عالمی اور علاقائی حالات کے پس منظر میں ۲۰۱۴ء غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس امر میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ سیاسی ، معاشی اور تہذیبی ہی نہیں مواصلاتی، ٹکنیکیاتی اور ماحولیاتی اعتبار سے بھی یہ سال اہم ہوگا اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان اور علاقے کے باب میں بھی یہ سال ایک تاریخی دوراہے (historical crossroads) کی حیثیت رکھتا ہے ۔
امریکا اور ناٹو کی افواج ۱۲ سال کی ناکام جنگ کے بعد افغانستان چھوڑ نے کا اقدام کرنے والی ہیں اور اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہے ۔ پھر افغانستان میں اپریل ۲۰۱۴ء میں نئے صدارتی انتخابات منعقد ہونا ہیں ۔ اس انتخابی معرکے کی وجہ سے بھی ایک غیر یقینی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی اور امریکا کے آیندہ کردارکے بارے میں اہم سوالیہ نشان اٹھا رہی ہے ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں ۱۱ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں ایک نئی حکومت قائم ہوچکی ہے جو قوم کے مطالبے کے باوجود، ملک کو امریکی جنگ کی اس دلدل سے نکالنے کے لیے ابھی تک کم سے کم پیش رفت میں بھی ناکام ہے۔ اس لیے مستقبل کے لیے کوئی نقشۂ کار واضح نہیں ہے ۔ اس پس منظر میں ’کیسا ہوگا ۲۰۱۴ء‘کا سوال کچھ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے ۔
آنے والے سال کے بارے میں میرے اندازے ، توقعات اور خدشات میرے اس تجزیے اور نتائج فکر پر مبنی ہیں جس پر میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعے، اور اس پر امریکا کے غیر متوازن اور وحشیانہ رد عمل اور، گذشتہ ۱۲ سال میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے کردار، اور امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ اور پاکستان کی دونوں سابقہ حکومتوں کے کردار کے با ب میں ایک سوشل سائنٹسٹ کی حیثیت سے پہنچا ہوں۔ اس لیے پہلے میں مختصراً اپنا تجزیہ پیش کرتا ہوں اور پھر ان سوالات کے بارے میں کچھ عرض کروں گا جو ذہنوں کو پریشان کر رہے ہیں اور واضح جواب کے لیے پکار رہے ہیں ۔
۱۔ دہشت گردی کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کے ایک نہیں دسیوں روپ ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ و آہنگ ہے ۔ نہ اس مسئلے کا جنم دن ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ہے اور نہ ۲۰۱۴ء میں اگر امریکا اور ناٹو افواج کا افغانستان سے مکمل انخلا واقع ہو جاتا ہے ، جو بہت مشتبہ ہے ، کیا تب بھی یہ دہشت گردی ختم ہوجائے گی ؟ عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سب نے دیکھ لیاہے کہ وہاں اب بھی دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور صرف ۲۰۱۳ء کے پہلے ۱۰مہینے میں ۸ہزار سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دہشت گردی محض ایک عسکری مسئلہ نہیں ہے، گو عسکری پہلو بھی ایک جہت کی حیثیت سے ضرور موجود ہے ۔ بنیادی طور پر اس کی جڑیں سیاسی مسائل اورناانصافیوں ہی میں پائی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان مسائل کے قرار واقعی حل کے بغیر اس کا حل ممکن نہیں۔
۲۔ اس وقت اہم ترین مسئلہ افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کا قبضہ ہے اور اگر افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا نہیں ہوتا تو افغانستان میں امن کے قیام کا کوئی امکان نہیں۔ اس صورت میں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ پاکستان آگ کے اس سمندر سے نکل سکے ۔
