تیونس میں دستور سازی کا مشکل مرحلہ مکمل ہوچکا ہے ۔ اتوار ۲۶ جنوری ۲۰۱۴ء کو رات گئے قومی اسمبلی میں اس پر راے شماری ہوئی اور ۱۲کے مقابلے میں۲۰۰؍ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دے کر حتمی منظوری دے دی ۔ مصر کے حالیہ سیاسی بحران کے تناظر میں ہر طرف سے تیونس کے انقلاب ِ یاسمین کی کامیابی پر نہ صرف سوالات اٹھائے جا رہے تھے، بلکہ ملک دشمن عناصر مختلف تخریبی کارروائیوں کے ذریعے حالات کو وہی رخ دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔کبھی امن وامان کا مسئلہ کھڑا کرکے اور کبھی دستور سازی کے عمل کو مشکوک قرار دے کرتیونس حکومت سے دست برداری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم، تیونس کی لیڈرشپ نے بروقت اورحکیمانہ اقدامات کرکے حالات پر قابو پالیااور تین سال کی کش مکش کے بعد ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس ساری مدت میںاندرون اور بیرون ملک سے جلتی پر تیل کاکام کرنے والے مسلسل سازشیں کرتے رہے۔ اقتصادی ناکامی کا ڈراما رچایا گیا، انسانی حقوق کا واویلا مچایا گیا، ملک میں تخریبی کارروائیاںکی گئیںاور آخر میں دو اپوزیشن لیڈروں کو قتل کروایا گیا، تاکہ ان واقعات کی آڑ لے کر منتخب جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کیا جائے اور آزادی و جمہوریت کے سفرکو آغاز ہی میں ناکام بنایا جائے۔
۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کونصف صدی سے جاری آمریت سے نجات حاصل ہوئی تو ملک کے پہلے آزاد انتخابات میں عوام نے اسلامی تحریک پر اعتماد کیا اور ۲۱۷کے ایوان میں ۹۰ پر اسے کامیابی ملی۔دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ۳۰ نشستوں اور تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کو صرف ۲۱نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔تحریکِ نہضت چاہتی تو تنہا ہی حکومت بنالیتی لیکن اس نے ملکی وحدت اورقومی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بائیں بازو کی معتدل جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک قومی حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت ’کانگریس پارٹی‘ کو صدارت، اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹی ’التکتل‘ کوا سپیکر شپ کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کی اور خود وزارت عظمیٰ پر اکتفا کیا۔
حکومت کی یہ کامیابی اندرون و بیرون ملک اسلام دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہ بھائی اور مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا۔ سیکولر لابی نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر واویلا شروع کیا کہ تحریکِ نہضت ملک میں خلافت نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اب لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے اور ہرطرف اسلام کے سخت قوانین کو بالجبر نافذ کیا جائے گا۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علَم برداروں نے شور مچایا کہ تحریکِ نہضت کی کامیابی سے مذہبی آزادی اور حقوقِ نسواں کو سنگین خطرہ لاحق ہوگیا۔ زین العابدین کی باقیات اور ان کے زیر اثر میڈیا نے آسمان سر پر اٹھایا کہ اسلام پسند ملک کو تاریک اندھیروںمیں ڈبونے جارہے ہیں۔بڑے سرمایہ داروں نے معیشت کی تباہی کی دہائی دی اور ایسا نقشہ کھینچا گیا کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا گیاتو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔یہ اور اس طرح کے دیگر نعروں سے عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی اور حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔
ایک کروڑ ۱۰ لاکھ کی مجموعی آبادی میں ۷لاکھ بے روزگاروںکو روزگار فراہم کرنا انقلاب کے بنیادی مقاصد اور مطالبات میں شامل تھا۔ ایک بالکل نئی حکومت کے لیے چند دنوں یا مہینوں میںیہ مسئلہ حل کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ بھی ایسے وقت میںجب بن علی اور اس کا خاندان سرکاری خزانے کو مالِ مفت سمجھ کر ہڑپ کر گئے تھے۔ چنانچہ مخالفین نے اس مسئلے کوخوب اُچھالا اور اعلان کیا کہ حکومت انقلاب کے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ذرائع ابلاغ جن کی اکثریت دین بے زارسرمایہ دار وںاورمفرور صدر بن علی کے قریب ترین افراد کی ملکیت ہے، نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔گذشتہ دو سال کی قلیل مدت میں ۲۰نئے اخبار،چھے ٹی وی اور سات ریڈیو چینل وجود میں آئے اور روزِ اول سے اپنی توپوں کا رخ حکومت کی طرف کردیا۔ اس ساری کارروائی میں وہ جماعتیں پیش پیش تھیں جنھیں عوام نے انتخابات میں بُری طرح مسترد کردیا تھا۔ ان سب کا ایک نکاتی ایجنڈا یہ تھا کہ حکومت کو تحلیل کیا جائے اور نئے سرے سے انتخابات کرائے جائیں۔
۲۰۱۳ء انقلابِ یاسمین کے لیے آزمایشوں سے بھر پور سال رہا۔حکومت کی برطرفی اور نئے سرے سے انتخابات کا مطالبہ کامیاب نہ ہوا تومخالفین اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے۔ ملک میں قتل وغارت اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست مزید تیز کردی گئی۔اپوزیشن کے ایک رہنما شکری بلعید کو قتل کرکے حکومت کو اس کا ذمہ دار قراردیا گیا۔ چنانچہ پُر تشدد مظاہروںکا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا اور حکومت کی برطرفی کا مطالبہ ایک دفعہ پھر زور پکڑ گیا۔ حکومت میں شامل جماعتوں کے پاؤں بھی لرزنا شروع ہوگئے اوردستور سازی کا عمل رک گیا۔ ایسے میں تحریک نہضت نے تاریخ کی انوکھی قربانی دی اورپارلیمنٹ میںسب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ سمیت کئی اہم وزارتوں سے دست برداری کا اعلان کیا اور حکومت ایک غیرجانب دار فردکے حوالے کردی۔
حالات نسبتاً معمول پر آئے تو دستور سازی کا عمل دوبارہ شروع ہوا۔ حکومت جلد سے جلد ملک کو ایک نیا آئین دے کر عام انتخابات کرانا چاہتی تھی لیکن سازشوں کے تانے بانے بُننے والے اپنے مذموم مقاصد سے بازنہ آئے ۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں ایک اور اپوزیشن رہنما محمد البراہیمی کو قتل کردیا گیا۔ بین الاقوامی اور ملکی میڈیا نے ایک دفعہ پھر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ امن وامان کی صورت حال بگڑ گئی اور حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ کی تحلیل کا مطابہ زور پکڑ گیا۔
یہی دن تھے جب مصر میں جمہوریت پر شب خون مارتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور صدر محمد مرسی کو پابند سلاسل کردیاگیا۔ تیونس کے ناکام سیاست دان یہاں اسی تجربے کو دہرانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ حکومتی صفوں میں دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ تحریکِ نہضت نے پارلیمنٹ کی بھر پور تائید کے باوجود ایک دفعہ پھر کمالِ حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل طور پر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور باقی تمام وزارتیںبھی چھوڑدیں۔ملک میں غیر جانب دار ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے کے لیے مہدی جمعہ کو وزارتِ عظمی کا قلم دان سونپ دیا۔یوں مخالفین کے منہ بند ہوئے اور سازشی عناصر کواپنے مذموم ارادوںمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی نے دستور سازی کا عمل جاری رکھااور آخر کارجنوری ۲۰۱۴ء میںیہ صبر آزما مرحلہ مکمل ہوگیا۔
