دنیا کے انقلابات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپاکردہ انقلاب کو دیکھا جائے تو منصف مزاج انسان یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس قدر جامع، کلّی، ہمہ گیر اور ظاہر و باطن میں غالب و نافذ حضوؐر کا نافذ کردہ انقلاب ہے اس کے مقابلے میں دوسرے انقلابات قطعاً نامکمل اور ادھورے ہیں۔ دوسرے انقلابات تو بس زیادہ سے زیادہ عارضی طور پر ایک گروہ کے ہاتھ سے دوسرے گروہ کے ہاتھ میں انتقالِ اقتدار کے عمل کا نام ہے۔
اگر کوئی انسان ۲۳سال پہلے عرب سے باہر چلا گیا ہوتا اور ۲۳سال بعد یکایک وہ مکہ، مدینہ اور ان علاقوں میں لوٹتا جہاں حضوؐر نے انقلاب برپا فرما دیا تھا، تو اسے اپنی آنکھوں پر اعتماد کرنا مشکل ہوجاتا۔ اس کے لیے یہ باور کرنا دشوار ہوجاتا کہ وہ اسی علاقے اور انھی لوگوں کے درمیان واپس آیا ہے جنھیں چھوڑ کر وہ گیا تھا۔ اس مختصر عرصے میں جو زبردست تبدیلی فرد فرد کے اخلاق، اعمال ، گفتار، رفتار ، کردار اور معاملات میں آگئی تھی، اسے صرف معجزاتی قلب ِ ماہیت ہی کہا جاسکتا ہے۔ عورتیں، مرد، بوڑھے، بچے، گلیاں، بازار، مجالس اور کاروبار ہرچیز ہی یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ ان کے لہجے، ان کے معمولات، ان کی دل چسپیاں، ان کے ذوق و شوق اور مصروفیات سبھی کچھ بدل گیا تھا۔ مسجد کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں آگیا تھا جو ہرمحلے اور ہربستی میں موجود تھا اور جس میں لوگ علمِ دین حاصل کرتے تھے۔ خدا اور رسولؐ کی تعلیمات کے چرچے، قرأتِ قرآن کی مجالس، علمی مشاغل کے مباحثے، جنگ و جدل کے بجاے جہاد فی سبیل اللہ کی باتیں، گپ بازی کے بجاے اوراد و وظائف، تضیعِ اوقات کے بجاے پانچ وقت کی نمازیں اور ان کے ساتھ وضو اور پاکیزہ مجالس کا اہتمام، جمعہ کو ہفتہ وار اجتماعات اور ملکی اور ملّی مسائل پر کھلے مباحثے۔ ناپ تول میں عدل، اوزان میں انصاف، باہمی انسانوں میں برابری اور مساوات، نہ نسل کا فخر اور نہ قبیلے کا زعم، نہ زبان کی برتری کے دعوے اور نہ رنگ کی سفیدی کا غرور۔ سارے انسان خدا کی مخلوق، ساری خدائی خدا کا قبیلہ، سارے انسان خدا کے بندے اور ان سب کا تنہا وہی ایک معبود جس کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں ہے۔
غلط بیانی اور جھوٹ کے بجاے ہر طرف صداقت شعاری کا سکّہ رواں، وعدے کی پابندی، لین دین کا کھراپن، خدا ترسی اور خدا خوفی کی کیفیت، نہ فحش باتیں اور نہ فحش کاری کے اڈے، نہ بے پردگی اور نہ بے حیائی، نہ مجالس میں بیہودہ گوئی اور نہ ایران و توران کی بے ہودہ داستانیں اور یاوہ گویاں، نہ باپ دادا پر فخر کے قصے اور نہ اپنی بڑائی کی ڈینگیں۔ سب سے بڑا نام صرف اللہ کا اور اس کے رسولؐ کے طریقے کی پیروی کا اہتمام ہی سب سے اعلیٰ طرزِعمل قرار پایا۔
ہر طرف نظم و ضبط کا اہتمام، عدالتیں موجود لیکن جرائم نابود۔ اور اگر کسی سے کوئی خطا ہوجائے تو متعلقہ فریق سے معافی حاصل کرنے میں سبقت یا عدالت کے سامنے خود اعترافِ خطا۔ عدالتیں سب کے لیے مساوی، خلیفہ سے لے کر عام انسان تک سب برابر، کسی کے درمیان کوئی امتیاز موجود نہیں۔
