سید غلام اکبر (۱۶ مارچ ۱۹۳۵ئ-۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ئ) ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ مختلف بیماریوں کے شکار ہونے کے باوجود اُن کی خوش مزاجی میں آخر وقت تک کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔شگفتہ مزاجی اُن کی شخصیت کا حصہ تھی۔ تعلیم اور پیشہ کے لحاظ سے مکینیکل اور الیکٹریکل انجینیر تھے ۔ حیدرآباد سے انجینئرنگ کی دو ڈگریاں حاصل کر نے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے روس گئے اور اینٹی کروزین انجینئرنگ میں تخصص کیا۔ روس میں تعلیم کے دوران روسی زبان کی بول چال میں اتنی مہارت حاصل کر لی، کہ اس لیاقت کی وجہ سے کلکتہ کی ایک بڑی کمپنی جس کے معاملات روس کی ایک کمپنی سے تھے، اس میں اُنھیں اچھی ملازمت ملی ۔ کلکتہ کے قیام کے دوران ہی وہ جماعت اسلامی سے زیادہ قریب ہوئے۔ یوں تو جماعت سے اُن کی قربت پہلے سے تھی اور اسی وجہ سے دفتر حلقہ مغربی بنگال شام کے اوقات میں اکثرجایا کرتے تھے اور اپنے مزاج کے مطابق وہاں کا ماحول گلزار بنا رہتا تھا۔ ایک شام اُس وقت کے امیر حلقہ عبدالفتاح مرحوم نے ان سے فرمایا: ’’ایسا لگتا ہے کہ آپ نے جماعت کا قریبی مطالعہ نہیں کیاہے۔ آپ یہاں مکتبے سے جماعت کی رودادیں خرید لیں اور اُن کامطالعہ کرلیں تو اچھا ہے‘‘۔ موصوف نے رودادیں حاصل کرلیں اور اُن کا مطالعہ کر ڈالا۔ اُن کے مطالعے اور تحریر و تقریر کی رفتاربہت تیز تھی۔ جس تیزی سے ان کا ذہن کام کرتا تھا اُسی تیزی سے وہ گفتگو کرتے تھے اور قدم بھی ویسے ہی تیز اُٹھاتے تھے۔
رودادجماعت کے مطالعے کے بعد ان کا تحریک سے رشتہ پختہ شعور کے ساتھ قائم ہوگیا۔ ۱۹۹۱ء میں جماعت کے رکن بن گئے۔ رودادجماعت کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ یہ اپنے قاری کے اندر تحریکی شعور اور اسپرٹ پیدا کر دیتی ہے۔ ا س کے مطالعے کے بغیر تحریکی شعور میں پختگی نہیں آتی اور نہ کام کی صحیح اسپرٹ کا رکن کے اندر پیدا ہو پاتی ہے۔ موصوف کو مطالعے کا شوق تھا۔ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ مختلف علوم و فنون پر جو بھی کتاب ملتی، اسے خریدتے بھی اورپڑھتے بھی۔ ان کا ذاتی دارالمطالعہ کئی الماریوں پر مشتمل تھا۔ دینی و تحریکی لٹریچر کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ قرآن کی تفاسیر ، سیرت پر مختلف مصنفین کی کتابیں اور احادیث کی مختلف کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کا لٹریچر جو بھی اردو و انگریزی زبان میں دستیاب تھا بالعموم ان کے مطالعے میںآچکا تھا، اور تقریباً تمام اسلامی تحریکوں کی اہم شخصیات سے بھی ملاقات او رتبادلۂ خیال کا اُنھیں شرف حاصل ہو اتھا۔ علمی موضوعات پر اہل علم اور اہم شخصیات کو بھی اُن سے تبادلۂ خیال کرنے میں خوشی ہوتی تھی۔ ان کے روابط ہندستان، پاکستان ،بنگلہ دیش، سری لنکا ، کشمیر ، ایران ، ترکی، سوڈان، ملایشیا، انڈونیشیا، عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک ، برطانیہ ، امریکا ، کنیڈا وغیرہ کے تحریکی افراد و ذمہ داران اور بعض دیگر اہم شخصیات اور بعض ممالک کے سربراہان سے بھی رہے ۔ لوگ ان سے گرچہ جماعتی رشتے سے متعارف ہوتے تھے لیکن اُنھیں شخصی طور سے بھی یاد رکھتے تھے۔