جمعرات ۲۳ جنوری ۲۰۱۴ء کو قومی اسمبلی نے نئے دستورپر شق وارتفصیلی بحث کی جس کے بعدارکان اسمبلی نے اس کی بنیادی منظوری دے دی۔ ۲۶ جنوری کو حتمی منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کیا گیااورصرف ۱۲؍ ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔یہ ۱۹۵۹ء کے بعد ملک کا پہلا جمہوری آئین ہے۔
نئے آئین میں اسلام کو ریاست کا دین، عربی کواس کی زبان اور جمہوریت کو اس کا نظام قرار دیاگیا ہے، جب کہ شہریوںکو بشمول مذہبی آزادی، ہر قسم کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق کا بھی خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے ۔نئے دستور کی رو سے فوج کے کردار کو واضح طور پر متعین کیا گیا ہے جو ملکی دفاع ،قانون کی پاس داری اور سیاست سے مکمل طور پر غیر جانب دار رہنے پر مبنی ہے۔موجودہ حالات میں یہ ایک متوازن دستور ہے ۔ بعض لوگ اسے ایک سیکولر آئین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ اس میںقانون کو شریعت کا پابند نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم جو لوگ تیونس کی ۶۰ سالہ تاریخ اور اس سے پہلے ۷۵ سالہ استعماری دور سے واقف ہیںوہ جانتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں سر پر اسکارف لینے والی خاتون کے کسی بھی سرکاری دفتر، کالج اور یونی ورسٹی میںداخلے پر پابندی ہواور جہاں نوجوان مسجد میں نماز پڑھیں تو انھیں غائب کر دیا جائے، جہاں پر داڑھی رکھنا معیوب ہی نہیں جرم سمجھا جاتا ہواور جہاں اسلام پسندی کی سزا کال کوٹھریاں ہوں اور جہاں ۶۰ سال سے قانون حکمرانوں کے گھر کی لونڈی ہو، وہاں آزادی کے پہلے مرحلے میں اس سے مناسب اور متواز ن آئین لانا شاید سر دست ممکن ہی نہ ہو۔
اس تاریخی کامیابی کے بعد عبوری حکومت ایک غیر جانب دار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے مشاورت کر رہی ہے جو ملک میں شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائے۔ توقع ہے کہ نئی حکومت تمام تر چیلنجوں کے باوجود اس مرحلے کو بھی طے کر لے گی۔
بیرونی اور اندرونی سازشیںمسلسل جاری رہیں۔مختلف حربے استعمال کیے گئے، کئی ایک دینی جماعتوں کو بھی استعمال کیا گیا، متشدد گروہوں نے حکومت کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کی کئی ایک کارروائیاں بھی کر ڈالیں،لیکن اسلامی تحریک ثابت قدم رہی اور دُوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے تمام لوگوں کو ساتھ لے کر یہ سارے مراحل طے کر لیے۔ اس پورے عرصے میں فوج غیر جانب دار رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برادر اسلامی ملک میں کامیابی کا یہ سفر کہاں تک جاری رہتا ہے۔
مارچ۲۰۱۱ء سے ظالم بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک نے ۸ دسمبر ۲۰۱۳ء کوپورے ایک ہزار دن مکمل کرلیے ۔پونے تین سال سے جاری اس خوں ریزی میں اب تک کم وبیش ڈیڑھ لاکھ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ عوام کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ بدترین ڈکٹیٹرشپ ختم ہو، عوام کو آزادیاں اور سکھ کا سانس ملے اور پر امن طریقے سے اصلاحات لائی جائیں۔ بدقسمتی سے بشار الاسد نے بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو قتل اور ملک کو تباہ کرنا شروع کردیا۔ اب تک ۳۰لاکھ سے زائد لوگ بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور دیگر آزاد ذرائع نے بشار اور اس کی انتظامیہ کو شام میں تمام تر تباہی کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے نے شامی عوام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم قرار دیتے ہوئے بشار اور اس کے قریبی رفقا کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے حوالے کردینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے شام عرب ممالک میں ساتواںبڑا ملک ہے ۔ اس کی ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ کی آبادی کا ۹۰ فی صد عرب،۸ فی صدکُرد اور باقی دیگر قوموں پر مشتمل ہے۔ ۹۰ فی صد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جن میں غالب اکثریت اہل سنت کی ہے ۔ علوی ، اسماعیلیہ اور دیگر شیعہ فرقے ۱۰ سے۱۵ فی صد کے قریب اور باقی مسیحی وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ شام افریقہ، ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی، لبنان ،مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، اُردن اور عراق کے ساتھ ملتی ہیں۔
