فرد ہو یا قوم، نظریے اور مقصود حیات کے بغیر اس کی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس نکتے کو بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے:
زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن
مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات
(اسرار و رموز)
(فرد کی زندگی جان و تن کے تعلق سے قائم ہے، اور قوم کی زندگی اپنی قدیم روایات کے تحفظ سے قائم رہتی ہے۔ فرد کی موت جوے حیات خشک ہوجانے سے واقع ہوجاتی ہے، اور قوم کی موت مقصودِ حیات ترک کردینے سے ہے۔)
پاکستان اپنے قیام کے ۶۲ سال بعد ایک مخصوص لابی کی شرانگیز عالمی مہم کے نتیجے میں جن حالات سے دوچار ہے، وہ ’حفظ ناموس کہن‘ کے لیے خطرہ اور ’ترک مقصود حیات‘ کے تباہ کن راستے کی طرف دھکیلے جانے کا سامان ہے۔ ان خطرات اور اس بین الاقوامی یلغار کا بروقت مقابلہ آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
فرد اور قوم دونوں ہی کی زندگی میں نظریہ، تصورِ حیات اورزندگی کے مقصود کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ قرآن نے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت کو قرار دیا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اس کی سب سے بنیادی دعا ہے اور ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اس دعا کا جواب ہے۔ قرآن پاک میں تخلیق آدم ؑکے واقعے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس کا مرکزی نکتہ انسان کا مقصدِ وجود ہے، یعنی خلافت اور نیابتِ الٰہی اور پورا قرآن اس ہدایت کا امین ہے جو انسان کو یہ کردار ادا کرنے کے لائق بناتا ہے۔
اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز یہ ہے جس انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا، اسے علم الاشیاء سے نوازا۔ اسے عقل، ارادے اور اختیار کی دولت سے مالا مال کیا۔ اس کے اندر خیر اور شر دونوں کا داعیہ رکھا: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس ۹۱:۸)، اسے حق و باطل اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت سے نوازنے کے بعد، ہدایت سے بھی نوازا اور کامیابی کی شاہراہ کو روشن کرکے اسے بتادیا کہ جو ہدایت کی پیروی کرے گا وہی کامیاب ہے اور جو اس سے رُوگردانی کرے گا وہ ناکام و نامراد ہے:
فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸-۳۹) پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسانی زندگی کی سب سے کارفرما قوت نظریہ اور ہدایت ہے۔ اس مثالیے (paradigm ) میں تین چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں:
۱۔ علم الاشیاء، یعنی انسان کو اس کائنات کے وسائل اور خزانوں کا علم اور ادراک عطا کیا گیا ہے۔ اسی چیز نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی اور اسے نیابت و خلافت کا اہل بنایا۔
۲- عقل اور انتخاب کی آزادی انسانوں کو عطا کی۔ فرشتوں نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ فساد کرے گا‘‘۔ گویا رد وقبول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کوجبر میں نہیں کسا بلکہ اس کو آزادی اور انتخاب کی صلاحیت بھی دی ہے۔ یہ دونوں چیزیں تو سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں مشترک ہیں۔ البتہ اس سلسلے کی تیسری چیز (ہدایت) کے بارے میں (جو انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے) سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں بعدالمشرقین نظر آتا ہے اور یہیں سے اختلاف کی بنیاد سامنے آتی ہے۔
۳- ہدایت سے مراد اس زندگی کو گزارنے کا اسلوب ، احساس ذمہ داری کی میزان اور آخرت میں جواب دہی کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے انبیاورسل علیہم السلام کو بھیجا گیا، کتابوں اور ہدایت کی روشنی دی گئی اور خاتم الابنیاء محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی اس ابدی ہدایت کی تکمیل کی۔ فرمایا: اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ o [البقرہ ۲:۲۸۵]’ ’رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں ، اور اس کی کتابوں، اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں، اور ان کا قول یہ ہے کہ : ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک، ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری طرف پلٹنا ہے‘‘۔ مرادیہ ہے کہ ہدایت وہ چیز ہے جو مقصد تک پہنچنے کی تمام تر جدوجہد کو سہارا عطا کرتی ہے، علم کو انسانیت کے لیے نافع اور سودمند بناتی ہے، اور نیابت و خلافت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے رہنمائی عطا کرتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں علم الاشیاء، آزادیِ انتخاب اور ہدایت کے تین ستونوں پر ہی نظریے، مقصد اور منزل کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر نہ زندگی میں انضباط پیدا ہوتا ہے، نہ اصل جوہرِ انسانیت کا اظہار ہوتا ہے، اور نہ تحریک و تحرک کو کوئی راستہ ہی ملتا ہے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے نظریہ ناگزیر ہے، اور یہ سبھی معاشروں اور انسانوں کے لیے ضروری ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہدایت، انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کے لیے یہ اصول طے کر دیا گیا:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo (فاتحہ۱:۵-۶)ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ جن قوموں اور انسانوں کے سامنے کوئی نظریہ اور منزل تھی، انھی نے اوراقِ تاریخ اور دامنِ تہذیب میں نام پیدا کیا۔ نظریہ غلط ہو یا درست، شر پہ مبنی ہو یا خیر کا علم بردار، دونوں ہی صورتوں میں وہ ہمیشہ زندگی کی نشوونما اور پیش رفت اور ترقی کے لیے، ایک بنیادی محرک رہا ہے۔ البتہ نظریہ اگر حق پر مبنی ہے تو اس سے انسانی زندگی اور دنیاے تہذیب میں خیر اور فلاح کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اگر وہ باطل پر مبنی ہے تو یہ جہان تگ و دو فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔
تاریخ کے اس فتوے کو ایک طرف تو ابن خلدون[م:۱۴۰۶ء] نے اپنے انداز میں مقصد، شریعت اور عصبیت کے فریم ورک میں پیش کیا ہے، اور دوسری جانب خود دورِ جدید کے فلاسفۂ تاریخ نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر پی اے ساروکن [م:۱۹۶۸ء]، آرنلڈ جے ٹائن بی[م:۱۹۷۵ء] اور عصرِ حاضر کے دیگر ماہرین تاریخ نے بھی اپنے اپنے انداز میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔ ان سب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہی قومیں انسانی تاریخ کے اسٹیج پر ابھری ہیں، جن کے سامنے ایک اعلیٰ نصب العین تھا، اور جو اس نصب العین اور نظریے کی بنیاد پر فکری، سماجی، معاشی اور نفسیاتی زندگی کے چیلنجوں کا جواب دینے کا داعیہ، صلاحیت اور جذبہ رکھتی تھیں۔ اس چیز کو گذشتہ ربع صدی کے ماہرین تہذیب و تاریخ: ’انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریے اور افکار کی فیصلہ کن کار فرمائی‘ کے جملے میں پیش کرتے ہیں۔ اس اصول کو ہمارے اہلِ دانش نے فکری و عملی جدوجہد سے مربوط کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء] نے اسے ’اجتہاد اور جہاد‘ سے تعبیر کیا ہے، اور شعرو ادب نے اسے ’قلم اور تلوار‘ کی علامات کی شکل میں پیش کیا ہے۔
یہ تاریخ انسانی کا نہایت صاف اور واضح فیصلہ ہے کہ تہذیبی تبدیلی کے لیے فیصلہ کن عامل قلم ہی ہے۔ قلم سے مراد ہے فکرو دانش اور اخلاق و اصول، جب کہ اس تبدیلی کو روبہ عمل لانے اور اس کی حفاظت کے لیے قوت، تنظیم اور تلوار کا وجود ناگزیر ہے۔ یوں قلم اور تلوار انسانی تاریخ، تہذیب اور زندگی کے لیے دست راست اور ایک دوسرے کے زبردست معاون اور پُشتی بان ہیں۔
۲۰ویں صدی ایک طرف بے خدا فلسفوں کے درمیان کش مکش اور دوسری طرف یورپی قوموں کے درمیان تجارتی و معاشی رقابت کی بنا پر خوں ریز تصادم کی صدی تھی___ اس سے ماقبل متصل ۱۹ویں صدی میں ایوان ترگینف [م:۱۸۸۳ء] نے نہل ازم Nihlism (’زندگی ایک بے معنی اور محض وجودی چیز ہے‘) کے نظریے کو بڑے دعوے سے پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ گذشتہ دو صدیوں میں جواب دہی کے تصور سے بالا انسان کی مزعومہ سوچ کا سرچشمہ اسی فکر سے پھوٹتا ہے۔ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں اشتراکیت اور پرولتاری، یعنی مزدوروں کی آمریت کا نعرہ بلند ہوا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے وسیع حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے افکار کو تہہ وبالا کر دیا، مگر اپنی غیر فطری بنیاد کے باعث ۷۰، ۸۰ سال کے بعد ہی اشتراکیت کا سورج ڈوب گیا۔اسی درمیان میں فاشزم(فسطائیت) کا ڈنکا بھی بجا مگر ایک دوعشروں میں ہی، یہ انسانی تاریخ کی بدترین اصطلاح بن کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ انسانیت کے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ وہی مغربی تہذیب جس نے ۲۰ویں صدی میں سائنسی ترقی کا سہارا لے کر دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا تھا، آج مسلمانوں کو امن کا درس دے رہی ہے؟ پھر سوویت یونین کے انہدام [۱۹۹۱ء] کے بعد فرانسس فوکویاما [پ:اکتوبر ۱۹۵۲ء] نے End of the History میں گویا نظریاتی تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا اور مگر چند ہی برسوں میں یہ فکر بھی پانی کے بلبلے کی طرح تحلیل ہوگئی۔
آج دنیا میں ایک بار پھر نظریات کی بالادستی، مقاصد اور ’اقدار بطور اصل کار فرما قوت‘ کے فہم اور حصول کی پیاس بڑھ رہی ہے۔ عصر حاضر میں پیدا شدہ عالمی، تہذیبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی بحران کا حل ایک بار پھر نظریاتی آدرشوں میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اصل بحران، اخلاقی بحران ہے، نظریاتی شعور کی پستی کا بحران ہے، جس نے انسانی زندگی اور اس کے مستقبل کو خوف ناک چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔
آج اہل فکر ونظر، اقدار اور اخلاق کی کارفرمائی کو زندگی کے فیصلہ کن مظہر کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل اسی وقت روشن قرار دیا جاسکتا ہے، جب ایک ایسا عالمی نظام معرض وجود میں آئے، جو احترامِ آدمیت، اخوت، حریت اور مساوات اور بے لاگ انصاف پر استوار ہو، جو استحصال سے پاک اور انسانوں کے درمیان محبت، امداد باہمی اور مؤدت کا داعی ہو۔ پاکستان کے فکری بانی علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:
وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے، اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت میں سے اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیا جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللّٰہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے، اور اخوت، حریت اورمساوات کے شان دار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو پائیں گے [یکم جنوری۱۹۳۸ء کو سالِ نو کا پیغام، آل انڈیا ریڈیو، لاہور]
اسی طرح علامہ محمد اقبال ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں:
جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے، اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے، جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نظر کو یکسر بدل کر، اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے… یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ تو قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی، نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اس کا مقصد، باوجود تمام فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔
۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا:
اسلام، فرد کی زندگی کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک ہی کُل کے جزو ہیں، اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ انسان اس آلایشوں سے لبریز اور ناپاک دنیا کا کوئی باشندہ ہے اور وہ اسے کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے، جہاں روح رہتی ہے، اسلام کے نزدیک مادہ روح کا وہ روپ ہے جو قیدمکان و زمان میں گھرا ہوا ہے۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کی زندگی سے مذہب عیسوی تقریباً خارج ہوگیا ہے… میری خواہش ہے [اور مجھے یقین ہے کہ] شمال مغربی ہندستان کے مسلمانوں کو ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔
گویا اسلام ان نسلی اور علاقائی امتیازات سے بلند ہو کر انسان کو اس کی فطرت کی جانب بلاتا اور اسے ایک تصور جہاں (ورلڈ ویو) کی روشنی دیتا ہے کہ جس کی بنا پر منصفانہ نظامِ جہاں (ورلڈ آرڈر) نموپذیر ہوتا ہے۔
اس وقت جو لوگ نظریے کی کار فرمائی اور اس کی اہمیت کا انکار کر رہے ہیں، وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ مقصد حیات، نظریے، اخلاقی اور سماجی اقدار سے کٹ کر، اور مفاد وعصبیت کی دلدل میں پھنس کر انسان حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنا وہ نظریے اور اخلاق سے دُور ہوتا ہے، اتنا ہی وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے تباہی وبربادی کا سبب بنتا ہے۔نہ اس کی قوم پرستانہ جمہوریت، انسانیت کے لیے ہمدردیِ عمل کا پروگرام پیش کرتی ہے اور نہ ملوکیت یا ڈکٹیٹرشپ ہی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر پاتی ہے۔ ان طرزِ ہاے حکومت کی طرح معاملہ قوموں اور ملکوں کا بھی ہے۔
پاکستان میں نظریہ پاکستان کو سمجھے بغیر تحریک پاکستان اور اس تحریک کی اصل قوتِ محرکہ کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے وجود کو سمجھنے کی کنجی تحریک پاکستان کا نظریہ ہے۔ اس مناسبت سے سمجھنا چاہیے کہ مسلمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اسلام ہی مسلمانوں کے تشخص کی علامت ہے اور مسلمان ہی اسلام کی پہچان ہیں۔ اس حوالے سے یہ نظریہ کہ’’ مسلمان ہونا تو ٹھیک ہے، مگر اس کا اسلامی ہونا کوئی ضروری تقاضا نہیں ہے‘‘، ایک احمقانہ اور تباہ کن تصور ہے۔ مسلمان اپنی تعریف کے اعتبار سے ایک اُمت کا حصہ ہے، ایک مشن اور مقصد کا علم بردار ہے، جسے مسلمانیت کی پہچان نے ایک خاص ذمہ داری سونپ دی ہے۔ مسلمان گناہ گار ہو سکتا ہے، مگر وہ اسلام کے تصور جزا و سزا، اور اُخروی جواب دہی کے تصور سے اپنے آپ کو الگ کرلے یا اس کی مسلسل نفی کرے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اس لیے عقیدہ ہی اول وا ٓخر مسلمان کی پہچان ہے۔
یہ عقیدہ انسان کے ذہن میںتین بنیادی تصورات راسخ کر دیتا ہے: lغیر اللہ سے بغاوتl اللہ پر ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگیlزندگی گزارنے کے لیے اللہ، رسولؐ، قرآن اور آخرت پر ایمان اور قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کی جدوجہد ___یہ تینوں تصورات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہی مسلم اُمت کی بنیاد ہیں، اور اسی مناسبت سے ہر مسلمان مرد اور عورت کی شناخت متعین ہوتی ہے۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس چیز کو ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے یہ ہندستانی مسلمانوں کی اختراع نہیں ہے، بلکہ وہ پہلے دن سے اسلام کے ایمانی، فکری، تہذیبی تصورات اور اہداف کو قائم کرنے والا نظریہ ہے۔ سورۂ فاتحہ دو قوموں اور دوامتوں کے خدوخال واضح کرتی ہے، فرمایا:
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o
قرآن کریم کا یہی افتتاحیہ اس دو قومی نظریے کو وجود بخشتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ سے دوراستے متعین کرکے، انسانوں کو رد و قبول کا اختیار دے دیا گیا ہے، یعنی ایک سیدھا راستہ اور دوسرا اس کے برعکس اللہ کی ہدایت سے انحراف اور انکار کا راستہ۔ ایک راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں سے تشکیل پاتا ہے، اور دوسرا راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے انکار، مخالفت یا اپنی خواہشات کی پیروی سے منسوب ہے۔ اس دو قومی نظریے میں جو بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت دراصل انھی دو بنیادی قافلوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں قافلوں میں فکر، صورت، ہیولا، شکل اور منزل جدا جدا ہے۔ ایک قافلہ انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے اور دوسرا انحراف اور بغاوت کو اپنائے ہوئے ہے۔
اس نظریے کے تین مضمرات ہیں جن کا سمجھنا از بس ضروری ہے:
یہی چیز ہے دوقومی نظریے کی اساس اور وسیع تر بنیاد۔ اسی بنا پر ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ تصور حیات اور الہامی ہدایت کی بنیاد پر دنیا میں علم پھیلائے، رہنمائی دے اور دوسروں کے لیے قابل اتباع نمونہ پیش کرے۔ یہی حق دو قومی نظریہ دوسروں کو بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے تصورات و عقائد کے مطابق انفردی اور اجتماعی زندگی کے معاملات کو چلائیں۔ یہ نظریہ مغرب کے قومی ریاستوں (nation states) کے تصور سے بالکل مختلف سوچ کا حامل ہے۔ اس میں قومی ریاست کا نہیں، قوموں کی ریاست کا تصور ہے جس میں یہ اہتمام موجود ہے کہ ہر قوم کو اپنے تشخص کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، تاہم جس کو اکثریت حاصل ہے، اس کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اصولوں اور اقدار کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے، وہیں اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اختلاف اور تنوع کا احترام کرے اور اقلیتوں کے لیے آسودگی پیدا کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس فریم ورک کی مختلف اور متنوع صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں، مگر ان میں مسلمانوں کے لیے تین کو مرکزیت حاصل ہے:
۱- وہ ملک، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے اور اس میں انھیں اقتدار بھی حاصل ہے۔
۲- وہ ملک جس میں مسلمانوں کی اکثریت تو ہے، مگر اقتدار سے محروم ہیں۔
۳- وہ ملک، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورانھیں اقتدار بھی حاصل نہیں ہے۔
پہلی صورت میں اسلامی نظریے کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کانظام، اسلام کی روشنی میں وضع کیا جائے جس میں اکثریت نظام زندگی اور منزل کو متعین کرے اور دوسری تمام اقوام کو انفرادی، تہذیبی اور اجتماعی حقوق حاصل ہوں، تاکہ وہ اس نظریاتی ریاست میں اپنے مذہبی اور نظریاتی تشخص کے لیے مناسب جگہ (space) پا سکیں۔ اس طرح اکثریت اور اقلیت، دونوں عدل و انصاف اور افہام و تفہیم کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
دوسری صورت میں مسلمانوں کی فطری طور پر خواہش اور کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اکثریت کو اختیار اور اقتدار دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ ان کاجائز حق ہے۔ اگر انھیں اس میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ پہلی صورت میں آ جاتے ہیں، ورنہ جدوجہد کے مرحلے میں شامل رہتے ہیں۔
رہی تیسری صورت، تو اس میں اسلام نے یہ بات قبول کی ہے کہ جن کو اکثریت اور اقتدار حاصل ہے، انھیں اجتماعی زندگی میں انصاف اور دوسروں کے حقوق کی پاس داری کے ساتھ حکمرانی کا موقع ملنا چاہیے۔ دوسرے مذہبی اور تہذیبی تشخص کے حاملین کو قرار واقعی جگہ اور سہولت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ وہ باوقار اور منصفانہ انداز سے زندگی گزار سکیں۔
مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں دو قومی نظریہ، انسانی تاریخ و تہذیب اور زندگی سے مطابقت رکھتا ہے، تاہم حالات کی مناسبت سے اس میں تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے۔ اس نظریاتی فریم ورک میں برعظیم پاک و ہند کے حالات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ۹۰۰ سالہ دور حکمرانی میں اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ وہ بڑی حد تک شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک کار فرما قوت بنانے کا اہتمام کریں۔ انھیں اس میں کامیابیاں بھی ملیں اور ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس طرز احساس کا منہ بولتا ثبوت اس خطۂ ارضی میں تجدیدِ دین اسلام کی متعدد تحریکیں ہیں، مگر اس تمام تر احساس کے باوجود خطۂ ہند کی تاریخ یہ ثبوت پیش نہیں کرتی کہ مسلمانوں نے جبر اور قوت کے ذریعے یہاں بسنے والی اکثریت کو اپنے مذہب، اپنی زبان اور اپنے تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے پر کبھی مجبور کیا ہو، بلکہ اس کے برعکس انھیں اس چھتری کے تحت پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا موقع دیا گیا اور اجتماعی امور میں معاشرے کے تمام طبقوں کو برابر کے مواقع میسر رہے۔
مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ہندستان کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندومت کے پیرو کاروں کو جب بھی اقتدار ملا، انھوں نے دوسرے مذہب کو نیست و نابود کیا۔ اس کے پیروکاروں کو ملک بدر کیا یا اپنے نظام میں تحلیل کرنے کے لیے ہر ناجائز کوشش کی، یا ان کی انفرادی شناخت کو ختم کرکے دم لیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی ۹۰۰سالہ حکمرانی کے زمانے کا ریکارڈ پوری دنیا کے سامنے موجود ہے، اور ان لوگوں کے پاس بھی موجود ہے جنھیں ’ہندوسیکولرازم‘ میں ’روشن خیالی‘ کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ اس زمانے کا ریکارڈ گواہی دیتا ہے کہ مسلمانوں نے سیاسی غلبے کے باوجود، دوسرے مذاہب کی شناخت کو ختم کرنے یا ان کے پیروکاروں کو اس مناسبت سے کبھی شہری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کی (البتہ متحارب اور جنگ میں مصروف عناصر کا معاملہ دوسرا ہے)۔ یوں سرزمین ہند پر مسلم دور حکومت میں تمام افکار و مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ، باغ کے مختلف اور رنگارنگ پھولوں کی طرح پھلتے پھولتے اور اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔
بعدازاں برطانوی استعمار کے قبضے کے اولین دور میں شعوری طور پر، ہوشیاری اور چابک دستی کے ساتھ، اس نو آبادیاتی طاقت نے کوشش کی کہ یہاں مسلمانوں کو کمزور اور غیر مؤثر بنادیں کیونکہ انھیں اصل چیلنج مسلمانوں سے تھا، جن سے انھوں نے اقتدار چھینا تھا اور اسی مناسبت سے ہندو نفسیاتی طور پر برطانوی استعمار کے حلیف تھے۔ اسی استعمار نے سیاسی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے اپنے ہم نوائوں کی ایک قوت تیار کی جس کے لیے عیسائی مشنری قوتوں، جدید تعلیم کی تحریک اور دوسرے تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کی بالادست قوت کو ہرممکن سہولت مہیا کی۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک مراعات یافتہ طبقہ پیدا کیا، جو دور غلامی میں انگریزوں کا وفادار، اور مسلمانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا رہا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس طبقے نے اپنے اس کردار کو پوری وفاداری سے انجام دے کر ملک کو نظریاتی کش مکش اور تہذیبی انتشار کی دلدل میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہندستان میں چونکہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک چوتھائی تھی اور ہندوغالب اکثریت رکھتے تھے، اس لیے بھی ہندوئوں کو اجتماعی نظام میں بالادستی دی گئی۔ اس پس منظر میں تحریک آزادی اُبھری۔
انگریزوں کے اس دور حکمرانی میں جو پہلی عوامی تحریک زبان زدِ خاص و عام ہوئی، جس کی بازگشت سمندر پار بھی سنی گئی اور جس نے اہلِ ہند میں ایک عوامی شعور بیدار کیا، وہ تحریکِ خلافت تھی۔ اس تحریک کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ تب مسلمان دو قومی نظریے کی روشنی میں اپنے سیاسی حقوق اور نظریاتی و تہذیبی تشخص کو ہندستان کے اجتماعی وجود ہی میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کررہے تھے۔ اس ضمن میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، مسلم شناخت کا تحفظ، حقوق کا حصول، سیاسی جدوجہد میں نظم و ضبط کا احساس اورتقسیم اختیارات بنیادی ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کے قیام ہی نے وفاقی اور صوبائی اختیارات کی بحث کو ایک رخ دیا۔ اس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگریس اختیارات کی مرکزیت چاہتی تھی۔ سائمن کمیشن اور نہرو رپورٹ میں کانگریس کی اس سوچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت قائم شدہ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلمانوں کا جو حشر کیا، وہ ٹھیک اسی طرز عمل کا ایک عکس تھا جسے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوئوں نے جین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں سے روا رکھا تھا۔
یہ تھا منظر نامہ تیسری صورت کے حوالے سے جسے مسلمانوں نے دوسری صورت میں ڈھالتے ہوئے آگے بڑھنے اور پھر نمبر ایک میں تبدیل کرنے کی منزل کا انتخاب کیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد لاہور (جسے ہندوئوں نے قرارداد پاکستان کا نام دیا) دراصل اُس راستے کا سنگ میل ہے، جس راستے کی طرف کانگریس کی تنگ نظری نے مسلمانوں کو دھکیلنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس چیزنے تہذیبی شناخت کے لیے دو قومی نظریے کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اتارا اور دلوں کی دھڑکن بنادیا۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ علامہ محمد اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد (۲۹دسمبر۱۹۳۰ء) کو غور سے دیکھا جائے۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے زمانے میں مسلمان مفکرین، سیاست دان، علماے کرام اور دانش ور ایک گہرے اضطراب کا شکار تھے، پھر حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا ہدف محض برطانوی سامراج سے آزادیِ محض کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ آزادی وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی یہ آزادی دوسرے عقائد رکھنے والوں کے لیے بھی امن و آشتی کی نوید ثابت ہوگی۔
آزادی کے اس تصور کو ایک طاقت ور جذبے کی شکل ۱۹۰۶ء سے ۱۹۳۸ء کے درمیانی عرصے کے معروضی حالات نے دی۔ یہ بات طے ہوگئی کہ ایک تنگ نظر اکثریت سے آزادی حاصل کرکے مسلم ریاست کا قیام لازم ہے۔ علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم کے مابین جو خط کتابت ہوئی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے درمیان آل انڈیا مسلم لیگ نے جو قرار دادیں منظور کیں، اور ان میں جو مسائل نمایاں کیے گئے، اگر دیانت داری سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو صرف ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اپنے دینی، نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی تشخص اور مستقبل کو محفوظ کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے مسلمانوں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔یوں احساس اور سوچ جب عمل میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۸ء تک اپنے ۱۰۰ سے زیادہ بیانات میں: اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب، اسلامی قومیت، اسلامی تشخص، اسلامی قانون، اسلامی کلچر، اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرت کا ذکر کیا ہے۔
قائداعظم نے ہندو قوم پرست لیڈر گاندھی جی (م: ۱۹۴۸ء) کے نام اپنے ۱۰ستمبر ۱۹۴۴ء کے خط میں لکھا تھا:
قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی، فوج داری، عسکری، تعزیری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی غرض یہ کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا اور سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا تک___ یہ قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے۔
اس پس منظر میں ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا اور اس کی بنیاد پر یک سر مختلف استدلال گھڑنا، قائداعظم کے ساتھ سخت ناانصافی اور علمی اعتبار سے سراسر بددیانتی ہے۔ خود قائد اعظم نے باانداز دگر اس تقریر کی تین مرتبہ وضاحت کی۔ ہم یہاں قائداعظم کا ایک بیان اور تین تقاریر پیش کر رہے ہیں۔بیان ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء سے ڈیڑھ ماہ قبل کا ہے اورتقریریں ۱۱؍اگست کے بعد کی ہیں۔
تحریک پاکستان کے زمانے میں کانگریس کے حامی، قیام پاکستان کے مخالف، متحدہ قومیت کے طرف دار اور روشن خیال، مسلمان رہنمائوں میں ایک نمایاں نام خان عبدالغفار خاں [م:۱۹۸۸ء] کا تھا۔ انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے اعلان تقسیم کے بعد اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے، ۲۳ جون کو کہا: ’’جملہ پٹھانوں کے لیے ایک آزاد پٹھان ریاست قائم کی جائے۔ اس ریاست کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف کے مطابق وضع کیا جائے۔ جملہ پٹھانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس محبوب منزل کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور کسی غیر پختون غلبے کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں‘‘۔ اس کے جواب میں ۲۸ جون ۱۹۴۷ء کو نئی دہلی سے قائداعظم نے ایک طویل بیان جاری کیا:
اس سے قبل اس نوع کا پرفریب اور عیارانہ مطالبہ خان برادران یا کسی اور کی جانب سے پیش نہیں کیا گیا کہ سارے پختونوں کے لیے آزاد پٹھان ریاست قائم کی جائے۔ ۔۔ ان کا دوسرا نعرہ دو رنگا ہے، اور اس کا مقصد بھی پٹھانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مجوزہ پٹھانستان کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہوگا، تو ان کا مطلب، مجلس دستور ساز پاکستان، جومسلمانوں کی عظیم اکثریت پر مشتمل ہوگی، پریہ بہتان طرازی کرنا ہے کہ وہ جمہوریت کے اسلامی تصوراتِ مساوات ومعاشرتی انصاف کو نظر انداز کر دے گی… یہ محض ایک عیارانہ حربہ ہے جس کا مقصد شمال مغربی سرحد کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے… خان عبدالغفار خاں جو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان کو اسلامی تصوراتِ مساوات و معاشرتی انصاف پر اجارہ داری حاصل نہیں ہے… یہ اچانک اور نئی قلابازی خالصتاً سیاسی عیاری اور ایک حربہ ہے … خاں برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظر انداز کر دے گی۔ یہ بھی بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں، اچھے اور برے موسموں کا سامنا کرنے کے باوصف، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو حرز جان بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہندومجلس دستور ساز پر اعتبار ہے جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان‘‘۔ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷]
اس بیان میں قائداعظم نے خصوصاً دو چیزوں کو وضاحت سے نمایاں کیا ہے۔ ایک یہ کہ سیکولر، روشن خیال اور اکھنڈ بھارت کے طرف دار پرلے درجے کے موقع پرست ہیں، اور دوسرا یہ کہ اسلام،نسلی اور علاقائی تفریق سے بالاتر ہے۔ اسی لیے انھوں نے کہا کہ آپ پہلے مسلمان اور پھر پٹھان ہیں۔ یہی چیز دو قومی نظریے کی جان ہے۔
۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام میلاد النبیؐ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، قائداعظم نے فرمایا:
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی، حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا… اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم راہبرتھے، آپؐ ایک عظیم قانون عطاکرنے والے تھے،آپؐ ایک عظیم مدبر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے، جنھوں نے حکمرانی بھی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سراہتے… اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے، جو اس کی زندگی اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست اور اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ [ایضاً، ص ۴۰۲-۴۰۳]
اس خطاب میں قائداعظم نے برملا اعلان کیا ہے کہ جو لوگ، اسلامی نظریہ حیات کے حوالے سے پاکستانی مسلمانوں کی یکسوئی کو ابہام و انتشار کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ شر انگیز عناصر ہیں۔ وہ تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی اسی طرح اسلام کے قانون شریعت کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے اس پر زور دے رہے ہیں___فروری۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیو نشری پیغام میں قائداعظم نے فرمایا:
مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا عملی زندگی پر اطلاق ویسے ہی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ۱۳ سو برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں، اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ [ایضاً، ص۴۲۱، ۴۲۲]
امریکی عوام کے نام اس نشریے میں وہ صاف لفظوں میں بتاتے ہیں کہ ۱۳سو برس قبل جس طرح اسلام کے اصولوں کا اطلاق ہوا تھا، ویسا ہی آج بھی ہو سکتا ہے، اور ریاستِ پاکستان کے دستور میں انھی اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا___یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا:
مغربی اقدار، نظریے اور طریقے___ ایک خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کر سکیں گے، اور بنی نوع انسان تک امن کا پیغام پہنچا سکیں گے۔[ایضاً،ص۵۰۱]
اس بیان میں انھوں نے مستحکم لہجے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مغربی دانش ہمارے مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہمیں اپنا معاشی نظام بھی پیش کرنا ہوگا۔
آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ۱۱؍اگست کی تقریرمیں قائداعظم غیر مسلموں کے شہری حقوق کی بات کررہے تھے، نہ کہ تحریک پاکستان کے بنیادی استدلال اور موقف کی نفی کر رہے تھے۔ البتہ پاکستان کے سیکولر دانش وروں اور بھارت کے مصنفین نے قائداعظم کے تمام خطبات کو نظر انداز کرکے فقط اس ایک تقریر کو بنیاد بناکر اس سے بالکل ہی دوسرامفہوم اخذ کرلیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ’روشن خیال‘ دانش وروں کو دیانت کا دامن تھامنا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا چاہیے۔
قیامِ پاکستان کے بعد کو ابتدائی برسوں میں ہمیں ایک نظریاتی چیلنج درپیش تھا، آج پھر اس مسئلے کو زیادہ شدت کے ساتھ ابہام کا شکار کیا جا رہا ہے۔ کل اس کے علم بردار، خود پاکستان میں چند سیکولر اور اباحیت پسند لوگ تھے، اور آج بھارت سے لے کر امریکا تک اس منفی پروپیگنڈے کے پشتی بان حضرات کی ایک فوج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے نشانِ منزل پر نظریں جما کر اس منزل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
کہا جاتا ہے کہ اس نظریاتی بحث میں پڑنے سے بھلا کون سا مسئلہ حل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرلابی نے اسی دینی اور نظریاتی رشتے کو کمزور بنانے کے لیے وہ سارا جال بُنا جس کے نتیجے میں، پاکستان کی نظریاتی اساس سے ہاتھ دھونا کوئی بڑا خسارہ نہیں سمجھا جارہا۔ حالانکہ سیانا دشمن اسی جڑ پر تیشہ چلا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پاکستان کے دینی اور آئینی رشتے کو نشانہ بناکر توڑ پھوڑ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک، اس مملکت ِ خدادا د کی تخریب ممکن نہیں ہوگی۔ اندریں حالات تمام اہلِ وطن کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس پہچان اور رشتے کو سمجھیں، اس کی حفاظت کریں اور اس کی بنیادوں پر اپنے سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی مستقبل کی تعمیر کریں۔
یاد رہے کہ آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دو قومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے۔ امریکا کی یلغار ،داخلی انتشار بلوچستان کا قضیہ، مہنگائی کا عفریت اور سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران، ان سب کا علاج اسی سے ممکن ہے۔ نیت ٹھیک نہ ہو تو اسے محض ایک نظری بات کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے لیکن اگر نیت درست ہو تو اسلام کی یہ رہنمائی اور بانیانِ پاکستان علامہ اقبال و قائداعظم کی یہ پکار الجھی راہوں کو صراط مستقیم بنا دے گی۔
عدلیہ اور اس کی آزادی پر جنرل پرویز مشرف نے ایک کاری ضرب ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو لگائی تھی جس کا مقصد اپنے آمرانہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے عدلیہ کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے آنا تھا۔ یہی چال فوجی آمر کے اقتدار کے زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔
ماضی میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے کچھ اقدامات پر ذہنی تحفظات کے باوجود، ۹مارچ کو جس جرأت، استقامت اور حکمت سے انھوں نے آمروقت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور سارے دبائو کے باوجود اپنی، اعلیٰ عدالت کی عزت اور دستور کے احترام کے تحفظ کی جدوجہد کا آغاز کیا، اس نے انھیں قوم کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔ وکلا برادری نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، سول سوسائٹی اور سیاسی و دینی جماعتوں نے اس تحریک کی بھرپور معاونت کی اور چار مہینے کی جدوجہد کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس افتخار چودھری اپنے دستوری منصب پر بحال ہوگئے۔ لیکن ہٹ دھرم آمروقت کی آنکھوں میں یہ بحالی کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ عدالتِ عظمیٰ اس کے وردی میں نئے صدارتی انتخاب اور بدنامِ زمانہ مفاہمتی آرڈی ننس (NRO) کے بارے میں دستور کے مطابق اقدام کرنے کا عندیہ رکھتی ہے تو اس پر جنون کی کیفیت طاری ہوگئی۔ تب اس نے دوسرا اور نہایت مجرمانہ وار ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو ایمرجنسی پلس (emergency plus) کے نام پر کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے دستورِ پاکستان کو دوسری بار معطل کرکے ایک نئے پی سی او (PCO) کا نفاذ کیا۔ اطاعت اور تابع داری کے لیے عدلیہ کے لیے نیا حلف اٹھانا لازم کیا۔ جس کے نتیجے کے طور پر نہ صرف چیف جسٹس افتخار چودھری کو فارغ کر دیا گیا بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ۶۵ ججوں کو نیا حلف نہ لینے کی پاداش میں برطرف کر دیا گیا۔ ان کو اور ان کے اہلِ خانہ کو گھروں میں نظربند کر کے ایک تابع مہمل شخص عبدالحمید ڈوگر کو عدالت کا سربراہ مقرر کیا۔
۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے ۱۵ دسمبر ۲۰۰۷ء تک یہ نئی طرز کا مارشل لا نافذ رہا، جسے ڈوگر عدالت نے سندجواز عطاکر دی۔ اس وقت کی کرم خوردہ پارلیمنٹ نے جو اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ایما پر ۳ نومبر کی ایمرجنسی کو قرارداد کے ذریعے سندجواز دینے کی بے ڈھنگی (outlandish) حرکت بھی کرڈالی جو اس پارلیمنٹ کی طرف سے قوم کے لیے الوداعی ٹھوکر تھی۔ باضمیر ججوں، پوری وکلا برادری، تمام اہم سیاسی اور دینی جماعتوں نے دستور کو پارہ پارہ کرنے کی اس مذموم کوشش کی بھرپور مذمت کی۔ انھوں نے جنرل مشرف سے نجات اور عدلیہ کی آزادی اور اپنی اصل شکل میں بحالی کی ملک گیر مہم چلائی، جس کے ثمرات ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج کی شکل میں رونما ہوئے۔ قوم نے جنرل مشرف اور اس کے حواریوں کورد کر دیا اور چیف جسٹس افتخار چودھری اور دستور اور عدلیہ کی بحالی کا وعدہ کرنے والوں کو تبدیلی کا اختیار عطا کیا۔
یہ ایک دل خراش حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں چند ملکی قوتیں اور بیرونی طاقتیں عوام کے مینڈیٹ کو ناکام کرنے میں مصروف رہیں اور اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کی قیادت اور خصوصیت سے اس کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کا رویہ بہت ہی مشکوک رہا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے انتخاب کے موقع پر ہی ججوں کی رہائی کا اعلان کیا، جس سے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ البتہ ججوں کی بحالی ، مشرف کے محاسبے اور دستور کو اس کی ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء سے پہلے کی اصل شکل میں بحال کرنے کے دعووں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انھیں محض سیاسی تسلی کے لیے کیے گئے وعدے قرار دے کر فرار کا راستہ اختیار کیا۔ زرداری اور گیلانی کی حکومت نے نہ صرف یہ کہ ڈوگر عدالت کو سینے سے لگایا بلکہ بہت بڑی تعداد میں نئے ججوں کا تقرر کردیا۔ یوں عدلیہ کی آزادی اور بحالی کا خواب چکنا چور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان حالات میں وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے، خصوصیت سے جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بالآخر ۱۶مارچ ۲۰۰۹ء کے فیصلہ کن معرکے میں ججوں، وکلا برادری اور عوام کی تحریک کامیاب رہی اور حکومت کو عدلیہ کی بحالی کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کو عدالتِ عظمیٰ کے ۱۴ رکنی بنچ کا جو اہم فیصلہ آیا ہے، وہ اس مہم کا ثمرہ اور عدلیہ کی آزادی کو دستوری، قانونی اور سیاسی تحفظ فراہم کرنے کا قانونی چارٹر ہے۔ تفصیلی فیصلہ ابھی آنے والا ہے، لیکن مختصر فیصلہ بھی ایک تاریخی دستاویز ہے، جس نے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کیے جانے والے ایمرجنسی کے نام پر نافذکردہ مارشل لا اور اس کے تحت کیے جانے والے دستوری، قانونی اور انتظامی فیصلوں اور اقدامات کو غیردستوری، غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا ہے۔ اس طرح اس فیصلے نے دستور سے بغاوت اور انحراف کے ایک تاریک باب کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
یہ فیصلہ ہماری دستوری، قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے ہراعتبار سے تاریخی، انقلابی اور معیاری کہنے کے بارے میں تو دو آرا ہوسکتی ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی حد تک، اس فیصلے نے ماضی کے کچھ عدالتی فیصلوں اور غلط روایات کو دوٹوک انداز میں رد کر دیا ہے۔ اس بات تک کو خاطر میں نہیں لایا گیا کہ اس سے خود اعلیٰ عدلیہ کے ۱۰۶ جج متاثر ہوں گے، اور جن میں ایک محترم جج وہ بھی ہیں، جو خود اس ۱۴ رکنی بنچ کے ممبر ہیں۔ لیکن اصول کی بالادستی اور دستور کے الفاظ اور حقیقی مفہوم کے تحفظ اور تعبیر کی صحت کے لیے اس بنچ نے متفقہ طور پر دستور کی صحیح تشریح کردی ہے۔ اس طرح ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے ماوراے آئینِ اقدام اور اس کے تحت قائم ہونے والے عدالتی انتظام بشمول اس وقت کے چیف جسٹس کے تقرر کو خلافِ دستور و قانون کالعدم (null and void) قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس حمود الرحمن کے ۱۹۷۳ء کے عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب کے فیصلے کے بعد، یہ پہلا فیصلہ ہے جس نے دستور اور عدلیہ پر فوجی قیادت کے شب خون مارنے کے اقدام کو غلط قرار دیا ہے، اور ’نظریۂ ضرورت‘ کو کم از کم جزوی حد تک رد کر دیا ہے۔ اس فیصلے میں جو اہم اصول طے کردیے گئے ہیں، وہ بہت اہم اور دُور رس اثرات کے حامل ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان اصولوں کو صاف لفظوں میں بیان کر دیں:
۱- دستورِ پاکستان، مملکت کی بنیاد اور تمام اداروں اور کارفرما قوتوں کے لیے ضابطۂ کار متعین کرتا ہے، جسے کسی صورت میں بھی توڑنے، معطل کرنے اور غیرمؤثر بنانے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ حکومتِ وقت کی کارکردگی کو بہانہ بناکر کسی کو دستور سے انحراف یا اس کے اِبطال کا حق نہیں اور جو ایسا کرے، اس کی حیثیت دستور کے باغی کی ہے۔
۲- ماضی میں دستور کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ عدالتیں اور پارلیمنٹ دستور پر کیے جانے والے ان قاتلانہ حملوں کو جواز دینے کی مذموم حرکت کرتے رہے ہیں۔ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو بھی ایک غیردستوری عدالت نے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنے اولیں لمحے (ab initio) ہی سے غلط اور غیرقانونی تھی اور عدالت عالیہ کے ۱۴ رکنی بنچ نے اسے اس کی مکمل شکل میں باطل (void) قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دستور میں ترمیم کا حق کسی چیف آف آرمی اسٹاف کو نہیں اور جو کچھ ۳نومبر کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف نے کیا، وہ غلط اور قانون کی سند سے عاری تھا۔
۳- ۳نومبر کے اقدام کے غیرقانونی ہونے کا یہ فطری اور لازمی تقاضا ہے کہ جن ججوں کو اس کے تحت فارغ کیا گیا، وہ غلط تھا اور وہ اس جبری معزولی کے تمام زمانے میں دستور اور قانون کے مطابق جج تھے۔ اسی طرح چیف جسٹس کا عہدہ کبھی خالی نہیں ہوا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت چیف جسٹس تقرر غیرقانونی تھا۔ اس لیے ان کے مشورے سے اعلیٰ عدلیہ کے جتنے جج صدر نے مقرر کیے، خواہ وہ مشرف کے دور میں ہوں یا صدر زرداری کے زمانے میں، وہ تمام تقرر غلط اور غیرقانونی تھے اور اس فیصلے کی رُو سے وہ سب جج فارغ ہوگئے یا اپنی اس پوزیشن پر لوٹ گئے جس پر وہ موجودہ تقرر سے پہلے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ جو ۳نومبر کے اختیارات کے تحت آرڈی ننس کے ذریعے قائم کی گئی تھی، وہ بھی غیرقانونی تھی اور اسے فی الفور ختم کر دیا گیا ہے۔
۴- اسی طرح اس فیصلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ زرداری گیلانی حکومت نے ۲۰۰۸ء کے فنانس بل کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں جو اضافہ کیا، وہ بھی غلط تھا۔ فنانس بل کے ذریعے تنخواہوں کے لیے مالی سہولت تو بہم پہنچائی جاسکتی ہے، مگر ججوں کی تعداد کے قانون میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اس فیصلے کے بڑے اہم اور دُور رس اثرات ہوں گے، اس لیے کہ گذشتہ ۱۰،۱۵سال سے حکومتِ وقت فنانس بل کے ذریعے درجنوں قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرتی رہی ہے، جس پر سینیٹ میں بار بار اعتراض بھی اٹھایا جاتا رہا ہے اور سیاسی تجزیہ نگار بھی اس پر تنقید کرتے رہے ہیں، مگر ہر حکومت نے اس روش کو جاری رکھا ہے۔ اب اس فیصلے کی رُو سے اس دروازے کو بند کردیا گیا ہے۔
۵- اس فیصلے کے ذریعے بڑے واضح انداز میں یہ اصول بھی طے کر دیا گیا ہے کہ جج بھی اسی طرح دستور اور قانون کے پابند ہیں جس طرح باقی تمام ادارے اور افراد۔ بلاشبہہ قانون کی تعبیر کے باب میں ان کی بات حرفِ آخر ہے، لیکن ان کا تقرر، طریق ترقی و تنزل، دستور اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کو بھی اسی طرح قانون کی گرفت میں آنا چاہیے، جس طرح باقی تمام شہری آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اعلیٰ عدلیہ کے ۱۰۶ ججوں پر اس فیصلے کی ضرب پڑی ہے اور یہ ایک اچھی مثال ہے۔
۶- گو عدالت کو دستور میں ترمیم کا اختیار نہیں لیکن عدالت دستور میں ترمیم کی ضرورت کی نشان دہی کرسکتی ہے اور ماضی میں بھی کرتی رہی ہے۔ اس فیصلے میں دستور توڑنے والوں کے نظام کے تحت ججوں کے نئے حلف لینے کی روایت پر گرفت کی گئی ہے اور یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ اگر کوئی جج دستور کے شیڈول میں دیے ہوئے حلف سے ہٹ کر کوئی حلف کسی پی سی او کے تحت لیتا ہے تو یہ ایک عدالتی بداخلاقی (judicial misconduct) ہوگی اور ایسے جج کو عدلیہ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے دستور کی دفعہ ۲۰۹ میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔
۷- سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے دستور میں ان ترامیم کو بھی رد کر دیا ہے جو جنرل پرویز مشرف نے ۳نومبر کے اقدام کے تحت کی تھیں۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام اقدام اور آرڈی ننس جنھیں دستور کے آرٹیکل AAA-۲۲۷ کی شکل میں تحفظ دیا گیا تھا، وہ سب غیرمؤثر ہوگئے ہیں۔ البتہ عدالت نے ان کو فوراً کالعدم قرار دینے کے بجاے دستور میں مرکزی اور صوبائی آرڈی ننس کے لیے جو مدت مقرر کی ہے (یعنی مرکزی آرڈی ننس کے لیے ۴ مہینے اور صوبائی کے لیے ۳مہینے)، وہ عدالت کے فیصلے کی تاریخ سے دے دی ہے تاکہ مقننہ اس عرصے میں ردوقبول کے عمل کے ذریعے ان کی قسمت کا فیصلہ کرسکے۔ اس کے لیے عدالت نے جس اصول کا سہارا لیا ہے، وہ دستور میں طے کردہ تقسیمِ اختیارات کا نظام ہے۔ اس طرح بظاہر عدالت نے یہ ذمہ داری اپنے اُوپر سے منتقل کرکے پارلیمنٹ کے کندھوں پر ڈال دی ہے، حالانکہ ۳نومبر کے اقدام کو اس کی زندگی کے اولیں لمحے سے کالعدم اور غیرقانونی قرار دینے کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ ان آرڈی ننسوں کو جن پر تین،چار مہینے نہیں، ۱۸ مہینے گزر چکے ہیں، کالعدم قرار دیا جاتا۔ لیکن یہاں عدالت نے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لیا ہے اور نظام کو بچانے کی خواہش کی بنیاد پر انھیں اور ایسے بہت سے انتظامی اقدامات کو جن میں صدرزرداری کا حلف بھی شامل ہے سندِجواز دے دی ہے جس پر کچھ حلقوں نے بجاطور پر تنقید کی ہے۔
ہماری نگاہ میں اس فیصلے کے قانونی مضمرات بے حد اہم ہیں اور ملک کو دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف لاتے ہیں۔ اس کا کردار بہت مثبت ہوسکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اس فیصلے کے چند اقتباسات یہاں دے دیں، تاکہ عدالت کی سوچ اسی کے الفاظ میں سب کے سامنے آسکے۔ عدالت کی یہ تصریحات (observations) ہراعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ ہم آگے جو تجزیہ پیش کرنا چاہتے ہیں، اس کی ضرورت اور اہمیت کو بھی ان کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔
۸- فیصلے کے پیراگراف ۹ اور ۱۰ میں دستور پر فوج کی قیادت کی دست درازیوں کا جس انداز میں ذکر کیا گیا ہے، وہ اس لیے اہم ہے کہ ان تبدیلیوں کو اپنے اپنے دور میں عدالتوں نے جواز (validation ) دیا ہے۔ لیکن جو زبان ان حصوں میں استعمال کی گئی ہے، وہ ماضی سے بہت مختلف ہے۔ البتہ جیساکہ ہم بعد میں عرض کریں گے، عدالت نے اس تجزیے کے قانونی تقاضے اپنے فیصلے میں پورے نہیں کیے، جس کی تشنگی ہرصاحبِ نظر محسوس کرے گا:
۹- تقسیم کے بعد آزادی کے ۶۰ برسوں میں عوام کی بدقسمتی سے مقننہ کے بنائے ہوئے دساتیر کو کئی بار منسوخ کیا گیا اور عوام کی حکمرانی کو نشوونما پانے اور ملک کی سیاست میں گہری جڑیں پکڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے قبل متعدد بار دستور منسوخ کیا گیا یا معطل کیا گیا اور حکمرانی کے جمہوری نظام کو ختم کر دیا گیا۔ پہلی دفعہ ۱۹۵۶ء کا دستور ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو منسوخ کیا گیا اور اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کیا، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو برخواست کردیا، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی تحلیل کر دی، تمام سیاسی پارٹیوں کو ختم کر دیا اور اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ چند ہی دن بعد سکندر مرزا کی جگہ موخرالذکر نے لے لی۔ ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو پھر اس وقت کے آرمی کے سربراہ جنرل آغا محمد یحییٰ خاں نے ۱۹۶۲ء کا دستور منسوخ کر دیا اور اپنے اعلان (پی ایل ڈی ۱۹۶۹ء مرکزی قوانین ۴۲) کے ذریعے مارشل لا لگا دیا جس کے بعد عارضی دستوری حکم نامہ (پی سی او) نافذ کیا گیا (گزٹ آف پاکستان غیرمعمولی، ۴؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔ ۵جولائی ۱۹۷۷ء کو ایک دفعہ پھر اس وقت کے آرمی کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ انھوں نے مارشل لا حکم نامہ (پی ایل ڈی ۱۹۶۹ء، مرکزی قوانین ۳۲۶) کے ذریعے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کر دی اور ۱۹۷۳ء کے دستور کو معطل کردیا۔ جس کے بعد لاز آرڈر ۱۹۷۷ء نافذ کیا گیا۔ جب یہ دستور بحال ہوا تو بدنامِ زمانہ ۸ویں ترمیم کے ذریعے مسخ شدہ حالت میں بحال ہوا۔
۱۰- بعد میں، جاری جمہوری نظام پر ایک اور حملہ کیا گیا۔ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے، جو اب ریٹائرڈ ہیں، ایک دفعہ پھر دستور کو معطل کردیا اور پورا ملک مسلح افواج کے کنٹرول میں لے آیا گیا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، اور صوبائی اسمبلیاں معطل کر دی گئیں۔ ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بھی معطل کردیے گئے اور یہ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم، وفاقی وزرا، پارلیمانی سیکرٹری، صوبائی گورنر، صوبائی وزراے اعلیٰ اور ان کے مشیر اپنے منصب پر برقرار نہیں رہے۔ اس کے بعد پی سی او اور ججوں کا حلف نامہ ۲۰۰۰ جاری کیا گیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے آپ کو چیف ایگزیکٹو قرار دے دیا اور نئے نظام کے تحت ملک پر حکومت کرنا شروع کر دی۔ بعد میں انھوں نے صدر کے منصب پر بھی قبضہ کرلیا اور آنے والے برسوں میں دستور کو ۱۷ویں ترمیم کے ساتھ بحال کیا۔
۸ (vii ) حیرت ہے کہ ماضی میں اس وقت کی عدالتوں نے مہم جوؤں کو نوازنے کے لیے انھیں دستور میں ترمیم کا اختیار دیا جو دراصل ان کے کھلے اور چھپے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے تھا، لیکن اس دفعہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے پی سی او کے ذریعے یہ اختیارات خود سنبھال لیے اور اپنے مفاد میں متعدد غیردستوری ترامیم کیں۔
اس کے بعد عدالت نے ۳نومبر کے اقدام کی تفصیلات بیان کی ہیں اور اپنے فیصلے کے اطلاقی پہلوئوں میں توجہ کو صرف ۳نومبر کی ایمرجنسی تک محدود کرلیا ہے۔ حالانکہ اس بات کی ضرورت تھی کہ عدالت اپنے نظرثانی (review) کے اختیارات کا بجا طور پر استعمال کرتے ہوئے ماضی میں عدالتوں کے فراہم کردہ جواز اور آمروں کے دستور میں ترمیم کے حق پر واضح فیصلہ دیتی، تاکہ کم از کم دستور اور اس کی تعبیر کے باب میں دستور پر فوجی قیادتوں کی دست درازیوں کا دروازہ حتمی طور پر بند کیا جاتا۔نہ معلوم کس مصلحت کی بنا پر عدالت نے اپنی باقی توجہ صرف ۳نومبر پر مرکوز رکھی اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کے اقدام اور آٹھویں اور سترھویں ترمیم کو قابلِ مذمت (obnoxious) قرار دینے کے باوجود ’نظریۂ ضرورت‘ کے اس قاتلانہ کردار کو ہمیشہ کے لیے دفن نہیں کیا۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ عدالت صاف الفاظ میں یہ وضاحت کرتی کہ:
ا- دستور کو معطل کرنے، منسوخ کرنے یا غیرمؤثر کرنے کی ہر کوشش بغاوت ہے اور دستور کی دفعہ ۶ کے تحت آتی ہے۔ ایسا کرنے والے اور ایسا کرنے والے کی معاونت کرنے والے تمام افراد ایک سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔
ب- اگرچہ یہ بات تو فیصلے میں آگئی ہے کہ کسی جج کو پی سی او کے تحت حلف نہیں لینا چاہیے، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کسی عدالت کو پی سی او کو سندِجواز دینے کا اختیار نہیں۔ اور جو ایسا کرے گا، وہ بھی دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔
ج- تیسری بات جسے دو ٹوک انداز میں عدالت کے فیصلے میں آنا چاہیے تھا، وہ یہ ہے کہ دستور میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے جو صرف دستور میں دیے ہوئے طریقے کے مطابق کوئی ترمیم کرسکتی ہے۔ کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ خود دستور میں ترمیم کرے یا کسی کو ترمیم کرنے کا اختیار دے یا کسی غاصب کی طے کردہ ترمیم کو دستور کا حصہ تصور کرے۔
یہ تین بنیادی اصول اس فیصلے میں آنا چاہییں تھے، لیکن نگاہیں ان کو تلاش کرتی ہیں، ناکام ہوکر لوٹ آتی ہیں۔
۸- عدالت نے بجاطور پر یہ فیصلہ دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا اقدام قطعاً غیرقانونی تھا، ملاحظہ ہو پیراگراف ۱۳ (۱):
(i) ۱۳- جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایمرجنسی پلس اور پی سی او کے پردے میں خود حاصل کردہ اختیارات کے تحت دستور میں ترامیم کیں جو سب غیردستوری ہیں، بغیر اختیار کے ہیں، بغیر کسی قانونی بنیاد کے ہیں اور اس لیے کسی قانونی نتائج کے بغیر ہیں۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نتیجے کے باوجود اور اس اقدام کے تحت عدالتوں کے نظام میں تقرریوں اور ترقیوں کے اقدام کو کالعدم کرنے کے باوجود، غیردستوری عدالتوں کے بہت سے اقدامات پر اور غیردستوری عدالتوں کے ہاتھوں حلف لینے والی سیاسی تقرریوں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی، حالانکہ عدالت کے لیے یہ موقع تھا کہ ایسے بیش تر اقدام کو ’نظرثانی‘ (review ) اور ’تجدید‘ (renewal) سے مشروط قرار دیتی، تاکہ ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کیا جاسکتا۔ ایسے معاملات میں عدالت نے بدنامِ زمانہ ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لیا ہے، حالانکہ سیاسی نظام کو تہ و بالا کیے بغیر، ایک متعین مدت کے اندر ایسے تمام قوانین، ترجیحات، احکامات کا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے اور تمام تقرریوں کا نیا حلف ہوسکتا ہے، جو دستور کے مطابق ہو۔ اس سے نظام کے پٹڑی سے اُترنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس طرح ایک غیرقانونی عمل کو ’قانونی‘ بنانے کی روایت ختم کی جاسکتی تھی۔ لیکن عدالت نے اسی نظریۂ ضرورت کا سہارا لیا ہے، خواہ جزوی طور پر ہی سہی:
۲۲ (ii) یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو ہرگز خالی نہیں ہوا اور اس کے نتیجے میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت چیف جسٹس آف پاکستان تقرر غیردستوری تھا، ابتدا ہی سے بے بنیاد تھا اور کسی قانونی اثر کے بغیر تھا۔
آگے جو کچھ کہا جائے اس کے باوجود جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت جسٹس آف پاکستان مذکورہ غیردستوری تقرر ان کے کسی انتظامی یا مالی اقدامات کے جواز کو متاثر نہیں کرے گا۔ اور نہ کسی حلف کو جو اس منصب کے معمول کی کارروائی کے دوران ان کے سامنے لیا گیا ہو۔
۲۲ (v) سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بنچ نے فیصلے کیے ہوں، حکم نامے جاری کیے ہوں یا decrees منظر کیے ہوں، جو مذکورہ ججوں پر مشتمل ہوں یا وہ ان میں شامل ہوں، ان کو ملک اسد علی کیس پی ایل ڈی ۱۹۹۸، ایس سی ۱۶۱ میں طے شدہ دستور کے مطابق تحفظ دیا جا رہا ہے۔
اس اہم فیصلے کے یہ تضادات نگاہوں کو بہت کھٹکتے ہیں۔ اگر ۱۰۶ ججوں کو فارغ کرنے سے پاکستان میں عدل کا نظام تہ و بالا نہیں ہوا تو چند سیاسی تبدیلیوں، عہدوں کے نئے حلف اور قوانین یا اقدامات کو ایک متعین مدت کے اندر اندر دوبارہ روبہ عمل لانے اور تصحیح (rectify) کرنے سے کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا۔ اگر صوبہ بلوچستان کی عدالت کے سارے جج اس فیصلے سے متاثر ہوئے تو کیا غضب ہوگیا۔ ۴۸گھنٹے میں نئی تقرریاں ہوگئیں اور عدالتی عمل کی گاڑی چلنے لگی۔ جب تک اس باب میں سمجھوتے کی روش کو ترک نہیں کیا جائے گا، صحیح مثال قائم نہیں ہوسکے گی۔ اس فیصلے کی نظریاتی اور قانونی بنیادوں اور فیصلے کی زبان اور تجزیے اور تحلیل کے باوجود اسی پرانے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لینا، یقینا اضطراب کا باعث ہے۔ بہت سے اقدامات کا ذکر کر کے جو ۳نومبر والے اختیارات کے تحت ہوئے ہیں، سیاسی نظام کے تحفظ کے نام پر ضرورت کے تحت انھیں جواز دینا تشویش ناک ہے:
(vi) ان اقدامات کو زمانۂ قدیم کے اصول Salius Populi Est Surmalex (جس کا اظہار پی ایل ڈی ۱۹۷۲ء ایس سی ۱۳۹ میں کیا گیا ہے) کے مطابق مکمل تحفظ حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے کے ان مثبت اور قابلِ غور پہلوئوں کی نشان دہی کے بعد اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس اہم فیصلے کے بعد کرنے کے بڑے بڑے کام کیا ہیں:
۱- عدالت کا تفصیلی فیصلہ ابھی آنا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس میں جس حد تک بھی ممکن ہو، جن تضادات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یا جن پہلوئوں کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے، ان کا اس میں احاطہ کرلیا جائے۔ اس طرح یہ فیصلہ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنے گا اور آیندہ کے لیے طالع آزمائوں اور ان کے اعوان و انصار کا راستہ روکنے کا کردار بھی ادا کرسکے گا۔
۲- عدلیہ میں نئی تقرریوں کو خالص اہلیت کی بنیادوں پر کرنے اور حکومتِ وقت کی سیاسی دراندازیوں کا دروازہ بند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں عدلیہ اور انتظامیہ میں ’اختیارات کی مکمل علیحدگی‘ کے اصول اور ضابطوں کی پابندی کی جائے، وہیں ذاتی پسند و ناپسند کا دروازہ بھی بند کردیا جائے۔ اس لیے پارلیمنٹ کو ججوں کی تقرری کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر طے کرنا چاہیے اور اس میں حکومت اور حزبِ اختلا ف کو مل کر ایک متفقہ معروضی اور شفاف طریق کار طے کر دینا چاہیے۔ یہ کام فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
۳- وہ تمام قوانین اور آرڈی ننس جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے پورے دورِ حکومت میں نافذ ہوئے ہیں، ان کا فوری طور پر جائزہ لیا جائے۔ جن کو ختم کرنا ضروری ہو، (جیسے شیڈول ۶ کے تحت تحفظ یافتہ قوانین یا این آر او وغیرہ) ان کو فی الفور ختم کیا جائے۔ جن کو ترمیم کے ذریعے دستور اور جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہو، ان کے بارے میں فوری نئی قانون سازی کی جائے۔ اصل مشکل یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے ۱۸ مہینے گزر جانے کے باوجود دستور کے بگاڑ کی اصلاح اور ضروری قانون سازی کے باب میں مجرمانہ غفلت برتی ہے، اور اس کی اولین ذمہ داری پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں پر آتی ہے۔ اگرچہ سترھویں ترمیم کو ختم کرنے کا غلغلہ ہے، مگر ۱۸مہینے میں اس منزل کی جانب ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا، حالانکہ یہ ’میثاق جمہوریت‘ (COD) اور ۷جولائی ۲۰۰۷ء میں لندن کے مشترکہ اعلامیے کا حصہ ہے۔ تمام بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں اس کا وعدہ بھی کیا ہے اور صدرزرداری، پارلیمنٹ سے اپنے دونوں خطابات میں یہ تحفہ دینے کا اعلان بھی کرچکے ہیں مگر ان کے بارے میں تو یہ کہاجاسکتا ہے ’’وہ وعدہ ہی کیا جسے وہ وفا کردیں!‘‘
۴- میڈیا اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اگر حکومت ان بنیادی کاموں کے سلسلے میں غفلت بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے، تو وہ ان امور کو اپنی توجہ کا محور بنائیں اور راے عامہ کو ہموار بلکہ بیدار کریں۔ پارلیمنٹ میں پرائیویٹ ممبربل کی شکل میں اہم ایشو پر متبادل قوانین کو پیش کریں۔ ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ دستور، آزادی اور حقوق کا تحفظ، جدوجہد اور قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ۰۹-۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے آئینے میں سیاسی جدوجہد کی اہمیت کا نقشہ دیکھا جاسکتا ہے۔ آیندہ کے لیے دستور اور جمہوری نظام کو فوجی یا دوسرے طالع آزمائوں کی یورش سے بچانا اسی وقت ممکن ہے، جب پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرے اور غاصبوں کے مقابلے کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ جن حالات سے آج پاکستان دوچار ہے، ان کا تقاضا ہے کہ جس طرح عوام نے قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد کی اسی طرح پاکستان کی آزادی، خودمختاری، اسلامی شناخت اور انصاف پر مبنی فلاحی اور جمہوری نظام کے قیام، دستور کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کے قیام اور آزاد عدلیہ کی حفاظت کے لیے بھرپور جدوجہد کریں۔
جہدِ پیہم اور مسلسل قربانیوں کے بغیر علامہ اقبال اور قائداعظم کے تصور اور وژن کے مطابق معاشرے اور ریاست کی تعمیر ناممکن ہے۔ اقبال نے یہی پیغام ہمیں دیا ہے کہ ؎
یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
۵- ان تمام دستوری، پارلیمانی، عدالتی اور عوامی کاموں کے ساتھ ساتھ جو سب سے اہم اقدام ضروری ہے، وہ احتساب ہے۔ عوام اور عدلیہ دونوں نے دوٹوک انداز میں یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا اقتدار غاصبانہ اور ناجائزتھا۔ جنرل موصوف نے دستور کو توڑ کر دفعہ۶ کے تحت بغاوت (treason) کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے دورِاقتدار میں پاکستان کی آزادی، نظریاتی تشخص، جمہوری عمل، عوام کے حقوق، صوبوں کے مفادات پامال ہوئے ہیں۔ پھر فوج اور عوام میں دُوری ہی نہیں تصادم کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے۔ ملک کو عملاً امریکا کی ایک کالونی بنادیا گیا ہے۔ اس افسوس ناک منظرنامے کا تقاضا ہے کہ دستور اور قانون کے تحت جنرل مشرف کا بھرپور محاسبہ ہو، اسے صفائی کا پورا موقع دیا جائے۔ جن جرائم کا اس نے ارتکاب کیا ہے، اس کے بعد محض این آر او یا مغربی اقوام کے دبائو میں اسے قانون کی گرفت سے باہر رکھنا اس قوم پر ظلم اور مستقبل کے طالع آزمائوں کے لیے غلط پیغام ہوگا۔ ہم انتقام کو گناہ سمجھتے ہیں، لیکن انصاف کا قیام دین اور دنیا دونوں کا تقاضا ہے۔ صدر زرداری صاحب توجنرل پرویز مشرف کو تحفظ دے ہی رہے تھے، لیکن اب وزیراعظم گیلانی نے بھی عدالت کے فیصلے پر اولیں ردعمل میں اُلٹی زقند لگائی ہے۔ اس بات کا اعتراف کرنے کے بعد کہ ’’عدالت نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، اب دستور کے مطابق پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہے‘‘، اب ایک طرف تو فرما رہے ہیں کہ ’’میں نے معاف کیا‘‘ (جیسے مشرف کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی رنجش تھی جسے سبک سر بن کر وہ معاف کر رہے ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ مشرف آپ کا ذاتی نہیں، قومی مجرم اور غدار ہے۔ اس نے حدوداللہ تو پامال کیے ہی، بندوں کی حق تلفیاں بھی کیں۔ آپ حقوق العباد کے ضمن میں کیسے معافی دے سکتے ہیں)، اور دوسری طرف ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا راگ الاپا جا رہا ہے جو سیاسی شاعری ہے اور محض ایک فریب کاری اور مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
ایک اور کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے، جس میں یہ نیا فلسفہ گھڑ کے بیان کیا جا رہا ہے کہ: ’’پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد ہی کے ذریعے مشرف کا محاسبہ ہوسکتا ہے‘‘۔ یہ بھی ایک فریب کاری ہے۔ ۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۴ء کے بغاوت ایکٹ کی رُو سے دفعہ ۶ کے تحت مقدمہ چلانے کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر ہے، اور صرف اس کے ایما پر اس دفعہ کے تحت مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے۔ یہ قانون اپنی جگہ اس اعتبار سے بہت ناقص ہے۔ غداری اور بغاوت پوری قوم کے خلاف جرم ہے، اور ہر فرد اس کی زد میں آتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بار بار یہ آواز اٹھائی گئی ہے کہ کسی بھی شہری کو اس قانون کے تحت مقدمہ دائر کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے، لیکن موجودہ قانونی پوزیشن یہی ہے کہ صرف مرکزی حکومت کی مقرر کردہ اہل اتھارٹی ہی اس جرم کے مرتکب فرد کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔ اس میں پارلیمنٹ یا کسی اور کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے پوری قوم کو یک زبان ہوکر مشرف پر دفعہ ۶ کے تحت مقدمے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ قوم کو اس غاصب کے مقابلے میں انصاف دلائے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت عوامی دبائو کے بغیر یہ اقدام نہیں اٹھائے گی۔ اگر آیندہ طالع آزماؤں کا دروازہ بند کرنا ہے تو اس مجرم کو جسے مغربی اقوام پناہ دے رہی ہیں، کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے اور یہ آیندہ کے لیے ملک اور دستور کی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔
۶- ویسے تو جتنے قوانین اور آرڈی ننس مشرف دور میں آئے ہیں، ان سب کے جائزے کی ضرورت ہے لیکن سب سے اہم آرڈی ننس جسے منسوخ کرنا فوری ضرورت ہے، وہ این آراو ہے۔ یہ قانون شرم ناک تو ہے ہی، لیکن اس کے سایے تلے مجرموں اور قوم کی دولت لوٹنے اور معصوم انسانوں کو قتل کرنے اور غائب کرنے کے مرتکب افراد نے قانون کی گرفت سے خلاصی حاصل کر لی ہے اور لوٹ مار کے نئے کاروبار کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ ایک قومی جرم ہے۔ احتساب کے بغیر کوئی نظام ٹھیک ٹھیک نہیں چل سکتا۔
بدعنوانی پورے ملک کو گھن کی طرح کھائے جارہی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ۲۰۰۹ء کے جائزے کے مطابق پاکستان کی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ۱۵ فی صد کرپشن کی وجہ سے چند لٹیروں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے اور مشرف کے دورِحکومت میں ملک میں کرپشن میں ۴۰۰فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ این آر او بدعنوانی کو تحفظ دینے کا کالا قانون ہے۔ امریکا، برطانیہ، مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت سب اس کالے قانون کی تشکیل اور تحفظ کے جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ زرداری صاحب، جنرل مشرف کو تحفظ بھی اسی کالے قانون کی وجہ سے دے رہے ہیں۔ ہماری نگاہ میں محاسبے کا قانون اچھی حکمرانی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ بلاشبہہ اسے اعلیٰ جوڈیشل ادارے کے ذریعے انجام دیا جانا چاہیے۔ سارا عمل شفاف ہونا چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جانا چاہیے۔ یہ انتظام سب کے لیے ہونا چاہیے۔ جس میں سیاست دان، سرکاری عہدے دار، جرنیل، جج اور تاجر سب کا احتساب ہو۔ عدالتی عمل کے ذریعے جس کا جرم ثابت ہو، اسے قرارواقعی سزا ملنی چاہیے اور لوٹی ہوئی دولت وطنِ عزیز میں واپس آنی چاہیے۔ اگر سیاسی انتقام کے لیے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے تو وہ غلط ہے اور ایسا کرنے والوں کو سزا ملنا چاہیے، لیکن اگر فی الحقیقت کچھ لوگوں نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی ہے اور قومی خزانے کو لوٹا ہے تو ان کو معاف کردینا ناقابلِ معافی جرم ہے۔
جن لوگوں پر دسیوں افراد کے قتل کے مقدمے تھے، اس قانون کے تحت انھیں کھلی چھوٹ (carte blanche) مل گئی ہے۔ جن کے اربوں ڈالر بیرونِ ملک میں موجود ہیں اور ان میں سے کچھ کی تفصیل انٹرنیٹ پر موجود ہے (مثلاً ویکی پیڈیا کی ویب سائٹ پر بنکوں کے ناموں کے تعین کے ساتھ معلومات موجود ہیں) تو آخر کس دلیل پر ان کو کھلی چھٹی دی جارہی ہے؟ جو شخص بھی پبلک لائف میں ہے، اس کا فرض ہے کہ اپنی دولت کے ذرائع کا اعلان کرے اور ثابت کرے کہ اس نے اسے جائز ذرائع سے کمایا ہے۔ اگروہ یہ نہیں کرسکتا تو اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ محض یہ بات کہ ماضی میں مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوا، کوئی دلیل نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کس طرح مقدمات میں پیشیاں لے لے کر فیصلے کو تعویق میں ڈالا گیا ہے۔ حتیٰ کہ جھوٹے حلف نامے اور بیماریوں کے سرٹیفکیٹ دیے گئے ہیں۔ ان سب حیلوں بہانوں کے ساتھ پاک دامنی کا دعویٰ چہ معنی دارد۔
احتساب سب کا ہونا چاہیے، کسی کو بھی اس سے استثنا نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے این آر او کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے اور جو افراد اس کالے قانون کی وجہ سے فیض یاب ہوئے ہیں، ان کو اپنی پاک دامنی عدالتی عمل کے ذریعے ثابت کرنا ہوگی۔ اگر مشرف کا محاسبہ اور این آر او میں پناہ لینے والے پردہ نشینوں کا کھلا اور شفاف احتساب نہیں ہوتا، تو نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور نہ ملک کو کرپشن سے پاک کیا جاسکے گا۔ ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے کا یہ بھی اتنا ہی اہم تقاضا ہے جتنے دوسرے دستوری اور قانونی اقدامات___ اس لیے جنرل (ر) پرویز مشرف پر دفعہ ۶ کے تحت مقدمہ اور این آر او کو ختم کرکے اس کے تحت رخصت لینے والے تمام افراد کا اعلیٰ عدالتی ٹریبونل کے سامنے احتساب اور متعین وقت میں ان کا فیصلہ ملک کو جمہوریت اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے ع
گر یہ نہیں تو بابا، پھر سب کہانیاں ہیں!
پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے تقریباً ہر میدان میں پاکستانی عوام کو بُری طرح مایوس کیا ہے۔ عوام نے ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو بنیادی تبدیلی کا جو مینڈیٹ سیاسی جماعتوں کو دیا تھا اور مشرف کی داخلی و خارجہ پالیسیوں سے نجات کی جو امید پیدا ہوئی تھی، وہ دم توڑ رہی ہے۔
۲۲ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو اپنی متفقہ قرارداد کی شکل میں پارلیمنٹ نے خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کی حکمت عملی اور امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے بارے جن بنیادی تبدیلیوں کی ہدایت دی تھی، ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اس کے برعکس امریکا کے اشاروں پر جنرل پرویزمشرف سے بھی زیادہ تابع داری کے ساتھ بگ ٹٹ عمل ہو رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں سوات، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ پورا ملک لاقانونیت، مہنگائی اور اشیاے ضرورت کی عدم فراہمی سے دوچار اور زندگی کے ہر شعبے میں بدعنوانی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔
حکومت کی داخلی پالیسیاں بگاڑ کو بڑھانے کا سبب ہیں لیکن بِس کی اصل گانٹھ امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور اس کے نتیجے میں ملک کے خارجی اور داخلی تمام ہی امور پر امریکا کی عمل داری (writ ) ہے، جس کی گرفت اب تعلیم، ثقافت، معیشت اور توانائی ہر دائرے میں بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاست کی جزئیات تک کا اہتمام (مائیکرو مینجمنٹ)، واشنگٹن کے نمایندوں اور امریکی سفارت کاروں کا رہینِ منت ہے۔ بظاہر یہ سب افغانستان کی وجہ سے ہو رہا ہے، لیکن فی الحقیقت نظر یہ آ رہا ہے کہ امریکا کی توجہ کا مرکز اب افغانستان سے بھی کچھ زیادہ پاکستان ہے۔ جس کے بڑے دُوررس اور تباہ کن اثرات ہماری آزادی، نظریاتی شناخت، تہذیب و تمدن اور سیاسی اور معاشی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں اوران کے مزید بڑھنے کے خطرات اُفق پر منڈلا رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم، اس کی سیاسی اور دینی قیادت، امریکا کی افغان پالیسی کا گہری نظر سے جائزہ لے اور پاکستان کو ان کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لیے فی الفور اقدام کرے۔
صدر اوباما نے عراق سے امریکی افواج کی مرحلہ وار اور تدریجی انخلا کی پالیسی کا اعلان کیا ہے، مگر افغانستان میں فوجوں کو بڑھانے اور نائن الیون کے ملزموں کو پکڑنے، امریکی سلامتی کو ان سے بچانے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا عندیہ دیا ہے، اور ساتھ ہی ۱۷ ہزار مزید فوجی بھیجنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ بظاہر یہ سب کام ہو رہے ہیں لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ افغانستان میں بھی امریکی پالیسیاں اسی طرح ناکام رہی ہیں، جس طرح عراق میں رہیں۔ اب خود امریکی دانش ور اور عوام آہستہ آہستہ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ عراق کی طرح افغانستان میں بھی یہ جنگ ناقابلِ فتح ہے۔
سیاسی اعتبار سے تو یہ جنگ ناکام ہوچکی ہے۔ معاشی اعتبار سے اس کا بوجھ اب امریکی معیشت اور عالمی کساد بازاری کے پس منظر میں ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی اور ناٹو کی اتحادی افواج کوبھی جان و مال دونوں کے اتلاف کی صورت میں اس کی جو قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے، امریکی عوام کو اس کے جواز پر قائل کرنا روز بروز مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
اکتوبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر فوج کشی کر کے صدر بش نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ اب رفتہ رفتہ امریکی عوام کی تائید سے محروم ہوتی جا رہی ہے، جس کا تازہ ترین اظہار اس سروے کے نتائج سے ہوتا ہے جو امریکا میں واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے ایما پر منعقد کیا گیا ہے، اور جس کا اعلان ۲۲؍ اگست ۲۰۰۹ء کو نیشنل پبلک ریڈیو اور دوسرے نشری اداروں نے کیا ہے۔ اس سروے کی رُو سے پہلی بار امریکی عوام کے ۵۱ فی صد نے یہ کہا ہے: War in Afghanistan is not worth fighting (افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے لائق نہیں)۔
ان میں ۵۲ سے ۴۱ فی صد نے افغانستان کی جنگ میں امریکا کے حصہ لینے کی سختی سے مذمت کی ہے اور نیشنل پبلک ریڈیو نے خود اپنا یہ نتیجۂ فکر پیش کیا ہے:
امریکی عوام کو کوئی ایسی شہادت نظر نہیں آ رہی ہے کہ امریکی قبضے نے افغانستان کو زیادہ مستحکم، محفوظ، آزاد یا پُرامن بنا دیا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکا کے نیشنل پبلک ریڈیو نے افغانستان میں امریکی کردار کو ’قبضے‘ (occupation) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ احساس اب امریکا کی کانگریس کے ارکان میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ میساچیوسٹس سے کانگریس کے رکن جم میک گورن نے کانگریس میں ایک بل پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جو افغانستان سے انخلا کی حکمت عملی کے مطالبے پر مشتمل ہوگا۔ اس مجوزہ مسودۂ قانون پر اب تک ۹۵ ارکانِ کانگریس نے دستخط کر دیے ہیںاور ان میں خود ری پبلکن پارٹی کے وہ ارکان بھی شامل ہیں جنھوں نے افغانستان پر فوج کشی کے لیے صدربش کی پُرزور حمایت کی تھی۔ میک گورن نے جو قانون کانگریس کے ایوانِ نمایندگان میں پیش کیا ہے اس میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے: ’’امریکا کو طویل تر قبضہ رکھنے کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہونا ہے اور اسے انخلا کی حکمت عملی پر ابھی غور کرنا چاہیے‘‘۔
کانگریس سے باہر بھی ایسے گروپ وجود میں آرہے ہیں، جو ویت نام میں امریکی جنگ کے زمانے میں متحرک تھے۔ ایسا ہی ایک مؤثر گروپ ’پروگریسو ڈیمو کریٹس آف امریکا‘ (PDA) کے نام سے متحرک ہوا ہے جس کا پیغام یہ ہے: ’’قبضوں کی جنگ ختم کرو اور وسائل قوم پر خرچ کرو‘‘۔
میک گورن بل اور ’پروگریسوڈیموکریٹس آف امریکا‘ دونوں کا مطالبہ ہے کہ ملک کے وسائل کو امریکا کے عوام کی بہبود کے لیے استعمال کیا جائے جو صحت کے میدان میں خصوصیت سے سخت مشکلات سے دوچار ہیں اور عالمی کساد بازاری اور بے روزگاری کی وجہ سے آبادی کے نچلے طبقے سخت تنگی سے دوچار ہیں، یہی بات ایک امریکی دانش ور ڈاکٹر اناطول لیون نے پورے زور و شور سے خود اپنے پاکستان اور افغانستان کے دورے کے موقع پر کہی ہے کہ امریکا کے لیے افغانستان کو دیر تک فوجی قبضے میں رکھنا ممکن نہیں اور وقت آگیا ہے کہ انخلا کی حکمت عملی پر کام کیا جائے۔
۲۴؍اگست کو امریکی کمانڈر ایڈمرل مولن نے جو بیان دیا ہے، وہ ہوا کے رُخ کو سمجھنے کے لیے بے حد مددگار ہے۔ مولن کا کہنا ہے کہ میں دو سال سے چیخ رہا ہوں کہ افغانستان میں جنگ ناکام ہو رہی ہے اور طالبان مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں امریکا کے انخلا کی حکمت عملی پر غور کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ اسی طرح لندن کے موقر رسالے دی اکانومسٹ، ۲۲اگست ۲۰۰۹ء میں افغانستان کو امریکا کا مرکزی ایشو بتاتے ہوئے اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکا کی حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ تمام افغان عناصر سے بات چیت کا آغاز اور امریکی و ناٹو افواج کی واپسی کا راستہ تلاش کیا جائے۔
یہ سب ہوا کے رُخ کا پتا دیتے ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہماری موجودہ قومی قیادت کو اس کا کوئی احساس اور شعور نہیں ہے، اور وہ ہر آن امریکا کی اس جنگ کی دلدل میں مزید دھنستی چلی جارہی ہے۔ اس وقت افغان دانش ور بھی اس منظرنامے کی باتیں کر رہے ہیں، جو امریکی قبضہ ختم ہونے کے بعد کے افغانستان پر مشتمل ہوگا، مگر یہاں پر زرداری ، گیلانی حکومت امریکا سے بھی زیادہ امریکا کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی ہولناک غلطی کر رہی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ملک کی سیاسی اور دینی قوتیں حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ اس ہاری ہوئی امریکی جنگ سے جلد گلوخلاصی اختیار کرے اور افغان عوام سے یک جہتی کی پالیسی اختیار کرے تاکہ یہ دونوں برادر ملک ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں اور علاقائی استحکام حاصل ہوسکے۔ اس کے لیے افغانستان سے امریکی فوجوں کی ایک متعین پروگرام کے تحت واپسی، افغانستان کے تمام سیاسی اور دینی عناصر کا باہم افہام و تفہیم سے اپنے ملک کے معاملات کو سنبھالنا، نیز افغانستان میں بھارت اور اسرائیل کے گماشتوں کی سرگرمیوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ پاکستان، ایران اور وسط ایشیا کے ہمسایہ ممالک کو اعتماد میں لے کر افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کی حفاظت کرتے ہوئے تعمیرنو میں تعاون کا اہتمام حددرجہ ضروری ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اور وہاں کے نظام کے دروبست کا تعین افغانستان کے لوگ اپنی آزاد مرضی سے کریں اور اس میں کوئی بھی اور کسی نوعیت کی بھی بیرونی مداخلت نہ ہو۔ البتہ مشترک مفادات کے تحفظ کے لیے پوری شفافیت کے ساتھ تعاونِ باہمی کی راہ اختیار کی جائے، تاکہ علاقے میں حقیقی امن رونما ہو، جو سب کی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے۔
امریکا اور یورپ کی اقوام تو افغانستان سے انخلا کی حکمت عملی کی طرف بڑھ رہی ہیں، مگر دوسری طرف پاکستان کی حکومت اس دلدل میں مزید پھنستی چلی جارہی ہے۔ ہم کیا اس سے بھی گئے گزرے ہیں جس کا ذکر شاعر نے ان الفاظ میں کیا ہے ع
ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک تاریخی لمحے کی حیثیت رکھتا ہے۔ برعظیم پر ہزار سال حکومت کرنے کے بعد برطانیہ کی ۲۰۰ غلامی کے طوق سے نجات کی جدوجہد نے، ۲۰ویں صدی کے دوسرے ربعے میں ایک غیرمعمولی صورت اختیار کر لی تھی۔ آزادی کی تحریک، جس کی قیادت تحریکِ خلافت کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی، سقوطِ خلافت کے بعد ایک نئی دلدل میں پھنستی نظر آرہی تھی۔ برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگریس دونوں نے متحدہ قومیت کا جال کچھ اس طرح بُنا تھا کہ دام ہم رنگِ زمین، کچھ اس طرح بچھایا تھا کہ اگر مسلمان اس جال میں پھنس جاتے تو مسلمان، برعظیم کی آبادی کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود آزادی سے محروم ہی رہتے اور خطرہ تھا کہ انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو کی غلامی میں چلے جاتے۔ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت نے اپنے دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی خاطر تقسیم ملک کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر قائداعظم کی قیادت میں ایک تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء اور اپریل ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ کنونشن کی قراردادوں کی روشنی میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو جو ۲۷ رمضان المبارک کا مبارک دن بھی تھا، ایک آزاد اسلامی ملک کے قیام کی شکل میں صبحِ نو کا دیدار کیا۔
اس جدوجہد میں مسلمانوں نے کتنی بڑی قربانیاں پیش کیں؟ ان کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر اپنے لیے ہندوئوں کی عددی بالادستی میں نیم آزادی کی زندگی گزارنے پر بہ رضا و رغبت آمادگی کا اظہار کیا، اور برعظیم کے مسلمانوں نے مسلم کش فسادات میں لاکھوں انسانوں کی جانوں اور ہزاروں عصمت مآب خواتین کی عزتوں کی قربانی پیش کی۔ ایک کروڑ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور نہایت بے سروسامانی کے حالات میں اس اطمینان کے ساتھ پاکستان نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا کہ یہ سب قربانی ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے دی گئی ہے، یعنی آزادی اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ایک مبنی برحق و انصاف اجتماعی نظام کا قیام۔ جن آنکھوں نے خون میں لت پت اور لٹے پٹے قافلوں کو پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتے ہی سجدہ ریز ہوتے دیکھا ہے، وہ ان ساری ہی مصیبتوں اور صعوبتوں کی آغوش میں حاصل ہونے والی اس عظیم کامیابی اور الٰہی انعام کے لذت آشنا ہیں۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ایک دور کے اختتام اور ایک نئے دور کے آغاز کا تاریخی لمحہ ہے۔ آج ۶۲ سال گزرنے کے بعد بھی اس لمحے کی یاد ہوا کے ایک معطر جھونکے کی مانند ہے۔ اللہ کے اس انعام اور برعظیم کے مسلمانوں کی اس کامیاب جدوجہد پر جتنا بھی رب غفور و رحیم کا شکر ادا کیا جائے، کم ہے___ لیکن تشکر کے یہ جذبات اپنی آغوش میں ایک بڑی دکھ بھری داستان لیے ہوئے ہیں اور یہ داستان ملک کی مختلف قیادتوں کی بے وفائی، نااہلی اور خودسری کے ان احوال سے عبارت ہے، جن کے نتیجے میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو قائم ہونے والا پاکستان آج تک ان مقاصد کا گہوارا اور ان تمنائوں اور عزائم کی زندہ مثال نہ بن سکا، جن کی خاطر یہ ملک قائم ہوا تھا اور ملت اسلامیہ پاک و ہند نے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔
۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو ’قرارداد مقاصد‘ کی شکل میں اپنی قومی منزل کا تعین اور اعلان کرنے کے باوجود، ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے بجاے مفادات کی سیاست اور ذاتی اور گروہی اہداف کے حصول کی جنگ میں ملک و قوم کو جھونک دیا۔ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مختصر مدت کے لیے نافذ کردہ مارشل لا کے تجربے کے بعد، فوجی قیادت نے ۱۹۵۸ء میں پورے پاکستان پر مارشل لا کی شکل میں شب خون مارا ۔ گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی، وہ دن اور آج کا دن کہ قوم کی یہ گاڑی پٹڑی پر رواں دواں نہ ہوسکی۔
۱۹۷۱ء کا سانحہ رونما ہوا، جس نے ملک کو دولخت کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کے متفق علیہ دستور کی شکل میں امید کی نئی کرن رونما ہوئی لیکن اس وقت کی سیاسی قیادت نے اس دستور کے مطابق نظامِ زندگی کو چلانے کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے پہلے ہی دن سے اس سے انحراف کی راہ اختیار کی۔ جس دن دستور نافذ ہوا، اسی دن بنیادی حقوق کو معطل کرکے ملک کو ایمرجنسی کی گرفت میں دے دیا گیا۔ پھر ۱۹۷۷ء میں ایک بڑی عوامی تحریک ’پاکستان قومی اتحاد‘ کی شکل میں اُبھری مگر وہ بھی کامیابی کے دہانے تک پہنچنے کے بعد غیرمؤثر ہوگئی کہ اس تحریک کی منزل کو مارشل لا نے کھوٹا کردیا۔ گویا کہ متفقہ دستور، سیاست دانوں اور ججوں کی خواہشوں اور فیصلوں کا تختۂ مشق بن گیا۔ بالآخر ایک اور طالع آزما نے ۱۲ نومبر ۱۹۹۹ء کو دستور کو معطل کر کے ملک و قوم پر نہ صرف شخصی آمریت کی طویل رات مسلط کر دی، بلکہ نائن الیون کے بعد ملک کی آزادی اور حاکمیت تک کو دائو پر لگا دیا جس کے نتیجے میں قومی زندگی میں امریکی عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ اب پاکستان ایک امریکی کالونی کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس امریکی ایجنڈے کے مطابق حکمران سارے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں مرتکز کررہے ہیں اور قیادت کی تبدیلیاں بھی باہر والوں کے اشارۂ ابرو پر ہو رہی ہیں، لیکن اللہ کا قانون اور مشیت اپنی جگہ ہے، جس کا ایک نظارہ ہم نے ۲۰۰۷ء میں دیکھا۔
۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو مطلق العنان فوجی آمر نے عدالت عظمیٰ کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے ایک بھرپور وار کیا، مگر یہی وار حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن گیا۔ وکلا کی قیادت میں قوم نے آمریت کے خلاف ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا انعقاد ہوا اور ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدلیہ کی بحالی کا ایک مرحلہ مکمل ہوا۔
۱۴؍اگست ۲۰۰۹ء ایسے حالات میں آرہا ہے جب ایک طرف امریکا وطن عزیز اور اس پورے علاقے کے لیے نئے جال بُن رہا ہے اور ملک کی موجودہ قیادت خصوصیت سے صدر آصف علی زرداری عملاً اس کے آلۂ کار بن کر اپنی ہی قوم، اس کے عزائم اور احساسات کے خلاف برسرِجنگ ہیں۔ مزید یہ کہ وہ فوج اور قوم کو لڑانے کے سامراجی کھیل میں شریک ہیں۔ دوسری طرف قوم کا حسّاس طبقہ امریکی غلامی کی اس بلا کا مقابلہ کرنے کے لیے بیدار ہورہا ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کا آغاز ہوچکا ہے۔’گو امریکا گو‘ اور ’امریکی غلامی نامنظور‘ کے نعروں سے ملک کے دروبام گونجنے لگے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ دستور کی بالادستی کے قیام کے لیے ایک روشن کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پس منظر میں ۱۴؍اگست جہاں ایک یومِ تشکر ہے، وہیں ایک یومِ احتساب بھی ہے، تاکہ پوری دیانت اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ متعین کیا جاسکے کہ خرابی کی اصل وجوہ کیا ہیں، اور اصلاح کی جدوجہد کا حقیقی ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔ ہم اس موقع پر قوم اور اس کی سیاسی، دینی اور عسکری قیادت کو انھی امور پر غوروفکر کی دعوت دے رہے ہیں۔
ملک و قوم کو درپیش اصل مسائل اور چیلنجوں پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان تین اہم اور خطرناک مغالطوں کا پردہ چاک کریں جو دراصل اہم نظریاتی، سیاسی اور نفسیاتی حملے ہیں، اور جن کا تانا بانا بڑی عیاری اور چابک دستی سے عالمی سطح پر پاکستان دشمن قوتوں اور بدقسمتی سے خود ملک میں کارفرما کچھ عناصر کی ملی بھگت سے بُنا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلق پاکستان کی شناخت اور اس کے مستقبل سے بڑا گہرا ہے۔ پاکستان کے وجود کے لیے اصل خطرہ اگر کوئی ہے تووہ ان ہی سوچے سمجھے مغالطوں سے ہے۔
ہم آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان حقیقی خطرات کو جو افراد محض ’سازشی نظریہ‘ کہہ کر نظرانداز کرنا چاہتے ہیں، وہ عالمی سیاست کے زمینی حقائق سے صرفِ نظر کررہے ہیں۔ وہ اس سنجیدہ مسئلے کو محض ایک ’ذہنی خوف‘ کہہ کر تاریخ کی کھلی کھلی تنبیہات سے آنکھیں بند کر رہے ہیں اور قوم کو دھوکا دینے کی مذموم کوششوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خطرات کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا جائے۔
پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب تقسیم سے قبل کے ان حالات پر نگاہ ڈالی جائے جن سے مسلمان اس وقت دوچار تھے، جو برطانوی استعمار اور ہندو اکثریت کے گٹھ جوڑ کے پیدا کردہ تھے۔ اقتدار سے محرومی کے ۲۰۰ برسوں میں مسلمان ہر اعتبار سے پس ماندگی کا شکار تھے اور زندگی کے ہر میدان میں ان کے لیے معاشی ترقی اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور فروغ کو ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ پاکستان کی مختلف قیادتوں کی تمام کوتاہیوں اور ناکامیوں کے باوجود زندگی کے ہرشعبے میں جو مواقع اس آزاد مملکت میں مسلمانوں کو آج حاصل ہیں، ان کا مقابلہ بھارت کے ۱۵ سے ۲۰کروڑ مسلمانوں کی زبوں حالی سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کا قیام کتنا بڑا انعام ہے، جس کی قدر اس قوم کا ایک حصہ نہیں کر رہا۔ حال ہی میں بھارت میں سچر کمیشن کی جو رپورٹ آئی ہے اس میں سرکاری طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ آبادی میں مسلمانوں کا حصہ ساڑھے بارہ سے ۲۵ فی صد ہے لیکن زندگی کے ہرشعبے میں ان کی نمایندگی مشکل سے دو اڑھائی فی صد ہے۔
بلاشبہہ ہماری قیادت کی روح فرسا غلطیوں اور بھارت کی جارحانہ سیاسی مداخلت اور فوج کشی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان، پاکستان سے جدا ہوگیا، لیکن بھارت کی تمام تر کوششوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود، بنگلہ دیش نے اپنا آزاد اور مسلمان تشخص باقی رکھا ہے۔ بھارت اور بنگلہ قوم پرستوں کی خواہش کے باوجود مشرقی اور مغربی بنگال ایک نہ ہوسکے۔ بنگلہ دیش برعظیم میں ایک دوسری مسلم مملکت کی حیثیت سے قائم ہے اور ترقی کر رہا ہے۔ اس طرح برعظیم میں یہ دو آزاد مسلمان مملکتیں ہیں، جو بھارت کی متعصب ہندو قیادت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں اور مختلف انداز میں بھارت کی سیاسی اور معاشی اور سفارتی سازشوں کا ہدف بنی ہوئی ہیں۔ بھارت کے دانش وروں اور نام نہاد پالیسی سازوں کی آواز میں آواز ملانے میں، آج امریکا اور برطانیہ کے کئی تھنک ٹینک ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں اور سب کے ہاں ٹیپ کا بند ایک ہی ہے: پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور پاکستان، ان کے خیال میں چند برسوں اور کچھ کی نگاہ میں تو چند مہینوں اور ہفتوں کا مہمان ہے۔
اس سلسلے میں ایک بھارتی دانش ور کپیل کومیرڈ کا ایک زہریلا اور شرانگیز مضمون لندن کے اخبار گارڈین میں ۱۴ جون ۲۰۰۹ء کو شائع ہوا ہے:’’پاکستان کا ٹوٹنا اَٹل ہے اور ۲۰سال کے اندر پاکستان ختم ہوجائے گا‘‘۔ موصوف نے صدر زرداری کے اس ارشاد کو بھی اپنی تائید میں پیش کیا ہے کہ: ’’اگر اس ملک میں جمہوریت ناکام ہوتی ہے، اگر دنیا جمہوریت کی مدد نہیں کرتی، پھر کچھ بھی ممکن ہے‘‘۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ہم صاف لفظوں میں اس امر کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ پاکستان کا قیام کسی درجے میں بھی کوئی غلطی تھا، نہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، اور نہ پاکستان کسی طالبانیت کے خطرے کی زد میں ہے۔ یہ تینوں مغالطے امریکا کی عالمی سیاست کو آگے بڑھاوا دینے کے لیے بڑی چابک دستی سے استعمال کیے جا رہے ہیں اور ان مغالطوں کے زیراثر جو پالیسی بھی بنے گی، وہ نہ حقیقت پر مبنی ہوگی اورنہ پاکستان کے حقیقی مفادات سے اس کا کوئی تعلق ہوسکتا ہے، بلکہ وہ پاکستان کے مقصدِ وجود، قوم کی حقیقی اُمنگوں، اس کے اقتدار اعلیٰ اور مفادات کے منافی ہوگی۔
اسی طرح یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادتوں نے قوم کو بُری طرح مایوس کیا ہے، اور وہ پاکستان کے ملّی جوہر کو حقیقت کا رنگ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ لیکن مغرب کی آشیرباد رکھنے والی ان مقتدر اور سیکولر قیادتوں کی اس ناکامی کو پاکستان کی ناکامی اور ریاست کی ناکامی کا نام دینا اور پاکستان کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی بجانا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہے۔
پاکستان اللہ کے فضل سے قائم ہوا ہے اور اس کے قیام کے لیے ملتِ اسلامیہ ہند نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ مشکلات اپنی جگہ، لیکن پاکستانی قوم نے ہر مشکل کا مقابلہ اللہ پر بھروسے اور جواں مردی سے کیا ہے۔ ان شاء اللہ آج بھی قوم اسی جذبے سے موجودہ خطرات کا مقابلہ کرے گی۔ ہم صرف تحدیثِ نعمت کے طور پر چند بنیادی حقائق کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، تاکہ قوم ایک عزمِ نو کے ساتھ آج کے درپیش خطرات کا مقابلہ کرسکے۔
قیامِ پاکستان کے وقت بھارت اور برطانیہ دونوں کا اندازہ یہی تھا کہ یہ ملک چند برسوں کا مہمان ہے، اور یہ بہت جلد بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ الحمدللہ تمام تر بے سروسامانی، مسلم کش فسادات اور بھارت کے معاشی، سیاسی اور عسکری دبائو کے باوجود پاکستان قائم رہا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملایا گیا اور زندگی کے مختلف میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت درپیش معاشی اور سیاسی دبائو اور چیلنجوں کے ساتھ نظریاتی چیلنج بھی رونما ہوئے۔ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی سازشیں شروع ہوگئیں، لیکن پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اسلامی نظام کے لیے ایک ملک گیر تحریک کے جلو میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے ریاست کا مقصد اور منزل واضح الفاظ میں متعین کردیے۔ پھر تمام مکاتبِ فکر کے علما نے اسلامی ریاست کے ۲۲ اصول متفقہ طور پر مرتب کر کے اس نظریاتی شاہراہ کو اور بھی روشن کر دیا۔ سیکولر اور بھارتی لابیاں اپنا کام برابر کرتی رہیں، لیکن دشمن کے ہر وار کا مقابلہ قوم نے پوری مستعدی سے کیا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور پاکستان میں ملک کے اسلامی تشخص کو واضح کیا گیا۔
جنرل ایوب خان نے ۱۹۶۲ء میں اپنے دیے ہوئے دستور سے ’قرارداد مقاصد‘ حذف کردی اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جگہ جمہوریہ پاکستان رکھا، مگر دو ہی سال کے اندر انھیں ۱۹۶۴ء میں ترمیم کے ذریعے قرارداد مقاصد کو بھی دستور کا دیباچہ بنانا پڑا، اور ملک کا نام بھی دوبارہ اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنا پڑا۔ حالانکہ یہ ایسی اسمبلی تھی جو براہِ راست بالغ حق راے دہی کے ذریعے وجود میں نہیں آئی تھی، بلکہ یہ اسمبلی ایوب صاحب کی بنیادی جمہوریتوں کا عطیہ تھی جس میں ارکان اسمبلی کو منتخب کرنے والوں کی تعداد ۸۰ ہزار تھی۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ۱۹۷۲ء کے عبوری دستور اور نئے مسودہ دستور میں پاکستان کے نظریاتی تشخص پر ایک بار پھر حملہ ہوا، اور اس مرتبہ پاکستان کو ایک سوشلسٹ اسٹیٹ قرار دینے کی کوشش ہوئی۔ لیکن ۱۹۷۳ء کے دستور میں ایک بار پھر قوم نے اپنی اصل شناخت اور اس ملک کے مقصدِ وجود کا صاف الفاظ میں اظہار کیا۔ جس مسودے پر قومی اتفاقِ راے (national consensus) ہوا، اس کے عناصرِ اربعہ: اسلامی شناخت، پارلیمانی جمہوریت، فلاحی معاشرہ، وفاقی کردار متعین ہوئے۔ پھر ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اس اسمبلی نے مکمل اتفاقِ راے سے مسلمان کی تعریف بھی دستور میں شامل کی اور اس طرح ملک کے نظریاتی تشخص کو ہرشبہے سے پاک کرکے واضح اور مستحکم کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اس قوم کے ’نظریاتی عہد‘ کا مظہر ہے۔
یہ بات درست ہے کہ اس دستور کو توڑنے اور مسخ کرنے کی باربار کوششیں ہوئیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آمریت خواہ وہ فوجی ہو یا سول عناصر کی مسلط کردہ، تادیر قائم نہیں رہ سکی اور ہر آمریت کا خاتمہ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں بالضرور ہوا۔ معاملہ مصر، لیبیا اور شام کا ہو یا افریقہ اور جنوبی امریکا کے ممالک کا___ ان سب کے مقابلے میں پاکستانی قوم نے لمبے عرصے کے لیے فوجی حکومت اور آمرانہ نظام کو برداشت نہیں کیا۔ پاکستان تحریکِ جمہوریت (PDM) ہو یا متحدہ جمہوری محاذ (UDF)، پاکستان قومی اتحاد (PNA) ہو یا اسلامی جمہوری اتحاد ( IJI)___ عوام نے اپنی منظم جدوجہد کے ذریعے آمرانہ قوتوں کا مقابلہ کیا اور جمہوریت کی شمع کو گل نہیں ہونے دیا۔ آخر میں اہم تحریک ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک تھی جس نے جنرل مشرف کے دورِاقتدار کی چولیں ہلا دیں اور پھر موصوف کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔ عوام کی احیاے جمہوریت کی تحریک سیاسی اُفق پر روشنی کی ایک کرن ہے اور ہر آمر کے لیے ایک تازیانہ۔
جس ملک میں ایسی اہم تحریکیں اُٹھی ہوں اور آمریت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا گیا ہو، اسے ناکام ریاست کسی پہلو سے بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نشیب ضرور آئے ہیں لیکن ہر نشیب کے بعد فراز بھی ایک حقیقت ہے، اور یہی وہ پہلو ہے جسے آج پھر قوم کو سامنے رکھ کر اپنے وطن کی اصلاح اور اپنی آزادی کی بازیافت کی جدوجہد کرنے کے لیے میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔
گویا کہ جب بھی اس قوم کو صحیح قیادت میسر آئی ہے اور اسے وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم و متحرک کیا گیا ہے، اس نے غیرمعمولی استعداد کا مظاہرہ کیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت پورے ملک میں صرف دو کپڑے کے کارخانے تھے اور دنیا میں پٹ سَن کی پیدوار کا سب سے بڑا گہوارہ ہونے کے باوجود پٹ سَن کی ایک بھی مِل موجود نہ تھی، مگر دیکھتے ہی دیکھتے ۱۰ سال میں ملک نے صنعت و حرفت کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔اسی طرح کھیل کے میدان میں بھی پاکستان سربلند اور کامیاب رہا۔ بھارت کے ایٹمی تجربے کے بعد سائنس کے میدان میں قوم کواپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج سے سابقہ پڑا اور الحمدللہ ساری دنیا کی مخالفت اور ٹکنالوجی کے حصول کے ہر دروازے کو بند کردینے کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیرخاں اور دیگر متعدد محب وطن سائنس دانوں اور انجینیروں کی پوری ایک ٹیم نے اللہ کے فضل سے اور اپنی مخلصانہ اور اَن تھک کوششوں کے ذریعے سے صرف سات سال میں وہ کام کر دکھایا، جو امریکا اور دوسری مغربی اقوام نے اس سے دگنے وقت میں انجام دیا تھا اور ساری ایٹمی صلاحیت کے حصول پر جو مالی صرفہ آیا وہ ایف-۱۶ کے ایک اسکواڈرن کی قیمت سے زیادہ نہ تھا۔
بلاشبہہ پاکستانی قیادت کی ناکامیوں کی داستان ہی بڑی طویل اور دل خراش ہے، لیکن اگر صحیح وژن ہو، قوم اور قیادت میں ہم آہنگی ہو، صحیح قیادت میسر آجائے تو اس قوم نے کم وسائل اور تمام تر مشکلات کے باوجود وہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں جن پر سب کو فخر ہے۔ قومی تاریخ کے ان مثبت پہلوئوں اور روشن کارناموں کی موجودگی میں یہ احساس اور بھی قوی ہوجاتا ہے کہ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
دشمنوں کے مذموم ایجنڈے اور قوم کی تاریخ کے تابناک پہلوئوں کے پس منظر میں ہم آج کے یومِ آزادی کے موقع پر جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس طوفان میں ملک عزیز کو قائم و دائم رکھا ہے، وہیں یہ بات بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک و قوم بڑے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ ان خطرات کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانے اور اس کے حصول کے لیے قوم کو متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
آج ملک کو درپیش سب سے اہم خطرہ اس کی اس آزادی کو درپیش ہے، جو بڑی بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔اس آزادی کی مکمل بازیابی کے بغیر یہ قوم اپنے اصل مقاصد اور اہداف کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتی۔
سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے جو ظلم اس ملک اور قوم پر کیے ہیں، ان میں سب سے بڑا ظلم جو ایک ناقابلِ معافی جرم بھی ہے، وہ قوم کی آزادی کو امریکی بالادستی کی بھینٹ چڑھانا ہے۔ امریکا میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو جو افسوس ناک حادثہ ہوا، اس کے سارے حقائق ایک نہ ایک دن دنیا کے سامنے آکر رہیں گے، اور امریکا نے ان پر جو پردے ڈال رکھے ہیں، وہ ایک دن ضرور تار تار ہوں گے لیکن جو چیز ناقابلِ تردید ہے، وہ یہ ہے کہ اس مذموم واقعے کی آڑ میں امریکا نے پوری دنیا کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا ہے، افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی ہے، اور اسلام اور پوری مسلم دنیا کو اس انداز سے نشانہ بنایا ہے کہ اس نے اس علاقے ہی کی نہیں پوری دنیا کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
عراق پر حملے (۲۰۰۳ء) کو تو اب سب ہی ایک غلطی کہنے لگے ہیں اور خود امریکا نے بھی اپنے انخلا کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کی فوج کشی کو ابھی تک اگر مگر کی بھول بھلیوں میں گم کیا ہوا ہے۔ حالانکہ آٹھ سال کی اس بے نتیجہ جنگ میں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور کھربوں ڈالر کو آگ میں جھونکنے کے باوجود صاف نظر آرہا ہے کہ جس طرح افغانستان ماضی کی بڑی طاقتوں کا قبرستان بنا ہے، اسی طرح امریکا کے لیے بھی یہ دوسرا ویت نام بننے کے قریب ہے۔ افغانستان میں جو تباہی واقع ہوئی ہے وہ دردناک ہے، لیکن افغانستان پر امریکی قبضے نے جو صورت حال پاکستان کی بنا دی ہے اور جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی دھمکی کے تحت جس طرح اس کے سامنے سپر ڈال کر پاکستان اور اس کی افواج کو جس آزمایش میں مبتلا کیا ہے، اس کے ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بعد پاکستانی قوم کو امریکا کی اس جنگ کے چنگل سے نکلنے کی جو توقع تھی، وہ زرداری،گیلانی حکومت کے ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت میں مٹی میں ملتی نظرآرہی ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی اور چارۂ کار باقی نہیں رہا ہے کہ عوامی تحریک کے ذریعے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ جماعت اسلامی کی ’گو امریکا گو‘ تحریک اس سمت میں ایک بروقت اقدام ہے۔
پاکستان اور امریکا میں دوستی اور تعاون ایک فطری امر اور پاکستان اور امریکا دونوں کی ضرورت رہا ہے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے دوستی کے تعلقات چاہتے ہیں اور ان کو فروغ دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت کرنا صحیح نہیں سمجھتے۔ لیکن یہ تعلقات معاشی، سیاسی اور عسکری قوت کے فرق کے باوجود دو آزاد اور خودمختار ملکوں میں باہمی مفاد اور بھائی چارے کی بنیاد پر استوار ہونے چاہییں۔ یہ کسی ایک کی بالادستی اور دوسرے کی مجبوری اور محکومی کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں۔
اس وقت پاکستانی قوم جس چیز پر مضطرب اور نکتہ چین ہے وہ پاکستان کے معاملات میں ایسی امریکی مداخلت ہے، جس کے نتیجے میں ہم اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ صرف ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی بلکہ تعلیمی اور معاشی پالیسیاں بھی امریکا کے اشارے پر اور اس کے مفاد میں مرتب کی جارہی ہے۔ یہ کم و بیش وہی کیفیت ہے جو سامراجی نظام کا خاصّہ ہے اور جس کا تجربہ برطانوی اقتدار کے ۲۰۰ سالہ دور میں برعظیم کے عوام کرچکے ہیں۔
’گو امریکا گو‘ کے معنی امریکا کی سامراجی بالادستی کو ختم کر کے پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور اس کے اپنے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت ہے۔ اس کا ہدف امریکا کی ریاست یا امریکی عوام نہیں، بلکہ امریکا کی پالیسیاں اور خصوصیت سے پاکستان کے بارے میں اس کی امتیازی پالیسیاں اور پاکستان کے معاملات میں اس کی اندھا دھند مداخلت اور وہ طریق واردات ہے کہ جس کا تلخ تجربہ پاکستانی قوم خاص طور پر نائن الیون کے بعد سے کررہی ہے۔ یہ پالیسی صدرزرداری کے دورِ اقتدار میں اپنی تمام حدیں عبور کر کے آزادی اور خودمختاری کے ساتھ قوم کی عزت اور وقار کے بھی منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح تحریکِ پاکستان کے دو متعین ہدف تھے یعنی برطانوی سامراج سے نجات اور اپنے نظریات،عزائم اور مفادات کے مطابق اپنی سرزمین پر مکمل اختیارات کا حصول، اسی طرح آج پھر یہ قوم امریکا کے سامراجی کردار کے خلاف صف آرا ہورہی ہے۔ آزادی کے حصول کے بعد برطانیہ سے ہمارے تعلقات دوستانہ رہے اور اس برطانیہ مخالف تحریک کا کوئی سایہ ان تعلقات پر نہیں پڑا۔ بالکل اسی طرح ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ’گو امریکا گو‘ کا ہدف پاکستان کے بارے میں امریکا کی پالیسی اور ہمارے معاملات میں اس کا عمل دخل ہے۔ یہی چیز امریکا سے نفرت کا سبب ہے۔ ہماری کوئی لڑائی امریکی عوام سے نہیں اور نہ امریکی دستور سے ہے۔ امریکی تہذیب اور طرزِ حیات پر اگر امریکی عوام خوش اور مطمئن ہیں تو ہمیں اس سے کیا پرخاش؟ ہاں، ہم ان کے سامنے دلیل کے ساتھ اور منطقی انداز میں واضح کرتے رہیں گے کہ حق اور باطل کیا ہے؟ ہمارے اختلاف کا آغاز اس مقام پر ہوتا ہے جہاں امریکا یا کوئی اور ملک اور قوم اپنے نظریات، اپنی اقدار اوراپنے مفادات کو ہم پر جبر کے بل بوتے پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا معاملہ فکری اور نظریاتی مکالمے اور سیاسی اور معاشی تعلقات کا، تو وہ دنیا کی تمام ہی اقوام کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ان دونوں معاملات کو گڈمڈ کرنے سے بڑی قباحتیں اور تصادم کی شکلیں رونما ہوتی ہیں۔
