مضامین کی فہرست


جنوری ۲۰۲۲

فرد ہو یا قوم، نظریے اور مقصود حیات کے بغیر اس کی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس نکتے کو اسرار و رموز میں بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے:

زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن

مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات

(فرد کی زندگی جان و تن کے تعلق سے قائم ہے، اور قوم کی زندگی اپنی قدیم روایات کے تحفظ سے قائم رہتی ہے۔ فرد کی موت جوئے حیات خشک ہوجانے سے واقع ہوجاتی ہے، اور قوم کی موت مقصودِ حیات ترک کردینے سے ہے۔)

نظریۂ حیات کی اہمیت

فرد اور قوم دونوں ہی کی زندگی میں نظریہ، تصورِ حیات اورزندگی کے مقصود کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ قرآن نے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت کو قرار دیا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اس کی سب سے بنیادی دعا ہے اور ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اس دعا کا جواب ہے۔ قرآن پاک میں تخلیق آدم ؑکے واقعے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس کا مرکزی نکتہ انسان کا مقصدِ وجود ہے، یعنی خلافت اور نیابتِ الٰہی اور پورا قرآن اس ہدایت کا امین ہے جو انسان کو یہ کردار ادا کرنے کے لائق بناتا ہے۔

اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز یہ ہے جس انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا، اسے علم الاشیاء سے نوازا۔ اسے عقل، ارادے اور اختیار کی دولت سے مالا مال کیا۔ اس کے اندر خیر اور شر دونوں کا داعیہ رکھا: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o (الشمس ۹۱:۸)، اسے حق و باطل اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت سے نوازنے کے بعد، ہدایت سے بھی نوازا اور کامیابی کی شاہراہ کو روشن کرکے اسے بتادیا کہ جو ہدایت کی پیروی کرے گا وہی کامیاب ہے اور جو اس سے رُوگردانی کرے گا وہ ناکام و نامراد ہے:

فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج  ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸-۳۹) پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسانی زندگی کی سب سے کارفرما قوت نظریہ اور ہدایت ہے۔ اس مثالیے (paradigm ) میں تین چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں:

       ۱-    علم الاشیاء، یعنی انسان کو اس کائنات کے وسائل اور خزانوں کا علم اور ادراک عطا کیا گیا ہے۔ اسی چیز نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی اور اسے نیابت و خلافت کا اہل بنایا۔

       ۲-    عقل اور انتخاب کی آزادی انسانوں کو عطا کی۔ فرشتوں نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ فساد کرے گا‘‘۔ گویا رد وقبول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کوجبر میں نہیں کسا بلکہ اس کو آزادی اور انتخاب کی صلاحیت بھی دی ہے۔ یہ دونوں چیزیں تو سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں مشترک ہیں۔ البتہ اس سلسلے کی تیسری چیز (ہدایت) کے بارے میں (جو انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے) سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں بُعدالمشرقین نظر آتا ہے اور یہیں سے اختلاف کی بنیاد سامنے آتی ہے۔

       ۳-    ہدایت سے مراد اس زندگی کو گزارنے کا اسلوب ، احساس ذمہ داری کی میزان اور آخرت میں جواب دہی کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے انبیاورسل علیہم السلام کو بھیجا گیا، کتابوں اور ہدایت کی روشنی دی گئی اور خاتم الانبیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی اس ابدی ہدایت کی تکمیل کی۔

               فرمایا: اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ قف لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا۝۰ۤۡ غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ o (البقرہ ۲:۲۸۵)’’رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں ، اور اس کی کتابوں، اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں، اور ان کا قول یہ ہے کہ : ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک! ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔

مرادیہ ہے کہ ہدایت وہ چیز ہے جو مقصد تک پہنچنے کی تمام تر جدوجہد کو سہارا عطا کرتی ہے، علم کو انسانیت کے لیے نافع اور سودمند بناتی ہے، اور نیابت و خلافت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے رہنمائی عطا کرتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں علم الاشیاء، آزادیِ انتخاب اور ہدایت کے تین ستونوں پر ہی نظریہ،  مقصد اور منزل کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر نہ زندگی میں انضباط پیدا ہوتا ہے، نہ اصل جوہرِ انسانیت کا اظہار ہوتا ہے، اور نہ تحریک و تحرک کو کوئی راستہ ہی ملتا ہے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے نظریہ ناگزیر ہے، اور یہ سبھی معاشروں اور انسانوں کے لیے ضروری ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہدایت، انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کے لیے   یہ اصول طے کر دیا گیا:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo (الفاتحہ ۱:۵-۶)’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔

انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریہ کا کردار

انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ  جن قوموں اور انسانوں کے سامنے کوئی نظریہ اور منزل تھی، انھی نے اوراقِ تاریخ اور دامنِ تہذیب میں نام پیدا کیا۔ نظریہ غلط ہو یا درست، شر پہ مبنی ہو یا خیر کا علم بردار، دونوں ہی صورتوں میں وہ ہمیشہ زندگی کی نشوونما اور پیش رفت اور ترقی کے لیے، ایک بنیادی محرک رہا ہے۔ البتہ نظریہ اگر حق پر مبنی ہے تو اس سے انسانی زندگی اور دنیائے تہذیب میں خیر اور فلاح کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اگر وہ باطل پر مبنی ہے تو یہ جہان تگ و دو فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

تاریخ کے اس فتوے کو ایک طرف تو ابن خلدون[م:۱۴۰۶ء] نے اپنے انداز میں مقصد، شریعت اور عصبیت کے فریم ورک میں پیش کیا ہے، اور دوسری جانب خود دورِ جدید کے فلاسفۂ تاریخ نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر پی اے ساروکن [م:۱۹۶۸ء]، آرنلڈ جے ٹائن بی[م:۱۹۷۵ء] اور عصرِ حاضر کے دیگر ماہرین تاریخ نے بھی اپنے اپنے انداز میں اس موضوع پر لکھا ہے۔ ان سب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہی قومیں انسانی تاریخ کے اسٹیج پر ابھری ہیں، جن کے سامنے ایک اعلیٰ نصب العین تھا، اور جو اس نصب العین اور نظریے کی بنیاد پر فکری، سماجی، معاشی اور نفسیاتی زندگی کے چیلنجوں کا جواب دینے کا داعیہ، صلاحیت اور جذبہ رکھتی تھیں۔ اس چیز کو گذشتہ ربع صدی کے ماہرین تہذیب و تاریخ: ’انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریے اور افکار کی فیصلہ کن کار فرمائی‘ کے جملے میں پیش کرتے ہیں۔ اس اصول کو ہمارے اہلِ دانش نے فکری و عملی جدوجہد سے مربوط کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء] نے اسے ’اجتہاد اور جہاد‘ سے تعبیر کیا ہے، اور شعرو ادب نے اسے ’قلم اور تلوار‘ کی علامات کی شکل میں پیش کیا ہے۔

یہ تاریخ انسانی کا نہایت صاف اور واضح فیصلہ ہے کہ تہذیبی تبدیلی کے لیے فیصلہ کن عامل قلم ہی ہے۔ قلم سے مراد ہے فکرو دانش اور اخلاق و اصول، جب کہ اس تبدیلی کو روبہ عمل لانے اور اس کی حفاظت کے لیے قوت، تنظیم اور تلوار کا وجود ناگزیر ہے۔ یوں قلم اور تلوار انسانی تاریخ، تہذیب اور زندگی کے لیے دست راست اور ایک دوسرے کے زبردست معاون اور پُشتی بان ہیں۔

۲۰ویں صدی ایک طرف بے خدا فلسفوں کے درمیان کش مکش اور دوسری طرف یورپی قوموں کے درمیان تجارتی و معاشی رقابت کی بنا پر خوں ریز تصادم کی صدی تھی___ اس سے ماقبل متصل ۱۹ویں صدی میں ایوان ترگینف [م:۱۸۸۳ء] نے نہل ازم ( Nihlism :’زندگی ایک   بے معنی اور محض وجودی چیز ہے‘) کے نظریے کو بڑے دعوے سے پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ گذشتہ  دو صدیوں میں جواب دہی کے تصور سے بالا انسان کی مزعومہ سوچ کا سرچشمہ اسی فکر سے پھوٹتا ہے۔ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں اشتراکیت اور پرولتاری، یعنی مزدوروں کی آمریت کا نعرہ بلند ہوا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے وسیع حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے افکار کو تہہ وبالا کر دیا، مگر اپنی غیر فطری بنیاد کے باعث ۷۰، ۸۰ سال کے بعد ہی اشتراکیت کا سورج ڈوب گیا۔اسی درمیان میں فسطائیت (Fascism) کا ڈنکا بھی بجا مگر ایک دوعشروں میں ہی، یہ انسانی تاریخ کی بدترین اصطلاح بن کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ انسانیت کے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ وہی مغربی تہذیب جس نے ۲۰ویں صدی میں سائنسی ترقی کا سہارا لے کر دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا تھا، آج مسلمانوں کو امن کا درس دے رہی ہے؟ پھر سوویت یونین کے انہدام [۲۶دسمبر۱۹۹۱ء] کے بعد فرانسس فوکویاما [پ:اکتوبر ۱۹۵۲ء] نے End of the History میں گویا نظریاتی تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا  مگر چند ہی برسوں میں یہ فکر بھی پانی کے بلبلے کی طرح تحلیل ہوگئی۔

آج دنیا میں ایک بار پھر نظریات کی بالادستی، مقاصد اور ’اقدار بطور اصل کار فرما قوت‘ کے فہم اور حصول کی پیاس بڑھ رہی ہے۔ عصر حاضر میں پیدا شدہ عالمی، تہذیبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی بحران کا حل ایک بار پھر نظریاتی آدرشوں میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اصل بحران،  اخلاقی بحران ہے، نظریاتی شعور کی پستی کا بحران ہے، جس نے انسانی زندگی اور اس کے مستقبل کو خوف ناک چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔

آج اہل فکر ونظر، اقدار اور اخلاق کی کارفرمائی کو زندگی کے فیصلہ کن مظہر کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل اسی وقت روشن قرار دیا جاسکتا ہے، جب ایک ایسا عالمی نظام معرض وجود میں آئے، جو احترامِ آدمیت، اخوت، حریت اور مساوات اور بے لاگ انصاف پر استوار ہو، جو استحصال سے پاک اور انسانوں کے درمیان محبت، امداد باہمی اور مؤدت کا داعی ہو۔ پاکستان کے فکری بانی علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:

وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے، اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت میں سے اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیا جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے، اور اخوت، حریت اورمساوات کے شان دار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو پائیں گے [یکم جنوری۱۹۳۸ء کو  سالِ نو کا پیغام، آل انڈیا ریڈیو، لاہور]

اسی طرح علامہ محمد اقبال ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں:

جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے، اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے، جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نظر کو یکسر بدل کر، اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے… یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ تو قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی، نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اس کا مقصد، باوجود تمام فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔

۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا:

اسلام، فرد کی زندگی کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک ہی کُل کے جزو ہیں، اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ انسان اس آلایشوں سے لبریز اور ناپاک دنیا کا کوئی باشندہ ہے اور وہ اسے کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے، جہاں روح رہتی ہے۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کا وہ روپ ہے جو قیدمکان و زمان میں گھرا ہوا ہے۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کی زندگی سے مذہب عیسوی تقریباً خارج ہوگیا ہے… میری خواہش ہے [اور مجھے یقین ہے کہ] شمال مغربی ہندستان کے مسلمانوں کو ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

گویا اسلام ان نسلی اور علاقائی امتیازات سے بلند ہو کر انسان کو اس کی فطرت کی جانب بلاتا اور اسے ایک تصور جہاں (World View) کی روشنی دیتا ہے کہ جس کی بنا پر منصفانہ نظامِ جہاں (World Order) نموپذیر ہوتا ہے۔

اس وقت جو لوگ نظریے کی کار فرمائی اور اس کی اہمیت کا انکار کر رہے ہیں، وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ مقصد حیات، نظریے، اخلاقی اور سماجی اقدار سے کٹ کر، اور مفاد وعصبیت کی دلدل میں پھنس کر انسان حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنا وہ نظریے اور اخلاق سے دُور ہوتا ہے، اتنا ہی وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے تباہی وبربادی کا سبب بنتا ہے۔نہ اس کی قوم پرستانہ جمہوریت، انسانیت کے لیے ہمدردیِ عمل کا پروگرام پیش کرتی ہے اور نہ ملوکیت یا ڈکٹیٹرشپ ہی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر پاتی ہے۔ ان طرزِ ہائے حکومت کی طرح معاملہ قوموں اور ملکوں کا بھی ہے۔

 تحریکِ پاکستان کی قوتِ محرکہ

پاکستان میں نظریہ پاکستان کو سمجھے بغیر تحریک پاکستان اور اس تحریک کی اصل قوتِ محرکہ کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے وجود کو سمجھنے کی کنجی تحریک پاکستان کا نظریہ ہے۔ اس مناسبت سے سمجھنا چاہیے کہ مسلمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اسلام ہی مسلمانوں کے تشخص کی علامت ہے اور مسلمان ہی اسلام کی پہچان ہیں۔ اس حوالے سے یہ نظریہ کہ’’ مسلمان ہونا تو ٹھیک ہے، مگر اس کا اسلامی ہونا کوئی ضروری تقاضا نہیں ہے‘‘، ایک احمقانہ اور تباہ کن تصور ہے۔ مسلمان اپنی تعریف کے اعتبار سے ایک اُمت کا حصہ ہے، ایک مشن اور مقصد کا علَم بردار ہے، جسے مسلمانیت کی پہچان نے ایک خاص ذمہ داری سونپ دی ہے۔ مسلمان گناہ گار ہو سکتا ہے، مگر وہ اسلام کے تصور جزا و سزا، اور اُخروی جواب دہی کے تصور سے اپنے آپ کو الگ کرلے یا اس کی مسلسل نفی کرے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اس لیے عقیدہ ہی اول وا ٓخر مسلمان کی پہچان ہے۔

یہ عقیدہ انسان کے ذہن میںتین بنیادی تصورات راسخ کر دیتا ہے: lغیر اللہ سے بغاوتl اللہ پر ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگیlزندگی گزارنے کے لیے اللہ، رسولؐ،  قرآن اور آخرت پر ایمان اور قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کی جدوجہد ___ یہ تینوں تصورات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہی مسلم اُمت کی بنیاد ہیں، اور اسی مناسبت سے ہر مسلمان مرد اور عورت کی شناخت متعین ہوتی ہے۔

یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس چیز کو ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے یہ ہندستانی مسلمانوں کی اختراع نہیں ہے، بلکہ وہ پہلے دن سے اسلام کے ایمانی، فکری، تہذیبی تصورات اور اہداف کو قائم کرنے والا نظریہ ہے۔ سورۂ فاتحہ دو قوموں اور دوامتوں کے خدوخال واضح کرتی ہے، فرمایا:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o

قرآن کریم کا یہی افتتاحیہ اس دو قومی نظریے کو وجود بخشتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ سے دوراستے متعین کرکے، انسانوں کو رد و قبول کا اختیار دے دیا گیا ہے، یعنی ایک سیدھا راستہ اور دوسرا اس کے برعکس اللہ کی ہدایت سے انحراف اور انکار کا راستہ۔ ایک راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں سے تشکیل پاتا ہے، اور دوسرا راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے انکار، مخالفت یا اپنی خواہشات کی پیروی سے منسوب ہے۔ اس دو قومی نظریے میں جو بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت دراصل انھی دو بنیادی قافلوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں قافلوں میں فکر، صورت، ہیولا، شکل اور منزل جدا جدا ہے۔ ایک قافلہ انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے اور دوسرا انحراف اور بغاوت کو اپنائے ہوئے ہے۔

اس نظریے کے تین مضمرات ہیں، جن کا سمجھنا از بس ضروری ہے:

  • پہلی بات یہ کہ افراد اور اقوام کو اس امر کی آزادی حاصل ہے کہ وہ کون سی منزل اور کس نظریے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی انتخاب کے مطابق وہ اجتماعی زندگی میں نتائج بھگتیں گے اور انفرادی طور پر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔
  • دوسری یہ کہ ہر قوم کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے تصور اور منزل کے انتخاب کے مطابق اپنے تشخص اور تہذیبی اور معاشرتی دروبست کا انتظام و انصرام کرے، اور اس میں مسابقت و بہتری کے امکانات کو بروئے کار لائے۔
  • تیسری جہت، انسانی زندگی کے اُس پہلو سے وابستہ ہے، جس کا ذریعہ ہدایت الٰہیہ ہے۔ صرف اس ایک پہلو سے جو عقیدے پر مبنی ہے، اس میں تو لازماً یک رنگی ہے، تاہم احوال و ظروف اور زمان و مکان کی مناسبت سے، اس عقیدے کے تحت یک سو اور باہم مربوط ہوتے ہوئے، افراد اور ممالک کے لیے کثرتیت کی گنجایش پوری طرح موجود ہے۔ اسلام نے اس جزوی اختلاف اور تنوع کو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کے پیش کردہ ضابطے کے فریم ورک میں اختیار کرنے اور راستے نکالنے کی اجازت دی ہے۔

یہی چیز ہے دوقومی نظریے کی اساس اور وسیع تر بنیاد۔ اسی بنا پر ایک مسلمان کے لیے  لازم ہے کہ تصور حیات اور الہامی ہدایت کی بنیاد پر دنیا میں علم پھیلائے، رہنمائی دے اور دوسروں کے لیے قابل اتباع نمونہ پیش کرے۔ یہی حق دو قومی نظریہ دوسروں کو بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے تصورات و عقائد کے مطابق انفردی اور اجتماعی زندگی کے معاملات کو چلائیں۔ یہ نظریہ مغرب کے ’قومی ریاستوں‘ (Nation States) کے تصور سے بالکل مختلف سوچ کا حامل ہے۔ اس میں قومی ریاست کا نہیں، قوموں کی ریاست کا تصور ہے جس میں یہ اہتمام موجود ہے کہ ہر قوم کو اپنے تشخص کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، تاہم جس کو اکثریت حاصل ہے، اس کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اصولوں اور اقدار کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے، وہیں اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اختلاف اور تنوع کا احترام کرے اور اقلیتوں کے لیے آسودگی پیدا کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس فریم ورک کی مختلف اور متنوع صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں، مگر ان میں مسلمانوں کے لیے تین کو مرکزیت حاصل ہے:

۱- وہ ملک، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے اور اس میں انھیں اقتدار بھی حاصل ہے۔

۲- وہ ملک، جس میں مسلمانوں کی اکثریت تو ہے، مگر اقتدار سے محروم ہیں۔

۳- وہ ملک، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورانھیں اقتدار بھی حاصل نہیں ہے۔

پہلی صورت میں اسلامی نظریے کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کانظام، اسلام کی روشنی میں وضع کیا جائے جس میں اکثریت نظام زندگی اور منزل کو متعین کرے اور دوسری تمام اقوام کو انفرادی، تہذیبی اور اجتماعی حقوق حاصل ہوں، تاکہ وہ اس نظریاتی ریاست میں اپنے مذہبی اور نظریاتی تشخص کے لیے مناسب جگہ (space) پا سکیں۔ اس طرح اکثریت اور اقلیت، دونوں عدل و انصاف اور افہام و تفہیم کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

دوسری صورت میں مسلمانوں کی فطری طور پر خواہش اور کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اکثریت کو اختیار اور اقتدار دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ ان کاجائز حق ہے۔ اگر انھیں اس میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ پہلی صورت میں آ جاتے ہیں، ورنہ جدوجہد کے مرحلے میں شامل رہتے ہیں۔

رہی تیسری صورت، تو اس میں اسلام نے یہ بات قبول کی ہے کہ جن کو اکثریت اور اقتدار حاصل ہے، انھیں اجتماعی زندگی میں انصاف اور دوسروں کے حقوق کی پاس داری کے ساتھ حکمرانی کا موقع ملنا چاہیے۔ دوسرے مذہبی اور تہذیبی تشخص کے حاملین کو قرار واقعی جگہ اور سہولت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ وہ باوقار اور منصفانہ انداز سے زندگی گزار سکیں۔

مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں دو قومی نظریہ، انسانی تاریخ و تہذیب اور زندگی سے مطابقت رکھتا ہے، تاہم حالات کی مناسبت سے اس میں تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے۔ اس نظریاتی فریم ورک میں برعظیم پاک و ہند کے حالات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ۹۰۰ سالہ دور حکمرانی میں اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ وہ بڑی حد تک شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک کار فرما قوت بنانے کا اہتمام کریں۔ انھیں اس میں کامیابیاں بھی ملیں اور ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس طرز احساس کا منہ بولتا ثبوت اس خطۂ ارضی میں تجدیدِ دین اسلام کی متعدد تحریکیں ہیں، مگر اس تمام تر احساس کے باوجود خطۂ ہند کی تاریخ یہ ثبوت پیش نہیں کرتی کہ مسلمانوں نے جبر اور قوت کے ذریعے یہاں بسنے والی اکثریت کو اپنے مذہب، اپنی زبان اور اپنے تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے پر کبھی مجبور کیا ہو، بلکہ اس کے برعکس انھیں اس چھتری کے تحت پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا موقع دیا گیا اور اجتماعی امور میں معاشرے کے تمام طبقوں کو برابر کے مواقع میسر رہے۔

مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ہندستان کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندومت کے پیرو کاروں کو جب بھی اقتدار ملا، انھوں نے دوسرے مذہب کو نیست و نابود کیا۔ اس کے پیروکاروں کو ملک بدر کیا یا اپنے نظام میں تحلیل کرنے کے لیے ہر ناجائز کوشش کی، یا ان کی انفرادی شناخت کو ختم کرکے دم لیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی ۹۰۰سالہ حکمرانی کے زمانے کا ریکارڈ   پوری دنیا کے سامنے موجود ہے، اور ان لوگوں کے پاس بھی موجود ہے جنھیں ’ہندوسیکولرازم‘ میں ’روشن خیالی‘ کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ اس زمانے کا ریکارڈ گواہی دیتا ہے کہ مسلمانوں نے سیاسی غلبے کے باوجود، دوسرے مذاہب کی شناخت کو ختم کرنے یا ان کے پیروکاروں کو اس مناسبت سے کبھی شہری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کی (البتہ متحارب اور جنگ میں مصروف عناصر کا معاملہ دوسرا ہے)۔ یوں سرزمین ہند پر مسلم دور حکومت میں تمام افکار و مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ، باغ کے مختلف اور رنگارنگ پھولوں کی طرح پھلتے پھولتے اور اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

بعدازاں برطانوی استعمار کے قبضے کے اولین دور میں شعوری طور پر، ہوشیاری اور  چابک دستی کے ساتھ، اس نو آبادیاتی طاقت نے کوشش کی کہ یہاں مسلمانوں کو کمزور اور غیر مؤثر بنادیں کیونکہ انھیں اصل چیلنج مسلمانوں سے تھا، جن سے انھوں نے اقتدار چھینا تھا اور اسی مناسبت سے ہندو نفسیاتی طور پر برطانوی استعمار کے حلیف تھے۔ اسی استعمار نے سیاسی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے اپنے ہم نوائوں کی ایک قوت تیار کی جس کے لیے عیسائی مشنری قوتوں، جدید تعلیم کی تحریک اور دوسرے تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کی بالادست قوت کو ہرممکن سہولت مہیا کی۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک مراعات یافتہ طبقہ   پیدا کیا، جو دور غلامی میں انگریزوں کا وفادار، اور مسلمانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا رہا۔  قیامِ پاکستان کے بعد اس طبقے نے اپنے اس کردار کو پوری وفاداری سے انجام دے کر ملک کو نظریاتی کش مکش اور تہذیبی انتشار کی دلدل میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہندستان میں چونکہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک چوتھائی تھی اور ہندوغالب اکثریت رکھتے تھے، اس لیے بھی ہندوئوں کو اجتماعی نظام میں بالادستی دی گئی۔ اس پس منظر میں تحریک آزادی اُبھری۔

انگریزوں کے اس دور حکمرانی میں جو پہلی عوامی تحریک زبان زدِ خاص و عام ہوئی، جس کی بازگشت سمندر پار بھی سنی گئی اور جس نے اہلِ ہند میں ایک عوامی شعور بیدار کیا، وہ تحریکِ خلافت تھی۔ اس تحریک کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ تب مسلمان دو قومی نظریے کی روشنی میں اپنے سیاسی حقوق اور نظریاتی و تہذیبی تشخص کو ہندستان کے اجتماعی وجود ہی میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کررہے تھے۔ اس ضمن میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، مسلم شناخت کا تحفظ، حقوق کا حصول، سیاسی جدوجہد میں نظم و ضبط کا احساس اورتقسیم اختیارات بنیادی ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کے قیام ہی نے وفاقی اور صوبائی اختیارات کی بحث کو ایک رخ دیا۔ اس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگریس اختیارات کی مرکزیت چاہتی تھی۔ سائمن کمیشن اور نہرو رپورٹ میں کانگریس کی اس سوچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت قائم شدہ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلمانوں کا جو حشر کیا، وہ ٹھیک اسی طرز عمل کا ایک عکس تھا جسے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوئوں نے جین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں سے روا رکھا تھا۔

یہ تھا منظر نامہ تیسری صورت کے حوالے سے جسے مسلمانوں نے دوسری صورت میں ڈھالتے ہوئے آگے بڑھنے اور پھر نمبر ایک میں تبدیل کرنے کی منزل کا انتخاب کیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد لاہور (جسے ہندوئوں نے قرارداد پاکستان کا نام دیا) دراصل اُس راستے کا سنگ میل ہے، جس راستے کی طرف کانگریس کی تنگ نظری نے مسلمانوں کو دھکیلنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس چیزنے تہذیبی شناخت کے لیے دو قومی نظریے کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اتارا اور دلوں کی دھڑکن بنادیا۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ علامہ محمد اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد (۲۹دسمبر ۱۹۳۰ء) کو غور سے دیکھا جائے۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے زمانے میں مسلمان مفکرین، سیاست دان،  علمائے کرام اور دانش ور ایک گہرے اضطراب کا شکار تھے۔ پھر حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ   لے کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا ہدف محض برطانوی سامراج سے آزادیِ محض کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ آزادی وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی    یہ آزادی دوسرے عقائد رکھنے والوں کے لیے بھی امن و آشتی کی نوید ثابت ہوگی۔

آزادی کے اس تصور کو ایک طاقت ور جذبے کی شکل ۱۹۰۶ء سے ۱۹۳۸ء کے درمیانی عرصے کے معروضی حالات نے دی۔ یہ بات طے ہوگئی کہ ایک تنگ نظر اکثریت سے آزادی حاصل کرکے مسلم ریاست کا قیام لازم ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم ؒکے مابین جو خط کتابت ہوئی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے درمیان آل انڈیا مسلم لیگ نے جو قرار دادیں منظور کیں، اور ان میں جو مسائل نمایاں کیے گئے، اگر دیانت داری سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو صرف ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اپنے دینی، نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی تشخص اور مستقبل کو محفوظ کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے مسلمانوں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔یوں احساس اور سوچ جب عمل میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

قائداعظم کا وژن

قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۸ء تک اپنے ۱۰۰ سے زیادہ بیانات میں: اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب، اسلامی قومیت، اسلامی تشخص، اسلامی قانون، اسلامی کلچر، اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرت کا ذکر کیا ہے۔

قائداعظم نے ہندو قوم پرست لیڈر گاندھی جی (م: ۱۹۴۸ء) کے نام اپنے ۱۰ستمبر ۱۹۴۴ء کے خط میں لکھا تھا:

قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی، فوج داری، عسکری، تعزیری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی، غرض یہ کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا اور سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا تک___ یہ قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے۔

اس پس منظر میں ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا اور اس کی بنیاد پر یک سر مختلف استدلال گھڑنا، قائداعظم کے ساتھ سخت ناانصافی اور علمی اعتبار سے سراسر بددیانتی ہے۔ خود قائد اعظم نے باانداز دگر اس تقریر کی تین مرتبہ وضاحت کی۔ ہم یہاں قائداعظم کا ایک بیان اور تین تقاریر پیش کر رہے ہیں۔بیان ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء سے ڈیڑھ ماہ قبل کا ہے اورتقریریں ۱۱؍اگست کے بعد کی ہیں۔

تحریک پاکستان کے زمانے میں کانگریس کے حامی، قیام پاکستان کے مخالف، متحدہ قومیت کے طرف دار اور روشن خیال، مسلمان رہنمائوں میں ایک نمایاں نام خان عبدالغفار خاں [م:۱۹۸۸ء]  کا تھا۔ انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے اعلان تقسیم کے بعد اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے، ۲۳جون کو کہا تھا:

’جملہ پٹھانوں کے لیے ایک ’آزاد پٹھان ریاست‘ قائم کی جائے۔ اس ریاست کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف کے مطابق وضع کیا جائے۔ جملہ پٹھانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس محبوب منزل کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور کسی غیر پختون غلبے کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں۔

 اس کے جواب میں ۲۸ جون ۱۹۴۷ء کو نئی دہلی سے قائداعظم نے ایک طویل بیان جاری کیا:

اس سے قبل اس نوع کا پرفریب اور عیارانہ مطالبہ خان برادران یا کسی اور کی جانب سے پیش نہیں کیا گیا کہ سارے پختونوں کے لیے آزاد ’پٹھان ریاست‘ قائم کی جائے۔ ان کا دوسرا نعرہ دو رنگا ہے، اور اس کا مقصد بھی پٹھانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مجوزہ ’پٹھانستان‘ کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہوگا، تو ان کا مطلب، مجلس دستور ساز پاکستان، جومسلمانوں کی عظیم اکثریت پر مشتمل ہوگی، پریہ بہتان طرازی کرنا ہے کہ وہ جمہوریت کے اسلامی تصوراتِ مساوات ومعاشرتی انصاف کو نظر انداز کر دے گی… یہ محض ایک عیارانہ حربہ ہے جس کا مقصد شمال مغربی سرحد کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے… خان عبدالغفار خاں جو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان کو اسلامی تصوراتِ مساوات و معاشرتی انصاف پر اجارہ داری حاصل نہیں ہے… یہ اچانک اور نئی قلابازی خالصتاً سیاسی عیاری اور ایک حربہ ہے … خاں برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظرانداز کر دے گی۔ یہ بھی بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں، اچھے اور بُرے موسموں کا سامنا کرنے کے باوصف، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو  حرز جان بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علَم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہندومجلس دستور ساز پر اعتبار ہے جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان‘‘۔ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷]

اس بیان میں قائداعظم نے خصوصاً دو چیزوں کو وضاحت سے نمایاں کیا ہے۔ ایک یہ کہ سیکولر، روشن خیال اور ’اکھنڈ بھارت‘ کے طرف دار پرلے درجے کے موقع پرست ہیں، اور دوسرا یہ کہ اسلام،نسلی اور علاقائی تفریق سے بالاتر ہے۔ اسی لیے انھوں نے کہا کہ آپ پہلے مسلمان اور پھر پٹھان ہیں۔ یہی چیز دو قومی نظریے کی جان ہے۔

۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام میلاد النبیؐ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، قائداعظم نے فرمایا:

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے،  یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی، حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا… اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم راہبرتھے، آپؐ ایک عظیم قانون عطاکرنے والے تھے،آپؐ ایک عظیم مدبر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے، جنھوں نے حکمرانی بھی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سراہتے… اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے، جو اس کی زندگی اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست اور اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ [ایضاً، ص ۴۰۲-۴۰۳]

اس خطاب میں قائداعظم نے برملا اعلان کیا ہے کہ جو لوگ، اسلامی نظریۂ حیات کے حوالے سے پاکستانی مسلمانوں کی یکسوئی کو ابہام و انتشار کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ شر انگیز عناصر ہیں۔ وہ تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی اسی طرح اسلام کے قانون شریعت کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے اس پر زور دے رہے ہیں___فروری۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیو نشری پیغام میں قائداعظمؒ نے فرمایا:

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا عملی زندگی پر اطلاق ویسے ہی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ۱۳ سو برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں، اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ [ایضاً، ص۴۲۱-۴۲۲]

امریکی عوام کے نام اس نشریے میں وہ صاف لفظوں میں بتاتے ہیں کہ ۱۳سو برس قبل جس طرح اسلام کے اصولوں کا اطلاق ہوا تھا، ویسا ہی آج بھی ہو سکتا ہے، اور ریاستِ پاکستان کے دستور میں انھی اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا___یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا:

مغربی اقدار، نظریے اور طریقے___ ایک خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کر سکیں گے، اور بنی نوع انسان تک امن کا پیغام پہنچا سکیں گے۔[ایضاً،ص۵۰۱]

اس بیان میں انھوں نے مستحکم لہجے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مغربی دانش ہمارے مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہمیں اپنا معاشی نظام بھی پیش کرنا ہوگا۔

آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ۱۱؍اگست کی تقریرمیں قائداعظم غیر مسلموں کے شہری حقوق کی بات کررہے تھے، نہ کہ تحریک پاکستان کے بنیادی استدلال اور موقف کی نفی کر رہے تھے۔ البتہ پاکستان کے سیکولر دانش وروں اور بھارت کے مصنفین نے قائداعظم کے تمام خطبات کو نظر انداز کرکے فقط اس ایک تقریر کو بنیاد بناکر اس سے بالکل ہی دوسرامفہوم اخذ کرلیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ’روشن خیال‘ دانش وروں کو دیانت کا دامن تھامنا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا چاہیے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں ہمیں ایک نظریاتی چیلنج درپیش تھا، آج پھر اس مسئلے کو زیادہ شدت کے ساتھ ابہام کا شکار کیا جا رہا ہے۔ کل اس کے علم بردار، خود پاکستان میں چند سیکولر اور اباحیت پسند لوگ تھے، اور آج بھارت سے لے کر امریکا تک اس منفی پروپیگنڈے کے     پشتی بان حضرات کی ایک فوج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے نشانِ منزل پر نظریں جما کر اس منزل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

کہا جاتا ہے کہ اس نظریاتی بحث میں پڑنے سے بھلا کون سا مسئلہ حل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرلابی نے اسی دینی اور نظریاتی رشتے کو کمزور بنانے کے لیے وہ سارا جال بُنا جس کے نتیجے میں، پاکستان کی نظریاتی اساس سے ہاتھ دھونا کوئی بڑا خسارہ نہیں سمجھا جارہا۔ حالانکہ سیانا دشمن اسی جڑ پر تیشہ چلا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پاکستان کے دینی اور آئینی رشتے کو نشانہ بناکر توڑ پھوڑ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک، اس مملکت ِ خدادا د کی تخریب ممکن نہیں ہوگی۔ اندریں حالات تمام اہلِ وطن کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس پہچان اور رشتے کو سمجھیں، اس کی حفاظت کریں اور اس کی بنیادوں پر اپنے سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی مستقبل کی تعمیر کریں۔

یاد رہے کہ آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دو قومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے۔ امریکا کی یلغار ،داخلی انتشار، بلوچستان کا قضیہ، مہنگائی کا عفریت اور سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران، ان سب کا علاج اسی سے ممکن ہے۔ نیت ٹھیک نہ ہو تو اسے محض ایک نظری بات کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے لیکن اگر نیت درست ہو تو اسلام کی یہ رہنمائی اور بانیانِ پاکستان علامہ اقبال و قائداعظم کی یہ پکار اُلجھی راہوں کو صراط مستقیم بنا دے گی۔

ترجمہ و تشریح: مولانا محمد فاروق خاں

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (م:۱۷۶۲ء)کی مرتب کی ہوئی یہ چہل حدیث مختلف خصوصیات کی حامل ہے۔ اس چہل حدیث کی تمام احادیث کوشاہ صاحبؒ نے ایک ہی سلسلۂ سند سے روایت کیا ہے اور اس سند کے صحیح اورمستند ہونے پراپنا اطمینان ظاہر فرمایا ہے ۔ان احادیث کے رواۃ کے اسمائے گرامی، شاہ صاحب نے ۲۴نقل کیے ہیں۔ گویا ۲۴واسطوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث شاہ صاحب ؒ تک پہنچی ہیں۔ آخری راوی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ احادیث کو میں نے اسی ترتیب سے نقل کیا ہے ،جس ترتیب سے شاہ صاحبؒ نے ان کو مرتب فرمایا ہے اور سب کے ساتھ ان کے مآخذ بھی درج کردیئے ہیں۔

 چہل حدیث میںنقل کی گئی حدیثیں نہایت جامع اورزندگی کے مختلف گوشوں پرحاوی ہیں۔ احادیث کے الفاظ اگرچہ مختصر ہیں، مگر معانی ومفاہیم کے لحاظ سے ان میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ چونکہ الفاظ مختصر ہیں اس لیے ان کو یادکرنا اوربرابرپڑھتے رہناکچھ مشکل نہیں ہے۔ لوگوں کی آسانی کے لیے احادیث کا اُردو ترجمہ اور مختصر تشریح بھی کردی گئی ہے ۔


  • حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ الْخَبَرُکَالْمُعَایَنَۃِ ’’خبرمشاہدہ کے برابر نہیں‘‘۔ (مسنداحمد،ج ۱،ص ۲۷۱عن ابن عباسؓ، ابن حبان اورحاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔المقاصد الحسنہ،السخاوی، ص۳۵۲)

یہ حدیث مسند احمد میں حضرت ابن عباسؓ سے ان الفاظ میں روایت کی گئی ہے: لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی اَخْبَرَمُوْسٰی بِمَاصَنَعَ قَوْمُہٗ فِی الْعِجْلِ فَلَمْ یُلْقِ الْاَلْوَاحَ فَلَمَّا عَایَنَ مَاصَنَعُوْااَلْقَی الْاَلْوَاحَ فَانْکَسَرَتْ،’’خبر آنکھ سے دیکھ لینے کے مانند نہیں ہوسکتی۔ خداوند تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بچھڑے کے متعلق جوکچھ ان کی قوم نے کیاتھا اس کی خبردی، لیکن اس سے متاثر ہوکر موسیٰ علیہ السلام نے (تورات کی) تختیوں کو نہیں پھینکا ۔مگر جب موسیٰ علیہ السلام (اپنی قوم میں آئے اور انھوں) نے اپنی آنکھوں سے اپنی قوم کے کرتوت دیکھے تو (غضب ناک ہوکر ) تختیوں کو پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئیں‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ آنکھ سے کسی چیز کودیکھ لینے کی بات ہی اور ہوتی ہے،خبر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ دیکھنے کاجو اثر دل پر ہوتا ہے، وہ خبر سننے سے نہیں ہوتا، خواہ آدمی کواس خبر پرکتنا ہی یقین کیوں نہ ہو۔ اس کو آپؐ نے ایک مثال دے کر سمجھایا کہ دیکھو حضرت موسٰی کوخدا وند تعالیٰ نے خبردی تھی کہ ان کی قوم نے ان کی عدم موجودگی میں بچھڑے کواپنا معبود بنالیا ہے۔ لیکن حضرت موسٰی پر اس کایہ اثر نہیں ہوا کہ وہ غصے میں آکر تورات کی تختیاں پھینک دیتے۔ لیکن جب انھوں نے اپنی آنکھوں سے قوم کے کرتوت دیکھ لیے تو وہ غیظ وغضب میں آگئے اورتورات کی تختیاں ایک طرف کو پھینک دیں کہ ہم تو تمھارے لیے کتاب ہدایت لے کرآئے اور تمھاری سرکشی کایہ حال ہے۔

  • اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ ،’’جنگ ایک چال ہے‘‘۔ ( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الحرب خدعۃ ،مسلم، کتاب الجہادوالسیرباب الجواز الخداع فی الحرب)

جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اپنی جنگی تدابیر اور دفاعی رازوں سے دشمن کوباخبر نہ ہونے دیاجائے۔

  • اَلْمُسْلِمُ مِرْاٰۃُ الْمُسْلِمِ، ’’مسلم، مسلم کا آئینہ ہے‘‘۔(ترمذی اورابوداؤد نے یہ روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے :اَلْمُؤْمِنُ مِرْآۃُ الْمُؤْمِنِ)

ایک مسلمان کوآئینہ کی طرح اپنے بھائی کے اندر پائے جانے والے کسی عیب کواس پر ظاہر توضرور کردینا چاہیے، لیکن اس کے پیچھے جذبہ خیر خواہی کاہونا چاہیے اورمقصد محض اصلاح ہونہ کہ بھائی کے کسی عیب کی تشہیر۔

  • اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ، ’’جس سے مشورہ کیاجائے ضروری ہے کہ وہ امانت داری سے کام لے‘‘۔ (ترمذی، ابواب الزہد، حدیث:۲۳۴۹، ابن ماجہ، کتاب الادب، باب المستشار مؤتمن، حدیث:۳۷۴۳)

یعنی وہ مفید اور صحیح مشورہ دے اور مشورہ لینے والے شخص کے راز کو کسی پرظاہر نہ کرے۔ کیونکہ یہ ایک طرح کی خیانت ہے، جس کی توقع کسی مسلم سے نہیں کی جاسکتی ۔

  •  اَلدَّالُّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ، ’’خیر اور بھلائی کے کام کی طرف رہنمائی کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس پر عمل کرنے والا‘‘۔ (ترمذی، کتاب الذبائح، ابواب العلم، حدیث: ۲۶۶۲)

یعنی یہ بھی ایک نیک عمل ہے کہ کسی کو خیر اورنیکی کاکوئی کام بتایا جائے۔ اگر اس کی رہنمائی سے کسی شخص کوعمل خیر کی توفیق ملتی ہے تورہنمائی کرنے والا شخص بھی اس کارخیر میں شریک ہوگا۔ کیونکہ اس کی رہنمائی اگر میسرنہ ہوتی تووہ نیک کام انجام نہیں دیاجاسکتا تھا۔

  • اِسْتَعِیْنُوْا عَلَی الْحَوَائِجِ بِالْکِتْمَـانِ، ’’حاجتوں اور ضرورتوں کے سلسلے میں پوشیدہ طور پر استعانت حاصل کرنے کی کوشش کرو‘‘۔ (طبرانی کی روایت میںیہ الفاظ آئے ہیں: اِسْتَعِیْنُوْاعَلَی قَضَاءِ حَوَائِجِکُمْ بِالْکِـتْمَـانِ۔  مجمع الزوائد ج۸، ص۱۲۵)

یعنی کسی کام کی تکمیل کی فکر اور تدبیر خاموشی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ خواہ مخواہ اس کی تشہیر کرنے میں بہت سی خرابیوں کے رونما ہونے کے اندیشے رہتے ہیں۔

  • اِتَّقُواالنَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمَرَۃٍ، ’’جہنم کی آگ سے بچو،کھجورکا ایک ٹکڑا ہی دے کر سہی‘‘۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ ، باب اتقوا النَّار ولو بشق تمرۃ، حدیث:۱۳۶۲)

یعنی اصل سوال مقدار کانہیں ،اخلاص کاہے۔ تمھارے پاس اگر دینے کو کھجور کاایک ٹکڑا ہی ہے تو، تم اسے ہی صدقہ کرکے اس کا ثبوت بہم پہنچاسکتے ہو کہ تم اللہ سے ڈرنے والے ہواور بندگان خدا کے لیے تمھارے دل میں نرم گوشہ موجود ہے۔

  • اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ، ’’دنیا مومن کاقید خانہ اورکافر کی جنت ہے‘‘۔(مسلم ،کتاب الزہد، حدیث: ۵۳۶۸۔ترمذی، ابواب الزہد، باب مثل الدنیا، حدیث:۴۱۱۱)

مومن کی امیدیں آخرت سے وابستہ ہوتی ہیں۔ وہ خدا سے مغفرت اورجنت کاخواست گار  اور اُمیدوار ہوتا ہے، جس کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔اس لیے وہ دنیوی پریشانیوں سے بددل نہیں ہوتا، جس طرح وہ شخص ہوتا ہے جس کی نگاہ میں دنیا ہی سب کچھ ہے ۔ مومن جانتا ہے کہ دنیا کے مصائب ومشکلات عارضی ہیں۔ ایک دن اسے لازماً ان سے نجات مل جائے گی۔ اس لیے وہ حدودِ الٰہی کے اندررہ کرزندگی بسر کرتا ہے۔

  • اَلْحَیَآئُ خَیْرٌ کُلُّہٗ، ’’شرم وحیا سراسر بھلائی ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب شعب الایمان، حدیث: ۷۹)

آدمی کے اندر اگرحیا موجود ہے تو پھر اس سے کسی برائی اورخرابی کا اندیشہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر کسی شخص کے اندر حیا اور شرم نہیں ہے توکچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کب کیاحرکت کربیٹھے۔

  • عِدَۃُ الْمُؤْمِنِ کَاَلْاَخْذِ بِالْیَدِ ، ’’مومن کاوعدہ ایسا ہے، جیسے ہاتھ پکڑلینا‘‘۔ (الجامع الصغیر للسیوطی ،حدیث: ۸۱۲۸)

یعنی مومن اپنے وعدہ کاپاس ولحاظ رکھتا ہے ۔ اس سے کسی وعدہ خلافی کا خطرہ نہیں ہوتا۔  اس کے وعدے پر پورا بھروسا کیاجاسکتا ہے ۔مثال کے طور پر اگر وہ تمھیں کوئی چیز دینے کا وعدہ کرتا ہے تویوں سمجھوکہ وہ چیز تمھارے ہاتھ میں پہنچ چکی۔

  • لَایَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یَّھْجُرَاَخَاہُ فَوْقَ ثَلٰـثَۃِ اَیَّامٍ، ’’مومن کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ وہ اپنے بھائی کوچھوڑے رکھے‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب باب ما ینھی عن التحاسد، حدیث: ۵۷۲۵،  مسلم، کتاب البرو الصلہ، باب النھی عن التحاسد، حدیث: ۴۷۴۷)

مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلقات کشیدہ نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر کسی شکایت یاناراضی کی وجہ سے کوئی اپنے مسلم بھائی سے کٹ گیاہے، تو اسے یادرکھنا چاہیے کہ اسلام میں اس طرح تعلق منقطع کیے رہنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔اسے لازما ً تین روز کے اندر اپنے بھائی سے صلح کرلینی چاہیے۔ دینی مقاصد، ذاتی مفادات کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔دینی مقاصد کی تکمیل اہل ایمان کے اجتماعی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس لیے ہر مسلمان کافرض ہے کہ وہ ایسا کوئی طرزِ عمل اختیار نہ کرے ،جس سے اجتماعی نظم اور اجتماعی قوت کونقصان پہنچتاہو۔اس حدیث کی اہمیت ومعنویت کوسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پیش نظر اسلامی نظام زندگی کاوہ تصور ہو ،جس سے قرآن اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہمیں آشنا کراتی ہیں۔

  • لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّنَا، ’’جوہمارے ساتھ فریب وخیانت کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ (المستدرک للحاکم، کتاب البیوع، حدیث:۲۰۹۴)

یعنی جوشخص ذاتی فائدے کے لیے فریب اورخیانت سے کا م لیتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کی ذمہ داری فراموش کردیتا ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنا رشتہ اورتعلق مسلم گروہ سے منقطع کررہا ہے ۔ انجام کے لحاظ سے یہ جس قدر خطرناک بات ہے، اس کا اسے احساس ہونا چاہیے۔

ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے ۔ وہاں ایک شخص نے بیچنے کے لیے گیہوں کاڈھیر لگارکھا تھا۔ آپؐ نے اس میں ہاتھ ڈالا تواندر گیہوں بھیگے ہوئے تھے ۔ آپؐ نے وجہ دریافت فرمائی تو اس نے کہا کہ میں نے ارادے سے گیہوں نہیں بھگوئے ۔آپؐ نے فرمایا کہ بھیگے ہوئے گیہوں اوپر کیوں نہیں رکھے؟ اسی موقعے پر آپؐ نے وہ بات ارشاد فرمائی، جواس حدیث میں نقل کی گئی ہے۔

  • مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِّمَّا کَثُرَوَاَلْھٰی، ’’جو چیز تھوڑی ہومگر اس سے ضرورت پوری ہوجاتی ہو، وہ اس چیز سے بہتر ہے جوزیادہ ہو،مگر آدمی کو غفلت میں ڈال دے‘‘۔ (مسنداحمد، مسند الانصار، حدیث ابی الدرداء، حدیث: ۲۱۱۸۸)

مال دار لوگ اکثر اپنی دولت کی کثرت کی وجہ سے حق سے بے گانہ اور غافل ہوجاتے ہیں۔ ایسی کثیر دولت سے وہ تھوڑا مال کہیں بہتر ہے، جو آدمی کی ضروریات کے لیے کافی ہواور اس سے آدمی کے غفلت میں پڑنے کا اندیشہ نہ کیا جاسکتا ہو۔ اسی پردنیا کی دوسری چیزوں کوبھی قیاس کیاجاسکتا ہے کہ ان میں کو ن سی چیز کس صورت میں بہتر ہے اورکس صورت میں بہتر نہیں ہے۔

  • اَلرَّاجِعُ  فِیْ  ھِبَتِہٖ  کَالْکَلْبِ یَرْجِعُ فِیْ قَیْئِہٖ، ’’اپنی دی ہوئی چیز کوواپس لینے والا کتّے جیسا ہے، قے کرکے پھر اسے چاٹ رہاہو‘‘۔

تحفے میں یااللہ کی راہ میں دی ہوئی چیز کوواپس لینا انتہائی ذلیل حرکت ہے۔ جس کے تصور سے بھی آدمی کوگھن آنی چاہیے۔ ایسی حرکت اخلاق سے گرا ہوا شخص ہی کرسکتا ہے۔ ایک حدیث میں دی ہوئی چیز کو واپس لینے والے کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے ہوئے گھوڑے کو قیمت دے کر بھی واپس لینے سے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو روکا تھا ۔کیونکہ اس صورت میں بھی یہ عمل دی ہوئی چیز کوواپس لینے سے مشابہت رکھتا تھا۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ دین کا مزاج کس قدر نازک ولطیف ہے۔

  • اَلْبَلَآئُ مُوَکَّلٌ بِالْمَنْطِقِ ،’’آفت اوربلابولنے پر مسلط ہوتی ہے‘‘۔ (مسند الشھاب القضاعی ، حدیث: ۲۱۸)

اکثر زبان کاغلط استعمال مصیبت اورآزمائش کاپیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ خاموشی آدمی کوہزار بلاؤں سے محفوظ رکھتی ہے۔ کتنے ہی اچھے تعلقا ت محض زبان کوقابو میں نہ رکھنے کی وجہ سے خراب ہوجاتے ہیں اور آدمی مصیبتوں میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ زبان کی کاٹ تلوار سے بھی بڑھ کرہوتی ہے۔ زبان کے ناروا استعمال سے بعض اوقات دلوں میں ایسے زخم ہوجاتے ہیں جو کبھی نہیں بھرسکتے۔ اس لیے بولنے اورزبان کے استعمال کرنے میں آدمی حددرجہ محتاط رہے۔

  • اَلنَّاسُ کَاَسْنَانِ الْمُشْطِ، ’’لو گ ایسے ہیں، جیسے کنگھی کے دندانے ہوتے ہیں‘‘۔ (مسندالشھاب القضاعی، حدیث: ۱۸۶)

یعنی لوگوں کی فطری اورمطلوب حالت یہ ہے کہ ان کا باہمی ربط وتعلق اس طرح کاہو،  جیسا ربط وتعلق کنگھی کے دندانوں کے مابین ہوتا ہے ۔کنگھی کے دندانے صاف اورسیدھے رہ کر باہم ایک دوسرے کاساتھ دیتے ہیں۔ اگر کنگھی کے کچھ دندانے ٹوٹ جائیں توپوری کنگھی ناقص اورخراب ہوجاتی ہے ۔مثالی معاشرہ وہی ہے جس کے افراد باہمی ربط و تعلق کی اہمیت کوسمجھتے اور اس کاپا س ولحاظ رکھتے ہوں۔

  • اَلْغِنٰی غِنیَ النَّفْسِ، ’’اصل تونگری دل کی تونگری ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب الرقاق باب الغنی غنی النفس، حدیث: ۶۰۹۱، مسلم، کتاب الزکوٰۃباب لیس الغنی عن کثرۃ العرض، حدیث: ۱۸۰۵)

دل اگر مستغنی نہیںہے تو بڑی سے بڑی دولت بھی بے کار ہے۔ لیکن اگر انسان کادل مطمئن ہے تو ظاہر کے اعتبار سے خواہ وہ مال دارنہ بھی ہو تو کوئی نقصان کی بات نہیں۔ کہابھی گیا ہے  ع

تونگری بہ دل است، نہ بہ مال

  • اَلسَّعِیْدُمَنْ وُّعِظَ بِغَیْرِہٖ، ’’سعادت مندوہ ہے، جودوسرے کی حالت سے نصیحت حاصل کرے‘‘۔ (امام مسلم نے کتاب القدرمیںعبداللہ بن مسعودؓ کے قول کی حیثیت سے بیان کیا ہے، المعجم الکبیر للطبرانی، باب من اسمہ حمزۃ، حدیث: ۲۹۶۸)

بُرے لوگوں کے بُرے انجام کو دیکھ کر بھی جو لوگ عبرت اورنصیحت حاصل نہیں کرتے اوربُرائیوں اورگناہ کے کاموں سے باز نہیں آتے وہ آخرکار خود نشان عبرت بن کر رہتے ہیں۔

  • اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً وَّاِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا، ’’بعض اشعار سراسر حکمت ہوتے ہیں اوربعض تقریریں جادوہوا کرتی ہیں‘‘۔ (بخاری، کتاب النکاح ،باب الخطبہ، کتاب الادب باب یجوزمن الشعر والرجز، حدیث: ۵۷۹۹)

ایسے اشعار جوعلم وحکمت کاخزینہ ہوں، لائق تحسین ہیں۔ بعض تقاریر بھی اپنے اندر جادو کا سا اثر رکھتی ہیں۔ البتہ وہی جادو اثر تقریر پسندیدہ قرار پائے گی، جو حق وصداقت کے لیے کی جارہی ہو۔ لیکن اگر وہ باطل کی خدمت کے لیے ہے تو اس جادو اثری کو سامانِ ہلاکت ہی کہا جائے گا۔

  • عَفْوُالْمُلُوْکِ أَبْقَی  لِلْمُلْکِ، ’’بادشاہوں کاعفوودرگزر سے کام لینا سلطنت کی بقا کا ضامن ہے‘‘۔ (الجامع الصغیر،باب حرف العین، حدیث: ۵۴۳۹)

حاکم کافرض ہے کہ عوام کے ساتھ ہمدردی اوربہی خواہی کاسلوک رکھے۔ اس صورت میں لازماً وہ لوگوں کے لیے سخت گیر نہ ہوگا، بلکہ حتی الامکان وہ عفو ودرگزرہی سے کام لے گا۔ عوام بھی اس کے کریمانہ اخلاق سے متاثر ہوں گے اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے ۔یہ چیز سلطنت کے استحکام کاباعث ہوگی۔ اس کے برخلاف عوام میں اگر بے اطمینانی پائی جاتی ہے تو اسے سلطنت کے حق میں فال نیک نہیں کہا جاسکتا۔

  • اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ، ’’آدمی اسی کے ساتھ ہے، جس سے وہ محبت رکھتا ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب، باب علامۃ حبّ اللہ، حدیث: ۵۸۲۳،  مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب المرء    مع   من احـبّ، حدیث: ۴۸۸۶ )

محبت بڑا طاقت ور اوربنیادی جذبہ ہے ۔جس شخص یاگروہ سے آدمی محبت رکھتا ہے، اس کا شمار اسی کے ساتھ ہوگا ۔ اصل اعتبار خلوص ومحبت کاہے، دوسری چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سچی محبت کایہ تقاضا ہے کہ وہ آدمی کے طرزِ عمل پراثر انداز ہواور وہ کوئی ایسا کام نہ کرے، جواس کی محبوب شخصیت کی مرضی کے خلاف ہویا وہ اس گروہ کے مفاد کے خلاف ہو جس سے وہ محبت کاتعلق رکھتا ہے ۔

  • مَاھَلَکَ اِمْرُئٌ عَرَفَ قَدْرَہٗ، ’’وہ شخص ہلاک ہونے سے محفوظ رہا جس نے اپنی قدر پہچانی‘‘۔ (لم اجد)

آدمی تباہی اورہلاکت سے اسی صورت میں دوچار ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنی حیثیت اورقدروقیمت سے بے خبر رہ کر زندگی گزارتا ہے۔ ایسی حالت میں یاتو وہ احساس کمتری کاشکار ہوگا اورزندگی میں ایسا طرزِ عمل اختیار کرے گا، جواس کے شایان شان نہیں۔ اوراس طرح وہ اپنے آپ کو پستی میں گراکررہے گا اورکوئی چیز نہ ہوگی جواسے تباہی وبربادی سے بچاسکے۔یاپھر وہ بے جاپندارمیں مبتلا ہوکر اپنے فرائض اورذمے داریوں کی طرف سے یکسرغافل ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں خسران اورہلاکت کے سوا اس کا کوئی اور انجام نہیں ہوسکتا ۔

  • اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِالْحَجَر، ’’بچہ عورت کے حصے میں آئے گا، رہا زانی تواس کے لیے پتھر ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب تفسیرالمشتبہات، حدیث: ۱۹۶۳، مسلم، کتاب الرضاع باب الولد للفراش، حدیث: ۲۷۲۳)

یعنی زناکار درحقیقت زیاں کار ہے ۔بدکار ی کے صلے میں اس کو بچہ نہیں مل سکتا بلکہ سزا میں اس پر پتھر ہی پڑیں گے۔

  • اَلْیَدُالْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی، ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب الاستعفاف فی المسئلہ، حدیث:۱۴۱۴)

فضیلت اسی میں ہے کہ آدمی کوشش اس بات کی کرے کہ وہ دینے والا ہو نہ کہ لینے والا۔

  • لَایَشْکُرُاللّٰہَ مَنْ لَّا یَشْکُرُالنَّاسَ، ’’وہ شخص خدا کا بھی شکرگزار نہیں ہے جو انسانوں کاشکریہ ادانہیں کرتا‘‘۔ (ترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی الشکر، حدیث: ۱۹۲۶)

جو شخص لوگوں کے احسانات کاشکریہ ادا نہیں کرتا بلکہ احسان فراموشی کا ثبوت دیتا ہے، تویہ اس بات کاثبوت ہے کہ اس کے اندر حق شناسی کامادہ ہی نہیں ہے ۔پھر یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ خدا کا شکرگزار بندہ بن سکے گا ؟ احسان شناسی اوراعتراف حق دراصل ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔

  • حُبُّکَ الشَّیْئَ یُعْمِیْ وَیُصِمُّ ، ’’کسی چیز سے تمھاری محبت اندھا اوربہر ا بنادینے کی خاصیت رکھتی ہے ‘‘۔ (ابوداؤد،کتاب الادب، ابواب النوم، باب فی الھوی، حدیث: ۴۴۸۶)

یعنی انسان کی یہ ایک بڑی کمزوری ہے کہ وہ جب کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو وہ اس محبت میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ پھر اسے حق اور ناحق سجھائی نہیں دیتا، اور نہ وہ اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اس معاملے میںکسی کی نصیحت سن سکے۔ اس لیے پیاراور محبت کے معاملے میں آدمی کوہمیشہ محتاط رہنا چاہیے خواہ یہ محبت بیوی اوربچوں کی ہو، یاکسی دوسری چیز کی۔ محبت اگراندھی ہے اور بالعموم یہ اندھی ہی ہوا کرتی ہے ــــــ تو وہ آدمی سے حق وباطل کی تمیز سلب کرسکتی ہے۔

  • جُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَاوَعَلٰی  بُغْضِ مَنْ اَسَآئَ اِلَیْھَا،’’اپنے ساتھ احسان کرنے والے شخص کی محبت اور برائی کرنے والے کی عداوت ،یہ انسانی قلوب کی فطرت میں شامل ہے‘‘۔(مسند الشھاب القضاعی، حدیث:۵۶۶)

یعنی کسی کے دل کو احسان اور حسنِ اخلاق کے ذریعے سے جیتا جاسکتا ہے۔ایسا دل ملنا مشکل ہے جواحسان سے متاثر نہ ہو ۔ اسی طرح کسی کے ساتھ برائی سے پیش آکر اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس کا وہ کوئی بُرا اثر نہ لے گا، اوراس کے دل میں ہمارے لیے عداوت اورنفرت کاجذبہ پیدانہ ہوگا۔ اپنے محسن کے لیے دل میں محبت کاجذبہ ابھرنا اوربدخواہ کے لیے نفرت کاپیدا ہونا ایک فطری امر ہے،اس حقیقت کونظر انداز نہیں کرناچاہیے۔ دوست بنانا پسندیدہ بات ہے۔ خواہ مخواہ کسی کو دشمن بنالینا ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔

  • اَلتَّآئِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لّاَذَنْبَ لَہٗ، ’’گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے، جس نے گناہ کیاہی نہ ہو‘‘۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد باب ذکر التوبہ، حدیث: ۴۲۴۸)

مطلب ہے کہ کسی گناہ گار کو اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے ہرگزمایوس نہ ہونا چاہیے ۔خدا اس کے سارے ہی گناہوں کوبخش سکتا ہے، بشرطیکہ وہ سچے دل سے توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے۔ پھر تو اللہ کی نگاہ میں وہ ایسا ہوجائے گا، جیسے وہ کبھی گناہوں کے قریب بھی نہیں گیا۔

  • اَلشَّاھِدُ یَرٰی مَا لَا  یَـرَی الْغَائِبُ ، ’’حاضر اور موجود شخص جوکچھ دیکھتا ہے، اسے وہ شخص نہیں دیکھ سکتا جوموجود نہ ہو‘‘۔(مشکل الآثار للطحاوی، باب بیان مشکل ما رُوِی عن رسول اللہ، حدیث: ۴۳۳۳)

اسی لیے اعتماد اس شخص کی گواہی پرکیا جاتا ہے جو موقع پر موجود رہا ہو۔

  • اِذَا جَائَ کُمْ کَرِیْمُ قَوْمٍ فَاَکْرِمُوْہُ، ’’جب کسی قوم کا بزرگ شخص تمھارے پاس آئے تو اس کی عزّت کرو‘‘۔(السنن الکبریٰ للبیھقی، کتاب القسامۃ، باب قتال اھل البغی، حدیث: ۱۵۵۲۴)

جوشخص ہمارے پاس آئے ہم اس کے مرتبے ومقام کالحاظ رکھیں، یہ اسلامی اخلاق کاتقاضا ہے ۔اگر ہم نے کسی شخص کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جس کاوہ فی الواقع مستحق تھا تو پھر ہمیں اس کی امید نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ہمارے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم کرے گا۔ اس صورت میں وہ ہمارے دین وایمان کااثر بھی قبول نہیں کرسکتا ۔ایک داعی اسلام کوکبھی وہ طرزِ عمل اختیار نہیں کرناچاہیے، جواسلام کی طرف آنے میں لوگوں کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہو۔

  • اَلْیَمِیْنُ الْفَاجِرَۃُ تَدَعُ الدِّیَارَ بَلَاقِعَ، ’’جھوٹی قسم ملک کو ویران کرکے چھوڑتی ہے‘‘۔ (السنن الصغیر للبیھقی ، کتاب الایمان والنذور، باب الیمین الغموس، حدیث: ۳۱۶۰)

جھوٹی قسمیں اس بات کاثبوت فراہم کرتی ہیں کہ لوگوں کے اندر نہ تو اپنے بھائیوں کی خیرخواہی کاجذبہ پایا جاتا ہے اورنہ ان کے دل میں خدا کاخوف باقی ہے۔ جب کسی ملک کے لوگوں کی اخلاقی حالت اس پستی کوپہنچ گئی ہو توپھر اس ملک کو ویرانی اورتباہی گھیرلیتی ہے۔

  • مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ، ’’جوشخص اپنے مال کی وجہ سے مارا جائے، وہ شہید ہے‘‘۔ (بخاری، ابواب المظالم باب من قتل دون مالہ، حدیث:۲۳۶۸)

یعنی اپنے مال واسباب کی حفاظت میں اگرکسی مومن کی جان چلی گئی تو وہ ضائع نہیں ہوئی بلکہ اس مرد مومن کو شہادت کادرجہ حاصل ہوگا۔ اپنے مال کے لیے لڑنا اور ڈاکا ڈالنے والوں سے مقابلہ کرنا ایک طرح سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کادرجہ رکھتا ہے ۔ مومن اپنے مال کو خدا کی امانت سمجھتا ہے اور اس کو خدا کی رضا کے لیے اس کے حکم کے مطابق خرچ کرنا چاہتا ہے۔

  • اَلْاَعْمَالُ بِالْنِیَّۃِ، ’’اعمال کا انحصار نیت پرہے‘‘۔ (بخاری، باب ہجرۃ النبیؐ، حدیث: ۳۷۰۷)

یعنی انسان کاوہی عمل باعث اجر وثواب ہے، جس کے پیچھے اچھی نیت رہی ہو۔ نیت اگر درست نہیں توبڑے سے بڑا عمل بھی بے سود ہے۔ ایمان کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ فرد محض خدا کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کام کرے۔ کسی کام کامحرک اگر نام ونمود کی خواہش یا کوئی اور مذموم جذبہ ہے، تو وہ اللہ کے یہاں ہرگز مقبول نہیں ہوسکتا ۔ایک حدیث میں ریا اورنمایش کے لیے کام کرنے کوشرک تک کہا گیا ہے۔

  • سَیِّدُ الْقَوْمِ فِیْ السَّفَرِ خَادِمُھُمْ، ’’قوم کا سردار سفر میں افرادِ قوم کاخادم ہوتا ہے‘‘۔ (بیہقی فی شعب الایمان، فصل فی ترک الغضب، حدیث: ۸۱۵۰)

