۲۰۲۲ فروری

فہرست مضامین

کشمیر پریس کلب پر ریاستی قبضہ

افتخار گیلانی | ۲۰۲۲ فروری | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، جب بھی کسی دوسرے شہر یا ملک میں پہلی بار جانا ہو، تو اس علاقے کا پریس کلب ہی پہلی منزل ہوتا ہے۔ خبر وہاں سے ملے یا نہ ملے، مگر رابطہ، رہبری یا کم از کم خبر نگاری کے لیے رسی کا سرا ہاتھ میں آ ہی جاتا ہے۔اس جگہ کوئی نہ کوئی مقامی صحافی رضاکارانہ طور پر آپ کو بریف کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ باقی یہ آپ کی اپنی پیشہ ورانہ تربیت پر منحصر ہوتا ہے کہ کس طرح اس خبر یا ایشو کو پرکھتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔

۲۰۱۸ء سے قبل جب کشمیر کے مرکزی شہر سرینگر میں پریس کلب موجود نہیں تھا۔ اس لیے دورے پر آئے صحافیوں کے لیے لال چوک سے متصل بی بی سی اور دی ٹیلی گراف جیسے معروف میڈیا اداروں سے وابستہ سینیر صحافی یوسف جمیل کا یہ دفتر پہلا پڑاؤ ہوتا تھا۔ ۹۰ کے عشرے میں چونکہ وادیِ کشمیر کے حالات مخدوش تھے، وہ اس دومنزلہ کوارٹر کی دوسری منزل میں قیام پذیر تھے، جب کہ پہلی منزل میں ان کا دفتر، ڈرائنگ روم اور کچن تھا۔ مغربی ممالک اور دہلی سے آئے صحافیوں کا ایک جم غفیر وہاں موجود ہوتا تھا۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود ، حلم، بُردباری اور آداب میزبانی نبھانا، جمیل صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ میں نے چونکہ صحافت کی تعلیم اور ملازمت دہلی سے شروع کی تھی، اس لیے رپورٹنگ یا چھٹیاں منانے کے لیے سال میں ایک دو بار سرینگر وارد ہوتا تو جمیل صاحب سے ملاقات لازماً ہوتی۔ وہ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور رہنمائی کرتے۔اسی طرح دوسرا ٹھکانہ جہاں باہر سے آئے صحافی دروازہ کھٹکھٹا تے تھے، وہ انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کا سرینگر کا بیورو ہوتا تھا۔ اس کا دفتر بھی اسی لین میں تھا۔

اخبار ان دنوں صرف جموں سے شائع ہوتا تھا، مگر سرینگر میں اس کا بیورو ظفر معراج کی سربراہی میں خبروں کا سرچشمہ تھا۔ کشمیر میں دہلی سے شائع ہونے والے انڈین ایکسپریس اور جموں سے شائع ہونے واے کشمیر ٹائمز کی دھوم تھی۔ ارون شوری کی ادارت میں انڈین ایکسپریس نے تفتیشی صحافت میں خاصا نام کمایا تھا اور آئے دن اس وقت کی کانگریسی حکومت اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف ان کے پاس کوئی نہ کوئی اسٹوری ہوتی تھی۔ ظفر معراج بھی ایک طرح سے جموں و کشمیر کے ارون شوری تھے۔ ان کی تفتیشی صحافت کاری نے تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت کا ناک میں دم کررکھا تھا۔

بات ہو رہی تھی سرینگر پریس کلب کی۔کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر ۲۰۱۸ء کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ واحد صدا تھی، جو صحافیوں کی زندگی کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔اگرچہ پوری دنیا میں ہی اس وقت صحافت بحران کا شکار ہے، مگر کشمیر میں یہ کن حالا ت کا شکار ہے، اس کا ہلکا سا اندازہ سرینگر سے شائع ہونے والے مختلف اخباروں کے اداریوں اور ادارتی صفحات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ایک آزمودہ فارمولہ جس میں پہلے اداروں کی شبیہ داغ دار کی جاتی ہے اور پھر ان کو متنازعہ بتایا جاتا ہے، اس کا استعمال کرکے نہایت بے دردی کے ساتھ پریس کلب کو دھوکے اور فریب کے ذریعے بند کر ادیا گیا۔ یہ ادارہ نہ صرف صحافیوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا تھا، بلکہ باہر سے دورہ پر آئے صحافیوں کے لیے بھی پہلا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ فری لانس یا جو پیشہ ور صحافی، جن کے ادراوں کے سرینگر میں دفاتر نہیں ہیں، ان کے لیے کلب اور اس کے ذریعے پیش کی جانے والی سہولیات کسی نعمت سے کم نہیں تھیں۔

 سرینگر میں پریس کلب کا قیام ۲۰۱۸ء میں ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا تھا۔ حکومت نے پریس انکلیو اور لال چوک سے ذرا فاصلے پر ایک سرکاری ادارے کی خالی کی ہوئی بلڈنگ میں پریس کلب بنانے کی پیش کش کی تھی۔ جس کے بعد باضابطہ انتخابات کے بعد انتظامیہ تشکیل دی گئی، جو ایک عرصہ قبل اپنی انتظامی مدت مکمل کر چکی تھی۔ مگر چونکہ ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کے قوانین تبدیل کر دیئے گئے، اس لیے کلب کو نئے قوانین کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کرنے کے لیے کہا گیا۔