آج پاکستانی قوم ہی نہیں، دنیا کی بیش تر اقوام امریکا کی جو مخالفت کر رہی ہیں، وہ اس کی پالیسیوں اور عالمی سامراجی مہم جوئیوں کی وجہ سے ہے۔ ۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اخبارات میں امریکا کے ادارے ’ورلڈ پبلک اوپینین‘ کا جو سروے پاکستان کے بارے میں شائع ہوا ہے، اس میں پاکستانی عوام نے ایک طرف طالبان کی ان حرکتوں پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے جو ان کے نام پر سوات میں کی گئی ہیں، دوسری طرف آبادی کی دو تہائی اکثریت نے پاکستان کے معاملات میں امریکا کی مخالفت اس طرح کی ہے، جس طرح بش کے دور میں کر رہی تھی، اور ۶۲ فی صد پاکستانیوں کی نگاہ میں اوباما کی صدارت سے اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ امریکا کے ڈرون حملوں کی ۸۲ فی صد نے مخالفت کی ہے۔ امریکا کی افغانستان میں موجودگی اور اس کے جنگی اقدامات کی ۷۲فی صد نے مخالفت کی اور آبادی کے ۷۹ فی صد نے اس جنگ کو فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ۸۶ فی صد نے صدر اوباما کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں میں اضافہ نہ کیا جائے گا۔ ان کی نگاہ میں اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اسی طرح اس سروے کی رو سے آبادی کے ۹۳ فی صد افراد کا خیال ہے کہ امریکا مسلم دنیا پر اپنا کلچر مسلط کرنا چاہتا ہے اور ۹۰ فی صد نے اس خدشے کی تائید کی کہ امریکا مسلم دنیا کو کمزور کرنے اور تقسیم در تقسیم پر تلا ہوا ہے۔ (دی نیوزانٹرنیشنل، ۲جولائی ۲۰۰۹ء)
امریکا کے بارے میں یہ جذبات پاکستان یا صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں ہیں۔ صدر اوباما کے روس کے دورے سے چند دن قبل جو سروے روسی راے عامہ کے بارے میں ہوا ہے، اس سے بھی یہی تصویر اُبھرتی ہے کہ روس کی آبادی کے ۷۵ فی صد کی نگاہ میں امریکا اپنی قوت کا غلط استعمال کر رہا ہے اور وہ روس پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۷جولائی ۲۰۰۹ء)
اس اصولی وضاحت کے بعد اب ہم متعین طور پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امریکا کی مداخلت اور ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر اس کی گرفت کیا شکل اختیار کرگئی ہے؟ جس نئی غلامی کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ہوا تھا، وہ صدر زرداری کے دور میں اس سے بدرجہا زیادہ قبیح اور خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے اور یہ پالیسی ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچارہی ہے۔ امریکا کے اثرورسوخ اور دراندازیوں میں اضافہ نائن الیون کے بعد مشرف کی اختیار کردہ پالیسیوں کا ثمرہ ہے اور خسارے کے اس سودے کی جہاں اولیں ذمہ داری جنرل پرویز مشرف کی ہے، وہیں اس ذمہ داری میں موصوف کی پوری ٹیم شریک ہے، خواہ اس کا تعلق ملک کی فوجی قیادت سے ہو یا مشرف دور کے وہ مددگار جن میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم سب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وعدہ معاف گواہ آج جو بھی کہیں، کم از کم ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۷ء تک جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ داری میں یہ سب برابر کے شریک ہیں اور انھیں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی۔
قوم نے فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں مشرف کی پالیسیوں کو یک سر مسترد کر دیا، لیکن یہ ایک تاریخی سانحہ ہے کہ پی پی پی کی حکومت نے زرداری صاحب کی قیادت میں نہ صرف مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا، بلکہ اپنے تمام ہی اساسی معاملات کو امریکا کے تابع کردینے میں یہ پرویز مشرف سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ زرداری صاحب سے ان کے حالیہ دورئہ امریکا میں اوباما، ہیلری کلنٹن اور دوسرے امریکی حکام نے جس سردمہری اور بے نیازی سے معاملہ کیا، اس نے پاکستان کی عزت و وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔ امریکا، زرداری کے ساتھ بحیثیت فرد جو بھی معاملہ کرے یہ اس کا اختیار ہے، لیکن پاکستان کے صدر زرداری کے ساتھ جو کچھ اس نے کیا، اس کا پاکستانی قوم کو دکھ ہے اور وہ نہ امریکا کو اس بے عزتی پر معاف کرے گی اور نہ زرداری صاحب کو، جن کا حال یہ ہے کہ اس تحقیر و توہین آمیز رویے کے باوجود کاسۂ گدائی لیے پھرتے رہے اور ۴جولائی کو امریکی یومِ آزادی کے موقع پر نہ صرف امریکی سفارت خانے جاکر تقریب میں شرکت فرمائی بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق اس موقع پر یہ شرم ناک الفاظ بھی ادا کیے:
میں اس موقع پر پاکستان میں امریکی سرزمین سے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں۔ (جنگ، ۱۳ جولائی۲۰۰۹ء، انصار عباسی کا کالم ’خطرے کی گھنٹی اور بے حس قیادت‘)
پاکستان کی زمین کا چپہ چپہ پاکستان کا حصہ ہے۔ زرداری صاحب کو ایسے اعلان کرنے ہیں تو شوق سے نیویارک کے اپنے فلیٹ سے نشر کریں، مگر خدارا پاکستان کی سرزمین کو ایسے پوچ خیالات کے اظہار کے لیے استعمال نہ کریں۔
امریکا نے محض قوت اور دھونس کے ذریعے پاکستان کو اپنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک کیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس جنگ میں شرکت کے سبب اب تک جو نقصان اٹھا چکا ہے وہ ۳۵ ارب ڈالر یعنی ۲۸ کھرب روپے سے متجاوز ہے۔ اس پر مستزاد ہزاروں قیمتی جانوں کا اتلاف ہے، خواہ ان کا تعلق فوج سے ہو یا عوام سے۔ ڈرون حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں اور امریکا پوری رعونت سے ہماری سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ پاکستانیوں کو حشرات الارض کی طرح مار رہا ہے۔ خود امریکی ترجمان کے مطابق ان ڈرون حملوں میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ۱۷۰ افراد مارے گئے ہیں ، مگر عام پاکستانی جو اس جارحیت کاشکار ہوئے ہیں ان کی تعداد ۸۰۰ سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت ان حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اور پارلیمنٹ کے متفقہ مطالبے کے علی الرغم ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی ہوئی ہے، اور یہ قیادت جس فدویانہ ادب سے روایتی احتجاج کر رہی ہے، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا کو درپردہ اس کی شہ حاصل ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اس قیادت پر سے قوم کے اعتماد کو پارہ پارہ کر دیا ہے، اور قوم اسے شریکِ جرم سمجھتی ہے۔
پاکستانی قوم یہ جانتی ہے اور اس کا برملا اظہار کر رہی ہے کہ اس علاقے کے حالات کو بگاڑنے کا اصل سبب افغانستان پر امریکی فوج کشی ہے۔ خود افغان قوم، امریکی اور ناٹو افواج کے اس جارحانہ قبضے کی اس انداز سے مزاحمت کر رہی ہے، جس طرح اشتراکی روس کی فوجوں کی مزاحمت کر رہی تھی۔ امریکا اور یورپی اقوام جان گئی ہیں کہ افغانستان میں وہ جنگ نہیں جیت سکتے اور انھیں وہاں سے لازماً نکلنا ہی پڑے گا، مگر پاکستان کی قیادت کے فکری افلاس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وہ امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ امریکا کے اس دوغلے پن سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں کہ وہ ایک طرف افغانستان میں فوجوں کی تعداد کو بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف اچھے اور بُرے طالبان کا افسانہ تراش کر مذاکرات اور انخلا کی حکمت عملی کی طرف بھی بڑھ رہا ہے۔ امریکا، پاکستان پر مزید دبائو بڑھا رہا ہے کہ اس جنگ میں اپنی فوج کو جھونکے رکھے اور نئے نئے محاذ کھولے اور پاکستان کی موجودہ قیادت ہر حکم پر ’حاضر جناب‘کہہ کر عمل پیرا ہو رہی ہے۔ اس قیادت نے ملک کے حساس علاقوں کو جنگ کی آگ میں جھونک کر ۳۸ لاکھ افراد کو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر دیا ہے جس کا مالی نقصان بھی اب کھربوں روپے کی خبر دے رہا ہے۔۱؎
امریکا اور یورپ کے تجزیہ نگار اب کھل کر یہ بات لکھ رہے ہیں کہ امریکا کے لیے افغانستان کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ناممکن ہے، اس لیے جتنی جلد ممکن ہو، وہاں سے نکلنے کا راستہ اختیار کیا جائے، لیکن یہ پاکستان کی قیادت ہے کہ وہ اس دلدل میں اور بھی دھنستی چلی جارہی ہے۔ سوات اور بونیر کے بعد دیر، مالاکنڈ اور اب وزیرستان اور ناٹو کے حکم کے مطابق جلد ہی بلوچستان میں بھی فوج کشی کا سامان کیا جا رہا ہے۔۱؎ ناٹو کے کمانڈر صاحب پاکستان کو یہ حکم دے رہے ہیں اور خود افغانستان کے بارے میں جو مسئلے کی جڑ ہے، ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس کے ساتھ ہی انھوں نے اختلافات طے کرنے کے لیے کسی فوجی آپشن کے بجاے سیاسی مکالمے کی زیادہ ضرورت پر زور دیا‘‘۔
یہ ہے یورپی افواج کے کمانڈر کا دوغلا پن۔ لیکن ہمیں افسوس تو اس پاکستانی قیادت پر ہے، جو اس کھیل کے مہروں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور اطاعت شعاری اور ڈالروں کے عوض اپنے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونکنے اور جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
برطانیہ اور امریکا کے اہم اخبارات اور تجزیہ کاروں کے خیالات کا جائزہ لینے سے جو نتیجہ کھل کر سامنے آرہا ہے، وہ افغانستان کی جنگ کی ناکامی کا احساس، امریکی اور یورپی افواج کی ہلاکت (جو پاکستانی افواج اور سول افراد سے ۱۰ گنا کم ہے) پر اضطراب اور بے چینی، مصالحت اور فوجوں کے انخلا پر مبنی نئی حکمت عملی کی تلاش ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین (۹جولائی ۲۰۰۹ء) میں ایک ہفتے میں ساتویں برطانوی فوجی کی موت کی خبر شائع ہونے کے بعد ایک عوامی سروے میں آبادی کے ۷۱ فی صد نے کہا ہے کہ:’’افغانستان میں فوجی کارروائی سود مند ثابت نہیں ہو رہی اور حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے‘‘۔
برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط اقدام تھا اور ہمیں انتہا پسندی روکنے کے لیے اپنی کوششوں اور اس کے نتیجے میں ہولناک تشدد کے ایک بنیادی جائزے کی ضرورت ہے۔
ملی بینڈ کی نگاہ میں یہ جنگ صحیح نتائج سامنے نہیں لا سکتی اور جس نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ سیاسی ہے:
دہشت گرد گروپوں کی بنیادوں سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلحے اوررقم کی فراہمی کے راستوں کو روک کر، ان کے دعووں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر کے، ان کے پیرووں کو جمہوری سیاست میں لاکر… (دی گارڈین، ۱۵جنوری ۲۰۰۹ء)
امریکا کی سابق وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’امریکی خارجہ پالیسی میں گہرا خلا‘ قرار دیا ہے۔ گارڈین کے مضمون نگار جیمز ڈینسلو نے ۷جولائی ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنے مضمون: ’تاریخ نے ابھی فیصلہ نہیں دیا‘ میں کہا ہے کہ عراق پر امریکا کی فوج کشی ایک تاریخی تباہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک قوم تباہ ہوگئی اور اسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ امریکا کے سابق صدارتی امیدوار سینیٹر جان کیری اور کانگریس کے رکن گیری ایکرمین بار بار اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں فوجی حل پر مبنی حکمت عملی کام نہیں کر رہی اور اس پر ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ گراہم فولر امریکا کے تھنک ٹینک، رینڈ کارپوریشن کا سابق سربراہ ہے، جو ایک زمانے میں افغانستان میں سی آئی اے کا ذمہ دار بھی رہا ہے اپنے ایک حالیہ مضمون میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں لکھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔لندن گارڈین کا ایک اور مضمون نگار پیٹر پرنسٹن (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اپنے مضمون: ’’بہت ہوچکا! افغانستان میں بے مقصد اور احمقانہ جنگ کو فوراً بند ہونا چاہیے‘‘ میں لکھتا ہے کہ افغانستان میں ناٹو افواج کی کامیابی کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ’’تم جو کچھ کر رہے ہو، اگر وہ بالکل غلط ہو رہا ہو تو ہمیشہ ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اسے روک دو‘‘۔
وہ اپنی اور ناٹو اور امریکا کی قیادتوں کو متنبہ کرتا ہے کہ:’’سب سے زیادہ خونیں فریب یہ ہوسکتا ہے کہ ہلمند میں بڑھی ہوئی کارروائیوں کا حاصل مزید خون خرابے کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے‘‘۔
پیڈی ایشڈرون برطانیہ کے چوٹی کے سیاست دانوں میں شمارہوتا ہے اور وہ یورپی یونین میں مختلف سیاسی ذمہ داریوں پر فائز رہا ہے، اس کا بیان یکم جولائی ۲۰۰۹ء کے برطانوی اخبارات میں شائع ہوا ہے، جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا اور ناٹو سمیت تمام غیرملکی فوجیں افغانستان میں شکست سے دوچار ہیں اور اس نے حکمت عملی کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ’’اس حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے افغانستان میں ہم جنگ ہار رہے ہیں اور فوجی قتل ہورہے ہیں‘‘۔
چین کے ایک بڑے انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ اوباما بھی افغانستان میں جنگوں میں شکست کا سبب بننے والی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ اب تک اس جنگ میں ۷۰۸ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور ۳۰۶۳ زخمی ہوچکے ہیں۔ ۲۰۰۲ء سے لے کر اب تک ۴۴۰ ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ تازہ راے عامہ کے سروے کے مطابق امریکا کے ۴۸ فی صد افراد اس جنگ کے خلاف ہیں، جب کہ اس کی تائید کرنے والے صرف ۲ فی صد زیادہ ہیں یعنی ۵۰ فی صد۔ اب تک کے تمام جائزوں سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ صدر اوباما، امریکی عوام کے جذبات کو افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے لیے ہموار نہیں کرسکے۔ ایک تازہ سروے میں امریکی آبادی کے ۶۶ فی صد نے کہا ہے کہ اوباما کی اصل ترجیح معیشت، روزگار اور حکومت کی بہتری ہونی چاہیے، صرف ۹ فی صد نے عراق اور افغانستان کی جنگ کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔ (جنگ، لندن، یکم جولائی ۲۰۰۹ء)
نیویارک ٹائمز نے (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ برطانوی راے عامہ میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور اسے افغانستان میں جنگ کی ناکامی کا یقین ہوتا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں: ’’جنگ میں برطانیہ کی شرکت ملک میں اتنی شدید تنقید کی زد میں آئی ہے جیسی اس سے پہلے نہ آئی تھی‘‘۔
اور برطانیہ کے مشہور دانش ور اور سیاسی تجزیہ نگار سائمن جین کنز نے گارڈین (۲۵جولائی ۲۰۰۹ء) میں امریکا کو مشورہ دیا ہے: ’’اوباما کو اس حماقت کو ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ افغانستان اس کا ویت نام بن جائے‘‘۔ اس نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے: ’’نہ پینٹاگان اور نہ برطانیہ کی وزارتِ دفاع محض اسلحے کے زور پر افغانستان کی جنگ جیت سکتی ہے‘‘۔
اس نے دعویٰ کیا ہے کہ خود امریکی فوجی کمانڈر کے ایک کلیدی مشیر نے بھی اس جنگ کے تباہ کن اثرات سے امریکی صدر کو متنبہ کیا ہے: ’’جنگ کے مقاصد کی واضح ناکامی کا کھلا کھلا تجزیہ اوباما کے کلیدی جنرل ڈیوڈ پیٹرس کے مشیر ڈینیل کلکولر نے کردیاہے‘‘۔
سائمن جین کنز نے واضح طور پر لکھ دیا ہے:
۲۰۰۱ء کا حملہ کرنے، اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور علاقے کو دہشت گردی سے صاف کرنے کی پالیسی آزمائی جاچکی ہے اور ناکام ہوچکی ہے۔ حکمت عملی نوجوان مغربی سپاہیوں اور ہزاروں افغانوں کے بے معنی قتل تک محدود ہوگئی ہے۔ افواج صرف اس لیے بھیجی جارہی ہیں کہ لیبر منسٹر میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ یہ تسلیم کرسکیں کہ بلیئر کا اسلامی خطرے کو ختم کرنے کی کوشش محض اس کا پاگل پن تھا۔ بلیئر کہتے تھے کہ لندن کی شاہراہوں کو محفوظ بنا رہے ہیں لیکن عملاً وہ ان شاہراہوں کو اور زیادہ پُرخطر بنا رہے ہیں۔ ویت نام نے دو صدور جانسن اور نکسن کو ختم کیا اور نوجوان امریکیوں کی ایک نسل کا عالمی اعتماد بھی ختم کیا۔ افغانستان بظاہر ’اچھی جنگ‘ ہے مگر اس کے نتائج بھی ویت نام جیسے ہوسکتے ہیں۔ (گارڈین، لندن، ۲۵ جون ۲۰۰۹ء)
مقالہ نگار نے جو کچھ امریکا اور برطانیہ کے بارے میں لکھا ہے، وہ پاکستان اور اس کی موجودہ قیادت کے بارے میں ۱۰ گنا زیادہ درست ہے۔ ہم اپنے وسائل اور اپنی قوتیں ایک ہاری ہوئی جنگ میں جھونک رہے ہیں، جب کہ ہمیں اس جنگ سے قطع تعلق کرنے اور افغانستان کے امریکا اور ناٹو کی فوجوں کے واپسی کے منظرنامے میں اپنے، افغانستان اور پورے علاقے کے حالات اور تعلقات پر اپنی توجہ دینی چاہیے۔ ہم اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں، مگر امریکا کے سوچنے سمجھنے والے افراد امریکا کی افغان پالیسی کی ناکامی کو نوشتۂ دیوار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کی سب کمیٹی براے شرقِ اوسط اور جنوب ایشیا کے چیئرمین گریگ ایکرمین نے اعتراف کیا ہے کہ: ’فاٹا میں امریکی حکمت عملی کارگر نہیں ہے‘ (ملاحظہ ہو، انور اقبال کی رپورٹ، روزنامہ ڈان، ۲۷ جون ۲۰۰۹ء)۔
امریکا کے ایک سابق سفیر چارلس ڈبلیو فری مین کی واشنگٹن میں کی جانے والی تقریر کی روداد ہر اعتبار سے چشم کشا ہے۔ اس نے امریکا کی جاری پالیسی کی ناکامی کا کھل کر اعتراف کیا ہے، اور اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ نہ صرف امریکا نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ امریکا کے دبائو میں خود پاکستان نے ایک پُرامن علاقے کو شورش اور جنگ و جدل کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔
سفیر فری مین نے امریکی پالیسی کو حالات کے ناقص ادراک کا نتیجہ قرار دیا ہے، اور علاقے کی تاریخ، روایات اور زمینی حقائق سے ناواقفیت کی پیداوار قرار دیا ہے۔ اس کی نگاہ میں ایک بنیادی مغالطہ جاسوسی کے ذریعے حاصل کردہ معلومات اور حقائق کو گڈمڈ کر دینا ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کو ایک سمجھ لیا گیا ہے اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ اس کی نگاہ میں یہ تباہ کن غلطی ہے… جو حالات کے معروضی جائزے کے مقابلے میں اخبارات کی احمقانہ سرخیوں کی پیداوار ہے اور امریکا کے خلاف عوامل ردعمل امریکا کی انھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
امریکی پالیسی کے اثرات کے تحت امریکا مخالف دہشت گردی مزید پھیل رہی ہے، خاص طور پر پاکستان میں۔ (دیکھیے: Refusing to Learn ، دی ٹائمز، ۹جولائی ۲۰۰۹ء)
لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے ۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اداریے میں افغانستان سے برطانیہ کی افواج کی واپسی کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے: ’’افغانستان میں ہمارا مشن سخت خطرے میں ہے‘‘۔ اس اداریے میں انڈی پنڈنٹ نے افغانستان کے ایک عوامی سروے کا حوالہ بھی دیا ہے جس کی رُو سے افغانستان کی آبادی کے ۶۸ فی صد کی خواہش ہے کہ: ’’ان کی حکومت گفت و شنید کرے اور طالبان سے مصالحت کرے‘‘۔
انڈی پنڈنٹ نے آخر میں برطانوی وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا ہے: ’’اگر وہ طالبان سے باوقار مذاکرات نہیں کرسکتے، تو انھیں اپنی فوجیں واپس بلا لینی چاہییں‘‘۔
یہ ہے اس وقت کی عالمی فضا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس تبدیلی کا کوئی شعور نہیں اور لگتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے، عین مین انھی راہوں پر سفر کر رہی ہیں، جن پر چلنے کی انھیں امریکی آقائوں نے ہدایت کی ہے۔ اس وقت امریکا کا اصل کھیل یہ ہے کہ:
افغانستان میں جاری جنگ کا رُخ پاکستان کی طرف پھیر دیں۔ اسرائیل ایران پر حملے کے لیے پَر تول رہا ہے اور پاکستان اور شرقِ اوسط کے ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا درپردہ شریکِ کار ہیں۔ افغانستان کے صوبے ہلمند میں جو آپریشن اس وقت جاری ہے، وہ پاکستان پر دبائو کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔بھارت افغانستان میں ایک خاص کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان سے پاکستان میں بھی دراندازیاں کر رہا ہے۔ امریکا خود افغانستان سے نکلنے کی تدبیریں کر رہا ہے، جب کہ پاکستان کو اس آگ میں جھونک دینے میں مصروف ہے۔
امریکا نے پاکستان کی معاشی ناکہ بندی بھی کرڈالی ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے ذریعے اپنے شکنجے مزید کس رہا ہے۔ ۵ء۱ بلین ڈالر کی جس امداد کا بڑا شور ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف اس کے ذریعے سے پاکستان کی معیشت ہی نہیں، تعلیم، انتظامیہ، فوج اور سیاسی اور خارجہ پالیسیوں تک کو اپنا پابند کیا جا رہا ہے، دوسری طرف جسے امداد کہا جا رہا ہے، اس کا بڑا حصہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ ۲۵ ایکڑ مزید اراضی پر، جو حکومتِ پاکستان سے کوڑیوں کے مول حاصل کرلی گئی ہے، ایک بڑا تعمیراتی کمپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ کمپلیکس جو جاسوسی اور فوجی کارروائیوں کے لیے امریکا کے اڈے کی حیثیت رکھے گا اور اس پر ۳۰۰ افسران کے رہنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ اڈا بغداد کے بعد دنیا میں سب سے بڑا امریکی اڈا ہوگا۔ نیویارک ٹائمز (۱۴جولائی ۲۰۰۹ء) میں چالمس جانسن کا چشم کشا مضمون Empire of Bases (اڈوں کی سلطنت) شائع ہوا ہے، جس میں دنیا میں امریکا کے ۸۰۰ اڈوں کا تذکرہ ہے اور اس میں سرفہرست پاکستان کے نئے اڈے کا ذکر خیر ہے، ملاحظہ ہو:
آغاز میں ۲۷ مئی کو ہمیں معلوم ہوا کہ محکمہ خارجہ ۷۳۶ ملین ڈالر کے خرچ سے اسلام آباد میں ایک نیا سفارت خانہ تعمیر کرے گا۔ یہ عمارت ویٹی کن شہر کے برابر ہوگی۔ بش انتظامیہ نے بغداد میں جو عمارت تعمیر کرائی، اس کے بعد یہ دوسری بڑی قیمتی عمارت ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ ۷۳۶ ملین ڈالر اس ۵ء۱ بلین ڈالر امداد کا حصہ ہے، جو لوگر بل کے زیرسایہ پاکستان کو دینے کا اعلان ہوا ہے۔ یہ نئی تعمیر ان اڈوں کے علاوہ ہے جو امریکا ۲۰۰۱ء کے بعد قائم کرچکا ہے اور جن کے بارے میں امریکا نواز ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کی ۱۹ تا ۲۵جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ایک مضمون نگار نے شاہد جاوید برکی کے حوالے سے لکھا ہے: ’’کھاریاں چھائونی دراصل امریکی افواج کے لیے تعمیر کی گئی تھی‘‘۔
تربیلا اور بلوچستان کے بارے میں ڈاکٹر شیریں مزاری کے ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے مضمون میں یہ حوالہ قابلِ غور ہے:
امریکیوں کے متفرق گروپ مقامی لوگوں کے بھیس میں (مشابہ لباس اور ڈاڑھیوں کے ساتھ) تربیلا کے آس پاس اور بلوچستان میں گھومتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا بہت احتیاط سے جائزہ لیں۔ (دی نیوز، ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء)
امریکا جس طرح ہمارے خارجی اور داخلی معاملات میں دخیل ہوگیا ہے، وہ پاکستان کی آزادی، سالمیت، خودمختاری اور نظریاتی تشخص کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ امریکا ہی اب ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ بھارت سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اور امریکی دہشت گردی کے نتیجے میں رونما ہونے والے اندرونی دہشت گردی کے واقعات کو ’اصل خطرہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان کا وجود امریکا کے افغانستان پر فوجی قبضے اور پاکستان میں اس کی دراندازیوں کا رہینِ منت ہے۔ امریکی صدر، ہیلری کلنٹن، ہالبروک اور میڈیا کی طرف سے بہ تکرار ایک ہی آواز آرہی ہے کہ پاکستان کے لیے اصل خطرہ بھارت نہیں، طالبان ہیں اور صدرزرداری اس کی صداے بازگشت بن گئے ہیں، جب کہ وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ یہ زرداری صاحب کی ذاتی راے ہے ،صدر پاکستان کا فرمان نہیں۔
یہ ہیں وہ حالات جن میں پاکستان کی آزادی کی بازیابی کی جدوجہد ناگزیر ہوگئی ہے اور اس کے لیے قومی مفاد اور قومی مقاصد کے مطابق امریکا سے پاکستان کے تعلقات کی ازسرِنو تشکیل اولیں اہمیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لاتعلقی اور ملک کے لیے آزاد خارجہ پالیسی کو مرتب کرنا اور اس پر عمل، اولیں اہمیت کے حامل چیلنج ہیں۔ ہمیں اپنی سلامتی کے میزانیے کو خود مرتب کرنا ہے۔ اس کی روشنی میں امریکا، بھارت، افغانستان اور دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرنے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے معاملات پر امریکا کا غلبہ اور بالادستی ختم ہو۔ ’گو امریکا گو‘ کی تحریک کا اصل مقصد خارجہ پالیسی اور داخلہ سیاست کو امریکا کی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے پاکستانی قوم کے عزائم، مفادات اور خواہشات کے مطابق ازسرِنو مرتب و منظم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم قدم ملک کی پارلیمنٹ نے ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفقہ قرارداد کی شکل میں اختیار کیا تھا، لیکن زرداری حکومت نے اپنی پالیسیوں اور مسلسل اقدامات کے ذریعے سے اسے غیرمؤثر بنا دیا ہے۔ افسوس کہ پارلیمنٹ اس خلاف ورزی پر گرفت کرنے کے بجاے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں کہ قوم خود اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو، اور ایک عوامی تحریک کے ذریعے سے جمہوری قوت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے اپنے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالے اور اپنے مستقبل کا سفر اپنے مقاصد اور اپنی ترجیحات کی روشنی میں مرتب کرے۔
(۱۴؍اگست : یومِ تشکر، یومِ احتساب بھی، کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت:۱۰ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور- فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹، فیکس: ۳۵۴۳۴۹۰۷)
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں، اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں، امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جذبات کا ایک طوفان برپا ہے۔ امریکا سے بے زاری کے یہ جذبات و احساسات ویسے تو دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے برابر بڑھ رہے ہیں، لیکن ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابلِ مذمت واقعات کے بعد امریکی صدر جارج بش کی قیادت میں امریکا کے خونیں ردعمل کو، جسے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کا نام دیا گیا ہے، امریکا مخالف جذبات میں تلخی اور شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
ایک وقت تھا کہ مسلم دنیا، یورپ کے سامراجی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد میں امریکا کو ایک حد تک اپنا دوست اور ہم نوا سمجھتی تھی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن کے آزادی، حقوقِ انسانی اور مظلوم اقوام کے حق خود ارادیت کے اعلانات پر یقین کرنے لگی تھی۔۱؎ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی عالمی جنگ کے بعد بلادِ شام اور فلسطین کی تولیت (trusteeship) کا سوال اُٹھا، تو ان ممالک کے نمایندوں نے فرانس اور برطانیہ کے مقابلے میں امریکا کو حکمرانی کا اختیار (مینڈیٹ ) دینے کا مطالبہ کیا، جسے یورپ کی بعض دیگر قوتوں نے منظور نہ کیا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء) کے بعد فضا بدلنی شروع ہوئی۔ امریکا نے عالمی بالادستی کے عزائم ظاہر کیے تو اس پر اعتماد متزلزل ہونے لگا۔ پھر اسرائیل کے قیام میں امریکا کے سخت منفی کردار نے اس اعتماد کو بالکل ہی چکنا چور کردیا۔ وہ وقت اور آج___یہ بے اعتمادی بڑھتے بڑھتے بے زاری اور نفرت کا روپ دھارنے لگی۔ سرد جنگ (۱۹۴۶ء-۱۹۹۱ء) میں امریکا کے کردار اور سامراج دشمنی کی عالمی تحریکوں نے بھی اس نفرت کو پروان چڑھانے میں ایک کردار ادا کیا۔ تاہم، جو چیزیں اس کی اصل وجہ بنیں، وہ امریکا کے عالمی عزائم اور مسلم دنیا میں ایک ناجائز ریاست قائم کرنے کے لیے اسرائیل کی پشت پناہی، قوم پرستی کی تحریکوں کی سرپرستی، عالمِ اسلام کے معاشی، خصوصیت سے تیل اور انرجی کے وسائل پر قبضہ اور ان کا امریکا اور مغربی اقوام کے مفاد میں استعمال تھا۔ پھر اس عمل کے لیے ہرملک میں اپنے پٹھو تیار کرنا اور آمروں کے ذریعے مسلمانوں کو قابو میں رکھنا ہے۔ جو بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس مخالفت اور بے زاری کا سبب امریکا کا نظامِ حکومت اور جمہوریت کی وہ اقدار ہرگز نہ تھیں، جن کا نام لے کر امریکی قیادت اور خصوصیت سے صدربش نے دنیا پر یلغار کی تھی،بلکہ اصل وجہ امریکا کی پالیسیاں اور اس کا سامراجی اور ظالمانہ رویہ تھا، اور جب تک ہرسطح پر اس حقیقت کا صحیح ادراک نہیں ہوجاتا اور پالیسیوں اور رویوں کی تبدیلی کا اہتمام نہیں ہوتا، تعلقات میں بنیادی تبدیلی ناممکن ہے۔
ان حالات کا معروضی تجزیہ یونی ورسٹی آف پنسلوانیا میں علمِ سیاست کے دو پروفیسروں۲؎ نے پیش کیا ہے، ہر دو حضرات نے نائن الیون سے ۱۶سال پہلے ۱۹۸۵ء میں امریکا مخالفت کے اس آتش فشاں کی نشان دہی کی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ تیسری دنیا کے بیش تر ممالک میں جو لاوا پک رہا ہے وہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ ان کی نگاہ میں بجاطور پر امریکا کی مخالفت کے رجحان کی اصل وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں اور عملی سرگرمیاں تھیں جن کے نتیجے میں امریکا سے دنیا کی اچھی توقعات خاک میں مل گئیں، امید کی شمع گل ہوگئی اور مایوسی اور بے زاری نے بغاوت اور تصادم کی راہ ہموار کی۔ ۱۹۸۸ء ہی میں امریکا کے ایک سابق سفیر رچرڈ بی پارکر نے کہا تھا:
امریکیوں اور امریکی علامات کے خلاف تشدد علاقے میں امریکی پالیسی کے خلاف ردعمل تھا، اس لیے کہ یہ پالیسی حکمت عملی کا لحاظ رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ داخلی مفادات اور امریکا کے اندر توازنِ اقتدار اور فوجی صنعتی کمپلیکس کے دبائو کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔۳؎
ان تمام محققین کی نگاہ میں: ’’امریکا کے خلاف ردعمل ان ملکوں کا امریکی پالیسی اور معاشی سرگرمیوں سے مایوسی کا نتیجہ تھا‘‘۔
امریکا سے یہ مایوسی اور بے زاری تو نائن الیون سے بہت پہلے موجود تھی، البتہ نائن الیون کے بعد اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۰۳ء سے لے کر آج تک کے تمام راے عامہ کے سروے، مسلم عوام کے ان جذبات کے عکاس ہیں۔ امریکی ادارے The Pew Global Attitude Project کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتی ہے:
۲۰۰۰ء کے بعد سے امریکا کے لیے پسندیدگی کی شرح ان ۲۷ ممالک میں سے ۱۹ میں گرگئی ہے جہاں رجحانات معلوم کیے جاسکے ہیں… امریکا کے بارے میں راے عامہ شرق اوسط میں بڑے پیمانے پر منفی ہے۔ اُن ممالک میں بھی جہاں حکومت کے امریکا سے قریبی تعلقات قائم ہیں، یعنی اُردن، ترکی، پاکستان، وہاں بھی قابلِ لحاظ اکثریت امریکا کے خلاف راے رکھتی ہے۔
دی پیو (Pew)، گیلپ انٹرنیشنل، زوگبی (Zogby) تینوں کے سروے مسلسل یہ نتائج سامنے لارہے ہیں کہ تمام ہی مسلم دنیا میں، بیش تر ترقی پذیر ممالک میں اور کچھ یورپی ممالک خصوصیت سے فرانس اور اسپین میں، امریکی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کے خلاف بے زاری کی لہر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ خود مصر میں جہاں امریکی صدر اوباما نے ۴ جون ۲۰۰۹ء کو خطاب کیا ہے، آبادی کے ۶۷ فی صد کی نگاہ میں پوری دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا میں امریکا کا کردار منفی ہے۔ ۷۶فی صد کی نگاہ میں امریکی حکمران مسلم دنیا کو بانٹنے اور کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔
لندن کے جریدے New Statesmen کی ۴ جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں عالمِ اسلام کی اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا:
افغانستان اور عراق پر تباہ کن حملوں اور قبضے کے آٹھ سال، ایران اور شام کے خلاف تندوتیز لفظی حملے، لبنان اور غزہ پر اسرائیلی بم باری کی امریکی حمایت نے دنیا کے ۳ء۱ ارب مسلمانوں میں امریکا کے خلاف نفرت پیدا کر دی ہے۔ بش کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے پہلے دن سے پوری دنیا میں مسلمانوں کو امریکا کے خلاف کر دیا اور امریکا دشمن احساسات کی سطح کو بہت بڑھا دیا۔ مثال کے طور پر زوگبی پول کے مطابق ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیان امریکا کے خلاف منفی رویہ رکھنے والوں کا تناسب ۷۶ سے ۹۸ فی صد ہوگیا، یعنی تقریباً پورا ملک۔
نومبر ۲۰۰۷ء کی امریکی حکومت کی ایک رپورٹ (جسے امریکی فوج کے اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کے ایک ماہر اینڈریو لارنس نے تیار کیا ہے) تلخ مگر حقیقت پر مبنی نتیجہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا کے خلاف دہشت گردی کے واقعات سے مسلم دنیا میں یہ احساس فروغ پارہا ہے، کہ انھیں وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے، اور اس روز افزوں احساس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مایوسی اور بے زاری و بے اطمینانی میں اضافہ ہوا ہے:
امریکا کی پالیسی اور حکمت عملی نے مسلم دنیا میں قول و فعل کے درمیان اعتماد کا خلا پیدا کردیا ہے۔ (The Global War on Terrorism، نومبر ۲۰۰۷ء)
اس رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ: حالیہ قومی پالیسیاں اور اقدامات درحقیقت کم نہیں بلکہ زیادہ انتہاپسند پیدا کر رہی ہیں۔
ہم نے صدر اوباما کی تقریر پر گفتگو کرنے سے پہلے، اس پس منظر کے اہم خدوخال پر توجہ مرکوز کرانا اس لیے ضروری سمجھا ہے کہ اس کے ادراک کے بغیر نہ وقت کے چیلنج کو صحیح طرح سمجھا جاسکتا ہے، اور نہ مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل حقیقت پسندی کے ساتھ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ امریکی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسلم دنیا کے حکمران جو بھی کہیں، یا ان کے زیراثر جو کچھ بھی کریں، اصل معاملہ مسلم عوام ہی نے طے کرنا ہے۔ ان کے احساسات، خدشات اور توقعات کو سمجھے بغیر اور ان کے صحیح فہم و ادراک کے بغیر یک طرفہ طور پر نہیں بلکہ مشترک مقاصد اور مفادات اور حقیقی مشاورت پر مبنی اتفاق باہمی پر مبنی حکمت عملی بنانے کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تو خوش کن الفاظ اور ڈرامائی حرکات سے حالات کا سدھار ممکن نہیں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا، خصوصاً مسلم دنیا میں امریکا کو جو اعتماد اور تائید ایک وقت حاصل تھی، اب اس کا عشر عشیر بھی باقی نہیں رہا ہے اور جب تک اعتماد کی نئی فضا نہ پیدا کی جائے، ایک ایسی فضا جو خواہشات اور ظاہری تکلفات کے مقابلے میں حقیقی مسائل کے ادراک اور برابری کی بنیاد پر مبنی ہو اور جب تک ایک دوسرے کے مقاصد اور مفادات کو دیانت داری کے ساتھ اور حقیقی تناظر میں نہ سمجھا جائے اور کسی بھی قسم کے دبائو کے بغیر تعاون کے نقشۂ کار کو سامنے نہ لایا جائے، اس وقت تک تقریریں اور وعظ لاحاصل رہیں گے۔
صدر بارک حسین اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں حسب ذیل وعدے کیے تھے، جن کی یاد دہانی ضروری ہے:
ا- بش کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں اور وقت آگیا ہے کہ ان میں تسلسل کے بجاے تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
ب- دہشت گردی کا مقابلہ محض قوت کے استعمال سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے ان اسباب کو دُور کرنا ضروری ہے، جن کے نتیجے میں دنیا دہشت گردی کی آماج گاہ بن گئی ہے، نیز یہ کہ دل و دماغ کی تسخیر اور خیالات اور افکار کی ہم آہنگی کے بغیر اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔
ج- عالمی امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب دنیا میں قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اور ان اصولوں کی طرف مراجعت ہو، جو انسانیت کی مشترک میراث اور [اس کے خیال میں] امریکی دستور کی اساس ہیں۔ قانون اور انصاف کے اصولوں سے انحراف کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، اس کی تبدیلی کے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔اس کے لیے گوانتانامو جیسے تعذیب خانوں کو بند کرنا ہوگا اور تشدد اور تعذیب کے تمام حربوں سے اجتناب ضروری ہے۔
د- امریکا کو مسلمانوں کے دل جیتنے کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی اور ماضی میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں، ان کی تلافی ضروری ہے [اس سلسلے میں اوباما نے فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کا خاص طور پر ذکر کیا اور ایران، لبنان اور شام وغیرہ کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ دیا]۔
ھ- قوموں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حاکمیت کا احترام کیا جائے۔ بش دور کی یک رُخی مہم جوئی سے اجتناب کا پیغام بھی دنیا کی اقوام کو دیا گیا۔
انتخابی مہم کے دوران میں اوباما کے ان اعلانات سے امریکا اور پوری دنیا میں، خاص طور پر مسلم دنیا میں جو پچھلے ۶۰، ۷۰ سال کے بالعموم اور بش کے آٹھ سالہ دورِ اقتدار میں خاص طور پر امریکا کی جنگ جو مہم کاریوں کا نشانہ بنی ہوئی تھی ، اُمید کی ایک مدھم سی کرن روشن ہوئی تھی۔
صدر اوباما نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اپنے اقتدار کے پہلے ۱۰۰ دنوں ہی میں وہ مسلم دنیا سے تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کریں گے۔ حلفِ صدارت کے فوراً بعد انھوں نے العریبیہ ٹیلی وژن کے نمایندے کو انٹرویو دیا۔ ۱۰۰ دن کے دوران ہی میں مئی ۲۰۰۹ء میں ترکی کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ: ’’امریکا، اسلام سے برسرِ جنگ نہیں‘‘۔ ۴ جون ۲۰۰۹ء کو جامعہ قاہرہ اور جامعہ الازہر کے پلیٹ فارم سے اُمت مسلمہ سے خطاب کیا اور اسے: ’’اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کے نئے آغاز کا نام دیا‘‘۔ اس تقریر پر اس کی اہمیت کے اعتبار سے مسلم دنیا ہی میں نہیں دنیا کے ہر گوشے میں بحث و گفتگو ہورہی ہے۔ ہم بھی اسے ایک اہم پیش رفت سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا بے لاگ اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ اگر خلوص اور دیانت سے اُمت مسلمہ سے دوستی اور تعاون کے لیے کہیں سے بھی کوئی ہاتھ بڑھایا جاتا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ یہی ہماری روایت اور تاریخ ہے، لیکن یہ سارا کام آنکھیں کھول کر اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت کے ادراک اور اظہار کے ساتھ کرنا چاہیے کہ اصل چیز قول نہیں، عمل ہے، اور مسلمانوں کو تو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔
صدر اوباما کے خطاب میں دوسرے امریکی صدور اور خصوصیت سے ان کے پیش رو جارج بش کے اندازِ گفتگو کے برعکس مفاہمت کی زبان استعمال کی گئی، اور تعلقات میں باہمی مفادات اور ایک دوسرے کے احترام کی بات بار بار کی گئی ہے۔ اگر یہ محض رسمی وعظ نہیں ہے تو قابلِ قدر ہے۔ لیکن ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اس تقریر کو ’’ایک نئے آغاز کا پیش خیمہ‘‘ قرار دینا مشکل ہے۔ اس لیے جہاں ہم محتاط انداز میں نئے دور کی تلاش کے اعلانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ صرف خوش نما الفاظ سے اس خلیج کو پاٹنا ممکن نہیں ہے، جو پوری ایک صدی کے تلخ تجربات کی پیداوار ہے۔ دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا، صدر اوباما کے ارشادات کو پالیسی کی تبدیلیوں اور عمل کی میزان پر دیکھے، پرکھے اور جانچے گی۔
ہمارا پہلا تاثر یہ ہے کہ اس تقریر میں خوش نما الفاظ اور جوشِ خطابت کا پلڑا بھاری ہے اور بنیادی امور اور مسائل کے بارے میں واضح پالیسی کے خطوط کار اور متعین تبدیلیوں کا سراغ دُور دُور نظر نہیں آتا۔ امریکا کی قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیا وہ دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام، اور خصوصیت سے مسلم دنیا سے اصول، حق و انصاف اور معتبر مفادات اور آزادی اور عزت کے احترام کے ساتھ معاملہ کرنا چاہتی ہے، یا اصل ہدف اور مقصد تو فقط امریکی مفادات کا حصول ہے، اور اس کے لیے ایک نئے انداز اور اسلوب سے معاملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو ان کی تقریر تضادات کا مجموعہ ہے۔ کبھی تبدیلی کا اشارہ دیا جاتا ہے اور پھر جلد ہی پرانی شراب، نئی بوتلوں میں پیش کردی جاتی ہے۔ بیش تر اساسی امور پر پالیسی کی تبدیلی کی طرف کوئی واضح اقدام تو کیا غیرمبہم اشارہ بھی نہیں دیا جاتا اور ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔ محض اسٹائل اور اندازِ گفتگو کی تبدیلی سے مطلوبہ تبدیلی کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن نہیں۔ محض ذاتی جذبات و احساسات پر مبنی خیالات پہ قوموں اور تہذیبوں کے مسائل کو نہ ماضی میں حل کیا گیا ہے اور نہ آج ممکن ہے۔
صدر اوباما کے اس خطاب میں جو مثبت چیزیں ہمیں نظر آئیں پہلے ان کا ذکر مناسب ہوگا:
پہلی بات یہ ہے کہ صدر اوباما، مسلمانوں سے ربط اور تعلق کو بہتر بنانے اور صدربش کی ناکامی، نفرت اور تصادم پیدا کرنے والی پالیسیوں سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ وہ ان پالیسیوں کی ناکامی کا کھل کر اعتراف نہیں کرتے، لیکن ان کے تسلسل کے نتیجے میں خطرات اور قباحتوں سے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ ایک جانب وہ ان سے نکلنے کے اشارے بھی دے رہے ہیں، مگر امریکی مفادات اور امریکی مقتدرہ اور ہیئت حاکمہ کی سوچ کے حلقۂ زنجیر سے نکلنے کا کوئی واضح عندیہ ابھی تک نہیں دے سکے ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے اپنے ایک مضمون (نیویارک ٹائمز ،۳ جون ۲۰۰۹ء) میں ان کی تقریر سے ایک دن پہلے ان کے اس مخمصے کا دل چسپ بیان کیا ہے، جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ضروری ہے:
اوباما کا مخمصہ یہ ہے کہ کوئی تقریر خواہ کتنی عمدہ کیوں نہ ہو، عراق، افغانستان، پاکستان، ایران اور شرق اوسط کے حالیہ واقعات کے زیرِاثر امریکا مسلم تعلقات کی صورت حال سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی۔ اس کا امکان کم ہے کہ صدر پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اعلان کرسکیں، اس لیے کہ ان کو مسلمانوں کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ حالیہ جاری پالیسی کو نئی روشنی میں دیکھیں۔
میڈلین آل برائٹ نے ایک جملے میں اصل مسئلے کو پیش کر دیا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ موجودہ پالیسیاں ہی جاری رہیں، مگر انھیں ’نئے جامے‘ میں پیش کیا جائے، جب کہ اصل مسئلہ پالیسیوں کی تبدیلی کا ہے۔ انھیں نئی تزئین و آرایش سے پیش کرکے قابلِ قبول بنانا ممکن نہیں۔
اس بنیادی وضاحت کے بعد ہم جن چیزوں کا خیرمقدم کرتے ہیں وہ یہ ہیں:
۱- مسلمانوں سے بحیثیت مسلمان بات کا آغاز کرنے کی کوشش اور کم از کم اس امر کا اظہار کہ امریکا، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نہیں اور تہذیبوں کے تصادم کے فریم ورک میں جو پالیسیاں اور اقدامات کیے جارہے ہیں، ان پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسلام کی جو مرکزی اہمیت ہے، اس کا کچھ نہ کچھ احساس صدر اوباما کو ہے اور وہ امریکا کی پالیسیوں پر نیا چہرہ سجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر اوباما کی اس تقریر میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بش کی محبوب و مرغوب اصطلاحات کا کوئی ذکر نہیں۔
وہ پُرتشدد انتہا پسندی (violent extremism) کا بار بار ذکر کرتے ہیں مگر دہشت گردی کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کرتے۔ اگر یہ صرف اظہارِ بیان کی تبدیلی ہے، جس کا خطرہ اور امکان غالب ہے، تو اس لیپاپوتی اور ظاہری ٹپ ٹاپ سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ پورے مسئلے پر ازسرِنو غور کرنے کی طرف پہلا قدم ہے تو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
۲- اس تقریر میں کم از کم اس بات کا اعتراف ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے مسلم ممالک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، اور اس سیاسی کھیل میں مسلمانوں کے اپنے عزائم اور خواہشات و مفادات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی اصلاح کے لیے اب مشترک مفادات اور باہمی احترام کے رویے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایک جنگی حربے کی تبدیلی پر مبنی عمل جیسی چال ہے تو اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوگا، لیکن اگر یہ حکمت عملی کی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے تو اس سے کچھ خیر رونما ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔ ہم اسے بہ یک جنبش رد نہیں کرسکتے۔ احتیاط سے اس احساس کو تبدیلی کی طرف لے جانے والے عمل کا حصہ بنانے کے امکانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
۳- صدر اوباما کی طرف سے سچ بولنے کی کوشش اور دل کی بات کو زبان پر لانے کی دعوت بھی اپنے اندر مثبت پیغام رکھتی ہے۔ البتہ اس کا اطلاق محض کسی ایک فریق پر نہیں، تمام متعلقہ فریقوں پر ہونا چاہیے اور مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی اس میں غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔
۴- صدر اوباما کی اس تقریر کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کے حکمرانوں کے مقابلے میں مسلم دنیا کے عوام کو اپنا مخاطب بنایا ہے، اور اسلام کو مسئلے کا ایک حصہ نہیں بلکہ مسائل کے حل اور امن و سلامتی کے حصول کی جدوجہد میں ایک مثبت عامل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ بھی اگر زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے، تو اس ہلکے سے اشارے کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مسلمان اُمت کی اصل حیثیت ایک داعی اور صاحب ِ دعوت اُمت کی ہے اور تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ (آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ اٰل عمرٰن ۳:۶۴) کے اصول پر ہمیں ہررونما ہونے والے موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۵- صدر اوباما نے بار بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ اسلام، امریکا کے لیے غیر نہیں اس کا حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قاہرہ کے خطاب میں انھوں نے امریکا میں مقیم ۷۰ لاکھ مسلمانوں کا ذکر کیا ہے اور اس کے چند دن بعد ہی ڈان کے نمایندے کو دیے جانے والے انٹرویو میں ۵۰لاکھ کی بات کی ہے، جو ناقابلِ فہم ہے۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کو امریکی معاشرے کا حصہ تسلیم کرنا اور مساوی بنیادوں پر ان کے کردار کا لفظی اظہار بھی نائن الیون کی مسموم فضا میں وہاں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ بات صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رہے گی اور مسلمانوں کے لیے امریکا میں جو بے اعتمادی، شک اور تعصب اور امتیازی رویے (discrimination) کی فضا بنا دی گئی ہے، وہ ختم کردی جائے گی۔ انھیں آزادی اور اپنے تشخص کی حفاظت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع حاصل ہوگا۔
صدر اوباما نے اس تقریر اور تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی دعوت کے لیے مصر کا انتخاب کیوں کیا، جب کہ مصر میں ۳۰سال سے ایک ایسی امریکا کی تابع مہمل حکومت قائم ہے جو آمریت کی بدترین مثال ہے اور اپنی ہی قوم کو جبر و استبداد کی تاریکی میں لپیٹے ہوئے ہے۔ مصر ہی کے ایک معروف دانش ور سعد الدین ابراہیم نے مصر کو منتخب کرنے پر اس بنیاد پہ اعتراض کیا کہ: ’’وہاں جمہوریت کا قتلِ عام ہو رہا ہے، تو مصری حکومت نے ان کی آواز کو دبانے کے لیے قوت کا استعمال کیا اور انھیں جیل میں دھکیل دیا۔ صدر اوباما کی جانب سے اس شہر کے انتخاب پر ایک مدت تک اضطراب کا اظہار کیا جاتا رہے گا۔
صدر اوباما نے حالات کا جو تجزیہ کیا ہے، وہ بھی کئی پہلوئوں سے محلِ نظر اور حقائق کے صحیح ادراک سے عاری نظر آتا ہے، مثلاً ان کا یہ دعویٰ کہ جدیدیت اور عالم گیریت کی لائی ہوئی بڑے پیمانے پر تبدیلی کے نتیجے میں بہت سے مسلمانوں نے مغرب کو اسلام کی روایات کے دشمن کے طور پر دیکھا___ ایک باطل مفروضہ اور ساری بحث کو خلط مبحث کی نذر کرنے کی بدترین مثال ہے۔ جدیدیت اور عالم گیریت کے اپنے مسائل ہیں، اور دنیا کی تمام ہی اقوام ان کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے نبردآزما ہیں، مگر ان کو مغرب کے خلاف بغاوت کی وجہ قرار دینا فکری و ذہنی فساد کے سوا کچھ نہیں۔ اصل ایشو امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی پالیسیاں اور مسلم ممالک کے وسائل کا استحصال ہے، نیز اسلامی احیا کی تحریکوں کو کچلنے اور مسلم ممالک پر اپنے من پسند حکمرانوں کو مسلط کرنے اور ان حربوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کو ایک نئی غلامی کے جال میں گرفتار کرنے کی قابلِ مذمت پالیسی ہے۔ آج بھی دنیا کے ۴۰ سے زائد ممالک میں امریکا کی کئی لاکھ افواج موجود ہیں۔ سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلامی اور محکومی وہ اصل سبب ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ظلم کا دور دورہ ہے اور مسلم ممالک امریکا کے براہِ راست قبضے یا کہیں بالواسطہ قبضے کا شکار ہیں۔
اسی طرح دہشت گردی کے نام پر، اور اب نام بدل کر انتہا پسندی اور پُرتشدد انتہا پسندی کے عنوان سے جو جنگیں امریکا نے مسلم دنیا پر مسلط کی ہوئی ہیں، اور جن کے نتیجے میں مختلف نوعیتوں کی قتل و غارت گری برپا ہے اور جس درجہ مسلم ممالک کو تباہی کا نشانہ بنایا ہوا ہے، ان سب زیادتیوں کا مداوا محض دوستی اور احترام کے خوش نما الفاظ سے ممکن نہیں۔
صدر اوباما نے سچ بولنے کی تلقین کی ہے اور اس سلسلے میں قرآن کی ہدایت کا بھی تذکرہ کیا ہے، مگر ہر اہم موضوع پر جس کا انھوں نے ذکر کیا ہے، وہ خود سچ اور پورے سچ کی راہ صواب سے بہت دُور رہے ہیں۔ حماس کے کمزور اور ناپختہ میزائلوں پر ان کی تقریر دل پذیر اور اسرائیل کے حملوں، غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں پر امریکا کے فراہم کردہ ایف ۱۶ سے حملے، میزائلوں کی بارش، بھاری توپ خانے سے بم باری، اور غزہ کی پوری آبادی کی ایسی ناکہ بندی کہ اشیاے ضرورت اور خوردونوش کے سامان سے بھی محرومی مقدر بنا دی گئی___ یہ سب ظالمانہ اور چنگیزی کارروائیاں نہ صدر اوباما کو نظر آئیں اور نہ ان کی تقریر میں کوئی جگہ پاسکیں۔ حماس کو انھوں نے لیکچر پلایا کہ تشدد کا راستہ ترک کردیں، لیکن اسرائیل کے ریاستی تشدد اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قابضین (settlers) کے تشدد کا کوئی خیال تک ان کو نہیں آیا۔ ایران کی ایٹمی صلاحیت ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور اس وجہ سے انھیں اس علاقے میں ایٹمی دوڑ کا خدشہ نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کے ۲۰۰ سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ان کی پیشانی پر شکن پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے ہیں۔ کیا دنیا یہ بھول گئی ہے کہ لبنان میں ۱۹۸۲ء کے دوران اسرائیل کے حملے میں ۱۷ہزار ۵سو عام شہری جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد تھی، شہید کیے گئے؟ کیا صبرااور شاتیلا کے ان ۱۷۰۰ معصوم انسانوں کے بے دردانہ قتلِ عام کو دنیا بھول گئی ہے؟ کیا ۱۹۹۶ء میں ۱۰۶ لبنانی عام شہریوں کے، جن میں نصف بچے تھے، قتل کا خون اسرائیل کے ہاتھوں پر نہیں؟ کیا ۲۰۰۶ء میں فلسطینیوں کے مہاجرین کیمپ سے اسرائیلی حکم پر سیکڑوں افراد کا انخلا، اور پھر اسرائیلی ہیلی کاپٹروں سے ان کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا واقعہ قابلِ ذکر نہیں؟ اور کیا ۲۰۰۶ء میں لبنان میں ایک ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اُتارنا اور ۲۰۰۸ء میں غزہ میں ۱۳۰۰ کی شہادت کسی شمارقطار میں نہیں؟ اگر صدراوباما کو یہ سب نظر نہیں آتا تو پھر ان کی طرف سے انصاف کی دہائی اور صدق بیانی کی تلقین پر کون یقین کرے گا؟
صدر اوباما افغانستان میں جنگ کو ’مجبوری کی جنگ‘ (war of necessity) قرار دیتے ہیں اور عراق میں فوج کشی کو ’مرضی کی جنگ‘ (war of choice)کہتے ہیں۔ لیکن جس جھوٹ پر اور جن واہموں پر ان تمام جنگی کارروائیوں کا انحصار ہے، ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ عراق میں مستقل قیام چاہتے ہیں اور نہ افغانستان میں، لیکن عملاً دونوں ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے اور پاکستان کو بھی اپنی فوجی جاگیر میں شامل کرنے کے تمام اقدامات کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں، اور ان ممالک پر اپنے احسانات کا بوجھ ڈالنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ عراق سے واپسی کی باتیں ۲۰۱۲ء کی خبر لارہی ہیں اور افغانستان میں دسیوں سال قیام کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ان عملی کارروائیوں کے ساتھ انخلا کی حکمت عملی کی بات بھلا کیا مناسبت رکھتی ہے۔
تین ماہ پہلے پاکستان کو چند مہینوں اور چند ہفتوں کا مہمان کہا جا رہا تھا، اور اب پاکستانی حکومت اور فوج نے ان کے احکام کی تعمیل میں اپنی قوم کو جس جنگ میں جھونک دیا ہے اس سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچ رہی ہے اور اب پاکستان ان کو مستحکم ہاتھوں میں نظر آرہا ہے۔ صدراوباما کو سمجھنا چاہیے کہ یہ مسئلہ خوش کلامی کا نہیں، امریکا کی پالیسیوں اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہ کاریوں کا ہے اور جب تک امریکا اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرکے جنگی جنون سے باز نہیں آتا، عالمِ اسلام سے تعلقات کی درستی کا خواب ’اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے‘ سے زیادہ نہیں۔ عالمِ اسلام کے زخم حسین الفاظ اور خاندانی رشتوں کے تذکرے سے مندمل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے پالیسیوں کی تبدیلی اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔
اسرائیل جو مظالم بھی ڈھا رہا ہے وہ امریکا کی اشیرباد اور سیاسی اور مالی مدد کی وجہ سے ہے۔ اوباما صاحب نے نئے یہودیوں کی نئی آبادکاری کے خلاف بات کی ہے، لیکن اصل مسئلہ تو اسرائیل یا فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے اور اپنی سرحدوں کو محض طاقت کے بل بوتے پر بڑھانا اور فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنا ہے۔ امریکی صدر کو اسرائیل کے وجود اور سلامتی کی تو فکر ہے اور ان کے ’اساطیری حقِ واپسی‘ (mythical right of return) پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی اور اپنے گھروں میں واپسی کا حق موصوف کو دُور دُور نظر نہیں آتا، جب کہ اسرائیل کو اس کھیل کے جاری رکھنے کے لیے امریکا نہ صرف ہرسال اربوں ڈالر دے رہا ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۴۰ سے زیادہ بار ویٹو کا حق بھی استعمال کرچکا ہے۔ اس کے باوجود فلسطینیوں سے گلہ ہے کہ وہ ظالم کے خلاف کیوں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما نے کشمیر کا ذکر کیا تھا اور خصوصی نمایندہ مقرر کرنے کی بات بھی کی تھی، مگر اب وہ سب بھول گئے ہیںاور بھارت کو علاقے کا لیڈر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان پر سارا دبائو ہے اور ’ایفپاک‘ (Af-Pak) کے شرمناک تصور کے تحت پاکستان اور افغانستان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں اور سبق پڑھا رہے ہیں سچ اور انصاف کا___ اس پس منظر میں محض الفاظ پر بھلا کون یقین کرے گا؟
امریکا کی ٹفٹ یونی ورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر گیری لیوپ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بش کی پالیسیوں کو پاکستان کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ قرار دیا ہے، جن پر امریکا کی موجودہ قیادت کامل یکسوئی کے ساتھ عمل کر رہی ہے اور زرداری حکومت ان کی پوری گرفت میں ہے۔ صدر اوباما کے سینے میں اگر سچ سننے کا دل دھڑک رہا ہے، تو پروفیسر گیری لیوپ کے ان الفاظ پر غور کریں۔ وہ کب تک اصل اسباب پر پردہ ڈالتے رہیں گے:
بش کی انتظامیہ نے مشرف پر دبائو ڈالا کہ سرحدی صوبوں میں پاکستانی فوج کو تعینات کرے جہاں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں لگائی گئی تھی، جہاں اس کی محض موجودگی ہی اشتعال انگیز سمجھی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ۲۰۰۵ء کا امن معاہدہ ہوا جس میں حکومت نے سرحد کے ساتھ فوجی چوکیاں ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اس کے بدلے میں قبائلی لیڈروں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ شدت پسندی کی حمایت ختم کردیں گے اور افغانستان کی سرحد سے آمدورفت کو روکیں گے۔ یہ حکومت کے لیے ایک طرح سے باعزت شکست تھی جس پر امریکا نے تنقید کی۔ بعد میں جنگجوئوں سے کیے جانے والے سارے معاہدے ٹوٹ گئے، جیساکہ فروری میں سوات کا معاہدہ۔
بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان پر ایسی دہشت گردی مسلط کر دی ہے جس کا انجام نظر نہیں آتا۔ اوباما کی افغانستان پاکستان (Af-Pak) جنگ میں زیادہ فوجیں، زیادہ ڈرون حملے اور ’تقسیم کرو حکومت کرو‘ جیسی تدابیر سے بھی کامیابی کی کم اُمید ہے۔ امریکی افسران یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے وہ واقعی حیران ہیں کہ پاکستانی زیادہ نہیں کر رہے۔ پاکستانی حیران ہیں کہ وہ کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ ملک کا وجود خطرے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باہر رہ کر اندر دیکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ امریکی استعمار کے مفادات مذہبی، قومی اور نسلی احساسات کو ختم نہیں کردیتے۔ مقامی لیڈروں کے لیے چاہے وہ استعمار کے تنخواہ یافتہ ہوں ممکن نہیں ہے کہ مقامی مزاحمت کو ختم کریں اور امن پیدا کریں۔ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، امریکی استعمار اور جس طرح یہ کیا گیا، اس نے پاکستانی آبادی کے بڑے حصے کو ناراض کر دیا ہے۔ یہ واشنگٹن کا اسلام آباد کے لیے غیر مطلوب تحفہ ہے جس کے لیے اسلام آباد کو برابر ادایگی کی جارہی ہے اور وہ اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔
الحق مرٌّ (سچ کڑوا ہوتا ہے) لیکن سچائی کو جانے بغیر اصلاح کا کوئی امکان نہیں اور جو پالیسی حقائق کو نظرانداز کرکے بنے گی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
صدر اوباما نے گوانتانامو کے تعذیب خانے کو بند کرنے کا اعلان بڑے طمطراق سے کیا تھا، مگر امریکی کانگریس میں اسے بند کرنے کے لیے جو بل پیش کیا گیا، اسے بھاری اکثریت سے جن میں ان کے اپنے ڈیموکریٹ ووٹ بھی شامل تھے، رد کر دیا گیا ہے۔
تحقیقات میں تعذیب (torture) کے استعمال کی صدر اوباما نے سختی سے نفی کی ہے، مگر انھی کی ٹیم کے افسران وہی بش والے دلائل دے رہے ہیں۴؎ اور ’معلومات کے حصول کے قانون کے تحت بش دور کی تعذیب پر مبنی جو تصاویر حاصل کی گئی تھیں‘ خود ان کی حکومت نے ان کی اشاعت کو روک دیا ہے۔ ان حکام کا کوئی احتساب ایجنڈے پر نہیں، جو گذشتہ آٹھ سالوں میں ان تعذیبی ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں۔ قول اور عمل میں اگر مطابقت نہ ہو تو پھر اخلاقی وعظ اور نیک تمنائوں کی دل پذیر تقاریر کو کون سنے گا اور ان پر کون اعتماد کرے گا؟
صدر اوباما کی تقریر پر لندن کے اخبار دی گارڈین کے ادارتی تبصرے کا ایک جملہ دسیوں صفحات پر پھیلے ہوئے تبصروں پر بھاری ہے:
یہ ایک ایسے شخص کی جو بلاشبہہ اپنے مقاصد کے لیے مخلص ہے، دبنگ تقریر تھی۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوتی ہے یا نہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ خیالات کو ٹھوس اقدامات میں تبدیل کرسکتا ہے یا نہیں۔ (اداریہ، دی گارڈین، ۵ جون ۲۰۰۹ء)
ایک اور عرب دانش ور رامی خوری (Rami Khouri) جو لبنان کے The Star کا مدیر اور امریکن یونی ورسٹی آف بیروت کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کا ڈائرکٹر ہے، عرب اور مسلم عوام کے دل کی آواز کا یوں اظہار کرتا ہے:
بُری خبر یہ ہے کہ اس میں سے کوئی بات بھی نئی نہیں ہے۔ انھوں نے کوئی ایسا ٹھوس اشارہ نہیں دیا کہ امریکی پالیسی کے اصولوں کا یہ اعلان پالیسی میں عملاً تبدیلی پر منتج ہوگا۔ عرب اسلامی دنیا کے لیے امریکی پالیسیوں میں جو بنیادی تضادات اور بے حسی ہے، وہ اسی کا اظہار کرتے رہے، اور اس پر قائم تھے کہ واشنگٹن کا ایجنڈا اسامہ بن لادن طے کرے۔ اس ایجنڈے میں معقول پالیسیاں اختیار کرنے کے بجاے اکثر اسلام کا خبط فیصلہ کن ہوتا ہے۔
امرِواقعہ یہ ہے کہ قاہرہ میں اوباما کی تقریر میں بیان کردہ ہراچھے اصول کی تردید پورے علاقے میں امریکی پالیسی سے ہوتی ہے لیکن اس سے دورے کی اہمیت یا تقریر میں اس کے خیالات کی امکانی قوت کم نہیں ہوتی۔
ہم دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہ امریکا حقائق کو ان کے اصل رنگ میں دیکھے اور مفاد، دھونس اور سامراج کی عینک اُتار دے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے پاکستان اور مسلم دنیا کی دوستی چاہتے ہیں، مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب مفاد پرستی کی راہ کو ترک کرکے حق و انصاف کی بنیاد پر معاملات طے کرنے کی مخلصانہ کوششیں ہوں، اور عملاً ان پالیسیوں اور منصوبوں کو ترک کیا جائے جو حالات کو بگاڑنے کا سبب بنے ہیں۔ جب تک یہ تبدیلی واقع نہیں ہوتی، دل پذیر تقریروں سے مصائب کو ٹالا نہیں جاسکتا، اور جنگ کی آگ کو خوب صورت الفاظ سے بجھانا ممکن نہیں۔ مرزاغالب نے ایسے ہی قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر کہا تھا ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
موت برحق اور ہر انسان کا مقدر ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ رب العالمین کی ہے___ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں دل یہی چاہتا ہے کہ وہ ہم سے کبھی رخصت نہ ہوں۔ تاہم، انسانی خواہشات اپنی جگہ اور اللہ کا قانون اپنی جگہ۔ بلاشبہہ ہر ذی نفس کے لیے موت کا ایک وقت مقرر ہے، البتہ کامیاب وہ ہے جس نے زندگی اس طرح گزاری ہو کہ کبھی کسی کو تکلیف نہ دی ہو، جس کی محبت اور مخالفت کا معیار اللہ کی رضا، اس کے دین سے وفاداری، اور نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی سربلندی ہو، اور جس کی موت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدوفا پر واقع ہوئی ہو، اور جس کی نیکیاں اس کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی صدقۂ جاریہ کی شکل میں جاری و ساری رہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اپنے محترم قائد، محسن اور رہنما میاں طفیل محمد صاحب کو جن کی سرپرستی میں زندگی کے ۶۰ سال گزارنے کی سعادت مجھے حاصل رہی، میں نے اللہ کا ایک مخلص بندہ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق اور ان کی رضا اور خوش نودی کو زندگی کی ہردوسری مصلحت پر مقدم رکھنے والا، اُمت کا خیرخواہ، جماعت اسلامی کا وفادار اور خادم، مولانا مودودیؒ کا مخلص ترین ساتھی اور محبت و شفقت کا پیکر پایا۔ وہ صبرواستقامت کے کوہِ گراں اور اخلاص و خیرخواہی میں سب سے آگے تھے۔ دورِحاضر میں ان کی زندگی اسلاف کا ایک نمونہ تھی۔
جوانی میں مولانا مودودیؒ کی دعوت پر لبیک کہہ کر پوری زندگی اس عہدِوفا کو پورا کیا جو اگست ۱۹۴۱ء میں ایک سوٹڈ بوٹڈ وکیل نے اللہ اور اللہ کی طرف بلانے والوں کے ایک مختصر گروہ سے کیا تھا۔ بلاشبہہ انھوں نے اپنے عہد کو سچا کردکھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اور جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے ان کو سرفراز فرمائے۔ ان پر قرآن کی یہ شہادت صادق آتی ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے عہد کو سچا کردکھایا۔
میاں طفیل محمد مرحوم مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کے سب سے اہم رہنما تھے اور بلاشبہہ مولانا مرحوم کے وژن کو نظامِ جماعت کی شکل میں ڈھالنے، مردانِ کار تیار کرنے اور اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے میں اپنی نظیر آپ تھے۔ ان کی سادگی، ان کا خلوص، ان کی شفقت، ان کی بے لوثی، ان کی استقامت، ان کی للہیت، ان کا پیار___ انسان کس کس بات کا ذکر اور اعتراف کرے۔ ان کی زندگی میں ہم جیسے کمزور اور گنہگار انسانوں نے اسلام کی انسان سازی کی معجزانہ قوت کا بچشم سر نظارہ کیا، اور ایک بار پھر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسلام ہر دور میں اپنے مطلوبہ انسان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
میاں صاحب کو میں نے مشکل سے مشکل حالات میں صبر اور استقامت کا پیکر پایا۔ ان کی زبان سے کبھی کسی ذاتی معاملے میں حرفِ شکایت نہیں سنا۔ امارت سے قبل، امارت کے دوران، اور امارت کے بعد ان کی زندگی کے جس دور پر نگاہ ڈالتا ہوں انھیں ایک عظیم انسان، ایک زیرک قائد، ایک روشن ضمیر مرشد، ایک اعلیٰ منتظم اور ایک شفیق باپ پاتا ہوں۔ ان کی زندگی بھی روشنی کا مینار تھی اور موت (۲۵ جون ۲۰۰۹ء) کے بعد بھی ان کی مثال ایک نمونہ اور چراغِ راہ کی رہے گی ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ سوات میں امن اور نظامِ عدل کے قیام کی کوشش کا گلا، امریکا اور اس کے پاکستانی گماشتوں نے پیدایش سے پہلے ہی گھونٹ دیا۔ اس طرح سوات، اس کے گردونواح کے تمام علاقوں بشمول بونیر اور دیر وغیرہ کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ انجامِ کار پاکستانی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کی خاطر ۲۵، ۳۰ لاکھ انسانوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھر اور بے سروسامان کر دیا۔
اس خطرناک اور خونیں اقدام سے امریکا اور اس کے اسٹرے ٹیجک اتحادیوں نے ایک طرف اس تاریخی عمل کو پٹڑی سے اُتار دیا، جو ۲۲اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی شکل میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی گرفت سے پاکستان کو نکالنے اور اس کی سالمیت کے دفاع کو درپیش خطرات سے نجات دلانے کے لیے شروع ہوا تھا۔ امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کی اسی نام نہاد جنگ نے ملک کو سیاسی، معاشی، عسکری ہراعتبار سے کمزور اور مجروح کر دیا ہے۔ اس قرارداد میں سیاسی مسائل کے فوجی حل کو ترک کر کے سیاسی حل تلاش کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ جس کی روشنی میں پہلا اہم اقدام فروری ۲۰۰۹ء کا سوات امن معاہدہ اور شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے نفاذ کی کوشش تھی۔
افسوس کہ اس نئی حکمت عملی کو قبول کرنے میں، وفاقی حکومت اور خاص طور پر صدرزرداری صاحب نے جس تردّد اور پُراسرار رویے اور عمل کا اظہار کیا، اسی نے اندیشہ ہاے دُوردراز پیدا کردیے تھے۔ بعدازاں کھلے کھلے امریکی دبائو کے تحت صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور فوج نے اس معاہدے کو قصۂ پارینہ قرار دے کر جس عجلت سے فوج کشی شروع کی اور سوات اور اہلِ سوات کی بربادی کے تباہ کن راستے پر بگ ٹٹ گامزن ہوگئے، وہ پاکستان کی تاریخ کا سنگین ترین المیہ ہے۔ اس اقدام نے ملک کے نقشے تک کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس خونیں ڈرامے کے اہم کردار ہیں: مفاد پرست اربابِ اقتدار، پاکستان کے ہوشیار دشمن، اور نادان دوست! ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا منفی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کو امریکی جنگ کی دلدل سے نکالنے کا جو عمل شروع ہوا تھا، اس عمل سے اسے پارہ پارہ کرکے وہ حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ جن کو اگر بروقت روکا نہ گیا تو خدانخواستہ پاکستان کا وجود، اس کی آزادی، سلامتی اور نظریاتی شناخت معرضِ خطر میں پڑ جائے گی۔
حالات کا صحیح تجزیہ، اصلاحِ احوال کی حکمت عملی کا تعین اور اس کے لیے ملک کے ۱۷کروڑ عوام کو پاکستان کے تحفظ اور بقا کی جدوجہد کے لیے بیدار اور متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جن حالات کو ہمارے دشمن پاکستان کے ’وجود کو درپیش بحران‘ کہہ رہے ہیں، اسے قومی یک جہتی، قومی ترقی، قومی بقا اور بلندپایہ تہذیبی تشخص میں تبدیل کردینا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ہم اس چیلنج کے مختلف پہلوئوں پر اپنی معروضات پیش کررہے ہیں۔
سب سے پہلے مسئلے کی نوعیت کو علمی دیانت اور دقتِ نظر سے سمجھنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے واقعات دنیا بھر میں اور تاریخ کے ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، اور ان کا مقابلہ ملک کے نظامِ قانون، ریاستی اداروں اور دستوری ضوابط و اختیارات کے فریم ورک میں کیا جاتا رہا ہے۔ دنیابھر اور خود پاکستان میں ایسے واقعات کو ملک کے قانونِ فوجداری کے تحت گرفت میں لایا گیا ہے۔ عصرِحاضر کے ممالک اور اقوام نے جہاں دہشت گردی پر قرارواقعی گرفت کی ہے، وہیں یہ کوشش بھی کی ہے کہ قانون اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بھی خوارج اور باطنی فرقے کے assassins کے فتنے رونما ہوئے، مگر ان کا مقابلہ اصولِ انصاف اور ضابطۂ قانون کے تحت کیا گیا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ امریکا نے اس روایت سے یکسر انحراف کرتے ہوئے، نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے افسوس ناک واقعے کو بنیاد بناکر پوری دنیا میں ایک عالم گیر جنگ (Global war on terror) کا طبل بجادیا، جس کا نشانہ عملاً افغانستان، عراق اور پاکستان کو بنایا، جب کہ عام مسلمانوں کو بھی اس کی لپیٹ میں لے لیا۔ یوں ۸سال سے دنیا ایک مجہول، ناقابلِ شناخت اور غیرمحدود جنگ کی آگ میں جھونک دی گئی ہے۔ یہ ایسی افسوس ناک جنگ بلکہ دہشت گردی ہے جس کے نتیجے میں خود دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے: گروہی اور ریاستی دہشت گردی، اداراتی اور نسلی دہشت گردی۔
بین الاقوامی قانون، ملکی حدود میں قانون کی حکمرانی اور حقوقِ انسانی کا تحفظ بُری طرح پامال ہوئے ہیں۔ لاکھوں انسان جان کی بازی ہار گئے ہیں اور دنیا کا امن و چین تہ و بالا ہوا ہے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق صرف امریکا کو ۳ کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ گویا عالمی مالیاتی اور معاشی بحران پیدا کرنے اور دنیا میں غربت و افلاس کو بڑھانے میں اس نام نہاد جنگ کا بھی ایک کردار ہے۔ خود پاکستان کا حال یہ ہے کہ جو علاقے ۱۹۴۷ء سے پُرامن تھے وہ اب آتش فشاں بن گئے ہیں۔ ملک کی معیشت کو ڈھائی کھرب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہر سال ۵ سے ۶ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اور اس سے بڑھ کر ملک کی آبادی کا سُکھ چین رخصت ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ ملک کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت خطرے میں ہے۔
بلاشبہہ ماضی میں سیاسی، لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی کے اِکا دکا واقعات ہوتے رہے ہیں، لیکن امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں سابق آمرمطلق جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور پاکستان کی سرزمین کو برادر ملک افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے کندھا پیش کرنے سے دہشت گردی کی جو لہر رونما ہوئی ہے، اور پھر ۲۰۰۴ء میں خود پاکستان کی فوج کو جس طرح اس جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں تباہ کن صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔
جوہری اعتبار سے یہ صورت حال ایسی ہے کہ اسے معروف سیاسی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال کا روایتی انداز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ یہ اس نوعیت کی بغاوت (insurgency) نہیں ہے جو سیاسی یا علیحدگی پسندی کی تحریکات کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ مزاحمتی تحریک کا ایک حصہ ہے، جو افغانستان پر امریکا اور ناٹو افواج کے قبضے کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، جس کا اصل میدان جنگ تو افغانستان کو بنایا گیا تھا اور امریکی عزائم کے مطابق وہ اب تک میدانِ جنگ ہی ہے، البتہ جنرل پرویزمشرف کی امریکی جنگ میں شرکت،اور اپنی فوجوں کو ۲۰۰۴ء سے اس علاقے میں استعمال کے نتیجے میں یہ آگ خود ہمارے وطن میں آن پہنچی ہے، اور روز افزوں ہے۔ امریکا نے ہمیں اس جنگ میں فریق بنانے اور اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے ہمارے سرحدی اور قبائلی علاقوں کوخوفناک خطے قرار دینے کا پروپیگنڈا شروع کیا، اور ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا واویلا کیا۔ جنرل مشرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں جو مزاحمت افغانستان میں ہو رہی تھی اور جسے امریکا قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا تھا اور ہے، اس جنگ کو خود پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دھکیل دیا گیا، تاکہ پاکستان کے وجود کو خطرناک ثابت کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔
اس پس منظر میں یہ بات سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کے سرحدی اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اصلاً کسی داخلی سبب کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ یہ افغانستان پر امریکی سامراجی قبضے کا نتیجہ ہے اور مشرف اور زرداری حکومتوں کی پالیسیوں سے اس جنگ کو ہماری سرزمین میں دَرآنے کا موقع ملا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے جو فوجی ایکشن اس علاقے میں پاکستان اور خود امریکا کررہے تھے، اس نے یہ ساری آگ بھڑکائی ہے، اور جب ایسی آگ کے الائو بلند ہوتے ہیں تو پھر اس میں بہت سے داخلی عوامل بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ دشمن قوتیں بھی حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے اپنا اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل نے ان حالات سے پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ امریکا اور افغانستان کے وہ عناصر جو پاکستان سے دشمنی رکھتے ہیں، وہ بھی حالات کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ اس خرابی کا اصل سرچشمہ افغانستان پر امریکا کا قبضہ، وہاں امریکی اور ناٹو افواج کی موجودگی اور ان کی خون آشامی ہے۔ امریکی ڈرون حملے، تربیت کے نام پر امریکی فوجوں کی پاکستان میں موجودگی اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارگزاریاں، اس آگ پر تیل چھڑکنے اور اسے ملک کے طول و عرض تک پھیل جانے کا سامان کر رہے ہیں۔
اس صورتِ حال میں سوات کے مسئلے کو مرکزیت حاصل ہے۔ اسی طرح دیر اور بونیر کے حالات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ تاہم مسئلے کی اصل جڑ افغانستان پر امریکی تسلط ہی ہے۔ جب تک پاکستان کی حکومت قوم کے جذبات کا احترام اور پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے واضح پیغام کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کو حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی بنانے اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کے مسئلے کو امریکا کی نظر سے نہیں، بلکہ پاکستان کے حالات، مفاد اور تاریخی خطرات کی روشنی میں دیکھنے، سمجھنے اور پالیسی تشکیل دینے کی کوشش نہیں کرتی ہے، مسائل نہ صرف جوں کے توں رہیں گے، بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی کے عمل کو فی الفور شروع کردے۔ دنیا میں، خصوصیت سے افغانستان اور عراق میں امریکی جنگی حکمت عملی جس بری طرح ناکام ہورہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ اب مزید اس تباہ کن کھیل کا حصہ نہ رہا جائے۔ جب تک ہماری حکومت ایسا نہیں کرتی، حالات میں بنیادی تبدیلی اور امن اور چین کی طرف حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔
دوسری بنیادی بات جسے قلب و نظر کے پورے اطمینان کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ سیاسی مسائل خواہ کتنے ہی پیچیدہ اور کثیرجہت کیوں نہ ہوں، ان کا محض کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ بلاشبہہ کچھ حالات میں ریاستی قوت کا استعمال ضروری ہوتا ہے لیکن ہر وہ علاقہ جو سرزمینِ وطن کا حصہ ہے، وہاں پر سیاسی عمل، قانون کی حکمرانی، عوام کی مرضی اور انصاف کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کے ذریعے ہی ریاستی عمل داری، اداروں کی بالادستی اور شہری زندگی کی بحالی ممکن ہے۔ کھلے کھلے بیرونی دبائو یا اندرونی اُلجھنوں اور مشکلات سے گھبرا کر قوت کا استعمال اور وہ بھی بے محابا عسکری قوت کا استعمال حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے، حالات کی اصلاح کا نہیں۔ تاریخ کا یہ بہت واضح سبق ہے، مگر اقتدار کے نشے میں مست قیادتیں اور بیرونی دبائو کے اسیر حکمران وہی غلطیاں کرتے چلے جاتے ہیں، جو ماضی میں اقوام کی تباہی اور انسانیت کی بربادی کا سبب بنی ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت اور سرحد کی صوبائی حکومت دونوں نے سوات کے معاملے میں تاریخی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے، اور سیکڑوں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور ۳۰لاکھ سے زیادہ افراد کی خانہ بربادی کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔
ہم اس بات کو بڑے واشگاف انداز میں کہنا چاہتے ہیں کہ سوات اور بونیر میں طالبان یا طالبان کے نام سے مختلف افراد اور گروہوں نے جو بھی غلطیاں کی ہوں، ان پر گرفت ضروری ہے۔ مگر ان کو وجہِ جواز بناکر امن کے پورے عمل کو برباد کرکے رکھ دینے، اور امریکی خواہشات کی تسکین کے لیے اپنی فوج کو، اپنی ہی قوم کے خلاف جنگ میں جھونک دینے کا کوئی جواز نہیں۔ مذاکرات، افہام و تفہیم، جرگہ اور مفاہمت کے سوا حالات کی اصلاح کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ قوت کا استعمال دراصل سیاسی قیادت اور اس کی حکمت عملیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور ۳۰ لاکھ افراد کی خانہ بربادی اس پالیسی کے ناکام ہونے کا کھلا اظہار ہے۔
ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ حکمران، لبرل سیکولر دانش ور اور کالم نگار بار بار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: ’’مذاکرات کس سے کیے جائیں‘‘؟ پارلیمنٹ کی قرارداد نے اس کا واضح جواب دے دیا ہے کہ تمام متعلقہ عناصر سے بات چیت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے بلاشبہہ جنگ بندی ضروری ہے مگر ’پہلے ہتھیار پھینکو پھر بات کریں گے‘ کا مطالبہ سیاسی اورعسکری تاریخ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ جن کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، انھی سے بات چیت کرنا ہوتی ہے اور پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ کیا جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا سے، جسے مغربی اقوام نے دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا، مذاکرات نہیں کیے گئے؟ کیا آئرلینڈ میں آئرش جنگ جوؤں سے مذاکرات نہیں ہوئے اور معاہدات طے نہیں ہوئے؟ ۱۸سال کی اس دہشت گردی اور جنگ و جدل کے ذمہ داران جن کا برطانوی ریڈیو یا ٹی وی پر نام نہیں لیا جاسکتا تھا، وہی مذاکرات اور معاہدات کے شریک نہیں بنے، اور طرفہ تماشا یہ کہ معاہدے کے ۱۵سال گزرنے کے بعد آج تک ہتھیاروں کی واپسی کا عمل مکمل طور پر پورا نہیں ہوا۔ کیا عراق میں مسلح جماعتوں کی قیادتوں سے امریکا اور عراق کی امریکا کی پروردہ قیادت نے بات چیت نہیں کی؟ کیا افغانستان میں ہلمند کے صوبے میں برطانوی فوج نے وہاں کے طالبان سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے راستے اختیار نہیں کیے؟ کیا اس وقت امریکا میں ’اچھے طالبان‘ اور ’بُرے طالبان‘ کا فرق پیدا کرکے مذاکرات کی راہیں ہموار نہیں کی جارہیں؟ کیا ہالبروک نے گلبدین حکمت یار کو ’عالمی دہشت گرد‘ کا خطاب نہیں دیا تھا؟ اور اب انھی سے سلسلہ جنبانی شروع کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی؟
اگر پوری تاریخ مذاکرات، افہام و تفہیم اور سیاسی عمل کے ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے تو پاکستان میں جن کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، ان سے بات چیت کیوں نہیں ہوسکتی اور صرف ایک بار نہیں، بار بار کیوں نہیں ہوسکتی؟ مشکل حالات سے نکلنے کے لیے ایک نہیں سو بار بھی بات چیت کی جائے تو مضائقہ نہیں۔
اس باب میں امریکا کی پالیسی نہ صرف دوغلی ہے، بلکہ حقائق پر بھی مبنی نہیں ہے۔ اس نے نہ ویت نام سے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ لاطینی امریکا میں اپنے جارحانہ تجربات کی تلخ تاریخ سے۔ ایک طرف عراق سے افواج نکالنے کی بات کر رہا ہے، تو دوسری طرف افغانستان میں فوج بڑھانے کا عندیہ دے رہا ہے۔ سری لنکا میں سرکاری فوج کی تامل ٹائیگرز پر فوج کشی کی امریکا، برطانیہ، یورپی اقوام، حقوق انسانی کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مذمت کی، مگر دوسری طرف پاکستان میں سوات پر فوج کشی پر تعریفوں کے ڈونگرے برسائے اور ڈالروں کی بارش کرنے کی طفل تسلیاں دیں۔ طالبان کی کارروائیوں کو حکومت کی رِٹ اور ملک کی حاکمیت پر ضرب قرار دیا اور اپنے ڈرون حملوں کو ’اپنے حق دفاع‘ کا نام دیا۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ امریکی سرکاری ترجمان کے مطابق پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ کے صرف ۱۴ افراد مارے گئے، جب کہ عام معصوم شہریوں کی ہلاکت ۷۰۰ سے زیادہ ہے، یعنی ۲ فی صد کی خاطر ۹۸ فی صد معصوم انسانوں کو قتل کیا گیا اور پاکستان کی آزادی اور عزت کا کھلا مذاق اڑایا گیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو بڑے بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے۔ ملک میں امن و امان کا قیام حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اس سلسلے میں ہرجگہ ناکام رہی ہے۔ قتل و غارت ، دہشت گردی، اغوا براے تاوان، ڈاکے اور خوں ریز تصادم صرف قبائلی علاقہ جات، سوات اور مالاکنڈ ہی میں نہیں ہو رہے، پورے ملک میں ہورہے ہیں۔ کیا کراچی میں ۱۲مئی ۲۰۰۷ء اور پھر ۱۹ اپریل اور پھر طالبانائزیشن کا ہوا کھڑا کر کے ایک ہی دن میں ۴۰ افراد کو لقمۂ اجل نہیں بنایا گیا۔ مئی ۲۰۰۹ء میں قومی اسمبلی میں جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں، ان کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں جنوری ۲۰۰۸ء سے مارچ ۲۰۰۹ء تک ملک بھر میں دہشت گردی کے ۱۸۴۲ واقعات ہوئے، جن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۳۹۵ ہے۔
سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوئے ہیں، جہاں ۱۱۲۲ واقعات میں ۴۳۶ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کیا حکومت کی رِٹ کا تعلق صرف سوات اور مالاکنڈ سے ہے، اور یہ جو تازہ ترین اطلاعات امریکا سے آرہی ہیں، کہ اس کی فوجیں افغانستان کے ساتھ ساتھ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی آپریشن کے لیے داخل ہورہی ہیں اور نیوکلیر اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کے لیے پرتول رہی ہیں یا موقعے کا انتظار کر رہی ہیں۔ کیا ان سب مداخلتوں کا کوئی تعلق حکومت کی رِٹ سے نہیں ہے ؟
ہم اصولی طور پر سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کو صحیح حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ قوت کا کامیاب ترین استعمال بطور دبائو (deterrence) تو روا رکھا جاسکتا ہے مگر بطور فوج کشی نہیں۔ قانون نافذ کرنے کا کام سول اداروں کو کرنا چاہیے۔ پولیس، اسکائوٹس، لیوی اور فرنیٹرکور کا یہ منصبی کردار ہے۔ نیز سول انتظامیہ اور روایتی جرگہ اس علاقے کا ایک بہت مؤثر اور تاریخی طور پر بڑا کارگر ادارہ ہے۔ مذاکرات اور افہام و تفہیم کا عمل ان کے ذریعے آگے بڑھنا چاہیے اور کوشش ہونی چاہیے کہ تمام متعلقین کو اس میں شریک کیا جائے ،اور معاملات کو مل جل کر مشاورت کے ذریعے طے کیا جائے، جس میں اعتمادسازی کے اقدامات سے لے کر اساسی نوعیت کے ایشوز پر اتفاق راے اور فیصلوں کے نفاذ کا طریقہ اور آداب طے کیے جائیں۔
فوج کا اولیں اور اصل کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے، اپنی قوم پر گولیاں برسانا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سول معاملات میں فوج کے استعمال کے جتنے تجربات ہوئے ہیں وہ سب ناکام رہے ہیں، خواہ ان کا تعلق بلوچستان سے ہو، یا مشرقی پاکستان سے، یا قبائلی علاقہ جات سے۔ خود سوات میں یہ تیسرا فوجی آپریشن ہے جو اپنی تباہ کاری میں اپنے پیش روؤں سے بازی لے گیا ہے اور اس کے ختم ہونے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ دعویٰ کہ: ہم دہشت گردوں کو تباہ کردیں گے ایک بے سروپا دعویٰ ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش ضرور ہونی چاہیے لیکن بش اور اوباما سے لے کر مشرف اور زرداری تک جو یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ ان تمام لوگوں کو جنھیں وہ دہشت گرد قرار دیتے ہیں تباہ و برباد کر دیں گے، یہ طاقت کے ذریعے ایک ناقابلِ حصول ہدف ہے جس میں ہٹلر کے دعوؤں کی بازگشت سنی جاسکتی ہے۔ اس لب و لہجے میں نہ ہٹلر کامیاب ہوا اور نہ آج کے مزعومہ ہٹلر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فوجی حکومت ہو یا جمہوری سب کے رنگ ڈھنگ ایک ہی جیسے ہیں: دھونس، دھمکی، گولی اور تباہی۔ افسوس کہ مکالمہ، حکمت اور دل جیتنے کے راستے پر قدم بڑھانے سے یہ گھبراتے ہیں ؎
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
ہم یہ بات بھی بہت صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ سوات کے معاہدے میں بہت سے سقم تھے، مگر ان سب کے باوجود وہ صحیح سمت میں ایک درست قدم تھا اور اس پر عمل ہونا چاہیے تھا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں سرحد کی صوبائی حکومت سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ان سب کے باوجود معاہدے میں یہ صلاحیت تھی کہ سوات اور مالاکنڈ امن کی طرف پیش قدمی کرسکتے تھے۔ وفاقی حکومت اور امریکی قیادت نے، صوبائی حکومت کو اس معاہدے پر عمل کا موقع ہی نہیں دیا۔ جناب صوفی محمدصاحب کی خوش گفتاریاں اپنی جگہ اور طالبان کے کچھ عناصر کی ریشہ دوانیاں بھی امرِواقعہ ہیں، لیکن اصل ناکامی زرداری صاحب کی حکومت اور صوبائی حکومت کی ہے۔ پھر پاکستانی فوج کی قیادت نے بھی بہت جلدبازی کا مظاہرہ کیا اور گمان غالب ہے کہ یہ سب کچھ امریکا کے شدید دبائو، سیاسی بلیک میل اور معاشی رشوت کا کیا دھرا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہماری قیادت میں یہ دم خم اور یہ صلاحیت کیوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد اور اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے مطابق فیصلے کرے اور امریکا کی تابع مہمل نہ ہوجائے۔ امریکا کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے اور اس کے عالمی عزائم ایک کھلی کتاب کے مانند ہیں۔ امریکا کے اس کردار کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن اس باب میں بنیادی مجرم ہماری اپنی قیادت ہے، جو امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اپنی قوم اور اپنے ملک کے مفادات کا خون کر رہی ہے۔ اقبال نے بجاطور پر کہا تھا ؎
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا ُتو
مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے
حالات کو خراب کرنے میں حکمرانوں کی کمزوری، بے حکمتی اور مفاد پرستی کے ساتھ امریکا کا دبائو اور ہمارے ملکی معاملات میں اس کا اس قدر دخل کہ عمومی پالیسی سازی (macro- management) سے لے کر اب تو انتظامی معاملات اور اہم مقامات پر افراد کی تعیناتی یا منتقلی تک میں جسے micro-management کہا جاتا ہے، اس کا عمل دخل ہے۔ سیاسی قیادت، فوجی ذمہ داران، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ، اہم اپوزیشن جماعتوں کے کرتا دھرتا سب تک ان کی رسائی ہے۔ ترغیب و ترہیب (carrot and stick) کا ہرحربہ وہ بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے اور سوات کے امن معاہدے، پھر سوات، دیر، بونیر، مالاکنڈ اور فاٹا میں عملاً فوج کشی میں ان کا کردار ہرحد کو پامال اور ملک کی آزادی اور سالمیت کو مخدوش کر رہا ہے۔ امریکا کی کھلی مداخلت کے ساتھ امریکا، بھارت اور اسرائیل کی خفیہ کارروائیاں اور تخریبی عناصر کے ذریعے ہماری سیاسی زندگی میں ان کی دراندازیاں ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اگر قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اب بھی نہیں اٹھتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ پھر اٹھنے اور آزادی کو بازیافت کرنے کے مواقع سے بھی محرومی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں مذاکرات، افہام و تفہیم اور مسائل کے سیاسی حل کو ہم اصلاحِ احوال کا واحد مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی عمل، سفارت کاری اور معاہدہ بندی کے جو معروف اصول اور طریقے ہیں، ان کا اہتمام بھی کیا جائے۔ ورنہ تدبیر کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے سیاسی عمل مجروح اور ناکام ہوسکتا ہے۔ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا وبال سیاسی عمل پر نہیں ڈالا جاسکتا، سوال تو اس عمل کو بروے کار لانے کا ہے۔ افسوس کہ بے تدبیری، عجلت پسندی، اور دُوراندیشی سے عاری رویوں کا تمام تر ملبہ محض مذاکرات کی افادیت پر ڈال دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں اگر سوات معاہدے کے طریق کار اور متعلقین کے کردار کا جائزہ لیا جائے، تو اس کی ناکامی کے اسباب کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ پہلی چیز طالبان اور امریکا دونوں کی طرف سے دبائو اور صوبائی حکومت کی کمزور پوزیشن ہے، جسے ہر مرحلے پر دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کا ایک فکری سطح پر باہم تعاون کے لیے آمادۂ کار نہ ہونا ہے۔ صدر زرداری اس معاہدے کے پہلے دن سے مخالف تھے اور اس کے بارے میں منفی تاثر دینے میں لگے ہوئے تھے۔ بے اعتمادی اور صوبائی حکومت کے بے اثر ہونے کا تاثر بھی ان کے رویے ہی سے پیدا ہوا۔ اس پورے زمانے میں صدر کچھ کہہ رہے تھے، ان کے وزیرداخلہ کچھ اور فرما رہے تھے۔ فوجی ترجمانوں کی زبان کچھ اور صوبائی حکومت کچھ اور ہی راگ الاپ رہی تھی، بلکہ صوبائی حکومت نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے علیحدگی کی دھمکی پر معاہدے کی راہ ہموار کی۔ معاہدہ ہونے کے بعد صدرمملکت نے ۸ ہفتے تک معاہدے پر دستخط نہیں کیے، کہ جس کے بغیر وہ نہ قانونی دستاویز کا مقام حاصل کرسکتا تھا اور نہ اس کے نفاذ کو حقیقی قرار دیا جاسکتا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے معاہدے کے نفاذ کا اعلان ۱۶ فروری کو کردیا، جب کہ اس پر دستخط اپریل کے وسط میں قومی اسمبلی کے ڈرامے کے بعد کیے گئے، اور اس طرح کیے گئے کہ امریکا میں وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن سے لے کر تمام سرکاری اور فوجی ترجمانوں اور پورے میڈیا نے اس عمل پر پاکستانی حکومت کو ہتھیار ڈالنے کا طعنہ دیا۔ پھر کہا کہ اب طالبان اسلام آباد اور نیوکلیر اثاثوں پر قبضہ کرلیں گے بلکہ ہیلری کلنٹن نے تو پاکستان کے عوام تک سے اپیل کی کہ اس کے خلاف اعلانِ بغاوت کریں اور مزاحمت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔
معاہدے پر عمل درآمد کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے سبوتاژ کرنے کا منظم کام شروع ہوگیا۔ فوج کی نقل و حرکت بھی شروع ہوگئی۔ معاہدے کے چند دن کے بعد فوج کے ایک قافلے کو طالبان کی مزاحمت کی وجہ سے واپس آنا پڑا اور اس فوجی حرکت نے بے اعتمادی کی فضا کو بڑھا دیا۔ طالبان کی طرف سے بھی پے درپے ناقابلِ فہم غلطیاں اور حماقتیں ہوئیں، جن میں جناب صوفی محمد کے بیانات اور بونیر کی طرف طالبان کی نقل و حرکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ امریکا نے اپنے ترپ کے پتے بڑی ہوشیاری سے استعمال کیے۔ صدر زرداری اور افغان صدر کرزئی کو بلیک میل کی عالم گیر فضا میں واشنگٹن بلایا اور امریکا کی فوجی قیادت نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پر طرح طرح سے ’کمانڈو ایکشن‘ کیا اور بالآخر یہ معاہدہ زمین پر چکناچور ہوگیا۔
امن کی جو ننھی سی کرن روشن ہوئی تھی، وہ دم توڑ گئی۔ آسمانوں سے گولے برسنے لگے اور سوات کے بے بس شہری دربدر ہونے پر مجبور ہوگئے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے اور جو گھروں سے نہ نکل سکے ان کے گھر ہی قیدخانے اور عقوبت خانے بن گئے اور وہ بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔
سرحد حکومت کی دو اور غلطیاں بھی ہیں جن کی نشان دہی ضروری ہے۔ مرکز کا عدم تعاون بلکہ اس عمل کو درہم برہم کرنے کی کوششیں اپنی جگہ، اور امریکا کا دبائو اور ریشہ دوانیاں بھی مسلّم، مگر صوبائی حکومت نے صرف ایک شخص جناب صوفی محمد پر غیرضروری اور غیرمعمولی اعتماد کیا اور مذاکرات کے عمل میں علاقے کے تمام متعلقہ طبقوں بشمول طالبان کے نمایندوں کو شامل نہیں کیا۔ محترم صوفی محمدصاحب اس علاقے کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ ان کا علمی مقام خواہ کچھ ہو، مگر ان کا خلوص اور سادگی اور علاقے میں ان کی پذیرائی ایک جانی بوجھی حقیقت ہے۔ لیکن اس امر سے بھی سبھی واقف ہیں کہ جمہوریت وغیرہ کے بارے میں ان کے کچھ مخصوص خیالات ہیں جن کا وہ گذشتہ ۲۰سال سے اظہار کرتے رہے ہیں، یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ لیکن ان کو اشتعال دلاکر یا ایک منصوبے کے تحت ان سے کچھ باتیں اگلوائی گئیں اور پھر ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے انھیں معاہدے کو پرزے پرزے کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل صاف دیکھا جاسکتا ہے اور بدقسمتی سے صوبائی حکومت بھی اس کا شکار ہوگئی۔ اگر صوبائی حکومت نے تمام عناصر کو شریکِ معاہدہ کیا ہوتا تو ایک فرد کی کسی راے سے وہ فساد نہ اٹھایا جاسکتا۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف ایک تنظیم کو کالعدم کہا جا رہا ہے، دوسری طرف اس کے سربراہ سے سربراہ کی حیثیت سے معاہدہ کیا جاتا ہے۔
دوسری بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ماضی کے معاہدات اور ان کی ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ ہرمعاہدے کو امریکا نے سبوتاژ کیا، اس لیے پیش بندی کی ضرورت تھی۔ اس سے بھی زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ معاہدے میں ایک داخلی خودکار انتظام اس امر کا ہونا چاہیے تھا کہ خلاف ورزی کی صورت میں اختلافات کو رفع کرنے کا طریق کار کیا ہوگا؟ پشتون علاقے کی جرگے کی روایات کا یہ ایک حصہ ہے کہ خلاف ورزی کے تعین کا طریقہ، ثالثی اور خلاف ورزی کی سزا معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ جدید اصولِ قانون (Jurisprudence) میں جسےalternate Justice (قیامِ انصاف کا متبادل نظام )کہا جاتا ہے، اس کا ایک معروف اصول یہ ہے کہ ثالثی اور خلاف ورزیوں پر قابو پانے کا انتظام معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ اس علاقے میں پچھلے ۲سال میں ۶ معاہدوں کی ناکامی کے پس منظر میں صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ معاہدے میں خلاف ورزی اور اس سے نمٹنے کے طریقے اور نظامِ کار کا اہتمام کرتی۔ لیکن جلدبازی میں یا دبائو کے تحت ان بنیادی امور کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، جس کی بڑی بھاری قیمت یہ علاقہ اور پوری قوم ادا کر رہی ہے۔
اس دلدل میں جس طرح فوج دھنستی چلی جارہی ہے، وہ قومی سلامتی اور فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور یک رنگی کے رشتے کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت بڑے شفاف انداز میں اور دستور کی اسکیم، جمہوری اور اسلامی آدابِ حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں اور ضابطوں کی روشنی میں اس پورے معاملے پر غور کرے۔ جلد از جلد فوج کو سیاسی کردار اور داخلی آپریشن کی دلدل سے نکالنے کا کام انجام دیا جائے۔ طالبان سے فوج اور اس کی ایجنسیوں کے تعلق، اور خصوصیت سے گذشتہ ۶ سال کے مختلف فوجی آپریشنوں اور ان آپریشنوں کے وقت، دورانیے اور تفویض کردہ اہداف کی روشنی میں بڑے پریشان کن سوالات سامنے آرہے ہیں، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
مثال کے طور پر بار بار یہ بات کہی جاتی ہے کہ: ’’فوج کی تربیت روایتی جنگ کے لیے ہوئی ہے اور اندرونی انتشار کے مقابلے کی نہ اس کو تربیت دی گئی ہے، اور نہ اس کے پاس اس کام کے لیے مطلوبہ سازوسامان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج ان علاقوں میں فضائی قوت اور بھاری توپ خانہ استعمال کر رہی ہے‘‘۔ بظاہر ان باتوں میں وزن بھی نظر آتا ہے لیکن گہرائی میں جاکر حالات کا جائزہ لیا جائے تو تصویر کے بہت سے دوسرے رُخ بھی سامنے آتے ہیں۔ پیادہ فوج (انفنٹری) اور کمانڈو یونٹوں کی تربیت اور ان کے میدان کار کو پیش نظر رکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زمینی میدانِ جنگ کے حالات سے نمٹنا ان کا حصہ ہے۔ فضائی قوت اور بھاری توپ خانے کا استعمال جنگی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے، مجبوری نہیں۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جسے امریکا نے استعمال کیا ہے، تاکہ فوج، انسانی ٹکرائو اور مقابلے کے جواب میں تکنیکی جنگ کے ذریعے مدمقابل کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکے اور اپنے جانی نقصان کو کم سے کم رکھ سکے۔ لیکن انسانی نقطۂ نظر سے یہ بڑی ظالمانہ اور سفاکانہ حکمت عملی ہے جس کے نتیجے میں مجرموں کے مقابلے میں عام انسانی جانیں بڑے پیمانے پر ضائع ہوتی ہیں، اور بڑی بڑی آبادیاں برباد کر دی جاتی ہیں۔
فوج نے جو حکمت عملی اس علاقے میں اختیار کی ہے، اس کا منطقی تقاضا بڑے پیمانے پر جانوں کا اتلاف اور علاقوں کی بربادی ہے۔ اعتراض ملٹری آپریشن پر بھی ہے اور اس طریق کار اور حکمت عملی پر بھی، جو اختیار کی گئی ہے جس کے نتیجے میں عوام کا نقصان بڑے پیمانے پر واقع ہو رہا ہے۔ جن کو اصل نشانہ قرار دے کر آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے، وہ خود فوجی ترجمان کے بقول بچ نکلتے ہیں۔ اعتراض اس پر بھی ہے کہ یہ پورا عمل کسی قومی مشاورت اور کسی اتفاق راے کے بغیر انجام دیا جا رہا ہے۔ اگر اس کے طریق واردات کا جائزہ لیا جائے تو امریکی مطالبات سے ان کا رشتہ بہت صاف نظر آتا ہے۔ اسی طرح امریکی قیادت سے پاکستان میں یا امریکا میں ملاقاتوں کے ساتھ بھی ان کا بڑا واضح تعلق سامنے آتا ہے۔ یہ تمام چیزیں پورے عمل کو بڑا مخدوش بنا دیتی ہیں۔ طالبان اور دہشت پسندوں کے مارے جانے کے جو دعوے کیے جاتے ہیں، ان کی بھی آزاد ذرائع سے توثیق یا تردید کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔ سرکاری دعووں میں عام شہریوں اور معصوم خواتین و حضرات اور بچوں کی ہلاکت کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا، جب کہ عوامی سطح پر جو حقائق سامنے آتے ہیں، ان میں بڑا نقصان عام انسانوں ہی کا بتایا جاتا ہے، اور جو افراد ان علاقوں سے نقل مکانی کرکے آئے ہیں ان کی داستانیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اپنی ہی فوج کے ہاتھوں، اپنے بھائی، بہنوں اور بچوں کی ہلاکت اور تباہی کے احوال دیکھ اور سن کر انسان کلیجہ تھام کر رہ جاتا ہے۔
پھر اگر ان ستم زدہ انسانوں کی داستانوں کا تجزیہ کیا جائے تو بڑے پریشان کن سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور آپریشن کا ہدف بننے والے علاقے میں فوج کی چوکیاں اور مبینہ طالبان کی چوکیاں اپنے اپنے مقامات پر موجود رہتی ہیں۔ فضائی بم باری اور توپ خانے کی بم باری سے ان پر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح دہشت پسندوں کے بہت سے ٹھکانے صرف اس وقت تباہ ہوتے ہیں، جب وہ ان کو خالی کر کے دوسرے مقامات پر منتقل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہزاروں افراد کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، مگر بڑے بڑے مطلوبہ دہشت گرد ہرگرفت سے آزاد رہتے ہیں۔ وہ ایف ایم ریڈیو کہ جنھیں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ کہتے ہیں کہ ہم غیرمؤثر اور جام کرسکتے ہیں،وہ برابر آتش افشانی کرتے رہتے ہیں اور سول و فوجی قیادت اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے پاس ڈالروں کی فراوانی اور تازہ ترین اسلحے کا واویلا کیا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان کی سپلائی کے راستوں کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟ اس کا عوام یا عوامی نمایندوں کو کچھ پتا نہیں ہے۔ کیا وجہ تھی کہ مقامی پولیس نے فتنے کے ابتدائی ادوار ہی میں اسے قابو کرنے کی کوشش نہیں کی؟
روزنامہ ایکسپریس ، اسلام آباد کے ایک کالم نگار فضل ربی راہی نے اپنے مضمون: ’اپنا اثاثہ کون ضائع کرتا ہے‘ کے تحت ایسے ہی واقعات کے انبار میں سے چند نکات کو سوالیہ نشان کے ساتھ پیش کیا ہے، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:
۱- جب مولانا فضل اللہ کو اسلحہ بارود فراہم کیا جارہا تھا اور ان کے ساتھیوں کو ’ضروری ٹریننگ‘ دی جا رہی تھی تو اس وقت حساس اداروں نے کیوں اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں؟
۲- جب مولانا فضل اللہ کی سرگرمیاں روکنے میں مقامی پولیس بھی کامیاب ہوسکتی تھی تو اس وقت جوابی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ایک مقامی ایس ایچ او کے مطابق: ’’اگر اس وقت مجھے فری ہینڈ دے دیا جاتا تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ اپنے تمام ساتھیوں سمیت حوالات میں بند ہوتے‘‘۔ لیکن بقول ان کے انھیں سختی سے ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اس معاملے میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
۳- جب مشرف دور میں سوات کے راستے لنڈا کی چیک پوسٹ پر مبینہ طور پر اسلحے سے بھرا ہوا ایک ٹرک پکڑ لیا گیا تھا، تو کسی نے اُوپر سے احکامات جاری کردیے تھے کہ اسے بحفاظت امام ڈھیری تک پہنچنے دیا جائے۔
۴- سوات میں اس سے قبل بھی ۳ بار فوجی آپریشن چلتے رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اپرسوات اور تحصیل خوازہ خیلہ کی بعض چیک پوسٹوں پر ’طالبان‘ کو باقاعدہ آمدورفت کی اجازت تھی، جب کہ ان ہی آرمی چیک پوسٹوں پر عام شہریوں کو خوب تنگ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ چیک پوسٹ کے قریب طالبان نے متعدد دفعہ لوگوں کو ’شرعی سزائیں‘ دیں، لیکن چیک پوسٹ پر تعینات سیکورٹی فورسز تماشا دیکھتیں اور ’کاروبارِ طالبان‘ میں کوئی مداخلت کی جرأت نہ کرتیں۔ حالانکہ اس وقت فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹر بھی محوِپرواز ہوتے، لیکن ان کی فائرنگ کا نشانہ پہاڑ ہوتے۔
۵- سابقہ آپریشنز جو قریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہے، ان میں شہری آبادی کا غیرمعمولی جانی و مالی نقصان ہوتا رہا۔ قریباً ۲ ہزار عام شہری، مارٹر گولوں اور سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ہزاروں گھر اور دکانیں تباہ ہوئیں، لاکھوں لوگوں نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کی۔ ایک سال تک سوات بھر میں کرفیو نافذ رہا، لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ سوات کے ۲۰۰ اسکولوں کو تباہ ہونے سے نہیں بچایا جاسکا۔
۶- سابق آپریشنوں میں ۵۰ طالبان بھی نہیں مارے گئے ہیں اور اس کی تصدیق نہ صرف غیرجانب دار میڈیا کرے گا، بلکہ سوات میں رہنے والے کسی بھی فرد سے پوچھا جاسکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں کتنے طالبان کی نمازِ جنازہ پڑھائی گئی ہیں؟
کالم نگار نے ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ: درج بالا حقائق کی روشنی میں سوات کے لوگ اب بھی موجودہ آپریشن کو ’ڈراما‘ سمجھتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ جس فوجی کارروائی کے لیے ۱۵ لاکھ سے زائد لوگوں کو اپنے ہی ملک میں بے گھر کرکے دربدر کیا گیا، یہ کارروائی کمانڈو ایکشن کے ذریعے چند دنوں میں بہ آسانی مکمل کی جاسکتی تھی۔ ایک حاضرسروس میجر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پاک فوج کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو محض ۶ گھنٹوں میں پورے سوات کو عسکریت پسندوں سے خالی کرسکتی ہے۔
پاک فوج کی صلاحیت کے بارے میں سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے، اور امریکا بھی اس کا سہارا لے کر پاک فوج میں ’تربیت فراہم کرنے‘ کے نام پر، اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم حال ہی میں سری لنکا کی فوج کی کارروائیوں کے بارے میں جو جائزے آئے ہیں، ان میں یہ دل چسپ اور چشم کشا بات سامنے آئی ہے کہ سری لنکا کی فوج کو داخلی بغاوت کا مقابلہ کرنے کی تربیت جن ممالک نے دی تھی، ان میں پاکستانی فوج بھی شامل ہے۔ ملاحظہ ہو، دی نیوز کی رپورٹ Pakistan's Role in Death of LITTE (۲۰ مئی ۲۰۰۹ء)۔ صرف ایک اقتباس:
سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو کچلنے میں سری لنکا کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعاون نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ تعاون ہائی ٹیک فوجی سامان کی فراہمی کی شکل میں تھا۔ یہ بات کہ سری لنکا اور پاکستان کی افواج میں تامل ٹائیگرز بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون تھا، اس کی تصدیق سری لنکا کی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر اودیا ناناکارا نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۶ء کو کی تھی کہ پاکستان اور بھارت دونوں سری لنکا کی افواج کو تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے تربیت دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سری لنکا کی فوج نے دونوں ممالک سے جدید ترین ٹکنالوجی حاصل کی۔
اگر سری لنکا کی فوج کو پاکستانی فوج یہ یہ کچھ صلاحیت دے سکتی ہے تو پھر تہی دامن ہونے کا گلہ___ چہ معنی دارد؟ خود سوات کے لوگوں کا اس بارے میں کیا احساس ہے؟ اسے سوات ہی کے ایک روزنامہ آزادی (۲۲ مئی ۲۰۰۹ء) میں بی بی سی کے نمایندے کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ سوات میں فوجی کارروائی میں طالبان کی شکست، مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور کامیاب نتائج برآمد ہونے کا دعویٰ سراسر غلط ہے۔ سوات میں فوج کی کارروائی میں طالبان نہیں، بلکہ عام شہری نشانہ بن رہے ہیں۔ سوات کے ایک رہایشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سوات کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا: میں سوات میں رہتا ہوں، سوات میں طالبان ابھی تک موجود ہیں۔ حکومت میڈیا کو اجازت کیوں نہیں دیتی کہ وہ یہاں کی صورت حال سامنے لائے؟ انھوں نے کہا: حکومت کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ فوج نے کچھ علاقوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور آپریشن میں کامیابی ہورہی ہے اور دورانِ آپریشن کئی عسکریت پسند بھی ہلاک کردیے ہیں۔ یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں پر نہ تو کوئی فوج ہے اور نہ سرکاری اہل کار نظر آرہے ہیں۔ اگر کارروائی ہو بھی رہی ہے تو وہ معصوم لوگوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ اس کارروائی میں طالبان کے بجاے عام شہریوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ طالبان کے علاقے پر کنٹرول کے حوالے سے اس شخص کا کہنا تھا کہ ۱۰۰ فی صد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ میں اس بات کا یہاں پر کئی دنوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں۔ فوج کی شیلنگ [گولہ باری] کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فوج رات کے وقت آکر بم باری کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ٹیلی فون کے تاروں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ پانی۔
یہ صورت حال ۲۰، ۲۲ مئی کی ہے۔ بعد میں حالات جو بھی ہوں، ان تمام سوالات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، کہ جو خصوصیت سے گذشتہ ۵،۶ سال پر پھیلے ہوئے فوجی آپریشنوں کے تسلسل میں سامنے آئے ہیں اور جن کی مطابقت آج کی کارروائیوں سے گہری ہے۔ ہم ان تمام شبہات اور سوالیہ نشانات کی نہ توثیق کرسکتے ہیں اور نہ تردید۔ لیکن ان کا شفاف انداز میں سامنا کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں!
