جون ۲۰۱۲

فہرست مضامین

اسلامی معاشرت اور طلاق

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | جون ۲۰۱۲ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

طلاق کے احکام سورئہ بقرہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں۔ یہ سورت نازل کر کے بہت سی اُن غلطیوں کی اصلاح کی گئی جو لوگ طلاق کے معاملے میں بالعموم کرنے لگے تھے۔

[اس سورۃ کے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو طلاق اور عدّت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہوچکی ہیں: ’’طلاق دوبار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کردیا جائے‘‘ (البقرہ ۲:۲۲۹) ۔’’اور مطلقہ عورتیں (طلاق کے بعد) تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں… اور اُن کے شوہر اس مدّت میں اُن کو اپنی (زوجیت) میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں‘‘(البقرہ ۲:۲۲۸)۔’’ پھر اگر وہ (تیسری بار) اُس کو طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اُس کے لیے حلال نہ ہوگی، یہاں تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے ہوجائے‘‘(البقرہ ۲:۲۳۰) ۔’’ جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمھارے لیے ان پر کوئی عدّت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا      تم مطالبہ کرسکو گے‘‘ (الاحزاب ۳۳:۴۹)۔’’ اور تم میں سے جو لوگ مر جائیں اور پیچھے بیویاں  چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں‘‘(البقرہ ۲:۲۳۴)۔

  • یہ تحریر سورئہ طلاق کے اس درسِ قرآن پر مبنی ہے جو سید مودودیؒ نے یکم اور ۸؍اکتوبر ۱۹۶۷ء کو مسجدمبارک،لاہور میں ہفتہ وار درس کے تحت دیا تھا۔ اس میں فہم قرآن کے حوالے سے تفہیم القرآن سے مختلف نکات سامنے آئے ہیں جن کی اہمیت کے پیش نظر یہ درس مرتب کیا گیا ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورئہ طلاق ان قواعد میں سے کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اُس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے: ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اسے استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جن سے  حتی الامکان علیحدگی کی نوبت نہ آنے پائے، اور علیحدگی ہو توبدرجۂ آخر ایسی حالت میں ہو، جب کہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہوچکے ہوں۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورئہ بقرہ کے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اِس شعبے کی تکمیل کردی جائے۔(دیکھیے: تفہیم القرآن، جلد۵، سورئہ طلاق، ص۵۵۰- ۵۵۲)

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ اِِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ ج لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَـیِّنَۃٍ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا o (الطلاق ۶۵:۱)  اے نبیؐ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اُنھیں اُن کی عدّت کے لیے طلاق دیا کرو، اور عدّت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو، اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے۔ (زمانۂ عدّت میں) نہ تم اُنھیں اُن کے گھروں سے نکالواَ ور نہ وہ خود نکلیں، اِلاّ یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے۔

یہ سورئہ طلاق کی پہلی آیت ہے۔  اس میں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو، تو اُن کی عدّت کے لیے طلاق دو۔ عدّت کہتے ہیں اس مدت کو جو طلاق کے بعد، یا شوہر کی وفات کے بعد، اس غرض کے لیے مقرر کی گئی ہے کہ اس کے دوران میں عورت دوسرا نکاح نہ کرے۔ اس مدت کو شریعت کی اصطلاح میں عدّت کہتے ہیں۔

’’عدّت کے لیے طلاق دو‘ ‘ کے دو معنی ہیں: ایک معنی یہ ہے کہ ایامِ ماہواری میں طلاق مت دو بلکہ ایسی حالت میں طلاق دو، جب کہ وہ پاک ہوں۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ عدّت کے دوران میں رُجوع کی گنجایش رکھتے ہوئے طلاق دو۔ یہ دونوں باتیں حدیث سے ثابت ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اگر عورت کو طلاق دینی ہو تو ایامِ ماہواری میں طلاق نہ دی جائے بلکہ جب وہ ایام گزر جائیں تو حالت ِ طُہر میں طلاق دی جائے، اگر طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنی بیوی کو ایسی حالت میں طلاق دی، جب کہ وہ حالت ِ حیض میں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے اس طرح (طلاق دینے کا) حکم نہیں دیا ہے، بلکہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ طلاق حالت ِ طُہر میں دی جائے۔ یہ مضمون کہ ’’اُن کو  اُن کی عدّت کے لیے طلاق دو‘‘ اس بات سے نکلتا ہے کہ عدّت کا شمار طُہر سے ہوتا ہے، (ایامِ) حیض سے نہیں ہوتا۔ اس لیے جب یہ فرمایا کہ ان کی عدّت کے لیے ان کو طلاق دو تو آپ سے آپ یہ بات نکل آئی کہ طلاق حالت ِ طُہر میں دینی چاہیے نہ کہ حالت ِ حیض میں۔

