پروفیسر خورشید احمد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان آج جس خوف ناک صورت حال سے گزر رہا ہے، اس کا تعلق سیاسی، معاشی، عسکری اور ہردائرے میں بحران سے ہے جو انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے۔ ملک کو بچانے، اس کی آزادی، عزت اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری پوری قوم پر عائد ہوتی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی قوتوں کا فرض ہے کہ ملک کی بقا ، استحکام اور نظریاتی بازیافت کے لیے عوامی جدوجہد کریں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے مسئلے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر اور حالات کا تجزیہ کرکے، اس دلدل سے نکلنے کی راہ ، ایک جامع قرار داد کی شکل میں پیش کی ہے جو اس کے    ۱۹ تا ۲۱جنوری ۲۰۱۲ء کو منعقدہ اجلاس میں منظور کی گئی۔ قوم کی رہنمائی اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو دعوت فکروعمل دینے کے لیے یہ قرارداد ہم بطور ’اشارات‘ پیش کررہے ہیں۔(مدیر)

مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کا یہ اجلاس پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مخلوط حکومت کے تحت مملکت خدادادپاکستان کی بدترین سیاسی صورت حال پر گہری تشویش کااظہار کرتاہے ۔ملکی زندگی زرداری ،گیلانی حکومت کی بدعنوانیوں،انتہائی ناقص کارکردگی، قومی مفادات سے مسلسل رُوگردانی،مشرف دور کی غلامانہ پالیسیوں کے تسلسل اور غربت ،مہنگائی، بے روزگاری اور توانائی کے بحرانوں سے بدحال تھی اور تبدیلی کے لیے عوامی دبائو روز افزوں تھا،کہ حکومت نے اداروں کے تصادم کا فتنہ ایک گمبھیر شکل میں ملک اور قوم پر مسلط کردینے کا ناپاک کھیل شروع کردیاہے۔

مہمند ایجنسی کی سلالہ چیک پوسٹ پر ناٹو حملے اور اس کے نتیجے میں پاک فوج کے افسروں سمیت ۲۴ جوانوں کی شہادت نے ثابت کردیا تھا کہ جماعت اسلامی پاکستان نے گذشتہ ۱۰برسوں سے اُمت مسلمہ کے خلاف امریکی دہشت گردی کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا تھا وہ بالکل درست تھا اور پرویز مشرف اور اس کے بعد زرداری اور گیلانی کی پالیسیاں بالکل غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ ہمارے لیے ہمارے فوجیوں کا خون بھی نہایت عزیز ہے۔ لیکن ڈرون حملوں میں قبائل کے جو ہزاروں افراد شہید ہوئے ہیںجن میں ہمارے معصوم بچے ،بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں، ان کا غم بھی ہم نہیں بھلا سکتے، اور امریکا کی خاطر ہماری فوج کا اپنی سرزمین پر آپریشن بھی قابل مذمت ہے۔گذشتہ ۱۰ برسوں سے شمسی ائیربیس کا امریکا کے حوالے کیا جانا ملک اور قوم سے غداری کے مترادف ہے۔ صرف اس کا خالی کرناکافی نہیں ۔ پسنی و دالبندین ،خالد بیس، شہبازائیربیس ،غازی کمپائونڈ سے بھی امریکا کو فی الفور بے دخل کیا جائے اور ناٹو سپلائی لائن کی مستقل طور پر بندش کے فیصلے پر استقامت کا مظاہرہ کیا جائے، اور امریکا کی اس جنگ سے نکل آنے اور باعزت اور قومی مفادات کے مطابق سفارتی اور تجارتی تعلقات کی تشکیلِ جدید کا اہتمام کیاجائے۔

جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مخلوط حکومت کی اب تک کی کارکردگی پر اپنی اور پاکستانی عوام کی شدید بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے، اور اس امر کا برملا اعلان کرتاہے کہ عوام نے ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے ذریعے جو موقع اس قیادت کو دیاتھا اس نے اسے بڑی بے دردی اور ناقابل فہم بے تدبیری سے ضائع کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک تیزی سے بگاڑ، حکمرانی کے مکمل فقدان ،سیاسی افراتفری، معاشی تباہی، اخلاقی اور تہذیبی انتشار،نظریاتی ژولیدہ فکری ،اداروں کے تصادم اور بیرونی قوتوں کی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی بھیانک تصویر پیش کررہا ہے ۔ ملک و قوم کی آزادی ، خودمختاری اور عزت و غیرت معرض خطر میں ہیں اور عوام میں ہر سطح پر مایوسی اور بے چینی بڑھ رہی ہے جو خدانخواستہ کبھی بھی آتش فشاں کی طرح پھٹ کر پورے نظام کو تہہ و بالا کرسکتی ہے ۔ زرداری، گیلانی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتاہے کہ     یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے۔

مجلس شوریٰ کی نگاہ میں برسراقتدارحکومت کی فرد جرم میں مندرجہ ذیل امور اہم اور نمایاں ہیں:

آمرانہ دور کی پالیسیوں کا تسلسل

پاکستانی عوام نے مشرف کی آمریت اور ملک کے معاملات میں امریکی مداخلت سے نجات حاصل کرنے کے لیے انتخابات میں مشرف دور کی پوری قیادت کو رد کرکے متبادل سیاسی پارٹیوں کو یہ مینڈیٹ دیاتھاکہ مل جل کر آمرانہ دور کی داخلی، خارجہ اور معاشی پالیسیوں کو تبدیل کریں اورر ملک کو اس دلدل سے نکالیں جس میں اسے جھونک دیا گیا تھا۔ لیکن پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے تبدیلی کے بجاے انھی تباہ کن پالیسیوں کے تسلسل بلکہ ان میں مزید بگاڑ کا راستہ اختیار کیاہے جس کے نتیجے میں وہ ملک اور قوم کو تباہی اور خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل رہی ہے۔ اب اس میں بھی کوئی شک نہیں رہاکہ پیپلزپارٹی کی قیادت مشرف سے این آر او کا کالا قانون جاری کروا کر امریکا اور برطانیہ سے ضمانت حاصل کرکے برسراقتدار آئی تھی اوران کی اصل دل چسپی خود اپنے ماضی کے کرپشن کے جرائم پر گرفت سے بچنا اورامریکا کے دیے ہوئے ایجنڈے کو آگے بڑھاناہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا احتساب کرکے اسے سزا دلانے کے بجاے اسے سلامی دے کر ایوان صدر سے رخصت اور ملک سے فرار کا موقع دیا گیا، اور عوام کے مطالبے اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کے علی الرغم اسے مکمل تحفظ فراہم کیاگیاہے اوراس کی جاری کردہ داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

’دھشت گردی‘ کے خلاف جنگ جاری رکہنا

۲۰۰۸ء کے انتخابات کا دوسرا مرکزی موضوع امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور اس کے تباہ کن نتائج تھا ۔ عوام نے پہلے دن سے مشرف کی غلامانہ اور بزدلانہ پالیسی کو ردکردیاتھا اور ۱۰سال کے تجربے نے یہ ثابت کردیا کہ ہر اعتبار سے یہ پالیسی یکسر ناکام رہی ہے۔ ملک کا امن وامان تباہ ہوگیا ہے ، جو علاقے پُرامن تھے وہ دہشت گردی کی زد میں ہیں ، فوج اور عوام میں دُوری بڑھی ہے، اور دشمنوں کو دہشت گردی کی آڑ میں ملک میں تباہی مچانے کے مواقع ملے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے ملک امریکا کی کالونی بن گیاہے اور معاشی اعتبار سے اس غریب قوم کو محض امریکا اور عالمی ساہوکاری اداروں کی اس خوشنودی کے لیے، جو حاصل بھی نہیں ہوئی اور نہیں ہوسکتی ہے، کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑاہے۔ موجودہ حکومت امریکا کے ڈومور (Do More)کے مطالبات کی اس دلدل میں مزید دھنستی جا رہی ہے، اور جب امریکا اور ناٹو اقوام افغانستان سے نکلنے اورر طالبان سے مذاکرات اور شراکت اقتدار کے معاملات طے کرنے میں مصروف ہیں، حکومت ہمیں اس لڑائی اوراس کے نتیجے میںاندرون ملک رونما ہونے والی تباہی کے طوفان میں مزید جھونکنے کے راستے پر گامزن ہے ۔ہمارے لیے معقول راستہ اب ایک ہی ہے اور وہ امریکا کی اس جنگ سے نکلنا، اور ناٹو اور امریکی افواج کی راہداری کی سہولت کا مکمل اور مستقل خاتمہ ہے۔

عدلیہ کی تضحیک اور محاذ آرائی

انتخابات کے موقع پر تیسرا بڑا مسئلہ پرویزمشرف کی غیر آئینی طور پر معزول کی گئی عدلیہ کی بحالی اوراس کی مکمل آزادی تھا۔ لیکن حکومت نے اپنے سارے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورا ایک سال نہ صرف یہ کہ عدلیہ کی بحالی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ عدالت عظمیٰ کے اہم ترین فیصلوں اوراحکامات کی کھلی خلاف ورزی ، عدلیہ کی تحقیر و تضحیک اور عدالت اور انتظامیہ میں تصادم کا نقشۂ جنگ تیار کیا جا رہاہے۔ این آر او کے فیصلے پر کھلی حکم عدولی کے بعد اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں پیش ہو کر توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دینا پڑگیاہے۔فاضل عدالتوں نے انسانی حقوق کے تحفظ ، کرپشن کے خاتمے، قانون اور ضوابط کی خلاف ورزیوں پر گرفت ، میرٹ سے ہٹ کر تقرریوں اور تبادلوں کو لگام دینے کے لیے جو بھی اقدام کیے تھے، حکومت اور اس کے کارندوں اور خصوصیت سے ایوان صدر سے متعلق افراد نے اسے ناکام کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ جس قابل پولیس افسر کو عدالت نے تفتیش کے لیے مقرر کیا ، اسے اس کام کے لیے فراہم نہیں کیاگیا، اور جس نااہل افسر کو عدالت نے سزا دی   اس کو چشم زدن میں صدر صاحب نے معاف کردیا، اور ایک سے ایک بدنام شخص کواہم ترین مناصب پر فائز کرکے دستور اور عدلیہ کے احکام کی دھجیاں بکھیر دیں۔ حکومت کی طرف سے عدلیہ کے خلاف یہ یک طرفہ جنگ جاری ہے اور وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ اس محاذ آرائی میں پیش پیش ہیں۔ یہ سب انتہائی افسوس ناک ہے۔

بلوچستان کی تشویش ناک صورت حال

بلوچستان میں ہزاروں لاپتا افراد کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ۔ ٹارگٹ کلنگ کا بازار اب بھی گرم ہے، جب کہ ان بے گناہ مقتولین کے قاتل اب تک گرفتار نہیں کیے گئے۔ آغاز حقوق بلوچستان کے اعلان کوقریباً تین سال ہوگئے ہیں مگر اس کاآغاز ہی نہیں ہوسکا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں شکایات کا بازارگرم کیے ہوئے ہیں، جیسے ان کا تعلق حزب اقتدار سے نہیں حزب اختلاف سے ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے عام آدمی کے ورثاء کو ۳،۴ لاکھ اور سرکاری اہل کار کے ورثا کو ۲۰ لاکھ روپے معاوضہ دینے کی حکومتی پالیسی پر چیف جسٹس آف پاکستان کا تبصرہ معنی خیز ہے کہ ’کیا عام آدمی کا خون اہلکار کے خون سے سستاہے‘۔

امریکا کی بڑہتی ھوئی گرفت

امریکا کی پالیسیوں کی اطاعت نے جو محکومی کی شکل اختیار کرچکی تھی، اس کے نتیجے میں صاف نظر آ رہاہے کہ افغانستان میں امریکی جنگ کی معاونت ہو یاان کے مطالبے پر پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف فوج کشی ، ملک میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی کارگزاریوں یا معاشی امور اور پالیسی پر اس کی گرفت اتنی بڑھ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں اس حکومت کی پالیسیوں اور امریکا کی فرماں برداریوں نے جو شکل اختیار کرلی ہے اس نے ملک کو ایک طفیلی ریاست بنادیا ہے اور امریکا کے مطالبات ہیں کہ کم ہونے کو نہیں آتے ۔ ڈرون حملوں میںگذشتہ تین برسوںمیں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے تھے۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی مجرمانہ غفلت نے ایسے حالات تک پیدا کردیے تھے کہ امریکی اور ناٹو کے فوجی بھی بار بار پاکستان کی سرزمین پر کھلے بندوں فوجی آپریشن کررہے ہیں اور پاکستان کی حاکمیت اور خود مختاری کو دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کررہے ہیں۔ نیز ٹریننگ کے نام پر امریکا کے اثرات فوج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بڑھتے جا رہے ہیں، اور اس سب کے باوجود امریکی تھنک ٹینکس ، میڈیا اور پارلیمانی کمیٹیوں کے ارکان کھل کر پاکستان کی حکومت ، فوج اور اس کے اداروں پر دوغلی پالیسی اور دھوکا دہی کے بہتان لگاتے رہے ہیں اور پاکستان کے امیج کو داغدار کرنے اور اپنی مزید تابع داری کے لیے بلیک میل کرتے رہے ہیں ۔ ڈرون حملے کچھ عرصہ بند رہنے کے بعد اب پھر شروع ہوگئے ہیں۔

 ملک و قوم کی آزادی اور عزت کی حفاظت میں حکومت کی اس ناکامی سے عوام میں بددلی ، غصہ اور امریکا اور حکومت دونوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔     اس صورت حال کامزید جاری رہنا ملک کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہے ۔

بہارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا

بھارت کے معاملے میں بھی حکومت کا رویہ قومی وقار اورملکی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ۔ تجارت کے لیے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا مسئلہ کشمیر سے عملاً انحراف ، مظلوم کشمیریوں کے لہو پر نمک پاشی اور جدوجہد آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ تجارت اور اعتمادسازی کے نام پر اصل اور بنیادی مسائل سے غفلت ایک مجرمانہ فعل ہے ۔ کشمیر اور پانی کا مسئلہ ہمارے کور ایشوز ہیں اور ان کے مستقل اور منصفانہ حل کے بغیر بھارت سے تعلقات درست   نہیںہوسکتے۔ حال ہی میں سیکرٹری خارجہ کی سطح کے مذاکرات ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ بھارتی وزیرخارجہ کا کشمیر کے بارے میں بیان روایتی ضد اور ہٹ دھرمی کا آئینہ دار ہے، نیز بلوچستان اورفاٹا میں بھارت کی کارروائیاں اور خود افغانستان میں اس کی خلافِ پاکستان سرگرمیاں ناقابل برداشت ہیں۔ لیکن حکومت نے ان تمام امور کے سلسلے میں جو بزدلانہ پالیسی اختیار کی ہے      وہ پاکستان کے تزویراتی (strategic) مفادات کے خلاف اور عوام کی امنگوں کے منافی ہے ۔

جمھوری روایات سے انحراف

دستور میں اٹھارھویں اور انیسویں ترامیم کے باوجود حالات میں کوئی قابل ذکر بہتری رونما نہیں ہو رہی ۔ زرداری صاحب عملاً اسی طرح حکومت کے چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتے رہے ہیں جس طرح پرویز مشرف کررہا تھا اور آج بھی ایوان صدر اقتدار کا سرچشمہ اور سازشوں کا گہوارہ بنا ہواہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی واضح اعلان کے باوجود فاٹا کے حقوق اور وہاں کے عوام کو فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے سامراجی قانون سے نجات ،اس علاقے میں دستور کے دیے ہوئے حقوق دینے اور نظامِ عدل کے اجرا کے بجاے حال ہی میں صدارتی ریگولیشن کے ذریعے مالاکنڈ ڈویژن میں ڈی سی او کو اور فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ کو پھانسی کی سزا دینے کے اختیارات تفویض کردیے گئے ہیں۔ یہ انصاف کے خون کے مترادف ہے۔

لاقانونیت اور امن و امان کی ابتر صورت حال

ملک میں لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔ کسی جگہ بھی عام شہریوں کو جان ، مال او رآبرو کی حفاظت حاصل نہیں۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں حکومت اور اس کی ایجنسیاں بالکل ناکام رہی ہیں۔ کراچی جیسے شہر میںگذشتہ ایک سال میں ۲ہزار سے زیادہ افرا د کو نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار ا گیاہے۔ بالخصوص گذشتہ سال ماہ جولائی ، اگست میں کراچی میں بے گناہ افراد کا بہیمانہ اور شرم ناک قتل عام ہوا ہے، مگر ایک بھی قاتل کو سزا نہیں ملی۔ کراچی میں ۱۲مئی ،۱۲ربیع الاول، ۹؍اپریل اور ۱۰محرم الحرام کے مجرموں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی، اور سندھ میں تقریباً چار سال تک برسراقتدار تینوں جماعتیں ایک دوسرے پر انگشت نمائی اور الزام تراشیاں کرتی رہی ہیں ۔

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ،ٹارچر سیلوں ،نوگو ایریاز اور بوری بندلاشوں کے معاملات پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد عوام کو توقع تھی کہ کراچی میں امن عامہ کے مسائل پر سپریم کورٹ کوئی واضح ، دوٹوک ،پایدار ،حقیقی اور مستقل حل پیش کرے گی ۔ لیکن بد قسمتی سے   سپریم کورٹ نے مسائل کی نشان دہی کرنے کے بعد حل کی ذمہ داری انھی حکمرانوں پر ڈال دی ہے کہ جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیںاور جن کو خود سپریم کورٹ نے ناکام قرار دیاہے۔  جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ سپریم کورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے کے مطابق براہِ راست نگرانی کو مزید فعال و با مقصد بنائے تاکہ کراچی میں وقتی نہیں بلکہ حقیقی امن قائم ہوسکے ۔

بے نظیر بہٹو کے قاتلوں کو تحفظ

 محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل مجرموں اور اس جرم کے معاونین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اس حکومت نے جو انھی کے خون کی بدولت اقتدار میں آئی، کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی ہے ۔ اس دعوے کے باوجود کہ اصل مجرموں کو صدر صاحب جانتے ہیں، ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا اور دو تین ہفتے میں اس رپورٹ پر کارروائی کے وعدوں کے باوجود کوئی قابل ذکراور نتیجہ خیز کارروائی نہیں ہوئی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ مجرموں کو تحفظ فراہم کیا جا رہاہے ۔نیز اس حادثے کے موقع پر پیپلز پارٹی کے اپنے سیکورٹی کے نظام کی ناکامی کے جولوگ ذمہ دار ہیں اور جن پر کمیشن کی رپورٹ میںبھی واضح اشارے کیے گئے ہیں، وہ بھی صدر صاحب کے سایے میں محفوظ ہیں ۔

ناکام معاشی پالیسی

معاشی اعتبار سے گذشتہ چار برسوں میں ملک میںجو بگاڑ رونما ہوا ہے اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔معاشی پالیسی سازی امریکا او رعالمی اداروں کی گرفت میں رہی ہے۔ یہ حکومت چار سال میں چار وزیرخزانہ ،چاروزارت خزانہ کے سیکرٹری اور اسٹیٹ بنک کے تین گورنرلگاچکی ہے لیکن آج تک کوئی مربوط معاشی پالیسی وجودمیں نہیں آسکی۔ قرضوں کا بار ناقابل برداشت ہوگیا ہے اور آج پاکستان میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم ۱۲۰کھرب روپے سے متجاوزہو گیاہے اور صرف سالانہ سود اور ادایگی قرض کے لیے ۹سو ارب روپے سے بھی زیادہ اداکرنے پڑ رہے ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آج غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر ساہو کاروں کو دیاجا رہاہے اور ان قرضوں کی ادایگی کے لیے نئے قرض لینے پڑ رہے ہیں جس کی بھاری قیمت موجودہ اور آیندہ نسلوں کوادا کرنا ہوگی ۔

مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ بے روزگاری بے تحاشا بڑ ھ رہی ہے ۔ غربت میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے اور بھوک اور افلاس کی وجہ سے اموات اورگھر کے کئی افرادکی خودکشی کی نوبت آگئی ہے جس کی ہماری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ۔ خود فیڈرل بور ڈ آف ریونیو (FBR) کے سربراہ نے کچھ عرصہ پہلے واضح اعتراف کیا تھا کہ ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور مطالبہ کیاگیا کہ حکومت کے قرض لینے پر فوری پابندی لاگو کی جائے۔سپریم کورٹ نے اربوں روپے کے قرضے مختلف بنکوں کی طرف سے معاف کرنے کے از خودنوٹس لینے کے مقدمے کی سماعت کے دوران میں سٹیٹ بنک کے وکیل نے بتایاتھا کہ ۱۹۷۱ء سے لے کر دسمبر۲۰۰۹ء تک ۵۰ہزار سے زائد افراد کے ۲۵۶؍ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے اور گذشتہ دو برسوں کے دوران ۵۰؍ارب روپے کے قرضے نجی بنکوں نے معاف کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ نجی بنک کیسے قرض معا ف کرسکتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ آیا من مانے طریقے سے تو قرضے معاف نہیں کیے گئے ہیں۔ فاضل عدالت نے غیر قانونی طور پر معاف کیے گئے قرضوں کی رقوم وصول کرنے کے عزم کا اظہاران الفاظ میں کیاہے کہ ’’قومی دولت کو واپس لانے کے لیے عدالت کسی حد تک بھی جاسکتی ہے‘‘۔ موجودہ عالمی دبائو کے تناظرمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ۱۹۷؍ارب ڈالر کی بیرون ملک جمع لوٹی ہوئی دولت اور سیاست دانوں کے سوئٹزرلینڈ، اسپین اور دوسرے بیرون ملک بنکوں میں جمع رقوم کوملک کے اندربلاتاخیر لانے کے لیے واضح قانون سازی اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

کرپشن کی انتھا اور اداروں کی تباھی

 حکومت کے ہر شعبے اور زندگی کے ہر میدان میں کرپشن اور بدعنوانی میںبے تحاشا اضافہ ہو رہاہے۔ ورلڈ بنک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کے مطابق کرپشن میں ان چاربرسوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ احتساب کا نظام ناپیداور احتساب کے قانون کا مسودہ چار سال سے   قومی اسمبلی میں پھنسا ہوا ہے اورصرف اس لیے کہ حکومت اسے کرپشن کے تحفظ کا قانون بنانے پر تلی ہوئی ہے، کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ۔سروسز میں تقرریوں ، تبادلوں اور ترقیوں میں میرٹ کا خون کیا جارہاہے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں اور تادیبی اقدام کی سفارش کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے ۔ ہر سطح پر سیاسی بنیادوں پر تقرریاں کی جارہی ہیں اور قومی ملکیت میں اہم ترین ادارے بشمول اسٹیل مل ،پی آئی اے ،واپڈا ، ریلوے ،نیشنل انشورنس کارپوریشن اور ٹریڈنگ کارپوریشن، خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں اور ۴۰۰؍ارب روپے عوام کے منہ سے چھین کر ان سفید ہاتھیوں کی نذر کیے گئے ہیں ۔ پبلک سیکٹر ارباب اقتدار کی سیاسی مداخلت ، اقربا پروری اور دل پسند نااہل افراد کی تقرریوں کی وجہ سے تباہ ہوچکاہے ۔

توانائی کا سنگین ترین بحران

ملک میں توانائی کابحران اپنی انتہا کو پہنچ گیاہے۔ عوام بجلی ، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہوگئے ہیں ۔اس کے باوجود یکم جنوری سے گیس کی قیمت میں ۱۴ فی صداضافہ اورتیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرلیاگیاہے۔ یہ ظالمانہ فیصلہ ہے۔ اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بدترین صورت اختیار کرچکی ہے ۔ ہزاروں صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور زراعت جس پر ۶۰،۷۰ فی صد آبادی کا انحصار ہے ایک بحران کے بعد دوسرے سنگین تر بحران کا شکار ہے۔ راولپنڈی ،اسلام آباد ، لاہور اور کئی دوسرے شہروں میں گھروں کے چولھے ٹھنڈے ہوجانے سے جو بدترین احتجاجی مظاہرے ہوئے وہ بھی حکومت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئے،بلکہ نام نہاد عوامی حکومت نے ملک بھر کے عوام کے مطالبے پر توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیںکیا ہے۔

موجودہ حکومت سے نجات کی ضرورت

جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ پوری دیانت سے محسوس کرتی ہے کہ موجودہ حکومت    بُری طرح ناکام ہوچکی ہے، اور اس کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام بے پناہ  مصائب و مشکلات کا شکار ہیں اور ملک شدید بحران میں مبتلا ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان حالات کی اصلاح، رابطہ عوام مہم کے ذریعے عوام کی بیداری اور امریکا کی غلامی سے نجات کے لیے سرگرم عمل ہے، اوررابطہ عوام مہم کے سلسلے میں راولپنڈی ،اسلام آباد،پشاور ، لاہوراور کراچی کے عوامی جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت اور پذیرائی سے ثابت ہواہے کہ عوام موجودہ حکومت سے بے زار ہیںاور ان کی نگاہ میں ایک صاف ستھری جرأت مند اور باصلاحیت اسلامی قیادت ہی مسائل کا حل ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کومخلصانہ دعوت دیتی ہے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت ،ملک میں حقیقی امن وامان کے قیام،معاشی حالات کی اصلاح اور عوام کو انصاف اور چین کی زندگی کے حصول کی جدوجہد کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہوجائیںتاکہ یہ قوم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی راہ پر آگے بڑھ سکے۔ وطن عزیز پاکستان ملت اسلامیہ پاک و ہند  نے بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور اس کے ۱۸ کرو ڑ انسان اپنی آزادی ، عزت اور حقوق کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ پاکستان جو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور ایک مقدس امانت ہے، اس کی حفاظت اور اسلامی اور جمہوری بنیادوں پر اس کی ترقی اور استحکام کے لیے میدان میں اُتریں اور مؤثر اور پرامن آئینی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا ،قومی مقاصد کے حصول اور ملک اور اس کے عوام کو موجودہ بحرانوں سے نجات دلانے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔

مرکزی مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران سانحۂ ایبٹ آباد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم سے میمو کے بارے میں پوچھنے والے بتائیں کہ چھے برسوں سے اُسامہ بن لادن کس کے ویزے پر یہاں تھا، اپنے ملک کے اداروں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش ہے۔ ان کا یہ بیان بحیثیت وزیراعظم کے اٹھائے گئے اپنے حلف کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ 

اجلاس محسوس کرتاہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی عدلیہ اور فوج سے مسلسل محاذ آرائی اور دھمکیاں اداروں میں ٹکرائوکا باعث بنیں گی۔ اس طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر سیاسی شہادت کی کوشش کررہی ہے۔

اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے جو کام چار برسوں میں نہ کرسکی اب مزیدچندمہینوں میں کیا کرے گی، اس لیے ایک غیر جانب دار عبوری انتظامیہ اور ایک بااختیار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی الیکشن کا اعلان کیا جائے تاکہ قوم اپنے مسائل کے حل کے لیے نئی قیادت کا انتخاب کرسکے۔

مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس یہ بھی واضح کرتاہے کہ حکومت کی ناکامی کا بہانہ بنا کر اگر کسی غیر جمہوری، غیرآئینی شب خون مارنے کی کوشش کی گئی تو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ مجلس شوریٰ کی نظر میں ایسا ہر اقدام ملک و قوم کے بے پناہ مصائب میں اضافے کا ذریعہ بنے گا۔ مرکزی مجلس شوریٰ ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور اور تمام قومی اداروں پر واضح کرتی ہے کہ ہرسیاسی بحران کا حل آئین پاکستان میں موجود ہے ۔ اس لیے صرف آئینی راستوں کو اختیار کیا جائے ۔ موجودہ حکومت کی کرپشن اور ہرلحاظ سے ناکامی کی بنا پر اس حکومت سے جلد ازجلد نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

۲۰۱۱ء اہل پاکستان کے لیے گوناگوں اور غیرمعمولی صدمات کا سال ہونے کی حیثیت سے تاریخِ پاکستان کے حوالے سے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔

حادثات کا یہ سلسلہ جنوری میں ریمنڈ ڈیوس کے خونیں واقعے سے شروع ہوا۔ پھر    ۲مئی (ایبٹ آباد) کا واقعہ رونما ہوا، ۲۲مئی کو کراچی میں مہران نیول بیس پر حملہ ہوا، ۲۶نومبرکو  سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی افواج نے جارحانہ حملہ کیا اور گذشتہ تین ماہ سے ہم میمو سکینڈل میں  اُلجھے ہوئے ہیں۔ غرض حقائق پر پردہ ڈالنے اور قومی احتساب سے فرار کے لیے طرح طرح کی بھونڈی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ صاف نظرآرہا ہے کہ حکومت ِ وقت اس طرح ایک عیارانہ منصوبہ بندی کے تحت عدلیہ اور فوج کے درمیان تصادم اور تقسیم اختیارات کے دستوری فارمولے کو پارہ پارہ کرتے ہوئے حکومتی اداروں کے درمیان کش مکش اور ٹکرائو کا خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے پونے چار سال میں عوام کے اعتماد اور مینڈیٹ کو نہایت بری طرح پامال کیا ہے۔ اس وجہ سے موجودہ حکومت اخلاقی سطح پر اپنا حقِ حکمرانی کھوچکی ہے جو فروری ۲۰۰۸ء میں اسے حاصل ہوا تھا۔

یہ وہ پس منظر ہے جس میں اس وقت میمو سکینڈل نے غیر معمولی اہمیت حاصل کر لی ہے۔  پھر اقتدار میں آنے کے بعد زرداری گیلانی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کی وضع کردہ تمام پالیسیوں کو جاری رکھا، حالانکہ قوم پہلے ہی دن سے ان پر ناخوش اور معترض تھی۔

یہی وہ چیز تھی جس نے امریکا کو یہ حوصلہ اور موقع دیا کہ اس نے افغانستان میں اپنے  جنگی عزائم کو بروے کار لا کر سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کو ایک زینے کے طور پر استعمال کیا۔ یوں پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور حاکمیت کو پارہ پارہ کیا اور پاکستان کے سیاسی، معاشی اور تعلیمی شعبوں، حتیٰ کہ نظریاتی دائرے میں بھی اس کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ  بڑے پیمانے پر تعاون کے حاصل کرنے کے بعد اسے نچلی سطح تک تعاون حاصل کرنے کی ہمت ہوئی اور ہزاروں کی تعداد میں امریکی اہل کار (operators)  پاکستان کی سرزمین پر سرگرم عمل ہوگئے۔ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ اس باب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار کر اور اس کے سرپرستوں نے ایک پاکستانی شہری کو کار کے ذریعے شہید کر دیا۔ پھر حکومتی رضامندی، اور اعانت سے امریکی پوری دیدہ دلیری سے قاتل کو چھڑا کر لے گئے۔ اس سانحے نے عوام اور تمام ہی سیاسی اور دینی قوتوں کو بیدار کر دیا۔ اس سلسلے میں حکومت اور اس کی ایجنسیوں نے جو گھنائونا کردار ادا کیا، اُس نے عوام کو زرداری گیلانی حکومت سے مکمل طور پر مایوس کر دیا اور امریکا کو یہ حوصلہ ہوا کہ وہ ۲مئی ۲۰۱۱ء کو ایبٹ آباد پر حملہ کرکے شیخ اسامہ بن لادن کے قتل کا ڈراما رچائے۔ تقریباً دو گھنٹے تک یہ عمل جاری رہا اور ایبٹ آباد کے تمام ہی باسی بچشم سر،   اس فوجی آپریشن کا نظارہ کرتے رہے، لیکن فضائیہ، زمینی افواج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کا کہیں بھی وجود نہ تھا۔

ستم بالاے ستم یہ کہ اگلے ہی دن صدرزرداری کا مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا مگر اس میں ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے خلاف مذمت کا ایک لفظ بھی موجود نہ تھا، بلکہ اس آپریشن کو ایک مشترک کارنامہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ وزیر اعظم گیلانی نے پاکستانی سرزمین پر امریکی حملے اور پاکستانی زمین پر موجود افراد کو (جو کوئی بھی ہو) قتل کرنے کے اس جُرم کو ’ایک فتح‘ قرار دیا۔ وزارتِ خارجہ کا پہلا بیان نہایت بودا اور شرم ناک تھا اور پیپلز پارٹی کے دو بڑے وکیلوں (یعنی امریکا میں ان کے سفیر جناب حسین حقانی اور برطانیہ میں ان کے ہائی کمیشن واجدشمس الحسن صاحب) نے نہ صرف اس واقعے پر امریکا کو اشیرباد دی بلکہ اس میں پاکستان کے تعاون کا ذلت آمیز دعویٰ بھی کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی دستوری ذمہ داری کو ادا کرنے میں مکمل طور پر  ناکام رہی اور امریکا کے اس دھڑلے سے حملے پر تمام ایجنسیاں، ادارے اور ملک کی سرحدوں اور حاکمیت کا دفاع کرنے والی قوتیں محض تماشائی کا کردار ادا کرنے اور اپنے فرائض منصبی کی ادایگی سے یکسر قاصر رہیں۔ اس چیز نے بڑے بنیادی سوالات کو جنم دیا۔

امریکا کی دل چسپی شیخ اسامہ یا القاعدہ میں تھی لیکن اب تک یہ امر غیر ثابت شدہ ہے کہ اسامہ بن لادن واقعی ایبٹ آباد کے اس مکان میں موجود تھے جس پر امریکی فوجوں نے حملہ کیا،  اور چار افراد کو قتل کرکے ایک لاش اپنے ساتھ لے کر دندناتے ہوئے واپس چلے گئے۔ اس    واقعے میں پاکستان کے لیے اصل اہمیت جس سوال کی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا  نے کس طرح اس جرأت و بے باکی کے ساتھ ہماری حاکمیت اور سرحدوں کے تقدس کو پامال کیا، ہماری سرزمین پر چار افراد کو کسی قانونی استحقاق، اور قانون کے مسلّمہ ضابطے کو تارتار کرکے اور ہماری حاکمیت کو پامال کرتے ہوئے بڑی بے دردی سے قتل کیا۔ ہمارے نزدیک یہ کم از کم تین حیثیتوں سے ایک جرمِ عظیم ہے:

۱- پاکستان کی حاکمیت اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی۔

۲- اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی کھلی کھلی خلاف ورزی۔

۳- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جو بھی لولا لنگڑا اختیار امریکا اور ناٹو کو دیا تھا، یہ اس کی بھی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے کہ یہ اقدام افغانستان کے باہر فوجی آپریشن کے ذریعے کیا گیا ہے۔

ان تین قانونی اور سیاسی وجوہ کے علاوہ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ امریکا ہمیں اپنا نان ناٹو اتحادی قرار دیتا رہا ہے اور کم از کم پچھلے ۱۰ سال سے اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ لیکن ایک اتحادی، دوست اور رفیق کار کے خلاف اس قسم کی فوج کشی اور وہ بھی اس سینہ زوری کے ساتھ، اس نے امریکا سے ہمارے پورے تعلق کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستانی عوام ہی نہیں دنیا بھر کے انسانوں نے امریکا کو نہ صرف یہ کہ دوست ملک نہیں سمجھا ہے بلکہ خود امریکی اداروں کے تحت عوامی راے جاننے کے لیے جو سروے کرائے گئے ان کے مطابق تیسری دنیا کی اکثریت نے امریکا کو دوست نہیں قرار دیا۔ یہ ناراضی اور بے زاری امریکا کی سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں امریکا کی پالیسیوں اور اس کی کار روائیوں کی تائید کرنے والے صرف ۷ فی صد ہیں، جب کہ ۹۳ فی صد نے امریکا کی پالیسیوں اور اس کے کردار کی یا پُرزور مذمت کی ہے یا وہ امریکا سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستانی عوام کو کبھی بھی امریکا کی دوستی پر اعتماد نہیں تھا۔ یہ صرف حکمران تھے جنھوں نے عوام کے جذبات کے علی الرغم امریکا سے دوستی کا رشتہ استوار کیا اور اس کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کیا، لیکن اب وہ لمحہ آگیا جب خود ان کے لیے بھی یہ حملہ ایک شرم ناک تازیانے سے کم نہ تھا۔

۲ مئی کے واقعے پر ایک کمیشن قائم کر دیا گیا۔ یہ کمیشن چار ماہ سے اس مسئلے کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ کمیشن حقائق کی پردہ پوشی نہیں کرے گا۔  قوم اور پارلیمنٹ کو تمام حقائق سے آگاہ کرے گا اور دوٹوک انداز میں ان تینوں سوالوں کے جواب فراہم کرے گا کہ جو کچھ ہوا، وہ کیا تھا؟ بروقت اس پر ردّعمل نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا، اور یہ کہ کس طرح اس کا تعلق نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے شریک کار ہونے سے ہے؟اس لیے کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس شرکت کے نتیجے میں نہ صرف دوسروں کی جنگ ہم پر مسلط ہوئی بلکہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان وہ پاکستانی قوم برداشت کر رہی ہے جس کا نائن الیون کے مذموم واقعے سے دُور و نزدیک کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ سرکاری اعلانات اس امر پر شاہد ہیں کہ ۳۶ہزار عام پاکستانی شہری اور ۶ سے ۱۰ ہزار فوجی یا فرنٹیر کور اور پولیس کے افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کی آماج گاہ بن گئی ہے جس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں جان و مال کا تحفظ باقی نہیں رہا۔ وہ فوج جس سے عوام محبت کرتے تھے اور جسے اپنی آزادی اور عزت کا محافظ سمجھتے تھے، اس کے اور عوام کے درمیان دُوریاں بڑھ گئی ہیں۔شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپ (Robert Pape) نے اپنی تازہ ترین کتاب Cutting the Fuse میں جہاں افغانستان اور عراق کو امریکا کے مقبوضہ ممالک قرار دیا ہے، وہیں پاکستان پر ایک باب لکھا ہے۔ پاکستان کو بطور مثال امریکا کے بالواسطہ مقبوضہ (Indirect Occupied) ملک کے طور پر پیش کیا ہے جو نہ صرف باعث ِ شرم ہے بلکہ ہماری آزادی کو عملاً غلامی میں تبدیل کیے جانے کے مترادف ہے۔

اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں جو معاشی تباہی آئی ہے وہ ہر اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔ وزارتِ خزانہ، امریکا سے ملنے والی ۵؍ ارب ڈالر کی امداد کے مقابلے میں نقصان کو ۶۷؍ارب ڈالر قرار دیتی ہے لیکن اس میں انسانی جانوں کے اتلاف، زخمیوں کی دیکھ بھال کے معاشی مصارف اور پورے ملک میں انفراسٹرکچر میں جو سیکڑوں ارب روپے کا نقصان (wear & tear) ہوا اس کا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ اگر ان تمام چیزوںکو معاشی نقصان کی شکل میں شمار کیا جائے تو اس تباہی کی معاشی قیمت ۱۰۰ سے ۱۵۰ ارب ڈالر سے کم نہیں ہوسکتی جو ہماری پوری سالانہ    قومی پیداوار کے قریب قریب ہے۔ اس سب کے باوجود ۲مئی کو امریکا کی ہوائی افواج نے پاکستان کی مقدس سرزمین پر حملہ کیا، اور پھر ۲۶ نومبر کو ایک دوسرا بڑا حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں ہماری    دو فوجی چوکیاں تباہ کردی گئیں۔۲۴ جوانوں کو شہید کردیا گیا،۱۷ زخمی ہوئے اور پورے دو گھنٹے تک امریکی ہیلی کاپٹر میزائلوں کی بارش کرتے رہے اور ان ہیلی کاپٹروں کو تحفظ دینے کے لیے ایف-۱۶ طیارے فضا میں موجود رہے۔ امریکا کے اس اقدام کو بین الاقوامی قانون میں Act of War کے علاوہ کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ امریکی جارحیت اتنی گھنائونی اور خوف ناک تھی کہ فوج اور حکومت بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے پر مجبور ہوئی اور عوامی دبائو کے تحت حکومت کو تین اقدام کرنے پڑے، یعنی پاکستانی سرزمین پر ناٹو اور امریکیوں کے لیے سازوسامان اور اشیاے ضرورت کی سپلائی کے لیے راہ داری کے حقوق کو معطل کرنا، شمسی ایربیس کو خالی کرانا، اور بون کانفرنس میں عدم شرکت۔ بلاشبہہ یہ اقدام عوام کی خواہشات کے مطابق اور ان کے غم و غصے کو کسی حد تک     کم کرنے کا باعث ہوئے لیکن یہ وقتی اقدام ہیں، اہم ترین مسائل کچھ اور ہیں جن کا قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی و عسکری قیادت کو دوٹوک انداز میں سامنا کرنا ہوگا، وہ مسائل یہ ہیں:

امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے پاکستان کو جلد از جلد نکالنا اور  اس سلسلے میں امریکا جو سامراجی اور خونیں کھیل اس علاقے میں کھیل رہا ہے اور اس میں پاکستان کو بطور ایک کارندے کے استعمال کر رہا ہے، اس سے مکمل طور پر اپنے کو علیحدہ (delink) کرنا ہے۔  دوسرے یہ کہ کھلے ذہن کے ساتھ اور آنکھیں بھی پوری طرح کھلی رکھ کر امریکا سے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے سفارتی و اقتصادی روابط اور تعلقات استوار کیے جائیں، البتہ اس کی بنیاد حقائق پر ہونی چاہیے۔ محض خوف، خواہشات اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر جو پالیسی بنتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ امریکا اور پاکستان میں جو طاقت کا عدم توازن ہے وہ ایک زمینی حقیقت ہے اور اسے کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ اس سے بھی بڑی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور الحمدللہ ایک نیوکلیر پاور بھی ہے۔ جہاں یہ ضروری ہے کہ دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کیا جائے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قیمت پر اور کسی بھی شکل میں خود اپنے حقوق اور مفادات کو پامال نہ ہونے دیا جائے اور ان کی مکمل حفاظت کی جائے۔

ان تمام نقصانات کے علاوہ جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے امریکا نے کم از کم تین حیثیتوں سے پاکستان کی آزادی، خودمختاری، حاکمیت اور سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے اور مستقبل میں تعلقات کی جو شکل بھی مرتب کی جائے، اس میں ان تینوں اُمور کے بارے میں دو اور دو چار کی طرح یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ان میں امریکا کی مداخلت کسی صورت اور کسی حیثیت میں قبول نہیں کی جاسکتی:

۱- پاکستان کی آزادی اور حاکمیت اور پالیسی سازی کا غیرمشروط اختیار۔ بلاشبہہ جن امور کے بارے میں ہمارے اور امریکا کے سیاسی اور معاشی مقاصد اور اسٹرے ٹیجک مفادات مشترک ہوں، وہاں باوقار تعاون کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے، اور جہاں اُن میں اختلاف ہے، وہاں ہماری اوّلین ترجیح اپنے مقاصد کا حصول اور اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی گنجایش نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے ان مقاصد اور مفادات پر امریکا یا کسی اور کی طرف سے کوئی آنچ بھی آسکے۔

۲- کسی بھی شکل میں پاکستان کی جغرافیائی ، زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی   ناقابلِ برداشت ہے۔ امریکی فوجیوں کو زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی (بشمول ڈرون حملوں) کی اجازت نہ ہوگی۔ اسی طرح پاکستان کی سرزمین پر امریکی جاسوسوں، فوجیوں یا دوسرے کارندوں کی موجودگی اور خفیہ آپریشن کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ویزے اور نگرانی کے نظام کو مؤثر بنایا جائے۔ پاکستان کی سرزمین پر جو محفوظ سازشی اڈے امریکیوں نے سفارت کاری کے نام پر یا کسی دوسری شکل میں قائم کیے ہوئے ہیں، ان کو بھی مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے، اور ان کے سفارت خانوں اور سفارت کاروں کو بھی صرف وہی سہولتیں حاصل ہوں جن کی گنجایش ویانا کنونشن میں دی گئی ہے۔

۳- اس وقت ملٹری اور سول امداد کے نام پر امریکا پر انحصار بلکہ اس کی محتاجی کی جو کیفیت ہے اس پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ’ایڈ‘ (aid)کی خطرناک خوراک کو بند کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی جو بھی دفاعی ضروریات ہیں وہ عالمی منڈی بشمول امریکا سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ جہاں تک امریکی معاشی امداد کا تعلق ہے اس سے مکمل طور پر معذرت کرلی جائے۔ جیساکہ ہیلری کلنٹن نے اپنی پاکستان یاترا کے دوران اشارہ دیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشی امداد سرتاسر ایک نقصان کا سودا ہے۔ نیویارک ریویو آف بکس (۲۹ستمبر ۲۰۱۱ئ) کے ایک مضمون میں امریکا ہی کے ایک آزاد ادارے سنٹرل گلوبل ڈویلپمنٹ (Central Global Development) کے ایک تجزیے کے مطابق گذشتہ نوبرس میں پاکستان میں جو معاشی امداد آئی ہے وہ صرف ۳ئ۴؍ارب ڈالر ہے، دوسرے لفظوں میں ۴۸۰ملین ڈالر سالانہ تھی۔ اسے پاکستان کی ۱۸کروڑ آبادی پر تقسیم کیا جائے تو سالانہ ۶۷ئ۲ ڈالر فی کس بنتی ہے۔ نیویارک ریویو آف بکس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

یہ لاہور میں چھے انچ کے پیزا کی قیمت ہے جس پر پیزاہٹ کی طرف سے کوئی اضافی topping بھی نہیں دی جاتی۔

یہ ہے اس معاشی امداد کی حقیقت جس کے نتیجے میں ہمارے ہاتھوں میں امریکا کی ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو راہ داری کی سہولتیں امریکا اور ناٹو کو گذشتہ ۱۰برسوں میں حاصل رہی ہیں اگر دنیا کے معروف قاعدے کے مطابق ان پر راہ داری ٹیکس لگایا جاتا اور انھیں ٹیکس اور کسٹم سے مکمل استثنیٰ نہ دیا گیا ہوتا، تو کم از کم ۴ سے ۵؍ارب ڈالر سالانہ صرف سروس چارجز کی شکل میں وصول کیے جاسکتے تھے۔ ترکی نے non-lethal سامان کی راہ داری کے لیے ۶؍ ارب ڈالر سالانہ اسی امریکا سے وصول کیے ہیں، جس کو ہم نے یہ ساری سہولتیں مفت دے رکھی ہیں۔ اس سے بڑی قومی مفاد سے غداری اور کیا ہوسکتی ہے۔ ایک طرف یہ ڈھائی ڈالر فی کس کی امداد ہے جس کے ساتھ سیکڑوں شرائط بھی لگائی گئی ہیں اور جسے بالعموم اپنی خودپسند این جی اوز کے ذریعے ملک میں اپنی لابی بنانے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم اس ۴۸۰ ملین ڈالر سالانہ کا مقابلہ پاکستانیوں کی ان ترسیلات سے کریں جو وہ اپنے ملک میں بھیج رہے ہیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اس وقت یہ ترسیلات ۱۱؍ارب ڈالر سالانہ ہیں لیکن افسوس کہ ان کو بھی صحیح انداز میں دیرپا معاشی ترقی کے حصول اور خوش حالی کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا۔ آیندہ امریکا سے دوطرفہ تعلقات میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ امریکا سے تمام معاملات تجارتی اور سفارتی بنیادوں پر دونوں ممالک کے مشترک مفادات کی روشنی میں استوار کیے جائیں گے، اور جو یک طرفہ کھیل امریکاکھیل رہا ہے اس کا باب اب بند ہونا چاہیے۔

