوں کے بیانات اور خود برسرِاقتدار پارٹی کے لیڈروں کی تصریحات سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں رہی کہ اِن ’مسلم کُش‘ فسادات میں انتظامیہ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار عموماً جانب دارانہ رہا۔ انھوں نے بساواوقات فسادیوں کی سرپرستی کی بلکہ قتل و غارت گری میں خود بھی حصہ لیا۔ لیکن فساد کے ذمہ داروں کا تعین ہونے کے بعد مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے فسادیوں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا، نہ مجرم حکام اور پولیس افسران کو سزائیں دیں۔ [کانگریسی] حکومت کے ذمہ داران ان فسادات کے لیے مسلسل آر ایس ایس (RSS)کو ذمہ دار تو ٹھیراتے رہے، مگر اُنھوں نے اُس کے شرسے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، بلکہ مختلف اوقات میں آرایس ایس سے خود اُس کی سازباز رہی۔ یہی نہیں، بسااوقات بے جاطور پر، خود تباہ و برباد ہونے والے مسلمانوں کو اِن فسادات کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا۔ فساد کے مارے ہوئے مظلوم مسلمانوں کو ’پاکستانی ایجنٹ‘ کہا گیا اور باربار حکومت کے ایوانوں اور اس کے ہم نوا پریس سے اعلان ہوا کہ ’’اِن فسادات کے پیچھے پاکستانی ہاتھ ہے‘‘۔

جماعت اسلامی اوّل روزسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی داعی رہی ہے۔ اس کا پیغام سب انسانوں کے لیے ہے۔ وہ حقوق و مفادات کی انسانیت کش جنگ اور ہندو مسلم کش مکش کو غلط سمجھتی ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام اہلِ ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہے۔ جماعت نے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کی لہر کو روکنے کے لیے اپنی سی کوشش کی، مگر افرادِکار اور وسائل کی قلّت کے باعث یہ طوفان روکنے میں ناکام رہی۔ البتہ جماعت اسلامی ایک کام پوری تندہی اور کامیابی سے کرتی رہی اور وہ ہے فسادات میں تباہ ہونے والے افراد کی،بلاامتیاز مذہب و ملّت امداد اور اُسے اس معاملے میں ملک و ملّت کا اعتماد حاصل رہا۔ لیکن جماعت اسلامی کی امدادی اور رفاہی کوششیں اور مظلومین کے لیے اس کی صدائے احتجاج، اربابِ اقتدار کو پسند نہ آئی۔ حکومت کے ذمہ داروں اور اُس کے ہم نوا پریس نے فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ فسادات کے لیے آر ایس ایس کے ساتھ جماعت اسلامی کو بھی بلاجواز اور بے وجہ متہم کیا۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا اور کانگریسی پریس اور کانگریس کے ہم نوا کچھ ہندو اور مسلمان رہنمائوں اور کمیونسٹوں کی جانب سے آر ایس ایس اور جماعت اسلامی دونوں پر پابندی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

انھی دنوں دائیں بازو کی پارٹیوں کے اشتراک و تعاون سے جے پرکاش نارائن [م:۱۹۷۹ء]کی تحریک [مکمل انقلاب] چلی۔ بگڑتے ہوئے حالات سے خائف ہوکر وزیراعظم اندرا گاندھی [م: ۱۹۸۴ء]نے ۲۵ جون ۱۹۷۵ء کی شب میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ چند روز کے بعد دوسری جماعتوں کے ساتھ جو تحریک میں شریک تھیں، جماعت اسلامی ہند پر بھی، جس کا اِس تحریک سے کوئی تعلق نہ تھا، پابندی لگا دی گئی۔ پورے ملک سے جماعت کے ذمہ داران اور وابستگان کو بڑے پیمانے پر گرفتار کرلیا گیا، اور جماعت کے دفاتر، بیت المال اور املاک کو سیل اور مکتبوں اور اخبارات و رسائل کو بند کردیا گیا۔

ایمرجنسی کے نفاذ اور جماعتوں پر پابندی کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے مسز اندراگاندھی نے کئی سو صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پیش کی۔ اس میں آر ایس ایس کے ذمہ داروں کی کتابوں اور بیانات کے بہت سے اقتباسات اُس کے خلاف الزماات کے ثبوت میں پیش کیے گئے تھے، مگر جماعت اسلامی کے خلاف اس میں کوئی مواد نہ تھا۔ اسی ایمرجنسی کے دوران وزیراعظم ہند کے خصوصی نمایندے محمد یونس خاں نے عرب ممالک کا دورہ کیا۔ اُن سے ہرجگہ جماعت کے بارے میں سوالات ہوئے، جن کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے اعتراف کیا کہ ’’حکومت کو جماعت سے کوئی شکایت نہیں ہے، محض توازن قائم کرنے کے لیے ہندو جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی پر بھی پابندی لگادی گئی ہے‘‘۔

جماعت اسلامی پر اس بے وجہ پابندی، اس کے املاک کی ضبطی اور اس سے وابستہ افراد کی مظلومانہ گرفتاریوں کے باعث نہ صرف ہندستان ، نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ دُنیا بھر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں جماعت کو حاصل ہوئیں۔ جماعت پر پابندی لگنے کے، چند ہفتوں کے اندر وزیراعظم کے آفس میں پوری دُنیا سے مسلمان ذمہ داروں کے ٹیلی گراموں کا انبار لگ گیا، جن میں جماعت پر سے پابندی ہٹانے اور اس کے وابستگان کو رہا کرنے کامطالبہ تھا۔ عربی اخبارات و رسائل میں خصوصیت سے جماعت کے سلسلے میں مقالات و بیانات شائع ہوئے۔ خود ملک کے بہت سے انصاف پسند غیرمسلموں کی ہمدردیاں جماعت کے ساتھ تھیں۔

جماعت اسلامی کی اس بے بسی اور زبان بندی کو ہندستان کے بعض علماے کرام نے جماعت کی بیخ کنی کا سنہری موقع جانا۔ چنانچہ جیل ہی میں [مجھے] شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی صاحب  [۱۸۹۸ء-۱۹۸۲ء]کی تصنیف فتنہ مودودیت پڑھنے کو ملی، جسے پڑھ کر دُکھ ہوا۔ اس لیے نہیں کہ اِس سے جماعت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا، بلکہ اس لیے کہ اِس سے محترم شیخ الحدیث کی شخصیت بُری طرح مجروح ہوئی تھی۔ یہ کتاب مولانا مودودی ؒ کی عبارتوں میں کتربیونت، کانٹ چھانٹ، ان پر بے بنیاد الزامات اور سوء فہم کا عجیب و غریب مرقع تھی۔ پھر جس موقع کو انھوں نے جماعت پر حملے کےلیے چُنا تھا، اس سے شرافت و اخلاق کا خون ہوا تھا۔ کوئی شریف آدمی کسی مجبور و مظلوم شخص پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس زمانے میں جب زبانیں جماعت اسلامی کی حمایت میں گنگ تھیں، مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ [م: ۱۹۸۵ء]سابق صدر شعبۂ دینیات مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند اور مدیر ماہنامہ بُرہان ،دہلی نے اپنے ماہنامے میں اِس پر شدید تنقید کی اور اِسے شرافت و اخلاق سے ٹکراتی ہوئی حرکت قرار دیا۔

       بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی مسلط کردہ ایمرجنسی اورجماعت پر پابندی کا دور چل رہا تھا کہ ہمیں جیل ہی میں یہ اطلاعات ملنے لگیں کہ ’’محترم مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی، جماعت اسلامی کے لٹریچر کے وسیع وعمیق مطالعے میں مصروف ہیں اور جماعت کے سلسلے میں کوئی کتاب لکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس سوال سے قطع نظر کہ مولانا علی میاں کو اِس وقت اس کی کیا ضرورت پیش آئی، توقع ہوئی کہ مولانا لٹریچر کے وسیع و عمیق مطالعے کے بعد کوئی علمی و تحقیقی کتاب لکھیں گے، جس میں جماعت کے مالہ و ماعلیہ پر کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل و مفصل بحث ہوگی۔ لیکن ایمرجنسی کے بعد مولانا علی میاں کی کتاب عصرحاضر میں دین کی تفہیم و تشریح نظر سے گزری تو حیرت و مایوسی کی کوئی انتہا نہ رہی۔

مولانا علی میاں نے اِس کتاب کے آغاز ہی میں باور کرایا ہے کہ ’’کتاب خیرخواہی کے جذبے کے تحت لکھی گئی ہے‘‘ مگر اِس سوال سے قطع نظر کہ کیا اِس دور میں جماعت کی خیرخواہی یہی تھی؟ ہمیں کتاب میں خیرخواہی کا سراغ نہیں ملا، البتہ ذہن میں ایک سوال ضرور اُبھر آیا، اور وہ یہ کہ مولانا مودودیؒ سے، اُن کے پاکستان میں ہونے کے باعث، مولانا کے ربط کے زیادہ مواقع نہ تھے، مگر جماعت اسلامی ہند کے چوٹی کے ذمہ داروں سے تو مولانا علی میاں کے قریبی تعلقات تھے اور مولانا ازراہِ کرم خود بھی مرکز جماعت میں تشریف لاتے رہتے تھے۔ تاہم، مولانا نے اپنی زبان سے کبھی اپنی ’خیرخواہی‘ کا حق ادا نہیں فرمایا۔ہوسکتا تھا کہ جناب علی میاں کی تفہیم و تلقین کے نتیجے میں ہند میں جماعت کے حضرات اپنی ’غلط فکری‘سے باز آجاتے، ورنہ اُن پر اتمامِ حجت تو ہو ہی جاتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ خود مولاناعلی میاں کی غلط فہمی دُور ہوجاتی۔