۳۔ سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر کوئی کچھ بھی کہے لیکن دو حقیقتوں کا اعتراف ضروری ہے، اور عالمی سطح پر بھی آزاد حلقوں میں اب اس بارے میں کھل کر اعتراف کیا جا رہا ہے کہ:
الف۔ افغانستان اور عراق دونوں میں فوج کشی کا کوئی حقیقی جواز نہیں تھا۔ امریکا نے محض ایک عالمی طاقت ہونے کے زعم میں اور امریکی بالادستی اور استثنائیت ((American hegemony and exceptionalism کومحض قوت کے زور سے دنیا پر مسلط کرنے کے لیے یہ جنگ لڑی اور منہ کی کھائی ۔ The New York Review of Booksکے ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں وار آن ٹیرر پر ایک اہم کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میلسی روتھوین(Malisi Ruthven) ایک جملے میں پوری خونچکاں داستان کو یوں بیان کرتا ہے :It is difficult to escape the conclusion that the United States has been fighting the wrong war, with the wrong tactics, against the wrong enemy and therefore the results can be nothing but wrong. ’’اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نکالنا مشکل ہے کہ امریکا نے ایک غلط جنگ ، غلط حکمت عملی سے غلط دشمن کے خلاف لڑی اور اس لیے نتائج بھی غلط کے علاوہ کچھ اور نہ ہو سکتے تھے ‘‘۔
روزنامہ دی گارڈین لندن کا کالم نگار سیومس ملن (Seumus Milne)۱۳ دسمبر ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں مغربی دانش وروں کی سوچ کا خلاصہ یوں بیان کرتا ہے کہ: The wars unleashed or fuelled by the US, Britain and their allies over the past 12 years have been shameful. Far from accomplishing their missions, they have brought untold misery, spread terrorism across the world and brought strategic defeat to those who leashed them. ’’امریکا، برطانیہ اور ان کے حلیفوں نے جو جنگیں گذشتہ ۱۲برسوں میں شروع کیں اور ان کو ایندھن فراہم کیا ، شرم ناک تھیں۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بجاے یہ غیرمعمولی تحریک لائیں، دہشت گردی کو ساری دنیا میں پھیلا دیا اور جنھوں نے اس کا آغاز کیا ان کی اسٹرے ٹیجک شکست کا باعث بنیں‘‘۔
یہ ہے افغانستان اور عراق پر مسلط کی جانے والی ۱۲ سالہ جنگوں کا حاصل اور وہ بھی چھے لاکھ کے قریب انسانوں کی ہلاکت، ۴۰ سے ۵۰ لاکھ کی خانہ بربادی اور نقل مکانی اور ۳سے ۴ہزار ارب ڈالروں کو اس جنگ میں پھونکنے کی قیمت پر!
ب- افغانستان میں امریکا اپنی تمام فوجی قوت اور ٹکنالوجیکل برتری اور اتحادیوں کی رفاقت کے باوجود جنگ ہار چکا ہے ۔ اس کا احساس اوباما کو جولائی ۲۰۰۹ میں ہی ہو گیا تھا جب اس نے اعتراف کیا تھا کہ:We are not trying to win this war militarily. Victory is not possible. ’’ہم اس جنگ کو فوجی بنا پر جیتنے کی کوشش نہیں کر رہے ۔ فوجی فتح ممکن نہیں ہے ‘‘۔
لیکن اس کے باوجود فوج کے اصرار پر اس نے ۳۰ ہزار افوج مزید بھیج کر جنگ کا پلڑا بدلنے کی ناکام کوشش کی اور اب سب اعتراف کر رہے ہیں کہ جنگ ہاری جا چکی ہے ۔ امریکی مؤقر جریدے فارن افیرز کے تازہ شمارے (ستمبر، اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی کے علمِ سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون Ending the War in Afghanistan میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ: ’’شکست یا مذاکرات ان کے سوا کوئی اور راستہ نہیں‘‘۔اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں۔ ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہو جائیں، گو یہ بھی کوئی امرت نہیں ہے لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔
امریکا اپنا کوئی بھی اعلان شدہ مقصد حاصل نہیں کر سکا اور دنیا اور امریکا دونوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے باوجود آج امریکا معاشی طور پر کمزور اور عدم تحفظ کے عوامی احساس کے بارے میں اُس سے ابتر حالت میں ہے جس میں۱ ۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے تھا۔ تازہ ترین راے عامہ کے سروے یہ بتا رہے ہیں کہ خود امریکا میں ۷۰ فی صد سے زیادہ افراد اپنے آپ کو آج غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں، یعنی وہی کیفیت جو ۲۰۰۲ء میں تھی۔
۳۔ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت جن وجو ہ اور مجبوریوں کے تحت بھی ہوئی ہو، اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ شرکت پاکستان کے لیے نقصان، تباہی اور بے حد و حساب بگاڑ اور فساد کا ذریعہ بنی ہے ۔ امریکا ہم سے ناخوش ہے اور ہمیں برملا ’ناقابلِ اعتبار‘قرار دے رہا ہے ۔ افغان عوام ہم سے بے زار ہیں کہ ہم نے ایک عالمی طاقت کا آلۂ کار بن کر ان پر فوج کشی کی راہ ہموار کی اور امریکی قبضے کے قیام میں معاونت کی ۔ افغان حکومت ہم سے شکوہ سنج ہے کہ پاکستان طالبان کی در پردہ پشت پناہی کر رہا ہے ۔ بھارت نے افغانستان میں اپنے لیے ایک کردار وضع کر لیا ہے حالانکہ روس کے فوجی قبضے کی تائید کر کے اس نے افغانستان میں اپنے کو ایک مبغوض ملک بنا لیا تھا، اور خود پاکستان میں دہشت گردی کے نت نئے روپ رونما ہو رہے ہیں۔ ملک کا امن و امان تہہ و بالا ہے اور معاشی حیثیت سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق ان ۱۲سال میں ہمیں اس نام نہاد امداد کو ایڈجسٹ کرنے کے با وجود جوسامراجی قوتوں کی خدمات کے معاوضے میں ہمیں دی گئی ہے، یعنی Net terms میں پاکستان کے عوام کو ۱۰۰ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے ، اور اس پر مستزاد وہ ۵۰ ہزار افراد ہیں جو ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سے زیادہ زخمی ہیں ا ور خود ملک میں ۳۰ لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ اس لیے اس عذاب سے نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
۴- امریکا ہو، ناٹو ہو یا خود پاکستان ہو، اس مسئلے کے سیاسی حل کے سوا کوئی نجات کا راستہ نہیں ہے ۔ اس سے انکار نہیں کہ امن و امان کے قیام اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے ریاستی قوت کے استعمال کا ایک معروف کردار ہے جو دستور اور قانون کے مطابق ادا کیا جانا چاہیے لیکن سیاسی مسائل کا حل کبھی محض عسکری قوت سے ہوا ہے اورنہ ہو سکتا ہے ۔ افغانستان کے باب میں اس کا ادراک اب بہت دیر سے ہورہا ہے حالاں کہ اصحابِ بصیرت بہت پہلے سے یہ بات کہہ رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے افغانستان کے لیے خصوصی نمایندے Tom Koenigs نے جرمن روزنامہ Berliner Zeitingکو ۱۳؍ اپریل ۲۰۰۷ء کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ :If there is to be a chance for peace , we must talk to everyone, including alleged war criminals . The aim is to stabilize Afghanistan. ’’اگر امن کے لیے کوئی امکان ہو تو ہمیں ہر ایک سے بشمول جنگی مجرموں کے بات چیت کرنا ہو گی۔ مقصد افغانستان کو مستحکم کرنا ہے ‘‘۔
اب جون ۲۰۱۳ میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے افغانستان کے دورے کے دوران اعتراف کیاہے کہ: 2002 was the correct time to carry negotiations with the Taliban. ’’طالبان سے مذاکرات کے لیے ۲۰۰۲ء صحیح وقت تھا‘‘۔ اور افغانستان میں خود ناٹو کے نائب کمانڈر جنرل زگ کارٹر نے ارشاد فرمایا ہے کہ: Negotiations with Taliban should have been conducted in 2002. ’’طالبان سے مذاکرات ۲۰۰۲ میں کر نے چاہیے تھے ‘‘۔
