جون ۲۰۱۲

فہرست مضامین

امریکی اور ناٹو افواج کے لیے رسد کی بحالی بقیہ

پروفیسر خورشید احمد | جون ۲۰۱۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

(بقیہ: ص ۱۸- اشارات)حاصل ہوسکی ہے جس کا سب سے واضح ثبوت عالمی میڈیا اور آزاد  مبصرین کا تقریباً متفق علیہ اعتراف ہے کہ افغانستان میں امریکا جنگ ہارچکا ہے۔ طالبان اس وقت ملک کے ۵۰ سے ۷۰ فی صد پر اصل حکمران ہیں اور کابل میں امریکی، ناٹو اور افغان فوج کے پانچ حصاروں کے باوجود طالبان جب چاہیں قصرصدارت ناٹو کے ہیڈکوارٹر اور خود امریکی اور مغربی ممالک کے سفارت خانوں پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ خود امریکا میں اس وقت ۶۷ فی صد  عوام افغانستان سے امریکی فوجوں کے جلد از جلد انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں اور شکاگو کانفرنس کے ہال کے اندر جو کچھ ہو رہا تھا، اس کے باہر ہزاروں امریکی جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ افغانستان اور عراق کی جنگ سے  واپس آنے والے فوجی (veterans) اپنے وہ تمغے ندامت کے ساتھ حکومت کو واپس کر رہے تھے جو جنگی خدمات پر ان کو دیے گئے تھے، اور ان کا اعلان بش اور اوباما کی جنگی پالیسیوں کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ایک عوامی استصواب کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔

لندن کے اخبار دی گارڈین کی ۲۱مئی ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں اس کے نمایندے برنارڈ ہارکورٹ کی رپورٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ افغانستان کی جنگ کے ستم زدہ یہ امریکی فوجی کہہ رہے تھے:

کتنے ہی میڈل، ربن اور جھنڈے کیوں نہ ہوں، جنگ نے جس پیمانے پر انسانوں کو اذیت میں مبتلا کیا ہے، اس کو چھپا نہیں سکتے۔ میرے پاس صرف ایک لفظ ہے اور وہ ہے شرم! یہ افغانستان اور عراق کے عوام کے لیے ہے۔ مجھے افسوس ہے۔ میں آپ سب کے سامنے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ آج میں اپنا تمغہ واپس کررہا ہوں، کیونکہ میں اپنی زندگی اپنے ضمیر کے مطابق گزارنا چاہتا ہوں، نہ کہ ایک ضمیر کے مجرم کی طرح۔ میں عراقی اور افغان عوام سے ان کے ممالک کو تباہ کرنے پر ایک بار پھر معافی چاہتا ہوں۔

افسوس صد افسوس امریکا کی قیادت اور اس کے شرکاے جرم بشمول قیادتِ پاکستان کے ضمیر میں کوئی چبھن نظر نہیں آتی، بلکہ پاکستان کی قیادت تو روایتی جوتے اور پیاز دونوں ہی کھارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکا کے گن بھی گائے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری اور سزا پر جس طرح امریکا نے ایک قومی مجرم اور پاکستان کے غدار کا دفاع کیا ہے، اور پاکستان کی معاشی مدد میں تخفیف کا جو طمانچا ہمارے منہ پر رسید کیا ہے، وہ بھی ایک آئینہ ہے جس میں امریکا پاکستان کو جو مقام دیتا ہے، اس کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان پر دوغلی پالیسیوں کا الزام، ۲مئی ۲۰۱۲ء کو افغانستان سے اسٹرے ٹیجک معاہدہ اور اس پورے عمل میں پاکستان کو نظرانداز کرنا، افغانستان میں بھارت کے مشکوک کردار کے بارے میں پاکستان کے تحفظات سے مکمل لاپروائی، حتیٰ کہ طالبان سے گفتگو میں بھی پاکستان کو نظرانداز کرنے کی کھلی کھلی کوششیں، صرف پاکستان اور امریکا میں اعتماد کی کمی (trust deficit) ہی کا مظہر نہیں بلکہ اس پورے علاقے اور اس کے مستقبل کے بارے میں دونوں کے وژن اور  نقشۂ کار میں بُعدالمشرقین کی گواہی دیتے ہیں۔ امریکا جس طرح پاکستان پر معاشی، سیاسی اور عسکری دبائو ڈال رہا ہے، اس کے بعد اسے دوست ملک سمجھ کر معاملہ کرنا اپنے پائوں پر کلھاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