مذکورہ بالا کتاب سے جماعت کے لٹریچر کے وسیع و عمیق مطالعے کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ کتاب میں دستورِ جماعت، خطبات، تفہیمات اورقرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کے حوالے ہیں، مگر افسوس، مولانا علی میاں نے اِن کتابوں کا بھی نہ عمیق مطالعہ کیا اور نہ بالاستیعاب۔ اگرمولانا دستورجماعت میں لا الٰہ الا اللہ کی تشریح کا مطالعہ فرما لیتے تو ’اللہ کی حاکمیت‘ پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کا، اُن کا اعتراض ختم ہو جاتا، اور ’نصب العین‘ کی تشریح میں ’اقامت ِ دین‘ کا جامع و وسیع مفہوم ملاحظہ فرما لیتے تو جماعت کی طرف اقامت ِ دین کا محدود سیاسی مفہوم منسوب نہ فرماتے، اور خطبات کو بالاستیعاب پڑھ لیتے تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ مولانا مودودیؒ عبادات کو دین میں اُس سے بہت زیادہ بلند مقام کا حامل سمجھتے ہیں، جتنا عام علماے کرام قرار دیتے ہیں، اور قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ازاوّل تا آخر اُن کے مطالعے میں آجاتی تو اِس کتاب کے لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

اپنی کتاب میں مولانا علی میاں کی تنقید کا اصل ہدف قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اِس کتاب میں ’الٰہ، ربّ، عبادت اور دین‘ پر لغوی بحث کرکے پہلے اُن کا لغوی مفہوم واضح کیا ہے، پھر سیکڑوں قرآنی آیات ترجمے کے ساتھ پیش کرکے اُن کا اصطلاحی مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا علی میاں نے مولانا مودودی پر یہ کریہہ الزام لگایا ہے کہ ’’انھوں نے اِن اصطلاحات کے مفہوم میں تحریف کرکے باطل فرقوں کی طرح دین کو بدل ڈالنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی ہے‘‘۔ پھر مولانا [علی میاں] کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ ان کی یہ کتاب ایک ’علمی و اصولی تبصرہ و جائزہ‘ ہے۔

مولانا مودودیؒ کی اِس علمی و تحقیقی کتاب کے ’علمی و اصولی جائزے‘ کی واحد شکل یہ تھی کہ مولانا [علی میاں] واضح فرماتے کہ مولانا مودودی نے اِن چار الفاظ کے سلسلے میں جو لغوی بحثیں کی ہیں، ان میں یہ اور یہ غلطیاں ہیں۔ پھر قرآنی آیات کا انھوں نے جو ترجمہ کیا ہے اور ان سے جو استدلال کیا ہے، وہ اِس، اِس طرح غلط ہے۔ یوں محترم مولانا [علی میاں] تفاسیر اور اقوالِ علماے سلف سے اپنی بات کو مدلل بیان فرماتے ہوئے بتاتے کہ ان اصطلاحات کا اصل مفہوم یہ ہے، اور مولانا مودودی نے کس طرح علماے سلف کی مسلّمہ تعریفات سے انحراف کیا ہے۔ مگر صدافسوس کہ کتاب اِس علمی و تحقیقی بحث سے بالکل خالی ہے۔

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیںکا مطالعہ کرکے میں نے محسوس کیا تھا کہ یہ تو وہی فکر ہے، جو ہمیں اسلاف، خصوصاً اکابر علماے دیوبند و ندوہ سے ملا ہے۔ یہ میرا طالب علمی کا دور تھا۔ اس کے بعد سالہا سال قرآنِ مجید پر غوروفکر، تفاسیر اور احادیثِ نبویؐ کے مختلف مجموعوں کے مطالعے، علماے سلف کی تصانیف کو پڑھنے پڑھانے اور قرآنِ مجید کی تفسیر، احادیث کی تشریح اور مختلف اسلامی موضوعات پر تصنیف و تالیف کے مسلسل مواقع ملتے رہے، مگر کبھی یہ احساس تک نہ ہوا کہ مولانا مودودیؒ نے اِس کتاب میں ’’قرآنی اصطلاحات کا مفہوم بدل کر دین میں تحریف کی ہے‘‘۔

میں نے الحمدللہ، کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر کبھی کسی کی بات تسلیم نہیں کی ہے۔ اللہ نے مجھے شخصیتوں کی غالی عقیدت سے بھی محفوظ رکھا ہے۔ اگر مولانا علی میاں کتاب و سنت کے دلائل سے ثابت کر دیتے کہ مولانا مودودیؒ کا بنیادی فکر غلط ہے تو میں اِس ’گمراہی‘ سے بچ نکلتا مگر مولانا کی کتاب تو دلائل سے خالی نکلی۔عصرِحاضر کے عظیم قرآنی محقق مولانا حمیدالدین فراہیؒ [۱۸۶۳ء-۱۹۳۰ء] کے نزدیک ’اللہ کی حاکمیت‘ کو صفاتِ الٰہی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ان کی ایک مختصر اصولی کتاب فِی مَلَکُوْتِ ا للّٰہِ ہے۔

تاہم، کچھ عرصے کے بعد دل میں کھٹک پیدا ہوئی، کہیں میرا مطالعہ تو غلط نہیں ہے۔ کہیں میں نے اسلاف اور خود اپنے اکابر کے علم و فکر کو سمجھنے میں غلطی تو نہیں کی ہے۔ کہیں میرے حافظے نے مجھے دھوکا تو نہیں دیا ہے۔ پھر وقفے وقفے سے یہ کھٹک پیدا ہوتی رہی۔ آخرکار میں نے اِس کھٹک کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور عربی لغات، اہم تفاسیر اور اکابر اہلِ علم کی کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔

پیش نظر تازہ اوروسیع مطالعہ کرکے قلب و دماغ کو مطمئن و یکسو کرنا تھا۔ پھر دعوتی و تحریکی مشغولیات سے بہت کم فرصت مل پاتی تھی۔ میری اپنی لائبریری بہت مختصر تھی۔ اِن وجوہ سے میرا مطالعہ انتہائی سُست رفتاری سے آگے بڑھتا رہا۔ اس مطالعے کے دوران وقت کے گزرنے کے ساتھ مطالعے کا شوق بڑھتا گیا۔ غوروفکر کا زیادہ موقع ملتا گیا اور بہت ہی اہم کتابیں یکے بعد دیگرے ملتی گئیں۔ یہ مطالعہ الٰہ، ربّ اور عبادت تک محدود تھا۔

میں جذبۂ شکروسپاس اور عجز و نیازمندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور سر بہ سجود ہوں کہ اس نے مجھ سے اپنے دین کی کچھ خدمات لی ہیں: رَبَّنَا تَقَبَّلْ  مِنَّا  اِنَّکَ  اَنْتَ  السَّمِیْعُ  الْعَلِیْمُ

دعوتِ دین اور کلمۂ حق بلند کرنے کی روایت، درحقیقت کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت سے وابستہ ہے۔ اس روایت پر عمل کرنے والے قابلِ قدر انسان ہرزمانے میں اور ہرعلاقے میں موجود رہے ہیں۔ افسوس کہ بہت سے مقامات پر ایسے عظیم محسنوں کی خدمات کو بھلا دیا گیا، یا پھر انھیں مسخ کرکے کچھ کا کچھ بنا دیا گیا۔

یہ مضمون بنگالی میں لکھی گئی نہایت اہم کتاب کی بنیاد پر لکھا گیا ہے، جو ۳۰سال قبل شائع ہوئی تھی، جو برصغیر پاک و ہند کی اسلامی تاریخ کے ایک روشن باب کی نایاب اور مفید جھلک پیش کرتی ہے۔ اس میں ہندستان کے ایک معروف صوفی مولانا حامد بنگالی کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سولھویں صدی کی اس تاریخی سوانح اور تابندہ شخصیت کے مطالعے اور توجہ کا ایک سبب مولانا حامد کا دوسرے اسلامی ہزاریہ کے بہت اہم مصلح مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ (۹۷۱ھ - ۱۰۳۴ھ / ۱۵۶۴ء-۱۶۲۴ء) کے ساتھ خدمات انجام دینا ہے۔

آج بنگلہ دیش کے شہری علاقوں میں قوم کے بیش قیمت اسلامی ورثے کو اپنانا اور اس پر فخر کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے، جیساکہ بڑے پیمانے پر مذہبی رسوم کو بالخصوص ملک کے دیہی علاقوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ انتہاپسند سیکولر اور ہندونواز بنگلہ دیشی انتظامیہ کی طرف سے برسوں پر پھیلے اسلام مخالف پروپیگنڈے نے قوم کے نوجوانوں کو تقریباً قائل کرلیا ہے کہ ’’ملک میں داخلی  قوم پرستی کے مقابلے میں اسلام کی حیثیت ایک بیرونی چیز کی سی ہے‘‘۔ بھارت کے بہت زیادہ اثرانداز ہونے کی بناپر بنگلہ دیش کی تاریخ کو اَزسرِنو مرتب کیا جارہا ہے، بالخصوص ان مسلمانوں کا نام و نشان اور حوالوں کو مٹایا جارہا ہے، جن عظیم مسلمانوں نے اس خطے کی تاریخ کا رُخ متعین کرنے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا تھا۔

مولانا حامد بنگالی کی رُودادِ حیات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تقریباً پانچ سو سال قبل برصغیر میں اسلام پھیلانے اور مسلمانوں کی اصلاح کے لیے شان دار جدوجہد میں کردار ادا کیا۔ اگرچہ خطے کی مسخ شدہ تاریخ کے مقابلے میں اس عظیم شخصیت کی سرگزشت بیان کرنے کے لیے یہ کتاب ناکافی ہے، تاہم، ہم نے سوچا کہ اس مبارک کام کا آغاز ہوسکتا ہے۔ حامد بنگالی ان پُرعزم، نڈر اور بے باک لوگوں میں سے تھے، جن کی جدوجہد سے سرزمین بنگال و آسام یا آج کے بنگلہ دیش اور مشرقی ہندستان میں اسلام نے بڑے پیمانے پر جڑپکڑی، نشوونما پائی اور پھلا پھولا۔

مولانا حامد کی سرگزشت اس وقت تک بیان نہیں کی جاسکتی ،جب تک ان کے رہنما اور محب شیخ احمد سرہندی فاروقیؒ کی جدوجہد کی وضاحت نہ کی جائے، جنھیں احیائے اسلام کی جدوجہد میں ایسا بلند مقام ملا ، جو احیائے اسلام کی طویل جدوجہد میں کسی اور مصلح کو کم ہی حاصل ہوا۔

شیخ احمد سرہندیؒ کی اصلاحات کی وسعت اور عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے، اب سے پانچ سو سال پہلے کی سیکولر یا ’روشن خیال‘ نئی نئی اختراعات و خرافات کو جاننا ضروری ہے، جو آہستہ آہستہ بڑے پیمانے پر مذہبی رسوم کے نام پر پھیل گئی تھیں۔ پھر اس زمانے کے حکمرانوں کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو جاننا بھی ضروری ہے، جن کا مقصد اسلام کو ہندستان سے تقریباً مٹا دینا تھا۔

