سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اولین کتاب: مغازیِ رسولؐ اللّٰہ ہے جسے حضرت عروہ بن زبیرؓ (م:۹۴ھ) نے لکھا۔ سیرتِ نبویؐ کا ذخیرہ آج دنیا میں کم و بیش ۱۰۰ زبانوں میں ہزاروں کتب و تراجم کی شکل میں دستیاب ہے۔ اُردو زبان میں ذخیرۂ سیرت ۳ہزار سے متجاوز نظم ونثر کی چھوٹی بڑی مطبوعات کی صورت میں موجود ہے۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا نظر آرہا ہے اور حکومت پاکستان کی سرپرستی میں سیرتِ رسولؐ پر کتب پر سیرت اوارڈ سے بھی اس کی مزید حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ پھر مستشرقین نے نبی اکرمؐ کی سیرتِ مبارکہ پر اعتراضات اُٹھائے تو اس کے رد میں کتب سیرت کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ اسی طرح بعض غیرمسلموں نے بھی نبی اکرمؐ کی شان میں کتب لکھی ہیں جو اپنی جگہ لائق مطالعہ ہیں۔ غرض سیرتِ رسولؐ کے ذخیرے پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک عظیم الشان ذخیرہ ہے جو اہلِ ایمان کا علمی ورثہ ہے اور اسے نئی نسلوں تک سیرتِ رسولؐ کے شایانِ شان اور عصرِحاضر کے جدید تقاضوں کے پیش نظر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز یہ میدان اہلِ علم و تحقیق کو غوروفکر کی دعوت بھی دے رہا ہے۔
ذخیرۂ سیرتِ نبویؐ کو محفوظ کرنے اور نئی نسل تک جدید تقاضوں کے پیش نظر منتقل کرنے کی ضرورت کو محسو س کرتے ہوئے ادارہ نشریات نے کتب ِ سیرت کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ حیات سرورِ کائناتؐجو ماضی قریب میں علمی وادبی حلقے کے ایک معروف نام مُلّا واحدی دہلوی کے قلم سے سامنے آئی، کی اشاعت ِ نو اسی غرض سے کی گئی ہے۔
کتاب کی علمی حیثیت اور مقام کے بارے میں پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم تقریظ میں لکھتے ہیں:’’سیرت النبیؐ کے موضوع پر اُردو میں ہزاروں چھوٹی بڑی کتابیں اور رسائل لکھے گئے ہیں مگر مُلّاواحدی کی کتاب حیاتِ سرورِکائناتؐ اس تمام پاکیزہ ذخیرے میں اپنے مضامین، اسلوب، حسنِ ترتیب، زبان و بیان اور طرزِانشاء کے لحاظ سے یگانہ و ممتاز ہے۔ ہرچند اس تصنیف میں سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، رحمۃ للعالمینؐ از قاضی محمد سلیمان، سلمان منصور پوری اور سیدابوالاعلیٰ مودودی، نیز مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی متعدد تحریروں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ اس طرح جو تصویر سامنے آئی ہے وہ نہ صرف نبی اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ کے سوانحی پہلو کی کامل تصویر پیش کرتی ہے بلکہ اس میں کارنامۂ نبوت کی تمام تر تفصیلات، اسوئہ حسنہ کی پاکیزگی اور تابندگی، معمولاتِ نبویؐ کی جزئیات اور دین و شریعت کی تمام تر تعلیمات کا عکس بھی دکھا دیا گیا ہے....مصنف نے کہیں کہیں مغربی دانش وروں کے ایسے اقوال اور تحریریں بھی درج کی ہیں جن سے عظمت ِ مصطفویؐ اور اعترافِ رسالت کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ کتاب سیرت، نبوت و رسالت کی رواں تفسیر دکھائی دیتی ہے‘‘۔ (ص ۳۱)