امریکا اور ناٹو کو راہ داری کا جو حق دیا گیا ہے اس کو ہرگز اس وقت تک بحال نہ کیا جائے جب تک کہ امریکا سے تعلقات کا نیا فریم ورک طے نہ ہوجائے۔ نیزہرچیز ضبطِ تحریر میں لائی جائے اور قوم اور پارلیمنٹ کو مکمل اعتماد میں لیا جائے۔ اس کے بعد تجارت اور خود راہ داری کے معاملات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دنیا کے معروف قوانین اور ضوابط کے مطابق جو بھی سامان پاکستان کی سرزمین سے بھیجاجائے اس کی اسکریننگ ہو اور اس میں کوئی ایسی چیز نہ بھیجی جائے جو پاکستان کے قانون یا مفاد کے خلاف ہو، نیز پاکستانی سرزمین پر اس کا کنٹرول پاکستانی اداروں کے ہاتھ میں ہو تاکہ اسمگلنگ اور اسلحے کے ناجائز پھیلائو کو روکا جاسکے، اور راہ داری کی  اس سہولت پر دنیا کے معروف ضابطوں کی روشنی میں مکمل سروس چارجز اور ٹیکس وصول کیا جائے۔

 ۲مئی، ۲۲مئی اور ۲۶نومبر کے واقعات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ ہمارا انٹیلی جنس اور دفاع دونوں کا نظام نہایت خام اور نامکمل ہے۔ ہم کوئی راز فاش نہیں کر رہے ہیں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فضائیہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اور سول ایوی ایشن دونوں کا نظام ہرلمحے اتنا چوکس ہونا چاہیے کہ پاکستان کی فضائی حدود میں اگر کوئی بھی داخل ہو، خواہ دوست ہو یا دشمن (hostile) تو دو منٹ کے اندر انھیں معلوم ہوجائے کہ ہماری حدود میں کوئی داخل ہوا ہے اور پھر مناسب وارننگ کے بعد اگر یہ دشمنی پر مبنی دراندازی ہے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔

اس کے لیے تین قسم کے نظام  وضع کیے گئے تھے۔ ان میں ایک electro magnatic pulse تھا جس کے لیے پورے ملک کو مختلف سیکٹر میں بانٹ کر ریڈار کا نظام نصب کیا گیا تھا۔  دوسرا مینول مانٹیرنگ نظام تھا جس کے لیے ہر ساڑھے سات کلومیٹر پر ایک انسانی انتظام ایسی دُوربینوںکے ساتھ، جو تقریباً تین کلومیٹر تک دیکھ سکتی ہوں تاکہ پورے بارڈر کی نگرانی کی جاسکے۔ تیسرا نظام ریڈیو مانٹیرنگ کا تھا۔ اس امر کے بے لاگ جائزے کی ضرورت ہے کہ یہ تینوں نظام افغان سرحد پر کیوں غیر مؤثر رہے اور اس سلسلے میں جو بھی افراد فرض کی عدم ادایگی کے مرتکب ہوئے ہیں ان کا تعین اور ان کو قرارواقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ آیندہ کے لیے ایسی کوتاہی (lapse) نہ ہو۔ یہ بات بہت ہی حیران کن ہے کہ ۲مئی کی کوتاہی کے بعد ۲۶نومبر کو بھی اسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب کیا گیا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان چھے مہینوں میں دفاعی حوالے سے فضائی نگرانی کے نظام میں کوئی جوہری بہتری نہیں کی گئی۔ اس کی بھی جواب دہی ضروری ہے۔

 

ایک آخری بات جو ہم قوم اور قیادت دونوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، وہ ہے جس کا تعلق اُس بدنامِ زمانہ میمورنڈم سے ہے جو اس وقت پوری قوم، میڈیا، پارلیمانی کمیٹی براے    قومی سلامتی اور سپریم کورٹ، ہر جگہ زیربحث ہے۔ یہ میمو ۲مئی کے واقعے کے فوراً بعد تیار کیا گیا ہے اور بظاہر اس کا پس منظر یہ ہے کہ فوج، سول حکومت کا دائرہ تنگ کررہی ہے اور اسے قابو میں رکھنے کے لیے اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ امریکی قیادت پاکستان کی فوجی قیادت کو لگام دے اور اسے مجبور کرے کہ وہ سول قیادت کے حسب ِ منشا کام کرے۔

بظاہر اس میمو کی تیاری میں مرکزی کردار امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور منصوراعجاز نے اداکیا ہے، جو ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری ہے جس کے والد مذہباً قادیانی تھے اور پاکستان کے نیوکلیئر اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ تھے۔ منصور اعجاز نے گذشتہ ۱۵/۲۰ برس میں ایک طرف بزنس مین کی حیثیت سے کافی دولت کمائی اور دوسری طرف امریکا کی اہم شخصیات بشمول سی آئی اے اور امریکاکی فوجی اور سیاسی قیادت سے اس کے مراسم تھے اور بزعمِ خود بیک چینل ڈپلومیسی میں بھارت، پاکستان، سوڈان اور متعدد ممالک کے سلسلے میں خدمات انجام دی ہیں۔ منصور اعجاز کس کردار کا شخص ہے یہ ہمارے لیے اتنا اہم نہیں جتنا میمو اور اس کے مندرجات کا مسئلہ اہم ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ میمو ایک حقیقت ہے اور یہ بھی ناقابلِ تردید امر ہے کہ یہ میمو جنرل جونز کے ذریعے  اس وقت کے چیف آف اسٹاف ایڈمرل مولن کے ہاتھوں میں پہنچا۔ البتہ جو چیز تحقیق طلب ہے، وہ یہ ہے کہ اس میمورنڈم کے تصور کا آغاز کہاں سے ہوا اور فی الحقیقت کون سی شخصیت یا ادارہ ہے جو اس کے پیچھے ہے، اور دوسری طرف اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ تیسری بات یہ کہ اس وقت اس کی اشاعت کن مقاصد کے تحت ہوئی اور کون نشانہ ہے؟

یہ بات بھی ایک مسلّمہ امر ہے کہ میمو کا تعلق ۲مئی کے واقعے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات سے ہے۔ اسی طرح ۳مئی کا صدر زرداری کا واشنگٹن پوسٹ میں   شائع ہونے والا مضمون، اس کے بعد میمو کی اشاعت، آئی ایس آئی کے سربراہ کی منصور اعجاز سے ملاقات، چیف آف اسٹاف کی صدر اور وزیراعظم سے ملاقات اور اس پر اصرارکہ معاملے کی تحقیق کی جائے اور حسین حقانی کو بلایا جائے___ یہ سب بھی حقائق ہیں۔ ابتدا میں جنرل مولن نے میمو سے انکار کیا لیکن پھر منصور اعجاز کے ای میل اور ایس ایم ایس اور دوسرے شواہد کے اعلان کے بعد، میمو کے صحیح ہونے کا اعتراف کرلیا۔ جنرل جونز کے تین بیان قابلِ توجہ ہیں: پہلے بیان میں اعتراف کیا گیا کہ میمو ملا تھا اور ایڈمرل مولن کو بھیجاگیا تھا۔ امریکا کے ایک ٹی وی چینل پر اپنے دوسرے بیان میں انھوں نے تفصیلی اعتراف کیا۔ پھر سپریم کورٹ کے سامنے حسین حقانی کی صفائی کے لیے حلفیہ بیان داخل کر دیا جو اُن کا تیسرا بیان تھا۔ ان تینوں بیانات میں تضادات ہیں اور منصور اعجاز نے جونز سے اپنے تعلقات اور بات چیت کا جو ریکارڈ پیش کیا ہے اس سے خود جنرل جونز کا کردار خاصا مشکوک ہوگیا ہے، اور صاف نظر آرہا ہے کہ حسین حقانی کو بچانے کے لیے وہ سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خود میمو میں کیا کہا گیا ہے؟  اس میمو کا موقع محل اور پس منظر یہ ہے کہ یہ ۲مئی کے پس منظر میں لکھا گیا۔ اس سیناریو میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی فوج ایک طرف پریشانی اور ہزیمت کا شکار ہے تو دوسری طرف   وہ اپنے اثرورسوخ اور کردار کو بچانے کے لیے سول حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کرنے والی ہے۔ میمو کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی سول حکومت خصوصیت سے صدرزرداری جمہوریت کی بقا کے نام پر امریکی چیف آف سٹاف اور اعلیٰ امریکی قیادت کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ فوج کو قابو میں کیا جاسکے اور اس کے دانت اس حد تک توڑ دیے جائیں کہ وہ پورے طور پر بظاہر سیاسی قیادت کے تابع ہوجائے، لیکن فی الحقیقت اس کو ایک ایسے مقام پر لے آیا جائے جو علاقے میں امریکی مقاصد اور اہداف کے حصول میں معاون ہوسکے۔ دوسرے لفظوں میں سول حکومت اور امریکا کے درمیان ایک نئے گٹھ جوڑ کا اہتمام کیا جائے اور ماضی میں امریکا اور فوج کا بلاواسطہ جو تعلق رہا ہے اُسے اس طرح نئے سانچے میں ڈھالا جائے کہ امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت  مل کر فوج کو قابو میں کر سکے۔

امریکا کو ضمانت دی گئی کہ اگر وہ میمورنڈم میں بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو تو صدرمملکت اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ دفاع اور سیکورٹی کا پورا نظام امریکا کی منشا کے مطابق ازسرِنو مرتب کیا جائے گا اور واشنگٹن کی پسند کے افراد کو فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ امریکا کے خدشات کی روشنی میں پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کی نگرانی کا طریق کار بھی ازسرِنو طے کیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کے سلسلے میں فوج اور انٹیلی جنس کے بارے میں امریکی تحفظات کو دُور کیا جائے گا۔ بھارت سے معاملات کو امریکی حکمت عملی کے مطابق مرتب کیا جائے گا، اور آئی ایس آئی کو اس طرح قابو کیا جائے گا کہ اس کی وہ شاخیں جن کے بارے میں امریکا کو شبہہ ہے کہ وہ امریکی مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہیں، انھیں ختم کر دیا جائے گا۔ نیز اس کے اُس ونگ کو ختم کیا جائے گا جس کے بارے میں حکومت اور امریکا دونوں متفکر ہیں۔

اس میموکے تجزیے سے تین باتیں سامنے آتی ہیں:

۱- پاکستان کے سیکورٹی معاملات میں امریکا کو کھلی مداخلت کی دعوت۔

۲- سول قیادت کا امریکا کے ساتھ ایک نیا عہد و پیمان اور امریکی مفادات کے تحفظ کی ضمانت۔

۳- ملکی سلامتی، آزادی اور حاکمیت کے باب میں پاکستان کے آزادانہ سیاسی، عسکری کردار کا خاتمہ اور امریکی ایجنڈے کی تکمیل کی ضمانت۔

اس طرح یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ میمو محض کاغذ کا پُرزہ نہیں (جیساکہ گیلانی صاحب نے دعویٰ کیاہے) بلکہ یہ تو ایک ’میثاقِ غلامی‘ ہے، اور اس کا مضمون سوچنے، اُسے لکھنے اور اسے پہنچانے والوں نے وہی کردار ادا کیا ہے جو تاریخ میں میرجعفر اور میرصادق ادا کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اصل کرداروں کا تعین کیا جائے اور پھر انھیں اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے۔ اس کے بعد، اگر ان کا جرم ثابت ہو تو انھیں عبرت ناک سزا دی جائے۔ یہ کام پارلیمانی کمیٹی  نہیں کرسکتی صرف عدالت کرسکتی ہے۔ بلاشبہہ عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی فرنسک (forensic) تحقیق اور مناسب بحث و تفتیش کے بعد اور عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرے۔ یہ مسئلہ بہرحال ایسا نہیں کہ اس کو سیاسی مصلحتوں یا ’مُکمُکے‘ کی کسی شکل کا سہارا لے کر داخلِ دفتر کر دیا جائے۔

ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کون قابلِ اعتماد ہے اور کس کا ماضی میں کیا کردار رہا ہے؟ ہمیں اس بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں کہ منصور اعجاز پاکستان کا دوست ہے۔ بلاشبہہ اس کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ امریکا کا وفادار ہے اور جو کردار وہ ادا کر رہا ہے وہ امریکا کے مفاد میں ہے۔ اسے پاکستان سے کوئی دل چسپی نہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ منصور اعجاز ماضی میں پاکستان، پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بہت کچھ لکھتا رہا اور کہتا رہا ہے لیکن اس معاملے میں  حسین حقانی صاحب بھی اس سے پیچھے نہیں رہے۔ ان کی کتاب Pakistan between Mosque & Military ان کے اپنے خیالات کا آئینہ ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس باب میں ان کے اور منصور اعجاز کے خیالات میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں انگریزی محاورے میں ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں (on the same page)۔ بہرحال میمو کی تحقیق و تفتیش معروف ضابطوں کے مطابق پوری دیانت اور شفافیت کے ساتھ ہونی چاہیے تاکہ یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ کون سچ بول رہا ہے اور اس معاملے میں دونوں کا کیا کردار رہا ہے، نیز یہ بھی پتا چلے کہ اس معاملے میں اُن کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما تھیں۔ ہمارے نزدیک اس کے پانچ امکانات ہوسکتے ہیں:

اوّل: سارا کھیل صرف منصوراعجاز نے محض اپنے ذاتی مقاصد اور ذاتی شہرت اور کچھ سیاسی و مالی مفادات کی خاطر کھیلا ہے۔ بظاہر امکان نہیں ہے کہ وہ پاکستان سے کوئی فائدہ اُٹھا سکے۔ فائدہ اسے امریکا ہی سے ہوسکتا ہے جس سے وہ اپنی وفاداری اور تعلقات کا برملا اعلان کرتا ہے۔

دوم: دستاویزی اور تائیدی شہادتوں کی بنا پر قرینِ قیاس ہے کہ منصور اعجاز کو حسین حقانی نے (جس سے اس کے ۱۰ برسوں پر محیط تعلقات ہیں) اس کام کے لیے آمادہ کیا ہو۔ یوں پورے معاملے میں یہ دونوں شریک ہوں۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کیا حسین حقانی بظاہر محض  اپنے بل بوتے پر یہ کردار ادا کرسکتا ہے؟

سوم:  میمو کی داخلی شہادت، منصور اعجاز کی ایس ایم ایس اور ای میل کا ریکارڈ اشارہ کرتا ہے کہ اس معاملے میں اس پردئہ زنگاری کے پیچھے کوئی اور ہے اور اشارہ صدرِ پاکستان جناب زرداری اور غالباً ایوانِ صدر کے ایک اور اعلیٰ افسر کی طرف ہے۔ اسے ہم حسین حقانی پلس کہہ سکتے ہیں اور اگر یہ صحیح ہے تو تعین ہونا چاہیے کہ اس کے پیچھے فی الحقیقت کون تھا؟ دوسرے الفاظ میں پورے معاملے کا بینی فشری، یعنی اصل فائدہ اٹھانے والا کون ہے؟

چہارم: کسی ایجنسی نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے منصور اعجاز کو ذریعہ بنایا ہو۔  منصور اعجاز، جنرل جونز اور ایڈمرل مولن یہ تین تو کھلے کھلے کردار بالکل سامنے آگئے ہیں۔ ان میں سے ہرایک نے اپنے اپنے بیان کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، البتہ ان کے پیچھے کون ہے؟ کیا یہ کام سی آئی اے نے کرایا؟ یا اس میں موساد اور را کا بھی حصہ ہے؟ اصل مقصد پاکستانی     آئی ایس آئی اور فوج کی گوش مالی ہے جس کے خلاف امریکی میڈیا جارحانہ محاذ آرائی کرتا رہا ہے، اور یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ پاکستان اور اس کی فوج کو بلیک میل کیا جائے۔ کیا ان ایجنسیوں نے سارا کھیل کھیلا اور پاکستان کے سابق سفیر کو بھی اس میں استعمال کیا گیا___ ان کی مرضی سے یا ان کو بے وقوف بناکر؟

پنجم: بظاہر ایک غیراغلب امکان یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس پورے ڈرامے کے پیچھے پاکستانی انٹیلی جنس کا ہاتھ ہو، تاہم اس میں دو چیزیں اس مفروضے کو ناقابلِ التفات بتاتی ہیں۔  ایک یہ کہ منصوراعجاز اور آئی ایس آئی کا اس سازش میں شریک ہونا ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ فوج اور آئی ایس آئی نے جو اسٹینڈ لیا ہے، جس طرح وہ معاملے کی تحقیق اور مجرموں کے تعین کے لیے اصرار کررہی ہے، اس سے اس امکان کی تردید ہوتی ہے۔

ہمیں توقع ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی ان تمام پہلوئوں کا دیانت داری اور عرق ریزی کے ساتھ جائزہ لے گی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ اصل حقائق قوم کے سامنے آئیں اور جس کا جو کردار ہے، اس کے مطابق معاملہ کیا جائے۔

صدرزرداری اور وزیراعظم گیلانی کا کردار بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دینے والا ہے۔  منصوراعجاز کے مضمون کی اشاعت (۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ئ) کے بعد حکومت کی مستقل خاموشی نے معاملے کو اور بھی گمبھیر بنادیا۔ جب پانی سر سے اُونچا ہوگیا تو تردیدی بیانات جاری کیے گئے مگر    وہ نہایت مبہم تھے۔ بعدازاں حسین حقانی کو بلا کر ایک طرف تو ان سے استعفا لیا گیا اور دوسری طرف انھیں ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم میں پناہ دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ وزیراعظم گیلانی کا اچانک یہ اعلان کہ میمو میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ فقط کاغذ کا پُرزہ ہے۔ وفاقی حکومت نے یہی موقف سپریم کورٹ کے سامنے اختیار کیا۔ اس کے برعکس چیف آف اسٹاف اور آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل نے میمو کو ملک کی سلامتی کے خلاف ایک خطرناک سازش اور فوج کو بدنام کرنے اور اس کا مقام گرانے کی مذموم کوشش قرار دیا ہے۔

اگر میمو جھوٹ کا پلندا ہے تو پھر امریکا میں پاکستان کے سفیر سے استعفا کیوں لیا گیا؟ اگر تفتیش کے لیے ان سے استعفا لینا ضروری تھا تو صدرصاحب سے استعفا کیوں نہیں لیا گیا؟ اس معاملے میں ان کا نام بھی سرفہرست آتا ہے۔ بظاہر وہی اس پورے معاملے سے فائدہ اٹھانے والے نظر آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اور میڈیا کے بعض عناصر نے آئی ایس آئی کے چیف کے استعفے کی بات بھی کی ہے۔ یہ حقیقت نظرانداز کی جارہی ہے کہ میمو اگر صحیح ہے تو اس میں کلیدی کردار حسین حقانی اور صدرصاحب کا ہے۔ آئی ایس آئی کے چیف کے بارے میں جو بات ضمناً فون اور ای میل کے متن (transcript) میں کہی گئی ہے، وہ یہ ہے، منصور اعجاز کہتا ہے:

I was just informed by senior US intelligence that GD-SII Mr. P asked for, and received permission from senior Arab leaders a few days ago to sack Z. For what its worth.

امریکی خفیہ ایجنسی کے سینیر ذمہ دار نے ابھی مجھے بتایا کہ آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل، مسٹر پی کو ایک ذمہ داری سونپی گئی جس کے تحت انھوں نے سینیرعرب لیڈروں سے چند دن قبل یہ اجازت حاصل کی کہ مسٹر زیڈ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا یا  برطرف کردیا جائے۔ اب ان معلومات کی کیا قدروقیمت ہے وہ جو بھی ہو؟

اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ امریکی انٹیلی جنس کی بات ہے جو منصور اعجاز کو بتائی گئی اور وہ خود بھی اس بارے میں شبہے میں مبتلا ہے جو یہ کہہ رہا ہے: for what its worth ۔اس کے برعکس حسین حقانی اور ان کے باس صاحب کا کردار کلیدی ہے جس کا کسی سنی سنائی بات سے تعلق نہیں ہے۔ اس طرح دونوں کو مساوی ذمہ دار قرار دینا عقل کا تقاضا نہیں ہے۔ اسی متن میں ایک مقام پر یہ بھی آتا ہے کہ منصور اعجاز نے یہ بات بھی کہی:

it is interesting and heartening to see that many of the proposals made in the memo are being implemented in bi-lateral relationship. very good.

یہ بات بہت دل چسپ ہے اور باعث ِ مسرت بھی، کہ میمو کی بہت سی تجاویز پر دو طرفہ تعلقات کی روشنی میں عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ بہت خوب!

اس جملے کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت کہاں تک یکساں سوچ رکھتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ میمو کا جو بھی رِدّعمل ہوا ہو اور مولن نے میمو کی تاریخ کے ایک ہفتے کے اندر، امریکی انٹیلی جنس کے سامنے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان دیا، اگر اس کا رشتہ نہ بھی جوڑا جائے، تب بھی میمو کی اشاعت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی قیادت اور پاکستانی قیادت کے درمیان تعاون کا کوئی نہ کوئی سلسلہ کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ پارلیمانی کمیٹی اور سپریم کورٹ کو اس امر کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔

میمو میں ایک اور بڑی اہم بات ہے جسے تحقیق کا محور ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ ۲مئی کے واقعے کے سلسلے میں امریکا اور پاکستان کی قیادت کے درمیان کسی درپردہ تعاون اور سمجھوتے کا اشارہ ہے۔ حسب ذیل جملے کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ منصور اعجاز لکھتا یا کہتا ہے:

By the way, I know a lot more than you give me credit for about the circumstances that led to May 1 and your role in that. Just FY1.

ویسے تو آپ نے مجھے ان حالات کے بارے میں جن باتوں کا سزاوار قرار دیا ہے جو یکم مئی٭ کے واقعات کا سبب بنی ہیں، اس سے زیادہ جانتا ہوںاور یہ بھی کہ ان میں خود آپ کا کیا کردار رہا ہے۔ بس FY1

٭   امریکا میں اس روز یکم مئی ہی تھا، مگر پاکستان میں ۲ مئی شروع ہوچکا تھا۔         

جس پر حسین حقانی کا جواب یہ تھا:

Honorable ppl stick with one another. Take care.

عزت مآب براہِ کرم ڈٹے رہیے اور ایک دوسرے سے جڑے رہیے اور ذرا محتاط بھی رہیں۔

جب ہم اس جملے کو حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کے ٹی وی بیانات کے ساتھ دیکھتے ہیں   اور ساتھ ہی صدرصاحب کے ۳مئی کے مضمون (مطبوعہ:واشنگٹن پوسٹ) کو پڑھتے ہیں (جس میں حسین حقانی کے طرزِ تحریر کی صاف جھلک موجود ہے)، تو اس میں امریکا کی طرف سے پاکستان کی حاکمیت کی پامالی اور جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کے سلسلے میں مذمت کا ایک لفظ بھی     نظر نہیں آتا، بلکہ دبے لفظوں میں پاکستان اور امریکا کے تعاون کا اشارہ دیا گیا ہے۔ یہاں   زرداری صاحب کے دستِ راست جناب رحمن ملک کے ایک ٹی وی انٹرویو کا یہ تذکرہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ ہفت روزہ Pulse کا مضمون نگار لکھتا ہے:

عبدالرحمن ملک نے العریبیہ چینل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’آپریشن شروع ہوا تو ۱۵منٹ بعد مجھے اس سے آگاہ کر دیا گیا تھا‘‘ لیکن وزیرداخلہ امریکی افواج (SEALS) کے سامنے بے بس اور عاجز تھے۔ (ہفت روزہ Pulse، ۹-۱۵ دسمبر ۲۰۱۱ئ، ص ۱۴)

یاد رہے کہ یہ آپریشن ۴۰ منٹ جاری رہا۔ اس کے بعد ۴۰منٹ تک امریکی ہیلی کاپٹر پاکستانی حدود میں اُڑتے رہے۔اگر وزیرداخلہ آپریشن کے آغاز سے ۱۵منٹ کے بعد اس سے مطلع ہوچکے تھے تو پھر ایک گھنٹے تک وہ کیا کرتے رہے؟

ان سارے حقائق کی موجودگی میں پورے واقعے کو مذاق اور جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ملک سے اس بے وفائی اور غداری میں کس کا کتنا ہاتھ ہے؟ اس کا تعین ہونا چاہیے، مگر پارلیمانی کمیٹی کا یہ کام نہیں کرسکتی کیوں کہ اس میں اکثریت پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی ہے۔ بلاشبہہ پارلیمانی کمیٹی کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے لیکن مسئلے کی صحیح اور غیرجانب دارانہ تحقیق اور ذمہ داری کا تعین صرف اعلیٰ ترین عدالت ہی کرسکتی ہے۔ پوری قوم اور تاریخ دونوں کی نگاہیں عدالت اور اس سے بے لاگ انصاف کی توقع پر لگی ہوئی ہیں۔

_______________

اقبال نے سچ کہا تھا کہ   ؎

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

غلامی صرف سیاسی ہی نہیں، ذہنی، فکری اور تہذیبی بھی ہوتی ہے، جو بسااوقات سیاسی غلامی سے بھی بدتر ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح مفادات کی اسیری بھی اسی طرح تباہ کن ہوتی ہے جس طرح سامراج کی سیاہ رات میں قومیں تباہی و بربادی سے دوچار ہوتی ہیں۔

بدقسمتی سے آج پاکستان پر ایک ایسی سیاسی قیادت مسلط ہے جو زندگی کے ہرمیدان میں ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ بنانے کے کارِ مذموم میں سرگرم ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ۳نومبر ۲۰۱۱ء کو مرکزی کابینہ کے ایک ’اصولی فیصلے‘ کے نام پر کیا جانے والا وہ شرم ناک اعلان ہے جس کے ذریعے پاکستان کی حکومت بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ (Most Favoured Nation) قرار دے رہی ہے۔ یہ فیصلہ اتنی عجلت میں اور اس کا اعلان اتنے اچانک انداز میں کیا گیا ہے کہ پاکستانی تو پاکستانی، خود بھارت کی قیادت اور سفارت کار بھی ایک بار تو ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے اور پھر خوشی اور مسرت سے چلّا اُٹھے کہ انھیں کانوںپر اعتبار نہیں آرہا، بلکہ اسلام آباد میں بھارت کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ اعلان ایک خوش گوار دھماکے سے کم نہیں___ یہ اور بات ہے کہ بھارت کی قیادت کے لیے یہ تحفہ ایک ’نعمت ِغیر مترقبہ‘ تھا تو پاکستانی قوم کے لیے ایک دل خراش سانحہ! ان کے دل و دماغ پر یہ اعلان بجلی بن کر گرا اور پاکستان کی ۶۴سالہ قومی اتفاق پر مبنی پالیسی کو خاکستر کرگیا۔

حکومت کا یہ اعلان تحریکِ پاکستان کے مقاصد کی نفی، پاکستانی ریاست کے وجود کے لیے چیلنج، معیشت کے مستقبل کے لیے خطرہ اور قیامِ پاکستان کے لیے کی جانے والی برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی جدوجہد سے بے وفائی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام اہم پہلوئوں پر کھل کر اور دلیل سے بات کی جائے اور تمام محب وطن قوتوں کو منظم اور متحرک کیا جائے تاکہ عظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا جانے والا یہ ملک، جو امریکی غلامی کے جال میں تو پھنسا ہوا ہے ہی، اب کسی نئی غلامی کے جال میں نہ پھنس جائے۔

پاکستان کے قیام کا مقصد صرف برطانوی اقتدار سے آزادی ہی نہ تھا بلکہ ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسی خودمختار مملکت کی تعمیر تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے ساتھ عدل و انصاف کا نمونہ، اور اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی، ہر میدان میں خیر اور صلاح کی ضامن ہو۔ تقسیم ہند کا مقصد معیشت، سیاست اور تہذیب و تمدن کے دو مختلف بلکہ متضاد نمونوں (models) کو اپنے اپنے دائرے میں نئی دنیا کو تعمیر کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اکھنڈ بھارت کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانا تھا۔ آج کا بھارت ایک نئے روپ میں وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے جو کانگریس کی قیادت میں برطانیہ کے آخری دور میں گاندھی جی، جواہرلعل نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل نے ادا کیا تھا اور جسے قائداعظم کی قیادت میں برعظیم کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک نے ناکام بنا دیا تھا۔

علاقائی تعاون کے نام پر اصل ایجنڈاجنوبی ایشیا کے لیے ایک معاشی، تہذیبی اور بالآخر سیاسی اکھنڈ (Union) کا قیام ہے اور بھارت امریکا کی آشیرباد سے اس ایجنڈے پر عمل کے لیے سرگرم ہے۔ نیز کھلے اور درپردہ، اس منصوبے کو بروے کار لانے میں اسرائیل بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیں دکھ سے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ زرداری صاحب نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھارت سے راہ و رسم بڑھانے اور نئی equation استوار کرکے تقسیم کی لکیر کو غیرمؤثر بنانے کے اشارے دیے تھے اور ستم بالاے ستم کہ مسئلہ کشمیر جو پاکستان اور اہلِ جموں و کشمیر کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اس کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو نئی نسلوں کے لیے چھوڑنے کے خواہش مند ہیں اور یہی پیغام الطاف حسین صاحب کا بھی تھا۔ پاکستان کی معیشت کو بھارت کی مصنوعات، سرمایہ،تاجروں اور میڈیا کے لیے کھولنے کے اقدام اس منزل کی طرف مراجعت کے لیے زینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارتی دانش ور صحافی جناب کلدیپ نائر تجارت کے اس مجوزہ دروبست میں بھارت کے اس خواب کے نقش و نگار کی جھلک دکھاکر مستقبل کی تصویر کی یوں منظرکشی کرتے ہیں:

جنوبی ایشیا کے پورے علاقے میں آزادانہ تجارت میرا خواب ہے۔ ہم یورپ کی طرح ایک دن ایک معاشی یونین بنا لیں گے۔ یہ فی الوقت بہت دُوردراز نظرآتا ہے،تاہم اگر تقریباً ۱۶ برس کے بعد انتہائی پسندیدہ قرار دینا (ایم ایف این) ایک حقیقت بن چکا ہے تو معاشی یونین کیوں نہیں بن سکتی؟ (دی ایکسپریس ٹریبون، ۱۴نومبر ۲۰۱۱ء)

بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی کوششوں کو ان کے اصل تاریخی پس منظر اور علاقے کے لیے نئے بڑے کھیل (great game) کی روشنی میں دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔


بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور جغرافیائی اور سیاسی حقائق کو نظرانداز کرنا ایک حماقت ہے۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت، دونوں کو ایک دوسرے کے جداگانہ نظام ہاے زندگی کو تسلیم کر کے دوستی اور تعاون کی نئی راہیں اختیار کرنی چاہییں لیکن اگر ہماری خودمختاری اور تہذیبی شناخت کو مجروح کرنے اور پرانا کھیل جاری رکھنے کی کوشش کی گئی تو پاکستانی قوم اسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرے گی۔ بدقسمتی سے بھارت نے تقسیم ملک سے آج تک پاکستان کو آزاد، خودمختار اور برابری کی سطح پر معاملات کرنے والے ملک کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ کانگریس نے تقسیم ملک کے منصوبے کو جس قرارداد کے ذریعے منظور کیا تھا، اس میں دونوں ملکوں کے دوبارہ ایک ہوجانے کا شوشہ بھی چھوڑ دیا تھا۔ گویا ابتدا ہی میں بدنیتی ظاہر کر دی گئی۔ کانگریس کی قیادت کا خیال تھا کہ وہ ایسے حالات پیدا کردے گی کہ پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور دوبارہ اتحاد، الحاق، یا انضمام کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ فسادات اسی ’حکمت عملی‘ کا حصہ تھے۔ پاکستان کو تقسیم کے نتیجے میں ملنے والے تمام اثاثے آج تک ادا نہیں کیے گئے۔ ریڈکلف اوارڈ کے ذریعے مائونٹ بیٹن اور نہرو نے کشمیر پر قبضے کا راستہ تلاش کیا اور پاکستان کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کردیا۔ جوناگڑھ اور ماناودر پر قبضہ کیا اور ریاست حیدرآباد پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کیا۔ ۱۹۴۹ء میں جب پاکستان نے اپنی کرنسی کی قدر گھٹانے (devalue)  سے انکار کیا تو پہلی معاشی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس وقت پاکستان کی تجارت کا ۶۰ فی صد سے زیادہ بھارت کے ساتھ منسلک تھا، یعنی ہماری برآمدات کا ۶۵ فی صد بھارت کی منڈیوں میں جاتاتھا اور ہماری درآمدات کا ۳۵ فی صد بھارت سے آتا تھا، مگر بھارت نے تجارتی تعلقات کو فی الفور توڑ کر پاکستان کے لیے شدید بحرانی کیفیت پیدا کردی اور ہمیں احساس ہوا کہ بھارت پر انحصار کرنے کے نتائج کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں۔

الحمدللہ! پاکستان نے ان تمام کارروائیوں کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں کے باوجود ۱۹۹۰ء کے عشرے تک پاکستان کی معیشت بھارت کی معیشت کے مقابلے میں زیادہ جان دار ثابت ہوئی۔ بھارت کی ہرپابندی ہمارے لیے نئے امکانات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو بھار ت کے اضافے کی رفتار کے مقابلے میں مثالی قرار دیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ اس دور میں بھی معاشی پالیسیوں کی ان کامیابیوں کے علی الرغم معاشی انصاف اور متوازن معیشت کے اہداف حاصل نہ ہوسکے لیکن بحیثیت مجموعی بھارت کی نئی معاشی جنگ کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور اپنی آزادی اور تشخص کی حفاظت کی۔ ۱۹۹۰ء کے بعد حالات نے نئی کروٹ لی۔ بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہوتی گئی اورپاکستان اپنی ہی غلطیوں کے سبب ایک معاشی بحران کے بعد دوسرے بحران کاشکار ہوتا چلاگیا۔ آج عالم یہ ہے کہ معاشی ترقی کے ہر اشاریے (index) کی رُو سے ہماری حالت دگرگوں ہے اور اس کا فائدہ اُٹھاکر بھارت ایک نیا معاشی وار کرنے میں مصروف ہے اور امریکا اور مغربی ممالک اس کی بھرپور تائید کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ایک لابی خود ملک میں ’امن کی آشا‘ کے نام پر علاقے میں بھارت کی بالادستی کے قیام اور پاکستانی معیشت کو بھارت کے زیراثر لانے کی مذموم کوششوں میں مددگار ہے۔

عالمی سیاست کی جو بساط بچھائی جارہی ہے اس میں امریکا، بھارت اور اسرائیل ایشیا کے مستقبل کی صورت گری کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ بھارت کوعلاقے کا چودھری بنانا اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ پاکستان اور چین اس کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں اور پاکستان نشانے پر ہے۔ سیاسی، عسکری، معاشی، ہر میدان میں اس کے گرد گھیراتنگ کیا جارہا ہے۔ اندرونی عدم استحکام کے ساتھ پاکستان میں بھارت نواز قوتوں کو سہارا دینا، اور جنوب اور شمال ہردوطرف سے پاکستان پر دبائو ڈالنا اس بڑے کھیل (گریٹ گیم ) کا حصہ ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک (MFN) قرار دینے کے اعلان کی اصل اہمیت اس پس منظر میں سمجھی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے وزیرخارجہ ۲۴ نومبر ۲۰۱۱ء کو بھی یہی اعلان کر رہے ہیں کہ اصل مسئلہ پاکستان کے’مقبوضہ‘ کشمیر [یعنی آزاد کشمیر] کو واپس لینا ہے۔ افغانستان میں اور افغانستان سے پاکستان میں بھارت کی کارروائیاں سرکاری اعتراف کے باوجود بلاروک ٹوک جاری ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ ۶۰کے قریب ڈیم وہ بناچکا ہے اور ۱۵۵ منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ کشمیر میں مظالم روزافزوں ہیں اور گمنام قبروں کے بارے میں عالمی اداروں کے انکشافات کے باوجود اس پر کسی قسم کا دبائو نہیں، اور نہ پابندیاں ہی لگانے کی کوئی بات کرتا ہے۔ بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں بھارت کی دراندازیوں کے شواہد اور بھارت میں بے قصور پاکستانیوں کے جیلوں میں سڑنے اور بھارت کے عدم تعاون کے باوجود اس حکومت کی نگاہ میں اگر کوئی مسئلہ اہم ہے تو وہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردینے کا ہے۔ ان مسائل کوحل کرنا اور اس کے لیے مناسب علاقائی اور عالمی حکمت عملی بناکر پوری قوت سے سفارت کاری کا اہتمام کرنا اس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ حزبِ اختلاف اور حکومت کے اتحادیوں کا کردار بھی اس سلسلے میں مایوس کن ہے۔ صرف جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں نے اس خطرناک پسپائی کے خلاف اپنی آواز اٹھائی ہے اورقوم کو اصل خطرات سے متنبہ کیا ہے ورنہ مفادات کے کھیل میں مصروف سیاسی قیادت کی ترجیحات بہت مختلف ہیں۔

اصل موضوع کے جملہ پہلوئوں پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کا بھی کھل کر اظہار کردیا جائے کہ حکومت کا موجودہ فیصلہ نہایت عجلت میں کیا گیا ہے اور کُلہیا میں   گڑ پھوڑنے کے مترادف ہے۔ بھارت نے ۱۹۹۷ء میں پاکستان کو نام نہاد پسندیدہ ملک قرار دیا تھا مگر اس کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سیاسی تعلقات میں کشیدگی، ناکام مذاکرات کے ڈھونگ رچانے اور دوستی کی خواہش کے بلندبانگ دعووں کے علی الرغم کشمیر تو کیا، دوسرے ذیلی متنازع امور،    مثلاً سیاچین اور سرکریک کے بارے میں تمام امور طے کرنے اور صرف دستخطوں کی کسر باقی رہنے والی پیش رفت کے باوجود اُلٹی زقند لگائی اور عملاً کسی ایک مسئلے کو بھی حل نہیں کیا۔ گو اس زمانے میں  ۱۰۴بار مذاکرات کی میز سجائی گئی اور اس طرح ایک طرف سے بے مقصد اور بے نتیجہ ڈھونگ رچایا گیا تو دوسری طرف عالمی محاذ پر پاکستان کو بدنام کرنے اور اس کی پالیسیوں کی کاٹ کرکے انھیں غیرمؤثر بنانے کی جنگ ’’(crusade)‘‘ جاری رکھی۔ تجارت کے میدان میں ایم ایف این کا ڈھنڈورا ضرور پیٹا لیکن ۷۶۳ اشیا پر بھارت میں درآمد پر پابندی عائد کردی اور کم ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کے لیے جن چیزوں کو ممنوعہ فہرست (negative list) میں رکھا، ان میں وہ تمام اشیا موجود ہیں جن کو پاکستان سے بھارت کے لیے برآمد کیا جاسکتا تھا، یا جن میں پاکستان کو قیمتوں کے باب میں مقابلتاً فائدہ حاصل تھا۔ ان اشیا میں گوشت، مچھلی، شہد، آلو، ٹماٹر، لہسن، پیاز، گاجر، مختلف قسم کے پھل بشمول نارنگی، خربوزہ، ناشپاتی، سیب، آڑو، آلوچہ، دالیں، مختلف قسم کے تیل، تمباکو، مختلف نوع کی معدنیات، تعمیرات میں استعمال ہونے والی درجنوں اشیا، کپڑا اور مختلف نوعیت کی ٹیکسٹائل، دھاگا، فیبرک، سلک، بُنا ہوا کپڑا، پولسٹر، قالین، لکڑی اور زرعی آلات وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح تجارتی اشیا پر محصولات (tariff) کا ہتھیار بڑی ہوشیاری سے استعمال کیا گیا ہے اور زرعی پیداوار اور زراعت سے مختلف اشیا کی درآمد پر ۳۳ سے ۴۰ فی صد تک درآمدی ڈیوٹی ہے، اس کے علاوہ غیرمحصولاتی رکاوٹیں (non tariff barriers) ہیں جن کی تعداد ایک تحقیقی مطالعے کی رُو سے ۲۷ ہے جس نے پاکستان کی مصنوعات کے بھارت کی منڈیوں تک پہنچنے کے امکانات کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔

ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے سے واپس لینے کی چانکی اور مکیاولی کی تجویز کردہ حکمت عملی پر بھارت نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے بھرپور عمل کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو پسندیدہ ملک کی ٹوپی پہنانے کے باوجود جو بھی تجارت بھارت اور پاکستان کے درمیان گذشتہ ۲۰برسوں میں ہوئی ہے، اس میں پاکستان سے بھارت جانے والی برآمدات، بھارت سے آنے والی درآمدات کا پانچواں حصہ رہی ہیں۔ ان تمام تجربات کی روشنی میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے بھارت سے تجارت کو معمول پر لانے (normalization of trade) اور تجارت کو آزاد بنیادوں پر استوار کرنے (trade liberalization)کو دو اہم امور سے مشروط کیا تھا___ ایک سیاسی، یعنی کشمیر، پانی کا مسئلہ، سیاچین، سرکریک اور دوسرے متنازع امور کا بین الاقوامی قانون اور معاہدوں اور انصاف کے معروف اصولوں کے مطابق حل، اور دوسرا تجارت اور سرمایہ کاری کے باب میں حقیقی برابری کا حصول جس کے لیے ضروری ہے کہ محصول کے نظام میں بھی تبدیلیاں ہوں، غیرمحصول رکاوٹوں اور دوسری انتظامی رکاوٹوں (infra-structural obstacles) کو دُور کیا جائے تاکہ حقیقی معنی میں برابری کی بنیاد پر مقابلہ (level playing)ممکن ہوسکے۔

پاکستان کی قومی پالیسی کے یہ بڑے محکم اصول تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ستمبر۲۰۱۱ء سے نومبر ۲۰۱۱ء کسی نے کہیں سے ڈوری ہلائی ہے جس کے نتیجے میں کوئی ایسا خفیہ انقلاب آیا ہے کہ  ان دونوں اصولوں کو پامال کر کے ’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘ کی مثال قائم کرتے ہوئے، پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو صریحاً نظرانداز کرتے ہوئے  بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ قرار دینے کا اقدام ملک اور قوم پر مسلط کیا جارہا ہے۔ یہ بنیادی تبدیلی (جیساکہ زرداری گیلانی ’جمہوری حکومت‘ کی روایت ہے)کسی حقیقی مشاورت، پارلیمان اور ملک کی سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی جارہی ہے۔

ستمبر میں وزیرتجارت نے بھارت کا دورہ کیا، پھر وزیرخارجہ نے بھارت یاترا کی۔ اس کے بعد کابینہ نے یہ اعلان کرڈالا جس پر امریکا اور بھارت نے تعریفوں کے ڈونگرے برسانا شروع کردیے۔ دوسری طرف خود ملک میں بھی ایک خصوصی لابی کی طرف سے تمام زمینی حقائق اور بھارت کے تاریخی کردار کو نظرانداز کرکے داد اور ستایش کا ایک طوفان برپا کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہم نے سب کو اعتماد میں لیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور اس کی متعلقہ کمیٹیوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی۔ زراعت اور صنعت سے متعلق بیش تر ادارے برملا  کہہ رہے ہیں کہ ہم سے کوئی مشورہ نہیں ہوا۔ ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، فارماسیوٹیکل صنعت اور چھوٹی اور درمیانی صنعت سے متعلق تمام ہی تنظیمیں اس اقدام کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔ دعویٰ کیا گیا کہ دفاعی اداروں (سیکورٹی اسٹیبلش منٹ) کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور صرف ہماری وزیرخارجہ ہی نہیں، بھارت کے وزیراعظم جناب من موہن سنگھ نے بھی مالدیپ میں اعلان کیا کہ اسے فوج کی تائید حاصل ہے، جب کہ اس دعوے کے چند ہی دن کے بعد یہ خبر بھی فوجی حلقوں کی طرف سے آگئی کہ اس فیصلے میں فوج کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ سب سے افسوس ناک اور تکلیف دہ صورت حال پارلیمنٹ کی کمیٹی براے تجارت کے اسی ہفتے منعقد ہونے والے اجلاس میں سامنے آئی کہ ٹیکسٹائل کی وزارت کے وزیر مخدوم شہاب الدین صاحب اور سیکرٹری ٹیکسٹائل نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کی وزارت سے مشورہ تک نہیں ہوا ہے اور وہ اس فیصلے کو پاکستان کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں اس جلدبازی کا سبب تلاش کرنا مشکل نہیں۔ جس طرح افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ اسلام آباد یا کابل میں نہیں ہوا، اس کی جاے ولادت واشنگٹن ہے اور  دائی کا کردار خود امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مادام ہیلری کلنٹن نے ادا کیا ہے، اسی طرح کابینہ کا یہ فیصلہ بھی امریکا کے حکم پر، بھارت کو راضی کرنے اور ایک مخصوص لابی کے مفادات کی ترویج کی خاطر نہایت رازداری کے ساتھ اور نہایت عجلت میں کیا گیا ہے۔ گویا    ؎

بے خودی بے سبب نہیں، غالبؔ
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے


اب ہم اس مسئلے کے سب سے اہم پہلو پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس کا سیاسی پہلو ہے۔ قوم کو یہ وعظ دیا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اور دوسرے تنازعات کو تجارت اور معاشی تعلقات سے الگ کرنا ضروری ہے۔ سیاست سیاست ہے اور معیشت معیشت۔ اب تک پاکستان کی تمام حکومتیں جھک مارتی رہیں کہ بزعم خویش کشمیر کی خاطر معیشت اور تجارت کو یرغمال بنا دیا گیا اور محض اس سیاسی تنازع کی وجہ سے وہ تجارت جو ۱۰بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، صرف ۲ بلین کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں یہ درس دے رہے ہیں کہ سیاست اور تجارت کو الگ الگ کرنا ہی اصل دانش مندی ہے اور اب تک پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کے منصفانہ حل کی جو شرط تجارت کو معمول پر لانے اور سرمایہ کاری کے میدان میں بھارت کے لیے دروازے کھولنے کے ساتھ لگا رکھی تھی، اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ معاشی ترقی اور تجارت میں غیرمعمولی متوقع اضافے کا جو سبزباغ دکھایا جارہا ہے اور خصوصیت سے انگریزی پریس اور میڈیا میں اس بات کو جس تکرار سے پیش کیا جا رہا ہے، وہ نہایت گمراہ کن ہے۔

ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے کہ سیاست اور تجارت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے بین الاقوامی تعلقات علم و عمل دونوں میں یہ بات ایک مسلّمہ اصول کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ trade is an extension of diplomacy (تجارت، سفارت کاری کی  توسیع ہے)۔ اگر تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک دوسرے کے ساتھ ایک طرح کے محصولات (reciprocal tariffs) کا تصور ہی سیاست اور معیشت کے ناقابلِ انقطاع رشتے کی پیداوار ہے۔ دورِخلافت ِ راشدہ میں حضرت عمرفاروقؓ نے عشور، یعنی import duty کے محصول کو دوسرے ممالک کی محصول کی پالیسی کے جواب میں اختیار کیا تھا۔ دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ ڈپلومیسی ہی نہیں جنگیں اور بین الاقوامی جنگیں تک تجارت کے اہداف کے حصول کے لیے واقع ہوئی ہیں۔  یورپی استعمار کا تو اہم ترین ہتھیار تجارت تھی۔ ہمیں خود بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی برعظیم میں آمد اور پھر تجارت کے ساتھ برطانوی افواج اور جھنڈے کی آمد کا تجربہ ہے۔ چین پر مشہورِ زمانہ افیم کی جنگیں تجارت ہی کے فروغ کے مقاصد کے لیے برپا کی گئی تھیں۔ امریکا اور کیوبا میں تجارتی تعلقات کا انقطاع کسی معاشی یا مالی وجہ سے نہیں، خالص سیاسی اسباب سے ہے۔ امریکا میں کیوبا کے تجارتی اموال کی درآمد کا تو سوال ہی نہیں ۔ آپ اپنی جیب میں ایک ہوانا سگار تک لے کر آزاد معیشت کے اس سرخیل ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔ دنیا بھر میں معاشی پابندیوں کا جو حربہ امریکا اور یورپی ممالک استعمال کر رہے ہیں، وہ سیاست اور تجارت کے ایک مسئلے کے دو رُخ ہونے کے سوا اور کیا ہے۔ خود پاکستان کو بار بار ان پابندیوں کا تجربہ ہوا ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک ایران اس کا برسوں سے شکار ہے۔ روس، چین اوردسیوں ممالک اس کا تجربہ کرتے رہے ہیں۔