اس زمانے کے برصغیر میں اسلام فکری پیش رفت اور پھیلائو کو کھو رہا تھا۔ اگرچہ مسلم، عوام اسلام سے گہری وابستگی رکھتے تھے اور مختلف رسوم سے وابستہ تھے، جن کی اسلام سے نسبت نہیں تھی۔ مثال کے طور پر صوفیا کے مزاروں اور درگاہوں کی غیرمعمولی تعظیم اور اس سے ملتی جلتی دیگر مذہبی رسمیں عام ہوگئی تھیں۔صوفیا کرام مختلف مکاتب ِ فکرسے تعلق رکھتے تھے۔ وہ خانقاہیں اور مراکز تعمیر کرنے میں مصروف تھے، جب کہ مسلم عوام اپنی محدود اسلامی تعلیم کی وجہ سے ایمانیات میں تحریف اور نئی نئی اختراعات کو پہچاننے کے اہل نہ تھے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ مسلم اقلیت سماجی طور پر ہندو اکثریت کی توہمات اور غیر اسلامی رسوم و رواج کے رنگ میں رنگی جارہی تھی۔

برصغیر میں مسلم تاریخ کے اس پیچیدہ مرحلے پر، مغلیہ دورِ حکومت میں شہنشاہ اکبر [۱۵۴۲ء-۱۶۰۳ء] کی تخت نشینی [۱۵۵۶ء]نے اس خرابی میں اور اضافہ کردیا۔ اکبر کی تخت نشینی اس کی کم عمری میں بطور ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے ہوئی تھی، لیکن یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ ایک کم علم اور نوعمر کی طرح اس کی مذہبی فکر اور اعمال ایک سمت سے دوسری سمت کی طرف بدلتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کے لیے یہ بات صدمے کا باعث اور پریشان کن تھی کہ کس طرح   وہ ایک مسلمان سے دین میں بڑے پیمانے پر بنیادی تحریفات اور نت نئی اختراعات کرنے والا، اصل عیسائی (Proto Christion)، خفیہ ہندو (Crypto Hindu)، ملحد اور مُرتد ہوگیا۔

اکبر کا ایک ہندو عورت سے شادی کرنا، عیسائیوں، یہودیوں، زردشتوں کے پیشوائوں کے ساتھ عموماً یک طرفہ مکالمہ عام سی بات تھی۔ پھر اس کا غیرمذہبی اور ملحدمشیروں پر انحصار بڑھتا گیا، جن میں ابوالفضل فیضی [م:۱۶۰۲ء] اور بے حد خوشامدی مُلّامبارک جیسے علما شامل تھے۔ مُلّامبارک نے رُسوائے عالم فتویٰ (رجب ۹۸۷ھ) دیا اور بعد میں اسے ایک شاہی فرمان قرار دیتے ہوئے اکبر کو ’امیرالمومنین‘ قرار دےدیا ، جس کے تحت اکبر اسلامی اُمور میں فیصلہ کن اختیار کا مالک بن گیا۔ اس طرح اس کو مذہبی اور ثقافتی اُمور میں بے راہ روی اور ارتداد میں مدد ملی۔

اکبر کی زندگی میں اس تباہ کن طرزِعمل کی رُودادکافی طویل ہے۔ منتخب التواریخ کے مطابق جو اس کے دورِحکومت کے احوال پر بحث کرتی ہے، اس میں اکبر کے اپنے درباری اور ہم عصر مؤرخ مُلّاعبدالقادر بدایونی [م:۱۶۰۵ء] نے لکھا کہ ’’اکبر نے زکوٰۃ پر پابندی لگا دی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے، حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا تمسخر اُڑایا، دینی علوم کی تعلیم کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں (مثلاً، احمدؐ، محمدؐ اور مصطفےٰؐ) کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کچھ درباریوں کو کہا کہ وہ یہ نام بدل لیں، دربار میں اذان پر پابندی لگا دی، پنجگانہ نماز کی ادائیگی، رمضان کے روزوں، حتیٰ کہ حج کی ادائیگی سے روک دیا۔اس نے سورج کی پرستش کا آغاز کیا، سلام کرنے کے لیے ’السلام علیکم‘ اور جواب دینے کے لیے ’وعلیکم السلام‘ کو ’اللہ اکبر‘ اور ’جل جلالہ‘ سے تبدیل کر دیا۔ اس نعرے کا مطلب تھا ’اکبرخدا ہے‘ اور دوسرے حصے کے مطلب ’جلال‘ تھا۔ ایک ہزار ہجری کے اختتام پر اس نے اس نعرے کو سکّوں پر بھی نقش کروایا۔

اکبر نے اپنے عجیب و غریب مذہب کو ’دین الٰہی‘ کا نام دیا، اور اپنی ذات کو زمین پر  ’خدا کا سایہ‘ قرار دیا اور دربار میں حاضر ہونے والوں کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں (اس رسم کو اس کے پوتے اورنگزیب نے ختم کیا)۔ مؤرخین خواہ ماضی کے ہوں یا حال کے، حتیٰ کہ وہ بھی جنھوں نے اکبر کی مذہبی پالیسیوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی، اکبر کی ان بیش تر زیادتیوں سے انکار نہیں کرسکتے۔

معروف برطانوی مؤرخ ونسنٹ آرتھر اسمتھ [م: ۱۹۲۰ء] نے اپنی کتاب Akbar The Great Mogul میں لکھا ہے: ’’اکبر بادشاہ کے تمام اقدامات کا خلاصہ ہندو، جین اور پارسی مذہبی رسوم کو اپنانا تھا، جب کہ لازمی اسلامی رسوم و رواج کی حوصلہ شکنی اور ان پر پابندیاں لگانا تھا‘‘۔ انڈین مؤرخ ایشوری پرشاد [م: ۱۹۸۶ء] کہتے ہیں: ’’بادشاہ کے ہاتھوں محمد کے دین کی توہین،   اس کے جاری کردہ قوانین و ضوابط سے عیاں تھی،جو علما کو اشتعال دلانے اور مسلمانوں میں تشویش کا باعث بنی‘‘۔ حالات اس وقت بدترین صورت اختیار کرگئے، جب اسلامی ہجری کیلنڈر کے پہلے ہزارسال ۱۵۹۱ء میں اختتام کو پہنچ رہے تھے اور اس وقت اکبر کا دورِ حکومت۳۵ویں سال میں داخل ہورہا تھا۔ اکبر اپنے آپ کو اگلے ہزاریے کا مقتدر اعلیٰ تسلیم کروانے کی خواہش میں ناکام رہا۔

عبدالقادر بدایونی کے مطابق: ’’شہنشاہ کا یقین تھا کہ اسلام صرف ایک ہزار سال کی زندگی رکھتا ہے، جس کے بعد وہ اسلام سے مکمل طور پر دست بردار ہونے کے لیے آزاد ہوگا‘‘۔ اکبر کے  تاریخ نویس ابوالفضل کا دعویٰ تھا کہ ’’اکبر دوسرے اسلامی ہزاریہ کے افتتاح کے لیے پیدا ہوا ہے‘‘۔

اکبر کے ان سیاہ ترین اقدامات کے باوجود جلد ہی اسلام کی فطرت میں موجزن تحریک اور جذبے نے ان شرمناک اکبری اقدامات کو مسترد کر دیا۔ اسلام کی سچی روح بیدار ہوگئی اور ایک نیا اور ممتاز مسلم معاشرہ تعمیر کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ اس پیچیدہ صورتِ حال میں اسلام کی یہ شان دار خدمت ایک شان دار تحریک کے ذریعے ممکن ہوئی، جس کا اجرا شیخ احمد سرہندی فاروقیؒ نے کیا۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ [م: ۱۹۹۹ء]کے بقول: ’’درحقیقت یہ ان [شیخ احمد سرہندی]کی کامیابی تھی کہ ان کی شہرت کی وجہ سے انھیں ’مجددالف ثانی‘ یا دوسرے ہزاریہ کا احیا کرنے والے کا لقب عطا کیا گیا، جس [نام] سے لوگ زیادہ واقف ہیں بہ نسبت ان کے ذاتی نام سے‘‘۔

کتاب مولانا حامد بنگالی ،حضرت مجدد الف ثانیؒ کی زندگی کی ولولہ انگیز رُوداد بیان کرتی ہے اور وہ غیرمتزلزل عزم کہ جس کے ساتھ انھوں نے جدوجہد کی اور جو مشکلات پیش آئیں ان پر شان دار فتح حاصل کی، اس کی یاد دلاتی ہے۔ حضرت مجدد ؒ کے ہاتھوں اکبرکے اسلام مخالف اقدامات اور ظالمانہ رجحانات کے خاتمے کی مہم نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کیے، حتیٰ کہ شاہی دربار کے کچھ معززین بھی متاثر ہوئے۔ مجدد الف ثانیؒ نے ہندستان کے تمام حصوں اور گردونواح کے ممالک میں اپنے خلفا (نائب) مقرر کیے۔ اکبر کا جانشین شہنشاہ جہانگیر [م:۱۶۲۷ء] اس کامیابی پر چونک گیا اور اس بات سے ڈر گیا کہ غالباً شیخ احمد سرہندیؒ اس کے خلاف ایک بغاوت برپا کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی تزک جہانگیری میں جہانگیر نے لکھا ہے کہ ’’مجدد نے ہرشہر اور ملک میں اپنے شاگردوں کو بھیجا، جنھیں وہ نائب یا خلیفہ کہتا تھا‘‘۔ اور یہ کہ ’’میں نے مجدد کو قید کر دیا اس بات کی یقین دہانی کے پیش نظر کہ عوام کا جوش و جذبہ ختم کیا جاسکے‘‘۔

