نائن الیون [۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء]کے افسوس ناک خونیں حملوں کے بعد امریکا نے عملاً پوری دُنیا اور اقوام متحدہ کو یرغمال بنا لیا۔ پھر انسانیت سے عاری جس تباہ کن مہم کا آغاز ’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام سے کیا، وہ مہم نہ منطقی تھی، نہ منصفانہ تھی، اور نہ انسانیت نواز تھی، بلکہ یہ خونیں مہم، خود اس یلغار کا حصہ بننے اور اس کی قیادت کرنے والوں کے خلاف ہی پلٹ کر ایک جنگ میں تبدیل ہوگئی۔
نائن الیون کے محرکات اور معاملات کو بڑے حُسنِ تدبیر کے ساتھ سمجھنے، ان کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے اور یوں تشدد کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے جن بنیادی اقدامات کی ضرورت تھی، ان اقدامات کے بجائے، دُنیابھر کی طاقتوں نے مجرمانہ حد تک آنکھیں بند کرکے لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے لیے امریکا کا ساتھ دیا اور افغانستان کی قانونی حکومت کو بلاجواز خوفناک حملوں کے ساتھ ختم کر دیا گیا (حالانکہ نائن الیون حملوں میں کوئی بھی افغان ملوث نہیں تھا)، اس بے صبری اور بے تدبیری کے نتیجے میں دُنیا کو جھنجھوڑنے والے المیوں نے جنم لیا:
ہم سمجھتے ہیں کہ ایک پختہ عزم اور ارادے کے ساتھ حکومت ِ پاکستان کو ان اُمور پر فوری اقدامات کرنے چاہییں۔ وقت گزرنے کے بعدکیے گئے اہم ترین اقدامات بھی اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ امریکی دبائو اور بلیک میلنگ میں آکر افغانستان کے حوالے سے تاخیری حربوں سے کام لینا،اس خطے کے لوگوں اور تاریخ و تہذیب سے انتہا درجے کی بے وفائی ہوگی۔
مسلم دنیا پرنظرڈالی جائے تو کچھ قومیں مادی اعتبار سے ترقی کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں، لیکن مجموعی تصویر بہت تشویش ناک اورمایوس کن ہے۔سوال یہ ہے کہ ’اس صورت حال کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے؟‘ جواب ہے :’اچھی قیادت سے‘۔
ہم دنیامیں آج کس قسم کی قیادت چاہتے ہیں؟اور اتنے سارے قائدین ہماری توقعات پر کیوں پورے نہیں اُترتے؟
دنیابھر میں کمزور قیادت کی ناکامیوں کے پیش نظر ان سوالات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ابراہم لنکن [م:۱۸۶۵ء]کا معروف قول ہےکہ ’’ مشکل تو عموماً تمام لوگ برداشت کرسکتے ہیں، لیکن اگرآپ کسی فرد کے کردارکو آزماناچاہتے ہیں تواسے اختیارات دے دیں۔‘‘ اختیارات انسان پر جس طرح اثر اندازہوتے ہیں کوئی اورچیز اس طرح نہیں ہوتی۔اس میں، انسانوں کوان کے رویوں اور ان کے افعال کو بدل دینے والاایساحیران کُن داعیہ ہے،جس سے ان کے کردار کے بارے میں پتا چلایا جاسکتاہے۔اختیارات کمزورقیادت کومکمل طور پر بدعنوان بنادیتے ہیں۔ قیادت اور اختیارات کے طلب گارایسے کمزورکردارکے حامل لوگوں کی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی ۔
اختیاربہت سی شکلیں تبدیل کرسکتاہےاوریہ مختلف صورتوں میں نمودار ہوسکتا ہے۔ اختیار صرف سیاسی اورتنظیمی ہی نہیں بلکہ یہ معاشی،سماجی اور مذہبی بھی ہوسکتاہے۔ان میں سے ہرقسم میں ہمارے کردارکوآزمانے کاسامان موجودہے (اگرا ٓپ کا یہ خیال ہے کہ مذہبی اختیارسے کردارکو نہیں آزمایاجاتاتویہ آپ کی خام خیالی ہے)۔
اگر کوئی فرد کسی دیانت دار شخص کو اپنا رہبر قرار دے تو سوال پیداہوتاہے کہ کتنا دیانت دار؟ اس سوال کے جواب میں بندہ چکراکر رہ جاتاہے کہ ’کیا ہر فردکی دیانت داری کا پیمانہ الگ ہوگا؟ ‘
اچھی قیادت کی ضرورت صرف مسلمانوں ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہاں مارٹن لوتھرکنگ [م: ۱۹۶۸ء]کی وہ بات درست معلوم ہوتی ہے، جس میں اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی نے انسان اور اس کی روح کوپیچھے چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے جہاں ایک میزائل کا اپنے ہدف پر پہنچنا یقینی ہے، وہاں ایک انسان کا صراطِ مستقیم پر رہنا غیریقینی ہے‘۔
ہم ایک ایسے دورمیں رہ رہے ہیں، جہاں مشرق ہو یا مغرب، دنیاکوواضح طورپر بہتر قیادت کی طلب ہے۔کرپٹ اور ظالم قیادت کےخلاف بےچینی، قائدین اورتنظیموں پرعدم اعتماد، بڑے پیمانے پر میڈیاپر عدم اعتماد معاشرے میں بالعموم واضح طورپر نظرآرہاہے۔
اسلام نے صرف عمومی اورمعاشی دیانت داری پر زور نہیں دیا بلکہ معاہدوں کی پاس داری کوبھی بہت اہمیت دی ہے۔ قرآن کی سب سے بڑی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۸۲، اسی موضوع پرہے۔اہم بات یہ ہے کہ کرپشن کا تعلق: ناانصافی،استحصال ،دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اورمختلف سانحات میں انسانی جانوں کے ضیاع سے ہے۔یہ معاملہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بدعنوان ماحول میں مقاصد ِشریعہ پرسمجھوتا کیاجاتاہے۔حالانکہ مقاصدِ شریعہ(انسانی جان، ذہانت، آزادی، عزّت و احترام اور عدل وانصاف) کی حفاظت ہرحال میں ہونی چاہیے۔
دنیاکواس خرابی کا سامنا اس وجہ سے نہیں ہے کہ اچھے قائد کی خصوصیات کے بارے میں معلومات اورحقائق ناپید ہیں۔دنیا میں قائدانہ اوصاف کے فروغ کے پروفیسرجان اڈیر (John Adair) نے جب اس وقت کےبرطانوی وزیراعظم جم کلاہان سے پوچھاکہ ’’آپ نے قائدانہ اوصاف کا مطالعہ کیا ہے؟‘‘ ان کاجواب تھا:’’میں نے نہیں کیا،اگرمیں کرچکاہوتاتوشایدمیں ایک بہتر قائد ثابت ہوتا‘‘۔
اگرہم نےبہترمعاشرے ،تنظیمیں اوربہتردنیاتشکیل دینی ہے، تو موجودہ اور آنے والے وقتوں کے لیےسماجی ،سیاسی اورتنظیمی اورہرسطح پر تعلیم وتربیت کے ذریعےاچھی قیادت کی تیاری اور آبیاری ایک اہم اورفوری ضرورت ہے۔لیڈرشپ کی بہت ساری صفات میں سے سب سے اہم خوبی تعلیم ازحد ضروری ہے، پھر دیانت داری اوراصولوں کی پاس داری ہے،جوکسی فرد کے کردارمیں اخلاقیات کوجمع کرتی ہیں۔
ابراہام لنکن جیسے معروف لیڈرقیادت کے میدان میں قدم رکھنے والے کےلیے دیانت داری کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔اس صفت کے حامل لیڈروں کی تعد ادبہت قلیل ہے۔تاہم حالیہ تاریخ میں دیانت داری اوراصولوں کی پاس داری کی بدولت عظمت حاصل کرنے والوں کی بھی ایک تعداد ہے۔
لیکن جب ہم تمام زمانوں کے لیے عظیم ترین قائدین کی بات کرتے ہیں تو نہ صرف دنیابھر کے مسلمانوں کے سامنے بلکہ غیرمسلم محققین اورمؤرخین کے سامنے بھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام سب سے پہلے آئے گا۔مائیکل ہارٹ اس کی بہترین مثال ہے جس نے دنیاکے ۱۰۰عظیم ترین قائدین کی تاریخ مرتب کرتے وقت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو سرفہرست تسلیم کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک قیادت کی کتنی اہمیت تھی ۔آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہرایک چرواہا ہے اورہر ایک سے اپنےریوڑ کے بارے میں پوچھاجائے گا‘‘ (بخاری ، مسلم)۔ خود ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ابتدائی مراحل میں گلہ بانی کی تھی ۔دراصل گلہ بانی پیغمبروںؑ کوانسانوں کی قیادت کےلیے تربیت کاذریعہ تھی۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہےکہ ہم سب کسی نہ کسی صورت میں چرواہے ہیں۔
لیڈرشپ کی اہمیت کے بارے میں ایک اورحدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تین آدمی سفرکررہے ہوں توان کواپنے میں سے ایک کو امیربناناچاہیے‘‘(ابوداؤد)۔ اتنے مختصر گروہ کے لیے قائد کاتعین بظاہر کتناحیران کن ہے ۔ذہن میں یہ بات آسکتی ہےکہ اتنے چھوٹےسے گروہ کےلیے امیرکی آخر کیاضرورت ہے؟لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تعلیمات امیر کےتعین پرزوردیتےہیں۔
یہاں پر یہ جاننا اَزحد ضروری ہے کہ لیڈرکس قسم کاہوناچاہیے؟حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی قائد کی کون سی خصوصیات بیان فرمائی ہیں؟
سیرت اور دنیابھر میں مختلف محققین کے کاموں، بالخصوص دنیا میں لیڈرشپ کے پروفیسر جان اڈیر (جنھوں نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت پر ۲۰۱۱ءمیں کتاب لکھی) کے تجزیے کے بعد ہم نے پچاس پیغمبرانہ اوصاف کی ایک فہرست بنائی اور پھر کئی اوصاف کوباہم ملانے کے بعد ہم نے گیارہ انتہائی اہم اورنہایت ضروری اوصاف کی ایک جامع فہرست مرتّب کردی ہے:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے درج بالااوصاف کی بے شمار مثالیں تلاش کرنا کوئی مشکل نہیں۔
ہر ایک کےساتھ معاملات میں تسلسل کے ساتھ سچائی اور دیانت داری کی بدولت کم عمری ہی میں مکہ کے لوگ آپؐ کو صادق و امین تسلیم کرنے لگے۔حجراسود کی تنصیب کے تنازعے کے موقعے پر جب آپؐ حرم میں تشریف لائے،اس وقت لوگوں نے کہا: ’’الامین آگئے ہیں، یہی ہمارے تنازعے کاتصفیہ کریں گے‘‘۔پھر آپؐ کی حکیمانہ بصیرت صلح حدیبیہ کے موقعے پرسامنے آئی، جب آپؐ نے مشرکین مکہ کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پردستخط کیے، جس پروقتی طورپر آپ کے اپنے پیروکار مایوسی کا شکار ہوئے لیکن یہی معاہدہ بعد میں فتح مکہ کا ذریعہ بنا۔
آپؐ کی شجاعت وبہادری جنگ اورہرمشکل گھڑی میں سامنے آئی۔مدنی دور کی بات ہے، ایک دفعہ رات کوصحابہ کرامؓ ایک خوفناک آوازسے جاگ اُٹھے۔ لوگ جمع ہوکر اُس طرف چل پڑے جس طرف سے آواز آئی تھی۔ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے، جو آواز کی طرف سب سے پہلے تشریف لے گئے تھے۔ آپ ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار تھے جو ننگی پیٹھ تھا اور تلوار آپؐ کے زیب تن تھی اور آپؐ فرما رہے تھے: گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شجاعت النبیؐ، حدیث: ۴۳۶۷)
آپؐ قرآنی خصوصیات کے مطابق قوی بھی تھے اورامین بھی۔ آپؐ کی قوت، صلاحیت، شفقت ،محبت ،بصیرت اوررہنمائی پر ہر کسی کو اعتماد تھا۔آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اچھے لوگ زیادہ باصلاحیت نہیں ہوتے،اسی طرح زیادہ باصلاحیت لوگ ہمیشہ اچھے لوگ نہیں ہوتے۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں رول ماڈل تھے۔
آپؐ ایک بہترین مبلغ تھے۔ پیدایشی طورپر جوامع الکلم، یعنی کم الفاظ میں بڑی بات مؤثر اندازمیں کرنے والے تھے۔ آپؐ ایک ماہر جنگجو ،ایک بہترین گھڑسواراورتعمیرات اوراپنے کپڑے کی چھوٹی موٹی سلائی کرنے جیسی روزمرہ کی مہارتوں سےلیس تھے۔ سراپا عدل تھے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور یہودی کے درمیان کسی معاملے پر تنازع ہوا ۔آپؐ نے شہادتوں کی روشنی میں یہودی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اسی طرح آپؐ نے ان صحابہ کرامؓ کوذمہ داری دینے سے انکار کیا، جن سے ناانصافی کاخدشہ تھا۔
آپؐ پوری توجہ سے فیصلہ کرتے،اور اس کےبعد اس پر جلدازجلد عمل درآمدکویقینی بناتے۔ آپؐ جہاں اہم امور میں شوریٰ کےمشورے سے فیصلے کرتے،وہاں آپؐ یہ بھی جانتے تھے کہ کون ساوقت باہم مشورے کے لیے ہے اور کون ساوقت عمل کےلیے۔ایک موقعے پر آپ نے اسلحہ اٹھالیا اور فوجی مہم کےلیے تیارہوگئے۔ایک صحابی آئے، اور انھوں نے مہم کےمنصوبے پر سوال اٹھایا۔ آپؐ نے صحابی سے فرمایا:’’جب ایک دفعہ پیغمبر ہتھیاراٹھالے پھر پیچھے مڑنے کی گنجایش نہیں رہتی‘‘۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا: ’’قوم کاسردار قوم کاخادم ہوتاہے‘‘۔ آپؐ نے مسجد نبویؐ کی تعمیرسے لے کرجنگ کے دوران میں خندق کی کھدائی تک ، زندگی بھر اس کاعملی نمونہ پیش کیا۔آپؐ ذاتی مفادات پر اعلیٰ مقاصد کوترجیح دینے والے قائد تھے۔ا س کے ساتھ آپؐ حددرجہ منکسرالمزاج تھے۔آپؐ کے لیے کوئی تخت وتاج نہ تھا۔آپؐ عام لوگوں کے درمیان اس طریقے سے بیٹھتے کہ دُورسے آنے والےاجنبی پہلی نظرمیں آپ کو پہچان نہ سکتے۔
آپ ؐحکمت ودانائی سے کام لیتےتھے۔ایک دفعہ بدومسجدنبوی کےصحن میں بیٹھ کرپیشاب کرنے لگا۔ صحابہ کرامؓ کو اس بات پرغصّہ آیا اور وہ مارنے کے لیے دوڑپڑے۔آپؐ نے نہ صرف ان کوبدوکومارنے سے منع کیابلکہ انھیں بتایاکہ اس کوپیشاب کرنے دیں۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو بتایا کہ یہ غصّہ کرنے اورمارنے کاموقع نہیں بلکہ اس کوآداب سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بدومسجد کے آداب سے ناواقف ہے ۔ یہ آپ ؐکی حکمت ودانائی تھی۔
آپؐ کاایک وصف غیرمعمولی صبر تھا۔۱۳برسوں تک آپ نے مشرکین مکہ کے مظالم کو برداشت کیا۔جس میں آپؐ کے ساتھیوں کومارپیٹ،تشدداوربعض اوقات قتل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ نمازپڑھتے ہوئے آپؐ پرغلاظت بھری اونٹ کی اوجھڑی پھینک دی گئی۔طائف کی گلیوں میں آپؐ کو پتھروں سے ماراگیاکہ آپؐ کاپوراجسم لہولہان ہوگیا اورجوتے خون سے تر ہوگئے۔ اس کے باوجود آپؐ نے صبرکادامن تھامےرکھا۔ آپؐ کےصبروتحمل نےآپؐ کے ساتھیوں کو بھی طاقت دی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آسانی عطافرمائی ۔
’جذباتی ذہانت‘ سے مراد اپنے جذبات کواس طرح منظم کرناہے، جس کی مددسے دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات استوارکیے جاسکیں۔آپؐ نے فرمایا کہ ’مسکراناصدقہ ہے‘۔اس سے آپؐ نےیہ بات سکھائی کہ مثبت جذبات کے ذریعے سےخودبھی خوش رہناہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنا ہے۔اس سے اگلا درجہ روحانی ذہانت ہے۔ جس کے ذریعے سے اپنااور دوسروں کا رُخ منزل مراد کی طرف رکھنا ہے۔ اس کے ذریعے سے اقدارکی قوت کوزیادہ سے زیادہ استعمال کرکے مقصدیت پیدا کرنا اور لوگوں پر اثرانداز ہوناہے۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے مقصداندازمیں زندگی گزارنے سے منع فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو عظمت کی طرف بلایا۔ایک دفعہ ایک عرب سردارثمامہ ابن اثل گرفتارہوکر آپؐ کے سامنے پیش ہوا۔ اس پر بے شمارمسلمانوں کے قتل کی فردجرم عائدہوئی۔آپؐ نے اس کی بڑی مہمان نوازی کی اور اس کے ساتھ نرمی کاسلوک کیا۔اس دوران میں آپؐ نے بارہاثمامہ کے دل کوٹٹولااوراسے کچھ کہنےکی ترغیب دی ۔ ثمامہ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت فاتح عالم اورآپؐ کے سخنِ دل نوازکااسیربنتا جارہا تھا۔آپؐ نے ثمامہ کو غیرمشروط طورپر رہاکیا،لیکن اس وقت تک ثمامہ برضا و رغبت غلامی اختیار کرچکاتھا۔اس نے وہیں پر اپنے ایمان کا اعلان کیا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دلائل سے جیتنے کی بجائے دلوں کوجیتنے پرزوردیتے تھے۔اسی کانام روحانی ذہانت ہے۔
قیادت کے یہ گیارہ پیغمبرانہ اوصاف مستند،تمام زمانوں کے لیے اورآفاقی ہیں۔یہ ماضی میں بھی اہم تھے، آج بھی ان کی ضرورت ہے اورمستقبل میں بھی اہم رہیں گے۔ان اوصاف کاتعلق کردارسازی اورروحانی تربیت سےہے۔یہ کرپشن کے خاتمے اوراختیارات کےساتھ وابستہ دیگرخطرات کوکم کرنے کےلیے انتہائی اہم ہیں۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں‘‘۔
کردارسازی کے حوالے سے امام غزالی نے پیغمبرانہ قیادت کو گہرائی کے ساتھ سمجھا اور انھوں نے حکمرانوں کو اپنی مشہورنصیحت میں کہاہے:’’اگربادشاہ دیانت دار ہیں توان کے وزیر و مشیر اور افسران بھی دیانت دارہوں گے۔لیکن اگروہ بددیانت،بےپروااورتن آسان ہیں تو ان کی پالیسیوں کونافذکرنے والے افسران بہت جلد سست اوربدعنوان بن جائیں گے۔‘‘
سیرت کاایک قابل ذکرواقعہ غزوۂ حنین کے موقعے پر پیش آیا۔یہ ایساواقعہ ہے، جس کا ذکر پروفیسر جان اڈیرنے مختلف حصہ داروں کےمطالبات کو دیانت داری اوراصولوں کی پاس داری کے ساتھ پوراکرنےکے متعلق بطورخاص ذکرکیاہے۔حنین ایک بہت مشکل مرحلہ تھا۔اس موقعے پر آپؐ نے کمال دانش مندی،بے مثال حکمت اوربھرپور بصیرت کے ساتھ لیڈرشپ کی درج بالا گیارہ صفات کامظاہرہ کیا۔کسی نے کہاہے کہ ’’لیڈرشپ ایک ٹی بیگ کی طرح ہے، جس کے متعلق یقین سے نہیں کہاجاسکتاکہ یہ کتنی دیرتک گرم پانی میں بہتررہےگا‘‘۔غزوۂ حنین کے موقع پر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کیاکہ وہ دُنیا کے سب لیڈروں میں عظیم ترین کیوں تھے۔
مکہ کی پُرامن فتح کے بعد بعض پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت پر اشتعال میں آئے۔ بنوہوازن نے بطورخاص جنگ کاراستہ اختیارکیا اورمسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی۔وادیٔ حنین میدان جنگ بن گئی، جہاں۱۲ ہزارمسلمانوں کو چار ہزار دشمنوں کا سامنا تھا۔ یہ پہلاموقع تھا جب مسلمانوں کو واضح عددی برتری حاصل تھی(اس کے برعکس بدرمیں مسلمانوں کی تعداددشمن کے مقابلے میں بہت کم تھی، لیکن فتح مسلمانوں کوملی )۔ اس عددی برتری کی بدولت بہت سارے لوگوں کایہ خیال تھاکہ یہ جنگ آسان ہے۔
تاہم جونہی مسلمانوں نے وادی میں قدم رکھا تو گھات میں بیٹھےدشمن کے فوجیوں نے تیربرسانے شروع کر دیئے۔مسلمان خلاف توقع گھیرے میں آچکے تھے۔بہت سے مسلمان میدان چھوڑکر بھاگ گئے۔حوصلہ مندپیغمبر ؐ دشمن کے سامنے اکیلے ڈٹ کرکھڑے رہے۔حضورنبی کریمؐ اور آپؐ کے وفادارساتھیوں نے بھاگنے والوں کو واپس بلایا۔اس طرح آپؐ کی قیادت میں مسلمانوں نے میدانِ جنگ کاکنٹرول سنبھالا،اوربنوہوازن پر غالب آگئے۔بھاگنے والوں کے لیے سبق سورۂ توبہ میں نازل ہواجو ہمیں یاد دلاتاہے کہ اسباب جمع کرنااوراللہ پر بھروسا رکھنا دونوں ضروری ہیں۔محض دنیاوی اسباب جمع کرنے اورعددی برتری پر فتح کادارومدار نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے، وہی فتح دے سکتاہے۔یہ سبق بھی ہے کہ اللہ کی مدداورنصرت کے مستحق وہ لوگ ہیں جن کاکردار اچھاہو،جوامین ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کے جوہر اس وقت اورنمایاں ہوکرسامنے آتے ہیں، جب ہم حنین کےمشکل وقت میں آپؐ کو مختلف لوگوں کے جذبات کاخیال کرتے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طورپرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیامہ بنت حلیمہ میدان جنگ میں گرفتارہو کر آگئیں۔ انھوں نے بتایاکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن ہوں۔پہلے کسی کویقین نہ آیا۔انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی درخواست کی ۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائی گئیں۔ آپؐ ان کونہ پہچان سکے پھرانھوں نے اپنے بازوپر وہ نشان دکھایاجوبچپن میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹ کر لگایاتھا۔پہچاننے کے بعدآپ ؐنے بڑی گرم جوشی سے ان کااستقبال کیااوران کے بیٹھنے کےلیے اپنی چادربچھائی۔میدان جنگ کے ناخوش گوارماحول میں گرم جوشی، صبر اور جذباتی ذہانت کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔
ایک اوراہم موقع وہ تھا،جب شکست خوردہ بنی ہوازن کے قیدیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رحم کی درخواست کی ۔ان کی درخواست کی منظوری ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ جنگی قیدی اور مال غنیمت لڑنے والوں کاحق ہوتاہے۔تاہم جان اڈیر کے مطابق ا ٓپؐ نے درمیانی راہ نکالی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنی مرضی سے اپناحق چھوڑنے کے لیے تیارہیں، وہ سامنے آئیں۔ قیدیوں کے بدلے میں منہ مانگےفدیہ کایہ نادرموقع تھا، تاہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان پر بہت سارے لوگوں نے بغیر کسی فدیے کے قیدیوں کو رہاکردیا۔ بعض لوگ فدیہ لیےبغیررہائی سےہچکچارہے تھے۔ آپؐ نےان کواونٹ اور بکریاں دےکر قیدی رہاکروائے۔یہ آپؐ کی حکمت ودانائی ،دیانت وامانت اور شفافیت کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے۔
انصارمیں سے آپؐ کے قریبی ساتھیوں کاایک گروہ ایسابھی تھاجن کاخیال تھاکہ وہ نظراندازہوگئےہیں اور ان کومال غنیمت میں سے بہت تھوڑاحصہ ملا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کواس تھوڑی سی بےچینی کاجونہی پتاچلا، آپؐ نے اس احساسِ محرومی کونظراندازنہیں کیا،جس طرح اکثرلیڈر کرتے ہیں بلکہ آپؐ ان کےپاس گئے اور ان سے پوچھاکہ ان کویہ احساس کیوں ہے؟ ساتھیوں نے ہچکچاتے ہوئے کہاکہ دوسرے لوگوں کوزیادہ حصہ ملاہے، جب کہ ہم محروم رہ گئے، حالانکہ ہماری قربانیاں زیادہ ہیں۔ یہاں وہ موقع تھاجب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی ذہانت اور بصیرت سامنے آئی۔
آپؐ نے فرمایا:جس وقت دوسرے لوگ اپنے گھروں میں اُونٹ اور بکریاں لے کر جارہے ہوں گے، انصاروہ خوش قسمت ہیں جواپنے ساتھ اللہ اوراس کے نبی کو لے کر جائیں گے۔ اس بات پر انصار روپڑے اور چندلمحے پہلے کے اپنے احساسات پر نادم ہوئے۔ گویا کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر ان صفات کو بروئے کار لاکربڑے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔
بلاشبہہ مندرجہ بالاگیارہ صفات کاحامل، بہت اچھااورقابل اعتماد لیڈربن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے نصف صفات کو بھی اختیار کرنے والا آج کے دورمیں قیادت کے خلا کو پُر کرتا ہوا نمایاں نظرآئے گا۔لیکن ان صفات کاپیداکرنامحض خواہش پالنے سے ممکن نہیں ہے۔
ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔انسان کی عظمت یاذلت کاانحصاراس کے کرداراور خوبیوں پر ہوتاہے۔اسلامی تاریخ میں درج بالاصفات کے مضبوط حوالے پائے جاتے ہیں۔ یہ صفات بذات خود آفاقی ہیں۔ہم نے ان کوعالمی طورپرمسلم اورغیرمسلم سب کے لیے قابلِ عمل بناناہے۔آج کل کےکثیرثقافتی اورکثیرمذہبی ماحول میں آفاقیت کی اہمیت سدابہار ہے۔ آج مذہب اور سرحدوں سے ماوراقیادت کوپیش کرنے کی اشدضرورت ہے۔مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ جس جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں، وہاں اخلاق کے چمکتے دمکتے روشن مینار کا کردار اداکریں۔ وہ سب کو ساتھ لے کرچلنے والے ہوں۔ نہ صرف مسلمانوں کی خدمت کریں بلکہ جس اکثریتی یا تکثیری (Plurist) معاشرے میں رہتے ہیں، اس پورے معاشرے کو فائدہ پہنچائیں۔
اکثر پوچھاجاتاہے کہ ’مسلمانوں کا منڈیلاکہاں ہے؟درحقیقت یہ ایک سلگتاہوا سوال ہے۔ اس وقت ہم ایسے مسلمان لیڈرکو ڈھونڈرہے ہیں جس میں ان صفات میں سے کچھ ہوں۔ تاہم منڈیلانے ان میں سےبیش تر اوصاف کو اختیار کیا، اور وہ مرکزِ نگاہ بنا۔ یہ صرف مسلمانوں ہی کا مسئلہ نہیں ہے، دنیابھر میں اس وقت کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ جیسے لیڈر بھی نہیں آسکتےلیکن کوئی وجہ نہیں کہ کوئی دوسرا منڈیلابھی پیدانہ ہوسکے۔آئیے لیڈرشپ کے یہ گیارہ پیغمبرانہ اوصاف اپنے آپ میں پیداکریں، اور اپنی قابلیت کے جوہر دکھائیں۔ دنیا آپ کی منتظرہے!