اس پر اس کے سوا اورکیا کہا جاسکتا ہے کہ ع ’ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘۔
حالات کے اس تجزیے کی روشنی میں ۲۰۱۴ء کے لیے پاکستان کے لیے صحیح حکمت عملی یہ ہے کہ وہ :
الف- دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے بے تعلقی کا اعلان کرے اور پوری خارجہ پالیسی کو اپنے ملکی مفاد اور عوامی جذبات اور خوااہشات کی روشنی میں از سر نو ترتیب دے جیسا کہ خود پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ ء اور ۱۴ مئی ۲۰۱۱ء کی دو قراردادوں میں مطالبہ کیا ہے ۔
ب- افغانستان میں افغانیوں کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ترغیب دیں کہ وہ قومی مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے افغان مسئلے کا افغان حل نکالیں اور سب سیاسی اور مذہبی قوتوں کو اس میں شریک کریں۔
ج- افغانستان کے معاملات میں امریکا، پاکستان، بھارت، ایران کوئی بھی مداخلت نہ کرے، البتہ علاقائی امن کی خاطر افہام و تفہیم سے حالات کو بہتر بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔
د- پاکستان امریکی جنگ سے بے تعلقی اختیار کرنے کے ساتھ خود اپنے ملک میں ، طالبان اور جو بھی دوسرے عناصر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیے ہوئے ہیں، ان کو سیاسی عمل کے ذریعے سے دہشت گردی سے باز رکھنے کے عمل کا سنجیدگی سے آغاز کرے ۔ اس سلسلے میں ایک ہمہ جہتی حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے جو پارلیمنٹ کے دیے ہوئے خطوط کی روشنی میں مذاکرات ، ترقی اور تعمیر نو اور ریاستی رٹ کی بحالی بذریعہ سدجارحیت (deterrence) پر مشتمل ہو۔ نیز فاٹا کے مخصوص حالات کی روشنی میں اس علاقے کو جلد از جلد ایک واضح پروگرام کے تحت ملک کے دستور ی نظام کا حصہ بنایا جائے اور جو کام ۶۶ سال سے معلق ہے اسے بلاتاخیر انجام دیا جائے، تا کہ وہاں حقیقی معنی میں حکومت کی رٹ قائم ہو سکے اور دستور اور قانون کی حکمرانی کا آغاز ہو سکے ۔
ہ۔ امریکا اورناٹو کے بارے میں یہ موقف مضبوطی سے اختیار کیا جائے کہ ان کے افغانستان سے مکمل انخلا کے بغیر افغانستان اور علاقے میں امن قٗائم نہیں ہو سکتا۔
میری نگاہ میں افغانستان اور خود پاکستان میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے ایک بڑے حصے سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا ہو جس کا امکان بظاہر کم ہی ہے ۔ امریکا کی پوری کوشش ہے کہ وہاں ایک خاص تعداد میں اس کی فوج موجود رہے ۔تین سے نو فوجی اڈے اس کے قبضے میں ہوں اور اس طرح وہ افغانستان، چین، پاکستان اور وسط ایشیا کے بارے میں جو بھی ایجنڈا رکھتا ہے اس کے حصول کے لیے ایشیا کے قلب میں بیٹھ کر اپنا کھیل کھیل سکے ۔ یہ بڑا خطرناک اور مسلسل تصادم کو جاری رکھنے والا راستہ ہے ۔ پھر امریکی افواج کے لیے جس استثنا (immunity) کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور جو کرزئی حکومت تک امریکی افواج کو دینے کو تیار نہیں، اس کی موجودگی میں افغانستان میں امن کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر امریکی افواج وہاں رہتی ہیں تو جنگ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی اور حالات مخدوش رہیں گے ۔ اور پاکستان بھی جنگ اور دہشت گردی کی اس دلدل سے نہ نکل سکے گا جس میں ۱۲ سال سے پھنسا ہوا ہے ۔
