۲۰۲۲ فروری

فہرست مضامین

کاروبار کیوں ناکام ہوتے ہیں؟

محمد بشیر جمعہ | ۲۰۲۲ فروری | سماجیات

Responsive image Responsive image

سماجی زندگی میں لوگوں کی بڑی تعداد معاشی اعتبار سے کاروبار سے منسلک ہوتی ہے۔ مگر پیسہ کمانے کے باوجود اطمینان کی دولت سے خالی رہتی ہے۔ پیسہ ایک ہاتھ سے آتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے خرچ ہو جاتا ہے یا پھر بنکوں اور تجوریوں میں دفن رہتا ہے۔ یہاں پر کاروبار کی ان مختلف پہلوئوں میں ناکامی اور کامیابی کے عناصر پر نکات کی صورت میں روشنی ڈالی گئی ہے:

کل کے غریب آج کے مالدار (پہلا دور)

  • عمومی طور پر معاشی اعتبار سے غریب لوگ ،لگن اور جستجو سے آگے بڑھتے ہیں۔
  • ان کی ایک تعداد غربت سے نکلتی ہے اور امارت اور عمارت کی مکین ہو جاتی ہے۔
  • یہ لوگ اکثر اکیلے ہی خاندان کی کشتی کو چلا کر دنیا کے سامنے آتے ہیں۔
  • یہ لوگ خوددار ہوتے ہیں اور ان کی عزت نفس بہت بلند ہوتی ہے۔
  • یہ لوگ اپنی اولاد کو چھاؤں پہنچانے کے لیے اپنی زندگی دھوپ میں گزارتے ہیں۔
  • یہ لوگ محنت اور مشقت کو اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ دن رات کی محنت ان کو تخلیقی ذہن کا حامل بنا دیتی ہے۔
  • کم تعلیم، کم تجربہ، مگر بے پناہ لگن اور جہد مسلسل ان کی ترقی کا باعث ہوتی ہے۔
  • یہ لوگ اپنے آیندہ کل کو بہتر بنانے کے لیے اپنے آج کو خلوصِ نیت اور محنت سے خرچ کرتے ہیں۔
  • یہ لوگ اپنی عزتِ نفس کی بقا کے لیے نقل مکانی کے متلاشی ہوتے ہیں اور اس راہ میں بہت سی قربانیاں بھی دیتے ہیں۔
  • وہ ہر چھوٹی سی چیز کو موقع اور امکانات کی دُنیا سمجھ کر استعمال میں لاتے ہیں۔
  • محدود تصور کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کرتے ہیں۔
  • کسی کے ساتھ شرکت تو کرتے ہیں مگر معاہد ہ نہیں کرتے۔ ’دیکھ لیں گے‘، ’ہو جائے گا‘ کا لہجہ اختیار کرتے ہیں۔
  • بعض لوگوں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔
  • کسی سے پیسہ لیا، لیکن اس کی نوعیت متعین نہیں کی کہ یہ قرض ہے یا سرمایہ کاری۔ بعد میں اس رقم کی واپسی کے وقت جھگڑے کورٹ کچہری تک لے جاتے ہیں۔
  • بے نامی ریکارڈ رکھا جاتا ہے، کام بڑھ جائے تو اپنی ملکیت اور جائیداد دوسروں کے نام کردی جاتی ہے ۔
  • اسے تحریر ی صورت نہیں دی جاتی کہ یہ امانت ہے یا ہبہ ہے۔
  • اپنے اثاثوں کی فہرست اپنی ذات کی حد تک چھپاکر رکھتے ہیں۔
  • عموماً یہ لوگ ٹیکس کو بوجھ سمجھتے ہیں اور کچھ خیرات کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کردیا۔
  • ٹیکس ریاست کا حق ہے ،ہمیں اپنا فرض پورا کرنا ہے اور ہم خیرات کرکے ریاست کے فرض سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔

ترقی اور عروج کا دور (دوسرا دور)

