پاکستان اپنی آزادی کے ۷۴ برس مکمل کرچکا ہے۔ اس موقعے پر اس کی معاشی کارکردگی کا جامع اور صحیح جائزہ و تجزیہ اور اس کی جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے۔
گذشتہ سات عشروں میں جو ترقیاتی منصوبے بنائے گئے، لگتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ دھندلے معاشی مستقبل میں وقتی راستے نکالنے، اور بظاہر ہوشیاری سے راستے نکالنے کی کوششوں کے باوجود امکان نہیں ہے کہ مزید ایسی پالیساں کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ یہ اپنے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کے ساتھ پاکستانی معیشت کا مجموعی منظر نامہ ہے، جو قیامِ پاکستان کے مقاصد اور اس کے عوام کی ادھوری خواہشات کے تناظر میں تجزیے اور جائزے کا مستحق ہے۔ پے دَرپے اُلجھتے معاشی،انتظامی اور سیاسی تجربات کے نتیجے میں اُبھرنے والے ایک عظیم قومی خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دانش وروں اور آزاد تحقیقی اداروں کو چاہیے کہ ان معاشی کامیابیوں اور ناکامیوں کا غیر جانب دارانہ جائزہ لے کر درپیش چیلنج کا جواب دیں اور پاکستانی عوام کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کےلیے متبادل حکمت عملی اور پالیسی کے امکانات کو واضح کریں۔
میں پچھلے سات عشروں میں معاشی کارکردگی کے بارے میں اپنے خیالات اور خدشات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، جو میری نظر میں چند مثبت کامیابیوں کے باوجود، لوگوں کی ضروریات، توقعات اور اُمنگوں سے بہت کم ہیں۔ سات دہائیوں کی ترقیاتی کوششوں اور بیرونی اور اندرونی بھاری قرضوں کو برداشت کرنے کے بعد، انصاف کے بغیر واضح طور پر متضاد رویوں پر کھڑے معاشی پالیسی سازی کے نظام کا خواب دیکھناایک بے کار حرکت ہے۔دولت، چندحلقوں میں مرتکز ہوگئی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد وسیع پیمانے پر غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے محرومی اور بدحالی کا شکار ہے۔ ترقی کی جو حکمت عملیاں برسوں سے اپنائی گئیں، وہ بڑے پیمانے پر بیرونی صلاح کاری اور تجاویز اور عالمی مالیاتی اداروں کی حاکمانہ ہدایات پر مشتمل تھیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ اصل حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں بلکہ جمہور عوام کی اقدار اور اُمنگوں سے بھی یکسر متصادم تھیں۔ یہ بیش تر پالیسیاں جواز (legitimacy) اور اعتبار (credibility) دونوں سے خالی تھیں، اسی لیے بے ربط اور مسخ شدہ چلی آرہی ہیں۔ اکثر اوقات یہ پالیسیاں معمولی سیاسی فائدے حاصل کرنے کےلیے اور فوری یا مقامی اور غیر ملکی مفادات کو تحفظ دینے اور ان کے تقاضے پورے کرنے کےلیےاپنائی گئی تھیں۔
اگرچہ محضر توازن یا بیلنس شیٹ (balance sheet)کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں، جنھیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اس بیلنس شیٹ کے کچھ بھیانک پہلو بھی ہیں جن پر بہ غور توجہ دیے بغیر بیلنس شیٹ متوازن نہیں رہے گی۔ اس بات پر بمشکل ہی کوئی اختلاف ہوگا کہ پاکستان کا مروج معاشی نظام اپنی حقیقی صلاحیتوں کو پورا نہیں کرسکا، جسے نرم سے نرم الفاظ میں اوسط درجے کا قرار دیا جاسکتا ہے،تاہم اس بناپر پاکستان کو ’ناکام ریاست‘ قرار دینا سخت مضحکہ خیز ہے، جیسا کہ ہمارے بعض کرم فرما اور نقاد مسلسل دُنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بہرحال، اس نظام کو مارکیٹ اکانومی کے جادوئی منتر، لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن، نج کاری، بڑی صنعتوں کے استحکام کے نظریے اور عالم گیریت کی برکات کی وجہ سے کامیابی کی داستان کے طور پر پیش کرنا بھی غلط ہے۔؎۱
پاکستان کی معاشی کارکردگی کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ۲۵ فی صد آبادی ہونے کے باوجود ملکی معیشت میں حصہ بمشکل پانچ سے آٹھ فی صد تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں، یعنی موجودہ پاکستان کی معیشت زیادہ تر زراعت پر منحصر تھی۔ کپاس کا ایک بڑا پیداآوری ملک ہونے کے باوجود، ۱۹۴۷ء میں پورے پاکستان میں صرف دو ٹیکسٹائل ملیں تھیں۔ سنہری ریشے (پٹ سن) کی صورت حال مشرقی پاکستان میں زیادہ قابل رحم تھی۔ پاکستان سنہری ریشہ پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک تھا، حالانکہ آزادی کے موقعے پر اس میں سنہری ریشے کی کوئی ایک مِل(Mill) بھی نہیں تھی۔ ۱۹۴۷ء میں ہندستان کی صنعتی پیداوار میں اس خطے کاحصہ ناقابل یقین حد تک کم تھا، جوبمشکل ایک فی صد تھا۔ اس پس منظر میں سنگین ناکامیوں، ضائع ہونے والے مواقع، غلط ترجیحات اور منصفی کی اہم جہتوں کو ناقابل معافی حد تک نظر انداز کیے جانے کے باوجود، گذشتہ ۷۴ برسوں میں جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، وہ اہم ہے۔ اگر مسلمان اپنا الگ وطن نہ بناتے تو جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، یہ بھی حاصل نہ ہوتا۔ خود ہندستان نے ۱۹۴۷ءسے جو بھی معاشی ترقی کی ہے، وہ بھی ممکن نہ تھی، اگر یہ خطّہ دوبڑی قوموں کے درمیان خانہ جنگی (Civil war) کی حالت میں رہتا (اگرچہ دہلی کے حکمرانوں نے غاصبانہ طورپر مسئلہ کشمیر کھڑا کرکے اس پورے علاقے کو جنگی صورتِ حال سے دوچار کر رکھا ہے)۔
پاکستان ان چند ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے، جنھوں نے سات عشروں کے دوران اوسطاً ۵ فی صد کی شرح ترقی (growth rate)حاصل کی ہے۔ کچھ اہم معاشی ترقیاتی اشاریوں (indicators) پر نظر ڈالنے سے پیش رفت کا عمومی اندازہ ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی پیداوار جو ۱۹۴۷ء میں صرف ۵۸ ؍ارب روپے تھی، ۲۰۲۱ء میں بڑھ کر تقریباً۴۶ہزار ۴سو ۶۴؍ ارب روپے ہو گئی ہے، یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں۔اوسط فی کس (per capita)سالانہ اضافہ ۲ فی صد سے زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں اس مدت کے دوران فی کس اوسط میں تقریباً پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور جی ڈی پی (خالص قومی پیداوار) کے لحاظ سے اس کی ۴۴ویں بڑی معیشت ہے، جو قوتِ خرید کے برابری کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی ۲۸ویں بڑی معیشت بناتی ہے۔
تاہم، فی کس جی ڈی پی اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے حوالے سےاس کی پوزیشن واضح طور پر خراب ہے (بالترتیب ۲۰۳ ممالک میں ۱۶۴ واں اور ۱۹۰ ممالک میں ۱۴۷ واں نمبر)۔ سماجی شعبے میں ناکامی، وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر گمراہ کن پالیسیوں کی وجہ سے ہے، جس کو عوام کی عدمِ شرکت اورعمومی احتساب کی عدمِ موجودگی نے بڑھاوا دیا ہے۔مزید برآں ورلڈبنک اور عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) جیسے عالمی سرمایہ دارانہ اداروں کی ہدایات پر ضرورت سے زیادہ انحصار رہا، جنھوں نے مغرب کےلیے بنے معاشی ترقی کے طریقوں کو تیسری دنیا کے ممالک پر چسپاں کرنے کی کوشش کی۔
معیشت کی بنیادی کمزوریوں اور ناکامیوں کا پتا پالیسی کی غلطیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ غلط ترجیحات، بیرونی آمرانہ پالیسیوں، بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ اشرافیہ ہی ہے جس نے عام آدمی کا حصہ غصب کرکے اپنی حد سے زیادہ منافع کمایا ۔ غربت کی سطح میں اتار چڑھاؤ آیا ہے جو اس وقت آبادی کے ۶ فی صد سے زیادہ ہے۔ البتہ مناسب زندگی گزارنے کی کم سے کم سہولتوں سے محروم لوگوں کی تعداد ۲۰فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح دولت کی تقسیم بھی دولت مندوں کے حق میں بڑھتی چلی جارہی ہے۔ غربت کے خاتمے میں ریاست کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی بنک کی ایک تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ غربت میں کمی لانے کےلیے زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے تقریباً ۲۸ فی صد پروگرام نجی سطح پر ہورہے ہیں، جن کی سالانہ لاگت تقریباً ۷۰ سے ۱۰۰؍ ارب روپے ہیں۔
مختلف اَدوار میں فوجی اور سول دونوں حکومتوں کی کچھ حقیقی لیکن بیش تر سطحی پالیسیوں میں تبدیلیوں کے باوجود، معاشی بد حالی کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کی وجہ سنگین تصوراتی ابہامات ، معاشی حکمت عملیوں میں خامیاں، مسخ شدہ ترجیحات، سراسر نااہلی اور بدعنوانی تھی کہ معیشت ہموار نہ چل سکی اور بڑھوتری کی شرح برقرار نہ رہ سکی۔مزید برآں، معیشت کو وسائل کی بہت ہی غلط تقسیم سے زک پہنچی، جس کے نتیجے میں شدید عدم مساوات اور معاشی اور سماجی فوائد کے عدم توازن نے ملک کے مختلف خطوں کے درمیان منافرت، رقابت اور بے اعتمادی پیدا کی۔ پالیسی کی ان خامیوں اور کارکردگی میں ناکامیوں کی ذمہ داری ان تمام حکومتوں پر پوری پوری آتی ہے، جنھوں نے ان سات عشروں میں ملک پر حکمرانی کی ہے۔انصاف کو یقینی بنانے کےلیے سب کا مواخذہ ہونا چاہیے۔ بہر حال اندیشوں کے تمام اطراف کی نشان دہی ضروری ہے۔ ان اہم ترین اطراف کی جانب آنے سے قبل ضروری ہے کہ ۱۹۵۰ء کی دہائی سے جاری بحران اور الجھنوں سے متعلق سب سے بنیادی ایشو پر بات کی جائے۔ یہ ترقی کے تصور اور مطلوبہ معیشت کے وژن سے متعلق ہے۔
جن بیوروکریٹوں اور مقتدر جرنیلوں نے معاشی پالیسی کی تشکیل اور انتظام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، اور جن سیاست دانوں نےاس عمل میں حصہ لیا، ان کا زیادہ تر انحصار غیر ملکی مشوروں اور ان کے ساتھ آنے والے دباؤ پر تھا۔
سیاست کے بانیوں کا ابتدائی وژن دھندلا گیا ، حتیٰ کہ غیر ملکی مشوروں اور عطیہ دینے والے اداروں کی ہدایات کی تعمیل میں انھیں پتا ہی نہ چلا کہ کدھر جانا ہے۔ سرمایہ دارانہ پیراڈائم (مثالیہ) پر مبنی ترقی کا ماڈل، جسے یورپ اور امریکا میں آزمایا گیا، خاص طور پر دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان کا ’مارشل پلان‘، ان کا ارفع معیار اور سکّہ رائج الوقت بن گیا۔ ہاروڈ ڈومر(Harrod-Domar) ماڈل اور اس کے متعلقات، جنھیں چینری(Chenery)، نرکسی (Nurkse)، آرتھر لیوس (Arthur Lewis)، کوزنیٹس(Kuznets)، روستو (Rostow) اور دیگر حضرات نے منظم کیا۔؎۲ ایک اہم نظریاتی سرچشمۂ فیض (inspiration)بن گیا ، جب کہ امدادی ایجنسیوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے تیار کردہ تجاویز، خاص طور پر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف نے ترقیاتی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کےلیے جو معیار اور ضابطے (parameters) مقرر کیے، انھی کو گذشتہ چھے عشروں سے مختلف حکومتیں اپناتی چلی آرہی ہیں ۔ کچھ کچے پکے تغیرات کے باوجودتقریباً تمام حکومتوں نے ترقی اور معاشی تبدیلی کے لیے سرمایہ داری کا تجویز کردہ راستہ ہی اختیار کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سوشل ازم سے داغ دار نعرے بازی یا بیان بازی اور جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِحکومت میں برائے نام اسلامی اقتصادی پالیسی بھی سرمایہ داری کے کردار کے اصل جوہر کو تبدیل نہ کرسکی۔
دوسرے خطوں کی طرح یہ ماڈل یہاں بھی ناکام ہورہا ہے۔ اسی لیے 'انسانی ضروریات کے لیے فکرمندی، 'غربت میں کمی، بڑے پیمانے پر معاشی استحکام اور اس طرح کی دیگر خصوصیات کا بظاہر اضافہ کیا گیا، لیکن اس کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔زمینی حقائق بہت کچھ بتا رہے ہیں۔پائدار اور جامع ترقی ایک سراب بنی ہوئی ہے،اور جو بھی ترقی ہوئی ہے، اس کے ساتھ سماجی تناؤ، بڑھتا ہوا اقتصادی فرق اور خلیج،زیادہ غیر ملکی انحصار، سیاسی خودمختاری کا خاتمہ، ماحولیاتی تباہی اور ثقافتی بحران میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نچلی سطح تک معاشی ترقیاتی فائدے پہنچانے کے جو خواب پیش نظر تھے، وہ سراب ثابت ہوئے ہیں۔اس کے بجائے وہی ممالک کامیاب ہوئے ہیں، جنھوں نے اپنی آزادانہ راہیں اختیار کیں، اور اس ماڈل کو اپنی بنیادی ضروریات اور حالات کے مطابق ڈھال لیا اور بیرونی دباؤ اور تجاویز کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک غیرمربوط سرمایہ داری کے راستے پر چل پڑا ہے۔ توازن کے ساتھ اس تجربے کا ایک ایمان دارانہ جائزہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ یہ ماڈل قومی خدمت اور قومی تعمیر کے امکانات روشن کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اصل ضرورت اس مثالیے(Paradigm) کو علی الاطلاق تبدیل کرنے کی ہے ، اس کے اندر محض کچھ ترامیم سےکوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔آپ کسی خونخوار عفریت کے جسم پر انسانی ہمدردی کا نقاب نہیں چڑھا سکتے، اورنہ اس بلا سے کسی اچھے انسان کی طرح برتاؤ کی توقع کرسکتےہیں۔
سرمایہ دارانہ ترقی کا پیراڈائم چھے مہلک خامیوں سے دوچار ہے، جنھیں لگی لپٹی بغیر سمجھنے کی ضرورت ہے:
زیادہ تر ترقیاتی پروگرام ثقافتی اقدار کو آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور انھیں محض ترقی کے ذرائع کے طور پر دیکھتے ہیں، یعنی ان اقدار کو اپنے ان مقاصد کے حصول میں معاون یا رکاوٹ سمجھتے ہیں جن کا اس اخلاقی نظام اور اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ترقی کو مجموعی اقتصادی ترقی، جدید اداروں کی تخلیق، اور صارفین کی خواہشات اور پیشہ ورانہ عزائم کے پھیلاؤ کے ساتھ موافق کرتے ہیں۔تاہم، بنیادی طور پر ان میں سے کوئی بھی ترقی نہیں ہے، بلکہ سماجی تبدیلیاں ہی بہتر طور پر حقیقی ترقی کے راستے ہموار کرسکتی ہیں۔ ترقی کے ایک بالکل مختلف تصور کی ضرورت ہے، جو قوموں کے متنوع اقدار ی نظام سے اخذ کیا گیا ہو۔ان اقدار اور معانی، وفاداریوں، اور طرزِ زندگی کے ان نیٹ ورکس سے ترقی کےمقاصد اور اس کے حصول کے لیے موزوں ترین ذرائع کو اخذ کرنا چاہیے۔
روایتی اقدار اکثر پنہاںحرکیات کا سہارا لیتی ہیں۔ انھیں ایسے طریقوں سے ترقیاتی تبدیلی لانے کے لیے متحرک کیا جا سکتا ہے، جو متعلقہ آبادیوں کی شناخت اور سالمیت کو کم سے کم نقصان پہنچائیں۔ صحیح ترقی کی بنیاد روایتی اور مقامی اقدار پر ہونی چاہیے کیونکہ بالآخر معاشی اور سماجی ترقی دونوں ہی ایک وسیع تر مقصد کے مطابق، انسانی ترقی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ تاہم، انسانی ترقی کا انحصار شناخت کے محفوظ احساس اور ثقافتی سالمیت کے علاوہ معانی کے اس نظام پر بھی ہے جس سے انسان جذباتی طور پر وفادار ہو سکتا ہے۔؎۴
’اکانومزم‘ ان خیالات کا نام ہے جن کے مطابق زندگی کی تفہیم، قیمت اور انتظام معاشی حساب سے کی جانی چاہیے، یا یوں کہہ لیں کہ معیشت ایک جداگانہ اور بنیادی نوعیت کا دائرہ ہے جس کواس کی اپنی آفاقی اور تکنیکی ضروریات کے مطابق چلانا چاہیے جہاں شرح نمو میں بڑھوتری ہی ترقی کا اصل جوہر ہے۔؎۵
اس نقطۂ نظر کا منطقی نتیجہ مارکیٹ کا تمام فیصلوں میں حتمی ثالت بننے اور فیصلہ کن قوت کی صورت میں نکلتا ہے، بالآخر وہ لوگ جن کے پاس قوتِ خرید (purchasing power) زیادہ ہوتی ہے، ان کا سکہ چلتا ہے اور تمام وسائل ان ہی کی طرف اکٹھے ہوتے ہیں۔ اشرافیہ، دراصل استحصالی اور غیر منصفانہ سوسائٹی کا فطری نتیجہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری کے حامی بھی اب پوری انسانی حالت کے اس بالکل بدلی ہوئی شکل (metamorphosis) پر سراپا احتجاج ہیں۔ جارج سوروس (George Soros) اپنی کتاب On Globalization میں کہتے ہیں: ’’مارکیٹ کے طریقۂ کار پر حد سے زیادہ انحصار کرنا بہر صورت خطرناک ہے۔مارکیٹیں اس لیے تیار کی گئی ہیں کہ لوگوں کو رضامندی سے اشیا اور خدمات کے آزادانہ تبادلے کی سہولت فراہم کی جا سکے، لیکن وہ خود اس قابل نہیں ہیں کہ امن و امان جیسی اجتماعی ضروریات کی یا خود مارکیٹ میکانزم کی دیکھ بھال کر سکیں، نہ وہ عدل اجتماعی کو یقینی بنانے کی اہل ہیں۔ یہ مشترک ملکیت والی اشیا (public goods )صرف ایک سیاسی عمل کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہیں،لیکن معاشرہ صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر نہیں چل سکتا۔ جائز اور ناجائز کے اجتماعی فیصلے سیاست کے سپرد کیے گئے ہیں، جب کہ سیاست کی دنیا میں ایسے اجتماعی فیصلوں کا کوئی قوی اخلاقی ضابطہ وجودہی نہیں رکھتا‘‘۔؎۶
ایک فرانسیسی ماہر اقتصادیات اگنیسی ساش (Ignacy Sachs)، اس تخفیف پسندانہ (reductionist) نقطۂ نظر کو چیلنج کرتے ہیں اور ترقی کے لیے زیادہ جامع اور انسانیت سے متصف نقطۂ نظر کی طرف ایک طاقتور استدعاکی تحریک دیتے ہیں۔معاشی بڑھوتری کے نظریات عام طور پر سرمایہ کاری سے پیداوار میں اضافے سے متعلق تخفیف پسند میکانکی پیراڈائم کواختیار کرتے ہیں۔ جہاں تک لفظ ’ترقی‘ کا تعلق ہے، اگر اسے نیچرل سائنس کےلیے اختیار کیا جائے تو یہ اس کی نامیاتی تشریح کے لیے پُر کشش ہوسکتا ہے۔ نامیاتی نشوونما مکمل طور پر جان دار کے جینیاتی کردار اور ماحولیاتی عوامل کے باہمی تعامل سے طے ہوتی ہے۔ یہ پیداوار (growth)، پختگی (maturation)، گلنے سڑنے (decay) اور بکھرنے (decomposition) جیسے روایتی طریقے کو اختیار کرتاہے:
اس کے برعکس، سماجی و اقتصادی ترقی ایک کھلا تاریخی عمل ہے جس کا انحصار کم از کم جزوی طور پر انسانی تخیل، منصوبوں اور فیصلوں پر ہوتا ہے جو قدرتی ماحول کی مجبوریوں اور زندہ ماضی (تاریخ) کے بوجھ سے مشروط ہوتے ہیں۔ صرف ہماری انواع (species) اپنے مستقبل کو ایجاد کرنے اور اپنے ماحول کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں حقیقت پسندی اور ذمہ داری کے اصول کے مطابق رَدّ وبدل ہوتا ہے۔
اس طرح ترقی کو سماجی و اقتصادی ڈھانچے کی تبدیلی اور انتظام کے ایک دانستہ اور خو د اپنی رہنمائی کرنے والے عمل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔جس کا مقصد تمام لوگوں کو باوقار ذریعۂ معاش کی فراہمی کے ذریعے مسلسل بہتری لا کر ایک مکمل اور باوقار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا ہے، چاہے مختلف ادوار میں مختلف معاشروں کی طرف سے ان اہداف کے لیے جو بھی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہوں۔؎۷
یہ تخفیف پسندی (Reductionism)، معاشیات کے چند عظیم معماروں کے خیالات سے بھی مختلف ہے۔ الفریڈ مارشل (Alfred Marshall) معاشیات کو محض دولت کا مطالعہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ خود انسان کا مطالعہ سمجھتے ہیں۔ گالبریتھ (Galbraith) نے مارشل کا یہ اقتباس دُہرایا ہے: ’’ماہرمعاشیات کو بھی دوسروں کی طرح انسان کے حتمی مقاصد کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے‘‘۔؎۸
آر ایچ ٹانی (R.H. Tawny) نوحہ پڑھتے ہیں: ’’صنعت کار ان لوگوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کے لیے دولت حاصل کرنا چاہیے اور حصول دولت کے طریقوں میں ہی کھو جاتے ہیں‘‘۔؎۹
’معاشرے‘ کو ’معیشت‘ تک محدود کرنے اور معیشت کو صرف منڈی کا عمل بنانے کی یہ کوشش تمام فیصلہ سازی میں معاشی تحفظات کو فیصلہ کن عنصر بنادیتی ہے اور یہ سرمایہ دارانہ ماڈل کی سب سے مہلک خامی ہے۔
جمہوریت کے لیے تمام زبانی جمع خرچ کے باوجود، اس عمل میں سے عوام کا اخراج اور ان کی غیر موجودگی اس ماڈل کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔
سرمایہ دارانہ ماڈل کی یہ مہلک خامیاں تیسری دنیا کے لوگوں کو حقیقی ترقی اور فلاح و بہبود فراہم کرنے میں ناکامی کی جڑ ہیں، جو اپنی معاشی قسمت بدلنے کی لاحاصل کوششوں میں مصروف ہیں۔ مرکزی دھارے کے ماہرینِ اقتصادیات اور حکمت عملی ساز چاہے کچھ بھی بہانہ بنائیں، یہ احساس [مسلسل] بڑھتا جا رہا ہے کہ سرمایہ دارانہ پیراڈائم کا ’دیوتا ناکام ہوچکا ہے‘۔نئے پیراڈائم کی تلاش اُفق پر امید کی حقیقی کرن ہے۔
پروفیسر ولیم ایسٹرلی (William Easterly) عالمی بنک کے سابق ماہر اقتصادیات نے اپنی کتاب The Elusive Quest for Growth میں عالمی ترقیاتی ادارے کا ایک ماہرانہ سروے کیا ہے۔ اس کے نتائج سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے مستحق ہیں:
۵۰برس پہلے، دوسری جنگ عظیم کے بعد، ہم ماہرین اقتصادیات نے وہ ذرائع دریافت کرنے کےلیے اپنی جرأت مندانہ جستجو کا آغاز کیا تھا کہ جن کی مدد سے منطقہ حارہ (tropics)کے غریب ممالک بھی یورپ اور شمالی امریکا کی طرح امیرممالک بن سکیں۔ ہمیں کئی دفعہ خیال ہوا کہ ہم کامیابی کی کلید کو پاگئے ۔ ہم نے جو قیمتی چیزیں پیش کیں ان میں غیر ملکی امداد سے لے کر مشینوں میں سرمایہ کاری تک، تعلیم کو فروغ دینے سے لے کر آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے تک، اصلاحات پر مشروط قرضے دینے سے لے کر قرضوں میں ریلیف کی مشروط فراہمی تک شامل تھیں مگر ہم نے ان میں سے کوئی بھی وعدہ وفا نہیں کیا ۔ جن غریب ممالک کا ہم نے مذکورہ نسخوں سے علاج کیا، حسب توقع وہ حقیقی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