آیئے، ذرا کیری لوگر بل کے قانون پر بھی نظر ڈالتے ہیں جس کے تحت ملنے والی یا نہ ملنے والی امداد کا شور ہے۔ اس قانون پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کا تین چوتھائی حصہ سیاسی شرطوں، مطالبات اور پابندیوں پر مشتمل ہے۔ امریکا اور تمام ہی یورپی ممالک ہمیں آزاد تجارت کا درس دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان کے اپنے محصولات اور سبسی ڈیز دونوں کے نظام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ معیشت اور تجارت سیاست کے ماتحت ہیں۔ ورلڈبنک، آئی ایم ایف اور مغربی معاشی پالیسی ساز ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زراعت یا قومی اہمیت کے دوسرے معاشی شعبوں کو حکومتی امداد (سبسڈی) سے پاک کریں اور باہم مقابلوں (competetion) کی نعمتوں سے مالا مال ہوں، مگر ان تمام ممالک میں زراعت اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے دوسرے معاشی دائرے   حکومتی امداد اور محصولات دونوں کے حصار میں ہیں۔ امریکا اور یورپ صرف حکومتی امداد کی مَد میں ۳۶۰؍ارب ڈالر سالانہ فراہم کرتے ہیں اور ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم زراعت میں یہ امداد    ختم کریں۔ یہ تضاد اور دوغلاپن عالمی سیاست کا حصہ ہے لیکن ہماری اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کی قیادتیں صرف بیرونی دبائو میں وہ پالیسیاں اختیار کرتی ہیں جو ان کے اپنے نہیں، دوسروں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے قواعد و ضوابط (protocols) دن رات یاد دلائے جاتے ہیں لیکن امریکا، یورپ اور خود بھارت میں جو محصولات، غیرمحصولاتی پابندیاں، اور حکومتی امداد پالیسی کا حصہ ہیں اور ان کی آنکھ کے شہتیر ہیں، وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔  عالمی تجارتی تنظیم ہی کے طے کردہ Doha Round کے معاہدے کو ۱۰ برس ہوگئے ہیں لیکن آج تک مغربی ممالک نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ آزاد تجارت کا سارا وعظ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ہی ہے۔

اس اصولی تاریخی بحث کے بعد ہم اس امر کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت اور سرمایہ کاری کو معمول پر لانے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے کشمیر اور پانی کے مسائل طے ہوں، اور پھر دوسرے متنازع امور کو طے کیا جائے اور جب تک یہ نہ ہو، تجارت اور خود سیاسی تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ بھارت اور امریکا کے آگے سپر ڈالنے اور ان کے ایجنڈے کے مطابق عمل کرنے سے معاشی فوائد تو حاصل ہونے کی کوئی توقع نہیں لیکن ان سے جو سیاسی نقصانات ہیں وہ ہمالہ سے بھی بڑے ہیں اور یہ قوم کسی قیمت پر ان کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دینی اور چند سیاسی جماعتوں نے مؤثرانداز میں اس پہلو کو اُٹھایا ہے، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت نے بھی اس سلسلے میں آواز بلند کی ہے اور سب سے مؤثر آواز علی گیلانی کی ہے۔ شروع میں آزادکشمیر کی حکومت خاموش تھی لیکن اب وہ بھی مجبور ہوئی ہے کہ کشمیر کی تمام سیاسی اور جہادی قوتوں کی آواز میں آواز ملائے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بڑا ہی نازک مرحلہ ہے۔ بھارت ۶۴برس تک فوجی قوت اور تمام آمرانہ اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی کو کچل نہیں سکا ہے اور اب خود بھارت ہی سے بڑی جان دار آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ کشمیر پر قبضہ جاری رکھنا ممکن نہیں اور اس کی قیمت ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور برطانوی پارلیمنٹ میں اس سال بھی کھل کر کشمیر کے مسئلے پر بحث ہوئی ہے اور اس کے حل کی ضرورت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ بھارتی دانش ور ارون دتی راے نے تو بہت ہی واشگاف طریقے سے اعلان کیا ہے کہ کشمیر میں بھارت کی حیثیت قبضے (occupation)کی ہے اور قبضہ ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

ان حالات میں کشمیر اور پانی کے مسئلے کو نظرانداز کرکے یا  پسِ پشت ڈال کر تجارت اور معاشی تعلقات کی بحالی ایک سراسر خسارے کا سودا اور کشمیری عوام کی قربانیوں اور تاریخی جدوجہد سے غداری ہے۔ پاکستان کی حاکمیت اور آزادی اور کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کی معاونت کو جس کا دل چاہے ’غیرت بریگیڈ‘ کے القابات سے نوازے لیکن پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور کشمیر کے بھائیوں کے ساتھ ان کی جدوجہد آزادی میں بھرپور معاونت کو اپنے دین و ایمان اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں مرکزی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ ہرسروے میں بھارت اور امریکا کو عوام نے دوست نہیں دشمن ملک قرار دیا ہے اور یہ اس لیے کہا ہے کہ ان کی پالیسیاں ہماری آزادی، سلامتی، عزت اور مفادات سے متصادم ہیں۔ اگر حکومت عوام کے دل کی اس آواز کو نظرانداز کرکے امریکی دبائو اور بھارتی قیادت کی عیارانہ سفارت کاری کے تحت کوئی پالیسی بناتی ہے تو وہ اسے کسی قیمت پر بھی قبول نہیں کریں گے اور    ان شاء اللہ اسے ناکام بناکر دم لیں گے۔


ہماری نگاہ میں مسئلے کا سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی پہلو سب سے اہم ہے لیکن خود معاشی اعتبار سے بھی یہ سودا سراسر خسارے کا سودا ہے اور زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے ایک نہایت تباہ کن پالیسی ملک پر مسلط کی جارہی ہے۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ درج ذیل ہیں:

معاشی تجزیے کے نقطۂ نظر سے تجارت کے فروغ کے لیے دو ملکوں کی معیشت کا ایک دوسرے سے تعلق باعث ِ افادیت (complimentary) ہونا چاہیے تاکہ ایک ملک دوسرے کو  وہ چیز فراہم کرسکے جس میں اسے مقابلتاً فائدہ حاصل ہے۔ اس کے برعکس جن ملکوں کی معیشت مسابقانہ (competetive) ہے ان میں تجارت ہمیشہ محدود رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی معیشت مسابقانہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کی مصنوعات ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور تجارت میں غیرمعمولی ترقی کے امکانات محدود ہیں۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ بھارت کی معیشت مضبوط ہے اور پاکستان کی اس وقت کمزور اور غیرمستحکم ہے، اور اس مقابلے میں بھارت کو بالادستی حاصل ہے۔ دونوں کے لیے مساوی مواقع موجود نہیں۔ چونکہ بھارت کی معیشت زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ متنوع ہے، اس لیے بھارت کی پاکستان کے لیے برآمدات، پاکستان کی بھارت کے لیے برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر گذشتہ ۲۵برس کے تجارتی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل ثابت ہوتی ہے۔ ہماری منڈیوں میں بھارتی مصنوعات کے در آنے کے مواقع ان مواقع سے چار اور پانچ گنا زیادہ ہیں جو پاکستانی مصنوعات کو بھارت کی منڈیوں میں رسائی کے لیے حاصل ہیں۔ یہ سال دو سال کا معاملہ نہیں، ۲۵برس کا رجحان یہی ہے۔ خود پاکستان اکانومک سروے میں اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے اور اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ صرف چند برسوں کے اعداد و شمار دیکھیے:

     سال     بھارت سے پاکستانی درآمدات                بھارت کو پاکستانی برآمدات

۹۵-۱۹۹۴ء            ۱۷۲,۳   ملین          ۳۷۹,۱   ملین

۹۷-۱۹۹۶ء            ۹۸۰,۷   "              ۴۱۲,۱    "

۲۰۰۱-۲۰۰۰ء       ۹۲۸,۱۳                 "              ۲۴۶,۳   "

۰۴-۲۰۰۳ء            ۰۰۴,۲۲ "              ۳۹۸,۵    "

۰۷-۲۰۰۶ء            ۹۳۸,۷۴ "              ۸۰۳,۲۰ "

۰۸-۲۰۰۷ء            ۸۷۲,۱۰۶               "              ۹۰۵,۱۹                 "

۰۹-۲۰۰۸ء            ۹۰۲,۹۲ "              ۴۶۳,۲۶ "

یہی رجحان ابھی تک جاری ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ یکم جولائی ۲۰۱۰ء سے ۲۰ جون ۲۰۱۱ء تک صرف واہگہ بارڈر کے راستے بھارت سے ۳۱ہزار ۸سو۹۷ ٹرک آئے جن میں ۲۰؍ارب ۹۹کروڑ ۴۵ لاکھ روپے کا سامان آیا، جب کہ پاکستان نے صرف ۴ہزار ۶سو۶۴ ٹرک بھیجے جن کے ذریعے برآمد ہونے والے مال کی قیمت ایک ارب ۳۳کروڑ ۶لاکھ روپے تھی (کہاں تقریباً سو ارب اور کہاں تقریباً ۲۱ ارب___ گویا تقریباً ایک اور بیس کی نسبت)۔ رواں سال (جولائی ۲۰۱۱ء تا اکتوبر ۲۰۱۱ء) کے چار مہینے میں بھارت سے واہگہ کے راستے ۵؍ارب ۲۷کروڑ ۳۱لاکھ کا سامان پاکستان میں آیا، جب کہ اس عرصے میں پاکستان سے بھارت کے لیے برآمدات صرف ۷۷کروڑ۳۵لاکھ روپے کی تھیں۔

ان حقائق کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ بھارت کی ایک ارب ۳۰کروڑ کی آبادی کی وسیع و عریض منڈی کے جو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں، ان کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری تجارت بھارت سے گذشتہ ۲۵برس میں، جن میں ۱۹۹۶ء کے پاکستان کو نام نہاد پسندیدہ ملک قرار دینے کے ۱۶سال بھی شامل ہیں، ہرسال پاکستان بھارت کی تجارت، پاکستان کے لیے خسارے میں ہی رہی ہے اور اوسطاً ہماری برآمدات کے مقابلے میں بھارت سے درآمدات ۴سے۵ گنا زیادہ رہی ہیں۔اور من جملہ دوسری وجوہ کے اس میں بھارت کی معاشی پالیسی، محصولات اور غیرمحصولاتی رکاوٹوں کا نظام ہے جسے بھارت ذرا بھی بدلنے کو تیار نہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے اور یہی صحیح موقف ہے کہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کا حل اور معاشی میدان میں بھارت کے محصول اور غیرمحصول رکاوٹوں کے نظام میں بنیادی تبدیلی کے بغیر دونوں ملکوں میں تجارت اور معاشی رابطے نارمل نہیں ہوسکتے___ تاکہ معاشی تعلقات اس نہج پر استوار ہوسکیں، جو محض ایک ملک کے فائدے میں نہ ہوں بلکہ دونوں جن سے برابر کا فائدہ اُٹھا سکیں۔ یہی مسئلے کی اصل حقیقت ہے جسے یکسرنظرانداز کرنے اور ان دونوں کے تعلق (linkage) کو توڑ کر موجودہ حکومت امریکا اور بھارت کے دبائو میں وہ پالیسی ملک پر مسلط کرنا چاہ رہی ہے جو پاکستان کے مفادات کی ضد ہے۔

ایک اور بے حد نازک پہلو بھی توجہ طلب ہے۔ بھارت کی دل چسپی محض تجارت تک ہی محدود نہیں، وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے ہماری صنعت پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا یہ مکالمہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بھارت نے پاکستانی اسٹیل مل خریدنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ بھارت ہماری معیشت کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے تجارت کے ساتھ سرمایہ کاری کے ذریعے صنعت اور اسٹرے ٹیجک اداروں پر بھی قبضہ چاہتا ہے، اور اس کے لیے بلاواسطہ سرمایہ کاری کے علاوہ بالواسطہ سرمایہ کاری کے ذرائع بھی استعمال کر رہا ہے جس کا راستہ روکا جانا ضروری ہے۔ حالیہ سارک کانفرنس (مالدیپ) میں بھی یہ مسئلہ آیا اور بھارت نے کھل کر یہ سوال اُٹھایا ہے کہ تجارت کی آزادی کے ساتھ سرمایے کی آزادکاری یا مشترک سرمایہ کاری کو بھی اس کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس سے بھارت کے اصل عزائم کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔

ہم ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتے ہیں اور اس کا تعلق ہماری معیشت کے بھارت پر انحصار (dependence) سے ہے۔ ہم دو بار تجربہ کرچکے ہیں کہ ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۵ء میں بھارت نے تجارتی تعلقات کو یک قلم منقطع کرکے پاکستان کو شدید معاشی بحران میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ ہم نے بڑی مشکل اور مسلسل محنت سے بھارت پر انحصار کو کم کیا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت یہ انحصار بڑھے گا اور اگر تجارت کے ساتھ سرمایہ کاری کے اثرات کو بھی شامل کرلیا جائے تو معاشی تعلقات کی یہ نوعیت ایک نئی سامراجی کیفیت کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت پر بھارت اور بھارتی سرمایہ کاروں اور تاجروں کی گرفت بڑھتی جائے گی۔ یہاں کی صنعت خصوصیت سے  درمیانی اور چھوٹی صنعت بُری طرح متاثر ہوگی، اور بے روزگاری بڑھے گی۔ بھارت کے لیے معاشی حربوں کے ذریعے صرف پاکستان کی معیشت ہی کو اپنی گرفت میں لانے کا موقع نہیں ملے گا بلکہ اس کی وجہ سے اندرونِ ملک اس کو ایسے فیصلہ ساز (leverage) کی حیثیت حاصل ہوتی چلی جائے گی جو ہماری خودمختاری، نظریاتی شناخت، سیاسی آزادی اور تہذیبی اور ثقافتی وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ان پہلوئوں کو نظرانداز کرنے کے بڑے خطرناک اثرات اور نتائج ہوسکتے ہیں جن کا اِدراک اِس وقت ضروری ہے۔ اچھے سیاسی اور معاشی روابط اور تعلقات کے ہم بھی قائل ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہیں کہ مسئلے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور سیاسی اور معاشی ہردوپہلوئوں کے ربط و تعلق کی روشنی میں حقیقت پسندانہ پالیسیاں تشکیل دی جائیں جو پاکستان کی آزادی، سلامتی، معاشی استحکام اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کی ضامن ہوں۔ اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا،  اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ  ع

ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسار۱

ہم پاکستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ قوموں کے فیصلے پورے سوچ بچار اور باہمی مشاورت کے ساتھ، عوام کے جذبات اور اُمنگوں کے مطابق اور ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہونے چاہییں۔ وقتی مفادات، ذاتی ترجیحات اور بیرونی دبائو کے تحت جو فیصلے اور اقدام بھی ہوں گے، وہ تباہی کا ذریعہ بنیں گے۔ ترقی، عزت اور خوش حالی ان کا حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہم موجودہ حالات میں بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ قرار دینے کو پاکستان کے مفادات پر ایک کاری ضرب اور معاشی خودکشی کی طرف ایک قدم سمجھتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس پر فوری نظرثانی کرے اور ملک کو اس تباہی سے بچالے جو خدانخواستہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آئے گی۔    ہم پاکستان کی پارلیمنٹ، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام اور ملک کے نوجوان طبقے سے اپیل کرتے ہیں کہ اس اقدام کے خطرناک ہونے کا احساس کریں اور مؤثر احتجاج کے ذریعے، حکومت کو معاشی تباہی کے اس راستے پر ایک قدم بھی آگے بڑھانے سے روک دیں۔ وما علینا الا البلاغ۔

 

بیسویں صدی میں جن شخصیات نے اسلامی فکرو تہذیب پر ٹھوس علمی لٹریچر پیش کیا،  جنھوں نے فکرِاسلامی کی تشکیلِ نو کے احساس اور جذباتی رجحان کو تبدیل کرنے میں اہم کردار اداکیا، ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) کی ہے۔ اس بنا پر ہم ان کو دورِ جدید میں تجدیدِ فکر اسلامی کی روایت کا بانی اور بیسویں صدی میں ملّت اسلامیہ پاک و ہند کے ذہن کا اوّلین معمار قرار دیتے ہیں۔

علامہ محمد اقبال کی علمی اور ادبی زندگی کا آغاز انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوگیا تھا،  فروری ۱۹۰۰ء سے وہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں شریک ہونے لگے تھے۔ لیکن  قومی زندگی پر ان کے اثرات یورپ سے واپسی (۱۹۰۸ء) کے بعد مرتب ہونا شروع ہوئے۔ ۱۹۱۵ء میں انھوں نے اسرارِخودی شائع کی، جس نے مسلم تصوف سے منسوب جامد سوچ میں ایک تحرک پیدا کیا، اور افرادِ اُمت کو ’اپنی دنیا آپ پیدا کر…‘‘ کا زریں نکتہ سمجھایا۔ اس سے ہماری ملّی زندگی کے نئے باب کا افتتاح ہوا۔ پھر انھوں نے ۲۰جولائی ۱۹۲۶ء کو مجلس قانون ساز پنجاب کے انتخاب میں حصہ لے کر اور اس طرح عملی سیاست میں شریک ہوکر تغیر اور تعمیر کے عمل میں   مؤثر کردار ادا کیا۔ ان کی مساعی کا ثمرہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو، ملّت کی مزاجی کیفیت کی نئی تعمیر،  ایک آزاد قوم کے احیا اور ایک عظیم مسلم مملکت کے قیام کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔۱؎

ساتویں صدی ہجری (تیرہویں صدی عیسوی) میں جو کام مولانا جلال الدین رومیؒ (۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء) نے مثنوی کے ذریعے انجام دیا تھا، اسے بیسویں صدی عیسوی میں علامہ محمد اقبالؒ نے اوّلاً اسرارِخودی (۱۹۱۵ء) اور رموزِ بے خودی (۱۹۱۸ء) اور پھر جاویدنامہ (۱۹۳۲ء) اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق (۱۹۳۶ء) کے ذریعے انجام دیا۔ اسرارِخودی میں جمود اور انحطاط کے اصل اسباب کی نشان دہی کی گئی، تصوف پر یونانی اور عجمی اثرات کی وجہ سے جو حیات کُش تصور مسلمانوں پر مسلط ہوگیا تھا، اس کی تباہ کاریوں کو واضح کیا۔ اسرارِ خودی کا مرکزی تصور: ایمان کی یافت اور اس کی قوت سے ایک نئے انسان (مرد مومن) کی تشکیل ہے۔ رموز بے خودی میں اس اجتماعی، اداراتی اور تاریخی تناظر کو بیان کیا گیا ہے، جس میں یہ انسان اپنا تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ فرد اور ملّت کا تعلق، اجتماعی نصب العین، خلافتِ الٰہی کی تشریح و توضیح، اجتماعی نظم اور ادارات (خاندان، قانون، شریعت وغیرہ) کی نوعیت اور خودی کی پرورش اور ملّی شخصیت کے نمو میں تاریخ کے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

جاوید نامہ علامہ محمد اقبال کے روحانی سفر کی داستان ہے، جس میں وہ عالمِ افلاک کی سیر کرتے ہیں، دنیا اور اس کے ماورا پر بصیرت کی نظر ڈالتے ہیں اور مشرق و مغرب کی نمایندہ شخصیات کی زبان سے آج کی دنیا کے حالات، مسائل و افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش کو نمایاں کرتے ہیں۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں مغربی تہذیب کے چیلنج کا مطالعہ کرکے بتایا گیا ہے کہ یورپ کی ترقی کا اصل سبب کیا ہے اور مغربی تہذیب کے روشن اور تاریک پہلو کیا ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید سے قوم کو متنبہ کیا گیا ہے، اور ترقی کے راستے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پیامِ مشرق اور ارمغانِ حجاز میں یہی پیغام دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے، اور اس کا اظہار اُردو کلام میں بھی ہوا ہے۔ خصوصیت سے بانگِ درا کی قومی نظموں میں اور بال جبریل کی ولولہ انگیز غزلوں میں۔ ضربِ کلیم کے بے باک رجز کو خود اقبال نے: ’دورِحاضر کے خلاف اعلانِ جنگ ‘ قرار دیا ہے۔

علامہ محمد اقبال کی نثر کا بہترین حصہ انگریزی میں ہے۔ ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ انھوں نے  The Development of  Metaphysics in Persiaکے نام سے پیش کیا ہے۔    یہ محض ایک فکری تاریخ نہیں ہے، بلکہ اس کے آئینے میں اسلام پر عجمی اثرات کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اقبال نے تصوف کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، وہ اصل مآخذ کے وسیع مطالعے پر مبنی ہے۔

علامہ محمد اقبال نے اسلام کے تصورِ مذہب کی علمی اور فلسفیانہ تعبیر اپنے معروف انگریزی خطبات  The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam(تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ) میں پیش کی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر مغرب کے فکری رجحانات کو سامنے رکھ کر انسان، کائنات اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں اسلامی تصور کی وضاحت کی گئی ہے، مذہب اور سائنس کے تعلق سے بحث کی گئی ہے اور ذرائع علم کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ عصرِحاضر کے یک رُخے پن کے مقابلے میں اسلام کس طرح عقل، تجربے اور وجدان کی ہم آہنگی قائم کرتا ہے۔ اس بنیادی فکر کی روشنی میں آزادی اور عبادت کے تصور کو واضح کیا گیا ہے، اور ان تصورات کی بنیاد پر قائم ہونے والے تمدن کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز اسلامی قانون کی مثال دے کر یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلامی تمدن میں ثبات اور تغیر کا حسین امتزاج کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی سے زندگی اور حرکت کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہیں۔

مذکورہ بالا انگریزی کتابوں کے علاوہ، وقت کے علمی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کے بارے میں محمد اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار متعدد مضامین، تقاریر، بیانات اور خطوط کے ذریعے بھی کیا ہے۔ یہ سارا نثری ذخیرہ اُردو اور انگریزی مجموعوں کی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔۲؎

اگرچہ محمد اقبال کی مخاطب پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت ہے، لیکن انھوں نے خصوصیت سے مسلم قوم کے ذہین اور بااثر تعلیم یافتہ طبقے کو خطاب کیا۔ یہ مؤثر اور کارفرما طبقہ، ذہنی اور لسانی روایات سے وابستہ تھا۔ محمد اقبال نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے بنیادی طور پر شعر کا پیرایہ اختیار کیا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک شکست خوردہ قوم کو حرکت اور جدوجہد پر اُبھارنے کے لیے عقلی اپیل کے ساتھ ساتھ جذباتی اپیل کی ضرورت تھی۔ وقت کے چیلنج کا تقاضا محض عقل کو مطمئن کرنا نہیں تھا، بلکہ اہمیت اس امر کو بھی حاصل تھی کہ جذبات میں تموج برپا کرکے اس جمود کو توڑا جائے، جس میں یہ ملّت گرفتار تھی۔ نیز ایک مدت سے برعظیم پاک و ہند کی ملّت اسلامیہ دولخت شخصیت (split personality) کے مرض میں مبتلا تھی، یعنی اس کے عقیدے اور عقل میں یکسانی اور مطابقت باقی نہ رہی تھی۔۳؎

دوسرے لفظوں میں عقیدہ تو موجود تھا، مگر اس میں وہ حرارت نہ تھی جو جذبے کی خنکی یا سردمہری کو دُور کرسکے اور بے عملی اور مایوسی کی برف کو پگھلا دے۔ عقیدے کا چراغ اگر ٹمٹما رہا تھا تو عشق کی روشنی بھی باقی نہ رہی تھی۔ اس کیفیت نے ’روحانی فالج‘ کی صورت اختیار کرلی تھی، جس سے دین داری کی حِس مجروح ہورہی تھی    ؎

بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے

اس کیفیت میں دیرپا تبدیلی اور دُور رس انقلاب کے لیے صرف عقل کی روشنی کافی نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے جذبے کی تپش بھی درکار تھی (یہی، اقبال کے پیش کردہ تصورِ عشق کا پس منظر ہے)۔ علامہ محمداقبال نے جذبے کو مہمیز لگا کر انقلاب پیدا کرنے کے لیے شعر کا جادو جگایا (دوسری جانب اسی زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کام کو انجام دینے کے لیے خطابت کا طوفانی راستہ اختیار کیا تھا)۔

مسلم فکر کے زندہ موضوعات، لوازمے اور مباحث میں اقبال کا جو منفرد حصہ ہے، ذیل میں اس کے چند اہم پہلوئوں کی طرف مختصراً اشارہ کیا جاتا ہے:

  •  تقلید نھیں ، تخلیقی اجتھاد: قدیم و جدید کے درمیان کش مکش کو علامہ محمداقبال نے ’دلیل کم نظری‘ قرار دیا ہے۔ اگرچہ انھوں نے خود ان دونوں مآخذ سے پورا پورا استفادہ کیا،  مگر کسی ایک کے سامنے آنکھیں بند کرکے سپر نہیں ڈالی۔ علامہ محمد اقبال کی نگاہ میں زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے جس میں ثبات اور تغیر دونوں کا اپنا اپنا فطری مقام ہے۔ اسلام کا اصل کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس نے فطرت کے اس اصول کو تسلیم کرتے ہوئے اعتدال کے راستے کو نمایاں کیا۔ علامہ اقبال نے بتایا کہ صحت مند ارتقا اسی وقت ممکن ہے، جب تمدن کی جڑیں ایک جانب ماضی کی روایت میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہوں، اور دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حال کے مسائل اور مستقبل کے رجحانات سے پوری طرح مربوط ہوں۔ اقبال کی نگاہ میں فدویانہ تقلید، خواہ وہ ماضی کی ہو یا اپنے ہی زمانے کے چلتے ہوئے نظاموں کی، فرد اور قوم دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ صرف تعمیری اور تخلیقی اجتہاد ہی کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے، جو علامہ محمد اقبال نے اختیار کیا۔۴؎
  •  تصوف نھیں، حرکت و عمل: علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کے ماضی اور حال دونوں پر تنقیدی نگاہ ڈالی۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ انھوں نے غیر اسلامی اثرات کے تحت ایک ایسے تصورِ حیات کو شعوری طور پر اختیار کرلیا جو اسلام کی کھلم کھلا ضدپر مبنی تھا۔ اس سے ان کی صلاحیتیں زنگ آلودہ ہوگئیں، اس طرح وہ تاریخ اور زمانے کی اہم ترین قوت ہوتے ہوئے بھی تمدنی زوال، سیاسی غلامی اور فکری انتشار کا شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں یونانی اور عجمی مآخذ سے حاصل کیا ہوا تصوف اور اشراق، حددرجہ مہلک اور حیات کُش ثابت ہوا، جس نے مسلمانوں میں زندگی کا غیرحرکی اور جمود زدہ تصور رائج کر دیا۔۵؎ نفی ذات کے فلسفے نے یہاں بھی گھر کرلیا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ترکِ دنیا، ترکِ آرزو اور ترکِ عمل کی بنیاد پر جمود اور انحطاط کے مہیب سایے مسلط ہوگئے۔
  •  مرد مومن کے لیے لائحہ عمل: بگاڑ کے اسباب کی تشخیص کے بعد، علامہ محمد اقبال نے اسلام کے تصورِ حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا۔ اسلام کی جو تشریح و توضیح اقبال نے کی ہے، اس کی امتیازی خصوصیت اس کا حرکی (dynamic) اور انقلابی (revolutionary) پہلو ہے۔ کائنات کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تخلیقی عمل اور ارتقا جاری ہے۔ کائنات کسی تخلیقی حادثے کا مظہر نہیں ہے، بلکہ اس میں خالق کائنات کی جانب سے کن اور فیکون کا سلسلہ جاری و ساری ہے، گویا جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘۔ پھر کائنات کی حقیقت کو ’خلق‘ اور ’امر‘ کی نوعیت پر غور کرکے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔۶؎ اگر ’خلق‘ میں پیدایش اور وجود کی طرف اشارہ ہے تو ’امر‘ میں سمت اور منزل کی طرف رہنمائی ہے۔

ہر چیز ایک مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ وجود کا اساسی پہلو بھی احساسِ سمت، مقصدیت، حرکت اور مطلوب کی طرف سعیِمراجعت ہے۔ کائنات، انسان اور تاریخ، ہر ایک میں یہی حرکی اصول کارفرما ہے۔ جسم اگر خلقت کا مظہر ہے، تو روح امن کی آئینہ دار ہے۔ خودی اور اس کی تعمیر اس حرکی اصول کا لازمی تقاضا ہے۔ ترقی اور بلندی کی راہ نفیِ ذات نہیں، اثباتِ خودی ہے، جو خود ایک ارتقائی (evolutionary) اور حرکی عمل ہے۔ روح کی معراج، ذاتِ باری تعالیٰ میں فنا ہوجانا نہیں، بلکہ خالقِ حقیقی سے صحیح تعلق استوار کرنا ہے۔ ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے، عمل اس کا میدانِ کار ہے، اور عشق اس کی ترقی کا راستہ۔

یہی اصولِ حرکت تاریخ میں بھی کارفرما ہے۔ تاریخی اِحیا محض ماضی کے صحت مند رجحانات کے بقا و استحکام کا نام نہیں ہے، بلکہ ابدی اقدار اور تمدّنی نصب العین کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے میدانوں میں تخلیقی اظہار اور تعمیر اور تشکیلِ نو سے عبارت ہے۔ انسان ہی اس ارتقائی عمل کا اصل کارندہ ہے۔ اگرچہ کائنات کی ہر شے اس کی مدد کے لیے فراہم کی گئی ہے، لیکن انسانی زندگی کے کچھ اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے لیے ہے، اور یہ مقصد ہے منصبِ نیابتِ الٰہی۔۷؎

اسلام وہ طریق زندگی ہے، جو انسان کو اس کام کے لائق بناتا ہے اور تاریخ میں اس حرکت کو صحیح سمت دیتا ہے۔ مردِ مومن اور ملتِ اسلامیہ، کائنات کی اصلی معمار قوتیں ہیں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری صحیح طور پر انجام نہ دیں تو بگاڑ رونما ہوگا، خود ان کے درمیان بھی اور کائنات میں بھی۔

  •  عقل اور وجدان کا تعلّق: علامہ محمد اقبال نے مذہب کی بنیاد عقل یا سائنس پر نہیں رکھی، بلکہ انھوں نے عقل، تجربے، سائنس اور وجدان، ہر ایک کی اصل حقیقت کو واضح کیا، اور ان کی مجبوریوں اور دقتوں پر روشنی ڈالی۔ اقبال نے بتایا کہ جبلت، عقل اور وجدان کے نقائص کو وحی کی روشنی اور تربیت کے ذریعے ہی دُور کیا جاسکتا ہے۔ ان تینوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کر کے انسان کی خدمت اور رہنمائی کے صحیح مقام پر فائز کیا جاسکتا ہے۔۸؎  نومعتزلائی عقلیت اور مغرب کی بے جان سائنس کے مقابلے میں یہ عقلِ سلیم کی فتح تھی۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تجربہ اور مشاہدہ مذہبی فکر میں ایک اساسی حیثیت قرار پایا۔ روحانی اور مادی تقسیم کا باطل نظریہ ترک ہوا، اور دونوں کے امتزاج (synthesis) سے متوازن اسلامی زندگی کی تعمیر کی راہ روشن ہوئی۔
  •  حرکی تصور میں خودی کا مقام:ایمان اور عمل کا باہمی تعلق واضح کرنے کے لیے علامہ محمداقبال نے غیرمعمولی ندرت (innovation) کا ثبوت دیا۔ اقبال کے نظامِ فکر کے مطابق زندگی کا حرکی تصور آپ سے آپ عمل کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ پھر مذہبی تجربے کی اساسی اہمیت بھی اس سمت میں اشارہ کرتی ہے۔ اثباتِ خودی اور تعمیر شخصیت ایک مسلسل عمل ہے، جس کے بغیر انسان مقامِ انسانیت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ نیابتِ الٰہی کے تقاضے صرف تسخیرکائنات اور اصلاحِ تمدّن ہی کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ ’خودی‘ ایک بے لگام قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خداپرستی اور اخلاقی تربیت سے ترقی پاتی ہے۔ عشق اس کی قوتِ محرکہ ہے، جب کہ مادی قوت کو دین کی حفاظت اور پوری دنیا میں نظامِ حق کے قیام کے لیے استعمال کرنا اس کی اصل منزل ہے۔ یہی خلافتِ الٰہی ہے، اور یہی انسان کا مشن ہے۔۹؎ اقبال نے مذہب کا یہ انقلابی تصور دیا، جس نے ملّتِ اسلامیہ میں حرکت اور ہلچل پیداکر دی۔
  •  اسلامی ریاست، بنیادی تقاضا: اس تصورِ حیات اور اس مشن کا لازمی تقاضا ہے کہ خود سیاسی اقتدار اسلام کے تابع ہو۔ نہ صرف یہ کہ اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تقسیم نہیں ہے، بلکہ مذہب اور ریاست ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ اگر دین اور سیاست جدا ہوجائیں تو دین صرف رہبانیت بن جاتا ہے اور سیاست چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی ذہنیت ان کے دین اور دین سے ذہنی وابستگی ہی سے تشکیل پاتی ہے۔ ان کی ریاست، معاشرت اور معیشت، دین کے مقاصد ہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنے اظہار کے لیے ریاست اور تمدن کے روپ میں ظاہر ہو۔ مسلمانوں کو ایسے خطۂ زمین کی ضرورت ہے، جہاں وہ اغیار کے اثرات سے آزاد ہوکر اپنے تمدنی وجود کا مکمل اظہار کرسکیں، اور پھر اس روشنی کو باقی دنیا میں پھیلا سکیں۔ اسی عمل کو اقبال نے اسلام کی مرکزیت کہا ہے، اور اسی کے لیے انھوں نے ایک آزاد خطۂ زمین کا مطالبہ کیا۔ آزاد اسلامی ریاست صرف مسلمانوں کی سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ خود اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔۱۰؎
  •  تھذیبی غلامی، ایک زھر قاتل: علامہ اقبال نے مغربیت اور اس کے بطن سے رونما ہونے والی مختلف تحریکوں، خصوصیت سے لادینیت، مادّیت پسندی، قومیت پرستی، سرمایہ داری، اشتراکیت اور اباحیّت پسندی پر کڑی تنقید کی۔ انھوں نے بتایا کہ ان باطل افکار و نظریات کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے، نیز یہ کہ فی الحقیقت یہی تحریکیں انسان کے دکھوں اور پریشانیوں کا سبب ہیں۔۱۱؎ مسلمانوں کی نجات ان کی پیروی میں نہیں، بلکہ اپنی خودی کی یافت اور دین اسلام کے احیا میں ہے۔ اقبال نے بار بار خبردار کیا کہ اگر انھوں نے مغرب کی تقلید کی روش کو اختیار کیا، تو یہ راستہ ان کی خودی کے لیے زہرقاتل ہوگا۔ زندگی اور ترقی کا راستہ نہ تو ماضی کی اندھی تقلید میں ہے اور نہ وقت کے نظاموں کی فدویانہ پیروی اور جاہلانہ غلامی میں--- یہ راستہ اسلامی تعمیرنو کا راستہ ہے، جو اثباتِ خودی، احیاے ایمان، تعمیراخلاق، اجتماعی اصلاح اور سیاسی انقلاب کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف سیاسی غلامی سے بھی نجات حاصل ہوسکے گی، بلکہ اس سے زیادہ خطرناک ذہنی، تمدنی اور تہذیبی غلامی سے بھی رہائی مل جائے گی۔ پھر وہ جو ’زمانے کے غلام‘ بننے پر قناعت کر رہے ہیں وہ آگے بڑھ کر ’زمانے کی امامت‘ کا فریضہ انجام دے سکیںگے، اور یہی ملت اسلامیہ کے کرنے کا اصل کام ہے۔

علامہ محمد اقبال نے ایک طرف دینی فکر کی تشکیلِ نو کی اور اسلامی قومیت کے تصور کو نکھارا، دوسری طرف ملّی غیرت اور جذبۂ عمل کو بیدار کیا۔ مغربی افکار کے طلسم کو توڑا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی راہ پر گامزن کرنے میں رہنمائی دی۔ یہی اقبال کا اصل کارنامہ ہے اور اسی بنا پر وہ بیسویں صدی کی اسلامی فکر کے امام اور اس میں تجدید کی روایت کے بانی اور رہبر ہیں۔


حواشی

۱-  یہاں علامہ اقبال کی فکربلند کا تجزیہ پیش نظر نہیں۔ تاہم اختصار کے ساتھ اس امر کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ فکرِاقبال نے ادبی اور فکری روایت پر کس کس پہلو سے اثر ڈالا۔(دیکھیے: جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال: زندہ رود۔ سید علی گیلانی: اقبال، روح دین کا شناسا۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی:عروجِ اقبال، پروفیسر محمد منور: میزانِ اقبال، ایقانِ اقبال۔پروفیسر رفیع الدین ہاشمی: علامہ اقبال، شخصیت، فکراور فن۔ ڈاکٹر خالد علوی: اقبال اور احیاے دین۔ حیران خٹک: اقبال اور دعوتِ دین)

۲-  تفصیل کے لیے دیکھیے: رفیع الدین ہاشمی: تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ۔

  • ۳-  ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی: برعظیم پاک و ہند کی ملّت اسلامیہ، ص ۴۳
  • ڈاکٹر سید عبداللہ: میرامن سے عبدالحق، ص ۲۳۷-۲۴۶۔

۴-  The Reconstruction، باب ششم

  • سید ابوالحسن علی ندوی: نقوشِ اقبال۔
  • پروفیسر خورشیداحمد، اقبال اور اسلامی قانون کی تشکیلِ جدید، مشمولہ چراغ راہ، اسلامی قانون نمبر، ج۲، ۱۹۵۸ء۔

۵- علامہ اقبال مکتوب بنام محمد اسلم جیراج پوری (۱۷؍مئی ۱۹۱۹ء) میں لکھتے ہیں: ’’تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرونِ اولیٰ میں اس سے لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ہاں، جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظامِ عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کرکے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے، تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے‘‘۔ (اقبال نامہ [یک جا] مرتبہ: شیخ عطا محمد، اقبال اکادمی پاکستان، طبع نو و تصحیح شدہ،ص ۱۰۰)۔     سید سلیمان ندوی کے نام (۱۹۱۷ء) لکھتے ہیں: ’’تصوف کا وجود ہی سرزمینِ اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے، جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے‘‘ (ایضاً)۔ بنام اکبر الٰہ آبادی: (۲۵؍اکتوبر ۱۹۱۵ء): ’’صوفیا کی دکانیں ہیں ، مگر وہاں سیرتِ اسلام کی متاع نہیں بکتی‘‘۔ (اقبال نامہ[یک جا]، ص۳۸۱-۳۸۲) بنام اکبرالٰہ آبادی (۱۱؍جون ۱۹۱۸ء): ’’عجمی تصوف سے لٹریچر میں دل فریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتا ہے۔ مگر ایسا کہ طبائع کو پست کرنے والا ہے‘‘ (ایضاً، ص ۳۸۷)۔ lپروفیسر حمیداحمد خاں: اقبال کی شخصیت اور شاعری

  • ڈاکٹر صابر کلوروی: تاریخ تصوف۔

۶- اشارہ ہے قرآنی آیت اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ (اعراف۷:۵۴) کی طرف۔

۷- ڈاکٹر محمد اقبال : The Reconstruction، باب اوّل، دوم، سوم۔

  • اسرارِ خودی
  • رموزبے خودی lخضرراہ، در بانگِ درا
  • ساقی نامہ اور زمانہ، دربال جبریل، نوائے وقت، درپیامِ مشرق۔

۸-  The Reconstruction، باب دوم و ہفتم۔

۹-  اسرارِ خودی اور رموز بے خودی۔

۱۰-  ڈاکٹر محمداقبال: خطبۂ صدارت ۱۹۳۰ء۔ 

  • نیز ملاحظہ ہو: The Reconstruction، باب ششم و ہفتم
  • رموز بے خودی۔
  • پروفیسر محمدسلیم: علامہ اقبال کی سیاسی زندگیl محمد احمد خاں:  اقبال کا سیاسی کارنامہ
  • محمد حمزہ فاروقی: اقبال کا سیاسی سفر۔

۱۱-  پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق

  • ضربِ کلیم
  • جاوید نامہ
  • پیامِ مشرق۔ اس سلسلے میں دیکھیے: جنوری ۱۹۳۸ء کا سالِ نو کا پیغام، جو اقبال کی آخری تحریروں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

 

پاکستان کا قیام اللہ کی مشیت کا ثمرہ اور برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی قائداعظم کی قیادت میں مخلصانہ جدوجہد اور فقید المثال قربانیوں کا عطیہ ہے۔ یہ ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی تمام سازشوں، کاوشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود ان شاء للہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم و دائم رہے گا، لیکن اس امانت کی حفاظت ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے۔ آج ملک کو جو خطرات درپیش ہیں ان کی زد براہ راست اس کے وجود پر ہے جس کی طرف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب نے، کراچی کے حالات پر کراچی میں ہی منعقدہ از خود نوٹس (Suo Motu) سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے، ان درد بھرے الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’آپ کس چیز کی حفاظت کر رہے ہیں___ حکومت یا ریاست؟‘‘

یہ سوال آج پوری پاکستانی قوم کے لیے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے عملی جواب کے لیے ان کو دعوت عمل دے رہا ہے۔ عدالت کے فیصلے کا سب کو انتظار ہے۔ ہمیں امید ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ وہ حکومت سے تحریری ضمانتوں کے سراب کے تعاقب سے اپنے کو بچا کر حکومت اور اس سے بڑھ کر قوم کے لیے اس راہ عمل کی واضح نشان دہی کر سکے جو ہمیں اس دلدل سے نکال سکے۔ نہ صرف یہ کہ راستے کی نشان دہی کرے بلکہ اس پر عمل کو دستور کے تحت لازمی ذمہ داری (imperative)بھی قرار دے، فیصلے پر عمل سے اجتناب یا انحراف پر قانون کی گرفت کو مستحکم کرے، تمام دستوری اداروں کو پابند کرے کہ وہ قومی تاریخ کے اس نازک مرحلے میں ملک کی آزادی اور حکمرانی (governance) دونوں کو تار تار کرنے والی حکومت سے نجات، ریاست کے تحفظ اور اس کے تمام اداروں کو دستور کے نقشے کے مطابق بروے کار لانے کی خدمت انجام دے، تاکہ دستور کے تحفظ کی جو ذمہ داری فرد، دستور اور قوم نے عدلیہ کے سپرد کی ہے اسے پورا کیا جا سکے۔

آج عدالت عظمیٰ کے سامنے فیصلہ کسی حکومت کو بچانے کا نہیں بلکہ ریاست کو بچانے کا ہے۔ دستور کے تحت حکومت کا کام دستور کی روشنی میں اچھی حکمرانی ہے جس کا پیمانہ ملک کی آزادی، سلامتی، خود مختاری، عزت و شناخت کا تحفظ اور ملک کے عوام کو امن و امان، انصاف اور عزت کی زندگی کی فراہمی ہے___ لیکن موجودہ وفاقی حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں اچھی حکمرانی اور صلاحیت کار کے فقدان، بدعنوانی کے طوفان، دستور اور قانون کے احترام اور عوام کے مسائل و مشکلات کے باب میں بے حسی کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے، اس کی روشنی میں اسے مزید مہلت دینا ریاست کی بنیادوں کو پامال کرنے اور ملک کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس حکومت کی کارکردگی پہلے دن ہی سے مخدوش اور ناقابل اطمینان تھی لیکن سال رواں میں خصوصاً گذشتہ دو مہینوں میں اس کی جو کچھ کارکردگی قوم کے سامنے آئی ہے، اس کے بعد تو اس کے سوا کچھ کہنا مشکل ہے کہ اب یہ حکومت پاکستان کی ریاست کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ ان حالات میں ایسی حکومت سے نجات اور دستور کے تحت تبدیلی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ عدالت، پارلیمنٹ اور قوم سب کے سامنے اس وقت اصل سوال یہی ہے کہ ایک ایسی حکومت سے کیسے نجات حاصل کی جائے جو قانونی جواز مکمل طور پر کھو چکی ہے اور جس کے تسلسل سے ملک کی آزادی، سلامتی، عزت، معیشت اور امن وامان، غرض ہر چیز معرض خطر میں ہے۔

ہم یہ الفاظ بڑے گہرے غور، غیر جذباتی فکر، اور بے حد دکھ کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر رقم کر رہے ہیں، اور اس احساس کے ساتھ کر رہے ہیں کہ یہ صرف ہمارے جذبات اور احساسات نہیں بلکہ پاکستان کے ہر با شعور شہری کے دل کی آواز ہیں۔ روز کے اخبارات اور میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں اور تبصرے ایک آئینہ ہیں، جس میں حالات کی صحیح تصویر ہر شخص دیکھ رہا ہے اور خون کے آنسو رو رہا ہے۔ صرف اتمام حجت کے لیے ہم یہاں ان چند حقائق کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں جو ان دنوںبہت ہی کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور جن کے ادراک سے دل و دماغ تہ و بالا ہیں۔

خون ناحق کی فراوانی

پہلی بات انسانی جان کی ارزانی اور خون ناحق کی فراوانی ہے، جس نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میںلے لیا ہے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ جن کی ذمہ داری جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کا قیام تھا، وہ خود ان کی پامالی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں تشدد کا رجحان روزافزوں ہے، جرائم بڑھ رہے ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، ظلم اور زیادتی کا طوفان امنڈ رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غافل، خاموش اور بے بس ہیں بلکہ ان میں سے کچھ اس ظلم میں شریک اور ساجھی ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے قتل کے کل ۱۸۹ واقعات ہوئے تھے، جن میں سے ۱۶۰ عام شہری تھے، لیکن ۲۰۰۹ء میں ہلاکتوں کی تعداد ااہزار ۷ سو۴ ہوئی، اور ۲۰۱۱ء کے صرف ابتدائی چھے ماہ میں ۴ہزار ۸۲۔ ان ۱۰ سالوںمیں ۳۶ ہزار ۷ سو ۵ افراد اس اجتماعی تشدد کا نشانہ بن گئے۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جو دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔ جنوبی ایشیا کے ایک جائزے کے مطابق پورے جنوب ایشیا میں ۲۰۰۵ء میں اس نوعیت کے قتل کے واقعات میں پاکستان کا حصہ ۱۰ فی صد تھا، جو۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷۹ فی صد ہوگیا ہے۔(ڈان، ۲۶ اگست۲۰۱۱ء)

ایک دوسرے جائزے کی روشنی میں صرف گذشہ تین سال کے دہشت گردی کے واقعات کو لیا جائے تو سر فہرست بلوچستان آتا ہے، جہاں ۱۰۲۴ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ پھر صوبہ خیبر پختون خوا کا نمبر آتا ہے، جہاں یہ تعداد ۱۰۱۸ تھی۔ البتہ اگر تمام جرائم کا جائزہ لیا جائے جن میں عام قتل، اغوا براے تاوان اور (Imported Explosive Device) IED شامل ہیں، تو پنجاب ۱۵ہزار واقعات کے ساتھ سب سے آگے ہے، جب کہ سندھ میں ۹ ہزار ۲۰، خیبر پختون خوا میں ۶ ہزار ۷۶ اور بلوچستان میں ۱۳۵۵ واقعات رونما ہوئے۔ (دی نیشن، ۲۲؍اگست۲۰۱۱ء)۔ ستم یہ ہے کہ تشدد کا رجحان روزمرہ زندگی میںبڑھ رہا ہے۔ خاندان، سکول، کالج، محلہ، دیہات، شہر، غرض ہر جگہ یہ روز افزوں ہے، جو واضح طور پر اخلاقی زوال اور قانون کی حکمرانی کے فقدان کی علامت ہے۔