سردارِ قوم یاقوم کے قائد کافرض ہے کہ وہ قوم کے کام آئے۔ قوم کی فلاح وبہبود کے لیے تدابیر اختیارکرے اور حتی المقدورقوم کوفائدہ پہنچائے۔ اس کی سعی وجہد اس بات کے لیے ہو کہ اس کی قوم حق وصداقت سے بے بہرہ نہ رہے۔ وہ اسے مقامِ عزّت تک پہنچانے کی پوری کوشش کرے ۔ لیکن آج حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیش قیمت تعلیم کوفراموش کردیاگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قائد اپنے کو خادم تصور کرنے کے بجائے مخدوم سمجھتا ہے ۔

  • خَیْرُ الْاُمُوْر اَوْسَاطُھَا، ’’بہترین کام وہ ہے جس میں اعتدال کوملحوظ رکھا جائے‘‘۔ (بیہقی فی شعب الایمان، باب الاقتصاء فی النفقۃ، حدیث: ۶۳۰۸)

کام کوئی بھی ہواس میں افراط وتفریط سے بچنا ضروری ہے ۔ کسی معاملے میں غیر معتدل رویہ اختیار کرنے سے مختلف قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں،جن کاپہلے سے آدمی کواندازہ بھی نہیں ہوتا۔ معتدل اورمتوازن طرزِ عمل ہی وہ طرزِ عمل ہے جسے اختیار کرکے آدمی آخر تک اس پر قائم رہ سکتا ہے۔ وہی کام نتیجہ خیز ہوسکتا ہے جسے آخر تک انجام دیا جائے۔

  • اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِاُمَّتِیْ فِیْ بُکُوْرِھَا یَوْمَ الْخَمِیْسِ ، ’اے اللہ میری امت کے حق میں پنج شنبہ کے دن کے شروع میں برکت دے‘‘۔ (ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب ما یُرجی من البرکۃ  فی البکور، حدیث: ۲۲۳۴)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پنج شنبہ (جمعرات)کے دن باہر جانے کوپسند فرماتے تھے۔ غزوئہ تبوک کے لیے آپؐ پنج شنبہ ہی کے دن نکلے تھے۔ آپؐ چھوٹا یابڑا لشکر کہیں روانہ کرتے تو دن کے اوّل وقت روانہ فرماتے۔پنج شنبہ کی صبح کے لیے برکت کی دعا جوآپؐ نے مانگی ہے، اس سے آپؐ کی یہ تمنا بھی ظاہر ہوتی ہے کہ امت خدا کی راہ میں نکلنا ترک نہ کرے۔ یوں تو ہر ایک دن اللہ ہی کا ہے لیکن بعض پہلوؤں سے بعض دنوں کو خصوصیت حاصل ہے۔پنج شنبہ کے دن نکلنے کی جوفضیلت ہے اس کے کئی وجوہ ممکن ہیں۔ ایک تو اس روز بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش ہوتے ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ پنج شنبہ کوعربی میں خمیس کہتے ہیں، جس کے معنی لشکر کے ہوتے ہیں ۔اس لیے یہ دن عملِ جہاد کے لیے فال نیک کی حیثیت رکھتا ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا حاصل کرنے کی ایک شکل بھی اس حدیث سے نکلتی ہے ۔اگر کوئی نیا کام کرنا ہوتو اسے پنج شنبہ کے دن سویرے شروع کیاجائے۔

  • کَادَ الْفَقْرُاَنْ یَّکُوْنَ کُفْرًا، ’’لگتا ہے کہ محتاجی کفر ہوجائے‘‘۔ ( بیہقی فی شعب الایمان، ۶۳۱۹)

یعنی فقر اورمحتاجی کے سبب سے آدمی کفر تک پہنچ سکتا ہے ۔افلاس کی وجہ سے کسی آدمی کاکفر میں پڑنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ فقروفاقہ، افلاس وغیرہ آد می کے ایمان کے لیے سخت آزمایش ہیں۔ اللہ ہمیں کسی ایسی آزمائش میں نہ ڈالے جوہمارے ایمان کے لیے فتنہ ثابت ہوسکے۔

  • اَلسَّفَرُ قِطْعَۃٌ مِّنَ الْعَذَابِ، ’’سفر عذاب کا ایک حصہ ہے‘‘۔ (بخاری،ابواب العمرۃ، حدیث:۱۷۲۰، مسلم، کتاب الامارۃ باب السفر قطعۃ من العذاب ، حدیث:۳۶۴۶)

سفر اور حضر میں بڑا فرق ہے ۔سفر میں وہ اطمینان اورآرام حاصل نہیں ہوتا جوآدمی کو اپنے گھر پر میسر ہوتا ہے ۔اس لیے سفر اسی وقت اختیار کرنا چاہیے جب واقعی کوئی ضرورت ہو، بلاضرورت سفر اختیارکرنا اپنے اوقات کاصحیح استعمال نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: فَاِذَا قَضٰی  نَھْمَتَہٗ  مِنْ وَجْھِہٖ فَلْیَعْجَلْ اِلٰی اَھْلِہٖ،’’یعنی مسافر اپنے سفر کی غرض پوری کرے تو اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹنے میں جلدی کرے‘‘۔(بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب ذکرالطعام، حدیث: ۵۱۱۹)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب آدمی سفر میں ہواور زحمتیں پیش آئیں توپریشان ہونے کے بجائے اسے یہ خیال کرناچاہیے کہ وہ اپنے گھر میں نہیں ہے۔ موجودہ دورنے گرچہ سفر میں بہت سی سہولتیں فراہم کردی ہیں، لیکن اس کے باوجود سفر آج بھی سفر ہی ہے۔

  • اَلْمَجَالِسُ بِالْاَمَانَۃِ، ’’مجلسوں کے لیے امانت داری لازم ہے‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الادب باب نقل الحدیث، حدیث۴۲۴۷)

یعنی اہل مجلس کافرض ہے کہ وہ پوری راز داری سے کام لیں ۔مجلس کی کسی ایسی بات کو باہر بیان نہ کریں، جس سے کسی قسم کے فتنہ وفساد کااندیشہ ہو۔مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں ان کو امانت تصور کریں، جس کی حفاظت عقل عام کے نزدیک بھی ضروری ہے ۔بالعموم اس معاملے میں لوگوں سے بڑی کوتاہی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابیاں معاشرے میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کتنے ہی لوگوں کے باہمی تعلقات اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

  • خَیْرُ الزَّادِ التَّقْویٰ، ’’بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘‘۔ (ابن حبان،کتاب الثواب، فیض القدیر،ج۳،ص۲۷۳ )

یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی روشنی میں فرمائی ہے۔قرآن میں ہے: وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَالزَّادِ التَّقْوٰی (البقرہ ۲:۹۷) ’’اور تقویٰ کازادِ راہ ساتھ لے لو کیونکہ سب سے بہتر زاد ِراہ تقویٰ ہے‘‘۔ مسافر کے لیے زادِراہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی طرح پاکیزہ اورصحیح زندگی تقویٰ کے بغیر میسر نہیں آتی اور نہ تقویٰ کے بغیر ایسی زندگی بسر کی جاسکتی ہے ۔تقویٰ وہ زادِ راہ ہے جوسفر حیات میں بھی کام آتا ہے اورمنزل پرپہنچنے کے بعد بھی اس کی ضرورت پیش آئے گی ۔ تقویٰ ہی آخرت میں انسان کی کامیابی کاضامن ہے۔

ارشادِ الٰہی ہے:

اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۝۵۸ۧ (الانفال ۸:۵۸) بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِـــيْمًا۝۱۰۷ (النساء۴:۱۰۷) یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔

’خیانت‘ ،جیسا کہ معروف ہے،’امانت‘ کی ضد ہے۔’ خیانت‘ کی برائی کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے قرآن کا یہ اعلان کافی ہے کہ اللہ رب العزت، ’خیانت‘ میں ملوث ہونے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نا پسند فرمائے اس کے انجامِ بد کے بارے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے اور اس کے موجب ِ وبال و مہلک ہونے کے سلسلے میں قرآن کی یہ مزید و ضاحت لائقِ توجہ ہے کہ اللہ کو ہرخیانت کار ناپسند ہے، اس لیے کہ وہ سخت گنہ گار اور ناشکرا ہو تا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا دوسری آیت اور سورۃ الحج کی آیت ۳۸ سے ظاہر ہوتا ہے ۔

  • خیانت کی اقسام: امانت کی طرح خیانت کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ قرآن کریم میں جہاں امانت کی ادائیگی کا تاکیدی حکم ہے (النساء۴:۵۸)، وہاں لفظ’امانات‘ ( جمع) استعمال ہوا ہے اور جن آیات میں امانت کی ادائیگی اہلِ ایمان کے ایک امتیازی وصف کے طور پر بیان ہوئی ہے ان میں بھی’امانات‘ ہی مذکور ہے (المؤمنون۲۳:۸؛ المعارج۷۰:۳۲)، اور جہاں امانت میں خیانت کی ممانعت وارد ہوئی ہے(الانفال۸: ۲۷)، وہاں بھی جمع ہی مستعمل ہے۔ اس سے یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ امانت کی مختلف صورتیں ہیں، اسی طرح اس کی ضد، یعنی خیانت کی بھی مختلف قسمیں ہیں اور یہ تمام کی تمام ممنوع ہیں۔ ان میں دو سب سے بڑی یا بد ترین قسم کی خیانت اللہ و رسولؐ اور ا للہ کے بندوں کے ساتھ خیانت ہے۔ ان کے علاوہ خیانت کی اور جتنی شکلیں ہیں وہ سب کسی نہ کسی طور پر ان میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتی ہیں۔ ارشادِربّانی ہیں:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے اہلِ ایمان! اللہ و رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی [آپس کی ] امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کا ارتکاب کرو۔

  اردو تفاسیر میں اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت کا مفہوم جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ ہے : اللہ کے حکموں کو توڑنا ،کتابِ الٰہی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنا اور روز مرہ زندگی میں سنتِ رسولؐ پر عمل سے انحراف کرنا ۔ بعض مفسرین کے یہاں اس کی ایک تعبیر یہ بھی ملتی ہے کہ ظاہر میں تو حکمِ الٰہی پر پابند رہا جائے،لیکن پوشیدہ طور پر یا تنہائی میں اس کی خلاف ورزی کی جائے اسی کا نام خیانت ہے (تفہیم القرآن، ج۶،ص۳۳۔۳۴؛ معارف القرآن، ج۸، ص۵۰۶؛ تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴)۔ ان سب تشریحات کا ما حصل یہ ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت سے مراد ہے: ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا، اللہ کے حکموں کو توڑنا،روز مرّہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِالٰہی کی ہدایات ، اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل نہ کر نا اور اللہ اور رسولؐ اور مسلمانوں کے دشمنوں کو خفیہ طور پر مدد بہم پہنچانا یا مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے خلاف کام کرنا۔

جہاں تک آیت میں مذکور آپس میں امانتوں میں خیانت کا تعلق ہے، اس میں وہ تمام معاملات آ تے ہیں جن کا تعلق حقوق العباد یا اللہ کے بندوں کے حقوق سے ہے ۔ ان حقوق کی عدمِ ادائیگی یا ادائیگی میں غفلت و کوتاہی خیانت ہے۔ اسی طرح کوئی کام یا ذمہ داری کسی کے سپرد ہو اسے نہ انجام دینا یا ا س میں لاپرواہی برتنا خیانت ہے۔

اللہ کے بندوں کے حقوق کی عدمِ ادائیگی سے خیانت کی جو مختلف شکلیں ظہور میں آتی ہیں ان کی ایک جامع تعبیر علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ کے اِن الفاظ میں ملتی ہے: ’’ایک کا جو حق دوسرے کے ذمہ واجب ہو اس کے ادا کرنے میں ایمان داری نہ برتنا خیانت اور بددیانتی ہے۔اگر ایک کی چیز دوسرے کے پاس امانت ہو اور وہ اس میں بے جا تصرف کرتا یامانگنے پرواپس نہ کرتا ہو یہ کھلی ہوئی خیانت ہے ،یا کسی کی کوئی چھپی ہوئی بات کسی دوسرے کو معلوم ہو یا کسی نے دوسرے پر بھروسا کر کے کوئی اپنابھید اس کو بتایا ہو تو اس کا کسی اور پر ظاہر کرنا بھی خیانت ہے۔ اسی طرح جو کام کسی کے سپرد ہو اس کو وہ دیانت داری کے ساتھ انجام نہ دے تو یہ بھی خیانت ہی کہلائے گا،علیٰ ہٰذا، عام مسلمانوں،ائمّۂ وقت اور اپنے متفقہ قومی و ملّی مصالح کے خلاف قدم اٹھانا بھی ملت سے بد دیانتی ہے۔دوست ہو کر دوستی نہ نباہنا بھی خیانت ہے۔بیوی میاں کی وفاداری نہ کرے تو یہ بھی خیانت ہے، د ل میں کچھ رکھنا اور زبان سے کچھ کہنا اور عمل سے کچھ اور ثابت کرنا بھی خیانت ہے۔اسلام کی اخلاقی شریعت میں یہ ساری خیانتیں یکساں ممنوع ہیں‘‘ (سیرۃ النبیؐ، ج۶، ص۳۹۶)۔

 مذکورہ آیت کی نسبت سے یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس میں اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت کی ممانعت مقدم ہے۔ اس سے یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ و رسولؐ کے ساتھ خیانت اللہ کے بندوں کے ساتھ خیانت کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ ایک ماہرِعلمِ قرآن نے اسی آیت کے حوالے سے بجاتحریر فرمایا ہے:[ اللہ کے]’’ بندوں سے خیانت کی راہ اللہ اور رسولؐ سے خیانت کی راہ سے ہوکر گزرتی ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرنے والا بندگانِ خدا سے بھی خیانت نہیں کرسکتا‘‘ (سید عبد الکبیر عمری،نورِہدایت،جامعہ دار السلام، عمرآباد،۲۰۱۴ء، ص۲۲۰)۔

یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ و رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے، وہ اللہ سے کیے گئے عہد کا پاس و لحاظ رکھے گااور اس کی عنایت کردہ نعمتوں کو امانت سمجھ کر ان کی قدر کرے گا اور خالق حقیقی کا شکر بجا لائے گا۔ وہ اس کے بندوں کے ساتھ بھی امانت داری و دیانت داری کا معاملہ کرے گا، ان کے ساتھ بے وفائی یا غداری کا معاملہ کرکے انھیں تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ واقعہ یہ کہ جس کسی کے قلب میں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور اس کے احکام کی قدر و قیمت جاگزیں ہوگی وہ اس کے بندوں کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں کرسکتا جو ان کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو۔ ا س سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خیانت و بد دیانتی بہر صورت لوگوں کے لیے زحمت،مضرت اور دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔

  • خیانت  کیسے جنم پاتی ہے؟: اسے سمجھنے کے لیے یہ پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ   یہ ایک ایسی بُری خصلت ہے جس کا تعلق انسان کے اندرون سے ہے۔ در اصل نیت کا فتور، بُرا ارادہ یا ناپاک جذبہ ہوتا ہے جو انسان کو خیانت کے ارتکاب پر ابھارتا ہے۔ اس میں فریب دہی و بددیانتی مضمر ہوتی ہے اور نفاق و کذب بیانی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ نفاق اور جھوٹ لازم و ملزوم ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں واضح کیا گیا ہے ( المنٰفقون۶۳:۱-۲)۔ حدیث میں منافق کی تین علامات میںپہلی علامت جھوٹ بولنے کو قرار دیا گیا ہے: آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : اِذا حدّث کَذَبَ (صحیح بخاری،کتاب الایمان،باب علامات المنافق، حدیث:۳۳)۔ یہاں یہ واضح رہے کہ نفاق دل میں چھپی ہوئی بیماریوں میں سے ہے۔قرآن کی متعدد آیات میں ’ المنافقون ‘کے ذکر کے فوراً بعد یہ مذکور ہے : وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِـہِمْ مَّرَضٌ (الانفال ۸:۴۹، الاحزاب۳۳: ۱۲،۶۰) ’’اور وہ جن کے دلوں[ اندرون] میں مرض ہے ‘‘۔ خیانت، جو نفاق کی ایک واضح علامت ہے، اس کے باطنی خرابی یااندرونی بیماری ہونے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے۔

در اصل یہ برائی جسم کے مختلف حصوں (دل ،آنکھ اور ہاتھ، پیر وغیرہ کی حرکت ،حتیٰ کہ چشم و ابرو کے اشارے )سے سر زد ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن میں ملتا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۝۱۹ (المومن۴۰:۱۹) ’’ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں چھپی ہوئی چیزوں (رازوں / باتوں) تک کو بھی جانتا ہے‘‘۔دل کی خیانت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ راز کی بات کسی کو بتا دی جائے یا کسی کا راز دوسر ے کے سامنے افشاء کردیا جائے۔ اس تحریر کے شروع میں مذکورہ آیت کے شان ِ نزول میں جو واقعہ ( حضرت ابو لبابہ ابن عبدالمنذرؓ کا بنو قریظہ کے لوگوں سے گفتگو میں جسم کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کرکے اہلِ اسلام کے راز کو افشاء کردینا) بیان کیا جاتا ہے اسے دل کی خیانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک آیت میں ان دو خواتین (یا زوجاتِ حضرت نوحؑ و حضرت لوطؑ) کی مثال بدترین عورتوں کے طور پر دی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے شوہروں( جو نبی تھے) کے ساتھ خیانت کی۔ارشادِالٰہی ہے:

ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۝۰ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ۝۱۰  (التحریم۶۶:۱۰) اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ و لوطؑ کی بیویوں کوبطور مثال پیش کرتا ہے۔وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں،مگر انھوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ دونوں سے کہا گیا کہ جہنم کی آگ میں داخل ہوجائو داخل ہونے والوں کے ساتھ۔

 یہ ان خواتین کی سراسر ہٹ دھرمی ا ور انتہائی محرومی تھی کہ انبیائے کرامؑ کی زوجیت میں ہونے کے باوجود انھوں نے ان کے ساتھ خیانت کی۔اس خیانت کی نسبت سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دل کی خیانت تھی ، اس لیے کہ وہ اپنے شوہروں ( جو نبی تھے) پر ایمان نہیں لائیں۔ انھوں نے دین کے معاملے میں ان کی مخالفت کی اور ان کے مقابلے میں دشمنانِ اسلام کا ساتھ دیتی رہیں۔  مزید یہ کہ خفیہ طور پر انھیں مدد بہم پہنچاتی رہیں اور وہ اس طور پر کہ اپنے شوہروں اور ان پر ایمان لانے والوں کی رازدارانہ باتیں مخالفین کو بتاتی رہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنے شوہر نبیوں کے ساتھ کھلی ہوئی بے وفائی کا ثبوت دیا۔

آیت میں ان کے اس طرزِ عمل کو خیانت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن قرار دیا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ خیانت کی ایک بد ترین شکل تھی ( تفسیر احسن البیان، ص۷۳۴ ،حاشیہ ۶، معارف القرآن،مکتبہ مصطفائیہ ،دیو بند،۸؍۵۰۶ ) ۔ حقیقت یہ ہے کہ خیانت، خواہ کسی بھی صورت میں ہو، اس کا تعلق انسان کے اندرون یا اس کے نفس سے ہوتا ہے۔خیانت کو چھپی ہوئی برائی یا اندرونی بیماری اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ا س میں سب سے بڑا دخل نیت کی خرابی کا ہوتا ہے۔ در اصل یہ ناپاک ارادے (کسی کو نقصان پہنچانا،کسی کے مخالف یا دشمن کی خفیہ مدد کرنا، کسی کو ذہنی اذیت دینا، بد دیانتی کرکے مال کی ہوس پوری کرنا، اپنے فائدے کے لیے کسی کے راز کو افشاء کر نا) ہوتے ہیں جو خیانت جیسی سنگین برائی کے پیچھے کار فرما ہو تے ہیں ۔

  • خیانت  سے پناہ طلب کرنا :ان سب کے علاوہ خیانت کے ایک چھپی ہوئی بری خصلت ہونے پر یہ امر بھی شاہد ہے کہ نبی کریمؐ اپنی دعائوں میں جن چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے ان میں خیانت بھی شامل تھی۔آپؐ کے یہ کلماتِ استعاذہ ملاحظہ ہوں: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُوْع فَاِنَّہٗ  بِئسَ الْضَجِیْعُ وَ  اَعُوذُ بِکَ  مِنَ اْلخِیَانَۃِ فَاِنَّہَابِئْسَتِ  الْبِطَانَۃُ  (سنن نسائی، کتاب ۱لا ستعاذۃ ، باب الاستعاذۃ من الجوع ، حدیث: ۷۶۴۱) ’’اے اللہ ! میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں،اس لیے کہ یہ بُرا ساتھی ہے اور میں خیانت سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، بے شک یہ بد ترین باطنی خصلت ہے‘‘۔ اس حدیث پاک کا آخری لفظ البطانۃ  گہری توجہ چاہتا ہے، جس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ خیانت کا تعلق باطن یا انسان کے اندرون سے ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک ایسی اندرونی بیماری ہے کہ جس کو یہ لگ جاتی ہے ، نہ صرف اس کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے، بلکہ جو بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں اور خیانت کی زد میں آتے ہیں ، ان کے لیے بھی تکلیف دہ بنتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ حدیث میں مذکور لفظ ’البطانۃ‘ کا اردو ترجمہ مختلف طور پر: بُری باطنی خصلت، بہت برا اندرونی ساتھی،بدترین چھپا ہوا ساتھی،اندرونی برائی،چھپی ہوئی برائی کیا گیا ہے۔ ’خیانت ‘کے محرکات و نتائج کو محسوس کرکے اس کا توضیحی ترجمہ ’بدترین باطنی خصلت‘ یا ’ بدترین اندرونی بیماری‘ زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ایک باطنی بیماری کی حیثیت سے خیانت کا نفاق سے بہت گہرا تعلق ہے ۔
  • خیانت اور کذب : نفاق کی تین واضح نشانیوں میں کذب او ر خیانت ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت وضاحتی ہو تی ہے کہ خیانت اور کذب میں بہت گہرا تعلق ہے۔ جھوٹ،جھوٹی گواہی، غلط بیانی کا ایک اندرونی برائی ہونا بخوبی معلوم ہے۔ حضرت ابو امامۃؓ سے مروی اس ارشادِنبویؐ میں مزید واضح طور پر سامنے آتا ہے ؛ یُطْبَعُ الْمُوْمِنُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ   اِلَّا الْخِیَانۃَ وَالْکَذِبَ (للبہیقی، کتاب الشہادت، باب من کان منکشف الکذب، حدیث: ۱۹۳۷۷)’’مومن کی طبیعت میں ہرچیز( خصلت) کے پائے جانے کا امکان ہے سوائے خیانت و کذب کے‘‘۔

اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ اگر کوئی شخص فی الواقع مومن ہے تو دوسری کمزوریاں اور برائیاں تو اس کے اندر ہو سکتی ہیں،لیکن خیانت ا و ر کذب جیسی منافقانہ خصلتیں اس میں نہیں پائی جا سکتیں۔اتفاقیہ طور سے کسی مومن سے جھوٹ اور خیانت کی برائی بھی سرزد ہوسکتی ہے،لیکن یہ ممکن نہیں کہ خیانت اور جھوٹ اور کذب کو وہ اپنا شعار بنالے‘‘ (کلامِ نبوت، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۵۳۰،حاشیہ ۱) ۔ حقیقت یہ کہ جس برائی کو کذب ( جو موجب غضبِ الٰہی ہے) کی ہم نشینی حاصل ہو اس کا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب، اس کے بندوں کے لیے باعث زحمت اور انجام کے اعتبار سے تباہ کُن ہونا یقینی ہے۔ اُس حدیث سے یہ نکتہ نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس کے اندر امانت نہیں۔ یہ امر بدیہی ہے کہ جوشخص نہ تو امانت کا حق ادا کرتا ہے اور نہ اس کے تقاضے ہی پورے کر تا ہے ،یعنی خیانت کی راہ اپنا لیتا ہے، وہ کیسے کامل ایمان والا ہو سکتا ہے ۔ایک دوسری حدیث میں مسلم کی شناخت اس طور پر بیان کی گئی ہے کہ وہ نہ اپنے مسلم بھائی کے ساتھ خیانت کا معاملہ کرتا ہے،نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے الْمُسْلِمْ اَخُو المُسْلِمْ لَا یَخُوْنَہٗ  وَلَا یَکْذِبُہٗ  وَلَا یَخذِلُہٗ (جامع ترمذی، ابواب البر،باب ماجاء فی شفقۃ المسلم علی المسلم، حدیث:۱۸۹۹)۔ ان تمام تفصیلات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سچائی، دیانت داری اور عہد کی پاس داری اہلِ ایمان کا شیوہ ہے اور کذب، خیانت، اور عہد شکنی منافقین کا طریق کار ہوتا ہے۔

  • مسلم و غیرمسلم سے خیانت جائز نہیں: واقعہ یہ کہ خیانت ایسی بری حرکت اور مہلک خصلت ہے کہ اسلام میں کسی کے ساتھ بھی اس کا ارتکاب روا نہیں ہے۔ مسلم و غیر مسلم، حمایتی و مخالف، کسی کے ساتھ بھی معاملہ کرنے میں اسے روا نہیں رکھا گیا ہے ،حتیٰ کہ کسی کے ساتھ انتقاماً بھی خیانت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر غیرمسلموں کے ساتھ کوئی عہد وپیمان ہوا ہے اور انھوں نے کوئی غلط طرزِ عمل اختیار کیا ہے تو ان کے خلاف کارروائی سے قبل عہد و پیمان کو باقاعدہ منسوخ کرنے کا اعلان کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ کارروائی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی اور خیانت کے زمرے میں آئے گی ،جیسا کہ سورۃ الانفال کی آیت ۵۸ سے واضح ہوتا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ خیانت کا معاملہ کریں، جو ان کے ساتھ خیانت کا رویہ اختیارکرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی ملا حظہ ہو : اَدِّ الْاَمَانَۃَ اِلٰی مَنْ ائْتَمَنَکَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَکَ  (جامع ترمذی، ابواب البیوع، باب اَدِّ الْاَمَانَۃَ اِلٰی      مَنْ ائْتَمَنَکَ، حدیث:۱۲۲۲) ’’امانت اس کے حوالے کردو جس نے تمھیں (کسی چیز کا) امین بنا یا ہے اور اس کے ساتھ( بھی) خیانت نہ کرو جو تمھارے ساتھ خیانت کا معاملہ کرے‘‘۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ اسلام میں امانت کی پاس داری کو کس قدر اہمیت حاصل ہے اور یہ کہ خیانت کتنی بُری حرکت ہے کہ مسلم و غیر مسلم، حمایتی و مخالف، کسی کے ساتھ بھی خیانت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
  • خیانت کفرانِ نعمت ہـے: خیانت اس اعتبار سے بھی نہایت نا پسندیدہ اور اللہ  رب العزت کو ناراض کرنے والی حرکت ہے کہ اس میں کفرانِ نعمت، یعنی اللہ کی عطا کردہ نعمتوں (جسمانی قوت ،ذہنی صلاحیت،سمجھ بوجھ، فہم و علمی استعداد،مال و دولت وغیرہ) کی ناشکری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کی نگاہ میں خیانت کرنے والوں کے ناپسندیدہ ہونے کے ذکر کے فوراً بعد ’کفور‘ ( ناشکرا) کا لفظ آیا ہے: اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۝۳۸(الحج۲۲:۳۸ ) ۔ اس سے خود یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیانت میں کفرانِ نعمت بھی ہے۔اس آیت کی تشریح میں صاحبِ ِتفہیم القرآن  تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ کی ناپسندیدگی اس وجہ سے ہے کہ خائن ؍ خوّان ہر اس نعمت میں خیانت کررہا ہے، جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے اور ہر اس نعمت کا جواب ناشکری اورکفرانِ ِنعمت اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے ( تفہیم القرآن، ج۳، ص ۲۳۱)۔

درحقیقت اللہ رب العزت نے جو نعمت بھی کسی کو عطا کی ہے وہ اس کی طرف سے ایک امانت ہے۔ اُس نعمت کا بے جا،بے فائدہ اور بری نیت یا غلط مقصد سے استعمال بلا شبہہ اس کی ناشکری ہے جو منعمِ حقیقی کو انتہائی نا پسند ہے۔ اللہ کی نعمت کا بے جا استعمال فی نفسہ کفران یا ناشکری ہے اور اس میں بری نیت مل جائے تو یقینی طور پر اس گناہ کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ النساء کی ایک آیت میں ’ خوَّان‘ کے ساتھ لفظ ’اثیم‘ ( گنہ گار) بھی آیا ہے: اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِــيْمًا۝۱۰۷ ( النساء۴:۱۰۷) ’’ یقیناً ً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار و معصیت کار ہو‘‘۔اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خیانت اور گناہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

  • خدا کی نصرت سے محرومی:  خیانت یا خفیہ طور پر بد دیانتی کے ذریعے اپنے فائدہ کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ذہنی اذیت دینے والے کوآخرت میں جس سخت عذاب کاسامنا ہو گا (الانعام ۶:۱۲۴، فاطر ۳۵:۱۰) وہ اپنی جگہ ہے، ایسا کرنے والے دنیا میں اس کے وبال سے بچ نہیں سکتے، جیسا کہ قرآنی آیات سے واضح ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ خیانت کے ارتکاب کے لیے خفیہ تدبیریں،سازشیں و بری چالیں ( چھپانے کی طرح طرح کی حرکتوں کے باوجود) کسی نہ کسی طرح بے نقاب ہوکر رہتی ہیں جو ذلت و رسوائی اور دنیوی گرفت اور مختلف قسم کے نقصانات کا ذریعہ بنتی ہیں (المائدہ ۵: ۱۳؛ الانبیاء۲۱:۷۰؛ الصّٰفّٰت ۳۷:۹۸)۔ دوسرے بعض اوقات خیانت کار اور مکر وفریب کر نے والے خود اپنی ہی بری چالوںمیں گھر جاتے ہیں اور اس سے نکل نہیں پاتے (فاطر۳۵:۴۳)۔ تیسرے اللہ کی تدبیرِ متین کے آگے فریب دہی و بُری چال کے ذریعے خیانت کی حرکتیں چل نہیں پاتیں، بالآخر وہ ناکام ہو کر رہتی ہیں (اٰل عمرٰن ۳:۵۴، الاعراف ۷:۹۹،۱۸۳،یوسف۱۲:۳۴، النمل ۲۷:۵۰، فاطر۳۵:۱۰، المومن۴۰: ۲۵، ۳۷،  القلم ۶۸:۴۵؛الفیل ۱۰۵:۲)۔ اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ کہ ان سب بیانات کے ثبوت میں قرآن نے واقعاتی شواہد بھی پیش کیے ہیں جو متعلقہ آیات کے سیاق و سباق پر گہری نظر ڈالنے سے سامنے آ جا تے ہیں ۔

قرآن و حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خیانت کرنے والے اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔قرآن میں ان لوگوں کی حمایت اور دفاع سے منع کیا گیا ہے، جو خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں (النساء۴:۱۰۶-۱۰۷)۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی نصرت و حمایت انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور اللہ کی عنایت کردہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خیانت کار، دل ودماغ کی قوتوں کو غلط کام پر لگانے، یعنی ناشکرے اس سے محروم رہتے ہیں (الحج ۲۲:۳۸)۔ پھر ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیاہے کہ ذاتی منفعت کے حصول کے لیے اپنے شریکِ معاملہ کے ساتھ خیانت کا رویہ اپنانے والے اور اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اللہ ربّ العزت کی نصرت و عنایت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اِنَّ اللہ تَعَالٰی یَقُوْلُ اَنَـا ثَالِثُ الشَّـرِیْکَیْنِ مَالَمْ یَخُنْ اَحَدُھُمَا صَاحِبَہٗ  فَاِذَا خَانَہٗ  خَرَجْتُ مِنْ بَیْنَھُمَا  (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکۃ، حدیث: ۲۹۵۳) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے دو شریک باہم خیانت کے مرتکب نہ ہوں، میں ان کے ساتھ رہتا ہوں،لیکن جب ایک شریک دوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں بیچ سے نکل جاتا ہوں [ایک دوسری روایت کے مطابق ’’ ا ور پھر شیطان آجاتا ہے‘‘]۔

اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں رقم طراز ہیں: ’’ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے شرکاء آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں اور خیانت سے دور رہتے ہیں، خدا کی مدد ان کو حاصل رہتی ہے،خدا ان کے کاروبار میں برکت عطا فرماتا ہے، لیکن جب ان کی نیتوں میں فرق آجاتا ہے اور کاروبار کے شرکاء میں سے ہر ایک صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور دوسرے کے ساتھ خیانت اور بے انصافی سے کام لینے لگتاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نفع تنہا اسی کے حصے میں آئے، تو ایسی صورت میں خدا کی رحمت ان سے الگ ہوجاتی ہے اور وہ اپنی مدد کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور شیطان کو اس کا پورا موقع مل جاتا ہے کہ وہ ان کے باہمی تعلقات کو خراب کرے اور ان کے کاروبار کو تباہی کے راستے پر ڈال دے‘‘(کلامِ نبوت، ج ۲،ص ۵۳۱- ۵۳۲، حاشیہ ۳)۔ اس سے بڑھ کر محرومی کیا ہوسکتی ہے کہ کو ئی شخص ربِّ کریم کی نصرت و تائید سے محروم ہوجائے۔ ان سب معروضات سے خیانت کے دنیوی و اُخروی وبال کی سنگینی بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔

  • خیانت کا تدارک: رہا یہ مسئلہ کہ یہ اندرونی بیماری کیسے دُور ہوگی؟اس باطنی مرض سے نجات و حفاظت کے لیے ہمارے لیے کون سا نسخہ مفید یاکارگر ثابت ہوگا ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ خیانت کا تعلق،جیسا کہ واضح ہو گیا، انسان کے اندرون سے ہے،یعنی یہ ایک چھپی ہوئی بیماری ہے۔ اس لیے اللہ رب العزت کے عالم الغیب و والشہادۃ ہونے میں یقین کو تازہ بتازہ رکھنا ا و ر اسے مستحکم بنانا اور ہمیشہ اس حقیقت کا استحضار بہت مفید و مؤثر ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ظاہر و باطن ہر بات ،کھلے و چھپے ہر قول و فعل سے باخبر رہتا ہے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کا تجویز کردہ ہے، انھی کے الفاظ میں ملا حظہ فرمائیں:’’خیانت صرف دل ہی سے نہیں ہوتی ہے،بلکہ ایک ایک عضو سے ہو سکتی ہے،یہاں تک کہ چشم و ابرو کے اشاروں سے ہو سکتی ہے،لیکن اگر یہ یقین ہو کہ ایک ذات ہے جو چوری چھپی کی ہرحرکت سے ہر وقت با خبر رہتی ہے تو پھر انسان کو کسی قسم کی خیانت کاری کی جرأت نہ ہو۔اسلام اسی یقین کو پیدا کرکے خیانتوں کا خاتمہ کرتا ہے، فرمایا: يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۝۱۹   (المومن۴۰:۱۹) ’’اللہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کاری کو اور جو چھپا ہوا سینوں میں ہے‘‘ (سیرۃ النبیؐ،ج۶، ص ۳۹۸)۔ 

 اللہ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ وہ خیانت جیسی مہلک بیماری سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہمیں نیکیوں کی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین ثمَّ آمین!

