تاریخ کا شاید ہی کوئی دور ایسا ہو جس میں اقوامِ عالم خطرات کی یورش سے محفوظ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم کی زندگی میں خطرات کی یلغار سے بھی کہیں زیادہ خطرناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب اسے خطرات کا صحیح اِدراک اور شعور ہی نہ ہو اور وہ ان کے مقابلے کے لیے مؤثر حکمت عملی اور نقشۂ کار سے محروم اور غافل ہو، اصل ایشوز سے صرفِ نظر کرے، اپنے قومی مقاصد اور مفادات کے بارے میں سہل انگاری یا بے اعتنائی و بے نیازی کا رویہ اختیار کرے اور محض جزوی یا ثانوی امور میں اُلجھ جائے، یا اس سے بھی بدتر صورت یہ ہے کہ محض شخصی اور ذاتی مفادات کی ادھیڑبن میں مصروف رہے۔ شاید اقبال نے ایسے ہی تغافل سے متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎
فطرت افراد سے اِغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
پاکستان بحیثیت ملک و ملّت اور اس کی قیادت آج ایک ایسی ہی اندوہ ناک صورت حال سے دوچار نظر آرہی ہے___ دنیا کا نقشہ بدل رہا ہے، عالمی قوتیں اپنے اپنے عزائم اور مفادات کے لیے نئے نئے نقشہ ہاے جنگ ترتیب دے رہی ہیں، پاکستان کے گرد گھیرا بڑی چابک دستی سے تنگ کیا جا رہا ہے مگر اس وقت وطنِ عزیز کی زمامِ کار جن ہاتھوں میں ہے، ان کو نہ خطرات کا اِدراک ہے اور نہ مقابلے کے لیے وژن، تیاری اور صف بندی کا۔ ہرکوئی ذاتی مفادات کی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور ملک بچانے، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کی فکر کرنے اور عوامی مسائل و مشکلات کے حل کے لیے صبح و شام ایک کرنے کے بجاے کرسی بچانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
بلاشبہہ افغانستان پر قابض امریکی اور ناٹوافواج کے لیے رسد کی بحالی یا اس دروازے کو مزید مضبوطی کے ساتھ بند کرنے کا مسئلہ اصولی اور عملی سیاست، ہردو اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اسے جذباتی انداز میں یا بیرونی دبائو اور معاشی بول تول کے فریم ورک میں حل کرنے کی کوشش نہ صرف غیرحقیقت پسندانہ ہوگی بلکہ یہ کھلی کھلی تباہی کا راستہ ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس سوال کو اس کے اصل پس منظر اور تمام متعلقات سے کاٹ کر توجہ کا مرکز بنانے اور پاک امریکا تعلقات کے گمبھیر مسئلے کو مختصر بتاکر اس پر منحصر ہونے کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اُسے سمجھا جائے۔ قومی زندگی کے اس نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر تمام متعلقہ امور اور پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور صرف پاکستان کی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور اس کے اپنے قومی مفادات اور مستقبل کے امکانات کی روشنی میں فوری اور دیرپا پالیسی سازی کے اقدام کیے جائیں۔
امریکا اور ناٹو افواج کا ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کا پاکستان کے خلاف اقدام کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا۔ اس کا ایک طویل پس منظر ہے اور علاقے کے بارے میں امریکا کی حکمت عملی میں اس کا ایک کلیدی مقام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر قوم کا ردعمل ملک کے حقیقی مفادات اور اہداف کا تقاضا تھا اور اسے قوم کی مکمل تائید حاصل تھی، اور یہ تائید ایسی محکم اور واضح تھی کہ امریکی اور لبرل لابی کے لیے بھی چپ سادھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت نے چھے قیمتی مہینوں میں نئی حکمت عملی بنانے اور قومی اتفاق راے کے ساتھ امریکا سے تعلقات کے سلسلے میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے کے بجاے وہی مفادات کا کھیل کھیلا، نان ایشوز(non-issues) میں قوم کو اُلجھایا، بشمول نئے صوبوں کے قیام کا مسئلہ، مرکز اور صوبوں میں کھچائو، عدالت اور دوسرے قومی اداروں سے ٹکرائو، لاقانونیت کے عفریت کو کھل کھیلنے اور نت نئے مواقع فراہم کرنا، سیاسی انتقام اور تصادم کی سیاست کے نئے پھندے، بھارت سے تجارت کے نام پر ان مسائل سے اغماض جن پر پاکستان کے وجود اور مستقبل کا انحصار ہے، یعنی کشمیر اور پانی کا مسئلہ ، نیز کرپشن اور بدعنوانی کے نئے ریکارڈوں کا قیام۔ امریکا سے تعلقات کی نئی شرائط اور خارجہ پالیسی سے متعلق مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کا ڈراما بھی اسی کھیل کا حصہ نظر آتا ہے۔ اب ساری بحث کو ملک میں اور بیرونِ ملک حکومت کے کارپرداز، امریکا نواز دانش ور اور میڈیا میں اس کی فکر کے ترجمان اور سب سے بڑھ کر خود امریکی حکومت اور عالمی میڈیا رسد کی بحالی کو اصل مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں جس کا نمایاں ترین ثبوت شکاگو میں منعقد ہونے والی ناٹو کی ۲۵ویں سربراہی کانفرنس اور اس کی کارروائی ہے۔ پورے سیاسی تناظر کو جھٹلانے (falsify) کی یہ مکروہ کوشش ایک بہت ہی خطرناک سیاسی اور خونیں کھیل کا حصہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے پر دلیل کے ساتھ بات کی جائے اور یہ مسئلہ جن دوسرے مسائل سے جڑا ہوا ہے اور جن کے سلسلے میں صحیح حکمت عملی اختیار کیے بغیر اس کے بارے میں کوئی فیصلہ ممکن نہیں اس پر قرارواقعی توجہ دی جائے ، اس لیے کہ ع
یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے
معروضی حقائق اور حکومتی موقف
۱- جناب سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج نے جو فضابنانے کی کوشش کی ہے، اس پر گرفت سب سے پہلی ضرورت ہے۔ یہ تو انھوں نے بالکل بجا فرمایا کہ قوموں کی زندگی کے ایسے اہم فیصلے جذباتی انداز میں نہیں ہوتے اور نہیں ہونے چاہییں۔ ہم اگر اس سوال کو نظرانداز بھی کردیں کہ اس ’ارشادِ عالیہ‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی، اور کیا ان کا خیال ہے کہ ۲۶نومبر کی امریکی جارحیت کے ردعمل میں جو فیصلہ قوم اور قیادت نے کیا وہ کوئی ’جذباتی فیصلہ‘ تھا جسے اب عقل و فراست اور تاریخ اور تجربے کی میزان پر پرکھنے اور ان کی نگاہ میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن چونکہ اس بارے میں انھوں نے ابہام رکھا ہے اس لیے ہم بھی اسے نظرانداز کرتے ہیں، تاہم ان کی اس دعوت کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ فیصلے ٹھوس حقائق، حقیقی تاریخی تجربات، عالمی قوتوں کے عزائم اور ایجنڈے کے بارے میں علم و تحقیق اور دیانت اور فراست پر مبنی جائزوں اور خود اپنے قومی مفادات اور مقاصد و اہداف کی روشنی میں ہونے چاہییں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ کھلے اور شفاف انداز میں، بے لاگ بحث و مباحثے اور قومی ڈائیلاگ کے ذریعے ہونے چاہییں، اور عوام کی خواہش اور عزائم کے مطابق اور ان کو اعتماد میں لے کر ہونے چاہییں۔ اس میں پارلیمنٹ، تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں، اہلِ علم و تجربہ اور میڈیا ہر ایک کا کردار ہے۔ بلاشبہہ فیصلے بروقت ہونے چاہییں اور لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ پالیسی سازی کے لیے صحیح طریقہ کار اختیار کیا جائے، اس لیے کہ تمام متعلقہ عناصر (stake holders) کی شرکت اور اطمینان کے بغیر جو فیصلے ہوتے ہیں وہ جلد پادر ہوا ہوجاتے ہیں اور انھیں کبھی بھی جواز اور ساکھ حاصل نہیں ہوپاتی۔
ہم صاف الفاظ میں یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں فیصلے محض جذبات کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم کے جذبات، اس کے عزائم اور تصورات، اس کے مقاصد اور حقیقی مفادات، زمینی حقائق اور مطلوبہ اہداف، تاریخی تجربات اور راہ کے موانع اور مشکلات میں سے ہر ایک کا احاطہ ضروری ہے ،اس لیے کہ ان معاملات میں ہر ایک کا کردار ہے اور کسی ایک کو بھی نظرانداز کرنا مہلک ہوسکتا ہے۔ توازن اور تمام اُمور کو سامنے رکھ کر جو فیصلے کیے جاتے ہیں، وہی موجوں کے تلاطم کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح جو فیصلے بیرونی دبائو اور اندرونی لابیز (lobbies) کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں کیے جاتے ہیں، وہ صرف اور صرف نقصان کا سودا ثابت ہوتے ہیں، جیساکہ پرویز مشرف کے دور میں کیے جانے والے فیصلوں کے بارے میں ہوا، جس کا اعتراف آج وہ ’گل ہاے سرسبد‘ بھی کر رہے ہیں جو اس وقت پرویز مشرف کے حلقہ یاراں کا حصہ تھے اور اس وقت اس کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے۔ اقبال نے اس خطرے سے بہت پہلے آگاہ کیا تھا کہ ؎
محکوم کے اِلہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صورت چنگیز
ہم حکومت اور اس کے کارپردازوں کی اس روش پر بھی گرفت کرنا چاہتے ہیں کہ جذباتیت کی بات کرنے کے ساتھ چند ایسے اعلانات بھی کیے گئے ہیں جن کا دلیل اور دیانت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، لیکن جو غالباً ہوا کے رُخ کی تبدیلی اور حکومت کے بدلتے اطوار کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اگر گذشتہ چند دن خیریت سے گزر گئے ہیں اور شکاگو کانفرنس کے لیے جو ڈراما تیار کیا جارہا تھا وہ اسٹیج نہ کیا جاسکا، تو اس کی وجہ وہ عوامی ردعمل اور ملک کی دینی اور بعض سیاسی قوتوں کا بروقت انتباہ تھا جس نے شرم ناک ہزیمت سے ملک کو بچا لیا۔ نیز یہ امریکا کی قیادت کا غرور اور نشۂ قوت کا خمار تھا جس نے آخری وقت میں قوم کو پھسلنے سے بچا لیا۔ ورنہ وہی وزیرخارجہ صاحبہ جو قومی مفاد اور وقار پر ڈٹ جانے کی بات کر رہی تھیں اور جس پر امریکی سفارت کار مارک گراسمین نے صرف ایک مہینہ پہلے میڈیا کو اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’وہ ناتجربہ کار ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنا مشکل ہے‘‘۔ (دی ٹائمز، اسلام آباد،۱۵مئی ۲۰۱۲ئ)
