جنوری ۲۰۱۴

فہرست مضامین

مغرب اور اسلام

ڈاکٹر سمیہ راحیل قاضی | جنوری ۲۰۱۴ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج اور مغرب کی حکمت عملی

ذرائع ابلاغ یا پروپیگنڈے کی تعریف میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ دوسروں پر پروپیگنڈے کے ذریعے قابو پانا تاکہ ان کے طرزِ عمل اور رویوں کو تبدیل کیا جاسکے۔ پروپیگنڈے میں متعین افکار و خیالات کو اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ دوسروں کی آرا یارویے یا دونوں کو متاثر کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر جو پروپیگنڈا ہوتا ہے، اس میں کسی خاص حکومت کی پالیسی اور نقطۂ نظر کو اداروں یا افراد اور ملک کے شہریوں تک منتقل کیا جاتا ہے قطع نظر اس کے کہ پروپیگنڈے کا کام جو لوگ کرتے ہیں ان کی قومیت کیا ہے۔میڈیا کے ماہرین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ حکومتوں کی خارجہ پالیسی کے اجزاے ترکیبی میں ذرائع ابلاغ کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جو عناصر خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں ان میں تاریخی پس منظر، جغرافیائی محل وقوع، آبادی، اقتصادی اور فوجی قوت کے ساتھ ساتھ نظریاتی عوامل و محرکات شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح اس ملک کا سیاسی نظام اور انتظامی صلاحیت بھی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر خارجہ پایسی کی تنفیذ کے کلیدی وسیلے: میڈیا کا سہارا لے کر فوجی، سیاسی، اقتصادی، نیز مقامی حالات کو سامنے رکھ کر پروپیگنڈا اس طرح کیا جاتا ہے کہ غیر حقیقی افکار و خیالات اور باطل عقائد و نظریات کو غیروں کے دل و دماغ میں اچھی طرح راسخ کر دیا جاتا ہے۔ پھر ان سے اسی وقت کام لیا جاتا ہے جب کوئی بحران سامنے آتا ہے۔ ایسے موقع پر اس ملک کی فوجی، اقتصادی اور سیاسی قوت اور اس ملک کی راے عامہ کی نفسیاتی کیفیت و خصوصیت، نیز پروپیگنڈے کے وسائل، یہ سب مل کر ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

پروپیگنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے طاقت ور سیاسی پارٹیوں، ان کے قائدین، ملک کے دانش وروں اور عوام سے رابطہ اور اس ملک کی مقتدر اور نمایندہ شخصیتوں سے تعلق ضروری ہوتا ہے۔ اس قسم کے پروپیگنڈے صدیوں سے مسلم دنیا کے خلاف ہوتے آئے ہیں۔ درجِ ذیل رپورٹیں بھی اسی طرح کے پروپیگنڈوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔

l Civil Democratic Islam, Partners, Resources and Strategies  اس رپورٹ کو مشہور مغربی دانش گاہ رینڈکارپوریشن کے قومی سلامتی کے شعبے کے Cheryl Benard٭نامی مغربی دانش ور نے مرتب کیا تھا۔ اس کے مرتبین میں آٹھ افراد شامل تھے جن میں افغانستان کے زملے خلیل زاد بھی شریک تھے جوامریکا کے پالیسی سازوں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ رپورٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ آج اسلام ایک دھماکا خیز شکل اختیار کرگیا ہے جو اندرونی اور بیرونی جدوجہد میں مصروف ہے، تاکہ اپنے اقتدار اور اپنے تشخص کو اُبھار سکے اور ان کی روشنی میں دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکے۔ اس پس منظر میں امریکا اور مغربی دنیا کا مفاد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اسلامی دنیا ایک ایسی صورت اختیار کرے جو مغرب کے ساتھ ہم آہنگ ہو، یعنی جمہوری اس معنی میں کہ سماجی اعتبار سے ترقی پسند (socially progressive) ہو اور بین الاقوامی طور پر قابلِ قبول رویہ اختیار کرے۔ اس کے لیے امریکی پالیسی کیا ہو؟

رپورٹ کہتی ہے: اس لیے دانش مندی کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو عالمی امن اور عالمی برادری سے ہم آہنگ ہیں اور جمہوریت اور جدیدیت کو پسند کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں مسلمانوں کو چار بڑے بڑے زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