۱۹۸۸ء کے اوائل میں، افغانستان پر جنیوا مذاکرات سوویت یونین [یعنی کمیونسٹ روسی سلطنت] اور افغانوں کے نمایندوں کے درمیان اقوام متحدہ کے توسط سے گفت و شنید کے آخری مرحلے میں تھے کہ اچانک سوویت روس نے فیصلہ سنا دیا کہ ’’ہم افغانستان سے نکل رہے ہیں اور مجاہدین افغانستان کو سنبھال لیں‘‘۔ روس کے اس فیصلے نے اچانک پاکستان کی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا۔ جنیوا مذاکرات کے زیربحث چار نکات میں روسی فوجوں کے نکلنے کے بعد عبوری حکومت کے ڈھانچے کا نکتہ شامل نہیں تھا۔

روس اور امریکا نے جان بوجھ کر اور پاکستان کی حکومت نے کم فہمی کی بنا پر، ہماری وزارتِ خارجہ میں امریکی نفوذ کی بناپر یا اس خواہش کی بنا پر کہ افغان مجاہدین کی عبوری حکومت کے ڈھانچے کے بغیر وہاں کے معاملات کُلی طور پر حکومت ِ پاکستان ہی کے ہاتھ میں رہیں، جنیوا مذاکرات کے ایجنڈے کے اس خلا کو پُر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کا ڈھانچا کیا ہو؟ کون صدر بنے؟ کون وزیراعظم بنے؟ اختیارات کی تقسیم کیسے ہو؟ عبوری دستور کیا ہو؟ یہ سارے اہم سوالات تشنہ تھے کہ روس نے حکومت پاکستان اور مجاہدین کو مشکل میں ڈالنے اور باہمی آویزش کا شکار کرنے کے لیے فوری انخلا کی چال چلی۔

۱۹۹۲ء کے ابتدائی مہینوں میں اس تسلسل کے اگلے مرحلے پر مَیں وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب سے وقت لے کر ان کے سیکرٹریٹ میں ملاقات کی غرض سے پہنچا۔ اگرچہ اس وقت ہم ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ (IJI) سے نکل چکے تھے، لیکن ابھی نوازشریف کے ساتھ تعلقات اس حد تک قائم تھے کہ رابطہ کرکے اس اہم موقعے پر اپنا رول ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیراعظم ہائوس میں اس وقت استاذ بُرہان الدین ربانی [۲۰ ستمبر ۱۹۴۰ء- ۲۰ستمبر۲۰۱۱ء] موجود تھے، جو یا ملاقات کرچکے تھے یا میرے بعد ملاقات کے انتظار میں تھے۔ استاذ ربانی ۱۹۷۴ء میں کابل یونی ورسٹی میں پولیس کے گھیرے سے نکل کر اپنے دو شاگردوں کے ہمراہ پشاور میں میرے پاس آئے تھے۔ میرے ہاں پناہ لینے کا فیصلہ انھوں نے اس لیے کیا تھا کہ میں صدر سردار داؤد کے زمانے میں خطرہ مول لے کر مشکل حالات میں ان کی مدد کے لیے، اور کابل یونی ورسٹی اور دوسرے تعلیمی اداروں میں موجود اسلامی تحریک کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لیے گیا تھا۔اس وقت گلبدین حکمت یار، استاذ ربانی اور استاد عبدالرسول سیاف [پ: ۱۹۴۶ء] ایک ہی تحریک میں شامل تھے اور مولوی محمدیونس خالص [۱۹۱۹ء- ۱۹جولائی ۲۰۰۶ء] بھی ان کے ساتھ مربوط تھے۔

بہرحال، اس اہم اور حساس موقعے پر مَیں نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا کہ ’’مجاہدین کی دو اہم جماعتوں گلبدین حکمت یار [پ: یکم اگست ۱۹۴۹ء]کی ’حزبِ اسلامی‘ اور استاذ برہان الدین ربانی کی ’جمعیت اسلامی‘ کے درمیان پہلے مرحلے پر بنیادی فارمولا طے کر دیا جائے۔ افغان مجاہدین کے درمیان نزاع اور اختلاف ان دونوں کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر یہ دونوں آپس میں کسی فارمولے پر متفق ہوجائیں، تو باقی لوگوں کو آمادہ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ دونوں کسی فارمولے پر متفق نہ ہوسکے تو دونوں میں سے ہر ایک یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ افغانستان میں کوئی بڑا انتشار پیدا کردے‘‘۔ میں نے ان دونوں کے ساتھ کسی خصوصی تعلق کی بنا پر نہیں بلکہ ایک امرواقعہ کے طور پر یہ مشورہ دیا تھا۔

میاں نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ اسی دن شام کو گورنر ہائوس پشاور میں اجلاس منعقد کیا جائے، جس میں ان دونوں رہنمائوں کے ساتھ بات کی جائے۔ چنانچہ مجھے کہا گیا کہ میں ہیلی کاپٹر میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر (جو اس وقت انٹرسروسز انٹیلی جنس کے سربراہ تھے) کے ہمراہ پشاور پہنچ جائوں اور وہ خود بھی دوسرے ذریعے سے پشاور کے گورنر ہائوس میں پہنچ جائیں گے۔

گورنر ہائوس میں داخل ہوتے ہی معلوم ہوگیا کہ میرے مشورے پر عمل کرنے کے بجائے، وہاں افغانستان کے تمام چھوٹے بڑے لیڈروں کو بلایا گیا ہے۔ نواز شریف صاحب میٹنگ چھوڑ کر کابل میں اقوام متحدہ کے نمایندے سے بات کرنے کے لیے باربار اُٹھ جاتے تھے۔ ایک موقعے پر اسی میٹنگ کے دوران میں انھوں نے پرچیاں تقسیم کروا دیں کہ ’’ہرایک شریک ِ اجلاس اپنی پرچی پر مجوزہ سربراہِ حکومت کا نام تجویز کردے۔ میں سمجھ گیا کہ معاملات کا فیصلہ کسی اور کو کرنا ہے۔ نوازشریف صاحب نہ خود کچھ جانتے ہیں نہ کسی اچھے مشورے پر عمل درآمد کروانے کی پوزیشن میں ہیں۔ چنانچہ جب ایک موقعے پر نواز شریف صاحب کابل سے آنے والا ٹیلی فون سننے کے لیے اُٹھ کر چلے گئے تو میں بھی اجلاس چھوڑ کر پشاور میں اپنے گھر چلا گیا۔

دو دن بعد یہ عجیب و غریب فارمولا سامنے آیا کہ ’’جس کے تحت صبغت اللہ مجددی [۲۱؍اپریل ۱۹۲۵ء-۱۲ فروری ۲۰۱۹ء] تین ماہ کے لیے صدر ہوں گے۔ ان کے تین ماہ بعد استاذ ربانی صدر ہوں گے‘‘۔ اس کے لیے حکمت یار کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ جب کہ وہ خود بھی اس غلط فہمی میں تھے کہ انھوں نے کابل کو فتح کرلیا ہے اور وہ کسی ایسی گفت و شنید میں شامل بھی نہیں ہونا چاہتے تھے، جس میں ان کی مرکزی حیثیت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ ظاہر ہے گلبدین حکمت یار اور استاذ ربانی کا اتحاد بڑی طاقتوں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔

صبغت اللہ مجددی صاحب کا یہ پختہ خیال تھا کہ استاد ربانی اور حکمت یار کی افغانستان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ ’’یہ دونوں تو آپ لوگوں کی بنائی ہوئی مصنوعی قوتیں ہیں اور افغانستان میں اصل دینی اور مذہبی قوت مجددیوں کی ہے‘‘۔ انھوں نے نواز شریف صاحب اور بڑی طاقتوں کو بھی یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ’’ایک دفعہ مختصر عرصے کے لیے ہی کیوں نہ سہی، مجھے صدر کے عہدے پر فائز کر دیا جائے۔ پھر اس کے بعد دیکھنا سارا افغانستان میرے ہاتھ کا بوسہ لینے اُمڈ پڑے گا اور افغانستان میں استاذ ربانی یا حکمت یار کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی‘‘۔

استاذ بُرہان الدین ربانی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سیاسی روابط قائم کررکھے تھے اور انھوں نے خصوصی طور پر اس بات پر توجہ دی تھی کہ وہ افغانستان کے تاجکوں کے متفقہ لیڈر بن جائیں۔ افغانستان میں عسکری قوت بڑھانے کے لیے انھوں نے سوویت یونین کے آخری دور میں فارسی بولنے والے کمیونسٹ جرنیلوں سے روابط بڑھائے تھے۔ احمد شاہ مسعود[۲ستمبر ۱۹۵۳ء-۹ستمبر ۲۰۰۱ء] کے ساتھ ان کا مضبوط اتحاد تھا، لیکن احمد شاہ مسعود نے اپنی فوجی قوت کی بنیاد پر اپنی آزاد حیثیت بھی برقرار رکھی تھی، اس لیے عسکری لحاظ سے استاذ ربانی ہمیشہ مسعود کے محتاج رہے۔ استاذ ربانی کی حیثیت اس عمارت کی دوسری منزل کی تھی، جس کی پہلی منزل احمد شاہ مسعود تھے۔ استاذ ربانی اپنے مزاج کے مطابق کبھی دوٹوک بات نہیں کہتے۔ ان کی ہربات کسی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ وہ بظاہر ہر بات مان لیتے، لیکن ’’اگر، مگر، بشرطیکہ‘‘ کے ساتھ مشروط کرکے وہ ہراتفاق سے نکل جاتے ہیں۔

افغانستان میں مجاہدین کے درمیان اختلافات کا آغاز ہی ربانی صاحب اور حکمت یار صاحب کے اختلاف سے ہوا تھا۔ حرکت انقلاب اسلامی کے مولوی محمد نبی محمدی صاحب [م:۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء] ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ آپ اپنے دو اخوانیوں میں صلح کرا دیں تو ہم سب کا مسئلہ حل ہوجائے، ساری مشکل ان دونوں میں ہے۔ مولوی محمد نبی صاحب کی اپنی جماعت کی تشکیل کا بنیادی سبب بھی یہی بنا تھا کہ حزب اور جمعیت میں اتحاد ہوا اور مولوی محمد نبی صاحب اس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ مولوی محمد یونس خالص نے جو حزب اسلامی میں شامل تھے اتحاد میں شامل ہونے سے انکارکیا اپنی الگ حزب اسلامی کو برقرار رکھا۔ ایک ماہ بعد ربانی صاحب اور حکمت یار صاحب بھی الگ الگ ہوگئے اور مولوی محمد نبی نے اپنی جماعت جو اتحاد کی صورت میں وجود میں آئی تھی برقرار رکھی۔ اسی طرح اتحاد کی کوشش کے نتیجے میں دو سے چار جماعتیں بن گئیں۔ استاذ سیاف کی ’اتحاد اسلامی‘ بھی اتحاد کی کوششوں کے نتیجے میں بنی تھی جو اتحاد ٹوٹنے کے بعد الگ جماعت کے طور پر باقی رہ گئی۔

اتحاد کی کوششوں کے لیے مجالس ساری ساری رات چلتی رہتی تھیں۔ پشاور میں میرا مکان اس طرح کی مجالس کا مرکز تھا۔ جب عرب حکمرانوں نے دلچسپی لینی شروع کی تو عرب ممالک کے علما اور اسلامی تحریکوں کے رہنمائوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی۔ انھوں نے پشاور میں ڈیرے ڈال دیئے۔ اتحاد کی کوششوں میں وہ بھی شریک رہتے تھے۔ بظاہر یہ کوششیں مجاہدین گروپوں کے اتحاد کے لیے ہوتی تھیں لیکن تخریب کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا تھا۔ ان میں ہرملک کی خفیہ ایجنسی کے لوگ شامل رہتے تھے۔ بظاہر سب کا جامہ علمائے کرام اور شیوخ کا ہوتا تھا۔

ایک مجلس میں استاذ ربانی سے میں نے گزارش کی کہ استاذ آپ کوئی ایسی بات کردیں کہ اس کے آخر میں اما ولکن اور اِلَّا  (لیکن، اگر، مگر) نہ ہو‘‘۔لیکن اس گزارش کے باوجود یہ ایک امرواقعہ ہے کہ استاذ اما ولکن اور اِلَّا  (لیکن اگر، مگر) کے بغیر کوئی بات نہ کہہ سکے۔

صدر جنرل محمد ضیاء الحق [م: ۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء]کی حکومت بھی ایک لیڈر کی قیادت میں مجاہدین کو متحد کرنے کی بالکل خواہش مند نہ تھی۔ حکومت ِ پاکستان اور آئی ایس آئی کی اس سلسلے میں ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ افغان اپنی قسمت کے خود مالک بن جائیں، اور افغانستان کو پاکستان کی ایک طفیلی ریاست بنانے کے شوق میں ایران کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ افغانوں کے سارے گروپ بھی ناراض ہوگئے۔ احمدشاہ مسعود اور استاذ ربانی کا حکومت پاکستان سے بڑا شکوہ یہ تھا کہ وہ انجینئر حکمت یار کی حمایت کر رہی ہے۔ پھر خود ہمارے بارے میں بھی ربانی صاحب کو یہی شکایت تھی، حالانکہ ہم نے ہر دور میں افغانوں کے آپس کے اتحاد کی مخلصانہ کوشش کی۔

میاں نواز شریف صاحب نے جب تین ماہ کے لیے صبغت اللہ مجددی صاحب کی صدارت کا فیصلہ قبول کیا جو ربانی صاحب اور سیاف صاحب اور کچھ عرب شیوخ کے درمیان طے پاجانے والے فارمولے کا حصہ تھا اور حکمت یار کو بالکل نظرانداز کردیا، تو میں نے ایک امرواقعہ کے طور پر اورفیلڈ کے حالات کو جانتے ہوئے، اور انجینئر حکمت یار کے ذہن کو سمجھنے کے باعث انھیں بتادیا کہ ’’اس سے ایک بڑے فتنے کی بنیاد پڑگئی ہے‘‘۔ بعدمیں جب ان کے درمیان جنگ چھڑگئی تو میاں نواز شریف صاحب نے برسرِعام مجھے اس لڑائی کا ذمہ دار ٹھیرا دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی افغان رہنما نے، کسی بھی وقت کسی بھی شخص یا گروہ کی ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کی، جس میں اس کا اپنا مفاد نہ ہو۔ افغانوں کے بارے میں یہ تجربہ ہراس گروہ کو ہوا ہے، جس کا ان سے واسطہ پڑا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی بات کے علاوہ کسی کی نہیں سنتے۔ پھر پورے افغانستان میں جو تباہی مچی، اس کی بنیادی ذمہ داری افغان جہادی گروپوں کے لیڈران کرام پر عائد ہوتی ہے، جو ایک دوسرے کے سامنے شانے جھکانے کے لیے تیارنہ ہوئے اور ہر ایک نے اپنی اَنا کی خاطر پوری قوم کو آگ اور خون میں جھونک دیا اور سوویت یونین کے خلاف جہاد میں جو نام پیدا کیا تھا، اسے بدنامی میں تبدیل کر دیا۔

جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ان تمام گروہوں کو ایک قیادت کے تحت اکٹھا کرنے کا امکان موجود تھا کیونکہ وسائل فراہم کرنے کا بنیادی ذریعہ حکومت پاکستان ہی تھی۔ باہر کی امداد بھی حکومت پاکستان کے ذریعے تقسیم ہوتی تھی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق صاحب اور ان کی ٹیم کا خیال تھا کہ ’’اگر یہ لوگ ایک قیادت میں متحد ہوجائیں گے تو حکومت ِ پاکستان کو نظرانداز کرکے اپنے معاملات براہِ راست دُنیا کے ساتھ طے کرلیں گے اور متحدہ قوت کی صورت میں حکومت پاکستان کے لیے بھی پریشانی کا موجب بنیں گے‘‘۔

ان سارے واقعات کی روشنی میں المیہ افغانستان سے ہمیں پہلا بنیادی سبق یہ ملتا ہے کہ ملک و قوم کی اصلاح کے لیے بیرونِ ملک کی مدد اور وسائل پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ افغان مجاہدین کا کُلی انحصار پاکستان پر تھا اور پاکستان کا انحصار امریکا پر تھا۔ امریکا نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد پاکستان اور افغان عوام کو جہاد کے ثمرات سے محروم کردیا۔

دوسرا بنیادی سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ ملک کے تمام مکاتب ِ فکر اور نسلی اور لسانی گروہوں کو قومی مشترکات پر ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ جب تک ایک قوم کے واضح مشترک مقاصد کا تعین نہ کیا جائے، اور قومی مفاد کو گروہی مفاد پر ترجیح نہ دی جائے، اس وقت تک کوئی بھی قوم حقیقی معنوں میں ایک قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی۔ افغانستان میں اسلامی قوتیں بھی آپس کے تعصبات کا شکار تھیں اور نسلی اور لسانی گروہ بھی سینوں میں قبائلی بتوں کی محبت سجائے ہوئے تھے۔افغانوں کے بارے میں علّامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا:

ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی
کہ ہرقبیلہ ہے اپنے بتوں کی زناری

ایک منظم تحریک اس وقت تک منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی، جب تک کہ اس کے پاس ایک متفقہ قیادت نہ ہو۔ یہ قیادت ضروری نہیں ہے کہ ایک فرد کی ہو، اجتماعی بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کا ہم آہنگ ہونا اور مشاورت سے چلنا ضروری ہوتا ہے۔ افغانستان اس طرح کی قیادت سے محروم تھا۔ بدقسمتی سے وہاں اسلامی تحریک ٹھیک طرح منظم نہیں ہوسکی اور جلد ہی شخصیات کی اَنا کی وجہ سے ٹکڑیوں میں تقسیم ہوگئی۔ بعض ٹکڑیوں نے لسانی تنظیموں کا رُوپ دھار لیا۔ آپس کی دشمنی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب افغان، غیرملکیوں کی مدد سے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ غیرملکی پریس انھیں ایک دوسرے کی لاشوں کو مسخ کرتے دکھا رہا ہے تاکہ دشمنی کے زخم اور بھی گہرے ہوجائیں، یہ کبھی مندمل نہ ہوسکیں اور اس طرح افغانستان مستقل طور پر لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوجائے اور وہ پُل ٹوٹ جائے جو پاکستان کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑ سکتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف صاحب نے ’پختون اکثریت کا نعرہ‘ پختونوں کی ہمدردی میں نہیں بلکہ امریکا اور مغربی ممالک کے اشارے پر لگایا، اگر افغانستان میں پختونوں کی اکثریت کا حوالہ دے کر پختونوں کی حکمرانی پر زور دیا جائے گا تو سوچ لینا چاہیے کہ پاکستان میں پنجابیوں کی اکثریت کی بنا پر اگر پنجابیوں کی حکومت کا نعرہ لگایا جائے تو اس کے کیا نتائج ظاہر ہوں گے۔ یہ سب لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے۔

طالبان نے کبھی اپنے آپ کو پختونوں کا نمایندہ نہیں کہا، اور نہ گلبدین حکمت یار نے اپنے آپ کو پشتونوں کے نمایندے کے طور پر پیش کیا۔ نہ بُرہان الدین ربانی نے کبھی یہ کہا ہے کہ وہ تاجکوں کا نمایندہ ہیں۔ خود افغانستان کے شاہی خاندان نے نسلاً پختون ہونے کے باوجود فارسی زبان کو دربار کی زبان کے طور پر استعمال کیا اور اس میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ ظاہر شاہ، دوفقرے پشتو کے درست نہیں بول سکتا اور شاہی خاندان کلچر کے لحاظ سے فارسی بولنے والے تاجکوں کے قریب ہے۔

مسلم ممالک کو متحد رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم لسانی اور نسلی تعصبات سے اپنے معاشرے کو پاک رکھیں اور اسلامی تہذیب اور اخوت کو ہی اپنی پہچان بنالیں۔ دشمن کی اس سازش کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمارے اخبارات بھی مغربی میڈیا کی پھیلائی ہوئی اشتعال انگیزی ہی کو اپنے پہلے صفحے پر نمایاں کر رہے ہیں۔

سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل کرکے ہمیں آیندہ کے لیے احتیاط برتنی چاہیے۔ یہ خواہش رکھنا کہ افغانستان میں پاکستان دوست حکومت بنے، بہت اچھی بات ہے لیکن یہ کام زبردستی نہیں ہوسکتا۔ افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کو دل سے تسلیم کرکے ایسے عناصرکے ساتھ دوستی بڑھائی جاسکتی ہے جن کے ساتھ خارجہ اور داخلہ اُمور میں مشترکہ مقاصد پر معاملہ فہمی ممکن ہے، مگر جن لوگوں نے ماضی میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی تحریک چلائی، انھی کی طرف رجوع کر کے ان کے لیے افغانستان میں زیادہ نمایندگی طلب کرنا مغربی ایجنڈا ہے جس پر ہماری حکومتیں بے سوچے سمجھے گامزن رہی ہیں۔ ہماری ان حکومتوں کی مثال اس روایتی بڑھیا کی سی ہے، جس نے اپنا سوت کاتنے کے بعد ریزہ ریزہ کر دیا۔ احمد شاہ مسعود جیسے قیمتی انسان کو دشمن بنادیا گیا، وہ ۱۹۷۴ء میں پشاور آئے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ عالمِ دین سابقہ ایم این اے مولانا عبدالرحیم چترالی سے قرآن پڑھا اور استاذ بُرہان الدین ربانی کے ساتھ قریبی ساتھی کے طور پر منسلک رہے۔ کچھ دن میرے گھر میں بھی قیام کیا۔ ان کے والد صاحب اپنی وفات تک پشاور میں مقیم رہے اور یہیں پر ان کی تدفین ہوئی۔ لیکن حکومت پاکستان نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انھیں اتنا دُور کر دیا کہ آخرکار انھوں نے پاکستان دشمن رویہ اپنا لیا۔

استاذ بُرہان الدین ربانی ہمیشہ کوشاں رہے کہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات درست ہوں، لیکن حکومت پاکستان ان سے اتنی بدظن ہوچکی تھی کہ جب بھی ہم نے حکمت یار اور ربانی کے درمیان اتحاد کی کوششیں کیں، حکومت پاکستان نے ان کوششوں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی اور حکمت یار کو ان سے الگ رہنے کا مشورہ دیا۔

گلبدین حکمت یار پر پاکستان کی حکومت اور فوج نے سب سے زیادہ محنت صرف کی۔ ایک وقت ایسا تھا کہ حکمت یار افغانستان کی سب سے بڑی جہادی قوت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ وہ آخر وقت تک پاکستان دوست رہے اور مسلم دُنیااور پاکستان کے ساتھ ان کی دوستی میں کبھی بھی تزلزل نہیں آیا۔ وہ کشمیر کے بارے میں پاکستانیوں سے بھی زیادہ یکسو تھے۔ لیکن چونکہ وہ آزاد ذہن سے سوچنے کے عادی تھے اور تابع مہمل رہنے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس لیے انھیں بھی دھتکار دیا گیا۔ طالبان کے ساتھ پاکستان کی حکومت کے تعلق کا یہ عالم تھا کہ ترکی الفصیل نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’’ہم نے اس لیے طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا تھا کہ نصیراللہ بابر نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ’’یہ میرے بچے ہیں‘‘۔

اور پھر حکومت پاکستان نے اپنے ان بچوں کو امریکیوں سے بے دردی کے ساتھ قتل کروایا۔[۲۰۰۲ء]

جنرل محمد ایوب خان [م:۲۰؍اپریل ۱۹۷۴ء] اپنی آپ بیتی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی میں لکھتے ہیں:

'میں ۵؍اکتوبر کو کراچی پہنچا ۔ یحییٰ، حمید اور دو ایک افسر مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ میں سیدھا جنرل اسکندر مرزا [م: ۱۳نومبر ۱۹۶۹ء]سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے تھے۔ سوچ میں ڈوبے ہوئے، چہرے پر ملال اور مایوسی ٹپکتی ہوئی۔میں نے ان سے پوچھا:کیا آپ نے اچھی طرح سوچ سمجھ لیا ہے؟

’’ہاں‘‘۔ انھوں نے کہا۔

’’کیا آپ کے خیال میں یہ مطلقاً ضروری ہے؟‘‘

’’ہاں، یہ مطلقاً ضروری ہے‘‘ انھوں نے مضبوط ارادے کے ساتھ کہا۔

میں اس کو بدقسمتی سمجھتا تھا کہ وقت کی نزاکت ہمیں ایسا سخت قدم اُٹھانے پر مجبور کردے، اور پھر خود کو اس کارروائی میں شریک دیکھنا بھی تو کوئی خوش گوار بات نہ تھی… مگر ملک بچانے کا یہ آخری موقع تھا۔ (ص ۱۱۷)

اس گفتگو کے دو دن بعد ۷ اور ۸؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر (میجر جنرل) اسکندر مرزا نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا اور اس وقت کے آرمی کمانڈر اِن چیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔

چونکہ یہ پہلی پہلی کوشش تھی، اس لیے اس اولین مارشل لا میں ’میرے عزیز ہم وطنو!‘ ' وغیرہ کے عنوان سے ریڈیو (ٹی وی تو خیر ابھی آیا ہی نہیں تھا) پر کوئی تقریر نہیں ہوئی۔ بس ٹائپ رائٹر پر لکھا ایک فیصلہ رات کے ساڑھے دس بجے سائیکلوسٹائل کر کے اخباروں کے دفتروں اور سفارت خانوں کو بھیج دیا گیا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ چند فوجی دستے احتیاطاً ریڈیو پاکستان اور ٹیلی گراف کی عمارت کو گھیرے میں لینے کے لیے بھیج دیے گئے۔

مبصرین کی اکثریت کے مطابق یہی وہ 'ناگزیر ' فیصلہ تھا جس نے ملک پر ایسی سیاہ رات طاری کر دی جس کے کالے سائے آج اتنے برس گزرنے کے بعد بھی پوری طرح سے نہیں چھٹ سکے ہیں۔

اسکندر مرزا کے تحریر کردہ فیصلے کی سائیکلوسٹائل کاپیاں آنے والے عشروں میں بار بار تقسیم ہوتی رہیں، بس کردار بدلتے رہے، مگر کہانی وہی پرانی رہی۔

مثال کے طور پر دیکھیے کہ اس رات تقسیم ہونے والے فیصلے میں رقم تھا:

’ پچھلے دو سال میں گہری تشویش کے ساتھ مشاہدہ کر رہا ہوں کہ اقتدار کے لیے بے تحاشا رسہ کشی جاری ہے۔ بدعنوانیاں ہیں، سادہ، نیک و محب ِ وطن اور محنتی عوام سے بے شرمی کے ساتھ ناجائز فائدہ اُٹھایا جارہا ہے، شائستگی کا فقدان ہے، اور اسلام کو سیاسی مقاصد کا آلۂ کار بنایا جارہا ہے…

سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اتنی پست ہوگئی ہے کہ مجھے اس بات کا کوئی بھروسا نہیں رہا کہ انتخابات ملک کے موجودہ داخلی انتشار کو سدھار سکتے ہیں، یا ان کے ذریعے ایک ایسی مضبوط اور مستحکم حکومت بنائی جاسکتی ہے، جو ان بے شمار پیچیدہ مسائل کو حل کرسکے، جو ہمیں درپیش ہیں۔ آسمان سے نئے لوگ اُتر کر نہ آئیں گے۔ وہی گروہ جس نے پاکستان کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے، انتخابات کو محض اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرے گا بلکہ یہ لوگ بڑے انتقامی جذبے کے ساتھ دوبارہ برسرِاقتدار آئیں گے تو انھی طریقوں کو استعمال کریں گے، جنھوں نے جمہوریت کو ایک ڈھونگ، ایک الم ناک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ (ص ۳۹۶، ۳۹۷)

بعد میں آنے والے مارشل لاز میں یہی سکرپٹ سرقہ ہوہو کر استعمال ہوتا رہا۔

اسکندر مرزا کے بقول ’’جمہوریت مذاق بن کر رہ گئی ہے‘‘، لیکن اصل مذاق یہ تھا کہ جب یہ مارشل لا لگا، اس کے تین ماہ بعد انتخابات طے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون [م:۱۹۷۰ء] کا حکومتی اتحاد جیت جائے گا، اور یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ شاید اس کے قمری نہیں بلکہ زمینی ارکان صدر اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر منتخب نہ کریں۔ چنانچہ صدرِ مملکت کو عافیت اسی میں دکھائی دی کہ جمہوریت ہی کو راکٹ میں بٹھا کر خلا میں روانہ کر دیں۔

اس کی تائید بیرونی ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔ مارشل لا کے نفاذ سے کچھ ہی عرصہ قبل برطانوی ہائی کمشنر سر الیگزینڈر سائمن نے اپنی حکومت کو جو خفیہ مراسلہ بھیجا، اس میں درج تھا کہ ’’صدرِ پاکستان نے انھیں بتایا ہے کہ اگر انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں ناپسندیدہ عناصر موجود ہوئے تو وہ مداخلت کریں گے‘‘۔ سر الیگزینڈر نے اسی مراسلے میں لکھا کہ’’ 'ناپسندیدہ عناصر سے مراد وہ ارکانِ اسمبلی ہیں، جو اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر بنانے کے لیے ووٹ نہ دیں گے‘‘۔

 اسکندر مرزا کو جمہوریت اور آئین کا کس قدر پاس تھا، اس کی ایک مثال ان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب [م:۱۹۸۶ء]کی زبانی مل جاتی ہے۔ وہ اپنی آپ بیتی شہاب نامہ ' میں لکھتے ہیں:

 ۲۲ ستمبر۱۹۵۸ء کو صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے مجھے اپنے پاس بلا بھیجا۔ 'ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی۔ انھوں نے اس کتاب کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: ’’تم نے اس Trash [کوڑا کرکٹ]کو پڑھا ہے؟‘‘ 'جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسیِ صدارت پر براجمان تھے، اس کے متعلق ان کی زبان سے Trash کا لفظ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔(ص ۴۸۳)

۲۳مارچ ۱۹۵۶ء کو منظور ہونے والے جس آئین کو مرزا صاحب نے کوڑا قرار دیا تھا وہ آئین پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے انھی کی ولولہ انگیز قیادت میں تیار کیا تھا۔ اس آئین کے تحت پاکستان برطانیۂ عظمیٰ کی ڈومینین سے نکل کر ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے ابھرا تھا اور اسی آئین نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تھا۔ لیکن ایک اڑچن یہ تھی کہ اس آئین کے تحت صدر کا عہدہ وزیر اعظم سے برتر قرار دیا گیا تھا اور اس میں ۵۸- دو بی قسم کی کچھ ایسی شق ڈالی گئی تھی کہ صدر، وزیر اعظم کو کسی بھی وقت یک بینی دو گوش نکال باہر کر سکتے تھے۔

