مارچ۲۰۱۱ء سے ظالم بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک نے ۸ دسمبر ۲۰۱۳ء کوپورے ایک ہزار دن مکمل کرلیے ۔پونے تین سال سے جاری اس خوں ریزی میں اب تک کم وبیش ڈیڑھ لاکھ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ عوام کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ بدترین ڈکٹیٹرشپ ختم ہو، عوام کو آزادیاں اور سکھ کا سانس ملے اور پر امن طریقے سے اصلاحات لائی جائیں۔ بدقسمتی سے بشار الاسد نے بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو قتل اور ملک کو تباہ کرنا شروع کردیا۔ اب تک ۳۰لاکھ سے زائد لوگ بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور دیگر آزاد ذرائع نے بشار اور اس کی انتظامیہ کو شام میں تمام تر تباہی کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے نے شامی عوام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم قرار دیتے ہوئے بشار اور اس کے قریبی رفقا کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے حوالے کردینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے شام عرب ممالک میں ساتواںبڑا ملک ہے ۔ اس کی ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ کی آبادی کا ۹۰ فی صد عرب،۸ فی صدکُرد اور باقی دیگر قوموں پر مشتمل ہے۔ ۹۰ فی صد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جن میں غالب اکثریت اہل سنت کی ہے ۔ علوی ، اسماعیلیہ اور دیگر شیعہ فرقے ۱۰ سے۱۵ فی صد کے قریب اور باقی مسیحی وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ شام افریقہ، ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی، لبنان ،مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، اُردن اور عراق کے ساتھ ملتی ہیں۔
حکومت کے خلاف مظاہروں کے شروع ہوتے ہی بشار نے اسے طاقت سے کچلنے کاآغاز کردیا تھا۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور پکڑ دھکڑ ہی نہیں مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ شروع کردی گئی، بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں سے رہایشی علاقوں کو گھیرلیا گیا،اور پھر جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری شروع کردی گئی۔ گھروں، سکولوں ، مسجدوں اور ہسپتالوںکو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔پوری پوری عمارتوں کو مکینوں سمیت ملیامیٹ کردیااور ہر جگہ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ زیادہ تر شہر خالی ہوگئے اور لوگ پُرامن علاقوں اور پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہوگئے ۔ بشار کے مظالم نے پناہ گزین کیمپوںمیں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہاں بھی بچوں اور خواتین کومیزائلوںاور فضائی حملوں کانشانہ بنا رہا ہے۔
ایک موقع پر عرب لیگ نے بھی خواب غفلت سے آنکھیں کھولیں،ایک متفقہ قراردادکے ذریعے بشار کو فوری طور پر اقتدار سے ہٹانے اور اختیارات اپنے نائبین کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر گہری نیند میں ڈوب گئی ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء اور فروری ۲۰۱۲ء میں یہی مطالبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دہرایا گیالیکن دونوں دفعہ روس اور چین نے ویٹو کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس کی مخالفت کردی۔ سلامتی کونسل نے بہت تیر مارا تو ۱۴،اپریل ۲۰۱۲ء کو ایک اور قرارداد میں شام کی حکومت سے فوری جنگ بندی اور رہایشی علاقوں کی طرف فوج کشی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ اور عرب لیگ نے مشترکہ طور پر کوفی عنان کو خصوصی ایلچی بنا کر بھیجاتاکہ بشار حکومت کی جانب سے روارکھے گئے انسانیت سوز مظالم کو روکے ۔لیکن کوفی عنان کے مختصر دورے کے فوراً بعد نہتے مظاہرین اور بے گناہ شہری ایک دفعہ پھر ٹینکوں، توپوں اورفضائی بم باری کا سامنا کر رہے تھے۔