بنیاد پرست (Fundamentalists)

یہ اسلام کو ایک نظامِ زندگی ، ضابطہ، نظریہ اور طرزِ زندگی یا Life Styleسمجھتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی، فردکی ذاتی زندگی اور ریاست کے معاملات، جاے نما ز اور مسجد سے لے کر ریاستی قانون ، عدالت ، معیشت اور معاشرت سب میں اسلام کو بالادست سمجھتے ہیں۔ یہ مغربی تہذیب کے خلاف ہیں اور اسلامی قانون اور اخلاقیات کا وہ تصور رکھتے ہیں جو رپورٹ کے مصنّفین کی نگاہ میں جدیدیت سے متصادم ہے۔ یہ مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور نتیجتاً اہم ترین دشمن ہیں۔

روایت پرست ( Traditionalists )      

روایتی ،خانقاہی ،صوفی جوکہ خود تو مذہبی لوگ ہوتے ہیں مگر حکومت اور اجتماعی معاملات کے لیے ذاتی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ دین اور دنیا کو الگ خانوں میں بانٹنے والے تبدیلی، تجرداور جدیدیت سے خائف ہیں اور روایت کے اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ہمارے دشمن ہیں مگر نمبر ایک کے مقابلے میں غنیمت ہیں۔

جدت پسند (Modernists)

یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کو مغرب کی لادین تہذیب کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے اس میں ہر قسم کی تبدیلیاں اجتہاد کے نام پر کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جو اسلامی دنیا کو آج کی مغربی دنیا (جسے رپورٹ عالمی برادری، Global Community قرار دیتی ہے) سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اسلام کو جدید بنانے کے خواہاں ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں باوجود اس کے، کہ یہ گروہ اسلام سے رشتہ باقی رکھنا چاہتا ہے۔

لادین عناصر (Secularists)

چوتھا گروہ جو مغرب کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے وہ لادینوں (Secularists) کا ہے جو دین و دنیا اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے کھلے کھلے قائل ہیں، اور مغرب کے ماحول کی مکمل پیروی کرتے ہوئے مذہب کو ذاتی مسئلے اور اجتماعی امور کو مغربی صنعتی جمہوریتوں کے   طورطریق پر چلانا چاہتے ہیں۔

دراصل رپورٹ میں ان چاروں کے درمیان بھی تقسیم در تقسیم کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سب سے ’فسادی، اور خطرناک وہ بنیاد پرست ہیں جو ان کی نگاہ میں تشدد کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ تمام بنیاد پرست دہشت گرد نہیں، خطرناک ضرور ہیں۔ اسی طرح قدامت پسندوں، جدیدیت پسندوں اور لادینوں میں بھی کم از کم دو دو گروہ ہیں۔

حکمت عملی کے اہم نکات:

  •   پہلے قدم پر جدیدیت پسندوں کی حمایت کی جائے۔ انھیں اپنے نظریات مرتب کرنے اور پھیلانے کے لیے وسیع پلیٹ فارم فراہم کیا جائے۔ ان کے تصورِ اسلام کو روایت پسندوں کے تصور کے مقابلے میں زیادہ وقعت دے کر، روایت پسندوں کے بجاے انھی کو معاصراسلام کے حقیقی نمایندے کے طور پر تیارکیا جائے اور عوامی سطح پر پیش کیا جائے۔
  • لادینیت پسند عناصر میں سے ہر ایک کی اس کی کیفیت اور ضرورت کی مناسبت (Case by Case)سے حمایت کی جائے۔
  • لادینی تہذیبی اور ثقافتی اداروں اور پروگراموں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
  • روایت پسندوں کی اس حد تک پشت پناہی کی جائے جو انھیں بنیاد پرستوں کے مقابلے کے قابل رکھے۔ (اگر اور جہاں، یہ ہمارا انتخاب ہو) اور دونوں گروہوں کے درمیان قریبی اتحاد روکا جائے۔ روایت پسندوں کے اندر ہمیں انتخاب کر کے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جو جدید سول سوسائٹی سے نسبتاً بہتر مناسبت رکھتے ہوں۔ مثال کے طور پر بعض اسلامی فقہی مکاتب ہمارے انصاف اور انسانی حقوق کے تصور سے بہ نسبت دوسروں کے زیادہ قریب ہیں۔
  • m آخری بات یہ کہ بنیاد پرستوں کے اسلامی اور نظریاتی موقف میں کمزور مقامات پر پوری قوت سے حملہ کیا جائے، تاکہ وہ باتیں کھل کر سامنے آئیں جو ان کے مخاطب لوگوں میں سے نوجوان مثالیت پسند اور نیکوکار روایت پسند ٹھیک نہ سمجھیں۔ ان کی بدعنوانی ، ان کی بے رحمی، ان کی جہالت، اسلام کے اطلاق میں ان کا تعصب اور واضح غلطیاں، اور قیادت کرنے اور حکومت کرنے کی ان کی نااہلیت۔