اس کے ساتھ دوسرا مسئلہ افغانستان کے مستقبل کے سیاسی انتظام کا ہے۔قرائن یہ ہیں کہ اپریل کا الیکشن کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ مستقبل کا سیاسی نقشہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد ہی صورت پذیر ہوگا، البتہ اس امر کا خدشہ ہے کہ اگر اس مسئلے کو آج طے نہ کیا گیا تو خدانخواستہ افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہے گی اور ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۶ء تک کا دور واپس آ سکتا ہے جو بڑا تباہ کن ہوگا۔ جنیوا معاہدے کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں اصل بر سرِ جنگ قوتوں کو شامل کیے بغیر اوپر ہی اوپر معاملات طے کیے گئے تھے اور سب سے اہم مسئلے، یعنی روس کی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد ملک کا انتظام و انصرام کیا ہوگا کو نظرانداز کر دیا اور اس طرح خانہ جنگی اور مسلسل تصادم کو ملک کا مقدر بنا دیا گیا۔ اگر آج بھی اس پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو خیر کی توقع نہیں ۔
مُلّا عمر کا عید الفطر کے موقعے پر بیان بہت اہم ہے جس میں اس نے مستقبل کے بارے میں چند اہم اشارے دیے ہیں یعنی :
۱- امریکی اور غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا۔
۲- ملک کے تمام عناصر کی مشاورت سے ایک ایسے نئے انتظام کا اہتمام، جس میں سب کی شمولیت ہو(inclusive)-
۳- تعلیم اور ملکی ترقی کے باب میں ایک مؤثر کوشش۔
۴- عام مسلمانوں اور معصوم انسانوں کا خون بہانے سے اجتناب۔
پاکستان میں امن کا بڑا انحصار پاکستان کے اندر دہشت گردی کے باب میں صحیح اور ہمہ جہتی حکمت عملی اپنانے اور اس پر خلوص سے عمل کے ساتھ افغانستان میں افغان قومی مفاہمت پر مبنی سیاسی انتظام کے جڑ پکڑنے پر ہے ورنہ خدا نخواستہ افغانستان خانہ جنگی کی آماج گاہ بنا رہے گا تو پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوگا اور اس پر مستزاد افغانستان سے نقل مکانی کی نئی لہر کا بھی شدید خطرہ ہے ۔ اگر آج افغان مسئلے کا صحیح خطوط پر حل نہیں ہوگا تو پھر افغانستان اور پاکستان دونوں کو تباہی کے ایک نئے طوفان کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ اس کی پیش بندی کا وقت آج ہے ، کل نہیں ہوگا۔
دہشت گردی اور فکری ٹکراؤ اور انتہاپسندی کی سوچ کا بھی ایک تعلق ضرور ہے لیکن ان دونوں اُمور کو مکمل طور پر گڈمڈ کر دینا بڑا خطرناک اور زمینی اور تاریخی حقائق کے ساتھ مذاق ہوگا۔ اختلاف راے ، فکری مباحث، اسٹیٹس کو (status quo)کو چیلنج اور نئی راہوں کی تلاش انسانی زندگی کی ایک حقیقت اور ترقی کے لیے زینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ عمل ،فکری اختلاف ،ذہنی ٹکرائو اور خیالات و افکار کی جنگ کی صورت اختیار کرتا رہا ہے اور پھر اسی کش مکش اور تصادم سے نئے افکار اور نئے فکری سمجھوتے وجود میں آتے رہے ہیں۔ ہیگل اور مارکس کا تو فلسفۂ تاریخ ہی اس تصادم کے سہ رکنی سفر (tringular journey) پر ہے، یعنی تھیسس جس کا مقابلہ دوسری انتہا پر اینٹی تھیسس کرتی ہے اور پھر اِمتزاج (synthesis) پیدا ہوتا ہے جو مرور زمانہ سے ایک بار پھر تھیسس بن جاتا ہے اورپھر یہی عمل جاری رہتا ہے ۔ محض انتہاپسندی کا رونا رو کر فکری سفر کے اس پورے تناظر کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
