ایک عرب ملک میں خواتین کا دعوتی اجلاس ہورہا تھا، جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین شریک تھیں۔ان ہی میں ایک خاتون کے خدوخال سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ کوئی عرب نہیںہے۔ میری نگاہ اس پر ٹک گئی۔وہ فصیح عربی نہ سہی، لیکن اہل زبان کی طرح روانی سے بول رہی تھی۔میں نے اسے سلام کیا اور اپنا سرسری تعارف کرایا۔اس نے جواب میں بتایا کہ میرا تعلق سابق کمیونسٹ روس کے اس علاقے سے ہے، جہاں پر قفقاز [کوہِ قاف/کاکیشیا]کی پہاڑیاں واقع ہیں۔ اس کے بعدمیں مجمعے میں دوسری خواتین سے تعارف حاصل کرنے لگی۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اس سے باتیں کروں۔
جس ہوٹل میں میرا قیام تھا، وہاں پہنچنے کے بعدمیرے ذہن میں دن بھر کی مصروفیات گھومنے لگیں۔ اس وقت بھی یہ چہرہ میرے سامنے آیا تو میں اس کے بارے میں سوچنے لگی۔ میں اسی سوچ میں گم تھی کہ دروازے پر ہلکی سی دستک سنائی دی۔جوں ہی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے وہی مسکراتا ہوا چہرہ تھا، جس کے متعلق سوچ رہی تھی۔اس نے اندر آنے کی اجازت چاہی اورمیں نے بلاتاخیر اس کا خیر مقدم کیا ۔وہ اس طرح آئی تھی جیسے میں اسی کے آنے کا انتظار کرتی رہی ہوں۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی اور عشاء کی نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی۔پھر قبلے کی طرف رخ کرکے نماز شروع کردی۔اس دوران میرا ذہن سوالات کی آماج گاہ بنا رہا۔جائےنماز سمیٹنے کے بعد وہ میرے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئی اورکہنا شروع کیا: ’’آپ کا کمرہ تلاش کرنے میں مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی‘‘۔
اس نے کہا: ’’میرا تعلق اصلاً روس کے قفقازی مسلمانوں سے ہے۔میرے گھر کے لوگ مسلمان تھے ، بلکہ میرے اجداد اور خود میرے والدکا شمار بھی علما میں ہوتا تھا۔ ایک دن میرے دادا، پردادا اور ہر اس شخص کو جو عالمِ دین کی حیثیت سے معروف تھا، شہید کر دیا گیا ۔میرے دادا اور پردادا نے وہ تمام کتابیں ، جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے ، گھر کے اندر ایک گنبدنما کمرے میں چھپا دی تھیں۔ایک زمانہ وہ آیا کہ گائوں کے اندر صرف میرے والد ایک واحد عالم دین تھے۔ لیکن ان کا کام صرف اتنا ہی تھا کہ شادی و طلاق کے مسائل حل کریں، رمضان اور عید کے چاند کی آمد سے لوگوں کو باخبر کردیں۔اس سے آگے بڑھ کر وہ اسلام کی کسی تعلیم کا ذکر ہم، یعنی اپنی اولاد تک سے بھی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔کیوں کہ ایسی صورت میں خدشہ تھا کہ ہم پکڑ لیے جائیںگے۔ ایک عرصے بعد میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا اور ہم پانچ یتیم بچے اپنی والدہ کے زیر سایہ زندہ رہ گئے۔تاہم، وہ گنبد نما کمرہ عام لوگوں کی نظروں سے بھی پوشیدہ ہی رہا۔ والدہ نے ہمیں نماز سکھانے کے علاوہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص یاد کرائی اور سختی سے منع کر دیا کہ ہم کھلے عام کسی کے سامنے نماز نہ پڑھیں۔والدہ ہمیں عربوں کے قصے سنایا کرتی تھیںاور ہمیں بتاتی تھیں کہ عرب ہمارے لیے تاریک رات میں سورج کی مانند ہیں اور ایک ظالم کمیونسٹ حکومت نے ہمارے اوپر تاریکی کا پردہ ڈال کر ہمیں ساری دنیا سے کاٹ دیا تھا۔ کئی برس تک ہمیں یہ نہیں معلوم ہو پایا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔
اعلیٰ نمبروں میں اپنی ثانوی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد میں نے ماسکو یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ میرا لباس کالج کی باقی تمام لڑکیوں کے لباس سے مختلف ہوتا تھا۔ ان کے لباس میں بے حیائی ہوتی تھی، جب کہ میرا لباس باحیا ہوتا تھا۔اس سلسلے میں مجھے مذاق کا نشانہ بھی بنایا جاتا، مگر میں نے اس لباس کو ترک نہیں کیا۔میں یونی ورسٹی میں لڑکیوں کے ہاسٹل میں دو روسی لڑکیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ یہاں مجھے ایک بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ میں نماز کیسے پڑھوں؟ میرایہ خیال غلط تھا کہ روس میں ہرانسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہے زندگی بسر کرے۔ کیوں کہ محض میرے نماز کا آغاز کرتے ہی ان دونوں روسی طالبات کا احتجاج شروع ہو جاتا تھا۔ ان میں سے ایک طالبہ تو میرے نماز شروع کرتے ہی ٹیلی ویژن یا ریڈیو آن کر دیتی تھی۔آخرکار ایک دن مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوسکا۔نماز مکمل کرنے کے بعد میں نے انھیں دھمکا دیا کہ’’اگر آپ کا یہ رویہ برقرار رہا تو انجام اچھا نہیں ہوگا‘‘۔ اس سے انھیں قفقازیوں کی سختی اور حمیت کا بھی اندازہ ہوگیا۔نتیجتاً انھوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔لیکن نماز فجر اسی کمرے میں پڑھنے کی اجاز ت دینے سے انھوںنے صاف طور پر انکار کر دیا۔چنانچہ فجر کی نماز کے لیے میں ہاسٹل کی چھت پر چلی جاتی تھی اور برف باری کے دنوں میں تو برف باری ہی میں نماز پڑھتی تھی ۔ نماز کے دوران میرے چاروں طرف برف جمع ہو جاتی تھی اور جان لیوا سردی کااحساس ہوتا تھا۔
کئی دن گزر گئے تو نگراں خاتون کو میری حالت پر رحم آگیا اور اس نے مجھے مسلمانوں کی ایک مسجدکے بارے میں بتایا۔ اس نے ایک کاغذ پر مسجد کا پتہ لکھا اور میری مٹھی میںدبا دیا۔میں نے اگلے دن کا انتظار نہیں کیا، بلکہ اسی دن مسجد کی جانب چل پڑی۔مسجد دور تھی، لیکن میں نے اس دوری کو محسوس نہیں کیا، کیوں کہ میرے شوق نے اس دوری کو سمیٹ کر رکھ دیا تھا۔میں مسجد پہنچی تو اچانک میرے سامنے وہی نگراں خاتون تھی۔ اس نے مجھے ’السلام علیکم‘ کہا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟!‘‘ اس نے اثبات میں جواب دیا اور مجھے مسجد کے اندرلے گئی۔میں مسجد کے اندر داخل ہوئی تو سخت حیران تھی، کیوں کہ وہاں نماز باجماعت ہو رہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کیوں کہ میں اپنی زندگی میں پہلی بار اس طرح نماز کا پڑھا جانا دیکھ رہی تھی۔ میں نے تنہا نماز پڑھی ہی تھی کہ دوروشن چہروں والی لڑکیاں جو کہ میری ہم عمرتھیں، میرے پاس آئیں اور پوچھا:’’تم نے جماعت کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟‘‘ میں نے معصومیت سے جواب دیا کہ مجھے جماعت سے نماز پڑھنا نہیں آتا۔