ان کی مئی ۲۰۱۲ء کی برطانیہ یاتراکے واپسی کے موقع پر ہوائی جہاز ہی میں ایسی قلب ماہیت ہوگئی کہ ’آگے بڑھنے‘ کی باتیں کرنے لگیں اور ان پر یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ معاملہ صرف امریکا کا نہیں، دوسرے ۴۸ ممالک کا بھی ہے اور ان میں ہمارا جگری دوست ترکی بھی شامل ہے۔ پتا نہیں ان تمام حقائق کا انکشاف برطانیہ کے سفر میں ہو، یا یہ ۴۸ممالک بشمول ترکی ۲۰۱۲ء میں افغانستان کی امریکی جنگ میں شریک ہوئے ہیں اور ۲۰۰۴ء سے جاری ڈرون حملوں کی بارش، پاکستان کی حاکمیت اور سرحدات کی مسلسل خلاف ورزی، ۲مئی کے سنگین واقعات اور ۲۶نومبر کے خونیں حملے کی ان کو ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ وزیراعظم گیلانی اور حناربانی کھر ملک کی حاکمیت، قومی مفاد اور عزت و وقار کی دہائی دیتے نہیں تھکتے تھے اور اب مفاہمت، حقیقت پسندی، معاشی مجبوریوں اور عالمی سطح پر تنہائی کے ڈرائونے خواب ان پر سایہ فگن ہوگئے ہیں۔ وزیردفاع پاکستان اور اس کے مفادات اور خود اپنی فوج پر کیے جانے والے حملوں کا دفاع کرنے کے بجاے یہ درس دے رہے تھے: ’’رسد روکنا بین الاقوامی قانون اور معاہدات سے متصادم ہے‘‘۔ وزیرخارجہ صاحبہ یہاں تک فرماگئی ہیں کہ ناٹوسپلائی بالآخر کھولنا ہوگی اور اگر اسے بحال نہ کیا گیا تو بڑی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہے، ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے، ہم نے خارجہ پالیسی کو مسلسل ارتقائی عمل بنادیا ہے۔ وزیراطلاعات تو سب پر بازی لے گئے ہیں، فرماتے ہیں کہ ڈرون حملوں پر اسلام آباد، لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں میں احتجاج زیادہ اور فاٹا میں کم ہوتا ہے، اور ہم پہلے دن سے ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا سے روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں مگر وہ ہماری بات نہیں مانتا۔ اس سے بڑھ کر وہ بات ہے جو امریکی اور مغربی سفارت کار کہتے ہیں اور جس کی تائید و تصدیق وکی لیکس سے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت زرداری صاحب اور گیلانی صاحب سمیت بلکہ کیانی صاحب بھی اس میں شامل ہیں، یہ کہتی ہے کہ ہم عوامی سطح پر ان کی مخالفت کرتے رہیں گے اور آپ عملاً اپنا کام جاری رکھیں اور ہمارے اس زبانی واویلا کی فکر نہ کریں۔
یہ دوغلاپن اور اپنی قوم اور پارلیمنٹ اور تاریخ سے مذاق ہی وہ مرض ہے جس کے نتیجے میں امریکا شیر ہورہا ہے اور پاکستان دہشت گردی کی آماج گاہ بن گیا ہے۔ ۴۰ ہزار سے زیادہ عام شہری بشمول خواتین اور بچے اور ۵ہزار سے زیادہ فوجی جوان اور افسر لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ اور خود اپنے ملک میں بے گھر ہوجانے والوں کی مجموعی تعداد ۳۰سے ۴۰ لاکھ کے درمیان ہے۔ اس پر مستزاد وہ معاشی اور مالی نقصان ہے جو ان ۱۱ برسوں میں ملک اور اس کے عوام نے اٹھایا ہے اور جو وزارتِ خزانہ کے اپنے اندازے کے مطابق صرف پہلے آٹھ سال میں ۶۷ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ اگر ۱۱ برسوں کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے تو ۱۰۰ارب ڈالر سے کسی طرح کم نہیں۔ اس کے علاوہ ناٹو کی سپلائز سے جو نقصان ملک کی سڑکوں، پُلوں اور دوسرے انفراسٹرکچر کو پہنچا ہے وہ ۱۰۰؍ارب روپے سے زیادہ ہے اور ان تمام نقصانات میں وہ مستقل نقصان شامل نہیں ہے جو ۴۵ہزار افراد کی ہلاکت اور ایک لاکھ کی معذوری کی شکل میں اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں ملک اور قوم کو برداشت کرنا پڑا ہے۔
اس سب کے باوجود امریکا نے جس طرح پاکستان پر اپنی سیاسی، معاشی اور ثقافتی گرفت مضبوط کی ہے، جاسوسی کا جو نظام پورے ملک کے اندر بچھایا ہے، تجربہ کار عناصر کو جس طرح مضبوط کیا ہے، مسلح کیا ہے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور دنیا کے سامنے خود پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ملک کی حیثیت سے پیش کیا ہے، اور جس کھلے انداز میں ملک و قوم اور خود اس قیادت کی جو ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، تضحیک اور تحقیر کی جارہی ہے، وہ اس انتہا پر پہنچ گئی ہے کہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی کے بغیر ملک کی آزادی، بقا اور استحکام ممکن نہیں رہا۔
یہ ہے اصل پس منظر جس میں امریکی اور ناٹو افواج کے لیے پاکستان کی سرزمین کے ذریعے رسد کے مسئلے کے بارے میں صحیح فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ چند ڈالروں کی فیس کا نہیں___مسئلہ کہیں زیادہ گمبھیر اور ہمہ جہتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ اور اس میں پاکستان کی غیرمشروط اور تباہ کن شرکت، افغانستان اور وسط ایشیا میں امریکی عزائم اور اس کھیل میں بھارت کا کھلا اور خفیہ کردار اور خود افغانستان کے اپنے استحکام اور علاقے کے امن سے اس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ امریکا اور پاکستان کے مجموعی تعلقات اور بدلتی ہوئی عالمی سیاسی بساط میں امریکا، اُمت مسلمہ، ایشیا اور خصوصیت سے چین کے مستقبل کے کردار اور اس میں پاکستان کے مفادات کے تعین اور ان کی حفاظت کا پہلو بھی ہے۔ سوال عالمی سطح پر پاکستان کی تنہائی کا نہیں، رسد کی بحالی کے مسئلے کو باقی تمام اُمور سے الگ (isolate) کرکے کوئی شکل دینے کے خطرناک کھیل کو سمجھنے اور اس چیلنج کی روشنی میں معاملات کا حل تلاش کرنے کا ہے جو بحیثیت مجموعی ملک اور اس پورے خطے کو درپیش ہیں۔