شکاگو کانفرنس: ایک کہیل

پاکستان کی تحقیر و تذلیل اور خود زرداری صاحب کو ان کی اوقات دکھانے کے لیے جو  کچھ امریکا اور ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے شکاگو کانفرنس میں کیا وہ بھی ایک درسِ عبرت ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔

جس طرح پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آنے سے پہلے برطانیہ، امریکا اور متحدہ امارات کے ذریعے جنرل پرویز مشرف سے معاملہ کیا، معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح شکاگو کانفرنس سے پہلے برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے توسط سے اپنے اقتدار کو طول دینے اور امریکا سے معاملات طے کرنے کے لیے ایک کھیل (gimmick) کھیلا گیا۔ زرداری صاحب اور ان کے وزرا کے بیانات جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں وہ اس کھیل کا حصہ بلکہ تمہید تھے۔ ناٹو کے   سیکرٹری جنرل اور امریکی قیادت نے سارا دبائو اس امر پر ڈالا کہ افغانستان کے مسئلے کے حل، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مستقبل اور علاقے کے بارے میں علاقے کے ممالک کے مشورے سے سلامتی کے معاملات پر غوروفکر کو مؤخر کرکے صرف ناٹو کی سپلائی روٹس کی بحالی کے مسئلے پر توجہ مرکوز کی جائے اور اسے محض ڈالروں کے بارے میں مسودہ کاری کا مسئلہ بنالیا جائے۔ شکاگو کانفرنس کی پاکستان کے لیے کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بون کانفرنس میں ۸۰ اقوام نے شرکت کی تھی اور اس کا پاکستان نے بائیکاٹ کیا تھا۔ شکاگو کانفرنس تو ایک ایسے وقت ہورہی تھی جب مغربی اقوام ایک نئے معاشی اور مالیاتی بحران کی گرفت میں تھے اور ناٹو ممالک تک اس سے براہِ راست متاثر ہورہے تھے۔ یہی وجہہے کہ اس کانفرنس سے پہلے کیمپ ڈیوڈ میں جی-۸ کی کانفرنس منعقد کی جارہی تھی۔ عملاً اس کانفرنس سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکا، حتیٰ کہ امریکا جو ۲۰۱۴ء کے بعد افغانستان میں اپنے کردار اور فوجوں کی وہاں موجودگی اور اس کے مصارف کے بارے میں دوسرے ممالک سے شراکت داری کے اہداف حاصل کرنا چاہ رہا تھا، وہ بھی ٹھیک سے حاصل نہیں ہوسکے۔ لیکن پاکستان کی تحقیر اور تذلیل کے لیے اسے بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا۔ پہلے ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے اعلان کیا کہ پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا ہے اور جب تک پاکستان ناٹو کی رسد بحال نہیں کرتا، اسے بلایا نہیں جائے گا۔ پھر لندن میں گیلانی کیمرون ملاقات کے فوراً بعد دعوت نامہ دیا گیا اور ۴۸گھنٹے کے نوٹس پر زرداری صاحب ’حاضر جناب‘ کہتے ہوئے واشنگٹن پہنچ گئے۔

