آج پوری دنیا جس معاشی بحران سے عالمی سطح پر دوچار ہے اور جس کی وجہ سے امریکا اور یورپ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں، اس کا بنیادی سبب سرمایہ داری نظام اور سود پر مبنی معیشت ہے۔ خود پاکستان کی معاشی صورت حال دن بدن بگڑتی چلی جارہی ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھ ہا ہے، ٹیکسوں کی بھرمار ہے اور مہنگائی میں ہوش ربا اضافے اور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی اشیا کی قیمتوں اور بے تحاشا لوڈشیڈنگ سے صنعت اور ترقی کا پہیہ رُکتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، معیشت تنگ ہوکر رہ گئی ہے، اور پھر یہ سلسلہ کہیں رُکتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کے علاوہ اس کا بنیادی سبب بھی سود اور قرضوں پر مبنی معیشت ہے۔ یہ سودی معیشت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کے ذمے ۱۲؍ارب روپے کا قرض واجب الادا ہے، یعنی ہر پاکستانی ۶۰ہزارروپے کا مقروض ہے۔
قائداعظم نے محض اس مسئلے کی نشان دہی ہی نہیں کی تھی بلکہ اسلامی اقتصادی نظام کے نفاذ کے لیے عملاً اسٹیٹ بنک کا قیام عمل میں لائے اور اس کے شعبۂ تحقیق کو اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کے لیے عملی خاکہ اور ماڈل کی تیاری کی ذمہ داری بھی سونپی تھی۔ انھوں نے اپنے ان خیالات کا اظہار یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا:
[سٹیٹ بنک] کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا مَیں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچاسکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ برعکس اس کے گذشتہ نصف صدی میں دو عالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اس کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بدترین ابتری کی شکار ہے وہ ا س سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف یہی اسے بچا سکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔(قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلد چہارم، ص ۵۱)
یہ بات غور طلب ہے کہ اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر قائداعظم نے اسلام کے اقتصادی نظام کوتلاش کر کے نافذ کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی اور یہ ذمہ داری اسٹیٹ بنک کے شعبۂ تحقیق کی لگائی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا شبیراحمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع جیسے علماے کرام کی موجودگی میں قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی ذمہ داری کیوں لگائی کہ اسلام کا اقتصادی نظام تلاش کرے؟
اگر غور کیا جائے تو اس کے دو بنیادی اسباب تھے: ایک سبب تو یہ تھا کہ پاکستان جب بناتھا تو اس کا سٹیٹس ڈومینین (dominion) ( حکومت کے زیراثر )کا سا تھا نہ کہ ایک آزاد ملک کا۔ لہٰذا برطانیہ کے زیراثر ہونے کی وجہ سے وہاں کے قوانین ہم نے اپنا لیے اور آج تک ان پر عمل پیرا ہیں۔
دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر اگر انگلستان کے مالیاتی نظام کو جو کہ سودی نظام تھا،فی الفور ختم کردیا جائے تو پھر ملک کا اقتصادی نظام کیسے چلے گا؟ راتوں رات یہ تبدیلی ممکن نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کی ذمہ داری قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی لگائی۔ یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ سود حرام ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم سود نہیں لیتے تو متبادل نظام کیا ہو؟ یہ کام اسٹیٹ بنک ہی کرسکتا تھا۔ درس نظامی کے نصاب میں بنکاری بطور مضمون نہیں پڑھائی جاتی۔ اس لیے اس مسئلے پر علما پوری طرح نظر نہیں رکھتے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ایک اور عملی مسئلے کا بھی سامنا تھا۔ تقسیم کے بعد یہاں سے ہندو چلے گئے تو ایک ہزار شاخوں پر مشتمل بنکاری نظام جس میں کوآپریٹو بنک بھی شامل تھے، بیٹھ گیا۔ ان حالات میں قائداعظم نے سنٹرل بنک کے نظام کو اپنی بصیرت کے ذریعے اسلام کے اقتصادی نظام میں داخل کر دیا، اور اسٹیٹ بنک کے قیام کے ذریعے اس راہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی۔
