آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] کی سرگرمیاں کچھ عقیدوں کو محض نہاں خانۂ دماغ کی زینت بنادینے تک محدود نہ تھیں بلکہ اِن عقیدوں کو ایک ریاست کی بنیاد بنادکھانے کا مطالبہ بھی آپؐ سے تھا۔ آپؐ کا منصب نجی زندگی کے لیے چنداخلاقی نصیحتیں کرنے تک محدود نہیں تھا، بلکہ معاملہ ایک نظامِ سیاست وتمدن کو برپا کرنے کا درپیش تھا۔
مطلوب محض ایک دین کو مان لینا اور اس پر کاربند ہو جانا نہیں ہے، بلکہ تقاضا یہاں اَقِیْمُوْا الدِّیْنَکا ہے۔ مہم درپیش صرف خدا کی کتاب کو پڑھنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی نہیں ہے، بلکہ ’اقامت ِکتاب‘ کی ہے۔ سوال حدود کو مان لینے اور ان کی پابندی اختیار کرلینے تک کا نہیں، بلکہ ’اقامت ِ حدود‘ کا ہے۔ رُسل و انبیا ؑکا فریضہ لوگوں کو تعلیمِ قسط دینے ہی کا نہیں، بلکہ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (لوگ کاربند ہوجائیں نظامِ قسط پر) کی حالت پیدا کردینا ہے۔
پس رسولوں اور انبیا ؑ کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ ایک اجتماعی قوت پیدا کر کے معاشرے کے نظام کی مکمل تبدیلی کے لیے ایک انقلابی تحریک چلائیں۔ خیالات کو خیالات سے، نظریات کو نظریات سے، مقاصد کو مقاصد سے ٹکرا دیں۔ حق اور باطل کے درمیان سوسائٹی نے جو سمجھوتے قائم کرائے ہوں اور غلط اور صحیح کے اجزا میں جو جوڑ لگا دیے ہوں، ان کو توڑ کر اضداد میں کھلا کھلا تصادم پیدا کردیں۔ خبیث اور طیّب چھٹ کر الگ ہوجائیں، کھوٹے اور کھرے میں علیحدگی ہوجائے، فساد اور صلاح میں منافات عملاً پیدا ہوجائے، یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ (اللہ حق کو باطل سے ٹکرا دیتا ہے) کا سماں سامنے ہو، اور نتیجہ یہ نکلے کہ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْض، یعنی وہی اصول و نظام زمین پر قائم رہ جائے جو انسانیت کے لیے موجب ِ فلاح ہو۔(’نظامِ اسلامی اور اطاعت رسولؐ ،، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۴-۵، ربیع الثانی ، جمادی الاول ۱۳۷۳ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۴ء، ص۱۳۶)