شہید عبدالقادر مُلّا کے اہلِ خانہ جب آخری دفعہ جیل میں ان سے ملے تو انھوں نے ان کو وصیت کی:’’میری شہادت کے بعد تحریکِ اسلامی کے سارے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان صبرواستقامت کے ساتھ میرے خون کو اقامت ِ دین کے کام پر لگائیں۔ کسی طرح کے بگاڑ یا فساد میں ہمارے وسائل ضائع نہیں ہونے چاہییں۔ جن لوگوں نے میرے لیے احتجاج کرتے ہوئے جان دی ہے ان لوگوں کی قبولیت ِ شہادت کے لیے اللہ سے دعا کرتا اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یک جہتی و ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ اللہ سب کو آخرت میں کامیاب کرے۔
مَیں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مکمل غیرقانونی انداز میں یہ حکومت مجھے قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں مظلوم ہوں، میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے تحریکِ اسلامی کی قیادت کی۔ صرف اس وجہ سے مجھے حکومت قتل کر رہی ہے۔ میں اللہ، اس کے رسولؐ اور قرآن وسنت پر ایمان رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری یہ موت شہادت کی موت ہے اور شہیدوں کی جگہ جنت کے سوا اور کہیں نہیں ہے۔ اللہ اگر مجھے شہادت کی موت دے دے تو یہ میری زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہوگا۔ اس کو مَیں اپنے لیے افتخار سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ حکومت ۱۴دسمبر کو مجھے قتل کرنا چاہ رہی تھی لیکن اللہ نے میری موت کا فیصلہ اُس وقت نہیں کیا تھا۔ جب اللہ کا فیصلہ ہوگا تب ہی موت آئے گی۔ شہادت کی موت سے بڑھ کر بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے! ہمیشہ مَیں اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں اور آج بھی کر رہا ہوں کہ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرمائے۔
میری درخواست ہے کہ میری شہادت کے بعد تحریکِ اسلامی کے کارکن استقامت کا ثبوت دیں۔ ان کو کوئی غیرقانونی طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ شہادت کے خونیں راستے کے ذریعے سے فتح ضرور آنے والی ہے۔ اللہ جس کی مدد کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ عبدالقادر مُلّا کو قتل کرکے ظالم حکمران اسلام کا راستہ روکنا چاہتے ہیں مگر مَیں یقین رکھتا ہوں کہ میری شہادت کے ہرقطرۂ خون سے تحریکِ اسلامی اور بھی آگے بڑھے گی اور یہ ظالم حکومت کی تباہی کا باعث ہوگی‘‘۔