طلاق میں حکمت کا پھلو

اس بات پر غور کیجیے کہ اس حکم کے اندر کتنی بڑی حکمت ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ ایامِ ماہواری میں عورت اور اس کے شوہر کے درمیان ایک طرح کی دیوار حائل ہوتی ہے۔ اگر عورت حالت ِ طُہر میں ہو تو فریقین کو ایک دوسرے کی طرف رغبت ہوگی۔ اس صورت میں طبیعت طلاق کی طرف کم مائل ہوگی، اِلاّ یہ کہ نفرت اور ناراضی کا کوئی بڑا گہرا سبب ہو۔ لیکن ایامِ ماہواری میں جب شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے دُور ہوتے ہیں، اس زمانے میں اگر شوہر کے دل میں بیوی کی طرف سے کوئی کراہت یا نفرت یا اور اس قسم کی کوئی حالت پیدا ہو تو عورت کے پاس اس نفرت کو دُور کرنے کا کوئی مؤثر چارئہ کار نہیں ہوتا۔ اس لیے فرمایا کہ اگر طلاق دینی ہی ہو تو حالت ِ طُہر میں دو، جس میں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان آسانی سے موافقت پیدا ہونے کی سبیل نکل سکتی ہے۔

دوسری اس سے بھی زیادہ گہری حکمت اس معاملے میں یہ ہے کہ ایامِ ماہواری میں بالعموم عورت کی طبیعت میں غصہ، چڑچڑاپن اور ہٹ سی پیدا ہوجاتی ہے۔یہ ایک طبّی حقیقت ہے، حتیٰ کہ موجودہ زمانے کے ڈاکٹر تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی عورت سے کوئی جرم سرزد ہوا ہو تو پہلے اُس کا    طبی معائنہ کرکے یہ تحقیق کرلی جائے کہ اس زمانے میں کہیں وہ ایامِ ماہواری میں تو نہیں تھی کیونکہ بعض اوقات اس زمانے میں اس کو اپنے اُوپر قابو نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں موجودہ زمانے کی جتنی سائنٹی فک تحقیقات ہیں وہ سب اس پر متفق ہیں کہ ایامِ ماہواری میں عورت معمول کی حالت میں (normal) نہیں ہوتی۔ یہ ایک غیرطبعی (abnormal) حالت ہوتی ہے۔ اس حالت میں اگر عورت، مثلاً موٹر چلائے تو غلطی کرجائے گی، ٹائپ کرے تو غلطی کرجائے گی۔ گویا اس حالت میں اس سے بہت سے کاموں کے اندر غلطی سرزد ہوجاتی ہے۔ ان ایام میں بعض اوقات نہایت شریف اور نیک عورتوں سے چوری کا فعل سرزد ہوجاتا ہے۔ اگر وہ کسی چیز کو اچھی نگاہ سے دیکھ لیں، وہ چیز اُن کو پسند آجائے تو بعض اوقات اس کو اُڑا لیتی ہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان ایام میں ان کو اپنے اُوپر قابو نہیں ہوتا۔ یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں وہ کوئی ایسی حرکت نہ کرجائے جس سے میاں بیوی کے درمیان کوئی نزاع اور بُعد پیدا ہوجائے۔ اس طرح اگر ایک طرف تو یہ صورت ہو، اور دوسری طرف یہ صورت ہو کہ جو چیز ان کو ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ رکھتی اور ایک دوسرے کی طرف راغب کرتی ہے وہ اس دوران میں موجود نہ ہو، تو اس بنا پر حکم دیا گیا کہ حالت ِ حیض میں کبھی عورت کو طلاق نہ دو۔

طلاق دینے کا صحیح طریقہ

اس حکم میں دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ طلاق عدّت کی گنجایش رکھتے ہوئے دی جائے۔ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دے کر نکاح کا جھٹکا مت کردو، بلکہ اتنی گنجایش رکھو کہ عدّت کے دوران میں رُجوع کرسکو۔ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق دے تو عدّت کے دوران میں وہ جس وقت چاہے رُجوع کرسکتا ہے۔ اگر وہ دو طلاق دے تب بھی عدّت کے دوران میں وہ رُجوع کرسکتا ہے۔ اگر وہ تین طلاق دے دے تو پھر رُجوع کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔ اس طرح طلاقِ مغلظ ہوجائے گی۔ پھر بیوی اس کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گئی، اِلاّ یہ کہ اس کا کسی اور مرد سے نکاح ہو اور وہ شوہر اس کو اپنی مرضی سے طلاق دے دے۔ تب کہیں جاکر اگر یہ پہلے میاں بیوی چاہیں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ اس لیے شریعت کا منشا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص طلاق دے بھی تو اس کو کم سے کم تین مہینے کی مدت ایسی مل جائے گی   جس میں وہ باربار اچھی طرح غور کرسکتا ہے کہ آیا اسے اس عورت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہے یا  اس سے نباہ کی کوئی صورت ممکن ہے۔ اس دوران میں عورت کے لیے بھی یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ کسی طرح اپنے شوہر کو راضی اور مطمئن کرلے کہ اب تک جو وجوہ نااتفاقی کے تھے آیندہ وہ نہیں ہوں گے۔