دونوں نے اپنا تعارف کرایا، جو میرے لیے حیران کن تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں بھی اسی یونی ورسٹی میں پڑھتی تھیں، بلکہ اسی کالج میں تھیں، جس سے میرا تعلق تھا۔ان لڑکیوں کا تعلق عرب ممالک سے تھا:ایک کویت کی اور دوسری تیونس کی رہنے والی تھی۔انھوں نے ڈھیلا ڈھالا ساتر لباس پہن رکھا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ ان کا تعلق عرب ممالک سے ہے، تو خوشی کے مارے مَیں رونے لگی: ’’کیا آپ کو سورۂ یٰسین کے بارے میں معلوم ہے؟‘‘ میں نے ان سے سوال کیا۔ انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں، ہمیں یہ یاد بھی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے الگ الگ دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور میری آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ میں نے ان دونوں سے اپنے دل کی گہرائیوں سے کہا: ’’اللہ کی قسم، کیا آپ لوگ مجھے اس سورۂ یٰسین کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟ ہمارے ہاں یہ سورہ مرتے ہوئے مریضوں کو یا صرف مرنے والے پر پڑھی جاتی ہے‘‘۔ ان میں سے ایک لڑکی نے انتہائی سکون سے جواب دیا: ’’یہ سورت چند واقعات اور زندگی بعد موت کے سبق کا مجموعہ ہے۔ ان واقعات میں ہمارے لیے بڑی نصیحت اور سبق ہے، جن سے انسان اپنی زندگی میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا: ’’ممکن ہو تو تم ہمارے مکان تک چلو۔ میں اور میری یہ بہن ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ وہاں چل کر ہم تمھیں اس سورت کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گے‘‘۔ پورا راستہ میں نے سورئہ یٰسین کے بارے سننے اور سمجھنے کے لیے عملاً تڑپ کر گزارا۔ہم مکان پر پہنچ گئے اور سورئہ یٰسین کی تفصیلات اور اسباق مجھے آسمان کی بلندیوں پر لے گئے۔ پھر عصر کی نماز کا وقت ہوا تو انھوں نے مجھے باجماعت نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا، اور زندگی میں پہلی بار ان کے ساتھ نماز باجماعت پڑھی۔اس کے بعد ان سے اس وعدے پر رخصت لی کہ آیندہ ہفتہ وار چھٹی کے دن ان سے پھرملاقات ہوگی۔
ہماری دوستی اسی طرح چلتی رہی، کیوںکہ وہ دونوں میری زندگی اور میرے مستقبل کی رہنما بن چکی تھیں۔ایک دن کویتی بہن کو بیماری کی وجہ سے کویت واپس جانا پڑ گیا۔ یہ میرے لیے پہلا صدمہ تھا۔ ہماری حیرت وپریشانی کے درمیان اس نے کالج کو خیرباد کہا۔ اب تیونسی بہن کے علاوہ میراکوئی ساتھی نہیں تھا۔ موسم گرما کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہوا میں گرمی کی شدت بڑھ گئی تھی۔ اس حالت میں بھی وہ اپنا (ساتر) لباس پہننے پر مصر تھی۔ میں اس سے کہتی تھی کہ موسم گرم ہے اس لباس کی وجہ سے تمھارے جسم سے پسینے کی بُو پیدا ہوتی ہو گی۔ اس نے پریشان ہو کر کہا: ’’کیا تم نے کبھی میرے پسینے کی بدبو محسوس کی ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’نہیں‘۔پھر اس نے وضاحت کی کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور آیت حجاب پڑھ کر سنائی:
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ ۰۠ (النور۲۴: ۳۱) اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بنائوسنگھار نہ دکھائیں، بجز اس کے جوخود سے ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔
یہ سن کر جیسے میرے دماغ میں آتش فشاں پھوٹ پڑا ہو۔میں نے اس سے شکایت کی کہ ’’افسوس ہے تم نے پہلے مجھے اس آیت سے بے خبر کیسے رہنے دیا، مجھے اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟‘‘۔ اس کے بعد میں نے فوراً ویسا ہی لباس سلوایاجس کے بارے میں اس نے وضاحت کی کہ یہ اسلامی لباس ہے۔
شرعی لباس زیب تن کیے ہوئے ابھی مجھے چند روز بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک دن میری اسی تیونسی سہیلی کا فون آیا: ’’میں یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے تم سے ملنا چاہتی ہوں،کیوں کہ مجھے یونی ورسٹی سے نکال دیا گیا ہے اور اب میں جانے کی تیاری کر رہی ہوں‘‘۔ یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ میں اس سے ملنے کے لیے بے قرار ہوگئی اور اس سے ملنے کے لیے اس طرح بھاگتی ہوئی اس کی قیام گاہ کی طرف لپکی، جیسے کوئی کسی ظالم سے بچنے کے لیے بھاگتا ہے۔میری آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی تھی۔ بھاگتے بھاگتے اس کے مکان پر پہنچی۔ دروازہ کھولااور اس کی گود میں جاگری۔ وہ رو رہی تھی اور میں بھی دھاڑیں مار کر رو رہی تھی۔پھر اس نے حسب عادت مجھے دلاسا دیا اور بولی: ’’ہم جب روس تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے تھے، تو یہاں کی حکومت نے ہم سے اس معاہدے پر دستخط لیے تھے کہ ہم یہاں روس کے لوگوں سے میل جول نہیں رکھیں گے۔لیکن جب ہم نے تمھیں دیکھا کہ تم مسلمان ہو اور اسلام کے بارے میں بس برائے نام ہی جانتی ہو، تو میں نے اور میری دوست نے یہ طے کر لیا تھا کہ انجام چاہے کچھ بھی ہو، ہم تمھاری مدد کریں گے۔کوئی بات نہیں ،ہم مشرقی یورپ یا اپنے وطن واپس چلے جائیں گے۔ لیکن سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اب وہ لوگ تم کو تنگ نہ کریں، کیوں کہ تم نے بھی قانون توڑا ہے‘‘۔ میں نے حیرت سے کہا: ’’کون سا قانون؟‘‘ اس نے کہا: ’’تمھارے ملک کا قانون تمھیں غیر ملکیوں سے ایسی بے تکلفی سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں دیتا‘‘۔میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان دونوں سے متعارف ہونے سے پہلے تک میں اس قانون سے واقف نہیں تھی۔میں اس کے ساتھ ایرپورٹ تک گئی۔ مجھے اس وقت نہ کسی کی پروا تھی اور نہ کسی کا ڈر ۔میں ایرپورٹ کے اندر بیٹھی رہی اور میری حالت ایسی تھی، جیسے میں کسی کے مرنے کا غم منا رہی ہوں ۔ میں خود کو رونے سے نہیں روک پارہی تھی، بلکہ میں زور زور سے ہچکیاں لے رہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میرے جسم سے روح پرواز کر چکی ہے۔ میں وہاں سے لوٹی تو غمگین، اداس اوراندر سے ٹوٹی ہوئی تھی۔
ہاسٹل واپس آنے پر ہروقت ایسے لگاجیسے میں زندگی کا لطف کھو چکی ہوں۔ چنانچہ میں اپنے وطن چلی گئی جہاں میرے اہل خانہ رہتے تھے۔جب انھوں نے مجھے اسلامی کپڑوں میں دیکھا تو سب کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی۔ میرا بجھا ہوا چہرہ، جسمانی کمزوری کسی کو نظر نہیں آئی۔ دنیا اپنی جگہ ٹھیر گئی۔ گویا میں نے ان کے ماتھے پر کلنک لگا دیا ہے۔میں نے اپنے بڑے بھائی کو ساری بات سمجھائی۔