بشار انتظامیہ کی جانب سے رہایشی علاقوں پر بم باری کی وجہ سے لوگ اپنے علاقے چھوڑ گئے ہیں ،زیادہ تر علاقے خالی ہوچکے ہیں۔ شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میںپناہ لیے ہوئے ہیں۔ پڑوسی ممالک کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے یورپ کا رخ بھی کیا ۔اقوام متحدہ کے کمیشن براے مہاجرین کے مطابق یورپ نے شام سے پناہ لینے کے لیے آنے والوں کا دل کھول کر استقبال نہیں کیا اور صرف ۱۰ یورپی ممالک نے ان کو پناہ دی۔ان میں جرمنی سرفہرست ہے جس نے ۱۰ ہزار مہاجرین کو پناہ دی ہے۔سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے والے شامی اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ بیش تر لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہورہی اور وہ عملا قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شامیوں کی ایک بڑی تعداد مصر میں بھی پناہ لینے کے لیے پہنچی ہوئی ہے ۔ تاہم فوجی حکومت کے نامناسب رویے کی وجہ سے ان کی تعداد بہت کم ہے۔ گذشتہ دنوں مصر ی حکام نے کئی خاندانوں کو مصر سے بے دخل کردیا تھا۔مہاجرین کا سب سے زیادہ دباؤ لبنان پر ہے۔ دسمبر ۲۰۱۳ء کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک ساڑھے ۸ لاکھ مہاجرین سرحد عبور کرکے لبنان پہنچ چکے ہیں۔ ترکی اور اس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں شامی مہاجرین کی حالت قدرے بہتر ہے جہاں حکومت کی سرپرستی کے باعث رفاہی اداروں کی رسائی اور امدادی کارروائیاں قدرے آسان ہیں۔
بشار کی وحشیانہ کارروائیوں اورجنگی جہازوں کی بم باری سے ۱۲ لاکھ گھر تباہ ہوچکے ہیں اور روز بروزاس میں اضافہ ہورہا ہے ہیں ۔ بڑی تعداد میںلوگ پڑوسی ممالک کے علاوہ ملک کے اندر محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں ۔اقوام متحدہ کے ادارے براے بحالی مہاجرین کے مطابق اب تک ۶۵ لاکھ افراد اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر اندرون ملک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ نومبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ انتہائی کس مپرسی کی حالت میں مختلف کیمپوںاور دیگر مقامات میںزندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ UNHCR کے مطابق ان میں سے صرف ۴۶ ہزار لوگ اقوام متحدہ کے اس کمیشن کے پاس رجسٹرد ہیںجوپانچ مختلف ممالک میں ان کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ باقی لوگ انتہائی پریشان کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ ملک کے بیشتر علاقے سخت برف باری کی زد میں ہیں اور درجۂ حرارت منفی ۱۰ سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ سخت سردی کی اس لہر میں خیموں کے اندر زندگی گزارنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔
بشار انتظامیہ کے مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے، بڑی تعداد میں فوجی افسران اور سپاہیوں نے بھی فوج سے بغاوت کا اعلان کردیا ۔علیحدگی اختیار کرنے والے افسران اور مختلف تنظیموں نے مسلح گروپ تشکیل دیے ہیں۔سب سے پہلے لیفٹننٹ کرنل حسین ہرموش فوج سے الگ ہوئے جس نے ’الاحرار بریگیڈ‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیااور فوج میں اپنے دوستوں سے اپیل کی کہ حکومت سے الگ ہوجائیں اور ان کی تحریک میں شامل ہوجائیں۔ بعد ازاں جیسے جیسے فوجی افسر بغاوت کرکے فوج سے نکلتے رہے،اپنا گروپ تشکیل دیتے رہے۔یہی نہیں مختلف عالمی اور علاقائی طاقتوں نے بھی اپنے اپنے مقاصد کی خاطر مسلح گروہ تشکیل دیے ہیں۔ اس وقت مختلف ناموں سے دو درجن سے زائد جہادی تنظیمیں بشار کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔ اگر چہ ان تنظیموں کے آپس میں اِکّا دکّا واقعات کے علاوہ کسی بڑی جھڑپ کی اطلاع تو نہیں آئی ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں مسلح گروہوں کی تشکیل ہی دشمن کو تقویت اور اپنی اپوزیشن کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر دشمن ممالک اور تخریبی ادارے بھی مجاہدین کے نام پر ایسے گروپ تشکیل دینے میں کامیاب ہورہے ہیں جو دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے جہاد اور مجاہدین کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان مسلح گروپوں میں کئی ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو اپنے علاوہ باقی سب کو کافر قرار دیتی ہیں۔