یہ بات بھی بے حد اہم ہے کہ طلاق کا لفظ آدمی کو زبان سے نکالنا ہی اس وقت چاہیے، جب کہ وہ واقعتا اس کو چھوڑنے کا ارادہ اور فیصلہ کرچکا ہو، ورنہ طلاق دینا کوئی کھیل نہیں۔ یہ بات اس کو اچھی طرح یاد رہنی چاہیے کہ اگر ایک آدمی ایک عورت کو تین مرتبہ طلاق دینے کا حق استعمال کرلیتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوجائے گی۔ اس وجہ سے ایک آدمی طلاق کا لفظ زبان سے نکالتے ہوئے دس مرتبہ اس پر سوچ لے کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ سلامتی اس میں ہے کہ اگر وہ یہ لفظ زبان سے نکالے بھی تو ایک مرتبہ نکالے تاکہ اس کے بعد اگر عدّت گزر بھی جائے، یا دوطلاق کی وجہ سے طلاق بائن ہوجائے اور وہ میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے حلالہ وغیرہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ چنانچہ دو مرتبہ بھی اگر آدمی نے طلاق دی ہو تو عدّت کے دوران میں رُجوع بھی ہوسکتا ہے اور اگر عدّت گزر جائے تو دوبارہ نکاح بھی ہوسکتا ہے، لیکن تین مرتبہ طلاق دینے کے بعد قصہ ختم ہوجاتا ہے، اور رُجوع کی کوئی گنجایش نہیں رہتی۔ پھر لوگ ایسے مفتی تلاش کرتے پھرتے ہیں جو ان کے لیے بغیر تحلیل (حلالہ) کے رُجوع کی گنجایش پیدا کردیں، یا پھر حلالہ کی ایسی شکلیں تجویز کریں جو شریعت کے ساتھ کھیل کرنے سے کم نہیں ہوتیں، اور جن کا کوئی اخلاقی یا شرعی جواز نہیں ہوتا۔ شریعت میں ایسی سازشی تحلیل کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔

رسولؐ اللہ کے زمانے میں ایک مرتبہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین مرتبہ طلاق دے دی تو حضوؐر نے فرمایا کہ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ گویا یہ فعل اس قدر بُرا فعل ہے کہ نبیؐ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ہاتھ اُٹھا کر فرمایا کہ کیا تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلنے لگے ہو درآں حالیکہ میں ابھی تمھارے درمیان موجود ہوں۔

حضرت عمرؓ اُس شخص کو مارتے تھے جو بیک وقت تین طلاق دیتا تھا اور دُرّے سے اس کی خبر لیتے تھے۔ یہ ایک طرح سے جرم ہے کہ آدمی ایک ہی وقت میں تین مرتبہ طلاق دے دے۔ قرآن مجید ہدایت دیتا ہے کہ اگر طلاق دو تو عدّت کے دوران میں رُجوع کی گنجایش رکھتے ہوئے دو۔

اس کے بعد فرمایا گیا: اَحْصُوْا الْعِدَّۃَ(۶۵:۱) ’’عدّت کا شمار کرو‘‘، یعنی جس روز طلاق دی جائے وہ تاریخ نوٹ کرلی جائے اور اس کو یاد رکھا جائے۔ میاں اور بیوی دونوں یاد رکھیں تاکہ عدّت کا ٹھیک وقت پر آغاز ہو اور ٹھیک وقت پر ختم ہو۔ مثلاً فرض کیجیے عدّت ختم ہونے میں تین دن رہ گئے ہیں تو شوہر آخری مرتبہ سوچ لے کہ اس بیوی کو رکھنا ہے یا رخصت کرنا ہے۔ برابر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اب اتنا وقت باقی ہے۔ اس دوران میں عورت بھی سوچ لے کہ آیا مجھے   اُس شخص کے گھر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہونا ہے، اور مرد بھی سوچ لے کہ کیا مجھے اُس کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہے۔ اس طرح آخر وقت تک اس کا خیال رکھا جائے، کیونکہ عدّت کے خاتمے سے پہلے کسی وقت بھی رُجوع ہوسکتا ہے۔ ایک رات یا چند گھنٹے پہلے بھی رُجوع ہوسکتا ہے۔

وَاتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ (۶۵:۱)،’’اور ڈرو اللہ سے جو تمھارا رب ہے‘‘۔یعنی ان چیزوں کو کھیل نہ بنائو۔ یہ بڑے سنجیدہ معاملات ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ایک آدمی اگر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ بڑا نازک اور اہم کام ہے۔ اگر زوجین کے بچے ہوں تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کے مستقبل کو ہمیشہ کے لیے خطرے میں ڈال دیا گیا۔ اگر بچے نہیں ہیں تب بھی اس مرد کے لیے دوبارہ نکاح آسان کام نہیں ہوتا، اور اسی طرح عورت کے لیے بھی بڑی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ جس شخص نے طلاق دی ہو اس کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں فوراً یہ شک پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ آدمی جھگڑا لو معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ ایک بیوی کو چھوڑ چکا ہے تو کوئی دوسرا شخص ا س کو اپنی بیٹی دیتے ہوئے گھبرائے گا۔ کوئی دوسری عورت اس سے نکاح کرتے ہوئے گھبرائے گی کہ معلوم نہیں یہ کس مزاج کا آدمی ہے۔ یہ ایک عورت کو چھوڑ چکا ہے تو کیا خبر مجھے بھی چھوڑ دے۔عورت کے متعلق بھی ہزار قسم کی بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ تو نہ آدمی کے لیے دوبارہ نکاح کرنا آسان ہوتا ہے اور نہ اس عورت کے لیے آسان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور ان چیزوں کو کھیل مت بنائو۔ اور اگر کسی کو طلاق دینی ہی ہو تو___ جیساکہ فرمایا کہ:عدّت کے دوران میں رُجوع کی گنجایش رکھتے ہوئے دو اور عدّت کا شمار ملحوظ رکھو۔

طلاق بائن کے باوجود خاوند کے گہر رھنا

لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ(۶۵:۱)،اور اُن کو گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔

مطلب یہ ہے کہ عدّت کا زمانہ بیوی شوہر کے گھر میں ہی گزارے۔ طلاق دے کر اس کو رخصت نہ کردیا جائے۔ دونوں اسی گھر میں رہیں تاکہ اگر طبیعت میں ذرہ برابر بھی میلان باقی ہے تو اس مدت کے اندر وہ رُجوع کرلیں۔ رخصت کردینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے رُجوع کے امکانات کو خود ختم کردیا۔ اور اگر عورت خود نکل گئی تو بھی نتیجہ ظاہر ہے، اور یہ بات دونوں کے لیے حماقت اور عاقبت نااندیشی کی بات ہے۔

اس لیے یہ ہدایت کی گئی کہ طلاق کے بعد نہ عورت خود گھر سے نکلے اور نہ تم اس کو نکالو، بلکہ اس دوران میں اسے اپنے گھر میں ہی رکھو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر طلاق بائن ہوجائے تب بھی عورت گھر سے نہ جائے، اگرچہ اس دوران میں اس کا نفقہ شوہر کے ذمّے نہیں ہوتا۔ لیکن اگر طلاق رجعی ہے، یعنی جس کے اندر رُجوع کی گنجایش ہے، تو جس زمانے میں عورت عدّت شوہر کے گھر میں گزار ر ہی ہو تو اس زمانے کا اس کا نان نفقہ شوہر کے ذمے ہے۔

اِِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ط(۶۵:۱)،اِلا یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔

عورت کو گھر سے نکالنا صرف اس صورت میں صحیح ہے، جب کہ وہ کسی کھلی فحش حرکت کا اِرتکاب کرے۔ کھلی فحش حرکت کا اِطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک تو ایسی سخت بدزبانی، جو ناقابلِ برداشت ہو اور دوسرے بدکاری۔ بدکاری ضروری نہیں کہ وہ عملی ہو بلکہ اگر اس سے بداخلاقی کسی ایسی شکل میں ظاہر ہو جس سے اس کے شوہر کے دل میں اس کے لیے دوبارہ میلان کی گنجایش ختم ہوجائے یا اس کی وفا پر اعتماد باقی نہ رہے۔ ان دو چیزوں کے سوا کوئی اور چیز ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر یہ اجازت ہو کہ عورت کو طلاق دینے کے بعد گھر سے رخصت کردیا جائے۔

حدود اللّٰہ سے تجاوز، اپنے اُوپر ظلم

وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط (۶۵:۱)،  یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپرخود ظلم کرے گا۔

دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ حدیں تمھاری بھلائی کے لیے مقرر کی ہیں، تمھاری مصلحتوں کو ملحوظ رکھ کر حکیمانہ حدود کا تعین کیا ہے تاکہ تمھاری زندگیاں خراب نہ ہوں۔   اب اگر تم اِن حدود کو توڑتے ہو تو اپنا ہی کچھ بگاڑتے ہو، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑتے۔ اللہ کی حدود کو توڑنے والا اللہ کا کیا نقصان کرتا ہے؟ مثلاً اگر کوئی شخص حفظانِ صحت کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جن سے اس کی صحت خراب ہوجائے تو سوال یہ ہے کہ اس نے اللہ کا یا کسی کا کیا نقصان کیا، اس نے اپنی ہی صحت بگاڑی اور اپنا ہی نقصان کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو حدیں انسان کی معاشرتی زندگی کے لیے مقرر کی ہیں وہ اس کی بھلائی کے لیے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔

اب آپ دیکھیے کہ اگر کوئی شخص غصے میں آکر بیوی کو تین طلاق دیتا ہے تو ایک غلط کام کرتا ہے جس کا نقصان اسی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لوگوں نے بیوی سے لڑائی جھگڑے کا مطلب لازمی طور پر یہ سمجھ رکھا ہے کہ جب دونوں کے درمیان بات بگڑے تو ایک دفعہ تو طلاق کا لفظ زبان پر آئے گا ہی! یعنی لڑائی کی اور کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ انسان بُرا بھلا بھی کہہ سکتا ہے یا کسی اور طریقے سے بھی اپنا غصہ نکال سکتا ہے لیکن لوگوں کے نزدیک لڑائی کے معنی ہی گویا یہ ہوگئے ہیں کہ چھوٹتے ہی طلاق کے الفاظ بول دیے جائیں۔ اوّل تو یہی حماقت ہے، اور پھر اس سے بھی آگے بڑ ھ کر ایک دفعہ نہیں بلکہ بیک وقت تین دفعہ طلاق، طلاق، طلاق کہہ کر طلاق کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض لوگ تو ہزار ہزار طلاق دے ڈالتے ہیں۔ ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہزار مرتبہ طلاق دی تو حضوؐر نے فرمایا کہ تین تو تیری بیوی کے اُوپر پڑ گئیں باقی جتنی ہیں وہ جس پر چاہے تقسیم کردے۔ اس طرح کی جو احمقانہ حرکتیں ہیں اُن سے خدا کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، آدمی اپنا ہی گھر بگاڑتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ غصے میں آکر تین طلاق دے بیٹھتے ہیں اور پھر اس کے بعد پوچھتے پھرتے ہیں کہ بچائو کی کوئی صورت ہے کہ نہیں۔ خدا کے بندے،  اگر تمھیں پچھتاناہی تھا تو کس احمق نے تمھیں یہ کہا تھا کہ تین مرتبہ طلاق دو۔ جو کام تین طلاق سے چلتا ہے وہی ایک سے بھی چلتا ہے۔ اگر ایک آدمی عورت کو چھوڑنا ہی چاہے تو ایک طلاق کا بھی وہی حاصل ہے جو تین طلاق کا ہے لیکن فائدہ یہ ہے کہ عدّت گزر جانے کے باوجود دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ لوگ تین طلاق دینے کے بعد پوچھتے پھرتے ہیں کہ اب بچنے کی کیا صورت ہے۔ چلو کسی اہل حدیث سے پوچھتے ہیں یا فلاں سے فتویٰ لیتے ہیں۔ اس سے بھی کام نہیں چلتا تو پھر حلالہ کرنے کے لیے لوگوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ سب لغو باتیں ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی حدوں کو توڑتے ہیں، وہ اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں۔

لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا(۶۵:۱)،.  ُتو نہیں جانتا، ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی صورت پیدا کردے (کوئی راستہ نکال دے)۔

اُوپر جو ہدایات دی گئی ہیں کہ عورت کو حالت ِ حیض میں طلاق نہ دی جائے، عدّت کی گنجایش رکھی جائے، اور طلاق دینے کے بعد عورت کو گھر سے نہ نکال دیا جائے، تو اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمھیں کیا خبر ہے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ملاپ اور صلح کی کوئی صورت پیدا کردے۔ اسی غرض کے لیے یہ حدود مقرر کی گئی ہیں کہ اگر صلح کی کوئی گنجایش ہو تو اس سے فائدہ اُٹھانا ممکن رہے۔

بہلے طریقے سے رخصت کرنا

فَاِِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ ط ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا o (۶۵:۲-۳)، پھر جب وہ اپنی (عدّت کی) مدت کے خاتمے پر پہنچیں تو یا انھیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا بھلے طریقے پر اُن سے جدا ہوجائو۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب ِ عدل ہوں۔ اور (اے گواہ بننے والو) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیے ادا کرو۔ یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے، ہراُس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے، اس کے لیے وہ کافی ہے۔  اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہرچیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔

پہلی بات یہ فرمائی کہ جب مطلقہ عورتیں اپنی عدّت کو پہنچیں تو یا اُن کو بھلے طریقے سے روک رکھو یا بھلے طریقے سے رخصت کردو۔ عدّت کو پہنچنے سے مراد یہ ہے کہ جب عدّت ختم ہونے کے قریب آئے تو اگر اُن کو روکنا چاہو تو بھلے آدمیوں کی طرح روک لو، یا رخصت کرنا چاہو تو    بھلے آدمیوں کی طرح رخصت کردو___ یعنی کسی جھگڑے ٹنٹے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمھارا نباہ نہیں ہوتا تو ٹھیک ہے، تم نے طلاق دے دی ہے، تو اب ان کو بھلے طریقے سے رخصت کردو، کسی لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر رکھنا ہے تو بھلے آدمیوں کی طرح رکھ لو۔

دوسرے الفاظ میں شریعت یہ بات سکھاتی ہے کہ آدمی کو دنیا میں ایک معقول انسان کی طرح زندگی گزارنی چاہیے ۔ کسی حالت میں بھی نامعقول آدمی کا سا رویّہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آدمی کسی سے نہیں نباہ سکتا ہے تو صاف کہہ دے کہ بھائی السلام علیکم، تمھارا راستہ الگ، ہمارا راستہ الگ۔ کسی طرح کی کھینچاتانی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص سے موافقت کرنا ممکن ہے تو پھر شریف آدمی کی طرح موافقت کرلی جائے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ خواہ مخواہ بات بڑھائی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ صبح تو ایک دوسرے کو بُری بھلی سنائی جارہی ہے اور شام کو گھل مل کے باتیں ہورہی ہیں، اور اگلے روز پھر وہی جھک جھک شروع ہوجائے۔ یہ بھلے آدمیوں کا کام نہیں ہے۔ اس طرح یہ بات سمجھائی گئی کہ عدّت کی مدت ختم ہونے سے پہلے آدمی اچھی طرح سوچ لے کہ بھئی اس عورت سے نباہ ہوسکتا ہے یا نہیں، یا ہم بھلے طریقے سے مل کر رہ سکتے ہیں یا نہیں، یہ فیصلہ کرلیجیے۔ اگر مل کر رہ سکتے ہیں تو فبہا، ورنہ علیحدگی کا فیصلہ کر کے بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔

 وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ(۶۵:۲)،’’اور جو تمھارے صاحب ِ عدل آدمی ہوں ان میں سے دو کو گواہ بنائو‘‘۔ صاحب ِ عدل سے مراد ہے نیک، معقول اور سچا آدمی۔ گویا کسی اَیرے غیرے کو گواہ نہ بنایا جائے۔ گواہ بنانا ہے تو دو معقول شریف آدمیوں کو بنایئے۔ ان کے سامنے    یہ بات واضح طور پر کہی جائے کہ آج میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ اگر بعد میں رُجوع کرنے کا فیصلہ کرو تو اس پر پھر گواہ بنا لیجیے کہ مَیں رُجوع کر رہا ہوں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، اور اگر بعد میں کوئی قضیّہ پیدا ہوجائے تو شہادت قائم کرنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔ اگر بالآخر رخصت کرنا ہے تو لوگوں سے کہہ دیجیے کہ آج عدّت ختم ہوئی اور میں اس عورت کو رخصت کر رہا ہوں۔ اوّل تو اس طرح  سے آیندہ چل کر جھگڑے کھڑے نہیں ہوتے، اور اگر کوئی جھگڑا پیدا بھی ہوتو دو ایسے راست باز اور قابلِ اعتماد آدمی ایسے موجود ہوں گے جو صحیح شہادت دے دیں گے اور جھگڑے کا خاتمہ ہوجائے گا۔

وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِط(۶۵:۲)، اور شہادت کو ٹھیک ٹھیک قائم کرو اللہ کے لیے۔

شہادت کو ٹھیک ٹھیک قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو گواہ بنایا جا رہا ہے اس کو  صحیح صحیح اطلاع دی جائے، کوئی غلط اطلاع نہ دی جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی نے آج طلاق دی ہے اور گواہی دو تین دن کے بعد قائم کر رہا ہے تو یہ بات غلط ہوجائے گی۔ کیونکہ اس صورت میں اگر آدمی یہ کہے کہ گواہ رہو کہ میں نے بیوی کو طلاق دے دی ہے تو چونکہ ان دو تین دنوں کی وضاحت نہیں ہوگی، اس لیے گواہوں کا یہ کہنا کہ اس نے فلاں تاریخ کو طلاق دی ہے خلافِ واقعہ بات ہوگی، جب کہ وہ دو تین دن پہلے طلاق دے چکا تھا۔ اس لیے یہ طلاق دینے والے کی طرف سے شہادت کے قواعد کی خلاف ورزی ہوگی۔ اسی طرح جن کو گواہ بنایا جائے ان کی شہادت بھی خلافِ اصول ہوگی۔ اس لیے کہ ان کا بھی یہ کام ہے کہ وہ طلاق کی تاریخ کو ٹھیک ٹھیک یاد رکھیں اور جب ضرورت پیش آئے تو ٹھیک ٹھیک گواہی دیں۔

ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط (۶۵:۲)، اس چیز کی   تم کو نصیحت کی جاتی ہے، تم میں ہر اُس شخص کو جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آدمی اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی خلاف ورزیاںکرتا ہے، اس کا یہ فعل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ اور  یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ حرکتیں ایمان کے منافی ہیں کہ آدمی کہے کہ میں خدا کو خدا مانتا ہوں اور یہ بھی مانتا ہوں کہ آخرت میں مجھے خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے، پھر بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرے اور اس کی حدود کو توڑے تو یہ ایمان کے منافی ہے۔ اگر ایک شخص صحیح ایمان رکھتا ہو تو اس کا یہ کام ہے کہ پھر ایمان داری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حدود کی پابندی کرے۔

پیچیدگیوں سے بچنے کا راستہ

وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا(۶۵:۲)، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کردیتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ جب آدمی اینچ پینچ کی باتیں کرتا ہے تو دراصل وہ بعض عملی پیچیدگیوں کے ڈر سے ایسا کرتا ہے۔ اسے یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر میں نے ٹھیک ٹھیک بات کی تو میرے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گی، جیساکہ آج کل بہت سے لوگ عدالت میں جاکر اس لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ اگر ہم نے سچ بات کہی تو فلاں پیچیدگی پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح وہ عملاً حدود اللہ کو توڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تعالیٰ تمھارے لیے پیچیدگیوں سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا۔ اس لیے کسی قسم کی پیچیدگی اور اُلجھن کا خوف تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اللہ سے بے خوف ہوکر اس کے حدود توڑنے پر اُتر آئو۔ اگر عملاً کوئی اُلجھن پیدا بھی ہوگی تو اللہ کے ذمے یہ ہے کہ وہ اس سے نکلنے کا راستہ تمھارے لیے پیدا کردے گا۔

 وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط(۶۵:۳)، ’’اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اس کا خیال بھی نہ گیا ہو‘‘۔ یہ اشارہ ہے اس طرف کہ طلاق کے معاملے میں زیادہ تر پیچیدگیاں مالی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ نان نفقہ کا خرچ، مہر کا خرچ اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے آدمی بہت سی پیچیدگیاں اپنے لیے خود پیدا کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا یہ گیا کہ کسی قسم کی مالی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی حدود مت توڑو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ایسی جگہ سے دے گا جس طرف تمھارا خیال بھی نہیں گیا۔ جو ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے اس کو ایمان داری کے ساتھ اُٹھائو، اسے ٹھیک طرح سے ادا کرو۔ یہ مت خیال کرو کہ اگر میں نے اس  ذمہ داری کا بوجھ اُٹھا لیا تو میری مالی حالت خراب ہوجائے گی اور میں بڑی مشکل میں پڑ جائوں گا۔ اس طرح سوچنا درست نہیں ہے۔ دینے والا اللہ ہے، آدمی کو اس کے بھروسے پر کام کرنا چاہیے۔

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط(۶۵:۳)، اور جو شخص اللہ پر بھروسا کرے گا پھر اللہ اس کے لیے کافی ہے۔