پارلیمنٹ کی مجموعی کارکردگی خواہ کتنی بھی مایوس کن رہی ہو لیکن کم از کم اس مسئلے پر پارلیمنٹ کی قراردادیں اور پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کی رپورٹیں بہت واضح ہیں۔ نیز اس میں آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے جس میں پارلیمنٹ سے باہر جماعتوں کی قیادت نے بھی شرکت کی۔ ان سب میں جو اُمور مشترک ہیں، وہ یہ ہیں:
۱- پاکستان کی آزادی اور خودمختاری معرضِ خطر میں ہے اور اس کے لیے فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ پرویزمشرف کے دور میں جو خارجہ پالیسی اور ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جو کردار پاکستان نے اختیار کیا اسے فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔ ا س پالیسی کا جاری رکھنا ملک، قوم ، علاقے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کی تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
۲- پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے اور اسے امریکا کے ایجنڈے سے بے تعلق(de-link) کرکے پاکستان کے اپنے مقاصد، مفادات اور سیاسی، معاشی، انسانی اور علاقائی سلامتی کے تصورات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
۳- ’دہشت گردی‘ کے خلاف جو جنگ امریکا نے نائن الیون کے بعد شروع کی، وہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ سیاسی حل کے لیے مذاکرات ہی صحیح راستہ ہیں۔ انتہاپسندی اور تشدد نامطلوب ہیں لیکن ان پر قابو پانے کے لیے ان کے اسباب کا جائزہ لینا ہوگا اور جب تک ان اسباب کو دُور نہ کیا جائے، صورت حال بہتر نہیں ہوسکتی۔
۴- اصل مسئلہ جنگ کو جاری رکھنا نہیں، جنگ کو ختم کرنا اور امن کے لیے حالات کو سازگار بنانا ہے، چاہے یہ بات کھلے الفاظ میں نہ کہی گئی ہو لیکن اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت راے عامہ کے ہر جائزے میں یہ بات واضح کرچکی ہے کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کی حیثیت قابض افواج کی ہے اور جب تک بیرونی قبضہ ختم نہیں ہوتا، علاقے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہر وہ اقدام جو جنگ کو تقویت دینے والا ہو، ہمارے قومی مفاد اور علاقے کے سلامتی کے خلاف ہوگا۔
۵- اس جنگ میں شرکت سے پاکستان نے پایا کم اور کھویا زیادہ ہے۔ جان، مال، عزت و آبرو اور آزادی اور قومی سلامتی، سب دائو پر لگ گئے ہیں۔ اس پر مستزاد ملک کے معاملات میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت اور کھلے بندوں ہماری حاکمیت پر حملے اور سرحدوں کی خلاف ورزی ہے۔ ڈرون حملے جن میں اضافہ ہی ہوا ہے، امریکی فوجوں کی زمینی کارروائیاں، فضائی حدود کی پامالی اور ہماری سرزمین پر کھلے (overt) اور خفیہ (covert)، دونوں قسم کے اقدامات (operations) اس کا بین ثبوت ہیں۔ یہ سب ناقابلِ برداشت ہیں لیکن احتجاج کے باوجود نہ صرف یہ کہ امریکا اور اس کے اعوان و انصار نے اپنی روش میں سرمو تبدیلی نہیں کی بلکہ مزید رعونت سے ان میں اضافہ کیا اور ملک اور اس کی قیادت کی تحقیر و تذلیل میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔
پارلیمنٹ کی قراردادوں میں آزاد خارجہ پالیسی کی ضرورت، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے کی راہوں کی تلاش، قومی سلامتی کے پورے تصور پر نظرثانی، مسئلے کے فوجی حل کی جگہ سیاسی حل کی طرف مراجعت، تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشاورت اور ڈائیلاگ میں شریک کرکے نئی راہوں کی تلاش اور ملک میں امن و امان کے قیام، انصاف کی فراہمی، معاشی ترقی اور سماجی فلاح کو پالیسی کے اصل اہداف بنانے کی ہدایت کی گئی۔ پہلی قرارداد ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی اور آخری ۱۲؍اپریل ۲۰۱۲ء کو۔
سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور اسے رہنمائی اور پالیسی سازی کا سرچشمہ بنانے کے دعوے داروں نے پارلیمنٹ کی قراردادوں پر کتنا عمل کیا اور عوام کے جذبات و احساسات کا لحاظ رکھا یا انھیں بُری طرح پامال کیا؟