امریکی قیادت جن میں پہلے صدر بش اور اب صدر اوباما سب سے نمایاں ہیں۔ یہاں پاکستانی حکمران جن میں جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سب سے پیش پیش ہیں۔ اب ان آوازوں میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور مسلم لیگ ن کے قائد جناب میاں محمد نواز شریف بھی اپنی آواز ملا رہے ہیں، پورے دعوے کے ساتھ دو باتیںکہہ رہے ہیں: ایک یہ کہ پاکستان، امریکا بلکہ پوری دنیا کو اصل خطرہ انتہاپرستی اور ’دہشت گردی‘ سے ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کو پوری قوت، خصوصیت سے فوجی قوت سے ختم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ اس سلسلے میں القاعدہ اور طالبان کو خصوصی ہدف قرار دیا جا رہا ہے۔
ہم سب سے پہلے تحریکِ اسلامی کے اس اصولی اور تاریخی موقف کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، کہ جہاں اسلام وہ دین ہے جو انسانیت کے لیے اللہ کی آخری ہدایت، اور جو زندگی کے ہرشعبے کے لیے واضح احکام اور رہنمائی فراہم کرتا ہے، وہیں تحریکِ اسلامی پہلے دن سے اس بنیادی حکمت عملی کی داعی ہے کہ زندگی کے پورے نظام میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی قوت اور جبر سے نہیں لائی جاسکتی۔ اس کے لیے قلب ونظر اور اخلاق و کردار کی تبدیلی سب سے بنیادی چیز ہے۔ اجتماعی زندگی میں قانون کا بھی ایک مقام ہے اور اس کے نفاذ کے لیے، ریاست کی قوت ناگزیر ہے۔ لیکن یہ سارا عمل الہامی ہدایت اور قانون کے فریم ورک میں انجام دیا جانا دین کا تقاضا ہے۔ پاکستان اور پوری دنیا میں اسلامی انقلاب دعوت و تبلیغ اور جمہوری، آئینی اور اخلاقی ذرائع ہی سے برپا کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی تحریک اسی جدوجہد میں مصروف ہے جسے وہ اصول اور عملی حکمت عملی دونوں اعتبار سے ضروری سمجھتی ہے۔ جہاد، اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔ البتہ جہاد کا مقصد، طریق کار اور آداب، خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کردیے ہیں، جن کا مکمل احترام ہرحال میں اور ہردور میں ضروری ہے۔
اس اصولی وضاحت کے ساتھ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کو ایک ہی حقیقت کے دو روپ قرار دینا اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ایک اسٹرے ٹیجک فاش غلطی ہے، جو حالات کو بگاڑنے کا بڑا سبب رہی ہے۔ انتہاپسندی ایک فکری عمل ہے، جس کا مقابلہ ڈنڈے اور گولی سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس چیلنج کا مقابلہ دلیل، تعلیم، مذاکرے اور مجادلے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ ایک تاریخی عمل ہے، جو ہر دور میں اور ہرتہذیب و تمدن کے درمیان رونما ہوتا رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ دو انتہائوں کے درمیان کش مکش، مبادلہ اور رد و قبول کے عمل سے عبارت ہے اور درمیان کا راستہ بھی اسی فکری اور تمدنی لین دین، سمجھوتے اور مفاہمت سے روپذیر ہوتا ہے۔
انتہاپسندی مختلف شکلوں میں آج بھی دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہے۔ کیا امریکا میں نیوکونز اور فنڈامنٹلسٹ ایک جیتی جاگتی حقیقت نہیں؟ کیا برطانیہ اور یورپ میں انتہاپسندی کی تحریکیں موجود نہیں ہیں؟ بلکہ تیزی سے غالب نظریے کو چیلنج کر رہی ہیں۔ یورپ کے کتنے ممالک ہیں جن میں انتہاپسند جماعتیں، سیاست میں کردار ادا کر رہی ہیں اور شریکِ اقتدار بھی ہیں یا شریکِ اقتدار رہی ہیں۔ کیا نازی اور فسطائی جماعتیں آج امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یونان میں موجود نہیں ہیں اور کیا خود اسرائیل میں جسے جمہوری ملک کہتے ہوئے یورپ اور امریکا کے دانش وروں اور سیاست کاروں کی زبان نہیں تھکتی، ایک نہیں، نصف درجن ایک سے ایک انتہاپسند اور متعصب جماعت موجود نہیں ہے؟ اور اس وقت بھی وہاں کی حکومت میں شریک نہیں؟ کیا دنیا میں انتہاپسندی کو کبھی قوت سے ختم کیا جاسکا ہے؟ انتہاپسندی اور دہشت گردی اگر ایک دوسرے کو متاثر کر بھی رہی ہوں، تب بھی ان کا مقابلہ، صرف ایک حکمت عملی سے نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ ڈنڈے اور گولی سے اس کا قلع قمع کرنے کو واحد طریقہ سمجھ لیا جائے۔ یہ دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ الگ حکمت عملیوں کی تشکیل اور ان پر عمل ضروری ہے۔
رہا معاملہ دہشت گردی کا تو اس سلسلے میں بھی ہم دو باتوں کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں: ایک یہ کہ حقیقی دہشت گردی کا توڑ اسی وقت ممکن ہے، جب اس کے اسباب کا صحیح صحیح تعین کرلیا جائے، اور ان اسباب کو دُور کیے بغیر دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ دہشت گردی پر گرفت دستور اور قانون کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ جنگ کے نام پر دستور، قانون، اخلاق اور مہذب معاشرے کی تمام اقدار کو پامال کرتے ہوئے، محض قوت کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کا نسخہ ہے، اسے ختم کرنے کا نہیں۔ ان حربوں کے نتیجے میں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ایک دہشت گرد مارا جاتا ہے تو ۱۰ نئے دہشت گرد پیدا کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کے بغیر کسی بھی معاشرے میں اور خاص طور پر پاکستان میں موجود دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔
جہاں تک القاعدہ اور طالبان کا تعلق ہے، ان کے بارے میں بھی جذبات اور مفادات سے بالا ہوکر تمام امور کے معروضی مطالعے کی ضرورت ہے۔ القاعدہ اور طالبان دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، اور ان کو گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر افغانستان کے طالبان اور شے ہیں اور گذشتہ چند سال میں پاکستان میں طالبان کے نام پر جو تحریک وجود میں آئی ہے، وہ ایک دوسری حقیقت ہے۔ طالبان کی حقیقت سے انکار ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔ البتہ اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں طالبان ایک خاص تاریخی پس منظر میں اور حالات کی ایک خاص صورت اختیار کرلینے کی وجہ سے رونما ہوئے۔ پھر ان کا ایک کردار ہے جو اَب ۲ عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کا ایک دور وہ تھا، جب وہ افغانستان میں مجاہدین کی جماعتوں کی باہم آویزش، خانہ جنگی اور لاقانونیت کے تناظر میں وجود میں آئے، اور کچھ ممالک اور قوتوں نے اس میں ایک خاص کردار اداکیا۔ پھر ان کا ۷،۸ سال کا وہ دورِ اقتدار ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ طالبان نے افغانستان کے ۹۰ فی صد علاقے پر طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا۔ ان کے دور میں امن و امان قائم ہوا اور لوگوں کو انصاف، حتیٰ کہ کچھ طالبان کی غلطیوں یا زیادتیوں کے خلاف بھی انصاف میسر آیا۔ علاقائی سطح پر جنگ جُو لیڈروں کی تباہ کاریوں سے عوام کو نجات ملی اور افغانستان کی تاریخ میں ایک مدت کے بعد ان عناصر کو اسلحے سے پاک (de-weaponize) کیا گیا۔ جرائم میں بے پناہ کمی واقع ہوئی اور خصوصیت سے پوست کی کاشت جسے کوئی قابو نہیں کرسکا تھا، اس کا کسی تشدد کے بغیر قلع قمع کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے منشیات کے خاتمے سے متعلق محکمے کو اعتراف کرنا پڑا کہ افغانستان کی تاریخ میں سن ۲۰۰۰-۲۰۰۱ء وہ سال ہے، جس میں پوست کی کاشت تقریباً ختم ہوئی اور ’منشیات کی تجارت‘ نے دم توڑ دیا۔
ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ طالبان کے دور کے منفی پہلو بھی ہیں، جن میں ان کے تصورِ اسلام کی تنگی اور اسلام اور پختون قبائلی روایات کا آپس میں گڈمڈ ہو جانا نمایاں ہیں۔ تعلیم اور خصوصیت سے لڑکیوں کی تعلیم اور مسلم معاشرے میں عورت کے کردار کے بارے میں ان کے خیالات اُمت مسلمہ کے معروف مسلک سے ہٹ کر تھے۔ اسی طرح عصرِحاضر کے تقاضوں اور ان کی روشنی میں ملک کی تعلیم،صحت، معیشت و صنعت، انتظامی و سیاسی ڈھانچے کی ترقی کے باب میں ان کے تصورات، اپنے حالات سے مخصوص تھے۔ دنیا کی اسلامی تحریکات کے خیالات سے ہم آہنگ نہ تھے۔ ان کے دورِ حکومت کا ایک اور پریشان کن پہلو افغانستان کی دوسری قومیتوں کے بارے میں ان کا رویہ بھی تھا، جس کی وجہ سے افغانستان کے تمام علاقوں اور جملہ قومیتوں میں ہم آہنگی اور اتفاق و اتحاد رونما نہ ہوسکا۔
ان تمام پہلوئوں کے علی الرغم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان، افغانستان کی ایک اہم قوت تھے اور ہیں۔ ان کو نظرانداز کر کے یا ان کو تباہ کرکے اور مٹادینے کے منصوبوں کے ساتھ افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ صرف افغانستان ہی میں نہیں، بلکہ اس پورے خطے میں امن کا قیام ان سے معاملہ کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس وقت افغانستان کا اصل مسئلہ ملک پر امریکی اور ناٹو افواج کا قبضہ ہے، اور افغانستان میں طالبان اس بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی تحریک کی علامت ہیں۔ یہ ایک قومی مزاحمت ہے، جس میں طالبان کے نام اور جھنڈے تلے تمام مزاحمتی قوتیں جمع ہوگئی ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک معاملات کے سیاسی حل کے لیے ضروری ہے۔
جہاں تک پاکستان کے پشتون علاقوں میں طالبان کے مختلف گروہوں کا تعلق ہے یہ ایک نیا حوالہ ہے، اور اس کو وجود میں لانے کا اصل سبب جنرل مشرف کی وہ ظالمانہ پالیسیاں ہیں، جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی فوجوں کا حلیف بننا، پاکستان کی سرزمین کو افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے استعمال کرنا اور پھر خود فاٹا، مالاکنڈ، سوات اور دیر میں پہلے امریکا کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے القاعدہ اور اس کے معاونین کے خلاف فوج کشی۔ آخرکار القاعدہ تو محض عنوان بن کر رہ گئی ہے، لیکن اب یہ جنگ پاکستانی فوج اور پاکستانیوں اور خصوصیت سے دینی قوتوں کے خلاف جنگ بن گئی ہے، جس آگ میں اس وقت ہم سب جھلس رہے ہیں۔
ان حالات سے فائدہ اُٹھاکر متعدد قوتوں نے اس جنگ میں اپنا اپنا کردار تلاش کرلیا۔ عنوان تو طالبان کا ہے، لیکن اس میں حقیقی طالبان کے علاوہ مختلف مقامی اور بیرونی گروہ شریک ہوگئے ہیں، جن میں مختلف ممالک اور قوتیں اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ معاشرے کے وہ مجرم عناصر جو اس علاقے کو اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے ایک مدت سے استعمال کر رہے تھے، وہ بھی اسی چھتری تلے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان دشمن قوتیں، خصوصیت سے بھارت، اسرائیل اور افغانستان کے وہ عناصر جو اپنی پاکستان دشمنی کے لیے جانے پہچانے جاتے ہیں، سب اس خونیں کھیل میں شریک ہیں۔ جب تک ان میں سے ہرعنصر کا الگ الگ تعین، اس کے مقاصد و اہداف، طریق کار اور کارگزاریوں کا ادراک نہ ہو، کوئی جامع حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکتی۔
دو امور نے اس پیچیدہ صورت حال کو اور بھی پیچیدہ اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ ایک وہ قوتیں اور عناصر جو ایک مدت سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہے ہیں۔ انھوں نے بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا، اور کرم ایجنسی میں خاص طور پر اور پورے علاقے بلکہ پورے ملک میں اس فتنے کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسرا پہلو زیادہ گہرا اور زیادہ اہم ہے۔ وہ یہ کہ طالبان کے طریق کار میں جو بھی غلطیاں اور سقم ہوں، اس علاقے میں جو سیاسی اور انتظامی خلا مختلف حکومتوں کی غلطیوں اور غفلتوں کی وجہ سے رونما ہوا تھا اس کی وجہ سے جو روایتی نظام وہاں قائم تھا، یعنی پولیٹیکل ایجنٹ، ملک اور جرگہ سسٹم وغیرہ وہ درہم برہم ہوگیا ہے۔ سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے کا روایتی نظام جو پولیس، اسکائوٹ اور فرنٹیر کانسٹیبلری سے عبارت تھا، غیرمؤثر ہوگیا ہے۔
جنرل مشرف کے دور میں یہ خلا اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اسے دستور اور علاقے کی ضرورت کی روشنی میں پُر کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ مذکورہ طالبان نے نہ صرف اس صورت حال کو ہوا دی، بلکہ مقامی قوانین اور بااثر طبقات کی جو گرفت تھی اور عوام کا جو استحصال وہ کر رہے تھے، اسے اپنے تصورات کے مطابق طبقاتی ہم آہنگی، مظلوم کی دادرسی، اجتماعی انصاف کی فراہمی کے ایک متبادل نظام کے تحت دُور کر کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ بلاشبہہ اس میں انھوں نے قوت کا استعمال بھی کیا، اور اپنی دانست میں جن روایات کو صحیح سمجھتے تھے ان کو اختیار کرنے کے لیے لوگوں کو مجبور بھی کیا۔ لیکن اس پورے عمل کے جلو میں جو سماجی تبدیلی، مظلوم طبقات کی بحالی اور اجتماعی عدل کی پیاس رونما ہوئی اس کے سماجی اور سیاسی مضمرات نے ہر اعتبار سے اس علاقے کے پورے تناظر کو متاثر کیا ہے۔ اندریں حالات پہلے والی جوں کی توں کیفیت (status quo) کی بحالی ناممکن ہوگئی ہے۔
آج جب طالبان کا لفظ حکومت، میڈیا اور امریکا کی عنایت سے ایک گالی بنادیا گیا ہے، اور ان کے لیے کلمۂ خیر کہنے والے کو نکّو بنایا جا رہا ہے، اس اعتراف کی ضرورت ہے کہ طالبان کی اس علاقے میں مداخلت سے جہاں قوت کے بے جا استعمال کی ایک غلط روایت قائم ہوئی ہے، کہ جس کی اصلاح کی ضرورت ہے، وہیں سماجی، اخلاقی اور معاشی اعتبار سے جو نیا ایجنڈا لوگوں کے سامنے آیا ہے، اس کا ادراک کیے بغیر حالات کی اصلاح اور امن و استحکام کا حصول ناممکن ہے___ ہم چاہتے ہیں کہ اس نکتے کی وضاحت کے لیے طالبان کے مخالفین کی تحریروں سے کچھ حقائق پیش کریں، تاکہ مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں سمجھا جاسکے۔ طالبان کو گردن زدنی قرار دینے کی جو مہم واشنگٹن سے کراچی اور اسلام آباد سے لندن تک چلائی جارہی ہے، اس کے تباہ کن ہونے اور پورے مسئلے کو قطعی طور پر ایک غیرحقیقی انداز میں پیش کرنے کی بھیانک غلطی کی اصلاح ہوسکے۔
مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو صاحبہ پر تو طالبان پسندی کا شبہہ بھی نہیں کیا جاسکتا، وہ تو لبرلزم اور جدیدیت کی علَم بردار ہیں۔ دیکھیے وہ مسئلے کے اس پہلو کے بارے میں کیا کہتی ہیں:
مسئلے کا حل زیادہ رقوم فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تسلیم کرنے میں ہے کہ طالبان سوات کے رہنے والوں کا انتخاب نہیں ہیں۔ طالبان وہاں اس لیے ہیں کہ انھوں نے وہ سڑکیں بنائیں جو کئی عشروں سے نہیں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے کم سے کم لڑکوں کے لیے تعلیم فراہم کی، جب کہ سرکاری اسکولوں میں لاکھوں مقامی طلبہ ناکام ہوئے۔ انھوں نے میڈیکل سنٹر کھولے، جب کہ سرکاری ہسپتال وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بند تھے۔ انھوں نے انصاف فراہم کیا، جب کہ عدالتوں نے بجاے عوام کے حکومت کا تحفظ کرنا شروع کر دیا۔ (Obama is Part of the Problem، نیو سٹیٹس مین، لندن، ۱۴ مئی ۲۰۰۹ء)
شیریں رحمن، پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیراطلاعات ہیں۔ ان پر بھی طالبان نوازی کا ’الزام‘ نہیں لگ سکتا۔ لیکن دیکھیے وہ بھی کیا کہہ رہی ہیں۔ دی نیوز (۲۱ مئی ۲۰۰۹ء) میں اپنے مضمون Why the IDPS Matter میں کہتی ہیں:
کسی کو یہ امید نہیں کرنا چاہیے کہ جو خاندان پاپیادہ یا کرایے کی ٹرانسپورٹ میں بونیر، سوات اور دیر سے صدمے کی کیفیت میں آرہے ہیں وہ طالبان کی، جنھوں نے ان کو قید میں رکھا، کھل کر مذمت کریں گے۔ بہت سے نجی طور پر اس خوف کی کیفیت کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ رہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت سے طالبان کے ماتحت سماجی انصاف کے امکان کی بات بھی کرتے ہیں۔
دی نیوز ہی کی ایک اور لبرل مضمون نگار کاملہ حیات اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:
ملکی سلامتی کی صورت حال نے عسکریت اور جہادی گروپوں اور سرکاری طاقتوں کے روابط میں اضافہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ریاست کے لیے کچھ مخصوص ترجیحات کا تعین بھی تھا۔ عوام کو ضروری سہولتیں فراہم نہ کرنے میں ناکامی طالبان کے بڑھنے کا کلیدی سبب ہے۔ مہاجر کیمپوں میں جو اسکول قائم کیے گئے ہیں ان میں ۴۰ سے ۵۰ فی صد بچوں نے کہا ہے کہ ان کے خاندان طالبان کے حامی ہیں خاص طور پر اس وجہ سے کہ انھوں نے انفراسٹرکچر اور سہولتوں کو بہتر بنایا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ محرومیاں اور مایوسیاں دوسری جگہوں پر بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر ہمیں اپنی بقا مطلوب ہے تو ان احساسات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت ہے کہ ریاست نئے کردار میں سامنے آئے اور عوام کی ضروریات کو اوّلیت دے۔ (The Whole Picture، کاملہ حیات، دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)
پاکستان کے سابق سفیر آصف ایزدی اپنے مضمون Drawing the Right Lesson from Swat میں مسئلے کے ان پہلوئوں پر بڑی جرأت سے اظہارِ خیال کرتے ہیں، جن پر مفادپرست اور تعصب کے پجاری پردہ ڈالتے ہیں اور سارے معاملے کو صرف ’انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں:
زرداری حکومت کے زیادہ تر فیصلوں کی طرح سوات میں فوجی آپریشن کا فیصلہ بھی دبائو کے تحت کیا گیا۔ خارجی دبائو اوباما انتظامیہ کی طرف سے آیا جسے پریشانی تھی کہ سوات دوسرے قبائلی علاقوں کی طرح القاعدہ کے لیے محفوظ جنت نہ بن جائے۔ لیکن داخلی دبائو بھی تھا۔ یہ دبائو روشن خیال اعتدال پسندوں کا اتنا نہیں تھا جو ایک لڑکی کے کوڑے لگانے پر نالاں تھے، اور نہ ان کا تھا جو فوری اور کڑے انصاف کے نظام کو من مانا سمجھتے تھے۔ فوجی ایکشن کے لیے حقیقی دبائو دراصل ان زمین داروں اور ان لوگوں کی طرف سے آیا جن کو خطرہ ہوا کہ ان کی جایدادیں طالبان کے ہاتھوں محفوظ نہ رہیں گی۔
ان کی نگاہ میں جنگ جوؤں کا اصل جرم یہ نہیں تھا کہ وہ شریعت کی تبلیغ کر رہے تھے بلکہ اسلامی مساوات کی بات بھی کر رہے تھے جو کچھ لوگوں کو طبقاتی جنگ سے مختلف نہیں لگ رہا تھا۔ طالبان نے اپنے نئے نظام کا پیشگی اندازہ اس وقت کروایا جب انھوں نے چند بڑے زمین داروں کو سوات چھوڑنے اور اپنی زمین بے زمین لوگوں کو دینے پر مجبور کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ زمرد کی کانوں پر قبضہ کیا گیا اور آمدنی کا بڑا حصہ مزدوروں کو دیا گیا۔ جنگلات کا منافع جو اس سے پہلے لکڑی مافیا اپنی جیبوں میں بھرتے تھے تقسیم کیا گیا۔ پولیس اور حکومت کے وہ اہل کار جو جاگیرداری نظام کا سہارا تھے ان کو نشانہ بنایا گیا۔ ان اقدامات سے خطرے کی گھنٹیاں نہ صرف صوبہ سرحد بلکہ پورے پاکستان میں بجنے لگیں۔ چند صاحب ِدولت کی زمینوں کی ملکیت پر حملہ کر کے جو ہمارے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا کلیدی پتھر ہے، خطرے کی سرخ لکیر عبور کرلی گئی۔ پورے نظام کو خطرے میں ڈالے بغیر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس لیے تعجب کی بات نہیں کہ ریاست نے پلٹ کر اس طرح حملہ کیا جس طرح اس نے کیا ہے۔
فوجی اقدام ان خرابیوں کا جن کی جڑیں سماجی معاشی ناانصافی میں ہیں، کوئی حل فراہم نہیں کرتا۔ موجودہ بے چینی و اضطراب کی بنیادی وجہ وہ جاگیرداری نظام ہے جو عام آدمی کو اس کی حالت ِ زار سے نجات کی کوئی اُمید نہیں دلاتا، جب کہ چند مراعات یافتہ لوگ ہی ساری دولت سمیٹ لیتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ وقت بدل چکا ہے، چاہے انھیں معلوم نہ ہو۔
اگر فوجی آپریشن طالبان کو ختم کرنے کا اپنا مقصد حاصل بھی کرلے تب بھی یہ بے چینی اور اضطراب ختم نہیں ہوگا۔ جب تک ریاست سنجیدگی سے سماجی انصاف کے مسائل کو حل نہیں کرتی، سیاسی استحکام حاصل نہیں ہوگا۔ (دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)
ان حقائق کا کوئی ذکر امریکا اور پاکستان کی سیاسی و فوجی مقتدرہ قوتوں اور ان کے ہم نوا میڈیا کے واویلا میں نہیں ملے گا۔ وہاں تو صرف دہشت گردوں کو مارنے اور ان کو تباہ و برباد کرنے کی گھن گرج کی تکرار ہوتی ہے۔ لیکن اب چند مغربی صحافی بھی، ان حقائق کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہیں___ واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار پامیلا کانسٹیبل ۱۰ مئی ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں لکھتی ہے:
سوات میں شرعی عدالتوں کا مطالبہ طالبان کا فسانہ نہیں تھا بلکہ یہ سیکولر ریاست کے عدالتی نظام سے عوام کی شدید بے اطمینانی کا نتیجہ تھا۔ پورے ملک میں اس پر سست رو اور بدعنوان ہونے کی بنیاد پر تنقید کی جاتی ہے۔ جہاں مقدمے کئی عشروں تک چلتے ہیں اور بااثر لوگ اکثر پولیس کو خرید لیتے ہیں اور اپنے غریب فریقوں کے مقابلے میں مقدمات جیت لیتے ہیں۔ اسلامی عدالتیں عمومی طور پر چھوٹی، تیزرفتار اور کم خرچ ہیں۔
جگہ کی قلت کے باوجود ہم نے ان افراد کی زبان میں حقائق کے اس پہلو پر توجہ مرکوز کی ہے، جو حقیقی ہیں لیکن طالبان دشمنی اور اسلام بے زاری کے جذبات سے مغلوب ہوکر، ہمارا لبرل اور روشن خیال طبقہ اور امریکی و یورپی دانش ور اور سیاسی رہنما تو ذکر نہیں کرتے یا پھر اظہارِ حق کو اپنے مفاد سے متصادم پاتے ہیں۔ لیکن کم از کم پاکستانی قوم اور اس کی پارلیمنٹ کو تو تعصبات سے بالاہوکر تمام عوامل کا گہری نظر سے مطالعہ کرکے ایسی حکمتِ عملی بنانی چاہیے، جو پاکستان اور اس کے اپنے عوام کے مفاد میں ہو۔
پس چہ باید کرد
ہم نے جو معروضات ان صفحات میں پیش کی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ:
۱- پاکستان کی اولین ترجیح دنیا پر اور خود اپنے علاقے اور ملک پر مسلط کردہ امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ سے کنارہ کشی اور ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل و تنفیذ ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
۲- سوات، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن جلد از جلد بند ہونا چاہیے، اور ہردو علاقوں کے مسائل کا حقیقی سیاسی حل مذاکرات، افہام و تفہیم اور باہمی مشاورت سے نکالنے پر ساری توجہ، صلاحیت اور قوت کا استعمال ہونا چاہیے۔ اس میں نہ وقت کی کوئی قید ہے اور نہ مذاکرات کے بننے اور بگڑنے کی تعداد کی۔ مسئلہ سیاسی اور انسانی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے۔
۳- جہاں تک نفاذِ عدل ریگولیشن کا تعلق ہے، وہ اس پوری صورت حال کا حصہ نہیں۔ اس کا اپنا ایک مستقل وجود اور دائمی ضرورت بھی ہے۔ ان قواعد کو اپنے الفاظ اور روح کے ساتھ پورے علاقے میں نافذ ہونا چاہیے۔ جو تلخی یا تصادم پیدا ہوا ہے، اس کا اس عمل پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔
۴- اس سیاسی عمل میں ان علاقوں کے تمام عناصر کی شرکت ضروری ہے، اور بیرونی مداخلت کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔
۵- امریکا سے برابری کی بنیاد پر اپنی آزادی، نظریاتی شناخت اور قومی اور ملّی مفادات کے فریم ورک میں دوستانہ تعلقات ضرور استوار کیے جائیں، مگر افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی سے مکمل برأت کا اعلان ہو، ڈرون حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے۔ جو مراعات اور سہولتیں امریکا اور ناٹو افواج کو پاکستان کی سرزمین پر حاصل ہیں، انھیں ایک واضح طریق کار اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ختم کیا جائے۔
۶- پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد اور اس کی روشنی میں پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کی سفارشات کی بنیاد پر ایک جامع اور مربوط حکمت عملی بنائی جائے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ۵۸ (۲-بی) اور دوسری متعلقہ دستوری ترمیمات کرکے دستور اور پارلیمنٹ کو اس حیثیت میں بحال کیا جائے جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل تھی۔
۷- نقل مکانی کرکے مہاجرت اور بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے والے اہلِ وطن کے لیے جنگی بنیادوں پر، شفاف انداز میں زندگی کی تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں، اور جلداز جلد گھروں کو واپسی کا انتظام کیا جائے، نیز ان کے نقصانات کی مکمل تلافی کی جائے۔
۸- ملک میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور عدل کی فراہمی کا جلد از جلد اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں لاپتا افراد کی فوری بازیابی اور رہائی کو اوّلیت دی جائے۔ جو ادارے اور افراد اس لاقانونیت اور ظلم کے ذمہ دار ہیں، ان پر قانون کے مطابق گرفت کی جائے تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوسکے۔
۹- قوم بجلی، پانی اور گیس کی عدم فراہمی، بے روزگاری اور غربت و ناداری اور اشیاے صرف کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے سخت تنگ ہے۔ فوری طور پر معاشی حکمت عملی کو تبدیل کیا جائے، عوام کے لیے نت نئی مشکلات پیدا کرنے کے بجاے انھیں حقیقی سہولت اور فوری سہولت دینے کا اہتمام کیا جائے۔ مفاد پرست طبقات بشمول سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کے طرزِ زندگی کو ان حدود کا پابند کیا جائے، جو اجتماعی انصاف کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔
۱۰- عوام کو تعلیم، صحت اور رہایش کی سہولتیں فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے، اور قومی پالیسی کے ہرپہلو کو اسلام اور مسلم تمدن کی روایات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے عوامی بیداری اور مؤثر سیاسی جدوجہد وقت کی اولیں ضرورت ہے۔
۱۱- سوات، دیر، بونیر اور فاٹا کے حالات میں گھرے ہونے کے باوجود بلوچستان کے مسئلے کو قرارواقعی اہمیت دی جائے اور حالات کی نزاکت کے بھرپور احساس کے ساتھ وہاں کے تمام عناصر کو مذاکرات میں شریک کر کے متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ بلوچستان کے اصل مسئلے کی تشخیص کوئی مشکل بات نہیں۔ اس پر خود پارلیمنٹ کی کمیٹی تفصیل سے غورکرچکی اور سفارشات دے چکی ہے۔ اصل مسئلہ مفاد پرست عناصر کا کردار، حکومت کی بے عملی اور بیرونی قوتوں کے تاخیری حربے اورسازشیں ہیں۔ کُل جماعتی کانفرنسیں مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا حل علاقے کے لوگوں کے ساتھ انصاف، فوجی ایکشن اور قوت کے استعمال کی حکمت عملی کو یکسر ختم کرنا اور سیاسی حل کی تلاش اور اس سے بھی زیادہ اس کے لیے فوری عملی اقدام ہے۔ دستوری ترامیم بھی اس پیکج کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں تاخیر تباہ کن ہوسکتی ہے۔ لہٰذا دونوں میدانوں، یعنی صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے اور بلوچستان میں فوری سیاسی حل اور نئے بندوبست کے اہتمام کو اولیت دینا ضروری ہے۔
چشم فلک نے یہ منظر بار بار دیکھا ہے کہ اسلام دشمن قوتیں بڑی چابک دستی سے اہلِ ایمان کے خلاف ایک چال چلتی ہیں اور مطمئن ہوتی ہیں کہ اپنے اہداف حاصل کرنے والی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایک دوسری ہی تدبیر کا اہتمام فرماتا ہے اور باطل قوتوں کے سارے اندازے اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ان کے شر کے بطن سے خیر کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور جو چیز کسی کے خواب و خیال میں نہ تھی، وہ اہلِ حق کے لیے رونما ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں تاریخ کے اس معجزاتی عمل کا بار بار ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ ہر دور میں اہلِ ایمان کی ہمتوں کو مضبوط اور تاریکی سے روشنی کے نمودار ہو جانے کی امیدوں کے چراغ روشن کیے جاسکیں۔ بنی اسرائیل کی چال بازیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے :
وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o(اٰل عمرٰن ۳:۵۴) پھر بنی اسرائیل (مسیحؑ کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے۔ جواب میں اللہ نے اپنی تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔
سورئہ انفال میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے:
وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo (الانفال ۸:۳۰) وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ جب منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ذرا ان حالات پر غور کیجیے جو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خونی یلغار سے دنیا بھر میں اور خصوصیت سے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس جنگ میں جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور خود پاکستان کی فوج کو پاکستان کے عوام کے خلاف صف آرا کر دینے سے رونما ہوئے۔ ۴ سال کی مسلسل فوج کشی اور امریکا کے ۱۰۰ سے زائدڈرون حملوں کے باوجود کسی ایک علاقے میں بھی فوجی ایکشن کامیاب نہ ہوسکا اور بالآخر مذاکرات اور سیاسی حل کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ سوات کا علاقہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں میں میدانِ کارزار بنا رہا۔ سیکڑوں افراد شہید ہوئے، ہزاروں زخمی ہوئے اور لاکھوں دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
کسے خیال تھا کہ اس علاقے میں امن کی تلاش میں بالآخر شریعت کے نفاذ کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور بش اور مشرف کی برپا کردہ جنگ کا اختتام اور آیندہ کا دروبست ایک ایسی جماعت کے توسط سے ہوگا جو سیکولرزم کی دعوے دار ہے اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں جس کی کامیابی کو ملک ہی کے نہیں دنیا بھر کے آزاد خیال اور سیکولرزم کے حامی عناصر نے دینی قوتوں کی پسپائی اور سیکولرزم اور آزاد خیالی کی فتح قرار دیا تھا۔ جس قانونی تبدیلی کا مطالبہ علاقے کے عوام ۱۹۶۹ء سے کر رہے تھے اورجس کے لیے کم از کم دو بار قانون سازی آخری مراحل تک پہنچ گئی تھی، اس کی تکمیل اور تنفیذ پیپلزپارٹی اے این پی کی صوبائی حکومت اور تحریک نفاذِ شریعت محمدی کی قیادت کی مشترک مساعی سے اور زرداری صاحب کی ۲ ماہ تک ٹال مٹول کے بعد، قومی اسمبلی کی متفقہ سفارش سے ہونا تھی۔ سارا سیکولر طبقہ آتش زیرپا ہے اور امریکا اور مغربی ممالک واویلا کر رہے ہیں لیکن جو قانون سیدھے سیدھے عوامی مطالبے اور لوگوں کی خواہش کے نتیجے میں نافذ نہ ہوسکا تھا وہ اس معجزاتی انداز میں اسمبلی کی تائید سے نافذ ہو رہا ہے ۔
سوات کی ریاست برطانوی دور میں پہلی جنگ ِ عظیم کے فوراً بعد معرضِ وجود میں آئی اور وہاں کا قانون بڑی حد تک شریعت پر مبنی تھا اور اسلامی اصولوں کے مطابق نظامِ قضا کے ذریعے نافذ تھا۔ یہ سلسلہ ۱۹۶۹ء تک چلتا رہا جب ریاست کو پاکستان میں مدغم کیا گیا اور عوام سے وعدہ کیا گیا کہ شرعی قانون کو جاری رکھا جائے گا مگر ملک کی سیکولر قیادت نے اس وعدے کے ایفا کے لیے کوئی قابلِ ذکر کوشش نہ کی جس کے نتیجے میں شریعت محمدیؐ کے قیام کا مطالبہ در و دیوار سے برابر کیا جاتا رہا اور بالآخر وہ حالات پیدا ہوئے جن میں ۱۹۹۴ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں (جب سیکولرزم کے علَم بردار وکیل جناب اقبال حیدر وزیر قانون تھے اور آفتاب احمد شیرپائو سرحد کے وزیراعلیٰ تھے) ایک مسودہ شرعی نظامِ عدل کے نفاذ کے لیے تیار کیا گیا مگر اس کے نفاذ کی نوبت نہ آئی۔ مطالبہ برابر جاری رہا اور پھر ۹۹-۱۹۹۸ء میں جناب نواز شریف کے دورِاقتدار میں سرحد کے وزیراعلیٰ جناب سردار مہتاب عباسی کی ذاتی دل چسپی سے اس مسودے پر نظرثانی کی گئی اور دینی قوتوں کی مشاورت سے قانون کو ایک واضح شکل دی گئی مگر مشرف صاحب کے انقلاب نے اس سلسلے کو درہم برہم کر دیا۔
یہ صرف قدرت کا کرشمہ ہے کہ ۲۰۰۹ء میں زرداری گیلانی حکومت کے دور میں سرحد کی اے این پی کی حکومت کی مسلسل کوشش اور اس کی اپنی ذمہ داری پر ایک معاہدۂ امن ہوا جس کا مرکزی نکتہ سوات اور مالاکنڈ کے تقریباً تمام علاقوں میں شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے قیام کا قانون حکومت اور علاقے کی دینی قوتوں کے اتفاق راے سے تیار ہوا اور زرداری صاحب کے سارے تحفظات اور امریکا کی ساری ریشہ دوانیوں کے باوجود بالآخر ۱۳ اپریل ۲۰۰۹ء کو قومی اسمبلی کی تائید سے اس کا نفاذ عمل میں آیا___ یہ تو ابھی دیکھنا ہے کہ فی الحقیقت اس پر کتنی دیانت اور اخلاصِ نیت سے عمل ہوتا ہے لیکن اس قانون پر اتفاق راے کا رونما ہونا اور پھر دستوری عمل کے مطابق اس کا منظور اور نافذ ہوجانا ایک بہت مبارک اور تاریخی اقدام ہے۔ ہم اس پر ان تمام حضرات کو کھلے دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں جن کا اس سلسلے میں کوئی بھی کردار رہا ہے اور اس توقع کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر اس پر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ پوری طرح عمل ہوتا ہے تو یہ نہ صرف اس علاقے کی قسمت کو بدلنے اور امن و انصاف کے قیام کا ذریعہ ہوگا بلکہ پورے ملک کے لیے ایک روشن مثال بھی بن سکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس قانون کے ذریعے کیا تبدیلی تجویز کی جارہی ہے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں اس میں کون سی نئی راہ اختیار کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ان خطرات کا ادراک بھی ضروری ہے جو اس تجربے کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہوسکتے ہیں، نیز اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس تجربے کو کامیاب کرنے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم انھی پہلوؤں کی طرف ضروری اشارات کرنے کی کوشش کریں گے۔
سیکولر لابی جو بھی گل افشانی کرے ، یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد صرف ایک آزاد ملک کا حصول نہیں تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ وہ آزاد ملک اسلام کی تجربہ گاہ بنے اور اس کے پورے نظامِ زندگی کو قرآن و سنت کی رہنمائی کے مطابق مرتب و منظم کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے برعظیم کے مسلمانوں کو نجات کی جس راہ کی طرف دعوت دی تھی، اس کا مرکزی نکتہ یہی نظریہ تھا اور ہندستان کے ان مسلمانوں نے جن کا تعلق مسلم اقلیتی صوبوں سے تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے، صرف اپنے ایمان اور دین کے تقاضوں کے تحت اس تحریک کی دل و جان سے تائید کی تھی اور اس کی کامیابی کے لیے عظیم قربانیاں پیش کی تھیں۔ پاکستان اور اسلام توام ہیں جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ نفاذِ شریعت کا مطالبہ آج نہیں کیا جارہا۔ یہ تحریک پاکستان کی روح تھا اور آج بھی یہی چیز پاکستان کی بقا اور ترقی کی ضامن ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اقبال، قائداعظم اور قائد کے دستِ راست لیاقت علی خاں کے ان اعترافات اور وعدوں کو ذہن میں تازہ کرلیں جو پاکستان کے مقصد اور اس کی اصل حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبۂ صدارت میں اپنے پورے تجزیے کی بنیاد ہی اس اصول پر رکھی تھی کہ: ’’اسلام کے پیش نظر ایک ایسا عالم گیر نظامِ سیاست ہے جس کی اساس وحی اور تنزیل پر ہے‘‘۔
اس خطبے میں اقبال نے صاف الفاظ میں کہا تھا:
اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، چرچ اور ریاست ایک دوسرے کی فطری تکمیل کرتے ہیں۔
ان کا ارشاد تھا:
اسلام کا مذہبی نصب العین اُس اجتماعی نظام سے نامیاتی تعلق رکھتا ہے جو وہ قائم کرتا ہے۔ ایک کے مسترد کرنے سے لامحالہ دوسرا بھی مسترد ہوجائے گا۔ اس لیے کسی پالیسی کی قومی سطح پر اس طرح تشکیل کہ اس سے اسلام کے یک جہتی کے اصول اپنی جگہ نہ رہیں، کسی مسلمان کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برعظیم میں اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے ان کی نگاہ میں ایک آزاد مسلم مملکت کا قیام ناگزیر تھا۔
ملک میں ایک تہذیبی طاقت کی حیثیت سے اسلام کی زندگی بڑی حد تک ایک مخصوص علاقے میں اس کی مرکزیت پر منحصر ہے۔
چنانچہ ان کا مطالبہ تھا:
اس لیے میں ہندستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں۔
اصل مسئلہ ہی اسلام کا تحفظ اور فروغ تھا۔ اسی لیے علامہ اقبال نے سید غلام بھیک نیرنگ کے نام اپنے ایک خط میں آزادی کے مقصد کو ان الفاظ میں واضح فرمایا:
اگر ہندستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظت ِ اسلام اس کا عنصر نہیں تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
قائداعظم نے مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا دعویٰ اسی بنیاد پر کیا:
ہم ایک علیحدہ قوم ہیں، جس کے پاس اپنا خاص تمدن و تہذیب، زبان اور ادب، فنونِ لطیفہ اور فنِ تعمیر، نام اور اصطلاحات ، اقدار کا تخیل اور تناسب کا تصور، عدالتی قانون اور اخلاق کا ضابطہ، رواج اور سنہ تاریخ اور روایات، رجحانات اور تمنائیں موجود ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کے متعلق ہم ایک خاص تصور رکھتے ہیں اور بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ہم ایک علیحدہ قوم ہیں۔ (گاندھی جناح مراسلت)
اگست ۱۹۴۱ء میں قائداعظم نے حیدرآباد دکن میں نوجوان طلبہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسلامی ریاست کو سیکولر ریاست سے ان الفاظ میں ممتاز و ممیز قرار دیا:
اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کے لیے بہرحال آپ کو علاقے اور سلطنت کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کی تنظیم، اس کی جدوجہد، اس کا رُخ اور اس کی راہ___ سب اس کے جواب ہیں۔
۲۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو صوبہ سرحد میں منعقدہ مسلم لیگ کانفرنس میں آپ نے واضح الفاظ میں فرمایا:
مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں۔
اور اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
لیگ ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کی علَم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ مسلمان وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کر سکیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سرحد اور قلات دونوں جگہ قائداعظم نے واضح الفاظ میں ان لوگوں کے الزامات کی تردید کی جو کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں قانون سازی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی احکام کے مطابق نہیں ہو گی۔ ان کا ارشاد تھا کہ ’’یہ بات قطعی طور پر غلط ہے‘‘۔
لیاقت علی خاں نے قرارداد مقاصد کی شکل میں پاکستان کے قیام کے اصل مقاصد کو مرتب اور محفوظ کردیا۔ ۵ اپریل ۱۹۴۸ء کو انھوں نے راولپنڈی میں اعلان کیا تھا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشووا رتقا ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے۔ پھر دسمبر ۱۹۴۹ء میں کوہاٹ میں مسلم لیگ کے زیراہتمام ایک جلسۂ عام میں لیاقت علی خاں نے کہا:
جہاں تک لوگوں کی اس اُمنگ کا تعلق ہے کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت ہونی چاہیے، دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد مقاصد ان کی کافی ضمانت ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم نے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم نہ کی تو پاکستان زندہ نہیں رہ سکے گا۔
عوام کی اس خواہش کا مظہر پاکستان کا دستور ہے جس میں قرارداد مقاصد نہ صرف اس کا دیباچہ ہے بلکہ دفعہ ۲ الف کی شکل میں اس کا ایک قابلِ تنفیذ حصہ ہے۔ دستور میں مرقوم ریاست کی حکمرانی کے بنیادی اصول زندگی کے ہرشعبے میں اسلام کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور دستور کی دفعات ۲۰۳ اور ۲۲۷ پورے قانونی نظام کو شریعت کے تابع اور اس سے ہم آہنگ کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔
سوات اور مالاکنڈ کے عوام قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے انھی تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جس کی طرف ایک مؤثر قدم ’’عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنے کا ریگولیشن‘‘ ہے۔ یہ ریگولیشن ایک مثبت اقدام ہے اور اس کے اہم نکات کو سمجھنا اس کی اہمیت کے ادراک کے لیے ضروری ہے۔
اس قانون کی غرض و غایت ہی یہ بتائی گئی ہے کہ ’’قبائلی علاقوں اور سابق ریاست امب کے سوا شمال مغربی سرحدی صوبہ کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عنوان ’’شریعۃ نظام عدل ریگولیشن ۲۰۰۹ء‘‘ ہے۔