جس خطے کی ترقی پر ہم نے سب سے زیادہ توجہ دی، وہ افریقا ہے جو مکمل طور پر ترقی کرنے میں ناکام رہا۔ لاطینی امریکا اور مشرق وسطیٰ نے کچھ عرصے کے لیے ترقی کی، لیکن پھر ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں یہ نمو تنزلی کی طرف بڑھ گئی۔ جنوبی ایشیا جو ماہرین اقتصادیات کی جانب سے گہری توجہ حاصل کر رہا ہے، بے ہنگم ترقی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے غریبوں کا بڑا حصہ جنوبی ایشیا میں ہے ۔ اور حال ہی میں مشرقی ایشیا کی، جس چمکتی کامیابی کا ہم نے بار بار جشن منایا، اس کی ترقی بھی گراوٹ کا شکار ہوگئی (جنوبی ایشیائی قوموں میں سے تمام تو نہیں، البتہ کچھ قومیں دوبارہ اُٹھ رہی ہیں)۔ منطقہ حارہ کا نسخہ ہم نے اس سے باہر کچھ سابق اشتراکی ممالک پر لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن نتائج بہت مایوس کن نکلے۔؎ ۱۰
ولیم ایسٹرلی نے پچھلے چھے عشروں کے دوران اپنائی گئی ترقی کے راستوں سے بہت بنیادی انحراف تجویز کیا ہے ۔ وہ مفادِ عامہ پر مبنی نقطۂ نظر پر زور دیتا ہے۔ وہ جڑ سے حقیقی ترغیبات پر مبنی شرکت پر زور دیتا ہے، نہ کہ ڈیلیور کرنے میں ناکام ہونے پر اور پھر اُس کے اعادے پر۔
ورلڈ بنک کے ایک اور سابق سینئر ماہر اقتصادیات جان پرکنز (John Perkins) کی ایک دلچسپ اور آنکھیں کھول دینے والی کتاب آئی ہے ۔انڈونیشیا میں اپنے کچھ ساتھیوں کے کچھ واضح تبصروں پر غور کرتے ہوئے پرکنز نے Confessions of an Economic Hitman میں اعتراف کیا ہے:
امریکی خارجہ پالیسی اور اس کے کارپوریٹ مفادات کو فروغ دینے کے لیے ہم انڈونیشیا کی اکثریت کے لیے زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش کے بجائے لالچ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک لفظ ذہن میں آیا: کرپٹو کریسی، مجھے یقین نہیں تھا کہ میں نے اسے پہلے سنا تھا یا ابھی ایجاد کیا ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بالکل نئی اشرافیہ کی حقیقت واضح کرتا ہے جس نے کرۂ ارض پر حکمرانی کی کوشش کرنے کا خیال پال رکھا ہے۔ رابرٹ میکنامارا (McNamara)، فورڈ موٹر کمپنی کے صدر کے عہدے سے صدر کینیڈی اور جانسن کے ماتحت سیکرٹری دفاع کے عہدے پر چلے گئے تھے، اور اب دنیا کے سب سے طاقتور مالیاتی ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ معیشت کی ترقی میں مدد کرنا صرف ان چند لوگوں کو اور بھی امیر بناتا ہے جو اہرام کے اوپر بیٹھے ہیں، جب کہ یہ نیچے والوں کے لیے سوائے نیچے کی طرف دھکیلنے کے کچھ نہیں کرتا۔ درحقیقت، سرمایہ داری کو فروغ دینے کا نتیجہ اکثر ایسے نظام کی صورت میں نکلتا ہے جو قرون وسطیٰ کے جاگیردارانہ معاشروں سے ملتا جلتا ہے۔؎ ۱۱
جان پرکنز نے ترقی پذیر دنیا میں میگا پراجیکٹس کی حقیقی حرکیات کو سامنے لاکر سعودی عرب میں امریکا کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:
امریکی فرموں کو زیادہ سے زیادہ ادائیگیاں کرنے سے سعودی عرب کے امریکا پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی راہ ہموار ہو رہی ہے ۔ بہت جلد واضح ہوگیا کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ تقریباً تمام نئے منصوبوں میں پیش رفت اور ان کی دیکھ بھال کے لیے سعودیوں کو امریکا کی ضرورت ہوگی۔ یہ منصوبے اس قدر اعلیٰ تکنیکی ہیں کہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جن کمپنیوں نے انھیں تیار کیا ہے، صرف وہ ہی ان کو برقرار رکھنے اور جدید بنانے کی اہل اور ذمہ دار ہوں گی…ہر پراجیکٹ کے لیے جن دوفہرستوں کا میں نے تصور کیا: ایک ڈیزائن اور تعمیراتی معاہدوں کی، جن کی ہم توقع کرسکتے ہیں، اور دوسری طویل المدت سروس اور انتظامی معاہدوں کی فہرست۔ ان منصوبوں سے بہت سے امریکی انجینئر اور ٹھیکیدار آنے والے عشروں تک خوب فائدہ اُٹھائیں گے۔؎ ۱۲
پرکنز اس احساس جرم کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتا ہے۔وہ مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار نہیں ہے بلکہ اس کی فکر وہ روایتی حکمت ہے جس کے ہم سب غلام بن چکے ہیں:
میں یہ بہت تفصیل سے بیان کرسکتا ہوں کہ آج ہمیں جو مسائل درپیش ہیں، وہ انھی بدخواہ اداروں کا نتیجہ نہیں ۔ نیز یہ اقتصادی ترقی کے بارے میں غلط تصورات سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ قصور خود اداروں میں نہیں ہے، بلکہ ان کے کام کرنے کے انداز اور ایک دوسرے کے ساتھ تعامل اور اس عمل میں ان کے منتظمین کے کردار کے بارے میں ہمارے تصورات میں ہے۔؎ ۱۳
اس کے باوجود وہ پُرامید اور پُراعتماد ہے کہ دنیا، تمام انسانوں کی مدد کر سکتی ہے مگر صرف اسی صورت میں جب ہم پیراڈائم تبدیل کریں اور اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ ایک نیا خواب ہوگا جو دُنیا کے استحکام اور سماجی طورپر مساوات کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔
نوبیل انعام یافتہ جوزف اسٹگلٹز(Joseph Stiglitz)، جو بطورچیف اکنامسٹ اور ورلڈ بنک کے نائب صدر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اپنی اہم تصنیف Globalization and Its Discontents میں اس موضوع پر عالمی مالیاتی اداروں میں پالیسی سازی کی اندرونی کہانی کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
آئی ایم ایف کی پالیسیاں، جزوی طور پر اس مضحکہ خیز مفروضے پر مبنی ہیں کہ مارکیٹیں، خود سے، مؤثر نتائج کا باعث بنتی ہیں لیکن آئی ایم ایف مارکیٹ کے اقدامات میں مطلوبہ حکومتی مداخلت کی اجازت دینے میں ناکام رہا حالانکہ یہ مداخلت اقتصادی ترقی کی رہنمائی کر سکتی تھی اور ہر ایک کو بہتر بنا سکتی تھی۔
فیصلے جس بنیاد پر کیے گئے، وہ نظریے اور خراب معاشیات کا ایک دلچسپ امتزاج نظر آتا تھا۔ یہ نظریاتی واہمہ کبھی کبھی خاص مفادات پر پردہ ڈالتا نظر آتا ہے۔ جب کسی ملک پر بحران آتا ہے، آئی ایم ایف ان ممالک کے لوگوں پر اپنی پالیسیوں کے اثرات پر غور کیے بغیر، پرانے، نامناسب [مگر بزعمِ خویش] 'معیاری حل تجویز کردیتا ہے۔ میں نے شاذ و نادر ہی اس بارے میں سنا ہے کہ پالیسیاں غربت کے لیے کیا کریں گی؟ شاذ و نادر ہی متبادل پالیسیوں کے نتائج کے بارے میں غور کیا گیا ہو یا ان پالیسیوں کا تجزیہ کیا گیا ہو۔ ہر بیماری کے لیے ایک ہی نسخہ تھا۔ کسی سے متبادل رائے نہیں مانگی گئی۔ آئیڈیالوجی گائیڈڈ پالیسی کا نسخہ تھماکر ممالک سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بغیر بحث کے آئی ایم ایف کے رہنما اصولوں پر عمل کریں۔ ان اصولوں نے اکثر خراب نتائج پیدا کیے کیوں کہ وہ اصول جمہوریت مخالف تھے۔
آئی ایم ایف کی ساختیاتی ایڈجسٹمنٹ کی پالیسیاں، وہ پالیسیاں جو کسی ملک کو بحرانوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ مزید مستقل عدم توازن کو ایڈجسٹ کرنے میں مدد کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں، اُن کی وجہ سے بہت سے ممالک میں بھوک بڑھی اور فسادات ہوئے اور اگر ایک قلیل مدت کےلیے کوئی ملک ترقی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگیا، تب بھی اکثر فوائد غیرمتناسب طور پر امیروں ہی کو ملے ۔ نچلے طبقے کو کبھی اس سے بھی زیادہ غربت کا سامنا کرنا پڑا۔؎ ۱۴
جوزف اسٹگلٹز کے بین الاقوامی ’معاشی کھلاڑیوں‘ پر الزامات بہت سخت ہیں، لیکن سچی بات کی ہے:
عالم گیریت کے ناقدین بجاطور پر مغربی ممالک پر منافقت کا الزام لگاتے ہیں۔ مغربی ممالک نے تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے غریب ممالک کو تو مجبور کیا ہے، لیکن اپنے ہاں رکاوٹیں برقرار رکھی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنی زرعی مصنوعات برآمد کرنے سے روکتے ہیں اور اس لیے انھیں برآمدی آمدنی کی اشد ضرورت سے محروم کردیتے ہیں۔ بلاشبہہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اہم مجرموں میں سے ایک بڑے مجرم کے طور پر چلاآرہا ہے، اور یہ ایک ایسا گمبھیر مسئلہ تھا جس کے بارے میں مَیں شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ جب میں اقتصادی مشیروں کی کونسل کا چیئرمین تھا، تو میں نے اس منافقت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ اس سے نہ صرف ترقی پذیر ممالک کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اس سے امریکیوں کو بھی نقصان ہوا۔ صارفین کے طور پر، انھوں نے زیادہ قیمتیں ادا کیں، اور ٹیکس دہندگان کے طور پر، بھاری سبسڈی، اربوں ڈالر کی مالی اعانت کے لیے بھی خرچ کرنا پڑا۔ میری جدوجہد اکثر ناکام رہی۔ خصوصی تجارتی اور مالی مفادات غالب رہے۔
مغرب نے گلوبلائزیشن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ ترقی پذیر دنیا کی قیمت پر فوائد کا غیر متناسب حصہ حاصل کرلے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ زیادہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے سامان کے لیے اپنی منڈیوں کو کھولنے سے انکار کر دیا۔ مثال کے طور پر، ٹیکسٹائل سے چینی تک بہت سی اشیا پر اپنا کوٹہ برقرار رکھا، جب کہ ان ممالک نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ اپنی منڈیوں کو ترقی پذیر ممالک کے لیے کھول دیں۔ دولت مند ممالک کے سامان؛ یہ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ ترقی پذیر ممالک نے زراعت پر ریاستی رعایت (سبسڈی) جاری رکھی، جس سے ترقی پذیر ممالک کے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا، جب کہ ترقی پذیر ممالک صنعتی سامان پر اپنی سبسڈی ختم کرنے پر اصرار کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے کچھ کو درحقیقت بدتر بنا دیا گیا۔
مغربی بنکوں کو لاطینی امریکا اور ایشیا میں کیپٹل مارکیٹ کے نظام کے ڈھیلے ہونے سے فائدہ ہوا، لیکن ان خطوں کو اس وقت نقصان اٹھانا پڑا، جب قیاس آرائی پر مبنی بڑے پیمانے پر رقم (hot money)کی آمد ہوئی (وہ رقم جو کسی ملک کے اندر اور باہر آتی ہے، اکثر راتوں رات، اکثر اس بات پر شرط لگانے سے کچھ زیادہ ہوتی ہے کہ کرنسی ہے یا نہیں)۔ یہ کثیر سرمایہ جن ممالک میں ڈالا گیا تھا اچانک پلٹ گیا۔ پیسے کے اچانک اخراج نے کرنسیوں کو تباہ کردیا اور بنکنگ نظام کو کمزور کر دیا۔ اپنے قیام کے نصف صدی بعد یہ واضح ہے کہ آئی ایم ایف اپنے مشن میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس نے وہ نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا___ معاشی بدحالی کا سامنا کرنے والے ممالک کے لیے فنڈز فراہم کرنا، ملک کو اس قابل بنانے کے لیے فنڈز کی فراہمی کہ وہ مکمل روزگار کے قریب پہنچ سکے اور اس کو مالی بحران سے نکالنا۔ لیکن ایک بار جب کوئی ملک بحران کا شکار ہوگیا تو آئی ایم ایف کے فنڈز اور پروگرام نہ صرف اس کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے، بلکہ صورتِ حال یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں حقیقت میں معاملات کو مزید خراب کردیا، خاص کر غریبوں کے لیے۔
جوزف اسٹیگلٹز کی جانب سے نج کاری کی پوری پالیسی اور اسے فروغ دینے کے لیے کی جانے والی زبردستی کی حکمت عملیوں پر کھلی تنقید بھی قابل غور ہے اور اس پر غور کیا جانا چاہیے:
بدقسمتی سے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے نج کاری کے مسئلے کو تنگ نظری سے دیکھا ہے۔ اس کی کوشش تھی کہ نج کاری کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے … آئی ایم ایف نے صرف یہ سمجھا کہ مارکیٹیں ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے پیدا ہوتی ہیں، جب کہ حقیقت میں، بہت سے حکومتی سرگرمیاں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ مارکیٹیں ضروری خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ نج کاری صرف صارفین کی قیمت پر نہیں بلکہ کارکنوں کی قیمت پر بھی آئی ہے… نج کاری اکثر نوکریاں پیدا کرنے کی بجائے موجود نوکریوں کو بھی تباہ کر دیتی ہے‘‘۔
اندھی نج کاری کے مزید دو پہلو قابل توجہ ہیں:
اس کے برعکس نج کاری نے معاملات کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ آج بہت سے ممالک میں نج کاری کو طنزیہ ’رشوت‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی حکومت بدعنوان ہو تو اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ نج کاری سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آخر کار جس بدعنوان حکومت نے فرم کو بدانتظامی سے چلایا، وہی نج کاری کی باگیں بھی سنبھالے گی۔ بیش تر ممالک میں یکے بعد دیگرے سرکاری حکام نے یہ یقین کرلیا ہے کہ نج کاری کا مطلب یہ ہے کہ انھیں اب سالانہ منافع کی پستی (skimming )تک محدود رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی سرکاری ادارے کو مارکیٹ کی قیمت سے کم قیمت پر بیچ کر وہ اپنے لیے اثاثہ کی قیمت کا ایک اہم حصہ حاصل کر تے ہیں، بجائے اس کے کہ اسے بعد کے آفس ہولڈرز کے لیے چھوڑ دیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ دھاندلی زدہ نج کاری کے عمل کو اس لیے تیار کیا گیا تھا کہ اس سے حکومتی وزرا زیادہ رقم اپنے لیے مخصوص کریں، وہ رقم نہیں جو حکومت کے خزانے میں جمع ہوگی، معیشت کی مجموعی کارکردگی کی کوئی پروا کیے بغیر۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ روس کس طرح ہرصورت میں اس تباہ کن نج کاری کے نقصانات کا خصوصی مطالعہ پیش کرتا ہے‘‘۔
ڈونرز یا امداد دینے والوں نے کس طرح مغربی سخاوت حاصل کرنے والوں کے ہاتھ مروڑ دیے ہیں، اسٹیگلٹز کی جانب سے صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں:
شاید زیادہ تشویش کا باعث حکومتوں کا کردار رہا ہے، بشمول امریکی حکومت کے، جنھوں نے اقوام عالم کو ان معاہدوں پر عمل کرنے پر مجبور کیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے انتہائی غیر منصفانہ تھے ، جس پر وہاں کی بدعنوان حکومتوں نے دستخط بھی کیے ۔ ایسے غیرمنصفانہ معاہدوں کی ایک طویل تاریخ ہے، جن کو نافذ کرنے کے لیے مغربی حکومتوں نے اپنی طاقت کا استعمال کیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف براہ راست جائز شکایات کی فہرست میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایسی سرمایہ کاری اکثر صرف حکومت کی طرف سے حاصل کردہ خصوصی استحقاق کی وجہ سے پھلتی پھولتی ہے۔ اگرچہ معیاری معاشیات ان مراعات پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جو اس طرح کے استحقاق کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ گھناؤنا پہلویہ ہے کہ اس قسم کی بیشتر مراعات سرکاری افسران کی رشوت ستانی اور بد عنوانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری صرف جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی قیمت پر آتی ہے۔ یہ خاص طور پر کان کنی، تیل اور دیگر قدرتی وسائل میں سرمایہ کاری کے لیے درست ہے، جہاں غیر ملکیوں کو کم قیمتوں پر رعایتیں حاصل کرنے کی حقیقی ترغیب حاصل ہوتی ہے۔
اس تلخ کہانی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ حالات تبھی بدل سکتے ہیں، جب بہت ہی بنیادی چیزوں میں تبدیلی لائی جائے۔ اس سلسلے میں اسٹیگلٹز کی اپنی تجاویز ایک نیا پیراڈائم (مثالیہ) بنانے سے متعلق ہیں:
یہ واضح ہے کہ اصلاحات کی ایک کثیر الجہتی حکمت عملی ہونی چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنی فلاح و بہبود کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔ وہ اپنے بجٹ کا انتظام کرسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ اپنےکم وسائل کے اندر رہ کر حفاظتی رکاوٹوں کو ختم کرکے صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
انھیں بین الاقوامی برادری سے صرف اتنا ہی پوچھنا چاہیے کہ ان کے حق ضرورت اور انتخاب کو قبول کریں جس میں ان کے سیاسی فیصلوں کی عکاسی ہوتی ہو۔ مثال کے طور پریہ کہ کس کو کیا رسک لینا چاہیے؟ دیوالیہ پن کے قوانین اور ریگولیٹری ڈھانچے کو اپنے حالات کے مطابق بنانے اور ترقی یافتہ ممالک کے تیار کردہ سانچوں (Templates) کو قبول نہ کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ پائیدار، منصفانہ اور جمہوری ترقی کے لیے پالیسیاں ہیں۔ یہی ترقی کا راز ہے۔ترقی کا مطلب معاشروں کو تبدیل کرنا ، غریبوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے، جس سے ہرایک کو کامیابی، صحت کی سہولت اور تعلیم تک رسائی کا موقع ملے۔
چند لوگوں کی تحکمانہ پالیسیوں کا اتباع کرنے سے مذکورہ ترقی ممکن نہیں ہے۔ جمہوری فیصلے یقینی بنانے کا مطلب یہ یقینی بنانا ہے کہ ترقی پذیر ممالک ماہرین اقتصادیات، سرکاری افسران اور دیگر ماہرین کی ایک وسیع کھیپ کو اس بحث میں شامل کیا جائے۔ نیز اس کایہ مطلب بھی ہے کہ ان لوگوں کی شرکت اس قدر وسیع ہونا چاہیے، جو ماہرین اور سیاست دانوں سے بالاتر ہو۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنے مستقبل کی ذمہ داری خود سنبھال لینی چاہیے۔ لیکن مغرب میں ہم اپنی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔
پاکستان میں ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ ترقی کے اس ’پیراڈائم‘ (مثالیے)کا براہِ راست نتیجہ ہیں، جس کی ملک کی مختلف قیادتوں نے اپنی من مانی سے پیروی کی ہے۔ چند مثبت پہلوئوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب ہم اٹھائے جانے والے اخراجات، پیدا ہونے والی خرابیوں، ضائع ہونے والے مواقع اور لوگوں اور معاشرے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا جائزہ لیتے ہیں، تو بگاڑ اور معاشی تباہ کاریوں کے جلو میں ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔(جاری)
_______________
حواشی اور حوالہ جات
1. Pervez Hasan, Pakistan’s Economy at the Crossroads: Past Policies and Present Imperatives, Karachi, Oxford University Press, 1998.; Charles H. Kennedy and Cynthuia A. Botteron (eds), Pakistan 2005, Karachi, Oxford University Press, 2006.; Ishrat Hussain, Pakistan: The Economy of an Elitist State, Karachi, Oxford University Press, 1999. ; Shahrukh Rafi Khan (ed), 50Years of Pakistan’s Economy:Traditional Topics and Contemporary Concern, Karachi: Oxford University Press, 1999. S. Akber Zaidi, Issues in Pakistani Economy, Second Edition, Karachi: Oxford University Press 2005.; Khalid Rahman and Abdullah Adnan, Special Issue Pakistan: Society and State The Muslim World, Hartford, Connecticut, Vol. 96, No. 2, April 2006.; Reports and Studies of Pakistan Institute of Development Economics, Islamabad and Social Policy and Development Centre, Karachi.
2. Hollis B. Chenery, Mon- tela S. Ahluwalia, C.L.G. Bell and Richard Jolly, Redistribution with Growth, London, Oxford University Press, 1974. ; Ragnar Nurkse, Problems of Capital Formation in Underdeveloped Countries, New York, Oxford University Press, 1953; W.W. Rostow, Stages of Economic Growth, Cambridge, Cambridge University Press, 1971. ; Simon Kuznets ‘Economic Growth and Income Inequality’ The American Economic Review, Vol. 45: 1 (1955) W. Arthur Lewis, The Theory of Economic Growth, London, Unwin Press, 1955.
3. Denis Goulet, Development Ethics: A Guide to Theory and Practice, London, Zed Books, 1995, p 20.
4. ibid, p. 141
5. Des Gasper, The Ethics of Development: From Economism to Human Development, New Delhi, Vistaar Publication, 2004, p xiii.
6. George Soros, On Globalisation, New York, Public Affairs, 2002, p. 6-7.
7. Ignacy Sachs, Understanding Development: People, Markets and States in Mixed Economies, New Delhi, Oxford University Press, 2000, pp. 54-55.
8. John Kenneth Galbarith, The Affluent Society, Boston, Houghton Miffin Co. 1958.
9. R. H. Tawny, The Acquisitive Society, quoted in John Bartlett, Familiar Quotations, 15th edition, Boston, Little, Brown & Co., 1980, p 773.
10. William Easterly, The Elusive Quest: Economists’ Adventures and Misadventures in the Tropics, Cambridge, The MIT Press, 2002 , p. 11-12.
11. John Perkins, Confessions of an Economic Hitman, San Francisco, Barrett-Koehler Publishers, 2004, p 26.
12. ibid., p 87.
13. ibid., p 222.