حکومت کے کچھ ترجمان دبی زبان سے اور پاکستان میں امریکی لابی کے سرخیل ببانگ دہل بلکہ پوری سینہ زوری کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کا کام خارجہ پالیسی بنانا نہیں۔ یہ تو ایک بہت ہی پیشہ ورانہ (professional) کام ہے جسے خارجہ امور کے ماہرین ہی انجام دے سکتے ہیں۔ ان تمام موشگافیوں کی اصل وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ اور کُل جماعتی کانفرنس کی قراردادوں میں جن اصولوں اور اہداف کا تعین کیا گیا ہے، اور جن امور کو قومی مفاد اور ترجیحات قرار دیا گیا ہے، وہ ان کے مفیدمطلب نہیں، اور پارلیمنٹ کی ہدایات اور عوام کی خواہشات سے گلوخلاصی حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ خارجہ پالیسی کے امور کو پارلیمنٹ کی دسترس سے باہر نکالا جائے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا تو بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ تمام پالیسیوں کا سرچشمہ عوام کی مرضی کو ہونا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ ہرپارٹی کے منشور میں داخلی امور، نظریاتی اہداف، تعلیمی، ثقافتی اور فلاحی پروگرام کے ساتھ خارجہ پالیسی کے خدوخال بھی قوم کے سامنے رکھے جاتے ہیں اور ان تمام اُمور پر ان سے مینڈیٹ حاصل کیا جاتا ہے۔ دستور میں خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال واضح الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں اور ریاست کی پالیسی کے بنیادی اصول کے طور پر ان کو دستور کی دفعہ ۴۰ میں بیان کیا گیا ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں داخلہ پالیسی، معاشی اور مالیاتی پالیسی کی طرح خارجہ پالیسی پر بھی بحث ہوتی ہے اور قراردادوں اور قانون سازی کی شکل میں پارلیمنٹ واضح ہدایات دیتی اور حکومت کو پابند کرتی ہے۔ امریکا میں ایک ایک ملک سے تعلقات کا مسئلہ قانون سازی کے ذریعے طے کیا جاتا ہے اور صدرمملکت صلح و جنگ کے معاملات میں کانگریس کی ہدایات کا پابند ہے۔ امریکی دستور کے تحت اعلانِ جنگ کانگریس کی منظوری کے بغیر نہیں کیا جاسکتا اور یہ جو ہر روز کمیٹیوں میں اور پھر قوانین کی شکل میں بیرونی امداد کے لیے رقوم مختص کی جاتی ہیں اور سیاسی بنیادوں پر ان میں کمی بیشی کی جاتی ہے، یہ خارجہ پالیسی کی تشکیل نہیں تو کیا ہے؟
کیری لوگر بل کا بڑا چرچا ہے مگر کیا اس بل کے ذریعے امریکا نے پاکستان سے اپنے خارجی اور معاشی تعلقات کے دروبست طے نہیں کیے۔ یہ جو رسد کا مسئلہ ہے اس پر امریکا کی پارلیمنٹ نے فوراً ہی ترامیم کے ذریعے نئی شرطیں لگائی ہیں اور رسد نہ کھولنے پر امریکی امداد میں کمی، حتیٰ کہ ملک کے ایک غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی، جسے ایبٹ آباد کمیشن نے اور پھر ملک کی ایک عدالت نے جرم ثابت ہونے پر سزا دی ہے، اس کی پشت پناہی میں ۳۳سال کی قید کے جواب میں ۳۳ملین ڈالر کی تخفیف کا بل فوری طور پر منظور کردیا گیا ہے ،یہ خارجہ پالیسی کو لگام دینا نہیں تو کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی ہدایات اس حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہیں جسے وہ نہ نگل پارہی ہے اور نہ اُگل پا رہی ہے!
ملکی بحران اور مایوس کن حکومتی کارکردگی
حالات جس مقام پر آگئے ہیں اور آگے جو خطرات درپیش ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ پاک امریکا تعلقات کے سلسلے میں موجودہ حکومت کی جو کارکردگی رہی ہے اس کا کھل کر جائزہ لیا جائے، اور قوم کو شعور دلایا جائے کہ اس قیادت نے ملک کو کس خطرناک دلدل میں پھنسا دیا ہے۔
اب سوال یہ نہیں ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کیا کیا تھا، اس نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے، اب اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ان ساڑھے چار برسوں میں کیا کیا؟ اور قوم کے واضح مطالبات اور پارلیمنٹ کی کھلی کھلی ہدایات کے باجود اس حکومت کا کیا کردار رہا؟
۱- عوام نے مشرف ہی کو نہیں اس کی پالیسیوں کو بھی رد کیا تھا لیکن زرداری گیلانی حکومت نے ان تمام ہی پالیسیوں کو، ان کے تباہ کن نتائج، عوام کے احتجاج اور پارلیمنٹ کی آہ و بکا کے باوجود جاری رکھا بلکہ ان کو اور بھی تباہ کن بنا دیا۔ امریکا کی گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی۔ امریکی سفارت کاروںاور خفیہ اداروں کو زیادہ دیدہ دلیری سے اپنا کھیل کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ بلاتحقیق ہزاروں ویزے دیے گئے۔ امریکی کارندوں پر نگرانی کا کوئی مؤثر نظام قائم نہ کیا گیا۔ ریمنڈڈیوس کے واقعے نے تو صرف واضح حقائق کے صرف سرے (tip of the iceberg) کو بے نقاب کیا جو ہمارے ملک کی سلامتی روندنے کا ذریعہ بنا ہوا تھا اور ایک حد تک اب بھی ہے۔ ڈرون حملوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔ ملک میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا طوفان آگیا۔ فاٹا ہو یا بلوچستان یا کراچی___سب کے ڈانڈے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور ناٹو کے لیے سپلائی فراہم کرنے والے کنٹینرز سے جاملتے ہیں۔ ابھی لیاری آپریشن میں جس اسلحے کا استعمال ہوا ہے، جو راکٹ داغے گئے ہیں اور جو پستول پکڑے گئے ہیں، ان سب پر امریکی ساخت کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں۔
ان ساڑھے چار برسوں کا ریکارڈ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو اس کٹہرے میں لاکھڑا کرتا ہے جس میں پرویز مشرف اور اس کے ساتھی ہیں___اور یہ بات بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ پرویز مشرف کے بہت سے سابق ساتھی، اس حکومت کے بھی ساتھی اور سانجھی ہیں!