دوسرے الفاظ میں آدمی کا کام یہ ہے کہ جو قواعد اور قوانین اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیے ہیں وہ اللہ کے بھروسے پر اس کی پوری پوری پابندی کرے۔ اگر کسی قسم کی مشکل پیدا ہونے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہو تو کوئی پروا نہ کرے۔ اللہ پر بھروسا رکھے کہ اس نے جو قوانین اور قاعدے مقرر کیے ہیں وہ میری ہی بھلائی، مصلحت اور فائدے کے لیے ہیں۔ اس لیے میرا یہ کام ہے کہ میں ان کی پابندی کروں اور باقی معاملہ اللہ پر چھوڑ دوں۔

 اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖط،’’اللہ کو جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ کر کے رہتا ہے‘‘۔  یعنی اللہ کا فیصلہ تمھاری کسی تدبیر سے ٹل نہیں جائے گا۔ اگر کسی مصلحت اور حکمت کی بنا پر اللہ کو تمھیں کسی نقصان میں ڈالنا ہو توو ہ ڈال کر رہے گا، اور دراصل وہ تمھاری بہتری کے لیے ہوگا۔ تم لاکھ تدبیریں اس کو ٹالنے کی کر دیکھو، اس کو نہیں ٹال سکو گے لیکن ہوگا یہ کہ تم نقصان بھی اُٹھائو گے اور خدا کے قوانین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرکے گناہ گار بھی ہوگے۔

اگر ایک آدمی ایسی حالت میں نقصان اُٹھائے کہ وہ اللہ کے قوانین کی پوری پابندی کر رہا ہو تو وہ گنہگار تو نہ ہوا۔نقصان اس کو ضرور ہوا لیکن نقصان وہ ہوا جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں پہلے سے طے تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک آدمی خدا کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے نقصان تو اُٹھاتا ہے لیکن گنہگار نہیں ہوتا، صرف نقصان اُٹھاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی نقصان اس نے خدا کے قوانین کو توڑ کر اُٹھایا ہے تو گویا دوہرا نقصان اُٹھایا۔ یہاں بھی نقصان اُٹھایا اور آخرت میں بھی سزا پائے گا۔ اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو جو کچھ کرنا ہے اس کو وہ کرکے رہتا ہے۔ اس کے فیصلے تمھاری تدبیروں سے ٹلنے والے نہیں۔ اس لیے تمھارا کام ہرچیز سے بے نیاز ہوکر صرف اس کے احکام و ہدایات کی پابندی کرنا ہے۔

قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا(۶۵:۳)،’’اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک قدر مقرر کررکھی ہے‘‘۔ قدر کے معنی تقدیر کے بھی ہیں اور مقدار کے بھی۔ گویا اللہ کے سارے کام ایک قاعدے اور قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس طرح ہرچیز کے لیے اللہ نے ایک تقدیر بھی مقرر کر رکھی ہے اور ہر چیز کی ایک مقدار بھی مقرر کر رکھی ہے، اور وہ اس کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔

 وَّالِّٰٓیْٔ  یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِ کُمْ اِِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍلا وَّالِّٰٓیْٔ لَمْ یَحِضْنَ ط وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّـہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا o (۶۵:۴) اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اُن کے معاملے میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) اُن کی عدّت تین مہینے ہے، اور یہی حکم اُن کا ہے جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔ اور حاملہ عورتوںکی عدّت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضعِ حمل ہوجائے اور جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملے میں وہ سہولت پیدا کردیتا ہے۔

عدّت کے متعلق چونکہ سورئہ بقرہ میں بتایا گیا ہے کہ عدّت کا شمار حیض کے حساب سے ہوگا، تو ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن عورتوں کو حیض نہ آیا ہو یا جن کو حیض آنا بند ہوچکا ہو ان کی عدّت کس طرح شمار ہوگی؟ اس کا قانون یہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایسی عورتوں کے لیے یہ مدت تین مہینے ہوگی۔ اور یہ مدت ہلالی مہینے کے حساب سے ہوگی نہ کہ شمسی مہینے کے حساب سے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جہاں شرعی قوانین کا معاملہ ہو، ان میں ہلالی مہینے شمار ہوتے ہیں نہ کہ شمسی۔ لہٰذا ایسی عورتوں کے معاملے میں عدّت ہلالی مہینے کے حساب سے تین مہینے ہے۔

یہاں ایک اور بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے جن عورتوں کو حیض نہیں آیا ہے ان کی عدّت کی مدت بھی بتا دی ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کے قانون کی رُو سے    ایک ایسی لڑکی کا نکاح جائز ہے جس کو حیض ابھی نہ آیا ہو۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ زمانے میں فیملی لاز آرڈی ننس کے ذریعے سے جو قانون بنایا گیا ہے کہ فلاں عمر سے کم عمر کی لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا، تو یہ صریح طور پر قرآن مجید کے حکم سے ٹکراتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ایسی لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے لیکن یہ قانون کہتا ہے کہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد آخر اللہ کے قانون سے لڑائی کی اور  کیا شکل باقی رہ جاتی ہے؟ پھر فرمایا: وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ط ’’اور جو حاملہ عورتیں ہیں ان کی عدّت وضعِ حمل ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ خواہ وضعِ حمل میں نو مہینے  لگ جائیں یا طلاق دینے کے دوسرے ہی دن وضعِ حمل ہوجائے اس وقت عدّت ختم ہوجائے گی۔ عورت نکاحِ ثانی کے لیے آزاد ہوجائے گی۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا،  ’’اور جو شخص اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے معاملات کو آسان کرتا ہے‘‘۔گویا کوئی پیچیدگی ایسی نہیں ہے جس سے آدمی کو واقعی سابقہ پیش آتا ہو اور اللہ نے اس سے نکلنے کا راستہ نہ بتایا ہو۔