صوبہ سندھ اسمبلی نے۱۶فروری ۲۰۲۱ء کو ’جبری تبدیلیِ مذہب ‘ کے عنوان سے ایک بل پاس کیا تھا۔اس کے بعد علماء کے ایک وفد کے ہمراہ ہم نے وزیر اعلیٰ سندھ جنابِ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کی تو انھوں نے اسے روک دیا اور وہ گورنر کے دستخط سے ایکٹ نہیں بنا۔ مگر پھر اچانک اسے پاکستان کے سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے، مزید غور کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کردی گئی ۱ ۔ اس مجوّزہ مسوّدۂ قانون(Bill) کا عنوان’’امتناعِ جبری تبدیلیِ مذہب ‘‘رکھا گیا، لیکن اپنے وسیع تر مفہوم اور نتائج کے اعتبار سے اسے درحقیقت ’قبولِ اسلام روکنے کابل‘ کہنا چاہیے۔ مجوزہ بل کے مطابق قبولِ اسلام اوراس کی دعوت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ’مجرمانہ جسارت‘ قرار دیا گیاہے ۔ہم اس قانون کی تطبیق(Application) ،نتائج اور مابعد اثرات پر گفتگو کرنے سے پہلے زیرغور قانون کی اہم دفعات کا مفہومی ترجمہ پیش کر رہے ہیں:
سیکشن ۳،ذیلی شقیں:۴،۵،۶:کوئی بھی غیر مسلم جو بچہ نہیں ہے، یعنی جس کی عمر ۱۸سال سے زیادہ ہے، عاقل اور بالغ ہے اور وہ مذہب تبدیل کرنے کے قابل اور اس پر آمادہ ہے، وہ اپنے قریبی ایڈیشنل سیشن جج کو مذہب کی تبدیلی کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے گا۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کی درخواست وصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ مقررہ تاریخ پر متعلقہ شخص ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہوگا۔ ایڈیشنل سیشن جج اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی یہ تبدیلی کسی دبائو کے تحت نہیں ہورہی ہے اور نہ کسی دھوکا دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ کوئی غیر مسلم جو مذہب اپنانا چاہتا ہے، ایڈیشنل سیشن جج اس کے مذہبی اسکالر سے اس غیر مسلم کی ملاقات کا انتظام کرے گا۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور دوبارہ دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم شخص کو ۹۰دن کا وقت دے گا۔ اگر وہ ۹۰روز کے بعد بھی اپنا مذہب تبدیل کرنے کے فیصلے پر قائم رہتا ہے، اگر سیشن جج مطمئن ہوتا ہے کہ اس نے تقابلِ ادیان کا مطالعہ کرلیا ہے اور اس پر کسی طرح کا جبر نہیں ہے اور وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہا ہے،تو وہ تبدیلیِ مذہب کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا ۔
نوٹ: اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’’۹۰ دن گزرنے کے بعد بھی ایڈیشنل سیشن جج کا مطمئن ہونا ضروری ہے‘‘،پس اگر وہ کسی وجہ سے مطمئن نہیں ہوتا تو پھر وہ اسلام قبول نہیں کرسکتا یا اس کو اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔
نکاح اور تبدیلیِ مذہب: شق(۲): اگر کوئی شخص ایسے شخص کا نکاح پڑھائے، جس کاجبر کے ذریعے مذہب تبدیل کرایا گیا ہو، چاہے وہ اس کا نکاح پڑھانے والا یا نکاح کا سہولت کار ہوتو اس کی سزا بھی کم سے کم تین سال ہوگی‘‘۔ یعنی وہ شخص بھی اسی جرم کا مرتکب ہوگا جس نے اس نکاح کے لیے کسی قسم کی اعانت کی ہے،مثلاً :جہیز کا انتظام کیا یا شادی ہال کا انتظام وغیرہ۔
نوٹ: نکاح پڑھانا ایک دینی کام ہے۔ اس کے لیے دولہا اور دلہن کی رضامندی ، مہر کا تعیّن اور گواہان کی موجودگی ضروری ہے۔ نکاح خواں کے پاس نہ تو قاضی اور عدالت کے اختیارات ہوتے ہیں اور نہ تحقیق وتفتیش کے لیے کوئی عملہ ہوتا ہے، لیکن ہرموقعے پر اُسے سب سے کمزور فرد سمجھ کر دھرلینا بھی کوئی معقول حرکت نہیں ہے۔
نوٹ: قرآنِ کریم کی رُو سے دعوتِ دین مسلمان کا فریضہ ہے۔ قبولِ اسلام کی ترغیب دینا ایک قابلِ تحسین امر ہے ، لیکن ہمارے ہاں اسے بھی قانونی جرم قرار دیا جارہا ہے، جب کہ قرآنِ کریم میں صدقات کا ایک مصرف ان لوگوں کو قرار دیا گیا ہے، جنھیں اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو۔
امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں اٹھارہ سال سے کم عمر میں اسلام قبول کرنے پر پابندی نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر امریکا میں کوئی دس بارہ سال کاسفید فام لڑکا یا لڑکی وائٹ ہائوس کے سامنے کھڑے ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے تو امریکا کا قانون اس میں رکاوٹ نہیں بنے گا، تو ہمارے ہاں اس پابندی کا جواز کیا ہے؟ نیز اگر کوئی دس یا پندرہ سال کا لڑکا یا لڑکی اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں اور کوئی اس کو اسلام قبول کرنے سے روکتا ہے تو یہ اس کے کفر پر راضی ہونا ہے۔جبری تبدیلیِ مذہب کے امتناع کامجوّزہ بل تو اٹھارہ سال پورے ہونے پر بھی اُسے اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا،حتیٰ کہ ’’وہ درخواست دے کر ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو، اُسے تفہیمِ مذاہب کے لیے تین مہینے کی تربیت دی جائے‘‘۔سوال یہ ہے کہ نیچے سے اُوپر تک ہمارے عمائدینِ مملکت وحکومت میں کتنے ہیں جنھوں نے تقابلِ مذاہب کا کورس کررکھا ہے۔
دین میں جبر نہیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے ،بے شک ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔پس، جو شخص شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے ،تو اُس نے ایسی مضبوط رسی کو پکڑ لیا ،جسے ٹوٹنا نہیں اور اللہ خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے، اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے ، وہ انھیں (کفر کے) اندھیروں سے (ایمان کے) نور کی طرف نکالتا ہے اور جنھوں نے کفر کیا ، اُن کے حمایتی شیطان ہیں ،وہ انھیںنور سے ظلمتوں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ جہنمی ہیں، جو اس میں ہمیشہ رہیں گے، (البقرہ۲: ۲۵۶-۲۵۷)‘‘۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا حکم واضح ہے کہ کسی پر اسلام قبول کرنے کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ایمان قلبی تصدیق کا نام ہے۔ اگر جبری طور پر کوئی تسلیم بھی کرلے ،جب کہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے ،توآخرت میں اس تسلیم کرنے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا،وہاں فیصلہ ظاہر پر نہیں بلکہ قلبی تصدیق پر ہوگا۔ برصغیرپر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی ،مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غیرمسلموں کوزبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہو۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ تقریباً ایک ہزار برس تک مسلم حکمرانی کے باوجود آج بھی پورے جنوبی ایشیا میں غیر مسلم آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
اسلام تسلیمِ محض نہیں،بلکہ تسلیم بالرّضاکا نام ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اَعراب نے کہا: ہم ایمان لائے ، کہہ دیجیے:تم ایمان نہیں لائے ،ہاں !یہ کہو! ہم نے اطاعت کی اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمھارے اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا ،بے شک اللہ بہت بخشنے والا ،بے حد رحم فرمانے والا ہے، درحقیقت مومن تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے ،پھر کبھی شک میں مبتلا نہ ہوئے اور انھوں نے اپنے مالوں اوراپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، وہی (ایمان کے دعوے میں)سچے ہیں، (الحجرات۴۹:۱۴-۱۵)‘‘۔
’ایمان‘ قلبی تصدیق کا نام ہے۔اس لیے دنیا کے ممالک میں تبدیلیِ مذہب کا ایساکوئی قانون نہیں ہے ،ایسے بے معنی تجربات صرف پاکستان میں ہوتے رہتے ہیں۔
l ایمان لانا ، سرٹیفکیٹ کا محتاج نہیں:ایمان لانا بندے اور رب کا معاملہ ہے، اور ایمان لانے کے لیے کسی حکومتی سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ہمارے پاس اپنی آزادانہ مرضی سے کوئی شخص اسلام قبول کرنے کے لیے آتا ہے ،تو ہم اُسے شریعت کے مطابق توبہ کراکے اسلام میں داخل کرتے ہیں ،اس میں قانون کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کسی کو ہمارے یا ریاست کے کسی عدالتی سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ، بندوں کے ظاہر وباطن کو خوب جاننے والا ہے۔
ہمیں بحیثیتِ قوم کچھ دوسروں نے ایسے دبائو میں رکھا ہوا ہے کہ گویاہمارا ہر قول وفعل غلط ہے ،ہمارا ہر بیان مشتَبہ ہے،الغرض ہم ہردبائو کو قبول کرتے ہوئے ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کرلیتے ہیں ۔ بزعمِ خود ہمارے آزاد وخود مختار میڈیاکے لیے ایسے واقعات من پسند پروپیگنڈا کا ذریعہ بنادیے جاتے ہیں۔ ساری داستان خواہشات اورمفروضوں پر مبنی ہوتی ہے، کسی تحقیق کے بغیر قبولِ اسلام اور جبر کو لازم وملزوم سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس سے یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام قبول کرنابہت بڑا جرم ہے، پچاس چینل فریاد کُناں ہوتے ہیں اور دہائی دے رہے ہوتے ہیں۔
قبولِ اسلام کے لیے ترغیب کی فضیلت: ایک مسلمان کے لیے کسی کے اسلام قبول کرنے میں مُمِدّومعاون ہونا بہت بڑی سعادت ہے۔حدیثِ پاک میں ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے دن فرمایا :میں کل جھنڈا اُس شخص کو دوں گاجو اللہ اور اُس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اُس کا رسولؐ اُس سے محبت فرماتے ہیں، اللہ اُس کے ہاتھوں پر خیبر کو فتح فرمائے گا۔ لوگوں نے (اس انتظارمیں)رات گزاری کہ جھنڈا کسے دیا جائے گا۔ صبح ہوئی تو ہرایک اس کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: علی کہاں ہیں؟ آپؐ کو بتایا گیا کہ انھیں آنکھوں کا عارضہ ہے۔آپؐ نے اُن کی آنکھوں میں اپنا لعابِ دہن لگایااور اُن کے حق میںدعا کی۔ (اس کی برکت سے)وہ ایسے صحت یاب ہوئے کہ گویا انھیں کوئی بیماری لاحق ہی نہیں تھی۔ آپؐ نے انھیں جھنڈا دیا۔ حضرت علیؓ نے پوچھا: میں اُن سے قتال کرتا رہوں حتیٰ کہ وہ ہماری مثل(مسلمان) ہوجائیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم باوقار انداز میں چلتے رہو یہاں تک کہ تم اُن کے صحن میں اتر جائو ،پھر انھیں اسلام کی دعوت دو اور بتائو کہ ان پر کیا احکام واجب ہیں ، اللہ کی قسم ! اگر اللہ تمھارے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے ،تو یہ آپ کے لیے سرخ اونٹوں کی (گراں بہا دولت) سے بہتر ہے، (بخاری: ۳۰۰۹)‘‘۔
جعلی خبر سازی اور مفروضے: اسلام نے مفروضوں پر رائے قائم کرنے اور تحقیق کے بغیر خبر پر ردِّعمل ظاہرکرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو(ردِّعمل ظاہر کرنے سے پہلے) خوب تحقیق کرلو ، مبادا تم انجانے میں کسی قوم کو تکلیف پہنچادو ، پھر تم اپنے کیے پرپچھتاتے رہو، (الحجرات۴۹:۶)‘‘۔
ہمارے ذرائع ابلاغ اس آیتِ مبارکہ میں بیان کردہ اللہ کی صریح ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ کسی تحقیق اور اس کے نتائج آنے سے پہلے فیصلہ صادرکردیتے ہیں کہ جبراً اسلام قبول کیا ہے۔ پاکستان کی حکومت و انتظامیہ مفتیوں کے فتووں پر تو آئے دن پابندی کی بات کرتی رہتی ہے، مگر ذرائع ابلاغ کو یہ فری لائسنس کس نے دیا ہے کہ تحقیق کے بغیر جب چاہیں اور جو چاہیں فتویٰ تھوپ دیں، یہ اختیارآپ نے کس آئین اور قانون سے حاصل کیا ہے؟
ہم کئی بار ہندو اور مسیحی رہنمائوں سے کہہ چکے ہیں کہ ’’اگر کسی معاملے میں ثبوت وشواہد سے قبولِ اسلام کے کسی واقعے میں جبر ثابت ہوجائے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘‘۔ اسی طرح ہر فورم پر کہا ہے کہ ’اقلیت‘ کی اصطلاح کا استعمال ترک کیا جائے، ہمارا آئین وقانون سب کو تحفظ دیتا ہے۔ آپ اپنے آپ کو ’غیر مسلم پاکستانی‘ کہیں ، کیونکہ ’اقلیت‘ کی اصطلاح سے محرومی کا تاثر پیدا ہوتا ہے ، جب کہ غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاح اپنے ملک و وطن پر استحقاق کا تاثر پیدا کرتی ہے۔
’جبری تبدیلیِ مذہب ‘کے بل پرسینیٹر انوار الحق کاکڑ صاحب کی سربراہی میں جو پارلیمانی کمیٹی قائم ہوئی ، انھوں نے ہندوئوں کے عائد کردہ الزامات کا سروے کرایا تو دستیاب اعداد وشمارسے پتاچلا کہ ۹۹ فی صد الزامات غلط تھے، خواتین نے اقرار کیا کہ انھوں نے برضا ورغبت اسلام قبول کیا ہے اور خوشی سے شادی کی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے قرائن و شواہد کے ساتھ کہا ہے :یہ بِل یورپین یونین کے مطالبے پر پیش کیا گیا ہے۔
قبولِ اسلام کی ترغیب اور اسوۂ رسولؐ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے لیے نہایت شدت سے خواہش مند رہتے تھے۔ اس کی بابت آپؐ نےفرمایا: ’’میری اور لوگوں کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ،جب اس کا اردگرد روشن ہوگیا تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ میں گرا کرتے ہیں، اس میں گرنے لگے اور وہ انھیں اُس میں سے نکالنے لگا،مگر وہ پروانے اور کیڑے مکوڑے اس پر غالب آگئے اور آگ میں داخل ہوگئے، پس میں بھی تمھیں کمر سے پکڑ کرآگ سے نکال رہا ہوں اور وہ اس آگ میں گرے جارہے ہیں، (بخاری:۶۴۸۳)‘‘۔ یہی مضمون قرآنِ کریم میں ہے:’’اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اُس نے تم پر فرمائی، جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اُس نے تمھارے دلوں کو جوڑ دیا اورتم اس کے فضل (یعنی اسلام ) کی بدولت بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تھے (اور جہنم میںگرا ہی چاہتے تھے کہ)، اُس نے تمھیں اس سے نجات دے دی، (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)‘‘۔
حضرت عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں:جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی طرف رغبت پیدا فرمائی ،تو میںنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: (یارسولؐ اللہ!) اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعتِ اسلام کروں۔ وہ کہتے ہیں: جب رسولؐ اللہ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایاتو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپؐ نے فرمایا:عمرو! تمھیں کیا ہواکہ ہاتھ کھینچ لیا؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اسلام قبول کرنے کے لیے میری شرط ہے۔ آپؐ نے فرمایا: بولو! تمھاری شرط کیاہے؟ میں نے عرض کی: میری بخشش ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا: تمھیں معلوم نہیں کہ اسلام پہلے کی تمام غلطیوں کو مٹادیتا ہے، (مسلم:۱۲۱)‘‘۔
علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں: l’’حضرت علیؓ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا،(اسد الغابہ، ج۳،ص۵۸۹)، l’’حضرت عمیر بن ابی وقاص قدیم الاسلام مہاجرین میں سے ہیں ،جو بدر میں شہید ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمر ہونے کی وجہ سے انھیں ابتدا میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی، پھر جب آپؐ بدر کے لیے روانہ ہونے لگے تو وہ رو پڑے۔ آپؐ نے انھیں اجازت دے دی۔ ان کی تلوار لمبی تھی، وہ اپنی تلوار کو لٹکائے ہوئے تھے ، شہادت کے وقت ان کی عمر سولہ سال تھی، انھیں عمرو بن عبدِ وُدّ نے شہید کیا، (اسد الغابہ، ج۴،ص ۲۸۷)، l’’معاذ بن حارث بن رفاعہ انصاری صحابی ہیں۔ آپ کی والدہ عفراء بنت عبید بن ثعلبہ ہیں۔ آپ اور رافع بن مالک خزرجی انصاری ہیں،ابتدائی مسلمانوں میں سے ہیں۔ آپ اور آپ کے دونوں بھائی عوف اور معوَّذ، بدر میں شریک ہوئے، اور دونوں بھائی شہید ہوئے‘‘۔ lمعوذبن عفراء اورمعاذ بن عمرو، پندرہ سال سے کم عمر میں غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو قتل کیا،(اسد الغابہ، ج۶، ص۱۹۷)‘‘۔ lجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو زید بن ثابت کی عمر گیارہ سال تھی اور حربِ بُعاث میں وہ سولہ سال کے تھے اور اسی موقع پر ان کے والد شہید ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کم عمری کی وجہ سے بدر میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور لوٹادیا اور یہ احد میں شریک ہوئے، (اسد الغابہ، ج۲،ص۳۴۶)‘‘۔
نوٹ: یہاں شرعی بلوغت مراد ہے، ہمارے دور کی اٹھارہ برس سے زائد عمر کی قانونی بلوغت مراد نہیں ہے۔ lحضرت معاذ بن جبلؓ نے اٹھارہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا، (اسدالغابہ،ج۵،ص۱۸۷)۔ lحضرت زبیرؓ بن العوام کے اسلام قبول کرنے کی عمر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں: آٹھ سال، بارہ سال، پندرہ سال اور سترہ سال، ایک قول کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والے پانچویں فرد تھے، (اسد الغابہ، ج۲، ص۳۰۷)‘‘۔
سیّدقطب ہر ہفتے تین مضامین لکھا کرتے تھے، جو تین مختلف جرائد میں شائع ہوتے تھے۔ یہ مصر میں بادشاہت کے زمانے کی بات ہے، فوجی انقلاب سے پہلادور۔ کم و بیش ہر مضمون کی اشاعت کے بعد انھیں انٹیلی جنس والے طلب کرکے مضمون کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے تھے۔ اس زمانے میں بہرحال قانون کی کچھ پاسداری کی جاتی تھی۔ پوچھ گچھ کے بعد انھیں گھر جانے کی اجازت دے دی جاتی تھی، کیونکہ تفتیشی افسران اس مخمصے میں رہتے کہ مضمون میں کوئی قانونی سقم نہ ہونے کی وجہ سے بھلا وہ کس جرم کی پاداش میں انھیں گرفتار کریں۔لہٰذا [چونکہ وہ محکمہ تعلیم سےوابستہ تھے، اس لیے]حکومت نے ان سے جان چھڑانے کے لیے انھیں بغرض تعلیم [یونی ورسٹی آف ناردرن کولوروڈو : ۵۰-۱۹۴۸ء] امریکا بھیج دیا، اس امید پر کہ وہ وہاں جاکر مصری سیاست وغیرہ کو بھول جائیں گے۔ دراصل ان کے مضامین ایک عام آدمی کے خیالات و احساسات کی بازگشت ہوتے تھے ۔ اس دردمندی اور حساسیت کی وجہ سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ سوشلسٹ یا کمیونسٹ ہیں، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں تھا۔ وہ ایک حساس ادبی شخصیت کے مالک تھے، جو اپنے لوگوں کے دکھ درد کو سمجھتے تھے، اس کے ترجمان تھے اور اس کا اظہار وہ اپنے توانا قلم سے کرتے تھے۔ یہ ہیں شروع کے زمانے کے سیّد قطب، اسلامی فکر کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے کے سیّد قطب!
سیّد نے بہت زور دے کر مسلمانوں میں عمومی تعلیم اور اسلامی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا۔ایسی تعلیم کہ جس کی بنیاد اسلام کے مکمل فہم پر رکھی گئی ہو۔انھوں نے کہا کہ ’’تعلیم کے اس تصور کے لیے ہمارے پاس ایک پروگرام ہے، جسے ہم نےاپنی سطح پر، جیل کی کال کوٹھڑیوں میں اور جیل سے باہر کی دُنیا میں نافذ کیا ہے۔ یہ دوسالہ پروگرام اسلا م کے جامع مطالعہ پر مبنی ہے۔ انھوں نے معالم فی الطریق میں بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’محض ایک آمر کو بدل دینے سے کیا ہوگا؟ ایک جائے گا دوسرا آجائے گا اور بالکل یہی ہورہا ہے‘‘۔ پھر لکھا کہ ’’بازنطینی یا ایرانی آمریت کو اسلام کے نظام عدل و نظامِ مشاورت سے بدلا گیا۔ صحابہؓ کا یہی مشن تھا۔ حضرت ربعی بن عامرؓ سے رستم نے سوال کیا کہ تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو؟ انھوں نے اسے انسانیت کی آزادی کا پیغام دیا، نہ کہ زمین کی آزادی کا اور کہا کہ ہم انسانوں کو جھوٹے خداؤں کی عبادت سے نکال کر ان کے گلے میں صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کا قلادہ ڈالنے آئے ہیں۔ انھیں ادیان کے مظالم سے نکال کر اسلام کے نظام عدل کے سائے میں لانا چاہتے ہیں۔ اس دنیا کی تنگنائیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں کی جانب لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ یہ سیّد قطب کا فرمان ہے ۔
شاہراہ اسلام پر ان کی زندگی کا سفر، امریکا جانے سے پہلے ہی سے شروع ہوچکا تھا۔ انھوں نے قرآن کریم پر ادبی نقطۂ نظر سے لکھا اور ایک نظریہ پیش کیا، جس کی طرف اس سے پہلے عام طور پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ ان کی کتاب التصویر الفنی فی القرآن میں یہ تصور پوری قوت سے موجودہے۔ اسے انھوں نے امریکا جانے سے قبل۱۹۴۰ء میں لکھا تھا۔ میرے مطالعے کی حد تک، قرآن اور قرآنی اسلوب پر اس سے بہتر کوئی کتاب شاید ہی لکھی گئی ہوگی۔ ماضی میں لوگوں نے قرآن کے اعجاز (inimitability) پر لکھا ہے۔ خود عبدالقادر جرجانی [۱۰۰۹ء-۱۰۷۸ء]کی کتاب دلائل الاعجاز ہے۔ اس میں قرآن کے اعجاز کے مختلف پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ ایک اور مصنف ہیں مصطفیٰ صادق الرافعی [م: ۱۹۳۷ء]۔ یہ بیسویں صدی کے آغاز میں اسلامی نظریہ کے نقیب تھے۔ وہ تیس سال کی عمر میں سماعت کی طاقت کھو بیٹھے تھے۔ انھوں نے قرآن کا اعجاز، اس کی موسیقیت کے کمال میں تلاش کیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ایک سننے کی صلاحیت سے محروم مصنف، قرآن کے لفظوں کی موسیقیت کی بابت لکھ رہا ہے کہ وہ اس کے اعجاز کا ایک پہلو ہے۔
تاہم، سیّد قطب نے مختلف بات کہی ہے: ’’قرآن اپنے حروف والفاظ سے تصویر کشی اور منظر کشی کرتا ہے۔ جب ہم اسے پڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے پورا منظر ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہر منظر کا رنگ اور حرکت بھی ہمارے سامنے ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ شاعری نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں عظیم تر چیز ہے۔ یہ عظیم ترین ادبی شاہ کار ہے۔ جب آپ قرآن پڑھتےہیں تو وہ آپ کو اس سے کہیں زیادہ دیتا ہے، جو آپ کے سامنے ہے‘‘ ۔ یہ بات التصویر الفنی فی القرآن کے بارے میں ہے۔ پھر چند سال کے بعد انھوں نے وہ کتاب لکھی جس میں ان اصولوں کو برتا، وہ کتاب ہے مشاہدالقیامۃ فی القرآن۔ میں نے التصویر الفنی کے انگلش میں ترجمے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کا ترجمہ ممکن نہیں، حالاں کہ میں انگریزی کے وسیع ذخیرئہ الفاظ کے ساتھ ایک منجھا ہوا مترجم ہوں،لیکن سچی بات یہ ہے کہ میرے لیے اس کتاب کا ترجمہ کرنا ممکن نہیں۔
اُن دنوں میں مصری معاشرتی آداب و رسوم سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا تھا، اور مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ ملازمین لوگوں کا کس طرح سے نام لیتے ہیں۔عام طور سے ’پاشا‘ یا ’بیہ‘ ناموں کے ساتھ استعمال ہوتا تھا، جس میں ادب واحترام تھا۔ میں نے کہا: ’’مجھے استاد سیّد سے ملنا ہے‘‘۔اس نے کہا: ’’معاف کیجیے، وہ یہاں نہیں ہیں، وہ ساحل کی طرف گئے ہیں، وہاں آپ کی ملاقات ان سے ضرور ہوجائے گی کیونکہ وہ اپنی بہنوں کے ساتھ ہیں، جو پوری طرح ملبوس ہیں۔ وہاں آپ کو ’برادر سید‘ ضرور مل جائیں گے‘‘۔ ملازمہ بجائے اس کے کہ ’سید پاشا‘ یا ’سید بیہ‘ یا ’سرسید‘ کہتی، اس نے ’برادر سید‘ کہا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ جس چیز کی تلقین سیّد قطب کرتے رہے، اس پر وہ خود بھی عمل پیرا رہے۔
خیر، میں ساحل پر پہنچا، تو وہاں اور لوگ بھی تھے، اور اسلامی لباس میں ملبوس چندخواتین بھی تھیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ساحلوں پر لوگ بالعموم پیراکی کے لباس میں ہوتے ہیں۔ ان دنوں مصر میں حجاب کا رواج نہیں تھا۔ یونی ورسٹی کے چار سالہ دور طالب علمی میں، میں نے کہیں حجاب نہیں دیکھا، اس مدت میں میں نے صرف چھے خواتین کو باحجاب دیکھا۔خیر، میں سیّد قطب کی طرف بڑھا۔ وہ لپک کر میری طرف آئے اور تاخیر کی وجہ معلوم کی۔ پھر ہم گھر واپس آئے اور ہماری ملاقات ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔واپسی پر انھوں نے کہا: ’’اگر تمھارا واپسی کا سفر ذرا ملتوی ہوجائےتو پھر آنا‘‘۔ لہٰذا، میں نے ایک اور ملاقات کی غرض سے اپنا واپسی کا سفر ملتوی کردیا۔واقعہ یہ ہے کہ ان دوملاقاتوں کا مجھ پر بہت اثر پڑا۔ اس سے پہلے میں نے ان کی صرف چند کتابیں ہی پڑھ رکھی تھیں۔
۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو انھیں پھانسی دے دی گئی، اور اس طرح انھیں جام شہادت نوش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اللہ ان پر اپنی بے پناہ رحمتوں کی بارش فرمائے۔ اس دن صبح کے وقت میں بیروت میں تھا۔ میں نے [مصری ڈکٹیٹر] صدر ناصر کے حامی ایک اخبار میں سیّدقطب کی شائع شدہ تصویر دیکھی، جو پھانسی کی سزا سنانے کے بعد عدالت سے انھیں واپس قیدخانے لے جاتے ہوئے لی گئی تھی۔ سبحان اللہ! کیا مسکراتا ہوا چہرہ تھا، خوشی سے دمکتا ہوا! اخبار میں لکھا تھا کہ کسی نے شہید سے سوال کیا کہ ’عدالت نے کیا فیصلہ دیا؟‘ انھوں نے جواب دیا: ’شہادت‘۔ اللہ اکبر۔ اسی دن میں بیروت سے دمشق کے لیے روانہ ہوا۔ سفر ٹیکسی سے ہوا، جس میں اور بھی مسافر تھے۔ ٹیکسی کے ریڈیو سے ریڈیو اسرائیل کی نشریات جاری تھیں۔ ریڈیو اسرائیل، سیّد قطب کی پھانسی دیے جانے کی خبر دے رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ’’سیّد قطب وہ مصنف ہیں، جن کی کتابوں کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ اسے سن کر مجھے بہت تکلیف ہوئی، بہت ہی تکلیف۔ گویا اسرائیل ہم سے یہ کہہ رہا تھا کہ ’’تم عرب اپنے سوچنے والے مفکرین کو جو تمھیں ذہنی غذا بہم پہنچا رہے ہیں، موت کے گھاٹ اتار رہے ہو ۔ تو اے عربو! سیّد قطب جیسی شخصیات کو موت کے گھاٹ اتار کر تم ہماری بڑی خدمت کررہے ہو‘‘۔ یہ تھے میرے احساسات!