اسکندر مرزا نے شق کی شمشیرِ برہنہ کا وہ بےدریغ استعمال کیا کہ اس کے مقابلے پر ۵۸ دو بی کند چھری دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے جن وزرائے اعظم کا شکار کیا ان کی فہرست دیکھیے:

  • محمد علی بوگرہ: ۱۷؍ اپریل تا ۱۲؍ اگست ۱۹۵۵ء (یہ استعفیٰ آئین منظور ہونے سے پہلے لیا)
  • چودھری محمد علی: ۱۲؍ اگست ۱۹۵۵ء تا ۱۲ستمبر ۱۹۵۶ء
  • حسین شہید سہروردی:۱۲؍اکتوبر ۱۹۵۶ء تا ۱۷ستمبر ۱۹۵۷ء
    • آئی آئی چندریگر:۱۷؍اکتوبر ۱۹۵۷ء تا ۱۶ دسمبر ۱۹۵۷ء
    • ملک فیروز خان نون:۱۶دسمبر ۱۹۵۷ء تا ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء

اس میوزیکل چیئر کے بارے میں جواہر لال نہرو سے منسوب یہ فقرہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ ’’میں تو اتنی جلدی دھوتیاں بھی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیر اعظم بدل لیتے ہیں‘‘۔

اسکندر مرزا کی محلاتی سازشوں کی ایک جھلک ایک بار پھر شہاب نامہ  میں دیکھیے:

 ’’اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنے تین روز ہوئے تھے کہ شام کے پانچ بجے مجھے گھر پر مسٹر [حسین شہید]سہروردی [م: ۱۹۶۳ء]نے ٹیلی فون کر کے پوچھا:’’پرائم منسٹر کے طور پر میرا حلف لینے کے لیے کون سی تاریخ مقرر ہوئی ہے؟‘‘

یہ سوال سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا، کیوں کہ مجھے اس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ میں نے یہی بات ان کو بتائی تو مسٹر سہروردی غصّے سے بولے، '’’تم کس طرح کے نکمّے سیکریٹری ہو؟ فیصلہ ہو چکا ہے، اب صرف تفصیلات کا انتظار ہے۔ فوراً گورنر جنرل کے پاس جاؤ اور حلف اُٹھانے کی تاریخ اور وقت معلوم کرکے مجھے خبر دو۔ میں انتظار کروں گا‘‘۔

مجبوراً میں اسکندر مرزا صاحب کے پاس گیا۔ وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ برج کھیل رہے تھے۔ موقع پا کر میں انھیں کمرے سے باہر لے گیا اور انھیں مسٹر سہروردی والی بات بتائی۔ یہ سن کر وہ خوب ہنسے اور اندر جا کر اپنے دوستوں سے بولے، ’’تم نے کچھ سنا؟ سہروردی، وزیر اعظم کا حلف لینے کا وقت پوچھ رہا ہے‘‘۔

اس پر سب نے تاش کے پتے زور زور سے میز پر مارے اور بڑے اونچے فرمائشی قہقہے بلند کیے۔ کچھ دیر اچھی خاصی ہڑبونگ جاری رہی۔ اس کے بعد گورنر جنرل نے مجھے کہا، ’’میری طرف سے تمھیں اجازت ہے کہ تم سہروردی کو بتا دو کہ حلف برداری کی تقریب پرسوں منعقد ہو گی، اور چودھری محمد علی وزیرِ اعظم کا حلف اٹھائیں گے‘‘۔

وہاں سے میں سیدھا مسٹر سہروردی صاحب کے ہاں پہنچا اور ان کو یہ خبر سنائی۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ان کے ساتھ کچھ وعدے وعید ہو چکے تھے۔ اس نئی صورتِ حال پر وہ بڑے جھلائے اور میرے سامنے انھوں نے بس اتنا کہا، ’’اچھا، پھر وہی محلاتی سازش‘‘۔(ص ۴۶۸)

لیکن جیسا کہ ہوتا آیا ہے، آخر کار صدرِ مملکت کی محلاتی سازشیں خود انھی پر بھاری پڑگئیں۔ اسکندر مرزا نے نہ صرف سفارش کر کے جونیئر افسر ایوب خان کو آرمی چیف لگوایا تھا بلکہ مارشل لا سے صرف تین مہینے پہلے ان کی مدتِ ملازمت میں دو سال کی توسیع بھی کی تھی۔ انھی ایوب خان نے مارشل لا کے ۲۰ دن کے اندر اندر اسکندر مرزا کو جہاز میں لدوا کر خلا تو نہیں، البتہ پہلے کوئٹہ اور پھر برطانیہ بھجوا دیا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ یہ سکرپٹ بھی پاکستان میں اتنا چلا ہے کہ گھس پٹ گیا ہے کہ جو جس آرمی چیف کو لگاتا ہے وہی اس کے قدموں تلے سے قالین کھینچ لیتا ہے۔

تو کون تھے یہ مبینہ بازنطینی محلاتی سازش ساز اسکندر مرزا، جنھوں نے پاکستانی وزارتِ عظمیٰ کو دھوتی بنا کر رکھ دیا تھا؟

ان کے تعارف میں سب سے پہلے جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسکندر مرزا، نواب آف بنگال میر جعفر [م: ۱۷۶۵ء]کے پڑپوتے ہیں۔ وہی میر جعفر، جنھوں نے ۱۷۵۷ء میں پلاسی کے میدان میں بنگال کے حکمران سراج الدولہ [م:۲جولائی ۱۷۵۷ء]کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور جن کے بارے میں علامہ محمد اقبال کہہ گئے ہیں   ؎

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن

انھی اسکندر مرزا کے صاحبزادے ہمایوں مرزا نے ایک کتاب لکھی ہے: From Plassey to Pakistan (پلاسی سے پاکستان)، جس میں انھوں نے حیرت انگیز طور پر کچھ اور ہی کہانی بیان کی ہے۔

ہمایوں مرزا صاحب نے سراج الدولہ کو ’بدمزاج اور بےرحم‘ ٹھیراتے ہوئے لارڈ رابرٹ کلائیو [م: ۱۷۷۴ء]کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار خود انھی کو قرار دیا تو دوسری طرف یہ عجیب و غریب مماثلت ڈھونڈی ہے کہ جن لوگوں نے سراج الدولہ کو تخت پر بٹھایا تھا (مراد اپنے جدِ امجد میر جعفر سے ہے) انھی کے ساتھ نوجوان حکمران نے بےوفائی کی۔

وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس جنگ کے تقریباً ٹھیک دو سو سال بعد بنگال کی تاریخ کراچی میں دہرائی گئی اور میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزا نے جس ایوب خان کو پروان چڑھایا تھا، اسی نے اپنے محسن کے سر سے تاجِ صدارت نوچ لیا۔

اسکندر مرزا، برصغیر کے پہلے فوجی افسر تھے، جنھوں نے برطانیہ کی مشہورِ زمانہ سینڈہرسٹ میں واقع امپیریل ملٹری اکیڈمی سے تربیت پائی، لیکن ملک لوٹنے کے بعد سول لائن کو ترجیح دی، اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں پولیٹیکل افسر بھرتی ہو گئے۔

پاکستان بننے کے بعد لیاقت علی خان نے انھیں وزیر دفاع مقرر کیا ۔ جب گورنر جنرل غلام محمد [م:۱۹۵۶ء]نے بوجہ خرابیِ صحت استعفیٰ دے دیا، تو ان کی جگہ اسکندر مرزا گورنر جنرل بن گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔تاریخ کا حصہ یہ بھی ہے کہ سات اکتوبر کو مارشل لا نافذ کرنے کے بعد اسکندر مرزا کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ آئین معطل کر کے اور اسمبلی تحلیل کر کے انھوں نے درحقیقت وہی شاخ کاٹ ڈالی ہے، جس پر ان کا قیام تھا۔ چنانچہ اسکندر مرزا نے ۷ ؍اور ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء کے درمیانی ۲۰ دن بڑے مصروف گزارے۔ اس دوران انھوں نے پہلے تو فوج کے اندر ایوب مخالف دھڑوں کو شہ دے کر ایوب خان کا پتہ صاف کرنے کی کوشش کی۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو ۲۴؍اکتوبر کو ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے الگ کر کے وزیر اعظم بنا ڈالا۔  لیکن ایوب خان کو برابر اسکندر مرزا کی 'محلاتی سازشوں کی اطلاعات ملتی رہیں۔ جس رزق  سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ' میں وہ لکھتے ہیں:

’ہمیں اطلاع ملی کہ ان کی بیوی (بیگم ناہید مرزا) ہروقت ان سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہے اور بار بار کہتی ہے کہ ’’تم نے سخت غلطی کی۔ خیر وہ تو جو ہوا سو ہوا، اب تمھیں چاہیے کہ ایوب خاں کو ختم کردو‘‘(ص ۱۲۱)۔ اسکندر مرزا نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اگر وہ فوج اور اس کے سربراہوں کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے تو فوج سب سے پہلے خود انھی کا کام تمام کردے گی۔ چنانچہ میں ان کے پاس گیا اور کہا: ’’آپ کا ارادہ کیا ہے؟ میں نے سنا ہے کہ آپ فوجی افسروں کی گرفتاری کے احکام دیتے رہے ہیں؟‘‘ انھوں نے تردید کرنے کی کوشش کی، ’’آپ کو غلط اطلاع ملی ہے، اس میں ذرہ برابر سچ نہیں‘‘۔ میں نے انھیں تنبیہہ کی، ’’دیکھیے یہ عیاری اورچال بازی ختم کیجیے، ہوشیار رہیے، آپ آگ سے کھیل رہے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ ایسی شرارتیں کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ (ص ۱۲۳)

کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے بھی بھانپ لیا کہ اگر آئین نہیں ہے تو پھر صدر کا عہدہ چہ معنی دارد؟ آئینی شاخ نہیں تو پھر صدارتی آشیانہ کیسا؟

۲۷؍ اکتوبر کی رات جرنل برکی، جنرل اعظم خاں اور جنرل خالد شیخ، اسکندر مرزا کے گھر پہنچ گئے۔ ملازموں نے بہتیرا کہا کہ ’’صاحب اس وقت آرام کر رہے ہیں‘‘، لیکن جرنیل اتنی آسانی سے کہاں ٹلتے ہیں۔ انھوں نے شب خوابی کے چوغے ہی میں صدر سے پہلے سے ٹائپ شدہ استعفے پر دستخط لے لیے اور کہا کہ اپنا سامان اٹھا لیں، آپ کو ابھی اسی وقت ایوانِ صدر سے نکلنا ہو گا۔

اسکندر مرزا نے اپنے عہدے کے بارے کچھ بحث کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی بیگم ایک بار پھر زیادہ معاملہ فہم ثابت ہوئیں اور انھوں نے صرف اتنا پوچھا، ’’مگر میری بلیوں کا کیا ہوگا؟‘‘

۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء کو اسلام آباد میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کا افغانستان میں موسم کی شدت، گھروں کی تباہ حالی، قحط کی کیفیت اور بیماریوں کے حملے جیسی صورتِ حال کے پیش نظر وزائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس ہوا۔ اس طرح کے ہنگامی اجلاسوں میں تمام وزرائے خارجہ شرکت نہیں کر پاتے، لیکن اس اجلاس میں ۲۲وزرائے خارجہ نے شرکت کی جو ایک مناسب تعداد تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے وزرائے مملکت بھی شامل تھے۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھا اور کامیاب اجلاس رہا۔

اجلاس میں بہت سے اہم نکات زیربحث آئے اور متوازی اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ اجلاس کے بعد افغانستان پر ایک قرارداد منظور ہوئی اور اسلام آباد ڈیکلریشن بھی جاری ہوا۔

افغانستان میں ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ افغان اس وقت قحط کا شکار ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ اس انسانی بحران کو حل کرنے کےلیے یہ اجلاس بلایا گیا تھا۔ اس طرح یہ کانفرنس بنیادی طور پر ایک نکاتی ایجنڈا پر مبنی تھی۔

اجلاس میں جو قرارداد منظور ہوئی اور اسلام آباد ڈیکلریشن جاری ہوا ہے، اس کے دو حصے ہیں۔ عام طور پر اس قسم کی قراردادوں کے دو حصے ہوتے ہیں: ایک ابتدائیہ (Preamble) اور دوسرا عملی حصہ (Operative Part)۔ ابتدائیے میں سابقہ قراردادوں اور مختلف حوالوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ عملی حصہ میں لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کن چیزوں پر عمل درآمد ہوگا۔ کسی بھی قرارداد کا یہی بنیادی اور جوہری (substantive) حصہ ہوتا ہے۔

اس کانفرنس میں افغان طالبان حکومت کا وفد بھی شریک تھا اور قائم مقام وزیرخارجہ امیرمتقی نے اس وفدکی قیادت کی۔ انھوں نے اس اجلاس میں ایک گھنٹے کی مفصل تقریر کی اور یہ بتایا کہ ہمارا کیا منصوبہ ہے اور ہم کس طرح آگے بڑھیں گے؟

قرارداد کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں صرف افغانستان کا نام لیا گیا ہے۔ کہیں بھی ’امارت اسلامیہ‘ یا ’اسلامی جمہوری افغانستان‘ کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ او آئی سی نے حددرجہ محتاط رویہ اپنایا ہے، اور او آئی سی میں ابھی تک طالبان حکومت یا امریکی پشت پناہی میں ختم ہونے والی حکومت کے بعد کی صورتِ حال کو تسلیم کرنے پر اتفاق رائے نہیں ہے ۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جو طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ خاص طور پر تاجکستان جہاں اب تک افغان طالبان کی اپوزیشن کے بہت سے لوگ جن کا سابق حکومت سے تعلق تھا، وہاں موجود ہیں۔ طالبان افغانستان کو ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کہتے ہیں، جب کہ سابق حکومت کے لوگ اپنی حکومت کو ’اسلامی جمہوری افغانستان‘ کہتے تھے۔ اس لیے مسلم وزرائے خارجہ نے بیچ کا راستہ نکالا اور صرف افغانستان کہہ کر مخاطب کیا ہے۔

قرارداد میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراراد ۲۵۹۳  جو ۳۰؍اگست ۲۰۲۱ء میں منظور ہوئی تھی، کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس قرارداد کی یہ ایک اہم بات ہے کہ اس میں سلامتی کونسل کی اس قرارداد کا کوئی حوالہ نظر نہیں آتا، جب کہ یہ سلامتی کونسل کی افغانستان پر آخری قرارداد تھی۔یادرہے اس وقت بھارت سلامتی کونسل کا صدر تھا اور اس نے کوشش کر کے وہ قرارداد منظور کروائی تھی۔ تاہم، اس میں طالبان کا نام لیے بغیر ان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ’’وہاں وسیع حکومت (Inclusive) ہونی چاہیے۔ حکومت میں دیگر علاقائی قومیتوں کی نمایندگی بھی ہونی چاہیے‘‘۔

 اسی طرح اس قرارداد میں کہیں بھی ’افغان حکومت‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ صرف ایک پیراگراف میں ’افغان اتھارٹیز‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بھی اس قرارداد کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔

کانفرنس میں جو اُمور طے پائے ہیں، ان میں افغانستان کے لیے ایک ’ہیومن ٹیرین ٹرسٹ فنڈ‘ اسلامک ڈویلپمنٹ بنک (IDB) میں قائم کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اس فنڈ کے لیے ایک ارب ریال کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان ۳۰ملین ڈالر کی امداد پہلے ہی دے چکا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مسلم ملک نے اس فنڈ میں مالی امداد کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ او آئی سی کے ممبر کس طرح سے اس فنڈ میں حصہ ڈالتے ہیں؟

اس قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کیا جائے‘‘۔ اس قرارداد میں اس بات کا احساس بھی موجود ہے کہ صرف ’انسانی ہمدردی‘ کے تذکرے اور معاونت سے کام نہیں چلے گا بلکہ جو معاشی تباہ حالی (economic meltdown ) روز افزوں ہے، اس کا سدباب بھی کرنا ہوگا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اگلے دوماہ میں انسانی بحران کی صورتِ حال کچھ بہتر ہوجائے گی۔ لیکن جب تک معاشی سرگرمیاں شروع نہیں ہوتی ہیں، یہ معاشی بحران جاری رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ افغانستان کا نظامِ بنکاری اور فنانس کا نظام جو بالکل بیٹھ چکا ہے اس کو بحال کیا جائے۔ اس کے لیے مغربی ممالک اور امریکا کی معاونت بہت ضروری ہے۔ اس اجلاس میں امریکا اور یورپی ممالک کے نمایندے بھی موجود تھے۔

او آئی سی نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ’رابطہ گروپ‘ کے بجائے افغانستان کا ’خصوصی نمایندہ‘ مقرر کیا جائے۔ وہ نمایندہ او آئی سی کے ساتھ مل کر افغان اُمور کو دیکھے، اور اس مقصد کے لیے او آئی سی کے موجودہ سیکرٹری جنرل حسین براہیم طٰہٰ کو خصوصی نمایندہ مقرر کیا گیا ہے۔ انھیں او آئی سی کے اگلے اجلاس میں جو مارچ ۲۰۲۲ء میں اسلام آباد میں ہونا ہے، اس کی رپورٹ پیش کرنا ہے۔

یہ تمام باتیں اہم اور مفید ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان پر پیش رفت کس طرح سے ہوتی ہے؟

اس کانفرنس میں افغانستان کاوفدتو شامل تھا لیکن گروپ فوٹو کے موقعے پر اس وفد کے نمایندے کو شامل نہیں کیا گیا۔ ایسی چھوٹی باتیں بعض ممالک کے لیے بہت حساس بن جاتی ہیں۔

دوسری طرف یہ بھی پیش نظر رہے کہ نئی دہلی میں تیسرا سالانہ سنٹرل ایشیا ری پبلکس کا اجلاس ہوا جس میں پانچ ممالک شامل ہیں۔ اس اجلاس کے بعد بھی ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس میں سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۵۹۳ کا باقاعدہ ذکر ہوا اور ’افغانستان میں وسیع حکومت‘ پر زور دیا گیا۔ ’دہشت گردی‘ کے حوالے سے بھی بات کی گئی۔

بلاشبہہ او آئی سی کی قرارداد میں بھی دہشت گردی کی بات ہوئی ہے اور داعش کا ذکر ہوا ہے، آئی ایس خراسان، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور ای ٹی آئی ایم کا تذکرہ ہے، لیکن ازبکستان اسلامی موومنٹ کا نام قرارداد میں نظر نہیں آیا۔ جو قرارداد دہلی میں جاری ہوئی، اس میں افغانستان پر صرف دوپیراگراف ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان سے دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی کہی گئی کہ ’’چاہ بہاربندرگاہ میں بہشتی ٹرمینل جو بھارت نے بنایا ہے اس کو بھی افغانستان میں انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت کو بھی اس بندرگاہ کے ذریعے فروغ دیا جائے گا‘‘۔

اسلام آباد کانفرنس میں فلسطین پر الگ سے اعلامیہ جاری کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس موقع پر اس اعلامیے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ بلاشبہہ فلسطین پر ہمارا ایک اصولی موقف ہے۔ تاہم، یہ اجلاس تو صرف افغانستان کی صورتِ حال کے لیے مختص تھا تو فلسطین پر اعلامیہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پھر اگر فلسطین کو اعلامیہ میں شامل کیا جاسکتا تھا تو کشمیر کا بھی اعلامیہ میں تذکرہ کیا جانا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر وزارائے خارجہ نے یہ گریز پائی کیوںا ختیار کی؟معاملہ یہ ہے کہ کچھ طاقت ور مسلم ممالک نہیں چاہتے کہ بھارت کے خلاف کوئی پوزیشن لی جائے۔ بلاشبہہ اس موقع پر اس اعلامیے کی ضرورت نہیں تھی۔ فلسطین پر ہمارا واضح اور پختہ اصولی موقف ہے۔ خیال رہے کہ کشمیر پر او آئی سی میں اختلافات کو اس اعلامیہ نے مزید نمایاں کرکے دشمن ملک کے لیے سہولت پیدا کی ہے۔

او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کے پیش نظر امریکا، طالبان کے معاملے کو سیاست سے الگ کرکے دیکھے‘‘۔

امرواقعہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں معاملات کو اس طرح سے الگ نہیں کیا جاسکتا، حتیٰ کہ انسانی بحران اور حکومت کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگ انسانی بحران کو امکانات اور مفادات کے ایک موقعے کے طور پر لیتے ہیں اور اس میں اپنے لیے سیاسی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت امریکا بھی یہی کر رہا ہے۔ وہ طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے افغانستان سے نکل گیا۔ ماضی میں بھی کچھ اسی طرح ہوا۔  دسمبر۱۹۹۱ء میں جب سوویت یونین منہدم ہوا، تو امریکا اس خطے سے ہٹ گیا اور پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا کہ وہ ان معاملات کا خود سامنا کرے، خواہ مہاجرین کا معاملہ ہو، یا منشیات کا معاملہ، یا دہشت گردی کا معاملہ۔

آج امریکا نے افغانستان کے فنڈز روکے ہوئے ہیں اور افغانستان کو تسلیم نہیں کرتا تو اس طرح ایک طرف وہ طالبان پر دبائو بڑھانا چاہتا ہے، اور دوسری طرف وہ اس معاملے میں پاکستان کو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ سچی بات ہے کہ صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ چین اور روس کو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اگر افغانستان میں صورتِ حال بگڑتی ہے تو لامحالہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے۔ یوں اس خطے کو مسلسل جنگی دبائو سے دوچار کرکے، معاشی ترقی اور امن کا راستہ روکنا امریکی مفادات کا ہدف دکھائی دیتا ہے۔

طالبان کی کوشش ہے کہ اس صورتِ حال میں ان کو تسلیم کرلیا جائے۔ مغربی دُنیا اس بات کو تو تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہاں انسانی حقوق کا  مسئلہ بناکر وہ گریز کا راستہ بھی اختیار کرتی ہے۔

اب اگر او آئی سی سے وابستہ ممالک کو ہی دیکھا جائے تو وہاں کون سی جمہوریت ہے، وہاں کون سی تمام عناصر پر مشتمل مشترکہ حکومتیں ہیں یا وہاں پر مغربی ’’تصورات و معیارات‘‘ کے مطابق خواتین کے حقوق کی کون سی پاس داری کی جاتی ہے؟

اسی طرح طالبان کے آنے سے پہلے افغانستان میں کون سی جمہوریت تھی؟ انتخابات میں صرف ۲۰ فی صد ووٹ ڈالے جاتے تھے اور ان میں سے ۱۰ فی صد اشرف غنی کو اور ۱۰ فی صد عبداللہ عبداللہ کو مل جاتے تھے۔ ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی تھی۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا، جب ملک کے دو صدر تھے۔

دُنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ طالبان کے لیے وسیع حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رشید دوستم، یونس قانونی اور امرصالح وغیرہ کو وہ اپنی حکومت میں شامل کرلیں گے۔ یہ بات تو کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ تاہم، طالبان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی حکومت میں مختلف علاقائی قومیّتوں اور طبقوں کو نمایندگی دیں۔ مثال کے طور پر وہ تاجک اور ہزارہ قومیّتوں کے نمایندوں کو حکومت میں شامل کریں۔ خواہ ان کی معروف قیادت کو نہ لیں، لیکن ٹیکنوکریٹس کو اپنے ساتھ شامل کریں تاکہ ان کی صلاحیتوں سے کچھ فائدہ بھی اُٹھا سکیں۔

 سوال یہ ہے کہ اگر وہ عبداللہ عبداللہ کو کچھ پیش کش کرتے ہیں تو کیا وہ طالبان کے ساتھ کام کرنا چاہیں گے؟ اگر وہ ان جیسے لوگوں کو شامل کریں گے، تو معاملہ پھر وہیں آکر رُک جائے گا اور حکومت چل نہیں پائے گی۔ اسی طرح طالبان اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ وہ الیکشن کروا سکیں۔ اس لیے کہ طالبان فی الحال ایک سیاسی جماعت نہیں ہیں، لیکن جب تک یہ عبوری نظام موجود ہے یا ’’لویہ جرگہ‘‘ نہیں ہوجاتا، اس وقت تک طالبان کو دوسری قومیّتوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ طالبان قیادت میں پشتون کی اکثریت ہے اور حکومت بھی زیادہ تر پشتون کی نمایندگی کررہی ہے، لہٰذا طالبان کو اس سلسلے میں لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا اور کچھ لچک دکھانا ہوگی۔

اسی طرح خواتین کا مسئلہ مغربی دُنیا نے اپنے تصورات کے مطابق بہت مبالغہ آمیز طریقے سے اُٹھا رکھا ہے، مگر بہرحال افغان معاشرت میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے مزید مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ دین اسلام میں یہ کہا گیا ہے کہ ہرشخص کو لکھنے، پڑھنے اور کام کرنے کا حق ہے، البتہ طریق کار مختلف ہوسکتا ہے۔ تاہم، افغانستان میں لڑکیاں اسکول اور کالج جارہی ہیں، اور اس چیز کو بے جا طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بہرحال ان معاملات کو آگے بڑھنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

’انسانی حقوق اور وسیع تر حکومت کی باتیں‘ ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت کی جارہی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ امریکا، بحران کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر امداد کو سیاست سے جدا رکھے گا۔ وہ پاکستان، چین اور طالبان کو بھی دبائو میں رکھے گا۔جو لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ’’انسانی بحران کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر بین الاقوامی امداد کو سیاست سے الگ رکھا جائے‘‘، وہ یہ بات ایک خیالی دُنیا میں کرتے ہیں، ایسا ہو نہیں سکتا۔

امریکا اس خطے سے عسکری طور پر گیا ہے، مگر اپنے معاشی، عسکری اور تزویراتی مفادات کے لیے وہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور اُٹھائے رکھے گا۔ جس میں ہمارے لیے دانش مندی سے راستہ بنانے کی ضرورت ہے۔ محض بیانات کے زور پر ٹکرانا مناسب نہیں ہوگا۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں تقریباً تین عشروں تک بطور صحافی کام کرتا رہا۔ اس دوران میں  جب کبھی حساس اداروں سے وابستہ حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسران سے آف دی ریکارڈ گفتگو کا موقع ملتا ، تو وہ بتاتے کہ ’’پاکستان کو الجھا ئے رکھنے کےلیے وہاں مذہب، مسلک اور لسانی قومیت کے مسائل کو اٹھا کر آگ جلائے رکھنا ضروری ہے اور آسان بھی‘‘ ۔ بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے انفارمیشن ٹکنالوجی سیل سے وابستہ ایک سابق اہلکار نے ایک بار مجھ سے کہا تھا: ’’بھرتی کے دوران ہمیں مسلمانوں میں اشتعال دلانے کی باضابطہ تربیت دی جاتی ہے ۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمان جذباتی ہوتے ہیں اور جلد ہی اشتعال میں آجاتے ہیں اور اس کا فائدہ اٹھا کر ان کو اُلجھائے رکھنا بہت ہی آسان ہے‘‘۔

 ۱۹۶۰ء کے عشرے میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے مقابلے کے لیے بھارتی خفیہ اور حساس اداروں کے افسران کی ایک میٹنگ طلب کی گئی۔ اس میٹنگ میں شریک ایک اعلیٰ افسر مولائی کرشنا دھر بھی شریک تھے۔ انھوں نے بعدازاں ایک کثیرالاشاعت کتاب Mission to Pakistan  (ناشر: مانس پبلی کیشنز، نئی دہلی،۲۰۰۲ء، صفحات:۷۰۲) لکھی، جس میں بتایا: ’’اس میٹنگ میں طے پایا تھا کہ پاکستان کے مرکزی شہر کراچی میں مسلکی منافرت کو شہ دے کر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو جوابی طور پر سبق سکھایا جائے‘‘۔ اسی کتاب میں انھوں نے مزید لکھا: ’’انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے حکم پر شدت پسند نظریات رکھنے والے ہندو نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی اور ان کو دین اسلام کے باریک سے باریک نکات سے واقف کرایا گیا، تاکہ وہ ایک جیّدعالم کی طرح بحث ومباحثہ کر سکیں ۔ ان کی ابتدائی تربیت دہلی سے متصل ایک فارم ہاؤس میں ایک افسر شیام پروہت المعروف ’مولوی رضوان‘ نے کی ۔ حساس ادارہ جوائن کرنے سے پہلے پروہت ایک شدت پسند ہندو تنظیم کاسرگرم رکن تھا اور دین اسلام کے متعلق اس کی معلومات قابلِ رشک تھیں ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد پروہت نے اپنے ایک شاگردگوتم رے المعروف ’مہم خان‘ کو مزید تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند بھیجا ۔ جہاں اس نے مناظرے کے فن میں خاصی مہارت حاصل کی۔ فراغت کے بعد ٹریننگ کے ایک اگلے حصے کے طور پر مہم خان صاحب نے بریلی جاکر علمائے بریلی کو مناظرے کی دعوت دی ۔ مگر مناظرے سے ایک رات قبل گوتم رے صاحب (یعنی ’مہم خان‘) دادِعیش دینے ایک طوائف کے کوٹھے پر جاپہنچے۔ طوائف اس بات پر حیران ہوئی کہ مولوی کی صورت والا یہ شخص غیر مختون کیوں ہے؟ اس نے جب مسٹر رے یا ’مہم خان صاحب‘ کو لانے والے دلال سے یہ ماجرا پوچھا تو وہ بھی حیران و پریشان ہوگیا اور سیدھا ’خان صاحب‘ کے تعاقب میں ان کی قیام گاہ تک پہنچ گیا۔ وہاں اسے معلوم ہوا کہ یہ ’جید مولوی صاحب‘ تو علمائے دیوبندکے اس وفد میں شامل ہیں، جو علمائے بریلی کے ساتھ مناظرہ کرنے آیا ہے تو مزید حیرت میں گم ہوگیا۔  یہ بات اس نے علمائے بریلی کو جاکر بتائی۔ اس طرح یہ بات پھیل گئی کہ دیوبندی، ختنہ نہیں کراتے۔ صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے خان صاحب یا گوتم رے پہلی ہی بس میں سوار ہوکر دہلی فرار ہوگئے‘‘۔

ان کے بعد دیگر سیدھے سادے مولویوں کا کیا حشر ہوا؟ مسٹر دھر، نے اس سے پردہ نہیں اٹھایا  بلکہ ان کا کہنا ہے: ’’اس واقعے کے بعد چیف صاحب نے پہلا حکم یہ دیا:’’آیندہ ایسے آپریشنز کے لیے بھرتی کیے گئے اہلکاروں کو سب سے پہلے ’حسب حال‘ بنایا جائے‘‘۔ دھر بھارتی انٹیلی جنس بیورو کے نائب سربراہ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، انھوں نے یہ کتاب ایک ناول کی شکل میں لکھی ہے، مگر وہ دیباچے میں واضح طور پر لکھتے ہیں: ’’یہ حقیقی آپریشن کی روداد ہے، جس میں مَیں نے صرف افراداور جگہوں کے نام بدل دیے ہیں‘‘ ۔ ایم کے دھر کا چند برس قبل انتقال ہوگیا، مگر ان کی کتاب شائع ہورہی ہے۔

قصّہ مختصر یہ کہ صرف بھارتی خفیہ ادارے کا کوئی ایسا سربستہ راز نہیں ہے، جس پر سے دھر صاحب نے پردہ اٹھایا ہو ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مصروف مغربی ممالک کی متعدد ایجنسیاں نظریۂ اسلام کے خلاف علانیہ جنگ ا ور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی تگ ودو میں نہ صرف خود مصروف ہیں ، بلکہ مسلمانوں کے اندر سے بھی چند عناصر کو اُکسا کر اسلام کی شبیہ کو خراب کرکے اور غیر مسلموں اور مسلمانوں کے اندر لبرل عناصر کو اس سے متنفر کرکے، اسلامو فوبیا کے ایجنڈے میں گہرا رنگ بھر نے کا کا م کررہی ہیں ۔

اسی طرح دہلی کی ایک عدالت میں بھارت کے مرکزی تفتیشی بیورو یعنی سینٹر ل بیورو آف انوسٹی گیشن(CBI) کی ایک رپورٹ موجود ہے، جس کو بنیاد بناکر ;عدالت نے دو مسلم نوجوانوں ارشاد علی اور نواب معارف قمر کو گیارہ سال بعد رہا کردیاتھا ۔ یہ دونوں افرادبھارت کے خفیہ ادارے اینٹلی جنس بیورو (IB) اور دہلی کی اسپیشل پولیس کے مخبر تھے، جو بعد میں انھی کے عتاب کا شکار ہوکر جیل میں چلے گئے ۔ ان کے ہوش ربا انکشافات ’سی بی آئی‘ اور کورٹ کے ریکارڈ پر موجود ہیں ۔ بہار کا مکین ارشاد علی اپنے ساتھی معارف قمر کے ساتھ کشمیر میں مخبری کا کام کرتا تھا اور چند افسران اس کو لائن آف کنٹرول پار کرکے ’لشکر طیبہ‘ میں شامل ہونے کےلیے دبائو ڈال رہے تھے ۔ جب خوف کے مارے ارشاد نے انکار کیا، تو ملاقات کےلیے موصوف کودہلی بلاکردو ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ بعد میں ایک کشمیری گروپ سے وابستہ دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔

ارشاد علی کے بیان کے مطابق: کسی مسلم علاقے میں زاہدانہ وضع قطع کا کوئی نہ کوئی مولوی ٹائپ شخص روانہ کیا جاتا ہے، جو اسلامی علوم میں دسترس رکھتا ہے اور یہ حضرت یا تو کسی مسجد کے آس پاس مکان کرایہ پر لیتے ہیں یا مسجد میں ہی ڈیرہ جماتے ہیں ۔ اس کے متقی پن اور پرہیزگاری سے متاثر ہوکر محلّے یا گاوں کے افراد اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں ۔ یہ حضرت، رقت آمیز بیانات میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی داستانیں سناکر جذباتی اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو منتخب کرکے جہاد کی ترغیب دیتے ہیں ۔ لوہا جب خوب گرم ہوجاتا ہے، تو ایک دن یہ حضرت معتقدین کے اس گروپ پر ظاہر کرتے ہیں ، کہ وہ دراصل کسی تنظیم کے کمانڈر ہیں ۔ جذبات میں مغلوب نوجوان اب کسی بھی حد تک جانے کےلیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ ان کو ہتھیار چلانے کی معمولی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ یہ مولوی صاحب اس دوران مسلسل افسران کے رابطے میں ہوتے ہیں ۔ ٹارگٹ متعین بھی کر دیا جاتا ہے ۔ آخر میں یہ نوجوان پکے پھلوں کی طرح ان سیکورٹی ایجنسیوں کے بنے جال میں گر جاتے ہیں اور اگر ان کا ’انکاونٹر‘ [جعلی مقابلے میں قتل] نہ ہوجائے ، تو زندگی کا بیش تر حصہ مختلف جیلوں میں گزار تے ہیں ۔ میڈیا میں خبر آتی ہے، کہ ’’دہشت گردوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا گیا ۔ مگر اس کا سرغنہ یا ایک دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ ان پکڑے گئے افراد کو بتایا جاتا ہے، کہ آپ پر رحم کھاکر جیل بھیجا جارہا ہے، ورنہ ’انکاونٹر‘ میں مارا جانا لازمی تھا ۔ وہ بھی پولیس اور اداروں کے احسان مند رہتے ہیں ، کہ مارنے کے بجائے ان کو جیل بھیج دیا گیا، جہا ں اگلے سات تا دس سال گزارنے کے بعد وہ رہا ہوجاتے ہیں ۔

وادیٔ کشمیر کے تجارتی اور سیاسی لحاظ سے اہم قصبے سوپور میں اسکول اور کالج کے دور میں ، میں میر سید علی ہمدانیؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]کی خانقاہ میں نماز جمعہ ادا کرتا تھا ۔ سیّد علی ہمدانیؒ کا تحریر کردہ وظیفہ اورادِ فتحیہ   وحدانیت پر مشتمل کلام ہے۔ نماز سے قبل شمالی کشمیر کے مفتی اعظم مولوی غلام حسن، مسلم امت میں خلفشار اور تفرقوں کا ذکر کرتے ہوئے، اتحاد بین المسلمین کے لیے رقت آمیزدعا کرواتے تھے ، مگر اسی دوران فوراً ہی ان کا ٹریک تبدیل ہو جاتا تھا ۔ وحدت کا درس دینے کے چند منٹ بعد وہ جماعت اسلامی، مولانا مودودی، ایرانی انقلاب وغیرہ کو ہدفِ تنقید بنانا شروع کر دیتے تھے۔ ان کا اصل نشانہ تو جماعت اسلامی ہی ہوتی تھی، اور وہ کہتے تھے کہ ’’جماعت کے لوگ اورادِ فتحیہ  پڑھنے سے لوگوں کو روکتے ہیں‘‘۔ یہ بات سن کر حاضرین کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے، اور وہ نفرت کی چنگاری سلگانے میں کامیاب ہوجاتے۔ حالانکہ جماعت اسلامی سے وابستہ قاری سیف الدین صاحب ہی نے اورادِ فتحیہ   کا اُردو اور کشمیری میں ترجمہ کر رکھا تھا، جو وہاں خاص و عام میں مقبول تھا۔ اور جماعت نے کبھی کسی کو اس کے پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا۔

 جب ۲۰۰۲ء میں مجھے تہاڑ جیل، دہلی میں ایام اسیر ی گزارنے سے قبل دہلی پولیس کی اسپشل سیل کے انٹروگیشن روم میں رکھا گیا ، تو ایک دن خفیہ ادارے کا ایک بزرگ اہلکار راقم سے ملنے آیا ۔ یہ اہلکار ریٹائرمنٹ کے قریب تھا، سوپور کا حال و احوال پوچھنے لگا ۔ میں اس کے سوالات کو انٹروگیشن ہی کا حصہ سمجھ رہا تھا ۔ مگر اس نے جلد ہی وضاحت کر دی کہ ’’میں کافی مدت تک سوپور میں ڈیوٹی دے چکا ہوں، اور وہاں کے گلی کوچوں اور مقتدر افراد سے واقفیت کی یاد تازہ کرنے کےلیے ملنے آیا ہوں‘‘۔ باتوں باتوں میں اس نے مفتی غلام حسن صاحب کا بھی ذکر چھیڑا، کہ کس طرح ۱۹۷۵ء میں شیخ محمد عبداللہ [م:۱۹۸۲ء]کو دام حکومت میں پھنسا کر،رہے سہے جذبۂ آزادی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کےلیے جماعت اسلامی اور دیگر ایسی تنظیموں کا نظریاتی توڑ کرنے کےلیے مقامی پیروں اور مولویوں کو ایک منصوبے کے تحت آلۂ کار بنایاگیا تھا۔ سادگی میں اعتقادی اور بداعتقادی کا ہوّا کھڑا کرکے اپنی جگہ مخلص افراد نے بھی اَنجانے میں اس ہدف کو تقویت فراہم کردی تھی۔

پختہ کار مذہبی ہندو ہونے کے باوجود یہ اہلکار، اسلام کے عقائد اورمسالک کے درمیان اختلافات کی باریکیوں پر بھرپور عبور رکھتا تھا ۔ سبھی فرقوں کے عقائد اس کو اَزبر تھے ۔ شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز کے فرمودات کے علاوہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے ساتھ ان کے فکری اختلافات، جن سے راقم بھی ناواقف تھا،وہ سیرحاصل لیکچر دے سکتا تھا۔ اب مسئلہ دیکھنے کا یہ ہے کہ اتحاد بین المسلمین کا درد سینے میں سمیٹے مفتی صاحب، اسی اتحاد کو پار ہ پارہ کرنے کےلیے کیوں مجبور ہو جاتے تھے؟ خفیہ ادارے کے اس بزرگ اہلکار نے مجھے ماضی کی ا ن کڑیوں کو جوڑنے اور سوچنے پر مجبور کیا، کہ کس طرح اچانک مذکورہ مولوی صاحب وعظ و نصیحت کرتے کرتے ٹریک سے اتر جاتے تھے؟

یہ الگ بات ہے کہ جب کشمیر میں عسکری دور کا آغاز ہوا، تو بارہمولہ میں بھارتی فوج کی ۱۹ویں ڈویژن کے کمانڈر جوگندر جسونت سنگھ، (جو بعد میں بھارتی آرمی کے ۲۱ویں چیف [۲۰۰۵ء- ۲۰۰۷ء]بھی بنے)۔ انھوں نے کشمیر میں سب سے پہلے مساجد کے اماموں کوہی تختۂ مشق بنایا ۔ سوپور کی خانقاہ کے انھی مشہور ۷۰سالہ واعظ کو بھی طلب کیا، اور ان کے جھریوں زدہ ہاتھوں پر گرم استری پھیر دی گئی تھی ۔ کانگریس کے ریاستی یونٹ کے صدر غلام رسول کار کی کوششوں سے جب ان کو رہائی ملی، اور میں ان کی خیریت دریافت کرنے گیا، تو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں کی جلد جھلس چکی تھی، چربی اور گوشت کی تہیں صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔

ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قوم کے لیڈر،ان نزاکتوں کا ادراک کرتے ہوئے، گلی محلے کی مساجد پر نظر رکھیں کہ وہاں مقامی امام یا مولوی صاحب کس طرح کی وعظ خوانی کررہے ہیں؟ ; کیا اس سے معصوم ذہنوں کو قربانی کا بکرا تو نہیں بنایا جارہا ہے؟ ; ناموس رسالت کی اہمیت اور عوام کو اس کی افادیت اور معنویت بتانا اور اس پر زور دینا بجاطور پر اپنی جگہ لازم ہے،  مگر اس کو بنیاد بناکر عوام کوقانون ہاتھ میں لینے کےلیے اُکسانے والوں کو بھی سمجھنا،پرکھنا اور انجام تک پہنچانا چاہیے ۔

 یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مختلف جداگانہ قومیّتوں کے نہایت گہرے تضادات اور تصادم تک پہنچے تفرقات کے باوجود، بھارت نے انڈین نیشنل ازم کو قابلِ لحاظ حد تک تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ ۲۰۱۴ء کے بعد ہندو قوم پرستوں کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے اس میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ مگر اس کے مقابلے میں پاکستان ایک ہی مذہب اور صرف چارپانچ لسانی قومیّتوں کے باوجود شناخت کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار کیوں بن رہا ہے؟ معصوم ذہنوں کو روز تنگ نظر قومیتی احساساتِ محروی اور نفرت بھرے مذہبی وعظوں کے انجکشن دینا بھی قومی سلامتی کو چیلنج کرنے کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس لیے تنگ نظرقوم پرستوں کا معاملہ حکومت پر چھوڑ کر، کم از کم مذہبی حوالے سے نسبت رکھنے والے فسادی عناصر کو دینی قیادت ہی رضاکارانہ طور پر درست کرے، ان کی تطہیر کرے اور ان پر نظررکھے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر سیالکوٹ میں سری لنکا کے باشندے کے ہجومی قتل اور پھر لاش کو جلانے کا واقعہ چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس میں فی الحقیقت کوئی دینی تنظیم ملوث نہیں تھی، مگر جن افراد نے یہ قدم اٹھایا، وہ ضرور کسی کے زیر اثر ہیں، اس لیے صرف اس یا اس نوعیت کے واقعے کی محض مذمت کر نا کافی نہیں ہے، اس طرح کے واقعات کے تدارک کےلیے عملی اقدامات اٹھانا بھی انتہائی ضروری ہے ۔

مسلم دنیا کے حوالے سے فرانس کا ایک نہایت گہرا سامراجی کردار رہا ہے، مگر عام طور پر لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔ لیکن جن مسلم علاقوں میں فرانسیسی استعماریت نے اپنی نوآبادیات قائم کر رکھی تھیں، وہ اس خون آشامی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ گذشتہ دنوں فرانس کے صدر میکرون نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا۔

میکرون نے ستمبر ۲۰۲۱ءمیں کہا تھا کہ ’’ہم نہیں جانتے کہ کوئی الجزائر نامی عرب ملک بھی ہے۔ یہ توہماراملک ہے، جہاں آج بھی فرانسیسی بولی جاتی ہے، جس کے تعلیمی اداروں میں ہمارا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور یہ ممالک عرب کم، فرانسیسی زیادہ ہیں۔ ہمارے علاقے ہم کو چاہییں‘‘۔ اس پر الجزائر اور اس کے ہمسایہ دوسرے افریقی عرب ممالک میں سخت ردعمل ہوا۔ انھوں نے اپنے ہاں متعین فرانسیسی سفیروں کو طلب کرکے فرانسیسی صدر کے غیرذمہ دارانہ الفاظ اور رکیک حملوں پر شدید احتجاج کیا۔ اسی دوران اسرائیل کی دو آبدوزیں، الجزائر کے ساحل پر نمودار ہوئیں۔  فرانس کے ایک وزیر نے یہ اشتعال انگیز بیان دیا: ’’ہم الجزائر سے ابھی نہیں گئے ہیں، ہمارا وجود عرب اقوام کو بھولنا نہیں چاہیے‘‘۔

اس تنازعے کی بنیاد پر مراکش، الجزائر، تیونس میں ہنگامے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ الجزائر اور دوسرے ممالک نے اعلان کیا کہ ’’فرانسیسی زبان میں،اپنے ہاں رائج فرانسیسی تعلیمی نصاب کو ہم مستردکرتے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی انتظامیہ اور عدلیہ سے بھی فرانسیسی زبان کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں۔ اسی دوران صدر میکرون نے پیرس میں چند الجزائری نژاد فرانسیسی نوجوانوں کا اجلاس طلب کیا اور ان کے سامنے اپنی اس شرانگیز خواہش کا اظہار کیا کہ ’’اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے آزادی کی نئی تحریک کا آغاز کریں۔ وہاں پر ایک نئے مغربی ملک کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق اقوامِ عالم کے شانہ بشانہ چل سکے،وغیرہ‘‘۔

اسی طرح فرانس، دومسلم ممالک تیونس اور لیبیا کی سیاست کو زیروزَبر کرنے اور شفاف جمہوریت کے قیام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

فرانس کا سامراجی کردار

فرانس، یورپ کی ایک بڑی سامراجی طاقت رہا ہے۔ کئی مسلم عرب اور افریقی عرب ممالک پر کم و بیش ڈیڑھ دو صدی تک قابض رہا۔ ان اقوام کے تہذیب و تمدن اور زبان پرفرانسیسی تہذیب کے بڑے پیمانے پر اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔ فرانس اپنے پرانے نوآبادیاتی ممالک (مغرب) تیونس، الجزائر، مراکش، موریطانیہ، لیبیا اوران کے ساحلوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے ان ممالک کی داخلی سیاست، معیشت، انتظامیہ،تعلیم،عدلیہ اور فوج میں براہِ راست مداخلت کرتا چلا آیا ہے، اور وہ اس مداخلت کو اپنا بین الاقوامی حق سمجھتا ہے۔

ان ممالک میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد،یہاں پر فرانس ہی کے زیراثر کاسہ لیس اور ذہنی غلام حکمرانوں کی بدترین ڈکٹیٹرشپ چلتی رہی۔الجزائر اسلامک سالویشن فرنٹ، نیشنل لبریشن فرنٹ اور اسلامک سالویشن آرمی نے ۱۹۹۱ء تا ۲۰۰۲ء تک محمد بوضیاف اور پھر علی کافی اور الیمین زروال کی فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے لیے ہرسطح پر جدوجہدکی، جس میں ۱۰لاکھ لوگوں کی جانیں کام آئیں۔ الجزائری انتخابات میں اسلام پسند پارٹی (FIS) نے ۸۰ فی صد نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی، تو فرانس نے الجزائری فوج کو بھڑکا کر ان انتخابات کو کالعدم قرار دلایا اور ایک ایسی ڈکٹیٹرشپ مسلط کردی، جس کے تسلسل میں عبدالعزیز بوتفلیقہ ۲۷؍اپریل ۱۹۹۹ء سے ۲؍اپریل ۲۰۱۹ء تک الجزائر کا ڈکٹیٹر رہا۔ لیبیا میں جب جنگجو حفتر کی ملیشیا کے خلاف ترکی نے معمولی سی طاقت استعمال کی توفرانس نے شدید اعتراض کیا اور اس پر ترکی و مراکش کے اختلافات عروج پر پہنچ گئے۔ کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال مراکش، تیونس اورلیبیا کی ہے کہ ان کے پیچھے فرانس کا مضبوط ہاتھ ہے۔

مراکش، الجزائر،تیونس، لیبیا، موریطانیہ کی حکومتوں کے بارے میں یوں لگتا ہے کہ یہ بڑی کمزور اور اداراتی سطح پر فیصلہ سازی میں سُست روی کا شکار ہیں۔ فرانس سے آزاد ہوئے ۵۰سال گزرنے کے باوجود بھی یہ ممالک اپنا قومی تعلیمی نظام،عدلیہ اور انتظامیہ کا خودکارنظام قائم نہیں کرسکے۔ ہرسطح پر فرانسیسی طاقت وَر گماشتوں اور مخبروں کی مضبوط گرفت آج بھی نظر آتی ہے۔

فرانسیسی معاشرہ

اگرفرانس کو ایک اخلاق باختہ ملک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جہاں ۶۰ فی صد بچے بے نکاح جوڑوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ عورت کی شادی کی اوسط عمر ۳۴سال ہے۔ اوسطاً ایک فرانسیسی کے ہاں ۱ء۳ فی صد بچے پیدا ہوتے ہیں، جب کہ مسلمان عورتیں ۳سے ۴ بچوں کا تولیدی رجحان رکھتی ہیں۔ یہ رجحان دیکھتے ہوئے فرانسیسی ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ’’اگر اسی رفتار سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا تو ۲۰۵۷ء تک مسلمانوں کی فرانس میں آبادی اکثریت میں آجائے گی، جو سارے یورپی خطے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے‘‘۔

فرانسیسی معاشرے کے لیے سب سے بڑا چیلنج خاندانی نظام کو مسترد کرتے ہوئے ہم جنس زدہ کلچر کو فروغ دینا ہے، اور اس کے خوفناک سماجی اثرات کا سامنا کرنا ہے۔ شادی کے بندھن کو اب فرانسیسی سماج میں سخت معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔جو شادی شدہ جوڑے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ہاں بچے پیدا ہوں،یا جو آزادانہ جنسی اختلاط کے تولد ہونے والےبچے کے ماں باپ بنیں۔

چند سال قبل پیرس میں مکمل طور پر برہنہ عورتوں نے ایک جلوس نکالا تھا اور پلے کارڈوں پر لکھا تھا: ’’مجھ سے شادی کرلو‘‘۔ دُنیا کی تہذیب یافتہ قوم کی جنسی حیوانیت، بے شرمی اور بے حیائی کے اس مظاہرے نے اخلاق باختگی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے کہ پیشہ ور طوائفیں بھی اس طرح نہیں کرتیں۔ ہم جنس زدہ مردوں اور ہم جنس زدہ عورتوں کی شادیوں کا آخرکار انجام یہی ہونا تھا۔ فرانسیسی معاشرے میں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس معاشرے میں انفرادی، اجتماعی اورعائلی زوجین کے سرے سے کوئی اصولِ زندگی اور کوئی ضابطۂ حیات نہ ہو تو اس معاشرے کو کوئی دوسرا انسانی معاشرہ اپنے لیے رول ماڈل نہیں بنا سکتا۔

فرانسیسی مسلمان : حکومت اور معاشرے کے جبر کا شکار

فرانس میں کئی برسوں سے اسلاموفوبیا کے بخار میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف بار بار نفرت بھرے جرائم اور بے عزّتی میں اضافہ ہوتا آرہا ہے۔یاد رہے جنوری ۲۰۱۵ء کو اخبار چارلی ہیڈو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنانے کے بعد مذکورہ اخبار کے دفتر پر ایک ’جعلی حملے‘ میں ۱۲؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اضافہ ہوا۔ جرائم کی پرکھ رکھنے والے ماہرین اس حملے کو آج بھی ایک ’جعلی دہشت گرد حملہ‘ قرار دیتے ہیں۔ اسکولوں، گورنمنٹ کے اداروں، کاروباری مراکز، فیکٹریوں، تجارتی و شاپنگ مالوں اور دکانوں میں وقفے وقفے سے مسلمانوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

پیرس میں ایک الجزائری عرب کی بہت مشہور بیکری تھی، جہاں رات دن گاہکوں کی قطاریں لگا کرتی تھیں۔ انتہاپسند فرانسیسی عیسائیوں کو یہ بہت کھٹک رہا تھا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اس کے بارے ایک من گھڑت خبر اُڑا دی کہ ’’یہ انتہا پسند عرب، اپنی بیکری کی آمدنی دہشت گردوں کو بطور عطیہ دیتا ہے‘‘۔ پھر یہ خبر لندن، نیویارک اور دُنیا کے بڑے مشہور میڈیا مراکز پر نشر کر دی گئی۔ اب اس بیکری کے مالکان کا کاروبار بالکل ٹھپ ہوچکا ہے، یہ ہے اسلاموفوبیا کا ایک نمونہ۔

فرانسیسی استعماری نوآبادیاتی نظام کا دورِ استبداد بڑا طویل رہا۔ فرانس نے مراکش پر ۴۴سال ، تیونس پر ۷۵سال اور الجیریاپر ۱۳۲سال تک اپنا غاصبانہ قبضہ جمائے رکھا تھا۔ ۶۰ کے عشرے میں جب فرانس کے خلاف زبردست آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں، تو اس وقت فوج و انتظامیہ میں موجود عرب ملازمین نے عرب عوام کے غصّے سے بچنے کے لیے فرانس میں پناہ لی تھی اور انھیں مسلمانوں سے غداری کے عوض بڑے پیمانے پر فرانسسی شہریت بھی دے دی گئی تھی۔

صدر میکرون کی حکومت نے فرانس میں اسلام کے خلاف جاری شدید نفرت و اہانت کو روکنے کی کبھی کوشش نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس کبھی حجاب پر پابندی، کبھی مساجد پر گرفت، کبھی خطباتِ جمعہ پر تادیبی حکم نامے یا مسلم انتظامیہ کے اسکولوں اور قرآن کی تعلیم پر پابندی کے لیے سخت تر قوانین مرتب اور نافذ کیے۔ گورے فرانسیسی ہمیشہ ترکی، الجزائر، تیونس، مراکش، موریطانیہ اور لیبیا کے عرب مسلمانوں کو ایک ناکارہ گندہ بوجھ سمجھتے آئے ہیں۔ فرانس میں گذشتہ ۵۰برسوں کے دوران مسلم آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور اب ان عربی نژاد شہریوں کی چوتھی نسل ہے۔

فرانس کی کُل آبادی ۶کروڑ ۷۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس میں ۵۶ لاکھ یعنی ۸ء۹ فی صد مسلمان فرانسیسی شہریت کے حامل ہیں۔ پھران میں ۸۲ فی صد افریقی عرب نژاد اور باقی ترکی النسل ہیں۔ تیونس کے ۱۱ء۴ فی صد، الجیریا کے ۴۳ فی صد، مراکش کے ۲۷ فی صد، ماریطانیہ کے ۴فی صد، ترکی ۸ء۶ فی صد، ساحل ۹ء۶ فی صد مسلمان شامل ہیں۔

فرانس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو بار بار گستاخی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جس پر عالمِ اسلام میں شدید غم و غصے کی لہر اُٹھتی ہے۔ غیرعرب ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی میں شدید احتجاج اس کے خلاف کئی مرتبہ ہوچکے ہیں۔

۲۷، ۲۸؍اگست ۲۰۲۱ء کو عرب حکمرانوں کی بغداد میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں بطورِ مہمانِ خصوصی میکرون نے شرکت کی۔ اس دوران میزبان اورمہمان عرب ممالک کی غیرت جاگنی چاہیے تھی کہ میکرون جیسے ملعون کو عرب ممالک کے حکمران، ایک قائد کے طور پر سرجھکائے سن رہے تھے، اور اس کی پذیرائی کر رہے تھے، حالانکہ اس کا مقاطعہ کیا جانا ضروری تھا۔

نیٹو افواج کی درندگی کے شکار عراق میں، جنگ سے تباہ حال علاقے کا جب میکرون نے دورہ کیا، تو بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں اور کھنڈروں کو جوں کا توں دیکھا۔ مساجد، مدارس، ہسپتال بُری طرح تباہ و برباد نظر آرہے تھے۔ لیکن جب میکرون نے تکریت میں ایک تباہ شدہ چرچ کو دیکھا تو اس کے پادری نے کہا کہ ’’داعش نے یہ سب کچھ تباہ کر دیا‘‘۔ قریب کھڑے ایک دوسرے عرب پادری نے میکرون سے پوچھا: ’’داعش جس نے بنائی ہے، آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ آپ لوگ اگر چاہتے تو یہ تباہی چند مہینوں میں ختم ہوسکتی تھی۔ بتائیں اس کے کون ذمہ دار ہیں؟‘‘ پھر اسی عرب پادری نے سخت لہجے میں کہا: ’’آپ کی فضول باتوں سے ہم مطمئن ہونے والے نہیں ہیں‘‘۔

فرانس میں داخلی طور پر مسلم آبادی پر مظالم کی جو لہر روزافزوں ہے ، میکرون اور اس کی حکومت اس کی بنیادی طور پر ذمہ دار ہے۔ مگر اس کا ذکر نہ بغداد علاقائی کانفرنس میں کسی عرب حکمران نے کیا، اور نہ کسی میں اتنی جرأت اور ہمت تھی کہ وہ اپنی سخت احتجاجی قرار داد فرانسیسی صدر کے حوالے کرتا۔ غالباً میکرون کو مسلمانوں کے بارے بھارت کی دوغلی پالیسی بہت کامیاب نظر آتی ہے، جہاںعرب مہاراجوں سے گہری دوستی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور داخلی طور پر فرانس کی طرح اسلام اورمسلمانوں کے لیے سخت ظالمانہ اقدامات کیے جاتے ہیں۔

۳۰ ستمبر۲۰۲۱ء کے پہلے ہفتے میں، مشرق وسطیٰ میں فرانسیسی صدر کا حکمرانوں نے پُرتپاک استقبال کیا ،مگر عوامی سطح پر ان کے خلاف سارے عالمِ اسلام میں شدید جذبات اور احساسات پائے جاتے ہیں۔ افسوس کہ عرب حکمرانوں نے اتنی جرأت، حوصلے اور ہمت نہیں برتی کہ وہ کہہ سکتے: ’’اسلاموفوبیا اور نبی کریمؐ کے خلاف گستاخیاں، مسلمانوں پر جو ظلم و زیادتیاں فرانس میں سرکاری سرپرستی کے ساتھ گذشتہ چند برسوں سے ہورہی ہیں، ان پر وہ پہلے معذرت کرے اور مسلمانانِ فرانس کے ساتھ نرمی و مروّت کا معاملہ کرے‘‘۔ یہ ’گلف کوآپریٹیو کونسل‘ (GCC) کی اوّلین ذمہ داری تھی کہ وہ ایک قرارداد، سفارتی پروٹوکول کو ملحوظ رکھتے ہوئے متفقہ طور پر میکرون کو پیش کرتی۔ بہرحال، دوسری طرف پاکستان اور ترکی نے جہاں بھی موقع ملا، بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اسلاموفوبیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و گستاخی کا مسئلہ پوری قوت سے اُٹھایا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب لیگ کے تمام حکمرانوں نے لبرل ازم اور سیکولرزم کے سامنے جھکنے کی انتہا کردی ہے۔ جس دین اسلام میں، جن رسولِ کریمؐ اور جن پر ایمان باللہ کی وجہ سے دُنیا میں ان کی وقعت، عزّت و احترام ہے، وہی اسلام کے دشمنوں کے دبائو میں آکر لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عرب ممالک میں اسکولوں کے نصاب سے اسلامی مضامین خارج کیے یا غیرمؤثر بنائے جارہے ہیں۔ اسلامیات، اللہ و رسولؐ کی حُرمت و احترام کی جگہ عرب وطنیت اور قومیت کو بڑھا چڑھا کر شامل کیا جارہا ہے۔ عرب اور مسلم ممالک کی اغیار کے ہاتھوں ذلّت و خواری کا سبب یہی ہے۔

تاریخ ان فاش غلطیوں کی بناپر مسلم دُنیا کے حاکم طبقوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ عالمِ اسلام میں پیدا شدہ مایوسی اسی وقت ختم ہوگی، جب ۵۷ مسلم ممالک اپنے طور پر ایمان، عقل و خرد اور خوداعتمادی کے ساتھ ٹھوس فیصلے کریں گے اور دنیا پر واشگاف کردیں گے کہ ہم کسی بھی صورت اسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم کی اہانت ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ یہ کام ایک دو ممالک نہیں، تمام مسلم ممالک کو یک زبان اور ہم قدم ہوکر کرنا ہوگا۔

آخر وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا۔ کشمیر کی مسلم آبادی کو ہمیشہ کے لیے سیاسی طور پر بے وزن بنانے کی غرض سے بھارت کی طرف سے قائم جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ’حد بندی کمیشن‘ نے ریاستی اسمبلی کے لیے ہندو اکثریتی علاقے جموں سے نشستیں بڑھانے کی سفارشات پیش کی ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ءکو جب ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے اس کو دو مرکزی تحویل والے علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا، تو اسی وقت بتایا گیا تھا کہ ’’جموں و کشمیر کی نئی اسمبلی میں ۱۱۴نشستیں ہوں گی، جس میں ۹۰نشستوں پر انتخابات ہوںگے، بقیہ ۲۴نشستیں آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیر انتظام خطے کشمیر کے لیے مخصوص رکھی جائیں گی‘‘۔ کمیشن نے جموں کے لیے چھے سیٹیں اور کشمیر میں محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔

گویا ا ب نئی اسمبلی میں وادیِ کشمیر کی ۴۷ اور جموں کی ۴۳سیٹیں ہوں گی۔ان میں نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دلتوں یا شیڈیولڈ کاسٹ اور قبائلیوں کے لیے ۱۶نشستیں مخصوص ہوں گی۔ چونکہ وادی کشمیر میں شیڈ یولڈ کاسٹ آبادی صفر ہے، اس لیے مخصوص نشستوں سے انتخابات لڑوانے کے لیے امیداواروں کو باہر سے لانا پڑے گا۔ کشمیر ی اُمیدوار، ان نشستوں سے انتخاب لڑہی نہیں سکیں گے۔ اس سے قبل کشمیر کی ۴۶ اور جموں کی ۳۷سیٹیں تھیں۔ وادیِ کشمیر کی سیٹیں اس لیے زیادہ تھیں کیونکہ ۲۰۱۱ءکی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۶۸ لاکھ تھی، جب کہ جموں خطے کی آبادی ۵۳لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۳لاکھ زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے میں نو سیٹیں زیادہ تھیں،جب کہ اصولاً یہ فرق ۱۲سیٹوں کا ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ ۵۰ ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا، جبکہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ ۴۵ ہزار رکھی گئی تھی۔

یہ طے شدہ بات ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے لیڈروں کے ایما پر ہی یہ ساری حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور ۶۸ء۳۱ فی صد مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کرایا جائے۔ ویسے پچھلے دو سو برسوں کے دوران میں یعنی ۱۸۱۹ء میں سکھوں کی فوج کشی کے بعد،۱۹۴۸ء سے ۲۰۱۸ءتک ۷۰برسوں میں مسلمان لیڈر حکومتی مسندوں پر براجمان ہوتے رہے۔ اب شاید محبوبہ مفتی اس خطے کے آخری مسلم وزیر اعلیٰ کے طور پر تاریخ میں درج ہوں گی۔

اگر مقامی بیوروکریسی کاجائزہ لیا جائے، تو فی الوقت ۲۴سیکرٹریوں میں پانچ مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ ۵۸ اعلیٰ سول سروس افسران میں ۱۲ مسلمان ہیں۔ یعنی ۶۸فی صد آبادی کا تناسب اعلیٰ افسران میں محض۱۷ء۴  فی صد ہے۔ دوسرے درجے کے افسران میں کُل ۵۲۳ میں ۲۲۰ مسلمان ہیں۔ یعنی تناسب ۴۲ء۰۶ فی صد ہے۔ اسی طرح ۶۶ اعلیٰ پولیس افسران میں سات مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے ۲۴۸ پولیس افسران میں ۱۰۸ مسلمان ہیں۔ اس خطے کے ۲۰؍اضلاع میں صرف چھے میں، یعنی بانڈی پورہ، بڈگام، کلگام، پلوامہ، رام بن اور سرینگر میں مسلمان ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ ہیں۔

کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کے بجائے رقبے کو معیار بنایا ہے۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور اعتباریت رکھتا ہے، تو اس کو پورے بھارت میں بھی نافذ کردینا چاہیے۔ کمیشن کے اس استدلال کے مطابق تو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی ۵۴۳ رکنی پارلیمنٹ میں ۸۰نشستیں یا تو پھر کم ہونی چاہییں یا دیگر صوبوں پر بھی رقبہ کا فارمولہ لاگو کرکے رقبہ کے لحاظ سے بھارت کے سب سے بڑے صوبہ راجستھان کو پارلیمنٹ میں ۱۱۳نشستیں ملنی چاہییں، جب کہ فی الوقت اس کے پاس صرف ۲۵سیٹیں ہیں۔ اسی طرح دہلی شہر، جس کے پاس سات پارلیمانی سیٹیں ہیں، اس کو رقبہ کے لحاظ سے ایک بھی سیٹ نہیں ملنی چاہیے۔

