مرد اور مرد کی جنسی محبت جتنابڑا گناہ ہے ، عورت اور عورت کی جنسی محبت بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ اخلاقی حیثیت سے ان د ونوںبرائیوں میں نہ نوعیت کا فرق ہے اور نہ درجے کا۔ افسوس ہے کہ یہ نام نہاد ’ادب لطیف‘ جو رسالوں اور افسانوں اور ناولوں کی شکل میں گھرگھر پہنچ رہا ہے، اور یہ فحش تصویریں اور فلمیں جنھیں آزادی کے ساتھ مردوں کی طرح عورتیں بھی دیکھ رہی ہیں، اور یہ عشق آموز گانے جو ریڈیو کی برکت سے بچے بچے کی زبان پر چڑھ رہے ہیں، اور یہ اختلاطِ مردوزن جس کو روز بروز ہماری سوسائٹی میں فروغ نصیب ہو رہا ہے، اِن ساری چیزوں نے مل جل کر نوجوان مردوں کی طرح نوجوان لڑکیوں کو بھی غیرمعمولی جذباتی ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے۔ شہوانی جذبات کی ایک بھٹی ہے جو سینوں میں بھڑکا دی گئی ہے اور بہت سی دھونکنیاں ہر آن اسے زیادہ اور زیادہ بھڑکانے میں لگی ہوئی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بگاڑ اب تک زیادہ تر مردوں میں پایا جاتا تھا، وہ ایک وبا کی طرح شریف گھروں کی لڑکیوں اور درس گاہوں کی طالبات اور استانیوں میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ جن خواتین کو زنانہ درس گاہوں کے حالات قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ان کی اطلاع یہ ہے کہ آج لڑکیوں میں جو بے حیائی، بے باکی، جنسی مسائل پر کھلی کھلی گفتگو کرنے کی جرأت اور جنسی رجحانات ___ فطری اور غیرفطری، ہر دو طرح کے رجحانات___ کے اظہار و اعلان کی عام جسارت پائی جاتی ہے، چند سال پہلے تک اس کا تصور کرنا مشکل تھا۔ اب لڑکیوں میں یہ چرچے عام ہو رہے ہیں کہ کون سی صاحب زادی کس ’استانی کی منظورِنظر ہیں‘ اور کون سی صاحب زادی کسی دوسری صاحب زادی کے عشق میں مبتلا ہیں، اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
لُطف یہ ہے کہ اس جہنم کی طرف جو لوگ اپنی قوم کو دھکیل رہے ہیں وہ اپنی اب تک کی کوششوں کے نتائج سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ انھیں حسرت یہ ہے کہ کاش ملّا کی مخالفت و مزاحمت راہ میں حائل نہ ہوتی تو وہ ترقی کے مزید قدم ذرا جلدی جلدی اُٹھا سکتے!(’رسائل و مسائل‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۳-۴،رمضان ۱۳۷۱ھ، جون ۱۹۵۲ء ، ص ۱۱۸-۱۱۹)