اس قانون کی اصل اہمیت اور منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس طریقے کے علاوہ جو اَب تک پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے اختیار کیا گیا ہے یعنی ’نفاذ اسلام بذریعہ قانون سازی‘ اب اس کے ساتھ ساتھ ’نفاذِ اسلام بذریعہ نظامِ قضا‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت پانچ سطحوں پر مشتمل جس نظامِ قضا کو قائم کیا جا رہا ہے وہ ملکی قانون کے طور پر نفاذ کے ساتھ ان تمام امور پر بھی حاوی ہے جو شریعت کے دائرے میں آتے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی متعین قانون موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں فقہ کی تدوین کے علی الرغم نفاذِ اسلام کا ایک اہم ترین ذریعہ نظامِ قضا ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایت کا اہم سرمایہ ججوں کے بنائے ہوئے قوانین پر مشتمل ہے۔ ریاستی قانون سازی کے ذریعے نفاذِ اسلام کا تجربہ ایک نیا تجربہ تھا اور کم از کم پاکستان کی حد تک اس کے اثرات اور نتائج بہت زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ اس پس منظر میں سوات اور مالاکنڈ کے لیے بنایا جانے والا حالیہ قانون ایک اہم تجربے کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ زرداری صاحب اور خود اے این پی کی قیادت نفاذِ شریعت کے پہلوئوں پر پردہ ڈالنے اور نظامِ عدل اور قیامِ امن کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو یا ان کی کم علمی کا مظہر ہے یا اس سے بھی زیادہ سنجیدہ اور تباہ کن چیز،یعنی علمی بددیانتی کا۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کے چند اہم پہلوئوں کو قوم کے سامنے بلاکم و کاست لایا جائے:
۱- نفاذِ شریعت اور قیامِ امن کے لیے ایک مربوط اور خود مکتفی نظام وضع کیا گیا ہے جس کی پانچ سطحیں ہیں اور اپیل کے لیے دو ادارے بنائے گئے ہیں:
۲- شریعت کی تعریف ماقبل کی تمام مساعی کے مقابلے میں زیادہ متعین طور پر کی گئی ہے، یعنی شریعت سے اسلام کے احکام مراد ہیں جیساکہ قرآن اور سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس میں بیان کی گئے ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک اجماع اور قیاس کا واضح اضافہ پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔ دستور میں صرف قرآن و سنت کا ذکر ہے اور یہی صورت ۱۹۹۱ء کے نفاذِ شریعہ ایکٹ میں ہے۔ نیز ہماری نگاہ سے اس علاقے کے بارے میں جو مسوداتِ قانون گزرے ہیں یعنی ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۹ء کے مسودے، ان میں اجماع اور قیاس کا ذکر نہیں تھا۔ علماے کرام دلائلِ شریعہ سے استنباط احکام کی وضاحت کی ضرورت کو بیان کرتے رہے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اجماع اور قیاس کو بھی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔
۳- اس قانون میں خلافِ قرآن و سنت قوانین کی خود بخود منسوخی کے بارے میں ایک بہت واضح اعلان ہے جو بہت اہم اقدام ہے۔ اس کی دفعہ چار میں وضاحت موجود ہے کہ اس ریگولیشن کے نفاذ سے پہلے اس مذکورہ علاقے میں قرآن مجید اور سنت ِ رسولؐ سے متصادم کوئی بھی نافذالعمل قانون، دستاویز، رواج یا دستور یا کوئی بھی ایسی صورت، اس ریگولیشن کے آغازِ نفاذ سے کالعدم متصور ہوگی۔
۴- شریعت کو بالاتر قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ عدالتوں کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ فیصلے صرف شریعت کے مطابق کیے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو، دفعہ ۹ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ:
قاضی یا انتظامی مجسٹریٹ مقدمات چلانے اور ان کے تصفیے کے لیے طریق کار اور کارروائی کی غرض سے قرآن مجید، سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس سے رہنمائی حاصل کرے گا اور ان کا فیصلہ شریعت کے مطابق کرے گا۔ قاضی اور انتظامی مجسٹریٹ قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے بیان اور تشریح کے مسلّمہ اصولوں کی پیروی کرے گا اور اس مقصد کے لیے اسلام کے مستند فقہا کے بیانات اور آرا کو بھی مدنظر رکھے گا۔
انتظامی مجسٹریٹ بھی دفعہ ۷ کے تحت ’اپنے فرائض اور ذمہ داریاں‘ شریعت کے مسلّمہ اصولوں اور مذکورہ علاقے میں فی الوقت نافذالعمل دیگر قوانین کے مطابق انجام دیں گے۔
۵- مصالحت کا ایک نظام تجویز کیا گیا ہے جو بڑا مفید اضافہ ہے اور مقدمات اور تنازعات کو جلد نمٹانے کے لیے ایک کارگر نسخہ ہے جسے آج مغربی دنیا میں بھی’متبادل انصاف‘ کے عنوان سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس میدان میں بھی شریعت سے مطابقت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نیز اعلیٰ عدالت کو شریعت سے عدمِ مطابقت کی صورت میں مصلح یا مصلحین کے تصفیے پر نظرثانی یا تنسیخ کا اختیار دیا گیا ہے۔
۶- اس قانون میں دستور کی دفعہ ۲۲۷ کی طرح شخصی معاملات کے سلسلے میں ہر مکتب فکر کے پیروکاروں کے لیے ان کے اپنے مسلک کے مطابق معاملات کے طے کیے جانے کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس طرح جو تنوع مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
۷- غیرمسلموں کو ان کے شخصی قانون کے سلسلے میں یہ حق دیا گیا ہے کہ ان کے مقدمات ان کے اپنے متعلقہ پرسنل لا کے مطابق چلائے جائیں گے اور ان کا فیصلہ اس کے مطابق کیا جائے گا۔ شریعت نے جو آزادی غیرمسلموں کو دی ہے، اس کا اس قانون میں پورا اہتمام کیا گیا ہے۔
۸- وکلا اور معاونین عدالت کے سلسلے میں واضح بیان اس قانون میں نہیں لیکن اس کے خلاف بھی کوئی بندش موجود نہیں۔ بلکہ دفعہ ۱۵ میں عدالتوں کی امداد و تعاون کا جس طرح ذکر کیا گیا ہے اس میں مقدمات میں وکلا یا دوسرے معاونین کی خدمات کے لیے گنجایش موجود ہے۔
۹- عدالت کی زبان کے باب میں بھی پہلی مرتبہ اُردو اور انگریزی کے ساتھ پشتو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی ۱۹۹۹ء کے مسودے پر ایک اضافہ ہے۔
۱۰- مقدمات کے جلدی فیصلے کے لیے متعدد دفعات میں ضروری قواعد و ضوابط اور ہدایات موجود ہیں اور تاخیری حربے استعمال کرنے پر تعزیرات بھی لاگو کی گئی ہیں۔ نیز دیوانی مقدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ ۶ ماہ اور فوجداری کے لیے ۴ ماہ کی مدت متعین کی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو جلد انصاف میسر آسکے گا۔
۱۱- اس قانون کا ایک اور بڑا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان کے ۹۴ قوانین کا اطلاق اس علاقے پر کیا گیا ہے اور اس طرح جہاں اس علاقے میں شریعت کے نفاذ کا اہتمام کیا گیا ہے وہیں ان قوانین کی توسیع کے ذریعے اس علاقے کے قانون اور معاملات کو پاکستان کے باقی نظام سے ایک حد تک ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان قوانین میں بہت سے وہ قوانین بھی شامل ہیں جن کے ذریعے اس علاقے میں باقاعدہ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوسکیں گی اور سیاسی پارٹیوں کا ایکٹ نافذ العمل ہوجائے گا۔
یہ متذکرہ بالا گیارہ پہلو ایسے ہیں جو اس قانون کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتے ہیں۔
اس قانون پر جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں ان کے تین پہلو ہیں:
اعتراضات کی ایک قسم وہ ہے جو ان حضرات، اداروں اور حکومتوں کی طرف سے آرہے ہیں جو شریعت ہی کے خلاف ہیں اور شریعت کے نفاذ کو اپنے زعم میں حقوقِ انسانی کے خلاف اور جنس کی بنیاد پر امتیاز (gender discrimination) کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی مخالفت اس قانون سے نہیں، خود شریعت سے ہے۔ ان کو ہمارا جواب یہ ہے شریعت مسلمانوں کے لیے کوئی بیرونی شے یا باہر سے، یا جبر سے مسلط کی جانے والی چیز نہیں ہے بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضا اور ہماری آرزوئوں اور اُمنگوں کی تکمیل ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں کیے گئے راے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ساری خرابیوں کے باوجود ۹۰ فی صد سے زیادہ مسلمان اسلام ہی کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیں اور مسلمان مرد اور خواتین، بوڑھے اور جوان بلاتفریق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں اور احکام کے مطابق چاہتے ہیں۔ پاکستان کے اور مسلم دنیا کے ۷۲ ممالک کے مسلمانوں کی اکثریت شریعت کو قانون کا واحد سرچشمہ (only source of law) قرار دیتی ہے۔ اگر اس میں ان افراد کو شامل کرلیا جائے جو شریعت کو ’ایک سرچشمۂ قانون‘ (one source of law) کہتے ہیں تو یہ تعداد ۸۰ سے ۹۰فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔۱؎ جوحضرات اپنے کو آزادی کا پرستار اور جمہوریت پسند کہتے ہیں ان کو اتنا تو تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنی آزاد مرضی اور قلبی اطمینان کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق دیکھنا چاہتی ہے تو اس ۱۰ فی صد لبرل اقلیت کو کیا حق ہے کہ ان پر اپنی راے مسلط کرے اور مغرب کی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی حکومتوں کو کیا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی خواہشات اور عزائم کو یک طرفہ طور پر رد (ویٹو) کریں۔ یہ فسطائی ذہنیت ہے، اس کا جمہوریت سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔
بلاشبہہ جمہور مسلمین کے دل کی آواز شریعت کا نفاذ ہے۔ جو جمہوریت کے دعوے دار ہیں انھیں صرف جمہور کی خواہش اور ارادے کا احترام کرنا چاہیے لیکن جہاں تک معاملہ مسلمانوں کا ہے، تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ مسلمان نام ہی اس مرد یا عورت کا ہے جو اپنی مرضی اور ارادے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے تابع کرتا ہے اور اپنی زندگی کو اس قانون کے مطابق ڈھالتا ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ قرآن کا فیصلہ بہت صاف اور واضح ہے:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ… بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ… فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (المائدہ ۵:۴۴-۴۵ و ۴۷) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں… وہی فاسق ہیں۔
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی ہدایت ہے جو پوری اُمت کے لیے سنت ِ رسولؐ ہے کہ وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ (المائدہ ۵:۴۹) پس اے نبیؐ، تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
اور یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رہنی چاہیے کہ شریعت اور انصاف ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ شریعت کے بغیر انصاف ممکن نہیں اور انصاف کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب شریعت حَکم ہو۔ شریعت اور انصاف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ ط اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوںاور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔
نبی پاکؐ کو مخاطب کرتے ہوئے (اُن کی وساطت سے) اللہ تعالیٰ نے پوری اُمت کے سامنے اپنے قانون اور عدل کے رشتے کو اس طرح واضح فرمایا:
فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمُ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۵) اس لیے اے محمدؐ! اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو اور ان سے کہہ دو کہ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔
قرآن اس مضمون سے بھرا پڑا ہے اور اس سلسلے میں کسی مسلمان کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ اشتباہ نہیں ہوسکتا کہ حقیقی اسلامی زندگی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار شریعت کے مطابق اور شریعت کے ذریعے انصاف کے قیام پر ہے۔ اس سلسلے میں چھوٹا ہو یا بڑا، جو اقدام بھی کیا جائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کو پورا کرنے اور دینِ حق کے تقاضوں کو پورا کرنے کا ذریعہ ہو۔
اعتراضات کی دوسری کھیپ کا تعلق اس مفروضے سے ہے کہ ایک ملک میں ایک سے زیادہ قانونی نظام نہیں چل سکتے۔ یہ قانون ایک متوازی نظام قانون مسلط کرنے کی کوشش ہے جو قابلِ قبول نہیں۔
ہم اس اعتراض کو اس لیے قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ جس مفروضے پر اس کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں۔ پاکستان میں ایک دستور ہے جو پورے ملک پر حاوی ہے۔ اس دستور میں اس علاقے کے لیے قانون اور قانون سازی کا ایک مختلف طریقہ موجود ہے۔ انگریز کے زمانے میں یہاں کا قانون، باقی ملک سے مختلف تھا اور اس پر کسی کو تناقض اور دو نظاموں کے ٹکرائو کا خیال نہیں آیا۔ شریعت پر مبنی نظامِ قضا خواہ جزوی شکل ہی میں تھا مگر برطانوی دور میں ایک نہیں متعدد ریاستوں اور علاقوں میں موجود تھا اور اسے معتبر تصور کیا گیا۔ خود پاکستان بننے کے بعد سوات اور قلات میں ایک عرصے تک قضا کا نظام شرعی بنیادوں پر کام کرتا رہا اور کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا بلکہ لوگ خوش اور مطمئن تھے۔ آج بھی آزاد کشمیر میں قاضیوں کا نظام موجود ہے اور وہ عدالتی نظام کے حصے کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ آج تک قبائلی علاقے میں FCR جیسا جنگل کا قانون موجود رہا اور دُہرے نظامِ عدل کا واویلا نہیں کیا گیا۔ پھر اب یہ آہ و بکا کیوں ہے؟ کیا صرف شریعت کی وجہ سے یہ آوازیں اٹھائی جارہی ہیں؟
برطانیہ کے عدالتی نظام کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہاں کئی سو سال تک common law courts اور equity courts شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں۔ امریکا ایک فیڈریشن ہے اور اس کی مختلف ریاستوں میں آج بھی دیوانی اور فوج داری دونوں دائروں میں مختلف قوانین کی عمل داری ہے اور علاقائی حالات، رسم و رواج اور تہذیبی اور ثقافتی فرق کی بنیاد پر قوانین میں فرق بلکہ تضاد تک ہے، حتیٰ کہ امریکا کی نصف ریاستوں میں سزاے موت رائج ہے، جب کہ بقیہ نصف میں اسے ختم کردیا گیاہے۔
یہ تو صرف قانون میں تنوع کا مسئلہ ہے۔ چین نے تو ایک ملک اور دو نظاموں کی کامیاب مثال قائم کی ہے اور چین اور ہانگ کانگ میں دو طرح کے نظام اور دو قسم کے قوانین لاگو ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان اعتراضات کی وجہ قانون میں تنوع نہیں، شریعت سے مخاصمت ہے۔ اگر ان حضرات کو ایک نظامِ قانون کی اتنی ہی فکر ہے تو اس پر غور کیوں نہ کیا جائے کہ پورے ملک میں شریعت کے قانون کو یکساں طور پر نافذ کیا جائے۔ آخر دستور تو پاکستان کو اسلامی ری پبلک قرار دیتا ہے، اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیتا ہے اور دفعہ ۲۲۷ کے تحت پورے قانونی نظام کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کا تصور دیتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کے ۴ ہزار سے زیادہ قوانین کا جائزہ لے کر ان کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کی سفارشات مرتب کر لی ہیں۔ پھر انتظار کس بات کا ہے؟ ہم بجاطور پر توقع رکھتے ہیں کہ عوام کے جذبات اور مطالبات کا احترام کرتے ہوئے پورے ملک میں شریعت کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ سوات میں اس نظام کی کامیابی سے پورے ملک کو اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کا موقع اور تحریک ملے گی۔
تحفظات کا تیسرا حصہ ان امور سے متعلق ہے جو اس قانون کے کامیابی سے نافذ ہونے کی راہ کی مشکلات کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں:
پہلی چیز کا تعلق نیت اور ارادے سے ہے، بلاشبہہ ان علاقوں کے عوام دل کی گہرائیوں سے اس نظام کو چاہتے ہیں اور اس سے بڑی توقعات رکھتے ہیں لیکن ہمیں بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذمہ دار ترین افراد نہ صرف بددلی کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ بددیانتی کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ شریعت کے پہلو کو یا تو دبایا جاتا ہے یا اسے کم کر کے بتایا جا رہا ہے، جب کہ وہاں کے عوام کی نگاہ میں اگر کسی چیز میں کشش ہے تو وہ شریعت میں ہے۔ جناب زرداری صاحب اور جناب اسفندیارولی علی الاعلان بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہ نظام عدل سے متعلق ہے حالانکہ اس قانون کی امتیازی حیثیت ہی یہ ہے کہ یہ شریعت پر مبنی نظامِ عدل کا قیام چاہتا ہے، محض عدل کا نہیں۔ پھر امن کے قیام کے پہلو کو شرط بتایا جا رہا ہے، جب کہ اس قانون کی روح کے مطابق اس کے نفاذ کا فطری نتیجہ ’امن‘ ہوگا۔ اس لیے یہ مشروط نہیں ہے۔
دوسری چیز بیرونی دبائو اور سازشیں ہیں جو پورے زور و شور سے کارفرما ہیں۔ یہ ہمارے معاملات میں مداخلت ہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ جس طرح ہماری حکومتیں سیاسی اور معاشی معاملات میں بیرونی دبائو کا شکار ہوکر بڑی طاقتوں کی بلیک میلنگ کے آگے سپر ڈال رہی ہیں، اسی طرح شریعت کے معاملے میں بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ہمیں خطرہ ہے کہ اگر یہ ریشہ دوانیاں راہ پاتی ہیں تو اس قانون پر عمل درآمد متاثر ہوگا جس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی دبائو میں نہ آئے اور اس قانون اور اس کے پیچھے کیے جانے والے معاہدے پر دیانت اور خلوص سے عمل کرے۔
اگر قومی اسمبلی نے اس قانون کی متفقہ طور پر سفارش کی ہے تو حکومت کو پارلیمنٹ کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں جو ڈراما رچایا ہے وہ ناقابلِ فہم ہے۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی نے بھی اس مسئلے پر اپنی متفقہ راے دی ہے اور ایم کیو ایم کے نمایندے نے ان متفقہ سفارشات کی تائید کی ہے۔ ہم اس سلسلے میں کمیٹی کی سفارشات کو پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام ان لوگوں کی سیاسی بازی گری کو بے حجاب دیکھ سکیں۔ کمیٹی نے پارلیمنٹ کی قرارداد کے نکتہ نمبر ۱۱ پر اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا ہے:
حکومت کو سوات میں امن حاصل کرنے کے لیے این ڈبلیو ایف پی (پختون خواہ) کی صوبائی حکومت کے ذریعے درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
ا- فوج کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے تبدیل کردیا جائے اور جدید ترین رسل و رسائل اور دیگر آلات کی ضروریات پوری کر کے ان کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔
ج- حالیہ امن معاہدے کے مطابق وفاقی حکومت/ صدر، دونوں کو مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ عدل ضوابط کو اپنے مفہوم اور روح کے مطابق فی الفور منظوری دینا اور نافذ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد حکومت کو سوات میں دیرپا امن حاصل کرنے کے لیے پیش قدمی کرتے ہوئے ایک مکالمے پر عمل شروع کرنا چاہیے۔
سیاسی قیادت کے صحیح رویے اور مخلصانہ تعاون اور بیرونی دبائو اور مخصوص مفادات کے لیے کام کرنے والے عناصر کی کارگزاریوں کے مقابلے کے ساتھ جو کام حکومت اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو کرنا چاہیے وہ ایسے قاضی حضرات کا تقرر ہے جو علم و تقویٰ کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں اور ہرقسم کے دبائو کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس قانون کی کامیابی کا انحصار اس قانون پر عمل کرنے اور کرانے والے افراد کے خلوص، دیانت اور صلاحیت پر ہوگا اور یہ بڑا کٹھن اور فیصلہ کن امر ہے۔ اس لیے جزوی اور غیرمتعلقہ بحثوں اور کارروائیوں سے بچتے ہوئے اس نظام کی صحیح بنیادوں پر تشکیل اور اس کی تقویت کو اولین اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری نگاہ میں ایک مبہم امر اس نظام کی اپیل کی اعلیٰ عدالتیں ہیں۔ جس شکل میں دارالقضا اور دارالدار القضا کو اس قانون میں رکھا گیا ہے وہ نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے لیکن اس کے لیے دستور کے تقاضوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ ۱۹۹۹ء کے قانون میں وفاقی شرعی عدالت کو اپیل سننے کا اختیار دینے کی تجویز تھی جسے اب تبدیل کردیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اختیارات ان نئی عدالتوں کو دینے کے لیے کیا اس قانون سے زیادہ کسی مزید دفعہ کی ضرورت ہے۔ کیا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے قوانین میں اس کے لیے ترامیم کرنا ہوں گی یا اس کے لیے دستوری ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
اس پہلو پر ہمدردانہ غور کرنے اور راہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ پھر ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ شریعت کے نفاذ کا عمل صرف قضا کے ذریعے مکمل نہیں ہوسکتا۔ قضا کا حصہ بڑا اہم ہے لیکن وہ ایک حصہ ہے، پورا عمل نہیں۔اس کے لیے تعلیم، ذرائع ابلاغ، حکومت، انتظامیہ، سیاسی جماعتوں اور دینی قوتوں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور سب مل کر ہی شریعت کے قیام کی راہ استوار کرسکتے ہیں۔ شریعت کا تعلق نظامِ عقائد و عبادات سے ہی نہیں، زندگی کے ہر شعبے سے ہے۔
شریعت کا ایک بڑا حصہ خود عمل کرنے کے لیے ہے۔دوسرے حصے کے نفاذ کا انحصار خاندان، تعلیم اور معاشرے پر ہے۔ ایک تیسرے حصے کا تعلق حکومت کی پالیسیوں سے ہے، اور پھر ایک اہم حصے کا تعلق قانون اور نظامِ قضا سے ہے۔ شریعت کا نفاذ ان سب پہلوؤں پر بہ یک وقت کام اور ان کے درمیان ربط اور ہم آہنگی سے ممکن ہے۔ ان میں سے کوئی بھی تنہا مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا۔ اس کے لیے کلّی اور ضمنیات پر مبنی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ہماری خواہش اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی دعا ہے کہ حکومت، عوام، انتظامیہ اور سیاسی اور دینی قوتیں سب شریعت کے نفاذ کی کوشش میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور اس تجربے کی کامیابی کے لیے دل و جان سے مصروف ہوجائیں۔ پھر اللہ کی تائید بھی حاصل ہوگی اور تمام مساعی میں برکت کی کیفیت بھی رونما ہوگی۔
ذاتی اور گروہی مفادات اور سیاسی اور جماعتی مصالح سے بالا ہوکر اس قانون اور اس پروگرام کو کامیاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوام کی شرکت اورتعاون بھی ازبس ضروری ہے۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد ہم سب ایک بہت بڑے امتحان میں داخل ہوگئے ہیں اور اگر ہم اِس امتحان میں پورے اُترتے ہیں تو دنیا میں بھی اس کے دُور رس اثرات ہوں گے اور آخرت میں بھی نجات ہمارا مقدر بنے گی۔ کامیابی کے حصول کے سوا ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں۔ اس لیے ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے پر الزامات کی لعنت سے نجات پاکر پُرخلوص جدوجہد اور افہام و تفہیم کے ذریعے شریعت کے سایے میں حقیقی عدل و انصاف کے قیام کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
مارچ کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء وہ تاریخی دن ہے جب برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے قرارداد پاکستان کی شکل میں اپنی سیاسی منزل کا تعین کیا اور قائداعظمؒ کی قیادت میں ۷سالہ جدوجہد کے نتیجے میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی آزاد ریاست وجود میں آئی۔ دستور ساز اسمبلی نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد کی شکل میں اس ریاست کا نظریاتی اور سیاسی کردارطے کردیا جو اَب پاکستان کے دستور کا صرف دیباچہ ہی نہیں بلکہ اس کی ایک قابلِ عمل (operational ) شق (دفعہ ۲-الف) کی حیثیت رکھتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوراً ہی بعد مفاد پرست طبقات نے وطنِ عزیز کو ایک ایسی جاں گسل کش مکش میں مبتلا کردیا جس کے نتیجے میں پہلے دستور کے بننے میں ۹ سال لگ گئے۔ پھر دستوروں کے بننے اور بگڑنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس کی گرفت سے ملک آج تک نہیں نکل سکا۔ ۱۹۵۴ء میں ایک سول سرونٹ غلام محمد نے فوج کے سربراہ کی مدد سے ملک کی جمہوری بساط کو لپیٹ دیا اور اس وقت کی عدالتِ عظمیٰ کے ذریعے، جس کے سربراہ جسٹس محمدمنیر تھے، جمہوری عمل کو درہم برہم کر کے اسے حکمرانوں کے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا راستہ کھول دیا اور ملک کو قانون کی حکمرانی سے محروم کردیا۔
۱۹۵۳ء میں منتخب وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو معزول کیا گیا، ۱۹۵۴ء میں دستور ساز اسمبلی ہی کو ختم کردیا گیا، پھر ۱۹۵۶ء کے دستور کو اکتوبر ۱۹۵۸ء میں پارہ پارہ کردیا گیا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ۱۹۵۴ء سے لے کر نومبر ۲۰۰۷ء تک جاری رہا۔ سیاسی شاطر، فوجی طالع آزما اور نظریۂ ضرورت کے علَم بردار ججوں کے ایک ٹولے کی ملی بھگت سے بار بار دستوری نظام کی بساط کو لپیٹنے اور اداروں کی تباہی کا خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ۱۹۶۹ء-۱۹۶۸ء اور ۱۹۷۷ء میں آمرانہ نظام کے خلاف عوامی تحریکات چلیں لیکن وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکیں اور جرنیلوں اور ججوں کے گٹھ جوڑ سے ہربار جمہوری عمل کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ اگر کچھ ججوں نے جرنیلوں کے نافذ کردہ پی سی او (Provisional Constitution Order) سے اختلاف کیا تو انھیں زبردستی عدالتوں سے فارغ کردیا گیا اور کچھ دوسرے ججوں نے فوجی آمروں کے اقدام کو نہ صرف سندِجواز عطا کی بلکہ ان کو دستور میں من مانی ترامیم کرنے کے حق تک سے سرفراز فرما دیا۔
۶۰ سال پر پھیلا ہوا یہ خطرناک کھیل ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو ایک نئے دور میں داخل ہوا جب اس وقت کے چیف جسٹس نے فوجی حکمران کے عدلیہ پر شب خون مارنے کے اقدام کو چیلنج کیا اور وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کی معتدبہ تعداد نے ان کا ساتھ دیا اور ایک ایسی اصولی عوامی جمہوری تحریک وجود میں آئی جس نے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور دستور کی بالادستی کو اپنا ہدف بنایا۔ ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہونے والی یہ تحریک دو سال کی جاں گسل کش مکش کے بعد ۱۶مارچ ۲۰۰۹ء کو کامیابی کی پہلی منزل سے ہم کنار ہوئی اور اس اعتبار سے مارچ کی ۱۶تاریخ، ملک کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تحریک اور اس کی اولیں کامیابی کی اصل حقیقت اور اہمیت کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کے فروغ اور پاکستان کے حقیقی تصور کے حصول کا انحصار، اس تحریک کے اگلے مراحل کی کامیابی پر ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ نظام کے خلاف عوامی جذبات کا لاوا تو اُسی وقت سے پک رہا تھا جب اس نے قوم سے وعدے کے باوجود، صریح وعدہ شکنی کرتے ہوئے یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو فوجی عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا اور جو جمہوری عمل ۲۰۰۲ء کے انتخابات سے شروع ہوا تھا، وہ یک دم پٹڑی سے اُتر گیا۔ چونکہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو عوام کے جذبات و احساسات کے خلاف نائن الیون کے بعد امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیا تھا اسی لیے اسے امریکا اور مغربی اقوام کی مکمل تائید حاصل رہی اور امریکا، فوجی حکمران اور اس کے ساتھیوں کی ملی بھگت سے ملک میں جمہوری عمل کو ناکام کردیا گیا۔ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ کو موم کی ناک بنا دیا تھا اور اپنے حسبِ منشا جدھر چاہتا تھا، اسے موڑ دیتا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے سپریم کورٹ اور اس وقت کے چیف جسٹس کو، جو ماضی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دے سکے تھے، یہ توفیق بخشی کہ انھوں نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے آمرِوقت کے اقدامات پر گرفت شروع کی۔ اسٹیل مِل کی نج کاری اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عدالت کی کوششوں نے فوجی آمر کو زچ کر دیا اور اس نے ۹ مارچ کو چیف جسٹس کی معزولی کی شکل میں نظامِ عدل پر ایک کاری ضرب لگائی۔ اسے یقین تھا کہ اس کے اِس اقدام سے سرتابی کی جرأت کوئی بھی نہیں کرسکے گا لیکن چیف جسٹس نے طاقت کے نشے میں دھت جرنیل کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور پوری وکلا برادری اور عوامی قوتوں نے اس کا ساتھ دیا۔ وکلا کی تحریک نے جلد ایک حقیقی اور ملک گیر عوامی تحریک کی شکل اختیار کر کے حکمرانوں کے استبدادی ہتھکنڈوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔
جماعت اسلامی نے ۱۲ مارچ ۲۰۰۷ء کو اسلام آباد میں کُل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا اور جنرل پرویز مشرف کی مٹھی میں بند پارٹیوں کو چھوڑ کر سب سیاسی اور دینی قوتوں کو جمع کرکے انھیں وکلا کی تحریک میں شرکت کی دعوت دی۔ معاشرے کی ان تین قوتوں___ وکلا برادری ، سول سوسائٹی اور سیاسی و دینی جماعتوں کے اشتراک سے، وکلا کی قیادت میں برپا ہونے والی اس تحریک کے نتیجے میں ۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کو عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے ذریعے چیف جسٹس بحال ہوئے مگر ان کی بحالی حکمرانوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگی۔ پرویز مشرف نے جب یہ محسوس کرلیا کہ عدالت اس کے فوجی وردی میں دوبارہ صدارتی انتخاب کا ڈھونگ رچانے کی راہ میں حائل ہوگی تو اس نے ایک آخری وار ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو کیا اور ایمرجنسی کے نام پر ایک نیا مارشل لا مسلط کردیا۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعلیٰ عدالتوں کے ۶۰ ججوں نے اس اقدام کو جائز تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کے ۱۸ میں سے ۱۳ ججوں نے حلف لینے سے انکار کردیا اور ۷ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے ۳ نومبر کے اقدام کو خلافِ دستور قرار دے کر اس کو قانونی جواز سے محروم کر دیا۔ نیز عدلیہ کے تمام ججوں کو ہدایت کی کہ اس غیرقانونی اقدام کو تسلیم نہ کریں۔ اس فیصلے پر دستور کی دفعہ ۱۹۰ کے تحت تمام سرکاری اداروں اور عمال کو بھی یہ ہدایت دی گئی کہ وہ اس پر عمل درآمد نہ کریں اور سپریم کورٹ کے حکم کی اطاعت کریں۔
یہ ایک ایسا تاریخی فیصلہ تھا جس کی کوئی نظیر اس سے پہلے موجود نہ تھی۔ جرنیلی صدر نے طیش میں آکر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ۶۰ ججوں کو معزول کر دیا اور اپنی پسند کے نئے ججوں کا تقرر کر کے ان سے اپنے غیرقانونی اقدام کے لیے جواز حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا جسے قوم نے ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ اس طرح اصولی، نظریاتی اور اخلاقی بنیادوں پر استوار ایک عوامی تحریک نے جنم لیا۔ جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس اصولی موقف کی بنیاد پر فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جب کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے بھی جس مسئلے کو انتخابات کے لیے مرکزی سیاسی مسئلہ بنایا وہ عدلیہ اور دستور کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی تھا۔
عوام نے ۱۸ فروری کے انتخابات میں ان جماعتوں کو رد کر دیا جو پرویز مشرف کی ہم نوا تھیں اور اسے وردی سمیت ایک بار نہیں دس بار تک منتخب کرنے کے لیے میدان میں اُتری تھیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بڑی پارٹیوں کی حیثیت سے کامیاب ہوئیں اور دونوں نے مل کر اس مشترک ایجنڈے پر عمل کرنے کا عہد کیا جسے عوام نے منظور کیا تھا۔ مگر جلد ہی پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس عہدوپیمان سے انحراف شروع کر دیا اور بالآخر بے وفائی کی راہ اختیار کرلی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے تقریباً ہر میدان میں عملاً جنرل مشرف ہی کی پالیسیوں کو جاری رکھا بلکہ زرداری صاحب نے تو کھل کر عدلیہ کی بحالی کے وعدے سے انحراف کیا اور وکیلوں کی تحریک کو سبوتاژ کرنے، ججوں کو تقسیم کرنے اور جن کو توڑنے میں کامیاب ہوئے ان کو نئی تقرری (re-instate) کے نام پر پی سی او عدلیہ کا حصہ بنانے کا وطیرہ اپنا لیا۔ ۶۰ میں سے ۴۵ ججوں کو نئی تقرری کے ذریعے رام کرلیا گیا۔ معزول ججوں میں سے ۴ ریٹائر ہوگئے۔ تاہم ۱۱ ججوں نے بشمول چیف جسٹس قابلِ تحسین استقامت سے کام لیا اور آخری وقت تک اپنے اصولی اور اخلاقی موقف پر ڈٹے رہے جن کی پشت پر (پیپلزپارٹی کے ہم نوا وکیلوں کی ایک تعداد کے سوا) وکلا برادری کی اکثریت، سول سوسائٹی کے تمام عناصر اور حزبِ اختلاف کی تمام ہی جماعتیں خصوصیت سے جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) اور اے پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں سرگرم رہیں۔ بالآخر یہ جدوجہد ۱۲ مارچ ۲۰۰۹ء سے لانگ مارچ اور ۱۶مارچ کے دھرنے کے لیے ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی۔
۱۶ مارچ کی صبح اس طرح طلوع ہوئی کہ وزیراعظم کو ججوںکی بحالی کا اعلان کرنا پڑا، دفعہ ۱۴۴ واپس لی گئی، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے احکام جاری کیے گئے اور شریف برادران کی نااہلی کے عدالتی فیصلے پر حکومت کی طرف سے نظرثانی کی درخواست کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح عدلیہ کی بحالی کی تاریخی جدوجہد اپنی پہلی کامیابی سے ہم کنار ہوئی، الحمدللّٰہ علٰی ذٰلِکَ۔
اب اس امر کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کی نوعیت، اس کے حقیقی اہداف اور اس کی قوت کے اصل عوامل کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے اور جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کے پورے اعتراف کے ساتھ ان تقاضوں پر توجہ مرکوز کرائی جائے جن کے حصول کی جدوجہد جاری رہنا چاہیے۔ جس انقلابی منزل کی طرف یہ پہلا قیمتی قدم بڑھایا گیا ہے، اس سمت میں اس قوم کا سفر جاری رہے تاکہ یہ جدوجہد اپنے تمام اہداف کو حاصل کرسکے اور مطلوبہ نتائج رونما ہوں۔
سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تحریک کسی فرد کی بحالی، کچھ لوگوں کی ملازمت کو پکا کرنے، یا کچھ وقتی مفادات کے حصول کی جدوجہد نہیں تھی بلکہ یہ ایک اصولی تحریک تھی جو واضح اخلاقی اہداف کے حصول کے لیے برپاکی گئی تھی۔ یہ جدوجہد ایک اصولی جدوجہد تھی اور اس کی طاقت کا راز اس کے نظریاتی اور اخلاقی مقاصد میں مضمر ہے۔ اس تحریک میں ملک کے ہر طبقے اور ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی اوریہ پوری قوم کو متحرک کرنے، ایک اصول کی خاطر منظم کرنے اور مشترک اہداف کے لیے اجتماعی جدوجہد میں مربوط کرنے کا ذریعہ بنی۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ ظلم کے آگے سپر ڈالنا، جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے اور ظلم اور استبداد کی مزاحمت ایک اخلاقی قدر ہی نہیں، اجتماعی زندگی کو ظلم اور ناانصافی سے پاک کرنے کا واحد راستہ ہے۔ بلاشبہہ چیف جسٹس افتخار چودھری اور عدلیہ کی بحالی اس تحریک کا عنوان تھے لیکن اس کی حقیقت اور اس کی قوت اس کا اصولی موقف تھا جس نے قوم کو متحد اور متحرک کیا۔ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اسی اصولی موقف کی بنا پر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس منزل کی طرف صرف پہلے قدم کی ہے۔ ہماری جدوجہد ختم نہیں ہوئی، ایک دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود چیف جسٹس کے الفاظ میں اس مقصد اور منزل کا اظہار اور تجدید کی جائے۔ موصوف نے ۳۰ جنوری ۲۰۰۸ء کو دنیا کے اہم قائدین سے خطاب کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں اس جدوجہد کے مرکزی نکتے اور اصل ہدف کو اس طرح پیش کیا ہے:
میں پاکستان کا دستوری چیف جسٹس ہوں اور فیصلہ دے چکا ہوں کہ مشرف کے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدامات غیردستوری تھے۔
اور پھر اصل ہدف کو صاف الفاظ میں اس طرح بیان کیا:
آزاد عدلیہ کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں ہوسکتی، اور جب تک ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو کالعدم نہ کیا جائے، پاکستان میں کوئی آزاد جج نہیں ہوسکتا۔ کچھ شکست خوردہ لوگوں کی مرضی کچھ بھی ہو، بہادر وکلا اور پاکستان کی سول سوسائٹی کی جدوجہد نتیجہ خیز ہوگی، وہ جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔
اس خط کے ۷ مہینے کے بعد ۳ نومبر ۲۰۰۸ء کو راولپنڈی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اعادہ کیا کہ:
سپریم کورٹ کے ۷ رکنی بنچ کا ۳ نومبر کا یہ فیصلہ کہ جنرل مشرف کے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدامات غیردستوری اور غیرقانونی ہیں، اب بھی قائم ہے۔
اس خطاب میں چیف جسٹس نے کھل کر کہا کہ اس وقت عدالت عالیہ پر قابض ’چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر‘ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ:
ایک خودساختہ فیصلہ کرنے والا شخص ہے جس نے مشرف کے ۳ نومبر کے ہنگامی حالت کے اعلان اور عارضی دستوری بل (پی سی او) کو جائز قرار دیا۔
واضح رہے کہ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو سپریم کورٹ کے ۷ رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے اس اقدام کو خلافِ آئین قرار دیا تھا اور عدالت نے آرمی چیف ’کورکمانڈر‘ تمام فوجی اور سول افسران کو ہدایت دی تھی کہ ۳نومبر کے خلاف آئین احکام کی پابندی نہ کریں، اصل دستور پر عمل کریںاور پروویژنل دستور کی پروا نہ کریں نیز کوئی جج اس ناجائز فرمان کے تحت حلف نہ لے۔
عدالت عالیہ کے ججوں کی بحالی کا مسئلہ عدالت کی آزادی ، دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام کی تنسیخ اور اس کو مسلط کرنے والوں پر گرفت اور دستور اور قانون کے مطابق ان کے اس جرم کی قرارواقعی سزا پر محیط ہے۔
عدلیہ کی آزادی اور بحالی کی تحریک اپنی اس اصولی اور اخلاقی نوعیت کے ساتھ ساتھ کئی اور پہلوئوں سے بھی اہم ہے۔ ہم ان میں سے چند پہلوئوں کی طرف صرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱- یہ صحیح معنی میں ایک عوامی تحریک تھی۔ اس کی قیادت وکلا برادری کر رہی تھی۔ اس کی تائید سول سوسائٹی کے تمام ہی اداروں نے کی۔ اس کی تقویت کا باعث سیاسی کارکنان اور ان کی قیادت کی شرکت تھی، لیکن اس کا سب سے نمایاں پہلو عوام کی بیداری اور علاقے، زبان اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر عوام کے سب ہی طبقات کی والہانہ شرکت ہے۔ اس تحریک نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی کہ محض مفادات کے حصول کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک اصولی اور اخلاقی مقصد کے حصول کے لیے بھی عوامی تحریک برپا کی جاسکتی ہے اور وہ عوام کی قوت سے اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے۔
۲- دوسری خصوصیت اس تحریک کا تسلسل اور اس میں غیرمعمولی جان اور توانائی ہونے کی ہے۔ سیاسی تحریکیں چشم زدن میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرلیتیں بلکہ اس کے لیے صبر اور استقامت سے جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ دبائو کا مقابلہ کیا جاتا ہے، اور ہمت نہیں ہاری جاتی۔ اس تحریک میں وکلابرادری، تاجروں، طالب علموں، سیاسی کارکنوں کا کردار قابلِ تعریف ہے۔ دو سال تک تحریک کو جاری و ساری رکھنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ حقوق کی جدوجہد اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب نظریاتی شعور کے ساتھ اَن تھک محنت اور استقامت سے جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔
۳- اس تحریک کا تیسرا پہلو اس کا ہر دور اور ہر حال میں، حتیٰ کہ ریاستی تشدد کے علی الرغم پُرامن رہنا ہے۔ جوش کے ساتھ ہوش بھی ضروری ہے اور ذرا سی غلطی پوری تحریک کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے۔
۴- تحریک میں نوجوانوں کی شرکت، نوجوان وکلا کی قربانیاں، اور اس کے ساتھ میڈیا کا بے مثال تعاون بھی اس کی کامیابی کا ایک اہم سبب ہے۔ سیاسی جماعتوں اور حکومت دونوں کو عوام اور میڈیا کی قوت کے صحیح ادراک کی ضرورت ہے۔
۵- اس تحریک کا ایک اور پہلو بڑا اہم ہے اور وہ یہ کہ آمریت کے جبر کے نظام میں جو خاموشی ہوتی ہے اور عوام میں جو بددلی اور مایوسی گھر کر لیتی ہے وہ عارضی اور پُرفریب ہوتی ہے۔ ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے پہلے کسے توقع تھی کہ مزاحمت کی ایک چنگاری سے آمریت کے استبدادی نظام کو خاکستر بنانے والی تحریک جنم لے سکتی ہے۔ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دینے والے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ایک اصول کی خاطر عوام اس طرح بیدار اور متحرک ہوجائیں گے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اسی مایوس قوم کے بطن سے ایک ملک گیر تحریک جنم لیتی ہے اور آمریت کی چولیں ہلادیتی ہے۔ مشرف کا سورج غروب ہوجاتا ہے اور زرداری بھی اپنے سارے کرّوفر اور حیلوں اور سازشوں کے باوجود گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آمریت اور مایوسیوں کی تاریکیوں میں ایسی تحریک کا رونما ہونا اور کامیاب ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ ع
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو!