کراچی کے حالات

اس پس منظر میں کراچی کے حالات اور لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو از خود عدالتی کار روائیاں کی ہیں اور اس سلسلے میں جو حالات سامنے آئے ہیں، وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ کراچی میں صرف اس سال میں۱۳۱۰ افراد ہدفی قتل (ٹارگٹ کلنگ) کا نشانہ بنے ہیں۔ کراچی میں: ۱۲؍ربیع الاول، ۱۲ ؍مئی ۲۰۰۷، ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۷، ۷ اپریل ۲۰۰۸، سانحہ عاشورہ و چہلم، سانحہ بولٹن مارکیٹ کے خونیں واقعات ہماری تاریخ کے روح فرسا نشان بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں اور جو عدالت کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں ۲۰۰۱ء میں ٹارگٹ کلنگ کے ۲۷۳ خونیں واقعات ہوئے، جو ۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۷۷۸ ہو گئے، اور ۲۰۱۱ء کے صرف پہلے آٹھ مہینوں میں یہ تعداد ۱۴۰۰ ہو گئی ہے۔ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کہنے پر مجبور ہوئے کہ میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیوں کہ پولیس میں ۳۰سے ۴۰ فی صد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں اور میں پولیس افسران (ڈی آئی جی اور دیگر ) کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کر سکتا۔

آئی جی نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ کراچی جو ملک کا اہم شہر ہے اس کے حالات وزیرستان سے بھی خراب ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب بار بار پوچھتے رہے کہ مجرموں کے خلاف کار روائی کیوں نہیں ہوتی؟ انھیں چارج شیٹ تک نہیں کیا جاتا اور گرفتار کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر شہادتیں ہی مفقود ہوتی ہیں۔ وزیر داخلہ اعلان کرتے ہیں کہ مجرموں کی فہرستیں ان کے پاس ہیں لیکن کسی کے خلاف اقدام نہیں کیا جاتا۔ جواب میں اٹارنی جنرل انوارالحق صاحب عدالت کے سامنے یہ کہنے پر مجبور ہیں:

Police has not taken action against terrorists

پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔

۱۹ وکیل قتل کر دیے جاتے ہیں، پولیس اور فوج کے ۹۲ افسروں کو (جنھوں نے ماضی میں قاتلوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا) بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے مگرکوئی گرفت نہیں ہوتی۔ ٹارگٹ کلرز کے اقبالی بیان ریکارڈ پر ہیں۔ انوسٹی گیشن رپورٹیں جن کی تیاری میں پاکستان کی تمام قومی خفیہ ایجنسیوں نے شرکت کی ہے، ناموں کے تعین کے ساتھ مجرموں کی نشان دہی کرتی ہیں مگر مجرمین پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

عدالت کے سامنے کئی اقبالی بیان لائے گئے ہیں، جن میں سے ایک اجمل پہاڑی کا ہے  اور جس نے ۱۱۰ سے زیادہ قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ نام لے کر ایسی ایسی تفصیلات بھی بیان کی ہیں جن میں کراچی کی غالب لسانی پارٹی کی مرکزی قیادت کا واضح کردار موجود ہے۔ بھارتی حکومت اور ایجنسیوں کی معاونت کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔ بیرونی ممالک اور ٹھکانوں کی نشان دہی ہے    لیکن حکومتِ وقت، جنرل پرویزمشرف کے دور میں اور اس کے بعد زرداری، گیلانی اور رحمن ملک کے دور میں بھی ان کے خلاف نہ صرف کوئی کار روائی نہیںکرتی، بلکہ ان عناصرکی پشت پناہی کرتی اور انھیں شریک اقتدار کرتی اور ’مفاہمت‘ کے نام پر ان کے جرائم کی (بشمول بھتاخوری، قتل و غارت گری، زمینوں پر قبضے، اذیت خانوں کے قیام اور جیلوں میں مجرموں کی سرپرستی) کی پردہ پوشی کرتی ہے۔

مجرموں کی سرپرستی

کراچی ہی نہیںپورے ملک میں غیر قانونی اسلحے کی بھر مار کی بات کی جاتی ہے لیکن شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کی کسی باضابطہ و موثر مہم کا کہیں دور دور تک پتا نہیں۔ پھر ناجائز اسلحہ تو ہے ہی ناجائر، خوں ریزی اور دہشت گردی میں لائسنس یافتہ اسلحے کا کردار بھی کم نہیں۔ لائسنس یافتہ اسلحے کو بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ پرویز مشرف اور زرداری حکومتوں کے زمانے میں چند خاص سیاسی جماعتوں اور مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے اسلحہ لائسنسوںکا ایسا پھیلائو ہوا ہے جس کا پہلے کوئی تصور نہیں تھا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزانے اپنے تین سالہ دور میں ۳ لاکھ اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کو خود تسلیم کیا ہے اور پولیس میں ۱۰ ہزار کی بھرتی کی بات کی ہے۔ سندھ کے آئی جی نے عدالت کے سامنے کہا کہ قیام پاکستان سے ۲۰۰۱ء تک کے ۵۳ سالوں میںپورے سندھ میں صرف ۵۰ ہزار لائسنس جاری کیے گئے، جب کہ گذشتہ ۱۰ سال میں، یعنی مشرف ،    مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم (۲۰۰۲ء- ۲۰۰۸ء) کے دور میں اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی (۲۰۰۸ء -۲۰۱۱ء) کے دور میں ساڑھے پانچ لاکھ لائسنس جاری کیے گئے (ان میں ممنوعہ بور کا اسلحہ بھی شامل ہے)۔ پیپلز پارٹی نے ’جیالا‘ کلچر روشناس کروایا ، الذوالفقار نامی تنظیم نے دہشت گردی کا بازار گرم کیا۔ لیاری کی نام نہاد امن کمیٹی پی پی پی ہی کی بازوے شمشیر زن تھی اور یہ اس کی واحد شمشیر نہ تھی۔ رہی ایم کیو ایم، تو اس نے تو اپنی پوری سیاست کی بنیاد ہی بھتا خوری، دہشت گردی اور تشدد پر رکھی۔ ۱۹۸۹ء ہی میں جناب الطاف حسین نے برملا اعلان کیا کہ ٹیلی ویژن بیچ کر اسلحہ خرید لو۔ ان کی سیاست کا محور اور قوت کا راز ہی جدید ترین اسلحے سے مسلح ان کا عسکری ونگ رہا ہے اور ان کا ماٹو (’’قائد کا جو غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے‘‘ )ان کے سیاسی کلچر کا ترجمان ہے۔کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں کے لوگ اس کا تجربہ رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر بھی اس کا پورا ادراک پایا جاتا ہے۔ گو، اپنے اپنے سیاسی مصالح یا کمزوریوں کی وجہ سے ہر کسی نے یا اس سے اغماض برتا ہے یا ان کو شریک کار بنا لیا ہے۔ کینیڈا کی ریاست کیوبک میں ایم کیو ایم کو پاکستان میں اس کے دہشت گردی کے کردار کی بنیاد پر’ایک دہشت گردی تنظیم‘ قرار دیا گیا ہے۔ صوبے اور ملک کی ہائی کورٹ دونوں ہی نے یہ فیصلہ کرکے ان کے افراد کو امیگریشن کے قوانین کے تحت ملک بدر کیا ہے۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیانات، خواہ آدھا سچ ہی پیش کرتے ہوں، ایسے تکلیف دہ، ہولناک اور شرمناک جرائم کی متعین انداز میں نشان دہی کرتے ہیں، جن پر بر وقت گرفت نہ کرنے کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ قانون اور شرافت کی دھجیاں بکھیرنے والے یہ تمام عناصر جو سیاست میں بھی بڑے معتبر رہے ہیں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں ان کا چہرہ صاف نظر آ رہا ہے۔ پھران کی پشت پناہی کرنے والوں، ان کو شریک اقتدار کرنے والوں، اور ان جرائم کا علم اور پورا ریکارڈ اپنے پاس رکھنے کے باوجود اور اقتدار کی قوت حاصل ہونے کے علیٰ الرغم ان پر کار روائی نہ کرنے والوں کا چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اوراس تصویر کی مدد سے ان تمام اسباب اور عوامل کا ادراک بھی ہو جاتا ہے جو ان حالات کا باعث ہوئے۔ آج بڑے بڑے سیاسی کھلاڑی ایک دوسرے کے چہروں پر خون کے دھبوں کی نشان دہی کررہے ہیں، لیکن اپنی معاونت اور ذمہ داری کے باب میں خاموش ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسرعنایت علی خاں کا شعر اس صورت حال پر کتنا صادق آتا ہے کہ   ؎

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

مجرم اور مجرم کو پناہ دینے والے دونوں برابر کے مجرم اور ان حالات کے ذمہ دار ہیں اور اگر ان تمام حقائق کے سامنے آنے کے بعد بھی مفاہمت اور منافقت کا کاروبار گرم رہتا ہے، عدالت بھی انصاف اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجاے وعظ اور تحریری ضمانتوں کا خود کش راستہ اختیار کرتی ہے، تو پھر ہمیں ڈر ہے کہ انقلاب کے نام پر انتشاراور انتقام کو روکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کا سامان ہو سکتا ہے جس سے ہم اللہ ہی کی پناہ مانگتے ہیں۔

عدالت عالیہ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں، اور عدالت کے باہر ڈاکٹر ذولفقار مرزا اور دوسرے افراد نے پورے تعین کے ساتھ اور افراد کی نشان دہی کرتے ہوئے جو حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں، وہ ایک آئینہ ہیں جن میں ملک کے حالات اور خصوصیت سے ارباب اختیار کے کردار، سیاسی جماعتوں کے رول اور حکومت، پولیس، رینجر اور اپنے اپنے زمانے کی فوجی قیادت کے کردار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اب یہ لاوا پھٹ رہا ہے اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتی،اگر حکومت دستور، قانون، اخلاق اور شرافت کی اقدار کو اسی بے دردی کے ساتھ پامال کرتی ہے،مجرموں کی نہ صرف پشت پناہی کی جا تی ہے، بلکہ انھیں سرکاری عہدوں پر بحال رکھ کر کھل کھیلنے کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے،تو پھر یا عوامی انقلاب کے ذریعے حالات بدلیں گے، یا پھر پورا معاشرہ اللہ کی گرفت میں آئے گا بشمول ان کے۔ ایسی صورت حال میں وہ لوگ جو خواہ ان جرائم میں شریک نہ ہوں اور عدل و انصاف کے نظام کے قیام کی جدوجہد ہی کرتے ہوں،مگر حقِ نصیحت ادا کرنے میں کوتاہی کے سبب وہ بھی اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم سب اصلاح احوال کا راستہ اختیار کریں اور تباہی سے بچنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔

وکی لیکس کے آئینے میں

جس طرح ایک آئینے میں ہم ملک میں بدامنی، دہشت گردی اور ظلم و زیادتی کے حالات اور خصوصیت سے سپریم کورٹ کی از خود سماعت (سوموٹو) کار روائیوں میں سامنے آنے والے واقعات دیکھ رہے ہیں، اسی طرح دوسرے آئینے میں وہ انکشافات ہیں جو وکی لیکس کے ذریعے پاکستان کی قیادت، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں، فوجی ذمہ داروں اور خود میڈیا کے افراد کی امریکی سفارت کاروں سے بات چیت، عرض داشتوں، خوشامدوں اور سفارشات اور معاملہ بندی کا مرقع ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام دستاویزات کا معروضی انداز میں مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے۔ تلخ حقائق کے اس دروبست کو سمجھا جائے جو سفارت کاری کے نام پر ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ہم پر مسلط ہے۔ اخبارات میں جو حصے شائع ہوئے ہیں ان سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ بڑی مکروہ ہے۔ ایک طرف استعمار کی وہ نئی شکل امریکا کی سلطنت (hubris)کی صورت میں سامنے آئی ہے جو ہم پر اور باقی مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک پر تھوپی گئی ہے اور جسے بڑی خوش اسلوبی سے جمہوریت، لبرلزم، موڈرنزم، دوستی اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر شپ کا لبادہ اڑھا یا گیا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو ہمارے اپنے حکمرانوں اور ارباب اختیار کی وہ سوچ، ان کے اصل عزائم اور ان کا وہ کردار ہے جو بظاہر نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے علاوہ  ملک کی تمام ہی سیاسی اور کچھ مذہبی جماعتوں کی جو تصویران مراسلات میں ابھرتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ الفاظ، انداز تکلم اور التفات کی شکلوں میں اختلاف ہے لیکن مدعا سب کا ایک ہی نظر آتا ہے___ امریکا ہی ان سب کا اصل مولا اور کرتا دھرتا ہے۔اسی کی نظر التفات ہر ایک کو مطلوب ہے۔ اسی کے ایجنڈے کو ہر ایک آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ اسی کی مدد سے اقتدار میں آنے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کا ہر کوئی متمنی ہے۔ جناب عنایت علی خاں نے ان حضرات کی اسی کیفیت کو اپنی ’گلوبل حمد‘ ،’یا حافظ امریکا، یا ناصر امریکا‘میں بیان کیا ہے، چند اشعار ملاحظہ کریں:

جو تیری طلب ہو گی ہم اس سے سوا دیں گے
اک تیرے اشارے پر ہم جان لڑا دیں گے
پیاروں کو کٹا دیں گے، خوابوں کو سلا دیں گے
خود اپنے نشیمن کو ہم آگ لگا دیں گے
پھر آگ کے شعلوں کو ڈالر کی ہوا دیں گے
مقتل میں تہہ خنجر جینے کی دعا دیں
یوں شانِ وفاداری دنیا کو دکھا دیں گے

ہمارے اپنے ملک کی آزادی اور قوم کا وقار اور عزت، ہمارے اپنے ملّی اور ملکی مفادات اور ترجیحات اور ہمارے ایمانی تقاضے، تہذیبی اور تمدنی روایات اور عوامی امنگیں اور ضروریات یہ سب کچھ ان کے لیے یا غیر متعلق ہے یا صرف جزوی طور پر قابل لحاظ___ اصل فیصلہ کن بات وہ ہے جو امریکا چاہتا ہے اور جس کی خاطر ہم اپنے تمام معاملات کو چلانے اور طے کرنے میں عافیت دیکھتے ہیں۔ بات سخت ہے لیکن اگر الفاظ کو، یعنی معنی کواصل اہمیت دی جائے تو ان مراسلوں سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری مقتدر قیادتوں کی بدعملی اور قومی مفادات سے بے وفائی کے سبب ہماری آزادی ایک سراب بن کر رہ گئی ہے۔ان حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر ہماری ہر چیز کا سودا کر لیا ہے یا کرنے کو تیار ہیں، اور اس سے بھی یہ کوئی سبق سیکھنے سے عاری ہیں کہ عالمی طاقتیں اپنی مطلب براری کے لیے دوسروں کو کس طرح استعمال کرتی ہیں اور اپنا مطلب نکال کر کس طرح دودھ میں سے بال کی طرح نکال پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کو خوش کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو دھوکا دینا ان حکمرانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل اور روزمرہ کا مشغلہ ہے، اور ان کی ساری کاوش امریکا کی نظرِ کرم کو حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہے___الا ماشاء اللہ! بحیثیت مجموعی ان حکمرانوں کے لیے اصل چیز ان کا اپنا مفاد، ان کا اقتدار، اس چند سال کی زندگی کے لیے سہولتوں کا حصول اور پھر اپنے خاندان اور اپنی آل اولاد کے لیے ان کا تسلسل ہے۔

وکی لیکس عالم سیاست میں ہوش ربا داستانوں کی ایک الف لیلیٰ ہے۔ پاکستان اور مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ارباب بست و کشاد کی جو تصویر وکی لیکس کے ذریعے ہمارے سامنے آتی ہے ہم  قارئین کی توجہ اس کی طرف مبذول کرانا اور بتانا چاہتے ہیں کہ اس کا کیا تعلق ہمارے حالات سے ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ حالات میں جو بگاڑ ہر قدم پر نظر آ رہا ہے اس کا سبب ہمارے اپنے ارباب اختیار کے عزائم، کردار اور ترجیحات ہیں۔ بیرونی قوتوں کا عمل دخل ہمارے معاملات میں ہرہر سطح تک اور ہر ہر انداز میں پہنچ گیا ہے، اور کوئی شعبہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔ بیرونی قوتیں تو وہی کردار ادا کر رہی ہیں جو ان کے مفاد میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کیا کردار کر رہے ہیں؟ اور ہم نے ان کو یہ سب کچھ کرنے کا موقع کیوں دے رکھا ہے؟ بظاہر دستور بھی ہے اور دستوری ادارے بھی، میڈیا بھی آزاد ہے اور اس کا کردار بھی بڑھ رہا ہے، لیکن ان تمام ذرائع کو دوسرے کس طرح استعمال کر رہے ہیں اور ہم کس طرح استعمال ہو رہے ہیں؟ بیرونی سازشوں کا نوحہ بہت ہوچکا، اب جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تباہی اور بربادی کی اس افتاد  میں ہمارا اپنا کردار بھی ہے___ اور جب تک ہم اپنے گھر کو درست کرنے اور زمام کار ان ہاتھوں سے چھین لینے کی فکر نہیںکرتے جو ہمارے اور ہمارے دین و ملت کے حقیقی وفادار نہیں، اس وقت تک ہم نہ اپنے گھر کو درست کر سکیں گے، نہ اپنے وسائل کو اپنے لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ کر سکیں گے۔ اورنہ دنیا میں اپنا اصل مقام ہی حاصل کر سکیں گے۔

آئینے میں جو تصویر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے جانے والے حقائق سے ابھرتی ہے، ایک دوسرے انداز میں وہی تصویر وکی لیکس کے آئینے میں بھی نظر آتی ہے___اور اس کا تقاضا بھی وہی ہے، جو پہلی تصویر سے سامنے آ رہا ہے۔

معیشت کی زبوں حالی

ایک اور آئینہ وہ ہے جو بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاری اور بحیثیت مجموعی معیشت کی زبوں حالی کا عکاس ہے۔ ایک طرف دولت کی ریل پیل ہے اور دوسری طرف غربت اور فقر و فاقہ اپنی  انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ آبادی کا پانچواں حصہ سارے وسائل پر قابض ہے اور ۸۰ فی صد آبادی محرومیوں کا شکا رہے۔ اگر بین الاقوامی اشاریے کی روشنی میں دو ڈالر یومیہ آمدنی (۱۷۰ روپے) کو کم سے کم ضرورت سمجھا جائے تو ۷۵ فی صدی آبادی اس خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اگر یہ افراد کسی طرح جسم اور روح کے رشتے کو باقی رکھ بھی لیتے ہیں تو بھی یہ تعلیم، صحت اور ترقی کے مواقع سے محروم رہتے ہیں۔ پھر ملک کا معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر ہے، جو بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کو بچانے اور مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تمام ہی ادارے بحران کا شکار اور قرضوں کے گرداب میں گرفتار ہیں۔ صرف ان کو زندہ رکھنے کے لیے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر۴ سو ارب روپے سالانہ ان کو دیے جا رہے ہیں اور خسارہ ہے کہ ہر سال بڑھ رہا ہے اور بڑے بڑے ادارے دم توڑتے اور سہولتیں ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ سڑکیں اور پل برے حال میں ہیں، بجلی، گیس او رپانی کی فراہمی روبہ زوال ہے، پی آئی اے ، اسٹیل مل اور ریلوے جان بلب ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے، ہسپتال اور دوسرے طبی سہولتوں کے مراکز زبوں حالی کا شکار ہیں۔ روزگار کے مواقع مفقود ہیں۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ ملک پر قرضوں کا جتنا بوجھ ملک کے قیام سے ۲۰۰۷ء تک کے ۶۰ سالوں میں تھا، بعدکے صرف چار سالوں میں اس سے کچھ زیادہ ہم پر لاد دیا گیا ہے۔

اس پر مستزاد اشیاے ضرورت کی قلت، ان کی ناقص کوالٹی اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ ان چار سالوں میں افراط زر (مہنگائی) ۱۲ اور ۱۴ فی صد رہی ہے۔ اور اشیاے خوردو نوش میں مہنگائی کی شرح عام اشاریے سے زیادہ رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے اشیاے خوردو نوش میں ان چار سالوں میں ۸۰ سے ۱۰۰ فی صد اضافہ ہو گیا۔ مزید برآں آفات سماوی ہیں جن کا تازیانہ برابر پڑ رہا ہے اور ہماری آنکھیں ہیں کہ کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ ۲۰۰۵ء کا زلزلہ، ۲۰۱۰ء کا سیلاب اور اب ۲۰۱۱ء کی بارشیں اور سیلاب___لاکھوں انسان گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں، کھڑی فصلیں بہ گئی ہیں، مکانات منہدم ہو گئے ہیں، مال مویشی لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ اور تمام تنبیہات کے باوجود نہ خطرات کے مقابلے کے لیے مناسب پیش بندی کی گئی اور نہ افتاد زدہ علاقوں اور افراد کی مدد اور اعانت کے لیے معقول انتظام کیا گیا۔ غضب ہے کہ گذشتہ سال کے سیلاب کے موقعے پر جو رقم ملک اور ملک کے باہر سے امداد کی مد میں آئی تھی، اسے بھی مستحقین پر خرچ نہیں کیا گیا ہے۔ غفلت اور بد عنوانی دونوں نے تباہی کو اور بھی سوا کر دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی بے لگام ہے اور سیاسی قیادت بے حس ہے۔

سیلاب زدگان کی مدد کے سلسلے میں پبلک اور دینی اور نجی دائرے کے خدمت خلق کے اداروں کی طرف سے متاثرین کی مدد کے لیے بڑا قابل تحسین کام ہوا ہے۔ یہ جہاں خیر کی علامت ہے، وہیں حکومتی اداروں کی غفلت اور بدعنوانی پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔ صدر مملکت فوٹو سیشن کے لیے تو خاصے چاق و چوبند تھے لیکن اس کے فوراً بعدپھر اسی طرح بیرونی دوروں پر روانہ ہوئے جیسے ۲۰۱۰ء کے سیلاب کے موقع پر ہوئے تھے___ان کی ترجیحات میں عوام کے مسائل اور مصائب کا مقام دور دور نظر نہیں آتا۔

قیام پاکستان کا مقصد؟

جس کام کو قومی ترجیحات میں اولین مقام حاصل ہونا چاہیے، اس کے بارے میں اتنی غفلت اوربے توجہی ایک بنیادی مرض کی علامت ہے۔ اس کا علاج بھی وہی فکر و نظر کی تبدیلی اور  انقلابِ قیادت ہے۔

ان تمام حالات کا تقاضا تھا کہ سب سے پہلے اللہ سے رشتے کو مضبوط کرنے اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی منزل کے تعین اور ترجیحات کی ترتیب نو کی فکر کی جاتی۔ اللہ سے عہد کی تجدید ہوتی اور قوم کے وسائل کو امانت اور حکمت کے ساتھ قوم کے مستحقین کی ضرورتوں کو پورا کرنے، امن و امان کے قیام اور انصاف کے ساتھ سب کے حقوق کی ادایگی کے لیے استعمال کیا جاتا۔ پاکستان وسائل کے باب میں غریب اور محروم ملک نہیں۔ اصل چیلنج وسائل کی ترقی اور صحیح استعمال کا  ہے اور یہیں ہم بار بار ٹھوکریںکھا رہے ہیں۔ اصل وجہ اخلاص کی کمی، منزل کا عدم شعور، رب کی بندگی، اور محنت، تعاون، خدمت اور مشارکت کے اسلامی اصولوں کی عدم پاسداری ہے۔

بات اب صرف اس نصب العین، ہدف اور حکمت عملی سے گریز ہی تک محدود نہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے منتخب کیا ہے اور جسے اصولی اور اجمالی طور پر دستور پاکستان میں رقم کر دیا گیا ہے۔ نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کھلے بندوں اس مقصد اور منزل ہی سے دستبرداری کے دعوے اور انحراف کی راہوں کی استواری کا سامان کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی اسلامی بنیاد کو مسمار کرنے کے لیے بیرونی دشمن تو پہلے دن ہی سے مصروف تھے، لیکن اب ایک منظم سازش کے ذریعے اس تصور ہی پر تیشہ چلایا جا رہا ہے جو اقبال اور قائداعظم نے دیا تھا اورجس کی بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں نے آزادی کی جدوجہد میں جان و مال کی بازی لگائی تھی۔

ایک صاحب لندن میں بیٹھ کر اور ملکۂ برطانیہ سے وفاداری کا عہد لے کر قوم کو بتا رہے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الا اللہ محض ایک واہمہ اور بعد کی اختراع ہے۔ اور یہ وہ صاحب ہیں جنھوں نے بھارت کی سرزمین پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا قیام ہی ایک غلطی تھی اور اگر وہ اس وقت ہوتے تو پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے۔ایک اور بزرگ پاکستان بھارت دوستی کے راگ کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ انھیںپاکستان اور بھارت اور مسلمان اور ہندو کلچر میںکوئی فرق ہی نظر نہیں آتا، اور وہ اس قوم کے ساتھ آلو گوشت کھانے کی بات کرتے ہیں جو گوشت کو ہاتھ لگانے سے نجس ہونے کا عقیدہ رکھتی ہے اور جس نے اپنے سماج کی بنیاد ہی ’ہندو پانی‘ ’مسلمان پانی‘ کے دو جداگانہ دھاروں پر رکھی ہے۔ اس وقت پاکستان کو اس کی نظریاتی شناخت سے محروم کرنے اور اسے ایک بے لنگر کے جہاز میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔ خاص طور پر انگریزی پریس میں تو پاکستان کے تصور کے خلاف صلیبی جنگ کی سی فضا پائی جاتی ہے، اوراب اردو پریس میں بھی اس کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی قوم اور اس کی نئی نسل کو اس کی تاریخ سے کاٹنے اور بے بہرہ رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے، اور استعماری اہداف کو پورا کرنے کے لیے ایک نئی تاریخ وضع کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ قائداعظم نے جس بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں کو ایک آزادمسلم ریاست کے قیام کے لیے بیدار اور متحرک کیا تھا وہ اسلام کے سوا کچھ نہ تھی۔ قائداعظم نے ۱۹۴۴ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے ___نہ وطن ہے او رنہ نسل۔‘‘ان کا ارشاد تھا کہ:

ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیںکیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔

قائد اعظم نے پنجاب مسلم فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے مارچ ۱۹۴۵ء میں فرمایا تھا کہ ’’اسلام ہمارا رہنما اور ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔‘‘قیام پاکستان کے بعد ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اسی شہر لاہور (پنجاب یونی ورسٹی گرائونڈ) میں یہ ایمان افروز اعلان فرمایا تھا:

ہر شخص کو میرا پیغام پہنچا دیجیے کہ وہ عہد کرے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہے۔

یہ ہے پاکستان کی اصل تقدیر___اور یہی وہ تقدیر ہے جو قوم میں یکسوئی اور یک رنگی پیدا کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں انصاف اور خوش حالی پر مبنی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے اور دنیا اور آخرت میں مسلمان کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔

جدوجہد، وقت کی ضرورت

جس انقلاب کی پاکستان کو ضرورت ہے، وہ یہ ہے___ اور جس قیادت نے اس وقت پاکستان پر قبضہ کر رکھا ہے وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ وسلم کی وفادار ہے اور نہ اقبال اور قائداعظم کے تصور پاکستان سے اسے کوئی نسبت ہے (اگر وہ نبی کریمؐ سے وفاداری کا دعویٰ کرے بھی تو اس کا عمل اس دعوے کی نفی کر رہا ہے)۔ اس کا اصل چہرہ وہ ہے جو اوپر کے آئینوں میں نظر آ رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان چہروں کو بدل دیا جائے جو پاکستان کو اس کی اسلامی منزل سے کاٹ کر استعماری قوتوں کی چاکری کے لیے، اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

پاکستان کو اس گروہ کے چنگل سے نکالنے اور اسے اُمت کے اصل مقصد او رمنزل کے لیے وقف کرنے کی جدوجہد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اس وجہ سے اور بھی بڑھ گئی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو غیروں کی نگاہ میں معتبر بنانے اور ان کے سہارے اپنی قوم پر اپنے تسلط کو باقی رکھنے کے لیے پاکستان کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آگ میں دھکیل دیا تھا جس کی تباہ کن قیمت ہم اب تک ادا کر رہے ہیں۔ اب اس صورت حال سے جلد از جلد نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ایک عظیم جھوٹ پر مبنی تھی اور اس کے نتیجے میں دنیا ظلم اور طغیان سے بھر گئی ہے، دہشت گردی میں چند دو چند اضافہ ہو گیا ہے، لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں، اور امریکا سمیت دنیا کی معیشت کو کھربوں ڈالر کے نقصانات اٹھا چکی ہے مگر افسوس کہ اس تباہی کے رکنے کا کوئی سامان نظر نہیں آ رہا ہے۔

امریکا یہ جنگ افغانستان میں ہار چکا ہے اور کابل میں خود اپنے اور ناٹو کے مراکز کی حفاظت کے لیے جو حصار اندر حصار اس نے تعمیر کیے تھے وہ درہم برہم ہو چکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے اس کے لیے اس جنگ کو جاری رکھنا مشکل تر ہو رہا ہے اور اس سال راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں امریکی عوام کی اکثریت نے پہلی بار اسے ایک ناکام جنگ قرار دیا ہے اور اس سے نکلنے کا مطالبہ اب تیزی سے اکثریت کا مطالبہ بنتا جا رہا ہے۔

امریکا اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ سیاسی اور معاشی دبائو کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اورپاکستان کو اپنے بچے کچھے دوستوں سے بھی محروم کر رہاہے۔ اس کی کوشش ہے کہ شمالی وزیرستان میں جنگ کی آگ بھڑکا کر ہمیں اس میں جھونک دے۔ اس کے لیے امریکا نے اپنی 3-B مہم (Bully Bribe & Blackmail)یعنی دھونس ، رشوت اور ناجائز دبائو تیزتر کر دی ہے۔ امریکا کی قومی اور سیاسی قیادت نے پاکستان پر دبائو میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔اس امریکی دبائو سے ہماری سیاسی قیادت کے بازو ڈگمگانے لگے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتے میں جس طرح امریکی وزیر دفاع، وزیر خارجہ، چیف آف اسٹاف اور امریکی صدر نے پاکستان کا گھیرائو کیا ہے، وہ امریکا کے جارحانہ عزائم کو واشگاف کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ دبائو ابھی اور بڑھے گا اور بھارت بھی اس میں اپنا کردار بڑھائے گا۔ یہ وقت امریکا کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا وقت ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قوم موجودہ امریکا نواز اور امریکیوں کی اسیر قیادت سے نجات پائے اور عوامی قوت سے ایک ایسی قیادت بروے کار لائے جو قیام و حصول پاکستان کے اصل مقاصد کی علم بردار ہو، جو دیانت اور اہلیت کے جوہر سے مالا مال ہو، جس کے دامن پر کرپشن اور امریکا پرستی کا داغ نہ ہو، جو بھارت سے برابری کی بنیاد پر دوستی اور باعزت تعلقات کی تو خواہاں ہو لیکن بھارت کے اس کھیل کا حصہ نہ بنے،جو وہ علاقے میں کھیل رہا ہے اور چین کے خلاف حصار بنانے میں مصروف ہے، کشمیر پرغاصبانہ قبضہ جاری رکھنے پر مصر ہے اور پاکستان کو پانی سے محروم کرکے ایک بنجر اور بھارت پر انحصار کرنے والا ملک بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔

امریکا کا دوغلا پن تو اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ وہ خود تو طالبان سے مذکرات کرنے میں مشغول ہے اور کابل حکومت سے ان کے اشتراک اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہے، اور ہمیں ان سے لڑانے پر مصر ہے۔ ہم پر الزام ہے کہ حقانی نیٹ ورک شمالی وزیرستان سے کارروائیاں کر رہا ہے، جب کہ حقانی نیٹ ورک کے قائد کا دعویٰ ہے کہ ہم افغانستان میں ہیں اور وہیں سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شکایت ہے کہ شمالی وزیرستان سے افغانستان میں لوگ کیوں داخل ہوتے ہیں لیکن اس سوال کا کوئی جواب امریکا کے پاس نہیں کہ امریکا اور ناٹو کے ڈیڑھ لاکھ فوجی اورافغانستان کی نیشنل آرمی کے ۲ لاکھ جوان ان چند مجاہدین کا راستہ روکنے میں کیوں ناکام ہیں؟   وہ افغان سرحد سے کئی سو کلومیٹر دور کابل کے قلب میں ان مقامات پر کار روائیاں کر رہے ہیں جن کے گرد تین تین آہنی سکیورٹی حصار قائم کرنے کے دعوے کئی ماہ سے کیے جا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ صرف اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرانے اور پاکستان کی قیادت اور فوج کو بلیک میل کرنے کے لیے یہ دبائو ڈالا جا رہا ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اب اس جنگ سے نکلنے کا اعلان کرکے اپنے دفاع کی مناسب اور موثر حکمت عملی بنائی جائے۔ پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس حکمت عملی کی پشت پر ہو۔ امریکا سے you do more کہنا بے معنی ہے۔ ۱؎  ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا کو بتا دیا جائے کہ پاکستان نے جو کچھ کیا اور امریکا نے اس کا جو بدلہ دیا ہے اس کے بعد ہمارا صرف ایک ہدف ہے اور وہ یہ کہ امریکا کی مسلط کردہ پالیسی سے خلاصی اور چھٹکارا۔  do more کا صحیح جواب no more ہے اور اس کے لیے پوری قوم کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اس پالیسی کے اختیار کرتے ہی حالات بدلنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان کو دہشت گردی کی جس آگ میں جھونک دیا گیا ہے وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑ جائے گی۔

جو جنگ ہم نے خود امریکا کے دبائو میں اپنے اوپر مسلط کر لی ہے، اس سے جلد نجات مل جائے گی۔ پارلیمنٹ نے ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی اپنی قرار داد میں واضح کیا تھا کہ مسئلہ سیاسی ہے اوراس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے، فوجی حل ممکن نہیں۔ اس لیے 3-D ) Dialogue, (Development, Deterrance یعنی مکالمہ، ترقی اور سدجارحیت  ہی کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے۔ ہمیںپارلیمنٹ کی اسی قرار داد کے مطابق ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ صرف اسی طرح، یعنی بات چیت اور مذاکرات ہی سے، جن کو ہم نے امریکا کی خاطر دشمن بنا لیا تھا  توقع ہے کہ وہ بھی اپنا رویہ بدلیں گے اور نئی فضا قائم ہوگی، پاکستان میں امن بحال ہوگا اور پاکستان اور افغانستان میں بھی تعاون اور دوستی کا نیا دور شروع ہوگا۔

سپریم کورٹ میں اور وکی لیکس کے آئینے میں نظر آنے والی تصویریں ہوں یا نظریہ پاکستان کی میزان، اور امریکا پاکستان تعلقات کے باہمی تعلقات، یا موجودہ مرحلہ، سب کا تقاضا ایک ہی ہے___ موجودہ حکمرانوں سے نجات، اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کی تعمیر اور ایک دیانت دار، باصلاحیت، خدا ترس اور خادمِ خلق قیادت کو منصب اختیار کی تفویض۔ اگر ہم اس راہ پر عزم صمیم کے ساتھ گامزن ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ راستے کی تمام مشکلات کو آسان کر دیتا ہے اور ضعف طاقت میں، نا اُمیدی اُمید میں، اور ہزیمت کامیابی میں بدل جاتی ہے۔

وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّہُمْ سُبُلَنَاط(العنکنوت ۲۹:۶۹)

جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

 

۲۰۰۴ء سے شروع ہونے والے ڈرون حملے پاکستان کے خلاف ایک قسم کے اعلانِ جنگ کے مترادف تھے۔ راے عامہ کے ہر جائزے میں ۹۰ فی صد سے زیادہ پاکستانیوں نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے، انھیں اپنی حاکمیت پر حملہ اور ناقابلِ برداشت قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء اور ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قراردادوں میں صاف الفاظ میں ان حملوں کی مذمّت کی ہے اور حکومت کو ان کو ناکام بنانے کی واضح ہدایت دی ہے لیکن حملوں کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے، بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور اب کھل کر امریکا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ حملے ہرصورت میں جاری رہیں گے۔

لندن میں قائم ایک تحقیقی ادارے Bureau of Investigation Journalism نے اپنی رپورٹ (اگست ۲۰۱۱ء) میں پوری تحقیق، دستاویزات اور عینی شہادتوں کی بنیاد پر دعویٰ  کیا ہے کہ ۲۰۰۴ء سے اب تک سی آئی اے نے ۲۹۱ ڈرون حملے کیے ہیں جن میں سے ۲۳۶ صدراوباما کے دورِ حکومت اور پاکستان میں زرداری گیلانی حکومت کے دور میں ہوئے ہیں،جب کہ بش اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں حملوں کی تعداد ۵۵ تھی۔ تاحال ان حملوں کے نتیجے میں ۲ہزار۸ سو ۶۳ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے اصل جنگ جوؤں (militant fighter ) کی تعداد ۱۶۴ تھی جن کے کوائف موجود ہیں۔ باقی سب یا عام شہری ہیں یا وہ افراد جنھیں low-ranking militant یا نیم فوجی دستے کہا گیا ہے، جب کہ متعین طور پر عینی شاہدوں اور متعلقہ افراد کے  بارے میں حاصل شدہ کوائف کی روشنی میں ۷۷۵ عام شہری تھے جن کا کوئی دُور کا بھی رشتہ  عسکریت پسندوں سے نہ تھا۔ ان میں واضح طور پر نابالغ بچوں کی تعداد ۱۶۸ تھی جن کے سارے کوائف اس ادارے کے پاس ہیں اور جن میں سے کچھ کی تصاویر لندن کے اخبار گارڈین نے شائع کی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: گارڈین، ۱۱؍اگست ۲۰۱۱ء)

یہ رپورٹ اس حیثیت سے بہت اہم ہے کہ اس نے امریکی حکومت کے چوٹی کے ترجمان جان برے من کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے کہ ڈرون حملوں سے کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہوا، صرف عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ خود امریکا کے ایک سابق فوجی ایڈمرل بلیر نے ڈرون حملوں کی افادیت کو چیلنج کیا ہے اور امریکا کو اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی بدلنے کا مشورہ دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، نیویارک ٹائمز، ۱۵؍اگست ۲۰۱۱ء)

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایک طرف امریکی ترجمان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ڈرون حملوں سے کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہو رہا لیکن جب امریکا کے قانون Freedom of Information Act کے تحت امریکی شہریوں اور اداروں نے اس سلسلے میں تمام معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تو ’قومی سلامتی کو خطرے‘ کا بہانہ بناکر معلومات دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس وقت خود امریکا میں ان حملوں کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور انھیں بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے خلاف ہی قرار نہیں دیا جا رہا بلکہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی حکمت عملی سے بھی متصادم اور دنیابھر میں امریکا کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مؤثر محاذ Compaign for Innocent Victims of Conflict (CIVIC، تنازعات کی شکار معصوم جانوں کے بچائو کی تحریک)کے نام سے کام کر رہا ہے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح انگلستان میں تفتیشی صحافت کا برطانوی بیورو بھی خدمت انجام دے رہا ہے اور وکلا کی ایک تنظیم نے سی آئی اے کے خلاف اس کی ان سرگرمیوں کی بنیاد پر عدالتی چارہ جوئی بھی شروع کر دی ہے۔ اس وقت سی آئی اے چھے مسلمان ممالک (افغانستان، عراق، پاکستان، صومالیہ، یمن اور لیبیا) میں ڈرون حملوں کی شکل میں جنگی اقدام کر رہی ہے، اور اس حوالے سے اب مغرب کے دانش وروں کا ایک طبقہ بھی یہ سوال اُٹھا رہا ہے اور پاکستان کے حوالے سے صاف پوچھ رہا ہے (اور اس کا جواب سی آئی اے کو دینا چاہیے )کہ آخر یہ کیا تماشا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کے خلاف ایک غیر علانیہ جنگ لڑ رہی ہے، جو نام کی حد تک امریکا کا حلیف ہے۔ (گارڈین، ۱۱؍اگست ۲۰۱۱ء، سی آئی اے کی ڈرون جنگ کے سویلین شکار، مضمون اسٹفورڈ سمتھ)

شرم کا مقام ہے کہ ایک طرف غیر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں مگر دوسری طرف پاکستانی عوام کے پُرزور مطالبے اور پارلیمنٹ کی واضح ہدایات کے باوجود پاکستانی حکومت اور اس کی فوجی قیادت، ڈرون حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی، اس سلسلے میں ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بے غیرتی کی انتہا ہے کہ کچھ سیاسی قائدین اور نام نہاد دانش ور ان کی افادیت کی بات کر رہے ہیں، اور ایک فوجی ترجمان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سارے ڈرون حملے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور عام شہریوں کی ہلاکتیں نہیں ہورہی ہیں___ یعنی سی آئی اے کے اس جھوٹے دعوے کی بازگشت فراہم کر رہے ہیںجس کے غلط ہونے کا اعتراف خود یورپی اور امریکی ذرائع کر رہے ہیں۔

ایک طرف امریکا کی یہ کھلی جارحیت ہے اور اس کے ساتھ پاکستانی فوجی امداد کی بندش اور نئی حقارت آمیز شرائط مسلط کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ’ڈو مور‘ کا منتر اپنی جگہ ہے اور شمالی وزیرستان میں فوج کشی اور دوسرے مطالبات کی بھرمار ہے، اور دوسری طرف حکومت کی بے حسی ملاحظہ ہو کہ وہ دوٹوک انداز میں امریکا سے تعلقات پر نظرثانی اور اس کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے ملک کو نکالنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدام کرنے سے پہلوتہی کر رہی ہے۔ ان حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تمام محب وطن سیاسی قوتیں عوامی تحریک کے ذریعے حکومت سے نجات یا خارجہ پالیسی خصوصیت سے امریکا کے بارے میں پالیسی میں بنیادی تبدیلی کے لیے جمہوری قوت کو متحرک اور مؤثر کریں۔

اس سلسلے میں ہر دن ہم پر امریکی غلامی کی گرفت مضبوط تر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس وقت کراچی میں جو خونیں ڈراما رچایا جا رہا ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں امریکا کی غلامی کے خلاف جدوجہد سے توجہ ہٹا کر ایک اندرونی مسئلے میں الجھا دیا جائے، حالانکہ کراچی میں بھی بیرونی ہاتھ اسی طرح اپنی کارفرمائیاں دکھا رہا ہے جس طرح فاٹا اور بلوچستان میں۔ ان حالات میں ہم قوم کو اپنی آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دینا اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتے ہیں   ؎

اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی قیادت کے ایک گلِ سرسبد اور عالمی اسلامی معاشی تحریک کے سرگرم رہنما برادر محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی طویل علالت کے بعد ۲۵ جولائی ۲۰۱۱ء کو علی گڑھ میں انتقال کر گئے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

ڈاکٹر فریدی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اسلام کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور پورے خلوص، دیانت اور مکمل سپردگی کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتیں اسی مشن کی تکمیل کے لیے وقف کر دیں   اور پھر آخری لمحے تک وفاداری کے اس رشتے کو نبھایا۔ اس میں ان کے پیشِ نظر صرف اپنے رب کی خوشنودی تھی۔ ان شاء اللہ ان کا شمار ان سعید روحوں میں ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے مالک نے فرمایا ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْـلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت کے بہترین مقامات و انعامات سے نوازے___ انھوں نے ہم سب کے لیے ایک اچھی مثال چھوڑی ہے اور جو چراغ ان کے قلم اور تحریکی مساعی نے روشن کیے ہیں، وہ ان کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ضوفشاں رہیں گے___  ان شاء اللہ تعالیٰ!

برادرم فضل الرحمن فریدی ۴؍اپریل ۱۹۳۲ء کو مچھلی شہر جون پور، یوپی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جون پور میں اور اعلیٰ تعلیم الٰہ آباد یونی ورسٹی اور علی گڑھ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ لیکن ان کی علمی زندگی اور تحریکی جدوجہد کا رُخ متعین کرنے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی ہند کے نظم سے وابستگی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ثانوی درس گاہ رام پور میں شرکت نے اس وابستگی کو اور پختہ کردیا۔ اس زمانے میں اصحابِ کہف کی طرح جن چند نوجوانوں نے باہر کی دنیا سے منہ موڑ کر ثانوی درس گاہ کو اپنی آماج گاہ بنایا، ان میں فضل الرحمن فریدی بھی شامل تھے۔ ان سب نے اپنے اپنے انداز میں اسلام اور تحریکِ اسلامی کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور ان کے اثرات صدقۂ جاریہ کی شکل میں تادیر جاری و ساری رہیں گے۔

فریدی صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۶ء میں دہلی میں ہوئی۔ میں خرم [خرم مراد] بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے بھوپال گیا تھا۔ وہاں ہم دونوں نے دہلی اور آگرے کا سفر کیا اور فریدی صاحب، برادرم نجات اللہ صدیقی اور برادرم عرفان احمد خاں دہلی تشریف لائے اور وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ان سے زندگی بھر کے لیے تعلقات استوار ہوگئے۔ فریدی صاحب اور نجات اللہ صاحب نے میری طرح معاشیات کے میدان کو اختیار کیا اور اس طرح ان دونوں بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی گذشتہ نصف صدی میں علمی اور دعوتی میدانوں میں تھوڑی بہت خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ فریدی صاحب سے دوسری ملاقات ۱۹۷۶ء میں پہلی عالمی کانفرنس براے اسلامی معاشیات کے موقعے پر مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ بعدازاں اُن کے سعودی عرب کے قیام کے دوران میں، ان سے مسلسل ملنے اور گھنٹوں تحریکی امور اور اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں پر تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہا۔ آخری ملاقات بحرین میں اسلامی معاشیات پر منعقد ہونے والی پانچویں کانفرنس میں ہوئی۔ اس کے بعد فقط ٹیلی فون پر رابطہ رہا۔ ۲۰۰۵ء میں دہلی میں اسلامک فنانس پر ایک کانفرنس منعقد ہونے والی تھی۔ فریدی صاحب کا بے حد اصرار تھا کہ میں اس میں کلیدی خطاب کروں لیکن ویزا نہ ملنے کے باعث مَیں دہلی نہ جاسکا اور ملاقات سے محروم رہا۔ زندگیِ نو کے وہ مدیر تھے اور اس رشتے سے ترجمان القرآن اور زندگیِ نو میں بڑا قریبی علمی تعاون رہا اور ہم ایک دوسرے کے علمی کام سے برابر استفادہ کرتے رہے۔

برادرم فضل الرحمن فریدی اُردو اور انگریزی میں ۳۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے سارے کام کا محور دو ہی موضوعات رہے___ اوّل: اسلامی معاشیات، دوم: تحریکِ اسلامی کی دعوت کے فکری اور عملی پہلو۔ ان کی نگاہ قدیم اور جدید دونوں علوم پر تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تجزیے اور تعبیر کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ معاشی تجزیے اور خصوصیت سے زری معاشیات (fiscal economics) میں ان کی خدمات بڑی گراں قدر ہیں۔ وہ اسلامی معاشیات کے اصل تصور کو نکھارنے والے لوگوں میں سے ہیں۔

میری اور نجات اللہ صدیقی بھائی کی طرح وہ ہرلمحے اس پہلو سے متفکر رہتے تھے کہ اسلامی معاشیات اپنے اصل وِژن کے ساتھ، جو اقامت ِدین کا ایک حصہ ہے، ترقی اور تنفیذ کے مراحل سے گزرے اور محض روایتی معاشیات کا ایک حصہ بن کر نہ رہ جائے۔ اسی طرح تحریکِ اسلامی اور فکرِ اسلامی کی تعبیر کا ہر وہ پہلو ان کی دل چسپی کا موضوع رہا جس کا تعلق اُمت ِمسلمہ کے اس کردار سے ہے جو اسے خصوصیت سے مسلم اقلیت والے ممالک میں ادا کرنا ہے، اور اصل مقصد سے وفاداری کے ساتھ اپنے مخصوص حالات میں اسلام کے کردار کو واضح اور متعین کرنا ہے۔

ان کی زندگی بڑی سادہ اور صاف ستھری تھی۔ فکری اعتبار سے میں نے ان کو فہم دین اور عصری مسائل کی تعبیر کے سلسلے میں بڑا بالغ نظر اور محتاط پایا۔ وہ اپنے فکری تجزیوں میں، اصل مقاصدِ شریعت سے مکمل وفاداری کے ساتھ جدید علوم سے استفادہ کرتے تھے اور اس نازک ذمہ داری کو میرے علم کی حد تک انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا۔

اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور نئی نسل کے اہلِ علم و تحقیق کو    اس راستے پر چلنے کی توفیق دے جس کے نقوش علمی دنیا کے فضل الرحمن فریدی ایسے سچے خادموں نے روشن کیے ہیں، آمین ثم آمین!

