سورج نصف النہار پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلچلاتی دھوپ میں گھر سے نکلے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاں پہنچے۔ انھوں نے دور سے آپؐ کو دیکھ کر کہا: ’’اس وقت آمد؟___ ضرور کوئی اہم بات ہے‘‘، اور پھر آگے بڑھ کر استقبال کرتے ہوئے اپنی چارپائی پر لابٹھایا۔ آپؐ نے کوئی بات کہنے سے پہلے فرمایا: ’’گھر میں کوئی اور ہے تو اسے رخصت کردیں‘‘۔ صدیق اکبر ؓ نے عرض کی ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ! اور تو کوئی نہیں، صرف میری دونوں صاحبزادیاں (حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہما) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے اہم ترین اطلاع دیتے ہوئے بتایا:اِنَّہٗ قَدْ أذِنَ لِی فِيْ الْخُرْوجِ وَ الْہِجْرَۃ، ’’مجھے یہاں سے نکلنے اور ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے‘‘۔ صدیق اکبرؓ نے کوئی بھی مزید تفصیل پوچھنے کے بجاے فوراً عرض کیا: اَلصُّحْبَۃُ یَارَسُولَ اللّٰہ؟،’’یا رسول اللہ رفاقت؟‘‘ آپ نے فرمایا:اَلصُّحْبَۃ، ’’ہاں رفاقت‘‘۔ مژدہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ بے اختیار رو دیے۔ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ’’اس سے پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کوئی شخص خوشی کی انتہا پر بھی روسکتا ہے۔ اس روز ابوبکرؓ کو خوشی سے روتے دیکھا تو یہ راز کھلا‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاں نثار صحابہ کو یثرب ہجرت کرجانے کا حکم دیا، تو حضرت ابوبکرؓ صدیق نے بھی حکم بجا لانے کی اجازت چاہی تھی۔ تب آپؐ نے فرمایا تھا: لَا تَعجَل، لَعَلَّ اللّہَ یَجعَلُ لَکَ صَاحِبا ’’جلدی نہ کریں، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے لیے رفیق سفر کا انتظام کردے‘‘۔ صدیق اکبرؓ نے فرمان نبویؐ سنتے ہی اپنے اور اپنے نامعلوم ساتھی کے سفر کی تیاری شروع کردی۔ دو اونٹنیاں خرید کر ان کی دیکھ بھال شروع کردی اور ممکنہ زاد راہ جمع کرنا شروع کردیا۔ چار ماہ کے انتظار کے بعد یہ موقع آیا تھااور اب کسی بھی لمحے سفر شروع ہوسکتا تھا۔ سفر بھی کیسا کہ جس میں ایک طرف محبوب ترین ہستی کی رفاقت نصیب تھی، تو دوسری طرف ہر قدم پر دشمن کا دھڑکا اور گرفتار یا قتل کیے جانے پر بیش قیمت انعام کے لالچ کا شکار ہونے والے افراد و قبائل تھے۔ مکہ ہی سے اس حال میں نکلے تھے کہ تقریبا تمام قبائل کے ماہر ترین شمشیر زن، تلواریں سونتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے سے لگے بیٹھے تھے کہ جیسے ہی باہر آئیں گے سب تلواریں اکٹھی لپکیں گی اور خدانخواستہ...