سیرتِ نبویؐ کے ذخیرے سے استفادے کا یہ اقدام مبارک باد کا مستحق ہے اور اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اربابِ علم و دانش کو طباعت و تحقیق کی جدید سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر اس پہلو پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ جہاں حب ِ رسولؐ کا تقاضا ہے وہاں علمی ضرورت بھی ہے۔(امجد عباسی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عربی، اُردو، فارسی، انگریزی، فرانسیسی اور جرمن میں اتنی کثیر تعداد میں کتابیں تحریر کی گئی ہیں کہ تاریخ میں کسی بھی انسان پر اتنی بڑی تعداد میں کتابیں تحریر نہیں ہوئیں۔ حضور اکرمؐ کے متعلق ہر مصنف نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق قلم اُٹھایا، مثلاً تصوف کے حوالے سے یا حضور اکرمؐ بطور ایک عظیم سپہ سالار یا بطور ایک انقلابی رہنما یا بطور ایک کامیاب حکمران اور ماہر سیاست دان وغیرہ۔
مصنف نے حضور اکرمؐ کی عملی زندگی میں عدل و انصاف اور معاشی مساوات کے پہلو کو نمایاں کیا ہے۔ مصنف کے خیال میں لوگ حقوق العباد کو بھول چکے ہیں، انھیں حضور اکرمؐ کی سیرت کے حوالے سے اس طرف توجہ دلائی جائے تو یقینا وہ راہِ راست کی طرف پلٹیں گے۔
مصنف نے سیرت النبیؐ کی معتبر و مستند کتابوں اور قرآنِ مجید کے حوالوں سے اپنی کتاب مرتب کی ہے (اگرچہ حوالے کہیں مبہم، کہیں ناقص اور ادھورے ہیں)۔ پہلے ۱۷؍ابواب حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کی وفات تک کے واقعات زمانی ترتیب سے مرتب کیے گئے ہیں۔ باقی حصے میں مختلف موضوعات پر اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اسلامی تعلیمات و ہدایات پیش کی گئی ہیں۔ اکیسویں باب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ میں سے ، جسے مصنف نے عملی قرآن لکھا ہے (ص ۲۹۱) چند ایسے واقعات لکھے ہیں جن سے حضور اکرمؐ کے حُسنِ اخلاق اور حُسنِ معاملہ کا پہلو اُجاگر ہوتا ہے۔
مصنف نے عام فہم زبان میں اللہ کے آخری نبیؐ کی زندگی کو محبت و عقیدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہاں چند ایک اُمور کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے تاکہ نقشِ ثانی میں تصحیح ہوسکے۔ غار، مذکر ہے، اسے مؤنث لکھا گیا ہے (۲۹۸)۔ حضور اکرمؐ کی رضاعی والدہ کا نام ثویبہ ہے، ثوبیہ لکھا گیا ہے (ص ۴۴)۔ حضوراکرمؐ کی سیرت کا سب سے بڑا مآخذ قرآنِ مجید ہے۔ پوری کتاب میں قرآنی حوالوں کے لیے عربی متن کے بجاے صرف اُردو ترجمہ دیا گیا ہے، قرآن کی آیات کا ترجمہ کسی مستند ترجمے سے دیا جائے تو مناسب ہے۔ یہی حال احادیث کی کتاب کے حوالوں میں ہے، یعنی حدیث کی کتاب کا نام دیا ہے، صفحہ نمبر نہیں دیا۔ بعض اشعار بھی غلط نقل ہوئے ہیں۔ بعض حوالے نامکمل ہیں ص ۱۲۶ پر، حوالہ نمبر۲۸ کے تحت صرف پیرکرم شاہ لکھا گیا ہے۔ کتاب کا نام اور صفحہ نمبر مفقود ہے۔ طائف فتح نہیں ہوا (۱۸۴)، حضور اکرمؐ نے چند روز محاصرہ کیا پھر لوٹ آئے۔ اسلوبِ بیان واضح، صاف اور سلیس ہے، کہیں ابہام نہیں۔ اُمید ہے کہ قارئین اس کتاب کے مطالعے سے حضور اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق عمل کا داعیہ محسوس کریں گے۔(ظفرحجازی)