میٹھے کے بہت شوقین تھے۔ شوگر کے مریض ہونے کے باوجود مٹھائیوں کا بہت کثرت سے استعمال کرتے تھے اور اس میں بھی اُن کا اعلیٰ ذوق نمایاں تھا۔ عمدہ قسم کی کھجور اکثر استعمال میں رہتی تھی، خوب کھاتے تھے اور خوب کھلاتے تھے، بلکہ کھانے سے زیادہ کھلانے کا شوق تھا۔ جیب میں ہمیشہ عمدہ قسم کی ٹافیاں بھری رہتی تھیں اور راہ چلتے بچوں پر بھی اس کی عنایتیں ہوتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ ان کے پیر کے زخم نے جب خطرناک صورت اختیار کر لی تو ڈاکٹر نے کہاکہ اب میٹھا لازماً چھوڑنا پڑے گا ورنہ اگر دوا سے تین چار دنوں میں مزید یہ انفکشن نہ رکا توپیر کاٹنا پڑے گا۔ وہ اس احساس سے بہت مغموم نظر آئے کہ اپاہج ہو کر زندہ رہنا پڑے گالیکن چند ہی گھنٹوں میں وہ اس احساس سے باہر نکل آئے اور مٹھائی منھ میں رکھتے ہوئے خوش مزاجی سے فرمایا کہ پیر کٹنے سے زیادہ غم اس بات کا رہے گا کہ ایک پیر کی خاطر مٹھائی کی نعمت سے محروم ہو گیا اور یہ مجھے منظور نہیں۔ کہتے تھے میٹھے سے توبہ کرنے کے بجائے میٹھاکھا کر توبہ کی جائے تو بارگاہ الٰہی میں زیادہ مقبول عمل ہوگا اور جنت میں کھانے کے لیے میٹھا ہی ملے گا۔ اس لیے اس کی مشق نہیں چھوٹنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں شہد کی نہروں کے قریب رکھے اور من پسند میٹھے پھل عطا فرمائے۔ آمین!
شوگر کے مرض نے ان کے اعضاے رئیسہ کو بھی متاثر کر رکھا تھا، قلب و جگر کے ساتھ ساتھ گردہ بھی متاثر ہو گیا تھا۔ سوفی صد پیس میکر (pacemaker) پر تھے۔ اس کے باوجود دل کے آپریشن کرانے پڑے تھے اور ایک سے زیادہ مرتبہ ہارٹ اٹیک کے شکار ہو چکے تھے ۔اُن کا انتقال بھی ہارٹ اٹیک ہی کی وجہ سے ہوا ،گرچہ انھیں اسپتال میں گردہ کی ڈایلیسس کے لیے داخل کرنا پڑا تھا لیکن وہاں پہنچ کر اُن پر قلب کا جان لیوا حملہ ہوا۔ ۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون
کلکتہ کی ملازمت کے بعد موصوف نے بوکارو اسٹیل پلانٹ میں، جو اُس وقت ریاست بہار میں تھا اوراب جھارکھنڈ میں ہے، کئی سال ملازمت کی ۔اس کے بعد سعودی عرب تشریف لے گئے اور ریاض میں وزارتِ داخلہ میں ایک طویل عرصے تک بحیثیت انجینئر ملازمت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری سابق امیر جماعت اسلامی ہند کی قیادت میں، جب کہ وہ ریاض یونی ورسٹی میں استاد کے فرائض انجام دے رہے تھے، جماعتی رفقا کو منظم کرنے میں نمایاں کردار کیا۔ جب ڈاکٹر صاحب ہندستان واپس آگئے تو سعودی حلقے کی نظامت کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی ۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا جب سعودی حکومت کا رُخ جماعت کے لوگوں کے خلاف ہوگیا تو بعض دیگر رفقا کے ساتھ انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور قیدوبند کے اس مرحلے میں اُن کے رویے اورصاف گوئی سے تعینات افسر بہت متاثر رہا۔ چنانچہ وہ اُن سے برابر معافی طلب کرتا رہا اور حکومت کے احکام کی وجہ سے اپنی مجبوریوں کا اظہار کرتا رہا۔
جب سعودی حکومت نے انھیں ملک سے نکالنے کا حکم جاری کیا تو بہت ہی عزت و احترام کے ساتھ انھیں ہوائی جہاز تک پہنچایا۔ حکومت نے ان کی ملازمت کے سارے حقوق سلب کر لیے اور وہ تقریباً خالی ہاتھ اپنے وطن لوٹے اور اپنی خدمات مرکز جماعت کو پیش کر دیں، حالانکہ انھیں یہاں بعض کمپنیوں نے اچھی تنخواہ کی پیش کش کی لیکن انھوں نے اسے قبول نہیں کیااور بہت ہی قلیل اعزازیے پرسکریٹری تنظیم اور سکریٹری مالیات مرکز کے فرائض انجام دینے لگے۔ اس ذمہ داری پر تقریباً ۱۴ سال مامور رہے۔ شعبہ تنظیم اور شعبہ مالیات کے استحکام میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ اس دوران میں انھوں نے جماعت کی مالیات کے استحکام کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوں، بیماروں اور ہر طرح کے ضرور ت مندوں کے مسائل کو حل کرنے میں بڑی فکر مندی کا مظاہرہ کیا۔ جماعت کے معمولی کارکن سے لے کر بڑے سے بڑے ذمہ دار سے گہرا ذاتی تعلق رکھتے تھے اور سب کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لینا اور اُن کے کام آنا موصوف کا معمول تھا۔ ہر شخص ان سے اپنائیت کا احساس رکھتا تھا۔ اپنوں سے لے کر غیر تک ان سے امیدیں وابستہ رکھتے تھے اور کوئی مایوس ہو کر نہیںجاتا تھا۔ اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی جیب سے بھی ضرور ت مندوں کی مدد کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ لُٹنے اور لٹانے میں انھیں مزہ آتا تھا۔ حساب دانی میں بڑی مہارت تھی لیکن اپنے ذاتی پیسے بے حساب خرچ کرتے تھے ۔ ملک و بیرون ملک کی اونچی تنخواہوں والی ملازمت کے باوجود آخر تک اپنا کوئی مکان بنا سکے اور نہ کوئی قطعۂ زمین خریدا ، کرایے کے مکان سے ہی جنازہ اٹھا۔
سید غلام اکبر صاحب ہیومن ویلفیئر ٹرسٹ کے بھی سکریٹری تھے۔ اس ٹرسٹ کے تحت مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزکے فروغ کی بھی اُنھوں نے کامیاب کوشش کی۔ اس ٹرسٹ کے تحت قائم الشفاء اسپتال کی مینیجنگ کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے اور اسپتال کے قیام میں بھی اچھا کردار ادا کیا۔