دکان دار خوفِ خدا سے لرزاں و ترساں، ناجائز نفع اندوزی کا تصور بھی غائب، ناقص مال دینے کا سوال ہی نہیں۔ اگر کسی شے کا نقص گاہک سے پوشیدہ رہ گیا تو اس کے گھر تک پہنچ کر نقص کی وضاحت اور اس کی نسبت سے قیمت میں کمی یا مال کی واپسی۔ بزرگوں میں شفقت اور تعلیم و تربیت کا جذبہ، چھوٹوں میں ادب و احترام اور نصیحت حاصل کرنے کا احساس۔ آجر مزدورسے زیادہ حسّاس کہ اس کا حق اس کے ذمے رہنے نہ پائے اور اجیر آجر سے زیادہ حسّاس کہ اُجرت کے مطابق کام سرانجام پائے۔ سپاہی جہادفی سبیل اللہ کے جذبے سے سرشار اور اس کے لیے دین کی سربلندی کے لیے خدا کی راہ میں لڑنا ، دنیا و مافیہا کی نعمتوں سے بہتر۔ ہمسایے میں یہ احساس زندہ و بیدار کہ اس کا ہمسایہ بھوکا نہ سونے پائے اور اس کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ غرض فرد فرد سر سے پاتک اور ظاہرسے باطن تک اس طرح بدل گیا کہ جیسے پہلے انسانوں کی آبادی وہاں سے منتقل کرکے کوئی دوسری انسانی آبادی وہاں لاکر بسادی گئی ہو۔ ہرانسان احساسِ ذمہ داری، خدا کے سامنے جواب دہی ، حق شناسی اور ادایگی فرض سے سرشار اور پورا معاشرہ اسی کیفیت سے معمور۔
پوری جماعت اس اصول پر عمل پیرا کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ،اور جماعت کا فرد فرد ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً کی تصویر، اپنی زندگی کے گوشے گوشے کا نگراں کہ وہ دین سے باہر رہنے نہ پائے۔ شراب کا حکم نازل ہوا تو چند گھنٹے کے اندر پوری مملکت میں ظاہروباطن نافذ اور ساری سلطنت شراب سے ایسی پاک ہوجائے کہ پھر وفادار مسلمان کے لیے شراب کا تصور بھی نہ کیا جاسکے۔پردے کا حکم نازل ہو تو چند گھنٹے کے اندر اندر ہر ہربالغ عورت مستور ہوجائے۔ نبیؐ کی آواز سے بلند تر آواز کرنے کے نتیجے میں اعمال ضائع ہونے کا خطرہ یاد دلایا جائے تو بڑے بڑے بلندآواز صحابہؓ سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے اور جن کی فطری آواز بلند ہو وہ روئیں کہ ہمار ے اعمال ضائع نہ ہوگئے ہوں۔ خلافت کے لیے جوڑتوڑ اور سازش تو دُور کی بات ہے۔ ابوبکرؓ صدیق کو خلیفہ بنا ڈالا گیا تو وہ روتے تھے کہ کاش اس ذمہ داری کے مقابلے میں مَیں پرندہ ہوتا کہ آخرت میں اُمت ِ محمدی کی جواب دہی مجھ پر نہ ہوتی۔ میں گھاس کا تنکاہوتا کہ تنور میں جلایا جاتا اور خدا کے ہاں بازپُرس سے بچ جاتا۔ خلیفہ کو پانی طلب کرنے پر کسی نے شہد پیش کردیا تو اس بات پر روپڑے کہ کہیں دنیا مجھ سے نہ لپٹ جائے۔ امیرالمومنینؓ کو نفس کی بڑائی کا ڈر ہوا تو منبر پر چڑھ گئے اور کہا:’’عمر وہی تو ہے جو اپنی خالہ کی بکریاں مکہ کی وادی میں چرایا کرتا تھا‘‘۔ حضرت علیؓ ڈاڑھی ہاتھ میں لے کر رویا کرتے اور کہتے کہ: ’’اے دنیا!میں تجھے طلاق دے چکا، مجھ سے دُور رہ، تیرا آغاز شیریں اور تیرا انجام حسرت و یاس ہے‘‘۔