 

اگست کا مہینہ، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کے اس تاریخی دن کی یاد دلاتا ہے جب اس برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے ایک تاریخ ساز جدوجہد کے بعد مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کی۔ اس کے لیے لازوال قربانیاں دیں، انگریز اور ہندو کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا۔ نصب العین کے لیے یکسو ہوکر ملک کے ہرحصے کے مسلمان خواہ وہ پنجابی تھے یا بنگالی، سندھی تھے یا بلوچی یا پٹھان، ہرتعصب سے بالا ہوکر میدانِ عمل میں کود پڑے۔ ہمارے قائدین نے بار بار واضح کیا کہ یہ علیحدہ خطۂ ارض ہم   اس لیے حاصل کررہے ہیں کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تعمیر کریں گے جو گم کردہ  راہِ انسانیت کے لیے مینارئہ نور ہوگا۔

ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں، لیکن ۶۴سال بعد  آج ہم جائزہ لیں تو بحیثیت مجموعی تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی دائرہ ایسا نہیں کہ ہم اطمینان کا اظہار کرسکیں۔ اسلا می معاشرہ تو بہت دُور کی بات ہے، ایک عام انسانی معاشرے کی حیثیت سے بھی ہم بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ اخلاق، سیاست، معیشت، عدلیہ، امن و امان کی صورت حال، ہرجگہ ایک بحران کی کیفیت ہے۔ یقینا ہم نے ایٹم بم بنایا ہے، بہت سے دائروں میں ترقی بھی کی ہے لیکن ان امور سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے آج صرف یہ جائزہ لیں گے کہ امریکا سے تعلقات کے حوالے سے ہماری آزادی وخودمختاری کی کیا کیفیت ہے۔

  •  امریکا کی دوستی اور دشمنی:ڈاکٹر ہنری کسنجر امریکا کی خارجہ پالیسی ہی نہیں عالمی سیاست کے باب میں بلاشبہہ ’مصلحت انگیز‘، ’فقیہ شہر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ان کا کمال ہے کہ کبھی کبھی وہ اُس ’رند بادہ خوار‘ کا کردار بھی ادا کر جاتے ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ  ع

نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں

ان کا ایسا ہی ایک ارشاد ہے کہ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ امریکا کی دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ اس کی دوستی بھی کچھ کم مہنگی نہیں! پاکستان نے اس کا بار بار تجربہ کیا ہے لیکن اس کی   عاقبت نااندیش قیادتوں نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ خود اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کبھی کوئی سبق نہیں لیں گے۔

تازہ ترین صورت حال ریمنڈ ڈیوس کے بھرے چوک میں دو نوجوانوں کے قتل سے شروع ہوکر، اس کے فرار اور پھر ۲مئی کے ایبٹ آباد پر حملے اور ڈرون حملوں کو روکنے سے انکار بلکہ ان میں مسلسل اور معتدبہ اضافے، فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان بازی (war of words)، سیاسی قیادت کی طرف سے شمسی ایئربیس کے بارے میں ٹکا سا جواب، امریکی فوجیوں کی واپسی اور ویزے کے بارے میں معمولی سی چھان بین پر برہمی، امریکا کے تنخواہ دار مخبروں، خصوصیت سے اسامہ بن لادن کی تلاش کے سلسلے میں جعلی ویکسین کا ڈراما رچانے والے ڈاکٹر کی گرفتاری اور پھر سالانہ فوجی امداد کے ایک تہائی، یعنی ۸۰۰ملین ڈالر کی بندش___ وہ واقعات ہیں جو ایک فیصلے کی گھڑی (moment of truth) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ فیصلہ کن لمحہ ہے جس پر پاکستان کی آزادی اور اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس فیصلے کو اس قیادت پر نہیں چھوڑا جاسکتا جس کا اصل چہرہ وکی لیکس کے آئینے میں سب نے دیکھ لیا ہے اور جو اپنے اقتدار میں آنے اور کرسی بچانے کے لیے امریکا کے مرہونِ منت ہیں۔ فوجی قیادت کا کردار بھی کچھ بہت قابلِ فخر نہیں اور شاید اب ایک آخری موقع ہے کہ وہ اس اعتماد کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جس کی خاطر قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی تقویت کا سامان کیا ہے۔

امریکا سے اسٹرے ٹیجک دوستی پر ہمیں تو کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یقین کیا گمان بھی نہ تھا لیکن وہ جو یہ راگ الاپ رہے تھے، اب خود ان کے چہرے پر بار بار طمانچے پڑنے کے بعد یہ تحریر پڑھی جاسکتی ہے کہ  ع

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

اب وقت آگیا ہے کہ عوام کی آواز کو سنا جائے، بلکہ خود پارلیمنٹ نے جو واضح راہِ عمل اپنی دوقراردادوں (۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء اور ۱۴ مئی ۲۰۱۱ء) کی شکل میں دی ہے اس پر لفظ اور معنٰی ہردواعتبار سے عمل کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے زمینی حقائق کا صحیح صحیح ادراک ہو اور پھر ان کی روشنی میں اور اپنے قومی مفادات اور عوام کے جذبات اور عزائم کی روشنی میں تعلقات کی واضح انداز میں تشکیلِ نو ہو۔

  •  زمینی حقائق:پہلی بات یہ واضح ہوجانی چاہیے کہ امریکا کے مقاصد، اہداف اور ترجیحات اور پاکستان کے مفادات، مقاصد اور ضرورتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ امریکا کا اصل مقصد اس یک قطبی عالمی نظام کا تحفظ ہے جس میں مرکزی حیثیت اسے حاصل ہے۔ وہ دنیا کے ۸۰ممالک میں اپنی فوجیں رکھ کر اور عالمی مالیاتی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کر کے دنیا کی  بیش تر اقوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس کی اسٹرے ٹیجک دوستی صرف اسرائیل اور برطانیہ سے ہے اور پھر دوسرے دائرے میں یورپی ممالک اور بھارت آتے ہیں۔ رہی اسلامی دنیا، پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک وہ اس کی نگاہ میں صرف آلۂ کار اور کارندوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستان کی قیادت کو   اس امر کا پورا ادراک ہو کہ ہماری حیثیت ان کی نگاہ میں کیا ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ سامنے رکھنے کی ہے کہ امریکا سے ہمارے تعلقات میں پچھلے ۶۴برسوں میں نشیب و فراز تو بہت آئے ہیں اور ان میں بھی نشیب زیادہ اور فراز کم، لیکن جو  صورت حال نائن الیون کے بعد رونما ہوئی ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اور اس سے بھی بڑھ کر زرداری گیلانی اقتدار کے دور میں امریکا نے اپنی گرفت ہم پر مضبوط کی ہے، ہمیں اپنی محتاجی کے جال میں پھنسایا ہے، ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور عمومی پالیسی ہی نہیں، معمولی معمولی امور تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ امریکی سفیر داخلی امور پر ہدایات دے رہے ہیں۔ امریکی فوجیوں، سیکورٹی معاونین، مخبروں اور کاسہ لیسوں کا جال ملک کے طول و عرض میں بچھا دیا گیا ہے اور اگر پاکستان اپنے قومی مفاد میں کوئی معمولی سے معمولی اقدام کرتا ہے، جیسے فوجیوں کی واپسی، سفارت کاروں سے ان کے شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ، ویزوں کے بارے میں ضروری تحقیق و تفتیش کی جسارت، تو نہ صرف فوجی اور سول امداد کی گاجروں کو ہاتھ سے چھین لیا جاتا ہے بلکہ ڈنڈوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور عالم یہ ہے کہ  ع

زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا

ڈرون حملوں کو جاری رکھنے، اپنے مخبروں کورہا کرانے، شمسی ایئربیس کو خالی کرنے کے مطالبے کا ٹکا سا انکاری جواب دینے اورفوجی امداد روکنے کے اقدام کے بعد، اب پاکستان کے سامنے صرف ایک راستہ ہے___ امریکا کے تعلقات کے موجودہ دروبست کو یکسر تبدیل کرنے اور بالکل نئی شرائط اور نئے نکات پر تعلقات کی ازسرنو تشکیل کا راستہ۔

آگے بڑھنے سے پہلے تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے:

۱-  بلاشبہہ ہم نے امریکا پر اپنی محتاجی (dependence) کو خطرناک حد تک بڑھا لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کوئی ناکام یا بے سہارا ملک ہے۔ ہمارے وسائل ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں اور قوم میں وہ ہمت اور صلاحیت ہے کہ اگر قیادت صحیح رویہ اختیار کرے تو یہ ملک اپنے مفادات کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے باربار  اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جن حالات میں ہم نے اپنی آزادی کا سفر شروع کیا تھا، دنیا کو یقین تھا کہ ہم چند مہینوں میں بھارت کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے اور دوبارہ اس کے زیرِعاطفت آجائیں گے لیکن اس غیور قوم نے اپنے معاملات کو سنبھالا، کشمیر کے محاذ پر پنجہ آزمائی میں بھی  پیچھے نہیں رہی اور ۱۹۴۹ء جب تخفیفِ زر کا طوفان آیا تو روپے کی قدر نہ گرا کر بھارت، برطانیہ اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بے سروسامانی سے آغاز کر کے جس طرح ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء میں اپنے حالات کو سنبھالا، وہ بہت سی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود ایک بڑا کارنامہ تھا۔ پھر امریکا سے دوستی اور اس کے مطالبات کے باوجود چین کوتسلیم کرنا اور اس سے اسٹرے ٹیجک شراکت کی  راہ ہموار کرنا ایک اہم کارنامہ تھا۔ ۱۹۹۸ء میں ایٹمی تجربہ بھی اسی نوعیت کی کامیابی ہے۔ اگر قیادت صحیح فیصلہ کرے اور قوم کو اپنے ساتھ لے کر چلے تو آج ہم امریکا کے چنگل سے نکلنے کے لیے ماضی کے ان تمام ادوار کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت اور وسائل رکھتے ہیں۔

۲-   دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ آج ہم ہی امریکا کے محتاج نہیں، خود امریکا بھی چند نہایت اہم امور کے سلسلے میں ہماری مدد اور تعاون کا محتاج ہے، بشرطیکہ ہم اپنے پتّے صحیح صحیح کھیلیں اور اپنے قومی مفاد، آزادی اور عزت کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ مسئلہ غیروں کی کارروائیوں سے زیادہ اپنی کمزوریوں کا ہے۔

۳-  تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے اور اپنے  طویل المیعاد مفادات کے تحفظ کے کسی انتظام کے ساتھ وہاں سے باعزت انداز میں واپسی چاہتا ہے اور اس کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ امریکا افغانستان اور پاکستان سے ۱۱ہزار کلومیٹر دُور ہے لیکن ہماری اور افغانستان کی مشترک سرحدات ۱۵۰۰ کلومیٹر سے زیادہ ہیں اور ہمارے تاریخی، تہذیبی، دینی، معاشی اور سیاسی رشتے بالکل دوسری نوعیت کے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی حماقتوں سے ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنا لیا، اور جو دشمن تھے ان کی دشمنی میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ امریکا کی سرزمین تو شاید کسی حد تک دہشت گردی سے محفوظ ہوگی___ گو دہشت گردی کے خوف کی فضا نے اس کو بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور نہ معلوم کب تک اسے اس عذاب میں مبتلا رہنا پڑے گا___ لیکن ہماری سرزمین جو اس نوعیت کی دہشت گردی سے بالکل پاک تھی، اب اس کی گرفت میں ہے، اور دہشت گردی کی کمر توڑنے کے باربار کے دعووں کے باوجود اس میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ یہ کمی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے سلامتی کی صورت حال کا اپنے نقطۂ نظر سے جائزہ لیں، اسے ازسرنو مرتب کریں اور سیاسی مسائل کے لیے سیاسی حل پر عمل کرنے کاراستہ اختیار کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے اور امریکا کے راستے اور مفادات مختلف ہیں۔ اس حقیقت کے ادراک کے بغیر اصلاح کی کوئی صورت نہیں۔ پارلیمنٹ نے یہی راستہ دکھایا ہے لیکن سیاسی اور فوجی قیادت اپنے اپنے زعم اور اپنے اپنے مفادات کے چکر میں اس راستے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کر رہی، اور امریکا سے بار بار ڈنڈے کھانے کے باوجود بھی آزادی، خودانحصاری اور عزت کا راستہ اختیار کرنے سے پس و پیش کر رہی ہے۔

  •  امریکا سے دوستی کی قیمت: پاکستان اور امریکا کے تعلقات اب اس مقام پر آگئے ہیں جہاں ایک بنیادی فیصلہ ناگزیر ہوگیا ہے۔ عوام نے کسی دور میں بھی امریکا کو قابلِ اعتماد دوست نہیں سمجھا۔ راے عامہ کے جتنے بھی جائزے گذشتہ برسوں میں ہوئے ہیں، خصوصیت سے وہ جو ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ملکی یا غیرملکی اداروں نے کیے ہیں، ان میں یہ حقیقت تسلسل کے ساتھ کھل کر سامنے آئی ہے کہ ۷۰ سے ۹۰ فی صد عوام اس پالیسی سے بے زار ہیں جس کا عنوان ’پاک امریکا دوستی‘ ہے۔ اس دوستی کا حاصل امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کی غیرمشروط شرکت ہے۔ اس نے ملک میں دہشت گردی میں غیرمعمولی اضافہ کردیاہے جس کے نتیجے میں علاقے کا امن تہ وبالا ہوگیا۔ ان ۱۰برسوں میں پاکستان میں ۳ہزار سے زیادہ فوجی اور ۳۵ہزار سے زیادہ عام شہری موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور خود اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوجانے والوں (IDP) کی تعداد ۴۰لاکھ سے متجاوز ہے۔ معاشی اعتبار سے اب اس میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں سب سے زیادہ دخل اس جنگ اور اس کے اثرات کا ہے۔ انسانی جان و مال کے نقصان کے علاوہ بحیثیت مجموعی معیشت کو جو نقصان اُٹھانا پڑا، اس کا محتاط ترین سرکاری تخمینہ ۶۹؍ارب ڈالر ہے جو پاکستانی روپے میں تقریباً ۶ہزار ارب روپے بن جاتا ہے___ یعنی پاکستان کے دو سال کے مکمل مرکزی بجٹ سے بھی زیادہ۔

یہ سب درست، لیکن اصل مسئلہ محض معاشی نہیں۔ امریکا نے خاص طور پر گذشتہ ۱۰،۱۱برسوں میں پاکستان کو عملاً اپنی ایک طفیلی ریاست بنا لیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پارہ پارہ ہیں۔ شروع میں امریکا نے اس پالیسی کو carrot and stick، یعنی ترغیب اور ترہیب، گاجراور ڈنڈے کی پالیسی کہا مگر اب گاجر کا حصہ معدوم ہوتا جا رہا ہے اور صرف ڈنڈے کی حکمرانی ہے۔ رواں سال میں ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے لے کر جولائی ۲۰۱۱ء میں امریکا کی فوجی امداد میں ۸۰۰ ملین ڈالر کی کمی اس کے مختلف مظاہر ہیں۔ ڈرون حملوں کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا اور ان سات برسوں میں ۲۶۰ حملے ہوچکے ہیں اور ان میں ہلاک ہونے والے نام نہاد مطلوبہ دہشت گردوں کی تعداد ۵۰ اور ۶۰ کے درمیان ہے، جب کہ ان حملوں میں لقمۂ اجل بننے والے عام بے گناہ پاکستانیوں کی تعداد ۲۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ امریکا پوری رعونت کے ساتھ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ہماری حاکمیت کو پامال کر رہا ہے اور ہمارے شہریوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار رہا ہے۔ ان دستاویزات کی روشنی میں جو وکی لیکس کی بناپر طشت ازبام ہوچکی ہیں، ان میں سے بیش تر حملے ماضی میں خود ہماری سرزمین سے امریکی اڈوں سے ہوتے رہے ہیں اور یہ اڈے وہ ہیں جن کی حفاظت ہماری اپنی افواج اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کرتی رہی ہیں، اور جنرل پرویز مشرف سے لے کر زرداری گیلانی تک سب کی طے شدہ منظوری سے ہماری سرزمین پر ہماری آبادیوں کو موت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں کہ امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فوج کشی کے ۱۰ برسوں میں جتنا جانی نقصان اُٹھایا ہے، پاکستان کی افواج اور شہریوں نے اس سے کہیں زیادہ نقصان برداشت کیا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور عالمی میڈیا پاکستان کو دوغلی پالیسی، دھوکا دہی، بدعنوانی اور بدعہدی کا مجرم قرار دے رہا ہے۔ اسے دنیابھر میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے رہا ہے اور افغانستان میں اپنی پالیسی کی ناکامی کا ملبہ بھی پاکستان پر گرانے کی مذموم کوششیں کر رہا ہے۔ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت کے ڈرامے کی بنیاد پر پاکستان، اس کی افواج، خفیہ ایجنسیوں اور خود حکومت کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور فوجی، سیاسی اور معاشی دبائو کے ساتھ اس کے خلاف اپنی لفظوں کی جنگ (war of words) کو بھی ایک نئی انتہا تک لے جایا گیا ہے۔ امریکی حکومت اور اس کے ترجمان، کانگریس کی کمیٹیاں اور ان کے ترجمان، تھنک ٹینکس اور میڈیا، سب نے اپنی توپوں کے تمام دہانے پاکستان پر یلغار کے لیے کھول دیے ہیں۔ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کا ارشاد ہے کہ ’’پاکستان پر یہ سارا دبائو جاری رہے گا تاآنکہ وہ امریکا کی شرائط کو منظور کرے اور اس کے مطالبات کو پورا کرے‘‘۔ امریکی چیف آف اسٹاف مائیکل مولن نے ایک صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی بلاواسطہ ذمہ داری پاکستان کی حکومت پر ڈالی ہے اور اس کے ساتھ فوجی امداد میں کٹوتی کا اعلان بھی کردیا ہے۔

  •  فیصلے کی گہڑی: یہ تمام حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ امریکا سے تعلقات کے ہرپہلو کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور جس دلدل میں ملک کو پھنسا دیا گیا ہے، اس سے نکلنے کے لیے ایک واضح نقشۂ کار بناکر اس پر قومی یک جہتی کے ساتھ فی الفور عمل کا آغاز کیا جائے۔ یہ عوام کی دلی آرزو تھی، اور پارلیمنٹ نے دو بار، یعنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفق علیہ قرارداد اور پھر ۱۴مئی کی قرارداد کی شکل میں قوم کے دل کی آواز کو پارلیمنٹ کے حکم کا درجہ دے دیا تھا، مگر حکومت نے اس قرارداد کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور اس کے کسی ایک حصے پر بھی عمل نہیں کیا۔ لیکن اس سال امریکا نے پے در پے جو حملے کیے ہیں، جو چرکے لگائے ہیں اور جو بے عزتی کی ہے، اس نے حالات کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اب امریکا سے تعلقات کے پورے سلسلے کو ازسرِنو مرتب کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

امریکا بلاشبہہ ایک عالمی طاقت ہے۔ اس سے تعلقات پر نظرثانی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قوم امریکا سے تصادم کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن تصادم اور دشمنی، یا غلامی اور محکومی ہی دو آپشن نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کے احترام کی بنیاد پر ایک باعزت پالیسی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے جو قوت اور وسائل کے اختلاف کے باوجود دونوں کی آزادی، خودمختاری، مشترک مقاصد اور مفادات کے سلسلے میں تعاون پر مبنی ہو، اور ان تمام امور کے باب میں جہاں مفادات میں اشتراک موجود نہیں، اپنے اپنے مقاصد، مفادات اور اہداف کے لیے آزادانہ کردار کا اہتمام کیا جائے۔  بین الاقوامی قانون اور عالمی نظام دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ قوی اور ضعیف، بڑا اور چھوٹا، سب   عملی میدان میں برابری (functional equality)کی بنیاد پر ایک دوسرے سے معاملہ کریں۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات یک طرفہ اور ایک فریق کی بالادستی اور دوسرے کی عملاً محکومی کا رنگ اختیار کرچکے ہیں اور ان کا اسی طرح جاری رہنا نہ قوم کے لیے قابلِ قبول ہے اور نہ ملک اور علاقے کے مفاد میں ہے۔ اس لیے نئی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر پوری یکسوئی کے ساتھ عمل کا پروگرام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ہم امریکا سے معاشی، تجارتی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی وجہ سے جو حاکم اور محکوم اور آقا اور ماتحت کا تعلق بن گیا ہے، اسے ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنا پڑے قوم کو یک جان ہوکر اس کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ ایک مخصوص لابی اس سلسلے میں جن خطرات کا ہوّا کھڑا کرکے   ہمیں ڈرا رہی ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں۔ گذشتہ ۶۴برسوں میں امریکا نے چھے بار پاکستان سے تعلقات کو پست ترین سطح تک دھکیلا ہے اور ہم پر طرح طرح کی پابندیاں تک لگائی ہیں لیکن پاکستان کی معیشت ان سب نشیب و فراز سے بخوبی عہدہ برآ ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ۸۰۰ملین ڈالر کی فوجی امداد امریکا نے روکی ہے۔ یہ کسی شمار قطار میں نہیں، البتہ ۱۰برس میں امریکا نے جوفوجی اور معاشی امداد دی ہے اگر اس سب کو بھی لیا جائے تو اس کا حقیقی اثر ہماری معیشت پر براے نام رہا ہے، جب کہ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے جو نقصان ہم کو ہوا ہے، وہ اعدادوشمار کی زبان میں بھی اس کے کم از کم ۵گنا زیادہ ہوا ہے۔ آخری تجزیے اور حساب میں اس جنگ سے نکلنے اور امریکی امداد سے نجات پانے سے ہماری معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے اور ملک خودانحصاری کی طرف تیزی سے آگے بڑھ سکے گا بشرطیکہ حکومت صحیح سیاسی اور معاشی پالیسیاں تشکیل دے، اور قوم پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی آزادی، خودمختاری اور عوام کی خوش حالی کے لیے وسائل کے صحیح استعمال کا راستہ اختیار کرے۔

  •  پاک امریکا تعلقات کے خطوط: اس سلسلے میں چند بنیادی اصولوں کو سامنے رکھنا ضروری ہوگا:

۱-   پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ہماری غربت اور معاشی پس ماندگی کی وجہ وسائل کی قلت نہیں، صحیح قیادت کا فقدان اور صحیح پالیسیوں سے محرومی ہے۔ قومی مقاصد، مفادات اور اہداف کا صحیح صحیح تعین اور ایک ایسی حکومت کی تشکیل اولین اہمیت رکھتی ہے جو عوام میں سے ہو،  عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اور پاکستانی قوم کے مفاد کی علَم بردار ہو۔ وژن اور اہداف کی درستی اور دیانت داری اور باصلاحیت قیادت کو بروے کار لانا اصلاحِ احوال کے لیے ناگزیر ہے۔

۲-  پالیسی سازی میں پارلیمنٹ کا کردار مرکزی ہونا چاہیے اور عوام کو اعتماد میں لے کر ان کے جذبات اور ترجیحات کی روشنی میں یہ کام انجام پانا چاہیے۔

۳- امریکا سے تعلقات خودمختارانہ مساوات (equality  sovereign) کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔معاشی امداد کو مرکزی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ خرابی کی جڑ ہے۔ تعلقات کے  محور کو بدلنے اور تجارت اور دوطرفہ معاشی تعاون کو مرکزی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔

۴- اس وقت جو مراعات امریکا کو حاصل ہیں ان پر فوری طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ چند اہم پہلو یہ ہیں:

  • شمسی ایئربیس پر فوری طور پر پاکستان کا مکمل کنٹرول ہونا چاہیے۔ متحدہ عرب امارات سے جو بھی معاہدہ ہواتھا، اسے اب ختم کرنے اور اس اڈے کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لانا ضروری ہے۔ متحدہ عرب امارات اور دوسرے مسلمان ملکوں کے حکمرانوں سے بھی بات چیت اور انتظامات کو نئی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ جس طرح امریکا نے اس اڈے کو استعمال کیا ہے،   اس سے وہ تمام مقاصد پارہ پارہ ہوگئے ہیں جن کی خاطر ماضی میں انتظامی معاملات طے ہوئے تھے۔ اب بالکل نئی صورت حال ہے اور اس کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
  •  امریکا اور پاکستان کے درمیان ویزے کے نظام کی مکمل تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔   یہ کام وزارتِ خارجہ کے زیرانتظام ہونا چاہیے۔ وزارتِ داخلہ، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دوسری متعلقہ وزارتوں کا اپنے اپنے دائرۂ کار کے سلسلے میں کردار ہے، لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں نئے قواعد و ضوابط وضع کرنا ضروری ہے۔
  •  سفارتی عملے کی تعداد، ان کا عملی کردار، ان کے قواعدو ضوابط سفارت کاری کے معروف اصولوں اور روایات کے مطابق ہونا چاہییں۔ جو استثنائی کردار ماضی میں رہا ہے، اسے درست کرنے اور ضابطوں کی حدود میں لانے کی ضرورت ہے۔
  •  تمام معاہدات کا لازماً تحریری شکل میں ہونا اور ان کی پارلیمنٹ سے توثیق ضروری ہے۔ اس سے پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی قائم ہوگی اور یہ امر حقیقی جمہوریت کی طرف پیش قدمی ہوگا۔
  •  امریکی اور ناٹو افواج کو راہداری کی جو سہولت دی گئی ہے اس پر نظرثانی کی جائے۔ اس کی نگرانی ہو اور اس سے جو نقصانات سڑکوں، پُلوں اور انفراسٹرکچر کو ہورہے ہیں، ان کی تلافی کا مکمل انتظام ہونا چاہیے۔
  •  ڈرون حملوں کا معاملہ سب سے اہم ہے۔ ان کو فی الفور رُکنا چاہیے، ورنہ جیساکہ پارلیمنٹ نے کہا ہے راہداری کی سہولت کو پورے عزم کے ساتھ روک دینا چاہیے، تاآنکہ تمام معاملات باہمی رضامندی سے، نئے انتظامات کے ساتھ طے نہ ہوپائیں۔ واضح رہے کہ اگر امریکا اس معاملے میں خودسری کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ پوری قوم اس کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو اور افواجِ پاکستان اس سلسلے میں اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کردار ادا کریں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں روس کے سلسلے میں اسی طرح کی ایک صورت حال سرحدوں کی خلاف ورزی کی رونما ہوئی تھی اور وزیراعظم محمد خاں جونیجو کی حکومت نے ایک جرأت مندانہ فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں روسی طیاروں کو سبق سکھایا گیا اور ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کا دروازہ بند ہوگیا۔
  •  امریکا پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مسئلے کاحل صرف سیاسی ہے۔ اگر امریکا خود طالبان سے مذاکرات کا سہارا لے رہا ہے تو پاکستان کو کیوں مجبور کرتا ہے کہ وہ سیاسی حل کی جگہ فوجی قوت کا استعمال کرے اور حالات کو اپنے اور دوسروں کے لیے خراب اور خراب تر کرے۔
  •  افغانستان کا استحکام اور امن علاقے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے افغانستان کی تمام سیاسی قوتوں کا باہمی قومی اتفاق راے ضروری ہے۔ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کو افغانستان کی حاکمیت کے پورے احترام کے ساتھ علاقائی امن کی خاطر مفاہمت کی بنیاد پر آیندہ کے تعلقات کو استوار کرناہوگا۔ اس سلسلے میں جہاں ہمسایہ ممالک کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے مکمل گریز کرنا چاہیے، وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمسایہ ممالک کو جو  اسٹرے ٹیجک فکرمندیاں (concerns) ہیں، خصوصیت سے علاقے میںبھارت کے کردار کے بارے میں، ان کا معقول حل باہمی مشورے سے نکالا جائے۔

امریکا سے تعلقات اور افغانستان مسئلے کا حل اس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرکے معاملات کو سلجھایا جانا مشکل ہے۔ جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جس مفاہمتی عمل کا آغاز ہواہے، وہ ایک مفید اور ضروری اقدام ہے اور افغان مسئلے کا حل افغانستان ہی کی تمام قوتوں کو مل جل کر کرنا ہے، وہیں پاکستان، ایران، وسط ایشیا کی ملحقہ ریاستوں اور خود چین کو بھی اس عمل میں ایک کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ کردار ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کی شکل میں نہیں، بلکہ افہام و تفہیم کے ذریعے سب کے مشترک مفاد کی بنیاد پر ہو تو امن، سلامتی اور ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہی تاریخ کا سبق ہے جس کا جتنا احترام ہوسکے اتنی ہی ہماری کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گی۔

 

یہ ایک المیہ ہے کہ ایک مدت سے پاکستان میں سالانہ بجٹ عوام کے لیے خوشی کا کوئی پیغام لانے سے قاصر رہا ہے۔ بجٹ آنے سے پہلے خوف اور اس کے اعلان کے بعد مایوسی قوم کا مقدر بن گئے ہیں۔ بجٹ سازی کے عمل میں عوام، سول سوسائٹی کے اہم ادارے، حتیٰ کہ معیشت کے ان عناصر کا، جن پر اسے اثرانداز ہونا ہے (stake holders) کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ اور اگر چند نمایشی مشاورتی نشستوں کا تکلف کیا بھی گیا، تب بھی بجٹ پر ان کے نقوش کہیں بھی     نظر نہیں آتے۔ اس سال کا بجٹ بھی غیرمعمولی معاشی حالات کے باوجود، معمول کے مطابق  روایتی کارروائی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ بجٹ محض حکومت کی آمد و خرچ کا ایک میزانیہ نہیں   ہوتا بلکہ وہ دستور کے دیے ہوئے معاشی، سیاسی اور معاشرتی پالیسیوں کے فریم ورک میں اور اربابِ حکومت کے عوام سے کیے ہوئے وعدوں اور ان کی ضروریات اور عزائم کی تکمیل کے لیے جامع پالیسیوں یا ان کے فقدان کا مظہر ہوتا ہے۔ بجٹ اعداد و شمار کا کھیل نہیں ہوتا اور اس کا کام  جمع و تفریق کے ذریعے مالی بیلنس شیٹ کی خانہ پُری بھی نہیں ہوتی۔ حکومت کے اخراجات کی ہرمد اور آمدنی کا ہرذریعہ ایک معاشی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس کے دُوررس اثرات ملک کی معیشت اور عوام کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ بجٹ یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ حکومت کی ایک پورے سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ، اور اس کارکردگی کی روشنی میں اگلے سال بلکہ سالوں کے لیے صحیح منصوبہ بندی کی جائے، مستقبل کے لیے مناسب پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی تشکیل ہو اور ان پر عمل درآمد کے لیے جن مالیاتی وسائل کی ضرورت ہے، ان کی فراہمی اور خرچ کی مدات اور  مقدار کا حقیقت پسندانہ پروگرام قوم اور اس کے نمایندوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کی تائید اور توثیق سے اگلے سال کا تفصیلی پروگرام مرتب کیا جائے۔

  • یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں بجٹ سازی کا عمل چار سے چھے مہینوں پر محیط ہوتا ہے۔ ایک ایک مد پر کھل کر بحث کی جاتی ہے اور جمہوری نقدواحتساب کے ذریعے آخری فیصلے کیے جاتے ہیں اور اس اصول پر سختی سے عمل ہوتا ہے کہ کوئی ٹیکس منتخب نمایندوں اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر عائد نہ کیا جائے اور تمام اخراجات ان حدود کے اندر ہوں جو پارلیمنٹ نے طے کی ہیں۔ ایک وزارت یا پروجیکٹ کے لیے طے شدہ رقوم کے اندر جزوی تبدّل تو انتظامیہ کرسکتی ہے لیکن کوئی نئی تخصیص (appropriation) پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ اس کو no taxation without legislation (قانون سازی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں) کے مشہورِ زمانہ اصول کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پاکستان میں بجٹ سازی کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں پارلیمنٹ میں بمشکل تین ہفتے اور صوبائی اسمبلیوں میں تو ایک ہی ہفتے میں بجٹ پیش ہوکر منظور ہوجاتا ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ اِلاماشاء اللہ بجٹ کے موقعے پر فراہم کی جانے والی دستاویزات کی ورق گردانی کی زحمت بھی نہیں کرتے اور پارٹی کے حکم کے تحت بجٹ منظور کردیتے ہیں۔ عوام اور میڈیا کی آہ و بکا کا کوئی اثر نہ حکومت پر ہوتا ہے اور نہ عوام کے نمایندے ہی عوام کا مقدمہ لڑنے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ یہ بڑی ہی مایوس کن صورت حال ہے جس سے عوام کا اعتماد سیاسی قیادت پر بُری طرح مجروح ہورہا ہے اور ملک و قوم کو معاشی بحران کے گرداب سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔

ملک کے دستور (دفعہ ۸۴) میں ایک اہم سقم یہ ہے کہ حکومت کو بجٹ کے باہر اخراجات کی آزادی بھی حاصل ہے جسے ضمنی گرانٹ کے نام پر ہرسال بجٹ کے موقعے پر سندِجواز دے دی جاتی ہے اور اس طرح حکومت کو پارلیمنٹ اور بجٹ دونوں کا مذاق اُڑانے کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔ اس سال (۲۰۱۱ء-۲۰۱۰ء) بھی بجٹ میں کل حکومتی اخراجات کے لیے ۱۸۹۱؍ارب روپے کی حد مقرر کی گئی تھی مگر حکومت نے اس سے ۳۸۷؍ارب روپے زیادہ خرچ کیے جو بجٹ کا ۴ء۲۰ فی صد بن جاتا ہے۔ یہ اس وقت جب کہ آمدنی کی مد میں جو متوقع رقم رکھی گئی تھی اصل ٹیکس کی آمدنی اس سے ۱۰۰؍ ارب روپے کم ہوئی۔ یہ مالیاتی بے قاعدگی (fiscal indiscipline) کی بدترین مثال ہے اور پارلیمنٹ نے سینیٹ کے انتباہ کے باوجود چند منٹ میں اس اضافی گرانٹ کی منظوری دے دی اور حکومت کا کوئی احتساب نہیں کیا۔

پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو، اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں۔ حکومت نے اپنا چوتھا بجٹ پیش کیا ہے اور توقع تھی کہ اس وقت ملک جس معاشی بحران میں مبتلا ہے، اس بجٹ میں اس سے نکلنے کے لیے کوئی مؤثر اور حقیقت پسند پالیسی اور اس پر عمل کا مکمل نقشۂ کار پیش کیا جائے گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!

پیپلزپارٹی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنے اقتدار کے چاروں ادوار میں کوئی ایسا وزیرخزانہ پسند نہ آیا جو معاشیات پر گہری نظر رکھتا ہو اور ملک کی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاسی نعرے بازی اور نظریاتی شوروغوغا تو بہت تھا مگر افسوس ہے کہ ان ساڑھے پانچ سالوں میں کوئی ٹھوس اور مربوط معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر مبشرحسن نے نظریاتی اعتبار سے چند اقدام کیے لیکن معیشت پر ان کی گرفت نہیں تھی۔ سارا نظام بیوروکریسی کے ہاتھوں میں تھا اور غلام اسحاق خاں، وی اے جعفری اور ایم ایم احمد اصلی کرتا دھرتا تھے۔ محترمہ بے نظیر کے اقتدار کے دونوں ادوار میں وی اے جعفری حالات کے کرتا دھرتا رہے اور احسان الحق پراچہ اور نوید قمر کو مختصر مدت کے لیے  وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری ملی مگر دونوں کوئی ابتدا بھی نہ کرسکے۔ زرداری گیلانی کے تازہ ادوارِ اقتدار میں بھی پارٹی درآمد شدہ وزارے خزانہ کی مرہونِ منت ہے اور پاکستان ورلڈبنک، آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے دیے ہوئے خطوط پر چلنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ رہی سہی کسر امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور مفاد پرست اربابِ اقتدار کی نااہلی، کرپشن اور بے تدبیری نے نکال دی ہے۔ یہ تین ساڑھے تین سال معاشی اعتبار سے بدترین سال رہے ہیں۔ اس عرصے میں چار بار وزیرخزانہ تبدیل ہوئے، چار بار وزارتِ خزانہ کے سیکرٹری اور تین بار اسٹیٹ بنک کے گورنر بدلے۔ معاشی منصوبہ بندی کمیشن میں بھی اُکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی اور معاشی امور سے  متعلقہ نصف درجن وزارتوں میں کوئی ہم آہنگی موجود نہ تھی۔ ہر ایک اپنی چلانے کی کوشش کرتا رہا اور معیشت کا حال بد سے بدتر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ جناب شوکت ترین نے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی اور ملک استحکام کے نام پر معاشی جمود اور اس کے ساتھ افراطِ زر اور بے روزگاری اور غربت میں اضافے کے بھنور میں گرفتار ہوگیا۔

پیپلزپارٹی کے اقتدار کے اس دور میں معاشی ترقی کی رفتار پاکستان کی تاریخ میں پست ترین رہی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ترقی کی رفتار چھے اور سات فی صد تک رہی۔ ۱۹۵۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ سارے نشیب و فراز اور باربار کی امریکی پابندیوں کے باوجود اوسط رفتار ترقی سالانہ پانچ فی صد رہی۔ یہ صورتِ حال پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ میں پہلی بار رونماہوئی ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں اوسط رفتار ترقی ۵ء۲ فی صد رہی ہے جو آبادی میں ۱ء۲ فیصد اضافے کے بعد ترقی کے مفقود ہونے اور حقیقی جمود (stagnation) کی غماز ہے۔ اس پر مستزاد مہنگائی اور افراطِ زر ہے جس کی اوسط شرح ان چار برسوں میں ۱۵ فی صد رہی ہے اور اشیاے خوردونوش کی مہنگائی کا اوسط سالانہ ۱۸فی صد رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان  چار برسوں میں غربت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ وہ افراد جن کی روزانہ آمدنی ۲۵ء۱ ڈالر (۱۰۰روپے) یا اس سے کم ہے، ۲۰۰۰ء میں ۴کروڑ ۷۰ لاکھ تھی جو ۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷کروڑ ۲۰لاکھ ہوگئی ہے یعنی مطلق غربت میں ۲کروڑ ۵۰لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر غربت کی حد (poverty line) کو دو ڈالر یا ۱۷۰روپے یومیہ رکھا جائے تو ۱۸کروڑ کے اس ملک میں ۱۱کروڑ افراد اس کس مپرسی کے عالم میں مبتلا ہیں۔ ملک میں عدم مساوات میں دن دونا اوررات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف امیرطبقہ ہے جو امیرتر ہورہا ہے۔ آبادی کا ایک فی صد ہرمہینہ اوسطاً پانچ لاکھ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ اُوپر کا ۱۰ فی صد ۵۰ ہزار ماہانہ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ دوسری طرف آبادی کا وہ ۱۰ فی صد ہے جو معیشت کے پست ترین درجے میں ہے، اس کی ماہانہ آمدنی ۲۰۰۷ روپے یا اس سے بھی کم ہے۔ ان چار برسوں میں کھانے پینے کی اشیامیں اوسط اضافہ ۷۴ فی صد ہوا ہے اور بے روزگاری میں بھی ۲۰فی صد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ بجلی اور گیس کی قلت اور مہنگائی نے حالات کو اور بھی خراب کردیا ہے۔ زراعت اور بڑی صنعت میں ترقی کی رفتار یا منفی رہی ہے یا براے نام اضافہ ہوا ہے۔

Pew ریسرچ سنٹر نے راے عامہ کا جو جائزہ ۲۱جون ۲۰۱۱ء کو شائع کیا ہے، اس کی رُو سے آبادی کے ۹۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ملک غلط سمت میں جارہا ہے اور ۸۵فی صد نے کہا ہے ملک کی معاشی حالت خراب اور ناقابلِ برداشت ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن یہ امرہے کہ آبادی کا ۶۰فی صد مستقبل میں بھی معاشی حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں رکھتا۔آبادی کے ۹۷ فی صد کی نگاہ میں سب سے اہم مسئلہ مہنگائی اور۸۹ فی صد روزگار کے مواقع کے فقدان کو قراردیتا ہے۔ جرائم کے فروغ اور دہشت گردی کے اضافے میں دوسرے اسباب کے ساتھ ان معاشی حالات کا بھی اہم حصہ ہے۔ اس ملک کی تاریخ میں غربت اور افلاس تو ماضی میں بھی رہے ہیں، لیکن یہ کیفیت کبھی نہ ہوئی تھی کہ غربت کی وجہ سے اس بڑی تعداد میں لوگ خودکشی کے مرتکب ہوں، اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں ہلاک کر دیں یا سرعام ان کو بیچنے پر مجبور ہوجائیں۔ ایک طرف حالات کی یہ سنگینی ہے اور دوسری طرف اربابِ اقتدار کا یہ حال ان کے عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں۔ ان کی شہ خرچیاں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بدعنوانی، کرپشن اور قومی دولت کے غلط استعمال کا بازار گرم ہے۔ تعجب ہے کہ جب آبادی کے ۷۵ فی صد کی یومیہ آمدنی ۱۷۰ روپے یا اس سے کم ہے صرف     ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کا روزانہ خرچ ۲۵ لاکھ روپے ہے۔ اور صرف صدر اور وزیراعظم کے بیرونی دوروں پر خرچ ہونے والی رقم ۲؍ارب روپے ہے___ یعنی روزانہ ۵۵لاکھ روپے۔

ایک طرف عوام کی یہ حالت زار ہے اور دوسری طرف قومی خزانے کو کس طرح لوٹا جارہا ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ورلڈبنک کے اندازوں کے مطابق ٹیکسوں کی چوری سالانہ ۱۰۰۰؍ ارب روپے سے ۱۲۰۰؍ ارب روپے ہے۔ ایف بی آر کے حساب سے جو ٹیکس ادا ہورہا ہے اس کا ۷۹ فی صد چوری ہو رہا ہے۔ ورلڈبنک کے مطابق یہ تناسب ۶۹ فی صد ہے۔ اگر صرف اس ٹیکس چوری کا ۵۰ فی صد وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔

زندگی کے ہرشعبے میں کرپشن کا راج ہے۔ ورلڈبنک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اندازے کے مطابق ۳۰۰؍ارب روپے سے ۶۰۰؍ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں۔ ناقص کارکردگی اور ضیاع (leakages) ان پر مستزاد ہیں۔ حالات ابتری کی کس انتہا پر ہیں، اس کااندازہ    اس سے کیجیے کہ اے جی پی آر کی سرکاری رپورٹ کے مطابق اس حکومت کے پہلے سال میں صرف کھلی کھلی بے قاعدگیوں کے نتیجے میں ۳۳۰؍ارب روپے کے وہ اخراجات ہوئے ہیں جن کا کوئی جواز نہ تھا۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تقریباً سارے ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ ان کی نااہلی اور بدعنوانی کے نتیجے میں سرکاری خزانے سے ۴۰۰ سے ۶۰۰؍ارب روپے عام آدمی کا پیٹ کاٹ کر ان کو دیے جارہے ہیں۔ وزارتِ قانون نے کسی قانونی استحقاق کے بغیر کروڑوں روپے اپنی من پسند بار ایسوسی ایشنوں کو بانٹ دیے، صرف ایک وزارت نے ۳؍ارب روپے خفیہ فنڈ کے نام پر اُڑا دیے۔ ترقیاتی منصوبوں میں ۳۰ فی صد ایسے ہیں جن کو مشکوک قراردیا گیا ہے۔ ورلڈبنک نالاں ہے کہ جس پروجیکٹ کو ۳۴ ماہ میں پورا ہونا چاہیے وہ ۶۸مہینے لے رہا ہے۔ پروجیکٹ کی لاگت میں ۱۰۰فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ پلاننگ کمیشن اور  قومی معاشی کونسل کی معاشی کمیٹی (ECNEC) کی بے تدبیری کا یہ حال ہے کہ اس اعلیٰ ترین معاشی ادارے نے جو منصوبے منظور کیے ہیں ان میں سے ۸ء۲۷ فی صد ایسے ہیں جن کو منظور کردیا گیا ہے مگر ان کی کوئی تفصیلی رپورٹ موجود نہیں ہے۔ بس خانہ پُری کے لیے اعلان کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں منصوبے ایسے ہیں جن میں اربوں روپے صرف ہوگئے ہیں لیکن عملاً ان منصوبوں کے کبھی بھی   پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔

بجٹ اور زمینی معاشی حقائق میں کوئی ربط و تعلق نہیں۔ حکومت کی گرفت نہ معاشی زمینی حقائق پر ہے اور نہ اس کے پاس معاشی تشکیلِ نو کا کوئی واضح اور مربوط وژن ہے۔ المیہ یہ ہے کہ

رو ہیں رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

سالِ گذشتہ کے بجٹ میں جو متعین اہداف بیان کیے گئے تھے، ان میں سے تقریباً ہر ایک کے بارے میں موجودہ بجٹ اور بجٹ کے ساتھ پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق وہ پورے نہیں ہوئے۔ معاشی ترقی کی رفتار، زرعی اور صنعتی پیداوار، روزگار کے مواقع، افراطِ زر کی شرح، ٹیکس کی آمدنی، بجٹ خسارے کی مقدار ___کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کا ہدف ۵ء۴ فی صد تھا جو صرف ۴ء۲ فی صد پر رک گئی ہے۔ آزاد معاشی ماہرین کی راے میں عملاً یہ ایک فی صد سے زیادہ نہیں۔ افراطِ زر کو ۹ فی صد پر لانے کا دعویٰ تھا مگر عملاً وہ ۱۴ فی صد سے زیادہ ہے، یعنی صارفین کا قیمتوں کا اشاریہ لیکن اگر تھوک قیمتوں کے اشاریے کو لیا جائے تو    وہ ۲۹ء۲۳ فی صد تھا۔ GDP تقلیلِ زر ۱۹ فی صد ہے جو افراطِ زر کو ناپنے کا ایک بہتر ذریعہ ہے۔ نتیجتاً ملک اس معاشی بیماری میں شدت سے مبتلا ہے جسے stagflationکہا جاتا ہے، یعنی ایک طرف معیشت میں جمود ہے تو دوسری طرف اس کے ساتھ افراطِ زر بھی عروج پر ہے اور اس طرح    ایک کریلا وہ بھی نیم چڑھا کی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔

حکومت کے اخراجات بے قابوگئے ہیں۔ ۹۹-۱۹۹۸ء میں حکومت کے کل غیرترقیاتی اخراجات ۵۴۷؍ارب روپے تھے جو ۱۱-۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۱۸۹۱؍ارب روپے ہوگئے اور آیندہ سال یعنی ۱۲-۲۰۱۱ء میں مزید بڑھ کر ۲۳۱۵؍ارب روپے ہوجائیںگے۔ جن میں صرف قرضوں پر سود اور ناگزیر قسطوں کی ادایگی کے لیے سالِ رواں میں ۷۹۱؍ارب روپے صرف ہوجائیں گے۔ دفاع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اتنی ہی رقم مزید درکار ہوگی یعنی تقریباً ۸۰۰؍ارب۔ حکومت کے انتظامی اخراجات کے لیے بجٹ کا بمشکل ۱۰ فی صد میسر ہوگا جس کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں کی ادایگی کے بعد شاہ خرچیوں کی نذر ہوگا، کاروبار مملکت چلانے کے لیے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر انحصار ہوگا۔ یہی وجہ ہے سارا نظام ’قرض کی مئے‘ کے سہارے چل رہا ہے اور اس غریب قوم پرقرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گذشتہ ۶۰برسوں میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا کُل حجم ۴۷۰۰؍ا رب روپے تھا جو ان چار برسوں میں بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے کی حدوں کو پھلانگ گیاہے۔ یعنی صرف ان چار برسوں میں گذشتہ ۶۰سال میں لیے جانے والے ۴۷۰۰؍ارب روپے کے قرض میں ۵۰۰۰؍ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوگیاہے۔ اگر یہی طورطریقے جاری رہے تو خطرہ ہے کہ اگلے سال اس میں مزید ایک سے ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس لیے کہ اندازے کے مطابق اگلے مالی سال میں صرف بجٹ کا خسارہ    ایک ہزار ارب روپے سے کم نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے خسارے کی جو رقم   کم دکھائی گئی ہے خسارے کا اس کی حدود میں رہنا ناممکن ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے خسارے کو کم رکھنے کی وجہ یہ توقع ہے کہ صوبوں میں ۱۲۵؍ارب روپے زائد (surplus) ہوں گے لیکن اگلے سال کے لیے چاروں صوبوں کا بجٹ آگیا ہے اور ان میں مجموعی بچت بمشکل ایک ارب روپے بنتی ہے۔ باقی ۱۲۴؍ارب روپے کہاں سے آئیںگے؟

مرکزی حکومت کو مرکزی بنک اور کمرشل بنکوں سے قرض لینا ہوگا۔ بہت سے مصارف کم اور بہت سی آمدنی رقوم کو قابلِ وصول حد سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔ مثلاً اسٹیٹ بنک سے نفع کو ۱۲۰۰؍ارب دکھایا گیا ہے جو ۱۶۰؍ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ٹیکس کے ہدف کے بارے میں بھی معاشی ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس میں ۱۰۰؍ارب زیادہ لگائے گئے ہیں۔ یہی صورت    تین جی لائسنسوں کے سلسلے میں ہے جس سے ۷۵؍ارب کی متوقع آمدنی رکھی گئی ہے لیکن اس کی وصولیابی مشتبہ ہے۔ اس کے برعکس معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سے اخراجات ہیں جن کو  کم لگایا گیا ہے اور خطرہ ہے کہ جس طرح ۱۱-۲۰۱۰ء میں اضافی اخراجات ۳۸۷؍ارب روپے کے ہوئے آیندہ سال بھی بجٹ میں دکھائے ہوئے اخراجات سے ۲۵۰ سے ۳۵۰؍ارب روپے کے اخراجات زیادہ ہوںگے۔ جس راستے پر موجودہ حکومت گام زن ہے، وہ تباہی کا راستہ ہے۔ فارن پالیسی میگزین نے ناکام ریاستوں کاجو گوشوارہ اسی مہینے شائع کیا ہے، اس میں اس نے دنیا کے ۱۷۲ممالک میں پاکستان کو نیچے سے ۱۲ویں نمبر پر رکھا ہے۔ ملکوں کی درجہ بندی کے تمام ہی ادارے بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت کی درجہ بندی برابر کم کررہے ہیں۔ بیرونی سرمایے کی آمد رُک گئی ہے بلکہ ملکی سرمایہ باہر جا رہا ہے حتیٰ کہ پاکستانی صنعت کار بنگلہ دیش اور دبئی کا رُخ کر رہے ہیں اور اربابِ حکومت کو ان حالات کا کوئی ادراک نہیں۔

معاشی میدان کے بڑے چیلنج

اس وقت معاشی میدان میں جو سب سے بڑے چیلنج درپیش ہیں وہ یہ ہیں:

۱- غربت اور اس میں مسلسل اضافے کا رجحان

۲- معاشی ترقی کی رفتار کا ٹھٹھر جانا، جس کا مظہر سرمایہ کاری میں کمی، صنعت اور زراعت میں جمود، روزگار کے مواقع کا مسدود ہوجانا، اور بے روزگاری میں اضافہ ہے۔

۳-مہنگائی اور وہ بھی ہوش ربا مہنگائی۔

۴- مالیاتی بے قاعدگی جس کے نتیجے میں اخراجات اور وہ بھی غیرترقیاتی اخراجات میں بے پناہ اضافہ اور حکومت کے ترقیاتی مصارف میں کمی۔ یہ مصارف ۱۰، ۱۵ سال پہلے قومی پیداوار کا ۷فی صد ہوا کرتے تھے اور اب ۳فی صد سے بھی کم ہوگئے ہیں۔ غیرترقیاتی اخراجات میں اضافے کے ساتھ، قرض کے بار میں اضافہ اور ٹیکس اور دوسری آمدنیوں میں خاطرخواہ اضافے کی کمی ہوئی جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جسے Fiscal Responsibility Act کہتے ہیں، اس کی رُو سے نہ صرف حکومتی خسارے کو ایک حد میں رہناتھا بلکہ ہرسال اس میں اڑھائی فی صد کمی کرنی تھی اور ۲۰۱۳ء تک بجٹ کے خسارے کو ختم کرنا تھا۔ حکومت نے ان چار برسوں میں اس قانون کے الفاظ اور روح، دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور آج مالیاتی خسارہ معیشت کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے۔

۵- بیرونی قرضوں میں اضافہ اور عالمی سطح پر ملک کو مریضانہ حد تک محتاجی سے دوچار کردینا۔ اگلے سال سے آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادایگی بھی شروع ہونا ہے۔ اس وقت ۷سے ۸؍ارب ڈالر سالانہ قرض ادایگی کی نذر کرنا پڑرہے ہیں اور قرض کی یہ ادایگی بھی نئے قرض سے کرناپڑرہی ہے۔اگربیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر جو اَب ۱۰ سے ۱۲؍ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہیں، نہ ہوتیں تو ہمارے زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر ختم ہوچکے ہوتے اور ملک خدانخواستہ دیوالیہ ہوجاتا۔ اس خطرناک صورت حال کا حکومت کو کوئی اِدراک نہیں اور اس کے مقابلے کے لیے کوئی حکمت عملی اس بجٹ میں موجودنہیں۔

۶- ملکی معیشت میں ایک اور عدم توازن حقیقی پیداوار یعنی زراعت، صنعت (بڑی، وسطی اور چھوٹی) اور توانائی سیکٹر کا سکڑجانا اور صارفین سیکٹر اور خدمات سیکٹر کا پھیلائو ہے۔یہ عدم توازن شوکت عزیز صاحب کے زمانے میں شروع ہوا اور اب خطرناک حدود میں داخل ہوچکا ہے۔ لیکن بجٹ میں اس عدم توازن کو دُور کرنے اور پیداواری سیکٹر کو فروغ دینے کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔

۷- ایک اور بنیادی مسئلہ دولت کی عدم مساوات اور اس میں مسلسل اضافہ، اور ٹیکسوں کا ایسا نظام ہے جس کا بوجھ امیرطبقات کے مقابلے میں غریبوں پرزیادہ پڑرہا ہے۔ ٹیکس کا ۶۲ فی صد بالواسطہ ٹیکس ہے جس کا بڑا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۷۵ فی صد غریب آبادی کو اپنی آمدنی کا ۱۰ فی صد ٹیکس میں دینا پڑ رہا ہے، جب کہ امیرطبقے کی آمدنی پر بلاواسطہ ٹیکس کا جو بوجھ ہے، وہ ان کی آمدنی کا بمشکل پانچ فی صد بنتا ہے۔ نیز امیر طبقوں کے کئی اہم حصے ایسے ہیں جو عملاً ٹیکس کے جال سے باہر ہیں۔ خاص طور پر بڑے زمین دار جن کی آمدنی میں صرف گندم کی قیمت بڑھانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے کا سالانہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ ان کی آمدنی ٹیکس کی گرفت سے باہر ہے۔ غضب ہے کہ صوبوں نے جو براے نام ٹیکس بڑے زمین داروں پر لگایا ہے، اس سے نہ صرف یہ کہ پورے ملک سے بمشکل ایک ڈیڑھ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں بلکہ سندھ میں تازہ بجٹ کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس مد سے آمدنی ۵۰۰ ملین روپے ہورہی تھی جو اس سال کم ہوکر ۱۵۰ ملین روپے رہ گئی ہے۔ یہی حال ملک کی خریدوفروخت، اسٹاک ایکسچینج کے تاجروں اور بڑے بڑے پیشوں سے متعلق افراد کا ہے جن میں وکیل، ڈاکٹر، مشیر، اکائونٹنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نظام ملک کی دولت کی عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے۔ امیرامیر تر ہو رہا ہے اور غریب پر محصولات اور افراطِ زر دونوں کی وجہ سے بوجھ بڑھ رہا ہے۔

۸- کرپشن ایک ناسور کی طرح معیشت کے ہرشعبے کو کھارہا ہے اور صدرسے معمولی اہل کار تک ہرکوئی اس بگاڑ میں شامل ہے۔ آج پاکستان دنیا کے ۱۰ کرپٹ ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہہ یہ نظام کی خرابی ہے مگر اس بگاڑ کو اپنی انتہا تک پہنچانے میں تین چیزوں کا خاص دخل ہے: ایک قیادت کا اپنا کردار اور مثال، دوسرا انتظامی امور میں صواب دیدی راے کا عمل دخل اور تیسرے ملک میں احتساب کے مؤثر اور شفاف نظام کا فقدان۔

غضب ہے کہ نیب کا ادارہ عضو معطل بنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود احتساب کے نظام کو  فعال کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ ستم بالاے ستم کہ قومی اسمبلی میں احتساب کے قانون کا مسودہ دواڑھائی سال سے زیرغور ہے لیکن مفاد پرست عناصر اس کوقانون نہیں بننے دیتے۔ کرپشن کو سختی سے ختم کیے بغیر ملک کے لیے معاشی دلدل اور ظلم اور ناانصافی کے چنگل سے نکلنا محال ہے۔ کرپشن ہی کی ایک شکل میرٹ کا خون ہے۔ موجودہ حکومت کا ریکارڈ   اس سلسلے میں سب سے خراب ہے۔ اس نے جس طرح سیاسی اور شخصی مقاصد کے لیے نااہل لوگوں کو ذمہ داری کے مناصب پر لگایاہے اور عدالت، میڈیا اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے علی الرغم ہرجگہ اپنی من مانی کی ہے، اس نے انتظامی مشینری، فیصلہ سازی کے نظام اور شعبہ انتظامیات کے پورے دروبست کو تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں قانون اور ضوابط کے مطابق خالص میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہورہی ہوں۔ اس سے انتظامی مشینری کی چولیں ہل گئی ہیں اور حکومت کے نظام میں ہر جگہ نااہلی اور بدعنوانی اور بددیانتی کا بازار گرم ہے۔ حالات پہلے بھی بہت اچھے نہ تھے مگر زرداری گیلانی دور کے بارے میں تو یہ خرابیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔

۹- پبلک سیکٹر کے تقریباً تمام ہی اہم کاروباری ادارے آج خسارے میں جارہے ہیں اور ان کو زندہ رکھنے کے لیے سرکاری خزانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنا پڑر ہے ہیں جو صریح ظلم ہے۔ اس کی وجہ سے وہ شعبہ ہاے زندگی سب سے زیادہ وسائل سے محروم ہورہے ہیں جن پر کسی ملک کے مستقبل اور خوش حال فلاحی معاشرے کا قیام اور فروغ ممکن ہے۔ یعنی تعلیم، صحت اور فنی ضرورتوں کی روشنی میںانفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ۔ ۱۵سال پہلے تعلیم پر کُل قومی دولت کا اڑھائی فی صد صرف ہو رہاتھا اور اسے چارفی صدتک لے جانے کی کوشش ہورہی تھی۔ مگر اب یہ کم ہوکر۸ء۱ فی صد رہ گیاہے۔ صحت پر اخراجات کا یہ تناسب ۸ء فیصد تھا جو اب کم ہوکر ۶ء فی صدرہ گیا ہے، جب کہ تعلیم پر قومی دولت کا کم از کم چارسے چھے فی صد اور صحت پر دو سے تین فی صد صرف ہونا چاہیے۔ سندھ کے بارے میں ایک تازہ ترین سروے کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ وہاں ۴۲ہزار اسکولوں میں صرف ۷ہزار ایسے ہیں جو حقیقت میں برسرِکار (functional ) ہیں ورنہ ایک نمایاں تعداد بھوت اسکولوں کی ہے جن کا کوئی وجود نہیں۔ ان اسکولوں کا ۷۰ فیصد ایسا ہے کہ وہاں صرف ایک کمرہ اور ایک استاد ہے اور ایک کلاس میں طلبہ کی اوسط تعداد صرف سات ہے۔ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔

خارجہ پالیسی اور معیشت

ملک کی معاشی حالت کو جن نکات میں ہم نے اُوپر بیان کیا ہے، وہ ایسے ہیں کہ انسان کا دن کا چین اور رات کا آرام مشکل ہوجاتا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ قیادت کو ان کا کوئی احساس نہیں۔ وژن، دیانت اور صلاحیت ہر ایک کا فقدان ہے۔ عوام نے جو توقعات ان سے وابستہ کی تھیں اور جس حکمرانی اور جمہوری انداز میں ملک کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ان کو سونپی تھی، اس کو انھوں نے بُری طرح پامال کیا ہے۔ ان کی اپنی نااہلی کے ساتھ ان کی خارجہ پالیسی بھی معاشی حالات کو دگرگوں کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکا دہشت گردی کے نام پر جو کھیل کھیل رہا ہے وہ سب کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔

امریکا کے اپنے عالمی عزائم ہیں اور وہ ان کے حصول کے لیے اس جنگ کو نت نئے رنگ میں آگے بڑھا رہا ہے حالانکہ خود اسے ان ۱۰برسوں میں ۵ سے ۶ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ صرف افغانستان میں ۱۰۰؍ارب ڈالر جنگ کی آگ میںجھونک رہا ہے اور کسی ایک میدان میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہورہی اور بالآخر اب جولائی ۲۰۱۱ء سے انخلا کی حکمت عملی پر عمل شروع کر رہا ہے۔ اس کے بعد اب پاکستان کو میدانِ جنگ  میں تبدیل کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس سال کے معاشی سروے میں حکومت نے خود اس معاشی قیمت کا ایک اندازہ پیش کیا ہے جو پاکستان کو امریکا کی جنگ میں شرکت کی وجہ سے برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی قوم نے پہلے دن سے اسے اپنی جنگ نہیں سمجھا اور Pew کا جو تازہ سروے آیاہے اس کی رُو سے پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد امریکا کی اس جنگ کے خلاف ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے، جب کہ اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ۳۵ہزارپاکستانی عوام شہید ہوئے ہیں اور۶ہزار پاکستانی فوجی اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد لقمۂ اجل بنے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ اور بے گھر ہونے والے ۵۰لاکھ سے زیادہ ہیں۔ یہ تو وہ نقصانات ہیں جن کا روپوں اور ڈالروں میں کوئی اندازہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن جونقصانات بلاواسطہ اور بالواسطہ خالص معاشی میدان میں اُٹھانے پڑر ہے ہیں، ان کا اندازہ بھی ۶۸بلین ڈالر ہے جو پاکستانی روپوں میں ۸ء۵۰۳۶؍ ارب روپے ہوجاتا ہے جو اس نام نہاد امریکی امداد سے جو ان ۱۰برسوں میں کسی بھی شکل میں بشمول پاکستان کی فوجی خدمات کے عوض دی گئی ہیں پانچ گنا زیادہ ہے۔ یعنی اس جنگ میں جو امریکا کے ہر ایک ڈالر کے مقابلہ میں پاکستان کے غریب عوام نے پانچ ڈالر کا بوجھ اُٹھایا ہے۔ یہ صرف معاشی پہلو ہے____ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو جو نقصان پہنچا ہے اور جو انسانی تباہی و بربادی ہوئی ہے وہ اس کے سوا ہے۔

نکلنے کا راستہ

سوال یہ ہے کہ ان حالات سے نکلنے کاراستہ کیا ہے؟ بات بہت واضح ہے کہ پاکستانی قوم اور قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا اور اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا کی اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جلد از جلد نکلنا اور جو تباہی اس کی وجہ سے پاکستان میں ہوئی ہے کم از کم    اس سے بچنے کا آغاز۔

لیکن دوسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں کہاں جانا ہے، ہمارے اپنے قومی مفادات کیا ہیں، ہمیں کس قسم کی معیشت قائم کرنی ہے اور پاکستان کی شناخت اور اس کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی منزل کا صحیح صحیح تعین___ اور پھر اس کی روشنی میں پوری معاشی پالیسی، معاشی منصوبہ بندی اور بجٹ سازی کی نئی راہ کا تعین، گویا امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور پاک امریکی تعلقات کے موجودہ انتظام سے اپنے کو علیحدہ کرنا اور بالکل نئے اہداف اور مقاصد کے مطابق امریکا سے شرائط معاملہ (terms of engagment)کو ازسرِنو مرتب کرنا اور اسی طرح پاکستان کے تاریخی اور قومی مفادات کی روشنی میں معاشی حکمت عملی کی تشکیلِ نو۔

پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جو مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود آج غربت، بے روزگاری، مہنگائی، توانائی کے بحران اور قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کی اصل وجہ اس وژن کوبھول جانا ہے جس نے تحریکِ پاکستان کو جنم دیا تھا اور مقصد سے بے وفائی جس کے لیے ملتِ اسلامیہ پاک و ہند نے قائداعظم کی رہنمائی میں عظیم قربانیاں دے کر یہ خطۂ زمین حاصل کیا تھا۔ اس کی دوسری وجہ اچھی قیادت کا فقدان، یا بہ الفاظ صحیح تر، ملک پر ایک ایسی قیادت کا غلبہ جو وژن، دیانت اور صلاحیت سے محروم ہے اور جس کے سامنے اپنے ذاتی مفادات کے سوا کوئی اور مقصد نہیں۔ وژن اور منزلِ مقصود کے باب میں مثالی نمونے کی تبدیلی (paradigm shift) اور اس کے ساتھ انقلابِ قیادت جس کے نتیجے میں ایسے لوگ برسرِاقتدار لائے جاسکیں جو پاکستان کے مقصدِ وجود سے وفادار ہوں، جودیانت اور اعلیٰ صلاحیت کا نمونہ ہوں، جو عوام میںسے ہوں اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوں اور سب سے بڑھ کر جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور اطاعت کا رشتہ رکھتے ہوں اور ان کے سامنے اپنے کو جواب دہ سمجھتے ہوں۔ صحیح وژن اور اہل قیادت___ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی ممکن ہے۔

استخلاف وہ بنیادی تصور ہے جس کے گرد زمین پر اسلام کے کردار اور اُمت مسلمہ کی اصل ذمہ داری کو سمجھا جاسکتا ہے۔ استخلاف کے تومعنی ہی یہ ہیں کہ مسلمان اللہ کے بندے کی حیثیت سے زندگی کے پورے نقشے کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ڈھالنے کی ہمہ گیر کوشش کرے اور انصاف کی بنیاد پر اجتماعی نظام قائم کرے۔ حضرت یوسف ؑکے اسوے سے یہ سبق ملتا ہے کہ خوش حالی کے سات سال اور خشک سالی کے سات سال زندگی کی حقیقت ہیں اورفراستِ نبوی کا تقاضا ہے کہ معاملات کو اس طرح انجام دیا جائے کہ خوش حالی کے ثمرات کو خشک سالی کے اَدوار تک پہنچایا جاسکے۔ اس کے لیے حکمت اور امانت دونوں درکار ہیں۔ استخلاف کی ذمہ داری اختیار، اقتدار اور وسائل کے صحیح استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں جو معاشی نظام قائم کیا اس میں محنت اور جدوجہد اور وسائل کی ترقی اور ان کا صحیح استعمال، ان کی منصفانہ تقسیم اور ان کے درست انتظام کے نتیجے میں خوش حالی، منصفانہ اور طاقت ور معاشرے کاقیام ہے، جس کی بنیادی خصوصیت حلال و حرام کے احترام کے ساتھ انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام اور آزادی اور اخوت کا ایسا ماحول قائم کرنا ہے جس میںہرفرد بحیثیت خلیفہ اپنا کردار ادا کرسکے اور کوئی کسی کا محتاج نہ ہو۔ اقبال نے اسی انقلابی تصور کو دو مصرعوں میں اس طرح ادا کردیا ہے   ؎

کس نہ باشد در جہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبیں، این است و بس

اقبال نے قائداعظم کو ملّتِ اسلامیہ ہند کی جس جدوجہد کی قیادت کی دعوت دی تھی اس کا اظہار انھوں نے اپنے ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں بڑے واضح الفاظ میں یوں کیا تھا:

ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی عمومی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کبھی غوروفکر نہیں کیا۔ روزگار کا مسئلہ زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گذشتہ ۲۰۰برسوں سے نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں۔عام طور پر وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی غربت کا سبب ہندو مہاجنی یا سرمایہ داری ہے۔ انھیں یہ شعور نہیں ہے کہ یہ بیرونی حکمرانی کا نتیجہ ہے لیکن انھیں جلد یہ ادراک ہوکر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کے بے خدا سوشلزم کو مسلمانوں کی طرف سے زیادہ پذیرائی نہیں ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کس طرح حل ہو؟ اور لیگ کے مستقبل کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ وہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرتی ہے۔

خوش قسمتی سے اس مسئلے کا حل اسلامی قانون کے نفاذ میں ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو مناسب انداز میں سمجھا اور نافذ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ہرایک کا روزگار کا حق محفوظ ہوجائے گا۔ لیکن اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد اسلامی ریاست یا ریاستوں کے بغیر ممکن نہیں۔

قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تیرھویں اجلاس میں جو دہلی میں ۲۴جولائی ۱۹۴۳ء میں منعقد ہوا تھا پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو ان الفاظ میں اور بڑے جذبات سے اداکیا:

یہاں میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کروں گا جو ہمارے وسائل کے بل پر پھلے پھولے ہیں۔  عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اسلام کا سبق بھول چکے ہیں۔ آپ دیہی علاقے میں کہیں بھی چلے جائیں میں خود دیہاتوں میں گیا ہوں۔ ہمارے لکھوکھا لوگ ہیں جنھیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ملتی ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا یہ پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال کیا جاچکا ہے اور انھیں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ اگر یہ پاکستان کا تصور ہے، تو یہ میرے پیش نظر نہیں ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ء ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:

اپنے ملک میں صنعت کاری کے ذریعے ہم اشیاے صرف کی فراہمی کے لیے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے، لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیںگے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کریں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص ۳۷۳)

اور یکم جولائی ۱۹۴۸ء بنک دولت پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

حکومتِ پاکستان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کردے جو تیار کنندہ اور صارف دونوں کے لیے منصفانہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ اس اہم مسئلہ کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کے لیے آپ کی مساعی بھی اس جہت کا لحاظ رکھیں گی۔

آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، میں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیداکردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے..... مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگاجس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ (ایضاً، ص ۵۰۰-۵۰۱)

یہ ہے پاکستان کا اصل وژن۔

دستور کی روشنی میں

۱۹۷۳ء کے دستور میں اس وژن کو اس طرح پاکستان کے اساسی قانون کا حصہ اور حکومت کے لیے پالیسی سازی کے لیے واضح ہدایت مقرر کیا گیا ہے:

دفعہ ۳ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(ا) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا ، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کااہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ (عشر) اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

دفعہ (۳۷)

(ا) پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔

(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔

(ج) فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی۔

(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔

(ہ) منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے لیے نامناسب ہوں، مقرر کرنے کے لیے احکام وضع کرے گی۔

(و) مختلف علاقوں کے افراد کو، تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہرقسم کی قومی سرگرمیوں میں، جن میں ملازمت پاکستان میں خدمت بھی شامل ہے، پورا پورا حصہ لے سکیں۔

(ز) عصمت فروشی، قمار بازی اور ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشرواشاعت اور نمایش کی روک تھام کرے گی۔

(ح) نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سواے اس کے کہ وہ طبی اغراض کے لیے یا غیرمسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کے لیے ہو، روک تھام کرے گی، اور

(ط) نظم ونسق حکومت کی مرکزیت دُور کرے گی تاکہ عوام کو سہولت بہم پہنچانے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے کام کے مستعد تصفیہ میں آسانی پیدا ہو۔

دفعہ ۳۸- مملکت

(ا) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کر کے، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر وماجور اور زمین دار و مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی۔

(ب) تمام شہریوں کے لیے، ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام و فرصت کے ساتھکام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔

(ج) پاکستان کی ملازمت میں، یا بصورتِ دیگر تمام ملازم اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمے کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔

(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہایش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی۔

(ہ) پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت، افراد کی آمدنی اورکمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی اور

(و) ربا کو جتنی جلد ممکن ہو، ختم کرے گی۔

معیشت کی اسلامی تشکیل

اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور دستورِ پاکستان میں وہ وژن بہت صاف الفاظ میں موجود ہے جو پاکستان کے معاشی، مالیاتی اور تہذیبی نظام کے خدوخال متعین کرتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری قیادت ان تمام ہدایات اور اہداف کو نظرانداز کر رہی ہے اور قوم کو ایک بحران کے اور دوسرے بحران سے دوچارکر رہی ہے۔ اسلام نے پہلے دن سے تمام معاشی وسائل کو امانت قراردیا ہے اور قیادت اور عامۃ المسلمین پر لازم کیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل انسانی محنت کے ساتھ تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوں۔ بیت المال کا ادارہ دورِخلافتِ راشدہ ہی میں قائم ہوگیا تھا اور اس کا مقصد نظامِ حکومت چلانے کے لیے جو وسائل درکار ہیں ان کے حصول اور استعمال کے ساتھ معاشرے میں خوش حالی اور فلاحِ عامہ کے لیے وسائل کا صحیح صحیح استعمال یقینی بنایا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے بیت المال کے دو شعبے قائم کیے گئے___ ایک کا تعلق ’اموال المسلمین‘ سے تھا، تودوسرے کو ’اموال الصدقہ‘ قرار دیا گیا تاکہ تمام اجتماعی اور فلاحی ضرورتیں پوری ہوسکیں گی۔ ملوکیت میں خزانہ بادشاہ کی مرضی کے تابع ہوتا تھا اور حکمران کے ذاتی اموال اور عوام کے اموال میں کوئی تمیز نہ تھی۔ لیکن اسلام نے اس کو بیت المال کا مالک نہیں امین بنایا اور دورِ ملوکیت میں بھی بیت المال الخاصّہ جو خلیفہ کے ذاتی تصرف میں ہوتا تھا، اور بیت المال المسلمین جو تمام مسلمانوں کے لیے تھا، میں واضح فرق کیا جاتا تھا۔ دولت عثمانیہ تک یہ فرق نظام کاحصہ تھا۔

ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی معیشت کی تنظیم نو اسلامی بنیادوں پر کی جائے اور دیانت اور اہلیت کے ساتھ جو وسائل اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیے ہیں ان کوترقی دی جائے اور استعمال کیا جائے تو پاکستان چند برسوں میں دنیاکے لیے نمونہ بن سکتاہے۔ ہمیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس وہ وسائل موجود ہیں جن کو دیانت اور    سمجھ داری سے ترقی دے کر پاکستان کو ایک خوش حال فلاحی معاشرہ بنایا جاسکتا ہے اور ایک ایسے نظام کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتاہے جو ترقی اور خوش حالی کا ایسا نمونہ جس میں کوئی کسی کا محتاج نہ ہواور سب ایک دوسرے کے لیے تقویت کا ذریعہ بنیں۔ ترقی کا یہ راستہ خودانحصاری اورانصاف کے قیام سے عبارت ہے اور یہی ہمارے لیے نجات کی راہ ہے۔

 

قوم ابھی ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے زخموں سے بے حال تھی کہ ۲۲مئی کو پاکستان نیوی کے مہران بیس پر دشمن نے ایک کاری ضرب لگائی، اور پاک بحریہ اپنے دفاع کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تمام دعووں اور نیول بیس پر ۱۱۰۰ محافظوں کی موجودگی کے باوجود چار یا چھے یا ۱۲سرپھرے نوجوانوں کی ۱۶گھنٹے پر محیط کارروائی کے نتیجے میں اپنے قیمتی ترین دفاعی اثاثوں سے محروم ہوگئی۔ ۱۲ عسکری جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، ۲۰سے زیادہ زخمی ہوئے، اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت پر قوم کو جو ناز تھا اور دشمن جس سے خوف زدہ تھے، اس کے بارے میں ایسے سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے جو دن کا چین اور رات کی نیند حرام کردینے والے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت کے فیصلے سے اب تک ہماری دفاعی تنصیبات اور اداروں پر ۱۲۱حملے ہوچکے ہیں جن میں فضائیہ، بری فوج، بحریہ اور آئی ایس آئی کے حساس ترین مقامات پر دشمن نے کارروائیاں کی ہیں اور ’دہشت گردی کی کمرتوڑ دینے‘ کے باربار کے دعووں کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے بلکہ کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی آنکھیں کھلیں اور پورے مسئلے کا ازسرِنو جائزہ لے کر ان ۱۰برسوں میں جو کچھ ہوا ہے، اس کا بے لاگ تجزیہ کرکے نفع اور نقصان کا مکمل میزانیہ تیار کیا جائے اور آگ اور خون کے اس جہنم سے نکلنے کے لیے نئی سوچ اور نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔

اہلِ نظر اور دانش ور ہر بڑے واقعے کو wake-up call (جاگو! جاگو!!) کہتے ہیں لیکن قیادت ہے کہ امریکا کے طلسم میں مسحور خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ امریکی ڈرون حملے روز افزوں ہیں۔ بارک اوباما، ہیلری کلنٹن اور امریکا کی عسکری قیادت حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے سفیر بھی مسلسل اعلان کر رہے ہیں کہ انھیں پاکستان پر اپنے یک طرفہ فوجی ایکشن، ہماری حاکمیت کی پامالی، اور ہمارے شہریوں کی ہلاکت پر نہ صرف کوئی افسوس نہیں اور وہ کسی قسم کی معذرت کے اظہار تک کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ دھڑلّے سے کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ ماضی میں کیا ہے، پاکستانی عوام کے سارے احتجاج اور امریکا کی مخالفت کے جذبات کے پُرزور اظہار کے باوجود، وہ پھر ویسے ہی حملے کریںگے اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے امریکا کی ان جارحانہ کارروائیوں کے خلاف جو متفق علیہ اعلان ایک بار پھر ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کو کیا ہے، اس کی وہ پرِکاہ کے برابر بھی پروا نہیں کرتے۔ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا حال یہ ہے کہ ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘،   اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن رویہ ان صحافیوں، دانش وروں، اینکر پرسنز اور سیاست دانوں کا ہے جو معروضی حقائق، عوام کے جذبات اور پارلیمنٹ کی قراردادوں کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکا کی گرفت سے نکلنے کی کوشش تباہ کن ہوگی___ گویا اس قوم کی آزادی، سالمیت، خودمختاری، عزت اور وقار سب غیرمتعلق ہیں اور صرف چند ارب ڈالروں کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے اور ایک ایٹمی طاقت پاور بن کر جو مقام حاصل کیا ہے، اسے چند ٹکوں کی خاطر قربان کردیا جائے۔ یہ وہ غلامانہ ذہنیت اور تباہ کن مفاد پرستی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا    ؎

تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

فیصلہ کن سوال

آج قوم کے سامنے ایک بار پھر وہی سوال ہے جو برطانوی دورِ غلامی میں اس کے سامنے تھا ___ یعنی وقتی مفادات کی پوجا یا آزادی اور عزت کی زندگی کے لیے ازسرِنو جدوجہد، خواہ وہ کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔ ملت اسلامیہ پاکستان نے جس طرح اُس وقت کے مفاد پرست سیاست دانوں اور عافیت کوشوں کے خوش نما الفاظ ان کے منہ پر دے مارے تھے اور ہرقسم کی قربانیاں دے کر آزادی اور عزت کا راستہ اختیار کیا تھا، آج بھی قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے موجودہ سیاسی بازی گروں اور مفاد پرستوں کے چنگل سے نکل کر پاکستان اور اس کے آزادی اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے سردھڑ کی بازی لگانا ہوگی، اس لیے کہ بقول اقبال    ؎

یا مُردہ ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

اگر قوم کو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے امریکا کی سامراجی گرفت سے نکلنا ہے___ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی دوسرا  راستہ موجود ہی نہیں ہے___ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ ان عوامل کو سمجھا جائے جن کی وجہ سے ہماری آزادی گروی ہوگئی ہے اور ہماری پالیسیاں واشنگٹن کے اشارے پر اور بہت بڑی حد تک صرف امریکا کے مفاد میں وضع کی جارہی ہیں۔

اس نئی غلامی کے کَسے شکنجوں کو مضبوط تر کرنے کے لیے معاشی زنجیریں روز افزوں ہیں۔ حکمرانوں کو ان کی کرپشن اور مفاد پرستی کی وجہ سے امریکا نے اپنا  آلۂ کار بنالیا ہے۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی سفارت کاروں، امریکی این جی اوز، امریکی ماہرین اور محاسبوں کی فوج ظفر موج، اور ان کے ساتھ ہماری سرزمین پر ا مریکی افواج، سی آئی اے کے اہل کار اور مخبر سرگرم ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے خون آشام ڈرامے نے اس امریکی نیٹ ورک کو بے نقاب کردیا جو ملک کی باگ ڈور کو اپنی مرضی کے مطابق چلا  رہا ہے۔ ڈرون حملوں کی روز افزوں بوچھاڑ اور ہماری سرزمین پر امریکی فوجی قدموں کی چاپ، نیز ہر روز واشنگٹن اور کابل سے امریکی سول اور فوجی آقائوں کی آمدورفت، اس نئے استعماری انتظام کے وہ چند پہلو ہیں جو اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ہمارے حکمران خواہ کیسے ہی خوابِ غفلت میں مبتلا ہوں یا اس خطرناک کھیل میں شریک کار ہوں لیکن پاکستانی قوم اب بیدار ہوچکی ہے اور اس کے سامنے اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے ہرممکن ذریعے سے اجتماعی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔ یہ معرکہ کس طرح سر کیا جائے، اس پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ چند حقائق کو ذہنوں میں تازہ کرلیا جائے۔

نیا عالمی خطرناک کہیل

یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ امریکا اور یورپی اقوام ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ اصل ایشو دنیا کے، اور خصوصیت سے مسلم اور عرب دنیا کے معدنی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک وسائل پر قبضہ اور ان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ نیز اس استحصالی بندوبست کو محفوظ کرنے کے لیے مسلم اور عرب ممالک پر ایسی قیادتوں کو مسلط کرنا اور مسلط رکھنا ہے جو امریکا کے آلۂ کار کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادتوں کے ساتھ لبرل دانش ور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کا استعمال ان کی حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہے۔ معاشی طور پر ان ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے قرضوں کا جال بچھایا گیا ہے اور ان ممالک کو عالم گیریت (globalization) کے نام پر مغربی اقوام اور اداروں کی محتاجی (dependence) کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ آخری حربے کے طور پر امریکی افواج کو، جو تباہ کن ٹکنالوجی سے آراستہ ہیں، استعمال کیا جا رہا ہے۔    آج  دنیا میں ۸۰ سے زائد مقامات پر امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگ اور عالمِ عرب کے قلب میں اسرائیل کی کیل کانٹے سے لیس افواج اور خفیہ تنظیموں کا کردار اس  گیم پلان کا حصہ ہے۔

امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے بقا اور ترقی کے لیے جنگ، جنگی امداد اور تجارت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کی پالیسی پر عمل کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ اس گریٹ گیم کو سب سے بڑا خطرہ مسلمان عوام، ان کے دینی شعور اور اُمت مسلمہ کے جذبۂ جہاد سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ عسکری قوتوں سے لڑی جارہی ہے اور جس ملک سے مزاحمت کا خطرہ ہے، اس کی عسکری اور مزاحمتی قوت کو توڑنا اور وسائل بشمول عسکری اثاثہ جات کو اپنی گرفت اور کنٹرول میں لانا اس حکمت عملی کا مرکزی حصہ ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ، نظریاتی اور تہذیبی جنگ کے ذریعے اسلام، اسلامی تحریکات اور اسلامی احیا کے تمام مظاہر کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اسلام کے ایک ایسے نمونے (version) کو مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے جو سیاسی، معاشی اور تہذیبی میدان میں مغرب کے فکر اور نمونے کو قبول کرلے اور دین کو محض نمایشی رسوم تک محدود کردے۔ اس کے لیے روشن خیالی، موڈریشن، صوفی اسلام اور نہ معلوم کس کس عنوان کو استعمال کیا جارہا ہے اور اسلامی احیا اور سامراج مخالف رجحانات کو دہشت گردی، تشدد، جبر اور خونیں تصادم کے عنوان سے بدنام کرنے کی عالم گیر پیمانے پر منظم کوششیں ہورہی ہیں۔

اس خطرناک کھیل میں دانا دشمنوں کے ساتھ نادان دوست بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ملک ہے اس لیے وہ خصوصی ہدف بنا ہوا ہے۔ پاکستان عسکری طور پر مضبوط اور جوہری طاقت کا حامل ملک ہے اس لیے اس کی فوجی قوت اور جوہری صلاحیت کو خصوصی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دنیاے اسلام میں مغربی استعمار کو چیلنج کرنے والی جو بھی قوت ہے اسے کمزور اور غیر مؤثر کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے جارحانہ کھیل کی مکمل سرپرستی اور مسلم دنیا میں بیرونی افواج کے تسلط کے خلاف ہر مزاحمتی تحریک کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ مصر، جو عرب دنیا کی ایک مؤثر ترین قوت تھا، اُسے اپنے مہروں کے ذریعے غیرمؤثر کر دیا گیا۔ عراق، جو اسرائیل کے لیے ایک خطرہ تھا، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ افغانستان، جس نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود روسی استعمار کا منہ پھیر دیا، اسے مسلسل خانہ جنگی میں جھونک دیا گیا، پھر القاعدہ پر یلغار کے نام پر اس پر اپنا فوجی تسلط قائم کر دیا گیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی نائن الیون کے واقعے کی لپیٹ میں لیتے ہوئے اپنی گرفت میں لے لیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کو جس طرح اپنے قابو میں کیا گیا اور پاکستانی فوج کو عملاً اپنے ہی ملک میں اپنی ہی قوم سے برسرِپیکار کردیا گیا___ یہ سب اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔

آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس کی اصل حقیقت کا اِدراک، اس پس منظر کے سمجھے بغیر، ممکن نہیں۔ آج پاکستان میں معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں، فوجی تنصیبات، حساس اور فوجی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ہراعتبار سے قابلِ مذمت اور ایک نقصان کا سودا ہے لیکن اس تباہی سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی سے دنیا کو پاک کرنے کے نام پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور اس کی معاونت کے لیے کام کرنے والے اداروں، حکومتوں اور کارندوں کے کردار کو سمجھا جائے اور افراد،گروہوں اور حکومتوں، سب کی ان سرگرمیوں کو روکا جائے جو دراصل دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کی ظالمانہ پالیسیوں کی تبدیلی اور عسکری، سیاسی، معاشی اور تہذیبی جنگ کے شعلوں کو بجھانے کی حکمت عملی ہی مسئلے کے سیاسی اور پایدار حل کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ استعماری قوتوں اور ان کے حامیوں اور آلہ کاروں کی خون آشامیوں کو قابو میں لاکر ہی مزاحمتی قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لانا اور معاملات کا سیاسی حل نکالنا ممکن ہوسکتا ہے۔ حقیقی مزاحمت کاروں اور جرائم پیشہ عناصر اور دوسروں کے مفاد کے لیے تباہی مچانے والے عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کیا جاسکتا ہے اور پھر قانون اور انصاف کے اصولوں کے مطابق ہر نوعیت کے مجرموں کو سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس طرح اس علاقے کو ایک بار پھر امن اور سلامتی کا گہوارا بنایا جاسکتا ہے۔

ہماری نگاہ میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں:

عسکری نھیں سیاسی حل

اس امر کا اقرار اور اعلان کہ مسئلے کا حل سیاسی ہے، عسکری نہیں، اور عسکری کی ہرشکل کو بند کرنا ضروری ہے تاکہ اصل اسباب کی طرف توجہ دی جاسکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ سیاسی مسائل کا حل نہیں۔ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے اور اسے کچھ حلقوں اور علاقوں میں معتبر بنا دیا ہے۔ ۳ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے لاکھوں افراد کو لقمۂ اجل بنایا جاچکا ہے، لاکھوں کو ہمیشہ کے لیے اپاہج کردیا گیا ہے، لاکھوں کو بے گھر کیا جارہا ہے، ایک کے بعد دوسرے ملک کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ معاشی حیثیت سے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے آیا گیا ہے۔ اس ۱۰سالہ جنگ میں صرف امریکا کو چھے سے ۱۰ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔عراق اور افغانستان کو تباہ کردیا گیا ہے۔ صرف پاکستان میں ۳۶ہزار معصوم انسانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو ہلاک کیا گیا ہے۔ ۵ہزار سے زائد فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے افراد کو زندگی کی نعمتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک لاکھ کے قریب افراد مجروح ہوئے ہیں، ۴۰لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوگئے ہیں اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ معیشت کو ۹۰سے ۱۰۰؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ شہروں اور دیہات کا امن تہ و بالا ہوگیا ہے، بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور فوج اور قوم کے درمیان محبت، اعتماد اور احترام کا جو رشتہ تھا وہ پارہ پارہ ہوگیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد اور ملک کے بیرونی دشمنوں نے اس فضا سے پورا فائدہ اٹھایا ہے اور      اپنے مذموم کھیل کے لیے اس دھوئیں کی چادر (smoke screen)کو استعمال کیا ہے۔ حکومت، فوج اور قوم اس دلدل میں پھنستی چلی جارہی ہے۔

ملک میں انتہاپسندی، تشدد، دہشت گردی اور کشت و خون کے اس کھیل کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے کردار سے الگ کر کے نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ کوئی حل   نکالا جاسکتا ہے۔ اگرحکومت اور عسکری قیادت پارلیمنٹ کے متفقہ طور پر منظور شدہ قراردادوں اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کے مرتب کردہ نقشۂ کار پر خلوص، دیانت اور حکمت کے ساتھ عمل کرنے کا راستہ اختیار کرے اور تمام سیاسی اور دینی قوتوں اور اس تصادم سے متاثر ہونے والے تمام عناصر کو شریک کر کے قومی سلامتی کے پروگرام پر عمل پیرا ہو، تو ایک مختصر وقت میں ہم اس جنگ سے نکل کر قومی تعمیروترقی کے لیے سرگرم ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی قیادت اور عسکری ذمہ داران کو باہم مشاورت سے اور دستور اور سیاسی نظام کی بالادستی کے اصول کے تحت نقشۂ کار بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا انخلا ہو، افغانستان میں قومی سطح کی تمام اہم قوتوں کو باہمی مفاہمت کی بنیاد پر ایک میثاقِ ملّی پر مجتمع کیا جائے اور ایک دوسرے کی حاکمیت کے مکمل احترام کے ساتھ افغانستان اور اس کے تمام ہمسایہ ممالک علاقے کی سلامتی اور استحکام کا نقشہ تیار کرنے میں ایک دوسرے کے ممدومعاون ہوں۔

پاکستان کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے ایک ایسی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ناگزیر ہے، جس کا مرکز و محور پاکستان کی آزادی، سلامتی، حاکمیت اور ترقی کے حصول کے لیے اس کے حقیقی مفادات کا تحفظ ہو، اور علاقے کے دوسرے تمام ممالک سے مشترک مفادات، باہمی تعاون اور انصاف اور بین الاقوامی قانون اور کنونشنز کی روشنی میں دوستی اور معاونت کا اہتمام ہو۔ یہ دیوانے کا خواب نہیں، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہ پاکستان کی قیادت اور عوام کی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیادوں پر تشکیل کی جائے۔ دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے کا مقصد اور ہدف دوٹوک انداز میں واضح کردیا جائے۔ امریکا کی معاشی امداد سے، جس کا ہماری معیشت میں کوئی بنیادی کردار نہیں اور جس کے بغیر  معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر منظم کیا جاسکتا ہے، خوش اسلوبی سے نجات حاصل کی جائے۔ جن شرائط (terms of engagement) پر گذشتہ ۱۰سال سے معاملہ ہو رہا ہے، وہ سراسر پاکستان کے مفادات سے متصادم ہیں اور اس بارے میں دو آرا نہیں کہ پاکستان کی معیشت کو اس جنگ سے، اس امداد کے مقابلے میں جو ملی ہے، کم از کم ۸گنا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس امداد کا بہت کم حصہ پاکستان اور اس کے غریب عوام کے حصے میں آیا ہے، اور اس کے عوض ہماری آزادی اور عزت دونوں کا سودا ہوگیا ہے۔ ملک کی معیشت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔ قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ ملک پر اس کی تاریخ کے پہلے ۶۱برسوں میں قرض کا جو بوجھ پڑا ہے، وہ ساڑھے چار ہزار ارب روپے تھا، لیکن ان ساڑھے تین برسوں میں یہ بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ گویا ۶۱برسوں کے قرض ایک طرف، اور صرف ان تین برسوں کے قرض دوسری طرف۔ آج ہر وہ بچہ جو پاکستان میں آنکھیں کھول رہا ہے، ۶۰ہزار روپے سے زیادہ کا مقروض پیدا ہو رہا ہے۔

وسائل کا صحیح استعمال

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جن وسائل سے نوازا ہے ، وہ خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ترقی یافتہ ملک بننے اور ترقی کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے آگے نکلنے کے لیے کافی ہیں۔یہ ہماری ناکام پالیسیاں اور نااہل اور بددیانت قیادتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ قدرتی دولت سے مالا مال ملک دوسروں کا دست نگر بن گیا ہے۔ اس وقت بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود اور قسط کی ادایگی پر ۹۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنے پڑرہے ہیں،جب کہ حکومتی سطح پر تمام ترقیاتی منصوبوںپر سال میں بمشکل ۲۸۰؍ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں اور ان کا بھی بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے۔ اس وقت ۳۲۰۰ ترقیاتی منصوبے نامکمل پڑے ہیں اور ان پر جو اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں وہ خسارے کا سودا ہیں۔

ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے کہ اس کالے کنویں (black hole) میں کتنی قومی دولت ضائع ہو رہی ہے۔ محتاط اندازہ ۶۰۰ سے ۱۰۰۰؍ ارب روپے سالانہ کا ہے۔ اس پر مستزاد وہ شاہ خرچیاں ہیں جو حکومت اور بیوروکریسی کی پہچان بن گئی ہیں۔ ایسی ایسی ہوش ربا مستند داستانیں ٹی وی چینل پر آئی ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ لیکن کوئی گرفت اور سزا نہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی ’’احترام، احترام‘‘ کرتے، عملاً بے اثر کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیروں، مشیروں اور خصوصی معاونین کی ریل پیل ہے۔ مرکز میں وزرا کم کرنے کا اعلان کیا گیا مگر جس دن امریکا ایبٹ آباد پر حملہ کر رہا تھا، اس وقت ایوانِ صدر میں ڈیڑھ درجن نئے وزرا حلف لے رہے تھے۔ سب سے غریب صوبے کا یہ حال ہے کہ اس کی اسمبلی میں ۶۰ ارکان ہیں مگر وزیروں اور مشیروں کی تعداد ۵۵ تک پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ غیرترقیاتی اخراجات میں ۳۰ فی صد کمی کی جائے گی مگر عملاً ان میں اضافہ ہوا ہے، براے نام بھی کمی نہیں کی گئی۔