وہ جمعرات کا دن تھا۔ اس سے اگلی جمعرات کو میں عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو کچھ دیر کے لیے میری آنکھ لگ گئی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ سیّد قطب مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ ’’عادل! پاکستانیوں کو فی ظلال القرآن کی ضرورت ہے‘‘۔ سبحان اللہ! پاکستانیوں سے ان کی مراد برطانیہ میں مقیم پاک وہند کے مسلمان تھے۔ کیونکہ اس زمانے میں بالعموم مسلمان برصغیر پاک و ہند ہی سے آئے تھے، دوسری جگہوں سے بعد میں آنا شروع ہوئے۔پاکستانی مسلمان سے ان کی مراد انگلش بولنے والے مسلمان تھے۔خیر، ان کے قول کی تعبیر میرے نزدیک یہ تھی کہ برصغیر سے آئے ہوئے اور مقیم مسلمانوں کو فی ظلال القرآن کے انگلش ترجمہ کی ضرورت ہے۔ نیند کا یہ دورانیہ صرف بیس منٹ کا رہا ہوگا۔ خواب ہی میں مَیں نے کہا ’’ان شاء اللہ میں یہ کام کروں کا‘‘۔ الحمد للہ، میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔
مزید سنیے کہ پھانسی سے ایک دن پہلے کیا ہوا تھا؟ یہ بات خود مجھے سیّد قطب کی ہمشیرہ حمیدہ نے بتائی، یہ بات میں نے کہیں ادھر ادھر سے نہیں سنی ہے۔ ان کی یہ ہمشیرہ سب سے چھوٹی تھیں، ان سے ۳۱سال چھوٹی ۔انھوں نے بتایا کہ ’’ایک بار جب میں ان سے ملنے گئی، تو جیل کے حکام سمجھے کہ میں ان کی بیٹی ہوں۔ ایک ساتھ صرف دو افراد کو ملاقات کی اجازت ہوتی تھی۔ لیکن انھوں نے مجھے بھی ملاقات کی اجازت دے دی‘‘۔ہر تین ہفتوں پر ایک ملاقات کی اجازت ہوتی تھی۔
جب انھوں نے سیّد قطب کو ۱۹۶۵ء میں گرفتار کیا تو حمیدہ کو بھی گرفتار کرلیا اور انھیں بھی اس مقدمے میں ماخوذ کرکے ۱۵ سال کی سزا سنادی گئی۔ انھیں فوجی جیل میں رکھا گیا، جہاں خواتین کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی کیونکہ وہ صرف (مرد) سپاہیوں کے لیے تھی۔ یہ بات حمیدہ قطب نے مجھے خود بتائی اور اپنی کتاب میں اسے تحریر بھی کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مجھے بھائی کے سیل سے نکال کر جیلر کے پاس لے جایا گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ’’میں تمھیں ایک ایسی چیز دکھانا چاہتا ہوں، جو میں دکھانے کا مجاز نہیں ہوں اور ایسا کرنے پر میں خود پریشانی کا شکار ہوسکتا ہوں۔ تاہم، میں تمھیں دکھاؤں گا، کیونکہ میں تمھاری عزّت کرتا ہوں‘‘۔اس نے صدر ناصر کے دستخط دکھائے جو اس نے سیّد قطب کے موت کے پروانے پر کررکھے تھے۔ اس نے کہا کہ ’’اس دستخط کے بعد ہم اس حکم نامے پر عمل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے۔ البتہ ان کو موت کے منہ میں جانے سے صرف تم انھیں بچاسکتی ہو ورنہ کل انھیں پھانسی دے دی جائے گی‘‘۔
حمیدہ قطب نے کہا: ’’کیا میں ان کی جان بچاسکتی ہوں؟‘‘ جیلر نے کہا: ’’ہاں، تمھارے سوا اور کوئی نہیں بچاسکتا ہے۔ اگر تم ایسا کرسکو تو آج رات تم بجائے جیل کے اپنے گھر پر گزاروگی اور دوہفتوں کے بعد وہ بھی رہا ہوجائیں گے‘‘۔
’’وہ کیسے؟‘‘ حمیدہ قطب نے پوچھا۔
اس نے کہا: ’’وہ دو سطریں لکھ کر دے دیں کہ ہماری تحریک کا تعلق ناپسندیدہ گروپ سے تھا، مجھے اپنے کیے پر افسوس ہے اور یہ کہ سعودی شاہ فیصل [م: ۲۵ مارچ ۱۹۷۵ء] نے ہماری تنظیم کو مالی امداد دی تھی‘‘۔
حمیدہ قطب نے کہا: ’’وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اخوان کا تعلق کسی ناپسندیدہ ملکی یا غیرملکی گروپ سے نہیں ہے‘‘۔
جیلر نے کہا: تم ٹھیک کہتی ہو، لیکن سیّد کو بچانے کے لیے اس تحریر کی ضرورت ہے۔ انھیں آمادہ کرنے کی کوشش تو کرو۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں تم آج رات گھر پر ہوگی اور دو ہفتوں میں وہ بھی گھر پر ہوں گے۔ ملک کو تمھاری ضرورت ہے۔ تم لوگ اگر کمیونسٹوں کو نہیں روک سکے تو وہ ملک پر قبضہ کرلیں گے۔
حمیدہ قطب نے مجھے بتایا: میں نے سوچا کہ اگر میں کہہ دوں کہ اچھا میں کوشش کروں گی تو مجھے ایک ملاقات کا موقع مل جائے گا اور میں ان کی شہادت سے پہلے انھیں دیکھ لوں گی۔ چنانچہ انھوں نے کہا: اچھا، میں کوشش کروں گی۔ اس پر اس نے ایک آفیسر کی معیت میں مجھے سیّد قطب کے سیل میں بھیج دیا۔ آفیسر نے راستے میں مجھ سے کہا:تمھارے پاس صرف ۳۰ منٹ ہیں۔ ان کے پاس پہنچ کر حمیدہ قطب نے سیّد قطب سے کہا: ’’بھائی، یہ لوگ آپ سے یہ دو جملے چاہتے ہیں کہ آپ انھیں لکھ کر دے دیں‘‘۔ میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی انھوں نے اپنا رخ آفیسر کی طرف کیا اور بولے:’’ تم جانتے ہو یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اور چوں کہ یہ سچ نہیں ہے، اس لیے دنیا کی کوئی بھی طاقت مجھے ایسا کہنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ اور اگر یہ بات سچی ہوتی تو میں لکھ دیتا، اور دُنیا کی کوئی طاقت مجھے یہ کہنے اور لکھنے سے نہ روک پاتی۔ لیکن چونکہ یہ بات ہے ہی سراسر جھوٹ، اس لیے مَیں کسی صورت جھوٹ نہیں بولوں گا‘‘۔ آفیسر نے کہا: ’’اچھا تو پھرآپ کی یہی رائے ہے، بات ختم‘‘۔ سیّد قطب نے کہا: ’’ہاں، یہی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے تمغۂ شہادت سے نوازنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا، اور اگر میری زندگی باقی ہے تو تم مجھے موت کے منہ میں نہیں بھیج سکتے‘‘۔ یہ سن کر آفیسر غصے سے تلملا گیا اور ا س نے ان کی بہن حمیدہ سے کہا: ’’تمھارے پاس اب صرف پندرہ منٹ ہیں۔ اپنے بھائی کے پاس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ لو‘‘۔ یہ ساری معلومات مجھے اس عظیم خاتون کی دی ہوئی ہیں۔ سبحان اللہ!
وہ عیسائی [قبطی] جیلر اپنے بل بوتے پر کچھ بھی نہیں کررہا تھا، وہ تو صدر کے احکام کی تعمیل کررہا تھا۔ صدر اس کے توسط سے ان سے یہ تحریر لکھوانا چاہتا تھا۔ اور بالفرض اگر وہ لکھ کر دے بھی دیتے تو کیا وہ اپنا کہا پورا کرتا، ہرگز نہیں۔آپ شاید یہ بات جانتے ہیں کہ اس سے پہلے وہ ناصر کے دوست تھے۔
ہمیں اسی نکتے پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس انسانیت کو تاریکی سے نکالنے کے ذرائع موجود ہیں، مادہ پرستی کے اندھیروں سے نکالنے کے ذرائع۔ ہرجگہ ظلم کا راج ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ دنیا میں اسلحہ مافیا اور ڈرگ مافیا (ادویات کے اجارہ دار) دنیا پر حکمراں ہیں۔ ہمارے ممالک نے اس مغربی تہذیب کے مظا لم کا مزہ چکھا ہے، جو بظاہر آزادی، محبت اور مساوات کےنعرے لگاتی ہے۔ انھوں نے ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا ہے؟ کروڑوں کی تعداد میں انھوں نے ریڈانڈینز [ Red Indians: امریکا کے قدیم باشندے] اور ابورجینلز [Aboriginals: آسٹریلیا کے قدیم باشندے] کا خاتمہ کردیا، انھیں بالکل ختم کرکے رکھ دیا، محض بقائے اصلح (Survival of the fittest) کے غرور میں۔ درحقیقت اصلح ہم ہیں، اسلام کے نور کی بدولت کیونکہ اسلام انسانیت کو آزاد کرانے کی تحریک ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے مصر کے گورنر جناب عمرو بن العاصؓ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ: ’’تم نے کب سے انھیں غلام بنا لیا، جب کہ ان کی مائوں نے انھیں آزاد پیدا کیا ہے؟‘‘
دورِ غلامی میں آنکھیں کھولنے والے علّامہ محمد اقبالؒ نے اپنی ذات کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:
اے مرے فقر غیور! فیصلہ تیرا ہے کیا
خِلعتِ انگریز یا پیرہنِ چاک چاک!
پھر انھوں نے فقر غیور کی تشریح دوسرے شعر میں یوں فرمائی: ؎
لفظ ’اسلام‘ سے یورپ کو اگر کدّہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے ’فقرِ غیور!‘
ایسٹ انڈیا کمپنی [تاسیس: ۳۱دسمبر ۱۶۰۰ء] اور برطانوی افواج برصغیر جنوبی ایشیا پر عملاً جب قابض ہوگئیں، تو شاہ ولی اللہؒ کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز (۱۷۴۶ء-۱۸۲۳ء) نے ۱۸۰۳ء میں برصغیر کے خطّہ کا ’دارالاسلام‘ نہ رہنے اور فقہی لحاظ سے ’دارالحرب‘ ہونے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے انگریزی سامراج کے خلاف جہاد شروع کرنے کا فتویٰ دیا۔اسی کے تحت سیّداحمد بریلوی اور شاہ اسماعیل نے تحریک ِ جہاد شروع کی، جو مختلف صورتوں میں پورے جنوبی ایشیا میں پھیلتی ہوئی عظیم تحریک ِ مزاحمت میں ڈھل گئی۔ برطانوی راج نے شاطرانہ منصوبہ بندی کی تاکہ فقر غیور دکھانے والوں کو لہولہان اور خلعت ِ انگریز نہ پہننے والوں کا پیرہن چاک چاک کر دیا جائے اور بزورِ قوت اُن پر اپنا نظریہ اور اپنی تہذیب مسلط کر دی جائے۔
برصغیر میں مسلمانوں کی ۸۰۰ سو سالہ حکومت افغانستان سمیت پورے خطّہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبہ الٰہ آباد میں سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی جغرافیائی آزادی کو انگریز کی عمل داری یا اس کے بغیر اسلامی نظریے کی بنیاد پر تقدیر مبرہم قرار دیا۔ یوں انگریزوں کے خلاف ایک طویل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں خطۂ پاکستان نے ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل کرلی اور انگریزی سلطنت برصغیر چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔ تاہم، افغانستان نے اپنی آزادی کا اعلان، انگریزوں، کمیونسٹ روس، نیٹو اتحادیوںاور امریکی افواج کی شکست اور انخلا کے موقع پر، پورے سوسالہ صبرآزما جہاد کے بعد ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو کیا، جب طالبان نے کابل کو فتح کرلیا۔ پوری دنیا اس فتح کی شاہد ہے۔ طویل مذاکرات اور گفت و شنید کے بعد انخلا کے لیے ۳۱؍اگست ۲۰۲۱ءکی ڈیڈلائن پر معاہدہ ہوا اور افغانیوں کی استقامت کے سبب ۲۰سالہ جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو اتحادی فوجوں نے مقررہ تاریخ پر انخلا مکمل کرلیا اور پلٹ گئے: وَرَدَّ اللہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِہِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا۰ۭ (احزاب۳۳:۲۵) ’’اللہ نے جارح کفّار کا منہ پھیر دیا اور وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یوں ہی نامراد پلٹ گئے‘‘۔
۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کچل دینے کے بعد انگریزوں نے اپنی توسیع پسندانہ نگاہ افغانستان پر مرکوز رکھی، مگر اس سے پہلے ۱۸۴۲ء میں پہلی جنگ ِ افغانستان کے دوران فقر غیور کے حامل افغانیوں کے ہاتھوں، انگریز استعمار کو اور ان کی طرف سے حملہ آور ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی افواج کو ذلّت آمیز شکست ہوئی تھی، جسے وہ تباہ کن شکست یا Disaster کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ولیم جارج الفن سٹن (۱۷۸۲ء- ۱۸۴۲ء) کی کمان میں برطانوی افواج کی مڈبھیڑ کابل اور جلال آباد کے درمیان مجاہد وزیر اکبر خان کی قیادت میں افغان قبائلی مجاہدین کے ساتھ ہوئی اور افغانیوں نے برطانوی افواج اور سویلین کے مجموعی طور پر ۳۰ ہزار افراد کا قلع قمع کر دیا، سوائے ایک انگریز کے جو پیشہ کے اعتبار سے سرجن ڈاکٹر تھا، کوئی بھی زندہ نہ بچا۔ زندہ چھوڑے جانے والے فوجی ڈاکٹر کا نام ولیم برائڈن (۱۸۱۱ء-۱۸۷۳ء) تھا، جو زخموں سے چُور مگر زندہ حالت میں راولپنڈی پہنچا۔ اُن سے پوچھا گیا: باقی برطانوی فوجی کہاں ہیں؟‘‘ تو اس کا مختصر جواب یہ تھا: No Army, Me the only Army (یعنی میرے سوا کوئی فوجی نہیں بچا)۔طبعی موت کے بعد یہ ڈاکٹر راولپنڈی چھائونی کے ایک گرجا کے احاطے میں دفن ہے۔
عام تاثر یہی ہے کہ جنگیں مادی قوت اور توانائی کے بل بوتے پر جیتی جاتی ہیں۔ اس مادی توانائی پر فخر کرکے معروف فرانسیسی جرنیل نپولین (۱۷۶۹ء-۱۸۲۱ء) نے کہا تھا: Who has steel, has everything ’جس کے پاس فولاد ہے، اس کے پاس سب کچھ ہے‘، تو علامہ اقبالؒ نے کہا: I venture to modify it by saying, "Who is steel, has every thing میں ترمیم کی جرأت کرکے کہتا ہوں’’جو خود مثلِ فولاد ہے، سب کچھ اسی کا ہے‘‘۔
اقبالؒ نے بجاطور پر مغربی جرنیل کی مادی سوچ کی تردید کی اور اُن پر واضح کیا کہ جنگیں، صرف مادی توانائی کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ نظریاتی توانائی کی بنیاد پر بھی لڑی اور جیتی جاسکتی ہیں۔ سرمایہ و ٹکنالوجی ایک مادی قوت ہے مگر نظریہ اور آئیڈیالوجی ایک ایمانی قوت ہے، جو انسان کو مثلِ فولاد مضبوط بناتا ہے اور کمزوری کو قوت میں بدل دیتا ہے ؎
لادینی و لاطینی ، کس پیچ میں اُلجھا تُو
دارُو ہے ضعیفوں کا ’لا غَالِبَ اِلَّا ھُو‘
افغانستان کی تاریخ عالمی قوتوں کی بدعہدیوں سے بھری پڑی ہے مگر افغانیوں نے تین بڑی سامراجی اور سپر طاقتوں سے اُن کی بدعہدی کا بدلہ چکا دیا جو خطے میں اُن کی مداخلت اور جارحیت کا شرمناک انجام ہے۔
کشمیر کی جدوجہد ِ آزادی ہو یا افغانستان اور ہندستان کی آزادی کی تحریک، یہ تاریخ کی اَلم ناک داستان ہے۔ عظیم مجاہد کشمیر سیّد علی گیلانی (م: یکم ستمبر۲۰۲۱ء) اپنی کتاب اقبال روح دین کا شناسا میں رقم طراز ہیں: ’’غداروں کی غداری کے نتیجے میں یہ خطّہ ابھی تک سامراجیت کے چنگل سے نہیں نکلا اور ابھی تک خاک و خون میں غلطاں ہے‘‘ (ص۵۲)۔ بنگال میں میر جعفر [م:۱۷۶۵ء] نے غداری کرکے نواب سراج الدولہ [م:۱۷۵۷ء] کو شکست سے دوچار کر دیا جس سے انگریزوں کا اثر و رسوخ ہندستان میں اور جنوبی و وسطی ایشیا تک بڑھ گیا۔ دوسری طرف دکن کے میرصادق [م: ۱۷۹۹ء] نے سلطان ٹیپو (۱۷۵۱ء-۱۷۹۹ء) کے ساتھ غداری کی۔ ۱۷۹۹ء میں اُن کی شہادت کے بعد انگریزی عملداری میں آخری رکاوٹ بھی دُور ہوگئی اور ہندستان دارالاسلام سے دارالحرب بن گیا جہاں شریعت اسلامی کے قوانین معدوم ہوگئے۔ ہندستان پر غلبہ پانے کے بعد انگریزوں نے افغانستان پر جارحیت کی۔ کابل، جلال آباد کے درمیان کندمک وہ مقام تھا، جہاں فقر غیور کے حاملین افغانوں نے انگریزی افواج کی پوری بریگیڈ کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ یہ ۱۳جنوری ۱۸۴۲ء تھی کہ ۱۶ہزار۴سو۹۹ کی تعداد میں باقاعدہ فوج کو ملیامیٹ کرکے صرف ایک سرجن کو زندہ چھوڑ دیا۔
ہندستان میں انگریزوں کو مدد کے لیے بے شمار آستین کے سانپ مل گئے۔ جاگیرداروں، زرپرست نوابوں اور غداروں کی ایک پوری فوج مل گئی۔ ان ننگ وطن اشرافیہ کے سہارے انگریزوں نے ہندستان میں اپنی حکومت مستحکم کرلی۔ یہ طبقہ آج تک اپنے اثرات دکھانے کے علاوہ معاشرے کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہے۔ اس لیے اقبالؒ نے کہا تھا:
ملّتے را ہر کجا غارت گرے است
اصل اُو صادقے یا جعفرے است
الاماں از روحِ جعفر الاماں
الاماں از جعفران ایں زماں
[جہاں کہیں کوئی ملّت تباہ ہوتی ہے، اس کی تہ میں کوئی صادق ہوتا ہے یا کوئی جعفر۔ اللہ تعالیٰ روحِ جعفر سے اپنی پناہ میں رکھے، اللہ تعالیٰ اس دور کے جعفروں سے بچائے]۔
اِن غداروں کی قوت کے سہارے انگریز، مخلص علماء کی مزاحمتی قوت کو توڑنے کے لیے سرگرم تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کو غدر (بغاوت) قرار دے کر لاکھوں انسانوں کو تہ تیغ اور ہزاروں علماء کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ انگریزی راج کو اپنے خلاف ہرکوشش اور سازش کے تانے بانے علماء پر آکر ملتے تھے کیونکہ اُن کا دین اُن کو کافر اغیار کی غلامی اور خلعت انگریز پہننے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ شریعت ِ محمدیؐ اُن کو بندوں کی غلامی سے آزاد کرکے خدائے واحد کی بندگی سے جوڑتی تھی۔ شرع اور فقر کا یہ کردار، اقبال نے اس شعر میں واضح کر دیا تھا ؎
کَس نہ گردد درجہاں محتاجِ کس
نکتۂ شرع مبیں این است و بس
شرعِ مبین کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ اس جہاں میں انسان دوسرے انسان کا محتاج نہ رہے، مگر برصغیر کے دارالحرب اور دارالکفر میں انگریزوں کے غلبے کے بعد ہندستان کے مسلمان انگریز کے دست ِ نگر اور محتاج بن کر رہ گئے۔ تاہم، افغانیوں نے انگریزوں کو شکست فاش دے کر پرچم اسلام اور فقر غیور کی لاج رکھی۔ انگریزوں نے ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی ہندوئوں سے سازباز کرکے بنیادرکھی۔ اس کے پس منظر میں ہندو دھرم اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کارفرما تھی۔ مگر افغانستان میں شکست کھانے کے بعد اس نئی چنگیزی فکر کے ساتھ تاج برطانیہ نے وائسرائے ہند پر دبائو ڈالا کہ افغانوں سے بدلہ لینے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کو کابل پر چڑھائی کا حکم دیا جائے۔ اس دوران ایک افغانی شیرعلی آفریدی [پھانسی: ۱۱مارچ ۱۸۷۲ء] کے ہاتھوں ۸فروری ۱۸۷۲ء کو جزائر انڈیمان میں وائسرائے لارڈ رچرڈ بورک میو قتل ہوچکا تھا۔
طیش میں آکر برطانوی وزیراعظم نے نئے وائسرائے کا تقرر کرکے ۱۸۷۷ء میں کابل پر حملہ کرنے کے احکامات دیئے۔ یہ کیا حُسنِ اتفاق تھا کہ عین اُسی دورِ غلامی میں محمدعلی جناح کی ۱۸۷۶ء میں ولادت ہوئی اور ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں شیخ نورمحمد کے گھر میں ایک نابغہ روزگار بچے اقبال کی ولادت ہوئی۔ دوسری جانب ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی افواج افغانستان کی طرف کوچ کر رہے تھے۔ انگریزوں نے برصغیر کی تحریک ِ مزاحمت کو کچلنے کے لیے دولاکھ۳۳ہزار کرائے کے سپاہی بھرتی کیے تھے۔
انگریز ۲۶مئی ۱۸۷۹ء کو امیر افغانستان سے معاہدہ اور سمجھوتا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ امیردوست محمد خان کے ساتھ یہ ایک غیرمساویانہ معاہدہ تھا، جس کے تحت برطانوی افواج کو کابل میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔
افغانستان کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ سرزمین دُنیا کی مقتدر طاقتوں کی بدعہدیوں سے بھری پڑی ہے۔ ۱۸؍اگست ۱۹۱۹ء کو امن کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا اور ۱۹۴۲ء میں بدعہد تاجِ برطانیہ نےاس معاہدے میں ترمیم کرکے کمیونسٹ روس کو اپنا حلیف بنالیا جس کی بدولت ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کی راہ ہموار ہوگئی۔ سردجنگ کے خاتمے پر روس اور امریکا نےآپس میں معاہدہ کیا۔ نائن الیون کے پس منظر میں امریکا اتحادی اور نیٹو فورسز کی افواج لے کر۲۰۰۱ء میں افغانستان پر حملہ آور ہوا اور طالبان کی پانچ سالہ حکومت (۱۹۹۲ء- ۲۰۰۱ء) کا خاتمہ کیا اور اسلحہ وجدیدعسکری قوت کے زور پر افغانستان کو بُری طرح روند ڈالا۔ اس بدعہدی کے لیے اقوام متحدہ نے بھرپور سرپرستی کی۔ اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت فقرِغیور کے حامل افغانیوں کے نصیب میں لکھ دی: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ ’’اے اہلِ بصیرت ا س سے سبق حاصل کرو‘‘۔
افغانیوں کی غیرتِ دین اور ذوقِ یقین پر شاعر مشرق کو اتنا اعتماد تھا کہ وہ بے تیغ بھی لڑتے ہوئے طویل غلامی کی زنجیریں کاٹ کر رکھ دیں گے:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں درآں پیکر دل است
از فسادِ او فساد آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا
[ایشیا کی مثال آب و گل کے ایک پیکر کی سی ہے۔ اس ڈھانچے کے اندر ملّت افغان کی حیثیت دل کی سی ہے اور افغانستان کے اندرفساد دراصل ایشیا کا فساد ہے۔ افغانوں کی آزادی سے ایشیا آزاد ہوگا ]۔
ماضی کایہ الہامی شعر آج ایشیا ہی نہیں بلکہ دُنیا کے لیے پالیسی بیان کا رُوپ دھار چکا ہے جو کوئی بھی دُنیا میں امن کے طالب ہیں، البتہ جو امن کے طالب نہیں، افغان مجاہدین کے ہاتھوں ’کشاد آسیا‘ خنجر بن کر ان کے دل میں اُتر رہا ہے۔
بلاشبہہ عظیم سلطنتوں کے پیچھے عظیم دانش وروں کی فکر کارفرما ہوتی ہے۔ علّامہ ڈاکٹر محمد اقبال، جمال الدین افغانی [۱۸۳۸ء-۱۸۹۷ء]کی پان اسلام ازم کی فکر سے متاثر تھے۔ دونوں نابغہ روزگار شخصیات کی فکر کا نچوڑ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی محور قیادت و سیادت کے گرد گھومتا ہے، یعنی اقامت دین و اجراء شریعت ؎
از رسالتؐ در جہاں تکوینِ ما
از رسالتؐ دینِ ما آئینِ ما
[رسالت ہی سے اس دنیا میں ہمارا وجود قائم ہے، رسالت سے ہی ہمارا دین اور ہمارا آئین (شریعت) ہے۔]
اقبالؒ، سیّد جمال الدین افغانیؒ کو دورِ حاضر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کا مؤسس قرار دیتے ہیں۔ ۱۸۷۰ء میں جمال الدین افغانیؒ کو استنبول کے دارالفنون میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ خطاب کے دوران اُن کا وژن یہ تھا: ’’جسم کی زندگی روح کے بغیر ممکن نہیں۔ معاشرے کی روح نبوت ہے یا فلسفہ، مگر ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ نبوت، اللہ کی رحمت سے ملتی ہے، محنت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوتی، جب کہ فلسفہ غوروفکر اور بحث و مباحثے کا ماحصل ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے نبی معصوم عن الخطا ہوتا ہے اور فلسفی غلطی کرتا ہے اور کرتا رہتا ہے (مشاہیر الشرق، جلد دوم،ص ۱۵۴)۔
اپنے مشاہیر کے افکار کی روشنی میں افغانستان کی سرزمین کو دین متین اور شرع مبین کا مرکز بنانا اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے چھڑانا امارت اسلامی افغانستان کی اوّلین ذمہ داری بنتی ہے۔ شاید یہ غیرمعمولی فتوحات ربِ کائنات نے اسی لیے کرشماتی طورپر اُن کو عطا کی ہیں تاکہ وقت کے مستکبر فرعونوں کا سر، اِن درویش اصحابِ فقر مستضعفین کے آگے جھک جائے اور اُن کی رُعونت ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جائے اور اُن کی مادی قوت، ایمانی نظریے سے مات ہوجائے:
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
سردار ابراہیم خان اپنی کتاب کشمیر ساگا میں لکھتے ہیں کہ ’’غلبۂ اسلام کے لیے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالیؒ [۱۷۲۲ء-۱۷۷۲ء]نے نہ صرف ہندستان بلکہ ۱۷۵۰ء میں ریاست کشمیر میں بھی اپنی سلطنت قائم کی۔ ریاست کشمیر ۷۰سال تک افغانیوں کے زیرنگیں رہی۔ یہاں تک کہ برطانوی استعمار نے سازش کے ذریعے ۱۸۴۶ء میں کشمیر راجا گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا، جب کہ جموں کی ریاست بارھویں صدی سے پندرھویں صدی تک غوری خاندان کے ماتحت رہی۔ پھر مغلوں اور ۱۸۲۰ء میں جموں کی ریاست گلاب سنگھ کے حوالے کر دی گئی‘‘ (کشمیرساگا، ص ۷)۔ یوں عرصۂ دراز تک جنوبی و وسطی ایشیا کا یہ خطّہ افغانوں کے زیرتسلط رہا اور خطّے پر اسلام کا پرچم لہرایا اور دارالاسلام بنا رہا۔
اقبالؒ نے افغانستان کی سرزمین پر کھڑے ہوکر یہ نعرئہ مستانہ بلند کیا تھا ؎
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اُن کا یہ اعلان الحکم للّٰہ اور والملک للّٰہ ایک ناقابل انکار سچائی ہے اور اس سچ کی شہادت ہماری ذمہ داری ہے۔ اقبال نے جب اپنی کتاب پیامِ مشرق کا انتساب غازی امان اللہ خان، امیرکابل کے نام کے ساتھ معنون کیا، تو ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے سوال اُٹھایا جس کے جواب میں علّامہ نے فرمایا: ’’میں کسی آزاد مسلمان کے نام یہ انتساب کرنا چاہتا تھا۔ اس ضمن میں امیرامان اللہ خان سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا نہ تھا‘‘۔
۱۹۲۹ء میں امیرامان اللہ خان کے خلاف بغاوت کرکے اُن سے امارت چھین لی گئی اور انگریزوں نے افغانستان کو خانہ جنگی کے دھانے پر لاکھڑا کیا۔ امان اللہ خان کے بھائی جو اُن دنوں فرانس میں سفارت کار تھے۔ پیرس سے سیدھا لاہور آئے اور علّامہ اقبال ؒ سے تفصیلی ملاقات کی اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا علَم بلند کرنے کا عزم کیا گیا۔ پشتون قبائل سے رابطہ کرنے کے لیے نادرشاہ (۱۸۸۳ء-۱۹۳۳ء) شمالی وزیرستان کے علی خیل روانہ ہوئے۔ روانگی کے وقت اقبال نے نادرشاہ کو اپنی جیب سے دس ہزار روپے کی خطیر رقم پیش کی۔ انھوں نے فقروفاقہ مستی میں یہ رقم قبول نہ کی اور وزیر و محسود قبائل کی مدد سے کابل پر حملہ کرنے کے لیے لشکر ترتیب دیا۔ اقبالؒ نے مجاہدین کی مدد کے لیے ایک فنڈ قائم کیا اور برصغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں کے عطیات جمع کرکے نادرشاہ کی خدمت میں ارسال کر دیئے۔ شبقدر سے حاجی صاحب ترنگزئی، مُلا سنڈالئے اور کابل کے مُلا شوربازار نے جہاد میں بھرپور حصہ لیا، اور کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بعد میں نادرشاہ نے اقبالؒ کو کابل کے سرکاری دورے پر بلایا تو سیّد سلیمان ندوی کے ہمراہ اقبال نے افغانستان میں قیام کیا اور نسل نو کے لیے تعلیمی نظام اور نصاب ترتیب دیا۔ اس کے ردعمل میں ۱۹۳۳ء میں نادرشاہ کو قتل کیا گیا اور تحریک ریشمی رومال کا راز فاش ہونے پر مولانا محمود حسنؒ، مولاناعزیرگل ؒاور حسین احمد مدنیؒ نے جلاوطنی کی سزا پائی۔ خلافت کی تحریک ناکام ہونے پر ملوکیت ہرطرف چھاگئی تھی اور مجاہدین کو سخت نقصان اُٹھانا پڑا ؎
تاخلافت کی بِنا دُنیا میں ہو پھر اُستوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
۱۹۳۶ء میں ’مسافر سیاحت چند روزہ افغانستان‘ کے عنوان سے علّامہ اقبالؒ کا مضمون شائع ہوا تھا۔ اس اہم دستاویز کی بنیاد پر افغانستان کے لیے فقرِ غیور کا دستوری خاکہ مرتب کیا جاسکتاہے۔
خطے کے جسور و غیور عوام کے لیے بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کا وژن بھی وہی تھا، جو اقبالؒ کا تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے قائدؒ نے ۱۱۴ مرتبہ ، اسلامی تعلیمات کو قوم کے سامنے پیش کیا، اور پاکستان بننے کے معاً بعد ۱۴ مرتبہ اسلام کے وژن کو پیش کیا جس کے تا نے بانے فقرغیور سے ملتے ہیں، جو اسلام کا شعار ہے۔
علامہ اقبالؒ کی وفات کے بعد، ۲۰مارچ ۱۹۴۰ء کو قائدؒ نے اقبالؒ کو یوں یاد کیا:
His ideal therefore is life according to the teachings of Islam with a motto" Dare and Live".