الحمدللہ ملک کی دینی قوتوں نے بروقت خطرات کو بھانپ لیا، اور ناٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف قوم کو متحرک کرنے کے لیے کمربستہ ہوگئے۔ اس میں جماعت اسلامی اور دفاعِ پاکستان کونسل   نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ تحریکِ انصاف نے بھی اپنے انداز میں اس متوقع اقدام کو چیلنج کیا۔  مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماے اسلام (ف) نے بھی برملا اختلاف کا اظہار کیا۔ ہمارا گمان ہے کہ خود پی پی پی میں بھی دبے لفظوں میں اس مسئلے پر اختلاف تھا۔ امریکا کی رعونت اور ہاتھ مروڑنے کی حکمت عملی (arm twisting) کے اس باب میں شکاگو کانفرنس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے، اور زرداری صاحب کی طرف سے جو عندیہ دیا گیا تھا یا جو توقعات ناٹو کی قیادت اور امریکا کو ہوگئی تھیں، وہ پوری نہ ہوسکیں۔ امریکا نے اس موقعے کو پاکستان کی مزید تحقیر اور تذلیل کے لیے استعمال کیا۔ اوباما نے اپنی تقریر میں پاکستان کا ذکر تک نہ کیا۔ پریس کانفرنس میں بھی سوال کے جواب میں رویہ تحکمانہ رکھا اور اسے حل کے بجاے مسئلے کے طور پر پیش کیا۔ زرداری صاحب سے ملاقات کی درخواست کو درخوراعتنا بھی نہ سمجھا، جب کہ صدر کرزئی سے کانفرنس سے پہلے ایک گھنٹے کی ملاقات کی۔ کانفرنس ہال کے باہر بھی زرداری صاحب کو کوئی خاص اہمیت نہ دی اور رسمی مصافحے کے موقع پر  کچھ نصیحت ہی پلانے کو ترجیح دی۔ تمام شرکا اور میڈیا نے اسے SNUB (ڈانٹ ڈپٹ) اور پاکستان کو cut to size (اپنی اوقات میں رہو) کرنا قرار دیا۔ حد یہ ہے کہ کرزئی صاحب نے بھی سی این این کی اسکرین پر جو بیان دیا اس میں یہ فرما دیا کہ پاکستان اور امریکا کی دو طرفہ یا پاکستان، امریکا اور افغانستان کی سہ طرفہ ملاقات ولاقات میں کوئی صداقت نہیں۔ یہ تو بس اتفاقی مصافحہ   اور فوٹو کھنچوانے کا موقع تھا، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلس ٹائمز، گارڈین، ڈیلی ٹیلی گراف، غرض پورے میڈیا نے اوباما کی طرف سے زرداری کے لیے اسے ایک SNUB اور پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام قرار دیا۔

حکومت: ملک کے لیے خطرہ

ناٹو کی سپلائی کی بحالی کا معاملہ اس وقت تو اللہ کی بالاتر تدبیر سے ٹل گیا مگر خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں اور قوم کو چوکنا اور متحرک رہنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارا موقف کیا ہو؟ اور دلدل سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ اس پر مختصر گفتگو کرنے سے پہلے ہم دل پر جبر کرکے لیکن قوم کے  وسیع تر مفاد میں ایک واقعے کو ریکارڈپر لانا ضروری سمجھتے ہیں جس نے کم از کم راقم الحروف     کے دل و دماغ میں ہلچل پیدا کردی، اور پی پی پی کی قیادت کے بارے میں جو خوش فہمی تھی، اسے پارہ پارہ کر دیا۔ امریکا اس وقت جس طرح ہر ممکن دبائو ڈال رہا ہے اور جس طرح ہر حد کو پھلانگ جانے کا عندیہ دے رہا ہے، اس میں حالات کہاں تک جاسکتے ہیں، ان خطرات سے متنبہ کرنے کے لیے ہم اس واقعے کا ذکر کر رہے ہیں۔

سابق سفیر ظفرہلالی ان سفارت کاروں میں سے ہیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہت قریب تھے اور ان کے بارے میں کوئی یہ شبہہ بھی نہیں کرسکتا کہ وہ محترمہ کے سلسلے میں کوئی غلط بیانی کریں گے۔ وہ اپنے ایک تازہ مضمون On Divergent Paths میں لکھتے ہیں کہ: محترمہ تو پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجیوں کے قیام اور کارفرمائی کے لیے بھی تیار ہوگئی تھیں جس سے زرداری صاحب گریزاں ہیں:

مجھے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کی ایک گفتگو یاد آتی ہے۔ سوات کی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم  (سوات میں) طالبان کو نہیں روک سکتے، یا نہیں روکیں گے، اس لیے ان کا ارادہ ہے کہ ’’خود آئیں اور یہ کام کر یں‘‘۔ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا: ’’سوات میں امریکی؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں، اور جتنی جلدی ہم اس خطرے سے آگاہ ہوجائیں اتنا ہی بہتر ہے‘‘۔ پھر بے نظیر بھٹو نے وضاحت کی کہ کیوں یہ ایک امکان ہے اور کیوں یہ ایسی بُری بات بھی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہم اس سے اکیلے نہیں نمٹ سکتے‘‘۔ اس جنگ میں امریکی فوجی اور مالیاتی پشت پناہی ناگزیر ہے اور اس کے بغیر ہم اس میں بُری طرح پھنس جائیں گے۔ بجاے اس کے کہ یہ ہونے دیا جائے،  بی بی امریکی امداد قبول کرنے کے لیے تیار تھیں اور اس آنے والی امریکی مالی امداد کو استعمال کرکے معیشت بحال کرنا چاہتی تھیں، خواہ اس کی وجہ سے انھیں امریکا کا ساتھی (collaborator) ہی قرار دیا جائے۔

زرداری صاحب کے ساتھ انصاف کیا جائے تو اگر وہ اس لائحہ عمل پر اصرار کرتے جس پر چلنے کا بی بی نے فیصلہ کرلیا تھا، یعنی پاکستان میں بڑے پیمانے پر امریکی فوج کے قدم، تو قیامت گزر جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بہت زیادہ مخالفت تھی۔(دی نیوز، ۱۷مئی ۲۰۱۲ئ)

ظفرہلالی صاحب نے ملاقات کی تاریخ اور گفتگو کا حاصل تو بیان کردیا ہے لیکن وہ پس منظر کی طرف اشارہ نہ کرسکے جس میں این آر او، اور بش اور مشرف کی سیاست اور بیساکھیاں نمایاں تھیں۔ آج زرداری صاحب سوئٹزرلینڈ میں مخفی دولت سے محرومی کے خاتمے اور گیلانی صاحب نااہلی کی تلوار تلے وقت گزار رہے ہیں، اور ایسے ہی وہ حالات ہیں جن میں سامراجی قوتیں محکوم حکمرانوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان حکمرانوں کے اندھے مقلد ، کچھ دانش ور اور میڈیا کے بہت سے ’لائوڈاسپیکر‘ سامراج کے اس پورے ایجنڈے کو وقت کی ضرورت اور معاشی وجوہ سے ایک ناگزیر تدبیر اور دنیا میں مقبول ہونے کا نادر نسخہ قرار دیتے ہیں۔ ۲۰۰۷ء کی طرح ۲۰۱۲ء بھی ایک منظرنامے کی خبر دے رہا ہے۔ العیاذ! یارب العالمین!