 جولائی ۲۰۲۱ءکو کلب نے رجسٹریشن کی درخواست دی، اور چھے ماہ بعد دسمبر میں اس کی منظوری آگئی، جس کے بعد فروری میں نئی انتظامیہ کی تشکیل کے لیے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا۔اس کے فوراً بعد بتایا گیا کہ ’’کلب کی انتظامیہ کے خلاف انٹیلی جنس کی منفی رپورٹوں کی وجہ سے رجسٹریشن منسوخ کی جارہی ہے۔ مگر صحافیوں کے ایک گروپ نے ریاستی پولیس کی قیادت میں، جب کورونا وائرس کی وجہ سے پابندیاں نافذ تھیں، بلڈنگ پر قبضہ کرکے ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا اعلان کردیا۔ حالانکہ اس قبضے سے قبل پریس کلب کے اگلے انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا۔ اس گروپ کے ایک ممبر نے ۲۰۱۸ء میں اس کلب کےقیام کے وقت دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا‘ کے ذمہ داروں کو باور کرانے کی کوشش کی، کہ ’’کشمیر کے پریس کلب کو انتخابات کے بغیر ہی تسلیم کرلیا جائے کیونکہ انتخابات کی صورت میں ’علیحدگی پسند گروپ‘ کلب پر قبضہ کرسکتا ہے۔ کشمیر میں تو ویسے صحافیوں کی کئی تنظیمیں ہیں، مگر یہ واحد جگہ تھی، جو سبھی کی مشترکہ وراثت تھی اور سبھی اکٹھے بیٹھتے تھے۔ اس قضیہ کے اگلے ہی دن، جب پریس کلب آف انڈیا سے لے کر دیگر صحافتی انجمنوں نے انتخابات سے قبل اس طرح کے قبضے پراعتراض کیا، تو حکومت نے کلب کو ہی تحلیل کرکے بلڈنگ کو اپنی تحویل میںلے لیا۔ بہانہ یہ بنایا کہ ’’صحافیوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے اور اس سے قانون و نظم کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے‘‘۔

کشمیر میں صحافیوں کے لیے عملی صحافت کا راستہ کبھی آسان نہیں تھا۔اس خطے میں ۱۹۹۰ءسے لے کر اب تک ۱۹صحافی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اس کی کڑی کے طور پر ۲۰۱۸ء میں رائزنگ کشمیر گروپ کے چیف ایڈیٹر اور مقتدر صحافی شجاعت بخاری کو موت کی نیند سُلایاگیا۔آصف سلطان تو ۲۰۱۸ءسے ہی جیل میں ہیں۔ اب حال ہی میں نوجوان صحافی سجاد گل کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے قبل فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو بدنامِ زمانہ ’یوایل پی اے‘ (Unlawful Activities Prevention Act) کے تحت گرفتار کرکے چھے ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل رکھا گیاتھا۔ وہ اب ضمانت پر باہر ہیں۔

پچھلے تین برسوں میں کم از کم ۱۲صحافیوں کو پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔ جبراً لاپتا کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو۱۹۸۹ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمدصادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ تکبیر میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ ۱۹۹۰ء میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ’ٹاڈا‘(TADA) قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ۲۰۱۰ء کی ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموں گریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمز کے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔

اگر دنیامیں کسی بھی صحافت کے طالب علم کو یہ مطالعہ کرنا ہو کہ کس طرح اور کس حد تک اسٹیٹ کسی میڈیا ادارے کو ہراساں اور اس کی مالی حیثیت پر ضرب لگاسکتی ہے تو اس کو سری نگر اور جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کے کیس کو مطالعے میں ضرور لانا چاہیے۔ کشمیر ٹائمز کے سلسلے میں تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو بھی ایک سرکلر جاری کیا گیا کہ ’’چونکہ اخبار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لیے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے‘‘۔ حتیٰ کہ پرائیویٹ سیکٹر اور کاروباریوں کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دُور رہیں۔سابق وزیرداخلہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم ، جو آج کل اپنے کالموں کے ذریعے مودی حکومت کو آزادیِ اظہار پر قد غن لگانے پر خوب تنقید کرتے ہیں، نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر میڈیا کو ہراساں کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ کشمیر ٹائمز کے معاملے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس لیے بھی کچھ زیادہ ہی خار کھائے ہوئے تھی کہ اس کے مالک جموں سے تعلق رکھنے والے ایک وسیع القلب ہندو وید بھسین تھے ۔ ان کے بے باکانہ قلم کو ملک دشمنی ، بنیاد پرستی و انتہا پسندی کے کھاتہ میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ کشمیر ٹائمز کی رپورٹنگ اور ایڈیٹوریل کسی بھی صورت نئی دہلی کو ہضم نہیں ہوتے تھے۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ ۲۰۱۵ء میںاس ادارہ کو سری نگر کا انتہائی جدید پریس زمین سمیت بیچنا پڑے اور سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی‘ ۔

ایک اور کشمیری فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور تھے) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل میں قید رہے۔ مقبول کھوکھرکو ۲۰۰۴ء میں ان دنوںگرفتارکیا گیا، جب جنوبی ایشیائی صحافیوںکی تنظیم ’سیفما‘ کی قیادت میں پاکستانی صحافیوںکا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائی کورٹ نے حکومت سے دومرتبہ کہا کہ مقبول کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لیے جائیں‘‘۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ۱۹۹۱ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں ایک اخبار کے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہایش گاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سرعام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔

کشمیر میں صحافت پریس کلب کے بغیر ۲۰۱۸ء سے قبل بھی کام کرتی تھی۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاید ہی کوئی فرق پڑے گا۔ مگر جس طرح اس کو نشانہ بنایا گیا، وہ دیگر جگہوں پر پریس پر قد غن لگانے کا ایک ماڈل ہو سکتا ہے۔ دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا ‘کی طرح بھارت کے دیگر شہروں میں بھی کلبوں کی بلڈنگیں ، حکومت نے ہی عاریتاً دی ہوئی ہیں۔سرینگر کی طرح اب وہ کسی بھی وقت ان کو واپس لے کر پریس کلب کے ادارے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا سامان کرسکتی ہے۔