۲- پارلیمنٹ، عوام اور قومی اُمور پر نگاہ رکھنے والوں کے بار بار کے مطالبات کے باوجود اس حکومت نے امریکا سے تعلقات کے شرائط کار (terms of engagement) اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کی شکلوں (modalities) پر کوئی نظرثانی نہیں کی، بلکہ قوم کو اسی طرح اصل حقائق سے تاریکی میں رکھا جو مشرف کی فوجی اور شخصی آمریت کے دور میں کیا جا رہا تھا۔ ہم پوری ذمہ داری سے قوم کے علم میں یہ بات لانا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں تک کو صحیح معلومات بار بار مطالبات کے باوجود نہیں دی گئیں ۔ ہم چند مثالوں سے بات کو واضح کرنا چاہیں گے:
۱- مشرف کے دور میں امریکا سے کیا معاہدات ہوئے، نیز کن کن اُمور پر کوئی قول و قرار ہوا، اس سے وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ نے پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کی کمیٹی کو مطلع نہیں کیا اور ہمیشہ یہی کہا کہ کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے۔ حالانکہ حکومت کے ضابطۂ کار میں یہ موجود ہے کہ معاہدات تحریری ہوتے ہیں جن کی منظوری کوئی فرد نہیں بلکہ کابینہ دیتی ہے، اور جو اُمور صرف زبانی طے ہوتے ہیں ان کی بھی تحریری روداد رکھی جاتی ہے اور وہ ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہے۔ صرف سلالہ کے واقعے کے بعد وزارتِ دفاع مجبور ہوئی اور بڑے ردوکد کے بعد دو معاہدات کے کچھ مندرجات سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔ ایک مفاہمتی یادداشت (MOU) ۱۹جون ۲۰۰۲ء کی ہے جو وزارتِ دفاع اور ایساف (ISAF) کے درمیان ہے جس پر ایساف کی طرف سے برطانیہ کی حکومت نے دستخط کیے ہیں۔ دوسرا ۹فروری ۲۰۰۲ء کا امریکا کی وزارتِ دفاع کے ساتھ ہے جو فروری ۲۰۱۲ء میں اپنی ۱۰ سالہ مدت پوری کرکے ختم ہوگیا لیکن کمیٹی کو بھی ۲۰۱۲ء سے پہلے اس کی کوئی ہوا نہیں لگنے دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کمیٹی نے سختی سے یہ ہدایت دی ہے کہ امریکا ہی نہیں، کسی بھی ملک یا ادارے سے جو بھی معاہدہ ہے وہ لازماً تحریری شکل میں ہونا چاہیے، تمام متعلقہ وزارتوں کے مشورے سے ہونا چاہیے، کابینہ کی منظوری سے ہونا چاہیے، اور پارلیمنٹ یا کم از کم قومی سلامتی کی کمیٹی کو اس سے مطلع ہونا چاہیے۔
۲- کمیٹی کے بار بار کے مطالبات کے باوجود وزارتِ دفاع نے ان ہوائی اڈوں کے بارے میں کوئی معلومات کمیٹی کو نہیں دیں جو امریکی افواج کے زیراستعمال تھے، بلکہ ہردفعہ یہی کہا گیا کہ کسی تحریری معاہدے کے بغیر یہ سہولت دی گئی تھی جو اب جاری نہیں۔ بس ٹریننگ کے لیے کچھ سہولتیں باقی ہیں۔ لیکن ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد بلوچستان میں شمسی ایئربیس کو خالی کرانے کا اقدام کیا گیا اور گیلانی زرداری حکومت اس کا کریڈٹ لے رہی ہے۔ لیکن سوال خالی کرانے کا نہیں، سوال جنوری ۲۰۱۲ء تک اس حکومت اور اس فوجی قیادت کی ناک تلے اس ایئربیس کی موجودگی، اس پر امریکا کی مکمل مطلق حاکمیت (sovereignty) کہ اس کی حدود میں پاکستانی فوج اور ایئرفورس کا سربراہ بھی پَر نہیں مار سکتا تھا، کی جواب دہی اسی حکومت کو کرنا ہوگی۔ کم از کم اس اڈے کے حوالے سے تو اب یہ اعتراف کیا جا رہا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس اڈے سے ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء تک ڈرون حملے کیے جاتے رہے۔ کیا حکومت کو ۲۶نومبر کے بعد اس اڈے کا علم ہوا اور یہ بھی ایبٹ آباد میں اسامہ کے موعود قیام گاہ کی طرح اس کی نظروں سے اوجھل رہا؟ یا یہ اس کی مرضی سے امریکا کے زیرتصرف تھا اور حکومت قوم اور پارلیمنٹ کو گمراہ (mislead) کر رہی تھی؟ قوم اور پارلیمنٹ کے ساتھ یہ دھوکا دہی غداری (high treason) کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کی جواب دہی کون کرے گا؟
