حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور رات کو پڑائو فرماتے تو اپنے دائیں بازو پر لیٹ جاتے اور جب صبح کے قریب پڑائو فرماتے تو اپنا بازو کھڑا کر کے اپنا سرمبارک اس پر رکھ دیتے۔ (مسلم)
نماز کی فکر میں آپؐ لیٹنے کے بجاے بازو کھڑا کر کے اس پر سرمبارک رکھتے تھے تاکہ گہری نیند کے سبب نماز قضا نہ ہوجائے۔ نبی کریمؐ کے سفر دن رات جاری رہتے تھے اور آپؐ کے یہ سفر جہادی سفر تھے۔ جہادی سفر کے دوران میں بھی ذکرالٰہی اور نمازوں کی اسی طرح پابندی ہوتی تھی جس طرح مدینہ طیبہ میں قیام کے دوران میں ہوتی۔ آج کے دور میں دعوتی مہمات جلسوں، جلوسوں اور سیاسی اجتماعات میں نمازوں کی پوری پابندی کرنا چاہیے اور نماز باجماعت کا ٹھیک طرح سے اہتمام کرنا چاہیے۔ نمازوں کے سلسلے میں نبی کریمؐ کے اسوئہ حسنہ کو پوری طرح پیش نظر رکھ کر اس کے مطابق اپنے معمولات کو ترتیب دینا چاہیے۔
o
حضرت ابوذرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایک آدمی اچھا عمل کرتا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تعریف مومن کے لیے نقد بشارت ہے۔ (مسند احمد)
نیک لوگوں کی تعریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کی علامت ہے۔ جب ایک آدمی اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں میں شامل ہوجاتا ہے، نیک کام کرتا ہے، اس کی نیت رضاے الٰہی کا حصول ہوتی ہے، ریاکاری کی نیت سے نیکی نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل میں اس کی محبت ڈال دیتے ہیں اور لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔ ایمان کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ نیک لوگوں کی قدر کی جائے اور ان کی صحبت اختیار کی جائے، ان کا ساتھ دیا جائے، ان کی جماعت کو مضبوط کیا جائے۔ ایمان کے اس تقاضے کے سبب نیک لوگوں کی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں اور وہ مل جل کر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے ہیں۔ نیک لوگوں کی زندگی میں بھی ان کی تعریف ہوتی ہے اور ان کے فوت ہوجانے کے بعد بھی ان کا ذکر خیر جاری رہتا ہے۔ ان کے تذکروں سے لوگ اپنے ایمان کو تازگی اور قوت دیتے ہیں۔ یہ نیک لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نقد بشارت کا انتظام ہے۔
o
حضرت مغیرہ بن سعد اپنے باپ یا چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ عرفات میں تھے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپؐ کی اُونٹنی کی باگ پکڑنا چاہی تو مجھے ہٹا دیا گیا۔ یہ دیکھ کر آپؐ نے فرمایا: اسے آنے دو، کوئی بڑی حاجت ہے جو اسے لائی ہے۔تب میں آپؐ کے قریب آیا اور عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سن کر اپنا سرمبارک آسمان کی طرف اُٹھایا، پھر فرمایا: تو نے بات تو بہت مختصر پوچھی ہے لیکن درحقیقت یہ بہت طویل اور عظیم بات ہے۔ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، بیت اللہ کا حج کرو، رمضان المبارک کے روزے رکھو اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرو جیسا سلوک لوگوں سے چاہتے ہو اور جو چیز اپنے لیے ناپسند کرتے ہو وہ لوگوں کے لیے بھی ناپسند کرو۔ (مسند احمد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا جامع نسخہ عنایت فرما دیا۔ قدم قدم پر جس رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ آپؐ نے اس کا ضابطہ بیان فرما دیا ہے۔ آدمی کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سوچ لے کہ وہ جو کام کرنے لگا ہے، اس سے کسی کو تکلیف تو نہ ہوگی، اس سے کسی کا حق تو نہیں مارا جائے گا۔ اگر ایسا کام ہو تو اسے چھوڑ دے۔ جنت میں جانے اوردوزخ سے بچنے کا راستہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے احکام کی پیروی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور احکام کی اطاعت کے لیے تیار کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ کے اس ارشاد پر عمل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ حرام کے ارتکاب اور لوگوں کو تکلیف دینے سے بچے گا، تو وہ سیدھا جنت میں جانے کا سامان کرے گا، اور کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوگا۔ خالق بھی اس سے راضی ہوگا اور خلقِ خدا بھی خوش ہوگی۔
o
حضرت ابوالدردائؓ پودے لگا رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا۔ اس نے آپ کو پودے لگاتے دیکھ کر کہا کہ آپ پودے لگا رہے ہیں حالانکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: ٹھیرجائو، جلدی نہ کرو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے ایسے پودے لگائے جن سے انسان اور اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق کھائے تو اس کے لیے صدقہ ہوگا۔(مسند احمد)