اقبالؒ کا آئیڈیل اسلام اور اسلامی تعلیمات کے مطابق جینا تھا اور اسلام کا شعار بھی یہی ہے: ’’جیو تو غیرتِ مستانہ جیو‘‘ ۔
اقبالؒ اس جذبے کو عشق سے تعبیر کرتا ہے، جو ہرقسم کا خطرہ مول لیتا ہے
بے خطر کود پڑاآتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
فتح کابل کے موقع پر بانیانِ پاکستان کا یہ پیغام ’اُمت مسلمہ کی عظیم فتح‘ کی نوید ہے، جس پر عمل کرکے افغانیوں نے خطّہ اور مستضعفین جہاں کے لیے فقر غیور کے اس پرچارک کے پیغام کو سمجھا،جس نے لاہورسے تابخاک سمرقند و بخارا اہلِ ایمان اور قومِ رسولِ ہاشمیؐ کو ولولۂ تازہ سے یوں ہمکنار کیا:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علّامہ محمد اقبالؒ کے انتقال کے وقت مولانا مودودیؒ کی عمر تقریباً ۳۵سال تھی۔ یہ عین ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ اپنے افکار ونظریات کو بڑی حد تک مرتب کرچکے تھے، جن کی بنیاد پر انھوں نے آگے چل کر ایک فکری و نظریاتی تحریک کا آغاز کیا۔ ہمارا خیال ہےکہ مولانا کی مذکورہ تحریک کے پس منظر میں اقبالؒ کے افکار بڑے بھرپور طریقے سے کارفرما رہے ہیں اور اسی طرح دونوں شخصیات کے درمیان فکرونظر کی گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
شخصی حوالے سے دیکھا جائے تو علّامہ اقبالؒ سے مولانا مودودیؒ کی پہلی ملاقات جنوری ۱۹۳۰ء میں ہوئی، جب علّامہ، مدراس [چنائے] میں تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے سلسلے کے تین انگریزی لیکچر (خطبات) دینے کے بعد، بنگلور اورمیسور سے ہوتے ہوئے حیدرآباد دکن پہنچے اور وہاں بھی تین خطبے دیے۔ سیّدصاحب اس وقت حیدرآباد ہی میں تھے۔ انھوں نے خطبات سنے تھے۔ ممکن ہے آخر میں کچھ سوال جواب بھی ہوئے ہوں، اورنوجوان سیّد نے کوئی استفسار بھی کیا ہو۔ یہ بعید از قیاس نہیں کیوں کہ سیّد مودودی اپنی عمر کے (۲۶ سال کے) نوجوانوں کی نسبت مشرقی و مغربی علوم کا بہت زیادہ مطالعہ کیے ہوئے تھے۔مولانا مودودیؒ نے خود لکھا ہے: ’’میری ان سے پہلی ملاقات وہاں [حیدرآباد دکن میں] ہوئی، دوسری ملاقات فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں (خطوطِ مودودی، دوم، ص ۶۹) اور تیسری ملاقات [ستمبر یا] اکتوبر ۱۹۳۷ء (ایضاً، دوم،ص ۱۲۰) میں [لاہور میں] ہوئی۔
۱۹۳۷ء میں ہونے والی ان ملاقاتوں کا پس منظر یہ تھا کہ ایک دردمند مسلمان چودھری نیاز علی خاں (م: ۲۴ فروری ۱۹۷۶ء) نے اپنی جایداد واقع سرنا،جمال پور، پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کے لیے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اور اس سلسلے میں متعدد زعما اورعلما سے راہ نمائی چاہی، جن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، علّامہ اقبالؒ ، سیّد سلیمان ندویؒ، عبدالماجد دریابادیؒ اور سیّدمودودیؒ شامل تھے۔{ FR 654 }
مولانا مودودی نے علمی کام کا ایک تفصیلی نقشہ بناکر چودھری نیاز علی صاحب کو پیش کیا۔ چودھری صاحب نے اس علمی منصوبے سے علّامہ اقبال کو آگاہ کیا۔ انھوں نے اسے پسند کیا اور فرمایا کہ ’’اس وقت کرنے کے یہی کام ہیں‘‘ (سیّارہ، لاہور، اقبال نمبر، مدیر: نعیم صدیقی، ۱۹۶۳ء)۔
دراصل علّامہ اقبالؒ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کے نام اور ان کی فکر سے واقف ہوچکے تھے۔ ماہ نامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباد دکن اوائل ہی سے علّامہ کے ہاں جاتا تھا۔سیّد مودودی کے دورِ ادارت میں بھی رسالہ ان کے نام جاری رہا۔ سیّد نذیرنیازی کے مطابق ، علّامہ مرحوم ترجمان القرآن بڑے غور سے پڑھا کرتے تھے۔دراصل علّامہ، معروف مؤرخ اکبر شاہ خان نجیب آبادی سے ہندستان میں مسئلہ جہاد کی تاریخ لکھوانا چاہتے تھے۔ (انواراقبال، مرتب: بشیراحمد ڈار، اقبال اکادمی، پاکستان، کراچی ۱۹۶۷ء، ص ۳۱۸)۔اب جو اُنھیں، الجہادفی الاسلام پڑھنے یا پڑھوا کر سننے کا موقع ملا تو وہ سیّد مودودی سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے چودھری نیاز علی خاں سے کہا: [میں نے ترجمان القرآن] کے دو مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ ساتھ وہ [یعنی مولانا مودودی] مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب الجہادفی الاسلام مجھے بہت پسند آگئی ہے‘‘ (ہفت روزہ ایشیا، لاہور، مدیر: چودھری غلام جیلانی، ۷؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔ ’’اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کیا بلکہ جنگ و جہاد کے متعلق اسلام کے جو نظریات ہیں، انھیں کسی تاویل یا تعبیر کے بغیر بڑے کرّوفر سے پیش کیا ہے‘‘ ( ہفت روزہ چٹان، لاہور، مدیر:آغا شورش کاشمیری، ۲۵؍اپریل ۱۹۵۴ء، بحوالہ اقبال اور مودودی،مرتبہ: ڈاکٹر سفیراختر، ص ۱۹)۔ چنانچہ انھوں نے چودھری نیاز علی خاں سے کہا: ’’آپ کیوں نہ انھیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے، وہ دعوت قبول کرلیں گے‘‘ ( ہفت روزہ ایشیا، ۱۷؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’یہ مجھے بعد میں نذیر نیازی صاحب سے معلوم ہوا کہ علّامہ مرحوم ترجمان القرآن بڑے غور سے پڑھا کرتے تھے اور انھوں نے الجہاد فی الاسلام پڑھ کر سنی تھی (اقبال اور مودودی، ص۶۳)۔ یوں بقول چودھری نیاز علی خاں: ’’حضرتِ علّامہ کی نظرِ جوہرشناس بھی سیّدصاحب پر جاپڑی‘‘۔ (صحیفہ ، اقبال نمبر،مدیر: ڈاکٹر وحید قریشی، مجلس ترقی ادب، لاہور، اکتوبر ۱۹۷۳ء)
خود علّامہ اقبال نے ادارے کی سربراہی کے لیے مولانا مودودی ؒ کا نام تجویز کیا۔ مولانا فرماتے ہیں:’’۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ ملا کہ مَیں حیدرآباد کو چھوڑ کر پنجاب چلا آئوں‘‘ (سیارہ،اقبال نمبر، فروری ۱۹۷۸ء)۔ پھر چودھری نیاز علی خاں نے بھی مسلسل اصرار کیا اور مولانا کو دعوت دی کہ وہ دکن سے ہجرت کرکے لاہور آجائیں۔ چنانچہ فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں مولانا مودودیؒ لاہورآئے اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے کہ علّامہ اقبالؒ سے ملے اور دوتین نشستوں میں تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی مولانا مودودیؒ ،علّامہ اقبالؒ اور ان کی شاعری سے بخوبی واقف تھےاور فکری سطح پر بہت قربت محسوس کرتے تھے۔ اب اس قربت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کےدل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور اُن کے درمیان یہ بات طے ہوگئی کہ میں پنجاب منتقل ہوجائوں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں، جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’دارالاسلام‘ تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں، جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے‘‘(ایضاً)۔ بہرحال، ان ملاقاتوں کے بعد مولانا مودودی دکن کو چھوڑ کر پنجاب آنے کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے دکن سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔
لاہور سے واپس دکن پہنچے تو انھوں نے چودھری نیازعلی خاں کو جو خط لکھا، اس میں بتایا کہ میں نےیہاں پہنچتے ہی ہجرت کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ علّامہ اقبالؒ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ یہاںآجائیں تو میں بھی ہرسال کچھ ہفتوں کے لیے یہاں آیا کروں گا۔ کچھ مشترکہ علمی منصوبے طے ہوئے تھے۔ اس کام کو وہ بلاتاخیر آگے بڑھانا چاہتےتھے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کا ایک خط ڈاکٹر سیّدظفرالحسنؒ (جوعلی گڑھ یونی ورسٹی میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرتھے) کے نام لائقِ توجہ ہے، اس میں مولانانے یہ بتایا تھا کہ میرےاور علّامہ اقبالؒ کے درمیان کیا باتیں ہوئی تھیں۔ یہ خط اقبالؒ کی وفات کے بعد جون ۱۹۳۸ء میں لکھا گیا۔اس وقت تک ایک ادارہ ’دارالاسلام‘ کے نام سے قائم ہوچکا تھا، اور کچھ افرادِ کار اس سے منسلک تھے۔ ڈاکٹر سیّد ظفرالحسن نے بھی اس کی شوریٰ کی رکنیت قبول کرلی تھی۔ ان کے نام خط میں مولانا نے لکھا:
اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ علّامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ کے درمیان بہت سے علمی مسائل اورفقہ اسلامی کی تشکیل کے منصوبے کے ساتھ دیگر موضوعات بھی زیربحث آئے ہوں گے اور اس وقت ہندستانی سیاست کا جو نقشہ مرتب ہورہا تھا، اس پربھی تبادلۂ خیال ہوا ہوگا۔
مولانا دکن سے ہجرت کرکے ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو جمال پور (پٹھان کوٹ) پہنچے۔ایک نئی جگہ اور نئے مکان میں، اپنا سازوسامان اور متفرق معاملات ترتیب دے رہے تھے کہ نذیرنیازی نے ۱۸؍اپریل ۱۹۳۸ء کو لاہور سے انھیں ایک خط لکھا: ’’ڈاکٹرصاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسا نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ جس قدر ہوسکے جلدی تشریف لے آئیں‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم،ص ۱۹۰)۔ ڈاک سے خط۱۹ یا ۲۰؍اپریل کو پہنچا ہوگا۔ مولانا نے لاہور کا عزم کیا ہی تھا کہ اگلے روز خبرملی کہ ’علّامہ ۲۱؍اپریل کو فوت ہوگئے‘۔
مولانا مودودیؒ نے اقبال کی وفات پر اپنے دُکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے میں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں جو ہم نے مل کر کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب معلوم نہیں وہ کس طرح سے ہوگا؟ نذیر نیازی کے نام ایک خط (مؤرخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۸ء ) میں لکھتے ہیں:
اسی خط میں لکھتے ہیں کہ:
علّامہ اقبال کی وفات کے بعد مولانا مودودیؒ نے جس تحریکِ اسلامی کا احیا کیا، وہ رفتہ رفتہ پھیلتی گئی۔ اس کی توسیع و ترقی، کامیابی اورفروغ میں کلامِ اقبالؒ کی فکری راہ نمائی کا بھی بڑادخل ہے۔
حیاتِ اقبال کے آخری دنوں کی معروف رباعی ہے:
سُرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر داناے راز آید کہ ناید؟
(اب گذشتہ سُرود واپس آئے یا نہ آئے؟ حجاز کی طرف سے ٹھنڈی ہوا چلے نہ چلے؟ اس فقیر [اقبال] کی زندگی تو ختم ہوئی، اب کوئی اور راز آشنا آئے یا نہ آئے؟)
بعض اصحاب کا خیال ہے اور بجا ہے کہ ’دگر داناے راز‘ کا مصداق سیّدابوالاعلیٰ مودودی ہیں۔ چنانچہ رزمی امروہوی ’مردِ امروز‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:
روحِ اقبال از برائش مے تپید
آں دگر داناے راز آمد پدید
چشم حق بیں اندریں عصرِ جدید
ہم سرِ سیّد ابوالاعلیٰ ندید
(اقبال کی روح اس کے لیے تڑپتی تھی، ایک دوسرا داناے راز وجود میں آئے۔ حق بیں آنکھ [لوگوں] نے دورِحاضر میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی جیسے مقام و مرتبے والا کوئی اور شخص نہیں دیکھا)
(ماہ نامہ چراغ راہ ، کراچی، اکتوبر و نومبر ۱۹۵۳ء،ص۴۵)
جماعت اسلامی کے علاوہ بیسویں صدی میں جو اسلامی تحریکیں دوسرے ممالک میںبرپا ہوئی ہیں اور پھر عالمِ اسلام میں بیداری کی جو لہریںپیدا ہوئیں (تاحال آخری: عرب بہار)، ان میں مولانا مودودیؒ اورعلّامہ اقبالؒ دونوں کا بڑا اثر ہے۔ عربوں میں حسن البنا اور سیّد قطب۔ انقلابِ ایران میں آیت اللہ خمینی اور علّامہ اقبالؒ کی شاعری اورسیّد مودودیؒ کی نثر کے اثرات کا خود ایرانی دانش ور اور علما اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح وسطی ایشیا کے مسلم ملکوں میں مجاہدین افغانستان اور اسلامی بیداری میں اقبال کے فارسی کلام (تیز ترک گامزن ، منزلِ ما دور نیست) اور سیّد مودودی کے تراجم کے اثرات بھی برگ و بار لائے۔
اسلامی بیداری کی یہ صورتِ حال دونوں اکابر کی توقعات کے عین مطابق ہے۔ اِس وقت ’گیا دورِ گراں خوابی‘ کے بعد ’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘ کی سی کیفیت ہے۔ مجموعی طور پر علّامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ، دونوں عالمِ اسلام کی بیداری اور تجدید و احیاے دین کے بارے میں بہت پُراُمید تھے۔ علّامہ اقبالؒ ، چودھری محمدحسین کے نام ۲؍اکتوبر ۱۹۲۲ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اسلام، خلفا کے زمانے کی طرف آرہا ہے۔ خدا نےچاہا تو خلافت ِ اسلامیہ اپنے اصل رنگ میں عنقریب نظرآئے گی‘‘ (چودھری محمد حسین اور علّامہ اقبال، تحقیقی مقالہ ایم اے اُردو، ثاقف نفیس، ۱۹۸۴ء، ص ۶۵)۔ اسی طرح نورحسین کو ۱۷مارچ ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں : ’’گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِرسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاےاسلام کی ہے‘‘۔(انواراقبالاز بشیراحمد ڈار، ص ۲۱۶)
اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیداری کی لہراور احیاے اسلام کی تحریکوں کا برپا ہونا علّامہ اقبالؒ کی بصیرت میں موجود تھا اوروہ اس معاملے میں بڑے پُرامید تھے۔ سیّدمودودی نے بھی ایک موقعے پر کہا تھا: ’’جس طرح یہ بات یقینی ہے کہ کل صبح سورج مشرق سے طلوع ہوگا، بالکل اسی طرح مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام غالب آئے گا‘‘۔ بہرحال، ’’اقبال کی فکری تحریک سے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے احیاے اسلام کےکام کو آگے بڑھایا‘‘ (ڈاکٹرممتاز احمد، فنون لاہور، مدیر: احمد ندیم قاسمی، بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ از پروفیسر رحیم بخش شاہین، ص ۸۷)۔
جب بھی ہم مولانا مودودیؒ کی فکرپر گفتگو یا بحث کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فکرمودودیؒ دراصل فکر ِ اقبالؒ ہی کا تسلسل اور اس کی توسیع ہے، اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے، مختلف ممالک کی اسلامی تحریکوں کی پیش رفت میں اقبال اور سیّد مودودی دونوں کے اثرات کارفرما ہیں۔علّامہ اقبالؒ نے بجاطور پر کہا تھا :
وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نُورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
مولانا مودودیؒ پر گفتگو کرتے ہوئے،ان کے لیے ’انشا پرداز‘ کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔انشا پردازی کا لازمہ ہے مبالغہ، یعنی دیکھے ہوئے کو زیادہ دکھانا۔ جب اس لفظ کے تحت بات کریں گے تو ہم اس دائرے میں محدود رہیں گے کہ ’ان کی انشا میں کیا امتیازات ہیں؟‘
مولانا جس زمانے میں لکھنا شروع کر رہے تھے، اس زمانے میں مذہبی علوم اپنے اظہار کے سبک اسالیب پیدا کر رہے تھے۔ تاہم، فضا میں گردش کرتا مشہور فقرہ یہ تھا کہ ’’مولوی کو لکھنا کیا آئے؟‘‘ یا ’’مولوی کو زبان نہیں آتی‘‘۔ کچھ لوگوں نے اس صحیح اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کمی کا ازالہ کیا۔
مثال کے طور پر شبلی نعمانی [م: ۱۹۱۴ء] نے دین کے ساتھ ذہنی تعلق کے جتنے اسالیب اور جتنے بھی راستے ہوسکتے ہیں، ان سب کو ایک معروضی انداز کی نثر میں لکھنا شروع کیا۔ اس میدان میں وہ خود ایک دبستان ہیں۔ اس سب کے باوجود ان کی تحریروں سے آدمی کے اندر مذہبی نمو کے آثار نہیں پیدا ہوتے تھے۔ وہ سیرت بھی لکھتے تو اس طرح لکھتے کہ اس سے معلومات میں کچھ اضافہ ہوگیا یا جو روایات غلط تھیں، ان کو اپنی حد تک انھوں نے صحیح کر دیا، لیکن اس کارِ تصنیف سے صاحب ِ سیرتؐ کے ساتھ وہ ربط و تعلق محسوس نہیں ہوتا جو درکار ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی نثر میں کمی تھی۔ معاملہ دراصل یہ تھا کہ انھوں نے اپنے آپ کو محقق بنانا قبول کیا تھا، اس لیے ان کی نثر محققین کی طرح کی تھی اور اس زمانے میں رائج مغربی تصور کے اثرات کے تحت تھی کہ چیزوں کو detachment [ناوابستگی] اور objectivity [واقعیت] کے ساتھ بیان کیا جائے۔ مطلب یہ کہ اس میں جذبے یا اپنے تعلق یا کسی درجے کی احساساتی کمیونی کیشن نہ کی جائے۔ ہمارے ہاں اس اسلوب کی سب سے بڑی مثال شبلی ہیں۔
اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد [م: ۱۹۵۸ء] ایک بڑے آدمی تھے۔ انھوں نے ایک طرح سے ادب کو مذہب پر غالب کر دیا تھا۔ اُنھوں نے ادب اور نثر کی خطیبانہ قسم کو مذہبی مضامین پر حاوی کردیا تھا۔ ان کی خطابت کا زور شور اتنا ہے کہ آدمی کو بے دست و پا اور مبہوت کردیتا ہے، لیکن کچھ سمجھاتا نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ جو علمی اضافہ ایک قاری اور متلاشی کو درکار ہے، ایک سادہ دلیل کے ذریعے، وہ ان کے یہاں نہیں ہے۔ بہرحال وہ نثر میں ایک بلندآہنگ خطیبانہ اسلوب کے بانی ہیں۔ اس لیے اگر ہم دینی لٹریچر میں نثر کے ممتاز اسلوب کے آغاز کا سوال اُٹھائیں، تو اس کا جواب ہے: وہ ابوالکلام ہیں۔
پھر عبدالماجد دریابادی صاحب [م:۱۹۷۷ء]نے اچھی نثر لکھی۔ سیّد مناظر احسن گیلانی صاحب [م: ۱۹۵۶ء]کا ذکر یہاں خاص طور پر کرنا چاہوں گا۔ شبلی نعمانی، ابوالکلام آزاد یا عبدالماجد دریابادی کی نثر میں ایک کسر رہ گئی تھی اور بہت بنیادی کمی تھی، وہ یہ کہ وہ خیال کو passion [اشتیاق]نہیں بناتے تھے۔ دینی کام ہو ہی نہیں سکتا، چاہے وہ علمی ہو، کلامی ہو یا قانونی ہو، جب تک وہ ایک شدید احساس بن کے قاری میں منتقل نہ ہو۔ یعنی ایک صحیح خیال اور اس صحیح خیال کی حرارت دل میں اور روشنی ذہن میں اُتر جائے۔ یہ ہمارے سلف کا طریقہ تھا۔ ہمارے اسلاف کی تحریریں اگر آپ دیکھیں، جس کی بظاہر اُمید کم ہے، لیکن بہرحال جب پڑھیں گے تو آپ کو احساس ہوجائے گا کہ یہ تحریریں میری شخصیت میں چند قیمتی عناصر کا اضافہ کررہی ہیں۔
آپ ابواسحاق شاطبی [م: ۱۳۸۸ء] کو پڑھ لیجیے۔ ان کی اصولِ فقہ پر کتاب الموافقات فی اصول الشریعۃ ہے۔ اس کو پڑھیں تو وجد آنے لگتا ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ افلاطون کو پڑھ رہے ہیں۔ کبھی کچھ لگتا ہے اور کبھی کچھ لگتا ہے۔ یعنی شعور کی تربیت اور وجود کی تراش خراش کرنے والی تمام قوتیں ان کی تحریر میں جمع ملتی ہیں۔ وہ اگر بات کر رہے ہیں تو پیش نظر چیز کا بالکل درست علم فراہم کرتے ہوئے، اس چیز کے وجود کے احوال کو اس کی بنیادی معلومات کے فہم کے ساتھ آپ کے خیال کی دُنیا میں داخل کردیتے ہیں۔ یہ بات نئے لوگوں میں نہیں ہے۔ سلف کا جو اسلوبِ ابلاغ ہے اور ان کے ہاں جو جذبۂ اظہار ہوتا تھا، وہ مناظر احسن گیلانی تک پہنچ کر ختم ہوگیا۔ النبی الخاتم کو پڑھ کر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ اسی طرح اور بہت سے لوگ ہیں جو سادہ نثر لکھ رہے تھے۔ انھوں نے اپنا مقصود یہ بنایا تھا کہ دین اور اس کی ضروریات کو اور دین کو مانتے ہوئے اس کے ضروری استدلال کو ایک متوسط درجے کے قاری تک پہنچا دیں۔
میں ذاتی طور پر مولانا اشرف علی تھانویؒ کو اپنا مربی مانتا ہوں۔ یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ یہ جو یبوست اور گھٹن طاری ہے کہ لوگ اختلاف کو انقطاع کا سبب بناتے ہیں، یہ کسی بھی طرح کم ہو۔
مولانا مودودی نے اپنا مقصود یہ بنایا کہ تحریر سے قاری کے ذہن کی صفائی ہوتی رہے اور ارادے کو تحریک ملتی رہے۔ انھوں نے ارادے کا محرک بننے والی نثر لکھی۔ ایسی نثر لکھی جو ارادے کو مضبوط کرتی ہے، دماغ کو اس منزل کی طرف یکسو کرتی ہے، جسے عمل سے حاصل کیا جائے گا۔ انھوں نے دین کا قابلِ عمل ہونا بہت ہی کامیابی سے بیان کیا۔
دوسری چیز جو ان کے زمانے میں کہیں نہیں تھی، وہ یہ سوال ہے کہ دین اسلام کے ماننے والوں کی اجتماعیت کن اصولوں پر تشکیل پاتی ہے؟
ہم ابھی تک یہ بات سننے کے عادی تھے کہ فرد کے لیے دین کیا تقاضا رکھتا ہے؟ فرد کے لیے دین سے مستفید ہونے کے کیا کیا ذرائع ہیں؟ اور ’تزکیہ‘ کا مفہوم صرف ’تزکیۂ افراد‘ تھا۔ مولانا کی یہ بہت بڑی عطا (contribution )ہے کہ انھوں نے ’تزکیہ‘ کے اس تصور میں چھپی ہوئی محدودیت کو کھول دیا اور تنگی کو توڑ دیا۔ اس پوسٹ کلونیل دور میں دین کی حفاظت اور مضمحل ہوجانے والی مسلم نفسیات کو دوبارہ سے زندہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ افراد پر توجہ کے بجائے اس قوم کو اُمت کا ایک فعال حصہ بنایا جائے۔ وقت کی اس ضرورت کو مولانا نے خوبی سے پورا کیا۔
تیسری بات یہ ہے کہ انھیں پڑھتے ہوئے خیال پر ذہن مطمئن اور تاثّر پر قلب شانت [مطمئن] ہوجاتا ہے۔ مولانا کے ہاں یہ چیز اس طرح سے ہے کہ یہ آپ کے ارادے کو اللہ کی مراد کے مطابق ڈھالنے کے لیے، اور اس ارادے کی حرکت کے نتیجے میں جو مفاد مطلوب ہے، اسے اجتماعی اثاثے اور اجتماعی جذبے کی شکل میں پیش کرتی ہے۔ وہ ارادہ، محض فرد کے کسی اُخروی تزکیے والے مفاد سے نہیں پورا ہوسکتا۔ انھوں نے اس تزکیے کے عمل کو اجتماعی ضرورت بنایا اور تزکیے کے اجتماعی رول کو بالکل علمی انداز میں ثابت کرکے دکھا دیا کہ اجتماعی تزکیے کے بغیر انفرادی تزکیہ نہیں ہوسکتا۔
آپ آج کے حالات دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں صرف یہی چیز بچاسکتی ہے کہ اگر ہم نے اسلام کو اپنے مرکزی اور ثانوی تمام تشخص کا واحد منبع اگر نہ بنایا تو ع
’تمھاری‘ داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
یہ بنیادی اصول مولانا نے سکھایا۔ مسلمانوں کی اجتماعی دینی حمیت اور مسلم نفسیات پر چھائی ہوئی غلامی کے نتیجے میں افسردگی کو انھوں نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور دینی لٹریچر میں اس غلامانہ ذہنیت کا سانچا توڑ کر دکھا دیا۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔
انقلاب کسے کہتے ہیں؟ انقلاب کا مطلب ہے موجودہ اقدار اوراس کے مظاہر کا بالکل بدل جانا، یعنی باطن بھی بدل جائے اور ظاہر بھی بدل جائے۔مولانا مودودی نے اس ضرورت کو جس عمدگی، جس جامعیت اور جس consistency کے ساتھ پورا کیا ہے، اور دین کے فہم، دین کے احکام اور دین کے عقائد کو، عمل کی ڈوری میں پرونے کا کامیاب مشن انجام دیا، اس کی افادیت اب پتا چلے گی کہ جب اجتماعیت کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں ہرایئرپورٹ پر واپس کیے جائوگے، تب اس بات کا احساس ہوگا کہ اگر ہم ایک اجتماع میں ڈھل چکے ہوتے، ہم اپنی مثبت سوچ کے ساتھ اپنی اجتماعی تشکیل اور اس اجتماعی تشکیل کی برکات دُنیا کو دکھا چکے ہوتے، تو آج اس طرح ذلیل نہ ہورہے ہوتے۔
آج سماجی اور ریاستی سطح پر وہ ماحول ہے کہ نظام بدلے بغیر فرد کا ’تزکیہ‘ ناممکن ہے۔ سیاسی نظام، حکومت، ریاست ان سب کا امتزاج (Synthesis) نہ ہوا، تو اب فرد کا ’تزکیہ‘ بھی ناممکن ہوکر رہ گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انکارِ دین کے اتنے مظاہر پیدا ہوچکے ہیں ، اور دین کو چھوڑنے کے اتنے وسیلے پھیل چکے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اس بہائو میں بہنے سے روک نہیں سکتا۔ اس بہائو کے سامنے روک لگاکر دوسرے چشمے سے ہمیں پانی جاری کروانا ہے۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ ریاستوں کی یکجائی، یکسوئی اور مکمل شمولیت اور نظام کے اسلامی ہوئے بغیر یہ ہوسکے۔