موصوف کے لباس، وضع قطع اور دسترخوان کا معیار بھی بہت بلند تھا اور مہمان نوازی کا جذبہ بھی خوب تھا ۔ حیدرآباد میں رہتے اور کوئی وہاں پہنچتا اور جب وہ دہلی آتے اور کوئی یہاں آتا تو اس کی مہمان نوازی ضرور کرتے۔ ہم لوگ جب جماعت کے کام سے حیدرآباد جاتے اور شدید بیماری کی حالت میں ان کی عیادت کے لیے جاتے تو اُس وقت بھی بہ اصرار ایک وقت کے کھانے کی دعوت دیتے اور اس حالت میں بھی، جب کہ ان کے لیے بیٹھنا مشکل ہوتا خود بیٹھ کر پُرتکلف کھانا کھلانے سے باز نہ آتے تھے۔
اپنے ذاتی حالات اور معاملات و مسائل میں وہ بالکل بے فکر رہتے، لیکن جماعت کے معاملات و مسائل کی فکر ہر آن دامن گیر رہتی۔ بارہا جماعتی احوال پر گفتگو کرتے وقت انھیں آب دیدہ ہوتے دیکھا ہے ۔ذاتی معاملے میں انھیں صرف اُس وقت پریشان اور فکر مند دیکھا جب ڈاکٹر نے اُن کی اہلیہ محترمہ کو کینسر کے مرض کی تشخیص کی ،لیکن اس فکر مندی پر بھی انھوں نے جلد قابو پا لیا اور اُن کے علاج پر خصوصی توجہ دے کر الحمدللہ انھیں اس موذی مرض سے نجات دلائی۔ اُن کی بیوی بھی اُن کی بہترین رفیقۂ حیات ثابت ہوئیں۔ بہت ہی خاموش طبع اور خوش اخلاق اور شوہر کا ہرحال میں ساتھ دینے والی۔ بہت بڑے گھرانے سے آئی تھیں، محل نما مکان سے شوہر کے کرایے کے معمولی مکان میں آئیں اور پوری زندگی اسی حال میں گزار دی ۔دونوں بچے بھی ما شاء اللہ شاکر او رناصر اسم بامسمیٰ اور سعادت مند نکلے۔ تینوں بچیاں اور داماد بھی اُن سے بڑے بے تکلف اور اُن سے خوب پیار کرنے والے ملے ۔وہ بھی بیٹی داماد، پوتے پوتی، نواسی نواسے سب سے بہت بے تکلف رہتے تھے۔ ان سب سے اسی طرح ہنسی مذاق کرتے جیسے بے تکلف دوستوں سے کرتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ خلوت و جلوت ہر جگہ وہ باغ و بہار رہتے اور ماحول کو گلزار بنائے رہتے ۔ یقینا اُن کی یاد بہت دنوں تک ستاتی رہے گی اور انھیں بھولنا تو ممکن ہی نہیں۔
انسان کی خوبیاں اور خامیاں یا تو معاملات میں نمایاں ہوتی ہیں یا ہم سفری میں۔ معاملات کے تو الحمد للہ وہ صاف تھے ہی، کبھی کسی سے اُن پر کسی معاملے میں کوئی دعویٰ تو درکنار شکوہ بھی کرتے نہیں سنا گیا۔ کئی اسفار میں اُن کا ساتھ ہوا۔ ملک و بیرون ملک ہر جگہ سفر کے بہترین ساتھی ثابت ہوئے ۔ ہر وقت اپنے سفر کے ساتھی کا خیال اپنی ذات سے کہیں زیادہ رکھتے۔
اُن کے تعلقات اصحاب خیر سے خصوصاً بیرون ملک میں اچھے خاصے ہو گئے تھے، لیکن کبھی کسی سے کوئی ذاتی منفعت حاصل نہیں کی ۔ تحائف قبول کرنے میں بھی محتاط رہتے ۔ جماعتی وقار کا ہمیشہ خیال رہتا۔ جماعت کا تعارف ایسے احسن انداز میں کراتے کہ جماعت کی مالیات کے لیے لوگ پیش کش کرنے پر تیار ہو جاتے، لیکن ان کی طرف سے استغنا کا مظاہرہ ہوتا تھا، جس کی وجہ سے لوگ اُن کا بہت احترام کرتے تھے۔