  • ان کی ترقی بغیر منصوبہ بندی کے ہوتی ہے۔
  • بعض اوقات افزائش اپنی صلاحیت سے باہر ہوجاتی ہے اور معاملات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔
  •  غربت اور مشکل حالات بہت کچھ سکھا دیتے ہیں، جس کے باعث وہ بہت محتاط رویہ رکھتے ہیں۔
  • اپنی فاضل آمدنی کو پلاٹس میں لگا لیتے ہیں، اور ان سے چند سالوں کے بعد کثیر فائدہ ملتا ہے۔
  • بچّے ہوتے ہیں، تعلیم بھی دلواتے ہیں، لیکن نہ تو وقت دے سکتے ہیں اور نہ تربیت کرسکتے ہیں۔
  • بچوں کی کیریر پلاننگ نہیں ہوتی۔
  • بڑے مکانات پر بڑا سرمایہ لگ جاتا ہے ، لیکن اولاد کی کاروبار کے تسلسل کے حوالے سے تربیت نہیں ہوتی۔
  • اپنی دولت کے اظہار یا عزّت کے نام پر بچوں کی شادیوں پر بڑی رقم خرچ کرتے ہیں۔
  • انھیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ غیر معمولی فرا وانی، ناانصافی اور حق تلفی کے بغیر نہیں آسکتی۔ اور یہ نا انصافی غلط بیانی، دھوکا دہی، حق تلفی، چوری اور ٹیکس کی ادائیگی میں ہوشیاری اور وراثت کی تقسیم میں کوتاہی کے باعث ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ دولت اور فراوانی نہ تو ان کو راس آتی ہے اور نہ اولاد ہی کو فائدہ دیتی ہے۔

 خطر ناک حالات اور زوال کا دور (تیسرا دور)

  • چونکہ منصوبہ بندی اور متبادل وسائل کی کمی ہوتی ہے، لہٰذا کوئی ایک جھٹکا کاروبار بٹھا دیتا ہے۔
  • بعض اوقات بیماری یا موت کے باعث پورا خاندانی وقار زمین بوس ہوجاتا ہے۔
  • بعض اوقات کسی رشوت خور سرکاری ملازم کی خواہش پوری نہ کرنے پر کمزور بنیادوں پر کھڑا  پورا بزنس بیٹھ جاتا ہے۔
  • بعض اوقات مقابل لوگوں، اور قریبی رشتہ داروں کا حسد بھی تباہی کی جانب لے جاتا ہے۔
  • چونکہ کاروبار کی قانونی ملکیت تحریری طور پر نہیں ہوتی اور ٹیکس میں خیانت ہوتی ہے، نیز صحیح آمدنی اور اثاثہ جات کے اعتراف کی کمی ہوتی ہے ، اس لیے کاروبار کا تسلسل خطرے میں رہتا ہے۔ ہر کام کو کرنے اور کرانے کے لیے کرپشن کے پل کو پار کرنا ہوتا ہے۔
  • اس قسم کے لوگ عام طور پر پولیس اور درمیانے درجے کے سرکاری لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں، جس سے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ کشتی میں ایک سوراخ ہی ڈوبنے کے لیے کافی ہے۔