مولانا مودودی کی منطق آج سمجھ میں آتی ہے۔ مولانا کا جو یہ پیغام ہے یا ان کی دینی فکر کا یہ خلاصہ ہے کہ ’’انسان پر اثرانداز ہونے والے آرڈر (نظام)کو بدلو۔ وہ آرڈر اگر ٹھیک ہوگا تو آدمی بھی ٹھیک ہوگا‘‘۔ وہ آرڈر اگر بے حیائی وغیرہ کو مسلط کیے رکھے گا، تو میں کب تک دوسری نظر ڈالنے سے بچ سکوں گا۔ میں کہتا ہوں کہ آج ہم نہیں بچ سکتے۔ مطلب یہ کہ سوسائٹی اسلامی ہو ہی نہیں سکتی، جہاں ڈھیلے ڈھالے معنی میں دوسری نظر سے مرد کا روکنا آسان نہ ہو۔ دوسری نظر سے مراد وہ حدیث ہے کہ پہلی نظر مباح ہے اور دوسری نظر کا وبال ہے۔ اب آپ اس سے کہاں تک بچیں؟
دین کی تمام اقدار، تمام نفسیاتی اصول اور اخلاق کی تعمیر کرنے والے تمام احکام، روزانہ قدم قدم پر سامنے آنے والی معذوری کی نذر ہورہے ہیں۔ ہمارا پورا دین معذوری کی نذر ہو رہا ہے اور اس پر تجدد کے حلقوں میں جیسے خوشی کی لہر دوڑی ہوئی ہے کہ وہ دین کے دائرۂ اثر اور دائرۂ کار کو محدود سے محدود تر کرتے جائیں اور سکیڑتے چلے جائیں اور وہ یہ کر رہے ہیں۔ ایمانی حرارت اور روح کے مطابق اس احساس کی اہمیت کو اُجاگر کرنا، دین کے ہر دعوے دار پر لازم ہے۔ مولانا مودودی کا اُمت پر ایک بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے اس فکرمندی کو پروان چڑھایا۔
بلاشبہہ میں مولانا کی فکر کے کئی بنیادی اجزا سے اختلاف رکھتا ہوں، لیکن اس کے باوجود ان کا یہ احسان سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ہماری دین داری کے پورے اسٹرکچر [ڈھانچے اور ہیکل] کو اس نالائق قوم میں تعمیر کرکے تو دکھا دیا۔ اب چاہے اس سائبان میں کوئی رہنے آئے یا نہ آئے، وہ ان کا کام نہیں ہے۔ اس لیے ایک تو یہ کہ دین کی کلیت اور اس کے حصول کے عملی اور فکری راستے مولانا کے علاوہ کہیں نہیں ملیں گے، پورے اسلامی لٹریچر میں نہیں ملیں گے۔
اپنی دانست میں آپ کے سامنے مولانا مودودی کی نثر پہ بات کر رہا ہوں۔ ان کے ہرمضمون کی روح اور مرکزی خیال دعوتِ انقلاب ہے۔ ان کی ہربات کے پیچھے mother meaning یہ ہے کہ ’خود کو مکمل طور پہ بدلو اور دُنیا کو مکمل طور پہ بدلو‘۔ اب یہ فکر اپنے آپ کو ادبی خرابیوں سے بچاتے، اخلاقی نقائص سے محفوظ رکھتے ہوئے اور اپنے مخاطب کی تحقیر کیے بغیر بھی کس طرح کی نثر میں بیان ہوسکتی ہے؟ دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ انقلابی بنیادی طور پر سخت دل اور بہت اُجڈ ہوتا ہے، وہ چاہے کوئی ہو۔ وہ مخاطب کو بے قیمت، کم فہم اور فکرودانش سے عاری مخلوق کی طرح سمجھتا ہے۔ مگر معروف انقلابیوں کی یہ مسلّمہ بیماری، مولانا مودودی کے نثری اسلوب اور ان کے دلائل میں کہیں نظر نہیں آتی۔
پھر یہ کہ ہرانقلابی کی سب سے بڑی دلیل وہ خود ہوتا ہے، یعنی خود کو بنا کر پیش کرتا ہے۔ مولانا کے ہاں یہ ’خود‘ غائب ہے۔ مولانا کی تحریر میں، ان کی گفتگوئوں میں، ان کی نشستوں میں وہ موضوعِ گفتگو بننے سے مکمل گریز کرتے تھے۔ میں نے کم لوگ دیکھے ہیں جو اپنی تعریف برداشت نہ کرتے ہوں اور غیبت کو اپنی مجلس میں دَر آنے کی اجازت نہ دیتے۔ مگر مولانا کا یہ کرامت کے درجے کو پہنچا ہوا مزاج تھا۔ برصغیر کی تاریخ میں سرسیّد کے بعد مولانا کو بدترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس میں بہتان، اتہام کی انتہائوں کو دیکھنا پڑا۔ یہ تو ہمارا مذہبی اور سیاسی کلچر ہے کہ مخالف کو متہم کرو، اس پر کوئی بھی بدترین بہتان لگائو۔ مولانا پر کیا کیا بہتان نہیں لگائے گئے؟ لیکن انھوں نے کسی کا نوٹس نہیں لیا اور پھر یہ کہ بہتان لگانے والے کا ذکر اگر ان کی محفل میں آجاتا تھا تو کہتے تھے کہ چھوڑیں! کوئی اور بات کریں۔ جو لوگ مولانا سے ملے ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں۔ وہ کبھی کسی کے بارے میں کوئی ہلکی بات نہیں کہتے تھے۔ کبھی کسی غائب آدمی کے بارے میں ذاتی شکایت کی بات نہیں سنتے تھے۔کوئی ان کے سامنے یہ بات کَہْ ہی نہیں سکتا تھا اور اپنا فقرہ مکمل نہیں کرسکتا تھا۔
یہ وہ انقلابی ہے جو وارثِ انبیاؑ ہوتا ہے۔ انبیاؑ اپنے آپ کو عاجز بندے کی طرح مرکزِ ایمان بناتے ہیں۔ اس سے آپ انبیاؑ کی مشکل کا اندازہ کیجیے۔اپنے آپ کو غیرمشروط طور پر منوانے کا جو انداز ہے، وہ انبیاے کرامؑ عاجزی کے ساتھ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے اس اتباع کا جو بڑا نمونہ ہمارے ہاں پایا جاتا ہے، وہ مولانا مودودی ہیں۔
مولانا بنیادی طور پر خطیب نہیں تھے، ان کی دعوت کا بہت کم حصہ تقریری ہے، دراصل وہ تحریر کے آدمی تھے۔ ان کی تحریر میں سب سے بڑا ادبی وصف یہ ہے کہ یہ ایک طرح سے ’سہل ممتنع‘ میں لکھی گئی نثر ہے۔ ’سہل ممتنع‘ شاعری کی اصطلاح ہے، لیکن اگر یہ اصطلاح کسی کی نثرپر وارد کی جاسکتی ہے تو وہ مودودی صاحب کی نثر ہے۔
’سہل ممتنع‘ کسے کہتے ہیں؟ اسے یوں سمجھیے کہ اگر آپ کسی کو یہ کہیں کہ ’کھانا تناول فرما لیجیے‘ تو وہ کہے گا کہ یہ جملہ بڑا مشکل ہے۔ لیکن ’سہل ممتنع‘ اسے کہتے ہیں کہ سنتے اور لکھتے اور پڑھتے وقت کوئی قول یا کوئی شعر یا کوئی بیان ایسا لگے کہ اس کے پیچھے جھانکنے کی ضرورت ہی نہ محسوس ہو۔ پہلے ہی تاثّر میں فرد کَہْ دے کہ ’یہ تو مَیں بھی کہہ سکتا ہوں‘، لیکن آپ لکھنے یا کہنے بیٹھیں گے تو آپ کو یوں لگے گا کہ آپ کو عمرنوح بھی مل جائے تو نہیں کَہْ سکتے۔ اسے ’سہل ممتنع‘ کہتے ہیں۔
مولانا کی نثر پر یہ اصول وارد کرکے دیکھیے تو ان کی ایک کتاب: اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے علاوہ مولانا کے ہاں نثر کا اصطلاحی انداز نہیں ہے۔ یہ تھوڑی مشکل کتاب ہے۔ اور باقی ہرجگہ پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ میں پوری بات سمجھ گیا ہوں اور یہ کہ مجھے اس فقرے یا پیراگراف کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے احساس میں صحیح ہوتا ہے کیونکہ مولانا کو پڑھنے والا ان کی بات کو سمجھنے کا اعتماد پیدا کرلیتا ہے اور اسے متن پر دوسری نظر ڈالنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ تاہم، دیکھیں تو آج کل جماعت اسلامی کے اکثر لوگ مولانا کی تحریروں پر پہلی نظر ڈالنے سے بھی دُور دکھائی دیتے ہیں۔ بات ہورہی تھی کہ انھیں پہلی بار ہی پڑھتے ہوئے پتاچل جائے گا کہ جو مفہوم میں نے سمجھا ہے وہ صحیح ہے، کامل نہیں ہے۔ یہ نثر کا کمال ہوتا ہے کہ آپ غلط مفہوم اخذ نہیں کریں گے لیکن جو مفہوم بھی آپ اخذ کریں گے، وہ صحیح اور آپ کے لیے کافی ہونے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔ میں ایک مثال عرض کرتا ہوں۔
مولانا کا ایک مضمون نیاز فتح پوری [م: ۱۹۶۶ء]کے رَد میں ہے اور ان کے دورِ جوانی کا لکھا ہے۔ اس کا عنوان ہے: ’تجدد کا پائے چوبیں‘۔ اس لفظ کو لغت میں دیکھنے کی ضرورت ہوگی تو وہاں سے دیکھ لوں گا۔ لیکن اگر یہ لفظ کہیں سکول میں سیکھا اور پڑھا ہوا ہے تو میں اس عنوان کو پڑھ کر ٹھٹھک نہیں جائوں گا اور یہ عنوان کسی چیلنج کی طرح نہیں لگے گا، بلکہ بے ساختہ داد دوں گا کہ واہ! کیا عنوان ہے لیکن یہ تب ہوگا، جب آپ کو ’پائے چوبیں‘ کی بنیاد اور اصل کا پتا ہے، اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ مولانا نے یہ لفظ کہاں سے لیا ہے؟ اور پھر وہ تجدد کو اس سے کیوں نسبت دے رہے ہیں؟ مگر افسوس کہ آج عام صلاحیت کا آدمی یہ نہیں دریافت کرسکتا، اگرچہ یہ ہے ’سہل ممتنع‘۔
اسی طرح ان کے کچھ مشہور فقرے ہیں، جیسے ’آج کل کے الیکشن شکاری کتوں کی دوڑ ہیں‘،یا ’یہ انتخابی نظام ایسا ہی ہے کہ زہریلے دودھ کو بلو کر جو مکھن آپ نکالتے ہیں، یہ پارلیمنٹ اس زہریلے دودھ کا مکھن ہے‘۔ آپ اس جملے سے خوش بھی ہوگئے اور آپ کو یہ بھی لگا کہ اس پہ شعر کی طرح واہ واہ کہنی چاہیے۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں آپ کو ایک گہری علمی رمز کے ساتھ ساتھ مزاح کی چاشنی بھی محسوس ہوگی۔ ’مزاح‘ اس چیز کو کہتے ہیں کہ بڑی سے بڑی بات کو ہنستے کھیلتے بیان کر دینا۔ مولانا کے ہاں یہ خوبی بھی موجود ہے۔ بہرحال، اگر آپ شاعری کی روایت کو تھوڑا سا جانتے ہیں تو یہ دیکھیں کہ مولانا جلال الدین رومیؒ [م: ۱۲۷۳ء]نے فرمایا تھا:
پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود
یعنی یہ جو دین کو فلسفہ بنانا چاہتے ہیں، ہربات پر استدلال کروانا چاہتے ہیں، یہ جس جگہ کھڑے ہیں اور جس پائوں پہ کھڑے ہیں، وہ لکڑی کا ہے، اور لکڑی کا بنا ہوا پائوں زیادہ دیر تک تمھارا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، وہ اس رفتار سے چل نہیں سکتا۔ اب اس فہم کے ساتھ یہ عنوان جیسے جگمگانے لگتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری مذہبی نفسیات کے منفی پن کا ازالہ بھی کرسکتا ہے۔ مولانا رومی اور مولانا مودودی دونوں بالکل الگ شخصیتیں ہیں۔ مگر یہاں ان دو انتہائی مختلف شخصیتوں میں ایک زندہ اور پسندیدہ ربط آپ کو اپنے اندرمحسوس ہوگا۔
مولانا مودودی کی نثر کے ایک اور وصف کا ذکر کرتا ہوں:
اچھی نثر کی یہ خوب صورتی ہے کہ لکھنے والا اپنی شخصیت کا پورا اظہار کردے۔ جیسے شاعری کا یہ عیب ہے کہ آدمی اپنی شخصیت کے گرد گھومتا رہے، لیکن نثر میں یہ خوبی ہے کہ آپ اپنی شخصیت کا پورا اظہار کرنے کے لائق ہوجائیں، اور آپ کی نثر صیغۂ واحد متکلم کو استعمال کیے بغیر آپ کا پورا تعارف کروا دے۔ مولانا کی نثر اس معیار پہ پوری اُترتی ہے۔
رومن فلاسفر کیسیس لونجاینس [م: ۲۷۳ء] نے لکھا تھا کہ ہومر [م: اندازاً ۶۰۰ ق م] کے یہاں اگرچہ لفظ ’میں‘ نہیں ہے، لیکن اس کی ہر تحریر کا منبع وہ خود ہے۔ ہومر وہ شخصیت ہے کہ جس کا نام آدمی بہت احترام کے بغیر لے نہیں سکتا، خواہ وہ شیکسپیئر [م: ۱۶۱۶ء] ہی کیوں نہ ہو۔ لونجاینس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کام دراصل اس کا نام آئے بغیر اس کا کامل اظہار ہے۔ وہ اپنے تحریری کام میں کہیں موجود نہیں ہے۔ اس کے کام میں کبھی ’مَیں‘ کا صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ ’مَیں‘ جب بھی استعمال ہوا ہے، وہ کسی کردار کا حصہ ہے، لیکن اس کا سارے کا سارا کام خود ہومر کا اظہار ہے۔ وہ ہومر کہ جس کی شخصیت نے یونانی تہذیب کا سنگ ِ بنیاد رکھا ہے۔
نثر کی اس تعریف کو اگر ذہن میں رکھ کر مولانا کی نثر کا تجزیہ کیا جائے، تو مولانا اپنی علمی تحریروں میں جہاں کہیں بھی صیغۂ واحد متکلم استعمال کرتے ہیں، وہ ایک واقعاتی پس منظر میں ہوتا ہے۔ فلاں نے مجھ سے یہ پوچھا یا فلاں کو میں نے یہ جواب دیا۔ یہ سب ایک واقعاتی یا ایک معمول کی شخصیت کا ’میں‘ ہوتا ہے۔ وہ جہاں جہاں بھی بڑی باتیں کرتے ہیں، وہاں وہ خود کو مکمل طور پہ اس سے علیحدہ رکھتے ہیں، مطلب یہ کہ متن کا حصہ نہیں بنتے۔ متکلم اگر اپنے متن سے باہر نکلا رہے تو اس سے بڑا نہ کوئی آدمی ہوتا ہے، اور نہ اس سے بڑا کوئی کرافٹ مین [استاد کار اور ہنرشناس] ہوتا ہے۔
مولانا مودودی کی نثر ان کی شخصیت کو سمجھنے اور جاننے میں معاون ہے۔ خیالات تو چھوٹے لوگوں کا تعارف ہوتے ہیں۔ اپنی ذات سے مکمل بے نیازی اور لاتعلقی ان کی اتنی سچی تھی، اتنی استقامت کے ساتھ تھی کہ یہی بے نفسی اور یہی بے خودی ان کے اسلوبِ تحریر سے چھلکتی ہے۔ دراصل مولانا نے خود کو چھپا کر اپنے آپ کو ظاہر کیا ہے اور جو آدمی اپنے چھپائو کے ساتھ اظہار کی قوت پاجائے، اس سے زیادہ ظاہر کوئی نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر مولانا کے Major Themes یا برتر اور بنیادی مضامین اور ان کی فکر کے بنیادی اجزا کا بیان ان کے قلم سے پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مولانا سوچ کر نہیں لکھ رہے۔ وہ اپنے خیال کو بحث و مباحثہ کرلینے کے بعد اس کا اظہار نہیں کررہے، بلکہ وہ کسی divine trance [ربّانی تفکر] میں لکھ رہے ہیں۔ مولانا کی اس نثر کابہائو ایسا ہے کہ وہ عمومی اظہارِ خیال کا بہائو ہو ہی نہیں سکتا۔ایسا بہائو کہ جو ادراک میں نہیں ہوسکتا۔ وہ بہائو جب ادراک میں نہیں ہوسکتا تو پھر اظہار کے پیکر میں کیسے آسکتا ہے؟ ذہن میں رہے کہ آدمی نقطوں میں سوچتا ہے اور پھر جب کچھ نقطوں کو جوڑنے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو ان کو بیان کردیتا ہے۔ لیکن یہ بہائو ایک لکیر کی طرح، ایک رودِآب کی طرح کہیں سے بھی رخنہ ڈالے بغیر چلتا چلا آرہا ہے۔ دراصل یہ چیز اللہ سے تعلق کے بغیر، اللہ پر خود کو نثار کیے بغیر، اللہ کی کتاب کو اپنے لیے کتابِ وجود بنائے بغیر ممکن نہیں ہے۔
گویا متکلم ہی کلام ہے۔ مولانا کی فکر، تکلم اور اظہار میں آکر ان کے اس مرتبے پر زیادہ شہادت دیتی ہے کہ یہ شخص روایتی اصطلاح میں فنا فی اللہ ہے۔ فنا فی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ فرد کی انتہائی جبری خواہشات بھی اللہ کے لیے پسندیدہ بن جائیں۔ بہت چھوٹی چھوٹی خواہشات بھی اللہ کی خوش نودی کی اطمینان بخش ضمانت بن جائیں۔ ایسا شخص فنا فی اللہ ہوتا ہے۔ جیسے ہم سب نے دیکھا ہے کہ مولانا کی یکسوئی، ان کی consistency [ثابت قدمی] اور دُنیا سے بے رغبتی درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ بڑی واضح سی بات ہے کہ دین آپ کو اپنا جزوی یا چھوٹا یا بڑا ترجمان بنا ہی نہیں سکتا۔ وہ آپ کو ترجمانی کے منصب پر بیٹھنے بھی نہیں دے گا چاہے وہ جمعہ کا وعظ کہنے کے لیے ہو، جب تک کہ آپ کا دل دُنیا سے بے رغبت نہیں ہوتا۔ دُنیا سے بے رغبتی شرطِ دین ہے۔ دُنیا سے بے رغبت ہوئے بغیر اسے بدلا نہیں جاسکتا۔ یہ مولانا کی زندگی، ان کی تحریر اور اس تحریر میں ان کی اپنی طرف سے چھپائی ہوئی شخصیت کا اللہ کے فضل سے اظہار ہے، اور یہ بہت بڑی بات ہے۔
ایک سادہ سا قاعدہ ، ادب پڑھنے والوں کو معلوم ہے۔ اچھی نثر کی چھے قسمیں یا جہتیں ہوتی ہیں ، یا چھے طرح کے نثری اسالیب ہوتے ہیں۔ انھی میں ایک اسلوب ہے: ’نثرِ مرسل‘۔ ’نثرِ مرسل‘ کسی ایسی نثر کو کہتے ہیں، جس کو کسی آرایش کی ضرورت نہ ہو، جس کو کسی رُموز اوقاف کی حاجت نہ ہو، جسے متکلم اس اعتماد کے ساتھ لکھے اور کہے کہ میں نے اپنا مُدعا پورا بیان کر دیا ہے اور یہ پورا مُدعا بغیر کسی تفریق کے میرے تمام قارئین تک منتقل ہوگیا ہے۔ ارسال اور ترسیل کرنا، یہ ’نثرِ مرسل‘ ہے۔
درحقیقت اُردو کی ’نثرِ مرسل‘ کا بہترین نمونہ، مولانا مودودی کی نثر ہے۔ یہ کیوں بہترین نمونہ ہے؟ ایک تو ’نثر مرسل‘ یہ ہے کہ میں آپ کو لکھ کر دے دوں کہ آپ فلاں جگہ آجایئے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو فلاں جگہ کا پتا ہے لیکن ایک آدمی کہتا ہے کہ ’آجائو فلاح کی طرف‘۔ اس میں اظہارِ مُدعا پورا ہے۔ اس کا فہم منحصر ہے آپ کے فہم فلاح پر۔ مولانا مودودی کی ’نثر مرسل‘ اس دوسری نوع کی ’نثرمرسل‘ ہے، جہاں وہ پورے اعتماد سے بات کرتے ہیں کہ انھوں نے پوری بات کَہ دی ہے، اور ان کے قریب والے جو اس زمانے میں ان کے مخاطب تھے، وہ ان کے اس اعتماد کو تقویت پہنچاتے تھے۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ قاری نے کیا سمجھا ہے؟ اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہ بات میں ایک خاص وجہ سے عرض کر رہا ہوں۔ جس تہذیب میں لفظ اور کمیونی کیشن کرپٹ ہوجائے، Vulgar [ذلیل] ہوجائے، Profane [بے ہودہ اور ناپاک] ہوجائے، اس تہذیب کے زندہ رہنے سے، اس تہذیب کا مرنا اچھا ہے۔ جہاں آدمی کا تعلق لفظ کے ساتھ صرف بازار سے سودا خریدنے کی صلاحیت تک محدود ہوکر رہ جائے، تو اسے خود کو آدمی کہلانے کا حق نہیں ہے۔ آدمی وہی ہے، جو لفظ کو اپنی تہذیبی تعمیر کی بنیاد بنانے پر قادر ہو۔جو لفظ میں موجود معنوی امکانات کو تجربے میں ڈھالنے کے لائق ہو۔ جو لفظ میں حاضر و موجود معنویت کو سمجھ کر، اس معنویت میں اپنے تخیل یا عمل وغیرہ سے اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ سب کہاں ہے؟
جماعت اسلامی کے وابستگان میں آج کتنے لوگ ہیں جو مولانا مودودی کی فکر سمجھتے یا ان پر وارد ہونے والے اعتراضات کا دفاع کرسکتے ہوں؟ ایک ایسے آدمی کی فکر کا دفاع کہ جس نے دُنیا میں موجود کسی بھی بڑے فکری،علمی، عملی اور تہذیبی تھیم کو نظرانداز نہیں کیا تھا۔ دُنیا پر اثرانداز ہوسکنے والے کسی بھی نظریے کے چیلنج کو انھوں نے قبول کیا اور اس کا جواب حددرجہ متانت اور مسکت دلائل سے دیا۔ بڑھیں ہانک کر یا نعرے لگا کر نہیں، بلکہ متانت سے جواب لکھا اور جواب ایسا ہے کہ جو خود اس نظریے کے قائل کئی لوگوں کی اصلاح بھی کردیتا تھامگر اب وہ معاملہ نہیں رہا۔
میرے مشاہدے میں ہے کہ مولانا پر بہت سے اعتراضات چاہے، وہ معاندانہ اعتراضات ہوں اور چاہے وہ مخلصانہ اور محققانہ اعتراضات ہوں، ان کا جواب نہیں آرہا، اور اس کا جواب اس لیے نہیں آرہا کہ اب جیسے یقین کرلیا گیا ہے کہ انقلاب وغیرہ کو چھوڑو، بس تھوڑا بہت نظام میں اختیار حاصل کرلو تو یہی کافی ہے۔ میں موجودہ جماعت اسلامی کے وابستگان سے اس بات کی شکایت رکھتا ہوں کہ انھوں نے مولانا کی علمی وراثت کو بہت ثانوی اور نچلے درجے پر رکھ دیا ہے۔ کوئی علمی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ علمی وراثت نہ نبھا سکے کہ وہ صلاحیت کی بات ہے، وہ چلو مان لیا۔ لیکن ان کی کرداری وراثت کے تسلسل میں بھی موجودگی نہ ہو تو پھر وجود کے جواز کا سوال پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر اپنے بانی کے کرداری تسلسل کو افراد محفوظ نہیں رکھے ہوئے ہیں تو پھر بہت خوف ناک بات ہے۔
مولانا مودودی سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ ’’آپ اتنی بڑی بڑی باتیں بہت آسانی سے کس طرح لکھ لیتے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’خیالات اپنے اظہار کا سانچا خود لے کر آتے ہیں، یعنی خیالات جن الفاظ سے مناسبت رکھتے ہیں وہ خیالات انھی الفاظ میں آتے ہیں، اور انھی کو لکھ دیتا ہوں‘‘۔ بظاہر یہ سادہ سی بات ہے، لیکن ایک بہت بڑے لسانیاتی قانون کی بنیاد ہے۔
یہ وہ سطح ہے، جہاں معانی اور لفظ، essence [جوہر] اور form [شکل] اپنی دوئی کو ختم کرکے ایک زیادہ برتر وحدت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسے لفظ الگ ہے اور معنی الگ ہے۔ یہ اللہ کی عطا ہے کہ ایک آدمی ایسی صلاحیت ِادراک اور ایسی قدرتِ اظہار کے ساتھ آتا ہے کہ وہ لفظ اور معنی کی دوئی کو ختم کرکے انھیں اللہ کی طرف سے بنائی گئی ایک وحدتِ حقیقی کا حصہ بنادیتا ہے۔ جو اس دوئی کو ختم کردے، وہ زبان کا احسان مند نہیں ہے بلکہ زبان کا محسن ہے، اور جو اس دوئی کو ختم کردے، وہ ذہن کا محتاج نہیں ہے بلکہ ذہن کا مربی ہے۔ اور مولانا مودودی، لفظ، زبان، خیال اور اظہار کی وحدت پر قادر تھے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ زندگی میں انسان بہت سے اُتارچڑھائو، صدمات اور خوشیوں کو قریب سے دیکھتا اور برداشت کرتا ہے۔ لیکن بعض واقعات اور حوادث اس قدر گہرے اور دُوررس اثرات کے حامل ہوتے ہیں کہ حیرت اور صدمے کے الفاظ ان کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ اس کیفیت میں بالخصوص اپنے دوستوں، رفیقوں اورمحترم شخصیتوں کی جدائی بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔
۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۱ء کو پاکستان کے مایہ ناز سائنس دان جناب عبدالقدیرخاں کا انتقال ہوا تو لوحِ ذہن پر واقعات و حوادث کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اُبھر آیا۔
یہ ۱۹۵۲ء کی بات ہے، جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کا ناظم تھا۔ تب، کھوکھراپار کے راستے، بے سروسامانی کے عالم میں بھوپال سے ہجرت کرکے آنے والے ایک درازقامت طالب علم سے ملاقات ہوئی۔ جس کی شرافت، نجابت اور شائستگی کا نقش پہلی ملاقات ہی میں ثبت ہوگیا۔ یہ نوجوان طالب علم ڈی جے سائنس کالج میں ایف ایس سی میں زیرتعلیم تھا اور والدین و اساتذہ کی دینی تربیت کے باعث، جمعیت کے رفقا سے قریب تر ہوگیا۔ آگے چل کر یہی نوجوان ڈاکٹر اے کیوخاں کے نام سے پاکستان کے جوہری پروگرام کا سرتاج بنا۔
اُس زمانے میں عبدالقدیر خاں کی وابستگی جمعیت کے اجتماعات میں شرکت، ہمارے ترجمان Student's Voice کی اشاعت و ترویج، مستحق طالب علموں کی تعلیمی مدد اور سماجی سرگرمیوں میں ہم قدم ہونے تک تھی۔ اسی دوران ایک روز انھوں نے مجھ سے کہا: ’’میں جمعیت کا رُکن بننا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے اُن کے ذوقِ مطالعہ کو جاننے کے باوجود یہ کہا کہ ’’نصاب رکنیت کی مزید کتب کا مطالعہ کرلیجیے‘‘۔ تاہم، بعد میں وہ تنظیم میں اور زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے، لیکن جمعیت کی اجتماعی سرگرمیوں سے اپنے زمانۂ طالب علمی میں وابستہ رہے۔ تعلیم مکمل کرکے پہلے مقامی طور پر کراچی میں ملازمت کی اور بعد میں بیرونِ پاکستان چلے گئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیرخاں کے احوالِ زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ لیکن یہاں میں ان کے بارے میں ان کی زندگی کے چند ایسے اوراق پیش کرنا چاہتا ہوں ، جو لکھنے والوں کی نظروں سے بالعموم اوجھل رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سب سے پہلے ۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر صاحب کو ایٹمی پروگرام سے متعلق قومی ادارے KRL کی سربراہی سے سبک دوش کرکے صدر کا مشیر مقرر کیا گیا۔ مگر ۳۱جنوری ۲۰۰۴ء کو انھیں اچانک اس منصب سے الگ کرکے نظربند کردیا گیا، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھیں امریکا کے حوالے کیے جانے کی باتیں منظرعام پر آئیں۔