سامراجی عزائم اور ھماری ترجیحات

ہم نے زیربحث مسئلے کے ان چند اہم پہلوئوں کی طرف قوم کو متوجہ کیا ہے جو بالعموم نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور توجہ کا مرکز بس وہ بات بن جاتی ہے جو اولین ہدف ہے۔ امریکی اور ناٹو افواج کے لیے رسد کی فراہمی کا مسئلہ اصل مسئلہ نہیں ہے، اور ۲۵۰ڈالر یا ۵ہزار ڈالر یہ کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔ اصل مسئلہ وہ تباہ کن جنگ ہے جو امریکا نے افغانستان اور اس خطے پر مسلط کردی ہے اور جس کا کوئی تعلق نہ القاعدہ سے ہے اور نہ طالبان سے جن کے نام پر اس آگ کو بھڑکایا گیا ہے۔ امریکا افغانستان سے فوجی انخلا اپنی معاشی اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کرنا بھی چاہتا ہے اور افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا بھی ضروری سمجھتا ہے۔اس کے لیے جہاں ایک طرف اس جنگ سے امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد کو بچانا مقصود ہے تاکہ امریکا میں انسانی جانوں کے اتلاف اور جنگ کے زخم خوردہ افراد کو عتاب سے بچاسکیں، وہیں ٹکنالوجی کی مدد سے اور مقامی فوج کو توپوں کا بارود بناکر اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کو بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ڈرون ٹکنالوجی اور ریموٹ کنٹرول جنگی اسلحہ اس نقشۂ جنگ میں مرکزی اہمیت اختیار کرگئے ہیں، اور لوکل اشرافیہ سے گٹھ جوڑ اور مفادات کے اشتراک کا ایک جال بچھا کر ان ممالک کے وسائل کا ناجائز انتفاع اور افغانستان اور پاکستان کی جغرافیائی سہولتوں کے ذریعے وسط ایشیا میں اپنے اثرات کو مستحکم کرنا پیش نظر ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۴ء میں فوجیوں کی واپسی کے پردے کے پیچھے ۲۰۲۴ء تک فوجی اڈوں کا وجود، تعلیم و تربیت اور نگرانی کے نام پر ۲۰ہزار یا اس سے کچھ زیادہ فوجیوںکا قیام، اور اس کے ساتھ مارکیٹ اکانومی کا قیام اور بیرونی سرمایہ کاری کے سازگار ماحول اُس اسٹرے ٹیجک معاہدے کا اہم حصہ ہیں جو ۲مئی ۲۰۱۲ء کو بگرام ایئربیس پر افغانستان پر مسلط کیا گیا ہے اور جس کی طالبان اور  حزبِ اسلامی نے مخالفت کا برملا اعلان کیا ہے۔ امریکا کا ہدف جنگ کے اس نئے دور کے لیے پاکستان کو مجبور کرنا ہے، جب کہ پاکستان کا حقیقی مفاد اس میں مضمر ہے کہ امریکا کا افغانستان سے مکمل انخلاہو، امریکا کے ساتھ افغانستان میں بھارت کے کردار سے بھی نجات پائی جائے، اور افغانستان صحیح معنوں میں خود اپنے پائوں پر کھڑا ہو اور علاقے کے ممالک کے تعاون سے اپنا استحکام بھی حاصل کرے اور علاقے کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور اسے سامراجی قوتوں کے کھیل سے پاک کیا جاسکے۔ امریکا کا ہدف نئی شکل میں جنگ کے تسلسل کے لیے شرائط کار کا تعین ہے، جب کہ پاکستان اور خود افغانستان اور علاقے کے دوسرے ممالک خصوصیت سے ایران اور چین کا مفاد اس میں ہے کہ امن، اور بیرونی کھیل سے پاک سلامتی اور ترقی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پوری بحث اور جستجو کا اصل مرکزی نکتہ جنگ سے امن، تصادم سے تعاون، اور مداخلت سے مفاہمت کی طرف منتقل کیا جائے۔ امریکا سے تصادم اور دشمنی کی پالیسی نہ ہمارے مفاد میں ہے اور نہ علاقے کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکا کے ٹینک پر بیٹھ کر اس کے جنگی اور سیاسی و معاشی ایجنڈے کے حصول میں شریک بننا بھی ہمارے اور علاقے کے مفاد میں نہیں۔

سب سے پہلی بات مقصد اور منزل کا تعین ہے۔ اس وقت سب سے اہم ایشو یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کس طرح جلد از جلد ختم ہو، امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا واقع ہو، اور افغان قوم اپنے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لے۔

دوسری بات افغانستان میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ کے کھیل سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے اور باہم اعتماد کو مستحکم کرتے ہوئے قومی مفاہمت کے عمل کو تقویت دینا اور اس کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔

تیسری بات جو پاکستان کے مستقبل کے اعتبار سے بہت اہم ہے، وہ پوری شائستگی سے امریکا سے یہ کہنا ہے کہ ہمیں آپ کی معاشی اور فوجی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہم تجارتی اور سیاسی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، اور دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر مشترکات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن غلامی اور محکومی کا جو فریم ورک بن گیا ہے اس سے نکلنا بے حد ضروری ہے۔ امریکا اور پاکستان کے وسائل اور سیاسی، عسکری اور معاشی قوت میں فرق ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہم اپنے کو محکومی کی زنجیروں میں جکڑ ڈالیں۔ پاکستان کی ۱۷۵؍ارب ڈالر کی معیشت کے لیے ایک ارب ڈالر کی معاشی امداد کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کے لیے ہم اپنی سیاسی آزادی، نظریاتی تشخص، معاشی خودانحصاری اور تہذیبی شناخت کو دائو پر لگادیں۔ اگر ہم اپنے وسائل کو دیانت، محنت اور اعلیٰ صلاحیت سے ترقی دیں تو بہت کم وقت میں اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ آج بھی امریکا کی ایک ارب ڈالر سالانہ کی معاشی امداد کے مقابلے میں بیرونِ ملک پاکستانی ۱۲؍ارب ڈالر سالانہ اپنے ملک بھیج رہے ہیں اور اگر صحیح پالیسیاں اختیار کی جائیں تو اسے دگنا کیا جاسکتا ہے۔

اچھی حکومت، کرپشن سے پاک قیادت، تعلیم اور انصاف کی مرکزیت پر مبنی ترقیاتی  حکمت عملی، عوام پر اعتماد اور عوام کی بہبود کے لیے تمام مساعی کا اہتمام ہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اپنے اصل مقصد کے حصول اور اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کرسکتا ہے۔ یہ وہ اہداف ہیں جو حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ملک کو ایک دیانت دار اور باصلاحیت قیادت میسر آجائے اور قوم کے تمام مادی اور انسانی وسائل لوٹ کھسوٹ اور تصادم کے بجاے ایسی ترقی کے لیے صرف ہوں   جس میں سب کا بھلا ہو۔ موجودہ حالات میں یہ اسی وقت ممکن ہے جب روایتی سیاسی شکنجوں سے ہم اپنے کو آزاد کریں اور نظریاتی اور اخلاقی سیاست کا راستہ اختیار کریں۔ موجودہ قیادت نے قوم کو بُری طرح مایوس کیا ہے لیکن جمہوری عمل اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود تبدیلی کا بہترین طریقہ ہے۔ موجودہ حکومت حکمرانی کے اُس مینڈیٹ سے محروم ہوچکی ہے جو اسے فروری ۲۰۰۸ء میں حاصل ہوا تھا۔ اس پس منظر میں پانچ سال پورے کرنے کی رَٹ لگانا ملک کو بحران میں مبتلا رکھنے کا نسخہ ہے۔ حکومت کے لیے سوا چار سال بہت بڑا وقت ہے۔ اگر اس حکومت نے عوام کی ’خدمت‘ کی ہے تو اسے انتخابات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر اسے بھی یقین ہے کہ عوام اس سے بے زار ہیں تو اس کے لیے بھی معقولیت کا راستہ یہی ہے کہ عوام کو نئی قیادت بروے کار لانے کا موقع دے۔ ہماری نگاہ میں ملک کی فوری ضرورت امریکا کی محکومی کے سایے سے نکلنا اور افغانستان میں جنگ نہیں امن کے عمل کو متحرک کرنا ہے۔ یہی عوام کی طرف جلد از جلد رجوع کی ضرورت ہے تاکہ نئی قیادت نئی سندجواز (مینڈیٹ) کے ساتھ ملک کو اس دلدل سے نکال سکے جس میں وہ   اس وقت پھنسا ہوا ہے۔

 

(منشورات، منصورہ، لاہور سے کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۹ روپے۔ سیکڑے پر رعایت)