اس تحریک کو ناکام کرنے اور اس کو کچل دینے کے لیے جو ہتھکنڈے پرویز مشرف کے آمرانہ نظام اور زرداری صاحب کے جمہوری تماشے نے کیے ان کا ذکر اور بالآخر ان کی ناکامی اور بے مایگی کا اظہارو اعتراف بھی ضروری ہے۔ مشرف کے اقتدار کا زوال ۹ مارچ ۲۰۰۷ء سے شروع ہوگیا اور ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی کی خونیں ہولی اور وکلا، عوام، سیاسی کارکنوں اور خود میڈیا کو جبرواستبداد کے ہتھکنڈوں سے زیر کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود ۱۸ فروری کو عوام نے پوری قوت سے آمرانہ نظام کو رد کردیا اور زرداری صاحب کی ساری وعدہ خلافیوں اور کہہ مکرنیوں، پنجاب کی عوامی مینڈیٹ کے بل پر وجود میں آنے والی حکومت کی معطلی، گورنرراج، قیدوبند، تشدد اور جبر، راستوں کی بندش اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانون کی حکمرانی کی تحریک چلانے والوں پر لاٹھی چارج اور گیس کے شیلوں کی بارش کے لیے استعمال کرنے کے علی الرغم اور ۱۵ مارچ کی دوپہر تک مطالبات تسلیم کرنے سے انکار اور قوت اور جبر سے تحریک کو ختم کردینے کے دعووں کے باوجود تحریک کے مرکزی مطالبے کو تسلیم کرلینا، جہاں عوامی تحریک کی قوت کا ثبوت ہے،وہیں جمہوریت کے دعوے داروںکے اصل چہرے سے نقاب اُٹھانے کا بھی ذریعہ ہے۔
جو زبان زرداری صاحب نے استعمال کی، ان کی وزارتِ داخلہ کے مشیر نے جس طرح بغاوت کا ڈھول پیٹا اور جس طرح حاکمانہ قوت سے تحریک کو دبانے کے لیے مذموم ہتھکنڈوں کا استعمال کیا، اس نے پیپلزپارٹی کے جمہوری دعوئوں کی قلعی کھول دی۔ بلاشبہہ پیپلزپارٹی میں ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے اس پالیسی کو ناپسند کیا، کچھ نے استعفے تک دیے اور بہت سوں نے عوامی تحریک کا ساتھ دیا لیکن ایک بڑی تعداد نے زرداری صاحب کے مقاصد کی خدمت کر کے اپنا اصل چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کردیا اور اس کی قیمت انھیں آیندہ ادا کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نے آخری وقت میں حالات کو سنبھالنے اور زرداری صاحب سے کچھ فاصلہ اختیار کرنے کا رویہ اختیار کیا اور مسئلے کا کچھ حل نکالنے کی کوشش کی، تاہم بحیثیت مجموعی پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت نے قوم کو بری طرح مایوس کیا اور اس تحریک کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ع
لیکن اتنا تو ہوا، کچھ لوگ پہچانے گئے
اس سلسلے میں پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ ایم کیو ایم اور خود اے این پی اور جے یو آئی کی بھی جو تصویر قوم کے سامنے آئی ہے وہ کسی حیثیت سے بھی قابلِ رشک نہیں۔ رہے مشرف اور زرداری صاحب تو ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ؎
خودی کا نشہ چڑھا ، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ ، مگر بنا نہ گیا
تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس سمیت ۱۱ ججوں کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میں بحالی ایک اہم کامیابی ہے اور اسے صحیح سمت میں ایک مناسب اور خوش آیند قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ بلاشبہہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ایک بہت بڑی آزمایش ہے کہ عوام نے جن مقاصد کے لیے تحریک چلائی، قربانیاں دیں اور نتیجتاً اُن کی جو توقعات عدلیہ سے وابستہ ہیں، وہ کہاں تک پوری ہوتی ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے جو انتظامی حکم نامہ جاری کیا ہے وہ کئی لحاظ سے بڑا اہم ہے، جب کہ کچھ دیگر حیثیتوں سے مبہم اور غیرتسلی بخش بھی ہے۔ جس عجلت میں وکلا کی قیادت اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے مارچ اور دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اعلان کا یہ حصہ اہم ہے:
جیساکہ وزیراعظم پاکستان نے ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء کو اعلان کیا کہ عدالتِ عظمیٰ اور مختلف عدالت ہاے عدلیہ کے معزول شدہ جج صاحبان بشمول مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری، معزول چیف جسٹس آف پاکستان کو اسی پوزیشن پر بحال کیا جائے گا جو کہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے پہلے انھیں حاصل تھی۔
لہٰذا صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جسٹس افتخارمحمد چودھری، معزول چیف جسٹس آف پاکستان کو ان کو اسی پوزیشن پر بحال کردیا ہے جس پر وہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے پہلے تھے۔ مسٹر جسٹس افتخارمحمد چودھری، مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس آف پاکستان کی ۲۱ مارچ ۲۰۰۹ء کو ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۲ مارچ ۲۰۰۹ء سے چیف جسٹس آف پاکستان کا اختیار سنبھال لیں گے۔
ججوں کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن پر بحالی کے معنی یہ ہیں کہ ان کی ۳ نومبر کی معطلی ایک غلط اقدام تھا لیکن ۳ نومبر کے پرویز مشرف کے اعلان کی تنسیخ کا کوئی ذکر اس اعلامیے میں نہیں ہے۔ نیز دوسرے تمام ججوں کو فوری طور پر بحال کردیا گیا ہے لیکن چیف جسٹس افتخار چودھری کو جسٹس ڈوگر کی میعادِ ملازمت کے ختم ہونے کے بعد بحال کیا جا رہا ہے جس سے بجاطور پر یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈوگرصاحب کے چیف جسٹس ہونے کو جواز دیا جا رہا ہے حالانکہ ان کے چیف جسٹس ہونے کا پورا دور قانون کی نگاہ میں جائز نہیں۔ وہ بالفعل (de facto) تو چیف جسٹس تھے لیکن ان کے دور کو de jure یعنی قانون کے تحت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وہ ابہام ہے جس کا دُور کیا جانا ضروری تھا اور ہے۔ اب اس کے دو راستے ہیں اور ان دونوں پر فی الفور عمل ہونا چاہیے۔ وکلا برادری اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ کمر کھول کر آرام کا تصور بھی نہ کریں بلکہ تحریک کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچانے کے لیے نئے عزم سے سرگرم ہوجائیں۔
ایک کام اب پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے کہ وہ ۳ نومبر کے اقدام کے بارے میں کھل کر یہ اعلان کرے کہ وہ اقدام خلافِ آئین تھا جسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر نظریۂ ضرورت کی عفریت سے نجات ناممکن ہے۔ جس طرح پرویز مشرف نے دستور کی پابندی کا حلف لینے کے باوجود، چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے پی سی او نافذ کیا، اگر اس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند نہیں کیا جاتا تو خدانخواستہ کل کوئی دوسرا طالع آزما بھی یہ کھیل کھیل سکتا ہے اور اسے بھی تحفظ کی توقع ہوسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک ۳نومبر کے اقدام کو جائز (validate) قرار نہیں دیا اور AAA۲۷۰ کا دستور میں اندراج غیرقانونی ہے لیکن چونکہ ڈوگر عدالت نے اسے تحفظ دینے کی جسارت کی ہے اس لیے اس دروازے کو بند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ:
۱- ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو صاف لفظوں میں خلافِ آئین اقدام قرار دے کر منسوخ کیا جائے۔
۲- اس اقدام کا ارتکاب کرنے والے شخص پر قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور اسے دستور کی دفعہ ۶ کے تحت سزا دی جائے۔
۳- اس کے ساتھ تعاون کرنے والے چیدہ چیدہ افراد کو ان کے جرم کی مناسبت سے سزا دی جائے یا مذمت کی جائے۔
۴- جسٹس حمود الرحمن کے جنرل یحییٰ کے خلاف تاریخی فیصلے کی روشنی میں جن اقدامات کو past and closed transaction(قصۂ ماضی)قرار دینا ضروری ہے، ان کو قبول کرلیا جائے اور جن کی تنسیخ ضروری ہے ان کو منسوخ کیا جائے۔ اس طرح ان تمام دستوری ترامیم پر نظرثانی کر لی جائے جو ایک آمر نے دستور اور ملک پر مسلط کی تھیں۔ مشرف نے بی بی سی کو ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے احکامات کو ماوراے آئین (beyond constitution) تسلیم کر کے ان کے غیرقانونی ہونے کا اعتراف بھی کرلیا تھا۔
نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیے بغیر اس ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ کی قانون کے سامنے جواب دہی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
دوسرا کام خود چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کے کرنے کا ہے۔ ۳نومبر کے اقدام کے نتیجے میں اعلیٰ عدالتوں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے اور ان میں پی سی او ججوں اور پھر زرداری صاحب کے جیالوں کی غیرقانونی تقرری ہوئی ہے، اولین موقع پر ان سب کا ، ۱۹۹۶ء کے الجہاد ٹرسٹ کے کیس میں سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کی روشنی میں جسے Judges Case کہا جاتا ہے، ازسرِنو بے لاگ جائزہ لیا جائے۔ جو حضرات اہلیت، دیانت اور حسنِ کردار کے معیار پر پورے اُترتے ہوں ان کا ضابطے کے مطابق تقرر کیا جائے اور باقی سب کو فارغ کردیا جائے۔ آیندہ دستور اور ججز کیس میں طے شدہ ضابطے کے تحت ججوں کا تقرر کیا جائے۔ نیز میثاقِ جمہوریت میں جو نیا طریقہ تجویز کیا گیا ہے، اسے سنجیدہ مشورے کے بعد دستوری ترمیم کے ذریعے مزید بہتر بناکر اختیار کیا جائے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے اور عدلیہ میں دراندازی کا دروازہ بند ہوجائے۔
یہ دونوں اصلاحات عدلیہ کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میں بحالی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہیں اور ان پر فوری عمل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مؤثر عوامی اور پارلیمانی دبائو کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہم تین امور کی طرف مزید توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ پہلے کا تعلق تحریک کے ذمہ داروں سے ہے کہ جہاں عوام نے اس تحریک میں اپنا حق ادا کر دیا وہاں تحریک کے ذمہ داروں نے اپنے فرض کی ادایگی میں بڑی کوتاہیاں کی ہیں اور ان کا احتساب اور آیندہ کے لیے اصلاح ضروری ہے۔
پہلی چیز تحریک کے اہداف کے واضح تعین اور تمام اہداف کے حصول کو مساوی اہمیت دینے کے بارے میں ہے۔ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی بحالی مترادف نہیں۔ عدلیہ کی آزادی اس سے بھی وسیع تصور ہے۔ ججوں کی ناجائز برطرفی کا عمل خود اپنی جگہ ایک ایسا مذموم کام ہے جس پر مؤثر گرفت کیے بغیر عدلیہ کی آزادی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ قیادت نے صرف ایک مطالبے کے جزوی حصول کے اعلان پر پوری تحریک کو ختم کردیا جسے دانش مندی نہیں کہا جاسکتا۔ تحریک ایک فیصلہ کن مرحلے میں تھی اور جس طرح چند ماہ قبل ریلی کے بعد دھرنے کی کال واپس لے لی گئی، اس طرح اس بار بھی پورے اہداف حاصل کیے بغیر عجلت میں تحریک کو ختم کردیا گیا جس میں بڑے خطرات مضمر ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں اور عوام نے قیادت کے فیصلے کو تسلیم کرلیا، جب کہ قیادت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکی اور اس کی ایک اہم وجہ تمام شرکا کی معتبر قیادتوں کا آپس میں مشورے کے ذریعے فیصلہ کرنے کے نظام کا نہ ہونا ہے۔ جتنی عظیم یہ تحریک تھی، قیادت نے اس کے مطابق فیصلہ کرنے اور مشاورت کے نظام کو مؤثر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے موجودہ مرحلے میں یہ صرف وکیلوں کی یا کسی ایک جماعت کی تحریک نہیں تھی۔ سب کا اپنا اپنا کردار تھا اور سب کی مشاورت ہی سے معاملات کو طے کیا جانا چاہیے تھا۔
دوسری بات سیاسی تحریک میں فوجی قیادت کے کردار سے متعلق ہے۔ زرداری صاحب نے فوج کو استعمال کرنے کے راستے (option) کو ٹٹولا اور شکر ہے کہ انھیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ لیکن آخری ایام میں چیف آف اسٹاف کی جو سرگرمیاں رہیں، ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ شکر ہے کہ انھوں نے نہ خود کسی سیاسی کردار کا راستہ اختیار کیا اور نہ کسی دوسرے کو اسے سیاسی طور پر استعمال کرنے کا موقع دیا لیکن ہمارا مطمحِ نظر یہ ہونا چاہیے کہ فوج اپنے کو صرف دفاعی ذمہ داریوں تک محدود رکھے۔ نہ تو سیاسی قیادت اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے اورنہ فوج خود ہی کسی سیاسی کردار میں ملوث ہو۔ امریکی جوائنٹ چیف ایڈمرل مولن نے ہمارے چیف آف اسٹاف سے جن دس ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے اور بین السطور جن راستوں (options) کی بات کی ہے وہ اصولی طور پر قابلِ قبول نہیں ہیں۔ سیاسی مسائل کا حل بھی سیاسی ہی ہونا چاہیے اور اس میں فیصلے کا مرکز و محور پارلیمنٹ اور سیاسی قوتوں کو ہونا چاہیے۔ کسی فریق کی طرف سے بھی فوج کو ملوث کرنا، دستور، قانون، سیاسی آداب اور اجتماعی اخلاقیات کے منافی ہے۔
تیسرا مسئلہ اس پورے معاملے میں بیرونی حکومتوں کے کردار سے متعلق ہے۔ ہماری سیاسی زندگی میں امریکی مداخلت کی تاریخ خاصی پرانی اور بڑی تشویش ناک ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ سے مصالحت کے سلسلے میں پرویز مشرف نے برطانیہ اور امریکا کو بلاواسطہ شریک کیا اور خود این آر او، اس بین الاقوامی کھیل کا ثمرہ ہے۔
زرداری صاحب نے اس کھیل کو اور آگے بڑھا دیا ہے اور حالیہ تحریک کے دوران جس طرح برطانوی وزیرخارجہ، امریکا کی سیکرٹری آف اسٹیٹ اور صدر کے نمایندے ہال بروک، ملک میں برطانوی، امریکی، سعودی اور امارات کے سفیروں کی بھاگ دوڑ دیکھنے میں آتی رہی وہ نہایت افسوس ناک ہے، بلکہ دی وال اسٹریٹ جنرل نے تو صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ:
غضب ناک احتجاج کرنے والوں کے مقابلے میں پولیس کی پسپائی اور امریکا کے دبائو کے بعد مسٹر زرداری نے تسلیم کیا۔ (۱۷ مارچ ۲۰۰۹ء)
یہ سب عوامل ہمارے داخلی معاملات میں بیرونی حکومتوں کے ملوث ہونے کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں وہ بڑی تشویش ناک ہے اور ہماری آزادی اور حاکمیت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ایک طرف امریکا قوم کے احتجاج کے باوجود پوری بے باکی سے ڈرون حملوں میں مصروف ہے اور دوسری طرف مصالحت کے نام پر سیاسی اور سفارتی ڈرون بھی داغے جارہے ہیں۔ قوم اس صورت حال میں دل گرفتہ اور اپنی آزادی اور حاکمیت کی بردگی (erosion) پر سخت تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ پہلے بیرونی اثرات بڑے معاملات تک محدود تھے مگر اب یہ معمولی امور میں بھی مداخلت کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور جس نئی غلامی کی طرف قوم کو دھکیلا جا رہا ہے، وہ ناقابلِ برداشت ہے۔
ہم مجبور ہیں کہ قوم کے اس اضطراب اور تشویش کا بھی اظہار کریں کہ کیا بات صرف ان اعلانات تک محدود ہے جو وزیراعظم نے کیے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی اور ڈیل بھی چھپی ہوئی ہے جو تحریک کے کچھ عناصر، حکومت اور بیرونی کھلاڑیوں کے درمیان ہوئی ہے اور ابھی تک پردہ خِفا میں ہے۔ اس تشویش کا اظہار مختلف حلقوں سے ہو رہا ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دی نیوز اخبار اپنے ادارتی کالموں میں اس خدشے کا اظہار یوں کرتا ہے:
ہمیں نہیں معلوم کہ بند دروازوں کے پیچھے اس پر کوئی ڈیل ہوئی ہے یا نہیں۔ ججوں کو بحال کرنے کے ڈرامائی اعلان کے پس منظر میں کسی راضی نامے کی تفصیلات ابھی تک معلوم نہیں ۔ (اداریہ، دی نیوز، ۱۷ مارچ ۲۰۰۷ء)
بلاشبہہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک اپنے مرکزی ہدف کی حد تک کامیاب رہی لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا: عدلیہ، پارلیمنٹ اور تحریک کے شرکا سب کا امتحان اب شروع ہوا ہے۔ سیاسی ہدف کے حصول کے لیے عوامی تحریک چلانا ضروری نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاسی اہداف معروف سیاسی عمل کے ذریعے حاصل نہیں ہوتے تو عوام کو مزاحمت اور عوامی دبائو کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ، پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حکومت، حزبِ اختلاف اور میڈیا کو اس طرف متوجہ کریں کہ جس تبدیلی کا آغاز ۱۶ مارچ کو حکومت کی طرف سے عوامی مطالبات کے احترام کے عندیے کے اظہار سے ہوا ہے، اسے اس کے فطری انجام تک پہنچانے کی جدوجہد کریں۔ اس وقت جو بڑے بڑے چیلنج قوم کے سامنے ہیں وہ سب مثبت ردعمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم چند نکات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں:
۱- ججوں کی بحالی ہو گئی لیکن ابھی عدلیہ کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء والی صورت میں مکمل بحالی اور ۳نومبر کے تباہ کن اقدام کی تنسیخ اور اس کے تحت رونما ہونے والے بگاڑ کی اصلاح ہونا باقی ہے۔ یہ کام، جیساکہ ہم نے اُوپر عرض کیا ہے، بلاتاخیر ہونا چاہیے لیکن عدلیہ اور وکلا کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عوام عدل کے قیام اور قانون کی بالادستی اور قانون کی نگاہ میں سب کی برابری کے نظام کے متمنی ہیں۔ اس ہدف کے حصول کے بغیر وہ اپنی تحریک کو کامیاب نہیں سمجھیں گے۔ اس کے لیے عدلیہ کی تنظیم نو کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ عدلیہ عدالتی فعالیت (judicial activism) اور عدالتی ضبط (judicial restraint) کی بحثوں میں پڑے بغیر کم از کم مندرجہ ذیل امور کا اہتمام کرے:
ا- عدلیہ سے بدعنوانی کا خاتمہ، خصوصیت سے نیچے کی سطح پر جہاں عوام کو نظامِ عدل کے کارپردازوں سے روزمرہ سابقہ پیش آتا ہے اور وہ بے انصافی، بدعنوانی، تاخیر اور تعویق کے چکروں سے بے زار ہیں۔ عوام کو انصاف چاہیے، انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے،انصاف تاخیر کے بغیر حاصل ہو اور عوام کی دہلیز پر آسکے۔ اس کے لیے اعلیٰ عدالتوں کو بڑا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
ب- عدالتیں دستور اور قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور سیاسی اور دوسرے اثرورسوخ کے سایے سے بھی اپنے کو محفوظ رکھیں۔ اس سلسلے میں جو بُری روایات گذشتہ ادوار میں راہ پا گئی ہیں ان کو شعوری جدوجہد کے ذریعے ختم کرنا اور انصاف فراہم کرنے والے افراد اور اداروں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔
ج- عدالت عالیہ کے ازخود (suo moto) اختیارات پر قینچی چلانے کی ہرکوشش کو سختی سے ناکام بنانا ہم سب کا فرض ہے لیکن عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دستور کی حفاظت اور عوام کے حقوق کی پاسداری کے لیے تو سرگرم ہو مگر دستور میں جو تقسیمِ اختیارات اور توازن (check & balance) کا نظام ہے اس کا احترام کرے۔
د- چند بنیادی ایشو ایسے ہیں جن کا اعلیٰ عدالتوں کو جرأت اور دیانت کے ساتھ سامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں پی سی او کا مسئلہ، این آر او کا جواز (legitimacy) اور اس کی معقولیت (propriety) اِسی طرح ہزاروں لاپتا افراد کی بازیافت کے مسائل کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور عدالت کی آزادی کا امتحان بھی ان امور پر اس کے کردار سے ہو گا۔
ھ- وکلا کی تحریک نے وکیلوں پر عوام کے اعتماد کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ لیکن اس کا تقاضا ہے کہ وکلا بھی محض پیسہ کمانے اور اپنے موکلوں کے استحصال کا راستہ اختیار نہ کریں بلکہ خدمت اور مظلوم کی مدد اور انصاف کے حصول میں ان کی معاونت کو اپنا شعار بنائیں اور جو کاروباری رنگ اس معزز پیشے نے اختیار کرلیا ہے، اس سے نجات کی فکر کریں۔ کسب حلال آپ کا حق ہے لیکن یہ بھی آپ کا فرض ہے کہ محنت اور دیانت سے اپنے موکل کی خدمت کریں اور اس کا حق ادا کریں۔ انصاف سے محرومی آج ایک عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور تھانے کچہری کے کلچر نے اس کی زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔ عدلیہ سے متعلق تمام افراد کا خواہ ان کا تعلق بار سے ہو یا بنچ سے، ایک ہی ہدف ہونا چاہیے اور وہ عوام کو پورا پورا انصاف فراہم کرانا ہے جو دیانت، حق و صداقت اور عام آدمی کی دسترس کے اندر حاصل ہوسکے۔ اس لیے انصاف، جلد انصاف اور سستا انصاف ہمارا شعار (موٹو) ہونا چاہیے۔
۲- دوسرا مسئلہ دستور کی بحالی کا ہے۔ اس سلسلے میں بھی سارے دعوئوں کے باوجود برسرِاقتدار جماعتوں نے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے۔ دستور کو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی حالت میں بحال کرنے کا ہر ایک نے وعدہ کیا ہے۔ میثاق جمہوریت (۲۰۰۶ء) کا یہ مرکزی نکتہ ہے اور جولائی ۲۰۰۷ء میں لندن میں منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس نے اس کا عہد کیا تھا لیکن اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ زرداری صاحب نے صدارت سنبھالنے کے بعد اختیارات پارلیمنٹ کو تحفہ میں دینے کا عہد کیا تھا مگر اپنے دوسرے تمام عہدوپیمان کی طرح اسے بھی وہ بھول گئے ہیں۔ دستور کی اصل شکل میں بحالی کے بغیر، نہ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے اور نہ جمہوریت اور ملک کے تمام ادارے تقویت حاصل کرسکتے ہیں، اس لیے تمام جماعتوں کو اس کی طرف بلاتاخیر متوجہ ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کا اجلاس خواہ اسے کتنے ہی دن چلانا پڑے بلایا جائے اور جلد از جلد دستور کو، جس پر ضربیں لگا کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے، بگاڑ اور خرابیوں سے پاک کیا جائے تاکہ آمریت کے دور میں اس کے جسم پر لگے زخم مندمل ہوسکیں۔
۳- تیسرا بنیادی مسئلہ ملک میں امن و امان کے قیام کا ہے جس کا گہرا تعلق ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت اور اس کے نتیجے میں صرف فاٹا اور قبائلی علاقوں ہی میں نہیں، پورے ملک میں حکومت، فوج اور عوام کے درمیان شدید کش مکش اور پیکار کی کیفیت ہے۔ ہزاروں افراد اس آگ میں لقمۂ اجل بن گئے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں، دہشت گردی، اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے، معیشت پر اس کے اثرات تباہ کن ہوئے ہیں اور محتاط اندازوں کے مطابق گذشتہ ۸ سال میں معیشت ۳ کھرب روپے (۳۵ بلین ڈالر) سے زیادہ کا خسارہ برداشت کرچکی ہے۔ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ سب سے بڑھ کریہ کہ ملک کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے، اور حاکمیت مجروح ہوئی ہے اور قومی عزت و وقار خاک میں مل گیا ہے۔
۴- چوتھے مسئلے کا تعلق مرکز اور صوبوں کے تعلقات کو انصاف اور وفاق کے مسلّمہ اصولوں کی بنیاد پر استوار کرنے اور صوبوں کو ان کے سیاسی اور معاشی حقوق پورے کے پورے ادا کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں دستور میں بھی ضروری ترامیم کی ضرورت ہے اور اس سے زیادہ عملی طور پر صوبوں کے معاملات میں مرکز کی مداخلت اور صوبوں کے وسائل پر مرکز کی گرفت دونوں کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے حالات خصوصی توجہ کے مستحق ہیں لیکن بات صرف بلوچستان کی نہیں بلکہ تمام صوبوں کی ہے۔ ستم ہے زرداری صاحب نے پنجاب تک کو اپنے معاملات خود نمٹانے کے حق سے محروم کر دیا ہے اور گورنر راج کی لعنت اس پر مسلط کردی ہے۔ صوبائی خودمختاری اور صوبے کے اپنے وسائل پر تصرف کے اختیارات کا احترام وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
۵- پانچواں مسئلہ ملک کی بگڑی ہوئی معیشت اور خصوصیت سے پیداواری نظام کا جھول، بے روزگاری میںاضافہ، غربت اور افلاس میں اضافہ، قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت اور تعلیم اور علاج کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ قوم، اشرافیہ اور مفلوک الحال طبقوں میں بٹ گئی ہے اور عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت ایک سال میں بھی کوئی مربوط اور حقیقت پسندانہ معاشی پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے اور ملک ایک فلاحی اور خوش حال معاشرے کی جگہ ایک استحصالی نظام کی گرفت میں آگیا ہے جس کے نتیجے میں معاشی بگاڑ کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی خلفشار بھی بڑھ رہا ہے۔ معاشی مسائل روز بروز بگڑ رہے ہیں اور اربابِ اقتدار کا حال یہ ہے کہ انھیں اپنی عیش پرستیوں کے سوا کسی بات میں دل چسپی نہیں۔ یہ حالات انقلاب کی طرف لے جانے والے ہیں اور فوری توجہ کا تقاضا کر رہے ہیں۔
۶- چھٹی اور آخری چیز قوم میں مقصدیت کا فقدان اور قومی مقاصد کے باب میں ذہنی انتشار اور خلفشار کو ہوا دینے کی تباہ کن پالیسی ہے جس پر حکام اور بااثر طبقات کاربند ہیں۔ وہی قومیںترقی کرتی ہیں جن کے سامنے کوئی مقصد ہو، جو اپنی شناخت کی حفاظت کر سکیں، جن کا تعلیمی نظام فکری اور نظریاتی یکسوئی کے ساتھ اعلیٰ صلاحیتوں سے نئی نسلوں کو آراستہ کرے، جن کے سامنے اعلیٰ مقاصد کا حصول اور صرف ذات کی پوجا کے مقابلے میں قومی زندگی کے استحکام و ترقی اور انسانیت کے لیے کسی اعلیٰ آدرش کے حصول کا جذبہ اور صلاحیت ہو۔ اسلام نے ہمیں زندگی کا اعلیٰ ترین تصور دیا ہے جو ہمارے لیے ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے رحمت اور نعمت ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد حیات اور تہذیبی اہداف کو بھولے ہوئے ہیں اور جاہلانہ عصبیتوں کا شکار ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ؎
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
حالانکہ زندگی نام ہے تخلیق کے مقاصد کے حصول کی جدوجہد کا اور آرزو کو زندہ و بیدار رکھنے کا۔ بقول اقبال ؎
ما ز تخلیقِ مقاصد زندہ ایم
از شعاع آرزو تابندہ ایم
(حالات کیسے ہی دگرگوں ہوں، اگر دلوں میں حصولِ منزل کی آرزو ہے اور ہم تخلیقِ مقاصد سے دست کش نہیں ہوئے تو ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ سرنگ کے اُس پار نظر آنے والی روشنی، ہمارا استقبال کرنے کے لیے بے تاب ہے۔)
بقول عرفی ؎
کسیکہ محرم بادِ صباست ، مے داند
کہ باوجودِ خزاں، بوئے یاسمن باقیست
(جو شخص بھی بادِ صبا کے لطف و خوش بو سے واقف ہے، خوب جانتا ہے، کہ موسمِ خزاں کے باوجود، یاسمین کی خوش بو اور مہک (کہیں نہ کہیں) موجود ہے۔)
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات، اپنی تمام کمزوریوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود قوم کے اس عزمِ صمیم کے مظہر تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا ۸ سالہ دورِ اقتدار پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین باب تھا اور عوام جنرل مشرف کے ساتھ اس کی ان پالیسیوں سے بھی مکمل نجات چاہتے ہیں جن کے نتیجے میں ملک کی آزادی اور حاکمیت پر ضربِ کاری لگی ہے۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ملک امن و امان اور عدل و انصاف سے یکسر محروم ہوگیا ہے۔ عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے ادارے غیرمؤثر اور آمریت کے آلۂ کار بن گئے ہیں جس کے نتیجے میں دستور عملاً معطل ہوگیا ہے اور عوام اپنے حقوق سے یکسر محروم ہوگئے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں آلۂ کار بننے سے ملک کی فوج اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہوگئی ہے اور فوج اور قوم کے درمیان جو اعتماد اور ہم آہنگی کا رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔ فوج عوام کی بے زاری، بے اعتمادی اور نفرت کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ فاٹا، شمالی علاقہ جات اور بلوچستان ہی نہیں، پورا ملک امن و امان سے محروم ہوگیا ہے اوردہشت پسندی، لاقانونیت اور راے عامہ کے ذریعے تبدیلی پر عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی قیادت کا آلۂ کار بن گیا ہے اور عدالت کو انتظامیہ نے اپنا تابع مہمل بنالیا ہے۔ معاشی حالات، خوش کن وعدوں کے باوجود روز بروز خراب ہورہے ہیں۔ غربت بڑھ رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیداوار میں جمود ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، قرضے بڑھ رہے ہیں، اِسی طرح بجٹ، تجارت اور بین الاقوامی ادایگیاں پاکستان کی تاریخ کے بدترین خسارے کی مظہر ہیں۔
ان حالات میں عوام نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک جماعت کو نہیں بلکہ دونوں بڑی جماعتوں، یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ملک کو اس دلدل سے نکالیں اور دستور، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام اور معاشی عدل اور استحکام کی طرف پیش قدمی کریں۔ نئے سفر کا آغاز پی پی پی اور نواز لیگ کے اشتراک سے ہوا اور امید بندھی کہ شاید قومی مفاہمت کے ذریعے ملک حقیقی جمہوریت کی طرف رواں دواں ہوسکے گا۔ مگر افسوس کہ سیاسی قیادت نے قوم کو بری طرح مایوس کیا اور ذاتی مفاد، جماعتی عصبیت، مفاد پرست طبقات سے گٹھ جوڑ اور امریکا کی کاسہ لیسی کی پرانی ڈگر کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں کچھ اور بھی اضافہ کردیا۔ عدلیہ کی بحالی اور آزادی پر ایک اور بھرپور ضرب لگائی۔ دستور کے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحالی کے وعدے کو پامال کیا اور ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے صریح غداری (high treason) کے اقدام کو سینے سے لگاکر مشرف کے چھوڑے ہوئے جمہوریت کُش نقشے میں مزید رنگ بھرنے کا کام اپنے سر لے لیا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے راستے الگ ہوگئے مگر درپردہ معاملہ بندی کا سلسلہ جاری رہا جس سے نہ حکومت کی اصلاح ہوسکی اور نہ حزبِ اختلاف اپنا حقیقی کردار ادا کرسکی۔ حکومت پر عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا اور آج حکومت کے بارے میں عوام کی بے زاری کا گراف اس سے بھی کچھ اُوپر جاچکا ہے جو الیکشن کے وقت مشرف حکومت کے بارے میں تھا۔ اس ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو بڑی تکلیف دہ اور تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔
امریکا ’اور مارو اور مارو‘ (do more) کے مطالبات کر رہا ہے۔ امریکی نمایندے ہالبروک نے نہ صرف امریکی دبائو کو بڑھایا ہے بلکہ اس کی موجودگی میں دو مرتبہ ڈرون حملے ہوئے۔ ممبئی کے واقعے کے بارے میں بھی زرداری کے دست ِ راست مشیر داخلہ نے پریس کانفرنس کرکے جس جوش و خروش سے بھارت کے الزامات کو اپنے سر لیا ہے، اس نے امریکا اور بھارت کے اس خطرناک کھیل کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ آج پاکستان اس قیادت سے محروم ہے جو پاکستان کے مفاد کے لیے سر اُٹھاکر اور خم ٹھونک کر کھڑی ہوسکے اور امریکا کے ایجنڈے سے براء.ت کا اعلان کرسکے۔ امریکی تحقیقی ادارے اعتراف کر رہے ہیں کہ افغانستان میں ۷۲ فی صد علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے اور ۲۰۰۸ء کا سال افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے لیے اور خود وہاں کے عوام کے لیے سخت ترین رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نمایندے نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں غیرحربی (non-combatant) سویلین شہریوں کی ہلاکت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ۲۰۰۸ء میں ۲۱۱۸ معصوم شہری لقمۂ اجل بنے ہیں اور ان میں سے ۵۵۲ افراد ہوائی حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے شہریوں کی تحفظ کی سالانہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ: ’’امریکا، ناٹو اور افغان افواج نے اقوام متحدہ کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ان فورسز نے ۶۲۹ سویلین ہلاک کیے۔ ۲۰۰۸ء میں پچھلے برس کے مقابلے میں ۳۱ فی صد زیادہ سویلین ہلاک کیے‘‘۔
یہی صورت حال فاٹا اور سوات کی ہے جہاں پاکستانی افواج کے اقدام کے نتیجے میں صرف گذشتہ ۱۷ ماہ میں ۵ ہزار معصوم انسان شہید ہوچکے ہیں اور باجوڑ سے ۴ لاکھ اور سوات سے ۶لاکھ لوگ بے گھر ہوکر اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے لیے ۲۰۰۸ء کا سال دہشت گردی کے حوالے سے بدترین سال رہا ہے۔ پاک ادارہ براے مطالعات امن (Pak Institute for Peace Studies) کی تازہ رپورٹ (بی بی سی، ۱۹ جنوری ۲۰۰۹ء) کی رُو سے ایک سال میں جس میں اقتدار پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں بشمول اے این پی، ایم کیو ایم اور جمعیت علماے اسلام (ف) کے پاس تھا، ملک میں دہشت گردی (بشمول حکومتی دہشت گردی) کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۸ہزار تک پہنچ گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد ۹۵۰۰ سے زائد ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ۷۰۰ فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ صوبہ سرحد میں ہوئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بلوچستان کا نمبر ہے جہاں گذشتہ سال ۶۴۲، قبائلی علاقے میں ۳۸۵، پنجاب میں ۳۵، سند ھ میں ۲۵، اسلام آباد میں ۷، آزاد کشمیر میں ۴ اور شمالی علاقہ جات میں ایک واقعہ ہوا ہے۔
یہ خونچکاں داستان صرف اس دہشت گردی کی ہے، جسے قوت کے ذریعے ختم کرنے کے دعوے سے کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ قتل، چوری، ڈاکے، عصمت دری، خودکشی اور دوسرے جرائم اس کے سوا ہیں۔ انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو اوسطاً ہر ماہ ایک سو سے متجاوز ہیں۔
یہ ہے ملک میں امن و امان کی اصل صورت حال اور زرداری گیلانی حکومت اس ناکام پالیسی پر اور بھی مستعدی کے ساتھ کاربند ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۳ء سے (جب حکومت نے اس پالیسی کا آغاز کیا۔) ۲۰۰۸ء تک مجموعی طور پر ۱۳ ہزار افراد جانیں کھوچکے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ دل خراش دعویٰ بھی کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان عراق اور افغانستان میں دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں دونوں سے آگے ہے‘‘___ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ صرف سوات میں ۱۲۰۰ افراد ہلاک اور ۵ لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔ اس رپورٹ کے یہ الفاظ کس قدر شرم ناک ہیں:
طالبان نے لوگوں کی جان اور حقوق کی توہین کی ہے، جب کہ دوسری طرف پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ان بنیادی حقوق کو پامال کیا ہے جن کی وہ بظاہر حفاظت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ (بی بی سی، ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء)
ان حالات میں جب بھی حکومت نے اپنے عوام سے مذاکرات کرنے اور امن بحال کرنے کے لیے کسی معاہدے کی کوشش کی ہے تو اس پر امریکا برافروختہ ہوا ہے اور اس نے براہِ راست ڈرون حملوں میں اضافہ کر کے ان معاہدات کو سبوتاژ کرنے کی ’خدمت‘ انجام دی ہے۔ یہ ہے دہشت گردی کے خلاف اس کے ’تعاون‘ کی ایک شکل___
اس وقت بھی (وسط ِ فروری میں) جو معاہدہ سوات میں شرعی قوانین کے نفاذ اور امن کی بحالی کے لیے ہوا ہے اس پر امریکا، ناٹو، بھارت تینوں نے مخالف ردعمل کا اظہار کیا ہے اور زرداری صاحب دستخط کرنے میں لیت و لعل کر رہے ہیں۔ نیز ان کے ترجمان مسئلے کو اُلجھانے میں لگے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ خود اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی تک بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ شریعت کے نفاذ کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ تو صرف ۱۹۹۹ء کے ایک قانون میں کچھ ترمیم کی گئی ہے۔ حالانکہ اے این پی کی باقی قیادت خصوصیت سے اس کے سیکرٹری جنرل زاہد خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے شریعت کے نفاذ کا معاہدہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے اور وعدوں اور معاہدات کی تقدیس باقی نہیں رہی ہے۔ اس کی بدترین مثال عدلیہ بشمول چیف جسٹس کی بحالی کے سلسلے میں ایک نہیں، دو دو معاہدوں کا زرداری صاحب کا توڑنا ہے۔ اس کے بعد حکومت کے کسی قول و قرار کا اعتبار باقی نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے شریعت کے نفاذ کے اصولی مسئلے کی بھرپور تائید کے باوجود، اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے جو ایک ناقابلِ اعتبار حکومت سرحد میں کھیل کر رہی ہے۔ دراصل یہ کھیل پرویز مشرف کے سابقہ دور سے زرداری گیلانی دور تک اُسی یکساں انداز میں کھیلا جارہا ہے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ حالات کے صحیح ادراک کا فقدان اور کسی ہمہ جہت اور مربوط معاشی پالیسی کا عدم وجود ہے۔ نج کاری، بدعنوانی اور قومی اثاثہ جات کو کوڑیوں کے مول غیرملکیوں کی طرف منتقل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے مگر اس پر دوبارہ عمل شروع ہوگیا ہے جس کے معیشت پر دُوررس منفی اثرات پڑیں گے۔ اس عرصے میں روپے کی بین الاقوامی قیمت میں ۲۵ فی صد کمی واقع ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں بیرونی قرضوں کا بار ۷۰۰ ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ درآمدات مہنگی ہوگئی ہیں اور برآمدات میں طلب پوری کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی گرفت معیشت پر موجود ہی نہیں ہے۔ خارجہ سیاست ہو یا داخلی معاملات ہوں، کیفیت یہ ہے کہ ع
تن ہمہ داغ داغ شد ، پنبہ کجا کجا نہم
(سارا بدن زخموں سے داغ داغ ہوگیا ، پھایا کہاں کہاں رکھوں؟)
ممبئی کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور پاکستان پر امریکا کے مسلسل حملے حالات کو ایک ایسے رُخ پر لے جانے کے لیے ہیں کہ ایک طرف اقوامِ عالم خاکم بدہن پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دے کر یو این کے کسی پروانے کے سہارے ہمارے ایٹمی اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ دوسری طرف پاکستان کے تصور (image) کو میڈیا کے ذریعے اتنا خراب کردیا جائے کہ ملک تنہا ہوکر رہ جائے۔ کسی مذموم بین الاقوامی کارروائی کے لیے فضا سازگار ہوجائے۔ فوج کو ملک کے دفاع کی جگہ مغربی سرحدات پر ایک نہ جیتنے والی جنگ میں جھونک دیاگیا ہے اور اس دلدل سے فوج کے نکلنے کی ہرکوشش کو ناکام بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔ قوم اور فوج کے درمیان اعتماد اور تعاون کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب اگر اسے دوبارہ بحال کرنے میں کوئی کوتاہی کی جاتی ہے تو یہ خودکشی سے کم نہیں ہوگا۔ فوج کی قیادت کو بھی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ ایک طرف فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف ایک گندے کھیل میں جھونک دیا گیا ہے تو دوسری طرف فوج اور آئی ایس آئی کو بڑے منظم طریقے سے ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں تازہ ترین کوشش وہ اہم کتاب ہے جو امریکا کے سی آئی اے کے سابق کارندوں کی روایات پر نیویارک ٹائمز کے ایک صحافی ڈیوڈ ای سنگر (David E. Sanger) نے The Inheritance: The World Obama Confronts کے نام سے شائع کی ہے۔ اس کا اصل ہدف پاکستانی فوج اور خصوصیت سے آئی ایس آئی ہے۔ دوسری طرف بھارت کی قیادت بھی ممبئی کے واقعے کے سلسلے میں کھل کر آئی ایس آئی کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔
ان حالات میں پاکستانی عوام، سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کو بڑی دانش مندی اور سمجھ داری سے معاملات کو طے کرنا ہوگا۔ اس کے بنیادی دائرے تین ہونے چاہییں:
۱- پاکستانی فوج کو دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت سے نکالنا اور اسے ان اصل اور حقیقی خطرات کے مقابلے کے لیے تیار اور مستعد رکھنا جو ملک کو درپیش ہیں۔
۲- بنگلہ دیش کے ماڈل پر فوج کے کسی ایسے کردار کے خلاف پیش بندی جس میں سیاسی حالات کے بگاڑ کا سہارا لے کر اسے دوبارہ سیاست میں ڈالنے کا کھیل کھیلا جائے۔ فوج کے سیاسی کردار نے فوج کے مزاج، تصور (image) اور کردار سب کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ یہ ملک اور فوج دونوں کے لیے تباہی کا راستہ ہے، اس لیے یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔
۳- ملک کے سلامتی کے لیے مثالی نمونے (paradigm) کی ازسرنو تشکیل کی جائے جس میں فوج کو حقیقی خطرات کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لائق بنایا جائے اور اس کی تربیت اور پوری پلاننگ صرف اور صرف دفاعی ضرورتوں کے تحت ہو۔ فوج کو امریکا کی دخل اندازیوں سے بھی محفوظ کیا جائے۔ٹریننگ کے نام پر امریکا نے فوج میں اپنی لابی اور شراکت داری کا جو منصوبہ بنایا ہے، اسے بروقت روکا جائے۔
ا- ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے مجرمانہ اقدام کو فی الفور کالعدم قرار دیا جائے اور عدلیہ کو اس کی ۳نومبروالی شکل میں اور اصل عدلیہ کے ۳ نومبر والے ۷ ججوں کے متفقہ فیصلے کی روشنی میں بحال کیا جائے۔
ب- جنرل پرویز مشرف کا احتساب ہو اور اسے دفاع کا پورا موقع دے کر دستور کی خلاف ورزیوں اور سیاسی جرائم کی قرار واقعی سزا دی جائے۔
ج- کُل جماعتی مشاورت کے ذریعے ایک حقیقی قومی مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے اور تمام قومی عناصر کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی بنیاد پر ایک نئے قومی عمرانی معاہدے پر متفق کیا جائے جس میں دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر اتفاق راے پیدا کیا جائے۔
د- امریکا کی ’دہشت گردی کی جنگ‘ سے اپنے کو الگ کیا جائے اور ملک کے لیے صحیح خطوط پر سلامتی کے مثالی نمونے کی تشکیل نو ہو۔
ر- ایک متعین مدت کے لیے قومی سطح پر عبوری انتظام ہو تاکہ اصل دستور اور اس قومی میثاق کی روشنی میں نئے انتخاب کے ذریعے عوام کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔
ھ- ملک کی معیشت کو خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ہمہ جہت، حقیقت پسند اور مربوط معاشی پالیسی کے ذریعے مرتب اور منظم کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ ملک کے اہل ترین ماہرینِ معاشیات کے مشوروں سے ایک ایسا معاشی پروگرام بنایا جائے جو قومی وسائل کو قومی مقاصد اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بروے کار لاسکے۔
و- تمام سیاسی مسائل کو افہام و تفہیم، مذاکرات اور سیاسی طریق کار کے اصول کے مطابق سلجھانے کی کوشش کی جائے۔
ز- میڈیا کی آزادی کے ساتھ عوام کے حقوق کی پاس داری کو ریاستی پالیسی کا مرکزو محور بنایا جائے۔ عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور مکمل شفافیت کے ساتھ ان کو پاکستان کے دفاع، تحفظ اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لیے منظم کیا جائے۔
ک- ۱۲ اور ۱۶ مارچ کے پروگرام کو پُرامن جمہوری انقلاب کا نقطۂ آغاز بنایا جائے تاکہ پاکستان کی سیاست کو صحیح رُخ پر ڈالا جاسکے اور ملک و قوم اس وقت جس بحران میں مبتلا ہیں، اس سے نجات حاصل کی جاسکے۔
یہ وقت قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے امتحان کا وقت ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بحیثیت قوم اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔
دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں نے اسے ہمیشہ ہی ایک جرم تصور کیا ہے۔ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے اس کا جواز ظلم اور ریاستی قوت کے مجرمانہ استعمال کے مقابلے میں مزاحمت کے نام پر کرتے رہے ہیں، نیز اسے قوت کے عدم توازن کا توڑ کرنے والوں کے خلاف بجاطور پر ایک ہتھیار ایک حد تک تصور کیا جاتا رہا ہے اور بین الاقوامی قانون اور روایات میں اس کے گنجایش بھی نکالی جاتی رہی ہے، جب کہ حکومت کے اربابِ کار اسے جرم قرار دے کر اس کے مرتکبین کو قانون کے تحت سزا دینے کا راستہ اختیار کرتے رہے ہیں۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے نیویارک اور واشنگٹن کے واقعات کے بعد امریکا نے دہشت گردی کو ایک جرم کے بجاے جنگ کا نام دیا اور اس کے خلاف دنیا بھر میں طبلِ جنگ بجانے کے ساتھ ملکی قانون اور بین الاقوامی قانون دونوں کو یکسر نظرانداز کرکے عملاًافغانستان اور عراق پر فوج کشی کردی۔ دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کا ایک سلسلہ تمام ہی مغربی ممالک میں بے دردی سے شروع ہوگیا اور محض شبہے کی بنیاد پر گرفتاریاں، ملک بدری، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں لوگوں کا بے دریغ اغوا، تفتیش میں تعذیب، قانونی دفاع کے حق سے محرومی اور بین الاقوامی قانون کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے دوسرے ممالک کی حاکمیت اور آزادی کی پامالی، ’قومی مفادات کے تحفظ‘ کے نام پر فوج کشی، بم باری اور سرحدات کی بے دریغ خلاف ورزی کا راستہ اختیار کیا گیا۔
ہم نے اس ریاستی دہشت گردی پر پہلے دن ہی سے گرفت کی اور اس کے جواز میں دیے جانے والے دلائل کا توڑ کیا۔ مسلم ممالک کے اہلِ علم کی ایک نمایاں تعداد نے اس ریاستی دہشت گردی پر مضبوط دلائل کی بنیاد پر تنقید کی، لیکن امریکا اور یورپ کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی بڑی تعداد نے اس ظلم اور زیادتی پر خاموشی اختیار کی۔ البتہ امریکا کی نام نہاد جنگ جیسے جیسے طویل ہوئی، اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اور اسی ہفتے جنیوا میں’قانون دانوں کے عالمی کمیشن‘ کے آٹھ رکنی پینل نے ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ Assessing Damage Urging Action شائع کر دی ہے۔ اس پینل کی سربراہی آئرلینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر میری رابن سن (Marry Robinson) تھیں اور اس کے دوسرے شرکا میں دنیا کے کئی ماہرینِقانون اور سابق جج تھے۔ اس رپورٹ میں ان قوانین پر بھرپور گرفت کی گئی ہے جو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور جن کی زد قانون اور بین الاقوامی قانون کے مسلّمہ اصولوں پر پڑ رہی ہے۔ رپورٹ میں دہشت گردی کو جنگ نہیں ایک جرم اور انسانیت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ دہشت گردی پر گرفت کے نام پر قانون اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے مسلّمہ اصولوں سے انحراف کا کوئی جواز نہیں۔ اس سلسلے میں جوقانون سازی اور عملی اقدامات امریکا اور دوسرے ممالک نے کیے ہیں وہ قانون کے مسلّمہ اصولوں سے متصادم ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ اس رپورٹ کے چند اہم اقتباسات اس لائق ہیں کہ ان کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے اور دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر قانون اور انصاف کے پورے نظام کو جس طرح تہہ و بالا کیا گیا ہے اس کی اصلاح کی جائے ورنہ انسانیت کے لیے یہ سودا بہت خسارے کا سودا ہوگا:
’دہشت گردی‘ ایک حقیقت ہے اور اس سے جو خطرات درپیش ہیں، ان کو خفیف سمجھنا ایک غلطی ہوگا۔ ان خطرات کا مقابلہ ریاستوں کا فرض ہے مگر دہشت گردی کی مخالفت کے نام پر کیے جانے والے موجودہ متعدد اقدامات نہ صرف غیرقانونی ہیں بلکہ ان کے منفی نتائج رونما ہو رہے ہیں۔ پینل اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ ان کے نتیجے میں انسانی حقوق کے قوانین کی بنیادوں کو جو نقصان پہنچا ہے وہ اندازے سے بہت زیادہ ہے۔
دہشت گردی مخالف قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کا جائزہ لینے کی، اور جو نقصان ہوا اس کاتدارک کرنے کے لیے عالمی، علاقائی اور قومی سطحوں پر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔
پینل نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ:
نائن الیون سے پہلے جو قانونی فریم ورک موجود تھا وہ انتہائی مضبوط اور مؤثر ہے اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر اعتبار سے کافی ہے۔
پینل نے دوٹوک انداز میں امریکا اور دوسرے جمہوری ممالک پر سخت گرفت کی ہے کہ وہ قانون کے بنیادی اصولوں کو پامال کر کے ایک سنگین انسانی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں:
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ:
رپورٹ کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں امریکا پر بھرپور گرفت کی گئی ہے اور دہشت گردی کے لیے جنگ (war) کے مثالیے کے استعمال کو مؤثر الفاظ میں رد کیا گیا ہے۔
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس رپورٹ میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پول پوری طرح کھول دیا گیا ہے اور دنیا کی تمام جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والی حکومتوں اور افراد کے لیے اس کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کو ریاستی دہشت گردی کی اس جنگ سے نجات دلانے کے لیے مؤثر جدوجہد کریں اور ان انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، تاکہ انسانیت نے جو کچھ صدیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا ہے وہ امریکا کی اس سامراجی جنگ کے نتیجے میں پامال نہ ہو جائے۔
اس رپورٹ کی روشنی میں پاکستان کو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بارے میں اپنی پالیسی پر فوری طور پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی جو آمریت کے دور میں راہِ اعتدال اور حق و انصاف کے اصولوں سے دُور ہٹ گئی تھی، اس کی تبدیلی وقت کی اولین ضرورت ہے۔
اس رپورٹ سے پارلیمنٹ کے اس موقف کو مزید تقویت ملی ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ خارجہ پالیسی کو امریکا کی غلامی سے آزاد کیا جائے اور پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں حق و انصاف پر مبنی ہوں اور ان کا ہدف پاکستان کے مفاد کا تحفظ ہو، امریکا کی کاسہ لیسی نہیں۔
۲۱ویں صدی کا آغاز ایک بہت بڑے المیے سے ہوا___ یعنی ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں دہشت گردی کے واقعات جن کے نتیجے میں دنیا ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی، تہذیبی اور معاشی بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ بلاشبہہ دہشت گردی کا یہ واقعہ ہراعتبار سے قابلِ مذمت اور انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے لیکن اس واقعے سے بھی زیادہ تباہ کن اقدام اس واقعے کی آڑ میں دنیا کو دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی جنگ میں جھونک دینا ہے۔ اب انسانیت دو عظیم مسائل بلکہ خطرات سے دوچار تھی:
اس ضمن میں کم از کم پانچ بھیانک غلطیوں (blunders) کا ارتکاب کیا گیا جن کی سزا پوری انسانیت اور خود امریکا، اس کے عوام، سیاسی نظام اور معیشت بھگت رہے ہیں۔ یہ ہمالیہ سے بھی بڑی غلطیاں یہ تھیں:
۱- دہشت گردی جو سیاسی مقاصد کے لیے احتجاج اور تبدیلی کے لیے ایک ذریعے (tactic) کی حیثیت رکھتی ہے، وہ خواہ کتنی ہی قبیح اور قابلِ مذمت کیوں نہ ہو، اسے محض ایک طریقے اور ایک ہتھیار سے بڑھا کر ایک نظریے، ایک فلسفے اور ایک تحریک کی شکل دے دی گئی اور ایک ’خیال‘ (abstract phenomenon) کو دشمن قرار دے کر جنگ کا ہدف بنا دیا گیا۔
۲- دہشت گردی اور قوت کے استعمال کی بے شمار شکلیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی کچھ خصوصیات، ذرائع، اسباب اور اہداف ہیں۔ لیکن اس جنگ کے جنون میں ان سب مختلف النوع قسم کے تشدد کے استعمالات کو ایک شے تصور کرلیا گیا اور اس غلط طور پر جمع کرنے (flawed aggregation) کی وجہ سے پورا معاملہ اتنا اُلجھ گیا کہ ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی___ کی سی صورت حال پیدا ہوتی گئی اور اب ڈور کے سلجھنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا۔
۳- دہشت گردی کو جنگ قرار دے کر اس کے خلاف جنگ کے اعلان سے ملکی سلامتی کے تصورات، جنگ و صلح کے عالمی قوانین، ملک میں دستوری اور قانونی نظام، جرم و سزا کے معروف اصول و قواعد، آزادی، بنیادی حقوق، تفتیش کے معروف ضوابط، حتیٰ کہ نجی زندگی (privacy) کی حفاظت تک کے بارے میں سارے اصول اور آداب غیرمتعلق ہوگئے اور دنیا کو ایک نئی بربریت کی طرف دھکیل دیا گیا اور عملاً امریکا اور پھر اس کے اتحادیوں نے جن میں یورپ کی ناٹو اقوام کے علاوہ خود مسلمان ملکوں کے متعدد حکمران شریک ہیں، گذشتہ ۸ سال میں صرف عراق، افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں ہی میں تباہی نہیں مچائی بلکہ پوری دنیا کو نہایت غیرمحفوظ بنا دیا۔ ہر قانون اور ہر ضابطہ اس جنگ کے نام پر پامال کیا گیا اورکیا جا رہا ہے۔
۴- جنگ کے اس نئے تصور اور حالات کی اس تعبیر کا ایک تباہ کن نتیجہ یہ رونما ہوا کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ایک ہی ہتھیار مؤثر قرار دیا گیا اور وہ تھا فوجی قوت کا بے محابا استعمال۔ اس کا نتیجہ تھا کہ اس سلسلے کے سب سے اہم پہلو___ یعنی دہشت گردی کے اسباب کو بالکل غیرمتعلق قرار دے دیا گیا اور سارا ہدف نام نہاد دہشت گردوں کی تلاش، ان کے معاونین اور مالی سرپرستوں کی سرکوبی، ان ممالک میں فوج کشی جن پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام تھا___ ان سب کو تہِ تیغ کرنا اور قوت سے ختم (exterminate) کرنا ، مقابلے کی صحیح حکمت عملی قرار پائے اور اس پر امریکی صدر بش نے دنیا پر ایک عالمی جنگ مسلط کردی۔ اسباب سے توجہ کا ہٹنا اور ایک نامعلوم گروہ کا قوت سے خاتمہ اس ردعمل کا سب سے تباہ کن پہلو بن گیا۔
۵- پانچویں اور آخری لیکن انسانی اور تہذیبی اعتبار سے نہایت تباہ کن غلطی یہ واقع ہوئی کہ صدر بش نے اپنے صہیونی اور نو قدامت پسند (neo-cons) مشیروں اور پالیسی سازوں کے زیراثر القاعدہ کے نام پر جنگ کا رُخ مسلمانوں، عربوں اور خود اسلام کی طرف پھیر دیا اور اس طرح یہ صلیبی جنگ کا روپ دھار گئی۔ جہاد اور جہادی کلچر کو اصل ہدف بنایا گیا، ان تحریکات کو لپیٹنے کی کوشش کی جو اسلام کے نظامِ حیات کو قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں اور خود اسلام کو نت نئے ناموں سے مطعون کیا جانے لگا۔ جسے پہلے صرف بنیاد پرست (fundamentalist) کہا جاتا تھا وہ انقلابی اسلام (radical Islam) بنا، پھر اسے اسلامی فسطائیت (Islamic fascism) کا نام دیا گیا اور بالآخر اسلامی دہشت گردی قرار دیا۔ اسلام کی ’اصلاح‘ (reformation) کے نام پر یہ جنگ اسلام کے اصول و اہداف کی ایسی تراش خراش سے عبارت ہے جو اسے مغربی اقوام کے لیے قابلِ قبول بلکہ تر نوالہ بنا دے۔
اس پورے منظرنامے کے بنانے میں مرکزی کردار امریکی صدر جارج بش اور ان کے ساتھیوں کا تھا۔ لیکن یہ پوری جنگ اور اس کے پیچھے کام کرنے والی فکر اور حکمت عملی ان ۸ برسوں میں جس بُری طرح ناکام ہوئی ہے اس کا مظہر وہ نفرت ہے جو پوری دنیا میں بشمول امریکا بش کے حصے میں آئی ہے۔ صدر اوباما کی کامیابی اور اس کے مرکزی تصور یعنی تبدیلی کا تعلق محض ایک فرد کی تبدیلی سے نہ تھا بلکہ ایک پوری فکر، حکمت عملی اور پالیسیوں کے مجموعے سے تھا۔ امریکا میں بش کی مقبولیت ۸۰ فی صد سے کم ہوکر ۱۸ فی صد پر آگئی اور بھارت، اسرائیل اور ایک دو افریقی ممالک کو چھوڑ کر تمام دنیا میں اور خصوصیت سے مسلم دنیا کے ۸۰ سے ۹۰ فی صد افراد نے اس سے نفرت اور بے زاری کا اظہار کیا ہے۱؎ اور جس ذلت کے ساتھ بش کی صدارت کا خاتمہ ہوا ہے وہ دکھی انسانیت کی بددعائوں کا مظہر اور بش کی حکمت عملی کی ناکامیوں کا آئینہ (index) ہے۔
اس سلسلے میں چند چیزیں قابلِ ذکر ہیں جو تاریخ کا حصہ اور خودپسند اور غلط کار حکمرانوں کے لیے عبرت کا سامان ہیں:
۱؎ ملاحظہ ہو، The Pew Global Attitude Project کا ۱۸ دسمبر ۲۰۰۸ء کا سروے "Global Public Opinion in Bush Years (2001-2008)
۱- فکری اعتبار سے دنیا کے دانش ور اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے اربابِ قلم تو
دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اور اسے ایک باطل تصور اور شیطانی حربہ قرار دے رہے تھے، لیکن بش کے صدارت سے فارغ ہونے سے ۵ دن قبل برطانیہ، جو اس جنگ میں بش کا سب سے بڑا شریک اور معاون تھا، کے وزیرخارجہ جناب ڈیوڈ ملی بینڈ کا مضمون لندن کے اخبار دی گارڈین میں شائع ہوا اور اسی دن ممبئی میں موصوف نے انھی خیالات کا اظہار ایک تقریر میں کیا جو دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کی حکمت عملی کی ناکامی کا بھرپور اعتراف اور بش کے پورے دورِ حکومت اور اس کی پالیسیوں کے لیے ایک عبرت ناک لوحِ قبر کا درجہ رکھتا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس مضمون کی تاریخ اشاعت اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ مضمون کا عنوان ہے: War on Terror Was Wrong
اس مضمون کے چند اقتباسات خصوصی غوروفکر کا تقاضا کرتے ہیں:
نائن الیون کے ۷سال بعد اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ ہمیں انتہاپسندی اور اس کے خوف ناک پھل (offspring) دہشت گرد تشدد کو روکنے کی اپنی کوششوں کا ایک بنیادی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نائن الیون کے بعد سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے تصور نے ہی پورے نقشے کو مرتب کیا ہے۔ الفاظ کے اس مجموعے میں کچھ وزن ہے اور اس نے خطرات کی سنگینی، اتحاد کی ضرورت اور جہاں ضروری ہو طاقت کے ساتھ جواب دینے کی فوری ضرورت کا احاطہ کرلیا ہے۔ مگر آخری تجزیے یہ تصور گمراہ کن اور غلط ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کیا ہمیں دہشت گردی کی جڑوں پر اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ ہمیں ضرور کرنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہو؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ نے قومی حدود سے ماورا ایک واحد دشمن کا تصور دیا جو اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی شکل میں موجود تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد گروپوں کے محرکات اور شناختیں مختلف ہیں۔ لشکرِطیبہ کی جڑیں پاکستان میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد (cause) کشمیر ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف مزاحمت کی علَم بردار ہے۔ عراق کے شیعہ اور سنی باغی گروپوں کے مختلف اور کثیرجہتی مطالبات ہیں۔ یہ اتنے مختلف ہیں جیسے ۷۰ کے عشرے کی IRA ، Bader-Meinhof اور Eta کی یورپی دہشت گرد تحریکوں کے تھے۔ سب نے دہشت گردی کو استعمال کیا اور بسااوقات ایک دوسرے کی مدد پہنچائی۔ ان کے مقاصد ایک نہیں تھے لیکن ان کا تعاون موقع دیکھ کر تھا۔ یہی صورت آج بھی ہے۔
جتنا زیادہ ہم دہشت گرد گروپوں کو اکٹھا کردیں اور اعتدال پسندوں اور انتہاپسندوں، یا خیراور شر، کے درمیان آمنے سامنے لڑائی کی لکیر کھینچ دیں اتنا ہی زیادہ ہم ان لوگوں کے ہاتھ میں کھیلتے ہیں جو ان گروہوں کو متحدکرنا چاہتے ہیں جن میں بہت کم چیزیں مشترک ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کو اسلحے یا مالیات کی فراہمی روک کر، ان کے دعووں کے کھوکھلے پن کو دکھا کر اور ان کے پیروکاروں کو جمہوری سیاست میں لاکر ان سے ان کی جڑوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں یہ بھی مضمر تھا کہ صحیح ردعمل اولیں طور پر فوجی ہے۔ لیکن جیساکہ جنرل پیٹریاس نے مجھ سے اور دوسروںسے عراق میں کہا کہ اتحاد، بغاوت اور خانہ جنگی کے مسائل درمیان اپنا راستہ قتل کرکے نہیں نکال سکتا۔
ہمیں دہشت گردی کا مقابلہ قانون کی حکمرانی کا علَم بردار ہوکر کرنا چاہیے نہ کہ اس کی اہمیت ختم کرکے اس لیے کہ یہ جمہوری معاشرے کا بنیادی پتھر(corner stone) ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں اور بیرونی ممالک میں حقوقِ انسانی اور شہری آزادیوں کے اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے۔ یقینا یہ گوانتانامو کا سبق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے منتخب صدر اوباما کے اسے بند کرنے کے وعدے کو خوش آمدید کہا ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا بلاوا جنگ کے لیے تھا۔ یہ ایک کوشش تھی کہ سب کے مشترک واحد دشمن کے خلاف اتحاد قائم کیا جائے۔ لیکن عوام اور قوموں کے درمیان اتحاد کی بنیاد اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کس کے مخالف ہیں بلکہ اس نظریے پر ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور ہماری مشترک اقدار کیا ہیں۔ دہشت گردوں کی یہ کامیابی ہے کہ وہ ملکوں کو خوف زدہ اور انتقام پر آمادہ کردیں۔ جب وہ افتراق اور دشمنی کے بیج بو دیتے ہیں، جب وہ ملکوں کو تشدد اور جبر سے جواب دینے پر مجبور کردیتے ہیں، تب وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ بہترین ردعمل یہ ہے کہ دبائو میں آنے سے انکار کر دیا جائے۔
اس بنیادی مقدمے (thesis) کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ ممبئی کے واقعات کی روشنی میں اصل مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔ پاکستان کی قیادت نے اپنی نادانی، ذہنی ژولیدگی یا بزدلی کی وجہ سے اس سلگتے ہوئے مسئلے کو اٹھانے سے احتراز کیا لیکن ملی بینڈ نے لندن اور ممبئی دونوں مقامات پر اس ’اَن کہی‘ کا صاف اظہار کر ہی دیا، جس سے بھارت کی قیادت آتش زیرپا ہے۔۱؎ اس نے کہا:
یہ وہ چیز ہے جو غزہ میں فوجی اقدام کے حامیوں اور مخالفین کو جدا کرتی ہے۔ ممبئی حملوں کے ردعمل پر بحث سے بھی اسی طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ جو ذمہ دار تھے انھیں انصاف کے کٹہرے میں آنا چاہیے اور حکومتِ پاکستان کو اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے پورے نظام کو توڑنے کے لیے مؤثر اور فوری اقدام کرنے چاہییں۔ لیکن گذشتہ ہفتے جنوبی ایشیا میں اپنے دورے کے دوران میں اس بات کے حق میں دلائل دیتا رہا کہ دہشت گرد حملوں کا بہترین تریاق طویل المیعاد تعاون باہمی ہے۔ میں موجودہ مشکلات کو سمجھتا ہوں لیکن کشمیر کے تنازعے کا حل علاقے کے انتہاپسندوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے سب سے بڑے سبب سے محروم کردے گا، اور پاکستانی حکمران اپنی مغربی سرحدوں پر خطرات کا اچھی طرح مقابلہ کرسکیں گے۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۵ جنوری ۲۰۰۹ء)
برطانیہ کے وزیرخارجہ ٹونی بلیر کی حکومت میں بھی وزیر تھے، ان سے یہ کہنے کو تو ضرور دل چاہتا ہے کہ ع
ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
۱؎ بھارتی وزیراعظم نے اظہار ناراضی کے لیے اپنے برطانوی ہم منصب کو خط لکھا اور دہلی آئے ہوئے برطانوی وزیردفاع سے ملاقات نہ کی لیکن برطانیہ کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان دیا کہ وزیر خارجہ کابیان برطانیہ کی حکومتی پالیسی کے مطابق تھا۔
مگر حقیقت ہے کہ بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا اس سے زیادہ صاف الفاظ میں اعتراف مشکل ہے۔ یورپ کے ممالک کے کئی حکمران بھی اب یہ بات کہہ رہے ہیں اور افغانستان میں ناٹو کے سیکرٹری جنرل ہوپ شیفر نے واشنگٹن پوسٹ (۱۷ جنوری ۲۰۰۹ء) کی اشاعت میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ:
ہم جامع طرزِعمل کی صرف زبانی تعریف (lip service) پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ صرف طاقت سے افغانستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہم ناکافی وسائل اور عوام کی طرف سے ربط کی کمی کی وجہ سے فوجی آپریشن کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت ہے کہ زیادہ کوشش کی جائے: پولیس کو تقویت دینے کے لیے، ترقیاتی امداد کو باہم مربوط کرنے کے لیے، اور افغانستان میں امریکی مشن کی تعداد کو بڑھانے (beef up) کے لیے۔ بے حد اہم ہے کہ افغان حکمران ایک مستعد اور کرپشن سے پاک حکومت قائم کرنے کا مشکل فیصلہ کریں، جس پر عوام کو اعتماد ہو۔ ان دائروں میں ترقی میں جتنی دیر ہوگی فوجی آپریشن کی بھی اتنی دیر ضرورت رہے گی اور اس کی قیمت انسانی جانوں کی صورت میں ادا کرنا ہوگی۔
موصوف کی نگاہ میں افغانستان میں طالبان اصل مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ کرزئی حکومت اور امریکا کی سرپرستی ہے:
لیکن افغانستان کا دیانت دارانہ جائزہ اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ ہم وہاں نہیں پہنچے ہیں جہاں اب تک پہنچنے کی ہمیں اُمید تھی۔ ملک کے شمال اور مغرب میں تو بڑی حد تک امن ہے اور حالات بہتر ہورہے ہیں لیکن مغرب اور مشرق میں، بغاوت، منشیات اور غیرمؤثر حکومت کی کارفرمائی ہے۔ اپنے ملک کی تعمیرو ترقی میں کمی کی وجہ سے ان کی مایوسی بڑھتی جارہی ہے اور جن ملکوں نے ناٹو کی سربراہی میں کام کرنے والے مشن کے تحت اپنی فوجیں بھیجی ہیں ان کے عوام بھی پریشان ہیں کہ یہ آپریشن کتنی دیر تک چلے گا اور کتنے نوجوان مرد اور عورتیں مزید اس میں اپنی جانیں کھو بیٹھیں گے۔ افغانستان کا بنیادی مسئلہ طالبان کا زیادہ ہونا نہیں، بلکہ اچھی حکمرانی کا بہت کم ہونا ہے۔ افغانوں کو ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو ان کی وفاداری اور اعتماد کی مستحق ہو۔ جب ایسا ہوگا تو بغاوت خود ہی آکسیجن سے محروم ہوجائے گی۔
اور تو اور اب خود کرزئی صاحب بھی گویا ہوئے ہیں۔ کرزئی صاحب اور صبغت اللہ مجددی نے یہ بیانات دیے ہیں (ڈیلی ٹائمز، ۲۱ جنوری ۲۰۰۹ء) کہ مغرب کو دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہیے۔ بیانات کا عنوان ہے:
کرزئی کا مغرب سے جنگ کی حکمت عملی پر نظرثانی کا مطالبہ۔ افغان سینیٹ کے اسپیکر نے کہا کہ اگر مغرب نے احتیاط نہ برتی تو قوم اُٹھ کھڑی ہوگی۔
افغان صدر حامد کرزئی نے منگل کو مغرب سے طالبان سے لڑنے کی اور امداد فراہم کرنے کی حکمت عملی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیرونی افواج کا شہری آبادی کو قتل کرنا افغانستان میں عدمِ استحکام کی بڑی وجہ ہے۔
سیکورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے نتیجے میں گذشتہ برس ۲ہزار شہری مارے گئے۔ مجموعی طور پر ۲۰۰۸ء میں کُل ۵ ہزار افراد قتل کیے گئے۔ سینیٹ کے اسپیکر صبغت اللہ مجددی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر شہری ہلاکتوں کو نہ روکا گیا تو مزید بے چینی پیدا ہوگی۔ ہم بھر پائے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اللہ نہ کرے کہ افغان قوم کھڑی ہوجائے۔ میں نے اپنے امریکی بھائیوں اور دوستوں سے کہا ہے کہ وہ احتیاط برتیں۔ اگر قوم کھڑی ہوگئی تو حالات عراق سے بدتر ہوں گے۔
کرزئی صاحب اور صبغت اللہ مجددی صاحب کی تقاریر افغانستان کی پارلیمنٹ میں کی گئی ہیں۔ فوجی قوت کے استعمال کی حکمت عملی ہر جگہ ناکام رہی ہے (یہی وجہ ہے کہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک ناکامی کا سودا ہے جس سے جتنی جلد نجات پائی جائے بہتر ہے)۔ یہ بش کی ناکامی کا فکری، تجزیاتی اور سیاسی قیادت کی سطح پر اعتراف ہے۔ اس پالیسی کو اس کے ساتھ ہی رخصت ہو جانا چاہیے۔
۲- دوسرا واقعہ جس کے حسن و قبح میں جائے بغیر اس کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اب ایک تاریخی علامت (symbol) کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ وہ واقعہ دسمبر میں بغداد کی پریس کانفرنس میں صحافی زید المنتظری کی جانب سے صدربش کا دو جوتوں سے استقبال ہے جو امریکا کے خلاف نفرت اور اس کی پالیسیوں کی عالم گیر ناکامی کا مظہر ہے۔ نیز ’جوتا پاشی‘ کے موقع پر جو جملے اس نے کہے وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں عام انسانوں خصوصیت سے عرب اور دنیاے اسلام کے عوام کے جذبات کے آئینہ دار ہیں جن میں عراق پر تسلط اور معصوموں کے خون بہانے پر چارج شیٹ کیا گیا۔ پھر جوتے کے ذریعے بش کی رخصتی کی اس ریت کی عالمی طور پر جو پذیرائی ہوئی ہے وہ عوامی ردعمل کا بھرپور اظہار ہے۔ خود امریکا میں ہزاروں احتجاج کرنے والوں نے بش کے فوٹو اور وائٹ ہائوس پر جوتوں کی بارش کر کے بغداد کے پیغام کو امریکا میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیا۔ جوتوں کی اس عالم گیر بارش نے وہ کام کردکھایا جو توپ و تفنگ اور سیمی نار اور تقاریر نہ کرسکیں۔
۳- تیسرا پہلو وہ معاشی اور مالیاتی بحران ہے جس نے امریکا ہی نہیں، پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور جو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خرابیوں، مارکیٹ کی حاکمیت کی تباہ کاریوں اور سرمایہ پرستی کے جنون میں دولت مندوں کی سیاہ کاریوں کے ساتھ بش کی معاشی پالیسیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اقتصادی قیمت (economic cost) کا پیداکردہ ہے۔ عسکری ناکامی، سیاسی ناکامی اور پھر معاشی ناکامی___ یہ تینوں بش اور اس کی پالیسیوں کا مقدر بن گئے ہیں۔
چوتھا پہلو وہ بے عزتی ہے جو بش کو اسرائیل کے ہاتھوں اٹھانی پڑی ہے۔ اس کی جو تفصیلات اب امریکی میڈیا کے ذریعے سامنے آرہی ہیں وہ امریکا کے صدر پر اسرائیلی وزیراعظم کی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ جس ملک کو دنیا کا سب سے امیر اور طاقت ور ملک ہونے کا ادّعا ہے اور جس کے صدر کو دنیا کا طاقت ور ترین شخص کہا جاتا ہے، اسرائیل کے ہاتھوں اس کی کیا درگت بنی ہے، یہ داستان بھی سننے کے اور اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ پر سر دھننے کے لائق ہے کہ جسے چاہے وہ عزت بخشے اور جسے چاہے ذلت کا نمونہ بنا دے۔ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَـآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَـآء (اٰل عمران۳:۲۶)۔ اس واقعہ میں عبرت کے بڑے پہلو ہیں۔
۸جنوری کو اقوام متحدہ میں اسرائیل کی غزہ میں ننگی جارحیت اور حماس کو سبق سکھانے کے نام پر معصوم شہریوں کے کشت وخون، بچوں اور عورتوں کے قتلِ عام، گھروں، دفتروں، مدرسوں اور مسجدوں کو بے دریغ مسمار کرنے کے خلاف عالمی ردعمل کے زیراثر ایک قرارداد کا معاملہ درپیش تھا۔ بڑے ردوکد کے بعد خود کونڈولیزا رائس نے ایک قرارداد پر اتفاق راے کا اظہار کیا اور جیسے ہی اسرائیل کے وزیراعظم کو یہ اطلاع ملی کہ امریکا قرارداد لانے پر تیار ہوگیا ہے، وہ سیخ پا ہوگیا۔ اسرائیل امریکی صدر سے کس طرح ربط قائم کرتا ہے اور کس طرح اس قرارداد پر قرارداد کے محرک کونڈولیزا رائس کو ووٹ دینے سے رکوا لیتا ہے، اس کی روداد پڑھنے کے لائق ہے۔ زیدالمنتظری کا جوتا تو بش کے نہ لگ سکا لیکن اولمرٹ کا جوتا ٹھیک نشانے پر لگا۔ کاش عالمی میڈیا نے بغداد کے جوتے کی طرح امریکا کے اس جوتے کی منظرکشی بھی ساری دنیا کے سامنے کی ہوتی۔
گائن ڈائر (Gwynne Dyer) اپنے مضمون میں حالات کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
اولمرٹ نے ۱۳ جنوری کی جنوبی اسرائیل کے شہر اچکلان کی تقریر میں اس واقعہ کو سرعام یوں بیان کیا گیا ہے: ’’میں نے کہا: میری صدربش سے فون پر بات کرایئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ فلاڈلفیا میں تقریر کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: مجھے اس سے کیا۔ مجھے ان سے ابھی بات کرنا ہے۔ انھوں نے ان کی تقریر رکوائی اور ایک دوسرے کمرے میں انھیں لے کر آئے جہاں میں نے ان سے بات کی۔ میں نے ان سے کہا: آپ اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ انھوں نے کہا: سنو! مجھے اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ میں نے اسے نہیں دیکھا، میں اس کے الفاظ سے واقف نہیں، تو وزیراعظم اولمرٹ نے صدر بش سے کہا: میں اس سے واقف ہوں۔ آپ اس کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ بش نے وہی کیا جو اس سے کہا گیا۔ بش نے سیکرٹری آف اسٹیٹس رائس کو آرڈر بھیجا اور اس نے قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا حالانکہ یہ وہ قرارداد تھی جسے اس نے خود پورا تیار کیا، الفاظ میں ڈھالا، اس کو مربوط کیا اور اس کے لیے حمایت جمع کی۔ وہ خاصی شرمندہ ہوئی اور بالآخر اس نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دیا جسے اس نے خود مرتب کیا تھا۔ سلامتی کونسل نے ۱۴ووٹ سے اس قرارداد کو منظور کیا لیکن امریکا جو اس کا مصنف تھا، اس نے اس پر کوئی راے نہ دی۔
صدر بش سے اسرائیل کے وزیراعظم نے اپنی جارحیت کو جاری رکھنے کے لیے جو کچھ کہا اور کروا لیا وہ کوئی غیر بیان نہیں کر رہاہے۔ یہ اولمرٹ کے اپنے الفاظ میں اور سیکڑوں افراد کی موجودگی میں اپنے کارنامے کا برملا اظہار ہے۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا یہ واقعہ ہے کہ اولمرٹ کے اس بیان کے آنے کے بعد صدربش کے دفتر اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کھلبلی مچ گئی اور بڑی چال بازی سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سین میک کارم نے کہا کہ یہ بیان ۱۰۰فی صد درست نہیں ہے اور وہائٹ ہائوس کے ترجمان نے کہا کہ اس میں کچھ باتیں نادرست (inaccuracies) ہیں لیکن دیدہ دلیری ملاحظہ ہو:
امریکا کی اس ملمع سازی کا پردہ چاک کرتے ہوئے بڑی رعونت کے ساتھ اولمرٹ کے دفتر سے روکھا جواب دیا گیا کہ پیر کو جو کچھ ہوا، وزیراعظم نے اس کو بالکل صحیح بیان کیا تھا۔ (امریکا کے ان بیانوں کی) اسے کوئی پروا نہیں۔
ڈائر اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے:
اولمرٹ کی کہانی پر شبہہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ بہت زیادہ چیں بجیں ہوسکتا ہے مگر وہ یہ کہانی کیوں بنائے گا۔ بہرحال اس نے جو چاہا، وہ حاصل کیا، جب کہ بش انتظامیہ کی تردیدوں پر شبہہ کرنے کی ہر وجہ موجود ہے۔ کہانی سے نہ صرف بش کی ذاتی طور پر توہین ہوتی ہے بلکہ یہ ان شبہات کو تقویت دیتی ہے جو پہلے ہی امریکا میں پھیلے ہوئے ہیں کہ بش کے تحت امریکی کتے کو اسرائیلی دُم مسلسل جھاڑتی رہتی ہے۔ (ڈان، ۲۰جنوری ۲۰۰۹ء)
۵- اس سلسلے کا ایک اور سبق آموز پہلو ۲۰ جنوری ۲۰۰۹ء کی تقریب حلف برداری اور اس موقع پر صدر اوباما کی تقریر ہے جسے سننے کا شرف بش صاحب کو اپنی صدارت کے خاتمے کے بعد پہلے اعزاز کے طور پر حاصل ہوا اور جس میں ان کی کیفیت ’سنتا جا شرماتا جا‘ والی تھی جس کے خاص خاص پہلوؤں پر انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے مضمون نگار ڈیوڈ سینگر نے Obama Speech Sharply Rebukes Bush Policiesکے عنوان سے اپنے مضمون میں نمایاں کیا ہے۔ اس مضمون سے بھی دو اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں:
بارک اوباما کے افتتاحی خطاب میں جارج ڈبلیو بش کے ۸سالہ دور اور اس کے نظریاتی حوالوں کو یہ عہد کر کے کہ امریکا اپنی سابقہ اقدار کی بازیافت کر کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا، کھلم کھلا مسترد کیا گیا تھا۔
بش اور ڈک چینی اوباما سے چند قدم دُور بیٹھے ہوں تو ایک نازک کام تھا۔
مضمون نگار بش کی کس مپرسی کا نقشہ یوں پیش کرتا ہے:
پھر بھی اس نے جو کچھ کہا، بش کو اس سے ضرور صدمہ ہوا ہوگا۔ تنقید اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں، لیکن گذشتہ ۸ برسوں میں اس نے شاید ہی کبھی اس طرح مجبوری کے عالم میں خاموشی سے بیٹھ کر سنا ہوگا کہ کس طرح امریکا اس کی نگرانی میں پٹڑی سے اُترگیا۔
صدر بش کا دور ختم ہوگیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دور کی حماقتوں، زیادتیوں اور تباہ کاریوں سے دنیا کس طرح اور کتنے وقت میں نجات پاتی ہے۔ اصل امتحان دیگر امور کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو سامراجی کھیل بش انتظامیہ نے کھیلا اور پوری دنیا کو تباہی سے دوچار کردیا اس سے نجات کا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ قیادت بش اور مشرف کی پالیسیوں ہی کو آنکھیں بند کرکے آگے بڑھا رہی ہے اور ملک کے حالات کو مزید خرابی کی طرف لیے جارہی ہے۔ پارلیمنٹ نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں جو قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی اور جس میں خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پوری حکمت کو تبدیل کرنے کی ہدایت کی تھی اور فوجی قوت کی جگہ مذاکرات کے راستے کو اختیار کرنے اور تمام فریقوں (stake holders) کو افہام و تفہیم اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل میں شریک کر کے ملک کی آزادی اور وقار کی بحالی اور اسے موجودہ دلدل سے نکالنے کے لیے واضح راہِ عمل کی نشان دہی کی تھی۔ اس پر عمل کے باب میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ دنیا بش کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے اور بش کے اپنے ساتھی اس پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے نئی حکمت عملی کی ضرورت اور سیاسی عمل کو متحرک کرنے کی بات کر رہے ہیں اور زرداری حکومت اس تباہ کن پالیسی پر کاربند ہے۔ حالانکہ سنا یہی ہے کہ ع
ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ!