شہنشاہ جہانگیر نے شیخ احمد سرہندیؒ کو اپنے دربار میں پیش ہونے کے لیے کہا۔ دربار کے مفتی اور ولی عہد خرم (شاہجہان) [م: ۱۶۶۶ء]کی بار بار ہدایت کے باوجود حضرت مجددؒ نے شہنشاہ کے سامنے تعظیمی سجدہ کرنے سے انکار کر دیا (جو اکبر نے متعارف کروایا تھا)۔ جب شہنشاہ جہانگیر نے انکار کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’’میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے بیان کردہ تعظیمی آداب کے سوا کسی کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔ جس پر جہانگیر نے برہم ہوکر انھیں حکم دیا کہ کچھ بھی ہو وہ اسے سجدہ کریں۔لیکن حضرت مجددؒ نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ ’’میں اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کر سکتا‘‘۔ طیش میں آکر شہنشاہ نے گوالیار کے قلعے میں انھیں قید کرنے کا حکم دے دیا۔ حکومت نے ان کا گھراور پانی کا کنواں، پھل دار درخت اور کتابیں ضبط کرلیں۔ ان کے خاندان کے افراد کو زبردستی کسی دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

تاہم، یہ قید اُن کے لیے باعث ِ رحمت ثابت ہوئی۔ انھوں نے اس موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اورزیادہ روحانی استعداد حاصل کی اور دیگر قیدیوں میں تبلیغ کی۔ اس طرح بڑی تعداد میں غیرمسلم قیدی مسلمان ہوگئے تو انھوں نے مسلمان اور نومسلم قیدیوں کی اصلاح اور تعلیم و تربیت پر توجہ دی۔ جیل کی دیواروں کے باہر ان کی شہرت بڑے پیمانے پر پھیل گئی اور شہنشاہ پر دبائو اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ انھیں پورے احترام کے ساتھ رہا کیا جائے۔

مولانا حامد بنگالیؒ کو مجدد الف ثانی ؒنے بنگال میں اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ دراصل حضرت مجددؒ کے دو شاگردوں کے نام ایک جیسے تھے: ایک حامد کا تعلق پنجاب سے تھا اور وہ حامد لاہوری کہلاتے تھے۔ چنانچہ مجدد نے ان کے ناموں میں فرق کرنے کے لیے ان کے نام کے ساتھ ان کے علاقے کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا، جسے انھوں نے بڑے احترام کے ساتھ اپنایا۔

مولانا حامد بنگالیؒ ۱۵۹۸ء کے دوران، مغربی بنگال کے ازانی منگل کوٹ، ضلع بردہامان کے معروف قاضی خاندان میں پیدا ہوئے۔ صدیوں سے نامور قائدین اس علاقے کے دورے کرتے رہے ہیں۔ ایک مرحلے پر ۱۶۲۲ء میں شہزادہ خرم نے اپنے والد شہنشاہ جہانگیر کے خلاف بغاوت کر دی اور ۱۶۲۴ء میں بنگال کو فتح کرلیا۔ اس دوران وہ شیخ حامد کے پاس حاضر ہوا اور حصولِ تخت میں کامیابی کے لیے دُعا کی درخواست کی۔ شب بھر کی ریاضت کے بعد اگلی صبح شیخ حامد نے شہزادے کو کہا کہ ’’ان شاء اللہ تخت اسی کو ملے گا‘‘۔ اس پیش گوئی کےچار سال بعد شہزادہ خرم نے اقتدارِشاہی حاصل کرلیا۔

شیخ حامد نے اعلیٰ تعلیم دہلی کی جامعہ میں حاصل کی، جب کہ تخصص کے لیے وہ لاہور تشریف لائے۔ اس زمانے میں شہزادہ خرم (شاہجہاں) بھی دہلی کی جامعہ میں ایک طالب علم تھا، جن دنوں شیخ حامد بنگالی، جامعہ سے تعلیم حاصل کررہے تھے۔ شیخ حامد کی شان دار علمی کامیابی علما میں معروف تھی۔ اسی بنا پر آگرہ کے مشہور مفتی عبدالرحمٰن سے ان کی دوستی ہوگئی۔  شیخ حامد، مفتی عبدالرحمٰن صاحب کے پاس حصولِ علم اور عالمانہ مباحث کے لیے ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ یہیں پر ایک روز شیخ احمد سرہندیؒ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ایک ماہر جوہرشناس کی طرح انھوں نے فوری طور پر جان لیا کہ شیخ حامد ان کی تحریک کے لیے بہت مفید ہوسکتے ہیں اور انھوں نے انھیں اپنی تحریک سے وابستہ ہونے کے لیے کہا۔

سرہند میں ایک سال تک حضرت مجددؒ کے ساتھ انھوں نے قیام کیا۔ پھر شیخ سرہندیؒ نے انھیں اپنا خلیفہ بناکر بنگال واپس جانے کی اجازت دی۔اجازت نامے پر مبنی خط کا عکس اور ترجمہ کتاب میں دیا گیا ہے۔ مجدد الف ثانیؒ نے مولانا حامدؒ کی غیرمعمولی علمی اور روحانی استعداد کی تحسین فرمائی ہے اور اسی بنا پر انھیں خلیفہ مقرر کیا گیا۔ صوفی حامد بنگالیؒ، مجدد الف ثانیؒ کے تمام خلفاء میں سرفہرست ہیں۔

منگل کوٹ میں مولانا حامد ؒ نے اپنے سابق مدرسہ میں بطورِ سربراہِ ادارہ ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس کا معیار اس قدربلند کردیا کہ بنگال اور ملک کے دوسرے حصوں سے طلبہ ان کی زیرنگرانی حصولِ علم کے لیے جوق در جوق وہاں آنے لگے۔ تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ انھوں نے مجدد الف ثانیؒ کی اصلاحی تحریک میں مرکزی کردار ادا کیا اور بنگال کے مسلمانوں میں رائج غیراسلامی خرافات، اوہام اور بدعات کو دُور کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ مولانا حامد بنگالیؒ کا انتقال ۱۰۵۰ھ [م: ۱۶۴۰ء] میں ہوا۔

اس کتاب مولانا حامد بنگالی: ایک مرشد اور  روحانی رھنما (بہ زبان بنگلہ) از اظہرالدین مُلّا (ناشر: اسلامک کلچرل سنٹر، ڈھاکہ، بنگلہ دیش) سے معلوم ہوتا ہے کہ شہنشاہ شاہجہان نے مولانا حامدؒ سے محبت و احترام کا رشتہ قائم رکھا۔ ۱۰۵۵ھ [۱۶۴۵ء] میں تخت نشین ہوتے ہی اس نے بنگال کے گورنر قتلوخان کو حکم دیا کہ وہ مولانا حامدؒ کے خاندان کی دیکھ بھال کرے۔ لیکن گورنر نے پیغام بھیجا: ’’ مولانا کا انتقال ہوچکا ہے اور مدرسہ کی حالت خستہ ہے‘‘۔ یہ پیغام ملتے ہی شاہ جہاں نے حکم دیا کہ ’’مولانا کی قبر کے قریب ایک مسجد تعمیر کی جائے‘‘۔ چنانچہ بارہ دری مسجد تعمیر کی گئی۔ اس قدیم مسجد کا کچھ حصہ اور چند مینار آج بھی قائم ہیں۔ سنگ بنیاد پر عربی میں کندہ تحریر یہ بتاتی ہے: شہاب الدین محمد شاہجہان بادشاہ نے اسے ۱۰۶۵ھ [۱۶۵۵ء]میں تعمیر کیا۔

جنوبی ایشیائی ممالک میں ہر سال کہیں خشک سالی، سیلاب، تپش، سمندری طوفان اور اب جاڑوں میں ہوائی آلودگی کی وجہ سے سیکڑو ں افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔۲۰۰۹ء میں کوپن ہیگن میں ماحولیاتی کانفرنس سے قبل اس وقت بھارت کے وزیرماحولیات نے پاکستانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اقبال خان سے ملاقات کے بعد بتایا تھا کہ ’’دونوں ممالک ماحولیات سے متعلق مشترکہ موقف اپنائیں گے اور اشتراک کی راہیں ڈھونڈیں گے‘‘۔ مگر اس سمت میں ایک قدم بھی آگے بڑھ نہ سکا۔ بجائے کسی مشترکہ حکمت عملی کے، ۲۰۱۴ءکے بعد تو ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ مشترکہ دریاؤں کے پانی کو بھی روکنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

ماحولیاتی تباہی کے سوال پر بھارت اور پاکستان کے درمیان اشتراک اس لیے اشد ضروری ہے، کیونکہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیر تیزی کے ساتھ پگھل کر ختم ہو رہے ہیں۔ پچھلے دو عشروں سے کشمیر کے سب سے بڑے ’کلاہوئی گلیشیر‘ کی ناک ٹاپ۲۲میٹر سے زائد پگھل چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار ۲۰۰۷ء کے ہیں ۔ اس کے بعد تو مزید تباہی آچکی ہے۔ اس کے اطراف کے چھوٹے گلیشیر تو کب کے ختم ہوچکے ہیں۔ ہمالیہ خطے کے۱۵ہزار گلیشیر دنیا کے چاربڑے دریاؤں سندھ، گنگا، میکانگ اور برہم پترا کے لیے منبع کا کام کرتے ہیں۔ تقریباً تین ارب افراد کی زندگی ان کے پانیوں کی مرہون منت ہے۔

ایک بھارتی سائنس دان ایم این کول کے بقول ان ۱۵ہزار گلیشیروں میں ۶ہزار۵سو بھارت میں اور پھر ان میں۳ہزار ایک سو۳۶کشمیر اور لداخ خطے میں ہیں۔ پاکستان کا مرکزی دریا سندھ، تبت سے نکل کر لداخ اور پھر گلگت کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی ایک شاخ کارگل کے پاس الگ ہوکر سونہ مرگ کے راستے وادیٔ کشمیر کے ایک حصے کو سیراب کرتی ہوئی، گاندربل میں دریائے جہلم میں ضم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تین چوتھائی آبادی سندھ طاس میں آباد ہے اور اس کی ۸۰فی صد خوراک کی ضروریات سندھ اور اس کی معاون ندیوں خاص طور پر جہلم اور چناب پر منحصر ہے۔

ان گلیشیروں کو سب سے زیادہ خطرہ پہاڑی علاقوں میں بلا روک ٹوک آمد و رفت اور ہندو مذہبی یاترائوں سے منسلک ہے۔ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چارمقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری اس کی بڑی مثال ہیں۔ دوعشرے قبل تک کشمیر میں امرناتھ یاترا کے لیے محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو نسل پرستوں کی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوئوں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھارنا ہے، تاکہ اس پر بھارت کے دعوے کو مزید مستحکم بنایا جاسکے۔