براہِ راست سرگرمیاں

اس مجموعی طرزِ فکر کی تقویت کے لیے کچھ اضافی براہِ راست سرگرمیاں ضروری ہوں گی جیسی کہ ذیل میں درج ہیں:

  • اسلام کی تعریف، تشریح اور تعبیر کرنے پر بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کے اجارے کو توڑنے میں مدد دی جائے۔
  • ایسے مناسب جدیدیت پسند علما کی شناخت کرنا جو ایسی ویب سائٹس چلائیں جن میں روزمرہ معاملات کے بارے میں سوالات کے جواب دیے جائیں اور جدید اسلامی فقہی آرا پیش کی جائیں۔
  • نصابات کی تشکیل اور درسی کتب لکھنے کے لیے جدیدیت پسند اسکالروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
  • کم قیمت پر تعارفی کتب کی اشاعت کی جائے اور انھیں اسی طرح دستیاب کیا جائے جس طرح بنیاد پرست مصنفوں کے کتابچے دستیاب ہیں۔
  • مقبول عوامی ذرائع ابلاغ، جیسے ریڈیو کو استعمال کر کے جدیدیت پسند مسلمانوں کی فکر اور عمل کو عام کیا جائے تاکہ اسلام کا جو مطلب ہے اور جو ہوسکتا ہے اس کا عالمی دائرہ وسیع تر ہو۔

مجوزہ لائحۂ عمل

اس حکمت عملی کے بنیادی نکات یہ بیان کیے گئے ہیں:

۱- قائدین اور رول ماڈل تیار کرنا۔ وہ جدیدیت پسند جن کے ستائے جانے کا اندیشہ ہے ان کوانسانی حقوق کے چیمپئن کے طورپر سامنے لایا جائے۔

۲- اسلامی دنیا میں سول سوسائٹی کی حمایت کی جائے۔ اس صورت میں ایک جمہوری قیادت سامنے آسکتی ہے۔ کمیونٹی کی سطح پر بھی یہ انجمنیں ایک ایسا انفراسٹرکچر ہیں جو سیاسی شعور بیدارکرسکتی ہیں اور معتدل جدیدیت پسند قیادت اُبھار سکتی ہیں۔

۳- مغربی اسلام، جرمن اسلام اور امریکی اسلام وغیرہ کو تشکیل دینا۔ اس کے لیے ان معاشروں کی ہیئت کا اور ان کے ہاں رائج فکروعمل کے ارتقا کا بہتر فہم حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کے نظریات کا استنباط کرنے، اظہار کرنے اور ان کو قانونی شکل دینے (codifying) میں مدد دی جائے۔

۴- انتہاپسند اسلام سے وابستہ افراد اور موقفوں کو بے جواز قرار دیا جائے۔ بنیادپرست قائدین کے غیراخلاقی اور منافقانہ افعال کو عام کیا جائے۔ مغرب پر اخلاقی اور سطحیت کے الزامات، بنیاد پرستوں کا وتیرہ ہے، جب کہ انھی نکات پر وہ خود بہت زیادہ حملے کی زد میں ہیں۔

۵- عوامی ذرائع ابلاغ میں عرب صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنا کہ وہ بنیاد پرست قائدین کی زندگیوں، عادات و اطوار اور بدعنوانیوں پر تفتیشی رپورٹنگ کریں۔ ان واقعات کی تشہیر کی جائے جو ان کی بے رحمی کو ظاہر کرتے ہیں۔

۶- دینی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے نظام کو درہم برہم کیا جائے، اس لیے کہ   دہشت گردی اور انتہاپسندی کو وسائل فراہم کرنے میں خیراتی اداروں کا کردار نائن الیون کے بعد زیادہ واضح طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ سرکاری سطح پر تحقیقات ہوں اور مسلسل جاری رہیں۔