ناکامی کی ذاتی وجوہ اور رویہ

  • کاروبار کا مقصد اور اس کی سمجھ نہ ہونا۔ کیا، کیوں، کیسے، کب، کہاں اور کون کی سمجھ نہ ہونا۔
  • بغیر تجربے کے کوئی کام شروع کرنا، مگر کام کرنے کی اہلیت تو ضروری ہے۔
  • بغیر تربیت کے کام کرنا جسے آپ جانتے نہیں ہیں۔
  • وہ لوگ جو زندگی بھر ملازمت کرتے رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد کاروبار شروع کرتے ہیں تو عموماً ناکام ہوجاتے ہیں۔
  • دوسروں کے کندھے پر بغیر کسی تحریری اور معقول معاہدے کے سرمایہ کاری کرنا۔
  • ہر کام خود کرنا اور دوسروں پر اعتماد نہ کرنا۔
  • بچت محفوظ نہ رکھنا،ذاتی اور کاروباری دولت کا خلط ملط ہوجانا۔
  • صحت کا خیال نہ رکھنا، شدید بیماری یا گھر کے کسی اہم رکن کی موت انسان کو توڑ دیتی ہے۔
  • خود غرض طرزِعمل انسان کو غیر معروف بنادیتا ہے۔
  • کاروبار میں کبھی جھوٹ بولا گیا ہو تو زندگی بھر کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
  • احساسِ ذمہ داری کا نہ ہونا اور سنجیدگی کا فقدان ۔
  • نیٹ ورک اور تعلقات عامہ کا نہ ہونا۔
  • مشورے کو ماننے کے بجائے محض بحث کرنا اور لوگوں سے اُلجھنا اور اپنے راز افشاںکردینا۔
  • اچانک کسی بڑے پراجیکٹ میں ہاتھ ڈالنا اور پروفیشنل لوگوں سے حقائق جانے بغیر بڑی ذمہ داری لے کر کاروبار کا ڈوب جانا۔

ذاتی وجوہ جن کا تعلق شخصیت  سے ہـے

  • اس بات کا علم نہ ہونا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟
  • معاملات میں حُسن نیت کا نہ ہونا اور حقوق العباد(جن میں ملازمین بھی شامل ہیں) کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا۔
  • خود سری اور لوگوں کی بات اور مشوروں کو نہ سننا۔
  • تکبر اور ترش روئی اپنانا، تلخ باتیں کرنا، کھری کھری سنا دینا اور خوش مزاجی کا نہ ہونا۔
  • اپنے معاملات کا منظم اور مربوط نہ ہونا۔
  • ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے دوسروں کو ذمہ دار ٹھیرانا۔
  • سستی، کاہلی اور تساہل اور کام سے جی چرانا اہم معاملات سے لا پروا ہونا۔
  • ہر وقت حالت خوف میں رہنا اور مستقل مزاجی نہ رکھنا۔
  • صحیح لوگوں سے رابطہ نہ ہونا۔
  • جوکھم اور رسک کا نہ لینا، محض سوچتے رہنا۔
  • کساد بازاری کے وقت اپنے قیمتی اثاثہ جات بیچنا۔
  • بری عادات میں ملوث ہونا۔
  • عقل، ہوشیاری،مفاہمت اور مفاہمانہ رویہ کی کمی۔
  • رائے کی قربانی کے جذبہ کی کمی۔
  • معمولی منافع کی اہمیت کو نظرانداز کرکے بڑے منافع ہی پر نظر رکھنا۔

بڑی تصویر کا نہ ہونا اورتحریری معاملات میں کمی

  • بھائیوں، اولاد، والدین، قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کا کاروبار میں بغیر کسی تحریر اور ضابطے کے داخل ہونا اور نفع میں سے رقم لینا۔
  • باہم مزاجوں کا اختلاف، اور اس میں ضد کرنا۔
  • کاروباری معاملات ضبط تحریر میں نہ لانا اور صرف زبانی کلامی پر گزارا کرنا۔
  • امانت داری اور سچائی اور انصاف سے ہٹ کر کاروباری معاملات چلانا اور ذاتی اور غیرضروری اخراجات کاروبار کی مد میں ڈالنا۔
  • شریک کاروبار لوگوں کا کاروبار پر قبضے کی کوشش کرنا اور دیگر افراد کو بے وقوف بناکر، دھوکا دے کر یا غلط بیانی کرکے نکالنا۔
  • والدین کی وراثت کی تقسیم میں ناانصافی، حیلے اور حجت کے ذریعے انصاف کے تقاضوں کا پورا نہ کرنا۔’جس پر جس کا قبضہ ہے، وہی اس کا ہے‘ کے اصول پر وراثت کا بٹوارہ ہونا۔
  • تسلسل کی منصوبہ بندی کا نہ ہونا۔ میرے بعد کاروبار کس انداز سے چلے گا، نہ غور اور نہ ہی فکر۔