کویت کی معروف صاحب ِخیر شخصیت شیخ عبداللہ علی المطوع مرحوم کو اُن کا غیر معمولی عقیدت مند پایا۔ لوگ ھیتہ الخیریہ کی میٹنگ میں شیخ مطوع سے ملنے کے لیے کوشاں تھے اور شیخ مطوع میٹنگ سے فارغ ہو کر شیخ اکبر شیخ اکبر پکارتے ہوئے سید غلام اکبر صاحب کے پیچھے دوڑتے نظر آئے۔شیخ مطوع کے انتقال کے بعد اُن کے صاحب زادے کا فون آیا کہ اُن کے والد نے اپنی ڈائری میںیہ لکھا ہے کہ خیر کے کاموں میں امداد کے سلسلے میں جو نام اُن کی ڈائری میں نہ ملیں ان افراد یا اداروں سے کیا اور کتنا تعاون کیا جائے، اس کے لیے مشورے میں سید غلام اکبر صاحب سے بھی رجوع کرو، چنانچہ بہ ا صرار انھیں کویت بلایا اور اُن سے مشورے کیے۔
موصوف بہت ہی خو ش خط اور خوش کلام تھے۔ بڑی مؤثر اور پوری تیاری کے ساتھ تقریر کرتے تھے۔ تقریر میں دلائل اور جذبات دونوں کا حسین امتزاج ہوتا تھا۔ تربیتی تقریر میں اکثر اُن پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور سامعین بھی آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ گجرات کے فساد کے بعد جب ہم لوگوںکا امریکا کا سفر ہوا، تو ہم جہاں کہیں بھی گئے اُن کی تقریر خواہ اُردو میں ہو یا انگریزی میں یکساں طور پر سامعین ان سے متاثر ہوتے اور اُن کی پیش کش کے انداز سے اس قدر متاثر ہوتے کہ بغیر کسی اپیل کے بڑھ بڑھ کر ریلیف کے لیے رقوم پیش کرتے ۔
حفظ مراتب کا بڑا خیال رکھتے ۔ عمر میں بہت بڑے ہونے کے باوجود اتنے احترام اور محبت سے پیش آتے کہ شرمندگی ہوتی۔ اُن کی وضع داری اور انکسار میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی۔ جب انسان زیادہ قریب ہوتا ہے اور بے تکلفی بڑھ جاتی ہے تو انسان کے کمزور پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ انسان خطا و نسیان کا پتلا ہے۔ جب کوئی اُن کی کسی کمزوری کی نشان دہی کرتا تو بڑی خندہ پیشانی سے اُس کا اعتراف کرتے اور کھلے دل سے اظہار معذرت کرتے۔ اُن کی یہ ادا بہت پسند آتی۔
یقینا ہماری طرح اُن کے اندر بھی کمزوریاں تھیں لیکن میرا خیال ہے کہ اگر جائزہ لیاجائے تو اُن کی کمزوریوں پر اُن کی خوبیاں بہت بھاری تھیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور بھلائیوں کا پلڑا بھاری رکھے۔ اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے،اعلیٰ علیین اور جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ آمین!جس وقت نماز جنازہ ہو رہی تھی، اُن کی میت ایک درخت کے سایے میں رکھی تھی اور درخت پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ بار بار خیال آرہا تھا اللہ تعالیٰ نے گویاانھیں بھی موصوف کے حق میں تسبیح و مناجات کی ہدایت فرمادی ہے۔ نماز جنازہ اُن کے بڑے لڑکے شاکر سلمہٗ نے پڑھائی جو انجینئر بھی ہیں اور حافظ قرآن بھی ۔ موصوف کے دونوں ہی بیٹے رکن جماعت ہیں۔ موصوف گرچہ دنیا سے خالی ہاتھ گئے لیکن سرمایۂ آخرت صالح اولاد کی شکل میںچھوڑ گئے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ صدقۂ جاریہ ثابت ہوں گے اور اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا ہی خوش نصیب بنائے۔ آمین!
مضمون نگار نائب امیر جماعت اسلامی ہند ہیں