رات کی تاریکی گہری ہوگئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لٹا کر وَ جَعَلْنَا مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِھِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰھُمْ فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَo(’’ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے۔ ہم نے انھیں ڈھانک دیا ہے، انھیں اب کچھ نہیں سوجھتا‘‘۔ یٰسٓ ۳۶:۹)کی تلاوت کرتے ہوئے، تلواروں کے درمیان سے گزر کر صدیق اکبرؓ کے گھر پہنچ گئے۔ سفر کا ضروری سامان باندھا گیا اور دونوں مبارک ہستیاں گھر کے پچھواڑے سے نکل کر یثرب کی جانب والے راستے کی مخالف سمت میں واقع غار ثور کی طرف روانہ ہوگئیں۔ حکمت عملی یہ طے پائی تھی کہ تین روز تک اسی غار ثور میں قیام رہے گا، یہاں تک کہ پیچھا کرنے والے دشمن تھک ہار کر نامراد ہوجائیں۔
دوسری طرف جب دشمن کو معلوم ہوا کہ دروازے کی درزوں سے دکھائی دینے والے بستر پر دراز ہستی، محمد ابن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں، علی ابن طالب (کرم اللہ وجہہ) ہیں تو پاگل ہواُٹھے۔ چہار جانب ہرکارے جاسوس، ایلچی اور مسلح نوجوان دوڑادیے کہ ہر صورت یثرب جانے سے روکنا اور ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دینا ہے۔ کئی لوگ غار ثور کے دہانے تک بھی جاپہنچے۔ یارِغار نے بے قرار ہوکر سرگوشی کی: ’’یا رسولؐ اللہ! اگر دشمن کی نگاہ اپنے پاؤں کی جانب اُٹھ گئی تو وہ ہمیں دیکھ لیں گے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل یقین و سکون سے جواب دیا: مَا ظَنُّکَ یَااَبَابَکَر بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُہُمَا؟ ’’ابوبکر! ان دو کے بارے میں آپ کا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسری ذات خود اللہ تعالیٰ کی ہے؟‘‘ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا(التوبۃ۹: ۴۰) ’’پریشان نہ ہوں اللہ یقینا ہمارے ہمراہ ہے‘‘۔ دشمن کا دھیان غار کی طرف گیا بھی، لیکن غار کے منہ پر تنے مکڑی کے جالے کو دیکھ کر، خود ہی وہاں آپؐ کی موجودگی کے امکان کو رد کردیا، کہ اگر اس کے اندر کوئی گیا ہوتا تو یہ جالا نہ رہتا۔
سفرِ ھجرت اور حکمت عملی
اب غارِ ثور کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ کے قیمتی ترین تین روز شروع ہوتے ہیں۔ فداکار رفیق سفر نے غار کو صاف کیا اور دونوں قدسی نفوس اللہ سے مناجات، گذشتہ واقعات کے جائزے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں لگ گئے۔ آبادی سے دور اور مکہ کے پورے ماحول میں سخت اشتعال و کشیدگی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہتمام فرمایا تھا کہ خوراک بھی پہنچتی رہے، مکہ میں ہونے والی سازشوں اور مشرکین کی بھنّاہٹ کا حال بھی معلوم ہوتا رہے، دشمن کو ان تمام سرگرمیوں کی ہوا تک بھی نہ لگ پائے اور یثرب تک سفر کے انتظام و عمل درآمد میں بھی کوئی کسر نہ رہ جائے۔ ذرا یہ انتظامات ملاحظہ کیجیے:
حضرت اسماء بنت صدیق غار ثور میں طعام و غذا پہنچاتی تھیں۔
