سوال: میں کافی عرصے سے شرق اوسط میں مقیم ہوں۔ جدہ (سعودیہ) اور دوحہ (قطر) میں بھی رہنے کا موقع ملا۔ تحریک کے ساتھ وابستگی کے باوجود حصولِ علم کے لیے مقامی خواتین کے مراکز اور مساجد میں جانے کا موقع ملتا رہا۔ یہاں پر کوئی مسجد ایسی نہیں دیکھی جہاں خواتین کے لیے نماز کی جگہ موجود نہ ہو۔ رمضان المبارک اور جمعۃ المبارک کے موقع پر خواتین کی کثیر تعداد مسجد آتی ہے۔ میں نے عرب خواتین کو دورانِ نماز اپنے پائوں مکمل طور پر چھپائے ہوئے دیکھا ہے، اور عرب مُدرسات کے بقول عورت کے پائوں ستر میں شامل ہیں۔ حالت ِ نماز میں ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ پورا جسم، حتیٰ کہ پائوں بھی ڈھکے ہونے چاہییں۔ اس سلسلے میں وہ حدیث سے حوالہ بھی دیتی ہیں۔ دوسری طرف برعظیم پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی خواتین کی اکثریت کھلے پائوں سے نماز پڑھتی ہے، بلکہ وہ اس مسئلے سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ میں نے کچھ علما سے رابطہ کیا تو اُن کی راے کے مطابق باقی تینوں فقہوں کے برعکس فقہ حنفی میں عورت کے پائوں ستر میں شامل نہیں ہوتے۔ جب اُن سے حدیث کا حوالہ مانگا گیا تو انھوں نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا۔
اس بارے میں رہنمائی دیجیے کہ نماز کے دوران عورت کے جسم پر پہنا ہوا لباس اُوپر کی چادر سے کتنا ڈھکا ہوا ہونا چاہیے، جب کہ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین کا لباس بہت باریک اور چست ہوتا ہے، اور ایک دوپٹے سے سر اور سینے کا صرف کچھ حصہ ڈھکاہوتا ہے۔ کبھی تو وہ دوپٹہ بھی بہت باریک ہوتا ہے اور قمیص کے آستین بھی پورے بازو کو ہاتھ تک ڈھانپ نہیں رہے ہوتے۔ عرب خواتین اپنے لباس کے اُوپر عبایہ، یا اتنی بڑی چادر اُوڑھتی ہیں کہ اُن کے ہاتھ اور چہرے کے علاوہ پورا لباس چھپ جاتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ میں نے عرب خواتین کو بالکل اسی طرح سجدہ کرتے دیکھا ہے جس طرح مرد حضرات اُونچا سجدہ کرتے ہیں، جب کہ اُن کا جسم پوری طرح ڈھکا ہوتا ہے اور کہیں سے بھی چادر کے کھلنے یا سرکنے کا احتمال نہیں ہوتا۔ فقہ حنفی کی کچھ کتابوں میں عورت کے سجدے کی کیفیت مختلف لکھی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر خواتین اپنے پیٹ کو زانوں سے ملا کر اور بچھ کر سجدہ کرتی ہیں اور قعدہ کے دوران اپنے پائوں دائیں طرف نکال کر زمین پر بیٹھتی ہیں۔ اکثر اوقات دایاں پائوں ٹخنے سمیت ننگا ہو رہا ہوتا ہے۔ کیا کوئی ایسی حدیث موجود ہے جس میں عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی کیفیت سے مختلف بیان کی گئی ہو، جب کہ یہاں پر دروس میں بار بار یہ حدیث سنائی جاتی ہے کہ صَلُّو کَمَا رَأَیتُمُونِی أَصَلِّی ، نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھو۔