۱۹۹۶ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے اس علاقے میں ۲۰۰ سے زائد ہندو یاتری مرگئے تھے۔ اس حادثے کی انکوائری کے لیے بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے یاتریوں کو ایک محدود تعداد میں یاترا کرنے کی سفارش کی تھی۔اس سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو محدود اور ضابطہ بند بنانے کی جب کوشش کی، تو ہندو دھرم کے علَم بردار لیڈروں نے اسے مذہبی رنگ دے کر حکومت کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب ۲۰۰۵ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر جنرل (ر)ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافے کی تجویز پر اعتراض کیا، تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیئے۔

دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندوؤں کو امرناتھ یاترا پر اُبھارنا شروع کردیا۔ اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح امرناتھ کو بھی سیاحت اور بھارت کی نسل پرست قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں کی گئیں۔ پروفیسر کول کے مطابق اگر اس علاقے میں اسی طرح ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔

بھارتی حکومت نے بھارت کے بیش تر دریائوں اورندیوں کے منبع، یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، لیکن وادیٔ کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے ’سند ھ طاس گلیشیروں‘ کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔۲۰۰۶ء ہی میں اتراکھنڈ صوبہ میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے وہاں پر ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رُو سے ہر روز صرف ۲۵۰ سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبع ’گومکھ گلیشیر‘ جا سکتے ہیں۔  اس کا موازنہ اگر آپ سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے ’کلاہوئی گلیشیر‘ کے ساتھ کریں تو وہاں ہر روز اوسطاً۲۰ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔

ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ ’’ایسے وقت میں، جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیش تر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو ریگولیٹ کررہے ہیں، بھارت کو بھی چاہیے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ضابطے کا پابند بنانے کی تجویز پر مذہبی نقطۂ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطۂ نگاہ سے غور کرتا‘‘۔ بھارت کے ایک اہم ادارے ’دی انرجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ (TERI) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مطالعے میں دعویٰ کیا تھا کہ دریائے چناب کے طا س کے گلیشیروں میں ۲۱ فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’نجوان اکل گلیشیر‘ تو پوری طرح پگھل چکا ہے۔ تھجواسن، زوجیلا اور ناراناگ کے گلیشیر بھی بُری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ امرناتھ مندر کے غار کے اوپر کا گلیشیر ، جس کی وجہ سے غار کے اندر برف کا ’شیولنگ‘ بنتا ہے، وہ بھی تقریباً ۱۰۰میٹر تک گھٹ چکا ہے۔ شمالی کشمیر کے سیاحتی مقام گلمرگ کے نزدیک ’افروئٹ گلیشیر ‘کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے، جب کہ ایک وقت یہ ۴۰۰میٹر طویل ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح جنوبی کشمیر کے ناگی نند، ہانجی پورہ اور وندرنند کے گلیشیر بھی ختم ہو چکے ہیں۔۵۰سال قبل چناب طاس میں ۸ہزار مربع کلومیٹر کے قریب گلیشیر ہوتے تھے، جو اس وقت صرف ۴ہزار ایک سو مربع کلومیٹر تک رہ گئے ہیں۔ سیاچن گلیشیر پر فوجی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کی کیا حالت ہو چکی ہوگی، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

خود بھارت میں گلیشیروں کا ڈیٹا حاصل کرنا بھی خاصا مشکل ہے، کیونکہ یہ سرحدی علاقوں میں آتے ہیں اور وزارت دفاع و فوج ان علاقوں کے سروے کی اجازت نہیں دیتی ۔ جے رام رمیش نے اپنی وزارت کے دوران گلیشیروں کے سروے اور ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا حکم صادر کیا تھا، مگر وزارت دفاع نے محققین کو ان علاقوں تک رسائی دینے سے انکار کر دیا۔ اب بھی بھارت میں گلیشیروں کے حوالے سے معتبر ڈیٹا موجود نہیں ۔

 گلیشیروں کے علاوہ کشمیر میں گھنا جنگلاتی رقبہ بھی ۳۷ فی صد سے گھٹ کر ۱۱فی صد رہ گیا ہے۔ پہلگام کے علاقے میں گھنے جنگلات کا رقبہ جو ۱۹۶۱ءمیں ۱۹۱مربع کلومیٹر تھا، ۲۰۱۰ء میں ۳ء۹  مربع کلومیٹر ریکارڈ کیا گیا، وہ اب اور بھی سکڑ گیا ہے۔ اسی طرح پانی کے سب سے بڑے ذخیرے ولر جھیل کی قسمت بھی کشمیریوں کی قسمت کی طرح سکڑ گئی ہے۔ اس کا رقبہ پچھلی تین دہائیوں میں ۱۵۷مربع کلومیٹر سے گھٹ کر ۸۶مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ دریائے جہلم کو پانی فراہم کرنے والا یہ ایک بڑا ماخذ اور سرچشمہ ہے۔

 فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات کے خطرات تو ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، خاص طور پر جب وہ جان بوجھ کر عمل میں لائی جاتی ہوں،ان سے بھی شدید ترین خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس جہالت، دھونس اور ظالمانہ غیر ذمہ داری کے نتیجے میں جنگوں سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراکِ عمل کرکے خطے کو ماحولیاتی تبدیلی کے ہلاکت انگیز طوفان سے بچائیں۔ دوسرا طریقہ ہے کہ سارک تنظیم کے ذریعے کوئی نظامِ کار ترتیب دیا جائے۔

سفارتی مؤرخ رچرڈ اولمین نے قومی سلامتی کو درپیش خطرات کی تشریح پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہر وہ چیز جس سے عوامی زندگی یا اس کا معیار متاثر ہوتا ہے، سلامتی کے زمرے میں آتی ہے‘‘۔ بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ خطۂ کشمیر کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے اور اس کے جنگلات، گلیشیر اور پانی کے ذخائر کو بچانے کا عہد کریں۔ اگر یہ ناپید ہوجاتے ہیں توہمالیہ، ہندو کش اور پھر نشیب میں ایک بڑی آبادی کی زندگی دائوپر لگ سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ خطرہ کسی ایٹمی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی سے کم نہیں ہوگا، کہ جس کی طرف ہم بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

عصرحاضر میں اسلامی نفسیات کے نظریہ ساز اور محقق پروفیسر ڈاکٹر مالک بدری، ۸ فروری ۲۰۲۱ء کے روز اللہ کو پیارے ہوگئے۔ پروفیسر بدری علمی دُنیا میں اسلامی نفسیات کے باوا آدم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ نفسیات پر اپنی کتابوں، تحقیق اور علم نفسیات کو اسلامی فکر کی روشنی میں کمال کے درجے پر پہنچانے کی وجہ سے اپنے وطن سوڈان کی سرحدوں سے نکل کر عالمی اُفق پر چھا گئے۔  ان کی تحقیقات کو بین الاقوامی یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ تحقیقی مراکز نے سراہا ہے۔ انھیں ذہانت، بصیرت اور نفسیات کے مطالعے میں خدمات کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جو لوگ انھیں ذاتی طور پر جانتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ وہ کھلا دل اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے روح اور دل کی تطہیر کے بارے میں نہ صرف اسلامی نفسیات کی تعلیم و تربیت بانٹی بلکہ وہ خود ایک نیک روح تھے۔

پروفیسر مالک بدری نے اپنی زندگی اسلامی نفسیات کی ترقی کے لیے وقف کر دی تھی۔ ۸۹سال کی عمر میں اپنے آخری چند مہینوں تک وہ لیکچر دیتے، مشاورتوں میں حصہ لیتے اور اپنی آخری کتاب پر کام کرتے رہے۔ان کی علمی میراث ان کی بنیادی تصانیف، ان کے طلبہ اور اسلامی نفسیات کے شعبے کو آگے بڑھانے کے لیے شروع کیے ہوئے کاموں کی صورت میں موجود ہے۔ انھوں نے بہت سے ممالک میں نفسیات کے شعبے قائم کیے اور نفسیات کی تعلیم دی۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد میں نفسیات کے بانی پروفیسر تھے اور گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح کے نصابات میں اسلامی نفسیات /مسلم نفسیات کو متعارف کروانے کا محرک تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر مالک بابیکر بدری ۱۶ فروری ۱۹۳۲ء کو دریائے نیل کے کنارے پر واقع رفاعہ شہر میں پیدا ہوئے۔ آپ سوڈان کے ایک قابلِ احترام عالمِ دین شیخ بابیکر بدری کے بیٹے تھے، جنھوں نے سوڈان میں خواتین کی تعلیم کے کے لیے بہت دل جمعی سے کوششیں کیں، اور۱۹۶۶ء میں ’الاحفاد خواتین یونی ورسٹی، خرطوم‘ کی بنیاد رکھی۔

پروفیسر مالک بدری نے ۱۹۵۶ء میں امریکی یونی ورسٹی، بیروت سے نفسیات میں گریجویشن کی، اور اسی یونی ورسٹی سے ۱۹۵۸ء میں نفسیات و تعلیم میں ایم اے کیا۔ بعدازاں ۱۹۶۱ء میں لیسٹر یونی ورسٹی، برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اور ۱۹۶۶ء میں پوسٹ ڈاکٹریٹ، مڈل سیکس ہسپتال اور میڈیکل کالج سے کی۔ ’جبا یونی ورسٹی اور خرطوم یونی ورسٹی کے شعبہ ہائے تعلیم میں ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۷۷ء میں برٹش سائیکالوجیکل سوسائٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۶۵ء میں اردن یونی ورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور صدرِ شعبہ ، ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۱ء تک یونی ورسٹی آف ریاض، امام محمد بن سعود یونی ورسٹی میں پروفیسر کے علاوہ رہنمائی اور نفسیاتی مشاورتی یونٹ کے ڈائریکٹر رہے۔ ملائشیا کی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں ابنِ خلدون مسند کے ممتاز پروفیسر اور اسلامی نفسیات کی بین الاقوامی تنظیم کے بانی اور صدر رہے۔ افریقہ اور ایشیا میں متعدد شہروں میں کلینکل سائیکالوجی کے شعبے قائم کیے۔ انھوں نے ۲۰۱۷ء میں ’انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف اسلامک سائیکالوجی‘ (IAIP) کی بنیاد رکھی۔

ڈاکٹر بدری نے بہت سی کتابیں اور بلندپایہ تحقیقی مضامین عربی اور انگریزی زبانوں میں لکھے ہیں، جو ان کی متعدد کتابوں میں شامل ہیں:

lCulture and Islamic Adaptation Psychology, lThe Dilemma of Muslim Psychologists, lContemplation: An Islamic Psychospiritual Study, lThe AIDS Crisis: An Islamic Sociocultural Perspective.