حضرت عبد اللہؓ بن ابی بکر دن بھر مشرکین مکہ کے درمیان رہتے۔ ہر اہم بات کو ذہن میں محفوظ کرلیتے اور پھر رات کی تاریکی چھاتے ہی غار میں پہنچ کر بلاکم و کاست پوری صورت حال سے مطلع کردیتے۔ رات وہیں قیام کرتے اور اگلی صبح منہ اندھیرے مکہ واپس آجاتے۔ دیکھنے والے سمجھتے، انھوں نے رات مکہ ہی میں قیام کیا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غلام عامر بن فہیرہ دن بھر بکریاں چراتے اور شام ہوتے ہی انھیں غار کے پاس لے جاتے۔ مسافرانِ ہجرت اپنی ضرورت کے مطابق دودھ حاصل کرلیتے، پھر جب عبد اللہ بن ابوبکرؓ صبح ہی صبح غار سے مکہ واپس لوٹتے تو عامر بن فہیرہ بھی کچھ دیر بعد ان کے پیچھے پیچھے اپنا ریوڑ ہانکتے ہوئے مکہ پہنچ جاتے۔ اس طرح ایک تو ان کے بارے میں بھی کفار مکہ کو معلوم نہ ہوپاتا کہ رات کہاں اور کن کی مہمان داری میں لگے رہے اور دوسرے ریوڑ گزرنے سے عبد اللہ بن ابوبکرؓ کے قدموں کے نشان بھی چھپ جاتے، ورنہ صحرا نشین تو کسی ادنیٰ سے نشان کے ذریعے بھی ہدف تک پہنچ سکتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یثرب جانے والے معروف راستے کے بجاے بالکل ایک سنسان و اجنبی علاقے سے جانے کا فیصلہ کیا اور راستے کی نشان دہی کے لیے اس پورے علاقے کو اپنی ہتھیلی کی طرح جاننے والے ایک بدو کی خدمات حاصل کیں۔ عبد اللہ بن أریقط نامی یہ شخص اگرچہ مشرک تھا، لیکن قابل اعتماد تھا۔ آپؐ سے ہونے والے معاہدے کی پوری پوری پابندی کرنے والا اور آپؐ کے راز کی حفاظت کرنے والا تھا۔ صدیق اکبرؓ جن دو اونٹنیوں کی پرورش کررہے تھے، وہ اسے سونپ دی گئیں اور طے پایا کہ تین روز بعد وہ انھیں لے کر جبل ثور کے قریب پہنچ جائے گا۔
یثرب، مکہ کے شمال، جب کہ جبل ثور، مکہ کے جنوب میں یمن کی جانب واقع ہے۔ ۷۲۸میٹر بلند اس پہاڑ کی چڑھائی بہت دشوار ہے۔ اب تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے غار ثور تک پہنچنے کے لیے کئی پتھروں کو کسی نہ کسی طور زینوں کی صورت دے لی ہے، پہلے یہ بھی نہیں تھے۔ اب بھی راستہ اتنا دشوار گزار ہے کہ چڑھنے کی کوشش میں کئی جانوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ پہاڑ پر کسی طور چڑھ بھی جائیں تو غار میں داخل ہونا ایک مشکل کام ہے۔ ’’غار‘‘ کے لفظ سے اگر کسی کمرہ نما جگہ کا تصور آتا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ بس پتھروں کے مابین تھوڑی سی جگہ ہے اور اوپر ٹکی ایک بہت بڑی چٹان چھت بن گئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دشوار ترین جگہ کا انتخاب کیا تاکہ کسی کا دھیان ہی اس طرف نہ جائے۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ایک اور اہم سفر کا حال دیکھیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’عام الحزن‘ (یعنی اُم المومنین حضرت خدیجہؓ اور چچا ابوطالب کے انتقال کا سال)کے صدموں اور اہل طائف کی جفا سے دل گیر ہیں۔ رب کائنات اپنے حبیب کی دل جوئی اور تکریم کے لیے جبریل امین ؑ کو براق دے کر بھیجتے ہیں۔ رحمۃ للعالمینؐ کو چشم زدن میں مکہ سے بیت المقدس لے جایا جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاے کرام ؑکو جمع کرتے ہوئے آپؐ کی امامت کا اعلان کیا جاتا ہے، پھر براق آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں کہ اس کا ایک ایک قدم یوں فاصلے طے کرتا تھا کہ تاحد نگاہ دکھائی دینے والے افلاک سمٹتے چلے جاتے تھے۔ ہرآسمان پر آپؐ کے لیے علم کے نئے ابواب وا کیے جاتے ہیں۔ جنت، دوزخ کے کئی مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ خالق کائنات سے راز و نیاز ہوتے ہیں اور پھر بسلامت مسجد اقصیٰ سے ہوتے ہوئے مکہ واپس تشریف لاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسراء و معراج کا سفر کہ جس کی مسافت کا اندازہ تک بھی نہیں کیا جاسکتا، اور جس میں کوئی دشمن جان کے درپے نہ تھا، وہ سارا سفر و مشاہدہ تو پل جھپکنے میں طے کروادیا گیا، لیکن سفر ہجرت میں جہاں قدم قدم پر خطرات منہ کھولے کھڑے تھے، اپنے حبیب بندے کو وہ تمام تدابیر اختیار کرنے کے لیے کہا گیا جو کسی بھی زیرک و بیدار ذہن اور جفاکش انسان کے بس میں ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالی یہاں بھی کوئی براق بھیج کر پلک جھپکنے میں آپؐ کو مسجد حرام سے یثرب پہنچا دیتا۔ سیرت طیبہ کے خوشہ چین لکھتے ہیں کہ اسراء و معراج میں مقصود اپنے نبی کی تکریم، پے درپے صدموں اور طائف کے زخموں پر ان کی دل جوئی اور اہل دنیا کو آپؐ کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرنا تھا۔ یہ اعلان کرنا تھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت نے تمام گذشتہ شرائع کی جگہ لے لی ہے، جب کہ سفر ہجرت میں مقصود، دنیا کے سامنے ایک بہترین قائد و رہنما اور داعی و کارکن کا بہترین اسوہ پیش کرنا تھا۔ نبوت و رسالت کی نشانیاں بھی قدم بہ قدم ساتھ رہیں۔ تلواریں سونتے سورماؤں کے درمیان سے نکال لے جانا، غار کے منہ پر مکڑی کا جالا اور کبوتر کا گھونسلہ بننا، اُم معبد کے خیمے میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی بکری کو تازگی و برکت عطا کرنا ، سراقہ بن جعثم کے تیز رفتار گھوڑے کا دھنس جانا، معجزات نبویؐ ہی کا تسلسل تھا۔ لیکن اُمت کو تعلیم دینا تھی کہ کارِ دعوت اور اسلامی ریاست کی تشکیل کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے، تمھیں ہر وہ کوشش کرنا ہوگی جو کسی انسان کے بس میں ہوسکتی ہے۔ معجزات اور مافوق الفطرت اُمور کا انجام پانا انسانوں کے اصول نہیں، رب ذو الجلال کی عطا ہے۔ انسان کے لیے سنت الٰہی یہ ہے کہ جو فرد یا قوم بھی اسباب فراہم کرے گی وہ اس کے نتائج حاصل کرے گی۔ ہاں، اگر عمل کی بنیاد ایمان پر رکھی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی شامل ہوجائے گی۔
ھجرت کے سبق
آیئے اب اس تناظر میں پورے سفر کا ازسرِنو مطالعہ کرتے ہوئے جائزہ لیتے ہیں کہ ہجرتِ نبویؐ سے ہمیں کیا کیا اسباق ملتے ہیں:
راز کی حفاظت: پہلے آپؐ ہمیشہ صبح یا شام کے وقت صدیق اکبرؓ کے ہاں تشریف لے جاتے تھے، آج ایسے وقت میں آئے کہ جب سب راستے سنسان تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ نے چہرہ لپیٹا ہوا تھا کہ کوئی دیکھ بھی لے تو پہچان نہ پائے۔ گھر کے اندر پہنچ کر جب تک تسلی نہ کرلی کہ کوئی اجنبی نہیں ہے، بات شروع نہ کی۔