۳- امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان کی سرزمین پر سرگرمی اور امریکی سفارت کاروں کا کردار بھی قومی سلامتی کو متاثر کرنے والے اہم امور میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں بلاتحقیق ویزے جاری کیے جانا اور اس حوالے سے واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے اور دبئی میں پاکستان کے سفارت خانے کا کردار بھی ایسا نہیں جسے قومی جواب دہی کے سلسلے میں نظرانداز کیا جاسکے۔
۴- امریکا نے افغانستان میں تو جو کچھ کیا، وہ سب کے سامنے ہے اور ہمارا کردار اس میں بالواسطہ ہے جس نے افغان عوام کو ہم سے بدگمان کیا اور افغانستان پر امریکی قبضے کا مقابلہ کرنے والے تمام عناصر کو ہمارا بھی دشمن بنا دیا، حالانکہ سارے اختلافات اور مختلف پاکستانی قیادتوں کی کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں کے باوجود، افغان عوام بحیثیت مجموعی پاکستان کے بہترین دوست تھے۔ ان مواقع پر بھی جب ہمارے تعلقات افغان حکومت سے کشیدہ تھے۔ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغان حکومت نے واضح طور پر یقین دلایا کہ آپ اپنی ساری توجہ بھارت کی سرحد پر رکھیں، افغان سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا، اور اپنے اس قول پر وہ پکے رہے۔ لیکن مشرف کے زمانے میں جو کردار ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کا رہا اور جس کا تسلسل زرداری گیلانی دور میں باقی رہا، اس نے دوستوں کو دشمن بنا دیا اور جنھیں ’بنیاد پرست‘ سمجھ رہے تھے وہ دشمنوں سے بھی بدتر نکلے۔ اس ہمالیہ جیسی غلطی کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر بھی اتنی ہی ہے جتنی مشرف حکومت پر تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ اسے تبدیلی کا جو موقع ملا تھا، اس نے اسے ضائع کر دیا اور جو دبائو نائن الیون کے معاً بعد تھا اس دبائو کے کم ہوجانے کے باوجود ملک کی آزادی، خودمختاری، سلامتی، عزت اور وقار کی حفاظت کے لیے اس نے کچھ نہ کیا۔ اور جو تحقیروتذلیل پہلے دن ہورہی تھی یا بہت کم تھی وہ اب سکہ رائج الوقت بن گئی۔
۵- قوم کے علم میں اب یہ بھی آجانا چاہیے کہ مشرف دور میں اور اس کے بعد موجودہ دور میں کوئی کوشش کسی بھی سطح پر ایسی نہیں ہوئی کہ امریکا کو جو جو مراعات اور سہولتیں آنکھیں بند کرکے دے دی گئی تھیں، اور جن کی وجہ سے ملک معاشی، سیاسی اور تہذیبی، ہراعتبار سے تباہی کا شکار تھا ان کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے، بلکہ جن دو معاہدات کا ذکر ہم نے اُوپر کیا ہے خود ان پر امریکا اور ایساف سے جو ٹیکس اور خدمات کا معاوضہ وصول کیا جاسکتا ہے اور جو سالانہ اربوں روپے میں ہوسکتا ہے، ان کے بارے میں کوئی کوشش کی جائے۔ امریکا ہر ٹرک اور کنٹینر پر جو وسط ایشیا کے ذریعے افغانستان پہنچاتا تھا آٹھ سے دس ہزار ڈالر خرچ کر رہا تھا، جب کہ پاکستان میں اس کا خرچ صرف ۲۵۰ ڈالر فی کنٹینر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ رقم سرکاری، نیم فوجی اور دوسرے مفاد پرست عناصر وصول کر رہے تھے لیکن ملک کے خزانے کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہماری نگاہ میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے نام پر افغانستان پر قبضے کے اس شرم ناک کھیل میں کسی بھی شکل میں تعاون کوئی جائزعمل نہیں تھا لیکن جو اس کھیل میں شریک تھے اور رہے ہیں، ان کی عقل کو کیا ہوگیا تھا کہ ع قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند!
معاشی امداد کی بھیک مانگتے رہے اور ان ’خدمات‘ کا کوئی معاوضہ وصول نہ کیا۔ ان کی جنگ میں شرکت پر اپنے غریب عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر (تقریباً ۱۳۵؍ارب روپے سالانہ) خرچ کرتے رہے جس کی ادایگی امریکا بڑی ردوکد اور کٹوتیوں کے بعد سال دوسال کے بعد کرتا رہا اور یہ اپنے پروفیشنلزم پر بغلیں بجاتے رہے___مشرف اور زرداری و گیلانی اور کیانی کسی کو نظر نہ آیا کہ ع ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا!