14. Joseph Stiglitz, Globalisation and Its Discontents, London, Allen Lane, 2002, p12. (آیندہ تمام اقتباسات اسی کتاب سے ماخوذ ہیں)
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ
وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰہُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۹۶ (اعراف ۷:۹۶) اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔
یہ اللہ کی سنت جاریہ کا ایک دوسرا پہلو ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ جھٹلانے کے بجائے مان لیتے، اور بدکرداری کے بجائے تقویٰ کی راہ اختیار کرتے، تو اللہ ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا اور بلاحساب ان کو دیتا رہتا۔ آسمانوں سے اور زمین سے ان پر برکات کی بارش ہوتی۔ قرآن نے جو اندازِ تعبیر اختیار کیا ہے، اس کے پیش نظر ہم اسے ہرطرح کی فراوانی سے تعبیر کرسکتے ہیں، جو کسی ایک جنسِ ضرورت کے ساتھ خاص نہیں ہے، یعنی ہرقسم اور ہر نوع کی فراوانی۔
اس آیت میں ہم پر ایک عظیم حقیقت واضح ہوتی ہے۔ اس حقیقت کا تعلق بہ یک وقت انسانی نظریات اور انسانی زندگی کے حقائق سے بھی ہے اور اس پوری کائنات کے حقائق سے بھی۔ اس کے اندر انسانی تاریخ کا ایک اہم عنصر اور عامل بھی بیان کیا گیا ہے۔ دُنیا کے انسانوں کے وضع کردہ نظام ہائے زندگی نے اس اہم عنصر کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے بلکہ اس کا انکار کیا ہے۔
وہ عنصر ہے اللہ پر ایمان اور اس سے تقویٰ۔ یہ عنصر انسانی زندگی کے حقائق سے جدا چیز نہیں ہے اور نہ انسانی تاریخ سے بلکہ ایمان باللہ اور تقویٰ وہ چیزیں ہیں ،جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی برکات نازل فرماتے ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ سے زیادہ ایفائے عہد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
ہم لوگ جو اللہ پر ایمان لانے والے ہیں، ہمارا شیوہ تو یہ ہے کہ اللہ کے اس عہد کو تسلیم کرتے ہیں، اس کی تصدیق کرتے ہیں، اور اس آیت کے مفہوم و مُدعا کی تصدیق میں لمحہ بھر تردّد بھی نہیں کرتے۔ اس لیے کہ ہمارا ایمان تو ہے ہی ایمان بالغیب۔ اس ایمان کے تقاضے کے طور پر ہم اللہ کے اس عہد کی تصدیق کرتے ہیں۔
اس کے بعد، ہم اللہ کے اس عہد پر غوروفکر کرتے ہیں، کیونکہ اللہ نے خود حکم دیا ہے کہ تم قرآن میں غوروفکر کرو، اور غوروفکر کے بعد ہمیں اس بات کی ماہیت اور حقیقت کا علم بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی فطرت زندہ ہے اور فطری حقائق کے ادراک اور قبول کرنے کی اہلیت اس میں موجودہے۔ ایسے شخص کا ادراک سچا ہے اور اس کی انسانی بنیاد صحیح و سالم ہے۔ اس شخص کے ذہن میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ اس کائنات کے حقائق کا ادراک کرسکے۔ یہ تمام اُمور عملی زندگی میں انسان کی کامیابی کے ضامن ہیں۔
اللہ پر ایمان ایک ایسی قوت ہے، جو انسان کے جوہرِانسانیت کو آگے بڑھاتی ہے۔ یہ انسانی شخصیت کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے انھیں ایک جہت اور رُخ پر ڈال دیتی ہے۔ انسانی شخصیت، اللہ کی قوت کی مدد سے اس جہت میں آگے بڑھتی ہے۔ اس زمین پر اللہ کے اقتدار اعلیٰ کے قیام کے لیے جدوجہد کرتی ہے، اور اس کرئہ ارض کی تعمیر میں لگ جاتی ہے۔ نتیجتاًاس کرئہ ارض سے فتنہ و فساد کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور انسان زمین کی تعمیر و ترقی میں لگ جاتا ہے۔ اس طرح کا انسان آخرت کے ساتھ ساتھ، خود اس دُنیا کی عملی زندگی میں بھی کامیاب رہتا ہے۔
اللہ پر پختہ ایمان انسان کو اپنی خواہشات کی غلامی اور دوسرے انسانوں کی غلامی سے نجات دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دوسری تمام غلامیوں سے آزاد صرف اللہ کا غلام انسان ہی اس کرئہ ارض پر خلافت راشدہ کا صحیح نظام قائم کرسکتا ہے۔ ایسا شخص ان لوگوں سے قوی تر ہوگا، جو ایک دوسرے کے غلام ہیں یا اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔
خدا کا خوف ایک دانش مندانہ بیداری ہے۔ اس سے انسان سرکشی، غرور، بےراہ روی جیسے اخلاقی عیبوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کی سرگرمیاں اعتدال اختیارکرلیتی ہیں اور اس کی زندگی کااسلوب سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی پوری جدوجہد محتاط ہوجاتی ہے۔ وہ سرکشی کا ارتکاب کرکے اپنی حدود سے آگے نہیں بڑھتا اور اپنی زندگی کو صالحانہ حدود میں رکھتا ہے۔
ایک صالح انسان کی زندگی توازن اور اعتدال پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ قدم آگے بڑھانے اور پیش آنے والی رکاوٹوں کے درمیان توازن پیدا کرلیتا ہے۔ وہ زمین پرمحنت کرتا ہے اور آسمانوں کی طرف نظریں اُٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ ہوائے نفس ، سرکشی اور حق تلفی سے پاک ہوتا ہے اور اس کے دل میں ہروقت خوفِ خدا ہوتا ہے اور آخرت میں جواب دہی کا احساس غالب ہوتا ہے۔ ایسا شخص ایک صالح، نتیجہ خیز اور مفید کردار کا مالک ہوتا ہے، اور ایسا ہی شخص اللہ کی امداد کا مستحق ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے اُوپر برکاتِ الٰہی کے سائے نزول کرتے ہیں۔ اس کے کام میں خیروبرکت ہوتی ہے اور اس کی زندگی پر فلاح کا سایہ ہوتا ہے۔ اس کی زندگی بظاہر اسباب کے مطابق چل رہی ہوتی ہے، لیکن درحقیقت ایک غیبی قوت اس کی مددگار ہوتی ہے۔
وہ برکات جو مومنین اور اہلِ تقویٰ پر سایہ فگن ہوتی ہیں، جو مختلف النوع ہوتی ہیں۔ اس آیت میں ان کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں، لیکن وہ برکات یقینا موجود ہوتی ہیں۔ اس آیت میں جو اشارات ہیں، ان سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان پر ہرجانب سے برکات کا نزول ہورہا ہوتا ہے اور ہرطرف سے برکت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اس سے مراد ہرقسم و نوع کی برکات ہیں۔ ہرشکل و صورت میں ان کا نزول ہوتا ہے۔ بعض برکات ایسی ہیں، جو لوگوں کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو وہ سمجھتے ہیں۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ سے تقویٰ کرنا، محض نجی مسئلہ ہے، اور اس کا انسان کی عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ایسے لوگوں نے دراصل ایمان کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ وہ دیکھیں کہ اللہ کے نزدیک تو ایمان کا عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ تعلق موجود ہے، اور اس پر خود اللہ گواہی دے رہا ہے، اور اللہ کی شہادت کافی شہادت ہے اور اللہ اسے ان باتوں سے متعلق کرتا ہے جن کے بارے میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ عملی اور اجتماعی زندگی کے معاملات ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں: ’’ہم مسلمان ہیں اور ہمارے اُوپر رزق کے دروازے بند ہیں اور ہمارے حصے میں خشک سالی اور تباہی کے سواکچھ نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ اقوام ایسی ہیں جو نہ مومن باللہ ہیں اور نہ اہلِ تقویٰ میں سے ہیں، لیکن ان پر ہرطرف سے رزق کی بارش ہورہی ہے۔ ان کے پاس بے پناہ قوت ہے اور وہ دُنیا میں بااثر ہیں۔ لہٰذا، سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں جس سنت الٰہیہ کا ذکر ہوا ہے، وہ ہم پر صادق کیوں نہیں آتی؟‘‘
دراصل ایسے لوگوں نے صرف ظاہری اور سطحی پہلو کو لیا ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، وہ مومن اور متقی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے، نہ ان لوگوں نے خالصتاً اللہ کی بندگی اور غلامی کا رویہ اپنایا ہے۔ ان کی عملی زندگی میں لا الٰہ اِلَّا اللہ کی شہادت موجود نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اپنے میں سے بعض غلاموں کی غلامی کر رہے ہیں۔ ’یہ‘ غلام ان کے الٰہ بنے ہوئے ہیں اور ان کے لیے قانون بناتے ہیں، بلکہ ان کے لیے حُسن و قبح کی اقدار بھی تجویز کرتے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ ایسے لوگ کہاں مومن ہیں؟ مومن کا تو فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہٹادے جو ان پر مقتدراعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔ مومن کا تو پہلا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو بھی الٰہ و ربّ نہ بنائے، جو ان پر اپنے قوانین اور اپنا نظام نافذ کرے۔ جب ایسے مدعیان کے اسلاف حقیقی مومن اور مسلم تھے تو ان کے سامنے پوری دنیا سرنگوں تھی، ان پرآسمان و زمین کی برکات کی بارش ہوتی تھی ،اور ان کے ساتھ ان کے ربّ کا وعدہ سچا تھا، کیونکہ وہ خودسچے تھے۔
رہے وہ لوگ جن پر رزق کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، تو یہ بھی سنت الٰہیہ کا ایک حصہ ہے: ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَۃِ الْحَسَـنَۃَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ (اعراف ۷:۹۵)’’پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا، یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں‘‘۔ ان لوگوں پر جو انعامات ہوتے ہیں وہ دراصل ان کے لیے ابتلا و آزمایش ہے، اور یہ ابتلا، مصیبت کی ابتلا سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
کفّار پر جو انعامات ہوتے ہیں اور اہلِ ایمان پر جو انعامات ہوتے ہیں، ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ برکت ِ الٰہی بعض اوقات ایک قلیل چیز میں بھی اپنے رنگ دکھاتی ہے۔ جب انسان ایک تھوڑی چیز سے اچھی طرح فائدہ اُٹھاتا ہے اور امن و سکون کے ساتھ خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔دوسری جانب بڑی بڑی ترقی یافتہ اور مال دار اقوام ایسی ہیں، جو پریشانی اور عدم اطمینان کی زندگی بسر کرتی ہیں۔ بظاہر وہ نہایت ہی امن و امان سے زندگی بسرکرتی ہیں، مگر ان کے افراد کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں ہے۔ افرادِ معاشرہ کےدرمیان بے چینی کا دوردورہ ہے، اور قریب ہے کہ یہ اقوام مکمل طور پر تباہ ہوجائیں۔ سازوسامان کی کثرت مگر اطمینان مفقود ہے۔ ہرچیز کی فراوانی ہے، لیکن لوگ بدکردار ہیں۔ ان کی خوش حالی ہی ان کے بُرے مستقبل کا پتا دے رہی ہے۔ یہ خوش حالی ان کے لیے انتقامِ الٰہی کا سبب ہے۔
اہلِ ایمان کو جو برکات ملتی ہیں،ان کے کئی رنگ ہیں۔ ان کی ضروریات کی چیزوں میں برکت ہوتی ہے۔ انسانی ذات میں برکت ہوتی ہے، انسانی شعور میں برکت ہوتی ہے، پاکیزہ زندگیوں میں برکت ہوتی ہے، اور اس کے اندر سکون واطمینان پیدا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہرطرف سہولیات تو وافر ہوں اور انسان جسمانی اور نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا ہو۔
مغربی میڈیا کے سوالوں کے جواب
[مختلف اوقات میں مختلف مغربی ذرائع ابلاغ کے نمایندوں نے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے انٹرویو لیے۔ یہاں ہم انھی سوال و جواب کا ایک انتخاب مرتب کرکے پیش کر رہے ہیں۔ س م خ]
۲۵ نومبر ۱۹۷۵ء اور ۱۵جنوری ۱۹۷۶ء: بی بی سی ، لندن کے نمایندے ولیم کرالے نے یہ انٹرویو لیا، جسے حفیظ الرحمٰن احسنؒ [م:۲۲ فروری۲۰۲۰ء] نے ٹیپ کرلیا۔ یہ مکالمہ زیادہ تر اردو میں ہوا تھا۔[ہفت روزہ آئین،لاہور]
قانونی نظام کے ساتھ ایک بڑا تعلق ملک کے تعلیمی نظام کا ہے۔ اگر نظامِ تعلیم افرادِ قوم کو مسلمان بنانے والا نہ ہو تو محض قانونی نظام کے نفاذ سے اِسلامی معاشرے کی تشکیل کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ ایسا ہی معاملہ ملک کے معاشی نظام کا ہے۔ اگر اسے صحیح اِسلامی خطوط پر استوار نہ کیا جائے تواس صورت میں محض قانونی نظام کی اصلاح مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس بنا پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری پوری معاشرتی زندگی ، اِسلام کے مطابق ہو۔ ہماری حکومت کی نمایاں پالیسیاں اسلام کے مطابق ہوں اور حکومت کے سارے معاملات صحیح اِسلامی خطوط پر انجام پائیں۔
اس مقصد کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سروسز کی ٹریننگ کے تمام اداروں کا تعلیمی اور تربیتی ڈھانچا تبدیل کیا جائے۔ سِول سروس کے تمام شعبوں اور فوج کی تربیت کے اداروں میں بھی اسلام کی اخلاقی تعلیم دینے کا انتظام کیا جائے اور زیرِ تربیت افسروں کے دِلوں میں اِسلام کا صحیح شعور [creed] بٹھایا جائے۔ اِن کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے، لیکن یہ کام نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس صورتِ حال یہ ہے کہ انگریزی حکومت کے زمانے میں سروسز کو جس طرز پر ٹریننگ دی جاتی تھی، اسی طرز پر اب بھی دی جا رہی ہے۔ اِسلامی تربیت کی کوئی فکر اب تک نہیں کی گئی۔ اس لیے ہمارے نقطۂ نظر سے محض لیگل سسٹم [قانونی نظام] میں تبدیلی کافی نہیں ہے۔ ہم مکمل تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔
Truth is always truth, it can not be old or new, at any time and at every place it is truth
[صداقت ہرحال میں صداقت ہے، اس کے قدیم یا جدید ہونے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ صداقت ہر عہد میں اور ہر مقام پر صداقت ہے۔]
اس کے برعکس ایک مسلمان ملک میں، جہاں اِسلام کا قانون صرف ایک حد تک ہی نافذ کیا گیاہے، یعنی چوری پر اِسلامی تعزیرات نافذ کی گئی ہیں، وہاں اس نے چوری کا خاتمہ کر دیا ہے۔ وہاں کیفیت یہ ہے کہ اگر آپ اپنا سامان سڑک پر چھوڑ کر چلے جائیں اور تین دن کے بعد واپس آئیں تو وہ آپ کو وہیں پڑا ملے گا، کوئی اس کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اگر آپ اپنا گھر کھلا چھوڑ کر چلے جائیں اور کئی ہفتے کے بعد واپس آئیں تو آپ کو سارے گھر کا سامان جوں کا توں ملے گا۔ کوئی شحص گھر میں داخل تک نہیں ہو گا۔ یہ صرف اس چیز کا نتیجہ ہے کہ سعودی عرب میں ان سزائوں کے نفاذ پر شروع میں جو چند ہاتھ کاٹے گئے، ان کی وجہ سے چوری کا وہاں خاتمہ ہو گیا، تو کیا چند مجرموں کے ہاتھ کاٹ کر چوری ختم کر دینا بہتر ہے، یا یہ بہتر ہے کہ مجرموں کو جیل بھیج بھیج کر ان کو عادی مجرم بنایا جائے؟ وہ جیل سے نکلیں تو پھر چوری کریں اور پھر جیل جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے موجودہ تعزیری قوانین جرائم کی پرورش کر رہے ہیں، لیکن ہم اِسلامی قوانین کے نفاذ کے ساتھ جرائم کو ختم کر سکتے ہیں۔ اب کیا یہ بہتر ہے کہ ہم جرائم کو ختم کر دیں یا یہ بہتر ہے کہ جرائم ہوتے رہیں اور ان کے مؤثر انسداد کی کوئی تدبیر نہ کی جائے؟
ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اسلام کی تجویز کردہ سزائیں معاشرے سے جرائم کا مکمل انسداد کر سکتی ہیں اور ہم یہ چاہتے کہ پاکستان کے اندر اسلام کا مکمل ضابطۂ حیات جاری ہو اور اسلامی تعزیرات نافذ ہوں، پھر ہم دُنیا کو بتائیں گے کہ ہمارے ہاں جرائم کس طرح ختم ہو گئے ہیں۔ اگر ہمیں اس بات کا موقع ملا کہ ہم پاکستان میں صحیح اسلامی نظام قائم کر سکیں، ہم عملاً دُنیا پر یہ بات ثابت کر دیں گے کہ اِسلام کی بنیادوں پر ایک جدید ریاست چل سکتی ہے اور زیادہ بہتر طریقے سے چل سکتی ہے اور اِسلام کی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتاہے، جو جرائم سے پاک اور امن و امان کا گہوارہ ہوتا ہے۔
مثلاً ایک شخص کا بچہ کوئی اغوا کر کے لے جاتا ہے اور پھر اس کو اطلاع دیتا ہے کہ ’’اتنے ملین ڈالر مجھے دے دو تو بچّہ تمھیں مل جائے گا، ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا‘‘ اور بعض اوقات وہ ایسا کر بھی گزرتا ہے، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اِس طرح کے آدمی کو پکڑ کر اگر کوئی سخت سزا دی جائے، مثلاً اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے یا اس کی گردن اڑا دی جائے تو کیایہ وحشیانہ فعل ہو گا؟ یعنی آپ کے نزدیک والدین کو ان کے بچوں سے محروم کر دینا کوئی وحشیانہ حرکت نہیں، البتہ اس حرکت کے مرتکب کو اس کے جرم کی سزا دینا وحشیانہ فعل اور ظالمانہ فعل ہے، جس کی کم از کم ریاست کو ذمہ داری نہیں لینی چاہیے۔ آپ کی ساری ہمدردی اس شخص کے ساتھ ہے، جس نے ایک مجرمانہ اور غیر انسانی فعل کے ذریعے سے اپنے آپ کو مستوجبِ سزا ٹھیرایا ہے اور اس شخص کے بارے میں آپ بے حس ہیں، جسے ظلم اور سنگ دلی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص معاشرے کے اندر جرم کا ارتکاب کر کے معاشرے کے امن و سکون کو غارت کرتاہے، وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو اتنی سخت سزا دی جائے کہ دوسروں کو اس سے عبرت ہو اور وہ اس قسم کے جرم کے ارتکاب کی جرأت نہ کر سکیں، یعنی ہمارے نزدیک سزا صرف سزا ہی نہیں ہے، بلکہ وہ ارتکاب جرم کو روکنے کا ذریعہ بھی ہے۔ وہ جرم کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے، چنانچہ ہماری ہمدردی مجرم کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ اس شخص کے ساتھ ہے جس پر ارتکابِ جرم کیا جاتا ہے اور اُس معاشرے کے ساتھ ہے جس کے اندر ارتکابِ جرم سے ناہمواری اور عدم ِتحفظ کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔
You think it is more social and more cultured to be a criminal. It is human to kill a man and it is inhuman to kill a murderer.
لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں موقع ملے تو ہم اِسلامی قوانین کو رائج کر کے دُنیا کو دکھا دیں کہ اِس طرح ایک پرامن معاشرہ [peaceful society] وجود میں آتا ہے۔ وہ معاشرہ مہذب اور ماڈرن بھی ہو گا اور امن و سلامتی کا گہوارہ بھی۔ اس کے قیام کے بعد آپ کے یہ سارے نام نہاد جدید تصورات و نظریات محض ایک داستانِ پارینہ بن جائیں گے۔ چنانچہ، اگر ہم اسلامی نظام زندگی کے قائل اور اسے دُنیا میں قائم کرنے کے آرزومند ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ ہمارا قدیم مذہبی یا قومی نظام ہے، اور اس بنا پر اس کے ساتھ ہمیں محبت ہے، بلکہ اس کو ہم اس وجہ سے مانتے ہیں کہ وہ سرا سر ایک معقول اور عادلانہ نظام ہے، اور یہ ایک بالکل مطابق انصاف اور معقول بات ہے کہ سوسائٹی کو جرائم سے پاک کیا جائے۔ ہمارے نزدیک وہ معاشرہ نہایت بُرا ہے جس کے اندر جرائم پرورش پاتے ہوں، اور لوگوں کی ہمدردی کا اصل مرکز مجرم ہوں، نہ کہ وہ جن پر جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔
[جی ہاں، لیکن اہلِ مغرب کے نظریے کے مطابق نہیں۔ مغربی فلسفۂ سیاست میں تو اقتدارِ اعلیٰ کے مالک عوام ہوتے ہیں، لیکن اِسلام میں اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔]
اس بنیادی فرق کے باوجود ہمارا نظامِ حکومت ایسا ہو گا کہ اس میںریاست کے سربراہ کا انتخاب لوگوں کی کثرتِ رائے کے ذریعے سے ہو گا۔ لوگوں کے نمائندے ان کی رائے سے منتخب ہوں گے، اور پارلیمنٹ ان منتخب نمائندوں پر مشتمل ہو گی۔ کوئی حکومت،عوام الناس کا اِعتماد کھودینے کے بعد قائم نہیں رہ سکے گی۔ اس حد تک جمہوریت ہمارے ہاں موجود ہے۔ گویا، اللہ تعالیٰ کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کی مشینری جمہوری طریقے پر اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین نافذ کرے گی، عوام خود مقتدرِ اعلیٰ نہیں ہوں گے۔
آپ کی جدید تہذیب یہی ہے نا کہ آپ نے اپنے ہاں خاندانی نظام کا خاتمہ کر دیاہے۔ آپ نے عورت کا جو مقام و مرتبہ سوسائٹی کے اندر متعین کیا، اِس کا نتیجہ یہی نکلا ہے کہ آپ نے عورتوں کے اخلاق بھی برباد کیے اور مردوں کے بھی۔ آپ نے لوگوں کو اخلاقی پستی کی انتہا تک گرا دیا۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی وہاں تک گر جائیں؟ ہم اس کے لیے تیار نہیں۔ ہم اپنی سوسائٹی کو ان تمام برائیوں سے پاک رکھنا چاہتے ہیں، جو آپ کی ماڈرن سوسائٹی میں پائی جاتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ترقی اور چیز ہے اور نام نہاد ماڈرن سوسائٹی کی بُری عادات و اطوار او رچیز۔ ہم ترقی کے قائل ہیں اور وہ ہم ضرور کریں گے، لیکن اس شکل میں نہیں کہ جِس طرح آپ کر رہے ہیں، ہم اس کو غلط سمجھتے ہیں۔ اس کے بجائے ہم اپنے اصولوں پر تعمیر و ترقی کریں گے اور وہی صحیح معنوں میں تعمیر و ترقی شمار ہو گی۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ عورتیں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے معلمات اور لیڈی لیکچرار اور پروفیسر بنیں، تاکہ وہ ہماری بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دے سکیں۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری عورتوں کو مرد پڑھائیں۔ چنانچہ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار کالج موجود ہیں، جن میں صِرف خواتین پڑھاتی ہیں اور تمام علوم و فنون کی تعلیم دیتی ہیں۔ وہ سائنس بھی پڑھاتی ہیں اور دوسرے جدید علوم بھی۔ اِسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی جہاں ضروری ہو ،ہم اپنی خواتین کو اعلیٰ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے ہیں۔ لیکن ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ ہم اس اصول کو ہر گز تبدیل نہیں کریں گے کہ مسلمان عورتوں کا اصل مقام ان کا گھر ہے۔ مسلمان عورت سے ہم جو بھی کام لیں گے، وہ اس کے گھر کے اندر اور عورتوں کی سوسائٹی کے اندر لیں گے۔
ہمار ے یہاں تو کبھی اتفاق سے یہ سننے میں آتا ہے کہ کِسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اس پر ہم حیران ہوتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس طرح طلاق ہمارے ہاں آسان ہونے کے باوجوود عملاً ایک rare [کم یاب ] چیز ہے۔٭ لیکن آپ کے ہاں جو حالات ہیں وہ آپ خود جانتے ہیں کہ وہاں طلاقوں کی کِس قدر بھَر مار ہو رہی ہے۔
[٭یہ اب سے تقریباً نصف صدی پہلے کی بات ہے، لیکن اتنے عرصے میں مغربی تہذیب کی محبت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغربی تمدن کی غلامی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب یہاں پر بھی طلاق و خلع کی رفتار کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔]
آپ یہ تسلیم کریں گے کہ ایسی بات خُدا کے فضل سے ہمارے ہاں تقریباً ناپید ہے، اور ایسا شاذو نادر ہی کبھی ہوتا ہو گا کہ کِسی خاندان میں طلاق کے نتیجے میں بچے بگڑ کر مجرم بن جائیں۔ تو اس لحاظ سے ہم اپنے آپ کو مغربی معاشرے سے کہیں زیادہ بہتر اور قابلِ رشک پوزیشن میں پاتے ہیں اور یہ چیز اِسلام کے ان معاشرتی اصولوں کی بدولت ہے، جو ہمارے معاشرے میں اب تک برقرار ہیں اور ان کی پابندی کی جاتی ہے۔