آپ کے کام نے علم نفسیات میں تخصص کے ایک نئے شعبے کو متعارف کروایا، اور سوڈان، سعودی عرب، پاکستان، ملائیشیا، ترکی، پوری مغربی اور مسلم دنیا پر اس کا بہت اثر مرتب ہوا۔  آج دنیا بھر میں اسلامی نفسیات کے حوالے سے متعدد کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کورسوں، ورکشاپوں، کتابوں، نظریاتی اور کلینیکل ایپلی کیشنز ہیں، جو سبھی اسلامی نفسیات کے شعبے کی تعمیروترقی کے لیے وقف ہیں۔ ان سب کا نقطۂ آغاز ڈاکٹر بدری ہیں۔

ڈاکٹر مالک بدری درس و تدریس میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو رول ماڈل قرار دیتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے  انھیں جدید اسلامی نفسیات کی تحریک کو زندہ کرنے اور اسلامی روح کو نفسیات میں واپس لانے کی کوشش میں کردار ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

راقم کو پروفیسر مالک بدری نے ۲۰۱۲ء میں امام محمد یونی ورسٹی، ریاض میں ملاقات کے دوران بتایا کہ ’’۱۹۶۰ء کے عشرے کے وسط میں، مَیں نے کویت سے لے کر افغانستان اور پھر لاہور پاکستان تک کا سفر اپنی کار پر کیا تھا ۔ لاہور جانے کا واحد مقصد مولانا مودودیؒ سے ملاقات تھا‘‘ [تفصیلات دیکھیے: ’سیّد مودودیؒ: ایک مشاہدہ، ایک موازنہ‘، ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء]۔ وہ مولانا مودودیؒ اور سیّدقطب شہیدؒ کی تعلیمات سے بہت متاثر تھے۔ اسلامی اصولوں کے فروغ کے لیے جنابِ مالک بدری مرحوم کا ٹھاٹھیں مارتا جذبہ، بے مثال اور قابلِ ستایش نمونہ تھا۔

بیرم بلچی نے اپنی کتاب Islam in Central Asia and The Caucasus Since the Fall of the Soviat Union [اشتراکی روس کے زوال کے بعد وسطی ایشیا اور قفقاز میں اسلام] میں اس خطے میں اسلامی تہذیب کے احیا کے امکانات کی نسبت سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران رُونما ہونے والی تبدیلیاں، جو ان ممالک کی آزادی کے بعد سامنے آئیں، ان کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔اشتراکی روس کے انہدام کے بعد روسی فیڈریشن اور نوآزاد مسلم ریاستیں اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھیں کہ دیگر مسلم ممالک مثلاً ایران، ترکی اور مصر وغیرہ کی نظریاتی تحریکیں کس طرح اس خطے پر اثرانداز ہوسکتی ہیں؟ پہلے عشرے میں ان کے رجحانات اور تجربات میں ایک تدریجی ارتقا پایا گیا۔ یہ ممالک پہلے تو اپنی کھوئی ہوئی پہچان حاصل کرنے کے لیے محتاط انداز سے آگے بڑھے، اور اسلامی احیائی قوتوں سے مزاحمت پر منتج ہوئے (ص ۱۸۸،۱۸۹)۔ ان مسلم ممالک کے حکمرانوں کے نزدیک مسلم شناخت ایک محدود زاویہ رکھتی ہے، ان کا یہ غلط مفروضہ ایک وہم کے سوا کچھ نہیں ہے (ص۲)۔

اپنی آزادی کے آغاز ہی سے وسطی ایشیا کی حکمران مسلم قیادت نے ایک جزئی اور محدود قسم کے رویے کو فروغ دیا، جو ان کی مفاداتی ترجیحات سے ہم آہنگ تھا۔ ازبکستان نے معاشرے کی تنظیم میں دینی رجحانات کو اپنی گرفت میں رکھا (ص ۱۸۸،۱۸۹)۔ یہ منہج صر ف ازبکستان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ دیگر مسلم ریاستوں میں بھی کم وبیش ایسے ہی معاملات اور رویوں کو برتا گیا (ص۱۱۵)۔ ازبکستان تو ایک واضح مثال ہے کہ کیسے وہاں اشتراکی روس ہی کے تربیت یافتہ افراد کی موجودگی میں، کس طرح مذہبی اُمور سے نبٹنے کے لیے صف بندی کی گئی، جس سے ایک نیا قومی تشخص وجود میں آیا (ص ۱۱۴، ۱۱۵)۔

وسطی ایشیا کی سیاسی قیادت کی شروع سے یہ کوشش رہی کہ کس طرح اپنے عوام کو دینی رجحانات کے اثرات سے دُور رکھا جائے۔ عام طور پر اس حوالے سے ترکی کو مصطفیٰ کمال ماڈل کی نسبت سے دیکھا گیا، کہ ترکی نے اسلامی اثرات کو کھرچنے اور روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے اور کس طرح اسلامی پیش قدمی کے سامنے مزاحمتیں کھڑی کی تھیں (ص۵۱)۔ یہ کتاب ان ریاستوں میں اجتماعی دینی میراث کو اَزسرنو مرتب کرنے کی منظم کاوشوں کو سامنے لاتی ہے، جس کے تحت خاص طور پر دین کے محدود مطالعے کے ساتھ، دین کی ایک بانجھ اور بے فیض تعبیر کو فروغ دیا گیا اور اس کی بنیاد خوف، ہیجان اور بسااوقات خیالی روایات پر رکھی گئی۔ ایسے قوانین اور ضابطوں کو بروئے کار لایا گیا، جو مذہب اسلام کے فروغ کے آگے بند باندھ سکیں (ص ۱۲۹)۔

ہرچند کہ ایران اپنے شمالی پڑوسیوں میں خاص دل چسپی رکھتا تھا، لیکن ایران کے حوالے سے ایک عمومی سلبی تاثر کی وجہ سے ایران کو ان ممالک میں نفوذ کے ضمن میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہ مل سکی۔ جن لوگوں کے فکروخیال اور شخصیتوں کی آبیاری اشتراکی روس کےدورمیں ہوئی تھی، وہ آج تک بیرونی اثرات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں اور ان کے لیے اب بھی سیکولرزم، الحاد یا لادینیت ہی سب سے پسندیدہ نظریہ ہے، جس کی ڈھال کے پیچھے وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں (ص۹۱)۔

کتاب کے مصنف نے عربوں کے حوالے سے عموماً اورسعودی عرب کے حوالے سے خصوصاً ایک تاریخی تجزیہ پیش کیا ہے، جس سے اس کا مقصد ’سلفی اثرات‘ کے فروغ کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہے اور لکھا ہے کہ ازبکستان میں سعودی اثرات کے حوالے سے کافی منفی رویے پائے جاتے ہیں، کیونکہ وہ سعودی عرب کی دینی روایات کو ’رجعت پسندی‘ اور قبائلی معاشرے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان وسطی ایشیائی مسلم ممالک نے حج کے سفرپر پابندی لگارکھی ہے۔ اس کا مقصد اپنے عوام کے آزاد انہ سفر پر پابندی ہے، تاکہ ان کے شہریوں کی آزادانہ آمدورفت کے نتیجے میں دینی و تحریکی خیالات اور نظریات کے آنے اور ان کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ یوں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے نسبت رکھنے والے تمام نظریات اور دینی رجحانات کے فروغ کو ناممکن بنایا جاسکے (ص ۱۰۷)۔

 ان وسطی ایشیائی مسلم حکمرانوں کو یہ بھی خوف لاحق رہا ہے کہ ’’حاجی مکہ سے اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے احساسات سے سرشار ہوکر لوٹیں گے، اور یہی فکر اپنے دیگر ہم وطن لوگوں میں بھی منتقل کردیں گے، جس سے وسطی ایشیا میں پائی جانے والی ازبک اکائی بتدریج منتشر ہوجائے گی اور بالآخر ازبک حکام اس مزاحمتی سوچ کے سامنے بے اثر ہوجائیں گے‘‘ (ص ۱۴۰)۔

اس طرح وسطی ایشیا کی ریاستیں ’اسلامی شدت پسندی‘ کا خطرہ کھڑا کرکے دینی رویوں کے فروغ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے زیادہ تر ادارے نہ صرف شدت پسندی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں بلکہ اس کے مقابلے میں ایک غیرسیاسی اور معتدل مذہبی تعبیر کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ کتاب وسطی ایشیا اور قفقاز کے خطے میں، ۱۹۹۱ء میں آزادی کے بعد سے دینی رویوں اور رجحانات میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطالعے کے لیے ایک مفید ماخذ ہے۔ مصنف نے اپنے مشاہدات،علمی حقائق اور تجزیات بیان کیے ہیں، جن سے وسطی ایشیا کی قیادت کے اقدامات اور اپنے خطے کی دیگر قوتوں سے تعلقات کے بارے میں ان کی سوچ اور ترجیحات سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔یہ کتاب ہرسٹ اینڈ کمپنی لندن نے شائع کی ہے، جو ۲۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ (مسلم ورلڈ بک ریویو، جلد۴۲،شمارہ۱، ص ۴۴)

اسلامی گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات

سوال : نمونے کی اسلامی گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا ہمارے معاشروں میں موجودہ گھریلو زندگی، اسلامی ہے؟ کیا شہر اور گائوں میں ایک طرز کی گھریلو زندگی ہوگی؟ موجودہ گھریلو زندگی میں پرانی ہندستانی روایات کا کتنا دخل ہے؟

جواب :ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رُو سے چار ہیں:

  • ایک تحفظ نسب، جس کی خاطر زنا کو حرام اور جرم قابلِ تعزیر قرار دیا گیا ہے، پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں اور زن و مرد کے تعلق کو صرف جائز قانونی صورتوں تک محدود کردیا گیا ہے، جن سے تجاوز کا اسلام کسی حال میں بھی روادار نہیں ہے۔
  • دوسرے تحفظ نظامِ عائلہ جس کے لیے مرد کو گھر کا’قوام‘ بنایا گیا ہے، بیوی اور اولاد کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اولاد پر خدا کے بعد والدین کا حق سب سے زیادہ رکھا گیا ہے۔
  • تیسرے حُسنِ معاشرت، جس کی خاطر زن و مرد کے حقوق معین کردیئے گئے ہیں، مرد کو طلاق کے اور عورت کو خلع کے اورعدالتوں کو تفریق کے اختیارات دیئے گئے ہیں، اور الگ ہونے والے مرد و زن کے نکاحِ ثانی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہےتاکہ زوجین یا تو حُسنِ سلوک کے ساتھ رہیں، یا اگر باہم نہ نباہ سکتے ہوں تو بغیر کسی خرابی کے الگ ہوکر دوسرا بہتر خاندان بناسکیں۔
  • چوتھے صلہ رحمی، جس سے مقصود رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا معاون و مددگار بنانا ہے اور اس غرض کے لیے ہرانسان پر اجنبیوں کی بہ نسبت اس کے رشتہ داروں کے حقوق مقدم رکھے گئے ہیں۔

افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس بہترین نظامِ عائلہ کی قدر نہ پہچانی اور اس کی خصوصیات سے بہت کچھ دُور ہٹ گئے ہیں۔ اس نظامِ عائلہ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔

رہے طرزِ زندگی کے مظاہر ، تو وہ ظاہر ہے کہ شہروں میں بھی یکساں نہیں ہوسکتے، کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسانی ہوسکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو، وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے، بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں ردو بدل نہ ہو۔(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۵۹ء)


اللہ تعالیٰ کے حقوق اور والدین کے حقوق

سوال :  میںجماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دُور رہنےپر مجبور ہوں۔والدین کا شدید اصرار ہے کہ میں ان کے پاس رہ کر کاروبار شروع کروں۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظرانداز کر رہے ہو۔ میں اس بارے میں ہمیشہ تشویش میں مبتلا رہتا ہوں۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے، دوسری طرف یہ محسوس کرتا ہوں کہ اقامت ِدین کی جدوجہد میں  ذمہ داری ادا کرنا ضروری ہے۔ پھر یہ بھی جانتا ہوں کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف دہ ہوگی۔ لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل  ہے تو پھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں کہ میرے والد صاحب  میری ہر بات کو موردِ اعتراض بنا لیتے ہیں۔آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟

جواب :والدین کی اطاعت اور دین کی خدمت کے درمیان توازن کا مسئلہ بالعموم ان سب نوجوانوں کے لیے وجۂ پریشانی بنا رہتا ہے، جن کے والدین جماعت اسلامی اور اس کے مقصد سے ہمدردی نہیں رکھتے۔ میں نے عموماً یہ دیکھا ہے کہ ایک بیٹا اگر سرکاری ملازمت میں ہو یا کسی اچھے کاروبار میں لگا ہوا ہو، تو والدین اس کے ہزاروں میل دُور رہنے کو بھی برداشت کرلیتے ہیں اور اس سے کبھی نہیں کہتے کہ تو ملازمت یا روزگار چھوڑ دے اور آکر ہماری خدمت کر۔ بیٹے کے اطوار اگر فاسقانہ بھی ہوں تو اعتراض کی زبان کھولنے کی ضرورت انھیں بالعموم محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اپنے سارے حقوق انھیں صرف اسی وقت یاد آجاتے ہیں، جب کوئی بیٹا اپنے آپ کو خدمت ِ دین کے لیے وقف کردیتا ہے، حتیٰ کہ اگر جماعت اسے معقول معاوضہ دے تب بھی وہ یہی ضد کرتے ہیں کہ بیٹا گھر میں بیٹھ کر ان کے ’حقوق‘ ادا کرے بلکہ حقوق ادا کرنے پر بھی ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا، اس کی ہربات انھیں کھٹکتی ہے اور اس کی کسی خدمت سے بھی وہ خوش نہیں ہوتے۔ یہ صورتِ حال میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اورجماعت کے بکثرت نوجوانوں کو اس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کرنا پڑرہا ہے۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے ہاں فی الواقع کیا صورتِ حال ہے۔ اگر وہی کچھ ہے جو آپ کے بیان سے سمجھ میں آرہی ہے تو یہ آپ کے والدین کی زیادتی ہے۔ آپ جہاں کام کر رہے ہیں، وہیں کرتے رہیں۔ جو کچھ مالی خدمت آپ کے بس میں ہو،و ہ بھی کرتے رہیں، بلکہ اپنے اُوپر تکلیف اُٹھا کر اپنی مقدرت سے کچھ زیادہ ہی بھیجتے رہیں، اور حسب ضرورت وقتاًفوقتاً ان کے پاس ہو آیا کریں۔ لیکن اگر صورتِ حال اس سے مختلف ہو اور فی الواقع آپ کے والدین اس بات کے محتاج ہوں کہ آپ کے لیے ان کے پاس رہ کر ہی خدمت کرنا ضروری ہو، تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ ان کی بات مان لیں۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۵۶ء)


صلہ رحمی کا مفہوم

سوال :  ’صلہ رحمی‘ کا مفہوم کیا ہے اور اسلامی شریعت میں اس کی اہمیت کس حد تک ہے؟

جواب : ’صلہ رحمی‘ کا مفہوم رشتہ داری کے تعلق کی بنا پر ہمدردی، معاونت، حُسنِ سلوک، خیرخواہی اور جائز حدودتک حمایت کرنا ہے۔ اس کی کوئی حد نہ مقرر ہے، نہ کی جاسکتی ہے۔ دراصل یہ عام معروفات میں سے ہے، جنھیں لوگ خود ہی جانتے ہیں۔ اور صلہ رحمی میں کوتاہی کرنا یا قطع رحمی کرنا، ان بڑے گناہوں میں سے ہے، جن کی سخت مذمت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔(ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۴۶ء)

معلّم القرآن ،اردو ترجمہ :قرآن مجید ،مترجم :پروفیسر قاری جاوید انور صدیقی۔ ناشر: دارالقرآن پبلشرز، غزنی مارکیٹ، اردو بازار لاہور۔فون :۳۷۳۶۱۴۸۸-۴۲۔ صفحات: ۱۰۳۱۔قیمت ایک ہزار روپے ۔

صدیقی صاحب ایک عرصے سے دینی مدارس اور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں تدریس کرتے رہے ہیں ۔قرآن پاک کا ترجمہ سکھاتے اور پڑھاتے ہوئے انھیں ایک سوال کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ ’’ترجمہ، متنِ قرآن کے ہر لفظ کے نیچے ہو، ساتھ ہی ترجمہ بامحاورہ بھی ہو اور دو دو سطروں میں بھی نہ ہو‘‘۔

اس سوال کو حل کرنے کے لیے انھوں نے بعض علمائے دین (مثلاً: مفتی شیر محمد مدنی، جامعہ اشرفیہ لاہور؛ حافظ عبدالمنان، گوجرانوالہ؛ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، لاہور؛ مولانا عبدالمالک، منصورہ ) کے مشوروں اور ہدایات کے بعد خود ہی ذمہ داری اُٹھائی اور برسوں کی محنت کے بعد اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ لکھتے ہیں: ’’میں نے اس ترجمے کے لیے شاہ رفیع الدین ، حافظ فتح محمد جالندھری، پیر محمد کرم شاہ ، شیخ محمود حسن [محمودالحسن درست نہیں]،سیّد شبیر احمد ،حافظ نذر محمد اور خاص طور پر شیخ التفسیر مولانا عبدالفلاح کے مجموعۂ تفاسیر ، تفسیر اشرف الحواشی سے بہت استفادہ کیا ہے‘‘۔

 قاری صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ ہم وہ خوش قسمت اور بد قسمت قوم ہیں جو قرآن کو اپنی انفرادی و اجتماعی اور ملکی وعالمی ہر مرض کا علاج (فِیْہِ شِفَاءُ لِلْنَّاسِ) مانتے ہیں لیکن بد قسمت ہیں کہ اس پر عمل نہیں کرتے ۔( رفیع الدین ہاشمی )

را اور بنگلہ دیش، محمدزین العابدین ۔ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی ،ڈی ۔۳۵، بلاک ۵،فیڈرل بی ایریا، کراچی ۔فون :۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات ۲۸۸،قیمت :ایک ہزار روپے ۔

متحدہ پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے اسباب ،واقعات اور نتائج پر مبنی اردو اور انگریزی میں بیسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ زیر نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک آنکھیں کھولنے والی کتاب ہے۔

محمد زین العابدین نے سقوطِ مشرقی پاکستان سے پہلے مکتی باہنی میں شامل ہو کر بھارت جاکر مار دھاڑ کی تربیت حاصل کی، پھر بھارتی فوجوں کے ہمراہ مشرقی پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں میں شریک رہے۔ کہتے ہیں کہ ۱۹۷۱ء سے پہلے ایک بزرگ نے مجھے سمجھایا کہ بھارت مسلمانوں کا کبھی مخلص اور سنجیدہ دوست نہیں ہو سکتا، مگر میری آنکھوں پر پاکستان دشمنی کی پٹی بندھی ہوئی تھی اور ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد جب ’’بھارتی فوجیوں نے بڑے پیمانے پر لوٹ مار شروع کی، بھارتی فوجیوں کے ہاتھ جو کچھ لگا وہ بھارت لے گئے۔ لوٹ مار میں آسانی کے لیے چھوٹے بڑے شہروں،قصبوں، تجارتی مراکز، بندر گاہوں اور صنعتی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ۔ بھارتی فوجی صرف ہتھیار ہی نہیں بلکہ پنکھے اور نل تک نکا ل کر لے گئے ۔ بھارتی فوج کی ہزاروں گاڑیوں میں لوٹا ہوا مال بھارت پہنچادیا گیا اور یہ ساری لوٹ مار بھارت کی طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر دی جانے والی اجازت کے بغیر ممکن نہ تھی، تب میری آنکھوں پر بندھی پٹّی کھلی‘‘۔