ڈاکٹرصاحب کو نظربند کرنے کے بعد، ان کے خلاف کردارکشی کی مہم چلائی گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور کیسے ہوا؟ چونکہ یہ معاملہ بہت نازک ہے، اس لیے اپنی روایت سے ہٹ کر، سینیٹ آف پاکستان میں اپنی چند تقریروں کے اقتباسات، سینیٹ کے ریکارڈ سے پیش کر رہا ہوں، جن سے معاملے کی نزاکت کی تفہیم ممکن ہوسکے گی۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اس سے قبل ’ڈی بریفنگ‘ (De-briefing) کا معاملہ شروع کیا گیا تھا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ڈی بریفنگ صرف جاسوسوں کی ہوتی ہے لیکن ہم نے اس اصطلاح کو اپنے ان محسنوں کے لیے استعمال کیا ہے، جو اس ملک کی سلامتی و خودمختاری اور اس کے دفاع کو مؤثر بنانے کے لیے ہرقیمت پر قربانی دیتے ہیں۔ پھر ’ڈی بریفنگ‘ کے اس نام نہاد عمل کو بھی ہم نے بالاقساط کیا۔ پہلے تو دو سائنس دانوں کو اُٹھایا اور کہا کہ ’’اے کیوخان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔ لیکن پھر جس شخص نے اس ملک پر سب سے بڑا احسان کیا اور جس نے اس کے لیے بڑی قربانیاں دیں، اس کو تسلسل سے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ سارے اقدامات نہایت ہی اہانت اور ذلت آمیز طریقے سے کیے گئے۔ یہ مسئلہ اپوزیشن یا محض حکومت کا بھی نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ حکومت، فوج، پارلیمنٹ ہم سب کا مشترک معاملہ ہے۔ اس ملک کا تحفظ اور اس کی ایٹمی دفاعی صلاحیت کا تحفظ ہی نہیں اس صلاحیت کی ترقی بھی ہمارا مشترکہ ایجنڈا ہے۔ اس لیے کہ دفاعی صلاحیت ایک منجمد نہیں بلکہ متحرک تصور ہے۔ اس پر حالات کی مناسبت سے نظرثانی کرنی پڑتی ہے، وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے ہوئے اس کے لیے تحقیق و ترقی کا انتظام ناگزیر اور ضروری ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے سائنس دانوں کا تعاون اور ضروری وسائل کی فراہمی اور وہ تمام طریقے اختیار کرنا ضروری ہیں، جو دُنیا کی پابندیوں کے باوجود ہم نے اپنی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ماضی میں بھی کیے ہیں اور آیندہ بھی کرنے پڑیں گے۔
یہ بڑی زیادتی اور بڑا ظلم ہے، جو آپ ان محترم سائنس دان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ جو شخص باہر کی ایک بڑی تنخواہ چھوڑ کر اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ، اپنے ملک کو بچانے کے لیے آیا، وہ بلاشبہہ سائنس دانوں اور انجینیروں کی ایک ٹیم کا حصہ ہے۔ اس ٹیم میں جو جوہری قائد تھے، ان کا نام ڈاکٹر اے کیوخان ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ آپ ایک طرف اس کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ یہ میرا ’ہیرو‘ ہے۔ یہ کون سا طریقہ ہے؟
میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں فوجی قیادت اور عوام کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے۔ اے کیوخان اور ان کے ساتھی سائنس دان قوم کے ہیرو اور محسن ہیں۔ آج تک وژن یہ تھا کہ سائنس دان، اے کیوخان اور فوجی قیادت ساتھ ساتھ ہیں اور سب احترام کی نظر سے دیکھے جارہے تھے لیکن آج آپ نے ان کے درمیان ایک تصادم پیدا کرکے پوری قوم کے سامنے اس وژن کو منتشر کردیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خاں ایک قومی اثاثہ اور ہمارے محسن ہیں۔میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ان پر کیا الزامات لگائے گئے ہیں اور ان الزامات کی حقیقت یا پس منظر کیا ہے اور کون کیا کھیل کھیل رہا ہے؟ اس وقت میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارا ایک بہت بڑا قومی اثاثہ ہیں اور اس کو اس طریقے سے نظربند رکھنا اور معقول علاج معالجے کی سہولتیں نہ دینا، ایک قومی جرم ہوگا۔اس لیے دردمندی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم یہ مسئلہ پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر اُٹھائیں۔ بلکہ یہ کہوں گا کہ اسے پوری اُمت مسلمہ کے ایک مسئلے کے طور پر لیں، اس لیے کہ ڈاکٹر خان صرف پاکستان کا نہیں پوری اُمت مسلمہ کا اثاثہ ہیں۔
ماضی میں جو کچھ ہوا ، وہ اپنی جگہ ، لیکن ان کی جان بچانا، ان کو مناسب سہولتیں دینا، اور حبس اور گھٹن کی کیفیت سے نکالنا جس میں وہ گرفتار ہیں، ہماری ذمہ داری ہے۔ میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور قوم کے جذبات کا احترام کرے۔ بیرونی حکومتوں کے اپنے مفادات ہیں۔ جوہری افزدودگی کے حوالے سے کس کس نے کیا کیا ہے، یہ آپ کو معلوم ہے۔ اب تو یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ بھارت اس میں ملوث ہے۔ دوسری جانب آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ جنوبی کوریا اپنے وسائل سے اس کام کو کر رہا ہے لیکن ایک خاص سیکنڈل کے ذریعے جنوبی کوریا کے ساتھ ہمیں ملوث کیا جارہا ہے۔ تاہم، میں مطالبہ کروں گا کہ حکومت اس ایوان میں ہمارے سامنے سارے حقائق رکھے۔
حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ ’’ہم نے ڈاکٹر اے کیوخان کی رہایش کے باہر جو مشین لگائی ہے یہ ان کی حفاظت کے لیے ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ان سے ملنے کے لیے کوئی نہیں آسکتا‘‘۔ مزید یہ کہ ’’بیوی اور شوہر وہاں رہ رہے ہیں اور ان سے صرف ان کی بیٹی مل سکتی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ نواسی کو کیوں نہیں آنے دیا جاتا۔ کیا وہ اپنے نانا کو مارنے کے لیے کوئی اسلحہ، کوئی ہتھیار لائے گی؟ چلیے میں سیکورٹی کے لیے نگرانی کے ایک نظام کی ضرورت مان لیتا ہوں، لیکن مسئلہ ہے ملاقاتوں سے منع کرنے کا، ذہنی اذیت اور قید تنہائی کا اور طرح طرح کی ان دھمکیوں کا جو ڈاکٹر صاحب کو دی جارہی ہیں۔
یہاں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جناب جنرل پرویز مشرف نے دی گارڈین [لندن] کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں سرعام یہ بات کہی ہے کہ ’’اے کیوخان کا مسئلہ ختم ہوگیا‘‘۔ اس سے پہلے انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ ’’ان پر صرف ملک سے باہر جانے پر پابندی ہے، ملک میں نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے‘‘۔ [فوجی ترجمان]شوکت سلطان صاحب نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ’’ان کے اعزہ ان سے مل سکتے ہیں‘‘ لیکن میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ ان کے قریبی اعزہ، حتیٰ کہ ان کی بہن اور بھائی تک کو ملنے نہیں دیا گیا۔ گذشتہ دنوں جب ایک اور سائنس دان ڈاکٹر فاروق کو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت رہا کیا گیا ہے تو ان کو بھی اپنے گھر میں نظربند کردیا گیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ’’اب یہ باب بند ہوچکا ہے‘‘، لیکن فی الحقیقت جو دبائو، اذیت اور جوسلوک ان لوگوں کے ساتھ کیا جارہا ہے وہ ایک قومی ذلّت ہے۔
بلاشبہہ ایٹمی ہتھیار کی تیاری ایک ٹیم کا کام تھا۔ اس میں کسی کو انکار نہیں ہے، سب کا حصہ ہے اور اسی لیے ہم تمام سائنس دانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب کارنامہ ڈاکٹر اے کیوخان کی سربراہی میں ہوا ہے۔ ہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ کس نے وہ نیا طریقہ ڈیزائن کیا اور اس ملک کو دیا۔ جس پروسیس کو امریکا نے اکیس سال میں حاصل کیا تھا، اس کی ٹیم نے سات سال میں کرکے اس قوم کو دے دیا۔ ایسے فرد اور اس جیسے افراد کی آج بھی ہمیں ضرورت ہے اور کل بھی ہوگی۔
خدا کے لیے امریکا پربھروسا نہ کیجیے۔ امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے کانگریس کی کمیٹی کے سامنے اپنے بیان کے اندر صاف الفاظ میں یہ کہا کہ ’’ہم نے یہ یقین کرلیا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے کبھی بھی کسی ایسے ہاتھ میں نہیں جاسکتے، جو اسے غلط استعمال کرسکے‘‘۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ امریکا کو کیا حق ہے اس بات کا اور امریکا کا یہ دعویٰ کہ ’’ہم نے یہ یقینی بنایا‘‘۔ پاکستان کا اپنا ’کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم‘ ہے اور وہ اچھا ہے اور اسے آیندہ بھی محفوظ ترین ہونا چاہیے لیکن امریکا کا یہ دعویٰ کرنا، بہت ہی خطرناک چیز ہے۔ ان حالات کے اندر میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر اے کیوخان کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے، وہ کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ خدا کے لیے وہ راستہ اختیار کیجیے جو قومی غیرت ہی نہیں قومی تحفظ اور سلامتی کا تقاضا ہے۔
میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اے کیوخان کو دی جانے والی سہولتوں کے بارے میں جو دعویٰ کیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ اخبار میں جو خبر آئی ہے وہ کچھ اور بتاتی ہے۔ آج کے نوائے وقت میں حکومت کی طرف سے جو ایک سطری تردید دی گئی ہے کہ اے کیوخان پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، میں اس کو چیلنج کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں جناب چیئرمین! کہ آپ کی سربراہی میں یا ڈپٹی چیئرمین کی سربراہی میں وسیم سجاد، ایس ایم ظفر، میاںرضا ربانی اور مجھے موقع دیا جائے کہ ایک وفد کی صورت میں ہم جاکر اے کیوخان سے ملیں اور پوچھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے، اور اس ہائوس کو آکر بتائیں کہ صورتِ حال کیا ہے؟خبر کی جھوٹی تردید اسی طرح کی جارہی ہے، جس طرح امریکا نے وزیرستان پر حملہ کیا اور ہمارے ترجمان نے تحقیق کے بغیر یہ کہتے ہوئے تردید کردی کہ نہیں یہ پاکستان کی سرزمین پر نہیں ہوا، جب کہ پولیٹیکل ایجنٹ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ پاکستان کی سرزمین پر ہوا ہے۔
یہی معاملہ اے کیوخان کے حوالےسے بھی ہورہا ہے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ تردید غلط ہے اور مطالبہ کرتا ہوں جناب چیئرمین، کہ آپ کی سربراہی میں ہم جانا چاہتے ہیں تاکہ انھیں ملیں اور دیکھیں کہ کیا پوزیشن ہے اور ایوان کو بتائیں اور اس طریقے سے اپنے ملک میں اپنے محسنین، اپنے سائنس دان جو پوری اُمت مسلمہ کا سرمایہ ہیں، ان کی حفاظت میں اپنا کردارادا کریں۔
یہ ایوان امریکی ایوانِ نمایندگان کے بعض ممبروں کی اس غیرضروری رائے زنی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جس میں انھوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں پوچھ گچھ اور تفتیش کے لیے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو امریکا کے حوالے کیا جائے۔
ہم اس اقدام کو پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کی صریح خلاف ورزی اور اپنے معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کا جوہری پروگرام ہمارے دفاع کے لیے انتہائی ضروری ہے اور کسی کے خلاف نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے اور بین الاقوامی سیاست میں اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔
ہم ڈاکٹر عبدالقدیرخان اوردیگر سائنس دانوں کی کردارکشی کی واضح الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، جس کا مقصد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ پاکستانی قوم ایٹمی ٹکنالوجی، ہتھیاروں کی تیاری اور توانائی کی سیکورٹی کے میدان میں قابلِ ذکر پیش رفت کے لیے اپنے سائنس دانوں کی مقروض ہے۔ تمام پاکستانی، اپنے سائنس دانوں کو احترام اورقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات ہیں اور میں اپنے تمام ساتھیوں کا بے حد ممنون ہوں کہ سینیٹ قوم کے ان جذبات کو زبان دے رہی ہے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم دنیا کے تمام ممالک سے دوستی اور تعاون کا تعلق رکھنا چاہتے ہیں لیکن عزّت کے ساتھ اور اپنی آزادی اور اپنی ریاست کی خودمختاری کے مکمل تحفظ کے ساتھ۔
امریکا نے جو یہ رویہ اختیار کیا ہے کہ وہ جس کی چاہتا ہے ٹانگ کھینچتا ہے، جس کی چاہتا ہے بے عزّتی کرتا ہے، جس ملک کی چاہتا ہے، خودمختاری کے خلاف اقدامات کرتا ہے اور پاکستان میں باجوڑ ہو یا ہمارے دوسرے علاقے ہوں، ان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پاکستان پر دبائو ڈالتا ہے۔
اس قرارداد کی صورت میں سینیٹ ایک بہت بڑی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ یہ اپنے سائنس دانوں کی عزّت، حفاظت اور اپنی خودمختاری کی حفاظت اور اعلان ہے کہ ہم ان معاملات کے اندر کسی کو مداخلت کرنے یا اپنے حقوق میں دست اندازی کرنے کا موقع نہیں دیں گے اور پوری دنیا کے مسلمان بلکہ پوری دنیا کے عوام اس استعماری کوشش کی مزاحمت کریں گے۔
سینیٹ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے، بلکہ میں کہوں گا کہ پورے ملک کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے میں نے اس قرارداد کو پیش کیا ہے۔
جناب چیئرمین! میں اپنی اس تحریک استحقاق میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ ڈاکٹر اے کیوخان میرے ذاتی دوست ہیں اور میرے ان کے اُس وقت سےروابط ہیں، جب وہ طالب علم تھے اور ہندستان سے آنے کے بعد میرے چھوٹے بھائی کی حیثیت سے ڈی جے کالج میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے یورپ میں قیام، پاکستان واپسی اور پھر آنے والے دنوں میں اس ملک کے لیے انھوں نے جو عظیم خدمات انجام دیں، اس پورے زمانے میں ہمارے بڑے گہرے اور اعتماد کے مراسم رہے۔ اگر آپ نے آج کے اخبار The Nation میں جنرل زاہد کا مضمون پڑھا ہو تو انھوں نے ہماری ایٹمی صلاحیت کی پوری کہانی بیان کی ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہمیں یہ جو استعداد حاصل ہوئی ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس شخص کو یہ توفیق نہ دیتا تو ہم کبھی حاصل نہیں کرسکتے تھے‘‘۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’میں (جنرل زاہد) اس پورے معاملے میں شروع سے لے کر آخر تک وابستہ رہا ہوں اور ان (ڈاکٹر عبدالقدیرخاں) پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ، ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس ساری بات کو ہرہرمرحلے پر پیش نظر رکھنا انتہائی اہم ہے‘‘۔
اس وقت ہمارا وہ محسن [اے کیوخاں] کینسر کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس ایوان نے ایک بار نہیں، کئی بار ان کی رہائی کا مطالبہ اور اس کی صحت یابی کے لیے دُعا بھی کی ہے۔ اسی پس منظر میں آپریشن کے بعد میں ان سے ملنے کے لیے جانا چاہتا تھا۔ میں چیئرمین سینیٹ،جناب محمد سومرو صاحب کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اس سلسلے میں ذاتی دلچسپی لی اور خود ٹیلی فون کیا۔ لیکن جناب والا! اس موقع پر یہ سوا ل اُٹھانا ضروری ہے کہ ملک میں کس کی حکومت ہے؟ صدر کی یا ایجنسیوں کی؟ میری جانب سے درخواست کے بعد سینیٹ کا سٹاف چوبیس گھنٹے کوشش کرتا رہا اور یہ ایک اُمیدوبیم کی کیفیت تھی۔ بالآخر، رات سوا بارہ بجے مجھے ٹیلی فون آیا کہ ہم آپ کو ناوقت تکلیف دے رہے ہیں، ہمیں ابھی اطلاع ملی ہے کہ اجازت مل گئی ہے۔ آپ صبح چلے جایئے اور گیارہ بجے کے بعد آپ کی ملاقات ہوجائے گی۔ اور جیساکہ پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ میں دس منٹ کم گیارہ پر وہاں پہنچ گیا اور ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کیا۔ دوسری جانب یہ اطلاع بھی موجود تھی کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخاں میرا انتظار کر رہے تھے۔ان کی بیٹی میرے انتظار میں وہیں موجود تھی۔ اس کے ساتھ ہی جنرل چوہان بھی ان کے پاس بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے، لیکن ان متعلقہ ذمہ داران اور ان کے عملے نے ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرا کر بھی مجھے ملنے کا موقع نہیں دیا۔
جناب والا! میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی ذات کے بارے میں، اپنی سولہ سال کی سینیٹ کی ممبرشپ میں کبھی بھی میں نے کوئی تحریکِ استحقاق پیش نہیں کی ہے۔ اگر تحریکِ استحقاق پیش کی ہیں تو مسائل پر کی ہیں اور ان پر کی ہیں جن کی وجہ سے سینیٹ کے قواعد کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ آج میں سینیٹ کے ساتھ ساتھ یہ ذاتی استحقاق کی خلاف ورزی بھی پیش کر رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ سینیٹ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ اس ایوان کی خودمختاری، اس کے وقار اور اس کے اختیار کا مسئلہ ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں یا ان کے بڑے ہوں یا چھوٹے، میں سب کی عزّت کرتا ہوں، لیکن اگر ان کا یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کے احکام کو نہ مانیں، اجازت دینے کے بعد اس پر عمل نہ کریں، تو پھر کون کہاں سے انصاف حاصل کرے گا؟
سینیٹ کے ریکارڈ سے یہ جو چند اوراق پیش کیے گئے ہیں، ان میں جنرل پرویز مشرف کے عہد ِ حکومت کے کچھ پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری زندگی پاکستان کی خدمت کے لیے وقف کر دی، اور اتنی حساس ذمہ داری کی ادائیگی کے نتیجے میں اپنی آزادی سے دست بردار ہونا پسند کرلیا، مگر قوم کی آزادی کے تحفظ کے لیے ایٹمی پروگرام کو ایک رُخ دینے میں کامران رہے۔
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک المیہ تو یہ بھی ہوا کہ جب مئی ۱۹۹۸ء میں کامیاب ایٹمی دھماکے کیے گئے تو اُس وقت وزیراعظم محمدنواز شریف صاحب نے اچانک انھیں پس پردہ دھکیل دیا، جس کا سبب ڈاکٹر صاحب کے خیال میں اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ نواز شریف صاحب نے محسوس کیا ہوگا یا اُن کے کسی مشیر نے ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہوگی کہ قوم مجھے متبادل لیڈر کے طور پر کہیں قبول نہ کربیٹھے۔ اسی حفظِ ماتقدم کے طور پر نوازشریف صاحب نے اچانک ڈاکٹر صاحب کا بلیک آئوٹ شروع کر دیا، جس پر قوم، ذرائع ابلاغ اور ہرسوچنے سمجھنے والا فرد حیران و پریشان تھا۔ بعدازاں، فوجی حاکم پرویز مشرف صاحب نے جو کچھ کیا، اس کا احوال اُوپر اشاروں کنایوں میں بیان کیا جاچکا ہے۔
زندگی کے آخری زمانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے اپنی پوری توجہ تعلیم، صحت اور رفاہِ عامہ کے کاموں کے لیے مختص کردی تھی۔ پھر حددرجہ افسوس ناک یہ منظر ہم نے دیکھا کہ اُن کے دمِ واپسیں صدر، وزیراعظم اور مسلح افواج کے چیف تک جنازے میں نہ آئے۔ اس طرزِعمل کا کیا مطلب لیا جائے؟ کیا ہم سوال کرسکتے ہیں کہ یہ کس کی ہدایت تھی یا کس کا خوف تھا؟
’بروکنگز فاؤنڈیشن،امریکا کے ریسرچ اسکالر اور ’عرب بہار‘ کے بعد تحریکات اسلامیہ کے اُمور پر گہری نظر رکھنے والے شادی حمید، راشد الغنوشی کا قول نقل کرتے ہیں: اسلام پسندو ں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے لوگ ان سے اور ان کی سوچ اور نظریہ سے محبت رکھتے ہیں اور جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان سے بے زار ہونے لگتے ہیں۔ تحقیق نگار نے انتخابی کارکردگی پر غور کی دعوت دی ہے:
یہ مضمون اسی طرح کے سنجیدہ سوالات کاجواب دیتا ہے جو یقینا آج کی عرب بلکہ ساری مسلم دنیا کے لیے یکساں اہمیت کے حامل ہیں ۔
اسلامی تحریکوں کی عوامی مقبولیت میں کمی کا سبب کوئی ایک نہیں ہے۔کہیں اس کی وجہ ماحول کا جبر ہے ، اور کسی جگہ حکمت عملی اور تجزیہ ناقص ہے۔ عرب ملکوں میں مسلط استبدادی نظام اور اس نظام کی طرف سے خون خرابہ اور جان و مال کے ضیاع کے ذریعے ان تحریکوں کا استیصال کرنا،الیکشن میں سیکولر ،فسطائی اور غیر جمہوری قوتوں کی دھاندلی ، الیکشن قوانین میں رد و بدل جیسے ہتھکنڈے، نیزعالمی برادری کا اسلامی تہذیب، ثقافت اور شناخت سے دشمنی پر مبنی رویہ ہے۔
حکمت عملی اور اندرونی کمزوری کی ایک مثال تحریک کے بنیادی اوراعلان شدہ مسلّمہ اصولوں پرسمجھوتا کر لینا ،اسٹیبلشمنٹ کی چالوں اور تدبیروں کے مقابل سیاسی ناپختگی، صورت حال کا صحیح ادراک نہ کرنا اور اپنی حکمت عملی کو ٹھیک سے ترتیب نہ دینا۔ پھر قیادت کا مواقع اور امکانات کو ضائع کرنا وغیرہ ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے طوفانی تھپیڑوں کے آگے کبھی نہیں جھکے تھے، جیساکہ بہت سے ترکِ دنیا کے علَم بردار اور زاہد دُنیوی مصالح اور مشکلات کے آگے جھکتے رہے ہیں، بلکہ آپؐ نے امور دنیا کی زمامِ کار سنبھالی اور پوری قوت و شوکت سے اسے حق کی اطاعت پر لگا دیا۔ یوں ایک ایسا اخلاقی ،تشریعی ، سیاسی ،مکمل اور کامل نظام دیا جس میں ضمیر، معاشرے اور ریاست کی سبھی قوتوں کو حق اور عدل پھیلانے کے لیے مجتمع کردیا گیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام تزکیہ نفس کرکے صرف ضمیر کو بیدار کرنے تک محدود رہتا ہے اور سوسائٹی اور ریاست کی مؤثر قوت کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے بلکہ یہ دین فطرت ہے اور دین حقیقت وواقعیت ۔ یہ جیتے جاگتے، چلتے پھرتے انسانوں کے لیے اتارا گیا ہے، فرشتوں کے لیے نہیں۔فرشتوں کے لیے ہوتا تو انسان نہیں فرشتہ اتارا جاتا۔ قرآن کریم کا ارشاد موجود ہے: قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَۃٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۹۵ (بنی اسرائیل ۱۷:۹۵) ’’ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبربنا کر بھیجتے‘‘۔
آپؐ کی اس سیاست کی عملی سنت کی نہ بدھ ازم میں کوئی مثال موجود ہے اور نہ مسیحی دنیا ہی اس کی کوئی مثال پیش کرسکی ہے ۔ یہ آپؐ کی طرف سے پیغام وحی کی عملی تفسیر اور تطبیق تھی ۔ یہ اسوۂ حسنہ کا وہ بنیادی پہلو ہے، جس کی پیروی کا اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے۔
لہٰذا، کسی اسلام پسند پارٹی کی انتخابات میں کامیابی، دین اسلام کی فطرت اور طبیعت کو تبدیل نہیں کرسکتی اور نہ کسی حکومت ،پارٹی اور سیاسی قوت کی ناکامی، اسلام کے جامع پیغام پر شمہ برابر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے ۔
آج جو لوگ تاریخ کے نئے مرحلےمابعد اسلامی احیائی دور (Post Islamism )کی نوید سنا رہے ہیں اور مبارک باد دے لے رہے ہیں، میں ان سے کہوں گا کہ ان کی خوشی قبل از وقت ہے۔ہوسکتا ہے انھیں ماضی کی طرح پھر گہرا صدمہ جھیلنا پڑے ۔
مجھے یقین ہے کہ اگر موجودہ اسلامی تحریکیں کسی وجہ سے مطلوبہ تبدیلی نہ لاسکیں تو بھی کچھ اور نئی قوتیں ان کی جگہ ضرور لیں گی، اس لیے کہ جسے ’سیاسی اسلام‘ کہا جارہا ہے وہ دراصل امت کے شعور اوروجدان کی تعبیر ہے۔ یہ اُس تعلق کا ایک اظہار ہے جو دین اسلام کا ملت اسلامیہ کے ساتھ ہے، اور جس سے مسلمان جذبۂ عمل حاصل کرتے ہیں ۔
ان اصولی باتوں کے بعد اسلام پسند پارٹیوں کی بظاہر کم ہوتی مقبولیت پر کچھ کلام کرتے ہیں۔
’عرب بہار‘ اسلام پسندوں کے لیے قبل از وقت اور بہت اچانک تھی ۔جب یہ بہار آئی تو اسلام پسندوں کے لیے انتظام مملکت سنبھالنا ابھی قبل از وقت اور نہایت غیر موزوں تھا۔ اس وقت اقتدار میں آنے کا ان کا نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ امور جہانبانی سنبھالنے اور حکمرانی کرنے کی ان کی کوئی تیاری تھی بلکہ یہ عوام الناس کی خواہش تھی، جو استبدادی اور بدترین ظالمانہ اور کرپٹ حکومتوں کی سختیاں جھیل جھیل کر تنگ آچکے تھے ۔انھی عوام نے اسلام پسندوں کو سیاست میں رہنما کردار ادا کرنے پر مجبور کیا ۔
