مسئلہ کشمیر کسی ’زمینی تنازع‘ کا نام نہیں اور نہ یہ دوملکوں کے درمیان جوع الارض کی کسی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ یہ ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کی آزادی اور حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جن کی ریاست کے بڑے حصے پر ایک سامراجی ملک بھارت نے محض طاقت کے بل پر، فوج کشی کے ذریعے قبضہ کرکے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل کو سبوتاژ کیا ہے۔ وہ قوت کے ذریعے آج بھی نہ صرف اس پر قابض ہے بلکہ اس نے اپنے دستور کی دو دفعات (۳۵-الف، اور دفعہ ۳۷۰) کو تبدیل کرنے کے لیے، ترمیمی ضابطے کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور سیاسی عہدوپیمان کا خون کرکے ضم کرنے کا خطرناک کھیل کھیلا ہے۔ جس کے نتیجے میں مقبوضہ جموں و کشمیر، بدترین کرفیو اور شہری و کاروباری زندگی کی مکمل معطلی سے دوچار کیا جاچکا ہے۔ پوری ریاست کے مظلوم، نہتے اور بے نوا شہری ۹لاکھ بھارتی مسلح فوجیوں کی سنگینوں تلے ایک ہولناک اجتماعی جیل خانے (Collective Prison) کی چکّی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ لیکن آفرین ہے کہ ان کی تحریک مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد نہ صرف جاری ہے بلکہ وہ ایک فیصلہ کن موڑ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
یہ غاصب ملک خود اپنے وعدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی بے مثال جدوجہد آزادی اور قربانیوں کو یکسر نظرانداز کرکے فسطائی اور سامراجی فلسفے کی بالادستی قائم کرنے پر بضد ہے۔ اقوام متحدہ بہ حیثیت ادارہ بدستور بزدلانہ لاتعلقی اور مجرمانہ روش پر قائم ہے اور لفظی لیپاپوتی سے زیادہ ایک قدم آگے بڑھنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے مبصروں کی موجودگی اور مسئلے کے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود رہنے کے باوجود، ۷۲برسوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے عملی کوششوں سے دست کش ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں قصۂ پارینہ ہیں اور اس عالمی تنظیم کو اپنے چارٹر کے تحت قیامِ امن اور تصفیہ طلب تنازعات کی دفعات سے بھی کوئی غرض نہیں۔ اب لے دے کے دوطرفہ مذاکرات کے وعظ اور اپیلوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں، اور ان کا بھارت کی طرف سے وہی ایک جواب ہوگا کہ ’’پہلے فضا سازگار ہو‘‘۔یعنی وہ فضا کہ جو خود بھارت کی سفاکی نے خراب کی ہے۔
بھارت کی اصل دل چسپی مسئلہ کشمیر کے حل سے نہیں، صرف اس دبائو سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہوگی، جو ۳۰ سالہ تحریک ِ جہاد نے اس پر ڈالا ہے اور جس کے نتیجے میں بھارت کی فوج اور ایک حد تک سوچنے سمجھنے والے سیاسی عناصر کسی راہِ نجات کی تلاش میں ہیں۔ بھارتی قیادت پوری عیاری کے ساتھ اصل اسباب کی طرف رجوع کرنے کے بجاے ’دہشت گردی‘، ’انتہاپسندی‘ کا راگ الاپ رہی ہے، اور امریکا اور بہت سے مغربی سیاست کار بھی اسی آواز میں آواز ملاتے نظر آرہے ہیں۔ یہ سب نہ نیا ہے اور نہ غیرمتوقع، البتہ سب سے تشویش ناک پہلو پاکستان کے کچھ رہنمائوں کے متعدد متضاد بیانات اور صحافت کے کچھ قلم کاروں کی مغالطہ انگیز خلافِ جہاد مہم ہے، جس کا بروقت نوٹس لینا بہت ضروری ہے۔
امریکا، بھارت، اسرائیل اور ان کے حواریوں نے ایک عرصے سے جہاد کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلا رکھی ہے اور اسے ’دہشت گردی‘ اور ’تشدد‘ کے ہم معنی قرار دیا جارہا ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ خود پاکستان کی انگریزی صحافت میں ’مجاہد‘ کو اب ’جہادی‘ اور ’دہشت گرد‘ بناکر پیش کیا جاتا ہے، اور دفاع پر اخراجات کو غربت اور پس ماندگی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔کبھی دینی مدارس پر پابندیوں کی باتیں کی جاتی ہیں، کبھی ان کو دہشت گردی کے مراکز بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں امریکی سیاسی اور فوجی قیادتوں کی مداخلت بلکہ مداخلت کرنے کی دعوت اور دبے اور کھلے الفاظ میں کشمیر کے مسئلے کے جلد حل ہوجانے کی ہوائیاں اپنے اندر خطرات رکھتی ہیں۔ اس کھیل میں شامل سابق فوجی افسران ہوں یا سفارت کار، سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی قوم کا ایک اصولی اور تاریخی موقف ہے جس سے ہٹ کر کسی فرد کو اس قوم کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ کسی کو یہ حق اور مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلمانانِ جموں و کشمیر، قائداعظم سے لے کر آج تک جس موقف پر قائم ہیں اور جس کے لیے انھوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور تنگی اور غربت کے باوجود ایک عظیم الشان فوج کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں اور ملک کو ایک ایٹمی قوت بنایا ہے، وہ اس بارے میں کسی انحراف یا پسپائی یا سمجھوتے کا تصور بھی کرے۔ یہ قوم غریب ہے اور بٹی ہوئی بھی، لیکن جہاں تک کشمیر کے مسئلے کا تعلق ہے یہ اس کے لیے ایمان و اعتقاد اور زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ زمانے اور وقت کی قید کا بھی پابند نہیں۔ اس جدوجہد کے بارآور ہونے میں جتنی مدت بھی لگے، لیکن مسلمانانِ پاکستان اور مسلمانانِ جموں و کشمیر اس علاقے کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے اپنے حقِ خود ارادیت سے کم کسی بات کو کبھی قبول نہیں کرسکتے۔
اسی طرح یہ کسی خاص جماعت، گروہ یا طبقے کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں قوم، قومی سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان بھی مکمل ہم آہنگی ہے۔ امریکا کو الگ سے اس عمل میں ملوث کرنے کے طرف دار چند طالع آزمائوں کے سوا کوئی پاکستانی اس بارے میں کسی سمجھوتے کو برداشت نہیں کرے گا۔ ماضی میں بھی، جس کسی نے پاکستانی قوم کے اصولی موقف سے انحراف کی کوشش کی ہے، اس کا حشر عبرت ناک ہوا ہے اور مستقبل بھی ان شاء اللہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔
خود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ میں یہ بات واضح طور پر تحریر ہے: ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات، مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے‘‘۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارے قومی دستور کی رُو سے بھی استصواب راے ہی کے ذریعے اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اور وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی پاکستان سے ان کا رشتہ اور انتظام و انصرام کا دروبست قائم ہوگا۔ اس موقف میں کوئی تبدیلی یا اس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں کیوں کہ یہ حق و انصاف پر مبنی اور عالمی قانون اور عہدوپیمان کے مطابق ہے۔ محض غاصبانہ قبضہ، خواہ وہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، اہل جموں و کشمیر کے اس استحقاق کو متاثر نہیں کرسکتا اور پاکستان کے اس موقف کو کمزور یا غیرمتعلق نہیں بناسکتا۔ دستور کی یہ دفعہ اس امر کو واضح کردیتی ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کی قسمت کا آخری فیصلہ کرنے کا اختیار، صرف وہاں کے عوام کو حاصل ہے۔ اس طرح کشمیر کے تنازعے کے بنیادی فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام ہیں۔ یہی وہ پوزیشن ہے جسے اقوام متحدہ کی ۱۸ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے۔
بلاشبہہ پاکستان سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے دلائل اور اس کی تاریخی بنیادیں بھی بڑی محکم ہیں۔ جغرافیائی حیثیت سے دونوں کا ملحق ہونا ہی نہیں، سارا فطری اور تہذیبی نظام مشترک ہے۔ دریائوں کے رُخ اور سڑکوں کے تسلسل، رنگ و نسل کی یکسانی، طریق بودوباش کی وحدت، دین و ثقافت، رسوم و رواج، تہذیبی روایات، تاریخی جدوجہد، سیاسی ہم آہنگی، سب نے کشمیر اور پاکستان کو ایک ناقابلِ تقسیم وحدت بنائے رکھا ہے اور ہمیشہ رکھیں گے۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی شانہ بشانہ شریک تھے اور اصول تقسیم کی رُو سے ۱۷جولائی ۱۹۴۷ء میں کشمیر کی اسمبلی کے منتخب ارکان کی اکثریت نے الحاق پاکستان کا اعلان تک کر دیا تھا اور پونچھ اور شمالی علاقہ جات کے مسلمانوں نے باقاعدہ جنگ آزادی لڑ کر اپنے کو ڈوگرہ راج سے آزاد اور پاکستان سے وابستہ کیا تھا۔