اس طرح یہ تین بنیادی مسائل تھے جن کا ابتدا ہی میں پاکستان کے مالیاتی نظام کو سامنا تھا۔ آئین بنائے بغیر ڈومینین سٹیٹس کو خودمختاری کا اسٹیٹس نہیں مل سکتا تھا۔ اگر آئین بنتا تو کرنسی یا مالیاتی نظام کا متبادل پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت تک یہ مسائل حل نہ ہوئے تھے، لہٰذا قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی بنیاد پہلے رکھی تاکہ مالیاتی نظام وضع کیا جاسکے۔ جب آئین بنا تو اس میں سود کو حرام قرار دیا گیا لیکن اسٹیٹ بنک کا ایکٹ بنایا گیا تو اس کے آرٹیکل ۱۳ تا ۲۱ کے تحت سود کو تحفظ دے دیا گیا۔ بنکاری آرڈی ننس ۶۲ بنایا گیا تو اس کے سیکشن ۲۵ یا ۲۶ وغیرہ میں سود کو تحفظ دے دیا گیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہم آج تک سود کے نظام میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ یہ بات غور طلب ہے کہ قائداعظم کی بصیرت کیا تھی اور ہم نے کیا کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بنکاری کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی (’بنکاری نظام، ایک تاریخی جائزہ‘ آئی اے فاروق، ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۵ئ)۔ ۱۹۸۵ء میں ایس ڈی گوے ٹی ئین (S.D. Goitien) نے ایک کتاب Mediterranean Society (بحیرۂ روم کے خطے کا معاشرہ) کے نام سے لکھی۔ اس نے واضح طور پر لکھا ہے کہ بنکاری عربوں کا کھیل ہے (ص۳۲۵)۔ اگر ریاضی وجود میں نہ آتا تو بنکاری ممکن ہی نہ ہوتی۔ اگر صفر نہ ہو تو حساب کتاب ممکن نہیں اور کمپیوٹر کی اکائونٹس کی کمیونی کیشن ممکن نہیں ہے۔ صفر اور ریاضی کے ایجاد کرنے والے مسلمان ہیں۔
ملک کو درپیش معاشی بحران سے نجات دلانے کے لیے آج بھی یہی راستہ ہے کہ سود کی لعنت سے نجات حاصل کرتے ہوئے سود سے پاک اسلام کے اقتصادی نظام کو نافذ کیا جائے۔ بگڑتی ہوئی ملکی معاشی صورت حال کا تقاضا ہے کہ فوری اقدام اُٹھایا جائے۔ خدانخواستہ معیشت کی تباہی کے نتیجے میں کسی فوجی یلغار کے بغیر ہی ملک و قوم غلامی اور انحطاط و زوال سے دوچار ہوسکتے ہیں!
یہ بات باعث ِ حیرت ہے کہ جب ۲۰۰۴ء میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے لیے بل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا تو سخت ردعمل سامنے آیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ سود جو شرعاً حرام ہے اور قرآن نے اسے اللہ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے، ملک کا آئین بھی اس بات کا پابندکرتا ہے، اور معاشی مسائل سے نجات کا ناگزیر تقاضا ہے، لیکن ارکان اسمبلی اس مسئلے پر تعاون کے لیے تیار نہ تھے۔ چار سال تک مختلف حیلوں بہانوں سے بل کو زیرالتوا رکھا گیا۔ اس کے حق میں آواز اُٹھانے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ۔ کبھی میٹنگ نہ ہوتی اور کبھی کورم پورا نہ ہوتا تھا۔ اگر کبھی میٹنگ ہوتی تو طرح طرح کے اعتراضات اُٹھائے جاتے۔ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے لوگ دھمکاتے تھے۔ سودخور مافیا کی طرف سے بھی دھمکیاں ملتی تھیں۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر یہ بل اسمبلی میں پیش ہوا اور منظور ہوا۔