بعض علاقوں میں مسلح گروہ ایک چھتری تلے جمع ہو گئے ہیںجیسے گذشتہ دنوں حلب میں تمام چھوٹی تنظیموں نے جبہۃ اسلامیہ کے ساتھ ضم ہونے کا اعلان کیا لیکن ملکی سطح پر تمام گروپوں کو جمع کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔
زمینی صورت حال اس وقت یہ ہے کہ شام کا ۹۰ فی صد سے زائد علاقہ بشار کے ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔ حمص ، السویداء ، لاذقیہ اور درعا کے علاوہ تمام اضلاع مجاہدین کے کنٹرول میںہیں، جب کہ دارالحکومت دمشق کے بیش تر حصے پر بھی مجاہدین کا قبضہ ہے ، اور وہاںمجاہدین اور بشار انتظامیہ کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ بشار چونکہ زمینی جنگ ہار چکا ہے اس لیے اب وہ صرف بم باری پر انحصار کر رہا ہے ۔
نومبر ۲۰۱۲ء میں قطر کے دارالحکومت میںشامی اپوزیشن قوتوںکے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں حکومت مخالف جماعتوں کی اکثریت ایک چھتری تلے جمع ہوگئی۔ انقلابی طاقتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد نے عالمی برادری کی توجہ شام کے مسئلے کی طرف مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ شامی مجاہدین کی کوششوں کو بھی مربوط کرنے میںمدد دی ہے۔
۱۹۶۳ء میں بعث پارٹی کا اقتدار سنبھالتے ہی اخوان کی آزمایش کا دور شروع ہو گیا تھا۔حافظ الاسد نے۱۹۷۱ء میں برسر اقتدار آکر اخوان کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیااور قید وبند کاایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔۱۹۸۰ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے اخوان کے ساتھ تعلق ثابت ہونے کی سزا پھانسی مقرر کردی گئی جو آج بھی باقی ہے۔اخوانی قیادت کی اکثریت جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ مارچ ۲۰۱۱ء میں بشار کے خلاف جدوجہد کے آغاز ہی سے اخوان پوری طاقت سے ایک مؤثر فریق کی حیثیت سے ظالم ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد میں شریک ہیں۔
امریکا اس پورے مسئلے میںنہایت عیاری سے تباہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔عالمی برادری کی تائید حاصل کرنے کے لیے ایک طرف وہ شامی عوام کی جدوجہد کا ساتھ دینے کے زبانی وعدے کر رہا ہے اور دوسری طرف معاملے کو مزید طول دے کر عراق کے بعد ایک اور مسلمان ملک کو کمزور کر رہا ہے، تاکہ اسرائیل کی سرحدیں مضبوط ہوں اوروہ بیرونی خطرات سے محفوظ رہے۔ بدقسمتی سے ایران اور حزب اللہ بھی کھلم کھلابشار کا ساتھ دے کر اس خون ریزی میں شریک ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ بشار کی حکومت اسرائیل کے سامنے بند کی حیثیت رکھتی ہے ،اس لیے ہم اسے بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے ،لیکن عملاًدیکھیں تو خود اسرائیلی انتظامیہ ، امریکا اور عالمی برادری سب بشار انتظامیہ کو باقی رکھنے پر مصر ہیں۔اگر ان دونوں فریقوں(ایران و حزب اللہ) اور (امریکا واسرائیل) میں سے کوئی ایک فریق بھی بشار انتظامیہ سے نجات کا فیصلہ کرلیتا تو یقینا بشار اب تک قصۂ پارینہ بن چکا ہوتا۔
جیسے جیسے بشار الاسد اپنا قبضہ وتسلط کھوتا جارہا ہے اور امریکا واسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے ۔ وہ کسی ایسے متبادل کی تلاش میں ہیں جو بشار کے بعد خطے میں ان کے مفادات کا خیال رکھ سکے اور جس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔
شام کے مسئلے کے حل کے لیے براے نام کوششوں کے سلسلے میں امریکا اور روس کی آشیرباد سے عالمی برادری آیندہ جنوری میں جنیوا ۔۲ کے نام سے کانفرنس کر رہی ہے۔اس سے قبل ’جنیوا-۱‘ ہوچکی ہے۔ ملک کے زیادہ تر حصے پر مجاہدین کے قبضے کے بعد حقوق انسانی کے علَم بردار ممالک یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے معاملات حل ہوجائیں ۔ لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اب بشار کے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہ توپایدار ہوگا نہ معاملے کے اصل فریق، یعنی شامی عوام کو قابل قبول ۔
سخت سردی اور بد ترین بم باری کے تناظر میں تمام اسلامی ممالک ، انسانی حقوق کی تنظیموںاور رفاہی اداروںکا فرض ہے کہ آگے بڑھ کرمظلوموں کی فوری مدد کریں۔