ہم صرف ان حقائق کی بنیاد پر یہ بات نہیں کر رہے بلکہ اس اصول کو بنیاد بنارہے ہیں جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے، جس کی بنیاد پر خود امریکا کے لوگوں نے برطانیہ کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی تھی اور مسلح جنگ کے ذریعے اپنے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے حقِ خود ارادی کے اصول کا اعلان، ’فلاڈلفیا کے اعلامیے‘ کی شکل میں کیا تھا۔ اس پر ریاست ہاے متحدہ امریکا کی بنیاد پڑی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن نے پہلی جنگ عظیم کے بعد ساری دنیا کی قوموں کے لیے اس کا اعلان کیا تھا۔ اسی اصول پربرعظیم کی تقسیم واقع ہوئی اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔
کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کی قسمت سے کھیلے۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں بھی خود یا کسی بیرونی دبائو سے ان کے مستقبل کو طے نہیں کرسکیں گی۔ ان کی اور عالمی ادارے کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ عالمی انتظام میں غیرجانب دارانہ استصواب کے ذریعے ان کو حقِ خود ارادیت کے استعمال کا موقع فراہم کردیں۔ اسی حق کی خاطر وہاں کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب ان کے لیے سیاسی اور پُرامن جدوجہد کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تو اسلام اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے اسی حق کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مسلح جہاد کا آغاز کیا۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس نے آج بھارت کو اور عالمی راے عامہ کو اسے ایک زندہ انسانی مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے۔ محض امن ، غربت سے نجات، ایٹمی جنگ کے خطرات سے بچائو اور عالمی کمیونٹی کی خواہشات کے نام پر کسی کنٹرول لائن کو (جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں) مستقل سرحد میں بدلنے یا تقسیم ریاست کے کسی منصوبے کو جموں و کشمیر کے عوام پر مسلط کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں، اسے مزید بگاڑنے اور دائمی فساد کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہوگا۔ آزادی کی قوتوں کو خاموش یا کمزور کرنے کی ہرکوشش خدا اور خلق دونوں سے غداری کے مترادف ہے۔
اس لیے مغربی یا بڑی طاقتوں کے دبائو پر کوئی مذاکرات اس وقت تک بامعنی اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکیں گے، جب تک:
۱- بھارت صاف الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم نہ کرے کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے وعدوں کے مطابق کریں گے۔
۲- مذاکرات کا اصل مقصد ان کی راے کو معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر آج کے حالات کے مطابق عمل درآمد اور اس کے لیے مناسب انتظام اور اقدامات ہوگا۔
۳- استصواب کے لیے ایک ہی قانونی، سیاسی اور اخلاقی فریم ورک ہے اور وہ اقوام متحدہ کی ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء، ۵جنوری ۱۹۵۱ء اور ۲۴جنوری ۱۹۵۷ء کی قراردادیں ہیں۔ البتہ پاکستان، بھارت اور جموں و کشمیر کے عوامی نمایندوں کی ذمہ داری ہے کہ سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ایک متفقہ لائحہ عمل حقِ خودارادیت کے استعمال کے لیے طے کریں اور جو فیصلہ بھی وہاں کے عوام کریں اسے کھلے دل سے قبول کریں۔