قرآنِ مجید کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کے عجائب کے نہ ختم ہونے کا سلسلہ ہے۔ قرآنِ مجید سے ہدایت و رہنمائی اور اس کے مفہوم کو جاننے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف تفاسیر لکھی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ قرآن کا فہم و شعور ایک مختصر اور جامع تفسیر ہے جو انفرادیت کی حامل ہے۔
نبی اکرمؐ کے طریق تعلیم میں ایک پہلو استفہامی انداز بھی تھا۔ آپؐ صحابہ کرامؓ کو متوجہ کرنے کے لیے سوال پوچھتے تھے اور پھر جواب بھی دیتے تھے۔ اس طرح سے جہاں بات پوری طرح سمجھ میں آجاتی تھی وہاں ذہن نشین بھی ہوجاتی تھی۔ راجا محمد شریف قاضی نے جو کئی کتب کے مصنف ہیں اور دعوت و تدریس کے میدان سے وابستہ ہیں، تفسیرقرآن کے لیے اس طریق تعلیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے سورئہ فاتحہ، سورئہ بقرہ اور آخری پارے کی تفسیر کی ہے۔
آغاز میں سورہ کا مختصر تعارف دیا گیا ہے جو کہ سوال و جواب کی شکل میں ہی ہے۔ عربی متن اور ترجمے کے بعد ’لغت‘ کے عنوان سے اہم عربی الفاظ کے معنی، قواعد و ضوابط اور مآخذ و مصادر بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد آیاتِ قرآنی کی مختلف عنوانات کے تحت سوالاً جواباً تشریح دی گئی ہے۔ آیات میں بیان کردہ مضامینِ قرآن کو واضح کرنے کے لیے مختلف ابواب کا تعین کیا گیا ہے اور ہرباب کے آخر میں ’مشق‘ دی گئی ہے تاکہ اہم موضوعات ذہن نشین ہوجائیں۔ تفسیرقرآن کے لیے سیدمودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن کو بنیاد بنایا گیا ہے اور سیدقطب شہیدؒ کی فی ظلال القرآن اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تدبرقرآن سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
استفہامی انداز میں یہ مختصر تفسیر جہاں قرآنِ مجید کے اہم مضامین کو جاننے کا ذریعہ ہے وہاں قرآنی عربی سیکھنے کی رغبت بھی دلاتی ہے۔ اگر قرآنی عربی کا کورس بھی کرلیا جائے تو آیات کے ترجمے کی استعداد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ فہم قرآن اور مدرسین قرآن کے لیے ایک مفید تفسیر ہے۔ اگر اس سلسلۂ تفسیر کو مکمل کرلیا جائے تو قرآن فہمی کے لیے یقینا ایک مفید خدمت ہوگی۔(امجد عباسی)
یہ کتاب مصر میں حسنی مبارک کے بعد، صدر مرسی کے مختصر دور اور پھر جنرل سیسی کے فوجی انقلاب کی صورت حال کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب نے مصر کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا پس منظر فراہم کر کے ایک اہم ضرورت پوری کی ہے۔
مصنف نے اس کتاب کے ایک باب میں حسن البنا سے محمد بدیع تک تمام مرشدین عام اور دوسرے باب میں ’اخوان اہلِ قلم کا قافلہ‘ کے عنوان سے ۱۴شخصیات پر ضروری معلومات فراہم کی ہیں۔ دوتہائی سے زیادہ کتاب گذشتہ دو تین سال کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس دوران جو تجزیے اور رپورٹیں اُردو یا عربی میں شائع ہوئیں ان کا ایک مربوط انتخاب صورتِ حال کی مکمل تصویرکشی کردیتا ہے۔ صدرمرسی کے انٹرویو، ان کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹیں، اسی طرح فوجی بغاوت کے بارے میں ضروری معلومات، سب جمع کردی گئی ہیں۔ ریفرنڈم میں منظورشدہ دستور کا مکمل متن بھی شامل ہے۔ ابتدا میں ہی رابعہ العدویہ، شہدا، بچوں اور بڑے بڑے اجتماعات کی تصاویر سے تحریکِ مزاحمت کی بھرپور جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ نعیم صدیقی کی مشہور نظمیں ’پھر ایک کارواں لٹا‘ ، ’یہ کون تھا کس کا خون بہا؟‘ بھی شاملِ اشاعت ہیں۔