 قانونی معاملات

  • قانون اور کاروباری روایت کا علم نہ ہونا۔
  • مارکیٹ کلچر سے عدم واقفیت اور مارکیٹ کے ضابطوں کو نہ سمجھنا۔
  • کاروبار کی باضابطہ شکل نہ ہونا۔انفرادی کاروبار ہے، شراکت ہے یا کمپنی ہے؟
  • ٹیکس دینے کے معاملے میں کوتاہی کرنا اور پھر کسی وقت پھنس جانا۔
  • کرپشن کے ذریعے قانونی معاملات سے بچ کر نکلنے کی کوشش۔
  • متعلقہ قوانین کے معاملے میں مشاورت اور فہم کی کمی۔
  • تحریری معاہدہ کا نہ ہونا اور جن کے ساتھ معاملات ہیں، وہ طاقتور اور پریشان کن بھی ہیں۔
  • ٹریڈ مارک یا پیٹنٹ رجسٹر نہ کروانا۔

 مالیاتی ا مور اور فنانس

  • بغیر تجربہ، معلومات اور فیزیبیلیٹی کے کام شروع کرنا، اور ابتدا ہی میں غیرضروری اخراجات کرلینا۔
  • سرمایہ کی کمی اور تسلسل کے ساتھ کیش کی موجودگی کا نہ ہونا،اور ادھار ہی پر معاملات کو چلانا۔
  • صرف بک کیپنگ کروانا مگر اکائونٹنٹ کا نہ ہونا۔
  •  سود کے معاملات میں ملوث ہونا،اپنی اہم اور قیمتی پراپرٹیز کو گروی رکھوالینا۔
  • سفید پیسوں کا الگ اور سیاہ پیسوں کا الگ الگ بنک اکاؤنٹ ہونا۔ پھر اسی سیاہ کو سفید کرنے کے لیے وہ طریقہ اختیار کرنا جس کے باعث کاروبار میں اعتبار کی کمی ہوجائے۔
  • اپنے اخراجات پر کنٹرول نہ ہونا۔
  •  مشترکہ کاروبار میں، جس میں ’محنت، سرمایہ اور تقسیم‘ کا فارمولا مختلف ہو، اپنے ذاتی اثاثہ جات کی زکوٰۃ کو کاروبار میں ’چیریٹی‘ (خیرات) کے نام سے چارج کرنا۔
  • دکھاوے کی خاطر زیادہ کرایہ کا بڑا دفتر اور مکا ن لے لینا اور اَنا کی خاطر بڑے اخراجات کرنا۔
  • قسم کھاکر اپنی لاگت زیادہ ظاہر کرنا اور کہنا کہ اتنے میں تو گھر کی خرید ہے۔
  • افسوس کہ اکثر صورت میں ہمارا دینی طبقہ بھی اس معاملے میں ملوث ہے۔ ٹیکس کی ادائیگی میں ان کا جو تصور اور رویہ ہے، علمائے کرام کو اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بہت سے دین دار لوگوں کی جانب سے ٹیکس ڈاکومنٹ پر جو دستخط کیے جاتے ہیں اس میں سچائی کافی فاصلے پر ہوتی ہے۔

 مارکیٹنگ کے حوالے سے

  • مارکیٹ اور گاہکوں کو سمجھنے میں غلطی اور گاہکوں کو متوجہ کرنے کا پلان نہ ہونا۔
  • گاہکوں کے ساتھ تکلیف دہ رویہ اور گاہکوں کے ذہن اور نفسیات کے علم کی کمی۔
  • کوالٹی مال کا فراہم نہ ہونا۔
  • معاشرے کے مزاج سے ہٹ کر اشتہار بازی کرنا۔
  • بغیر طلب کے سپلائی کرنا اور گاہکوں کی ضروریات کا اندازہ نہ ہونا۔