احتیاط اور دشمن کو اُلجہن میں ڈالنا: سفر شروع ہونے کی گھڑی آئی تو رات کی تاریکی گہری ہونے کا انتظار کیا۔ علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر لٹا دیا، شب بھر قاتل شمشیریں لیے گھر کے باہر منتظر اور اسی غلط فہمی میں رہیں کہ آپؐ ابھی گھر کے اندر ہی ہیں۔ صدیق اکبرؓ کے گھر پہنچ کر انھیں ساتھ لیا اور ان کے گھر کے سامنے سے نہیں پچھواڑے سے باہر نکلے۔ پھر اپنا رُخ بھی یثرب کی جانب نہیں کیا، مخالف سمت میں تشریف لے گئے۔
امانت کی حفاظت: اس کڑے وقت میں بھی دشمن کی امانتیں انھیں واپس لوٹانے کا اہتمام کیا۔ علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اس اہم ذمہ داری کے امین ٹھیرے۔
صبر کا دامن ھاتھ سے نہ چہوڑنا: خون کا پیاسا دشمن تلواریں سونتے کھڑا تھا، پھر غار کے دھانے پر پہنچ گیا، انعام کے لالچ میں تیزرفتار گھڑسوار سر پر پہنچ گیا، لیکن آپؐ کسی خوف کا شکار ہوئے بغیر مکمل اعتماد و بھروسے کے ساتھ فیصلے کرتے رہے اور ساری توجہ اپنے مقصد پر رکھی۔ اندرونی یا بیرونی دھمکیوں سے مرعوب ہوکر شکستہ اعصاب ہوجانا اور خود ہی دشمن کے مقاصد پورے کرنے میں لگ جانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ نہیں ہے۔ فرد، تحریک یا قوم میں سے جو بھی اس راہ پر چلتا ہے تباہ ہوجاتا ہے۔
دشمن سے باخبر رھنا اور اپنے راز کی ھوا تک نہ لگنے دینا:عبداللہ ابن ابوبکرؓ جیسا معاملہ فہم، امین اور مکمل ذمہ داری سے فرائض انجام دینے والا ساتھی، دن بھر مکہ کی مجالس میں شریک ہوتا اور رات کے وقت ہر اہم بات کمی بیشی کے بغیر بارگاہِ رسالتؐ میں پیش کر دیتا۔ اگر معاملہ اس حکمت ِ نبوی کے برعکس ہو، خود بھی دشمن کے لیے جاسوسی کرنا اور اسے بھی جاسوسی کے لیے اپنے نیٹ ورک بنانے کی کھلی چھٹی دے دینا پالیسی ٹھیرے، تو یقینا ہلاکت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
غیرمسلم کی خدمات سے استفادے کی حدود:کسی مخصوص شعبے میں مہارت رکھنے والے غیرمسلم کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے بشرطیکہ ایسی مہارت و صلاحیت رکھنے والا کوئی مسلمان دستیاب نہ ہو۔ پھر جس کی خدمات حاصل کی جائیں وہ قابلِ اعتماد اور معاہدے کی پاس داری کرنے والا ہو۔ وہ نہ خود دشمن ہو، نہ دشمن کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ وہ تابع رہے اور اپنے کام سے کام رکھے ، اور آقا نہ بن بیٹھے۔
بیانات اور الفاظ کے چناؤ میں احتیاط: دورانِ سفر ایک شخص ملتا ہے اور صدیق اکبرؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کرتا ہے یہ کون ہیں؟ آپ جواب دیتے ہیں: ھَادٍ یَھْدِیْنِی، ’’رہنماہیں، میری رہنمائی کرتے ہیں‘‘ اور یہ کہہ کر قافلۂ نبوت آگے بڑھ گیا۔ ایک اور شخص ملتا ہے۔ آپؐ پہل کرتے ہوئے عرب روایات کے مطابق دریافت کرتے ہیں: مِمَّنْ، ’’کس قبیلے سے ہیں؟‘‘ وہ اپنا تعارف کروانے کے بعد پوچھتا ہے: آپ کس سے ہیں؟ آپ مختصر جواب دیتے ہیں:مِنْ مَاء ، ’’ہم پانی سے ہیں‘‘ مراد تھی کہ ہم سب پانی سے تخلیق کیے گئے ہیں۔ وہ سمجھا: ماء بھی کوئی قبیلہ ہے اور حیرانی سے دہرانے لگتا ہے: من مائ..؟ من مائ..؟ لیکن آپ تب تک اپنی سواری آگے بڑھا چکے تھے۔