مصنف نے چشم دید واقعات ،تجربات اور تحقیقات کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان میں بنیادی کردار بھارت کے خفیہ جاسوسی ادارے ’را‘ کا ہے۔ ’را‘ کی بنیاد کو ٹلیہ کی ارتھ شاستر ہے۔ ’را‘ بھارت کا سب سے طاقت ور ادارہ ہے۔ چند سال پہلے تک اس کا بجٹ ۱۵ ہزار کروڑ تھا۔ اس کا ہدف پاکستان، سری لنکا ، بھوٹان، نیپال وغیرہ کو بھارت کا حصہ بنا دینا ہے۔ مصنف نے ’را‘ کے طور طریقوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اہلِ پاکستان (عوام اور حکومت) اس کا ادراک کر کے اپنے دفاع کی تدابیر کریں۔

 کتاب کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )


داستانِ عزم ،خودنوشت ،ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ ناشر :قلم فائونڈیشن ،یثرب کالونی ، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور۔ فون:۴۳۹۳۴۲۲-۰۳۲۳۔ صفحات :۱۴۶+۵۶ ۔قیمت :پندرہ سو روپے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تعلق برعظیم کی مردم خیز ریاست بھوپال سے ہے۔ ان کے جدِّ امجد شہاب الدین غوری کی فوج کے ایک کمانڈر تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے والد بھوپال میں مقیم ہو گئے تھے۔

عبدالقدیر خان بھوپال سے میٹرک کرنے کے بعد ۱۹۵۲ء میں پاکستان چلے آئے۔ کراچی سے بی ایس سی کیا۔ ۱۹۶۱ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے ۔ ہالینڈ میں بھی زیر تعلیم رہے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انھوں نے یورپ کے بعض تحقیقی اداروں میں کام کیا اور اپنے فن پر پوری طرح دسترس حاصل کرلی۔ بعض غیر ملکی اداروں کی جانب سے پُر کشش پیش کشوں کو نظر انداز کرکے وہ پاکستان آ گئے اور یہاں اٹامک انرجی کمیشن میں جوہری بم بنانے کا پروگرام شروع کیا۔

ایٹم بم بن گیا، اس کا تجربہ بھی ہو گیا۔ بعد ازاں خان صاحب نے سماجی اور دینی خدمات کے سلسلے میں متعدد ادارے قائم کیے۔ جنرل مشرف نے خان صاحب کی کردار کشی اور تذلیل کی مگر مشرف کی رخصتی کے بعد انھیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’نشانِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک منجھے ہوئے قلم کار بھی تھے۔ ادبی اور شعری ذوق بھی رکھتے تھے۔ سات آٹھ کتابیں ان سے یاد گار ہیں۔انھوں نے روز نامہ جنگ میں مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ ان کا لموں میں وہ اپنی آپ بیتی بھی لکھتے رہے۔ اس آپ بیتی میں ایٹم بم بنانے تک کے مراحل کے ساتھ کہوٹہ لیبارٹری کے سائنس دانوں اور عام کارکنوں میں مثبت اور منفی کرداروں کی سرگرمیوں کا تذکرہ بھی آ گیا ہے۔ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ملک کی سا لمیت سے متعلق معاملات میں بھی کرپشن دخل اندازی کرتی ہے مگر سابق صدر غلام اسحاق خان جیسے محب وطن نے ممکنہ حد تک ڈاکٹر عبدالقدیر کی پشت پناہی کی۔ انھوں نے معروف صحافی زاہدملک کے نام ایک خط میں خان صاحب کی شخصیت وکارکردگی اور ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ان کی کاوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

خط کے آخر میں غلام اسحاق خان لکھتے ہیں:ڈاکٹر عبدالقدیر خان حقیقتاً ایک اچھے اور عظیم انسان ہیں۔ اس لیے کہ اپنے ملک کی ترقی اور اپنی قوم کی فلاح وبہبود سے زیادہ عظیم کوئی مقصد ہو نہیں سکتا اور اسی مقصد کی خاطر وہ جیے اور جیتے ہیں۔ انھوں نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا اور جو بھی کارنامے انجام دیے، وہ اپنی گواہی خود دیتے ہیں اور یہ کارنامے ایسے ہیں کہ ان الفاظ سے کہیں زیادہ بلند آواز سے یہ اپنا اعلان خود کرتے ہیں جو الفاظ ان کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکیں ۔ ان کی زندگی کا آئینہ یہ مشہور فارسی مقولہ ہے: مُشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطّار بگوید (مشک وہ ہے جو خود خوشبو دیتا ہے ، نہ کہ وہ جس کا دعویٰ عطار کرے )۔ (رفیع الدین ہاشمی)


دنیا میرے آگے ،افشاں نوید ۔ناشر :ادارہ بتول ۱۴، ایف سید پلازہ ، ۳۰ فیروز پور روڈلاہور، فون: ۳۷۴۲۴۴۰۹-۰۴۲۔صفحات :۲۲۴۔قیمت :۴۴۰ روپے ۔

محترمہ افشاں نوید کے ۴۱ ،اخباری مضامین پر مشتمل یہ ان کا تیسرا مجموعہ ہے، جو ان کی ’قلبی واردات‘ کا لفظی اظہار ہے۔ ’’میں نے جو دیکھا ، سوچا، محسوس کیا ، اس قلبی واردات کو قلم کی زبان دے دی‘‘۔ چند عنوانا ت دیکھیے :عصر کی قسم۔ فتنوں سے آگاہی۔ میدان کربلا ۔ہماری تاریخ کا چوراہا۔ ماہِ صیام کل اور آج۔ علامہ اقبال اور آداب فرزندی ۔ بات ہے اقدار کی۔ تمھی سے اے مجاہدو! جہاں میں ثبات ہے۔ قانونِ تحفظ نسواں اور بی آپا۔ ۱۶ دسمبر ، یومِ سقوطِ ڈھاکا۔ نصاب اور استاد ، اسٹیفن ہاکنگ ، سڈنی ائر پورٹ، یومِ کشمیر ، شرمین چنائے عبید ، آپ کے نام ۔

کتاب کا ہر کالم لکھنے والے کے حسّاس دل ودماغ کا آئینہ دار ہے۔ ان کے جذبات لفظوں کے قالب میں ڈھل کر کالم بن گئے ہیں۔ ایک کالم میں فلم ساز شرمین عبید چنائے کے حوالے سے لکھا ہے:’’شرمین صاحبہ، آپ نے کیمرے کے توسّط سے ساری دنیا کو پاکستانی عورت کا جھلسا ہوا چہرہ دکھایا اور یہ ڈاکو منڑی آسکرایوارڈ کے لیے منتخب ہو گئی۔ آپ آسیہ اندرابی کے دُکھ کو بھی محسوس کیجیے۔ غلام احمد مسعودی کی صاحبزادی آمنہ مسعودی کو ضرور دکھایئے، جس نے بھارتی اہل کار کے سامنے مزاحمت کی اور شور مچایا تو ظالم نے آمنہ کا گلا دبا کر اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ آپ پر کشمیر اور پاکستان کا یہ فرض ہے کہ آپ آسکر ایوارڈ کی اگلی نامزدگی کے لیے اپنی ڈاکومنٹری کا عنوان: ’کشمیر کی مظلوم عورت ‘ کو بنائیں‘‘۔

افشاں نوید ہر واقعے اور ہر سانحے کو اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں دیکھتی اور اس پر رائے ظاہر کرتی ہیں ۔ شاہ نواز فاروقی لکھتے ہیں:’’بلا شبہہ افشاں نوید صاحبہ کے کالم پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ان کے لیے کالم نگاری ایک مشن ہے۔ ان کے کالموں پر ادبی مطالعے اور ادبی ذوق کا گہرا سایہ ہے، جس کی وجہ سے ان کے کالموں میں پختگی، گہرائی اور سنجیدگی کی خوبیاں پیدا ہو گئی ہیں‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی )

اجتہاد کا دروازہ کھولنے سے کسی ایسے شخص کو انکار نہیں ہوسکتا، جو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے اجتہاد کی اہمیت و ضرورت اچھی طرح سمجھتا ہو۔ لیکن اجتہاد کا دروازہ کھولنا جتنا ضروری ہے، اتنا ہی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔

اجتہاد کرنا ان لوگوں کا کام نہیں ہے، جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھتے ہوں۔ حدیث کے پورے ذخیرے سے نہ صرف یہ کہ ناواقف ہوں، بلکہ اس کو دفترِ بے معنی سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہوں۔ پچھلی تیرہ صدیوں میں فقہائے اسلام نے اسلامی قانون پر جتنا کام کیا ہے اس سے سرسری واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں اور اس کو بھی فضول سمجھ کر پھینک دیں۔ پھر اس پر مزید یہ کہ مغربی نظریات واقدار کو لے کر ان کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اجتہاد کریں گے، تو اسلام کو مسخ کرکے رکھ دیں گے اور مسلمان، جب تک اسلامی شعور کی رمق بھی ان کے اندر موجود ہے، ایسے لوگوں کے اجتہاد کو ہرگز ضمیر کے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کریں گے۔

اس طرح کے اجتہاد سے جو قانون بھی بنایا جائے گا، وہ صرف ڈنڈے کے زور سے ہی قوم پر مسلط کیا جاسکے گا ،اور ڈنڈے کے ساتھ ہی وہ رخصت ہوجائے گا۔ قوم کا ضمیر اس کو اس طرح اُگل کر پھینک دے گا، جس طرح انسان کا معدہ نگلی ہوئی مکھی کو اُگل کر پھینک دیتا ہے۔

مسلمان اگر اطمینان کے ساتھ کسی اجتہاد کو قبول کرسکتے ہیں، تو وہ صرف ایسے لوگوں کا اجتہاد ہے، جن کے علمِ دین اور خدا ترسی اور احتیاط پر ان کو اطمینان اور بھروسا ہو، اور جن کے متعلق وہ یہ جانتے ہوں کہ یہ لوگ غیر اسلامی نظریات و تصورات کو اسلام میں نہیں ٹھونسیں گے۔

جو اجتہادی اصول آج سے ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے وہ صرف اس لیے رَد کردینے کے قابل نہیں ہیں کہ وہ ہزار سال پرانے ہیں۔ معقولیت کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھیے کہ وہ اصول تھے کیا اور اِس [زمانے] میں ان کے سوا اور کچھ اصول ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ (’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودی،  ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۳،دسمبر ۱۹۶۱ء، ص۵۷-۵۸)