کشمیر کی مین اسٹریم یا بھارت نواز مسلم پارٹیوں نے پہلے تو ’انتخابی حد بندی کمیشن‘ کا بائیکاٹ کیا تھا، مگر جون ۲۰۲۱ء میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد نیشنل کانفرنس اس کھیل میں شامل ہوگئی۔ چونکہ صرف بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر لوک سبھا کے اراکین ہیں، اس لیے وہ اس کمیشن کے ایسوسی ایٹ اراکین بھی تھے۔ ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے کمیشن کی ساکھ  مشکوک تھی۔ سرینگر اور جموں میں کمیشن کی طرف سے بلائے گئے اجلاسو ں میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بغیر دیگر جماعتوں نے بھی میمورنڈم پیش کیے۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کی پہلے یہ دلیل تھی، کہ ’’یہ کمیشن غیر قانونی ہے، اور جس ایکٹ کے تحت اس کی تشکیل ہوئی ہے، اس کے وجود کو نیشنل کانفرنس نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ اس لیے وہ کمیشن کو تسلیم ہی نہیں کرتے‘‘۔ مگر جون میں دہلی میں اس کے لیڈروں پر کیا جادو ہوا، کہ انھوں نے نہ صرف اس کمیشن کو تسلیم کیا، بلکہ اس کے اجلاسوں میں بطور ایسوسی ایٹ ممبر بھی حصہ لیا۔ اپنی کمزور سیاسی ساکھ کے باوجود اس وقت بھی اس کے لیڈر مفادات کا سودا کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔ اقتدار کی ہوس نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ’نیشنل کانفرنس‘ کو بزدل بناکر رکھ دیا ہے۔ بد قسمتی سے اس جماعت کا محور صرف یہ ہے کہ اقتدار سے کسی طرح تعلق استوار کیا جائے۔

ایک عشرہ قبل دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک مذاکرہ کے دوران بی جے پی کے لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے کہا تھاکہ ’’کشمیر کا واحد مسئلہ اس کا مسلم اکثریتی کردار ہے اور کشمیر کی ترقی میں بھی یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگ وہاں بس نہیں سکتے ہیں،جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی ہے‘‘۔ پھر کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے، آئینی خلاف ورزیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵اے کی صورت میں سیاسی گرداب سے بچنے کے لیے جو معمولی سا پردہ رہ گیا تھا، اس کو بھی ہٹاکر کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے، ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے اور بیگانہ کرنے کا یہ ایک گھناؤنا کھیل جاری ہے۔ جس میں حصہ ڈالنے کے لیے خود کشمیر کے متعدد لیڈر ایک دوسرے پر بازی لے جا رہے ہیں۔

اللہ کی زمین پر، اللہ کے بندوں کو، اللہ کی بتائی ہوئی راہ پر چلانے والے انسان خوش نصیب ہوتے ہیں۔ لکھنے اور سنانے والے تو ہزاروں ہیں، مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے والے تھوڑے ہیں۔ ایسے ہی کم یاب لوگوں میں مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کا نام مدتوں یادوں کا عنوان بنارہے گا۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی ۹جولائی ۱۹۳۲ء کو ضلع اٹک (صوبہ پنجاب،پاکستان) کے قصبے ’پرملی‘ میں پیدا ہوئے اور ابھی چار سال کے تھے کہ ۱۹۳۶ء میں ان کے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا عبدالقدیم (م:۱۹۸۹ء) اپنے بچوں سمیت بریلی (یوپی) منتقل ہوگئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور سے حاصل کی، پھر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں چار برس تک زیرتعلیم رہے،جہاں مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم (۱۹۰۱ء-۱۹۵۸ء) کی شاگردی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ اختر احسن وہی ہیں، جن کے بارے میں مولانامودودی نے لکھا ہے: ’’مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب فی الواقع اس زمانے کے اولیاء اللہ میں سے تھے‘‘۔

محمد یوسف صاحب ۱۹۵۱ءمیں مولانا مودودی کی تحریروں سے آشنا ہوئے۔ اصلاحی صاحب، جماعت اسلامی سے متعارف ہونے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں نے گیارہ سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا۔ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد میرے والدمحترم چاہتے تھے کہ میں صرف علم دین حاصل کروں۔ ہمارے محلّے میں ایک صاحب پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔ وہ آتے جاتے مجھے کوئی نہ کوئی کتاب مطالعے کے لیے دے دیا کرتے تھے، لیکن میں ان کی دی ہوئی کتاب کبھی پڑھتا نہیں تھا، اور کتاب لاکر الماری میں رکھ دیا کرتا تھا۔ چندروز بعد وہ مجھ سے کتاب کے بارے پوچھتے تو کتاب لاکر واپس کر دیتا، اور وہ ایک دوسری کتاب دے دیتے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک دن نہ جانے کس موڈ میں، میں نے ان کی دی ہوئی ایک کتاب اُٹھائی اور پڑھ ڈالی۔ اس کتاب نے تو میرے خیالات میں ایک انقلاب برپا کر دیا،اور اندر کی دنیا تہ و بالا کرڈالی۔ اس کتاب کا نام تنقیحات تھا، اور مصنف کا نام سیّدابوالاعلیٰ مودودی تھا‘‘۔

۱۹۵۴ء میں جماعت اسلامی ہند کے رکن بن گئے اور ۱۹۵۹ء سے رام پور کو اپنا مستقل مستقر بنا لیا۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے طویل عرصے تک رکن رہے۔ مولانا ابوسلیم عبدالحئی (م: ۱۶ جولائی ۱۹۸۷ء) نے رام پور (اترپردیش) میں جامعہ الصالحات کے نام سے طالبات کی ایک بہترین دینی، اقامتی درس گاہ قائم کی۔ ان کے انتقال کے بعد توسّل خان صاحب اور پھر آخر دم تک محمد یوسف اصلاحی صاحب کی نگرانی میں یہ درس گاہ پورے ہند میں ایک مثالی درس گاہ کے طور پر اپنی پہچان رکھتی اور خدمات انجام دے رہی ہے۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب ۲۱دسمبر ۲۰۲۱ء کو انتقال فرماگئے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مولانا کے انتقال کو اسلام اور اسلامی تحریکات کے لیے بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سعادت اللہ حسینی کے بقول: ’’مولانا محمد یوسف مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نہایت مقبولِ عام کتابیں ہیں، جنھوں نے بلامبالغہ کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کی کتاب آدابِ زندگی نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اَن گنت مسلمان گھروں کی بک شیلف کا لازمی حصہ ہے۔ مائیں اپنی بچیوں کو شادیوں کے موقعے پر اس کتاب کا تحفہ اس اُمید کے ساتھ دیتی ہیں کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگیاں سلیقہ مند اور اسلامی آداب کی آئینہ دار ہوں گی۔ مولانا مرحوم کی کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہرطبقے میں مقبول ہیں۔ آسان، سادہ، لیکن دل کش زبان اور پُرکشش اسلوب میں بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترسیل و ابلاغ کا جو ملکہ، اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو عطاکیا تھا، اس کی نظیر مشکل ہی سے نظر آتی ہے‘‘۔

ڈاکٹر زاہد حسین بخاری (واشنگٹن) نے بتایا کہ ’’ایک روز مَیں نے مولانا اصلاحی صاحب سے کہا کہ آپ کی ہر تقریر کے تین حصے ہوتے ہیں، مگر موضوعات الگ الگ‘‘۔فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے کہا: ’’آپ کی تقریر کے پہلے حصے میں قرآن، حدیث اور سیرت پاکؐ کا لازمی حوالہ ہوتا ہے۔ دوسرے حصے میں آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا امریکا آنا، اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ یہاں اسلام کے داعی اور اسلامیت کا نمونہ اورحُسنِ معاشرت کی بہترین مثال بنیں گے، تو آخرت میں کامیاب و کامران ہوں گے۔ اور تیسرے حصے میں آپ کسی نہ کسی حوالے سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا حوالہ ضرور دیتے ہیں‘‘۔

ایک تقریر میں دُنیا کی حقیقت اور فرد کی ذمہ داری مولانا اصلاحی صاحب نے ان لفظوں میں سمجھائی: ’’کویت کے محل پر ایک جملہ لکھا ہے: لَوْ دَامَتْ لِغَیرِکَ مَا وَصَلَتْ اِلَیْکَ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر یہ [دُنیا] کسی اور کے لیے دائمی ہوتی تو تم کو کبھی نہ ملتی‘‘۔ مراد یہ کہ اگر یہ محل تیرے پچھلوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ہوتا تو تجھے نہ ملتا، اور تجھے اس لیے ملا ہے کہ پچھلے رخصت ہوگئے۔ جب ان کے لیے ہمیشہ کے لیے نہیں تھا، تو تجھے بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ تیرے لیے بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے کہ تیرے بھی جانشین رخصت کا انتظار کر رہے ہیں۔بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ باپ رخصت ہو تو سارے کارخانے اور کاروبار کا مَیں مالک بن جائوں۔ پھر اس کا بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ یہ رخصت ہوجائے تو میں اس کا مالک بن جائوں۔ یہ دُنیا اسی طرح چل رہی ہے۔ ہمارے سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہماری زندگی کا زمانہ کیسا گزرا؟ کل ہم نہیں ہوں گے ، تو اللہ کرے ہمارا یہ زمانہ ایسے گزرے کہ لوگ کہیں: کچھ لوگ تھے کہ جنھوں نے نیکیاں پھیلائیں اور بھلائیاں پروان چڑھائیں اور وہ انھیں یاد کرکے دُعائیں دیں کہ اللہ ان کی عاقبت اچھی کرے‘‘۔

اکثر اوقات کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے: ’’جماعت اسلامی والو! تم خوش قسمت ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے، جس نے اپنی کتاب تمھارے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔ جب وہ ناراض ہوگا تو یہ کتاب [قرآن] تمھارے ہاتھوں سے لے لے گا‘‘۔ آپ نے اس ایک جملے سے اللہ کی نعمت کی قدر اور اللہ کے فضل سے محرومی و بربادی کا راستہ واضح کر دیا۔

مولانا یوسف اصلاحی دل کش بزرگی اور علم و فضل کی بلندی کے باوجود، ایک خوش گوار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی سنجیدگی میں وقار اور سماجی روابط میں دل بستگی تھی۔ لہجے میں نرمی کے باوجود، جملوں میں بلا کی قوت اور داخلی دنیا کو ہلادینے کی صلاحیت تھی۔ مجلس میں آپ شرکاء کی حوصلہ افزائی کرتے کہ سوال پوچھے جائیں اور اگر کسی چیز کے بارے میں معلومات کم ہوتیں تو بلاتکلف کہہ دیتے، ’’یہ بات معلوم نہیں لیکن معلومات حاصل کرکے بتادوں گا‘‘۔

مولانا اصلاحی کبھی کبھی اپنے وطنِ مالوف کا دورہ کیا کرتے تھے۔ آخری مرتبہ ۲۰۱۶ء میں آئے اور ایک ہفتہ لاہور میں، دوسرا ہفتہ اپنے گائوں (پرملی، حضرو) میں گزارا۔ قرب و جوار کے لوگ اُن کی زیارت و ملاقات کے لیے اُمڈ آئے۔ ہرنزدیکی گائوں اور قصبے سے مطالبہ تھا کہ مولانا آئیں اور خطاب کریں۔

آپ نے اپنے پیچھے علم دین اور بہترین انسانی زندگی گزارنے کے اسالیب اور اسباق کا ایک خزانہ چھوڑا ہے، جو مدتوں علم کے متلاشیوں کی تسکین کا باعث بنا رہے گا۔ انھوں نے جو کچھ لکھا، اُردو میں لکھا، اور کیا شان دار اُردو میں لکھا ،ایسی شاندارکہ پڑھتے ہوئے جس میں شیرینی کی سی حلاوت کا احساس ہوتا ہے۔

مولانا مودودیؒ ان کی تحریروں کے قدردان تھے۔ انھوں نے ۲؍اگست ۱۹۶۷ء کو اُن کے نام خط میں لکھا: ’’قرآنی تعلیمات کا سیٹ موصول ہوا۔ آپ نے یہ ایک بڑا مفید مجموعہ مرتب کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور خلقِ خدا کو اس سے فائدہ پہنچائے‘‘۔پھر ۲۳جنوری ۱۹۷۸ء کو لکھا: ’’میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ نے سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو مختصر کتاب [داعی اعظمؐ] لکھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو‘‘۔ دل گواہی دیتا ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کی یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے اکتوبر۱۹۷۲ء میں رام پور سے ماہ نامہ ذکریٰ   کا اجرا کیا، اور اسے اپریل ۲۰۰۴ء سے ماہ نامہ ذکریٰ جدید کے نام سے دہلی سے شائع کیا جارہا ہے۔ اس میں لکھنے والوں کی تربیت اور پڑھنے والوں کی رہنمائی کا وافر سامان موجود ہے۔ یہ پرچہ اس اعتبار سے بہت قیمتی ماخذ ہے کہ اس میں تسلسل سے لکھی جانے والی تحریریں اصلاحی صاحب کی کتب کا ذریعہ بنیں۔بہت سی تصانیف میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: l قرآنی تعلیمات lتفہیم الحدیث lداعی اعظمؐ lگلدستۂ حدیثlآدابِ زندگی lاسلامی توحید lفقہ اسلامی lآسان فقہ lشمع حرم lسچا دین lحُسنِ معاشرت lشعورِ حیات lخاندانی استحکام  lروشن ستارے lمسائل کا اسلامی حل lحج اور اس کے مسائل وغیرہ۔

موجودہ زمانے میں عورت کے حقوق اور مر دوں کے ساتھ اس کی ’کامل مساوات‘ کے متعلق جوبحث چل رہی ہے،اس بحث میں حقوق نسواں کے سر گرم حا میوں میں سے وہ مرد اور عورتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں جو اسلام کے نام پر بعض انتہائی احمقانہ با تیں کہہ اور لکھ رہے ہیں ۔ان میں سے بعض تو محض بطورِ شرارت یہ کہتے ہیں کہ ’’اسلام نے ہر لحاظ سے مر دوں اور عورتوں میں کا مل مساوات ملحوظ رکھی ہے‘‘ ، اور بعض اپنی جہالت یا کم فہمی کے باعث یہ دعویٰ کر تے ہیںکہ ’’اسلام عورت کا دشمن ہے ، کیونکہ اسلامی قانون میں حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھل جانے کی گنجایش ہونے کے باوجود عورت کی اس بے مہار آزادی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں جس کا اظہار آج مغرب کے معاشروں میں ہورہا ہے‘‘۔

درحقیقت اسلام، عورت کو ایک اوسط درجے کے طرزِ عمل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کر تا ہے اور اس سے نہ فرشتہ بن جانے کا تقاضا کر تا ہے اور نہ شیطان کی راہ اختیار کرنے کوقبول کرتا ہے ۔چنا نچہ دوسری تہذیبوں یا نظاموں میں عورت کے مقام اور حیثیت کا موازنہ کرتے وقت تمام حقائق کو، جو اس موضوع سے متعلق ہیں انھیں پیش نظر رکھنا چاہیے۔ لہٰذا، اسلام اخلاقیات کے بعض پہلوئوں کے حوالوں سے دیگر دوسرے نظاموں کے مقا بلے میں بے لچک ہے۔

اسلام کی بنیادی خصو صیت یہ ہے کہ وہ عورت کو بھی انسا نیت کا ویسا ہی اہم جزو قرار دیتا ہے، جیسا کہ ایک مرد کو،اور اس میں بالکل ویسی ہی روح کا وجود مانتا ہے، جیسی کہ مرد میں پائی جاتی ہے :

 يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ (النساء۴: ۱) اے لوگو! اپنے اس ربّ سے ڈرو، جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا، اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔

چنا نچہ یہ آیت اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو اپنے نقطۂ آغازسے ایک دوسرے کے ہم پلّہ بنایا ہے ،اور وہ یکساں اور مساوی حقوق کے حق دار ہیں ۔اسلام نے عورت کو مردوں کی طرح جان ،آبرو اور مال وجائیداد کے حقوق دیئے ہیں۔ اس نے اس کی ذات کو محترم قرار دیا ہے اور کسی کے لیے یہ بات جائز نہیں رکھی کہ وہ اس میں عیب نکالے یا اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرے ،اور نہ کسی کو یہ حق ہی دیا کہ وہ اس کی ٹوہ میں رہے اور اس کو اپنے نسوانی فرائض کی بجاآوری کی وجہ سے حقیر جانے ۔لہٰذا،یہ سب حقوق عورت کو اسی طرح حاصل ہیں، جس طرح مرد کو حاصل ہیں ۔ان میں مرد و عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ،بلکہ اس سلسلے میں موجود قوانین کا اطلاق دونوں پر مساوی ہوتا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْہُنَّ۝۰ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۝۰ۭ  …… وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ (الحجرات ۴۹: ۱۱، ۱۲)  اے ایمان والونہ مرد وں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان سے (خدا کے نزدیک)بہتر ہوں۔اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چا ہیے کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے لقب سےپکارو … اور تجسس نہ کیا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔

اسی طرح آخرت میں بھی اجر کے لحاظ سے اسلام نے مرد و عورت دونوں کو مساوی قرار دیا ہے۔

فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۝۰ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝۰ۚ (ا ٰلِ عمرٰن ۳:۱۹۵) جواب میں اُن کے ربّ نے فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنےوالا نہیں ہوں، خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو‘‘۔

بہرحال، جہاں تک مال وجائیداد کے حق کا تعلق ہے ،اس معاملے میں بھی اسلام نے عورتوں اور مردوں میں مساوات کو ملحوظ رکھا ہے ۔چاہے وہ مرد ہو یا عورت اپنی جائیداد کی خرید و فروخت اور اس کا انتظام کرنے میں بالکل آزاد ہوتی ہے ۔وہ چاہے اسے رہن رکھے ،یا کسی کو ورثے میں دے،پٹہ پر دے ،یا فروخت کرے یا اس کو مزید زمین خریدنے کا ذریعہ بنائے یا اس کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے میں استعمال کرے،غرض یہ کہ ان تمام معاملات میں عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں۔جس کے با رے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّـمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۝۰۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِیْبٌ مِّـمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ (النساء۴: ۷) مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔

چنا نچہ جہاں تک عورت کے مال میں حق اور اس کوآزادانہ استعمال کا تعلق ہے، اس کے لیے دو باتیں ہمارے پیش نظر رہنی چا ہییں:ایک تو یہ ہے کہ یورپ کے قا نونی نظام میں زمانہ حال تک عورت کو ان میں سے کوئی ایک حق بھی حاصل نہیں تھا ۔قانونی طورپر وہ اپنے ان حقوق کو براہِ راست استعمال کرنے کی بھی مجاز نہیں تھی ،بلکہ ان کا استعمال بالواسطہ طور پر کسی نہ کسی مرد، اپنے خاوند، باپ،یا سر پرست کی وساطت سے کرتی تھی ۔

دوسرے الفاظ میں حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی طرف سے عورت کو یہ حقوق مل چکنے کے بعدبھی گیارہ صدیوں سے زائد عرصے تک یورپ کی عورت اپنے ان حقوق سے محروم رہی ،جن کے حصول کی خاطر اس کوشدید کش مکش سے دوچار ہونا پڑاتھا۔اس پورے عرصے کے دوران میں نہ اس کی نسائیت اور عفت محفوظ رہی اور نہ اس کی شخصی عزّت ووقار سلامت رہا۔اس کو نہ صرف ان سب چیزوں کی قربانی دینا پڑی بلکہ شدائد و مصائب،قتل، محرومیوں اور بدبختی کے ایک اندوہناک عمل میں سے بھی گزرنا پڑا۔ اس کے باوجود اس کو ان حقوق کا ایک حقیر سا حصہ ہی ملا ،جو اس سے بہت پہلے اسلام عورتوں کو دے چکا تھا۔مگر اسلام کا یہ دینا معاشی حالات کے دبائو یا کسی مظاہرے اور مہم کا نتیجہ نہ تھا اور نہ اس کی پشت پر کوئی طبقاتی کش مکش کارفرماتھی ،بلکہ اس کی اصل وجہ اسلام کی یہ خواہش تھی کہ دنیا میں انسانی زندگی کی دو بنیادی حقیقتیں، صدق اور عدل،عملی صورت میں جلوہ گر ہوں اور یہ محض خوابوں کی دنیا تک محدود نہ رہیں ۔ (اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، پروفیسر محمدقطب ، ترجمہ محمد سلیم کیانی ، ص۱۷۸-۱۷۹)

  مغرب کا خاص طور پر یہ نقطۂ نظر ہے کہ انسانی زندگی دراصل انسان کی معاشی حالت ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے ان کے نظریے کی رو سے جب تک عورت کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوئے تھے اور وہ اپنی جائیداد اور ملکیت میں آزادانہ تصرف کی مجاز نہیں تھی ،تو وہ قطعاً آزاد حیثیت کی مالک نہیں تھی ۔اس کوآزاد انسانی حیثیت اس وقت حاصل ہوئی جب وہ معاشی لحاظ سے آزاد ہوئی اور اس قابل ہوئی کہ اپنی ملکیت میں کسی مرد کی مداخلت کے بغیر براہِ راست پوری آزادی سے تصرف کرسکے۔

 اسلام سے قبل عرب معاشرے میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں بہت کم تر حیثیت حاصل تھی، یہاں تک کہ اگر مرد قصور وار ہوتا اور عورت اس کے ظلم کا نشانہ بنتی، تو قصاص واجب نہیں ہو تا تھا، مگر اسلام نے یہ امتیاز ختم کر دیا،اور جان و مال اور عزت کے حوالے سے جرائم پر کا رروائی مرد اور عورت کے لیے یکساں کر دی بلکہ بعض معاملات میں عورتوں کے حقوق مردوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔

  چنانچہ مال اور جائیداد کے معاملات میں عورت کی مکمل خود مختار حیثیت اور انفرادی تشخص بالکل واضح ہے۔اسلامی قانون کی رو سے عورت کواپنے مال و جائیداد پر مکمل تصرف حاصل ہے۔ اگر وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے تو اسے اپنی جائیداد اپنی مر ضی سے خرید و فروخت کا مکمل اختیار دیا گیا ہے، جس میں کسی مرد کی مداخلت ضروری نہیں ہے،چاہے وہ اس کا باپ ہو ،شوہر ،بیٹا ،بھائی یا کوئی اور ہو۔

اس معاملے کے پیش نظر اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔کسی عورت کے شوہر یا باپ کے قر ضے کے عوض اس کی جائیداد کو چھوا بھی نہیں جا سکتا ۔اسی طرح مقروض عورت کے قرضوں کی ادائیگی اس کے مذکورہ رشتہ داروں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ مرد کی طرح عورت کو بھی جائیداد رکھنے کی مکمل آزادی ہے، چاہے اسے ورثے میں ملے یا کہیں سے تحفہ ملے اور چاہے اس نے اپنی محنت سے مال کمایا ہو۔ وہ مکمل طور پر اس کی اپنی ملکیت ہے۔ وہ اس کو بیچنے یا کسی کو تحفہ میں دے دینے یا قانونی طور پر اسے خرچ کرنے میں خود مختار ہوتی ہے۔ یہ تمام حقوق عورت کو ہمیشہ کے لیے دے دئیے گئے ہیں۔

بعثت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب میں عورتوں کو وراثت کا حق حاصل نہیں تھا ، نہ باپ کے ورثے سے کچھ اسے ملتا تھا اور نہ شوہر ہی سے۔ روایات کے مطابق ہجرت کے تین سال بعد مدینہ کے ایک رئیس ’اوس بن ثابت‘ انتقال کر گئے اور پسماندگان میں ایک بیوہ اور چار نوعمر صاحبزادیوں کو چھوڑا۔مدنی رواج کے مطابق ورثاء میں سے صرف بالغ مرد جو جنگ میں حصہ لینے کے قابل تھے، وراثت کے حق دار تھے۔یہاں تک کہ کمسن بیٹے کو متوفی باپ کی وراثت سے کچھ نہیں ملتا تھا۔چنا نچہ اوس کے چچا زاد بھائیوں نے پوری جائیداد قبضے میں لے لی، جب کہ اوس کی بیوی اور بیٹیاں راتوں رات امیر سے فقیر ہو گئیں۔اس مو قعے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنی آیات نازل ہو ئیں اور وراثت کے اسلامی احکام آگئے اور یہی اسلامی قانون وراثت ہے جس پر آج تک عمل کیا جاتا ہے۔ (اسلام کیا ہے؟ ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؍ مترجم ،سید خالد جاوید مشہدی ، ص۲۲۳)

اسلا می قانون کے مطا بق مردوں کی وراثت سے بیوی ،بیٹی ،ماں ،بہن اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو حق دیا گیا ۔اسلام نے وراثت میں منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد میں بھی کوئی امتیاز نہیں رکھا، بلکہ حکم دیا ہے کہ وراثتی جائیداد کی ہر چیز قانونی وارثوں میں تقسیم کردی جائے۔ایسی وصیت کو بھی اسلام نے ناجا ئز قرار دیا ہے، جس میں مالک نے اپنی جائیداد اجنبیوں کو دے کر جائز وارثوں کو محروم کر دیا ہو ۔بلکہ قانونی ورثا کے لیے وصیت کی ضرورت ہی نہیں ،انھیں خود بخود وراثت کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی وصیت کے ذریعے ورثا کے مقرر حصے میں ردوبدل نہیں کیا جاسکتا ۔

وصیت صرف ان رشتہ داروں کے حق میں کی جا سکتی ہے، جنھیں قانونی طریقے سے وراثت سے حصہ نہ مل سکتا ہو، اور پھر اس کی بھی اسلام نے حد مقرر کردی ہے کہ اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی اور یہ حد سا ری جائیداد کا ایک تہا ئی ہے ،باقی دو تہائی جائیداد بہر صورت وراثت ہے جو اس کے جا ئز حق دار وں میں تقسیم ہوگی۔ایک تہائی سے زیادہ جائیداد کی وصیت صرف اس صورت میں قابلِ عمل ہے، جب ورثہ متفقہ طور پر بلاجبرو اِکراہ اس پررضا مندی ظاہر کردیں ۔

چنانچہ وراثت کے معاملے میں حالات کے مطابق مختلف ورثا کے حصوں میں کمی زیادتی ہوجا تی ہے ۔مثلاً: اکلوتی بیٹی یا ایک بیٹے کی موجودگی میں، صرف والدہ یا والد کی موجودگی میں، بچوں کے ساتھ یا بچوں کے بغیر ،اکلوتی بہن یا بھائی کی موجودگی میں، متوفی کا والد یا بچے ،ان تمام صورتوں میں ورثا کے حصے کی نوعیت الگ ہو جا تی ہے۔ لہٰذا، یہاں پر اس مضمون میں اس کی تفصیلات کی گنجایش نہیں،لیکن خواتین کے حصے کا تذکرہ بیان کر نا ضروری ہے جو کہ مو ضوعِ بحث ہے۔

متوفی کا اگر بچہ بھی ہوتو بیوی کو شوہر کی جائیداد سے آٹھواں حصہ ملتا ہے ،بچہ نہ ہونے کی صورت میں وہ چو تھے حصے کی حق دار ہوتی ہے ۔اکلوتی بیٹی کو متوفی باپ کی نصف جائیداد ملتی ہے اور اگر بیٹیاں زیادہ ہوں تو دو تہائی جائیداد ان میں برابر کے حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ،یعنی اگر ان کا بھائی نہ ہوتو۔ لیکن اگر متوفی کا بیٹا بھی موجود ہو تو پھر بیٹی کو بیٹے کی نسبت نصف وراثت ملتی ہے۔ اگر متوفی کی والدہ زندہ ہو تو اسے بیٹے کے ورثے کا ایک تہائی ملتا ہے، جب کہ باپ ،بچے یا بھائی اور بیٹوں کی موجودگی کی صورت میں ماں چھٹے حصے کی حق دار ہوتی ہے۔متوفی کا وارث بیٹا موجود ہو تو بہن کو حصہ نہیں ملتا ،البتہ بیٹا نہ ہو تو بہن نصف ترکے کی وارث ہو تی ہے، اور دو یا زیادہ بہنوں کی صورت میں دوتہائی تر کہ ان میں برابر تقسیم ہوتا ہے ۔اکلوتی بیٹی کے ساتھ بہن کو چھٹا حصہ اور اگر ایک بھائی بھی ہو تو اسے بھائی سے نصف تر کہ ملے گا ۔اسی طرح حقیقی بہنوں ،ایک باپ اور والدہ مختلف ہونے کی صورت میں بہنوں کے حصے مختلف ہوں گے۔(النساء ۴: ۱۷۶)

جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ عورت اپنی جائیداد اور ملکیت کی خود مختا ر ہوتی ہے۔اس میں باپ، شوہر یا کسی اور رشتہ دار کا کوئی حق نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ عورت نان و نفقہ کی الگ سے حق دار ہوتی ہے، یعنی شادی سے پہلے عورت کا خرچ اس کے باپ اور شادی کے بعد شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے، اور عدالت باپ ،شوہر یا بیٹے کوعورت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکم دیتی ہے۔ اس کے بعد عورت شادی کے موقعے پر شوہر سے مہر کی صورت میں بھی رقم کی حق دار ہوتی ہے، جوکہ اسلام سے پہلے عورت کے والد کو ملتا تھا ،مگر اسلام نے اسے عورت کے لیے لازمی قرار دیا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ’مہر‘ اور ’جہیز‘ میں فرق ہے۔’مہر‘ شادی کے لیے ضروری ہے، لیکن ’جہیز‘ ضروری نہیں۔

 عورت کی مالی ذمہ داریاں مرد کی نسبت کم ہیں کیونکہ اس کے اخراجات مرد کے ذمے ہیں۔ اس لحاظ سے مرد کی مالی ذمہ داریاں عورت کی نسبت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ترکے میں سے زیادہ حصے کا حق دار ہوتا ہے ،جب کہ عورت کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اس کے کفیل کے اوپر ہے، اس کے با وجود بھی اسلام نے اسے مزید نوازنے کے لیے وراثت میں بھی حصہ دار بنایا ہے۔

علم انسانی زندگی کا وہ جوہر ہے، جس کے بغیر نہ فرد کا کردار بن سکتا ہے، اور نہ صحت مند معاشرے کی تعمیر ممکن ہے۔ علم دلوں کی زندگی ، آنکھوں کا نور اور جسموں کی طاقت ہے۔ اسی علم کی بدولت دنیا اور آخرت کے بلند وبالا درجات تک رسائی ممکن ہے۔

معلمِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تدریس کا مقدس سلسلہ سر زمینِ مکہ ہی سے شروع فرما دیا تھا،اور ’دارِارقم‘ پہلی درس گاہ قرار پائی ، جہاں نہ صرف اخلاقی ومذہبی تعلیم دی جاتی تھی، بلکہ عملی تربیت پر بھی اچھا خاصا زور تھا۔ نیز آپ ؐ کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے تین درس گاہیں (مسجد بنی زریق ، مسجد قبا والی جگہ، اور نقیع الخصمات نامی علاقے میں ) قائم ہو چکی تھیں، جن میں مختلف صحابۂ کرام ؓ تعلیم دینے پر مامور تھے۔

معلمِ اعظم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر شعبوں کی طرح حصول علم کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہدِ نبوی ؐ میں بھی تعلیم یافتہ خواتین کا ذکر ملتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما    علمِ حدیث کے اسرار ورموز میں اس قدر مہارت رکھتی تھیں کہ ان کا کوئی مدِ مقابل نہ تھا۔ بہت سے تابعین نے ان سے اکتساب علم کیا۔ سیّدہ اُم الدرداء ؓ کا علوم ومعارف میں بہت بلند مقام تھا،  ان سے بھی ایک کثیر تعداد فیض یاب ہوئی۔ نیز شفا بنت عبداللہ عدویہؓ ، حفصہ بنت عمرؓ، اُم کلثوم بنت عقبہؓ، عائشہ بنت سعدؓ اور کریمہ بنت مقداد ؓ زیور ِ علم سے آراستہ وپیراستہ تھیں۔

اسلام تعلیم نسواں کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اسے ضروری بھی سمجھتا ہے، لیکن  تعلیم اور اس کی غایت کیا ہونی چاہیے ؟ اس کا فیصلہ ضروری ہے۔ خواتین کو دین کی بنیادی تعلیم سب سے پہلے دی جائے، تا کہ وہ اپنے واجبات وفرائض اور دین کے احکام ومسائل کو اپنی ضرورت کی حد تک سمجھ سکیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اکیلے معلم تھے، لیکن آپ ؐ نے ازواجِ مطہراتؓ کے ذریعے صحابیات کو، اور ان کے واسطے سے تمام مسلم خواتین کو نومعلمات دیں۔

ایک مسلمان مرد یا عورت سے اولین مطالبہ دین کا علم ہے، تا کہ وہ اسلامی زندگی بسر کرسکے، پھر دوسرے علوم کا درجہ آتا ہے۔ اسلام ‘لڑکیوں کی عصری تعلیم کا مخالف نہیں ہے، البتہ مخلوط تعلیم کا سخت مخالف ہے۔