اسی طرح جب کسی معاشرے میں جبر اور تشددکا دور دورہ ہو ، جب عدل اور انصاف کا فقدان ہو، جب عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر دیا گیا ہو ،خواہ بیرونی قبضے کی شکل میں یا اندرونی آمریت اور استحصالی نظام کی وجہ سے تو پھر ان حالات کا بالآخر جو رد عمل رُونما ہوتا ہے، اس میں تشد د کا کردار نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ اس پر تشدد رد عمل کو جواز فراہم کرنے کے لیے فکری میدان میں بھی نظریات جنم لیتے ہیں اور فکر اور عمل دونوں میدانوں میں اس سے سابقہ پیش آتا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ کسی خاص مذہب ، تہذیب، علاقے یا قوم سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہمہ گیر تاریخی عمل ہے اور اپنے تمام نشیب و فراز کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں اور دنیا کے سب ہی علاقوں میں رونما ہوتا رہاہے ۔یہ عمل اپنے تمام تعمیری اور تشکیلی پہلوئوں اور تمام تخریبی اور تباہ کن شکلوں کے ساتھ ہی تاریخ میں ایک اہم منظرنامہ پیش کرتا ہے ۔ بلاشبہہ فکری محاذ پر تصادم کو کم کرنے اور افہام و تفہیم کی نئی راہیں تلاش کرنے کا عمل از بس ضروری ہے ۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو ان اُمور پر کھل کر بحث کرنی چاہیے لیکن دہشت گردی کا رشتہ دینی فکر اور تصورِ جہاد سے جوڑ کر دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی روش غلط ہے اور اس سے اجتناب اولیٰ ہے ۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں خود پاکستان اور عالم اسلام میں آج انتہا پسندی اور تشدد کے رجحانات کے مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے ۔ ولیم بلوم (William Blum) جو ایک مشہور سفارت کار، دانش ور اور مصنف ہے جو امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا رہاہے اور جس نے جنگ، دہشت گردی، تشدد اور انتہا پسندی کے موضوع پر اور ان جرائم میں امریکا کے کردار پر نصف درجن سے زائد کتابیں لکھی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین کتابAmerica's Deadliest Export: Democracy (اشاعت: وسط ۰۱۳ ۲ء) اس مسئلے پر بھی بحث کرتی ہے ۔ اس میں اس نے امریکا کی پالیسیوں کو پوری دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت ، شدت پسندی، اور دہشت گردی کے فروغ کا اصل سبب قرار دیا ہے اور یہ تک کہا ہے کہ طالبان اگر ایک ذہن اور سوچ کے انداز (mindset)کا نام ہے تو وہ صرف افغانستان یا پاکستان میں نہیں، واشنگٹن اور مغربی ممالک میں بھی موجود ہے ۔ الفاظ اور اصطلاحات مختلف ہیں لیکن حقیقت اور جوہر میں کوئی فرق نہیں۔ وہ صاف الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ: ’’جنگ امریکا کے لیے ایک مذہب کی شکل اختیار کر گئی ہے‘‘ اور جو بھی امریکا کے اس مذہب کو تسلیم نہیں کرتا، خواہ وہ افغانستان اور پاکستان میں ہو یا کہیں اور، وہ امریکا کی نگاہ میں توہین مذہب (blasphemy) کا مجرم ہے اور اس طرح وہ قتل کا سزاوار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں پرموت کی بارش کی جاتی ہے ۔ امریکی دہشت گردی اور افغان اور مسلم دہشت گردی کا مقابلہ و موازنہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ: "What is the difference between them and Mumtaz Qadri? Qadri was smiling in satisfaction after carrying out his holy mission. The CIA man sits comfortably in room in Neveda and plays his holy video game, then goes out to a satisfying dinner while his victims lay dying. Mumtaz Qadri believes passionately in something called Paradise. The CIA men believe passionately in something called American Exceptionalism!. (page. 328)". ’’ممتاز قادری اور ان لوگوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟ قادری اپنا مقدس مشن پورا کر کے اطمینان سے مسکرا رہا تھا ۔ سی آئی اے کا اہل کار بھی نوادا میں اپنے کمرے میں آرام سے بیٹھ کر اپنی مقدس وڈیو گیم کھیلتا ہے اور پھر اپنے اہداف کو مرتے ہوئے اطمینان سے دیکھتا ہے ۔ ممتاز قادری نہایت جذبے سے جس چیز کو جنت کہتا ہے ، اس پر یقین رکھتا ہے۔ سی آئی اے کے اہل کار بھی ایسے ہی جذبے سے جس چیز پر یقین رکھتے ہیں وہ جسے امریکی بالا دستی اور استثنائیت کہا جا تا ہے ‘‘۔