جواب: ۱- نماز میں عورت کے لیے پاؤں مکمل طور پر چھپانا حنبلی فقہا کے نزدیک تو ضروری ہے، مگر دیگر فقہا اس کے قائل نہیں۔ خود ایک بڑے حنبلی فقیہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (جن کی آرا کو سعودی عرب میں بہت اہمیت دی جاتی ہے) بھی اس کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک عورت کے لیے پاؤں چھپانا ضروری نہیں، ورنہ ان کے بقول رسولؐ اللہ عورت کو دورانِ نماز جرابیں یا موزے پہننے کا حکم دیتے۔ حنبلی فقہا نے استدلال میں جو احادیث پیش کی ہیں وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں جن سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔
۲- دورانِ نماز عورت کا لباس باریک اور چست نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں عبایہ، یا لمبی چادر سے (چہرہ اور ہاتھ پاؤں کے سوا) پورا جسم چھپا لینا چاہیے، ورنہ نماز میں خلل آئے گا۔
۳-شریعت میںکئی احکام مرد اور عورت میں مشترک ہونے کے باوجود بعض تفصیلات میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر مرد کے برعکس عورت پرحج کی فرضیت کے لیے زادِراہ کے علاوہ محرم یا خاوند ساتھ ہونے کی شرط بھی ہے۔ عورت اذان و اقامت نہیں کہہ سکتی۔ مرد کے برعکس عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی۔ مرد اور عورت کے ستر میں بھی فرق ہے۔ نماز جمعہ مرد پر فرض ہے عورت پر نہیں۔ نماز میں کوئی بات پیش آئے تو مرد تسبیح کہے اور عورت ہاتھ سے کھٹکا کرے، وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے ان سب مسائل میں سنتوں بلکہ فرائض تک کے معاملے میں عورت کے ستر اور پردے کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے صرف حنفی فقہاہی نے نہیں بلکہ ائمہ اربعہ نے رکوع و سجود اور قعدہ کی ہیئت میں مرد اور عورت کے فرق کو ملحوظ رکھا ہے اور اس میں اصل وجہ ستر پوشی کو قرار دیا ہے۔
امام شافعی کتاب الأُم (ج ۱، ص ۱۱۵) میں کہتے ہیں: عورت کے لیے پسندیدہ یہی ہے کہ سمٹ کر سجدہ کرے، کیونکہ یہ زیادہ باعث ستر ہے۔ مالکیہ میں سے ابو زید قیروانی نے الرسالہ میں صراحت کی ہے کہ صحیح روایت کے مطابق امام مالک کا قول ہے کہ عورت سمٹ کر سجدہ کرے۔
حنابلہ کی معتبر کتاب المغنی ( از ابن قُدامہ) میں بھی اس فرق کی صراحت موجود ہے کہ ’’مرد و عورت اس میں (کیفیت نماز میں) برابر ہیں سواے اس کے کہ عورت رکوع و سجود کی حالت میں اپنے آپ کو اکٹھا کرے (سکیڑے) … اصل یہ ہے کہ عورت کے حق میں نماز کے وہی احکام ہیں جو مرد کے لیے ثابت ہیں، کیونکہ خطاب (حکم) دونوں کو شامل ہے۔ اس کے باوجود (بعض کیفیات میں) عورت مرد کے برعکس کرے گی۔ ( مثال کے طور پر) عورت مرد کی طرح رانوں کو پیٹ سے دور نہیں رکھے گی بلکہ ملائے گی، کیونکہ عورت ستر کی چیز ہے، لہٰذا اس کے لیے اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھنا مستحب ہے، تاکہ یہ اس کے لیے زیادہ ستر کا باعث ہو۔ وجہ یہ ہے کہ عورت کے لیے رانوں کو پیٹ سے جدا رکھنے میں اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عضو کھل نہ جائے‘‘۔
مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے اقوال روایت ہوئے ہیں کہ انھوں نے عورتوں کو حکم دیا کہ جب تم سجدہ کرو تو خوب سمٹ کر سجدہ کرو اور اپنی رانوں کو (پیٹ سے) ملا لو۔