ادھر آمدنی کا یہ حال ہے کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو کے مطابق ۱۵۸۰؍ ارب روپے سالانہ وصول ہو رہے ہیں، جب کہ ۱۱۰۰؍ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری کی نذر ہو رہے ہیں۔    اگر اس کا تین چوتھائی وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔ پھر اہلِ ثروت کے بڑے بڑے گروہ ہیں جو ٹیکس کے نیٹ ورک میں آ ہی نہیں رہے۔ ان میں بڑے زمین دار، غیرمنقولہ جایدادوں کے مالک اور تاجر، اہم پیشہ ور افراد، جن میں وکلا، ڈاکٹر، انجینیر، اکائونٹنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ اور پھر اسٹاک ایکسچینج کے تاجر اور وہاں حصص کا کاروبار کرنے والے اور اس میں بڑی رقوم کا منافع کمانے والے ہیں۔ اس وقت ٹیکس کی حد ۳لاکھ روپے سالانہ آمدنی ہے، اس حد کو بڑھا کر ۴ یا ۵ لاکھ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر جس کی آمدنی بھی ۵لاکھ سالانہ یا اس سے زیادہ ہو، وہ واقعی ٹیکس دے تو حکومت کی آمدنی دگنی ہوسکتی ہے۔ اس وقت ۱۸کروڑ افراد کے ملک میں صرف ۱۸لاکھ افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جب کہ یہ تعداد کسی اعتبار سے بھی ۴۰سے ۵۰لاکھ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ٹیکس کے نیٹ ورک کو ایمان داری اور فرض شناسی کے ساتھ وسیع کیا جائے تو نہ حکومت کو قرضوں کی ضرورت ہو اور نہ بجٹ کا خسارہ ہمارا منہ چڑائے___ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ملک کو دیانت دار اور لائق قیادت میسرہو، کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، ملک میں قانون اور انصاف کا بول بالا ہو، احتساب کا مؤثر نظام موجود ہو، تمام ادارے اپنا اپنا کام دستور کے دائرے میں انجام دیں۔ معاشی پالیسیاں عوام دوست ہوں اور ترقی اور فلاحِ عامہ کے لیے بنائی جائیں اور ان پر دیانت سے عمل ہو۔

نظریاتی اساس کا استحکام

آج حالات بلاشبہ بہت ہی خراب ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو ان تمام مادی اور انسانی وسائل سے مالامال کیا ہے جو ترقی اور خوش حالی کے لیے ضروری ہیں___ اصلاحِ احوال کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت جو بنیادی خرابیاں ہیں، ان پر قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اللہ کے حضور اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اصلاحِ احوال کے لیے خلوص اور دیانت سے زندگی کا ایک نیا ورق کھولیں۔ سب سے اہم چیز پاکستان کے قیام کے اصل مقصد اور عوام اور تاریخ سے کیے جانے والے وعدے کا پُرخلوص اعادہ ہے۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے جو وعدہ اللہ اور عوام سے کیا تھا وہ یہ تھا کہ:

پاکستان کے نام سے ہم جو خطۂ زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اسلام کا گہوارا اور دورِحاضر میں اسلامی نظام کی تجربہ گاہ ہوگا اور ہم اپنے لیے اور پوری دنیا کے لیے دورِ جدید میں اسلام کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریںگے۔

۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان اور علامہ اقبال کے ۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد خطبۂ صدارت کی یہی روح ہے۔ قائداعظم نے ۱۹۴۰ء کے کنونشن سے جو خطاب کیا، حصولِ پاکستان کے مقاصد کے سلسلے میں قیامِ پاکستان سے قبل ایک سو سے ایک اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴ مرتبہ اعلانات کیے، مزیدبرآں ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ لیجسلٹر کنونشن کی قرارداد، ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد اور پھر ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں قرارداد مقاصد اور ریاست کے لیے پالیسی کے رہنما اصولوں کی شکل میں ان وعدوں اور اعلانات کی قانون کی زبان میں تکرار___ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدن کا احیا ہوگا اور اسلام عملاً یہاںنافذ ہوگا۔

آج امریکا اور نام نہاد لبرل حلقوں کی طرف سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے اور ایک نظریاتی کے بجاے محض ’قومی ریاست‘ بنانے کی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک میں نظریاتی کش مکش اور انتشار پھیلانے کی سازش ہے اور اس کا بھرپور اور مؤثر مقابلہ ضروری ہے۔

دوسری چیز پاکستان کو امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی سے نکالنا اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔ نیز ملک کی معیشت، تعلیم اور تہذیبی اور سماجی زندگی کو عوام کے ایمان اور عزائم کے مطابق ڈھالنا اور خاص طور پر معاشی خودانحصاری اور عوام کی فلاح اور خوش حالی پر مرکوز کرنا ہے۔

تیسری چیز دستور کے دیے ہوئے نقشے کے مطابق: 

  • ریاست کے تمام اداروں کو مستحکم اور متحرک کرنا
  • پارلیمنٹ کی بالادستی
  • عدلیہ کی آزادی
  • غیرجانب دار میڈیا کی آزادی
  • تمام انسانوں کے حقوق کی مکمل پاس داری
  • قانون کی حکمرانی
  • مرکز اور صوبوں میں انصاف کی بنیاد پر دستور کے مطابق اختیارات اور وسائل کی تقسیم
  • بیورو کریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل غیر جانب داری اور سیاسی وفاداریوں اور مفادات کے دبائو سے دستوری تحفظ
  • زندگی کے ہر شعبے کے لیے احتساب کا مؤثر اور غیر جانب دار نظام
  • ملک کی افواج کو صرف ملک کے دفاع کے لیے مختص کرنا
  • ان کو پیشہ ورانہ مہارت کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں سے آراستہ کرنا
  • ان کے سیاسی کردار کو بالکل ختم کرنا ضروری ہے۔

عوامی اعتماد اور اچہی حکمرانی

چوتھی چیز سیاسی نظام اور سیاسی قیادت پر عوام کا اعتماد اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس وقت ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ عوام نے حکمرانوں کو جو مینڈیٹ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں دیا تھا، اسے بُری طرح پامال کردیا گیا ہے۔ عوام نے جن تین باتوں کا اپنے مینڈیٹ کے مرکزی پیغام کے طور پر بہت ہی واضح انداز میں اظہار کیا، وہ یہ تھیں:

۱- جنرل پرویز مشرف کے دور، اس کے طرزِ حکمرانی اور اس کی پالیسیوں پر مکمل     عدم اعتماد کا اظہار___ اور صرف چہروں کی نہیںپالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کی تبدیلی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوئی بلکہ تبدیلی اور ایک نئے دور کے آغاز کی تمنا جس میں ملک کا مفاد، عوام کے حقوق اور حقیقی جمہوری طرزِ حکومت کا فروغ ان کا اصل ہدف تھا۔

۲- امریکا کی گرفت سے آزادی، امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے علیحدگی، آزاد خارجہ پالیسی اور ملکی مفادات، علاقے میں امن اور اُمت مسلمہ کی مضبوطی کو  خارجہ امور اور ملکی سیاست کا مرکز و محور بنانا۔

۳- عدلیہ کی آزادی، فوج کے سیاسی کردار کی نفی، مرکز میں صوبوں کے درمیان اختیارات کی منصفانہ تقسیم، دستور کی اس کی اصل اسلامی، جمہوری، وفاقی اور فلاحی شناخت کے مطابق آمرانہ دور کی دراندازیوں سے پاک کرکے بحالی، ملک کو صحیح جمہوری خطوط پر منظم اور مضبوط کرنا، نیز بلوچستان کے ساتھ جو زیادتیاں اس زمانے میں ہوئی ہیں، ان کا فوری تدارک۔

یہ تین چیزیں وہ بنیاد تھیں جن پر عوام نے اپنا فیصلہ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انتخاب کے بعد جب حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ایک نوعیت کا قومی اتفاق راے پیداکرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم کا انتخاب پارٹی بنیادوں پر کرنے کے بجاے پورے ایوان نے ان کو اعتماد کا ووٹ دیا اور جن جماعتوں نے اصول کی بنیاد پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، انھوں نے بھی نئے قومی ایجنڈے پر حکومت کے کارفرما ہونے پر اسے تعاون کا یقین دلایا۔ لیکن چند ہی مہینوں میں یہ ساری توقعات خاک میں مل گئیں اور صدر زرداری نے مفاہمت کے نام پر مفادات اور منافقت کی سیاست کو فروغ دیا، سیاسی عہدوپیمان کو مذاق بنا دیا، کرپشن اور یاردوستوں کو نوازنے (cronyism) کی بدترین مثال قائم کی۔ اپنی پارٹی کے منشور اور اس میثاقِ جمہوریت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جسے دورِ نو کا چارٹر بنا کر پیش کیا تھا۔ امریکا کی دراندازی کو اور بھی کھُل کھیلنے کا موقع دیا اور اپنی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے این آر او جیسے کالے قانون کو دستور عمل بنایا، عدالت کی بحالی کے لیے ہر ممکنہ رکاوٹ کھڑی کی اور جب مجبوراً اسے بحال کرنا پڑا تو اس کے بعد سے اس سے تصادم اور عدالت کے ہراہم فیصلے کو ناکام کرنے کے لیے سوچے سمجھے اقدامات کیے۔ امریکا کی مداخلت اتنی بڑھی کہ ڈرون حملے روز کا معمول بن گئے اور کھلے بندوں امریکا نے ایک متوازی نظام ملک میں قائم کرلیا اور اپنی مرضی سے جب چاہا ہماری حاکمیت کو پامال اور ہماری عزت کو داغ دار کیا۔ پھر معیشت کے میدان میں اس حکومت نے پہلے دن سے غلط اقدامات کی بھرمار کر دی، نااہلوں کو آگے بڑھایا اور تمام اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی دوڑ شروع کردی جس نے پوری دستوری اسکیم کو درہم برہم کر دیا۔

معیشت ایک کے بعد دوسرے بحران سے دوچار ہوئی، ترقی کی رفتار دو اور تین فی صد کے درمیان پھنس گئی۔ افراطِ زر اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ بجلی کا بحران، گیس کی قلت، پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، اشیاے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، لاقانونیت کا دوردورہ ہے اور کسی کی جان، مال اور عزت کوئی چیز محفوظ نہیں ہے۔ خراب حکمرانی (bad governance) اور عوام کے مسائل اور مشکلات کے باب میں مجرمانہ بے حسی اس کا شعاربن گئے۔ حد یہ کہ خود اپنی قائد، جس کے نام پر اقتدار حاصل کیا،  اس کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناقابلِ یقین بے توجہی، بلکہ وہ رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں قاتلوں کو تحفظ دیے جانے کے شبہات نے جنم لیا۔ جنرل پرویز مشرف سے مفاہمت اور پھر اس کی ملک سے باعزت رخصتی اور جن کو ’قاتل لیگ‘ کہا تھا ان کو شریکِ اقتدار کرنا اور جن کے بارے میں جولائی ۲۰۰۷ء کی لندن کانفرنس میں متفقہ طور پر طے کیاتھا کہ ان کے ساتھ کوئی سیاسی مفاہمت یا شراکت نہیں ہوگی، ان کو نہ صرف گلے سے لگایا بلکہ ان کی خوشنودی کے لیے ہراصول اور ضابطے کا کھلے بندوں خون کیا، جس کے نتیجے میں کراچی لاقانونیت کی بدترین تصویر پیش کرنے لگا۔ ان تین برسوں میں صرف کراچی میں ٹارگٹ کلنگ (ہدفی قتل) کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور وہاں کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی۔

نئے انتخابات کی ضرورت

ان سوا تین برسوں میں حکومت نے جو کارنامے انجام دیے ہیں ان کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اسے ان چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:

۱- سیاسی اور اخلاقی جواز نہیں رہا ہے۔

۲- اعتبار اُٹھ گیا ہے۔

۳- نااہلیت ثابت ہوگئی ہے۔

۴- کرپشن کا دور دورہ ہے۔

یہ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے وہ مینڈیٹ جو عوام نے دیا تھا، اپنا جواز کھو چکا ہے۔ مینڈیٹ اچھی حکمرانی (good governance) کے لیے تھا، محض پانچ سال پورے کرنے اور بدترین اور کرپٹ ترین اندازِ حکمرانی کے لیے نہیں تھا۔ ایسے حالات میں دستوری مدت سے قبل انتخابات اور عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کی ضرورت جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے۔ بھارت میں گذشتہ ۶۳برس میں نو مرتبہ انتخابات دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح انگلستان میں دوسری جنگ کے بعد سے اب تک کئی بار پارلیمنٹ کے وسط مدتی انتخابات منعقد کیے گئے ہیں۔ نئے انتخاب کا انحصار حکومت کی کارکردگی اور عوام کے اعتماد یا بے اعتمادی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ حکومت اپنا جواز کھوچکی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ نئے انتخابات کا انعقاد ہو، جو غیر جانب دار اور آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابی قواعد کے مطابق ہوں۔ اس لیے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر جو ووٹروں کی فہرست تھی اس میں ۴۵ فی صد بوگس ووٹ تھے جس کا اعتراف نادرا اور عدالتِ عالیہ نے کیا ہے۔

ملک کو سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور امریکا کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے یہ سب سے معقول اور جمہوری اعتبار سے معتبر راستہ ہے۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی کوشش اور فوج کی کسی بھی شکل میں مداخلت حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو ہوسکتے ہیں، اصلاحِ احوال کی طرف پیش رفت کا موجب نہیں ہوسکتے۔

متفقہ قرارداد کے تقاضے

اس کے ساتھ اس امر کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی متفقہ قرارداد پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق فوری طور پر عمل ہو، جس کے کم از کم تقاضے یہ ہیں:

اوّل: ۲ مئی کے واقعے کے تمام پہلوئوں کا بے لاگ اور غیر جانب دارانہ جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی آزاد کمیشن کا قیام جو انٹیلی جنس کی ناکامی اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ناکامی (security failure) کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے اور پوری پیشہ ورانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ تمام حقائق پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے لائے۔ عوام کا اعتماد حکومت اور دفاع اور قومی سلامتی کے اداروںپر متزلزل ہوگیا ہے۔ ۲۲مئی کے واقعے نے حالات کی نزاکت اور مخدوش صورت حال کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ اس لیے اس کمیشن کا فی الفور قیام ملک کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔

دوم: امریکا سے تعلقات پر مکمل نظرثانی کا آغاز بھی فوری طور پر ہوجانا چاہیے۔ قوم کے سامنے وہ سارے حقائق آنے چاہییں جن پر آج تک پردہ پڑا رہا ہے۔ کچھ حقائق امریکا کے عملی رویے اور جارحانہ کارروائیوں سے اور کچھ وکی لیکس کے انکشافات سے سامنے آرہے ہیں اور کچھ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے سامنے آئے ہیں۔ ان پس پردہ حقائق نے کچھ بنیادی سوالات کو بھی جنم دیا ہے جن کا جواب قوم اور پارلیمنٹ کے لیے جاننا ضروری ہے۔ ماضی میں جو بھی کھلے عام یا خفیہ مفاہمت تھی، اس کو ختم ہونا چاہیے اور تمام معاملات کو دو اور دو چار کی طرح تحریری طور پر طے ہونا چاہیے اور وہ کابینہ اور پارلیمنٹ کے علم میں لائے جانے چاہییں۔ اس قرارداد اور پارلیمنٹ کی اس سے پہلے کی قراردادوں کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ پارلیمنٹ کی نگاہ میں:

۱- خارجہ پالیسی کو آزاد ہونا چاہیے اور امریکا سے خودمختارانہ برابری (sovereign equality) کے اصول کی بنیاد پر معاملات طے ہونے چاہییں جن کا محور پاکستان کی آزادی، حاکمیت، نظریاتی تشخص، اور اس کے سیاسی، معاشی اور علاقائی مفادات کا مکمل تحفظ ہے۔

۲- دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باعزت دُوری اور اس اصول کی بنیاد پر نئی  حکمت عملی کا تعین کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ اصل حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔ ان مذاکرات میں تمام متعلقہ عناصر (stake holders) کی شرکت لازمی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکالمہ (Dialogue) ترقی (Development) اور باز رکھنا (Deterrence) (یعنی تین Ds) ہی صحیح طریقہ ہے۔

سوم: پاکستان کی حاکمیت اور خودمختار سرحدوں (sovereign borders) کا تحفظ اولین اہمیت کا مسئلہ ہے۔ ڈرون حملے ہماری حاکمیت کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور امریکا یا کسی کی طرف سے بھی کوئی یک طرفہ مداخلت ہماری حاکمیت اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا کو اس سلسلے میں   صاف وارننگ دے دی جائے اور اگر اس کے بعد بھی کوئی ڈرون حملہ ہو یا کسی بھی شکل میں فوجی مداخلت ہوتی ہے تو ناٹو افواج کی راہداری کی سہولتیں فوراً ختم کی جائیں اور تمام دفاعی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال ہو۔ ہم امریکا سے تصادم نہیںچاہتے، لیکن امریکا کو اپنی سرزمین پر اس نوعیت کے جارحانہ فوجی اقدامات کی اجازت بھی نہیں دے سکتے۔ اگر کیوبا ۱۹۶۰ء سے امریکا کی دراندازیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اور جنوبی امریکا کے نصف درجن سے زیادہ ممالک امریکا کو اس کی اپنی حدود میں رکھنے اور اپنی عزت اور آزادی کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوسکتے ہیں، اگر شمالی کوریا امریکا اور  جنوبی کوریا دونوں کو اپنی حدود کو پامال کرنے سے روک سکتا ہے تو پاکستان جو ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کے عوام نے اپنی افواج کو دفاع کے لیے ناقابلِ تسخیر قوت کی فراہمی کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر وسائل فراہم کیے ہیں،وہ ملک کی سرحدوں اور قیمتی اثاثوں کا دفاع کیوں نہیں کرسکتیں، جب کہ ہمارے عسکری قائدین پبلک اور پرائیویٹ ہر موقع پر یقین دلاتے ہیں کہ ان شاء اللہ دفاع کا حق ادا کریںگے، ان کو صرف سول حکومت کی اجازت اور اشارے کی ضرورت ہے۔

چہارم: ملک کے سلامتی کی صورت حال (security paradigm) پر بھی ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ اس میںمشرق اور مغرب ہرسمت سے جو خطرات ممکن ہیں، ان کا ادراک ضروری ہے۔ امریکا کے رویے کی وجہ سے خطرے کے ادراک (threat perception) پرنظرثانی کی جو ضرورت ہے، اس پر عسکری اور سیاسی قیادت دونوں کو فوری طور پر توجہ دینے اور سلامتی کی حکمت عملی کو ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ پاکستان کی سرزمین ملک کے اندر یا ملک کے باہر، دوسروں کے لیے کسی نوعیت کی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے، اور اس کے لیے دہشت گردی کے خلاف جس حکمت عملی، اختیار اور قانون سازی کی ضرورت ہے اس پر فوری توجہ دی جائے۔ دہشت گردی اور جنگ آزادی دو لگ الگ چیزیں ہیں لیکن حقیقی دہشت گردی کسی بھی ملک کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ البتہ ان اسباب کی اصلاح بھی ضروری ہے جو جمہوری اور قانونی راستوں کو غیرمؤثر بناتے ہیں اور لوگوں کو غلط راستوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس کے لیے سیاسی، نظریاتی، اخلاقی اور قانونی تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

پنجم: پارلیمنٹ کی قراردادوں کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ پاکستان اور اس کے سفارت کار پاکستان کے موقف کو دنیا کے سامنے دلیل کے ساتھ اور مؤثر ترین انداز میں پیش کریں اور سفارتی فعالیت (activism) کا راستہ اختیارکیا جائے۔ آج پاکستان کے امیج کو خراب کرنے اور اسے ایک ناکام یا ناکامی کی طرف بڑھتی ہوئی ریاست کی شکل میں بڑے منظم انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ہمیں اپنے گھر کی اصلاح کرنی ہے لیکن اس کے ساتھ اپنے موقف کے ابلاغ اور دنیا میں دوستوں کو متحرک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

ہمارے بعض دانش ور، میڈیا کے بعض حلقے اور وہ عناصر جو پاکستان کو امریکا کے زیراثر رکھ کر عوام کی آرزوئوں کے برخلاف سیکولر اباحیت پسند معاشرہ چاہتے ہیں ملک کے خیرخواہ بن کر    یہ نقشہ کھینچ رہے ہیں اور ڈرا رہے ہیں___ اگر امریکی امداد بند ہوگئی تو ہماری معیشت بالکل بیٹھ جائے گی اور پاکستان ختم ہوجائے گا۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے چار دفعہ: ۱۹۶۵ء، ۱۹۷۱ء، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۸ء میں امریکا نے اپنی ہر طرح کی معاشی اور عسکری معاونت ختم کر دی تھی لیکن الحمدللہ! پاکستانی معیشت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا اور ترقی کا سفر جاری رہا۔ موجودہ حالات میں یہ حکومت یا کوئی دوسری حکومت عزت و وقار کے ساتھ امریکی امداد کو ٹھکرا دے تو پاکستان کے عوام کے لیے خیروبرکت کا باعث ہوگا اور ہماری معیشت اپنے پائوںپر کھڑی ہوجائے گی۔ عوام بھی ایک جذبے سے بڑھ کر اپنا حصہ ادا کریں گے، ٹیکس بھی زیادہ ملیں گے اور کرپشن میں بھی کمی آئے گی۔

سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا کے مظلوم انسانوں اور مسلم اُمت کے عام نفوس تک پہنچیں اور ان کی قوت کو اپنے لیے مسخرومنظم کریں۔ ایسے حکمرانوں سے تائید ہماری قوت کا ذریعہ نہیں جو خود ظلم و استبداد کے مرتکب ہوں۔ ہماری اصل ہم آہنگی اپنے ملک کے عوام اور تمام دنیا کے عوام سے ہونی چاہیے جو اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کے ۹۰ فی صد عوام اس جنگ کو ایک ناحق جنگ سمجھتے اور امریکا کو اس کی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے اپنا دوست نہیں سمجھتے۔ اب خود امریکی راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کی روشنی میں آبادی کے ۶۲ فی صد نے اس جنگ سے امریکا کے نکلنے کے حق میں راے کا اظہار کیا ہے۔

آخری چیز ملک کی معیشت کو سنبھالنا، نئی معاشی پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کا انتظام ہے۔ معیشت کی اصلاح کا بڑا قریبی تعلق سیاسی تبدیلی اور آزاد خارجہ پالیسی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے علاقے کے ممالک کے ساتھ مل کر نئے دروبست کے قیام پر ہے، اور حالات اسی طرح اشارہ کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کے لیے موجودہ قیادت سے توقع عبث ہے۔ اس کا راستہ عوام کو متحرک کرنے اور عوام کی قوت سے دستور کے مطابق جمہوری عمل کے لیے نئی قیادت کو زمامِ کار سنبھالنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ آج پاکستان ہم سے اس جدوجہد کا مطالبہ کر رہا  ہے۔

 

۲مئی ۲۰۱۱ء پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ کے سیاہ ایام میں سیاہ ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا کی دوستی کی چھتری کے تلے چلائے جانے والے نیزوںکے زخم اس ملک کے جسم کے ایک ایک حصے میں پیوست ہیں لیکن ڈرون حملوں کی نہ ختم ہونے والی بوچھاڑ کے ساتھ جو     فوجی کارروائی یکم اور ۲مئی کی درمیانی شب ایبٹ آباد کے حسّاس علاقے میں امریکا کے چار ہیلی کاپٹروں اور ۲۴خصوصی کمانڈوز (SEALS) کے ذریعے ہوئی___ جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر نہتے    شیخ اسامہ بن لادن، اس کے غیرمسلح صاحب زادے حمزہ بن لادن، اس کے دو رفقاے کار اور   ان میں سے ایک کی اہلیہ کو شہید کیا گیا اور ان کے مکان سے اپنے مطلب کا قیمتی سامان اور شیخ اسامہ اور حمزہ کی لاشوں کو بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے جایا گیا___ وہ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پر حملہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کی زبان میں اسے ایک نوعیت کا اعلانِ جنگ بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس جرم کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ان اُمور کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو اس فوجی اقدام کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

نائن الیون کے الم ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے بعد، امریکا نے اپنے ایجنڈے کے مطابق القاعدہ کی سرکوبی کے عنوان سے افغانستان اور پھر عراق کو یک طرفہ جنگ کی آگ میں جھونک دیا اور پاکستان کو تباہ کرنے اور پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دے کر سات شرم ناک مطالبات کے ذریعے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔خود کو ’کمانڈو صدر‘ کہنے والے سربراہِ مملکت نے امریکی غلامی کا نیا طوق بخوشی پہن لیا اور امریکا کو فوجی اڈے، راہداری اور وہ تمام سہولتیں اور مراعات دے دیں جن کا امریکا نے مطالبہ کیا اور اس طرح ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر امریکی فوج کشی کے لیے اپنے کندھے پیش کر دیے۔ جس جنگ کا ہم سے کوئی دُور و نزدیک کا واسطہ بھی نہ تھا، یوں اس میں ہم امریکا کے طفیلی کی حیثیت سے شریک ہوگئے۔ جس پالیسی کا آغاز پرویز مشرف نے کیا تھا، ۲۰۰۷ء کے این آر او اور ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسرِاقتدار آنے والی سول حکومت نے بھی اسی غلامانہ پالیسی کو جاری رکھا۔

اس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہوگیا۔ امریکا نے پورے ملک میں اپنے جاسوسوں اور فوجی اور کرایے کے سورمائوں (private security personnel) کا جال بچھا یا۔ ملک کی معیشت اس پالیسی کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوئی۔ سرکاری اداروں کے اندازے کے مطابق ۴۰ہزار سے زیادہ عام شہری اور فوجی اس جنگ میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں، اس سے دگنی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اور صرف پہلے آٹھ برسوں میں عملاً معیشت کو ۶۸ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے جس میں ۸۲ ارب روپے کا وہ نقصان شامل نہیں ہے جو راہداری کی سہولت دینے کی وجہ سے ملک کی سڑکوں، پُلوں اور انفراسٹرکچر کو ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کی ’ڈو مور‘ کی رَٹ میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور سول اورفوجی دونوں قیادتوں اور سرکاری سراغ رساں ایجنسیوں پر عدمِ اعتماد، منافقت اور دوغلے پن کے الزامات کی صبح و شام بوچھاڑ ہوتی رہتی ہے۔ امریکا کی پالیسی کو اگر تین الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو اسے 3-Bs کہا جاسکتا ہے، یعنی:

  • ... Bully (دھونس ، دھمکی ) 
  • ... Blackmail (بلیک میل ) 
  • ... Bribery ( رشوت) 

اس کے ساتھ جسے معاشی امداد اور فوجی تعاون اور ٹریننگ کہا جاتا ہے، اس کے ذریعے ایک طرف ملک کی معیشت پر امریکا نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے تو دوسری طرف زندگی کے ہرشعبے میں اپنے اثرونفوذ کو بڑھانے اور اپنے ہرکاروں کو آگے بڑھانے کا کام انجام دیا ہے۔ یہ سیاسی اور معاشی غلامی کا ایک نیا بندوبست ہے جسے ماضی کے سامراجی نظام کی ایک صاف ستھری شکل (refined version) کہا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان کی سالمیت پر سب سے بڑا وار ڈرون حملوں کے ذریعے کیا گیا جس کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک ۹ حملے ہوئے جن میں ۱۱۲؍افراد شہید کیے گئے۔ ۲۰۰۸ء میں یہ تعداد ۳۳، ۲۰۰۹ء میں ۵۳، اور ۲۰۱۰ء میں ۱۱۸ ہوگئی۔ ۲۰۱۱ء کے پہلے تین مہینوں میں ۲۴ حملے ہوئے۔ ان حملوں میں ۲۵۰۰؍ افراد ہلاک اور ۱۰ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ امریکا کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک مبینہ دہشت گرد کے مقابلے میں ۱۰ عام معصوم شہری، مرد، خواتین اور بچے نشانہ بنے ہیں، جب کہ کچھ دوسرے آزاد اداروں کے مطابق یہ تناسب ایک اور ۵۰ کا ہے۔ ان ڈرون حملوں کی ملک کے تمام حلقوں، اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں میں بھرپور مذمت کی گئی اور انھیں ملک کی حاکمیت پر حملہ، معصوم انسانوں کا قتلِ ناحق اور سیاسی اعتبار سے امریکی مخالفت کے رجحان کو تقویت دینے کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ دنیا بھرمیں بشمول امریکا بنیادی حقوق کے تحفظ کے اداروں نے ان کی مذمت کی ہے اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ان کو عالمی قانون کے خلاف اور امنِ عالم کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے لیکن امریکا کے رویے میں نہ صرف کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے اس سے آگے بڑھ کر تین بار اپنے فوجیوں کے ذریعے مختصر کارروائیاں کی ہیں۔

اب حکومت کی بے حسی سے شہ پاکر ۲مئی کو وہ کارروائی کی ہے جسے ہراعتبار سے ایک آزاد اور خودمختار ملک پر (جسے امریکا اپنا حلیف اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر بھی کہتا ہے) حملہ اور بین الاقوامی قانون کی زبان میں کھلی جارحیت اور جنگی کارروائی (act of war) قرار دیا جائے گا۔ یہ اقدام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا اور امریکی صدر کے باقاعدہ احکام کے تحت انجام دیا گیا۔ اس میں چار فوجی ہیلی کاپٹر جدید ترین ٹکنالوجی سے مسلح تھے جسے سٹیلتھ (stealth) ٹکنالوجی کہا جاتا ہے۔  یہ صرف امریکا کے پاس ہے اور اسے عام ریڈار سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ یہ ہیلی کاپٹر بگرام کے  ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے۔ پاکستان میں غالباً تربیلا کے آس پاس ان میں ایندھن بھرا گیا۔ دوہیلی کاپٹروں نے عملاً حملے میں شرکت کی اور دو حفاظتی کردار ادا کرتے رہے۔ ۲۴ خصوصی کمانڈوز نے جو بشمول میزائلز ہرطرح کے اسلحے سے لیس تھے، زمینی کارروائی میں حصہ لیا، پانچ افراد کو ہلاک کیا، ایک خاتون کو زخمی کیا، اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو جو فنی خرابی یا زمین سے گولی لگنے سے گر کر نذرِآتش ہوگیا تھا، مزید تباہ کرکے ضروری سامان کو لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس آپریشن میں تقریباً دوگھنٹے لگے۔ ۴۰ منٹ ایبٹ آباد کے آپریشن میں اور ۸۰ منٹ آنے اور جانے میں۔ اس پورے عرصے میں افغانستان کی فضائی حدود میں ایف-۱۶ طیارے اس لیے موجود رہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی مزاحمت ہو تو پاکستانی ایئرفورس کے جہازوں پر حملہ کیا جاسکے۔ اس کے لیے امریکا نے حفاظت خوداختیاری کا بہانہ تراشا اور دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی اس اعلان شدہ پالیسی پر عمل کیا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ افراد کو دنیا کے جس گوشے میں بھی پائیں گے، فوجی کارروائی کر کے اپنے قبضے میں لے لیں گے، حالانکہ نہ اقوام متحدہ نے ان کو یہ حق دیا ہے اور نہ بین الاقوامی قانون اور روایات نے، جن کی رُو سے صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۷ کے تحت یا قانونی طور پر دو ملکوں کے درمیان معاہدے (treaty) کے تحت ایسی کارروائی جائز ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان کوئی معاہدہ موجود نہیں، اس لیے کہ پاکستان کے دستور کے تحت کوئی معاہدہ اس وقت تک قانون کا درجہ حاصل نہیں کرتا جب تک کابینہ نے اس کی توثیق نہ کی ہو۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں فوجی کارروائی کے لیے جو قرارداد منظور کی ہے، اس کا اطلاق صرف افغانستان کی حدود پر ہوتا ہے، اس کی حدود سے باہر نہیں اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جو قرارداد منظور کی گئی ہے اس میں تمام ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس قرارداد میں کسی ایک ملک کی طرف سے یک طرفہ کارروائی کی گنجایش نہیں ہے،  مگر امریکا نے اس قرارداد کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی اور حکومت تمام معلومات امریکا کو دیتے رہے لیکن امریکا نے اس اقدام سے پہلے کسی طرح کی اطلاعات و معلومات میں پاکستان کو شریک نہیں کیا، بلکہ اس ذلت آمیز دعوے کے ساتھ کہ اگر پاکستان کو معلومات میں شریک کیا گیا تو وہ مطلوبہ عناصر کو اس کی اطلاع دے دے گا، پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ یوں امریکا نے پاکستان کے سارے تعاون پر پانی پھیر دیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے برعکس یک طرفہ کارروائی کرکے ایک آزاد ملک کی حاکمیت اور خودمختاری کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔

امریکا نے ایک نہیں، پانچ جرائم کا ارتکاب کیا:

۱- پاکستان کی حاکمیت پر حملہ اور اس کی فضائی حدود (air space) اور آباد زمینی علاقے کی خلاف ورزی، فوجی کارروائی کی شکل میں۔

۲- نہتے انسانوں (مرد، عورتوں اور بچوں) پر حملہ، پانچ افراد کا قتل، ایک کو زخمی کرنا۔

۳- دو مقتول انسانوں کی لاشیں غیرقانونی طور پر اپنے قبضے میں لینا اور انھیں ملک سے باہر لے جانا اور غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک شخص کو اغوا بھی کرنا۔

۴-شہری جایداد اور گھریلو سامان کی تباہی۔

۵- لوٹ اور غصب___  دوسروں کی املاک کو نہ صرف تباہ کرنا بلکہ محض جبر اور قوت کے بل پر ان کی املاک کو اپنے ساتھ لے جانا۔


یہ پانچوں جرم ایک ایسے ملک نے کیے ہیں جو اپنے آپ کو تہذیب کا گہوارہ، جمہوریت کا    علَم بردار، انسانی حقوق کا محافظ اور عالمی امن کا پرچارک قرار دیتا ہے۔ جو اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اس جارحیت کا نشانہ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے رکن ملک کو بناتا ہے جسے وہ اپنا اتحادی بھی کہتا ہے۔ اس کی حدود اور سرزمین کی کھلے بندوں پوری فوجی تیاری اور قوت کے بے محابا استعمال کے ذریعے خلاف ورزی کرتا ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتا ہے۔ امریکا نے اپنے اس اقدام کی وجہ سے پاکستان، پوری عالمی برادری اور خود اقوام متحدہ کے مجرم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ امریکا نے اپنے اس کارنامے کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ اس پر خوشیوں کے شادیانے بجا رہا ہے اور      ستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اس گھنائونے جرم پر ’’ہم نے انصاف کردیا‘‘ کا لیبل لگا رہا ہے۔ امریکا اور اس کے میڈیا نے جھوٹ کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے اور اس کے خوشامدی اور کاسہ لیس اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں لیکن جن کا ضمیر بیدار ہے، وہ امریکا کے اس جرم کا اعتراف کررہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نائن الیون کے سانحے میں جو ہلاک ہوئے ہیں، ان کے ورثا میں بھی   ایسے لوگ موجود ہیں جو اسے انصاف نہیں انصاف کا خون قرار دے رہے ہیں۔

دی گارڈین لندن کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں نائن الیون کے سانحے کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی ایک خاتون کا یہ چشم کشا تاثر شائع ہوا ہے جو اس نے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ نیویارک میں گرائونڈ زیرو پر بن لادن کے حادثے کے بعد رکھا ہے:

مَیں اور نائن الیون کے ہلاک شدگان کے رشتہ دار اُمید کرتے ہیں کہ ہم اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکا کو جنگ کے بجاے انصاف کی راہ پر لائیں گے۔

اپنے اس مختصر نوٹ میں وہ لکھتی ہے:

بن لادن کی موت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے۔ مَیں اور میرے ساتھی پُرامن مستقبل کے لیے چاہتے ہیں کہ نائن الیون کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ انصاف عدالت کے کمرے میں ملتا ہے، میدانِ جنگ میں نہیں۔ مجھے انتقام نہیں، انصاف چاہیے اور یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ساڑھے نو برس سے میں نائن الیون کی انسانی قیمت کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ یہ صرف وہی زندگیاں نہیں ہیں جو اس روز لی گئیں بلکہ وہ سب فوجی اور شہری جن کی جانیں ان دو جنگوں کی نذر ہوئیں اور جن کی زندگیاں اب بھی خطرے میں ہیں اور ۱۱ستمبر کے نام پر برباد کی جارہی ہیں، سب اس میں شامل ہیں۔

کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسٹرو نے ۴ مئی کو اپنے تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے:

بن لادن کئی برس تک امریکا کا دوست رہا۔ اسی نے اسے فوجی تربیت دی۔ وہ روس اور سوشلزم کا دشمن تھا۔ اس پر خواہ کوئی بھی الزام لگائے جائیں لیکن عزیزوں کے سامنے ایک غیرمسلح شخص کا قتل، ایک قابلِ نفرت بات ہے۔ بظاہر یہ تاریخ کی سب سے زیادہ طاقت ور قوم کی حکومت نے کیا ہے۔ اوباما نے اپنے ۳ہزار شہریوں کی ہلاکت پر غم کا اظہار کیا ہے لیکن دیانت دار انسان یہ نہیں بھول سکتے کہ امریکا نے عراق اور افغانستان میں جو غیرمنصفانہ جنگیں مسلط کیں، ان کے نتیجے میں لاکھوں بچے اپنے ماں باپ کے بغیر بڑے ہوئے،اور لاکھوں والدین اپنے بچوں کے لمس سے محروم کردیے گئے۔ لاکھوں شہری عراق، افغانستان، ویت نام، لائوس، کمبوڈیا اور کیوبا اور دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں کے دیہاتوں سے لے جائے گئے۔ لاکھوں انسانوں کے ذہنوں میں ابھی تک وہ ہولناک مظالم محفوظ ہیں جو کیوبا کے مقبوضہ علاقے گوانتاناموبے میں برسوں قید رکھے جانے والے قیدیوں پر ناقابلِ برداشت تعذیب کی صورت میں ڈھائے گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اغوا کیا گیا اور نام نہاد مہذب معاشروں کی ملی بھگت سے خفیہ قیدخانوں میں منتقل کیا گیا۔

امریکا کا مشہور دانش ور چوم نومسکی ۶مئی کو اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے:

اسامہ کی حیثیت ایک مشتبہ کی تھی۔ طالبان کی حکومت امریکا سے ثبوت مانگتی رہی لیکن امریکا کے پاس ثبوت نہیں تھے، چنانچہ اب اوباما کا اپنے بیان میں یہ کہنا کہ ’’جلد ہی معلوم ہوگیا کہ نائن الیون کے حملے القاعدہ نے کیے تھے‘‘، سراسر جھوٹ ہے۔ بعد میں بھی ابھی تک کوئی سنجیدہ ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے۔ بن لادن کے اقبالی بیان کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ میں یہ اعتراف کرلوں کہ میں نے بوسٹن میراتھن جیتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر عراقی کمانڈو جارج بش کے کمپائونڈ میں اُتریں، اس کو قتل کردیں اور اس کی لاش کو بحراوقیانوس میں پھینک دیں تو ہمارا کیا ردعمل ہوگا؟ اس کے جرائم بلاکسی خوف تردید بن لادن سے بہت زیادہ ہیں اور اس کی حیثیت ایک مشتبہ کی نہیں بلکہ فیصلہ کرنے والے کی ہے جس نے بین الاقوامی جرم کرنے کا حکم دیا۔ یہ وہ جرائم ہیں جن پر نازی مجرموں کو پھانسیاں دی گئیں۔

برطانیہ کا چوٹی کا وکیل جیفرے رابرٹسن  لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں اپنے ایک طویل مضمون میں جس کا عنوان Why it is Absurd to claim that Justice has been done ہے، یہ لکھتا ہے:

امریکا میں مشرق کے چالاک جادوگر کی موت پر خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ یہ ایک ایسے قتل کی تائید کرنا ہے جس کا ایک صدر نے حکم دیا جو قانون کے ایک سابق پروفیسر کی حیثیت سے جانتا ہے کہ اس کا یہ بیان کہ ’انصاف ہوگیا‘ واہیات بات ہے۔ بن لادن کے قتل کی تائید کی جارہی ہے کیونکہ گرفتاری، مقدمہ اور پھر فیصلہ دینے میں بڑی مشکلات تھیں لیکن ایک بہتر دنیا کے مفاد میں کیا اس کی کوشش نہیں کی جانا چاہیے تھی؟ مقابلے کی تفصیلات بھی واضح نہیں۔ قانون اپنے دفاع میں مجرم کو مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ ممکن ہو تو ہتھیار ڈالنے کا موقع دینا چاہیے اور اگر وہ ہاتھ نہ بھی اُٹھائیں تو کسی اندیشے کے بغیر ممکن ہو تو انھیں زندہ گرفتار کرنا چاہیے۔ بن لادن کو گولی کیسے ماری گئی؟ خصوصاً اگر سر کے پچھلی جانب ماری گئی ہے تو اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔  پوسٹ مارٹم کے بغیر جو کہ قانون کا تقاضا تھا سمندربرد کرنے کی آخر کیا جلدی تھی؟ جو لوگ مقدمے کو غیرضروری، مشکل اور خطرناک سمجھتے ہیں وہ یہ بات نظرانداز کردیتے ہیں کہ بن لادن کے قتل نے اسے شہید بنا دیا ہے۔ وہ بعد موت کے اس کردار میں زیادہ خطرناک ہے، اور اس پر مقدمہ نہ چلنے کے نتیجے میں اس کے افسانوی کردار اور نائن الیون کے بارے میں سازشیں تصفیہ طلب ہی رہیں گی۔

دی انڈی پنڈنٹ کی ایک اور مضمون نگار جوڈی می انٹائر ۳مئی ۲۰۱۱ء کے شمارے میں لکھتی ہے:

میں سمجھتی تھی کہ انصاف یہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو عدالت میں لایا جائے نہ کہ انھیں ہدف بنا کر ختم کردیا جائے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ میں غلطی پر تھی۔ اگر ہم اس منطق کو مان لیں کہ بن لادن نامی ایک آدمی کو قتل کرنے سے نائن الیون کے ہزاروں مقتولین سے انصاف ہوگیا تو امریکا اور برطانیہ کے عراق پر حملے کے بعد اندازاً ۱۰لاکھ عراقیوں کے خون کا انصاف کس طرح ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ حالات اب بھی موجود ہیں جن سے بن لادن کا نظریہ پھیلتا ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ اب بھی قائم ہے۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ اب بھی برقرار ہے۔ لیبیا پر بم باری جاری ہے۔ اگر آج اسامہ بن لادن مارا جاچکا ہے تو کیا دنیا ایک بہتر جگہ بن گئی ہے؟ کیا ہم زیادہ محفوظ ہوگئے ہیں؟ اس صورت میں کہ ایک ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو دنیا کا تھانے دار بھی سمجھتا ہے اور دنیا بھر میں ایک ہزار سے زائد فوجی اڈے رکھتا ہے، میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتی۔

انگلستان کے اہم ترین مذہبی رہنما آرچ بشپ آف کینٹربری ڈاکٹر روان ولیمز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ:

Killing Bin Laden when he was not carrying a weapon meant that justice could not  be seen to be done.