اس وقت بہت ساری مسلم لڑکیاں عصری تعلیم حاصل کر کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں بے پردہ کام کر رہی ہیں۔ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نے ان کو گھر کی چار دیواری سے نکال کر بازاروں ، دکانوں ، ہوٹلوں، محفلوں اور عشرت کدوں کی زینت بنا دیا ہے۔ نیز یہ کہ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ مخلوط نظام تعلیم نے عورتوں کو غیر شریفانہ زندگی گزارنے پر مجبورکر دیا ہے، اور یہ چیز ان کے لیے خطرناک ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ    ؎

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت

ایک عورت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ اسے کلرک ، ٹائپسٹ اور ائیر ہوسٹس بننے پر مجبور کیا جائے۔

گھریلو زندگی میں عورت کی الگ الگ حیثیت ہوتی ہے، جیسے بیٹی ،بیوی، بہو وغیرہ، اور ہر حیثیت سے اس کی ذمہ داریاں بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ لیکن ماں کی حیثیت سے اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان ذمہ داریوں کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم کا تعلق بچے کی جسمانی نشو ونما سے ہے، مثلاً بچے کو صحیح وقت پہ صحیح خوراک دینا، مناسب لباس کا انتظام کرنا، اس کو گرمی اور سردی سے بچانا، بیماری سے حفاظت کرنا، اور بیمار ہونے پر تیمار داری کرنا وغیرہ۔

دوسری قسم کا تعلق ذہنی نشوونما سے ہے، مثلاً اسے بولنا سکھانا، جب کچھ بولنے اور سمجھنے کے قابل ہو جائے تو اس سے باتیں کرنا، اور بتدریج اچھی اچھی باتیں بتانا، بلاوجہ ڈانٹ پھٹکار ، اور ہراس چیز سے احتراز کرنا جس سے بچے میں خوف یا احساس کمتری پیدا ہو۔ پہلی قسم سے تعلق رکھنے والی ذمہ داریوں کو ایک عام عورت بھی انجام دے سکتی ہے، لیکن پہلی قسم سمیت دوسری قسم کی ذمہ داریوں کو صحیح ڈھنگ سے نبھانا غیر تعلیم یافتہ عورت کے بس میں نہیں، ان کو صرف اور صرف ایک تعلیم یافتہ عورت ہی بخوبی انجام دے سکتی ہے۔

ایک بچے کی پیدایش کے بعد سے لے کر بڑے ہونے تک اس کی پرورش وپرداخت اور اس کی دیکھ بھال اور تربیت میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ماں کا ہوتا ہے۔ پرورش کے ان مراحل میں بچے کی ضروریات بے شمار ہوتی ہیں، جن میں سے بیش تر کو ماں پورا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت بچے کا میلان اپنی ماں کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ پرورش کے اس دورانیے میں بچہ اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور یہ سیکھی ہوئی چیزیں اس کی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہیں۔

ایسے میں ماں اگر تعلیم یافتہ ہو تو وہ اپنے بچے کی پرورش بہترین خطوط پر کرتی ہے، تا کہ اس کا لاڈلا جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے صحت مند اور توانا رہے۔ اس کے بر عکس اگر ماں  تعلیم یافتہ نہیں ہے تو بچے کی پرورش صحیح ڈھنگ سے نہیں ہو پاتی ۔ لہٰذا آج وقت کا تقاضا ہے کہ عورتیں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں، اور ایک بیٹی ، ایک بیوی اور خصوصاً ایک ماں کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بہ حُسن وخوبی نبھا سکیں، اور بچوں کی تربیت بہتر انداز سے کر سکیں۔ یاد رکھیں کہ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بچہ یہیں سے اپنی زندگی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتا ہے اور یہی ابتدائی تعلیم بچے کی آنے والی زندگی کو سنوارنے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

مسلم خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دینی تعلیم حاصل کریں، تا کہ وہ اپنے دین کے تئیں حساس ہوں ، اور بلند کرداری کے ساتھ ایسی زندگی گزاریں جس میں اطاعت وعبدیت کی شان پائی جاتی ہو۔ اسلام کی عظمت سے دل معمور ہوں ، نیز کھانے پینے میں، اٹھنے بیٹھنے میں، رہن سہن میں، پہننے اوڑھنے میں اور رفتار وگفتار میں اسلامی شعائر کا مکمل پاس ولحاظ ہو۔ بچوں کی اسلامی تربیت اسی وقت ممکن ہے، جب ماں خود دین دار، صالحہ اور پاک طینت ہو۔ عام طور پر   کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی سچائی کی وجہ سے ڈاکوئوں کا گروہ اپنے جرم سے تائب ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک ماں کا ہی ہاتھ تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کو سچائی کی تعلیم دی تھی ، اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا تھا۔

مسلم خواتین اولاد کی تربیت میں اس بات کا مکمل اہتمام کریں کہ انھیں توحید کی تعلیم سب سے پہلے دیں۔ ان کا عقیدئہ توحید زندگی کے کسی بھی موڑ پر ڈگمگانے نہ پائے، نیز اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری کا درس اس انداز میں دیں کہ ان کے دل ودماغ میں آپ ؐ کی سچی محبت راسخ ہو جائے۔ ان کو دیو مالائی کہانیوں کے بجاے انبیائے کرامؑ ، صحابہؓ ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور سلف صالحین کے سبق آموز واقعات سنائیں۔ علوم اسلامیہ کی اہمیت وعظمت دلوں میں اتاری جائے۔ فکر ومزاج ، تصورو خیالات،معاملات وعادات کو اسلامی وایمانی رنگ میں ڈھالا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں اخلاص وللّٰہیت ، تقویٰ وپرہیز گاری ، اخلاق وکردار ، شرم وحیا، اور عفت وعصمت کی تعلیم دی جائے۔ ان کو اخوت و بھائی چارے ، ایثار وقربانی ، عفوودرگزر ، جرأت و بہادری اور حقوق کی پاسبانی کی اہمیت وفضیلت سے روشناس کرایا جائے، اور معاشرتی آداب سے بھی ان کو آگاہ کیا جائے، تا کہ جب یہ جوان ہوں تو ان کے پاس اسلام کی اتنی روشنی ضرور ہو، جس سے وہ صحیح وغلط، سچ وجھوٹ، حلال وحرام اور حق وباطل کو آسانی سے پہچان لیں، اور زندگی کی راہ پر کامیابی کے ساتھ محو سفر رہیں۔

خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ عورتیں حدود وقیود میں رہتے ہوئے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے بھی لیس ہوں، نیز امور خانہ داری وغیرہ سے بھی واقف ہوں۔ ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند عورت ہر جگہ باعزّت طور پر زندگی گزار سکتی ہے، اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوار سکتی ہے، اور اگر معاشی مسائل درپیش ہوں تو اس پر کافی حد تک قابو پا سکتی ہے۔ اس لیے ہماری تمام مائیں اور بہنیں علم دین ضرور حاصل کریں اور جدید تعلیم سے بھی آراستہ ہوں۔

اُمہات المومنینؓ ، صحابیاتؓ اور دیگر عظیم مسلم خواتین کے کردار کو اپنے سامنے رکھیں، اور ان کی زندگیوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ اس لیے کہ اگر آپ دینی تعلیم سے آراستہ ہوں گی تو پورے گھر کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکتی ہیں۔

ہزاروں لوگوں نے ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرز میں مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ ’’عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) سے قرض پر نظرثانی کے معاہدے پر دستخط نہ کرے‘‘۔ مظاہرین کا ازدحام بیونس آئرز میں اُمڈا چلا آرہا تھا۔ انھوں نے پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے، جن پر درج تھا: ’’آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات بند کرو‘‘ اور ملک کی سماجی تنظیموں کے رنگ برنگے بینر چلچلاتی دھوپ میں لہرا رہے تھے، جب کہ آئی ایم ایف کے خلاف لاؤڈ اسپیکر پر نعرے بلند ہورہے تھے۔ ’آرگنائزیشن لبرس ڈل پیوبولو‘ ایک اتحاد ہے، جس نے یہ احتجاجی ریلی منعقد کی تھی، اس کے رہنما کارلوس ازنیریز نے کہا: ’’لوگ بہت سی چیزوں سے باخبر نہیں ہیں، لیکن وہ اس بات سے ضرور باخبر ہیں کہ آئی ایم ایف نے اس ملک میں ہمارے لیے ہمیشہ تکالیف میں اضافہ اور دوسروں پر انحصارمیں اضافہ ہی کیا ہے۔ ہم لوگ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس معاہدے پر دستخط کیے تو پھر ہمیں تباہی کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔

ارجنٹائن کی حکومت، آئی ایم ایف کے ساتھ ۴۴؍ارب ڈالر کے معاہدے پر نظرثانی کے لیے مذاکرات کررہی ہے۔ ۲۰۱۸ء میں یہ قرض لیا گیا تھا، جب مارسیو میکری صدر تھے اور انھوں نے ۵۷؍ارب ڈالر کے قرض کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، جو آئی ایم ایف کی تاریخ میں سب سے بڑا قرض تھا۔ ۴۴؍ارب ڈالر کی ادائیگی کردی گئی ہے، لیکن صدر البرٹو فریننڈس، جنھوں نے ۲۰۲۰ء میں صدارت سنبھالی، مزید ادائیگی سے انکار کر دیا اور قرض کی ادائیگی کے لیے اَزسرنو معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حالیہ معاہدے کے تحت ۱۹؍ارب ڈالر اگلے دوبرس ۲۰۲۲ء اور ۲۰۲۳ء میں ادا کرنا ہوں گے۔ لیکن جب بڑھتی ہوئی کساد بازاری ہو، افراطِ زر آسمان سے باتیں کر رہا ہو اور غربت میں اضافہ ہورہا ہو، تو حکومت کے لیے اس قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہوگی۔

احتجاج کرتی سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’’اس قرض کی ادائیگی کے لیے حکومت کو سخت اقدامات اُٹھانا ہوں گے، جس کے نتیجے میں ارجنٹائن کے ایک عام شہری کی زندگی محال ہوجائے گی‘‘۔ انھیں خدشہ ہے کہ ’’اس کے نتیجے میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا، شرح سود بڑھ جائے گی، عوامی خدمات کے منصوبوں میں کمی واقع ہوجائے گی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی اور پنشن اور دیگر سماجی خدمات میں کمی ہوجائے گی‘‘۔

ایسے اقدامات کا ارجنٹائن کے عوام پہلے بھی سامنا کرچکے ہیں، جب ۲۰۱۸ء میں حکومت نے قرض کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف کا تجویز کردہ منصوبہ نافذ کرتے ہوئے عوامی خدمات کے پروگراموں پر کٹوتی کی تھی۔

یہ وہ کردار ہے جو آئی ایم ایف نے ۲۰۰۱ء کی معاشی سردبازاری کے دوران نمایاں طور پر ادا کیا اور جس نے ارجنٹائن کے عوام کے اشتعال میں اضافہ کیا۔اس زمانے میں حکومت نے کرنسی کی قدر میں کمی کردی تھی، اور ۹۳؍ارب ڈالر قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ڈیفالٹ ہونے پر بنکوں سے ادائیگی پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافے اور غربت کا آسمان کو چھونے کی بنا پر بڑے پیمانے پر سماجی بے اطمینانی پھیل گئی تھی۔

البرٹو فریننڈس جس نے گذشتہ ماہ مڈٹرم انتخابات میں سیاسی حمایت کھو دی تھی، ایک طرف بلندبانگ دعوے کر رہا ہے کہ ’’ارجنٹائن، آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا‘‘، اور دوسری طرف قرض اُتارنے کا وعدہ بھی کر رہا ہے۔ اس کی جماعت کے ایک مؤثر گروپ نے طاقت وَر نائب صدر کرسٹینا فریننڈس کی سرکردگی میں عوامی خدمات کے منصوبوں کی کٹوتی کی مخالفت کی۔ یومِ جمہوریت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کرسٹینا فریننڈس نے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملک پر پابندیاں عائد کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور ملک کے پاس ڈالروں کی بھی کمی ہے۔ درحقیقت ملک میں ڈالروں کی کمی نہیں ہے، بلکہ وہ زیادہ ڈالروں کے حصول کے لیے بیرونِ ملک منتقل کیے گئے ہیں۔ یہ وعدہ کرو کہ ہر وہ ڈالر جو ٹیکس ادا کیے بغیر باہر لے جایا گیا ہے واپس لیا جائے گا۔اسے مذاکرات کی بنیاد بنایا جائے‘‘۔ صدر البرٹو نے کرسٹینا فریننڈس سے کہا کہ ’’اطمینان رکھیں ہم کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے، جس سے ارجنٹائن کی ترقی متاثر ہو‘‘۔

اسی روز آئی ایم ایف نے واشنگٹن میں مذاکرات کے آخری دور کے اختتام پر ایک بیان جاری کیا کہ ’’مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، مزید مذاکرات کی ضرورت ہے‘‘۔بیان کے مطابق: ’’معاشی پروگرام کی کامیابی کے لیے اندرونِ ملک اور عالمی تائید کی ضرورت ہے۔ لیکن ارجنٹائن سے اس تائید کا حصول مشکل ہے جو کئی مرتبہ بیرونی قرض کی ادائیگی کے لیے ڈیفالٹ کرچکا ہے اور آئی ایم ایف سے مدد کا طلب گار ہے‘‘۔

ایک ماہر اقتصادیات مارٹن کولس نے بتایا کہ ’’عوام کی ایک بڑی تعداد کو آئی ایم ایف پر بھروسانہیں ہے۔ ارجنٹائن کی پالیسیوں پر آئی ایم ایف کا دبائو بہت دفعہ واضح ہوچکا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں مالی بحران کے موقعے پر جس طرح سے واضح طور پر آئی ایم ایف نے معاشی پروگرام دیا تھا، اس بنا پر آئی ایم ایف اور حکومتی اہل کاروں نے اعتراف کیا ہے کہ ’’ارجنٹائن، آئی ایم ایف کا بہترین شاگرد ہے‘‘۔ ایک حقیقت شناس دانش وَر نے کہا ہے: ’’یہ پالیسیاں بحران میں کبھی کمی اور بہتری کا باعث نہیں بنیں بلکہ اکثر اوقات یہ معاونت کے بجائے مزید بحران میں مبتلا کرنے کا باعث بنی ہیں‘‘۔

مارٹن کولس نے کہا کہ ’’آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ کرنے کی صورت میں مالی بحران سے نکلنے کے لیے ارجنٹائن کو جس مالی امداد کی ضرورت ہے اس کے حصول کے لیے بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف نہ تو اس غرض کے لیے بنایا گیا ہے اور نہ وہ اس میں دلچسپی رکھتا ہے کہ ارجنٹائن کے نہ ختم ہونے والے مالی بحران کے بنیادی اسباب کا جائزہ لے۔ درحقیقت مسئلہ مالیات کا نہیں ہے بلکہ ملکی معیشت میں بڑے پیمانے پر پیداواری شعبے میں کمی کا ہے۔ ارجنٹائن کو پیداوار میں اضافے کے لیے نئے پیداواری یونٹس قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اسی سے وہ اپنی پیداوار میں اضافہ کرسکے گا‘‘۔

بیونس آئرز میں احتجاج کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’’اس بات کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ کیا حکومت کو آئی ایم ایف کو قرض واپس کرنا چاہیے؟‘‘ ان کا مطالبہ ہے کہ یہ مسئلہ ریفرنڈم کی صورت میں عوام کے سامنے رکھا جائے۔ حکومت کو قرض کی ادائیگی فوری طور پر روک دینی چاہیے تاکہ وہ عوام کی مدد کرسکے جن کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو بمشکل ماہانہ اخراجات پورے کرپاتے ہیں جنھیں اپنے خاندان کے لیے محض سوپ کی تیاری تک کے لیے بھی لوگوں سے مدد حاصل کرنا پڑتی ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ’’قیمتیں گذشتہ ایک سال میں ۵۲ فی صد بڑھ چکی ہیں۔ آبادی کا ۴۰ فی صد سے زائد حصہ ِ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور لوگوں کے پاس کھانے کے لیے خوراک نہیں ہے‘‘۔ ریلی سے ملحق پارک میں پاؤلا اویلس نے کہا کہ ’’ہم اپنی آمدن سے بہ مشکل گزر بسر کر رہے ہیں۔ اسی طرح حکومت کی طرف سے سماجی معاونت کے کام اور سہولیات آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں خطرے میں پڑسکتی ہیں‘‘۔

آئی ایم ایف کے پروگرام سے وابستگی اختیار کرکے ترقی کا راستہ اختیار کرنا اور اپنے عوام کو معاشی غلامی سے رہائی دلانا، ایک موہوم خواب ہے!

غیرمسلموں کے برتنوں میں کھانا

سوال :   غیرمسلموں کے برتنوں میں کھانا اور پینا درست ہے یا نہیں؟

جواب :ان کے صاف دھلے ہوئے برتنوں میں آپ کھانا کھاسکتے ہیں، اگر آپ کو اطمینان ہو کہ وہ کسی حرام چیز سے ملوث نہیں ہیں۔ اطمینان نہ ہونے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ آپ دعوت وصول ہوتے ہی، اپنی اوّلین فرصت میں داعی کو اپنے اصول اور مسلک سے آگاہ فرما دیں، اور ان کو لکھ بھیجیں کہ آپ کے ساتھ دعوت میں ان اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے۔(اپریل ۱۹۶۰ء)


دوائوں اور غذائوں کی حلّت و حُرمت

سوال : غذائوں اور دوائوں کی حلت و حُرمت کے بارے میں شرعی احکام کیا ہیں؟

جواب :دوائوں اور غذائوں میں کیا چیزیں پاک ہیں اور کیا ناپاک؟ اس کو جاننے کے لیے آپ کو کچھ نہ کچھ حدیث اور فقہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک احکامِ قرآنی کا تعلق ہے، اس سلسلے میں آپ کو تفہیم القرآن سے کافی مدد مل جائے گی۔ مگر پھر بھی حدیث اور فقہ کے مطالعے کی ضرورت باقی رہتی ہے ، تاکہ آپ اصولی احکام سے بھی واقف ہوجائیں اور جزوی مسائل سے بھی۔ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں اب تک میڈیکل کالج کی تعلیم میں شرعی احکام کی تعلیم شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ آخر ہم کیسے اُس چیز کی ضرورت محسوس کرلیں، جسے ہمارے ’استاد‘ (انگریز) نے غیر ضروری سمجھا تھا۔(جون ۱۹۵۳ء)


مریض کے جسم میں خون داخل کرنا

سوال : کسی مریض کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا بعض علما کے نزدیک ناجائز ہے۔ آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟

جواب :آدمی کی جان بچانے کے لیے اس کے جسم میں خون داخل کرنا میرے نزدیک تو جائز ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس کو حرام کہنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ غالباً اسے خون پینے اور کھانے پر قیاس کرکے کسی صاحب نے حرام کہا ہوگا۔ لیکن میرے نزدیک ان دونوں چیزوں میں فرق ہے۔ غذا کے طور پر خون پینا اور کھانا بلاشبہہ حرام ہے، مگر جان بچانے کے لیے مریض یا زخمی آدمی کے جسم میں خون داخل کرنا اسی طرح جائز ہے، جس طرح حالت ِ اضطرار میں مُردار یا خنزیر کھانا۔(جون ۱۹۵۳ء)


ڈاکٹر کی فیس

سوال : ڈاکٹر کے لیے فیس کا تعین یا اس کا مطالبہ جائز ہے یا اسے مریض کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے؟

جواب :ڈاکٹر کی فیس اُصولاً تو جائز ہے ، مگر ڈاکٹروں نے بالعموم فیس کے معاملے میں ایسے طریقے اختیار کرنے شروع کر دیے ہیں، جو گناہ اور ظلم، اور سخت قساوت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسی بنا پر ہماری یہ رائے ہے کہ تمام ڈاکٹروں کو حکومت کی طرف سے کافی وظیفے ملنے چاہییں، اور انھیں مریضوں کا مفت علاج کرنا چاہیے۔(جون ۱۹۵۳ء)


نفس، دماغ اور جسم کا باہمی تعلق

سوال : نفس (mind) دماغ (brain) اور جسم کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ دماغ اور جسم مادے سے مرکب ہیں اور نفس یا ذہن ایک غیرمادی چیز ہے؟

جواب :’دماغ‘ ذہن کا محل اور اس کا وہ مادی آلہ ہے، جس کے ذریعے سے ’ذہن‘ اپنا کام کرتا ہے، اور ’جسم‘ وہ مشین ہے جو اُن احکام کی تعمیل کرتی ہے، جو دماغ کے ذریعے سے ذہن اس کو دیتا ہے۔ اس کو ایک بھدی (crude) مثال کے ذریعے سے یوں سمجھیے کہ انسان کی ذات گویا مجموعہ ہے ڈرائیور اور موٹرکار کا۔ ڈرائیور ’ذہن‘ ہے ۔ انجن اور اسٹیرنگ ویل میں لگے ہوئے آلات بحیثیت مجموعی ’دماغ‘ ہیں۔ وہ قوت و توانائی جو انجن کے اندر کام کرتی ہے، روح اور موٹرکار کی باڈی ’جسم‘ ہے۔ (مارچ ۱۹۶۷ء)

ماہنامہ تعمیر افکار، اشاعت خاص (دوم )بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ناشر :زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز ، اے-۴ /۱۸ ناظم آباد نمبر ۴ ،کراچی ۷۴۶۰۰۔فون :۳۶۶۸۴۷۹۰۔۰۲۱۔صفحات :۴۶۳۔ قیمت :۸۵۰ روپے ۔

مرحوم ومغفور ڈاکٹر محمود احمد غازی کا نام اور شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ ایک عالمِ دین تھے اور محقّق اور مفکّر بھی۔ ماہنامہ تعمیر افکار  نے غازی صاحب پر ۲۰۰۳ء میں ایک خصوصی اشاعت شائع کی تھی۔ پیشِ نظر جلد دوم میں بھی غازی صاحب کی متنّوع خدمات کا جائزہ شامل ہے۔  اس میں آپ کے محاضرات سمیت، تصانیف کا تعارف اور آپ کی خدمات کے مختلف پہلوئوں پر اہلِ علم کی نگارشات دی گئی ہیں۔ مختلف اداروں سے آپ کا جو تعلق رہا ،ان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محمود احمد غازی نے سترہ برس کی عمر میں درسِ نظامی سے فارغ ہو کر مولانا عبدالجبار غازی کے مدرسۂ عربیہ ملّیہ ،راولپنڈی میں تدریس شروع کر دی تھی۔ ۱۹۶۹ء میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے بحیثیت محقّق منسلک ہو گئے ۔بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے قیام میں ان کی کاوشوں کا بھی دخل ہے ۔وہ اس کے سربراہ بھی رہے۔اسّی کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں قادیانی ،خود کو مسلمان ظاہر کرکے ،قادیانیت پھیلا رہے تھے ۔وہاں کے مسلمانوں نے سپریم کورٹ میں درخواست گزاری کہ انھیں غیر مسلم قرار دیا جائے۔ انھوں نے حکومت ِ پاکستان سے چند قدیم علوم کے علما اور جدید قوانین کے ماہر بھیجنے کی درخواست کی۔ حکومت نے جو وفد بھیجا، اس میں غازی صاحب بھی شامل تھے، جن کے دلائل سے عدالت کو فیصلہ کرنے میں بہت مدد ملی۔

غازی صاحب فیصل مسجد میں خطیب ،شریعہ اکیڈمی کے ناظم اعلیٰ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے۔ بحیثیت وزیرمذہبی اُمور گراں قدر خدمات کے علاوہ انھوں نے وفاقی شرعی عدالت میں بطور جج بھی کام کیا۔ وہ نہایت ذہین اور ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔(رفیع الدین ہاشمی)


اسلام کا خاندانی نظام، ڈاکٹر عبدالحی ابڑو۔ ناشر: شریعہ اکیڈمی، فیصل مسجد، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ فون: ۸۲۵۱۷۶۱-۰۵۱۔ صفحات: ۵۸۲۔ قیمت: درج نہیں۔

دُنیا بھر میں جدیدیت کی تیز لہر نے گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں کے دوران جس تہذیبی قلعے پر شدید ترین حملہ کیا ہے، اس قلعے کا نام ’خاندان‘ ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ عالمی سامراجیت کے زیراثر تعلیم، معاشرت، عائلی قوانین میں ریاستی مداخلتوں اور فکرونظر کی تبدیلی نے بڑی تیزی سے ، مسلم دُنیا کے خاندانی نظام کی بنیادوں کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے۔جس کے نتیجے میں عائلی یا خاندانی مسائل کا ایک طوفان ہے، جو مسلم معاشروں کو گھیرے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر عبدالحی ابڑو(سابق ڈائرکٹر جنرل، شریعہ اکیڈمی) نے ایک محقق اور استاد کی حیثیت سے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں طویل عرصے تک خدمات انجام دی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے اسلام کے خاندانی نظام کے جملہ اُمور پورے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ عقدِنکاح، احکامِ مہر، احکامِ نفقہ،احکامِ طلاق، عدالتی تفریق، احکامِ خلع، احکام نسب و حضانت اور احکامِ عدت کی مناسبت سے پیش آمدہ مسائل کی کیفیت اور اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کے تحت رہنمائی، نہایت عام فہم انداز سے پیش فرمائی ہے۔

اس موضوع پر متعدد کتب اُردو میں موجود ہیں، لیکن یہ کتاب ان سب کی جامع ہے۔ علما، اساتذہ اور بالخصوص وکلا کو زیرمطالعہ لانا چاہیے۔(س م خ)


مشفق خواجہ ،احوال وآثار،ڈاکٹر محمود احمد کاوش ۔ناشر: قرطاس ،فلیٹ ۱۵۔اے ،گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر ،بلاک ۱۵،کراچی ۔فون:۳۸۹۹۹۰۹۔۰۲۳۱۔صفحات:۱۰۸۱۔قیمت:۱۶۰۰روپے

زوال وانحطاط نے ہماری زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح تعلیم وتعلّم اور تحقیق وتدوین کو بھی متأثّر کیا ہے، چنانچہ قریبی زمانے میں لکھے جانے والے جامعات کے تحقیقی مقالے سرسری پن کی وجہ سے مطلوبہ معیار سے بہت فروتر ہیں۔ کبھی کبھار کوئی اِستثنائی نمونہ نظر سے گزرتا ہے۔ زیر نظر مقالہ فی الواقع تحقیق کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس مقالے پر ۲۰۰۷ء میں پنجاب یونی ورسٹی نے محموداحمد کاوش کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی تھی۔

مشفق خواجہ بنیادی طور پر محقق تھے۔ ان کے جملہ قلمی آثار میں، حتیٰ کہ طنزومزاحیہ تحریروں میں بھی تحقیقی رنگ موجود ہے، لیکن ان کی کثیرالجہات شخصیت کا اظہار ان کی شاعری، ان کے کالموں، ہزارہا خطوط اور تراجم میں ملتا ہے۔ وہ ادبی مجلات کے ایڈیٹر بھی رہے۔کاوش صاحب کی زیرنظر کاوش میں مشفق خواجہ کی مختلف حیثیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تحقیقی اور تدوینی خدمات میں ان کی ۱۳ کتابوں، ایک ہزار سے زائد خطوط اور متفرقات (دیباچہ ،تبصرہ،خاکہ،ترجمہ، ادارت) کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ آخری باب میں خواجہ صاحب کے ادبی مقام ومرتبے کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقالہ نگار لکھتے ہیں:’’ مشفق خواجہ ایک ایسے ادیب تھے جن کی ذات میں بیک وقت تخلیق اور تحقیق دونوں کی اعلیٰ پائے کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ تحقیق کی سنگلاخ وادیوں میں گھومتے گھومتے جب وہ تھک جاتے تو تھوڑی دیر کے لیے تبدیلیِ آب وہوا کے لیے تخلیق کی وادیِ گل رنگ میں آنکلتے۔ ‘‘ چنانچہ کاوش صاحب نے بجا طو ر پر انھیں ’خواجۂ تخلیق وتحقیق ‘ قرار دیا ہے۔

ہماری آج کے تحقیق کا ر چاہیں تو اس مقالے کو راہ نما بنا سکتے ہیں۔ اشاعتی معیار اطمینان بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی )


اسلامی بنکاری کی تشکیل جدید، اشتیاق احمدفاروق۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۷۵-۰۴۲۔ صفحات: ۷۸۔قیمت: ۲۳۰ روپے۔

مسلم دُنیا میں، اسلامی بنکاری کے نام پر خدمت بھی کی جارہی ہے اور ایک کھیل بھی کھیلا جارہا ہے۔ جناب اشتیاق احمد فاروق نے اس بڑے اور پھیلے ہوئے موضوع پر، پاکستان میں ہونے والی پیش رفت کواختصار اور گہرائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انھوں نے پاکستان میں ریاستی سطح اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں مسئلے کو دیکھا ہے اور بتایا ہے کہ درست طرزِ عمل کون سا ہے، جس سے اسلامی بنکاری کو تشکیل دیا جانا چاہیے۔(س م خ)


جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے؟ میرافسر امان۔ ملنے کا پتا: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔ فون: ۴۹۴۲۱۲۰-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۶۸۔ قیمت:۵۰۰ روپے۔

کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل میں پانچ مضامین ہیں، ایک بانی ِجماعت سیّدمودودی پر، اور چار امرائے جماعت (میاں طفیل محمد،قاضی حسین احمد، سیّد منور حسن ، سراج الحق) پر۔ حصہ دوم میں جماعت اسلامی کی تنظیم، قیادت، دستور، شورائی نظام، مالیاتی نظام، تربیتی پروگرام، کارکنانِ جماعت کے اوصاف اور تفہیم القرآن کا تعارف کرایا گیا ہے۔ حصہ سوم میں ایسی تحریریں اور مصنف کے کالم یکجا ہیں، جن سے جماعت اسلامی کی عملی سرگرمیاں، اتحادی سیاست، سندھ میں جماعت اسلامی، کرپشن کے خلاف جماعت کی مہم اور جماعت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا پتا چلتا ہے۔

میرافسر امان ایک سینئر کالم نگار، دانش ور، تجزیہ نگار ہیں۔ انھوں نے جماعت اسلامی کی دعوت پھیلانے کے لیے اسلام آبادمیں قلم کارواں اور ’اقبال، قائد اور سیّد مودودی فکری فورم‘ بنا رکھا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)

 


خفتگانِ خاکِ گوجرانوالا ،پروفیسر محمد اسلم اعوان ۔ناشر:جہانِ نو پبلی کیشنز ،اردو منزل، ۵۱-سی ،جوڈیشل کالونی نزد سپر ایشیا، نہر اَپر چناب، ڈاکخانہ انور انڈسٹریز، جی ٹی روڈ ،گوجرانوالا۔ فون:۷۴۰۱۵۲۷-۰۳۰۰۔ صفحات:۲۸۰۔ قیمت :۷۰۰ روپے۔

پروفیسر محمد اسلم (سابق صدر شعبۂ تاریخ، پنجاب یونی ورسٹی لاہور) نے ایک زمانے میں (بشمول خفتگانِ خاکِ لاہور اور خفتگانِ کراچی) وفیات کے سلسلے میں کئی کتابیں شائع کیں۔ ڈاکٹر محمدمنیر سلیچ نے بھی سلسلۂ وفیات میں متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ اسی انداز میں یہ کتاب تیار کی ہے، جس میں ضلع گوجرانوالا میںمدفون اور ضلع گوجرانوالا کے مشاہیر مگر ضلع گوجرانوالا سے باہر مدفون مرد و زن کے مختصر حالات اور بہت سوں کی قبروں کے کتبے نقل کیے ہیں۔ مؤلف کی زیرنظر کتاب سے مستقبل کے مرتبّینِ تاریخ گوجرانوالا کو بہت سہولت ملے گی۔(رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

آنکھوں میں نمی رکھنا ،ڈاکٹر محمد اورنگ زیب رہبر۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-  ۳۶۸۰۹۲۰۱- ۰۲۱۔ صفحات:۱۳۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [رہبر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر مجموعے میں خاصی مقدار میں نظمیں (شیخ احمد یاسین شہید، صاحبِ تفہیم مودودی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، الحرا اسکول کے لیے، میری جمعیت، اہلِ کشمیر کا عزم، سیّد منور حسن، عنایت علی خاں، کراچی خوب صورت ہے) شامل ہیں۔ دو حمدیں، چار نعتیں اور چند متفرق اشعار بھی۔ شاعر کی اسلام دوستی ایک ایک شعر سے عیاں ہے۔]

انتظامی اُمور اور مملکتی نظام(Civil Administration) میں فوج کا داخل ہونا، فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔

فوج، بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے، ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔

اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف، خود اپنے ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔

علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں، خواہ وہ سیاست کار ہوں یا ملکی نظم و نسق کے منتظم(Civil Administrators)، ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ ان سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔

فوج کا اس میدان میں اُترنا لامحالہ فوج کو غیر ہردلعزیز بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقعے پر ملک کا ہرفرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔

دُنیا میں زمانۂ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کومفید ثابت نہیں کیا ہے، بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے بُرے نتائج ظاہر کر دیئے ہیں۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ  ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۴، جنوری ۱۹۶۲ء، ص۵۰-۵۱)