انھیں مجھ سے ہمدردی تو ہوئی، لیکن وہ میرے سلسلے میں انٹیلی جینس کی تحقیقات کے خدشے کو لے کر پریشان تھے۔ پھر میری بہن اور والدہ کے علاوہ سبھی کو مجھ سے ہمدردی ہوگئی۔یہ اللہ کی رحمت ہی تھی کہ ہمارے گھر ہماری ایک عزیز خاتون آئیں۔ انھوں نے ہمارے گھر میں پیداشدہ کھنچائو کو کم کرنے کا ارادہ کیا اور میری والدہ پر زور ڈالا کہ میں ان کے ساتھ ان کے وطن چلی جائوں۔اس میں خیر کا ایک پہلو یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کی صحیح تلاوت سیکھنے کاموقع عنایت کر دیا اور یہ موقع بھی دیا کہ میں قرآن کا کچھ حصہ حفظ کر لوں۔دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے ان دونوں عرب لڑکیوں سے جو کچھ سیکھا تھا وہ سب کچھ میں ان بچیوں کو سکھاتی تھی تو سخت حیرت کا اظہار کرتی تھیں، اور بڑی پیاس سے سیکھتی تھیں۔
موسمِ بہار کی چھٹیاں تیزی سے گزر گئیں اور میں نے دوبارہ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا۔لیکن اس بارمیں نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ ہروقت میرے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔میں جس جگہ بھی جاتی ہوں یہ لوگ میرا پیچھا کرتے ہیں۔میں یہ جاننے کے لیے کہ میرا پیچھا کرنے والے کون ہیں، میٹرو میں بیٹھنے کا ارادہ ترک کر دیتی۔ چنانچہ میٹرو کے چلے جانے کے بعد وہ میرے ساتھ اسٹیشن پر ہی کھڑے ہوئے دکھائی دیتے۔ یہ معاملہ میرے ساتھ کئی بار پیش آیا۔ ایک دن میں میٹرو ٹرین میں چڑھی تو یہ لوگ بھی اس میں داخل ہوگئے۔جیسے ہی میٹرو کے چلنے کا اعلان ہوا تو میں اس میں سے باہر کود پڑی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ چلتی ہوئی میٹرو کے شیشوں سے چپکے ہوئے تھے اور آنکھیںمیرا تعاقب کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی میرا پیچھا کیا جارہا ہے۔مجھے ڈر ہو ا کہ کہیں گرفتار نہ کر لی جائوں اور مجھ پر جاسوسی کا الزام نہ عائد کر دیا جائے، یا مجھے پاگل نہ قرار دے دیا جائے یا کوئی اور جھوٹا الزام مجھ پر عائد کر دیا جائے۔اور ممکن ہے اس کے بعد وہ مجھے کسی کنویں میں پھینک دیں۔ چنانچہ میں نے تعلیم ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں سفر کر کے انھی خاتون کے گھر گئی جن کے یہاں رہ کر میں نے قرآن سیکھا اور یا دکیا تھا۔اس گھرکے سربراہ پولیس میں کام کرتے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ میری تصویر تمام پولیس والوں کو تقسیم کر دی گئی ہے اور میری تلاش جاری ہے۔ان کے لڑکے نے مجھے مشورہ دیا کہ میں فوراً اپنے گھر والوں کے پاس پہنچوں۔ میرے سفر کا سامان تیار کر دیا گیا اور وہ لوگ مجھے میرے گائوں کے کنارے تک چھوڑ کر چلے گئے۔میں اپنے گھر پہنچی اور جیسا کہ مجھے اندازہ تھا، بے وقت میرے گھر پہنچنے پر گھر کے لوگ پریشان اور خوف زدہ ہوگئے۔میں نے انھیں پوری کہانی سنائی۔
