۲۰۲۲ فروری

فہرست مضامین

ایمان اور برکت

سید قطب | ۲۰۲۲ فروری | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ

وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰہُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۹۶ (اعراف ۷:۹۶) اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔

یہ اللہ کی سنت جاریہ کا ایک دوسرا پہلو ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ جھٹلانے کے بجائے مان لیتے، اور بدکرداری کے بجائے تقویٰ کی راہ اختیار کرتے، تو اللہ ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا اور بلاحساب ان کو دیتا رہتا۔ آسمانوں سے اور زمین سے ان پر برکات کی بارش ہوتی۔ قرآن نے جو اندازِ تعبیر اختیار کیا ہے، اس کے پیش نظر ہم اسے ہرطرح کی فراوانی سے تعبیر کرسکتے ہیں، جو کسی ایک جنسِ ضرورت کے ساتھ خاص نہیں ہے، یعنی ہرقسم اور ہر نوع کی فراوانی۔

اس آیت میں ہم پر ایک عظیم حقیقت واضح ہوتی ہے۔ اس حقیقت کا تعلق بہ یک وقت انسانی نظریات اور انسانی زندگی کے حقائق سے بھی ہے اور اس پوری کائنات کے حقائق سے بھی۔ اس کے اندر انسانی تاریخ کا ایک اہم عنصر اور عامل بھی بیان کیا گیا ہے۔ دُنیا کے انسانوں کے وضع کردہ نظام ہائے زندگی نے اس اہم عنصر کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے بلکہ اس کا انکار کیا ہے۔

وہ عنصر ہے اللہ پر ایمان اور اس سے تقویٰ۔ یہ عنصر انسانی زندگی کے حقائق سے جدا چیز نہیں ہے اور نہ انسانی تاریخ سے بلکہ ایمان باللہ اور تقویٰ وہ چیزیں ہیں ،جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی برکات نازل فرماتے ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ سے زیادہ ایفائے عہد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

ہم لوگ جو اللہ پر ایمان لانے والے ہیں، ہمارا شیوہ تو یہ ہے کہ اللہ کے اس عہد کو تسلیم کرتے ہیں، اس کی تصدیق کرتے ہیں، اور اس آیت کے مفہوم و مُدعا کی تصدیق میں لمحہ بھر تردّد بھی نہیں کرتے۔ اس لیے کہ ہمارا ایمان تو ہے ہی ایمان بالغیب۔ اس ایمان کے تقاضے کے طور پر ہم اللہ کے اس عہد کی تصدیق کرتے ہیں۔

اس کے بعد، ہم اللہ کے اس عہد پر غوروفکر کرتے ہیں، کیونکہ اللہ نے خود حکم دیا ہے کہ تم قرآن میں غوروفکر کرو، اور غوروفکر کے بعد ہمیں اس بات کی ماہیت اور حقیقت کا علم بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی فطرت زندہ ہے اور فطری حقائق کے ادراک اور قبول کرنے کی اہلیت اس میں موجودہے۔ ایسے شخص کا ادراک سچا ہے اور اس کی انسانی بنیاد صحیح و سالم ہے۔ اس شخص کے ذہن میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ اس کائنات کے حقائق کا ادراک کرسکے۔ یہ تمام اُمور عملی زندگی میں انسان کی کامیابی کے ضامن ہیں۔

اللہ پر ایمان ایک ایسی قوت ہے، جو انسان کے جوہرِانسانیت کو آگے بڑھاتی ہے۔  یہ انسانی شخصیت کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے انھیں ایک جہت اور رُخ پر ڈال دیتی ہے۔ انسانی شخصیت، اللہ کی قوت کی مدد سے اس جہت میں آگے بڑھتی ہے۔ اس زمین پر اللہ کے اقتدار اعلیٰ کے قیام کے لیے جدوجہد کرتی ہے، اور اس کرئہ ارض کی تعمیر میں لگ جاتی ہے۔ نتیجتاًاس کرئہ ارض سے فتنہ و فساد کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور انسان زمین کی تعمیر و ترقی میں لگ جاتا ہے۔ اس طرح کا انسان آخرت کے ساتھ ساتھ، خود اس دُنیا کی عملی زندگی میں بھی کامیاب رہتا ہے۔