کاش! ہم اس پیچیدہ اور عالم گیر مسئلے کو تعصبات کی عینک سے دیکھنے کے بجاے تاریخی اور زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھیں اور اسباب تک پہنچ کر حالات کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں ورنہ نتائج بگاڑ میں اضافے کے سوا اورکیا ہو سکتے ہیں؟
رہا معاملہ پاکستان میں دینی جماعتوں کے فکری رجحانات اور سیاسی موقف کا تو وہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہیں اور ان پر دہشت گردی یا انتہاپسندانہ تصورات کے اثرات پڑنے کا خدشہ ایک واہمے سے زیادہ نہیں۔ پاکستان کی دینی جماعتیں بہت ہی متوازن سوچ کی علَم بردار ہیں ، انھوں نے تبدیلی کے لیے جمہوری راستے کو منتخب کیا ہے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں ۔ علماے کرام نے بالعموم اعتقادی اور سیاسی اُمور کے سلسلے میں قوت کے استعمال کو ناقابل بردا شت قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس سلسلے میں قرآن کا حکم بہت واضح ہے کہ دین کے معاملات میں کوئی جبر نہیں۔ (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ)۔اسلام کی نگاہ میں خون ناحق ایک صریح ظلم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے خواہ اس کا ارتکاب کوئی بھی کرے ، فرد، گروہ یا حکومت اور خواہ اس کے لیے کوئی بھی عنوان استعمال کیا جائے، مذہبی یا سیکولر۔
۲۰۱۴ء کیسا ہوگا؟ اس کا بڑا انحصار اس پر ہوگا کہ ہم ۲۰۱۴ء کے چیلنجوں کا کس طرح جواب دیتے ہیں۔ حالات کا تجزیہ کتنی حقیقت پسندی اور دیانت داری کے ساتھ کرتے ہیں اور اپنی حکمت عملی کتنی صحیح بنیادوں پر مرتب کرتے ہیں اور سب سے اہم یہ ہے کہ جو بھی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اس کے بارے میں عملاً کتنے مخلص ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس پر عمل کے لیے دیانت اور اعلیٰ صلاحیت دونوں کا کس حد تک مظاہر ہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ناگفتہ بہ حالات میں بڑا دخل حالات کے صحیح تجزیے کے فقدان کے ساتھ قیادت کا عدم خلوص اور اچھی حکمرانی کی صلاحیت سے محرومی ہے ۔ اگر ہم اپنی پالیسیاں صحیح بنیادوں پر تشکیل دیں اور اپنی صلاحیتوں کو صحیح انداز میں بروے کار لائیں اور اچھی حکمرانی پر عمل پیرا ہوں، تو ۲۰۱۴ء ساری مشکلات اور چیلنجوں کے باوجود بہتری کے سفر میں ایک سنگ میل بھی بن سکتا ہے اور یہی ہماری کوشش ہونی چاہیے ۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ۲۰۱۴ء ویسا ہوگا جیسا ہم اسے بنانے کی کوشش کریں گے اور اللہ پر بھروسے کے ساتھ خود وہ کچھ کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں جو مطلوب ہے۔ صحیح پالیسی، قیادت کی یکسوئی اور اچھی حکمرانی کے ذریعے تشکیلِ نو کی سعی و جہد میں ہی نجات ہے اور غیروں کی ذہنی ، معاشی اور سیاسی غلامی سے نکلے بغیر اور خود اپنی قوم اور اپنے وسائل پر انحصار کا راستہ اختیار کیے بغیر حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ یہ لمحہ ایک بنیادی فیصلہ کرنے کا ہے اور اگر ہم نے اسے ضائع کردیا تو یہ بڑا قومی سانحہ ہوگا۔