حکومت کے خلاف مظاہروں کے شروع ہوتے ہی بشار نے اسے طاقت سے کچلنے کاآغاز کردیا تھا۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور پکڑ دھکڑ ہی نہیں مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ شروع کردی گئی، بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں سے رہایشی علاقوں کو گھیرلیا گیا،اور پھر جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری شروع کردی گئی۔ گھروں، سکولوں ، مسجدوں اور ہسپتالوںکو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔پوری پوری عمارتوں کو مکینوں سمیت ملیامیٹ کردیااور ہر جگہ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ زیادہ تر شہر خالی ہوگئے اور لوگ پُرامن علاقوں اور پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہوگئے ۔ بشار کے مظالم نے پناہ گزین کیمپوںمیں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہاں بھی بچوں اور خواتین کومیزائلوںاور فضائی حملوں کانشانہ بنا رہا ہے۔
ایک موقع پر عرب لیگ نے بھی خواب غفلت سے آنکھیں کھولیں،ایک متفقہ قراردادکے ذریعے بشار کو فوری طور پر اقتدار سے ہٹانے اور اختیارات اپنے نائبین کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر گہری نیند میں ڈوب گئی ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء اور فروری ۲۰۱۲ء میں یہی مطالبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دہرایا گیالیکن دونوں دفعہ روس اور چین نے ویٹو کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس کی مخالفت کردی۔ سلامتی کونسل نے بہت تیر مارا تو ۱۴،اپریل ۲۰۱۲ء کو ایک اور قرارداد میں شام کی حکومت سے فوری جنگ بندی اور رہایشی علاقوں کی طرف فوج کشی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ اور عرب لیگ نے مشترکہ طور پر کوفی عنان کو خصوصی ایلچی بنا کر بھیجاتاکہ بشار حکومت کی جانب سے روارکھے گئے انسانیت سوز مظالم کو روکے ۔لیکن کوفی عنان کے مختصر دورے کے فوراً بعد نہتے مظاہرین اور بے گناہ شہری ایک دفعہ پھر ٹینکوں، توپوں اورفضائی بم باری کا سامنا کر رہے تھے۔
بشار انتظامیہ کی جانب سے رہایشی علاقوں پر بم باری کی وجہ سے لوگ اپنے علاقے چھوڑ گئے ہیں ،زیادہ تر علاقے خالی ہوچکے ہیں۔ شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میںپناہ لیے ہوئے ہیں۔ پڑوسی ممالک کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے یورپ کا رخ بھی کیا ۔اقوام متحدہ کے کمیشن براے مہاجرین کے مطابق یورپ نے شام سے پناہ لینے کے لیے آنے والوں کا دل کھول کر استقبال نہیں کیا اور صرف ۱۰ یورپی ممالک نے ان کو پناہ دی۔ان میں جرمنی سرفہرست ہے جس نے ۱۰ ہزار مہاجرین کو پناہ دی ہے۔سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے والے شامی اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ بیش تر لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہورہی اور وہ عملا قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شامیوں کی ایک بڑی تعداد مصر میں بھی پناہ لینے کے لیے پہنچی ہوئی ہے ۔ تاہم فوجی حکومت کے نامناسب رویے کی وجہ سے ان کی تعداد بہت کم ہے۔ گذشتہ دنوں مصر ی حکام نے کئی خاندانوں کو مصر سے بے دخل کردیا تھا۔مہاجرین کا سب سے زیادہ دباؤ لبنان پر ہے۔ دسمبر ۲۰۱۳ء کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک ساڑھے ۸ لاکھ مہاجرین سرحد عبور کرکے لبنان پہنچ چکے ہیں۔ ترکی اور اس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں شامی مہاجرین کی حالت قدرے بہتر ہے جہاں حکومت کی سرپرستی کے باعث رفاہی اداروں کی رسائی اور امدادی کارروائیاں قدرے آسان ہیں۔