نامور اہل حدیث عالم مولانا عبدالجبار غزنویؒ سے عورتوں کے نماز میں سمٹ کر سجدہ کرنے سے متعلق سوال کیا گیا تو پہلے انھوں نے بیہقی اور مراسیل ابوداؤد کی یہ روایت نقل کی کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ خوب کھل کر سجدہ کریں اور عورتوں کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ خوب سمٹ کر سجدہ کیا کریں‘‘۔ پھرلکھتے ہیں: اس پر اہل سنت کے چاروں ائمہ کا تعامل چلا آیا ہے۔ (فتاویٰ غزنویہ ، فتاویٰ علماے اہل حدیث)
خلاصہ یہ ہے کہ تمام فقہا نے صَلُّو کَمَا رَأَیتُمُونِی أَصَلِّی کی طرح کی احادیث سے عموم مراد نہیں لیا ہے ، بلکہ بعض کیفیات میں دیگر دلائل کی بنا پر مرد اور عورت میں فرق ملحوظ رکھا ہے، اور یہ فرق نماز کے بعض آداب کاہے، کسی بنیادی رکن یا شرط کا نہیں۔ لہٰذا اس سے اس حدیث کے ساتھ کسی تعارض یا ٹکراؤ کی صورت بھی پیدا نہیں ہوتی، واللّٰہ اعلم۔ (ڈاکٹر عبدالحی ابڑو)
س: اسلام نے جسم و لباس کی طہارت و نظافت کا جو لحاظ رکھا ہے اس کی قدروقیمت سے عقلِ انسانی انکار نہیں کرسکتی لیکن اس سلسلے میں بعض جزئیات بالکل ناقابلِ فہم معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً ریح کے نکلنے سے وضو کا ٹوٹ جانا، حالانکہ جسم کے ایک حصہ سے محض ایک ہوا کے نکل جانے میں بظاہرکوئی ایسی نجاست نہیں ہے جس سے وضو ساقط ہوجائے۔ آخر اس ہوا سے کیا چیز گندی ہوجاتی ہے؟ اسی طرح پیشاب کرنے سے وضو کا سقوط، حالانکہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے اور پھر اچھی طرح دھو لیا جائے تو کہیں کوئی نجاست لگی نہیں رہ جاتی۔ یہی حال دوسرے نواقضِ وضو کا ہے، جس سے وضو ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ براہِ کرام اس اُلجھن کو اس طرح دُور کیجیے کہ مجھے عقلی اطمینان حاصل ہوجائے۔
ج: نواقضِ وضو کے مسئلے میں آپ کو جو شبہات پیش آئے ہیں انھیں اگر آپ حل کرنا چاہیں تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ شریعت میں جن جن باتوں سے وضو کے ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کا حکم لگایا گیا ہے پہلے ان سب کو اپنے ذہن سے نکال دیجیے، پھر خود اپنے طور پر سوچیے کہ عام انسانوں کے لیے (جن میں عالم اور جاہل عاقل اور کم عقل، طہارت پسند اور طہارت سے غفلت کرنے والے ، سب ہی قسم کے لوگ مختلف درجات و حالات کے موجود ہیں) آپ کو ایک ایسا ضابطہ بنانا ہے جس میں حسب ذیل خصوصیات موجود ہوں:
۱- لوگوں کو بار بار صاف اور پاک ہوتے رہنے پر مجبور کیا جائے اور ان میں نظافت کی حس اس قدر بیدار کردی جائے کہ وہ نجاستوں اور کثافتوں سے خود بچنے لگیں۔
۲- خدا کے سامنے حاضر ہونے کی اہمیت اور امتیازی حیثیت ذہن میں بٹھائی جائے تاکہ نیم شعوری طور پر آدمی خود بخود اپنے اندر یہ محسوس کرنے لگے کہ نماز کے قابل ہونے کی حالت دنیا کی دوسری مشغولیتوں کے قابل ہونے کی حالت سے لازماً مختلف ہے۔