[٭ نصف صدی گزرنے کے بعد آج، بھارت میں مسلمانوں کے وجود کو لاحق خطرات کی شدت میں وسعت آئی ہے۔ راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (RSS) کی فسطائی حکمرانی کو جمہوری ووٹ کی مدد میسر ہے اور دنیا بھر کے کاروباری مفادات کے بھوکے ملکوں اور کثیر ملکی کمپنیوں کی معاشی ہوس بھی ساتھ ساتھ ہے۔ لیکن اقوام متحدہ اور مسلم دنیا کے سیاہ و سفید پر قابض حکمران طبقے بے حس خاموش تماشائی ہیں۔مرتب]
[٭جرمن نژاد ڈاکٹر پیٹرشمڈ نے ۲۴ جون ۱۹۶۸ء کو Swiss TV کے لیے یہ انٹرویو فلم بند کیا، جس کا انگریزی سے اُردو ترجمہ پیش ہے۔ (ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۲۱ جولائی ۱۹۶۸ء)]
اعلانِ آزادی کے بعد قدرتی طور پر اس ملک کے مسلمانوں کی خواہش یہ تھی اور اس خواہش کے لیے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا تھا، کہ اس خطۂ زمین میں اُنھیں اپنے طرزِ تمد ّن اور اپنے قوانین، اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع ملے، لیکن ۱۹۰سالہ انگریزی دَورِ غلامی اور مروّجہ نظامِ تعلیم کی وجہ سے ملک میں وہ لوگ موجود نہیں تھے اور نہ تیار کیے گئے تھے جو اسلامی قوانین کو اچھی طرح سمجھتے ہوں اور ان پر نظامِ مملکت کو چلا سکیں۔ معدودے چند لوگ جو یہ صلاحیت رکھتے تھے ، اُنھیں اس نظام کو عملاً چلانے کا نہ موقع ملا اور نہ کوئی اختیار ان کے پاس تھا، اور جن لوگوں کے پاس اختیارات تھے، وہ زیادہ تر ایسے تھے کہ اسلام کو ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے سمجھتے ہی نہ تھے کہ اس کے مطابق معاملات چلاسکیں، اور ان میں سے کچھ اسلام کے مطابق اپنے معاملات چلانے کا ارادہ ہی نہ رکھتے تھے۔
ہم اس اصل سبب کو سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے بڑے صبر کے ساتھ مدّت سے اُن اسباب کو دُور کرنے کی فکر کر رہے ہیں، جو اس راہ میں اصل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اسی طرح صبر اور حکمت کے ساتھ مسلسل کام کیا جائے تو ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا جب پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی اسٹیٹ بن جائے گا اور ایک صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں آجائے گا۔
ہماری قومی روایات ملک کی صنعتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیںاور نہ ہمارا دین مغربی ٹکنالوجی یا سائنسی ترقی کی راہ میں حائل ہے،بلکہ ہمارا دین صرف اسلامی اخلاقی اورسماجی اُصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے اگر صحیح نہج پر کام کیا جائے تو ہماری اپنی مثبت روایات، مغربی تہذیب کے تباہ کن اثرات پر چھا جائیں گی۔ بیرونی نظریات کو پھر اس ملک میں پنپنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔
تاہم، جو بات مَیں یہاں کے مسلمانوں سے کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ اس ملک میں اِخلاص اور فرض شناسی کے جذبے کے ساتھ کام کریں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے مخلص اور سچّے پَیرو بنیں۔ یہاں کے لوگوں کے سامنے ایک اچھا نمونہ پیش کریں۔ اور یہ بات خاص طور سے سامنے رکھیں کہ وہ یہاں کسی قیمت پر بھی اپنی تہذیبی روایات سے اِنحراف نہیں کریں گے۔
- مثلاً، آج خاندانی زندگی کا نظام موجودہ تہذیب ہی کی وجہ سے درہم برہم ہو رہا ہے۔
- مثلاً، اسی تہذیب و تمدّن کی بدولت رنگ اور نسل کے امتیازات اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ دُنیا میں کبھی انسانیت پراتنا ظلم و ستم نہیںہوا جتنا اس رنگ و نسل کے امتیاز کی بدولت آج ہورہا ہے۔
- مثلاً، اس تہذیب نے نیشنل ازم کا طوفان بَرپا کر دیا جس کی بدولت دُنیا میں دو عظیم جنگیں ہو چکی ہیں اور مزید ہوتی نظر آرہی ہیں۔
یہ سب کچھ اسی وجہ سے تو ہے کہ انسان نے علوم ِطبیعی کی طرح اپنی اجتماعی زندگی کے لیے بھی اپنی عقل ہی کو کافی سمجھ لیا ہے اور اپنی زندگی کا نظام اپنی عقل سے تصنیف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اس فطری نظام کو اختیار کیاجائے جو انسان کے لیے خُدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے تو یہ مسائل کبھی پیدا نہ ہو ں، اور اگر کبھی پیدا ہو بھی جائیں تو ان کو آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔
اسلام ایسے تمام تعصبات کو ’جاہلیّت‘ قرار دیتاہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمام انسان ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہوئے ہیں اور انسان اور انسان کے درمیان فرق کی بنیاد اس کی پیدایش نہیں بلکہ اس کے اخلاق ہیں۔ اگر ایک انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق رکھتا ہے تو خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ افریقا میں پیدا ہوا ہو یا امریکا میں یا ایشیا میں بہرحال وہ قابلِ قدر انسان ہے۔ اور اگر ایک انسان اخلاق کے اعتبار سے بُرا آدمی ہے تو خواہ کسی جگہ پیدا ہوا ہو اور اس کا رنگ خواہ کچھ ہی ہو اور اس کا تعلق خواہ کسی نسل سے ہو، وہ ایک بُرا انسان ہے۔ اسی بات کو محمد رسول اللہﷺ نے اپنے آخری خطبے میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :’’کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت اگر ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے‘‘۔
جو شخص خدا کی صحیح صحیح بندگی کرتا ہے اور خدا کے قانون کی صحیح صحیح پیروی کرتا ہے، خواہ وہ گورا ہو یا کالا ،بہرحال وہ اس شخص سے افضل ہے جو خُدا ترسی اور نیکی سے خالی ہو۔
اسلام نے اسی بنیاد پر تمام نسلی اور قومی امتیازات کو مٹایا ہے۔ وہ پوری نوع ِانسانی کو ایک قرار دیتا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے سب کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔ قرآن وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسان کے بنیادی حقوق کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔اسلام وہ پہلا دین ہے، جس نے تمام انسانوں کو جو کسی مملکت میں شامل ہوں، ایک جیسے بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست چوں کہ ایک نظریے اور اصُول [Ideology] پر قائم ہوتی ہے، اس لیے اس نظریے کو جو لوگ مانتے ہوں ،اسلامی ریاست کو چلانے کا کام انھی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کیوںکہ جو لوگ اسے مانتے اور سمجھتے ہیں وہی اس پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں، لیکن انسان ہونے کی حیثیت سے اسلام تمام ان لوگوں کو یکساں تمد ّنی حقوق عطاکرتا ہے جو کسی اسلامی ریاست میں رہتے ہوں۔
اسی بنیاد پر اسلام نے ایک عالم گیر اُمت [World Community] بنائی ہے ، جس میں ساری دُنیا کے انسان برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔ حج کے موقعے پر ہر شخص جا کر دیکھ سکتا ہے کہ ایشیا، افریقہ، امریکا، یورپ اور مختلف ملکوں کے لاکھوں مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں پایا جاتا۔ ان کو دیکھنے والا ایک ہی نظر میں یہ محسوس کر لیتا ہے کہ یہ سب ایک اُمت ہیں اور ان کے درمیان کوئی معاشرتی امتیاز نہیںہے۔ اگر اِس اصُول کو تسلیم کر لیا جائے تو دُنیا میں رنگ و نسل کی تفریق کی بنا پر آج جو ظلم و ستم ہو رہا ہے، اس کا یک لخت خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اسی لیے اسلام نے شراب نوشی کو قطعی طور پرممنوع قرار دیا ہے اور یہ اصول قرار دیا ہے کہ جو چیز حرام ہے، اس کی کم سے کم مقدار بھی حرام ہے کیونکہ اس کی کم مقدار کو حلال قرار دینے کے بعد کوئی خط ایسا نہیں کھینچا جاسکتا، جہاں جواز کی حد ختم ہو سکے اور عدمِ جواز کی حد شروع ہو جائے۔ لہٰذا، قابلِ عمل صورت یہی ہے کہ اس کو قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا جائے۔ اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب یا نظامِ تہذیب ایسا نہیں ہے جس نے انسان کو الکوہلزم سے بچانے میں وہ کامیابی حاصل کی ہو جو اسلام نے حاصل کی ہے۔ امریکا نے اسی صدی میں اس بات کی کوشش کی تھی کہ امریکی قوم کو شراب کے نقصانات سے بچایا جائے۔ چنانچہ، امریکی دستور میں ایک ترمیم کے ذریعے سے شراب کو ممنوع قرار دیا گیا، لیکن یہ تجربہ ناکام ہوگیا۔[امریکی کانگریس نے۱۸دسمبر ۱۹۱۷ء کو شراب پر پابندی کی ترمیم پیش کی، جو ۱۸ویں ترمیم کے طور پر، ۱۶جنوری ۱۹۱۹ء کو منظور ہوئی۔ ۱۷جنوری ۱۹۲۰ء سے اس پر عمل شروع ہوا۔مگر شدید عوامی ردعمل کے نتیجے میں دسمبر ۱۹۳۳ء کو ۲۱ویں ترمیم کی صورت میں یہ پابندی واپس لے لی گئی۔ یہاں مولانا محترم نے اس جانب اشارہ کیا ہے۔]
اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ شراب کا ساینٹی فک معیار پر ’مضر ہونا پہلے ثابت ہو گیا تھا اور بعد میں اس کا غیر مضر ہونا ثابت ہو گیا، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ امریکا کی حکومت اور اس کا پورا قانونی نظام اپنا سارا زور لگا کر بھی لوگوں کو شراب نوشی چھوڑنے پر آمادہ نہ کر سکا۔ یہ دراصل امریکی تہذیب کے نظام کی کمزوری تھی۔ اس کے برعکس اسلام کا تہذیبی نظام اتنا طاقت ور تھا کہ ایک حکم مسلمانوں کو شراب سے روک دینے کے لیے کافی ہو گیا اور اس حکم میں آج تک اتنی طاقت ہے کہ دُنیا کی کوئی قوم اب بھی شراب سے اجتناب کے معاملے میں مسلمانوں کی برابری نہیں کر سکتی۔
جہاں تک سُود کا تعلق ہے، تمام آسمانی شریعتوں میں وہ ہمیشہ سے حرام رہا ہے۔ آج بھی بائبل میں اس کی حُرمت کا حکم موجود ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’میں آج سے سُود کو حلال قرار دیتا ہوں‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عیسائیت نے بھی اس حکم کو برقرار رکھا، جو پہلے سے بائبل میں سُود کی حرمت کے لیے موجود تھا۔ اگر سود کسی وقت بھی حلال کیا گیاہوتا تو اس کا ثبوت موجود ہوتا کہ فلاں پیغمبر نے یا خدا کی فلاں کتاب نے اس کو حلال قرار دیا ہے لیکن میرے علم میں نہیں ہے کہ کبھی خدا کی کسی کتاب میں اس کے حلال ہونے کا حکم آیا ہو۔
اب رہا یہ سوال کہ سُود کیوں حرام ہے؟ اس کے بارے میں یہ اُصولی بات سمجھ لینی چاہیے کہ انسان ان چیزوں کی برائی کو تو جان سکتا ہے جو جسمانی حیثیت سے اس کے لیے نقصان دہ ہوں، لیکن وہ آج تک کبھی یہ جاننے پر قادرنہیں ہوا ہے کہ کون سی غذائیں اس کے اخلاق پر بُرا اثر ڈالتی ہیں اور روحانی حیثیت سے اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔ غذائوں کے اخلاقی اثرات جاننے اور ٹھیک ٹھیک ان کو متعین کرنے کے ذرائع انسان کو حاصل نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ کام خُدا نے اپنے ذمے لیا ہے کہ جو چیزیں انسان کے اخلاق اور اس کی رُوح کے لیے نقصان دہ ہیں، ان کی نشان دہی وہ خود کر دے اور انھیں حرام قرار دے۔ اب اگر کوئی شخص خدا پر اعتماد کرتا ہو تو اسے وہ چیزیں چھوڑ دینی چاہییں، جن سے اس نے منع کیا ہے اور جو خُدا پر اعتماد نہ رکھتا ہو وہ جو کچھ چاہے کھاتا رہے۔
[پمفلٹ، منشورات سے دستیاب ہے،]
ایک عرب ملک میں خواتین کا دعوتی اجلاس ہورہا تھا، جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین شریک تھیں۔ان ہی میں ایک خاتون کے خدوخال سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ کوئی عرب نہیںہے۔ میری نگاہ اس پر ٹک گئی۔وہ فصیح عربی نہ سہی، لیکن اہل زبان کی طرح روانی سے بول رہی تھی۔میں نے اسے سلام کیا اور اپنا سرسری تعارف کرایا۔اس نے جواب میں بتایا کہ میرا تعلق سابق کمیونسٹ روس کے اس علاقے سے ہے، جہاں پر قفقاز [کوہِ قاف/کاکیشیا]کی پہاڑیاں واقع ہیں۔ اس کے بعدمیں مجمعے میں دوسری خواتین سے تعارف حاصل کرنے لگی۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اس سے باتیں کروں۔
جس ہوٹل میں میرا قیام تھا، وہاں پہنچنے کے بعدمیرے ذہن میں دن بھر کی مصروفیات گھومنے لگیں۔ اس وقت بھی یہ چہرہ میرے سامنے آیا تو میں اس کے بارے میں سوچنے لگی۔ میں اسی سوچ میں گم تھی کہ دروازے پر ہلکی سی دستک سنائی دی۔جوں ہی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے وہی مسکراتا ہوا چہرہ تھا، جس کے متعلق سوچ رہی تھی۔اس نے اندر آنے کی اجازت چاہی اورمیں نے بلاتاخیر اس کا خیر مقدم کیا ۔وہ اس طرح آئی تھی جیسے میں اسی کے آنے کا انتظار کرتی رہی ہوں۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی اور عشاء کی نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی۔پھر قبلے کی طرف رخ کرکے نماز شروع کردی۔اس دوران میرا ذہن سوالات کی آماج گاہ بنا رہا۔جائےنماز سمیٹنے کے بعد وہ میرے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئی اورکہنا شروع کیا: ’’آپ کا کمرہ تلاش کرنے میں مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی‘‘۔
اس نے کہا: ’’میرا تعلق اصلاً روس کے قفقازی مسلمانوں سے ہے۔میرے گھر کے لوگ مسلمان تھے ، بلکہ میرے اجداد اور خود میرے والدکا شمار بھی علما میں ہوتا تھا۔ ایک دن میرے دادا، پردادا اور ہر اس شخص کو جو عالمِ دین کی حیثیت سے معروف تھا، شہید کر دیا گیا ۔میرے دادا اور پردادا نے وہ تمام کتابیں ، جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے ، گھر کے اندر ایک گنبدنما کمرے میں چھپا دی تھیں۔ایک زمانہ وہ آیا کہ گائوں کے اندر صرف میرے والد ایک واحد عالم دین تھے۔ لیکن ان کا کام صرف اتنا ہی تھا کہ شادی و طلاق کے مسائل حل کریں، رمضان اور عید کے چاند کی آمد سے لوگوں کو باخبر کردیں۔اس سے آگے بڑھ کر وہ اسلام کی کسی تعلیم کا ذکر ہم، یعنی اپنی اولاد تک سے بھی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔کیوں کہ ایسی صورت میں خدشہ تھا کہ ہم پکڑ لیے جائیںگے۔ ایک عرصے بعد میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا اور ہم پانچ یتیم بچے اپنی والدہ کے زیر سایہ زندہ رہ گئے۔تاہم، وہ گنبد نما کمرہ عام لوگوں کی نظروں سے بھی پوشیدہ ہی رہا۔ والدہ نے ہمیں نماز سکھانے کے علاوہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص یاد کرائی اور سختی سے منع کر دیا کہ ہم کھلے عام کسی کے سامنے نماز نہ پڑھیں۔والدہ ہمیں عربوں کے قصے سنایا کرتی تھیںاور ہمیں بتاتی تھیں کہ عرب ہمارے لیے تاریک رات میں سورج کی مانند ہیں اور ایک ظالم کمیونسٹ حکومت نے ہمارے اوپر تاریکی کا پردہ ڈال کر ہمیں ساری دنیا سے کاٹ دیا تھا۔ کئی برس تک ہمیں یہ نہیں معلوم ہو پایا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔
اعلیٰ نمبروں میں اپنی ثانوی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد میں نے ماسکو یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ میرا لباس کالج کی باقی تمام لڑکیوں کے لباس سے مختلف ہوتا تھا۔ ان کے لباس میں بے حیائی ہوتی تھی، جب کہ میرا لباس باحیا ہوتا تھا۔اس سلسلے میں مجھے مذاق کا نشانہ بھی بنایا جاتا، مگر میں نے اس لباس کو ترک نہیں کیا۔میں یونی ورسٹی میں لڑکیوں کے ہاسٹل میں دو روسی لڑکیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ یہاں مجھے ایک بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ میں نماز کیسے پڑھوں؟ میرایہ خیال غلط تھا کہ روس میں ہرانسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہے زندگی بسر کرے۔ کیوں کہ محض میرے نماز کا آغاز کرتے ہی ان دونوں روسی طالبات کا احتجاج شروع ہو جاتا تھا۔ ان میں سے ایک طالبہ تو میرے نماز شروع کرتے ہی ٹیلی ویژن یا ریڈیو آن کر دیتی تھی۔آخرکار ایک دن مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوسکا۔نماز مکمل کرنے کے بعد میں نے انھیں دھمکا دیا کہ’’اگر آپ کا یہ رویہ برقرار رہا تو انجام اچھا نہیں ہوگا‘‘۔ اس سے انھیں قفقازیوں کی سختی اور حمیت کا بھی اندازہ ہوگیا۔نتیجتاً انھوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔لیکن نماز فجر اسی کمرے میں پڑھنے کی اجاز ت دینے سے انھوںنے صاف طور پر انکار کر دیا۔چنانچہ فجر کی نماز کے لیے میں ہاسٹل کی چھت پر چلی جاتی تھی اور برف باری کے دنوں میں تو برف باری ہی میں نماز پڑھتی تھی ۔ نماز کے دوران میرے چاروں طرف برف جمع ہو جاتی تھی اور جان لیوا سردی کااحساس ہوتا تھا۔
کئی دن گزر گئے تو نگراں خاتون کو میری حالت پر رحم آگیا اور اس نے مجھے مسلمانوں کی ایک مسجدکے بارے میں بتایا۔ اس نے ایک کاغذ پر مسجد کا پتہ لکھا اور میری مٹھی میںدبا دیا۔میں نے اگلے دن کا انتظار نہیں کیا، بلکہ اسی دن مسجد کی جانب چل پڑی۔مسجد دور تھی، لیکن میں نے اس دوری کو محسوس نہیں کیا، کیوں کہ میرے شوق نے اس دوری کو سمیٹ کر رکھ دیا تھا۔میں مسجد پہنچی تو اچانک میرے سامنے وہی نگراں خاتون تھی۔ اس نے مجھے ’السلام علیکم‘ کہا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟!‘‘ اس نے اثبات میں جواب دیا اور مجھے مسجد کے اندرلے گئی۔میں مسجد کے اندر داخل ہوئی تو سخت حیران تھی، کیوں کہ وہاں نماز باجماعت ہو رہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کیوں کہ میں اپنی زندگی میں پہلی بار اس طرح نماز کا پڑھا جانا دیکھ رہی تھی۔ میں نے تنہا نماز پڑھی ہی تھی کہ دوروشن چہروں والی لڑکیاں جو کہ میری ہم عمرتھیں، میرے پاس آئیں اور پوچھا:’’تم نے جماعت کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟‘‘ میں نے معصومیت سے جواب دیا کہ مجھے جماعت سے نماز پڑھنا نہیں آتا۔
دونوں نے اپنا تعارف کرایا، جو میرے لیے حیران کن تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں بھی اسی یونی ورسٹی میں پڑھتی تھیں، بلکہ اسی کالج میں تھیں، جس سے میرا تعلق تھا۔ان لڑکیوں کا تعلق عرب ممالک سے تھا:ایک کویت کی اور دوسری تیونس کی رہنے والی تھی۔انھوں نے ڈھیلا ڈھالا ساتر لباس پہن رکھا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ ان کا تعلق عرب ممالک سے ہے، تو خوشی کے مارے مَیں رونے لگی: ’’کیا آپ کو سورۂ یٰسین کے بارے میں معلوم ہے؟‘‘ میں نے ان سے سوال کیا۔ انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں، ہمیں یہ یاد بھی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے الگ الگ دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور میری آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ میں نے ان دونوں سے اپنے دل کی گہرائیوں سے کہا: ’’اللہ کی قسم، کیا آپ لوگ مجھے اس سورۂ یٰسین کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟ ہمارے ہاں یہ سورہ مرتے ہوئے مریضوں کو یا صرف مرنے والے پر پڑھی جاتی ہے‘‘۔ ان میں سے ایک لڑکی نے انتہائی سکون سے جواب دیا: ’’یہ سورت چند واقعات اور زندگی بعد موت کے سبق کا مجموعہ ہے۔ ان واقعات میں ہمارے لیے بڑی نصیحت اور سبق ہے، جن سے انسان اپنی زندگی میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا: ’’ممکن ہو تو تم ہمارے مکان تک چلو۔ میں اور میری یہ بہن ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ وہاں چل کر ہم تمھیں اس سورت کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گے‘‘۔ پورا راستہ میں نے سورئہ یٰسین کے بارے سننے اور سمجھنے کے لیے عملاً تڑپ کر گزارا۔ہم مکان پر پہنچ گئے اور سورئہ یٰسین کی تفصیلات اور اسباق مجھے آسمان کی بلندیوں پر لے گئے۔ پھر عصر کی نماز کا وقت ہوا تو انھوں نے مجھے باجماعت نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا، اور زندگی میں پہلی بار ان کے ساتھ نماز باجماعت پڑھی۔اس کے بعد ان سے اس وعدے پر رخصت لی کہ آیندہ ہفتہ وار چھٹی کے دن ان سے پھرملاقات ہوگی۔
ہماری دوستی اسی طرح چلتی رہی، کیوںکہ وہ دونوں میری زندگی اور میرے مستقبل کی رہنما بن چکی تھیں۔ایک دن کویتی بہن کو بیماری کی وجہ سے کویت واپس جانا پڑ گیا۔ یہ میرے لیے پہلا صدمہ تھا۔ ہماری حیرت وپریشانی کے درمیان اس نے کالج کو خیرباد کہا۔ اب تیونسی بہن کے علاوہ میراکوئی ساتھی نہیں تھا۔ موسم گرما کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہوا میں گرمی کی شدت بڑھ گئی تھی۔ اس حالت میں بھی وہ اپنا (ساتر) لباس پہننے پر مصر تھی۔ میں اس سے کہتی تھی کہ موسم گرم ہے اس لباس کی وجہ سے تمھارے جسم سے پسینے کی بُو پیدا ہوتی ہو گی۔ اس نے پریشان ہو کر کہا: ’’کیا تم نے کبھی میرے پسینے کی بدبو محسوس کی ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’نہیں‘۔پھر اس نے وضاحت کی کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور آیت حجاب پڑھ کر سنائی:
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ ۰۠ (النور۲۴: ۳۱) اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بنائوسنگھار نہ دکھائیں، بجز اس کے جوخود سے ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔
یہ سن کر جیسے میرے دماغ میں آتش فشاں پھوٹ پڑا ہو۔میں نے اس سے شکایت کی کہ ’’افسوس ہے تم نے پہلے مجھے اس آیت سے بے خبر کیسے رہنے دیا، مجھے اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟‘‘۔ اس کے بعد میں نے فوراً ویسا ہی لباس سلوایاجس کے بارے میں اس نے وضاحت کی کہ یہ اسلامی لباس ہے۔
شرعی لباس زیب تن کیے ہوئے ابھی مجھے چند روز بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک دن میری اسی تیونسی سہیلی کا فون آیا: ’’میں یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے تم سے ملنا چاہتی ہوں،کیوں کہ مجھے یونی ورسٹی سے نکال دیا گیا ہے اور اب میں جانے کی تیاری کر رہی ہوں‘‘۔ یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ میں اس سے ملنے کے لیے بے قرار ہوگئی اور اس سے ملنے کے لیے اس طرح بھاگتی ہوئی اس کی قیام گاہ کی طرف لپکی، جیسے کوئی کسی ظالم سے بچنے کے لیے بھاگتا ہے۔میری آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی تھی۔ بھاگتے بھاگتے اس کے مکان پر پہنچی۔ دروازہ کھولااور اس کی گود میں جاگری۔ وہ رو رہی تھی اور میں بھی دھاڑیں مار کر رو رہی تھی۔پھر اس نے حسب عادت مجھے دلاسا دیا اور بولی: ’’ہم جب روس تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے تھے، تو یہاں کی حکومت نے ہم سے اس معاہدے پر دستخط لیے تھے کہ ہم یہاں روس کے لوگوں سے میل جول نہیں رکھیں گے۔لیکن جب ہم نے تمھیں دیکھا کہ تم مسلمان ہو اور اسلام کے بارے میں بس برائے نام ہی جانتی ہو، تو میں نے اور میری دوست نے یہ طے کر لیا تھا کہ انجام چاہے کچھ بھی ہو، ہم تمھاری مدد کریں گے۔کوئی بات نہیں ،ہم مشرقی یورپ یا اپنے وطن واپس چلے جائیں گے۔ لیکن سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اب وہ لوگ تم کو تنگ نہ کریں، کیوں کہ تم نے بھی قانون توڑا ہے‘‘۔ میں نے حیرت سے کہا: ’’کون سا قانون؟‘‘ اس نے کہا: ’’تمھارے ملک کا قانون تمھیں غیر ملکیوں سے ایسی بے تکلفی سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں دیتا‘‘۔میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان دونوں سے متعارف ہونے سے پہلے تک میں اس قانون سے واقف نہیں تھی۔میں اس کے ساتھ ایرپورٹ تک گئی۔ مجھے اس وقت نہ کسی کی پروا تھی اور نہ کسی کا ڈر ۔میں ایرپورٹ کے اندر بیٹھی رہی اور میری حالت ایسی تھی، جیسے میں کسی کے مرنے کا غم منا رہی ہوں ۔ میں خود کو رونے سے نہیں روک پارہی تھی، بلکہ میں زور زور سے ہچکیاں لے رہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میرے جسم سے روح پرواز کر چکی ہے۔ میں وہاں سے لوٹی تو غمگین، اداس اوراندر سے ٹوٹی ہوئی تھی۔