اس کتاب کی حیثیت ایک مستند دستاویز کی ہوگئی ہے۔ اگر سب منتخب تحریرات کے حوالے بھی دیے جاتے تو کتاب زیادہ مستند ہوتی۔ مصنف اس کتاب کی بروقت طباعت پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مستقبل کے مؤرخ کے لیے لوازمہ ایک جگہ فراہم کردیا ہے۔ (طاہر آفاقی)
سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے انتقال (۵جنوری ۲۰۱۳ء) پر جس طرح سے عالمی سطح پر اور اندرونِ ملک حلقوں نے ان سے اظہارِ عقیدت کیا، اس سے ان کی شخصیت اور مقبولیت کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی شخصیت، جدوجہد، خدمات اور درپیش اہم چیلنجوں کا زیرتبصرہ اشاعت ِ خاص میں احاطہ کیا گیا ہے۔ عالمی اسلامی تحریک کے قائدین، علماے کرام، معروف سیاست دان، جماعت اسلامی کے قائدین اور وابستگان اورمعروف اہلِ قلم، دانش وروں اور کالم نگاروں کے افکار و آرا اور انٹرویو اس اشاعت خاص میں یک جا کردیے گئے ہیں۔ قاضی صاحب کا جہادِافغانستان میں اہم کردار تھا، حکمت یار گلبدین نے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ مسئلۂ کشمیر اور جہادِ کشمیر سے قاضی صاحب کی وابستگی پر الیف الدین ترابی اور عبدالرشید ترابی اظہارِ خیال اور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اہلِ خانہ اور احباب کے تاثرات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ مضامین کے ساتھ منظوم خراجِ عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے۔ مجاہد ملت قاضی حسین احمد کی یاد میں ایک ضخیم اشاعت خاص۔(امجد عباسی)
’قتلِ غیرت‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بظاہر اس کے معنی ’غیرت کو قتل کردینا‘ ہوں گے، لیکن مصنف کی مراد اس سے بالکل برعکس یہ ہے کہ غیرت کو باقی رکھنے یا ’پاسِ غیرت‘ میں قتل کرنا۔ انگریزی میں اس کے لیے عام اصطلاح Honour Killing ہے۔
مغرب میں، اور ہمارے ملک میں بھی، عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’غیرت‘ کی بناپر عورتوں پر تشدد، جو اُن کی ہلاکت پر بھی منتج ہوسکتا ہے، صرف مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بقول مصنف: ’’غیرت مغرب کا مسئلہ بھی ہے اور مشرق کا بھی۔ یہ ایک انسانی تقاضا ہے کہ انسان اپنے نسلی و خاندانی کردار پر اُٹھنے والی ہرانگلی کو اپنی عزت و آبرو پر اُٹھنے والا اشارہ تصور کرتا ہے۔ اس تصور کے بعد عمل کیا ہے یہ ایک اور رویّہ ہے، جو مختلف ہوسکتا ہے۔’غیرت‘ قتل ہوجائے تو قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ غیرت رُسوا کرے تو بے حیائی کی نئی تعبیر بھی بن جاتی ہے۔(ص ۱۱)