اگرچہ ’عرب بہار‘ سے پہلے بھی چند ممالک میں اسلام پسندوں کو شراکتِ اقتدار کا تجربہ ہوا تھا، یعنی یمن اور اردن وغیرہ میں۔ تاہم، ایک ایسے وقت میں جب عرب دنیا میں انقلاب اور مخالف انقلاب کی کش مکش ابھی عروج پر تھی اور دوسری طرف تنگ آئے ہوئے عوام کی توقعات آسمان کو چھورہی تھیں اور خدشات خطرناک ترین سطح پر تھے۔ ان حالات میں اسلامی قوتوں کے لیے بہتر طرزِ عمل یہ تھا کہ اس معاملے کو زیادہ تدبر اور صبر کے ساتھ دیکھتے اور بے خطر اس میں کود نہ پڑتے۔ اسلام پسندوں کو ملنے والے اقتدار کو شادی حمید نے اپنی کتاب میں ’یرغمالی اقتدار‘سے تعبیر کیا ہے۔
دراصل ’عرب بہار‘ کے بعد اسلام پسندوں کو ملنے والا اقتدار حقیقی تھا ہی نہیں۔ انقلاب کے بعد پہلے آزادانہ انتخابات میں منتخب ہونے والے مصری صدر مرسی شہید، ریاست مصر میں ہرگز فیصلہ کن اختیار و اقتدار کے مالک نہیں تھے بلکہ فیصلہ سازی کا اصل اختیار برسوں سے مسلط فوجی جنتا کے ہاتھ میں تھا یا مقتدر سیکولر اشرافیہ اور ان دونوں کی پشتی بان عالمی مقتدرہ کے ہاتھوں میں یرغمال تھا ۔
اسی طرح اسلام پسندوں کے وزیر اعظم ہوں یا پارلیمان کے اسپیکرز کسی کے پاس بھی حقیقی اختیار و اقتدار نہیں تھا اور نہ انھیں دستور کی دی ہوئی طاقت کو ،جو انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کا استحقاق تھی ، استعمال کرنے پر کبھی قادر رہنے دیا گیا۔
دوسری جانب مراکش میں بھی وزیر اعظم تو اسلامی احیا پسندوں کا تھا،لیکن فیصلہ کن طاقت اوراصل اختیار و اقتدار، مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں رہا۔ پھر تیونس میں سیکولر قوتوں کی ہٹ دھرمی اور اپنی انتخابی شکست کو تسلیم نہ کرنا اور ہارنے کے بعد تیونس کو انتقاماً اہل تیونس ہی پر ڈھادینے کی ان کی کوششوں نے النہضۃ کے قائدین کو کبھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ انھیں مجبور کیا گیا کہ پارٹی کی انتخابی کامیابی اور انقلاب کے ثمرات میں سے کسی ایک کو چنیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلام پسند کہیں خود بھی صرف نمایشی اختیار و اقتدار پر قانع ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر عوامی توقعات کا بوجھ تو پڑگیا، لیکن تبدیلی کا حقیقی اختیار ان کے پاس تھا ہی نہیں کہ کچھ کرپاتے ۔مصر، تیونس ،مراکش ہر جگہ کم و بیش ایک سی صورت حال تھی ۔بعد ازاں واضح بھی ہوگیا کہ یہ حکمت عملی کی فاش غلطی تھی، جس کی بڑی قیمت چکانا پڑی ۔ نہ تو انھوں نے دستور میں لکھے اور قوم کے دئیے ہوئے انتخابی مینڈیٹ اور اختیارات کو اسٹیبلشمنٹ سے زبردستی چھین کرلیا اور نہ ایسے نمایشی اختیار و اقتدار کو ٹھوکر ماری اور استعفا دے کر قوم سے دوبارہ رجوع کیا کہ ان کی اخلاقی برتری قائم رہتی اور حقیقی اختیار سے خالی ان منصبوں کابوجھ نہ اٹھانا پڑتا۔ ان پر مشہور تابعی امام عامر الشعبی رحمۃ اللہ کی وہ بات صادق آتی ہے، جو انھوں نے حجاج بن یوسف کے پھیلائے ہوئے فتنے کے دور میں کہی تھی : تلك فتنة لم نكن فيها بررة أتقياءَ، ولا فجَرة أقوياء ’’ایسا فتنہ تھا جس میں نہ تو ہم مخلص فرماں بردار تھے اور نہ طاقتورباغی و سرکش‘‘ ۔
اگر اسلام پسند سیاست کرنے والوں کے پاس چھٹی حس ہوتی اور ان کی سیاسی تدبیروں میں لچک رہتی، تو وہ قوم کے دئیے ہوئے مینڈیٹ اور اختیار کو غاصبوں سے چھین لیتے ورنہ جونہی انھیں احساس ہوگیا تھا کہ یہ نمایشی اور یرغمالی اقتدار ان پر ایک اخلاقی بوجھ ہے تو ایسے لاحاصل اقتدار کو چھوڑ دیتے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ کچھ اسلامی تحریکوں خصوصاً مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ نے صاف ستھری سیاست اور کارکردگی دکھانے کی پالیسی کو ترجیح دی، نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑے۔اسلامی تحریک کے لیے معاشرے میں کچھ جاذبیت اگر ہے تو اس کی اصول پسندی، معاشرے کے معروف اخلاقی قاعدوں پر چلنے ،اپنی اسلامی شناخت پر اصرار، اسلامی اصولوں کے پرچار اور اندرونی استبداد اور بیرونی غلامی کے مقابل اس کی اخلاقی برتری کی وجہ سے ہے ۔
بعض تحریکوں کو یہ خوف لاحق رہا کہ سیاسی سطح پر جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے، اسے برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں؟ وہ سیاسی کامیابی کی بقاء کے لالچ میں پڑگئے اور تحریک اسلامی کے بنیادی اصولوں اور موقف کو ہاتھ سے جانے دیا۔ ان کا نقطۂ نظرتھا کہ ہماری معاشی اور اجتماعی کارکردگی ہماری اصول پرستی چھوڑ بیٹھنے کو سہارا دے لے گی۔ وہ یہ بھول گئے کہ ان کے پاس معاشی اور اجتماعی سطح پر کارکردگی دکھا پانے کی صلاحیت موجود ہی نہیں ۔اس طرح وہ ایک ساتھ دونوں محاذوں پر شکست کھاگئے ۔اخلاقی برتری بھی گئی اور کارکردگی بھی صفر رہی ۔ پھر مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ ایسے سیاسی معاملات میں اُلجھی جو اس کے دائرے سے باہر تھے، جیسے اسرائیل کو تسلیم کرنا، فرانسیسی کو ذریعۂ تعلیم بنانا،اور بھنگ کی کاشت وغیرہ۔ ان معاملات کی بڑی سیاسی قیمت چکانا پڑی۔
عبد الالہ بن کیران ( حزب العدالۃ والتنمیۃ کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم اور اس وقت پارٹی کے سیکرٹری جنرل) بادشاہ کے اقتدار اور اثر و نفوذ اور منتخب حکومت کے اقتدار و اختیار کے درمیان توازن رکھنے میں کامیاب رہے تھے ۔ مگر ان کے بعد آنے والے مراکش کے وزیر اعظم (پارٹی کے دوسرے سیکرٹری جنرل) سعد الدین عثمانی کامیاب نہیں ہوپائے ۔یہی وجہ تھی کہ بن کیران کی عوامی پذیرائی اور سیاسی تدبیروں نے، عوامی لب و لہجہ میں ان کی جملہ بازی نے پارٹی کو بہت فائدہ پہنچایا تھا ۔ا سی طرح ان کا دیگر، خصوصا کرپٹ سیاسی رہنماؤں پر مسلسل دبائو، جنھیں وہ مگرمچھوں سے تعبیر کرتے تھے اور ضمناً بادشاہ پر بھی کبھی کبھار کی تنقید نے بن کیران کی رہنمائی میں مراکش کے اسلام پسندوں کی حفاظت کی اور عوام کے ذہنوں میں اس تصور کو راسخ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی غلطیوں میں اسلامی احیا کے علَم برداروں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
مراد یہ ہے کہ پارٹی کی قسمت پر لیڈر شپ کا تسلسل کتنا گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر کرشماتی اور مضبوط قیادت ہو تو وہ پہلے سے موجود سیاسی قیادت اور نئی آنے والی سیاسی قیادت کے درمیان توازن پیدا کرلیتی ہے ۔اور اگر قیادت کمزور ہو تو وہ پہلے کے اثرات کو بھی نقصان پہنچادیتی ہے۔
مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ نے جب بن کیران کی کرشماتی قیادت کو کھودیا (بعض حلقوں کے نزدیک بادشاہ ان کی عوامی مقبولیت سے خائف تھا اور اسی کے دباؤ پر پارٹی نے سعدالدین عثمانی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا )اور ان کی جگہ ایک اکیڈمک پروفیسر بیوروکریٹک رویے کے حامل ، کمزور، سیاسی وژن سے عاری اور پرانے سیاسی گرووں کے خلاف مضبوط سیاسی اقدامات کی جرأت سے خالی فرد کی نامزدگی تھی، جس کی سیاست کا انحصار معاشرے کے عوام کی دل جوئی کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی رضاجوئی اور بادشاہ کی فرماں برداری پر تھا ۔ جب انھیں آگے لایا گیا تو توازنِ سیاست بگڑ گیا جس کا خمیازہ پارٹی کو اقتدار کے بعد شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
اس طرح مراکشی تجربہ حزب العدالۃ والتنمیۃ کو اپنے ڈھب پہ لانا اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے گھیرا تنگ کرنا اور بالآخر پارٹی کو گہری دلدل میں پھنسا دینے کا منصوبہ مکمل ہوگیا ۔بالکل اُسی انداز میں کہ جس طرح ماضی میں مراکش کی کئی سیاسی قوتیں بے دست و پا بنائی جاچکی تھیں: حزبِ استقلال اور اشتراکی اتحاد وغیرہ ۔
تحریک اسلامی مراکش کا وہ فخر بھی اسے کچھ فائدہ نہ دے سکا اور نہ وہ لمبے چوڑے دعوے کہ ہم اخوان المسلمون سے زیادہ سیاسی شعور کے مالک ا ورمیدانِ سیاست کے پختہ کار کھلاڑی ہیں۔ یہ تفاخر دراصل ایک اور قسم کی غلطی کا ارتکاب تھا۔
’زیادہ سے زیادہ کی حکمت عملی‘ جس پر مصر میں اخوان المسلمون کاربند ہوئی اور صدارتی الیکشن میں قبل از وقت شرکت کی، یہی پالیسی انھیں استبداد کے عادی ظالم مصری نظام کی دیوار سے سر پھوڑنے کی طرف لے گئی۔مگر مراکش میں ’کم سے کم کی حکمت عملی‘ اختیار کی گئی، جوتحریک اسلامی کو مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ڈھب پر ڈھالنے اور انھیں اپنے اخلاقی پیغام سے محروم کرنے پر منتج ہوئی کہ جس پیغام میں عوام کے لیے اصل جاذبیت تھی۔ا نھیں طاقت سے دُور اور کسی عملی کارنامے سے محروم رکھا گیا کہ جو اخلاقی برتری سے محرومی کا عوضانہ بن جاتا ہے۔ ۹۰کی دہائی میں یہی طریقہ الجزائر کے انقلابی فوجیوں نے اخوان کے ساتھ روا رکھا تھا، پھر اسے موریتانیہ، مراکش، تیونس اور لیبیا میں دہرایا اور آزمایا جاتا رہا ۔
تاہم، اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی قوتوں کی اس کمزوری اور کوتاہی کے برعکس عالمِ عرب کی سیکولر قوتوں کی حالت زار اسلام پسندوں سے کہیں زیادہ گئی گزری ہے ۔سیکولرسٹوں کے لیے کئی مسلم ملکوں کے اقتدار کا دروازہ مدتوں کھلا رہا ہے، لیکن یہ قوتیں اپنی قوم کو ترقی دینے کے میدان میں مکمل طور پر ناکام ہوئیں۔دراصل آزادی کا معرکہ اور اپنی شناخت کا معرکہ ان سیکولرسٹوں کی ترجیح اور ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا ہی نہیں ۔
معرکۂ حریت و آزادی اور اسلامی شناخت قائم رکھنے کے معرکہ میں اسلامی تحریکات کو بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ معاشرے کی اسلامی شناخت برقرار رکھنے کے اس معرکے میں یہ اسلامی تحریکیں ایک فوجی قلعہ کی مانند مضبوط ثابت ہوئیں ۔
اسی طرح عوامی انقلاب، ’عرب بہار‘ کو کامیاب بنانے میں بھی اصل کردار انھی اسلامی تحریکات کا تھا ۔اسی لیے علاقائی اور عالمی طاقتوں کی استحصالی چکّی میں بھی یہی قوتیں پس رہی ہیں۔ اس لیے کہ لوگ انھی سے توقع باندھے ہوئے ہیں، سیکولر قوتوں سے نہیں۔تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریکات اسلامیہ جب بھی اقتدار میں آئیں یا شریکِ اقتدار ہوئیں، ترقی کی دوڑ میں وہ بھی ابھی تک کوئی خاص کارنامہ اپنے دامن میں سمیٹ نہیں پائیں۔
شاید سب سے بڑا خطرہ اس وقت جو ان تحریکات کو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے عزائم اور ارادے بہت قلیل ہیں ۔یہ تھوڑے پر قناعت کرجاتی ہیں ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض میدان عمل میں اپنی موجودگی ہی کو اور زندگی ہی کو کامیابی کی دلیل شمار کرنے لگتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ان کا سیاسی اور تہذیبی تبدیلی کا پروگرام اسی حد تک تھا، جو کامیاب ہوچکا ہے ۔ بعض تحریکات بلاوجہ اور بے فائدہ اپنے اسلامی رنگ ڈھنگ اور اسلوب وانداز، حتیٰ کہ طریق کار تک سے علیحدگی اختیار کرلیتی ہیں اور یوں ایک ایسے معاشرے میں اپنا اخلاقی جواز ہی گم کربیٹھتی ہیں، جہاں سارے ہی، ریاکاری پر مبنی کھوکھلے نعروں سےا پنے وجود کا جواز حاصل کرتے ہیں۔
دوسرے ان میں سیاسی ناپختگی بھی موجود ہے۔ اس کمزوری کا مطلب انفعال و ارتجال اور محض ردِعمل کی سیاست ہے۔ یہ ساری زندگی ایک دائرے میں گھرے اتار چڑھاؤ کے درمیان جینے کے سفر جیسا ہے، جہاں کچھ بن نہ پارہا ہو، نہ کوئی قابل ذکر کامیابی ہی مل رہی ہو ۔
اصلاح و تجدید کی تحریکوں کے لیے وقتاً فوقتاً مصلح اور مجدد کی ضرورت رہتی ہے، جو ان کی رہنمائی کرے اور ان میں کار تجدید انجام دیتا رہے ۔اور آج تحریکات اسلامیہ کو تبدیلی و تجدید کی شدید ضرورت ہے تاکہ ان میں سیاسی پختہ کاری کی داغ بیل پڑے اور یہ زیادہ واقف اور باشعور ہوں، میدانِ سیاست سے بھی اور دنیا کی سیاست سے بھی۔
یہ دلیل کافی نہیں ہے، جو بعض اسلام پسند آج دے رہے ہیں کہ تحریکات اسلامیہ خود ناکام نہیں ہوئیں بلکہ ان کے داخلی اور خارجی دشمنوں نے انھیں ناکام بنایا ہے ۔یہ دلیل دیتے ہوئے ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ آسانی سے ناکام ہوجانا تو خود اپنی جگہ ناکامی ہے اور محاصرے میں گھرجانا خود ایک بڑی کمزوری ہے۔ سیا ست تو کامیابی اور قوت کے حصول کے لیے مسلسل کش مکش کا نام ہے، سیاست صرف تقریروں اور اچھی نیتوں کا نام نہیں ہے !
حالیہ عرصے میں کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سویلین افراد کی ہلاکتوںکا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اب تک ۲۸؍افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں گیارہ غیرمسلم ہیں۔ ان میں تین کشمیری پنڈت، ایک سکھ خاتون اور دیگر غیر کشمیری مزدور ہیں۔ وادی کشمیر میں ہرسال بھارت کے مشرقی صوبہ بہار سے تین لاکھ کے قریب مزدود کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان ہلاکتوں کی وجہ سے ان میں سے ۱۰ سے ۲۰ہزار تک واپس چلے گئے ہیں۔
۱۹۹۰ میں عسکری سرگرمیوں کی ابتداء میں ہی کشمیری ہندوؤں جنھیں ’پنڈت‘ کہا جاتا ہے، کی ایک بھاری تعداد نے جموں اور دہلی کی طرف ہجرت کی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۶۰ہزار خاندانوںنے ہجرت کی تھی۔ ان میں ایک لاکھ ۳۵ہزار ہندو،۱۲ ہزار ایک سو۲۱ سکھ، ۶ہزار۶سو۶۹ مسلمان اور ۱۹دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تھے۔بھارت میں لیڈران اور صحافی ان اعداد و شمار کو اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ تقریباً ۸۰۰کے قریب پنڈت خاندانوں نے وادی میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی۔ کشمیری پنڈتوں اور بہاری مزدوروں کی ہلاکتوں نے پورے بھارت میں ایک طوفان سا برپا کردیا ہے۔
بھارت کے کئی مقتدر مسلم رہنمابھی کشمیری مسلمانوں کو باور کرا رہے ہیں، کہ اقلیتوں کی حفاظت کے لیے ان کو میدان میں آنا چاہیے۔ ایک نیوز ویب سائٹ نے تو ایک بھارتی خفیہ افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر سید علی شاہ گیلانی زندہ اور سرگرم ہوتے، تو اس طرح کی ہلاکتوں کی وہ فوری طور پر روک تھام کرلیتے۔یہ سچ ہے کہ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی طبقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟
اگرچہ ان تمام مقتدر افراد نے ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرکے اکثریتی طبقے کو اپنی ذمہ داری یاد دلائی ہے، مگر و ہ اتنے بے حس ہیں کہ ان کے لیے اننت ناگ میں ۷؍ اکتوبر کو ریاستی آرمڈ فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے پرویز احمد خان کے لیے کسی ہمدردی کا ایک لفظ موجود نہیں ہے۔ گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد پرویز خان کی لاش کو آدھی رات کو دفن کر دیا گیا ۔ ان کے والدین کو اس کی لاش پر آنسو بھی بہانے نہیں دیئے گئے ۔ کشمیر کی سبھی جماعتیں ، کشمیری پنڈتوں کی وادیِ کشمیر میں واپسی کی خواہاں ہیں۔ مگر اس دوران جن کشمیر پنڈتوں نے اپنی جائیدادیں قانونی طریقوں سے بیچ ڈالی تھیں، ان کو اب اکسایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں واپس حاصل کریں۔ پچھلے کئی ماہ سے ان میں رہنے والے مسلمان خاندانوں کو بے دخلی کے نوٹس دیے جانے کی خبریں متواتر موصول ہورہی ہیں۔ حالانکہ یہ جائیدادیں انھوں نے قانونی طور پر خریدی ہوئی ہیں۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ءکو ریاست کو جارحانہ انداز سے بھارتی یونین میں ضم کرنے اور بعد میں کووڈ وباء کے نام پر جہاںتما م بڑی مساجد اور درگاہوں میں اجتماعات یا محرم کے جلوسوں کی ممانعت کی گئی ، وہیں ۱۵؍ اگست کی بھارت کی یوم آزادی کی تقریب، جنم اشٹمی، مہاتما گاندھی کے جنم دن و دیگر ایسی تقریبات کو اس سے مستثنیٰ رکھ کر عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوہرے رویے پر مقامی آبادی کا سوالات اٹھانا لازمی ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور ایک سکھ خاتون کے قتل کی وجہ سے کشمیر میں اضطراب تو ہے ہی، مسلسل تلاشیوں، اندھا دھند گرفتاریوں، محاصروں اور فوجی آپریشنوں نے مسلمانوں کی زندگی مزید اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔
اسی سال مارچ میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جناب یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپیل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینیرصحافی اور ایڈیٹر جناب بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group: CCG) کے ایک معتبر گروپ کے نام سے جب کشمیر کا دورہ کیا، تو وہاں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے ان سے اس خدشے کا اظہارکیا تھا: ’’ بھارت میں عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag [خود مار کر دوسرے پر الزام دھرنے جیسے]آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر بھارت میں ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ مرکزکے ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرایش و تزئین کی جا رہی ہے، مگر اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے‘‘۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو جموں و کشمیر کے شہریوں پرجو قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور جس طرح نریندرا مودی کی حکومت نے ان کے تشخص و انفرادیت پر کاری وار کیا ، ا س پر ہونا تو چاہیے تھا کہ مذہبی عناد سے اُوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری پنڈتوں (ہندوؤں) کے بااثر طبقے نے ، جو ہندو انتہاپسند گروپ راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ (RSS)کے ایک بازو کے بطور کام کرتا ہے، اس پر خوشی کے شادیانے بجائے۔ وہ کشمیر کو بھول کر مذہبی اور نسلی تقسیم کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ ’’۱۹۹۰ء میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، جس کی وجہ سے وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکایا ہے‘‘۔ آخر مبینہ طور پر چند مجرموں کے انسانیت کش اقدام کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک کشمیر میں تو بھارت ہی کی فوجی، سیاسی اور انتظامی عمل داری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اس کو محض پروپیگنڈے کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔
اب ہم ذرا پیچھے جاکر ۱۹۹۰ء کو ہی یاد کرلیں۔جھیل ولرکے مغربی سرے پر واقع وادیِ کشمیر کے سوپور قصبہ سے دریائے جہلم نئی آب وتاب کے ساتھ جھیل ولر سے نئی توانائی لے کر اپنا سفر پھر شروع کرتا ہے۔پرانے شہر میں برلب دریا میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ سے متصل میرے محلے کے اطراف میں دو پنڈت بستیاں تھیں۔ ویسے بھارتی شہروں اور دیہات کی طرح، کشمیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کی کوئی علیحدہ بستیاں نہیں ہوتی تھیں۔ لکیروں کے بغیر ہی یہاںدونوں طبقے مل جل کر رہتے تھے۔ ہمارے محلے کے مشرقی سرے پر جامع قدیم میں آسودہ حال پنڈت آباد تھے۔ ان میںاکثر اعلیٰ سرکاری ملازم تھے، جو سردیوں میں جموں منتقل ہوجاتے تھے۔ مگر مغربی سرے پر صوفی حمام محلہ میں جو پنڈت رہتے تھے، وہ ہمسایہ مسلمانوں کی طرح ہی پس ماندہ اور معمولی درجے کے ملازم تھے۔ کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی خوف کی فضا طاری ہوگئی۔ عسکریت پسندی پر کسی مرکزی کنٹرول کے نہ ہونے کے باعث، بعض غنڈہ عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد تو تحریک آزادی سے وابستگی کے بغیر محض کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت پسندوں میںشامل ہوگئے۔ حزب المجاہدین اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو چھوڑ کرایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری گروہ متحرک تھے۔
اس الائو کو مزید ہوا دینے میں بھارتی سرکار کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۹ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کردیا۔جموں و کشمیر میں بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔اس انارکی کا خمیازہ محض کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے ۳۰ برسوں میں ۲۵۰ پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔مگر اسی دوران کشمیر میں اندازاً ایک لاکھ مسلمان بھی مارے گئے۔ جموں خطہ کے دور دراز علاقوں میں۱۵۰۰ کے قریب غیرپنڈت ہندو، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر ان افسوس ناک واقعات کے باوجود ان خطوں میں آبادی کا انخلا نہیں ہوا۔
جموں و کشمیر میں گورنر جگ موہن نے حالات ہی ایسے پیدا کردیے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔ اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سکیورٹی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی بھارتی فوج کے ۱۹ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ یادرہے جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا کہ ’’آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے‘‘۔ سردیوں کے آتے ہی دارالحکومت سری نگر سے جموں منتقل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس بار سردیوں میں جونہی دارالحکومت جموں منتقل ہوا‘ میرے محلے کے اطراف کے آسودہ حال ہندو بھی معمول کے مطابق جموں چلے گئے۔ مگر صوفی حمام کے ہندو وہیں مقیم رہے۔ ایک د ن بھارت کی نیم فوجی تنظیم ’انڈیا تبت بارڈر پولیس‘ (ITBP) کے ایک کمانڈنٹ مقامی پولیس افسران کے ساتھ محلے میں آئے، اور پنڈتوں کی سکیورٹی کا جائزہ لیا۔ مگرپنڈتوں نے کمانڈنٹ سے کہا کہ ’’ہماری سکیورٹی کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، ہمارے پڑوسی (مسلمان) ہی ہماری سکیورٹی ہیں‘‘۔ محلے کے مقتدر افراد نے بھی افسر کو یقین دلایا کہ ’’اقلیتی افراد کی حفاظت کرنا ان کافرض ہے اور وہ یہ فرض نبھائیں گے‘‘۔