۷- خوش حال و معتدل اسلام کے نمونے کے طور پر مناسب نظریات رکھنے والے ممالک اور علاقوں یا گروپوں کی شناخت کرکے اور ان کی سرگرمی سے مدد کرکے تشہیر کی جائے۔ ان کی کامیابیوں کو شہرت دی جائے۔

۸- تصوف کے مقام و مرتبے کو بلند کیا جائے۔ مضبوط صوفی روایات کے حامل ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ اپنی تاریخ کے اس حصے کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے اپنے اسکول کے نصاب میں شامل کریں۔ صوفی اسلام پر زیادہ توجہ دی جائے۔

۹- انقلابی اسلامی تحریکوں کے بڑی عمر کے وابستگان کے نظریات تبدیل ہونے کی آسانی سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر جمہوری اسلام کا پیغام متعلقہ ممالک کے اسکول نصابات میں اور سرکاری میڈیا میں داخل کردیا جائے تو ان کی نوخیز نسل پر اثرانداز ہوا جاسکتا ہے۔ انقلابی بنیاد پرستوں نے تعلیم میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں اور اس کا امکان بہت کم ہے کہ وہ کسی لڑائی کے بغیر اپنی قائم شدہ جڑیں چھوڑ دیں۔ یہ میدان ان سے واپس حاصل کرنے کے لیے ایک بھرپور کوشش کی ضرورت ہوگی۔

رینڈکارپوریشن نے اپنے لائحہ عمل میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ جدت پسند حضرات کو سب سے زیادہ سپورٹ دی جائے۔ ان کا علمی کام ارزاں نرخوں پر تقسیم کیا جائے۔ جدت پسندوں کو نوجوانوں اور عام افراد کے لیے لکھنے پر راغب کیا جائے۔ ان کے نظریات کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے۔ ان کو اپنے نظریات کے اظہار کے لیے پبلک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔ ان کے ذریعے اسلام پرستوں اور بنیاد پرستوں کی اسلامی تشریحات کو چیلنج کیا جائے اور ان میں ضروری ترامیم کروائی جائیں۔ نوجوانوں کے سامنے لبرل کلچر کو متبادل کلچر کے طور پر پیش کیا جائے۔

رپورٹ میں ایک اور لائحہ عمل تحریر ہے وہ یہ کہ بنیاد پرستوںکو ہر طرف سے گھیرا جائے اور معاشرے میں ان کی عزت اور مقام کو زک پہنچائی جائے۔ مثلاً ان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا جائے، دہشت گرد گروہوں سے ان کے تعلقات کو ثابت کیا جائے، انھیں لڑاکا، جنگجو اور ہنگامہ پسند افراد کے طور پر سامنے لایا جائے۔ اس بات کو ثابت کیا جائے کہ وہ اچھے منتظم نہیں بن سکتے۔ نوجوانوں کو ان سے متنفر کیا جائے۔ میڈیا کے ذریعے ان کے کردار کو زیرِ بحث لایا جائے، انھیں معاشرتی لحاظ سے کم تر درجے کے طور پر پیش کیا جائے۔ ان کی تقسیم در تقسیم کو سپورٹ کیا جائے اور اس بات کو ثابت کیا جائے کہ ان میں (بقول رینڈ رپورٹ) منافقت، کرپشن اور گمراہ کن عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔

l  Building Moderate Muslim Network: رینڈ کارپوریشن کی ۲۰۰۷ء کے وسط میں یہ ایک اور رپورٹ٭ منظر عام پر آئی۔ اس رپورٹ میں امریکی تھنک ٹینک نے پانچ ایسے شعبے دریافت کیے جو ان کے ایجنڈے کو مسلم دنیا میں آگے بڑھا سکتے ہیں:

  • آزاد خیال (لبرل) سیکولر تعلیمی طبقہ اور دانش ور۔ 
  • نسبتاً کم عمر میانہ رو مذہبی رہنماmمعاشرتی کارکنان۔ 
  • جنسی مساوات پر یقین رکھنے والی خواتین انجمنیں۔ 
  • موڈریٹ صحافی، لکھاری اور کالم نگار۔