فداکاری اور احساسِ ذمہ داری سے سرشار ھونا: حضرت ابوبکر صدیقؓ بخوبی جانتے تھے کہ تمام سردارانِ قریش اور کفارِ مکہ آپؐ کی جان کے درپے ہیں، اس کڑے وقت میں بھی ایک لمحے کے لیے یہ سوچ نہیں آئی کہ اپنی جان بچانے کے لیے آپؐ کو تنہا چھوڑ دوں۔ جیسے ہی کان میں یہ الفاظ پڑے کہ ’’ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے‘‘ فوراً پکارے: اَلصُّحْبَۃُ یَارَسُولَ اللّٰہ!’’آپؐ کی رفاقت یارسولؐ اللہ!‘‘۔ جاتے ہوئے گھر میں جو جمع پونجی تھی وہ ساتھ لے لی۔ آپؓ کے والد ابوقحافہ جو اُس وقت تک نعمت ِ اسلام سے محروم تھے، آپ کے جانے کے بعد ناراض ہوکر اپنی پوتیوں کو غصے سے کہنے لگے: ’’تمھارے باپ نے خود بھی تمھیں چھوڑ دیا اور سارا مال بھی ساتھ لے گیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا چند پتھر ایک روزن میں رکھ کر ان پر کپڑا ڈال دیتی ہیں اور کہتی ہیں: نہیں دادا ہمارے والد صاحب تو ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے اپنے نابینا دادا کا ہاتھ پکڑ کر اس کپڑے کے اُوپر رکھ دیتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں سونے کی ڈلیاں ہیں، ہاتھ سے چھوتے اور مطمئن ہوتے ہوئے کہتے ہیں: اچھا! اگر یہ سب کچھ ہے تو پھر کوئی بات نہیں۔ یثرب کی طرف سفر شروع ہوتا ہے تو ابوبکر صدیقؓ کبھی آپؐ کے آگے چلتے ہیں کبھی پیچھے چلنے لگتے ہیں اور کبھی دائیں یا بائیں۔ آپؐ سبب دریافت کرتے ہیں تو عرض کرتے ہیں: یارسولؐ اللہ! گھات لگاکر بیٹھے کسی دشمن کا خیال آتا ہے تو آگے آجاتا ہوں، پیچھا کرنے والے کسی شاہسوار کا سوچتا ہوں تو پیچھے آجاتا ہوں۔ دائیں یا بائیں سے حملے کا خدشہ دل میں آتا ہے تو دائیں یا بائیں آجاتا ہوں۔
اھل خانہ کو شریک کار کرنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عم زاد حضرت علیؓ بن ابی طالب کو اپنے پورے منصوبے میں شریک کرتے ہوئے اپنے بستر پر سُلایااور امانتوں کا ذمہ دار بنایا۔ اہلِ خانہ کو شریکِ راز کرتے ہوئے انھیں خداحافظ کہا۔ صدیق اکبرؓ نے صاحب زادے، دونوں صاحب زادیوں اور غلام کو بھی شریکِ مقصد کیا اور سب نے اپنا اپنا فرض ادا کیا۔
پُراُمید رھنا اور دوسروں کو پُراُمید رکہنا: لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، ہر کارکن اور ہرمسلمان کے لیے ہر حال میں اُمید کی مضبوط ترین بنیاد ہے۔ خون کا پیاسا سراقہ بن جعثم جب ایمان لے آیا تو آپؐ نے اس حالت مہاجرت و سفر میں اسے کسریٰ کے کنگنوں کی بشارت دی۔ نورِنبوت کی روشنی میں مستقبل کی اس حقیقت کا معلوم ہونا ایک بات ہے، لیکن صاحب ِ ایمان ساتھی کے دل میں اُمیدوں کے چراغ روشن کردینا ایک دوسری بات۔ جہاں دیدہ اور دُور اندیش قائد و رہنما اور ہرصاحب ِ ایمان کارکن کے لیے اس میں بڑی رہنمائی ہے۔