اسلام کا بنیادی اور آفاقی اصول ہے کہ ایک انسان کا قتلِ ناحق ساری انسانیت کا خون بہانے اور ایک معصوم انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے، اور یہ بھی اسلام کے پوری انسانیت کے لیے رحمت ہونے کی دلیل ہے کہ اس سلسلے میں انسانوں کے درمیان مذہب، رنگ، نسل، جنس کی کوئی تفریق روا نہیں رکھی گئی ہے۔ مسلمان اورغیرمسلم دونوں کی زندگی محترم ہے اور قانون اور انصاف سے ہٹ کر کسی طرح بھی ایک انسان کو اس کی زندگی کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اس اصول کی روشنی میں ممبئی ہو یا راولپنڈی، کابل ہو یا سوات، نیویارک ہو یا بغداد، قتلِ ناحق ایک جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں پر قانون کے مطابق گرفت اور عدل کے تقاضوں کی روشنی میں سزا کا مؤثر اہتمام انسانی معاشرے کو مہذب اور پُرامن رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
ممبئی میں ۲۶ اور ۲۹نومبر ۲۰۰۸ء کے درمیان جو خونیں ہنگامہ برپا ہوا اور ۱۷۳ اِنسانوں کو جس بے دردی سے ہلاک کیا گیا اور سیکڑوں کو زخمی، وہ ایک المیہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور پوری دنیا کے دردمند انسانوں نے اس کی مذمت کی اور اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا۔ لیکن بھارت کی قیادت اور خصوصیت سے وہاں کے میڈیا اور ہندو انتہا پسندی کی تنظیموں نے جس طرح آنکھیں بند کر کے پاکستان اور نام نہاد ’اسلامی بنیاد پسندوں‘ کو نشانہ بنایا اور امریکا، مغربی اقوام اور خود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے انصاف کے تمام مسلّمہ اصولوں کو یکسر نظرانداز کر کے پاکستان کی ایک دینی اور فلاحی تنظیم کو کسی ثبوت اور صفائی کا موقع دیے بغیر موردالزام ٹھیرایا اور پھر پاکستان پر سیاسی، معاشی اور عسکری دبائو کا نہ َختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، اس نے ایک انسانی المیے کو ایک سیاسی کھیل میں تبدیل کردیا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ حکومت نے اس معاملے میں پہلے لمحے ہی سے جس بے بصیرتی اور کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے پاکستان کی مشکلات میںاضافہ اور اس پر منڈلانے والے خطرات کو دوچند کردیا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت اس واقعے کو پاکستان کو دبانے اور علاقے میں اپنے اور امریکی مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ وہ ایک طرف خود اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے اور اپنے فتنہ جُو عناصر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے، ملک میں اپنے ہم نوا عناصر اور آلۂ کار قوتوں کو تقویت دینے اور امریکا اور یورپی اقوام کے تعاون سے پاکستان کو اپنی ایک باج گزار ریاست بنانے اور اس کے سیاسی نقشے میں اپنے مفید مطلب تبدیلیاں لانے کے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بڑی ہوشیاری سے چالیں چل رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے جس طرح اپنے منشور اور سیاسی دعوؤں کی خلاف ورزیاں کی ہیں، ملک کی آزادی، حاکمیت اور سالمیت کو دائو پر لگا دیا ہے، مشرف دور کی پالیسیوں پر جس بھونڈے انداز سے عمل کیا جا رہا ہے، معاشی حالات جس طرح اس کی گرفت سے نکل رہے ہیں، امن و امان کی جو زبوں حالی ہے، اور جس طرح شخصی اقتدار اور مفادات کی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے، اس نے توقعات کے ان آبگینوں کو چکنا چور کردیا ہے جو جمہوریت کے احیا کے بارے میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم کیے گئے تھے۔ ایک امریکی ادارے کے تازہ ترین سروے کے نتائج میں عوام کے ان احساسات کی مکمل عکاسی ہوتی ہے جس کی رو سے ۸۵ فی صد عوام حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور ۱۰ ہی مہینوں میں حکومت سے ان کی مایوسی کی وہی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو مشرف کے دور کے آخری ایام میں تھی۔ بھارت اور امریکا حکومت کی اس کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور علاقے کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے، پاکستان کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار کرنے اور ایسے حالات پیدا کرنے میں مصروف ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی دفاعی صلاحیت بری طرح مجروح ہوجائے اور بالآخر اس کے نیوکلیر اثاثہ جات پر کسی بین الاقوامی ڈھونگ کے سہارے امریکا قبضہ کرسکے۔ یہ دور ازکار خدشات نہیں بلکہ امریکااور مغربی اقوام کے پالیسی ساز اداروں کے بنائے ہوئے سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے بھارت اور امریکا کے اسٹرے ٹیجک تعاون کے اہداف معلوم ہوتے ہیں۔
ممبئی میں جو کچھ ہوا اور اسے جس طرح پاکستان کا گھیرائو کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس کا بے لاگ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت اور مغربی میڈیا میں اس سلسلے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اور بھارت کے ساتھ خصوصیت سے امریکا اور برطانیہ کی قیادت اور میڈیا جو نظریات فروغ دے رہے ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے تو ان میں تین چیزوں کو بڑے سوچے سمجھے انداز میں نمایاں کیا جا رہا ہے۔
۱- یہ سارا خون خرابا پاکستان کی ایک جہادی تنظیم لشکرِطیبہ کا کیا دھرا ہے جو جہادِ افغانستان کے اولیں دور (۱۹۸۰ء) میں وجود میں آئی تھی۔ پھر افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد کشمیر میں جہاد میں مصروف رہی اور اب کشمیر اور افغانستان ددنوں میں سرگرم ہے۔ پاکستان کی حکومت اتنی کمزور ہے کہ اس کی کوئی گرفت ان جہادی تنظیموں پر نہیں اور چونکہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور خود امریکا اور یورپ بوجوہ بھارت اور پاکستان میں دوستانہ روابط کو فروغ دینا چاہتے ہیں تاکہ امریکا کی ’عالمی دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان اہم کردار ادا کرتا رہے اور پاکستانی فوج امریکا کے دیے ہوئے اہداف، یعنی القاعدہ اور طالبان کی سرکوبی میں مصروف رہے۔ البتہ جہادی تنظیمیں اس دوستی کے محل کو درہم برہم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے ممبئی میں یہ خون خرابا کیا گیا ہے تاکہ صلح اور دوستی کا یہ عمل رک جائے۔
یہی وجہ ہے کہ شروع میں بھارت اور امریکا کا پورا زوراس پر تھا کہ یہ کام غیرریاستی عناصر نے کیا ہے اور پاکستان کی حکومت آنکھیں بند کر کے اپنی ساری قوت سے ان غیرریاستی عناصر کی سرکوبی کرے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی سات سال پرانی ایک درخواست کو چشم زدن میں زندہ کر دیا ہے اور لشکرِطیبہ کے ساتھ جماعت الدعوۃ پر پابندی، اس کے تعلیمی اور خدمتی اداروں کی بندش اور اس کی قیادت کی گرفتاری کا اشارہ کردیا۔
بھارتی قیادت بار بار کہہ رہی ہے کہ ممبئی کے مسئلے کا کشمیر کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ خالص بھارت دشمنی پر مبنی عمل ہے۔
۲- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ بظاہر تو یہ کام لشکرطیبہ نے کیا ہے مگر دراصل اس کے پیچھے القاعدہ ہے جس نے نائن الیون کی طرز پر بھارت میں ایک بڑا آپریشن کیا ہے اور اس میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے زعم میں ممبئی کے واقعے کو کشمیر یا پاک بھارت معاملات سے ہٹ کر عالمی دہشت گردی کی جنگ کے ایک حصے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نیویارک، واشنگٹن، میڈرڈ، لندن اور بالی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، اور چونکہ القاعدہ کا ان کی نگاہ میں مرکز اب افغانستان نہیں، پاکستان ہے، اس لیے سارادبائو پاکستان پر ہونا چاہیے کہ کھل کر اور پوری یکسوئی کے ساتھ القاعدہ اور طالبان کا قلع قمع کرنے میں لگ جائے اور اگر حکومت ِ پاکستان نہیں کرتی ہے تو پھر پاکستان پر جنگ مسلط کر کے یہ کام کیا جائے۔ بھارت کے لیے فوج کشی کا جواز تسلیم کیا جائے اور عالمی برادری اس کا ساتھ دے۔
۳- ایک تیسرا نظریہ یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ یا تو پاکستانی حکومت درپردہ اس پورے معاملے میں لشکرطیبہ اور دوسری جہادی تنظیموں کے ساتھ ہے یا سول حکومت کی گرفت فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں پر اتنی کمزور ہے کہ یہ ادارے اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کی کمزور حکومت پر مزید دبائو ڈالا جائے اور اسے مجبورکیا جائے کہ وہ ان تمام قوتوں کو ختم کرے جو بھارت اور امریکہ کی نگاہ میں خطرہ ہیں یا ہوسکتی ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو مجبور کیا جائے کہ جو جو مطالبہ بھارت کرے اس پر عمل کیا جائے اور اگر حکومت اندرونی دبائو یا کسی اور وجہ سے ایسا نہ کرے تو پھر بھارت کو شہ دی جائے اور وہ فوجی کارروائی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرے۔ امریکا اور آئی ایم ایف اپنے اپنے انداز میں یہ دبائو ڈال رہے ہیں۔ امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت ٹڈی دل کی صورت میں پاکستان پر نازل ہورہی ہے اور مزید کارروائیاں کرو (do more)اور خطرے کو سنجیدگی سے لو (take the threat seriously) کے مطالبات کر رہی ہے، حتیٰ کہ امریکی کانگریس نے بھارت کی پارلیمنٹ سے بھی بڑھ کر ایک قرارداد منظور کرلی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔
یہ تین نظریات ہیں جن کے گرد بیش تر تجزیے گردش کر رہے ہیں۔ اس بات کو کہ بھارت اور امریکا دراصل علاقے کے سیاسی نقشے کو بدلنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں محض سازشی نظریہ (conspiracy theory) کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ ان تینوں منظرناموں میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے کہ سب کا ہدف بالآخر پاکستان کو قابو میں کرنا ہے۔ اور جس بات کو کھلے انداز میں نہیں کہا جا رہا حالانکہ وہی اصل ہدف ہے، یعنی پاکستان کو کسی نہ کسی طرح بھارت کی چھتری تلے لے آیا جائے اور اس کے لیے اگر اس کے خدانخواستہ حصے بخرے کرنے پڑیں تو یہ بھی کرڈالا جائے۔ پاکستان کا اسلامی تشخص، قوم کا جذبۂ جہاد اور ملک کی ایٹمی اور دفاعی صلاحیت اصل ہدف ہیں۔ اس سلسلے میں جہادی قوتیں اور آئی ایس آئی کا خصوصی ذکر آتا ہے۔ ماضی میں فوج اور آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں ہمیں بھی شدید ترین تحفظات رہے ہیں اور ملکی سیاست میں ان کی بے جا مداخلت کی وجہ سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی رہی ہیں لیکن ملک کے دفاع اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے کے لیے خفیہ اداروں کا کردار ہر ملک کی ضرورت ہے اور دفاع وطن کے لیے فوج اور ان اداروں کا مضبوط اور مقابلے کی قوت اور صلاحیت سے آراستہ ہونا ازبس ضروری ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ دستور اور ملک کی سیاسی قیادت کے تابع رہیں اور ان پر حاوی نہ ہوجائیں۔ بھارت اور امریکا کا ہدف ان اداروں کو کمزور کرنا ہے، انھیں دستور اور جمہوری نظامِ عمل کا حصہ بنانا نہیں ہے۔ وہ فوجی آمریت جو امریکا نواز ہو اور وہ خفیہ ادارے اور ایجنسیاں جو امریکا کے مقاصد میں ممدومعاون ہوں، ان کا اس کے ’جمہوری ایجنڈے‘ سے کوئی ٹکرائو نہیں ہوتا۔
اس پس منظر میں اگر آپ ممبئی کے خونیں سانحے پر نگاہ ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کسی حقیقی جہادی تنظیم کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور نہ پاکستان کی حکومت ہی کو اس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی فائدہ ہوسکتا ہے۔ جہادی تنظیموں کا اصل میدان اس وقت افغانستان ہے اور ان کا ہدف یہ ہے کہ افغانستان کو امریکا اور ناٹو کی فوجوں کے قبضے سے نجات دلائی جائے۔ ممبئی میں جو کچھ ہوا اس سے انھیں کیا فائدہ؟ اس کا تو اُلٹا نقصان ہے اور کوئی سمجھ دار قیادت جان بوجھ کر خود اپنے پائوں پر کلھاڑی مارنے کی حماقت کیوں کرے گی؟
پاکستان کی موجودہ حکومت جب سے اقتدارمیں آئی ہے، بھارت کے سامنے ریشہ خطمی بنی ہوئی ہے اور زرداری صاحب تو اپنی زندگی کا مشن ہی یہ بتا رہے ہیں کہ وہ بھارت سے دوستی اور معاشی اور ثقافتی اعتبار سے دونوں کو شیروشکر کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک چلے گئے ہیں کہ ان کو ہرپاکستانی میں تھوڑا بہت ہندستانی نظر آتا ہے۔ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر ملک تقسیم ہوا تھا ان کا اس سے وفاداری کا کوئی تعلق اور رشتہ تک نہیں ہے۔ایسے حالات میں حکومت کے کسی کردار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
رہا معاملہ القاعدہ کا، تو خود امریکی اداروں اور قیادت کے ارشادات کی روشنی میں اس کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اپنے بقا کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پھر اس کا اصل ہدف اس وقت امریکا ہے بھارت نہیں۔ فوج اور سامان کی نقل و حرکت اور ضروریات کی فراہمی کے اعتبار سے کوئی آپریشن کرنے کے لیے، اس کے لیے ممبئی سے زیادہ غیرموزوں کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ پھر اسے کیا پڑی (logistics) ہے کہ وہ ممبئی میں جاکر اس نوعیت کا خونیں کھیل کھیلے۔
بھارت کی اب تک کی اعلان شدہ معلومات کی روشنی میں ممبئی کا جو واقعہ سامنے آتا ہے، ذرا دیکھیے کہ اس سے کیا نقشہ بنتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ۲۳نومبر کو یہ ۱۰افراد پاکستانی بحری جہاز کے ذریعے ممبئی کے قریب پہنچ کر کشتیوں کے ذریعے شہر پہنچے۔ سب سے پہلے ریلوے اسٹیشن پر غالباً تین افراد نے خون خرابا کیا اور جب ایک دہشت گرد (جسے اجمل عامرقصاب کہا جا رہا ہے اور اسے زندہ پکڑنے کی بات کی جارہی ہے وہ یہیں) بھارت کی پولیس کے ہاتھ آیا۔ باقی ۷ افراد نے تاج ہوٹل، اوبرائے ہوٹل اور یہودی مرکز پر قبضہ کیا۔ اس حساب سے ہوٹل میں ۴، دوسرے میں ۳ اور یہودی مرکز میں ۲ دہشت گردوں نے کارروائی کی اور ۶۰ گھنٹے تک ممبئی کی پولیس، کمانڈوز اور فوج کو تگنی کا ناچ نچاتے رہے۔ نہ معلوم یہ کون سی ماورائی مخلوق تھی کہ چند مہینوں کی تربیت سے ان میں وہ صلاحیتیں پیدا ہوگئیں اور تاج جیسے عظیم ہوٹل میں جس میں غالباً ۶۰۰ سے زیادہ کمرے ہیں، چار افراد نے سیکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا اور بھارتی کمانڈوز کی پوری فوج ظفرموج کو غیرمؤثر بنائے رکھا۔ یہ کیسے نابغۂ روزگار نوجوان تھے، جو ۳ دن میں ممبئی کی گلی گلی سے واقف ہوگئے اور تاج ہوٹل جیسے عظیم الشان ہوٹل کے چپے چپے پر انھیں قدرت حاصل ہوگئی۔ ہوٹل کی سیکورٹی کے نظام کو انھوں نے غیرمؤثر کردیا۔ پولیس کے اعلیٰ عملے خصوصیت سے انسدادِ دہشت گردی دستوں (ATS) کے تین چوٹی کے افسروں بشمول کرکرے کو، جنھوں نے ہندو دہشت گردوں اور ان کے فوج کے حاضر سروس معاونین کا پردہ چاک کیا تھا، اصل معرکے کی جگہ پر نہیں، ایک ہسپتال کی طرف بلاکر ہلاک کردیا۔
دہشت گردی کے ماہرین کی راے ہے کہ ممبئی جیسا آپریشن مقامی لوگوں کی بھرپور معاونت کے بغیر ممکن نہیں، اور ایسا آپریشن ۱۰ نہیں کم از کم ۵۰ سے ۶۰ افراد کی شرکت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ لندن کے اخبار دی ٹیلی گراف نے اپنی ۱۶ دسمبر ۲۰۰۸ء میں اپنے ممبئی کے نمایندے ڈیمین ایم راے (Damien Mcel Roy) کے توسط سے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ عسکریت پسندوں کو بھارتی عناصر کی معاونت حاصل تھی۔ یہ بھی ایک معما ہے کہ فروری ۲۰۰۸ء سے ممبئی میں کسی بڑے آپریشن کے بارے میں انٹیلی جنس کی مختلف رپورٹیں سامنے آرہی تھیں۔ ستمبر میں پانی کے راستے سے حملے کی رپورٹ بھی آئی۔ امریکی انٹیلی جنس نے بھی کم از کم دو بار رپورٹ دی۔ یہ ساری اطلاعات پولیس کو، حتیٰ کہ بحریہ کو بھی حاصل تھیں مگر ان سب کے باوجود کسی کو ان ۱۰ سرپھرے نوجوانوں کی آمد اور شہر کے پانچ حصوںپر قبضے کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ بھارتی اخبارات نے یہ معلومات بھی دی ہیں کہ تاج ہوٹل کے پاس بحری محافظوں کا ادارہ واقع ہے جس کی اپنی سیکورٹی فورس ہے جو ۱۰ منٹ میں جاے حادثہ پر پہنچ سکتی تھی مگر اسے زحمت نہیں دی گئی اور کمانڈوز کے آنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ ممبئی پولیس کے انسدادِ دہشت گردی دستوں (ATS) کے سربراہ ہیمانت کرکرے اور اس کے دو ساتھیوں کے پُراسرار قتل کے بارے میں بھارت کے وزیرمملکت براے اقلیتی امور عبدالرحمن انتولے (A.R. Antulay) کا بیان بھارتی پارلیمنٹ ہی نہیں پوری سیاسی دنیا میں ہلچل کا باعث ہواہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان پولیس افسروں کی ہلاکت ایک معما ہے جس کی آزادِ تحقیق ہونی چاہیے۔ ان کو کس نے پیغام دے کر ہسپتال کے محاذ پر بلایا اور پھر ہلاک کردیا؟ اس کے لیے انھوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
a victim of terrorism plus something
ان کی موت کا فائدہ بی جے پی اور ہندو دہشت گردوں کے گروہوں کو ہوا ہے، کسی مسلمان گروہ کو نہیں۔ موصوف کے اس بیان پر ہندو انتہاپسند آتش سیخ پا ہیں اور ان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن انتولے صاحب اپنی بات پر قائم ہیں اور ان کے اس موقف نے ممبئی کے پورے ہنگامے کی نوعیت ہی کو بدل کر رکھ دیاہے۔
اب کھلے الفاظ میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ممبئی کے واقعات کا فائدہ کس کو ہوا ہے اور کیا وہی ہاتھ اس کے پیچھے نہیں جو فائدہ اٹھانے والے ہیں؟ برین کلولی (Brian Cloughley) جس کے اہم مضامین یورپ اور ایشیا میں شائع ہوتے ہیں اور جو افواجِ پاکستان پر ایک کتاب کا مصنف ہے، وہ اپنے ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء کے مضمون ممبئی کے واقعات سے فائدہ کس کا؟(Who Benefits from the Mumbai? ) میں لکھتا ہے:
ممبئی کے قتل و غارت سے نہ بھارت کی کانگریس کی اتحادی حکومت کو کوئی فائدہ ہوا ہے، نہ حملہ آوروں کو (سواے ایک کے سب مرچکے ہیں)، اور یقینا پاکستان کو بھی نہیں (جہاں اقوام متحدہ کے مطابق اس سال کے پہلے ۸ مہینوں میں ۱۴۴۵ شہری ہلاک ہوچکے ہیں)۔
پھر فائدہ کسے ہے؟ ایک جواب، بدقسمتی سے یہ ہے کہ بی جے پی، اور آر ایس ایس، وی ایچ پی اور شیوسینا میں اس کے حامیوں کو۔(ڈیلی ٹائمز، ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء)
لندن کے روزنامہ دی گارڈین میں۱۸ دسمبر۲۰۰۸ء کی اشاعت میں سہیل حلیم کا مضمون India's Problems Lie Within شائع ہوا ہے جس میں مضمون نگار ہندستانی مسلمانوں اور ہندو دہشت گردوں کا خصوصیت سے ذکر کرتا ہے۔ مضمون کے یہ حصے خصوصیت سے مطالعے کے لائق ہیں:
جب بھارت اور پاکستان میں کشیدگی ختم ہوجائے اور ممبئی کے حملوں کی گرد بیٹھ جائے تو بھارت کی سیاسی قیادت کو اپنا جائزہ آپ لینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے گروپ اس حملے میں ملوث ہوں، یا پاکستان کی بدنام آئی ایس آئی نے ان کو تربیت دی ہو، یا امداد فراہم کی ہو، لیکن بھارت کے اندر جو گڑبڑ ہے، اس کا الزام پاکستان پر دھرنا سیاسی حکمت کے خلاف ہے۔ دراصل بھارت خود اپنے آپ سے جنگ کی حالت میں ہے۔ ۲۰ برس سے کشمیر کا مسئلہ اپنی انتہا پر ہے اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کا اس سے بھی زیادہ مدت سے۔ مگر بھارت کا خطرناک ترین مسئلہ اقلیتوں سے اس کا سلوک ہے۔ مسلمانوں کے حالات کے بارے میں سچرکمیٹی کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ سماجی، تعلیمی اور معاشی ہر حوالے سے وہ ہندو اکثریت سے بہت پیچھے ہیں۔ سول، فوج اور پولیس ملازمتوں میں ان کی نمایندگی ۴ فی صد سے زیادہ نہیں۔ تعلیمی سہولیات بھی بہت کم ہیں۔ اگر کچھ لوگ آگے نکلتے بھی ہیں تو وہ ہرقدم پر رکاوٹیں پاتے ہیں۔ ہندو قوم پرستوں کے رویے کے ساتھ مل کر یہ ناانصافی کے احساس کو بڑھاتا ہے۔ ۱۶ برس ہوئے بابری مسجد ہندو انتہاپسندوں نے زمین بوس کر دی تھی۔ اس کے بعد کے فسادات میں ایک ہزار مسلمان ہلاک ہوئے۔ تین ماہ بعد ممبئی میں بم دھماکوں میں ۲۵۰ ہندو مارے گئے۔ ہر دو طرف ان واقعات کے ذمہ داروں کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا وہ تقابلی مطالعے کے لیے ایک عمدہ موضوع ہے۔ دھماکوں کے ملزموں نے ۱۵ برس جیل میں گزارے اور اب ان کو سخت سزائیں دی گئی ہیں، جب کہ پہلے والوں کے مقدمے عدالتوں تک بھی نہیں پہنچے۔
۲۰۰۰ء میںگجرات کے فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے، جب کہ زیادہ تر بیانات کے مطابق پولیس تماشا دیکھتی رہی اور مجرموں کو شہہ دی۔
گذشتہ چند برسوں میں بھارت میں جگہ جگہ دہشت گرد حملے ہوئے ہیں: دہلی، جے پور، حیدرآباد، احمد آباد، ورناسی، اجمیر، بنگلور۔ ان سب میں مختلف مسلم تنظیموں کو، مثلاً اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI ) اور انڈین مجاہدین (جس کا نام حال ہی میں سنا گیا) ملوث کیا گیا۔ مسجد اور درگاہیں ان کا نشانہ تھیں۔
وہ لوگ جنھیں قانون نافذ کرنے اور تفتیش کرنے والے اداروں پر پہلے ہی اعتماد نہیں ہے وہ ان واقعات کو اس بات کا ثبوت سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو غیرمنصفانہ طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ان کا سادہ سوال یہ ہے: اسلامی دہشت گرد آخر اپنی عبادت گاہوںکو کیوں نشانہ بنائیں گے؟
اس صورت حال نے ایک اچھا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اگر شفاف تحقیقات ہوں تو انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا آغاز ہوجائے گا۔ مگر گجرات اور بابری مسجد فسادات بھلائے نہیں جاسکتے۔ معاشی اور سماجی فرق دُور کرنے پر زور دینا بڑی اچھی بات ہے مگر ابھی ایسے خاندان، بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں موجود ہیں جو اپنے پیاروں کا افسوس کر رہی ہیں اور انصاف کی منتظر ہیں۔
ایک اورنہایت اہم مضمون بھارت کی مشہور دانش ور اور عالمی شہرت کی ناول نگار ارون دھتی راے (Arundhati Roy) کا ہے جو لندن کے اخبار دی گارڈین میں ۱۳ دسمبر ۲۰۰۸ء کو شائع ہوا ہے۔ یہ پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے۔ آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ:
ہم اپنے المیوں کے باعث اپنے حقوق سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ممبئی المیہ کئی روز تک جاری رہا، اس دوران ہمارے میڈیا چینل ہمیں ۲۴گھنٹے مطلع کرتے رہے کہ ہم ’بھارت کے نائن الیون‘ کا نظارہ کر رہے ہیں۔ جوں جوں برعظیم میں اضافہ ہوا، امریکی سینیٹ کے رکن جان مکین نے پاکستان کو وارننگ دی کہ اگر اس نے ’بدمعاشوں‘ کو گرفتار کرنے میں سُرعت سے کام نہ لیا تو مکین کی ذاتی اطلاع کے مطابق بھارت پاکستان میں ’دہشت گردی کے اڈوں‘ پر فضائی حملے کردے گا اور امریکا بھی کچھ نہ کرسکے گا کہ یہ ’بھارت کا نائن الیون‘ ہے۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ نومبر ۲۰۰۸ء کے آخری ہفتے میں (مقبوضہ) کشمیر کے ہزاروں افراد جن کی نگرانی بھارت کے کئی ہزار فوجی کر رہے تھے، ووٹ ڈالنے کے لیے انتخابی مراکز پر لائنیں لگائے ہوئے تھے لیکن ادھر بھارت کے امیرترین شہر کا امیر ترین حصہ جنگ سے بُری طرح متاثر کپواڑہ کا منظر پیش کر رہا تھا جو مقبوضہ کشمیر کا سب سے زیادہ متاثر ضلع ہے۔
مسز راے مسلمانوں کی زبوں حالی، عیسائیوں پر مظالم، اور ہندو انتہا پسندوں کی ذہنیت اور کھلے کھلے انسانیت کش اقدامات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتی ہیں:
ممبئی کے واقعات ۲۴ گھنٹے تک بھارت کے ۶۷ ٹی وی چینلوں سے نشر ہوتے رہے اور ان پر تبصرے بھی کیے گئے۔ تین دن اور تین راتیں نوجوانوں کا ایک مختصر گروپ (کُل تعداد ۱۰ بتائی جاتی رہی ہے) بھارت میں امن وامان قائم کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تگنی کا ناچ نچاتا رہا۔ بالآخر ان میں سے ۹ کو ہلاک کردیا گیا۔ بھارتی ٹی وی چینل نے حملہ آوروں میں سے ایک کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت بھی نشر کی۔ اس نے اپنا نام بابر بتایا۔ اس نے بابری مسجد کو گرانے، گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور کشمیر میں مظالم کا ذکر کیا۔ جب ٹی وی کے نمایندوں نے کہا کہ وہ تو گھیرے میں آچکے ہیں، ہتھیار کیوں نہیں ڈال دیتے؟ تو اس نے کہا کہ ’’شیر کی طرح ایک دن زندہ رہنا اور پھر جان دے دینا بہتر ہے‘‘۔
بھارت میں دہشت گردی کے مختلف واقعات اور اس سے عیاں ہونے والے طریقِ واردات (pattern) کا قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد محترمہ راے مالے گائوں والے واقعے کا ذکر کرتی ہیں جس کی اولیں ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی تھی اور آئی ایس آئی کو بھی اس میں ملوث کیا گیا تھا۔ مگر حقیقت کیا نکلی اور اس کے بعد اس حقیقت کو دریافت کرنے والے کا کیا حشر ہوا؟ ملاحظہ ہو:
مہاراشٹر کے انسدادِ دہشت گردی دستے (ATS) نے جو مالے گائوں کے ستمبر ۲۰۰۸ء کے دھماکوں کی تحقیقات کر رہا تھا، ایک ہندو مذہبی مبلغ سادھوی پراگیا، ایک نام نہاد خدا پرست سوامی دیانند پانڈے اور بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پروہنت کو گرفتار کیا… شیوسینا، بی جے پی اور آر ایس ایس نے مہاراشٹر کے اے ٹی ایس کی مذمت کی، اس کے سربراہ ہیمانت کرکرے کو برا بھلا کہا، اور دعویٰ کیا کہ وہ ایک سیاسی سازش کا کردار ہے اور اعلان کیا کہ ’’ہندو دہشت گرد نہیں ہوسکتے‘‘۔
ایل کے ایڈوانی نے بڑے بڑے اجتماعات میں ولولہ انگیزتقاریر کیں اور انسدادِ دہشت گردی دستوں کی مذمت کی کہ اس نے مقدس مرد و خواتین پر شبہہ کرنے کی جسارت کی۔
۲۵ نومبر کو اخبارات نے خبر دی کہ اے ٹی ایس مالے گائوں دھماکوں کے حوالے سے وی ایچ پی کے سربراہ پراون ٹوگاڈیا کے بارے میں تحقیقات کررہا ہے۔ اگلے ہی دن قسمت کا کھیل سمجھیے کہ کرکرے ممبئی کے حملوں میں ہلاک ہوگیا۔ اب امکانات ہیں کہ جو بھی نیا سربراہ ہوگا اس پر مالے گائوں دھماکوں کی تفتیش کے حوالے سے سیاسی دبائو ڈالا جائے گا جس کا وہ مشکل سے مقابلہ کرسکے گا۔
Times Now ٹیلی ویژن کے اینکرپرسن ارناب گوسوامی نے اپنی لَے بڑھا دی ہے، اور وہ ان لوگوں کو نام لے کر کھلم کھلا برا بھلا کہہ رہاہے جنھوں نے پولیس اور فوج کے کردار پر سوال اٹھانے کی جرأت کی ہے۔
بھارت میں دہشت گردی کے واقعات کو نائن الیون کے عالمی پس منظر میں رکھ کر امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردوں کی امریکا کے خلاف جدوجہد کا خلاصہ محترمہ راے یوں بیان کرتی ہیں:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکی حکمت عملی اس حد تک تو کامیاب ہے کہ نائن الیون جیسا حملہ اس کے بعد پھر نہیں ہوا ہے لیکن کچھ دوسرے لوگ کہیں گے کہ اب امریکا جن مشکلات سے گزر رہا ہے وہ ان سے بدتر ہیں۔ اگر نائن الیون دہشت گرد حملوں کا مقصد یہ تھا کہ امریکا اپنے اصل رنگ میں سامنے آجائے تو دہشت گردوں کو اس سے زیادہ کامیابی اور کیا مل سکتی تھی؟ امریکی فوج دو ناقابلِ فتح جنگوں میں پھنسی ہوئی ہے جس نے امریکا کو دنیا کا سب سے زیادہ قابلِ نفرت ملک بنا دیا ہے۔ ان دوجنگوں نے امریکی معیشت کو بڑی حد تک ادھیڑ دیا ہے، اور کیا خبر کہ بالآخر امریکی سلطنت کا بھی یہی حشر ہو۔ (کیا یہ ہوسکتا ہے کہ وہی مصیبت زدہ اور بم باری سے تباہ حال افغانستان جو سوویت یونین کا قبرستان بنا ، امریکا کا بھی بن جائے؟)کئی لاکھ افراد بشمول کئی ہزار امریکی فوجی عراق اور افغانستان میں اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ امریکا کے حلیفوں اور ایجنٹوں بشمول بھارت اور باقی دنیا میں امریکی مفادات پر نائن الیون کے بعد دہشت گرد حملوں کی کثرت میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔ جارج بش جس نے نائن الیون پر امریکی ردعمل کی قیادت کی، ایک قابلِ نفرت شخصیت بن گیا ہے، نہ صرف بین الاقوامی طور پر بلکہ اپنے لوگوں کی نظروں میں بھی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے؟
محترمہ راے کہتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف قوانین اور ہوم لینڈ سیکورٹی سے سیکورٹی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ صرف مخالفین کی زبان بندی کے حربے ہیں۔ امریکا تک میں سزایابی کی شرح (conviction rate) صرف دو فی صد ہے۔ جسے ہم دہشت گردی کہتے ہیں، اس کا راستہ اس طرح نہیں روکا جاسکتا۔ یہ ہمارے ہی اپنے کیے کا بدلہ ہے:
اس وقت ہم (بھارت) دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف کا راستہ انصاف کی طرف جاتا ہے اور دوسرا خانہ جنگی کی طرف۔ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ ہم پیچھے بھی نہیں جاسکتے۔ راستے کا چنائو بھارتی حکومت کو کرنا ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جی بالاکشنان (K.G Balakishnan) نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۸ء کو دہلی میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی موجودگی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اپنے خطاب میں بڑے لطیف انداز میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے نام پر دہشت گردی کے موضوع پر بڑا اہم خطاب کیا ہے جسے بھارت کے میڈیا نے تقریباً نظرانداز کیا ہے۔ صرف دی ہندو نے اس کا متن شائع کیا ہے ورنہ سارا آزاد پریس اسے بلاتکلف ہضم کرگیا ہے۔ پورا خطاب پڑھنے کے لائق ہے۔ صرف چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔
جسٹس بالاکشنان بین الاقوامی قانون اور ملکی قانون کے دائرہ ہاے کار کا ذکر کرنے کے بعد ایک بڑے بنیادی مسئلے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں امن کو شدید خطرہ ہے:
مسلّمہ اصول اور ضابطے سرحدپار دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے بین الاقوامی تعاون میں رکاوٹ ہیں۔ مجرموں کو حوالے کرنے یا تفتیش میں تعاون کے لیے دوطرفہ معاہدات نہ ہوں تو دہشت گرد حملوں کی تفتیش کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے قوموں میں باہمی تعاون کے واضح اور مرتب ضوابط نہیں ہیں، اس لیے امریکا جیسے ملکوں نے اپنے اصول خود وضع کیے، مثلاً پیشگی حملے کا اصول تاکہ بیرونی ملکوں میں دہشت گردی کے خلاف کارراوئی کے لیے جواز حاصل ہوسکے۔ لیکن صرف دہشت گردوں کا پیچھا لینا کسی قوم کی خودمختاری کے خلاف من مانی کارروائی کے لیے جواز نہیں ہوسکتا۔
افراد کے اقدام پر حکومتوں کو موردِ الزام ٹھیرائے جانے کے بارے میں بھارت کے چیف جسٹس کہتے ہیں:
ایک دوسرا مسئلہ جو ممبئی کے واقعات سے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کو غیر ریاستی عناصرکے اعمال کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومتوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے جنگجو گروپوں کی سرگرمیوں پر قابو پائیں اور روکیں لیکن یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے دہشت گرد گروپ مغربی ملکوں سے جہاں کی پولیس اور جرائم کی روک تھام کے نظام برعظیم سے زیادہ بہتر اور سخت ہیں، اسلحہ اور مالی وسائل حاصل کرلیتے ہیں۔
بغیر مقدمہ چلائے آزادی سے محروم کردینے کے بارے میں چیف جسٹس فرماتے ہیں:
حالیہ برسوں میں فرد کے حقوق محدود کرنے کے تباہ کن راستے کی سب سے نمایاں مثال گوانتانامو کے اسیروں کے ساتھ سلوک ہے۔یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ہزاروں اسیروں کو طویل عرصے تک بغیر الزام لگائے قید رکھا یا آزادانہ قانونی چارہ جوئی کے مواقع بھی فراہم نہ کیے۔
امریکی انتظامیہ نے ان طریقوں کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ گوانتانامو کے اسیروں کو فوجی کمیشن، ریویو بورڈ اور ریویو ٹریبونلوں کے سامنے اپیل کا حق حاصل ہے۔ ۲۰۰۶ء کے ایک مقدمے میں یہ فیصلہ دیا گیا کہ دہشت گردی کے شبہہ میں گرفتار لوگوں کے ہیبیس کارپس (habeas corpus) کے حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور انھیں سول عدالتوں تک جانے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کا جواز یہ تھا کہ فوجی ٹریبونلوں کو یہ آزادی حاصل نہ تھی کہ وہ ان اسیروں پر مقدمہ چلائیں جنھیں فوجیوں ہی نے گرفتار کیا تھا۔
امریکا، برطانیہ اور بھارت کے دساتیر اور قانونی فیصلوں کی بنیاد پر تفتیش میں استعمال کیے جانے والے تشدد کے حربوں کے بارے میں چیف جسٹس نے فرمایا:
ہمیں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے تعذیب (torture) اور دوسرے جبریہ تفتیشی طریقوں سے محتاط رہنا چاہیے۔ ان تفتیشی طریقوں کی مدد سے عموماً جھوٹے اعترافات کروائے جاتے ہیں۔ یہ دہشت گرد حملے روکنے میں کوئی مدد نہیں دیتے۔ ہمیں تمام افراد کے لیے، خواہ ان کے جرائم کتنے ہی گھنائونے کیوں نہ ہوں منصفانہ مقدمے کے حق کا علَم بردار ہونا چاہیے۔ اگر ہم اس حق میں کمزوری کا مظاہرہ کریں گے یہ تو ان لوگوں کے خلاف جو تشدد اور نفرت کا پرچار کرتے ہیں، اخلاقی کمزوری کا ثبوت ہوگا۔ ہمیں ایک بالغ نظر جمہوری معاشرے اور چند لوگوں کے اقدامات کے درمیان تمیز کرنا چاہیے۔
جسٹس بالا کرشن نے ممبئی اور دہلی کے واقعات کی روشنی میں جس واضح انداز میں قانون کی پوزیشن واضح کی ہے، وہ بھارت کی حکومت ہی نہیں ہماری اپنی حکومت اور امریکا اور یورپ کے بہت سے جمہوری ممالک کی حکومتوں کے لیے ایک تنبیہہ اور واضح رہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کی جان اور اس کی آزادی اور عزت کو جو خطرات نائن الیون کے بعد دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، ان کا مقابلہ انسانی تہذیب کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔مستقبل کا انحصار قانون کی حکمرانی اور سب کے لیے انصاف کے قیام میں ہے۔ انصاف ہی وہ ضمانت ہے جو دہشت گردی سے بھی انسانیت کو نجات دلا سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس سے بھی۔