اس کام کے لیے چار سیکٹر طے کیے گئے۔ سب سے پہلے معاشرے میں جمہوری تعلیمات کو اسلامی تعلیمات کے طور پر فروغ دینا۔ دوسرا میڈیا کے ذریعے جمہوریت مخالف، رجعت پسند مذہبی طبقے سے لڑائی لڑی جائے۔ تیسرا سیکٹر جنسی مساوات، اور چوتھا سیکٹر ان کی پالیسی کے وکیلوں کا ہے جو موڈریٹ تصورات کا بخوبی دفاع کر سکیں۔

اس پورے کام کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آزاد خیال، لبرل مسلمانوں اور موڈریٹ مسلمانوں کے درمیان خوش گوار، گہرے تعلقات قائم کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ان کو بین الاقوامی طور پر منظم کیا جائے اور مسلمانوں کی تاریخی شکست کے علامتی نشان ہسپانیہ میں ان کا اجتماع منعقد کروایا جائے۔

یو ایس نیوز اور ورلڈ رپورٹ (US News & World Report) نے اپنے ۲۵؍اپریل ۲۰۰۵ء کے شمارے میں ایک مقالہ شائع کیا جس کا عنوان تھا: ’’دل ، دماغ اور ڈالر‘‘۔ اس مقالے کی تیاری اور تحقیق میں یو-ایس نیوز نے چار مہینے لگائے۔ انھوں نے تقریباً ۱۰۰ لوگوں سے انٹرویو کیے، اور تقریباً ایک درجن رپورٹوں پر غور کیا۔ اس کام پر عامر لطیف ، کیون وائٹ لو اور جولین بیرین فائز تھے۔ انھوں نے باہمی تعاون سے یہ تحقیقاتی مضمون لکھا۔

اس مضمون میں انھوںنے واشگاف الفاظ میں لکھا کہ امریکا محض ایک تماشائی کی طرح بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا کہ وہ دین اسلام، جو سیاست اور مذہب کو ایک ہی نظام کا حصہ سمجھتا ہے، جس میں وہ لوگ بھی ہیں، جو انتہا پسند ہیں اور وہ لوگ بھی جو ایک معتدل رویہ رکھتے ہیں، جن کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے، انھیں مستقبل میں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس سلسلے میں جس نتیجے پر یہ لوگ پہنچے ، وہ یہ تھا کہ اپنا اثرو رسوخ، اسلام میں اصلاحات کے لیے استعمال کیا جائے، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۰۴ء تک جو امریکی کاوشیں کی گئیں، ان میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مالی اور افرادی قوت کا فقدان تھا۔ اب اس کمی کا ازالہ کر دیا گیا ہے۔ اب اس اہم کام کی نگرانی کے لیے، ایک ڈپٹی نیشنل سیکورٹی مشیر براے منصوبہ بندی و اطلاعات اور عالمی اثرو رسوخ کی اہمیت کا حامل ایک عہدہ رکھا گیا، جو وائٹ ہائوس سے منسلک ہوگا۔ اس میں وہ تمام افراد شامل ہوں گے جن کا تعلق فوجی اور نفسیاتی کارروائیوں سے ہوگا۔ سی آئی اے (CIA) کی کارروائیاں خفیہ تو ہوتی ہی ہیں، لیکن اب اس کام کے لیے وہ کھلم کھلا میڈیا کے افراد اور دیگر اصحاب فکر کو بھی بھاری رقوم دے رہے ہیں۔ واشنگٹن والے کروڑوں ڈالر اس لیے خرچ کر رہے ہیں کہ مسلم معاشرے پر اپنا اثرورسوخ بڑھائیں۔

گویا اب ہدف صرف مسلمان نہیں بلکہ دین اسلام ہے۔ امریکا نے اعلان کیا کہ وہ اسلام کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ امریکا میں جو لوگ اس تحریک کے بانی ہیں وہ اس سے پہلے یہی حرکت، عیسائی مذہب کے ساتھ کرچکے ہیں۔ آج اسی کام کی ’برکت‘ سے یورپ اور امریکا میں گرجا گھر فروخت ہورہے ہیں اور لوگ اپنے مذہب سے بے زار ہوگئے ہیں۔ اسلام کو بھی وہ یہی تحفہ دینا چاہتے ہیں۔