ہاسٹل واپس آنے پر ہروقت ایسے لگاجیسے میں زندگی کا لطف کھو چکی ہوں۔ چنانچہ میں اپنے وطن چلی گئی جہاں میرے اہل خانہ رہتے تھے۔جب انھوں نے مجھے اسلامی کپڑوں میں دیکھا تو سب کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی۔ میرا بجھا ہوا چہرہ، جسمانی کمزوری کسی کو نظر نہیں آئی۔ دنیا اپنی جگہ ٹھیر گئی۔ گویا میں نے ان کے ماتھے پر کلنک لگا دیا ہے۔میں نے اپنے بڑے بھائی کو ساری بات سمجھائی۔انھیں مجھ سے ہمدردی تو ہوئی، لیکن وہ میرے سلسلے میں انٹیلی جینس کی تحقیقات کے خدشے کو لے کر پریشان تھے۔ پھر میری بہن اور والدہ کے علاوہ سبھی کو مجھ سے ہمدردی ہوگئی۔یہ اللہ کی رحمت ہی تھی کہ ہمارے گھر ہماری ایک عزیز خاتون آئیں۔ انھوں نے ہمارے گھر میں پیداشدہ کھنچائو کو کم کرنے کا ارادہ کیا اور میری والدہ پر زور ڈالا کہ میں ان کے ساتھ ان کے وطن چلی جائوں۔اس میں خیر کا ایک پہلو یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کی صحیح تلاوت سیکھنے کاموقع عنایت کر دیا اور یہ موقع بھی دیا کہ میں قرآن کا کچھ حصہ حفظ کر لوں۔دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے ان دونوں عرب لڑکیوں سے جو کچھ سیکھا تھا وہ سب کچھ میں ان بچیوں کو سکھاتی تھی تو سخت حیرت کا اظہار کرتی تھیں، اور بڑی پیاس سے سیکھتی تھیں۔
موسمِ بہار کی چھٹیاں تیزی سے گزر گئیں اور میں نے دوبارہ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا۔لیکن اس بارمیں نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ ہروقت میرے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔میں جس جگہ بھی جاتی ہوں یہ لوگ میرا پیچھا کرتے ہیں۔میں یہ جاننے کے لیے کہ میرا پیچھا کرنے والے کون ہیں، میٹرو میں بیٹھنے کا ارادہ ترک کر دیتی۔ چنانچہ میٹرو کے چلے جانے کے بعد وہ میرے ساتھ اسٹیشن پر ہی کھڑے ہوئے دکھائی دیتے۔ یہ معاملہ میرے ساتھ کئی بار پیش آیا۔ ایک دن میں میٹرو ٹرین میں چڑھی تو یہ لوگ بھی اس میں داخل ہوگئے۔جیسے ہی میٹرو کے چلنے کا اعلان ہوا تو میں اس میں سے باہر کود پڑی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ چلتی ہوئی میٹرو کے شیشوں سے چپکے ہوئے تھے اور آنکھیںمیرا تعاقب کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی میرا پیچھا کیا جارہا ہے۔مجھے ڈر ہو ا کہ کہیں گرفتار نہ کر لی جائوں اور مجھ پر جاسوسی کا الزام نہ عائد کر دیا جائے، یا مجھے پاگل نہ قرار دے دیا جائے یا کوئی اور جھوٹا الزام مجھ پر عائد کر دیا جائے۔اور ممکن ہے اس کے بعد وہ مجھے کسی کنویں میں پھینک دیں۔ چنانچہ میں نے تعلیم ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں سفر کر کے انھی خاتون کے گھر گئی جن کے یہاں رہ کر میں نے قرآن سیکھا اور یا دکیا تھا۔اس گھرکے سربراہ پولیس میں کام کرتے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ میری تصویر تمام پولیس والوں کو تقسیم کر دی گئی ہے اور میری تلاش جاری ہے۔ان کے لڑکے نے مجھے مشورہ دیا کہ میں فوراً اپنے گھر والوں کے پاس پہنچوں۔ میرے سفر کا سامان تیار کر دیا گیا اور وہ لوگ مجھے میرے گائوں کے کنارے تک چھوڑ کر چلے گئے۔میں اپنے گھر پہنچی اور جیسا کہ مجھے اندازہ تھا، بے وقت میرے گھر پہنچنے پر گھر کے لوگ پریشان اور خوف زدہ ہوگئے۔میں نے انھیں پوری کہانی سنائی۔
کچھ دنوں کے بعد ہمارے علاقے میں چپکے چپکے قرآن کی تعلیم دینے والے ایک محترم استاد میرے بھائی سے ملنے کے لیے آئے اور انھیں ایک عرب نوجوان کا خط دیا۔ یہ عرب نوجوان اسی یونیورسٹی کے انجینیرنگ کالج میں پڑھتا تھا۔اس خط میں لکھا تھا: ’’پولیس جس قفقازی لڑکی کو تلاش کررہی ہے، میں اس سے شادی کرکے اسے اپنے وطن لے جانے کے لیے تیار ہوں تاکہ اسے پولیس کے چنگل سے بچا سکوں۔ کیا آپ اس کی اور اس کے اہل خانہ کی تصدیق کرتے ہیں؟‘‘ پھر انھوں نے میرے بھائی سے کہا:’’میں نے اس نوجوان کے بارے میںتحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ متشرّع اسلامی ذہن کا نوجوان ہے ، اس کی زندگی کسی بھی قسم کے غبار سے پاک ہے۔ تمھاری کیا رائے ہے؟‘‘ میرے بھائی میرے کمرے میں آئے تو ان کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو رہا تھااور وہ کہہ رہے تھے کہ ’’تم اس نوجوان کو کیسے جانتی ہو؟ اس کو تمھارے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ میں نے انھیں یقین دلایا کہ اس نوجوان اور میرے درمیان کبھی کوئی رابطہ نہیں ہواہے۔البتہ میں نے بتایا کہ وہ دونوں عرب لڑکیاں آپس میں اس لڑکے کے بارے میں باتیں کیا کرتی تھیں کہ وہ باکردار ہے۔ میں نے بھائی سے کہا کہ وہ یہ ساری باتیں محترم استاد کے سامنے رکھیں۔ انھوں نے تمام باتوں کی تائید کی اور یہ بتایا کہ نوجوان نے لڑکی کی(یعنی میری) صرف مشتہرکردہ تصویر دیکھی ہے۔ میرے بھائی متردد ہوئے تو استاد نے انھیں سمجھایا کہ اسلام میں نسل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔پھر بھائی نے میری رائے طلب کی۔ میں نے غور وفکر کے بعد ا س عرب نوجوان سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اس شادی پر ہر شخص حیرت زدہ تھا، کہ ہمارے یہاں شادیاں صرف آپس میں ہی کی جاتی ہیں۔
اپنے شوہر کے ساتھ جب میںان کے وطن گئی تو ابتدائی دنوں میں مجھے بہت پریشانیاں اٹھانی پڑیں۔ دراصل میرے شوہراور ان کے گھر والے گائوں کے اندرچھوٹے سے مکان میں مشترکہ خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ دن بھر تھکا دینے والا کام کرنے کے بعد گھرکی چھت پرجاکر رویا کرتی کہ کیا میں نے اپنا وطن اسی لیے چھوڑا تھا؟ اور پھر اللہ سے بہتری کی دُعا کی۔
اللہ کی ذات بڑی پاک اور اعلیٰ ہے کہ یہ تکلیف دہ ایام بڑی تیزی سے گزر گئے اور میرے لیے ایک گھر الگ سے خاص ہو گیا جس میں گھر کی تمام ضروریات کا سامان موجود تھا۔اللہ نے اپنے رزق کے دروازے بھی کھول دیے۔ اس کے بعد دسمبر ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کا زوال ہوا تو میں واپس آگئی اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ میرے سسرالی وطن میں روسی نسل کے جو مسلمان رہتے ہیں ، میں ہرہفتے ان سے ملاقات کرتی ہوں اور اسلام کی جن تعلیمات سے وہ ناواقف ہیں ، انھیں سکھاتی ہوں۔
اپنی رُوداد سنانے کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور کہا:’’ میں نے سوچا کہ محبت ومودت کے جذبے کے ساتھ آپ کو اپنی داستان سنائوں‘‘۔ اب میری باری تھی کہ میں اس سے اس بات کی اجازت لوں کہ قفقاز کی پہاڑیوں کے دامن میں رہنے والے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی یہ داستان آپ لوگوں کو سنائوں۔ شاید اس طرح ہم قریب سے جان سکیں گے کہ اپنے دین کو جاننے کے لیے وہ کیا کیا تکلیفیں برداشت کرتے آرہے ہیں اور اس راہ میں ان کے ساتھ کیا مشکلات پیش آرہی ہیں اور ہم ان بدترین پابندیوں سے آزادی کے باوجود اسلام اور قرآن کی نعمت کو جاننے، سمجھنے اور اپنانے سے کیوں بے نیاز ہیں؟ (المجتمع، اپریل ۲۰۱۴ء)
یہ ایک نہایت افسوس ناک اتفاق ہے کہ حالات و واقعات کی رفتار دیکھ کر میں نے بیسویں صدی کے آخری عشرے کے شروع میں روانڈا میں ۱۹۹۴ء میں ہونے والی ’نسل کشی‘ (Genocide)سے تقریباً پانچ سال قبل اس کی پیش گوئی کی تھی، اور اسی طرح صدی کے شروع میں یہ کہا تھا کہ میانمار میں حالات روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف جائیں گے۔ اور آج اُس سے بھی زیادہ بڑھ کر تشویش ناک حالات بھارت میں ہیں، جہاں پر مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ سر پر کھڑا نظر آرہا ہے۔
’جینوسائیڈ واچ‘ ۲۰۰۲ء سے ہندستان میں نسل کشی کے بارے میں انتباہ (warning) دے رہی تھی کہ جب گجرات میں اس سال فروری،مارچ کے دوران قتل عام کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے۔اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے، جنھوں نے اس انسانی المیے کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کیا تھا بلکہ درحقیقت، اس بات کے بہت سارے ثبوت موجود ہیں کہ مودی نے مسلمانوں کے اس قتل عام کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس سے بڑھ کر مودی نے جو آج کل ہندستان کے وزیر اعظم ہیں، اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے ’مسلم مخالف، اسلاموفوبک بیان بازی‘ کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا تھا۔
مودی نے اس المیے کو ریاستی اور اداراتی سطح پر آگے بڑھانے کے لیے جو دو طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں ایک تو اگست ۲۰۱۹ء میں ہندستانی زیرانتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنا اور اسی سال شہریت (ترمیمی) ایکٹ پاس کرنا ہے، جس میں واضح طور پر مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کا مقصد وادیٔ کشمیر میں’ہندو تسلط کو بحال کرنا‘ ہے، جس میں مسلم اکثریت ہے، اور شہریت (ترمیمی) ایکٹ کا نفاذ خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہے، جس میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے پناہ گزینوں کو مخصوص سازگار درجہ دیا، جو کہ بعض مذہبی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ایک گروہ جسے اس سے خارج کر دیا گیا وہ مسلمان ہیں۔یہ ایکٹ خصوصاً ، ان مسلمانوں کے لیے ہے جن کے والدین ۱۹۷۱ءمیں خانہ جنگی کے دوران مشرقی پاکستان سے فرار ہوکر آسام میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ تقریباً ۳۰ لاکھ لوگ ہیں، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، جو گذشتہ ۵۰ برس سے ہندستان کے باقاعدہ شہری کے طور پر’بس گئے‘ ہیں۔
متنازع شہریت (ترمیمی) ایکٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ لوگ دستاویزی طور پر یہ ثابت کریں کہ وہ ۱۹۷۱ء سے پہلےکے ہندستان کے شہری تھے۔اب بہت سارے لوگوں کے پاس اس قسم کی دستاویزات نہیں ہیں۔ جس کا صاف مقصد یہ ہے کہ انھیں غیرملکی قرار دے کر ملک بدر کر دیا جائے۔
۲۰۱۷ء میں میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بالکل ایسا ہی کیا تھا۔ جہاں میانمار کی حکومت نے پہلے ایک قانون سازی کے ذریعے عشروں سے آباد روہنگیا مسلمانوں کو شہری قرار دیا اور پھر تشدد اور نسل کشی کے ذریعے انھیں بے دخل کرکے کھلے سمندر میں دھکیل دیا۔
اقوام متحدہ کا ’نسل کشی کنونشن‘ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جو نسل کشی کو جرم قرار دیتا ہے۔ اس کا مقصد خاص طور پر کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہی سے بچانا ہے، مگر روہنگیا مسلمان یہ المیہ بھگت رہے ہیں۔ اب بھارت میں بالکل اسی خونیں المیے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
بھارتی حکومت کا مقصد شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے تحت پورے ہندستان میں ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان متاثر کرنا ہے۔ ’ہندوتوا تحریک‘ کے تحت ہندستان کا تصور بطور ہندو قوم، ہندستان کی تاریخ اور ہندستانی آئین کے خلاف ہے۔ ہندستانی آئین سیکولرازم کے تحت اپنے بسنے والے تمام شہریوں سے وعدہ کیا تھا۔
اس وقت حقیقت میں مسٹر نریندرا مودی، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) جیسے انتہا پسند، ’ہندوتوا‘ کے علَم بردار گروپ کے کارکن کی حیثیت سے ہندستان کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اقتدار میں ہیںاور حکومت کی پوری مشینری پر ان کا مکمل قبضہ ہے۔
بھارت کا معاملہ دیکھیں تو وہاں پر نسل کشی ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اور یہ کہ بھارتی آسام اور مقبوضہ کشمیر میں مسلم نسل کشی کی ابتدائی علامات اور مظاہر موجود ہیں۔
اسی طرح اتراکھنڈ کے یاتری شہر ’ہردوار‘ میں ۱۷ سے ۱۹ دسمبر تک ’ہندوتوا‘ لیڈر کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس کو معمولی واقعہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جہاں اقلیتوں کو مارنے اور ان کے مذہبی مقامات پر حملہ کرنے کی متعدد اپیلیں کی گئی ہیں، اور حلف لیے گئے ہیں، جس کا واضح مقصد اپنے ماننے والوں کو نسل کشی پر اُکسانا ہے۔
مودی نے بحیثیت بھارتی وزیر اعظم، نفرت آمیز اقدامات اور نفرت انگیز تقاریر کیں، جو خاص طور پر مسلمانوں سے نفرت کے جذبات بھڑکاتی ہیں،جن کی مذمت کرنا دُنیابھر کے مہذب لوگوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
’ہردوار کانفرنس‘ میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کی گئی زبان، محض وہاں موجود مشتعل لیڈروں اور سامعین تک محدود نہیں، بلکہ یہی زبان مسلمانوں کے خلاف ہندستانی حکومت بھی استعمال کرتی چلی آرہی ہے۔ جس کا مقصد اس ’پولرائزیشن‘ کو گہرا کرنا ہے، جس کی وجہ سے نسل کشی ہوتی ہے، لہٰذا ہم خبردار کر رہے ہیں کہ ہندستان میں نسل کشی بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہے۔ ہندستان کے یہ حالات ’روانڈا‘ کے واقعات سے ملتے جلتے ہیں، جہاں ۱۹۹۴ءمیں نسل کشی ہوئی تھی۔
روانڈا میں نسل کشی کی پیش گوئی میں نے اس وقت ملک کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ۱۹۸۹ء میں کی تھی اور روانڈا کے اس وقت کے صدر کو خبردار کیا تھا کہ’’اگر آپ نے اپنے ملک میں نسل کشی کی علامتوں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا تو پانچ سال کے اندر یہاں عملاً نسل کشی ہوجائے گی‘‘۔ لیکن اس کے باوجود نسل کشی کی راہ پر چلنے کے لیے نفرت انگیز تقاریر کی جاتی رہیں، اور پھر ہم جانتے ہیں، ۷؍اپریل سے ۱۵جولائی ۱۹۹۴ء پر پھیلے ایک سو دنوں میں روانڈا کے ۸لاکھ تتسی باشندوں کو نشانہ بناکر قتل کیا گیا تھا۔
دنیا بھر کے انصاف پسند اور انسانیت دوست انسانوں اور اداروں کو آج اس عزم کا اظہار کرنا اور عملی اقدامات کرنے چاہییں کہ ہم ہندستان میں ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔
بھارت میں نئے سال کا آغاز مسلمانوں پر اخلاق سوز حملے سے ہوا۔ یکم جنوری کو ’بُلی بائی‘ ایپ پر سو سے زیادہ بھارتی مسلمان خواتین کی تصاویر دی گئیں اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’یہ برائے فروخت ہیں‘‘۔ ان ناموں میں معروف صحافی، استاد، سماجی کارکن اور فنونِ لطیفہ سے متعلق خواتین شامل تھیں جنھیں ہدف بنایا گیا تھا۔
بظاہر اس کوشش سے جہاں مسلم خواتین کی جنسی اعتبار سے توہین کی گئی ہے وہاں سماجی طور پرمعروف اور سیاسی طور پر سرگرم مسلم خواتین کو ردعمل پر مجبور اور ۲۰کروڑ مسلمانوں پر مشتمل بھارت کی مضبوط اقلیت کو مشتعل کیا گیا ہے۔درحقیقت یہ بھارت میں اسلاموفوبیا واقعات کے تسلسل کے حوالے سے ایک تازہ واقعہ ہے۔
گذشتہ برس ۲۰۲۱ء کے آخری روز ایک معروف بھارتی روزنامہ نے اسلاموفوبیا پر مبنی نمایاں طور پر ایک اشتہار شائع کیا،جس کے لیے اترپردیش حکومت نے مالی معاونت کی۔چند ہفتے قبل شمالی بھارتی شہر ہردوار میں تین روزہ مذہبی تقریب کے آخری دن بہت سے انتہاپسند ہندو لیڈروں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کا حلف اُٹھایا۔ دسمبر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی دو تقریروں میں ہندستان کی تاریخ کی مختلف مسلم شخصیات اور موجودہ ’دہشت گردی‘ کے درمیان ربط اور تعلق قائم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندستان کے مسلمانوں کو اپنے آبائواجداد کے مبینہ جرائم کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے گا اور اس کی سزا دی جائے گی‘‘۔
اس دوران اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ نے، جن کا تعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی سے ہے، اعلان کیا ہے کہ ’’ریاست کے آیندہ اسمبلی انتخابات کو ۸۰ فی صد بمقابلہ ۲۰فی صد قرار دیا جاسکتا ہے، اور یہ کہ وہ ریاستی انتخابات کو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ سمجھتے ہیں‘‘۔ یاد رہے یوپی میں ۸۰فی صد ہندو اور ۲۰ فی صد مسلمان ہیں۔
۲۰۲۱ء میں مسلم مخالف پروپیگنڈا، جس کا ارتکاب ہندستان کے منتخب لیڈروں نے کیا، اسے ڈھٹائی پر مبنی ملکی اسلامو فوبیا میڈیا کے ساتھ ساتھ کئی ریاستوں میں منظورکردہ یا تجویز کردہ مسلم مخالف قوانین اور پالیسیوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔
۲۰۱۴ء میں ہندو قوم پرست بی جے پی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے ہندستان میں مسلمان اپنےآپ کو خطرے میں محسوس کرتےہیں۔ لیکن گذشتہ برس مسلم قومیت سے دشمنی اور بھی کھل کر سامنے آگئی۔ آج انتہاپسند ہندو قوم پرست، حکومت، مقامی حکام کی مدد اور بسااوقات حوصلہ افزائی سے مسلمانوں پر یہ بات واضح کر رہے ہیں کہ ’’یہ زیادہ دُور کی بات نہیں ہے کہ جب وہ اپنےہی ملک میں برابرکےشہری کی حیثیت سےدیکھے نہیں جائیں گے‘‘۔ ان کی کھانے پینے کی ضروریات پر پابندیاں اور مذہبی عبادات کے دوران ان پر حملے کیے جاتے ہیں اور مجرمانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسلمان خواتین کی محض اس وجہ سے تذلیل کی جاتی ہے اور انھیں خوف زدہ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کا روزگار خطرات کی زد میں ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اعلانات کیے جاتے ہیں۔
صرف مسلمان ہی نہیں ہیں کہ جنھیں ملک میں انتہاپسندوں کے بڑھتےہوئے دن دہاڑے کھلے عام حملوں کا سامنا ہو۔ ملک بھر میں عیسائیوں کو بھی اسی طرح کی نفرت اور تشدد کا سامناہے۔ ایک کے بعد ایک ریاست میں تبدیلیِ مذہب کے قانون پر پابندی لگائی جارہی ہے اور عیسائیوں کو موردِ الزام ٹھیرایا جاتا ہے کہ وہ غریب ہندوئوں اور قبائل کو تبدیلیِ مذہب پر مجبورکر رہےہیں۔ اس پراپیگنڈے سے رائے عامہ عیسائی اقلیت کے خلاف ہورہی ہے۔ عیسائیوں کی اتوار کے روز عبادت کو مسلسل انتشار کا سامنا ہے، گرجوں پر حملے کیے جارہے ہیں اور ان کے مذہبی پیشوائوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
معروف صحافی جان دیال نے حال ہی میں بتایا ہے کہ گذشتہ ماہ میں کم از کم ۱۶ شہروں اورقصبوں میں متشدد ہندو ہجوموں نے گرجوں پر حملے کیے، مذہبی عبادت اور کرسمس مناتے ہوئے مختلف گروپوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعات ہریانہ، اترپردیش او ر دہلی سے لے کر جنوب میں کرناٹکہ تک دیکھنے میں آئے۔ یونائٹیڈ کرسچن فورم کے مطابق: ’’۲۰۲۱ء کے دوران بھارت میں عیسائیوں پر کم از کم ۴۶۰حملے کیے گئے ہیں‘‘۔
بی جے پی کی قیادت میں بھارت دنیابھر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک بن گیا ہے۔ انھیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشی لحاظ سے تکالیف اور اذیتوں کا سامنا ہے۔ ان کی مذہبی رسومات، کھانے پینے کی اشیاء، حتیٰ کہ کاروبار تک کو جرم ثابت کرنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔ امتیازی قوانین کے ساتھ ساتھ انھیں دھمکیاں دی جارہی ہیں اور جسمانی تشدد کا سامنا ہے۔ برقی میڈیا، پرنٹ میڈیا اور فلمی صنعت ان کےخلاف تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حکمران مسلسل ان کی تذلیل کر رہے ہیں۔
۲۰۲۱ء کا سال بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے خوف، تشدد اور ہراسانی کاسال تھا، اور ۲۰۲۲ء کے آغاز پر ’بُلی بائی‘ کے شرمناک واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو انتہاپسندانہ حملے مذہبی اقلیتوں پر اگلےسال بھی پوری قوت سے جاری رہیں گے۔
بھارت کے مسلمان اپنے خلاف حملوں کو ہلکا نہیں لے رہے ہیں۔جب انھیں اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ وہ ’برائے فروخت‘ ہیں، جیساکہ نام نہاد ’نیلامی ایپ‘ میں دکھایا گیا ہے تو بہت سی مسلمان خواتین نے خوف زدہ ہونے اور دھمکیوں میں آنے سے انکارکردیا ہے۔ انھوں نے حکام پر دبائو بڑھانے کے لیے بڑی تعداد میں ایف آئی آر درج کروائی ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ دار افراد کو پکڑا جائے اور انھیں سزا دی جائے۔
اسی دوران مسلمان صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی ایک نئی ٹیم ملک بھر میں اسلاموفوبیا حملوں اورواقعات کے اعداد و شمار اکٹھے کررہی ہے اور سرکاری اداروں سے جواب دہی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ حال ہی میں ہردوار سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جو کال دی گئی ہے اس کے ذمہ دار سزا سے بچ نہ سکیں۔
بھارت میں بی جے پی کے اکثریتی تشدد کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور اسے مزید بڑھنا ہے۔ مذہبی اقلیتیں اس کے خلاف آواز اُٹھارہی ہیں اس لیے کہ ان کے لیے اب خاموش رہنے کا کوئی موقع نہیں۔
بھارتی مذہبی اقلیتوں اور ان کے اتحادیوں کی اسلام مخالف اور عیسائی مخالف حملوں کے خلاف توجہ دلانے کی کوششیں اکثریتی تشدد کی لہر کو کم کرنے میں مددگارہوں گی۔ لیکن بھارت اس بحران سے نہیں نکل سکتا۔بین الاقوامی برادری کو ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہراساں کرنے اور نسل کشی کی دھمکیوں کے خلاف ایک موقف اپنانا چاہیے۔
اگر ہم ماضی کے ظلم و سفاکیت کے واقعات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح بین الاقوامی برادری کی مظلوم اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تشدد پر خاموشی نے نسل کشی کے لیے راہ ہموار کی۔ آج بہت سی وہ طاقتور اور ’جمہوریت پسند‘ قومیں جو دُنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے نمایندگی کرتی ہیں وہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کی مذمت کرنے سے پرہیز کررہی ہیں کیونکہ وہ بھارت کو چین کے خلاف ایک اہم اسٹرے ٹیجک اتحادی سمجھتی ہیں، یا ایک اہم تجارتی منڈی کہ جس پر وہ اظہارِ ناراضی نہیں کرسکتے۔
لیکن اگر دنیا کی جمہوریت پسند قومیں خاموش رہیں گی اور بھارت کو اس راستے پر چلنے کی اجازت دیں گی، تو بھارت جلدخانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا، اور خانہ جنگی سے دوچار بھارت دوسرے ممالک کی مصنوعات نہ خرید سکے گا۔ اس سے خطے کے تمام ممالک اور دُنیابھر کے ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ اس طرح اقلیتوں کے مابین تشدد دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ یہ ہولناک منظرنامہ ناگزیر ہے۔