بشار کی وحشیانہ کارروائیوں اورجنگی جہازوں کی بم باری سے ۱۲ لاکھ گھر تباہ ہوچکے ہیں اور روز بروزاس میں اضافہ ہورہا ہے ہیں ۔ بڑی تعداد میںلوگ پڑوسی ممالک کے علاوہ ملک کے اندر محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں ۔اقوام متحدہ کے ادارے براے بحالی مہاجرین کے مطابق اب تک ۶۵ لاکھ افراد اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر اندرون ملک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ نومبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ انتہائی کس مپرسی کی حالت میں مختلف کیمپوںاور دیگر مقامات میںزندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ UNHCR کے مطابق ان میں سے صرف ۴۶ ہزار لوگ اقوام متحدہ کے اس کمیشن کے پاس رجسٹرد ہیںجوپانچ مختلف ممالک میں ان کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ باقی لوگ انتہائی پریشان کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ ملک کے بیشتر علاقے سخت برف باری کی زد میں ہیں اور درجۂ حرارت منفی ۱۰ سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ سخت سردی کی اس لہر میں خیموں کے اندر زندگی گزارنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔
بشار انتظامیہ کے مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے، بڑی تعداد میں فوجی افسران اور سپاہیوں نے بھی فوج سے بغاوت کا اعلان کردیا ۔علیحدگی اختیار کرنے والے افسران اور مختلف تنظیموں نے مسلح گروپ تشکیل دیے ہیں۔سب سے پہلے لیفٹننٹ کرنل حسین ہرموش فوج سے الگ ہوئے جس نے ’الاحرار بریگیڈ‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیااور فوج میں اپنے دوستوں سے اپیل کی کہ حکومت سے الگ ہوجائیں اور ان کی تحریک میں شامل ہوجائیں۔ بعد ازاں جیسے جیسے فوجی افسر بغاوت کرکے فوج سے نکلتے رہے،اپنا گروپ تشکیل دیتے رہے۔یہی نہیں مختلف عالمی اور علاقائی طاقتوں نے بھی اپنے اپنے مقاصد کی خاطر مسلح گروہ تشکیل دیے ہیں۔ اس وقت مختلف ناموں سے دو درجن سے زائد جہادی تنظیمیں بشار کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔ اگر چہ ان تنظیموں کے آپس میں اِکّا دکّا واقعات کے علاوہ کسی بڑی جھڑپ کی اطلاع تو نہیں آئی ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں مسلح گروہوں کی تشکیل ہی دشمن کو تقویت اور اپنی اپوزیشن کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر دشمن ممالک اور تخریبی ادارے بھی مجاہدین کے نام پر ایسے گروپ تشکیل دینے میں کامیاب ہورہے ہیں جو دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے جہاد اور مجاہدین کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان مسلح گروپوں میں کئی ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو اپنے علاوہ باقی سب کو کافر قرار دیتی ہیں۔
بعض علاقوں میں مسلح گروہ ایک چھتری تلے جمع ہو گئے ہیںجیسے گذشتہ دنوں حلب میں تمام چھوٹی تنظیموں نے جبہۃ اسلامیہ کے ساتھ ضم ہونے کا اعلان کیا لیکن ملکی سطح پر تمام گروپوں کو جمع کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔
زمینی صورت حال اس وقت یہ ہے کہ شام کا ۹۰ فی صد سے زائد علاقہ بشار کے ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔ حمص ، السویداء ، لاذقیہ اور درعا کے علاوہ تمام اضلاع مجاہدین کے کنٹرول میںہیں، جب کہ دارالحکومت دمشق کے بیش تر حصے پر بھی مجاہدین کا قبضہ ہے ، اور وہاںمجاہدین اور بشار انتظامیہ کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ بشار چونکہ زمینی جنگ ہار چکا ہے اس لیے اب وہ صرف بم باری پر انحصار کر رہا ہے ۔
نومبر ۲۰۱۲ء میں قطر کے دارالحکومت میںشامی اپوزیشن قوتوںکے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں حکومت مخالف جماعتوں کی اکثریت ایک چھتری تلے جمع ہوگئی۔ انقلابی طاقتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد نے عالمی برادری کی توجہ شام کے مسئلے کی طرف مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ شامی مجاہدین کی کوششوں کو بھی مربوط کرنے میںمدد دی ہے۔
۱۹۶۳ء میں بعث پارٹی کا اقتدار سنبھالتے ہی اخوان کی آزمایش کا دور شروع ہو گیا تھا۔حافظ الاسد نے۱۹۷۱ء میں برسر اقتدار آکر اخوان کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیااور قید وبند کاایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔۱۹۸۰ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے اخوان کے ساتھ تعلق ثابت ہونے کی سزا پھانسی مقرر کردی گئی جو آج بھی باقی ہے۔اخوانی قیادت کی اکثریت جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ مارچ ۲۰۱۱ء میں بشار کے خلاف جدوجہد کے آغاز ہی سے اخوان پوری طاقت سے ایک مؤثر فریق کی حیثیت سے ظالم ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد میں شریک ہیں۔
امریکا اس پورے مسئلے میںنہایت عیاری سے تباہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔عالمی برادری کی تائید حاصل کرنے کے لیے ایک طرف وہ شامی عوام کی جدوجہد کا ساتھ دینے کے زبانی وعدے کر رہا ہے اور دوسری طرف معاملے کو مزید طول دے کر عراق کے بعد ایک اور مسلمان ملک کو کمزور کر رہا ہے، تاکہ اسرائیل کی سرحدیں مضبوط ہوں اوروہ بیرونی خطرات سے محفوظ رہے۔ بدقسمتی سے ایران اور حزب اللہ بھی کھلم کھلابشار کا ساتھ دے کر اس خون ریزی میں شریک ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ بشار کی حکومت اسرائیل کے سامنے بند کی حیثیت رکھتی ہے ،اس لیے ہم اسے بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے ،لیکن عملاًدیکھیں تو خود اسرائیلی انتظامیہ ، امریکا اور عالمی برادری سب بشار انتظامیہ کو باقی رکھنے پر مصر ہیں۔اگر ان دونوں فریقوں(ایران و حزب اللہ) اور (امریکا واسرائیل) میں سے کوئی ایک فریق بھی بشار انتظامیہ سے نجات کا فیصلہ کرلیتا تو یقینا بشار اب تک قصۂ پارینہ بن چکا ہوتا۔
جیسے جیسے بشار الاسد اپنا قبضہ وتسلط کھوتا جارہا ہے اور امریکا واسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے ۔ وہ کسی ایسے متبادل کی تلاش میں ہیں جو بشار کے بعد خطے میں ان کے مفادات کا خیال رکھ سکے اور جس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔
شام کے مسئلے کے حل کے لیے براے نام کوششوں کے سلسلے میں امریکا اور روس کی آشیرباد سے عالمی برادری آیندہ جنوری میں جنیوا ۔۲ کے نام سے کانفرنس کر رہی ہے۔اس سے قبل ’جنیوا-۱‘ ہوچکی ہے۔ ملک کے زیادہ تر حصے پر مجاہدین کے قبضے کے بعد حقوق انسانی کے علَم بردار ممالک یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے معاملات حل ہوجائیں ۔ لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اب بشار کے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہ توپایدار ہوگا نہ معاملے کے اصل فریق، یعنی شامی عوام کو قابل قبول ۔
سخت سردی اور بد ترین بم باری کے تناظر میں تمام اسلامی ممالک ، انسانی حقوق کی تنظیموںاور رفاہی اداروںکا فرض ہے کہ آگے بڑھ کرمظلوموں کی فوری مدد کریں۔