امریکا کے نئے اہداف

اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ماضی میں امریکا کی یہ کارروائیاں ۲۰۰۴ء کے وسط تک مکمل طور پر باہمی رابطے قائم نہ کر پائیں، نہ اس کے پاس ان کے لیے رقم تھی۔ اب ایک نیشنل ڈپٹی سیکورٹی مشیر کے تقرر سے یہ کمزوریاں دور کر دی گئیں ہیں اور کانگریس نے اس کے لیے رقم مختص کر دی ہے۔ اب یہ پروگرام زوروشور اور سرگرمی سے چلایا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے صدر بش نے سی آئی اے ،کو حکم دیا تھا کہ اسلامی دہشت گردی کی جڑوں تک پہنچ کر اس کی مکمل بیخ کنی کر دی جائے۔ اس نئی تدبیر کو وائٹ ہائوس میں ’اسلامی دنیا میں نفوذ، کا نام دیا گیا ہے۔ اس پالیسی پر، وائٹ ہائوس اور تمام امریکی حکومت عمل پیرا ہے۔ اس پالیسی کے نمایاں اہداف درج ذیل ہیں:

۱- معلوم کیا جائے کہ عالمِ اسلام میں کیا ہو رہا ہے؟ با خبر رہنا۔

۲- بنیادی مقصد، مغربی لادینی (سیکولر) جمہوری نظریات کی اشاعت و ترویج ہے۔

۳- آزادی نسواں پر زور دینا، خاص طور پر عورتوں کے حقوق اور مخلوط میل ملاپ پر زور دینا۔

۴- نجی فائونڈیشن اور غیر منافع بخش انجمنوں (N.G.O)کے ذریعے سے، مسلم ریاستوں کی مدد کرنا۔

۵-مسلمان نام نہاد اعتدال پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرنا۔

۶-صیہونی تحریکوں کے ذریعے، اسلام میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرنا۔

۷-الاخوان المسلمون کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرنا۔

۸-پاکستان میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر میں اختلاف کو اُچھالنا۔

۹-پاکستانی علما کی مالی معاونت، تاکہ اپنے مطلب کے ایسے فتوے لیے جاسکیں جو امریکی مفاد میں ہوں۔

۱۰- فرضی جہادی تنظیمیں قائم کرنا، تاکہ ان میں داخل ہونے والے مخلص مجاہدین کو بھانپا جاسکے۔

۱۱-مدارس کا اثر ختم کرنے کے لیے ابتدائی اسلامی اسکول قائم کرنا ، خاص کر پاکستان اور انڈونیشیا میں۔

۲۲-مسلم ممالک میں تدریسی نصاب کو تبدیل کرنا۔

۱۳-مسلم مفکرین میں اثرونفوذ پیدا کرنا۔

۱۴- امریکی امداد کے ذریعے مسلمانوں کے متبرک مقامات کی مرمت اور آرایش ، اسلامی مخطوطوں کی مرمت اور حفاظت، قرآن مجید کے پرانے اوراق، بوسیدہ کلام مجید کی حفاظت۔ اعتمادسازی کے ایسے کئی کام کرنا، جو پہلے پاکستان، مصر، ترکمانستان، کرغزستان اور ازبکستان میں شروع کیے جا چکے ہیں۔

۱۵-مساجد کے اماموںکو تربیت دینا، یہ کام بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے۔

امریکا کا یہ ہمہ جہتی پروگرام شروع کیا جا چکا ہے، تاکہ اسلام کے خدوخال مکمل طور پر تبدیل کر دیے جائیں۔ اس کے لیے اہداف مقرر کیے گئے ہیں، افرادی قوت اورر قوم مختص کر دی گئی ہیں۔ اب پورے جوش و خروش سے اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔

World is Changing: مغرب اپنے اخلاقی زوال کے بعد عددی اعتبار سے بھی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کی قلعی یوٹیوب پر World is Changingنامی ویڈیو نما ڈاکومنٹری نے بھی کھول دی ہے۔ اس دستاویز ی فلم میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خلاف سرجوڑ کر منصوبہ بنانے کی پکار بلند کی گئی ہے اور مسلم آبادی کے ایٹم بم کے مہیب خطرے کو محسوس کرنے کے بعد مغرب کے پالیسی ساز اداروں نے ایک ہمہ جہتی اور ہمہ پہلو حکمت عملی ترتیب دی ہے کہ:

۱- مسلمان ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح کو مؤثر انداز میں روکنا اور وہاں بہبود آبادی کے نام پر WHO،UNICEF اور ورلڈ بنک کے تعاون سے مہمات کو آگے بڑھایا جارہاہے۔

۲-مغربی اور ہندوانہ تہذیب و ثقافت کی یلغار کے ذریعے نوجوانوں کی فکری صلاحیتیں مفلوج کی جارہی ہیں اور بطور مجموعی مسلمان ملت کو اخلاقی شکست سے دوچار کیا جارہاہے۔

۳- تعلیم، سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کو تنہااور بے دخل کیا جارہاہے۔

مغربی دانش ور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے عزائم کو لگی لپٹی بغیر طشت ازبام کررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ: ہم کش مکش، جمہوریت اور اچھی حکمرانی کے ذریعے منظم مزاحمت کا آغاز کردیں۔

 مولانا مودودیؒ نے دعوت کا درج ذیل طریق کار بیان کیاہے:

۱-تطہیر افکار و تعمیر افکار:غیر اسلامی قدامت پسندی کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اسلام کی تصویر کو پیش کرنا۔ مغربی علوم و فنون اور نظام و تہذیب تمدن کی غلط چیزوں کو ترک کرنا اور صحیح چیزوں کو اخذ کرنا،اور موجودہ زمانے کے چیلنجوں کا مقابلہ کرکے اسلام کے اصولوں کو رائج کرنا اور صالح تمدن کی تعمیرکرنا۔

۲-صالح افرادکی تنظیم و تربیت : فکر ی ، جسمانی اور روحانی طور پر تندرست اور صالح افراد کی تلاش ، تنظیم اور تربیت کرناتاکہ پاکیزہ ، مضبوط اور قابل اعتماد گروہ تیار ہوجائے اور صالحیت کے ساتھ ساتھ صلاحیت سے بھی آراستہ ہوجائے تاکہ محض کاغذی اور زبانی دعوئوں تک ہی کام محدود نہ ہو ۔

۳- اصلاح معاشرہ : اجتماعی اصلاح کی سعی کرنا تاکہ کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے کام سونپے جائیں۔ ہمیں کسان کی طرح کام کرنا ہے جو ایک متعین رقبے پر زمین تیار کرنے سے فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کرکے اپنی محنتوں کو نتیجے تک پہنچا کر دم لیتاہے۔

۴-نظام حکومت کی اصلاح :اس دعوت کا چوتھا جزو بہت ہی اہم ہے کیونکہ جب تک نظام حکومت صحیح نہ ہو تو بگاڑ کو درست نہیں کیا جاسکتا ۔ انتخابات اور جمہوریت ہی اس کا واحد راستہ ہے۔

 مغرب ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی پر کاربند ہے اور ہمیں اس کی مزاحمت مساوات، اخوت اور اتحاد کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر کرنی ہے۔

ان کی حکمت عملیوں کی مزاحمت منظم ہو کر حکمت عملی اور منصوبے بنا کر ہی کی جاسکتی ہے۔ منظم مزاحمت ہی نتیجہ خیزہوتی ہے۔ اقبال نے مغربی تہذیب کی چکا چوند کو فریب قرار دے کر اُس کا پول کھول دیاتھا، اور اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی میں فرد اور قوم میں مطلوب صفات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کا آغاز وہ ان اشعار سے کرتے ہیں   

ع ۔ دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر

ایک بوڑھا چراغ لے کر شہر میں گھوم رہاتھا کہ میں بُری صفات کے حامل لوگوں سے تھک گیا ہوں اور ایک اچھے انسان کی تلاش میں ہوں۔ سست اور بے کار ہمراہیوں سے بے زار ہوں اور رستم اور شیر خدا حضرت علیؓ کی طرح جسمانی و روحانی صفات کے حامل لوگوں کی آرزو میں پھر رہا ہوں ۔ میں نے کہاکہ ایسے لوگ اب ناپید ہوگئے ہیں، اب نہیں ملتے۔ اُس نے کہاکہ وہ جو نہیں ملتے اور ناپیدہوگئے ہیں ،اُنھی لوگوں کی تلاش میں ہوں ۔