مگر دو دن بعد ہی آدھی رات کے لگ بھگ لائوڈ سپیکروں سے کرفیو کا اعلان ہو گیا۔ سڑک پر فوجی بوٹوں کی ٹاپوں اور ٹرکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ پنڈت مکانوں سے بھی چیخ پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ گھپ اندھیرے میں پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے؟ لگ یہی رہا تھا کہ شاید فوجی آپریشن شروع ہو گیا ہے۔ اسی دوران میں گلی میں کوئی سایہ نمودار ہو کر ہمارے دروازے پر دستک دینے لگا۔ میرے والد نے دروازہ کھولا تو سامنے ان کے دیرینہ بے تکلف پنڈت دوست اور آفس کے ساتھی امر ناتھ بھٹ کہہ رہے تھے کہ ’’نیم فوجی تنظیم کا افسر پورے لائو لشکر اور ٹرکوں کے ساتھ وارد ہو ا ہے، اور سبھی پنڈت برادری کو جموں لے جارہا ہے۔ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ اگلے چند روز کے اند ر کوئی بڑا آپریشن ہونے والا ہے۔ہوسکتا ہے کہ فضائی بمباری بھی ہو‘‘۔ امرناتھ بضد تھا، کہ ہم بھی اس کے ساتھ منتقل ہوجائیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اس سلسلے میں افسر سے بات کی ہے‘‘۔ مگر جب میرے والد نے انکار کیا، تو امر ناتھ نے میرا ہاتھ پکڑکر ’’میرے والد سے فریاد کی کہ 'اگر تمھیں مرنا ہی ہے، تو کم از کم اپنے بیٹے کو ہمارے ساتھ روانہ کردو‘ اسے تو زندہ رہنے دو‘‘۔ مگرمیرے والد کے مسلسل انکار کے بعد امر ناتھ روتے ہوئے تاریکی میں گم ہوگیا۔ اگلے دن صبح یہ عقدہ کھلا ، کہ پوری پنڈت برادری کو ٹرکوں میں ساز و سامان کے ساتھ زبردستی بٹھا کر جموں کے پناہ گزیں کیمپوں میں منتقل کردیا گیا ہے، جہاں وہ ابھی تک مقیم ہیں۔ امرناتھ کا اب انتقال ہوچکا ہے‘ مگر میرے والد جب تک دہلی میں میرے پاس آتے رہے، وہ راستے میں جموں میں ٹھیر کر امرناتھ کے پاس ضرور رُکتے تھے۔
بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کا ایک بااثر حلقہ جہاں کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر اکثریتی طبقہ کے جذبات واحساسات کو جان بوجھ کرمنفی انداز میں پیش کر رہے ہیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے مخصوص بندوق بردار جب ’تائب‘ ہوئے تو انھیں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے سرآنکھوں پر بٹھایا۔کشمیری پنڈتوں کی چند تنظیمیں بھارتی حکومت کی شہ پراب کھلے عام ’ہوم لینڈ‘ کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندو پرستوں نے کشمیری پنڈتوں کو یہودی طرز پر یہاں الگ بسا کر کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ اب دو ٹوک لفظوں میں کہا جا رہا ہے کہ ’’پنڈت ہوم لینڈ کے لیے عدلیہ، انتظامیہ اور پولیس کے علاوہ سب کچھ علیحدہ ہوگا‘‘۔ ان کے بعض بااثر لوگ برملا کہتے ہیں کہ ’’تین فی صد آبادی ۹۷فی صد آبادی کے ساتھ نہیں رہ سکتی، اس لیے پنڈتوں کے لیے الگ سے ’سمارٹ زون‘ بنایا جائے‘‘۔
کشمیر کی آزاد حیثیت کو زیر کرکے جب مغل بادشاہ اکبر [م:۱۶۰۵ء]نے آخری تاجدار یوسف شاہ چک [م:۱۵۹۲ء] کو قید اورجلا وطن کیا، تو اگرچہ مغل حاکم مسلمان تھے، مگر اس خطے میں ان کی سیاسست کا انداز سامراجیوں جیسا تھا۔ چونکہ کشمیر میں مسلمان امرا نے مغل فوج کشی کی مزاحمت کی تھی، اسی لیے مغلوں نے کشمیری پنڈتوں کی سرپرستی کرکے انھیں اْبھارا اور مسلمان امرا کو نیچا دکھانے کے لیے کشمیری پنڈتوں کو اپنا حلیف بنایا۔
بقول شیخ محمد عبداللہ ’’پنڈتوں کے جذبۂ امتیاز کو تقویت دینے کے لیے آدتیہ ناتھ بٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیری پنڈت ہی گورنر بنائے گئے‘‘۔ معروف مؤرخ جادو ناتھ سرکار کے مطابق ’’مغل سلطنت کے دوران کشمیری مسلمانوں کو امور سلطنت سے دُور رکھا گیا‘‘۔ اس طرح کشمیر کے بطن سے مغلوں نے ایک قابلِ اعتماد ضمیرفروش، گھر کا بھیدی طبقہ پیدا کیا۔ مسلمانوں پر فوج کے دروازے بند، مگرپنڈتوں کے لیے کھلے تھے۔ کشمیری میرو پنڈت نو ر جہاںکی ذاتی فوج کا نگرانِ اعلیٰ تھا۔ پنڈتوں کی یہی بالا دستی اورنگ زیب تک کے دور میں بھی جاری تھی۔ اس کے دربار میں مہیش شنکر داس پنڈت کا خاصا اثر و رُسوخ تھا۔
افغان دورکی ظلم و ستم کی کہانیاں جہاں کشمیر میں زباں زدِ عام ہیں، اس وقت بھی کشمیری پنڈت ظالموں کی صف میں اپنے ہم وطنوں سے کٹ کر کھڑے تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ حاجی کریم داد خان نے پنڈت دلا رام کوپیش کار کا عہدہ دیا تھا۔ افغان حکومت کے زوال کے بعد سکھ اور ہندو ڈوگرہ دور میں بھی پنڈتوں ہی کا طوطی بولتا تھا۔ یہ دونوں دور ظلم و ستم میں افغانوں سے بازی لے گئے۔ کشمیر کے مشہور’ در‘ خاندان کا عروج اسی دور میں ہوا۔ سکھوں کے دور ہی میں کشمیری پنڈتوں کی ایما پر نہ صرف گاوٗکشی بلکہ گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سزائے موت کا فرمان جاری ہوا، جس کو بعد میں ازراہِ ترحم ڈوگرہ حکمرانوں نے عمر قید میں تبدیل کیا۔ تب تک۱۹کشمیری مسلمان اس جرم میں پھانسی کی سزا پا چکے تھے۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ نے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنایا، جس کی سختیوں اور شال بُننے والے کاریگروں پر اس کے ٹیکس کی بھرمار نے ۱۸۶۵ء میں سرینگر کی سڑکوں پر دْنیا کی پہلی مزدو ر بغاوت برپا کی۔
بندوبست اراضی کے کمشنر سر والٹر لارنس کے مطابق ’’ڈوگرہ حکومت میں ساری قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان کا شت کار کو برہمنوں کے آرام و آسایش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا تھا۔۱۹ویں صدی کے اواخر میں جب پنجاب سے آنے والے ہندو اور کشمیری نژاد مسلمانوں نے ڈوگرہ دربار میں نوکریاں حاصل کرنی شروع کیں، تو کشمیری پنڈتوں نے کشمیر ، کشمیریوں کے لیے اور اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کرکے علاحدہ شہریت کا مطالبہ کیا۔ اب ایک صدی کے بعد کشمیری پنڈتوں ہی نے اسی قانون کی مخالفت میں زمین و آسمان ایک کیے۔ ۱۹۳۱ء میں جب تحریک کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر پروپیگنڈا کیا کہ یہ دراصل ہندو مہاراجا کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پورے بھارت میں ظالم و مظلوم کی جنگ کو ’کشمیری مسلمان بنام پنڈت‘ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈوگرہ حکومت کے دور میں جب چند پڑھے لکھے مسلمانوں کو معمولی سرکاری نوکریا ں ملنی شروع ہوئیں، تو کشمیری پنڈتوں نے اس کے خلاف ’روٹی ایجی ٹیشن ‘ شروع کی۔ انھوں نے مہاراجا کو ایک میمورنڈم پیش کیاکہ ’’کولگام علاقے میں ہمارے لیے ایک علاحدہ وطن بنایا جائے‘‘۔ یہ وہی مطالبہ ہے جو کشمیری پنڈت آج کل ایک علاحدہ ہوم لینڈ یعنی’ پنن کشمیر ‘کے نام سے کر رہے ہیں۔ بھلا ہو چند روشن خیال کشمیری پنڈتوں کا، خاص طور پر پنڈت پریم ناتھ بزاز کا ، جس نے برطانوی حکومت کی ایما پر بنائے گئے گلینسی کمیشن کو بتایا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کشمیری پنڈتوں کی حالت خاصی بہتر ہے۔ خود جواہر لعل نہرو نے کشمیری پنڈتوں کے گڑھ شیتل ناتھ جاکر ان کو مشورہ دیا تھا کہ و ہ ظالم و مظلوم کی جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں۔ نہرو اس وقت اپنے دوست شیخ عبداللہ کے لیے پنڈتوں کی حمایت چاہتے تھے۔ مگر پنڈت ڈوگرہ مہاراجا کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انفرادی طور پر کئی پنڈت لیڈر کشمیری مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ رہے ، مگر طبقاتی حیثیت سے وہ تحریک آزادی کے دھارے سے کٹے ہی رہے۔اسی مہاراجا نے ۱۹۴۷ءمیں قبائلی حملوں سے خوف زدہ ہوکر رات کے اندھیرے میں بھاگ کر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ تو کشمیری مسلمان ہی تھے، جنھوں نے ان کی حفاظت یقینی بنائی۔
پنڈت پران ناتھ جلالی ایک واقعہ سناتے تھے، کہ شیخ عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو ان کو کشمیری پنڈتوں کی بازآباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاؤں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں تک کو نہیں بخشا۔ سبھی گاؤں والے عذا ب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔
خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈالا۔ ایک رات ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے تو پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ چند ایک میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گاؤں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ندامت سے میرے پاوٗں زمین میں گڑ گئے۔ گذشتہ کئی روز سے ہم نے ان گاؤں والوں کا جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پر پشیمان تھے۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے اور کیا خواتین ، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہیں کیا‘‘۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے، جب جموں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ایک باضابطہ نسل کشی کے ذریعے ان کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ مگراس کے باوجود مسلمانوں نے پنڈتوں کے لیے اس حفاظتی طرزِعمل کو اختیار کیا جس پر گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’جب پورا برصغیر فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا تھا مگر کشمیر سے مجھے روشنی کی کرن نظر آرہی تھی‘‘۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس غلط فہمی میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو لے کرارباب سیاست ایک ایسا ’گھنائونا کھیل‘ کھیل رہے ہیں، جو نہ تو پنڈت برادری کے حق میں ہے اور نہ کشمیر کی اکثریت کے لیے بہتر ہے، جس اکثریت نے پنڈت اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ انھیں ہمیشہ ہی اپنے بیچوں بیچ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند، اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر کشمیری قوم کی بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا، یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی، نہ صرف ہم قدم اور ہم خیال نہیں تھی بلکہ بار بار ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا، جو اکثریتی شاہراہ سے قدرے دور رہا۔اگر بھارت کے مفادات کی بھی بات کریں، جس طرح کی رسائی پنڈتوں کی دہلی دربار میں تھی، وہ بھارت کے لیے بھی ایک طرح کے پل کا کام کرسکتے تھے۔ مگر دہلی کے ففتھ کالم کا کردار ادا کرکے انھوں نے کشمیر میں بھارت کے مفادات کو بھی زِک پہنچائی۔ چند کشمیری پنڈتوں کو چھوڑ کربلعموم انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنا کندھا پیش کرکے سبھی کا نقصان کیا ہے۔جس نے کشمیری مسلمانوں کو نہ صرف بھارت مخالف بنایا، بلکہ نفرت کرنے کی حد تک پہنچادیا۔
پنڈتوں کو اپنا دامن بھی دیکھ لینا چاہیے کہ آخر ان میں اور مسلمانوں دونوں کے درمیان نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا؟ جس کی وجہ سے آج کشمیر آگ اور خون کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کشمیر کا اکثریتی طبقہ اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔وہ تو فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اُدھار زندگی گزاررہا ہے۔
اگست ۲۰۱۹ء کو بتایا گیا کہ ان اقدامات سے ترقیاتی کاموں میں تیزی آئے گی اور نظم و نسق بہتر ہو جائے گا۔ مگر یہ سبھی وعدے ہوا میں تحلیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔انتہائی جدید ٹکنالوجی کے ذریعے کڑی نگرانی کے باوجود حکومت مقامی اور غیر مقامی سویلین افراد کو بچا نہیں سکی۔ حکومت اسے ایک سلامتی کے مسئلے کے طور پر پیش کر رہی ہے اور اس کے سیاسی پس منظر سے نظریں چرا رہی ہے۔ کیا نظم و نسق عوام کی شمولیت کے بغیر قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا کشمیر کے سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں بند کر کے یا ان تک عوام کی رسائی محدود بنا کر تعمیر و ترقی کا کوئی خواب پورا ہو سکتا ہے؟ حکومت کشمیر میں ایک قبرستان جیسی خامشی پیدا کر نے میں کامیاب تو ہوئی ہے، مگر مُردوں کو بھی زیادہ دیر تک خاموش نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ کب تک معصوم افراد کو قربانی کا بکرا بنتے ہوئے دیکھیں گے؟ کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے کہ بھارت ، پاکستان اور کشمیری قیادت ، مسئلہ کے حتمی حل کے سلسلے میں متفق ہو جائیں؟ یہی ایک طریقہ ہے جس سے نہ صرف مسئلہ کا دیرپا حل نکل سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں یقینا جموں و کشمیر کے تمام شہری ماضی کی طرح ایک بار پھر گلے مل کر ساتھ رہنے لگیں گے۔
مرحوم کشش صدیقی (مدیر جسارت ، کراچی)، محمد صلاح الدین شہید اور حکیم محمود احمدبرکاتی کے تربیت یافتہ کالم نگار حشمت اللہ صدیقی کا زیرنظر اوّلین مجموعہ بقول نعمت اللہ خان: ’’جذبۂ ایمانی اور حب الوطنی‘ کا مظہر ہے۔ قومی روزناموں (جسارت، جنگ، نوائے وقت، ایکسپریس وغیرہ) میں شائع شدہ یہ مختصر مضامین پاکستان اور اُمت ِمسلمہ کے لیے مصنّف کے دردمندانہ جذبات و احساسات کے عکّاس ہیں۔ متنوع موضوعات پر چند کالموں کے عنوانات: نیشنل ایکشن پلان، سالمیت کی اہم دستاویز، اتحادِ اُمت و علمائے کرام، سندھ اسمبلی، اقلیتی رائٹس بل، اہل حدیث کانفرنس اور امام کعبہ کی آمد، پاک بھارت دوستی اور مسئلہ کشمیر، رُشدی اور مغرب کی اسلام دشمنی، اسلام اور تلوار، زلزلہ: انتباہ یا نظامِ قدرت، دفاعِ پاکستان کونسل، تعارف اور مقاصد، جماعت اسلامی کا ورکرز کنونشن، فرانسیسی جریدے کی دریدہ دہنی، وغیرہ۔
آخر میں چند تصاویر اور کالم نگار کے نام مولانا مودودی، محمد صلاح الدین، پروفیسر غفور احمد، محموداعظم فاروقی اور نعمت اللہ خان کے ایک ایک خط کے عکس شامل ہیں۔معیارِ طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ وہ بصیرت اور آنکھوں کا نُور رکھنے کے باوجود، قومی اور انفرادی زندگی کے گڑھوں کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ٹھوکریں لگتی ہیں مگر کوئی سنبھلنے کو تیار نہیں ہوتا۔
پروفیسر ممتاز عمر کی یہ کتاب اس اعتبار سے قیمتی مجموعۂ مضامین ہے جس میں انھوں نے آنکھیں کھودینے کے باوجود،ہم وطنوں اور دُنیا بھر کے انسانوں کو نُورِ بصیرت اور نُورِ دانش کی ان لپٹوں سے استفادے کا موقع عطا کیا ہے کہ جنھیں ہم آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود دیکھنا نہیں چاہتے۔ مگر جناب ممتاز عمر باربار متوجہ کرتے ہیں کہ صاحبو، زندگی کو یوں ہی غفلت میں نہ گنوا بیٹھو۔ یہ مضامین قلم سے نہیں، دل سے لکھے گئے ہیں۔ (س م خ)
زیرنظر کتاب پروفیسر صاحب کے تیس مضامین کا مجموعہ اُردو زبان سے ان کے تحقیقی شغف کا اظہار ہے۔ ان مضامین میں مختلف الفاظ، تراکیب، روز مرہ اور محاوروں کے استعمال میں غلطیوں، نیز لفظوں پر اِعراب کے سلسلے میں ہماری لاپروائی پر تنقید کی گئی ہے۔ اُردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں عام لوگوں، طلبہ اور اساتذہ تک جن غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، غازی صاحب نے اُن کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کے لیے بہت سی مثالیں دے کر سمجھایا ہے، مثلاً: ’پیشِ لفظ‘ نہیں ’پیش لفظ‘صحیح ہے (پیش کے نیچے کسرہ لگانا غلط ہے)۔ اسی طرح ’پسِ منظر‘ نہیں ’پس منظر‘ صحیح ہے۔ ’بہت بہتر‘ میں ’بہت‘ زائد ہے، صرف ’بہتر‘ لکھنا یا بولنا کافی ہے۔ اسی طرح ’بہت زیادہ‘ یا ’بہت کافی‘ میں بھی ’بہت‘ زائد ہے۔ ’عوام الناس‘ جس کا معنٰی لوگ ہے، اس کے لیے صرف ’عوام‘ لکھناکافی ہے۔ ’لیلۃ القدر‘ کی رات‘ غلط ہے، ’لیلۃ القدر‘ یا ’شب ِ قدر‘ صحیح ہے۔ ’خط و کتابت‘ نہیں ’خط کتابت‘ صحیح ہے۔ ’استفادہ حاصل کرنا ‘ میں ’حاصل‘ بلاضرورت ہے،وغیرہ وغیرہ۔
’اُردو کا عددی نظام (لسانی تناظر میں)‘ غازی صاحب نے ہندسوں کو لفظوں میں لکھتے ہوئے درپیش اُلجھنوں پر بحث کی ہے۔
پروفیسر موصوف کی یہ کتاب ہماری، خصوصاً نئی نسل کی راہ نمائی کرتی اور بتاتی ہے کہ ہمیں اُردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں صحت ِ املاو اعراب کا کیوں کر ، کہاں اور کیسے خیال رکھنا چاہیے۔ اشاعت و طباعت بہت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
، ڈاکٹر تسنیم احمد ۔ ناشرمکتبہ دعوۃ الحق، ۱۹۳-اے، اُٹاوہ سوسائٹی، احسن آباد، کراچی- ۷۵۳۴۰۔ فون: ۹۲۴۲۶۰۶-۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۷۵۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔ [مصنّف موصوف، قبل ازیں، اس سلسلے کی دس جلدیں شائع کرچکے ہیں (جلد۹ پر تبصرہ در ترجمان ، ستمبر۲۰۲۰ء، جلد۱۰ پر تبصرہ در ترجمان اپریل ۲۰۲۱ء)۔ زیرنظر جلد یازدہم کے کلیدی عنوانات یہ ہیں: نزولِ قرآن، سیرۃ النبیؐ، توحید، آخرت، کش مکش حق و باطل۔ یہ ایک طرح سے قرآنِ حکیم کی تفسیر ہے، جس میں سیرت النبیؐ کے اہم واقعات اور آں حضوؐر کی جدوجہد کے مختلف مراحل کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ بقول مؤلف: ’’اب صرف سات سورتوں پر گفتگو باقی ہے‘‘۔]
۔ ناشرمکتبہ المنبر، جامعہ سٹریٹ، بالمقابل ستارہ ٹیکسٹائل ملز، سرگودھا روڈ، فیصل آباد۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [مؤلف مرحوم ایک طبیب، معلّم اور مصنّف کے ساتھ ساتھ عالمِ دین بھی تھے۔ کئی سال پہلے، ریڈیو پاکستان فیصل آباد کی درخواست پر انھوں نے قرآنِ حکیم کے آخری دس پاروں کی بعض منتخب سورتوں کا خلاصہ تیار کیا جو ۱۴۰۴ھ (۱۹۸۴ء) کے رمضان المبارک میں ریڈیو سے نشر ہوا۔ یہ ایک طرح سے بعض آیات کی تشریح و تفسیر ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں علّامہ محمد المدنی کی کتاب کی تلخیص اور ترجمانی و تفہیم ہے۔ یہ سب احادیث ِ قُدسیہ ہیں۔ متن کے ساتھ ترجمہ و تشریح کے لیے دیگر احادیث اور قرآنی آیات سے مدد لی گئی ہے۔ایک اچھی تربیتی کتاب۔]
مرتب: ڈاکٹر طاہرہ انعام۔ ناشر: مہر گرافکس اینڈ پبلشرز، فرسٹ فلور، احسان سنٹر، بھوانہ بازار، فیصل آباد۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔[ڈاکٹر معین الدین عقیل کے بقول: ’’صبیح رحمانی کا نام آج اُردو کی ادبی و روحانی دُنیا میں صنف ِ نعت کے ساتھ اس طرح لازم و ملزوم ہوگیا ہے کہ جہاں ایک نام سننے پڑھنے میں آیا، وہیں دوسرا نام بھی ساتھ ہی چلا آتا ہے‘‘۔ زیرنظر کتاب صبیح رحمانی کے منتخب نسبتاً طویل تبصروں اور تجزیوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے صنف ِ نعت کی ترویج کے ضمن میں جو غیرمعمولی کاوشیں انجام دی ہیں، زیرنظر کتاب کو اسی سلسلے کی کڑی سمجھنا چاہیے۔ ایک مختصر مگر مفید کتاب ہے۔]
مرتب: پروفیسر محمد طیب اللہ۔ ناشر: مکتبہ الاحرار، چارسدہ روڈ، مردان۔ فون: ۹۸۷۲۰۶۷-۰۳۳۲۔ صفحات:۱۸۴۔قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [پروفیسر محمد طیب اللہ نے اپنے دادا محمد عبدالجمیل کا تذکرہ مرتب کیا ہے۔ موصوف کے بقول: علّامہ محمدعبدالجمیل ایک عبقری شخص تھے۔ نہایت باصلاحیت اور ذہین، بعض قدیم علوم (صرف و نحو، علم منطق، علم معانی و بیان اور علم فقہ وغیرہ) کے فاضل تھے۔ انھوں نے اِن علوم کی بعض کتابوں کی شرحیں بھی لکھی ہیں۔ فارسی میں اپنی آپ بیتی بھی لکھی ہے۔ مرتب نے اُن کی خود نوشت اور ڈائری سے بعض دل چسپ واقعات نقل کیے ہیں، جیسے: مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ دوملاقاتوں کا ذکر، جس میں بتایا ہے کہ دوسری ملاقات میں محمد عبدالجمیل کی پیش گوئی کے عین مطابق مرزا آں جہانی ہوگیا۔ مرتب کے الفاظ میں اس کتاب کی ترتیب کا مقصد یہ ہے کہ اُس بہادر اور صاحب ِ ہمت انسان کی زندگی کے روشن پہلو نسلِ نو کے سامنے آجائیں‘‘۔]
ناشراشرف اکادمی، شارع اشرف، ۶کلومیٹر سرگودھا روڈ، فیصل آباد۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ندارد۔ [طبیبوں کے خانوادے میں ڈاکٹر زاہد اشرف کی حیثیت نمایاں ہے۔خود طبیب ہیں اور طب کے معلّم اور مقرر بھی۔ مختلف موضوعات پر متعدد تصانیف شائع کرچکے ہیں۔ یہ عربی میں ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے باب اوّل کا اُردو ترجمہ ہے۔ اصل موضوع تھا: ابن سینا کی شہرئہ آفاق کتاب القانون فی الطب: دراسات و تحلیل ۔ حضرت آدمؑ سے تاحال، مختلف اَدوار میں، مختلف خِطّوں اور ملکوں میں طب کے فن میں ،عہد بہ عہد ترقی اور اس ضمن میں بعض شخصیات (طبیبوں) کی خدمات، مسلمانوں کے طبی کارہائے نمایاں کا تذکرہ۔]
[پتا: الندوۃ التحقیق الاسلامی ، بہادر کوٹ ، کوہاٹ۔ مقامِ اشاعت: پشاور]۔ [ایک دینی، علمی، تحقیقی اور فکری رسالہ۔ چند عنوانات: مغربیت اور قادیانیت کے تمدنی وار (اداریہ)۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی، قرآن کریم کی طب سے متعلق آیات کا عصری تناظر میں مطالعہ، افغانستان، جدید تہذیب، ملّت اسلامیہ اور مستقبل کی صورت گری۔ آخر میں مولانا عبدالماجد دریا بادی کا ۱۹۵۶ء کا ایک خط نقل کیا گیا ہے، جس سے مولانا کے شب و روز کی مصروفیت اور نظم اوقات کا پتا چلتا ہے۔ رسالے کا آغاز تو اچھا ہے، انجام؟؟]
یہ زمانے کے انقلابات ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ یورپ کے عیسائی، اندلس (Spain) جاکر مسلمانوں سے انجیل کا سبق لیا کرتے تھے۔ اب معاملہ اُلٹا ہوگیا ہے کہ مسلمان یو رپ والوں سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ اور اسلام کی تاریخ اور اس کی تہذیب کیا ہے؟ حتیٰ کہ عربی زبان بھی مغربی مستشرقین سے سیکھی جاتی ہے۔ مغربی ممالک سے استاد درآمد کرکے ان سے اسلامی تاریخ پڑھوائی جاتی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ وہ لکھتے ہیں، نہ صرف اسے پڑھا جاتا ہے بلکہ اس پر ایمان بھی لایا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ لوگ خود اپنے مذہب اور اس کی تاریخ کے متعلق اپنے ہم مذہبوں کے سوا کسی کی رائے کو ذرّہ برابر بھی دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہودیوں نے اپنی انسائیکلوپیڈیا (Jewish Encyclopedia) شائع کی ہے۔ اس میں کوئی ایک مضمون (Article) بھی کسی مسلمان تو درکنار کسی عیسائی مصنف کا بھی نہیں ہے۔ بائیبل کا ترجمہ بھی یہودیوں نے اپنا کیا ہے۔ عیسائیوں کے ترجمے کو وہ ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس کے برعکس یہودی مصنّفین، اسلام کے متعلق مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں اور مسلمان ہاتھوں ہاتھ ان کو لیتے ہیں اور ان کا یہ حق مانتے ہیں کہ ’’ہمارے مذہب اور ہماری فقہ اور ہماری تہذیب اور ہمارے بزرگوں کی تاریخ کے متعلق وہ محققانہ کلام فرمائیں اور ہم یہ چیزیں ان سے سیکھیں‘‘۔
یہ صورتِ حال کسی صحیح اسلامی حکومت میں نہیں رہ سکتی اور نہ رہنی چاہیے۔اسلامی حکومت بھی ہو اور اسلام اور مسلمان یتیم بھی ہوں، یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ رویّہ مسلمانوں کی ’غیراسلامی حکومت‘ ہی کو مبارک رہے! (’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۲،نومبر ۱۹۶۱ء، ص۵۵-۵۶)