ہم نے امریکا اور یورپ کی چند اہم شخصیات کے ان واضح خیالات کو اس لیے پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے حضرات کے غوروفکر کے لیے پیش کیا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے بارے میں ساری غلط فہمیوں کے باوجود، امریکا کے ان جارحانہ، غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی اقدامات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہرقانون کو پامال کرنے، دوسروں کی حاکمیت اور سلامتی کو محض قوت کے زعم پر پامال کرنے پر گرفت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ وہ ملک جس کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کو اس دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کیا گیا، اس کی قیادت، حتیٰ کہ اس کا صدر، وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ بھی ۴۸گھنٹے تک مذمت کا ایک لفظ کہنے کی جرأت نہ کرسکے، بلکہ صدر اور وزیراعظم نے امریکا کے اس جارحانہ اقدام پر مبارک باد دی اور وزارتِ خارجہ کے سرکاری ردعمل میں پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ:

یہ آپریشن امریکا کی اعلان شدہ پالیسی کے مطابق تھا کہ اسامہ بن لادن دنیا میں جہاں بھی پایا جائے گا، براہِ راست فوجی کارروائی کر کے اسے ختم کردیا جائے گا۔

اس سے زیادہ معذرت خواہانہ بلکہ غلامانہ ردعمل اور کیا ہوسکتا ہے۔ شرم کا مقام ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ یہ بیان دے رہی ہے اور بھارت کا ایک نام ور کالم نگار پرافل بڈوال اس واقعے پر Did the US serve Justice? کے عنوان سے لکھتا ہے:

کیا امریکا نے، جیساکہ صدر بارک اوباما نے کہا ہے، اسامہ بن لادن کو قتل کرکے  نائن الیون کے ہلاک شدگان کا انصاف حاصل کرلیا ہے___ دیانت داری سے اس کا جواب ’نہیں‘ ہے۔ امریکا نے انتقام لیا ہے، انصاف نہیں کیا۔ مکمل انصاف کا مطلب  یہ ہوگا کہ نائن الیون کے تمام مجرموں پر کھلا مقدمہ چلایا جائے۔ اس کا یہ بھی تقاضا ہوگا کہ جہادی دہشت گرد جن جائز شکایات کو استعمال کرتے ہیں ان کو انسانی بنیادوں پر دُور کیا جائے، جن کا تعلق مغرب کی بالادستی کے منصوبوں اور اسلام کو مجسم شر کی حیثیت سے پیش کرنے، اور فلسطین پر اسرائیل کے قبضے سے ہے۔

ہم نے اپنے تجزیے کے اس حصے میں امریکا کے جارحانہ اقدام، پاکستان کی حاکمیت، آزادی اور خودمختاری کی بدترین پامالی اور بین الاقوامی قانون، اور انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی پوری دیدہ دلیری، اور رعونت سے بربادی اور پامالی کے کچھ پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔


دوسرا الم ناک پہلو پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے کردار کا ہے۔ امریکا نے تو وہ کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا اور اس کے عزائم اور ہتھکنڈے کوئی ڈھکی چھپی چیز نہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس اور دفاع کے ذمہ داروں کا کیا کردار رہا؟ امریکا کو اتنی ہولناک کارروائی کرنے کا موقع کیوں حاصل ہوا؟ ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں کہ نہ ان کو یہ معلوم ہوسکا کہ اسامہ بن لادن کب سے کہاں مقیم ہے؟ آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف آئی اے، صوبائی پولیس اور اسپیشل برانچ یہ سب کہاں غائب تھے؟ پھر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر کم از کم دو گھنٹے ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے رہے، ایندھن بھی بھرا گیا، حملہ آور بھی ہوگئے، ایک ہیلی کاپٹر گر گیا یا گرا لیا گیا اور اس کے شعلے بلند ہوگئے۔ محلے کے سارے لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے، چھتوں پر شوروغوغا ہوا مگر ہماری سرحدوں کے محافظ اور ہمارے شہروں کے پاسبان دشمن کے اپنا مشن پورا کرنے کے بعد حرکت میں آئے اور صرف ہاتھ مَلتے رہ گئے۔ ہماری نگاہ میں اس کے کم ازکم آٹھ پہلو ہیں جن پر گفتگو کی ضرورت ہے، یعنی:

۱- انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی___ غفلت، یا اہلیت کی کمی۔

۲- دفاعی نظام کی کمزوری اور ناکامی کہ بروقت اقدام سے عاجز رہا، خصوصیت سے  مسلسل دو گھنٹے تک کارروائی جاری رہنا اور جوابی ردعمل میں کوتاہی۔

۳- خطرات کا ادراک (perception) اور اس کے مطابق دفاعی حکمت عملی کی خامیاں۔

۴- ملک کی سلامتی کی پوری صورت حال کا جائزہ کہ اس میں کہاں خلا ہے اور کون کون سے وہ پہلو ہیں جن کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور اتنی بڑی چوٹ کھانی پڑی۔

۵- ان سب کی روشنی میں سب سے بنیادی مسئلہ امریکا سے تعلقات کی نوعیت، اس کے اور ہمارے مقاصد، مفادات اور تحفظات کا ادراک، پاکستان میں امریکا کا کردار۔ پرویز مشرف کے دور سے اب تک کیا مراعات اور مواقع ان کو دیے گئے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ باہمی تعامل کے قواعد کیا ہیں اور کن حدود میں رہ کر ایک غیرملک اور اس کے اداروں کو کام کی اجازت اور مواقع ہیں؟ ان کی نگرانی کا کیا نظام ہے اور خلاف ورزی کو چیک کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا نظامِ کار بنایا گیا ہے؟ اگر نہیں بنایا گیا تو کیوں اور اگر ہے تو اس میں کیا خامیاں اور خلا ہیں؟

۶- جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بڑا گہرا تعلق امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں پاکستان کے پھنس جانے کا بڑا اہم کردار ہے۔ دوسروں کی جنگ نے کس طرح ہماری سرزمین کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا۔ جہاں سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا وہ اب خطرات کا جنگل بن گیا ہے۔ دوست دشمن بن گئے اور جن کو دوست سمجھا وہ دشمنوں سے بھی کچھ سوا نکلے۔ پورے علاقے کے امن کو کس چیز نے تہ و بالا کر دیا ہے اور کس طرح اس جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے اور جو اسباب، بگاڑ اور تصادم کے ذمہ دار ہیں، ان کو کس طرح دُور کیا جائے۔ ایبٹ آباد کا واقعہ اس پورے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ضرورت اس پورے مسئلے پر ازسرنو غور کرنے اور نئی پالیسی اور نئی حکمت عملی بنانے کی ہے۔


ایک اور بڑا اہم پہلو سول اور فوجی نظام کے تعلق کا ہے جس کا اس پورے معاملے سے بڑا گہرا اور قریبی تعلق ہے۔ عوام اور حکومت کی سوچ اور عزائم میں فرق، سول اور فوجی اداروں کے درمیان پالیسی اور دوسرے تمام متعلقہ امور کے بارے میں ہم آہنگی اور عوام کی توقعات اور سول اور فوجی قیادت کی کارکردگی میں فرق۔ عوام کی نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی اُمنگیں اور عوام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی مسائل، نیز قومی وسائل کے منصفانہ اور حکیمانہ استعمال کا مسئلہ جس کے نتیجے میں عوام کو خوش حالی، امن اور انصاف میسر آسکے۔ معیشت کا قرضوں کے بوجھ تلے دب کر امریکا پر ایسا انحصار جو ملک کی آزادی اور سالمیت کو متاثر کر رہا ہے، ایک بڑا بنیادی ایشو بن گیا ہے۔ دفاع اور عوام کی ضروریات کی تسکین کے تقاضے کہاں ہم آہنگ ہیں اور کہاں متصادم ہیں۔ ان میں صحیح تناسب کس طرح قائم ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی، عسکری اور معاشی امور باہم مربوط ہیں اور حالات کے صحیح تجزیے اور مناسب پالیسیوں کی تشکیل کے لیے ان تمام امور پر غور ضروری ہے۔

ان تمام امور کے ساتھ ایک بڑا اہم مسئلہ ہمارے قومی موقف، ہمارے اہداف، حکمت عملی اور جائز مفادات کے صحیح صحیح ابلاغ (communication) سے متعلق ہے۔ ایک طرف پاکستان کو ساری دنیا میں ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، ہماری صورت کو بگاڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، ہمیں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے، اور دوسری طرف ہماری حکومت ہمارے سفارتی نمایندے اور ہمارا میڈیا اپنے اپنے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں اور پاکستان کے موقف کو دلیل اور قوت کے ساتھ پیش نہیں کیا جا رہا۔ بلاشبہہ صحیح پالیسی کی تشکیل اولین ضرورت ہے لیکن اپنی پالیسی اور اپنے نقطۂ نظر کو مؤثرانداز میں پیش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بہت سی وہ باتیں جو ہمیں اعتماد کے ساتھ پیش کرنی چاہییں، دوسرے اپنے الفاظ میں اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پیش کر رہے ہیں اور ہمارا مقدمہ مناسب پیروی نہ ہونے کے باعث کمزوری کا شکار ہے اور ہم کوتاہی کی وجہ سے نقصان اُٹھا رہے ہیں۔ اس لیے ابلاغ بھی ایک اہم ضرورت ہے جس کے تقاضوں کو پورا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

ان امور کی روشنی میں اصل چیلنج یہ ہے کہ آیندہ کے لیے قومی پالیسیاںا ور دفاع اور ترقی کی ایسی حکمت عملی کا تعین کیا جائے جو ملک کو موجودہ دلدل سے نکالنے میں ممدومعاون ہو۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان تمام امور پر آیندہ اشارات میں اپنی معروضات پیش کریں۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔


عزمِ نو

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن  آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ الابلاغ ٹرسٹ کے زیراہتمام ماہنامہ ترجمان القرآن مارچ ۲۰۱۱ء تک جاری رہا۔ اب بوجوہ اسی ادارت اور انتظام کے تحت ایک نئے نام سے آغاز کیا جا رہا ہے۔ یہ رسالہ کسی تجارتی مقصد یا ذاتی غرض سے نہیں نکالا جارہا ہے بلکہ ایک فکری تحریک کا نقیب اور ایک دعوت اور تحریک کا داعی اور ایک نظریاتی، اخلاقی، انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے لیے جرسِ کارواں کا کردار ادا کرنے والا رسالہ ہے۔ سیدمودودیؒ کے الفاظ میں: ہمارے پیش نظر صرف ایک مقصد ہے، اور وہ مسلمانوں کو قرآن کی طرف دعوت دینا ہے۔ رسالے کی اشاعت فی نفسہٖ مقصود نہیں بلکہ محض اس دعوت کی اشاعت کے لیے ہے۔ ہر داعی و مبلغ کی طرح ہماری بھی یہ دلی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک ہمارا پیغام پہنچے۔ ہمیں خریداروں کی ضرورت نہیں، پڑھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اگر ایک رسالے کو ہزار ہزار آدمی بھی پڑھیں، تو ہمیں رنج نہ ہوگا بلکہ مسرت ہوگی۔ اگر ہمارے مضامین اخباروں اور رسالوں میں نقل کیے جائیں تو ہم اُن کا شکریہ ادا کریں گے کہ انھوں نے اس دعوت میں ہمارا ہاتھ بٹایا۔

عالمی ترجمان القرآن قرآنی افکارو تہذیب کا نقیب ہے۔ ہمارا تعلق اسی فکری اور نظریاتی تحریک سے ہے جس کا آفتاب حرا اور فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا تھا اور جس کا مقصدِوحید قرآن و سنت کی روشنی میں اور اپنے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبے کی تشکیلِ نو اور اسلامی نشاتِ ثانیہ ہے۔ اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی اصلاح کرتا ہو اور جس کا کُل سرمایۂ حیات کچھ عبادات، چند اذکار اور رسوم و رواج کے ایک مجموعے پر مشتمل ہو۔ اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو خالقِ کائنات اللہ رب العالمین کی ہدایت اور اس کے نبی صادق علیہ السلام کے نمونے کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی صورت گری کرتا ہے اور حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کو اللہ کے نور سے منور کرتا ہے، خواہ وہ پہلو انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا تمدنی، مادی ہو یا روحانی، معاشی ہو یا سیاسی، ملکی زندگی سے متعلق ہو یا بین الاقوامی اور عالمی امور سے۔ اسلام کی اصل دعوت ہی یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو اور دل کی دنیا سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہر گوشے تک خالق کائنات کی مرضی پوری ہو___ یہی وجہ ہے کہ مسلمان نام ہے اس نظریاتی انسان کا جو ایک طرف خود اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت کے لیے خالص کرلے اور دوسری طرف خدا کے دین کو اپنے گھر، اپنے معاشرے، اپنی معیشت، اپنی سیاست اور ریاست اور بالآخر تمام روے زمین پر غالب کرنے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے ، اس لیے کہ: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن۳:۱۹) ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔ اس دین کا اپنے تمام پیروکاروں سے مطالبہ ہی یہ ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہ کریں اور پوری زندگی کو اپنے رب کی مرضی کے تابع کر دیں، تاکہ زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے روشنی اور ہدایت صرف اس دین سے حاصل کی جائے، اور طاغوت کو زندگی کے کسی بھی گوشے میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع نہ ملے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

عالمی ترجمان القرآن اس دعوت کا داعی ہے اور آنے والے دنوں میں حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں اس پیغام کو ہرایک تک پہنچائے گا۔

آیئے! اس موقع پر عزمِ نو کے ساتھ ساتھ دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں: اے اللہ! تو ہمارا حامی و ناصر ہوجا، ہم صرف تیری رضا کے لیے، تیرے دین کی سربلندی کے لیے، تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو عام کرنے کے لیے، تیرے بندوں کو تیری بندگی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے اور انسانیت کو طاغوت کی مسلط کردہ تاریکیوں سے نکال کر تیری ہدایت کی روشنی کی طرف لانے کے لیے، تیری مدد، توفیق اور استعانت کے طالب ہیں۔

ہمارا سہارا تو اور صرف تو ہے اور تیرے سوا کوئی نہیں جو ہم جیسے کمزور انسانوں کو سہارا دے سکے، بلاشبہہ تو ہی  نعم المولٰی ونعم النصیر ہے___  وما توفیقی الا باللّٰہ!


الابلاغ ٹرسٹ کے پاس جن خریداروں کا زرتعاون جمع ہے ، ان کی خریداری میں ایک ماہ کا اضافہ کردیا جائے گا___ انتظامیہ الابلاغ ٹرسٹ

موت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سب کے ساتھ یکساں معاملہ کرتی ہے اور بڑے اور چھوٹے، امیروغریب، عالم اور عامی، حکمران اور محکوم، سب کو برابر کردیتی ہے۔ اس حقیقت کو انگریزی محاورے death, the great leveler کے مختصر جملے میں بیان کیا گیا ہے،لیکن اس کلیے میں ایک دوسری حقیقت کو نظرانداز کردیا گیا ہے کہ موت وہ حقیقت بھی ہے جو جہاں سب کو زمین کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سلادیتی ہے، وہیں کچھ نفوس ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو موت ہی زندۂ جاوید بنادیتی ہے___ جن کی یاد حرزِ جاں بن جاتی ہے اور جن کے جلائے ہوئے چراغ روشنی کے مینار بن کر تاریکیوں کو مسلسل چھانٹنے اور فضا کو منور کرنے کا کام انجام دیتے ہیں، جو ہمارے درمیان سے اُٹھ کر بھی ہم سے دُور نہیں ہوتے    ؎

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے

۲۷ فروری ۲۰۱۱ء کو عالمِ اسلام کی ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت اور ترکی میں اسلامی احیا کی جدید انقلابی تحریک کا میر کارواں پروفیسر نجم الدین اربکان بظاہر ہم سے رخصت ہوگیا، لیکن ترکی ہی نہیں، عالمِ اسلام میں روشنی کے ایسے چراغ جلا گیا جو تاریخ کی تاریک راہوں کو مدتوں منور رکھیں گے! ___ ان شاء اللہ تعالیٰ!

  •  نظریاتی کش مکش: ۲۰ویں صدی میں ترکی کی تاریخ پر اپنے اَنمٹ نقوش چھوڑنے والوں میں چار شخصیات نمایاں ہیں: سلطان عبدالحمید ثانی جو دولتِ عثمانیہ کا آخری چراغ تھا اور اپنی ۳۳سالہ جدوجہد (۱۸۷۶ء-۱۹۰۹ء) کے باوجود چھے صدیوں پر پھیلی ہوئی اس عالمی اسلامی قوت کو اندرونی انتشار اور بیرونی یلغار سے نہ بچا سکا۔ پھر ترکی کے اُفق پر مصطفی کمال پاشا نمودار ہوا جس نے اپنی جدوجہد کا آغاز تو اسلام کے اس آخری حصار کو بچانے اور یورپ کی استعماری قوتوں کی فوج کشی کا مقابلہ کرنے سے کیا اور عالمِ اسلام نے اسے ایک نجات دہندہ سمجھ کر غازی اور اتاترک کا خطاب دیا، لیکن فوجی محاذ پر یورپی اقوام کے دانت کھٹے کرنے اور ترک قوم  اور اناطولیہ کی سرزمین کو استعمار کی گرفت سے بچالینے کے بعد مغربی تہذیب و تمدن اور مغرب کے اندازِ سیاست کا ایسا اسیر بنا کہ دین اور سیاست کے رشتے کو پارہ پارہ کردیا۔ ترک قومیت کو اسلامی شناخت پر غالب کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۲۳ء میں ترک ری پبلک کے قیام کا اعلان کیا اور ۱۹۲۴ء میں خلافت کی قبا کو بھی تارتار کردیا، اور پھر ۱۹۲۷ء میں ترکی کو ایک لادینی ریاست بنانے اور مذہب کو اجتماعی زندگی کے ہر شعبے سے خارج کرنے، حتیٰ کہ قرآن پاک اور اذان کو بھی ترکی زبان کے سانچے میں ڈھالنے کی جسارت کی۔ عربی رسم الخط کو خلافِ قانون قرار دیا اور مغربی قوانین، علوم و افکار اور معیشت، سیاست، تعلیم، ادب اور معاشرت کے ہرمیدان میں مغرب کی نقالی کا راستہ اختیار کیا۔ جمہوریت کا لبادہ ضرور اوڑھا مگر فی الحقیقت ایک پارٹی اور ایک شخص کی آمریت قائم کی اور یہ سلسلہ ۱۹۳۸ء تک جاری رہا۔

مصطفی کمال کے انتقال کے بعد بھی نظامِ زندگی انھی خطوط پر چلتا رہا، البتہ دوسری    جنگ ِعظیم کے بعد عوام کو کچھ جمہوری آزادیاں ملیں۔ سیاست میں اتاترک کی ری پبلکن پارٹی ہی کے بطن سے ڈیموکریٹک پارٹی نے جنم لیا اور عدنان میندریس کی قیادت میں دو پارٹی نظام اور دستوری حکومت کا ایک گونہ آغاز ہوا جس کے نتیجے میں عوام کو اپنے دینی اور تہذیبی جذبات کے اظہار کا کچھ موقع ملا۔ دینی شعائر پر جو پابندیاں تھیں وہ کم ہوئیں، اذان عربی زبان میں بحال ہوئی، قرآن اور دینی کتب سے رجوع بڑھا، دینی مدارس کا احیا امام خطیب اسکول کی شکل میں ہوا، اور اس طرح ترکی نے اپنی اصل شناخت کی طرف مراجعت کے سفرِ نوکا آغاز کیا۔ سیکولرنظام میں دراڑیں پڑنے لگیں اور اسے ’خطرے کی گھنٹی‘ سمجھتے ہوئے ملک کی سیکولر قوتوں نے، جن کے چار ستون فوج، بیوروکریسی، عدالت اور میڈیا تھے، مغربی اقوام کی مدد سے ترکی کی خود اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کے خلاف ایک نئی کش مکش اور تصادم کو فروغ دیا جس نے قوم کی صلاحیتوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ عدنان میندریس کو پھانسی دی گئی اور ۱۹۶۰ء سے فوجی انقلابات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس کا آخری مظہر فروری ۱۹۹۷ء کی فوجی مداخلت تھی۔

۲۴-۱۹۲۳ء سے ۱۹۹۷ء تک کے نظریاتی کش مکش کے اس دور میں عدنان میندریس کے چندسالہ شعلے کے علاوہ جن دو شخصیات نے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا کام کیا ان میں سب سے نمایاں بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۶ء-۱۹۶۰ء) اور نجم الدین اربکان (۱۹۲۶ء- ۲۰۱۱ء) ہیں۔ سعید نورسی نے شروع میں اتاترک کا ساتھ دیا لیکن جب اس نے سیکولرزم اور مغرب کی تقلید کا راستہ اختیار کیا، قومیت کے سیکولر تصور کو قوت کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کی، اور اسلام کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کا ایجنڈا شروع کیا، تو سعید نورسی نے اسے چیلنج کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن اسلام کی بنیادی دعوت اور پیغام کو زندہ رکھا اور تصوف کے سلسلۂ نقشبندی کے فروغ، دینی مدارس کے قیام اور اپنے خطوط اور تحریروں کے ذریعے اسلام کی شمع کو روشن اور     عام آبادی کو دین سے وابستہ رکھنے کی خدمت انجام دی۔

  •  اربکان کا مشن:نجم الدین اربکان نے ان دعوتی اور روحانی کوششوں کو اپنے انداز میں مضبوط اور مستحکم کرنے کے ساتھ دین کے اجتماعی زندگی میں کردار کے احیا کو اپنا مشن بنایا، اور نہایت مشکل حالات میں بڑی حکمت و دانش مندی اور صبرواستقامت کے ساتھ ترکی کو اس کی دینی اور تہذیبی شناخت کے احیا اور اُمت مسلمہ سے ایک بار پھر جڑ کر طاقت کی نئی قوت کے حصول کے راستے پر ڈالا۔ اس کے ساتھ انھوں نے ترکی کو مغرب کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی غلامی سے نکال کر خودانحصاری اور ملّت اسلامیہ سے دوبارہ جڑنے اور مربوط ہونے کے نئے تاریخی سفر کا آغاز کیا۔

علامہ اقبال نے مصطفی کمال پاشا کے لادینی نظام کے تجربے کے بارے میں جو گِلہ کیا تھا، نجم الدین اربکان نے اپنی ۴۰سالہ جدوجہد سے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا انقلابی کارنامہ انجام دیا۔ اقبال نے ترکی کے انقلابِ معکوس کے بارے میں کہا تھا    ؎

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

اور یہ کہ    ؎

لادینی و لاطینی ، کس پیچ میں اُلجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا ، لا غَالِبَ اِلاَّ ھُوَ

اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو روحِ شرق کو ایک بار پھر جسدِ ترکی میں بیدار کرنے کی سعادت بخشی، وہ پروفیسر نجم الدین اربکان ہیں۔

نجم الدین اربکان ۲۹ ؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کو بحراسود کے ساحل پر واقع ایک پُرفضا شہر سینوپ (Sinop) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد صابری دولت عثمانیہ میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ابتدائی تعلیم طرابزون(Trabzon) میں اور ہائی اسکول کی تعلیم استنبول کے جدید طرز کے مدرسے Istanbul Lisrei میں ہوئی۔ پھر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں میکنیکل انجینیرنگ میں امتیاز کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی جس کی تکمیل جرمنی کی RWTH Aachen University میں ہوئی جہاں سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نیز عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے جرمنی کی  ایک بڑی موٹر کمپنی Humbolt Dentzمیں کئی سال کام کیا اور اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ ڈیزل انجن ڈیزائن کے میدان میں نئی دریافت سامنے لائے، اور اُس ٹیم کے چیف انجینیر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں جس نے جرمنی کے مشہور Leopard IA Tankکو ڈیزائن کیا۔ اس  اعلیٰ تعلیمی اور تجرباتی ریکارڈ کے ساتھ ترکی واپس آکر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۵ء تک تدریس کے فرائض انجام دیے اور پروفیسر کے درجے پر مامور رہے۔ اس زمانے میں ترکی میں موٹر انڈسٹری کے فروغ کے لیے بھی سرگرم رہے، اہم صنعتی اداروں میں بحیثیت مشیر کام کیا اور بالآخر ترکی کی صنعت و تجارت کے اعلیٰ ترین ادارے یونین آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے جنرل سیکرٹری اور ڈائرکٹر جنرل کی ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ اس زمانے میں انھیں ملک کے بااثر معاشی اداروں سے قریبی تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ سے خائف ہوکر ان کے ایک سابق کلاس فیلو اور برسرِاقتدار حکمران سلیمان ڈیمرل نے چیمبر سے ان کو فارغ کر دیا۔ یہی وہ موڑ تھا جب نجم الدین اربکان نے عملی سیاست میں شرکت کا فیصلہ کیا۔

  •  ملّی گورش کا قیام: ۱۹۶۹ء میں انھوں نے دو بڑے اہم فیصلے کیے۔  اسلام کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں فرد اور معاشرے کی تشکیلِ نو کے لیے نوجوانوں کی ایک منظم تحریک کا قیام جسے ’ملّی گورش‘ کا نام دیا گیا۔ اس موقع پر اسی نام سے اربکان نے اپنی پہلی تحریر قوم کے سامنے پیش کی جو ان کا منشور بن گئی۔ ترکی کی اسلامی تحریک کا منبع اور محور نوجوانوں کی یہی تنظیم ہے۔ چونکہ ترکی قانون کی رُو سے اسلام کا نام استعمال نہیں ہوسکتا، اس لیے اربکان نے ملّت کی اصلاح کو اپنے سارے اجتماعی اور دعوتی کام اور نظامِ حق کو اپنے فکری کام کا ذریعہ بنایا ہے۔ ملّی گورش اس وقت ترکی کے جوانوں کی اہم ترین تنظیم ہے جس کا سارا زور فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے اور اخلاقی، روحانی اور اجتماعی تربیت کے اہتمام اور نوجوانوں میں دعوت اور روحِ جہاد کو منظم انداز میں ترقی دینے پر ہے۔ اس سلسلے میں ملّی گورش نہ صرف ترکی کے طول و عرض میں بلکہ جرمنی اور دیگر ایسے  تمام ممالک میں بھی (جہاں جہاں ترک موجود ہیں) نوجوانوں کی سرگرمیوں کو منظم کرتی ہے۔ مزیدبرآں استنبول کے اسلامی قلمرو میں آنے کی مناسبت سے ہر سال ۲۹مئی کو ’یومِ فاتح‘ کے عنوان سے ایک سالانہ تقریب کا اہتمام کرتی ہے جس میں ترکی سے لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں اور عالمِ اسلام سے بھی اہم اسلامی شخصیات اس میں شرکت کرتی ہیں۔ محترم قاضی حسین احمد اور مجھے اس میں کئی بار شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ان تاریخی اجتماعات میں پورا اسٹیڈیم لوگوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا، اربکان اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ پورے اسٹیڈیم کا چکر لگاتے اور ان کا استقبال ’مجاہد اربکان‘ کے فلک شگاف نعروں سے ہوتا تھا۔ اربکان نے اس کے ساتھ خدمتِ خلق کے دو اہم ادارے قائم کیے: جان سویو اور آئی ایچ ایچ، جن کے ذریعے ترکی اور پوری دنیا میں خدمت خلق کا ایک عالمی نیٹ ورک قائم کیا۔
  •  نظریاتی سیاست اور جدوجھد: اربکان نے ترکی پارلیمنٹ کے ۱۲؍اکتوبر ۱۹۶۹ء کے انتخابات میں بطور آزاد رکن حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ یہاں سے اسلام کی بنیاد پر نظریاتی سیاست اور اجتماعی تبدیلی کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ ایک سال پارلیمنٹ میں اپنا لوہا منوانے کے بعد ’ملّی نظام پارٹی‘ کے نام سے پہلی نظریاتی پارٹی قائم کی، جس کے وہ سربراہ تھے۔ اس کے قیام کے ساتھ ہی سیکولر نظام اقتدار اور مغربی اقوام میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فوج حرکت میں آگئی۔ ملّی نظام پارٹی کو خلافِ قانون قرار دے دیا گیا لیکن نجم الدین اربکان نے سیکولرزم کے ہروار کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ چار بار ان کی جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا اور ہر بار وہ     نئے روپ میں اور زیادہ طاقت ور حیثیت سے نمودار ہوئے۔ ایک موقع پر جمہوریت کے مسلّمہ اصولِ جماعت سازی کے حق کی بنیاد پر ترکی کے عدالتی نظام کا پول کھولنے کے بعد جمہوریت کی  علَم بردار یورپین عدالت میں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مقدمہ لڑا ۔ اس طرح ساری دنیا کے سامنے اس کا دوغلاپن الم نشرح کر دیا کہ جمہوری یورپ کو اسلام کے نام کے بغیر بھی اسلامی شناخت کو اُجاگر کرنے والی سیاسی جماعت پر پابندی میں کوئی چیز جمہوریت اور انسانی اور سیاسی حقوق کے خلاف نظر نہیں آتی، اور اس نے بھی پوری ڈھٹائی سے ترکی کی عدالت کے فیصلے کی توثیق کردی۔ اربکان نے ملّی نظام پارٹی کے بعد نام بدل بدل کر یکے بعد دیگرے ملّی سلامت پارٹی، رفاہ پارٹی، سعادت پارٹی اور فضیلت پارٹی کے نام سے سیکولر قوتوں اور فوجی قیادت کے ہر وار کے بعد نئی جماعت قائم کی، اور اس طرح مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے ترکی کی سیاسی فضا کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کا حال یہ رہا کہ    ؎

جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اللہ اپنے جس بندے سے جو کام لینا چاہتا ہے ، لے لیتا ہے۔ نجم الدین اربکان ترکی کی تاریخ کا رُخ ایک بار پھر اسلام اور اُمت مسلمہ کی طرف موڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔     وہ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۷ء تک (ماسوا اُن ادوار کے، جب وہ قید میں تھے یا ان پر سیاست میں   شرکت کرنے پر پابندی تھی) پارلیمنٹ کے رکن اور ایک اہم سیاسی پارٹی کے قائد رہے۔ دو بار نائب وزیراعظم اور ایک بار وزیراعظم رہے۔ آخری ۱۰، ۱۲ سال ان پر بہت سخت گزرے لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھے۔ مخالفین کے وار تو وہ ہمیشہ سہتے ہی رہے لیکن اس دور میں ان کو اپنوں سے بھی دُکھ پہنچے۔ اس کے باوجود ان کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ اکیسویں صدی میں ترکی کے کردار پر جس شخص کا سب سے نمایاں اثر ہے، اور رہے گا وہ نجم الدین اربکان ہیں۔ ان کی بعض آرا یا اقدام کے بارے میں دو رائیں ہوسکتی ہیں لیکن ان کے تاریخ ساز کارناموں کا اعتراف دوست اور دشمن سبھی کر رہے ہیں اور مستقبل کا مؤرخ یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ اربکان کی ۴۰سالہ نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی جدوجہد نے ترکی کے سیاسی اور تہذیبی سفر کے رُخ کو تبدیل کر دیا ہے۔

نجم الدین اربکان سے میرے تعلقات کی داستان بھی نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری پہلی ملاقات کراچی میں اس وقت ہوئی جب ۱۹۶۷ء میں وہ ترکی کے چیمبر آف کامرس   اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے۔  وہ بڑے اشتیاق سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے دفتر، واقع ناظم آباد میں تشریف لائے۔ پھر ہماری ملاقاتیں اسلامک کونسل آف یورپ کے اجتماعات میں بڑی باقاعدگی اور تسلسل سے ہوتی رہیں۔ میں نے ۱۹۶۶ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۰، ۱۵ مرتبہ ترکی کا دورہ کیا اور ہربار ان سے ملنے کا موقع ملا، حتیٰ کہ جب وہ نظربند تھے اس وقت بھی مجھے ان سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۹۹۰ء کی جنگِ خلیج کے موقع پر ،عالمی تحریکات کے وفد میں وہ ہمارے ساتھ تھے۔ اس وفد میں شامل محترم قاضی حسین احمد، ڈاکٹر حسن ترابی، راشد الغنوشی اور دنیا کی اسلامی تحریکات کے ۱۵قائدین نے اُردن، عراق، سعودی عرب اور ایران کا دورہ کیا تھا، تاکہ عرب دنیا کو اس تباہ کن جنگ سے بچایا جاسکے جس کے بادل منڈلا رہے تھے اور جو استعماری ایجنڈے کا اہم حصہ تھی۔ اربکان صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت پر پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ میری آخری ملاقات ان سے ۲۰۰۷ء میں ہوئی جب انھی کی دعوت پر ان کی رہنمائی میں کام کرنے والے تحقیقی ادارے Essam کی سالانہ کانفرنس میں مَیں نے کلیدی خطاب کی خدمت انجام دی تھی۔

پروفیسر نجم الدین اربکان کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے، اور حالات کے بہ چشم سر مطالعہ کرنے کے بعد جو چند باتیں میں اس موقع پر کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہیں:

  •  مغرب کی تھذیبی غلامی سے نجات: سب سے اہم چیز پروفیسر نجم الدین اربکان کا وژن ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ وہ ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھیں اچھے خاندان، اچھی تعلیم و تربیت اور اچھے ابتدائی تجربات کی نعمت حاصل تھی لیکن سب سے اہم چیز ان کا یہ احساس تھا کہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ترکی اور عالمِ اسلام کو مغرب کی تہذیبی غلامی سے نکال کر ایک بار پھر اسلام کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے، اور یہ کام اجتہادی بصیرت کے ساتھ ان حالات کے پورے ادراک کے ساتھ انجام دینا ہے جن میں اس وقت ترکی اور پورا عالمِ اسلام گھِرا ہوا ہے۔

ان کی زندگی کا پہلا دور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی تیاری کا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ وہ دین کا علم بھی رکھتے تھے۔ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے انھوں نے اپنے کو اس طرح تیار کرلیا تھا کہ مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتے تھے، جیساکہ اقبال نے کہا تھا    ؎

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے

نقشبندی سلسلے سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ عبادات میں شغف اور تواضع اور خدمت ان کی شخصیت کے دل رُبا پہلو تھے۔ بلاشبہہ انھیں اپنی راے پر بہت بھروسا ہوتا تھا لیکن خوش اخلاقی اور دوسروں کے ساتھ شفقت ان کے کردار کے نمایاں پہلو تھے۔ ان کے فکری کام کا ترکی سے باہر کے علمی حلقوں کو اندازہ نہیں لیکن اس میدان میں بھی ان کی اپنی خدمات کسی سے کم نہیں۔ خود ایک درجن کتابوں کے مصنف تھے اور درجنوں افراد کو تحقیق اور علمی کاموں پر لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ میکنیکل انجینیرنگ کے فطری اور عملی دونوں پہلوئوں پر ان کو مکمل عبور تھا، اور بات گہری سوچ اور  عملی تجربات کی روشنی میں کرتے تھے۔

  •  سیکولر نظام میں تبدیلی کی حکمت عملی: ان کا ایک اور بڑا کارنامہ ایک استبدادی سیکولر نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے تبدیلی کی راہیں استوار کرنا ہے۔ انھوں نے تبدیلی کے لیے فکری، دعوتی، اخلاقی اور جمہوری راستہ اختیار کیا۔ چونکہ اسلام کے نام پر کام مشکل تھا، اس لیے انھوں نے ایک طرف تو ممکنہ حد تک اسلامی علوم اور افکار کی اشاعت کا اہتمام کیا، اور دوسری طرف دعوتِ اسلامی کو دو نئی اصطلاحات اور عنوانات ’ملّت‘ اور ’حق‘ کے تحت اسلام ہی کی خالص دعوت کو پیش کیا۔ اس طرح ان زنجیروں کو کاٹ دیا جو سیکولر قوانین نے ترک قوم کو پہنا دی تھی۔

انھوں نے سیاسی اور نظریاتی تنظیم کا بھی ایک نیا اسلوب اختیار کیا۔ ملّی گورش کو ایک فکری، نظریاتی اور تہذیبی تحریک کے طور پر منظم اور متحرک کیا۔ خدمت کے میدان میں الگ ادارے بنائے، اور خود سیاسی جماعت کے تصور کو بدل کر رکھ دیا جس میں نظریاتی سیاست اور عوامی خدمت اور فلاح کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ طاقت ور اور مفاد پرست طبقوں کے طلسم کو عوامی رابطے،   خدمتِ خلق اور معاشرے اور معیشت کی نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں کو منظم کرنے اور اپنی جدوجہد میں  اپنا دست و بازو بناکر توڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تنظیم کی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، اور انھوں نے ان کا بھرپور استعمال کیا۔ روایت پرستی کی جگہ جدت اور سیاست کو ایک نیا آہنگ دیا جس میں عوامی مسائل کو مرکزیت دی گئی۔ مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کو انھوں نے اپنی سیاسی قوت کی بنیاد بنایا۔ انقرہ اور اِزمیر کے روایتی مراکزِ قوت (power-centres) کے مقابلے میں استنبول جیسے بڑے شہر اور پھر ملک بھر کے شہروں اور قصبات میں اپنی تنظیم کے تنظیمی ڈھانچے قائم کیے۔ بورسا کا تاریخی علاقہ ان کی قوت کا بڑا مرکز بن گیا۔ ۱۹۶۹ء میں صرف ایک نشست پارلیمنٹ میں لینے والے مجاہد نے ۱۹۷۳ء میں ملک کے کُل ووٹوں کا ۱۲ فی صد حاصل کر کے اسمبلی میں ۴۸ نشستیں حاصل کیں۔ ۱۹۸۵ء میں ووٹوں کی تائید گر کر ۷ فی صد رہ گئی لیکن پھر ۱۹۹۵ء میں ۲۱ فی صد ووٹوں کی بنیاد پر اتنی نمایندگی پارلیمنٹ میں حاصل کرلی کہ ایک دوسری جماعت سے اشتراک کی بنیاد پر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوسکے۔ آج کی جسٹس اینڈ ڈائیلاگ پارٹی خواہ ان سے جدا ہوچکی ہے مگر جو کچھ اس نے حاصل کیا ہے، وہ اُسی درخت کا پھل ہے جو پروفیسر نجم الدین اربکان نے لگایا تھا۔

بلاتمثیل یورپ کی تاریخ کا ایک دور ذہن کے اُفق پر اُبھر رہا ہے جس میں کارل مارکس نے اشتراکیت کا فلسفہ بڑی قوت کے ساتھ پیش کیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا۔  عالمی کمیونسٹ تحریک کا بانی بنا اور عالمی انقلاب کی پیش گوئیاں کیں لیکن ۳۰سال کی جدوجہد کے بعد اس کی تحریک ایک فکری لنگر کی طرح تو موجود رہی مگر یورپ کی سیاست میں ارتعاش پیدا نہ کرسکا۔ البتہ اس کی خواہش کے علی الرغم خود اس کی ہی فکر کے بطن سے جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی وجود میں آئی، اور مغربی یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کی سیاسی لہر اُبھرتی چلی گئی جس نے مارکس کے افکار سے اپنا رشتہ تو باقی رکھا مگر تبدیلی کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ مارکس نے اس سے براء.ت کا اظہار کیا اور اپنی آخری تحریر Critique of the Gotha Programme (1883)  میں اس پر کڑی تنقید کی، البتہ سوشل ڈیموکریٹس کا ردعمل کچھ یوں تھا    ؎

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری تھی، کیا رہائی ہے

ترکی کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں بھی وہی تمام خصوصیات تھیں جو خصوصیت سے ترقی پذیر ممالک کی سیاست کی پہچان بن گئی ہیں، یعنی بااثر طبقات کا تسلط، میڈیا، فوج اور بیورکریسی کا کلیدی کردار، مغربی اقوام کی کاسہ لیسی اور ان ملکی اشرافیہ اور مغربی حکمرانوں کا گٹھ جوڑ، نیز عوام کا استعمال اور استحصال۔ نجم الدین اربکان نے متوسط طبقات کو زبان اور سیاسی کردار دیا۔  یہ انھی کی سوچ اور مساعی کا حاصل ہے کہ متوسط اور چھوٹے تاجر اور زراعت سے متعلق افراد متحرک ہوئے اور سیاسی مرکزی دھارے میں آگئے۔ ان کی تاریخی خدمات میں دینی شناخت کو ترکی قوم کی شناخت کی حیثیت سے اُبھارنا اور مغرب سے اچھے تعلقات کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے بھی شعوری طور پر علاقائی ممالک اور عرب اور اسلامی دنیا سے تعلقات کو استوار کرنا اور اجتماعی مفادات کے نئے رشتوں کو استوار کرنا، سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اور مغرب کی معاشی اور سیاسی بالادستی کے چنگل سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنا نمایاں ہیں۔ قومی مفاد پر کسی سمجھوتے کو راہ نہ پانے دینا، عوام سے رابطہ اور ان کی حکومت کو سیاسی جدوجہد کا حصہ بنانا، اور اس کے ساتھ اسلام کو زندگی کی صورت گری کرنے والی ایک قوت کی حیثیت سے پیش کرنا، اور یہ بتانا کہ جس طرح نماز اور روزہ اسلامی زندگی کا لازمی حصہ ہیں اسی طرح اجتماعی عدل، سماجی تعلقات اور کرپشن سے پاک سیاست بھی اسلام کا تقاضا ہے۔ سود ایک لعنت ہے، اس سے نجات اخلاقی ہی نہیں ایک معاشی ضرورت بھی ہے۔ مغربی سامراج اور صہیونی ایجنڈے کا مقابلہ کرنا بھی سیاسی جدوجہد کا اہم حصہ ہے___ یہ سب باتیں وہ ہیں جو ترکی کی سیاسی قیادت بھول چکی تھی اور قوم کا ایجنڈا مغربی تصورات اور مفادات کی روشنی میں بنایا جا رہا تھا۔ یہ اربکان ہی کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ سیاست کا انداز اور قوم کا ایجنڈا تبدیل ہوگیا ہے۔ گو، اب بھی مخالف قوتیں بڑی مضبوط اور شکست ماننے کو تیار نہیں، لیکن رنگِ محفل بدل گیا ہے۔

نجم الدین اربکان کا یہ بھی ایک کارنامہ ہے جس کا باہر کی دنیا میں لوگوں کو پوری طرح شعور نہیں ہے کہ تین میدانوں میں انھوں نے اپنی قوم کی ایسی خدمت انجام دی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا:

  •  سیاست کا نیا آھنگ: سیاست کو مفادات کی سیاست سے کاٹ کر قوم کے عزائم کے مطابق ڈھالنے اور اسے اصولی اور معاشی و معاشرتی موضوعات کے گرد سرگرم کرنا، ان کا نمایاں کارنامہ ہے۔ فوج سے ٹکر لیے بغیر، اور فوج کی تمام دراندازیوں اور زیادتیوں کے باوجود، اور اس کی حقیقی دفاعی قوت کو کم کیے بغیر، سیاست میں اس کی مداخلت کے دروازے بند کرنے کی بڑی حکمت سے کوشش کی۔ جب حالات زیادہ خراب ہوتے دیکھے تو تصادم اور غیر جمہوری حربوں کے استعمال کو سختی سے روکا اور جمہوی اور سیاسی ذرائع ہی کے ذریعے نئی نئی راہیں تلاش کیں، اور وہ کردکھایا جس کی طرف مولانا مودودیؒ نے ۱۹۶۳ء کے جماعت اسلامی کے اجتماع عام کے موقع پر توجہ دلائی تھی: ’’جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت اور صبر دونوں سے نوازا ہو، وہ جوے رواں کی طرح ہوتا ہے جس کی منزل کوئی چیز بھی کھوٹی نہیں کرسکتی۔ چٹانیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں اور دریا کسی اور طرف سے اپنی منزل کی طرف بہہ نکلتا ہے‘‘۔ (رودادِ جماعت اسلامی، ہشتم، ص ۵۵)

سیاست کے آہنگ کو بدلنا کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ ان کے مخالف بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ ترکی اب وہ نہیں رہا جو اربکان کے سیاست میں آنے سے پہلے تھا۔ امریکا کے بااثر علمی مجلے  فارن پالیسی نے اربکان کے انتقال پر جو نوٹ لکھا ہے اس میں اپنی تمام اگرمگر کے باوجود وہ   یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

ترکی اربکان کے سیاسی ورثے کی وجہ سے اور اس کے باوجود ڈرامائی طور پر     تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاشبہہ ترکی کی موجودہ سیاسی کیفیت، اربکان نے ترکی کے سیاسی نظام میں جو کچھ کیا، اس کا بلاواسطہ یا بہت سی صورتوں میں غیرارادی نتیجہ ہے۔  (فارن پالیسی آن لائن، یکم مارچ ۲۰۱۱ء)

اسی مضمون میں آگے چل کر اعتراف کیا گیا ہے:

آج ترکی جو کچھ ہے اس (اربکان) کے بغیر ہونا ممکن نہ تھا۔ ترکی اس کے چھوڑے ہوئے ورثوں کی وجہ سے زیادہ جمہوری اور زیادہ منقسم ہے۔ انھوں نے عوامی ضروریات کو اپیل کرنے اور سماجی تعاون کے حصول کے لیے جو کچھ سکھایا، ترکی کے قائدین اس کے لیے ان کے احسان مند ہیں۔ سیاسی شراکت اور مخالفوں کے ساتھ اشتراکِ عمل کے ان کے طے شدہ طرز نے بھی ان اُمیدوں کو قائم کیا کہ ترکی کے سیاسی نظام میں اسلام کو تعمیری کردار ادا کرنا ہے۔ (ایضاً)

اور اکانومسٹ، لندن یہ لکھنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

ان کے سیکولر دشمن ان کو ایک خطرناک مذہبی انقلابی قرار دیتے ہیں، جب کہ انھیں  ترکی کے اسلام پسندوں کے لیے ایک معتدل قوت کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔   عرب دنیا ترکی کو ایک ممکنہ ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے۔ اربکان کے ورثے کو اب اہمیت حاصل ہے۔ (دی اکانومسٹ، ۳ مارچ ۲۰۱۱ء)

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ وہی فوج جس نے ہر بار اربکان کا راستہ روکا اور انھیں قید اور نااہلی کی صعوبتوں سے دوچار کیا، اس کا سربراہ جنرل ایسک کوسانور (Isik Kosaner) ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے الفاظ میں: ’’انھوں نے ہمارے ملک کے لیے سائنس اور سیاست کے میدان میں ایک قیمتی انسان کی طرح عظیم خدمات انجام دیں‘‘۔ (یکم مارچ ۲۰۱۱ء)

کسی نے سچ کہا___ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!

  •  قبرص میں فوجی مداخلت پر مزاحمت: اربکان کے ایک اور کارنامے کا اعتراف کھلے طور پر نہیں کیا جا رہا۔ ۱۹۷۴ء میں وہ نائب وزیراعظم اور بلند ایجوت وزیراعظم تھے۔ یونان کی فوجی مداخلت کے ذریعے قبرص میں فوجی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اربکان  ترکی کی طرف سے فوجی کارروائی کے حق میں تھے مگر ایجوت فوج بھیجنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ جب اربکان نے کابینہ میں اور کابینہ سے باہر بھی، قبرص پر فوج کشی نہ کرنے کی صورت میں حکومت چھوڑنے کی دھمکی دی، تب ترک فوج کو قبرص کے ترک مسلمانوں کی حفاظت کے لیے بھیجنے کا اقدام ہوا۔ اس طرح اربکان کے تدبر و جرأت اور بروقت اقدام کے نتیجے میں قبرص یونانی کالونی بننے سے بچ گیا، اور ترک قبرص وجود میں آیا۔
  •  معاشی خودانحصاری: اربکان کا تیسرا بڑا کارنامہ ترکی کو یورپ کی معیشت کی گرفت سے نکال کر خودانحصاری کے راستے پر ڈالنا ہے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں جب پانچ چھے سال وہ نائب وزیراعظم رہے، اس زمانے کا ایک عظیم کارنامہ ترکی میں ہیوی انڈسٹری کا قیام اور استحکام ہے۔ نیز ترکی میں انقرہ اور اِزمیر کے سرمایہ داروں کا جو تسلط تھا، اس کو توڑنے اور ترکی کے دوسرے علاقوں کے اُبھرتے ہوئے تجارتی اور نئے گروپوں کو معیشت کے مرکزی دھارے میں لانا ہے۔ یہ اسی معاشی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج ترکی معاشی اعتبار سے اپنے پائوں پر کھڑا ہورہا ہے۔

ترکی میں اسلامی نظامِ بنکاری کو رائج کرنے میں بھی اربکان کا بڑا کردار ہے۔ یہ انھی کا دیا ہوا ماڈل تھا جس کے نتیجے میں سیکولر ملک ہوتے ہوئے بھی بلاسود بنکاری کو قانونی تحفظ اور مواقع حاصل ہوئے۔ ترکی کا افراطِ زر جو ایک زمانے میں ۷۰۰ اور ۸۰۰ فی صد سالانہ تھا، اب ۵ اور ۶ فی صد کے دائرے میں آگیا ہے۔ قرضوں کا بار اب بھی کافی ہے مگر اب معاشی پالیسی بیرونی احکام اور مطالبات کی روشنی میں نہیں، بڑی حد تک ملک کے اپنے حالات اور ترجیحات کے مطابق ترتیب پاتی ہے۔ معاشی زندگی اور جدوجہد کا رُخ بدل گیا ہے اور ان تمام تبدیلیوں میں ترکی قوم کی مساعی کے ساتھ ان کو صحیح رُخ کی طرف رہنمائی کرنے والے اربکان کے افکار اور سیاسی اور معاشی پالیسی کے میدان میں کردار کا بڑا دخل ہے۔ ترکی ان ۵۰سال میں تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ اربکان نے D-8 ، یعنی ترقی پذیر آٹھ ملکوں کے اتحاد کا جو خواب دیکھا تھا اور جس کے لیے     عملی اقدام کا آغاز کر دیا تھا۔ خدا کرے ترکی اس سلسلے میں خود آگے بڑھے اور عالمِ اسلام اور خود ترکی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائے، جن کی اربکان نے نشان دہی کی تھی۔ ۲۰۰۷ء میں، آخری ملاقات کے موقع پر D-8 کے منصوبے پر مشتمل کتاب مجھے اپنے دستخطوں سے دیتے وقت جو بات انھوں نے کہی تھی، میں اسے نہیں بھول سکتا۔ کتاب کی ایک مرکزی تصویر پر انگلی رکھ کر انھوں نے کہا: D-8 کے پہلے اجلاس میں جن آٹھ مسلمان حکمرانوں نے شرکت کی تھی، ذرا غور سے دیکھو ان میں سے کوئی بھی آج منصب ِ اقتدار پر نہیں۔ کیا اب بھی ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز نہیں کریں گے؟

_____________

انجینیر، استاد، مربی، قائد اور مجاہد نجم الدین اربکان کا سفرِ آخرت بھی ایک انفرادی شان رکھتا ہے۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ دولت عثمانیہ اور خلافت کے خاتمے کے بعد کسی سیاسی قائد کے جنازے میں عوام کی ایسی شرکت نہیں دیکھی گئی جیسی پروفیسر اربکان کے جنازے میں تھی۔ استنبول کی ۳ہزار مساجد نے جنازہ میں شرکت کا اعلان کیا اور سلطان فاتح مسجد میں اس مجاہد کی نمازِ جنازہ میں ۳۰لاکھ افراد نے شرکت کی۔ صدر مملکت، وزیراعظم، گرانڈ اسمبلی کا اسپیکر، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے قائد، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کے نمایندے، شمالی قبرص کی حکومت کے صدر اور وزیراعظم، حتیٰ کہ ترک افواج کی قیادت، سب نے شرکت کی اور اربکان کی اس خواہش کے  احترام میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ان کا جنازہ معروف اسلامی روایات کے ساتھ اُٹھایا جائے اور سابق وزیراعظم اور سربراہِ حکومت کے جنازوں کے لیے جو سرکاری تام جھام ہوتا ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔ پروفیسر اربکان کا جنازہ عوام کے اعتماد اور محبت کا مظہر تھا اور استنبول کی جدید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ترکوں نے اس جنازے میں شرکت سے اربکان کو اپنا آخری سلام ہی پیش نہیں کیا بلکہ یہ جنازہ ایک ریفرنڈم بن گیا۔ ملک میں جو تبدیلی اربکان اور اس کے ساتھیوں کی مساعی کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، ترک عوام کی بڑی تعداد نے اس سے اپنی ہم آہنگی اور اس لہر کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ الحمدللہ اربکان کی موت بھی اس کی زندگی کی طرح اسلامی احیا کی تحریک کی علامت بن گئی    ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں

اللہ تعالیٰ پروفیسر نجم الدین اربکان کی تمام مساعیِ جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے، ان کی خدمات کے عوض انھیں جنت کے اعلیٰ ترین مقام پر جگہ دے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے ___اور ترکی کو جس راستے پر گامزن کرنے میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ اس پر تیزرفتاری کے ساتھ گامزن رہے، اور ترکی اور عالمِ اسلام ایک بار پھر مل کر اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا سامان پیدا کریں، اور اقبال نے جو خواب دیکھا تھا وہ حقیقت کا روپ دھار لے    ؎

عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نُطقِ اعرابی