ماضی میں بھارت میں مختلف مذہبی قومیتیں پُرامن طریقے سے رہتی رہی ہیں اور ایسا دوبارہ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ مگر مسلمان اورعیسائی اکثریتی تشدد کا سامنا کررہے ہیں، جس کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس چیز کا مقابلہ اتحاد، شعور اور مسلسل جدوجہد سے ممکن ہے۔ اسی طرح جمہوریت پسند عناصر اپنے ملک میں اس جذبے کے تحفظ کے لیے یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔(الجزیرہ، ۱۳جنوری ۲۰۲۲ء)
ایک سوال فضا میں گردش کر رہا ہے کہ ’’پاکستان نے ان بھارتی ٹرکوں کو جو واہگہ کے ذریعے افغانستان انسانی بنیادوں پرامداد لے جانا چاہتے تھے، پاکستان سے راہداری کی اجازت نہ دے کر سفارتی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ یہ ایک اچھا موقع تھا پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو کی فضا کم کرنے کا۔ جب ہم نے بھارت کو واہگہ سے ٹرک لے جانے کی اجازت نہیں دی تو وہ چاہ بہار، ایران کے ذریعے سے امدادی سامان لے کر جائے گا۔ اس طرح بھارت اور ایران کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے اور افغانستان کا پاکستان پر انحصار بھی کم ہوگا‘‘۔
بظاہر یہ سوال درست دکھائی دیتا ہے، مگر فی الحقیقت معاملہ یہ نہیں ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں جس قدر جلد ممکن ہو، اناج اور کھانے پینے کی اشیا پر مشتمل امدادی سامان پہنچے کیونکہ اگر خدانخواستہ وہاں صورتِ حال خراب ہوتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ پاکستان کبھی نہیں چاہے گا کہ یہاں پر مزید افغان مہاجرین آئیں، اور افغانستان پھر کسی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہو۔ اگر معاشی صورتِ حال خراب ہوتی ہے یاانسانی بحران پیدا ہوتا ہے تو اس سے دہشت گردوں کو موقع ملے گا۔ لہٰذا، پاکستان کا مفاداسی میں ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال جس قدر جلد ممکن ہو، بہتر ہو۔ اسی لیے پاکستان نے دسمبر۲۰۲۱ء میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کی وزرائے خارجہ کانفرنس کی میزبانی ایک نکاتی ایجنڈے پر کی تھی، کہ کس طرح افغانستان کو انسانی بحران سے بچایا جائے؟ جو ملک بھی افغانستان کو امداد دیتا ہے یا دے گا، پاکستان اسے خوش آمدید کہتا ہے اور خوش آمدید کہتا رہے گا، چاہے وہ بھارت ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس سارے معاملے کو اس کے درست پس منظر میں دیکھناہوگا۔
اس مذکورہ امدادی مشن کے حوالے سے پاکستان نے بھارت کو بہت سی مراعات بھی دینا چاہی ہیں۔ مثلاً یہ کہا کہ ’’بھارت ۵۰میٹرک ٹن گندم کی جو امداد دینا چاہتا ہے، وہ پاکستانی ٹرکوں کے ذریعے طورخم تک پہنچائی جائے‘‘، یا ’’افغانستان کے ٹرک واہگہ تک آئیں اور گندم لے کر چلے جائیں‘‘۔ بھارت نے جواب میں یہ کہا کہ ’’کیا گارنٹی ہے کہ ہم جو امداد دےرہے ہیں، وہ افغانستان میں صحیح جگہ تقسیم ہوگی؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’یہ امداد اقوام متحدہ کی نگرانی میں تقسیم کرا دی جائے گی اور اس طرح کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا‘‘۔ لیکن بھارت نے ان معقول دلائل کا جواب دینے کے بجائے فیصلہ کیا ہے کہ وہ چاہ بہار کے ذریعے ہی یہ امداد پہنچائے گا۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان اوربھارت کے تعلقات میں باہمی اعتماد کی فضا نہیں ہے۔ اگر ہم اجازت بھی دے دیں کہ بھارتی ٹرک ہی واہگہ سے گزرتے ہوئے طورخم تک جائیں، تو اس طرح یقینا سیکڑوں بھارتی ٹرک آئیں گے۔ اگر ایسے میں پاکستان سے گزرتے ہوئے کسی ایک بھارتی ٹرک کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجاتاہے، یا کوئی دہشت گردی کا واقعہ رُونما ہوتا ہے، تو انسانی بحران کے خاتمے کے لیے کی جانی والی یہ کوشش، پاکستان اوربھارت کے درمیان ایک بحران کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اس لیےیہ خطرہ مول لینا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا، حکومت پاکستان نے صحیح فیصلہ کیا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی کہ بھارتی ٹرک واہگہ سے افغانستان جائیں۔ اس طرح ہمارے لیے مزید کئی عملی مشکلات ہیں۔ بھارتی ٹرکوں کی حفاظت کون کرے گا؟ پاکستان کو ان ٹرکوں کی سیکورٹی کے لیے بڑے پیمانے پر، اقدامات اُٹھانا پڑیں گے۔
ان حالات میں یہی مناسب تھا کہ بھارت اسی طرح سمندر کے ذریعے کراچی تک امدادی گندم پہنچاتا اور جس طرح سے بھارت کی دیگر برآمدات افغانستان جاتی ہیں، یا افغانستان سے ٹرک کراچی اورواہگہ پہنچ جاتے اور اقوام متحدہ کے زیرنگرانی افغانستان پہنچادیتے۔ مگر پاکستان اپنی سطح پر ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ بھارت میں اس وقت جو حالات ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جو کچھ نفرت کاالائو بھڑکایا جارہا ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت جو انسانیت سوزی کر رہا ہے، اس کے نتیجے میں پاکستان میں یہ بات خطرے سے خالی نہیں ہے کہ بھارت کے ٹرک یہاں آئیں اور بھارتی ڈرائیور انھیں چلا کر طورخم تک سکون سے لے کرجائیں۔
بھارت اس سے پہلے بھی انسانی امداد افغانستان بھجواتا رہا ہے اور وہ اس کے لیے چاہ بہار بندرگاہ کو بھی استعمال کرتا رہا ہے اور بذریعہ ہوائی جہاز بھی انسانی امداد بھجواتا رہا ہے، جس پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ وہ آج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کررہا ہے کہ ’’پاکستان ہمیں واہگہ کے ذریعے انسانی امداد لے جانے کی اجازت نہیں دے رہا؟‘‘ اس میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بھارت جب بھی افغانستان کے لیے انسانی امداد کی بات کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ پاکستان ہی سے کہتا ہے کہ ’’ہمیںواہگہ کے ذریعے اسے بھجوانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ بلاشبہہ یہ ایک سستا راستہ ہے، لیکن بھارت کو اس بات کا علم ہے کہ پاکستان مخصوص حالات اور جائز وجوہ کی بناپر اس کی اجازت نہیں دے گا۔
حکومت پاکستان نے ان تمام امکانی خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے بارہا پاکستان، بھارت کو کئی بار رعایتیں دے چکا ہے اور کئی ٹھوس اقدامات بھی اُٹھائے ہیں ،لیکن ان کا کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلا بلکہ بھارت نے اسے پاکستان کی کمزوری ہی سمجھا اور کشمیر میں اپنی سفاکیت کو برقرار رکھا ہے، اور آج بھی ظلم و جبر کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ چلیئے اگر ہم اس مسئلے کو کشمیر کے ساتھ نہ بھی جوڑیں، لیکن ہمارے ہاں جو بے اعتمادی کی فضا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کو اس قسم کا خطرہ مول لینا چاہیے۔ اب یہ بھارت کی مرضی ہے کہ وہ یہ انسانی امداد چاہ بہار کے ذریعے پہنچائے یا کراچی و واہگہ کے ذریعے بھجوائے یا ہوائی جہاز کے ذریعے بھجوائے۔ بہرحال، پاکستان نے بالکل درست اور دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے۔
گذشتہ دنوں حکومت ِ پاکستان نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ یہ پالیسی بنیادی طور پر فوج اور سول حکومت نے مرتب کی ہے۔ پالیسی ترجمانوں کے بقول ’’پاکستان کا بنیادی اور اصلی نصب العین ملک کی اقتصادی ترقی ہے، لیکن اس کے لیے ملکی سکیورٹی [سلامتی] اہم ترین پہلو ہے اور اندرونی اور بیرونی امن و امان کے بغیر اس کا حصول ناممکن ہے‘‘۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’یہ پالیسی عوامی مفاد کی مرکزیت پر مبنی ہوگی‘‘۔
’الجزیرہ چینل‘ نے حکومت پاکستان کے مشیر سلامتی، ڈاکٹر معید یوسف صاحب سے پوچھا کہ ’’شہریوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کس طرح اس سے بہرہ مند ہوگی، جب کہ اس کا ایک حصہ عوام سے خفیہ رکھا گیا ہے؟‘‘۔ دوسرا سوال یہ کیا گیا کہ ’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے،جب کہ یہ پالیسی دستاویز انگریزی میں تحریر کی گئی ہے۔ دونوں صورتوں میں عوام کی رسائی نہیں ہوگی‘‘۔ ڈاکٹر معید کے پاس ان سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ اس اعلان کردہ قومی سلامتی پالیسی سے جنوری ۲۰۲۲ء میںقوم واقف ہوئی۔ وزیراعظم پاکستان، ان کے رفقائے کار اور معاونین نے اس کو ’’اپنے قومی، علاقائی اور عالمی وژن سے ہم آہنگ قرار دیا ہے اور اس میں بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہے کہ ’’جنگ اور دہشت گردی سے مسائل حل نہیں ہوسکتے‘‘۔ معلوم نہیں کہ یہ یقین دہانی کس کو اور کس لیے دی جارہی ہے۔
ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیاگیا ہے کہ ’’یہ بات کشمیر پالیسی سے متصادم نہیں ہوگی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر پالیسی اس سے مختلف ہوگی؟ پھر کہا گیا ہے کہ ’’قومی سلامتی پالیسی، اقتصادی ترقی اور دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کا نام ہے‘‘ یعنی دوسرے لفظوں میں وقتاً فوقتاً مسئلہ کشمیر کو بھی ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کی آزادی یا مسئلہ کشمیر کے آبرو مندانہ حل کا سوال اسی سلامتی پالیسی کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ گیا ہے۔
کشمیر کی آزادی کی جدوجہد اور کشمیریوں کے سیاسی مقام پر پہلی ضرب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے لگائی تھی، جس نے کشمیریوں کے اختیارات کو محدود کردیا تھا،اور ہندستان اور پاکستان سے کہا تھا کہ وہ ان کو رائے شماری کا حق دیں۔ اس میں کشمیریوں کے اختیار کو سلب کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندستان نے اپنی بے پناہ فوجی طاقت بڑھا کر ریاست کے باشندگان کے لیے کشمیر کو ایک بدترین جیل میں تبدیل کردیا۔
۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں دونوں ملکوں نے معاہدے کرکے، اس کو عملاً دوطرفہ سرحدی جھگڑا بناکر رکھ دیا اور سلامتی کونسل کی رائے شماری کی قرارداد وں کو طاق نسیاں پر رکھ دیا۔ کیا ایک کروڑ سے زیادہ کشمیری انسان نہیں، بھیڑبکریاں ہیں، جن کی حفاظت محض بھیڑبکریوں کے ’چرواہوں‘ کی مرضی کی طرح کی جاتی رہے گی۔ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی اس اہم مرحلے پر مذکورہ بالا صحیح یا غلط تصور یا خدشے کو رفع کرنے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ حق خودارادیت اور کشمیریوں کی تاریخی فریق کی حیثیت کا اس دستاویز میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ مسلمہ بین الاقوامی اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کا یہ مطالبہ زور پکڑ چکا ہے کہ اس قوم کو حق خودارادیت بے کم و کاست دیا جائے۔ حق خود ارادیت کا انعقاد تمام مذاکرات میں شامل کیا جائے۔ اس کی پرانی سرحدوں کو بحال اور فعال کیا جائے اور کوئی فیصلہ ان کے خلاف نہ کیا جائے۔
اگر ہندستان اور پاکستان اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں یا اگر ہندستان کے سامراجی عزائم اس راہ میں حائل ہیں، تو کشمیریوں کے ساتھ مشاورت کرکے قابل عمل لائحہ عمل تلاش کیا جائے، لیکن کسی بھی قیمت پر کشمیریوں کو برہمنی سامراج کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے۔ کشمیری ہی سر زمین کشمیر کے مالک ہیں، کوئی ان کو فروخت نہیں کرسکتااور نہ تقسیم کر سکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں کشمیریوں کا غصہ بڑھتا جارہا ہے اور ان کے مطالبۂ آزادی میں شدت پیدا ہورہی ہے۔
پاکستان بجاطور پر ابتدا سے ہی حق خودارادیت اور رائے شماری کا ترجمان اور عالمی وکیل رہا ہے۔ اس لیے قومی سلامتی پالیسی میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ذکر نہ ہونا حیران کن بھی ہے اور سخت خطرناک بھی۔ ایسی شکل میں اس کو قومی سلامتی پالیسی کا نام دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ پاکستان کو کس سے خطرہ ہے؟ ہندستان سے خطرہ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کی سب سے بڑی بنیاد مسئلہ کشمیر نہیں ہے؟
ہندستان نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے کشمیر میں جو جارحانہ پالیسی اختیار کی ہے ، اس کا کوئی عکس اس قومی سلامتی پالیسی میں نہیں دکھائی دیتا۔ پاکستان اقتصادی ترقی کو بظاہر اس پالیسی کے ذریعے سے آگے بڑھانا چاہتاہے، لیکن بھارت، کشمیر میں عالمی سطح پر ایسے دُور رس اقدامات کر رہا ہے، جن سے پاکستان کی معاشی پالیسی کے دھندلانے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہندستان کشمیر ی عوام کی تحریک آزادی اور حق خودارادیت پر ضرب لگا رہا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ کشمیریوں میں ایسی ذہنی اور فکری قوت ہے کہ وہ از خود اپنی صلاحیتوں سے کشمیر میں تعلیم، صحت اور تجارت و صنعت و حرفت کے بڑے بڑے ادارے قائم کرسکتے ہیں۔
ہندستان، اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے کشمیرکے مسئلے پر پاکستان کو نقصان پہنچانے اور مات دینے میں سرگرم ہے، لیکن پاکستان کی سلامتی پالیسی دستاویز، بھارتی حکمت کاری کا ادراک کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ملک کی قومی سلامتی پالیسی بنانے والوں کا فرض ہے کہ وہ ان سوالات کو نظرانداز نہ کریں اور کشمیری قوم کے کرب اور مسائل اور مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو سمجھ لیں۔ ہندستان نے ۵؍ اگست کے اقدامات سے جموں و کشمیر کی وحدت مٹانے کی احمقانہ کو شش کی ہے اور تاریخ کے اوراق جلائے ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کئی اجلاس بھی اس صورتِ حال کو مضحکہ خیز بنانے میں بھارتی طرف داری کا کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔ اگر حکومت پاکستان تاریخ کے ان سوختہ اوراق کو اپنی قومی پالیسی دستاویز میں شمار نہیں کرتی، تو جان لیجیے اس کا بہت منفی پیغام عوام تک پہنچے گا۔ پھر کشمیری قوم کو اپنی تاریخ آپ لکھنے سے زیادہ دیر تک روکا نہیں جاسکے گا۔
صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، جب بھی کسی دوسرے شہر یا ملک میں پہلی بار جانا ہو، تو اس علاقے کا پریس کلب ہی پہلی منزل ہوتا ہے۔ خبر وہاں سے ملے یا نہ ملے، مگر رابطہ، رہبری یا کم از کم خبر نگاری کے لیے رسی کا سرا ہاتھ میں آ ہی جاتا ہے۔اس جگہ کوئی نہ کوئی مقامی صحافی رضاکارانہ طور پر آپ کو بریف کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ باقی یہ آپ کی اپنی پیشہ ورانہ تربیت پر منحصر ہوتا ہے کہ کس طرح اس خبر یا ایشو کو پرکھتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔
۲۰۱۸ء سے قبل جب کشمیر کے مرکزی شہر سرینگر میں پریس کلب موجود نہیں تھا۔ اس لیے دورے پر آئے صحافیوں کے لیے لال چوک سے متصل بی بی سی اور دی ٹیلی گراف جیسے معروف میڈیا اداروں سے وابستہ سینیر صحافی یوسف جمیل کا یہ دفتر پہلا پڑاؤ ہوتا تھا۔ ۹۰ کے عشرے میں چونکہ وادیِ کشمیر کے حالات مخدوش تھے، وہ اس دومنزلہ کوارٹر کی دوسری منزل میں قیام پذیر تھے، جب کہ پہلی منزل میں ان کا دفتر، ڈرائنگ روم اور کچن تھا۔ مغربی ممالک اور دہلی سے آئے صحافیوں کا ایک جم غفیر وہاں موجود ہوتا تھا۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود ، حلم، بُردباری اور آداب میزبانی نبھانا، جمیل صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ میں نے چونکہ صحافت کی تعلیم اور ملازمت دہلی سے شروع کی تھی، اس لیے رپورٹنگ یا چھٹیاں منانے کے لیے سال میں ایک دو بار سرینگر وارد ہوتا تو جمیل صاحب سے ملاقات لازماً ہوتی۔ وہ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور رہنمائی کرتے۔اسی طرح دوسرا ٹھکانہ جہاں باہر سے آئے صحافی دروازہ کھٹکھٹا تے تھے، وہ انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کا سرینگر کا بیورو ہوتا تھا۔ اس کا دفتر بھی اسی لین میں تھا۔
اخبار ان دنوں صرف جموں سے شائع ہوتا تھا، مگر سرینگر میں اس کا بیورو ظفر معراج کی سربراہی میں خبروں کا سرچشمہ تھا۔ کشمیر میں دہلی سے شائع ہونے والے انڈین ایکسپریس اور جموں سے شائع ہونے واے کشمیر ٹائمز کی دھوم تھی۔ ارون شوری کی ادارت میں انڈین ایکسپریس نے تفتیشی صحافت میں خاصا نام کمایا تھا اور آئے دن اس وقت کی کانگریسی حکومت اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف ان کے پاس کوئی نہ کوئی اسٹوری ہوتی تھی۔ ظفر معراج بھی ایک طرح سے جموں و کشمیر کے ارون شوری تھے۔ ان کی تفتیشی صحافت کاری نے تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت کا ناک میں دم کررکھا تھا۔
بات ہو رہی تھی سرینگر پریس کلب کی۔کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر ۲۰۱۸ء کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ واحد صدا تھی، جو صحافیوں کی زندگی کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔اگرچہ پوری دنیا میں ہی اس وقت صحافت بحران کا شکار ہے، مگر کشمیر میں یہ کن حالا ت کا شکار ہے، اس کا ہلکا سا اندازہ سرینگر سے شائع ہونے والے مختلف اخباروں کے اداریوں اور ادارتی صفحات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ایک آزمودہ فارمولہ جس میں پہلے اداروں کی شبیہ داغ دار کی جاتی ہے اور پھر ان کو متنازعہ بتایا جاتا ہے، اس کا استعمال کرکے نہایت بے دردی کے ساتھ پریس کلب کو دھوکے اور فریب کے ذریعے بند کر ادیا گیا۔ یہ ادارہ نہ صرف صحافیوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا تھا، بلکہ باہر سے دورہ پر آئے صحافیوں کے لیے بھی پہلا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ فری لانس یا جو پیشہ ور صحافی، جن کے ادراوں کے سرینگر میں دفاتر نہیں ہیں، ان کے لیے کلب اور اس کے ذریعے پیش کی جانے والی سہولیات کسی نعمت سے کم نہیں تھیں۔
سرینگر میں پریس کلب کا قیام ۲۰۱۸ء میں ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا تھا۔ حکومت نے پریس انکلیو اور لال چوک سے ذرا فاصلے پر ایک سرکاری ادارے کی خالی کی ہوئی بلڈنگ میں پریس کلب بنانے کی پیش کش کی تھی۔ جس کے بعد باضابطہ انتخابات کے بعد انتظامیہ تشکیل دی گئی، جو ایک عرصہ قبل اپنی انتظامی مدت مکمل کر چکی تھی۔ مگر چونکہ ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کے قوانین تبدیل کر دیئے گئے، اس لیے کلب کو نئے قوانین کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کرنے کے لیے کہا گیا۔
جولائی ۲۰۲۱ءکو کلب نے رجسٹریشن کی درخواست دی، اور چھے ماہ بعد دسمبر میں اس کی منظوری آگئی، جس کے بعد فروری میں نئی انتظامیہ کی تشکیل کے لیے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا۔اس کے فوراً بعد بتایا گیا کہ ’’کلب کی انتظامیہ کے خلاف انٹیلی جنس کی منفی رپورٹوں کی وجہ سے رجسٹریشن منسوخ کی جارہی ہے۔ مگر صحافیوں کے ایک گروپ نے ریاستی پولیس کی قیادت میں، جب کورونا وائرس کی وجہ سے پابندیاں نافذ تھیں، بلڈنگ پر قبضہ کرکے ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا اعلان کردیا۔ حالانکہ اس قبضے سے قبل پریس کلب کے اگلے انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا۔ اس گروپ کے ایک ممبر نے ۲۰۱۸ء میں اس کلب کےقیام کے وقت دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا‘ کے ذمہ داروں کو باور کرانے کی کوشش کی، کہ ’’کشمیر کے پریس کلب کو انتخابات کے بغیر ہی تسلیم کرلیا جائے کیونکہ انتخابات کی صورت میں ’علیحدگی پسند گروپ‘ کلب پر قبضہ کرسکتا ہے۔ کشمیر میں تو ویسے صحافیوں کی کئی تنظیمیں ہیں، مگر یہ واحد جگہ تھی، جو سبھی کی مشترکہ وراثت تھی اور سبھی اکٹھے بیٹھتے تھے۔ اس قضیہ کے اگلے ہی دن، جب پریس کلب آف انڈیا سے لے کر دیگر صحافتی انجمنوں نے انتخابات سے قبل اس طرح کے قبضے پراعتراض کیا، تو حکومت نے کلب کو ہی تحلیل کرکے بلڈنگ کو اپنی تحویل میںلے لیا۔ بہانہ یہ بنایا کہ ’’صحافیوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے اور اس سے قانون و نظم کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے‘‘۔
کشمیر میں صحافیوں کے لیے عملی صحافت کا راستہ کبھی آسان نہیں تھا۔اس خطے میں ۱۹۹۰ءسے لے کر اب تک ۱۹صحافی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اس کی کڑی کے طور پر ۲۰۱۸ء میں رائزنگ کشمیر گروپ کے چیف ایڈیٹر اور مقتدر صحافی شجاعت بخاری کو موت کی نیند سُلایاگیا۔آصف سلطان تو ۲۰۱۸ءسے ہی جیل میں ہیں۔ اب حال ہی میں نوجوان صحافی سجاد گل کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے قبل فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو بدنامِ زمانہ ’یوایل پی اے‘ (Unlawful Activities Prevention Act) کے تحت گرفتار کرکے چھے ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل رکھا گیاتھا۔ وہ اب ضمانت پر باہر ہیں۔
پچھلے تین برسوں میں کم از کم ۱۲صحافیوں کو پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔ جبراً لاپتا کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو۱۹۸۹ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمدصادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ تکبیر میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ ۱۹۹۰ء میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ’ٹاڈا‘(TADA) قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ۲۰۱۰ء کی ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموں گریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمز کے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔
اگر دنیامیں کسی بھی صحافت کے طالب علم کو یہ مطالعہ کرنا ہو کہ کس طرح اور کس حد تک اسٹیٹ کسی میڈیا ادارے کو ہراساں اور اس کی مالی حیثیت پر ضرب لگاسکتی ہے تو اس کو سری نگر اور جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کے کیس کو مطالعے میں ضرور لانا چاہیے۔ کشمیر ٹائمز کے سلسلے میں تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو بھی ایک سرکلر جاری کیا گیا کہ ’’چونکہ اخبار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لیے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے‘‘۔ حتیٰ کہ پرائیویٹ سیکٹر اور کاروباریوں کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دُور رہیں۔سابق وزیرداخلہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم ، جو آج کل اپنے کالموں کے ذریعے مودی حکومت کو آزادیِ اظہار پر قد غن لگانے پر خوب تنقید کرتے ہیں، نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر میڈیا کو ہراساں کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ کشمیر ٹائمز کے معاملے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس لیے بھی کچھ زیادہ ہی خار کھائے ہوئے تھی کہ اس کے مالک جموں سے تعلق رکھنے والے ایک وسیع القلب ہندو وید بھسین تھے ۔ ان کے بے باکانہ قلم کو ملک دشمنی ، بنیاد پرستی و انتہا پسندی کے کھاتہ میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ کشمیر ٹائمز کی رپورٹنگ اور ایڈیٹوریل کسی بھی صورت نئی دہلی کو ہضم نہیں ہوتے تھے۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ ۲۰۱۵ء میںاس ادارہ کو سری نگر کا انتہائی جدید پریس زمین سمیت بیچنا پڑے اور سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی‘ ۔
ایک اور کشمیری فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور تھے) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل میں قید رہے۔ مقبول کھوکھرکو ۲۰۰۴ء میں ان دنوںگرفتارکیا گیا، جب جنوبی ایشیائی صحافیوںکی تنظیم ’سیفما‘ کی قیادت میں پاکستانی صحافیوںکا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائی کورٹ نے حکومت سے دومرتبہ کہا کہ مقبول کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لیے جائیں‘‘۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ۱۹۹۱ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں ایک اخبار کے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہایش گاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سرعام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔
کشمیر میں صحافت پریس کلب کے بغیر ۲۰۱۸ء سے قبل بھی کام کرتی تھی۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاید ہی کوئی فرق پڑے گا۔ مگر جس طرح اس کو نشانہ بنایا گیا، وہ دیگر جگہوں پر پریس پر قد غن لگانے کا ایک ماڈل ہو سکتا ہے۔ دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا ‘کی طرح بھارت کے دیگر شہروں میں بھی کلبوں کی بلڈنگیں ، حکومت نے ہی عاریتاً دی ہوئی ہیں۔سرینگر کی طرح اب وہ کسی بھی وقت ان کو واپس لے کر پریس کلب کے ادارے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا سامان کرسکتی ہے۔
گذشتہ سال فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے حوالے سے بدترین سال تھا۔ اس لیے کہ ۲۰۱۴ء میں جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر حملہ کیا تھا اور۲ہزار ۳سو۱۰ فلسطینیوں کو ہلاک کیا تھا، اس سے بڑھ کر اس سال مظالم ڈھائے گئے ہیں اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’بتسیلم‘ (B'Tselem) نے اس بات کا انکشاف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھولنے کی وجہ سے ’بتسیلم‘ جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کو خلاف قانون قرار دینا چاہتا ہے۔
۲۰۲۱ء میں، اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں ۳۱۳ فلسطینیوں کو شہید کیا، جب کہ ۸۹۵ فلسطینیوں کے گھر اسرائیلی فوجیوں نے گرا دیئے اور مسلح اسرائیلی آبادکار، فلسطینیوں کے گھروں کو گرانے کے لیے امریکی ساختہ کیٹرپلر بلڈوزر استعمال کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام کے لیے خود کو ’سراہنے‘ کے لیے یہ ناکافی ہے۔
اسی دوران ایما واٹسن ایک برطانوی اداکارہ کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں ایک پوسٹ پہ بہت سے اسرائیلی مشتعل ہیں، جس پر لکھا ہے: Solidarity is a Verb ۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے ترجمان گیلاڈاردن نے اس پر کہا ہے کہ واٹسن کا پیغام اس کی فلموں کی طرح محض ایک ’افسانہ‘ ہے۔ اقوام متحدہ میں سابق اسرائیلی سفارت کار ڈینی ڈینن نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واٹسن کو یہودیوں کی دشمن قرار دے دیا۔
جب بھی اسرائیلی کسی فلسطینی شہری کو قتل کرتے ہیں تو اس کا جرم ثابت کرنے کے لیے کسی عدالتی کارروائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور نہ بین الاقوامی قانون کا احترام کرتے ہیں، بلکہ وہ عوام کو اشتعال دلانے کے لیے انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہیں یا ان پر الزام دھر دیتے ہیں کہ وہ یہودیت کے مخالف ہیں۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ عوام کو اس بات میں زیادہ دلچسپی ہے کہ کون ’یہودی مخالف‘ ہے، بجائے اس کے کہ کون قاتل ہے اور کون بے گناہ شہریوں کی جان لیتا ہے۔
اسرائیل کی حقائق کے خلاف پروپیگنڈا جنگ کی سب سے زیادہ زد اموات کی تفصیل پر پڑتی ہے۔ وہ ۳۱۳ فلسطینی جو اسرائیلی سیکورٹی افواج کے ہاتھوں مارے گئے، ان میں ۷۱ بچّے تھے۔ اسرائیلیوں نے غزہ میں ۲۳۶، مقبوضہ مغربی کنارے میں ۷۷ فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ جہاں پر اسرائیلی، عیسائی اور مسلمان فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تقریباً وہ تمام فلسطینی جو مغربی کنارے میں مارے گئے ہیں، ان میں سے بیش تر کو مسلح اسرائیلی آبادکاروں نے مارا ہے۔ انھوں نے پہلے تصادم کا آغاز کیا، اور پھر اسرائیلی مسلح افواج نے ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ حکومتی سطح پر انھیں فنڈز دیئے جاتے ہیں، تاکہ وہ مزید گھر تعمیر کرسکیں۔ انھیں تفریحی سہولیات اور روز مرہ اشیاء کی خریداری کے لیے مراعات دی جاتی ہیں اور اس کا بڑا حصہ ۳ء۳ ؍ارب ڈالر امریکی امداد میں سے دیا جاتا ہے۔
’بتسیلم‘ کی تحقیقی رپورٹ‘ اسرائیلی سفاکیت کا شکار ہونےوالوں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے۔ حد یہ ہے کہ یہ وہ معلومات ہیں جو اسرائیلی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں بہت کم جگہ پاتی ہیں۔ اسرائیلی یا امریکی میڈیا میں یہ خبر صرف اسی وقت جگہ پاتی ہے، جب کبھی کبھار کوئی یہودی اس کا نشانہ بنے۔ اس وقت میڈیا برہمی کا اظہار کرتا ہے، مگر ایسے واقعات کم ہی پیش آتے ہیں، حتیٰ کہ گھروں کو گرانے کی خبریں بھی کم جگہ پاتی ہیں، جس پر اسرائیل آہستگی اور تسلسل سے عمل پیرا ہے، اور فلسطینی علاقوں کو اپنے اندر ضم کرتا چلا جارہا ہے۔
’بتسیلم رپورٹ‘ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ۸۹۵ فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا، جب کہ ۲۹۵ گھروں کو گرا دیا گیا۔ ۲۰۱۶ء کے بعد یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جب ایک گھر تباہ کیا جاتا ہے تو خاندان کو بے گھر کر دیا جاتا ہے، اور پھر اسرائیلی فوج انھیں ہراساں کرتی ہے، اور اکثر انھیں نہ صرف اپنے ٹائون سے بھاگ جانے بلکہ ملک تک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمایندہ ڈینی ڈینن یہ پوری طرح جانتا ہے کہ جن فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا، ان میں ۴۶۳ یعنی نصف سے زائد تعداد بچوں کی تھی۔اس سب کے باوجود ۲۹۵گھر تباہ اور ۸۹۵ ؍افراد کو بے گھر کرکے گلیوں میں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ غیر رہایشی ۵۴۸ عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا گیا، جن میں پانی کی ٹینکیاں، کنویں، گودام، زرعی فارم ہائوس، تجارتی عمارتیںاور فلسطینی پبلک مقامات شامل ہیں۔ ۲۰۱۲ء کے بعد یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ احتجاج کرنے والوں پر جلتی آگ کی گولیاں برسانا انصاف کے خلاف نہیں، حتیٰ کہ ایک موقع پر جب ایک نوجوان فلسطینی جو غزہ پر تعمیر کی جانے والی باڑ کے ’بہت قریب‘ تھا اور پرندوں کا شکار کر رہا تھا، اس آگ کا نشانہ بننے کی وجہ سے ہلاک بھی ہوگیا۔
مجھے یقین ہے کہ ’بتسلیم‘ جیسی اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم پر اسرائیل پابندی لگا کر دفن کرنا چاہتا ہے۔ دراصل امریکی میڈیا، اسرائیل کو کسی پیچیدگی سے دوچار نہیں کرنا چاہتا اور نہ اپنے آپ کو اخلاقیات، تہذیب اور انسانی ناشائستگی سے چشم پوشی کی وجہ سے کسی پیچیدگی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔
کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ امریکا کے ایک معروف اخبار نیویارک ٹائمز میں شہ سرخی شائع ہوتی ہے کہ ’’اسرائیل نے ۳۱۳ فلسطینی ہلاک کر دیئے‘‘ اور ذیلی سرخی میں ایما واٹسن کو صرف اس بات پر کہ فلسطینیوں کے انسانی حقوق کا بھی احترام کیا جائے ’یہودی مخالف‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ کیا ’سامی مخالف‘ اصطلاح اب کوئی مفہوم رکھتی ہے؟ یا اسرائیلی پروپیگنڈا اور اشتعال کی بناپر یہ اپنی اہمیت کھو چکی ہے؟
اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے تحت زندگی دیتا اور اپنے طے شدہ قانون کے مطابق اس فانی زندگی کو واپس لے لیتا ہے۔ لیکن امر واقعہ ہے کہ کچھ سعید روحوں کی موت واقعی زندگی کو بے رنگ بناتی اور رنج وغم کی گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کی زندگیاں صرف اللہ کی راہ میں اور اللہ سے اپنے عہدو فا کو نبھانے میں گزرتی ہیں ۔ایسی ہی ایک نہایت پیاری شخصیت حاشربھائی بھی تھے، جو ۱۱ جنوری ۲۰۲۲ءکو ۹۲برس کی عمر میں ربّ کے حضور پیش ہو گئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
میرے شفیق بھائی حاشر فاروقی کا انتقال، جہاں مسلم اُمہ کے لیے ایسا بڑا نقصان ہے کہ جس کا عام لوگوں کو ادراک نہیں، وہیں میرے لیے ذاتی طور پر شدید صدمہ ہے کہ تقریباً ۷۰ برس پر پھیلے تحریکی زندگی اور ذاتی تعلقات کا ایک روشن باب ختم ہو گیا۔ وہ میرے بڑے بھائی کی طرح تھے۔ایک ہم دم دیرینہ تھے، علمی کاموں میں مدد کرنے والے شفیق مدد گار تھے، اور سب سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں اللہ کے لیے محبت کرنے اور دعائیں دینے والے فرد تھے۔
زندگی کے اتنے طویل سفر میں میں نے حاشر فاروقی بھائی کو اسلام کا انسانِ مطلوب، امت کا درد مندفرد اور ایک سچا پاکستانی پایا۔ وہ اپنی نوعیت کے ایک عظیم صحافی ہی نہیں تھے بلکہ ایک مفکر، علمی منصوبہ ساز ،حوصلہ بڑھانے والے دست گیر اور راہیں سُجھانے والے ہمدرد رہنما بھی تھے۔ اسلام کی صحیح ترجمانی کسی خوف اور مصلحت کے بغیر ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انھوں نے اسلام کو اس رنگ میں پیش کیا جس میں قرآن، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے سلف نے پیش کیا ہے اور لبرل طبقے کے انحرافات اور مغربی فکر کے تحت کیے جانے والے سمجھوتوں (Compromises) کا پردہ چاک کیا ۔ پھر اُمت مسلمہ کاہردُکھ اور اس کا ہر مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا اور وہ اس کے بے باک ترجمان تھے۔ ان کا عالم یہ تھا کہ دنیا کے کسی حصے میں بھی مسلمانوں پر کوئی ظلم ہوتا تووہ تڑپ اُٹھتے تھے اور ان کا قلم مظلوم کی دادرسی کے لیے تلوار کی کاٹ ثابت ہوتا تھا۔ امیرمینائی کے بقول:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
میں گواہی دیتا ہوں اور ایک خلق اس پر گواہ ہے کہ دینِ اسلام سے ان کی وابستگی بدن میں دوڑنے والے خون کی مانند تھی۔ اسلامی نظریۂ حیات کی توضیح و تبلیغ اورمسلمانوں کے مقدمے کی پیش کاری کی خاطر وہ زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے، اور اسی راستے پر چلتے ہوئے آخری سانس لیا:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۲۳ۙ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
اسلام پر ہونے والے حملوں اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر وہ محض تڑپنے کی حد تک نہیں رہتے تھے، بلکہ اپنی اس تڑپ کو عمل اور تحریر میں ڈھال دیتے تھے۔ گویا کہ دیکھتے ،سنتے، دوا کرتے اور دعا دیتے ہوئے اپنا عملی حصہ ادا کرتے تھے۔ اور یہ سب کام نہایت قلیل مادی ومعاشی وسائل کے باوجود انجام دیتے تھے ۔ وہ اس انتظار میں نہیں رہتے تھے کہ کون کیا کرتا ہے، بلکہ اس بارے میں فکر مند ہوتے تھے کہ وہ اپنی قوت اورصلاحیت کس حد تک اس مقصد کے لیے نچوڑ دینے کے لیے کتنا وقت صرف کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے گذشتہ صدی کے اواخر میں سلمان رشدی کی شیطانی ہزلیات کا جس تحقیقی ،علمی، تحریکی، تنظیمی ،اور ابلاغی سطح پر حاشر بھائی نے تعاقب کیا، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک امڈتی ہوئی مغربی گستاخانہ لہر سے آگاہ کیا، اس کے ہم گواہ ہیں۔ یہ کوشش ان کے لیے صدقۂ جاریہ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
حاشر بھائی زمانہ طالب علمی ہی سے مسلم کاز سے وابستہ تھے۔ علامہ اقبال ،حسن البنا شہید، قائد اعظم اور مولانا مودودی رحمہم اللہ کے افکار سے گہرے ربط وتعلق نے انھیں روحِ عصر سے جوڑدیا تھا۔اس فکر ی تعلق نے انھیں دین وملت سے مربوط کیا، اور غیرت وعمل سے سینچا۔ برطانیہ کے امپیریل کالج میں وہ علم الحشرات(Entomology) میں ڈاکٹریٹ کے لیے گئے، لیکن مسلمانوں کی حالتِ زار نے انھیں اپنا کیرئیر قربان کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کی خدمت ہی کو اصل کیریئر بنانے پر دل کی گہرائیوں سے مجبور کردیا۔ اس طرح وہ مسلمانوں کے خاموش سپہ سالار بننے کی راہوں پر چلنے کے لیے یکسو ہوگئے۔ ابتداء میں برطانیہ آنے والے مسلمان طالب علموں سے ربط وتعلق بڑھایا اور انھیں علمی مہارت کے ساتھ ،امت اور اسلام سے وابستگی پر ابھارنے کے لیے تدابیر سوچنا شروع کیں۔ الحمد للہ ،اس ضمن میں ان کی کوششوں میں اللہ تعالیٰ نے برکت عطا کی۔ انھوں نے فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس اسلامک سوسائٹی (FOSIS)، یوکے اسلامک مشن (UKIM)، مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ (MET)،مسلم ایڈ، دی اسلامک فائونڈیشن ،مسلم کونسل آف بریٹن (MCB) وغیرہ کی تنظیم وتوسیع کے لیے بہ یک وقت کارکن اور رہنما کا کردار ادا کیا۔
گذشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں اُمت مسلمہ پر دُنیا بھر کے اشتراکی،صہیونی، برہمن اور ملحدیلغار کرنے لگے تو فاروقی صاحب نے اُمت کے دفاع کے لیے سوچا کہ اُمتِ مسلمہ کے ان تمام مسائل کو، ایک جسد واحد کی طرح دیکھا اور پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے تخلیقی ذہن، خوب صورت اسلوب تحریر، مستقبل بین نظر اور تحقیقی ذوق سے کام لیتے ہوئے لندن سے ایک رسالہ نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ اس میدان میں حاشربھائی کی غیرمعمولی فکر مندی اور عمل پسندی کا گواہ بھی ہوں اور ان کامعاون اور ساتھی بھی۔ مالی وسائل ،تحریر وتحقیق اور کتب ورسائل کی فراہمی کے لیے ہاتھ بٹا نے کا اللہ تعالیٰ نے مقدور بھر موقع دیا اور اس سلسلے میں خود مولانا مودودیؒ اور چودھری غلام محمدمرحوم کی تائید اور رہنمائی حاصل تھی۔ اس کے نتیجے میں ایک خواب مئی ۱۹۷۱ء میں پندرہ روزہ Impact International کے نام سے شرمندۂ تعبیر ہوا، اور بہت جلد، دنیا کے تقریباً اسّی ممالک میں متعارف ہوکر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ مگر وائے افسوس کہ ۳۵ برس تک جدوجہد کرنے کے بعدمالی مشکلات کے سبب یہ رسالہ بند ہو گیا۔
امپـیکٹ کسی حکومت یا جماعت کا ترجمان نہیں صرف اور صرف اسلام اور مسلم اُمت کا ترجمان تھا۔ اس کا اصل ہدف جہاں اسلام کو اس کی اصل شکل میں مغربی اور خصوصیت سے انگریزی دان دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، وہیں مسلمانوں کے افکار و مسائل اور اُن پر کیے جانے والے مظالم کی بے باک ترجمانی تھا۔ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امپـیکٹ نے ’مسلم ویو پوائنٹ‘ کے مقابلے میں ہمیشہ ’مسلم ویو پوائنٹس‘ (Muslim View Points) کی اصطلاح استعمال کی، جو آزادیِ رائے اور افکار میں نظریاتی حدود کے اندر تنوع کی غمّاض تھی۔ یہ صحافت میں ایک بڑی روشن مثال تھی کہ صداقت و دیانت کے ساتھ حقیقی تنوع کا اظہار ہی زندگی کے ہمہ پہلوئوں کو اُجاگر کرسکتا ہے۔
۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر بھارتی یلغار نے انھیں مضطرب کیا، اور جب دسمبر میں پاکستان کا مشرقی بازو ٹوٹا تو اس کی ٹوٹ پھوٹ کو انھوں نے اپنی ذات میں اسی طرح محسوس کیا، جس طرح محسوس کرنے کا حق ہے۔ لیکن فاروقی بھائی نے اس مسئلے کے مابعد اثرات سے پاکستان کو نکالنے کے لیے اپنی ذمہ داری بھی ادا کی، اور مغربی دنیا کے مرکزی اخبار ات، ریڈیو سروسز کے ساتھ ساتھ یورپ اور بڑے ممالک کے پالیسی سازوں کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کیا۔ یہ کام اداروں کے کرنے کا تھا، مگر فاروقی بھائی نے مختلف اوقات میں اپنے رفقا برادرم سلیم صدیقی، غزالی خاں، عبدالواحد حامداور اوصاف فاروقی وغیرہ کی مدد سے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی سچی تصویریں مضبوط دلائل وبراہین کے ساتھ پیش کیں۔
حاشر فاروقی بھائی ایک ایثار پیشہ ،قناعت پسند اور سچے صحافی تھے ۔مقصد کی لگن کا دوسرانام حاشر فاروقی تھا۔ ذاتی مفاد کی قربانی دینے کی ایک اعلیٰ مثال تھے، اور عملاً مغربی دنیا میں مسلم صحافت کے حدی خواں تھے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے جو راہیں دکھائیں اورجو نقشۂ کار پیش کیا ، آنے والی نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ ان راستوں کو روشن کریں۔ ہم نے ایک حاشرفاروقی بھائی کی جدائی دیکھی ہے۔ اللہ کے کرم سے اگر درجن بھر حاشر فاروقی اس محاذ کو سنبھالنے کے لیے آمادۂ کار ہوجائیں تو ان شا ءاللہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے مسائل پوری قوت سے دنیا کے سامنے نہ صرف نمایاں ہونے لگیں گے بلکہ امت میں یکجہتی بھی پیدا ہوگی ۔
انسانی رشتوں کے حقوق کی ادائیگی اور اس کی پاس داری میں ہی زندگی کی اصل خوب صورتی ہے۔ رشتوں میں پائے داری کے لیے بے لوث محبت اور پُرخلوص خدمت ازحد ضروری ہیں۔ خداوند کریم نے جہاں ان رشتوں کی پاسبانی کی ہدایت کی ہے، وہیں ان کی اہمیت اور مرتبہ بھی واضح کر دیا ہے۔ بنی آدم کو ربِّ کائنات نے بنیادی طور پر دو طرح کے حقوق دیئے ہیں: پہلاحقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد۔ حقوق العباد کی حفاظت، ان کی ادائیگی اور تکمیل کا راستہ، قرآن و حدیث کی اطاعت و پیروی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
حدیث پاک ہے:’’ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے حُسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں، اس نے کہا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں، اس نے کہا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں، اس نے کہا: پھر کون؟ تو آپؐ نے فرمایا: پھر تیرا باپ، پھر درجہ بدرجہ جو تیرے قریب لوگ ہیں‘‘۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب برالوالدین، حدیث: ۳۶۵۶)
اس حدیث پاک سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ماں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا درجہ باپ سے بڑا ہے۔ اس لیے کہ ولادت کے دوران عورت ایک قسم کے تخلیقی مراحل سے گزرتی ہے۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ والد کی اہمیت کم ہے۔ والد جنّت کے دروازوں میں ایک دروازہ ہے۔ ان کی عظمت کا بیان کون کرسکتا ہے کہ جن کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھنا بھی باعث اجروثواب ہے۔ والدین کی اہمیت اس حدیث سے بالکل واضح ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو۔پوچھا گیا: کس کی ناک یارسولؐ اللہ؟ سرکارؐ نے فرمایا: جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پایا اور پھر جنّت کا حق دار نہ بنا‘‘۔ (مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب رغم انفہ من ادرک ابویہ، حدیث:۴۷۳۴)
اللہ تعالیٰ نے شوہر کو قوّام اور بیوی کو محکوم کا درجہ عطا کیا۔ قرآن میں ان دونوں کو ایک دوسرے کا ’لباس‘ کہا گیا ہے۔ ’لباس‘ سےمراد ایک دوسرے کی اچھائیوں کو سمجھنا اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ دونوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔ اس رشتے میں ذہنی ہم آہنگی کا ہونا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے اپنے شوہر کا احترام لازم کیا، تو اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں کہ خاوند صرف اس بنیاد پر اندھی حاکمیت چلانے لگ جائے بلکہ شوہر کے جو اوصاف اسلام میں بتائے گئے ہیں، اسے ملحوظ رکھیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی ، ابواب الجنائز،ابواب الرضاع،باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجھا، حدیث: ۱۱۱۸)
اسی طرح قرآن کریم میں متعدد مقامات پر انھیں ان کے حقوق کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، اور بعض مقامات پر تنبیہ بھی کی ہے۔ اسی بنیاد پر انھیں ’راعی‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا ہے۔
حدیث پاکؐ ہے: ’’کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سی عورت سب سے اچھی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ کہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے، وہ حکم دے تو اس کی تعمیل کرے، اور اپنی جان و مال کے معاملے میں ایسی کوئی بات نہ کرے جو شوہر کو ناپسند ہو‘‘۔(سنن نسائی، کتاب النکاح، باب أیّ النساء خیر، حدیث: ۵۱۹۹)
دوسری حدیث میں بیان ہے: ’’حضرت اُمِ سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش تھا تو وہ جنّت میں داخل ہوگی‘‘۔ (ابن ماجہ ، کتاب النکاح، باب حق الزّوج علی المرأۃ، حدیث:۱۸۵۰)
’’حضرت ثوبانؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجروثواب کے اعتبار سے وہ دینار بہتر ہے جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو‘‘۔(مسلم ، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک، حدیث: ۱۷۲۲)
دوسری حدیث اس طرح ہے، حضرت انسؓ راوی ہیں: ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہوگئیں تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ مَیں اور وہ اس طرح ہوں گے۔ آپؐ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا‘‘۔ (مسلم، کتاب البّروالصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات، حدیث: ۴۸۷۲)
اسی رشتے کی ایک اہم کڑی بھائی بہن کا تعلق ہے، جو نہایت مقدس اور پاکیزہ ہے۔ اس رشتے کی بھی عظمت کھلی ہوئی ہے۔ بھائی کو بہن کے لیے اس کا مان ہونا چاہیے، اسی طرح بہن کو بھی بھائی کے لیے اس کا فخر بننا چاہیے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے نمونہ بنیں۔ مگر بدقسمتی سے آج ہمارے معاشروں کے موجودہ حالات اس کے برعکس ہیں۔