اللہ پر پختہ ایمان انسان کو اپنی خواہشات کی غلامی اور دوسرے انسانوں کی غلامی سے نجات دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دوسری تمام غلامیوں سے آزاد صرف اللہ کا غلام انسان ہی اس کرئہ ارض پر خلافت راشدہ کا صحیح نظام قائم کرسکتا ہے۔ ایسا شخص ان لوگوں سے قوی تر ہوگا، جو ایک دوسرے کے غلام ہیں یا اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔

خدا کا خوف ایک دانش مندانہ بیداری ہے۔ اس سے انسان سرکشی، غرور، بےراہ روی جیسے اخلاقی عیبوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کی سرگرمیاں اعتدال اختیارکرلیتی ہیں اور اس کی زندگی کااسلوب سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی پوری جدوجہد محتاط ہوجاتی ہے۔ وہ سرکشی کا ارتکاب کرکے اپنی حدود سے آگے نہیں بڑھتا اور اپنی زندگی کو صالحانہ حدود میں رکھتا ہے۔

ایک صالح انسان کی زندگی توازن اور اعتدال پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ قدم آگے بڑھانے اور پیش آنے والی رکاوٹوں کے درمیان توازن پیدا کرلیتا ہے۔ وہ زمین پرمحنت کرتا ہے اور آسمانوں کی طرف نظریں اُٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ ہوائے نفس ، سرکشی اور حق تلفی سے پاک ہوتا ہے اور اس کے دل میں ہروقت خوفِ خدا ہوتا ہے اور آخرت میں جواب دہی کا احساس غالب ہوتا ہے۔ ایسا شخص ایک صالح، نتیجہ خیز اور مفید کردار کا مالک ہوتا ہے، اور ایسا ہی شخص اللہ کی امداد کا مستحق ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے اُوپر برکاتِ الٰہی کے سائے نزول کرتے ہیں۔ اس کے کام میں خیروبرکت ہوتی ہے اور اس کی زندگی پر فلاح کا سایہ ہوتا ہے۔ اس کی زندگی بظاہر اسباب کے مطابق چل رہی ہوتی ہے، لیکن درحقیقت ایک غیبی قوت اس کی مددگار ہوتی ہے۔

وہ برکات جو مومنین اور اہلِ تقویٰ پر سایہ فگن ہوتی ہیں، جو مختلف النوع ہوتی ہیں۔ اس آیت میں ان کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں، لیکن وہ برکات یقینا موجود ہوتی ہیں۔ اس آیت میں جو اشارات ہیں، ان سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان پر ہرجانب سے برکات کا نزول ہورہا ہوتا ہے اور ہرطرف سے برکت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اس سے مراد ہرقسم و نوع کی برکات ہیں۔ ہرشکل و صورت میں ان کا نزول ہوتا ہے۔ بعض برکات ایسی ہیں، جو لوگوں کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو وہ سمجھتے ہیں۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ سے تقویٰ کرنا، محض نجی مسئلہ ہے، اور اس کا انسان کی عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ایسے لوگوں نے دراصل ایمان کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ وہ دیکھیں کہ اللہ کے نزدیک تو ایمان کا عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ تعلق موجود ہے، اور اس پر خود اللہ گواہی دے رہا ہے، اور اللہ کی شہادت کافی شہادت ہے اور اللہ اسے ان باتوں سے متعلق کرتا ہے جن کے بارے میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ عملی اور اجتماعی زندگی کے معاملات ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں: ’’ہم مسلمان ہیں اور ہمارے اُوپر رزق کے دروازے بند ہیں اور ہمارے حصے میں خشک سالی اور تباہی کے سواکچھ نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ اقوام ایسی ہیں جو نہ مومن باللہ ہیں اور نہ اہلِ تقویٰ میں سے ہیں، لیکن ان پر ہرطرف سے رزق کی بارش ہورہی ہے۔ ان کے پاس بے پناہ قوت ہے اور وہ دُنیا میں بااثر ہیں۔ لہٰذا، سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں جس سنت الٰہیہ کا ذکر ہوا ہے، وہ ہم پر صادق کیوں نہیں آتی؟‘‘