دیکھنے والے کی نظر میں صحابی ٔ رسولؐ کو کوئی اعلیٰ کام کرنا چاہیے تھا۔ نماز، تلاوت، ذکرواذکار، وعظ و نصیحت، دعوت و جہاد کے کاموں کو اس نے اعلیٰ سمجھا۔ پودے لگانے کو اس نے حقیر کام جانا۔ حضرت ابوالدردائؓ نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ پودے لگانا بھی اعلیٰ کام ہے۔ یہ پودے لگانے والے کے لیے صدقۂ جاریہ ہے اور خلقِ خدا کی خدمت ہے۔ عبادت صرف ذکرواذکار، تلاوت ، نماز، روزہ، دعوت و تبلیغ اور جہاد کا نام نہیں بلکہ خلقِ خدا کی خدمت بھی عبادت ہے۔ خلقِ خدا کی خدمت کی جو بھی شکل ہو، اس میں اجر ہے۔ آج بھی لوگوں کو غلط فہمی ہے، وہ خلقِ خدا کی خدمت کو، زراعت، دکان داری اور ملازمت کو عبادت نہیں سمجھتے حالانکہ یہ تمام چیزیں عبادت ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کاموں کو کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور رزقِ حلال ساتھ خلقِ خدا کی خدمت کی نیت ہو، اور ایسی صورت سے اجتناب کیا جائے جس میں شریعت کی خلاف ورزی ہو۔
o
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؐ نے لوگوں کو غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ میں بھی اس غزوے میں جارہا ہوں۔ میرے لیے شہادت کی دُعا فرمایئے۔ آپؐ نے دُعا فرمائی: اے اللہ! انھیں سلامتی عطا فرما اور غنیمت سے نواز۔ ہم غزوہ میں گئے اور صحیح سالم، مالِ غنیمت لے کر واپس لوٹے۔ اس کے بعد پھر آپؐ نے ایک غزوے پر لوگوں کو بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا ،اور عرض کیا کہ میرے لیے شہادت کی دُعا کیجیے۔ آپؐ نے پھر وہی دُعا دی جو پہلی مرتبہ دی تھی۔ ہم غزوے میں گئے اور بسلامت مالِ غنیمت لے کر واپس آئے۔ تیسری مرتبہ آپؐ نے ایک غزوے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا اور شہادت کے لیے دُعا کی درخواست کی۔ آپؐ نے پھر وہی دُعا دی۔ ہم غزوے میں چلے گئے اور مالِ غنیمت لے کر بسلامت لوٹے۔
میں ایک بار پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مسلسل تین مرتبہ حاضر ہوا، شہادت کے لیے دُعا کی درخواست کی تو آپؐ نے سلامتی اور مالِ غنیمت لے کر لوٹنے کی دُعا فرمائی۔ اب مجھے کوئی ایسا حکم دیجیے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے۔ آپؐ نے فرمایا: روزے رکھو، اس کی کوئی مثل نہیں ہے (یعنی تزکیۂ نفس کا بہترین نسخہ ہے)۔ چنانچہ ابوامامہؓ کے گھر میں دن کے وقت دھواں نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اگر کبھی ان کے گھر میں دھواں نظر آتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے ہاں مہمان ہیں۔ ابوامامہؓ اور ان کے اہلِ خانہ روزے سے رہتے تھے۔ اس لیے دن کو کھانا نہیں پکتا تھا۔ ابوامامہؓ کہتے ہیں: اس کے بعد میں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے مجھے ایسا حکم دیا ہے مجھے امید ہے کہ میں اس پر عمل کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نفع دے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور حکم بھی عنایت فرمائیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: نوافل پڑھا کرو۔ اس حقیقت کو جان لو کہ جتنے سجدے کرو گے ہرسجدہ ایک خطا کو مٹا دے گا اور ایک درجہ بڑھا دے گا۔(مسند احمد)
صحابہ کرامؓ کو جامِ شہادت نوش کرنے کا شوق تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک صحابی کے لیے شہادت کی دُعا نہیںکی۔ بعض کے لیے شہادت کی دُعا بھی کی ہے اور انھوں نے جامِ شہادت نوش کرکے شہادت کا درجہ پایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سارے پہلوئوں پر تھی۔ ہر ایک مجاہد کے لیے شہادت مطلوب نہیں ہے بلکہ اکثر کے لیے سلامتی اور کامیابی کے ساتھ واپسی مطلوب ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو اور دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے والے کامیابی کے بعد علاقے کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے کر خلقِ خدا کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں۔ عدل و انصاف کا دور دورہ ہو اور خلقِ خدا کی ضروریات اور مسائل حل ہوں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوامامہؓ کو شہادت کے بجاے غازی ہونے کی دُعا دی۔ حضرت ابوامامہؓ نے سمجھا کہ ابھی مہلت عمل اچھی خاصی باقی ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا نسخہ دریافت کیا جائے جس کے نتیجے میں زندگی بارآور اور بابرکت اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے روزہ اور اس کے بعد نوافل کی تلقین فرمائی کہ روزہ اور نماز سے ایمان کو قوت اور جِلا ملتی ہے اور نیکیاں آسان اور برائیاں مشکل ہوجاتی ہیں۔