کاروباری حکمت عملی کے حوالے سے

  • صورت حال کی نوعیت پر توجہ نہ دینا اور فیصلہ نہ کرنا۔
  • حالات سے بے خبری اور صرف ردِعمل کا شکار رہنا۔
  • کاروباری معاملات کو استطاعت سے زیادہ پھیلانا۔
  • ایسا کاروبار شروع کردینا جس میں مقابلہ سخت ہو اور نفع کی گنجائش نہ ہو۔
  • کاروبار اور اسے چلانے کے طریقوں کا دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نہ ہونا۔
  • صر ف ایک ہی گاہک یا چند گاہکوں پر تکیہ کرتے رہنا۔
  • اپنے حریفوں کو کمزور سمجھنااور اپنے حلیفوں پر اندھا بھروسا کرنا۔
  • ناکامیوں سے سبق لینے کی کمی۔

 انتظامی حوالے سے وسائل کا درست استعمال نہ کرنا

  • کمزور انتظامی معاملات اور صلاحیتیں اور متفرق انتظامیہ۔
  • چیک پر خود دستخط نہ کرنا۔
  • لوگوں پر ان کی صلاحیت سے زیادہ کام ڈالنا۔
  • کب ’نہ‘ کہنا، کب ’چپ‘ رہنا کا شعور نہ ہونا۔
  • مناسب ٹیم کا تیار نہ کرنا، اہل اور نااہل سے ایک ہی طرح سے معاملہ کرنا۔
  • باصلاحیت اور محنت کرنے والے کاریگروں کی کمی اور جاسوس ملازمین پر انحصار۔
  • ملازمین کی جاب ڈسکرپشن نہ ہونا اور ان کا با اختیار نہ ہونا۔

 چند خاموش اور ناقابل بیان وجوہات

  • اپنے مال کی زکوٰۃ نہ نکالنا۔زکٰوۃ سے بچنے کے لیے طریقے نکالنا۔زکوٰۃ کے لاگو ہونے کی تاریخوں سے کھیلنا۔
  • اپنے مال کی زکوٰۃ تو نکالنا مگر اپنے نفع میں سے صدقات اور خیرات نہ نکالنا۔ بنو ہاشم کا اپنے نفع سے خیال رکھنا کیونکہ ان پر زکوٰۃ خرچ نہیں کی جاسکتی۔
  • اپنے قریبی رشتہ داروں کا خیال نہ رکھنا، قطع تعلق ہونا اورلاپروا ہونا۔
  • سود اور دیگر قسم کے ممنوعہ معاملات کرنا۔سٹہ کھیلنا اور وقتی فائدہ اٹھا لینا۔
  • لوگوں کی حق تلفی کرنا، جھوٹ بولنا، غلط بیانی کرکے دوسروں کا نقصان کرکے اپنا فائدہ کرنا۔افواہ یا غلط خبر پھیلاکر لوگوں کو مجبور کرنا کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں۔
  • لوگوں کے جائز حقوق سلب کرنا اور انھیں اپنی شرائط منوانے کے لیے مجبور کرنا۔
  • فون کی خفیہ ریکارڈنگ کرنا اور لوگوں کو بلیک میل کرنا۔خفیہ کیمرے رکھ کر وڈیوز بنانا۔
  • لاگت کے معاملہ میں غلط بیانی کرنا اور جھوٹ بولنا۔
  • جو اخراجات آپ کے اپنے ہیں، انھیں اپنے گاہکوں پر ڈالنا۔
  • ریکارڈ صحیح نہ رکھنا اور نفع میں شریک کو اس کا حق نہ دینا۔
  • مشترکہ پراجیکٹ کی لاگت زیادہ بتانا اور پھر زائد رقم سے اپنا مفاد حاصل کرنا۔
  • اپنے نفع میں سے ملازمین کی غیر معمولی کاوش کا حق نہ دینا۔کام کرنے والے اور اپنے آپ کو مصروف دکھانے والے کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا۔