۶- وزیردفاع احمدمختار صاحب نے ایک شام خاموشی سے یہ اعلان بھی فرمایا: امریکا اور ناٹو کی رسد رسانی پر پابندی صرف زمینی راستے سے ہے، فضائی راستے سے کبھی پابندی نہیں لگائی گئی حالانکہ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے اعلان کے مطابق پابندی کلّی تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے بھی کبھی یہ بات نہیں آئی کہ فضائی راستے سے رسد جاری ہے، بلکہ کمیٹی کی اولین سفارشات میں یہ شامل تھا کہ: ’’پاکستان کے کسی اڈے یا فضائی حدود کے غیرملکی فوجوں کے استعمال کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری کی ضرورت ہوگی‘‘۔
وزارتِ دفاع نے کمیٹی کو کبھی اس امر سے آگاہ نہیں کیا کہ فضائی حدود کا استعمال ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلامتی کمیٹی کی ان ترمیم شدہ سفارشات میں سے جو ۱۲؍اپریل ۲۰۱۲ء کو منظور ہوئی ہیں، یہ جملہ نکال دیا گیا ہے۔
کم از کم یہ چھے اُمور ایسے ہیں جن پر موجودہ حکومت کو بھی قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کرنا ہوگی اور آیندہ انتخابات میں قوم ان سے پوچھے گی کہ مشرف نے تو جو کیا، وہ کیا___یہ بتائیں کہ خود آپ کا ریکارڈ کیا ہے؟
حکومت کی کارکردگی کا جائزہ نامکمل رہے گا اگر اس حقیقت کو واشگاف نہ کیا جائے کہ، گو امریکا کا رویہ شروع ہی سے جارحانہ، جانب دارانہ ، مغرورانہ اور پاکستان کے لیے حقارت پر مبنی تھا، مگر زرداری گیلانی دور میں ان چاروں پہلوئوں میں اضافہ ہوا، اور یہ حکومت، پاکستان کے مفادات اور عزت و وقار کی حفاظت میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ صرف چند تازہ معاملات ان پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے اور ریکارڈ کی درستی کے لیے پیش کیے جاتے ہیں:
۱- امریکا کا رویہ یک رُخا (unilateral) رہا ہے اور ہماری قیادت پاکستان کے مفادات، ترجیحات اور تحفظات کسی کے بارے میں بھی کوئی گنجایش (space) حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت سے جس طرح امریکا نے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ قائم کی، اسے نیوکلیر سہولت فراہم کرنے کا راستہ اختیار کیا، کشمیر کے مسئلے پر اوباما نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ وعید کرنے کے باوجود سارا وزن بھارت کی تائید کے پلڑے میں ڈال دیا، پانی کے مسئلے کو جس طرح نظرانداز کیا اور ممبئی کے واقعے کو بنیاد بناکر جو جو دبائو پاکستان پر ڈالا، وہ بڑی الم ناک داستان ہے۔ اس کا آخری وار وہ بیان ہے جو ہیلری کلنٹن نے کولکتہ میں حافظ محمدسعید کے سر کی قیمت ۱۰ ملین ڈالر کی شکل میں رکھ کر کیا ۔ پھر ہمیں طعنہ بھی دیا کہ ایمن ظواہری پاکستان میں ہے اور ہماری قیادت کا حال یہ رہا ہے کہ ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم!
ریمنڈ ڈیوس کو امریکا چھڑا کر لے گیا اور جان کیری نے سب کے سامنے کھلا وعدہ کیا کہ امریکا خود اس پر مقدمہ چلا کر انصاف کا تقاضا پورا کرے گا، دونوں باتیںکس طرح ہوا میں تحلیل ہوئیں اور یہ باتیں ہر سچے پاکستانی کے دل پر نقش ہیں جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ کیری لوگر بل میں جو جو پابندیاں پاکستان اور اس کی افواج پر لگائی گئی ہیں، وہ شرم ناک داستان ہے لیکن اس حکومت نے ان سب پر آمنا وصدقنا کی روش اختیار کی۔ ڈرون حملوںمیں پاکستان کے ہراحتجاج اور پارلیمنٹ کی ہرقرارداد کے بعد اضافے ہوئے، اور بالآخر جنوری ۲۰۱۲ء میں صدراوباما نے پہلی بار ان کی ذمہ داری قبول کی اور وہائٹ ہائوس کے ایڈوائزر جان برینن نے پوری ڈھٹائی سے ووڈرو ولسن سنٹر فار اسکالرز میں ایک خطاب میں ان کا دفاع کیا اور فرمایا کہ: ’’وہ قانونی، اخلاقی اور دانش مندانہ اقدام ہیں‘‘۔ حالانکہ بین الاقوامی قانون کے درجنوں ماہر صاف الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون، جنگی روایات، حتیٰ کہ خود امریکی دستور اور قانون کے خلاف ہیں۔ تازہ ترین اعلان ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۵۰ ویں سالانہ رپورٹ میں پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے مسلسل کیے جانے والے ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کہا ہے۔ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کے قتل کے لیے مہلک جنگی قوت کے استعمال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: ’’امریکی حکومت کی جانب سے کسی مزید وضاحت نہ ہونے کی صورت میں، اسامہ بن لادن کا قتل بظاہر غیرقانونی تھا‘‘۔
ایمنسٹی نے امریکا کے اس دعوے کی کھل کر نفی کی ہے کہ وہ ’عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر انسانی حقوق کے تحفظ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا حق رکھتا ہے۔
امریکا جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ ڈرون حملے کر رہا ہے اور اس کا جس بے بسی سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نظارہ کر رہی ہے، وہ ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر ہی کاری ضرب نہیں بلکہ ملک و قوم کی کھلی کھلی تذلیل و تحقیر بھی ہے۔
امریکا کے سیکرٹری دفاع لیون پانیٹا نے پاکستان کے سارے احتجاج، پاکستانی قوم میں امریکا مخالف جذبات کے سارے طوفان کو نظرانداز کرتے ہوئے، اور عالمی راے عامہ اور ماہرین قانون کی آرا کو حقارت کے ساتھ رد کرتے ہوئے ۶مئی ۲۰۱۲ء کو اعلان کیا ہے کہ: ’’امریکا جنگ جوئوں کی پناہ گاہوں پر ڈرون حملے جاری رکھے گا خواہ ملک کی حکومت ان کی مخالفت کرتی رہے‘‘۔
یہ رعونت اور یہ کھلی دھونس اس کے باوجود ہے کہ ۸۰۰سے زیادہ ڈرون حملوں اور ۳ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کے اتلاف کے باوجود، نہ اُن کی تعداد میں کوئی کمی ہوئی ہے جن کو ’دہشت گرد‘ کہا جارہا ہے، اور نہ کسی بھی محاذ پر امریکا کو فوجی یا سیاسی کامیابی (باقی: ص ۱۰۰)