دراصل ایسے لوگوں نے صرف ظاہری اور سطحی پہلو کو لیا ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، وہ مومن اور متقی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے، نہ ان لوگوں نے خالصتاً اللہ کی بندگی اور غلامی کا رویہ اپنایا ہے۔ ان کی عملی زندگی میں لا الٰہ اِلَّا اللہ کی شہادت موجود نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اپنے میں سے بعض غلاموں کی غلامی کر رہے ہیں۔ ’یہ‘ غلام ان کے الٰہ بنے ہوئے ہیں اور ان کے لیے قانون بناتے ہیں، بلکہ ان کے لیے حُسن و قبح کی اقدار بھی تجویز کرتے ہیں۔

میں کہتا ہوں کہ ایسے لوگ کہاں مومن ہیں؟ مومن کا تو فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہٹادے جو ان پر مقتدراعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔ مومن کا تو پہلا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو بھی الٰہ و ربّ نہ بنائے، جو ان پر اپنے قوانین اور اپنا نظام نافذ کرے۔ جب ایسے مدعیان کے اسلاف حقیقی مومن اور مسلم تھے تو ان کے سامنے پوری دنیا سرنگوں تھی، ان پرآسمان و زمین کی برکات کی بارش ہوتی تھی ،اور ان کے ساتھ ان کے ربّ کا وعدہ سچا تھا، کیونکہ وہ خودسچے تھے۔

رہے وہ لوگ جن پر رزق کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، تو یہ بھی سنت الٰہیہ کا ایک حصہ ہے: ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَۃِ الْحَسَـنَۃَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ (اعراف ۷:۹۵)’’پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا، یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں‘‘۔ ان لوگوں پر جو انعامات ہوتے ہیں وہ دراصل ان کے لیے ابتلا و آزمایش ہے، اور یہ ابتلا، مصیبت کی ابتلا سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

 کفّار پر جو انعامات ہوتے ہیں اور اہلِ ایمان پر جو انعامات ہوتے ہیں، ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ برکت ِ الٰہی بعض اوقات ایک قلیل چیز میں بھی اپنے رنگ دکھاتی ہے۔ جب انسان ایک تھوڑی چیز سے اچھی طرح فائدہ اُٹھاتا ہے اور امن و سکون کے ساتھ خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔دوسری جانب بڑی بڑی ترقی یافتہ اور مال دار اقوام ایسی ہیں، جو پریشانی اور  عدم اطمینان کی زندگی بسر کرتی ہیں۔ بظاہر وہ نہایت ہی امن و امان سے زندگی بسرکرتی ہیں، مگر  ان کے افراد کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں ہے۔ افرادِ معاشرہ کےدرمیان بے چینی کا دوردورہ ہے، اور قریب ہے کہ یہ اقوام مکمل طور پر تباہ ہوجائیں۔ سازوسامان کی کثرت مگر اطمینان مفقود ہے۔ ہرچیز کی فراوانی ہے، لیکن لوگ بدکردار ہیں۔ ان کی خوش حالی ہی ان کے بُرے مستقبل کا پتا دے رہی ہے۔ یہ خوش حالی ان کے لیے انتقامِ الٰہی کا سبب ہے۔

اہلِ ایمان کو جو برکات ملتی ہیں،ان کے کئی رنگ ہیں۔ ان کی ضروریات کی چیزوں میں برکت ہوتی ہے۔ انسانی ذات میں برکت ہوتی ہے، انسانی شعور میں برکت ہوتی ہے، پاکیزہ زندگیوں میں برکت ہوتی ہے، اور اس کے اندر سکون واطمینان پیدا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہرطرف سہولیات تو وافر ہوں اور انسان جسمانی اور نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا ہو۔