اللّٰہ سے ڈرنے کی حکمت

ذٰلِکَ اَمْرُ اللّٰہِ اَنزَلَہٗٓ اِِلَیْکُمْ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّـٰاتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًاo (۶۵:۵) ، یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمھاری طرف نازل کیا ہے، جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دُور کردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔

اللہ سے ڈرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں جو مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اللہ ان سے بچ نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی صورت میں آدمی ان غلطیوں میں مبتلا نہیں ہوتا جو اس کی حدود کو توڑنے کی صورت میں رُونما ہوتی ہیں: دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّـٰاتِہٖ  ’’وہ اس کی برائیاں دُور کردیتاہے‘‘۔

 بُرائیاں دُور کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر جو اخلاقی کمزوریاں ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کو دُور کردیتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرلیا، اس کی خرابیاں آپ سے آپ دُور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ایک طرف اس کی خطائیں دُور ہوں گی اور دوسری طرف اللہ کا خوف اپنے اندر پیدا کرنے کے بعد آدمی کی اخلاقی تربیت بھی اِسی خوف کی بدولت شروع ہوجاتی ہے۔ جب بھی وہ کسی برائی کی طرف مائل ہوگا اس کو یاد آئے گا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے اور ایک روز مجھے اسی کے حضور جانا ہے۔ اس احساس سے وہ برائی کے ارتکاب سے بچ جائے گا۔ اگر اس کے اندر کوئی بُری عادت راسخ ہوچکی ہے تو جب بھی اس سے بشری کمزوری کی بنا پر بلاارادہ اس کا صُدور ہوجائے گا تو رب کے حضور جواب دہی کا احساس آیندہ اس کو بچنے پر آمادہ کر ے گا، اور متعدد بار اس کوتاہی میں مبتلا ہونے کے بعد بالآخر اس سے پوری طرح بچنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر ان ساری کوششوں کے باوجود، جو وہ تقویٰ کی بدولت اپنی اصلاح کے لیے کرتا ہے، اگر کچھ برائیاں رہ جائیں گی تو اللہ آخرت کے حساب سے اس کی ان برائیوں کو ساقط کردے گا، کیونکہ اس نے دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی ہے۔ اس کے بعد اگر اس سے کچھ غلطیاں اور خطائیں سرزد ہوتی بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی اُن خطائوں سے درگزر فرمائے گا، اس کو معاف کردے گا۔چوتھا فائدہ اس کا یہ ہے کہ: یُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًا، ’’اور وہ اس کو بڑا اجر دے گا‘‘۔گویا اس کو اس بات کا اجرِعظیم بھی دیا جائے گا کہ اس نے   دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاری___ اس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنے فوائد ہیں جو ان آیات میں تقویٰ کی روش اختیار کرنے کے بیان کیے گئے ہیں۔

اس مقام پر نکاح و طلاق کے سلسلے میں اسلام کی حکمت ِ تشریع کو ایک بار پھر سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ طلاق کو جائز ہونے کے باوجود ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ شَیْئًا اَبْغَضَ اِلَیْہِ مِنَ الطَّلَاقِ، ’’اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا ہے جو طلاق سے بڑھ کر اسے ناپسند ہو‘‘ (ابوداؤد، بحوالہ تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۵۵۲)۔ اس  کی وجہ یہ ہے اور یہ سامنے کی بات ہے کہ طلاق کے نتیجے میں میاں بیوی کی علیحدگی کی وجہ سے بچوں کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے ماں یا باپ میں سے کس کے پاس جائیں گے؟ جب مرد اور عورت نیا نکاح کرلیں گے تو سوتیلے ماں باپ کے ہاں بچوں کی زندگیاں بالعموم خرابی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان کو صحیح محبت اور سرپرستی نہیں ملتی جس کی وجہ سے ان کے دلوں سے محبت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جب ماں باپ آپس میں نہ نباہ سکے تو وہ کس کی شخصیت کو اپنے لیے نمونہ بنائیں۔ ایسے ہی حالات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ بچوں کے اندر جرائم پیشگی کے رجحانات پرورش پاتے ہیں۔ اگر جدا ہونے والے مرد و زن کے ہاں اولاد نہ ہو تب بھی نئے نکاح کی صورت میں عام طور پر زندگی دونوں کے لیے تلخ ہوجاتی ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہورہی ہو تو پھر اُن کو غیرفطری طور پر جوڑ کر رکھنے سے اور طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں، جب کہ نکاح کے مقاصد پورے نہ ہو رہے ہوں، مردوزن کی علیحدگی ہی صحیح حل ہوتی ہے اور اس حکمت کے تحت طلاق کو جائز رکھا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا حکیمانہ قانون دنیا کی کسی قوم کو نصیب نہیں ہوا۔ جن قوموں کے ہاں طلاق کو عملاً ایک گناہ اور جرم قرار دے دیا گیا ہے وہاں خانگی زندگی جس طرح کے مفاسد کا شکار ہوئی ہے اس کا مشاہدہ آج کل کے یورپی اور برعظیم کے ہندی معاشرے میں کیا جاسکتا ہے۔(جاری)