۳- لوگوں کو اپنے نفس اور اس کے حال کی طرف توجہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ اپنے پاک یا ناپاک ہونے، اور ایسے ہی دوسرے احوال سے جو ان پر وارد ہوتے رہتے ہیں، بے خبر نہ ہونے پائیں اور ایک طرح سے خود اپنے وجود کا جائزہ لیتے رہیں۔
۴- ضابطے کی تفصیلات کو ہرشخص کے اپنے فیصلے اور راے پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ ایک طریق کار معین ہو تا کہ انفرادی طور پر لوگ طہارت میں افراط و تفریط نہ کریں۔
۵- ضابطہ اس طرح بنایا جائے کہ اس میں اعتدال کے ساتھ طہارت کا مقصد حاصل ہو، یعنی نہ اتنی سختی ہو کہ زندگی تنگ ہوکر رہ جائے اور نہ اتنی نرمی کہ پاکیزگی ہی باقی نہ رہے۔
ان پانچ خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر آپ خود ایک ضابطہ تجویز کریں اور خیال رکھیں کہ اس میں کوئی بات اس نوعیت کی نہ آنے پائے جس پر وہ اعتراضات ہوسکتے ہوں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں۔
اس قسم کا ضابطہ بنانے کی کوشش میں اگر آپ صرف ایک ہفتہ صرف کریں گے تو آپ کی سمجھ میں خود بخود یہ بات آجائے گی کہ ان خصوصیات کو ملحوظ رکھ کر صفائی و طہارت کا کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا جاسکتا جس پر اس نوعیت کے اعتراضات وارد نہ ہوسکتے ہوں جو آپ نے پیش کیے ہیں۔ آپ کو بہرحال کچھ چیزیں ایسی مقرر کرنی پڑیں گی جن کے پیش آنے پر ایک طہارت کو ختم شدہ فرض کرنا اور دوسری طہارت کو ضروری قرار دینا ہوگا۔ آپ کو یہ بھی متعین کرنا ہوگا کہ ایک طہارت کی مدت قیام (duration) کن حدود تک رہے گی اور کن حدود پر ختم ہوجائے گی۔ اس غرض کے لیے جو حدیں بھی آپ تجویز کریں گے ان میں ناپاکی ظاہر اور نمایاں اور محسوس نہ ہوگی بلکہ فرضی اور حکمی ہی ہوگی اور لامحالہ بعض حوادث ہی کو حدبندی کے لیے نشان مقرر کرنا ہوگا۔ پھر آپ خود غور کیجیے کہ آپ کی تجویز کردہ حدیں ان اعتراضات سے کس طرح بچ سکتی ہیں جو آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔
جب آپ اس زاویۂ نظر سے اس مسئلے پر غور کریں گے تو آپ خود بخود اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ شارع نے جو ضابطہ تجویز کردیا ہے وہی ان اغراض کے لیے بہترین اور غایت درجہ معتدل ہے۔ اس کے ایک ایک جزئیہ کو الگ الگ لے کر علّت و معلول اور سبب و مسبب کا ربط تلاش کرنا معقول طریقہ نہیں ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا بحیثیت مجموعی ان اغراض و مصالح کے لیے جو اُوپر بیان ہوئی ہیں، اس سے بہتر اور جامع تر کوئی ضابطہ تجویز کیا جاسکتا ہے؟ لوگوں کو احکامِ وضو میں جو غلط فہمی پیش آتی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس بنیادی حکمت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جو بحیثیت مجموعی ان احکام میں ملحوظ رکھی گئی ہے، بلکہ ایک ایک جزئی حکم کے متعلق یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں فعل میں آخر کیا بات ہے کہ اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی ضرب آخر کس طرح شکست ِوضو کا سبب بن جاتی ہے۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، اوّل، ص ۱۲۲-۱۲۴)