نام نہاد غیرت کی بنا پر کسی کو قتل کردینا، عام طور پر مردوں کا ہی فعل ہوتا ہے، جس کا شکار کوئی عورت ہوتی ہے، خواہ وہ بیوی ہو، بیٹی، بہو یا ماں، یا خاندان کی کوئی اور عورت۔ پاکستان میں کسی عورت کے جنسی جرم کے نتیجے میں اُسے نظربندی، زبردستی کسی سے نکاح، جسمانی تشدد، بدہیئت بناد ینا (ناک، کان کاٹ دینا، تیزاب سے چہرہ مسخ کردینا) بھی بہت شاذ نہیں۔ مگر اس طرح کے جرائم، نام نہاد ’مہذب مغرب‘ میں بھی عام ہیں اور انھیں ’گھریلو تشدد‘ کا نام دے کر نسبتاً ایک ہلکا سا جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ امریکا میں خواتین پر تشدد کے ایک جائزے پر مبنی رپورٹ (۲۰۰۴ء) کے مطابق، ہر چھے میں سے ایک امریکی عورت اپنی زندگی میں عصمت دری یا مجرمانہ حملے کا نشانہ بنتی ہے۔ لیکن ان کے نصف سے بھی کم واقعات کی رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کی جاتی ہے۔ (ص ۱۰۱)
مصنف نے ’جنسی غلامی‘ پر طویل بحث کی ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کی نام نہاد ’مہذب دنیا‘ میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا، اور ہو رہا ہے، اس کی داستان بڑی دل گداز اور شرم ناک ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران جاپانیوں نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں، روسیوں نے جرمن شکست خوردہ قوم کی عورتوں کے ساتھ، گوئٹے مالا کی خانہ جنگی، کانگو، لائبیریا، چیچنیا، کویت، کشمیر اورسری لنکا، بوسنیا اور خدا جانے دنیا کے کون کون سے گوشے ہیں، جہاں عورتوں پر تشدد اور بدترین سلوک کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ بعض ملکوں میں تو انھیں پانچ فٹ کے ڈربوں میں بند رکھا جاتا رہا۔ اس طرح کے سلوک سے کم ہی عورتیں زندہ بچ پائیں (ص ۲۴۷)۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ فوجیوں کے اس اجتماعی آبروریزی جیسے اقدام میں اعلیٰ فوجی کمان کے فیصلے اور حمایت بھی شامل تھی، جہاں عصمت دری کو بطورِ ہتھیار اور اپنے فوجیوں کی آسایش اور آسودگی (relief/comfort) کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
صنف ِ نازک کے ساتھ انسانوں کا ایسا سلوک، اسفل ترین حیوانات بھی نہیں کرتے۔ کیا کیا جائے؟ اس عقدۂ مشکل کی کشود، انسانی ساختہ قوانین سے نہیں ہوسکتی۔ صرف علیم و خبیر ہستی پر حقیقی ایمان اور جزا و سزا پر اعتقاد ہی سے اس شرم ناک، بلکہ دہشت انگیز طرزِعمل کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ایک اکیلی عورت صحرائوں کو عبور کرتے ہوئے ہزاروں میل کا سفر طے کرتی ہے، اور اُسے سواے خدا کے کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ کاش مصنف ایک باب میں یہ شہادت بھی پیش کردیتے۔(پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
[تزکیۂ نفس کے لیے جہاں نیکی کے لیے ترغیب کی اہمیت ہے وہاں بُرائیوں سے بچنے کی ممانعت میں بھی حکمت ہے۔ مینارۂ نورکے تحت ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن میں نبی کریمؐ نے بُرے اور ناپسندیدہ کاموں سے منع فرمایا ہے۔ اس میں کبیرہ و صغیرہ گناہ اور نازیبا حرکات کا تذکرہ ہے۔ مؤلف نے احایث کو ایمانیات، اخلاقیات، سماجیات اور معاملات کے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے۔ چند عنوانات: تعلق باللہ میں حائل رکاوٹیں، باوقار شخصیت کے لیے ضروری پابندیاں، ماحولیات کی بہتری کے لیے ضروری پابندیاں۔]