غرض وہ انقلاب جو ۲۳سال میں برپا ہوا، جس کے لیے حضور اکرمؐ نے آٹھ سال کی مدت میں ۲۷غزوات کیے۔ گویا تقریباً ہرسال میں تین بار جہاد اور جس کے لیے حضوؐر نے اتنی سی مدت میں ۵۵ جہادی لشکر اپنے ساتھیوں کی سرکردگی میں روانہ کیے۔ جس انقلاب کے دوران حضوؐر ہرلمحہ مستعد اور تیار رہے، جس میں مدنی زندگی کی کش مکشِ جہاد میں ہرچند دن کے بعد ایک مہم لازماً درپیش رہی اور یہ آٹھ سالہ زندگی پوری جنگی کیمپ کی سی زندگی بن کر گزری۔ اخلاق و اعمال و کردار کا، عادات و اطوار کا، ظاہروباطن کا، معمولاتِ زندگی اور پوری انسانی قلب ِ ماہیت کا یہ انقلاب ایسی ہی زندگی میں رُونما ہوا جس میں آٹھ سال کے پورے عرصے میں ہر۳۵دن کے بعد کسی نہ کسی دشمن کی طرف سے کوئی نہ کوئی جنگی مہم درپیش ہوتی تھی۔ دن کو جنگی تیاریاں اور لشکروں کی روانگی اور راتوں کو چوکی پہرے اور مشورے ہوتے تھے۔ ان حالات میں اللہ کی اس زمین پر حضوراکرمؐ نے اللہ تعالیٰ کی خالص تائید اور نصرت سے ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا۔
انسان سوچتا ہے کہ جس آٹھ سالہ مہماتی زندگی میں تقریباً ہرمہینے میں ایک جنگ درپیش ہوتی ہو اس میں خون خرابے اور تباہی و بربادی کا کیا حال ہوگا، لیکن مؤرخین نے حضور اکرمؐ کے ساتھیوں اور فریق مخالف کے اس جنگی انقلاب کا افرادی نقصان کے لحاظ سے جو نقشہ پیش کیا ہے [اس سے یہ ثابت ہوتا ہے] کہ اس حیرت انگیز اسلامی انقلاب میں کل انسان جو کام آئے ہیں وہ صرف ۹۱۸ ہیں.... کون شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس سے بڑا غیرخونی انقلاب (bloodless revolution) بھی آج تک دنیا میں کبھی کوئی برپا ہوا ہے جس کے ذریعے انسان کا ظاہروباطن ہی بدل جائے، معاشرہ سر سے پا تک تبدیل ہوجائے اور اس کی قدریں تک بدل جائیں۔ نظامِ مملکت اور نظامِ معیشت و سیاست سب کچھ بدل جائیں اور ۸۲جنگوں میں صرف ۹۱۸؍افراد کام آئیں۔
اس انقلاب نے انسانی تاریخ پر وہ خوش گوار اثر ڈالا ہے کہ پھر اس کے بعد ہی انسان سمجھ سکا ہے کہ وہ انسان اور اشرف المخلوقات ہے اور زمین پر وہ ایک ذمہ دار مخلوق اور خدا کا خلیفہ ہے۔ اس کے بعد ہی انسان کو کائنات کی حقیقت سے آگاہی ہوئی ہے اور اس نے کائنات اور اس کی ماہیت اور اس کے مالہ وما علیہ پر غور کرنا اور اسرارِ فطرت کے انکشاف اور علومِ طبعی کے رُموز کی طرف پیش قدمی شروع کی ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے حضوؐر نے جو نظام قائم فرمایا اس کی برکات صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی انسانی سینوں میں گونجتی ہیں۔ اس کے دیے ہوئے اخلاق، اس کا عطا کردہ تہذیب و تمدن، اس کی فراہم کردہ اخلاقی قدریں، انسان کے لیے اس کا دیا ہوا نظامِ زندگی فی الحقیقت ہلاکت خیز، ہتھیاروں کی بہتات کے درمیان اجررحمت کا سایہ ہے۔ یہ نظام لرزاں و ترساں انسانیت کے لیے واحد پناہ گاہ، انسانیت کے لیے فخرومباحات کا واحد ذریعہ، انسان کا زمین پر واحد قیمتی سرمایہ اور شرفِ انسانیت کے ماتھے پر جھومر ہے۔ صرف یہی ایک نظام ہے جو اپنی ساری عملی تفصیلات کے ساتھ اس طرح موجود ہے کہ اسے سرعام پڑے ہوئے خزانے کی طرح ہروقت اُٹھا کر کاروبارِ زندگی میں لگایا جاسکتا ہے۔ وہ ہردم زندہ، پایندہ اور تابندہ تر ہے اور انسانیت کے جدید ترین مسائل آج بھی اسی طرح حل کرسکتا ہے جس طرح اس نے اپنی آمد پر حل کردیے تھے....اس انقلاب نے انسان کو زمین پر خدا کا خلیفہ بنایا اور عمل و کردار میں اسے فرشتہ سیرت بنادیا اور یہ کام صرف ۲۳سال کی مدت میں سرانجام پایا۔ اس انقلاب کو برپا کرنے والی سراپا رحمت ہستی کو اب ہم خاتم النبیینؐ اور رحمۃ للعالمینؐ نہ کہیں تو پھر کیا کہیں! (رسول اکرمؐ کی حکمت انقلاب، ص ۶۵۳-۶۶۰)