اصل مقصد کو ھر حال میں یاد رکہنا: یثرب کی جانب منزلوں پر منزلیںطے ہورہی تھیں کہ راستے میں اسلم قبیلے کے سردار بریدہ بن حارث الاسلمی قبیلے کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ ملے۔ اس پُرخطر سفر میں بھی آپؐ نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا۔ حضرت بریدۃ بن حارث الاسلمی نے بعدازاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ۱۶غزوات میں حصہ لیا۔ آپؐ کے اسلوبِ تربیت کے ضمن میں یہ متفق علیہ حدیث بھی بہت قیمتی رہنمائی کرتی ہے کہ قبیلۂ اسلم اور قبیلۂ بنی غِفار کے قبولِ اسلام پر آپؐ نے فرمایا: اَسْلَمْ سَالَمَھَا اللّٰہُ وَغِفَار غَفَراللّٰہَ لَھَا أَمَا اِنِّی لَمْ أقُلْھَا وَلٰکِنْ قَالَھَا اللّٰہ ،’’قبیلہ اسلم کو اللہ نے سلامتی عطا کی اور قبیلہ غِفار کو اللہ نے بخش دیا۔ یہ میں نے نہیں کہا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے‘‘۔ دل جوئی ، بشارت اور حوصلہ افزائی ساتھیوں کی ہمت دوچند کردیتی ہے۔
نظافت و صفائی کا اھتمام:جس عالم میں مکہ سے نکلے اور پھر جس طرح غار و صحرا کی منزلیں طے ہوئیں، اس کے نتیجے میں جسمِ اطہر اور لباس گرد میں اَٹ گئے تھے۔ مدینہ سے نسبتاً قریب پہنچے تو آپ کے ایک جاں نثار صحابی حضرت زبیر بن العوامؓ ملے، وہ شام سے اپنا تجارتی قافلہ لے کر واپس آرہے تھے۔ انھوں نے دونوں جلیل القدر شخصیات کی خدمت میں نیا سفید لباس پیش کیا جو دونوں نے زیب تن کرلیا۔ قافلہ یثرب پہنچا تو لوگوں نے دیکھا کہ سیکڑوں میل کے صحرائی سفر سے واپس تشریف لا رہے ہیں لیکن چہرہ و لباس گردوغبار سے پاک ہے۔
برابری اور مساوات:قباء پہنچے تو انصار جوق در جوق استقبال و زیارت کے لیے آنا شروع ہوگئے۔ اکثریت آپؐ کو پہلی بار دیکھ رہی تھی، اس لیے پہچانتی نہ تھی ۔ کئی ساتھی حضرت ابوبکرؓ ہی کو جو آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے، رسولِؐ خدا سمجھ رہے تھے۔اسی اثنا میں دھوپ کی حدت میں اضافہ ہوگیا، یارِ غار نے فوراً اپنی چادر لی اور آپؐ پر سایہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ تب نئے آنے والوں کو پہچان ہوسکی کہ دونوں معزز مہمانوں میں سے رسولؐ اللہ کون ہیں۔
بلند مقصد کی خاطر ھر شے قربان کر دینا: ہجرت کا اہم ترین سبق یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انسان کو اپنا گھربار، جان و مال، اہل و عیال اور قبیلہ و خاندان سمیت سب کچھ بھی چھوڑنا پڑے تو یہ نقصان نہیں، سعادت و شرف کی بات ہے۔ یہی ہجرت و قربانی یثرب کو مدینہ منورہ میں بدل دیتی ہے اور پھر مسلسل جدوجہد مدینہ منورہ کو تاریخ کی بہترین اسلامی ریاست میں تبدیل کردیتی ہے۔ جس مکہ سے ہجرت پر مجبور کیے گئے، نوبرس کی قلیل مدت کے بعد آپؐ کی طرف سے امیرحج بنا کر بھیجے گئے، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور ان کے ساتھی حضرت علی بن ابی طالبؓ میدانِ عرفات میں اعلان کر رہے تھے: ’’آج کے بعد قیامت تک کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا‘‘۔
جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) حق آگیا اورباطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