[قرآنِ مجید کے موضوعات کا پانچ عنوانات: عقائد (توحید، رسالت اور آخرت)، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور تاریخ کے تحت اختصار اور جامعیت سے بیان۔]
[قانتہ رابعہ ادبی حلقوں میں ادیب اور افسانہ نگار کی شہرت رکھتی ہیں لیکن اسے زندہ کر دوبارہ میں اقبال کے مصرعے ع دل مُردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کے مصداق مختلف سماجی اور معاشرتی مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے تزکیہ وتربیت اور فکری رہنمائی کا سامان کرتی نظر آتی ہیں۔ مختصر ، فکرانگیز اور اثرپذیر نثرپاروں کا مجموعہ۔]
[رزق میں کشادگی کے لیے ۳۰ اُمور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ قرآن و حدیث،اقوال ائمہ اور واقعات سے افادیت بیان کی گئی ہے۔ رزق کی ان کنجیوں میں بیان کردہ اُمور پر تھوڑی سی توجہ سے بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے، مثلاً: اللہ کا ذکر کرنا، استغفار، تقویٰ، گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کہنا، غیبت سے اجتناب، نمازکی ادایگی اور اہلِ خانہ کو توجہ دلانا، مسنون دعائیں، صلۂ رحمی، حصولِ رزق کے لیے منہ اندھیرے اُٹھنا۔ کشادگی رزق کے لیے اقامت حدود، یعنی بدی کا مٹانا بھی ناگزیر ہے۔]
[مسلمانانِ پاکستان اور صاحبانِ اقتدار گذشتہ ۶۶سال سے سودی نظام کے ساتھ سمجھوتا کیے ہوئے ہیں، اس کو عالمی استعمار کی پوری آشیرباد حاصل ہے۔ اس کتابچے میںوطن عزیز میں سود کے خاتمے کے لیے ہونے والی کوششوں کا اجمالی جائزہ سامنے آگیا ہے جو عوامی سطح پر تفہیم اور ابلاغ کی ایک عمدہ کوشش ہے۔]
[سیّد جلال الدین عمری کی اس کتاب میںقرآن کی فضیلت، عظمت، آداب، علمی اعجاز، عالمی اثرات اور اقوامِ عالم کے عروج و زوال کا قرآنی اصول بیان کیے گئے ہیں۔اب یہ پاکستان سے بھی شائع ہوگئی ہے۔ بھارتی اڈیشن پر ڈاکٹر انیس احمد کا تبصرہ عالمی ترجمان القرآن (ستمبر ۲۰۱۳ء) میں شائع ہوچکا ہے۔]
[تعلیم و تربیت، روزگار کے مواقع کہاں ہیں؟ شوق و رجحان کے مطابق کیریئر کا انتخاب کیسے ہو؟ کامیاب اور خوش حال زندگی کیسے بسر کی جاسکتی ہے؟ یہ اور اس طرح کی مہارتوں اور معلومات سے معمور یہ کتاب کیریئر گائیڈنس اور کیریئر پلاننگ پر اُردو میں پہلی کتاب ہے۔ اس ضمن میں ’زندگی کے راستے‘ کا بلاگ (carieer.org.pk) بھی سودمند ہے۔ جس میں کیریئر پلاننگ کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کی دل چسپی کی دوسری معلومات بھی موجود ہیں۔]
[کیا پاکستان حادثاتی طور پر وجود میں آیا تھا؟ قائداعظمؒ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر؟ موقع پرست عناصر نے نظریۂ پاکستان پر کیا کیا حملے کیے اور پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے میں کیا کردارادا کیا؟ علامہ اقبالؒ نے پاکستان بنانے اور مسلمانوں کو بیدار کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ قومی زندگی میں ادب کی کیا اہمیت ہے اور قوم کی تعمیر میں ادب کیا کردار ادا کرتا ہے؟ عظیم تر پاکستان کیسے وجود میں آسکتا ہے؟ یہ کتاب ان سوالات کا جواب دیتی ہے۔]