’بیع سلم‘ اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا عملی ماڈل ہے۔ بیع سلم زراعت کو سود سے پاک کرنے کا وہ نظام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کو حرام کرنے کے بعد متبادل کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ اس نظام میں کسان سے فصل پیشگی خرید لی جاتی ہے اور اسے رقم ادا کردی جاتی ہے۔ ایک معاہدہ یا عقد لکھا جاتا ہے جس میں فصل اُگانے سے قبل فصل کی کوالٹی، مقدار، قیمت اور فصل کی حوالگی کی تاریخ کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جاتا۔ کسان کو فصل کی قیمت ادا کردی جاتی ہے اور وہ بآسانی فصل کاشت کرسکتا ہے۔ یہ ایک آسان اور قابلِ عمل نظام ہے اور اس کے نتیجے میں سود اور اس کی بہت سی قباحتوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں کسانوں کا استحصال ختم ہوگا اور مہنگائی پر قابو پایا جاسکے گا، وہاں بتدریج سود سے پاک اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کی راہ بھی ہموار ہوسکے گی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: ’بیع سلم‘ جسٹس ملک غلام علی، عالمی ترجمان القرآن، جنوری ۲۰۱۲ئ، ص ۱۹۶-۱۰۷۔ ’زراعت کی مالی ضروریات اور بیع سلم‘، آئی اے فاروق ، ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص ۷۷-۸۰)
’بیع سلم‘ کے تحت چونکہ کسان کو ایک معاہدے کے تحت فصل کی قیمت پیشگی ادا کی جاتی ہے، اس لیے اسے کٹائی کے بعد کئی کئی ماہ تک فصل کی قیمت کے انتظار سے نجات مل جاتی ہے۔ دوسری طرف یک مشت ادایگی کی بنا پر فصل کی کاشت پر لاگت بھی کم آئے گی اور کھاد اور زرعی ادویات وغیرہ بھی نقد ادایگی پر کسان کو سستی ملیں گی۔ حکومت خود بیع سلم کرے یا مختلف بنکوں یا کمپنیوں کے ذریعے بیع سلم کیا جائے اور پھر حکومت فصل خرید لے تو اس طرح آڑھتی جو کسان کا استحصال کرتا ہے، اس کا کردار بھی ختم ہوجائے گا۔ حکومت خود مارکیٹ میں گندم فراہم کرے گی تو ذخیرہ اندوزی کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ فصل کی کاشت پر لاگت میں کمی، آڑھتی کے کردار کے خاتمے اور حکومت کی طرف سے مارکیٹ میں فصل کی فراہمی کی وجہ سے آٹا، چینی اور چاول وغیرہ کی قیمتیں بھی کم ہوں گی جس سے عوام کو بھی براہِ راست فائدہ ہوگا اور سستی چیزیں ملیں گی۔
’بیع سلم‘ سے چھوٹے کسان جو کم زمین کی وجہ سے نقدآور فصل نہیں اُگا سکتے، ان کو بھی فائدہ ہوگا۔ چند کسانوں کی زمینوں کو یک جا کر کے بھی بیع سلم کیا جاسکتا ہے۔ اس کوآپریٹو فارمنگ کے نتیجے میں چھوٹا کسان بھی گندم اور چاول وغیرہ کاشت کرسکے گا۔ اسلامی بنکاری میں اجارہ سکیم کے تحت چھوٹے کسانوں کو ٹریکٹر، ٹیوب ویل اور دیگر زرعی ضروریات کی بلاسود فراہمی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔
بیع سلم کے نتیجے میں کسان اور بنک یا حکومت چونکہ فصل کے مالک ہوں گے، لہٰذا فصل کی بہتر کاشت، زرعی تحقیق اور جدید زرعی ٹکنالوجی سے استفادے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ اس سے میدانِ زراعت میں تحقیق اور نئی ٹکنالوجی اور جدید ذرائع اپنانے کا رجحان بھی آگے بڑھے گا جو زراعت کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ۱۸ویں ترمیم کے بعدوزارتِ عشر اب صوبائی حکومت کے تحت ہے۔ لہٰذا اگر بیع سلم کے تحت زراعت کی سطح سے سود کے خاتمے کے لیے کوشش ہوگی تو اس میں مرکز یا اسٹیٹ بنک رکاوٹ نہیں بن سکتا۔دوسرا یہ کہ بیع سلم منصوبے کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس میں مختلف اعتراضات اُٹھائے گئے، بیوروکریسی نے ٹیکنیکل اعتراضات اُٹھائے لیکن وضاحت کے بعد اس پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ اس کے قابلِ عمل ہونے کی رپورٹ (فزیبلٹی رپورٹ) بن چکی ہے، نفاذ کے لیے عملی ڈھانچا کیا ہوگا اس کی وضاحت بھی پیش کی جاچکی ہے، اور خود وزیراعلیٰ کو دو مرتبہ پریزنٹیشن دی جاچکی ہے۔ کسی بھی مرحلے پر یہ اعتراض نہیں اُٹھایا گیا کہ یہ منصوبہ قابلِ عمل نہیں ہے۔ اسی منصوبے کے تحت عشر بڑے پیمانے پر جمع ہوسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰؍ارب روپے تک عشر جمع ہوسکتا ہے، جب کہ گذشتہ سال حکومت نے ۱۶۰ ؍ارب روپے عشر جمع کیا تھا۔ علما کی طرف سے بھی اعتراض نہیں اُٹھایا گیا بلکہ انھوں نے فتویٰ دے کر اس کی تائید کی ہے۔