کچھ دنوں کے بعد ہمارے علاقے میں چپکے چپکے قرآن کی تعلیم دینے والے ایک محترم استاد میرے بھائی سے ملنے کے لیے آئے اور انھیں ایک عرب نوجوان کا خط دیا۔ یہ عرب نوجوان اسی یونیورسٹی کے انجینیرنگ کالج میں پڑھتا تھا۔اس خط میں لکھا تھا: ’’پولیس جس قفقازی لڑکی کو تلاش کررہی ہے، میں اس سے شادی کرکے اسے اپنے وطن لے جانے کے لیے تیار ہوں تاکہ اسے پولیس کے چنگل سے بچا سکوں۔ کیا آپ اس کی اور اس کے اہل خانہ کی تصدیق کرتے ہیں؟‘‘ پھر انھوں نے میرے بھائی سے کہا:’’میں نے اس نوجوان کے بارے میںتحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ متشرّع اسلامی ذہن کا نوجوان ہے ، اس کی زندگی کسی بھی قسم کے غبار سے پاک ہے۔ تمھاری کیا رائے ہے؟‘‘ میرے بھائی میرے کمرے میں آئے تو ان کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو رہا تھااور وہ کہہ رہے تھے کہ ’’تم اس نوجوان کو کیسے جانتی ہو؟ اس کو تمھارے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ میں نے انھیں یقین دلایا کہ اس نوجوان اور میرے درمیان کبھی کوئی رابطہ نہیں ہواہے۔البتہ میں نے بتایا کہ وہ دونوں عرب لڑکیاں آپس میں اس لڑکے کے بارے میں باتیں کیا کرتی تھیں کہ وہ باکردار ہے۔ میں نے بھائی سے کہا کہ وہ یہ ساری باتیں محترم استاد کے سامنے رکھیں۔ انھوں نے تمام باتوں کی تائید کی اور یہ بتایا کہ نوجوان نے لڑکی کی(یعنی میری) صرف مشتہرکردہ تصویر دیکھی ہے۔ میرے بھائی متردد ہوئے تو استاد نے انھیں سمجھایا کہ اسلام میں نسل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔پھر بھائی نے میری رائے طلب کی۔ میں نے غور وفکر کے بعد ا س عرب نوجوان سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اس شادی پر ہر شخص حیرت زدہ تھا، کہ ہمارے یہاں شادیاں صرف آپس میں ہی کی جاتی ہیں۔
اپنے شوہر کے ساتھ جب میںان کے وطن گئی تو ابتدائی دنوں میں مجھے بہت پریشانیاں اٹھانی پڑیں۔ دراصل میرے شوہراور ان کے گھر والے گائوں کے اندرچھوٹے سے مکان میں مشترکہ خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ دن بھر تھکا دینے والا کام کرنے کے بعد گھرکی چھت پرجاکر رویا کرتی کہ کیا میں نے اپنا وطن اسی لیے چھوڑا تھا؟ اور پھر اللہ سے بہتری کی دُعا کی۔
اللہ کی ذات بڑی پاک اور اعلیٰ ہے کہ یہ تکلیف دہ ایام بڑی تیزی سے گزر گئے اور میرے لیے ایک گھر الگ سے خاص ہو گیا جس میں گھر کی تمام ضروریات کا سامان موجود تھا۔اللہ نے اپنے رزق کے دروازے بھی کھول دیے۔ اس کے بعد دسمبر ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کا زوال ہوا تو میں واپس آگئی اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ میرے سسرالی وطن میں روسی نسل کے جو مسلمان رہتے ہیں ، میں ہرہفتے ان سے ملاقات کرتی ہوں اور اسلام کی جن تعلیمات سے وہ ناواقف ہیں ، انھیں سکھاتی ہوں۔
اپنی رُوداد سنانے کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور کہا:’’ میں نے سوچا کہ محبت ومودت کے جذبے کے ساتھ آپ کو اپنی داستان سنائوں‘‘۔ اب میری باری تھی کہ میں اس سے اس بات کی اجازت لوں کہ قفقاز کی پہاڑیوں کے دامن میں رہنے والے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی یہ داستان آپ لوگوں کو سنائوں۔ شاید اس طرح ہم قریب سے جان سکیں گے کہ اپنے دین کو جاننے کے لیے وہ کیا کیا تکلیفیں برداشت کرتے آرہے ہیں اور اس راہ میں ان کے ساتھ کیا مشکلات پیش آرہی ہیں اور ہم ان بدترین پابندیوں سے آزادی کے باوجود اسلام اور قرآن کی نعمت کو جاننے، سمجھنے اور اپنانے سے کیوں بے نیاز ہیں؟ (المجتمع، اپریل ۲۰۱۴ء)