’’حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریلؑ ہمیشہ مجھے ہمسایہ کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ عنقریب اسے وارث بنادیں گے‘‘۔(بخاری،کتاب الآدب، باب الوصاۃ بالجار، حدیث: ۵۶۷۶)
ایک اور حدیث نے تو اس رشتے کو بڑے جامع انداز میں بیان کیا ہے: ’’ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے حقوق مَیں ادا کرتا ہوں لیکن وہ میرے حقوق ادا نہیں کرتے۔ میں اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں لیکن وہ مجھ سے بُرا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حلم و بُردباری سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ جہالت برتتےہیں۔
آپؐ نےفرمایا: اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تُو کہتا ہے تو گویا تو ان کے چہروں پر سیاہی پھیر رہا ہے اور اللہ ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیرا مددگار رہے گا، جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا‘‘۔(مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب صلۃ الرحم، حدیث: ۴۷۴۶)
حدیث پاک کا حصہ ہے کہ ’’غلاموں کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی پہنائےجو وہ خود پہنتا ہے، اور اس پر کام کا اتنا بوجھ ڈالے، جو اس کی طاقت سے باہر نہ ہو، اور اگر اس پر ایسے کام کا بوجھ ڈالے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور وہ اسے نہ کرپارہا ہو تو اس کام میں اس کی مدد کرے۔(صحیح بخاری،کتاب الایمان، باب المعاصی من أمر الجاھلیۃ، حدیث: ۳۰)
اس حکیمانہ نظام نے ایک ساتھ بیوہ اور یتیم دونوں کی کفالت کا مسئلہ حل کیا۔ یتیم کی کفالت یا سرپرستی کرنے والے کو اللہ پسند کرتا ہے۔ اس کے ولی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے بالغ ہونے تک ا س کے جان و مال کی حفاظت کرے، اسے ستائے نہیں بلکہ رحم دلی سے پیش آئے۔ اسی میں دونوں کی خیروبھلائی کا عنصر پوشیدہ ہے۔
حضرت سہل بن سعدؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَیں اور یتیم کا سرپرست، ہم دونوں جنّت میں اس طرح ہوں گے۔ یہ کہہ کر آپؐ نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب اللّعان، حدیث: ۵۰۰۲)
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ فرمانِ رسولؐ ہے کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن کہے گا: اے میرے بندے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تُو نے مجھے نہیں کھلایا۔ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! میں تجھے کیوں کر کھلاتا، جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرنے والا ہے؟ اللہ کہے گا کہ کیا تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا لیکن تُو نے اسے نہیں کھلایا؟ کیا تجھے خبر نہیں کہ تو اس کو کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے یہاں پاتا؟ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تُو نے مجھے نہیں پلایا۔ تو وہ کہے گا: اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے پلاتا، جب کہ تو خود ربّ العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تُو نے اسے پانی نہیں دیا۔ اگر تو اس کو پانی پلاتاتو وہ پانی میرے یہاں پاتا۔ (مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، حدیث: ۴۷۶۷)
دراصل یہ کھانا کھلانا، پانی پلانا،روپے پیسے یا دوسری چیزوں سے مدد کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ تو ان کا حق ہے، جو اللہ ہمارے ذریعہ ادا کراتا ہے۔ اللہ کو وہ ہاتھ بہت پسند ہے جو دینے والا ہو، لینے والا نہیں، یعنی اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کو ذلیل کرے، نہ اس کی تحقیر کرے۔ تقویٰ یہاں ہے۔آپؐ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا۔ آدمی کے بُرا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہرمسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون، مال اور آبرو حرام ہے‘‘۔(مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم، حدیث: ۴۷۵۶)
حدیث پاک کے مطابق: ’’مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہاں سے واپس آنے تک وہ جنّت کے باغ میں سیرکرتا ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب فضل عیادۃ المریض، حدیث: ۴۵۶۷)
حقوق العباد کی ادائیگی مرد و زن پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ کے یہاں فیصلہ انسان کے اوصاف کی بنیاد پر ہوگا۔ جوانسان کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے آئے گا ، خواہ اس نے حق تلفی اپنے خدا کے حقوق پر کی ہو،یا خلقِ خداپر، یا پھر اپنے نفس پر، اسے کامیابی نہیں ملے گی۔ عدل و انصاف اور محبت و اخوت کا ساتھ دینےوالوں کو ہی کامیابی حاصل ہوگی۔ بہتر اور صالح معاشرے کا وجود اسی احترام کا متقاضی ہے۔ [تخریج: سمیع الحق شیرپائو، لاہور]
'اسلام اور مسلمانوں کی برطانیہ میں میڈیا کوریج کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’برطانیہ میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق شائع ہونے والے زیادہ تر مضامین متعصبانہ تاثرات اور پیغام پر مبنی ہوتے ہیں‘‘۔ ’مسلم کونسل آف بریٹن‘ (MCB) [تاسیس ۲۳نومبر ۱۹۹۷ء] کے ’سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ‘ (Centre for Media Monitoring) نے اپنی رپورٹ میں ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء کے درمیانی عرصے میں اسلام پر شائع ہونے والے مواد سے متعلق، ۳۴نشریاتی اداروں کے ۴۸ ہزار سے زائد ’آن لائن‘ مضامین اور ۵ہزار ۵سو ویڈیو کلپس کا تجزیہ کیا ہے۔ برطانیہ کی مسلم کونسل کی طرف سے کی گئی تحقیق میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ ان میں تقریباً ۶۰ فی صد مضامین میں اسلام کو منفی انداز سے پیش کیا گیا ہے اور ہر پانچ میں سے ایک مضمون میں اسلام اور مذہب کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جوڑا گیا ہے‘‘۔
۱۶۲صفحات پر مشتمل اس معروضی تحقیق کو برطانیہ کے معروف اخبارات The Mirror اورThe Sunday Times سمیت کئی رسائل و جرائد نے شائع کیا ہے۔ ان اشاعتی اداروں کے متعلقین نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ خبررساں اداروں کا یہ فرض ہے کہ سامعین اور ناظرین تک بغیر کسی تعصب کے تمام حقائق اورسچائی پہنچائیں۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ۵۹فی صد میڈیا آرگنائزیشنوں نے بڑے تسلسل کے ساتھ اسلام اورمسلمانوں کو اپنے متعصبانہ رویوں کے ساتھ پیش کرنے کا کام کیا۔ دائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والے زیادہ تر اخبارات اور جرائد میں ایسا کرنے کے زیادہ آثار پائے جاتے ہیں۔
اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ۴۷ فی صد نشریاتی کلپس کا تجزیہ کیا گیا تو ان میں اسلام اور مسلمانوں کو بڑے منفی انداز سے پیش کیا گیا۔ ہر دس میں سے ایک مضمون میں اسلامی عقائد کی بالکل غلط تشریح کی گئی۔ اس تحقیق میں جو دیگر اہم نتائج اخذ کیے گئے، ان کے مطابق ۷ فی صد مضامین میں چند انتہاپسندوں کے رویوں کو عمومی رنگ دے کر پوری مسلم اُمہ پر تھوپا گیا۔ ۲۵ فی صد مضامین میں اسلام کو ’دہشت گردی‘ اور ’انتہاپسندی‘ سے جوڑا گیا اور ۱۸ فی صد میں اسلام کو سیاسی و عسکری مذہب دکھایا گیا اور ۱۷ فی صد میں اسلام کو محض مشرق وسطیٰ کے مذہب کے طورپر پیش کیا گیا۔
اس تحقیق کی اشاعت کے بعد روزنامہ The Mirror [اجراء:۱۹۰۳ء]کے ایڈیٹر ایلیسن فلپس نے کہا:’’ سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی رپورٹنگ کے سلسلے میں بطور صحافی ہم جو کام کر رہے ہیں، وہ کسی طور مناسب نہیں ہے اور ہمیں اپنے ضمیر سے خود سوال کرنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ میڈیا میں کام کرنے والے ہر فرد کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے، وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ جو مواد بھی لکھےوہ منصفانہ اور ذمہ دارانہ ہو۔ یہ ذمہ داری ان لوگوں کے لیے اور بھی زیادہ اہم ہوجاتی ہے جو خبروں کی رپورٹنگ کا کام کرتے ہیں اور قومی اُمور پر ہونے والی بحث پر رائے دیتے ہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ رپورٹیں اور تجزیے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ میڈیا پر نشر ہونے والی زیادہ خبروں میں غلط بیانی اور تعصب پایا جاتا ہے‘‘۔
روزنامہ دی سنڈےٹائمز [اجراء: ۱۸۲۱ء]کی ایڈیٹر ایما ٹکر نے کہا: ’’میں اس تحقیق اور رپورٹ کا خیر مقدم کرتی ہوں، کیونکہ اس میں پریس اور میڈیا پر تنقید کے حوالے سے پوری ذمہ داری سے کام لیا گیا ہے۔ ہمارےپاس اب بھی غیرجانب داری اپنانے کا راستہ موجود ہے، لیکن خبرپیش کرنے والے کمروں میں فیصلے کرنے والے زیادہ تر لوگ وہی کچھ پیش کرتے ہیں جو عوام سننا، دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں‘‘۔
برطانوی مسلمانوں کی نمایندگی کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ’مسلم کونسل آف بریٹن‘ (MCB) کے سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ کی ڈائرکٹر رضوانہ حامد کا کہنا ہے کہ ’’ یہ تازہ ترین تحقیق اور رپورٹ کسی اخبار،نشریاتی ادارے ،صحافی یا رپورٹر پر الزام نہیں لگاتی، تاہم میڈیا انڈسٹری کے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ جب بھی مسلمانوں اور اسلام کے حوالے سے کوئی بات سامنے آتی ہے، تو عام طورپر اس کی رپورٹنگ صحیح انداز سے نہیں ہوتی اور اس میں کچھ نہ کچھ متعصبانہ رنگ کی ضرور ملاوٹ پائی جاتی ہے۔ میڈیا کے پیشہ ور افراد کو چاہیے کہ وہ کھلے دل سے اس تحقیق کا خیرمقدم کرتے ہوئے معاملات کی جانچ پڑتال کریں اور اپنے صحافتی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اس تحقیق کی سفارشات کو عملی جامہ پہنائیں‘‘۔
اس تحقیق میں میڈیا کی اشاعتوں کے حوالے سے بھی سفارشات پیش کی گئی ہیں اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جب تک جرم ، دہشت گردی یا انتہا پسندی کے حوالے سے کوئی واضح معلومات، حقائق اور معقول جواز موجود نہ ہو، اس وقت تک مسلمانوں کو اس سے جوڑنے، اور اس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ نیوز رومز میں لگے بندھے طریق کار پر عمل کرنے کے بجائے تنوع اور کشادہ دلی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نامہ نگاروں کو ممکنہ تعصبات سے آگاہ کیا جائے اور ان کی رہنمائی کی جائے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ کے مصنف ،صحافی فیصل حنیف کے مطابق: ’’اگرچہ تنقید کرنا میڈیا کا حق ہے اور صرف مسلمانوں یا ان کے کسی رویے کو تنقید سے بچانا ہمارا مقصد نہیں ہے، لیکن اس سلسلے میں جانب داری سے کام نہیں لیا جانا چاہیے۔ ہم اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ اس طرح کی تنقید میں خصوصی احتیاط برتتے ہوئے صرف حقائق کو پیش کیا جائے اور اسلام کے بارے میں کوئی عمومی رائے زنی نہ کی جائے۔یہ تحقیق تعلیم و تحقیق سے وابستگان،نیوز رومز اور صحافی برادری کے لیے یکساں طورپر مفید ہے اور آنے والے برسوں میں یہ انھیں اسلام اور مسلمانوں کے عقائد کی رپورٹنگ کی کوریج کو بہتر بنانے کی طرف رہنمائی کرے گی‘‘۔(The Independent ،لندن، ۱۵جنوری ۲۰۲۲ء)۔(تجزیہ نگار، لندن، انگریزی سے ترجمہ: ادارہ)
تجزیہ نگار، انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز ، واشنگٹن۔ مصنف: The Rich Don't Always Win۔بعض خیالات میں ابہام کے باوجود، تجزیہ نگار نے بڑی جامعیت سے دولت کے ارتکاز، ریاستوں کی بے بسی، سیاست کاری کی فسطائیت اور انسانیت کی تذلیل کا کھیل بے نقاب کیا ہے، ترجمہ: س م خ
امریکا میں پائی جانے والی روایتی سیاسی سوچ___ معاشی عدل و مساوات کے ہر آئیڈیل تصور کو دیوانے کا خواب،جاہلانہ اصلاح کاری اوربائیں بازو کی انقلابی تحریکیت کا نام دیتی رہی ہے۔ ان کے خیال میں ’’ان لوگوں کو اس بات کا کوئی علم ہی نہیں کہ حقیقی دنیا کے معاملات کیسے چلتے ہیں؟‘‘۔ لیکن آج کے دور میں ایسے خیالوں اور خوابوں کی دُنیا میں رہنے والوں کا تعلق صرف بائیں بازو سے نہیں، بلکہ دائیں بازو کی سیاسی و معاشی ماہر ایبی انیس (Abby Innes) کے خیالات بھی جھنجوڑتے ہیں۔ جن کے نزدیک ’’منڈی کی معیشت ہی انسانیت کی حقیقی آزادی کا واحد دائرہ ہے، جب کہ معیشت میں حکومت کا عمل دخل اس آزادی کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘۔ اس نقطۂ نظر کو '’نیو لبرل ازم‘ (Neoliberalism) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
’نیولبرل‘ کا یہ لیبل امریکیوں کے لیے سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔اس لبرل ازم کا بیسویں صدی کے وسط کے ’نیو ڈیل‘ (New Deal) اور ’عظیم سوسائٹی‘ (Great Society) کے علَم برداروں کی سوچ سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جو یہ سمجھتے تھے کہ ’’معیشت میں حکومت کا ایک لازمی کردار ہوتا ہے۔ محنت کی اجرت، اوقات کار کے تعین سے لے کر کاروباری اشتہارات اور کاروباری اداروں کے انضمام تک ہر معاملے میں عوامی مفادات کی نگرانی اور تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے‘‘۔ مگر یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ نیولبرلز کے خیالات ان حدود کے بالکل برعکس ہیں۔ ان کی نظر صرف اپنی صنعتی اور کاروباری کارپوریشنوں کی وسعت، بڑے پیمانے پر گاہکوں کی تلاش اور ہرجگہ پر رسائی تک ہوتی ہے۔ یہ نیولبرلز ’لندن اسکول آف اکنامکس کی تجزیہ کار ڈاکٹرایبی انیس کو قومی دولت بنانے والی ایک معزز دانش ور سمجھتے ہیں، جن کا ’آزادانہ ضابطہ بندی کا تصور‘ ہمیشہ ریاستی عمل سے برتر مانا جا رہا ہے۔
نیولبرلز کا دعویٰ ہے کہ’ ’معاشی کشاکش میں ریاستی عمل کو کم سے کم کرنے کے نتیجے میں معاشرے، بغیر کسی رکاوٹ (frictionless) کے طلب و رسد میں کامل ہم آہنگی حاصل کر تے ہوئے اعلیٰ کارکردگی کے معیارات حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ ’بغیر کسی رکاوٹ کی دُنیا‘ اور اس کامل ہم آہنگی کے ماحول میں سرمایہ دار اور شیئر ہولڈرز (حصہ دار/ساجھی)اپنے منافع کو خودکار طریقے سے سرمایہ کاری اور منافع پانے کے لیے باربار دُہراتے چلے جائیں گے، جس سے عوام الناس کو بہت فائدہ ہوگا‘‘۔
مادر پدر آزاد ’منڈی کی معیشت‘ (Market Economy) کے اس خوش کن نعرے کی جڑیں انیسویں صدی کے اوائل تک پھیلی ہوئی ہیں، جو بیسویں صدی کے وسط تک کافی حد تک کمزور ہوگئی تھیں۔ ۱۹۴۴ء میں ایک معروف ہنگری نژاد معاشی مؤرخ کارل پولانی (Karl Polanyi، م:۱۹۶۴ء) نے مارکیٹ کے دیوتا کی اس پوجا کو ’کھلی فریب کاری‘ قرار دیا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے آخر میں کھلی معاشی فریب کاری کا یہ نظریہ ایک بار پھر بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب زیادہ قوت، زیادہ وسعت اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ واپس آگیا۔
۱۹۷۹ء میں برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کی بطوروزیراعظم کامیابی اور ۱۹۸۰ء کے امریکا میں رونلڈ ریگن کی بطورِ صدر کامیابی کے ساتھ ہی نیولبرل ازم کے بنیادی اصول ایک ’معیاری گیم پلان‘ [یعنی سوچی سمجھی حکمت عملی اور ہدف حاصل کرنے کا لائحہ عمل] کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے یکے بعد صدور نے اسی ’گیم پلان‘ کی اشاعت میں حصہ ادا کیا اور اس پر عمل درآمد جاری رکھا ۔آج چار عشرے گزرنے کے بعد ہم سب اس کے دردناک نتائج اور تکلیف دہ اثرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
آج کا امریکا وہ سب کچھ بن چکا ہے، جسے ڈاکٹر ایبی انیس ’’مادیت پسند یوٹوپیا کا آخری مرحلہ‘‘ قرار دیتی ہیں۔ یہ مرحلہ، بگٹٹ کاروباری اشرافیہ کے لیے ایسی ’چراگاہ‘ کا منظر پیش کرتا ہے، جو دنیابھر کی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ لوگ قومی سیاست کو بدعنوانی کے ذریعے قابو کرتے ہیں۔ انھوں نے غیرمنصفانہ ہتھکنڈوں، استحصالی چالوں اور غیر مساوی معیشت کے ذریعے کروڑوں گھرانوں کو بے معنی مسابقت کی ایک ایسی جہنم میں دھکیل دیا ہے، جہاں وہ نام نہاد مڈل کلاس جیسا معیارِ زندگی پانے اور کھوکھلی نمود و نمائش برقرار رکھنے کے لیے دن رات جدوجہد کر رہے ہیں۔
’سرمایہ پرستوں کی جنّت‘ [یوٹوپیا] کے اس آخری مرحلے میں دنیا بھر کی معیشت پر صرف چند امیروں اور بڑی کارپوریشنوں کا قبضہ ہے۔ انھیں حکومتی اور ریاستی کردار کو ختم کرنے یا محدود کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے۔ انھوں نے حکومتی کردار کو کم کرنے کے بجائے خود حکومتی فیصلہ سازی کے ان اداروں پر قبضہ کرکے اپنے اختیار کو مزید وسعت دے دی ہے۔ ان لوگوں کا قبضہ اب صرف حکومتوں پر ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں پر بھی ہے۔ یہ اپنے ذاتی اہداف اورفائدے کے لیے خود براہِ راست انتخابی سیاست میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ جب یہ مادیت پسند اور مفاد پرست عناصر ان پارٹیوں کی سربراہی حاصل کر لیتی ہیں، تو سیاسی جماعتوں کی حیثیت کاروباری دلالوں (Corporate brokers) سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ پھر ان جماعتوں کا کام صرف عوامی محصولات کی بندربانٹ اورپوری معیشت کی نجی ہاتھوں کے ذریعے نگرانی کروانا رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر ایبی انیس کے مطابق: ’’یہ مقبولِ عام آمرانہ سیاست (populist authoritarian politics) کا ایسامرحلہ ہے، جو پوری کاروباری دُنیا کو گھیرنے کا ایک مؤثر نظام بن جاتا ہے‘‘۔
دولت مندوں اور سرمایہ پرستوں کی اس ’جنت‘ میں پبلک سیکٹر (سرکاری شعبہ) پہلے سے زیادہ بدعنوان اور پرائیویٹ سیکٹر (نجی شعبہ)پہلے سے زیادہ بدمعاش بن جاتا ہے ۔ معاشی اعتبار سے کچلے، سسکتے، پسے ہوئوں اور معمولی آمدنی رکھنے والوں کو ہرموقعے پر خوب نچوڑا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے منافع کو ’سرمایہ کاری‘ یا ’ری انوسٹمنٹ‘ کے نام پر شیئر ہولڈروں کی چاندی اور ایگزیکٹو نشستوں پر اُٹھلانے والوں کو بھاری ادائیگیوں کی صورت میں خرچ کیا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’کیا ہم آج اس سفاک اور رنج و کرب سے بھری ’مادیت پسندانہ جنّت‘ کی تباہ کاری سے بچ سکتے ہیں؟‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ’’یقینی طورپر ایسا ممکن ہے، لیکن یہ صرف اس صورت میں کہ جب ہم اپنی سیاسی توانائیوں اور جدوجہد کو دولت اور طاقت کا ارتکاز کم کرنے پر مرکوز کریں۔ وہ سیاست کاری اور حکومتی و انتظامی کھیل، جو ہمارے مفلوج عصری سیاسی نظام، سرطان زدہ معیشت اور نفرت انگیز ثقافتی تماشے کو دبوچے ہوئے ہے ۔
دولت کے ارتکاز اور سیاسی طاقت کے اس اژدھا کو ہم گذشتہ چار عشروں سے بھگت رہے ہیں۔ ’بلومبرگ بلینیئرز انڈیکس‘ (Bloomberg Billionaires Index)کے مطابق ۲۰۲۱ء کے سال کا اختتام دس امریکی ’گہری تجوریوں‘ (deep pockets)، کے ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زائد ذاتی اثاثوں پر ہوا،جب کہ ۱۹۸۲ء میں فوربز کے بقول: امریکا کے ۴۰۰؍ امیر ترین افراد کی سالانہ فہرست میں ان کے پاس محض ۲؍ارب ڈالر کی دولت تھی۔ اس فہرست میں صرف ۱۳؍امریکی ارب پتی شامل تھے، جن میں سے زیادہ تر پٹرولیم کے کاروبار سے منسلک تھے۔ پچھلے سال امریکا نے ۷۴۵؍ارب پتیوں کی فہرست بڑے فخر سے شائع کی، جن کے مجموعی اثاثے ۵ ٹریلین ڈالر سے زائد تھے۔[دُنیا کے پہلے ۱۰ کھرب پتیوں کے پاس ایک ہزار ۴ سو ۲۸ ؍ارب اعشاریہ ۵ لاکھ ڈالر ہیں۔ ان دس میں صرف ایک فرانسیسی اور باقی ۹؍امریکی ہیں۔حوالہ بالا، ۲۰ جنوری ۲۰۲۲ء]
اس طرح دل دہلا دینے والا یہ سوال آج انسانیت کے سامنے کھڑا ہے کہ ’’کیا یہ فانی انسان، دولت کے اس بے پناہ ارتکاز کو کبھی چیلنج کر سکے گا؟‘‘ اس کا جواب ہے: ’’جی ہاں ضرور‘‘۔
معمولی ذرائع آمدن رکھنے والے عام امریکیوں نے ایسے نظام کو پہلے بھی چیلنج کیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ امریکی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو انیسویں صدی کے اختتام تک یہاں کے انتہائی امیر لوگ بالکل اسی طرح پوری قوم پر چھائے ہوئے تھے، جس طرح آج کے دور کے امیرکبیر پوری دنیا پر مسلط۔ مگر پھر عوامی جدوجہد کے سنہری دور میں انھیں شکست ہوئی اور ۱۹۵۰ء کے عشرے میں امریکا نے ایک ایسے عجیب معاشرے کو جنم دیا، جو اس سے پہلے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا گیا اور یہ تھا بہت بڑے پیمانے پر مڈل کلاس کا معاشرہ۔ اگر آج بھی مالیاتی ارتکاز کے جال کو توڑنے کے لیے ہم اُٹھ کھڑے ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ۲۰۲۱ء آج کے امیر ترین لوگوں کے عروج کا آخری سال ثابت ہو، اور مستقبل کے مؤرخین یہ لکھیں کہ ’’ ۲۰۲۲ء سے ان کے زوال کا دورشروع ہوا اور عوامی جدوجہد نے متوسط طبقے کو دوبارہ وسعت دی‘‘۔(کاؤنٹر پنچ، ۱۰جنوری ۲۰۲۲ء)
سماجی زندگی میں لوگوں کی بڑی تعداد معاشی اعتبار سے کاروبار سے منسلک ہوتی ہے۔ مگر پیسہ کمانے کے باوجود اطمینان کی دولت سے خالی رہتی ہے۔ پیسہ ایک ہاتھ سے آتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے خرچ ہو جاتا ہے یا پھر بنکوں اور تجوریوں میں دفن رہتا ہے۔ یہاں پر کاروبار کی ان مختلف پہلوئوں میں ناکامی اور کامیابی کے عناصر پر نکات کی صورت میں روشنی ڈالی گئی ہے:
خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم!
قرآنِ مجید سے پتا چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ایسی ہیں، جن میں انبیا ؑ مبعوث ہوئے ہیں:
اب یہ ظاہر ہے کہ قرآن خود کہہ رہا ہے کہ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دُنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے،اور دُنیا کی تمدنی تاریخ بتارہی ہے کہ آپؐ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپؐ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہروقت پہنچ سکتی ہے۔
قرآن اس پر گواہ ہے، اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ اِس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا۔ جو کتاب آپؐ لائے تھے، اس میں ایک لفظ کی بھی کمی بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ جو ہدایت آپؐ نے اپنے قول و عمل سے دی، اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپؐ کے زمانے میں موجود ہیں۔ پھر قرآنِ مجید یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دین کی تکمیل کردی گئی ہے ،لہٰذا تکمیل دین کے لیے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۵، فروری ۱۹۶۲ء، ص۵۰-۵۱)