بیع سلم منصوبے کے لیے بیرونِ ملک سے بھی پیش کش ہو رہی ہے۔ مڈل ایسٹ ڈویژن پول کے فنڈز ہیں۔ ان میں او آئی سی، آئی سسکو اور اسلامک ڈویلپمنٹ بنک شامل ہیں۔ یہ سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ اس مَد میں وہ ایک ملین ڈالر فنڈ بلاسود دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زراعت کی سطح پر پہلی بار بیع سلم کے ذریعے بلاسود منصوبہ سامنے آیا ہے۔ اس طرح عالمی سطح پر بھی ایک تبدیلی کا آغاز ہوسکتا ہے اور عالمی بحران سے نجات کے لیے ایک راہ نکل سکتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری حکومت اس منصوبے کی تائیداور نفاذ کے بجاے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔
معاشی خودانحصاری، آئی ایم ایف سے نجات، اور خاص طور پر بیرونی قرضوں کی ادایگی کی راہ بھی بیع سلم کے نفاذ سے ہموار ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرض دینے کا بڑا سبب عالمِ عرب کا سرمایہ ہے جو ان تک پہنچتا ہے۔ اگر ملک میں بیع سلم نظام کو نافذ کردیا جائے تو پھر عرب دنیا کے وسائل کا رُخ بھی پاکستان کی طرف ہوسکتا ہے۔ جیساکہ اُوپر ذکر کیا گیا ہے کہ مڈل ایسٹ سے نجی شعبے کے سرمایہ کار سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ ان سے مضاربہ اور مشارکہ کی بنا پر سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور ہم قرض کے بوجھ سے بھی نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہم آگے بڑھ کر کوئی اقدام تو اُٹھائیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سی راہیں کھل سکتی ہیں۔
اس بحث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بیع سلم منصوبہ شرعی، تحقیقی اور عملی حوالے سے قابلِ عمل ہے۔ اس کے قابلِ عمل ہونے کی فزیبلٹی رپورٹ بھی پیش کی جاچکی ہے۔لیکن اب یہ بل بیوروکریسی کے روایتی تاخیری حربوں کی نذر ہورہا ہے۔ بیوروکریسی چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس میں سود کے عنصر کو شامل کیا جائے لیکن علما کے تحریری فتووں کی وجہ سے عملاً ایسا ممکن نہیں ہوپا رہا۔ یہ سود سے پاک نظام ہے۔ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں نہ صرف غریب کسان کے استحصال کا خاتمہ ہوگا بلکہ مہنگائی کے مارے عوام کو بھی سستی اشیا کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ اس اقدام کے نتیجے میں مالیاتی نظام تبدیل ہوگا اور سود کے نظام سے نجات کی راہ ہموار ہوگی۔حکومت پنجاب کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے بیع سلم کے نفاذ کے لیے فوری اقدام کرنا چاہیے۔ دینی و سیاسی جماعتوں کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ اس منصوبے پر عمل درآمد کو ممکن بنایاجاسکے۔ عوامی سطح پر بھی اس حوالے سے آگاہی بڑھ رہی ہے۔ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے علما، ماہرین اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مختلف کالم نگاروں نے اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ تاہم میڈیا کو مزید مؤثر انداز میں کردار ادا کرنا ہوگا۔
آج دنیا میں جو اقتصادی بحران ہے وہ سود کی وجہ سے ہی ہے۔ پوری دنیا سودی نظام میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کا سبب قرض ہے۔ آج ہر چیز قرض پر مل رہی ہے۔گاڑی ہو یا ہوم فنانس، سب قسطوں پر مل رہے ہیں اور یوں یہ نظام مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی سرمایہ داری نظام اور سود کی لعنت سے نجات کے لیے آغاز بیع سلم سے ہوسکتا ہے۔ اس طرح قائداعظم نے اسلام کے اقتصادی نظام کو تلاش کرنے کی جو ذمہ داری ڈالی تھی اس سے بھی عہدہ برآ ہوا جاسکے گا، اور ہم دنیا کے سامنے بھی اسلام کے اقتصادی نظام کو عملاً پیش کرسکیں گے۔