اسلام دنیا بھر میں مسلسل طوفانوں کی زد میں ہے ۔ اسلام اور اہل اسلام کو دہشت گردی اور دقیانوسیت کے ساتھ جوڑا جارہاہے۔ اس پورے منظر نامے میں اسلام اپنے ماننے اور چاہنے والوں اور اپنے رب پر یقین رکھنے والوں کی طرف دیکھ رہاہے کہ وہ آزمایش کی اس ایمان کو متزلزل کردینے والی گھڑی میں کس اطمینان قلب کے ساتھ حق پر قائم رہتے ہیں اور ہر طرف اُڑتی ہوئی گردسے خود کو اور اپنی بصیرت کو محفوظ رکھ کر درست سمت میں سفر جاری رکھتے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ اسلام جس ابلاغی طوفان کا شکار ہے، یہ عارضی اور وقتی ہے ۔ انسانوں کی بڑی تعداد کو کچھ عرصہ تک تو دھوکے کا شکار رکھا جاسکتاہے مگر محض پروپیگنڈے کی قوت سے مستقل طور پر اس دھوکے کو   قائم رکھنا ممکن نہیں ۔

حالات ہمیں خواہ کیسے لگ رہے ہوں، اس پوری صورت حال کا منظر نامہ چاہے کیسا ہی بن رہا ہو، ہمیں تو بس یہ دیکھنا ہے کہ اس پورے منظر نامے میں ہمارا کیا کردار ہے ؟اپنے رب کی وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے اس زمین پر اس کی مرضی قائم کرنے کی جدوجہد میں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ کیا ہمارے قدم درست سمت سفر میں آگے بڑھ رہے ہیں ؟ کیا ہم اپنے وقت اور صلاحیتوں کا بیش تر اور اور بہتر حصہ اس جدوجہد میں لگا رہے ہیں؟ کیونکہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے ۔ جو چیز کم ہو اسے بہت احتیاط اور دانش مندی سے خرچ کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ استفادہ ممکن ہوسکے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی اور اُن کے عشق میں ڈوب کر اپنے دل کی آواز سننی چاہیے اور پھر اپنے وجدان پر بھروسا کرنا چاہیے۔

دنیاے اسلام کی مدافعتی قوت سایوں کی مانند ہے جو پھیلتی ہے ، بڑھتی ہے ، سمٹتی ہے ، غائب ہوجاتی ہے مگر پھر نمودار ہوجاتی ہے۔ میرے آغا جان(قاضی حسین احمدؒ) کو برسوں پہلے غرناطہ کی گلیوں میں ایک مسلمان ملا تھا جس نے کہاکہ اسلام پتھر کی طرح جامد وجود نہیں بلکہ ایک درخت کی طرح نامیاتی وجود ہے ۔ اگر اسے نچلے تنے سے بھی کاٹ دیا جائے تو اس کی جڑوں سے نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ اُس نے کہاکہ اسلام عنقریب پھر اس خطے میں برگ و بار لائے گا۔ آغا جان کہہ رہے تھے کہ اندلسی نوجوان کا یقین اتنا راسخ تھاکہ مجھے اقبالؒ کا یہ شعر یاد آنے لگا    ؎

دانۂ راکہ درآغوش زمین است ہنوز

شاخ درشاخ و برومند جواں می بینم

(اس دانے کو جو ابھی زمین کی آغوش میں چھپا ہوا ہے ، شاخ در شاخ اور ثمر بار اور جوان دیکھ رہاہوں)

ان رپورٹوں اور ان کی حکمت عملیوں کو دیکھ کر اقبالؒ کی یہ پکار بھی آج ہی کی صدا لگتی ہے:

فریاد زافرنگ و دل آویزیِ افرنگ

فریاد زشیرینی و پرویزیِ افرنگ

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزیِ افرنگ

معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز

از خواب گراں ،خواب گراں 

خواب گراں خیز، از خواب گراں خیز

(مغرب کی دل آویزیوں ، چکنی چپڑی باتوں اور استعماری طاقتوں سے فریاد ہے۔ پورا عالم مغرب کی چیرہ دستیوں سے ویرانہ بن گیاہے۔ معمار حرم گہری نیند سے بیدار ہوجائو اور نئی دنیا کی تعمیر پر کمربستہ ہوجائو۔)

مقالہ نگار صدر، ویمن اینڈ فیملی کمیشن، جماعت اسلامی پاکستان ہیں۔