پاکستان کی کسی قیادت، اور کسی عالمی رہنما کو ان تاریخی حقائق اور حق و انصاف پر مبنی اس موقف سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرنے اور جموں و کشمیر کے عوام کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ جس نے بھی اس کے برعکس کوئی راستہ اختیار کیا، یا کرے گا، اسے بالآخر منہ کی کھانا پڑے گی اور وہ حالات کو سنوارنے اور سنبھالنے کا نہیں مزید بگاڑنے کا باعث ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے جو کسی کی خواہش یا سازش سے بدلا نہیں جاسکتا۔
ماضی میں اقوام متحدہ کے ایک سیکرٹری جنرل کوفی عنان صاحب نے کہا تھا: ’’کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ اس لیے اگر بھارت اور پاکستان دونوں درخواست کریں، تب ہی اقوام متحدہ کچھ کرسکتی ہے ورنہ وہ صرف دوطرفہ مذاکرات کی اپیل ہی کرسکتی ہے‘‘۔اور آج کے امریکی صدر ٹرمپ ہوں یا اقوام متحدہ کے موجودہ ذمہ دار، سبھی ’مذاکرات کی بحالی‘ پر زور دے رہے ہیں، حالاں کہ اصل مسئلہ، جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کا اور مقبوضہ کشمیر میں جبر اور ظلم کے راج اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی ایسی پامالی ہے، جو اَب نسل کشی (Genocide) اور آبادی کی نوعیت (demographic composition) ہی کو تبدیل کرنے کی طرف جارہی ہے۔ ’اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے‘ کی تازہ ترین رپورٹیں، اور ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کی متعدد رپورٹیں اس کا کھلا ثبوت ہیں، جب کہ ’ورلڈ جینوسایڈواچ‘ (WGW) نے تو ان مظلوم کشمیریوں کی اجتماعی قبروں کی بھی نشان دہی کی ہے۔
اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن، قوموں کے درمیان معاہدات اور بین الاقوامی یقین دہانیاں کسی زمانی تحدید (Time limitation) کے پابند ہیں؟ ہمارے علم میں ایسا کوئی بین الاقوامی قانون، اصول یا روایت نہیں اور یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ اس طرح تو قانون محض ایک کھیل بن جائے گا اور معاہدات بے معنی اور بے وقعت ہوکر رہ جائیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مکائو (Macau) کے علاقے پر پرتگالیوں نے ۱۵۵۷ء میں قبضہ کیا تھا اور وہ ان کے تسلط میں ساڑھے چار سو سال تک رہا۔ مگر یکم دسمبر ۱۸۸۷ء کے ’معاہدہ بیجنگ‘ کے تحت آخرکار ۲۲دسمبر ۱۹۹۹ء کو چین نے اسے حاصل کرلیا، اور محض ایک طویل مدت تک قبضہ حقائق کو بدلنے کے لیے وجۂ جواز نہ بن سکا۔
کیا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد منظور ہونے والی قراداد ۲۴۲ محض وقت گزر جانے سے ازکار رفتہ (out dated) ہوگئی؟ ۱۷۱۳ء میں یوٹرخت کا معاہدہ واقع ہوا جس کے تحت جبرالٹر کی حاکمیت اسپین سے برطانیہ کو منتقل ہوئی۔ اسپین کے دعوئوں کے باوجود کیا محض وقت کے گزرنے سے معاہدہ کالعدم ہوگیا؟ ۱۸۹۸ء میں ہانگ کانگ کا علاقہ برطانیہ نے چین سے حاصل کیا تھا، لیکن ۹۹سال گزرنے پر برطانیہ کو معاہدے کو پورا کرنا پڑا۔ تائیوان کا معاہدہ بھی اسی طرح وقت گزرنے کے باوجود ایک زندہ مسئلہ ہے۔ مسلم ریاست انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور ہی کو لے لیجیے، جس پر اقوام متحدہ کی قرارداد تو ۱۹۷۵ء میں منظور ہوئی، لیکن عمل ۲۷سال کے بعد ۲۰مئی ۲۰۰۲ء کو ہوا، اور عیسائی اکثریت پر مشتمل مشرقی تیمور ایک الگ ملک کے طور پر وجود میں آیا۔اسی طرح امریکی دھونس اور دبائو کے نتیجے میں مسلم ریاست سوڈان کو دولخت کرنے کے لیے جنوری ۲۰۱۱ء کو ریفرنڈم کرایا گیا اور ۹جولائی ۲۰۱۱ء کو جنوبی سوڈان پر مشتمل عیسائی ریاست قائم کردی گئی۔ اگر ۲۷ سال میں مشرقی تیمور کی قرارداد غیرمؤثر نہیں ہوئی، تو کشمیر کی قراردادیں کیوں غیرمتعلقہ ہوگئیں؟
پھر کشمیر کی قرارداد کا معاملہ محض ایک قرارداد کا نہیں، ایک اصول کا ہے، یعنی حقِ خود ارادیت۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے۔ دفعہ۱، اقوام متحدہ کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ اس کی شق۲ میں صاف الفاظ میں اس مستقل اصول کو بیان کیا گیا ہے، یعنی:
لوگوں کے حقِ خود ارادی اور مساوی حقوق کے حصول کے احترام میں۔
اسی طرح دفعہ ۲ (۴) تمام رکن ممالک کو پابند کرتی ہے کہ:
تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی ریاست کی سیاسی آزادی یا ملکی سرحدوں کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے احتراز کریں گے، یا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کریں گےجو اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف ہو۔
واضح رہے کہ حقِ خود ارادیت اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک ہے۔
کشمیر کی قرارداد کا تعلق حقِ خود ارادیت سے ہے جس پر وقت گزرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۴ء کی دو تاریخی قراردادوں میں بین الاقوامی قانون کو واضح کیا گیا ہے۔ اسے اقوام متحدہ کے تمام ممالک نے بشمول امریکا، بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا ہے۔ ۱۹۷۰ء کا اعلامیہ: دوستانہ تعلقات اور تعاون کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ ہے اور ۱۹۷۴ء کے اعلامیہ کا عنوان: ’جارحیت کی تعریف پر قرارداد‘ ہے۔ یہ دونوں قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے اعلامیے کی مزید اہمیت یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ۲۵سال پورے ہونے پر جس جنرل اسمبلی نے اس کا چارٹر قبول کیا تھا، اسی نے اسے منظور کیا ہے۔
ان قراردادوں میں جن دو بنیادی اصولوں کی وضاحت ہے، وہ دراصل اقوام متحدہ کے چارٹر کی توضیح ہے۔ جس میں حقِ خود ارادیت اور طاقت کے استعمال کے اصول سرفہرست ہیں۔ اس میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ: طاقت کے استعمال کے نتیجے میں جو علاقہ حاصل ہوا ہو، اسے جائز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ نیز یہ کہ نہ جارحیت کے نتیجے میں ملنے والے کسی خصوصی فائدے کو قانونی تسلیم کیا جائے گا۔
ان اعلانات کو اقوام متحدہ ہی کے اجلاس میں آسٹریلیا کے نمایندے نے چارٹر کی دفعہ۱۳ کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کا حصہ قرار دیا تھا۔ (ملاحظہ ہو: بین الاقوامی قانون کی تدوین اور مرحلہ وار ارتقا میں ایک حصہ، نوم چومسکی کی کتاب Power and Prospects ، ۱۹۶۶ء، ص ۲۰۷)
بین الاقوامی قانون کی اس پوزیشن کی روشنی میں سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۴جنوری ۱۹۵۷ء پر نگاہ ڈال لیجیے جس میں مقبوضہ کشمیر کی اُس نام نہاد دستور ساز اسمبلی کو غیرمؤثر قرار دیا گیا ہے جس نے بھارت سے الحاق کی توثیق کی تھی، اورصاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسمبلی کی قرارداد اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اور اس کے انتظام میں استصواب راے کا بدل نہیں اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب راے کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔
اور اگر اس بارے میں کسی کو کوئی شبہہ ہو تو عالمی ماہرین قانون کے کمیشن کی اپریل ۱۹۹۴ء کی رپورٹ کا مطالعہ کرے جن میں کشمیریوں کے اس حق کا ان صاف الفاظ میں اعتراف کیا گیا ہے اور اسے وقت کی گردش سے آزاد حق مانا گیا ہے:
کشمیریوں کا حق اُس حق کی بنا پر ہے جو کسی علاقے کے غیرملکی غلبے سے آزاد ہوتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو اپنے لیے یہ انتخاب کرنے کا ہوتا ہے کہ بعد میں قائم ہونے والی (Successor) ریاستوں میں سے کس ریاست میں شامل ہوں۔ یہ حق ایک قائم شدہ آزاد ریاست سے علاحدگی کے قابلِ بحث حق سے بالکل ممتاز اور جدا ہے اور یہ ہندستان سے اس کے علاقوں میں سے کسی کی علاحدگی کے لیے مثال نہیں بنتا۔
تقسیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام کو جس حقِ خود ارادی کا استحقاق حاصل ہوا تھا، وہ ابھی تک استعمال نہیں ہوا اور نہ ختم ہوا ہے اور اس لیے آج بھی قابلِ استعمال ہے۔
اس لیے یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو درپیش ہر خطرے کا خود نوٹس لے اور تمام ارکان کی طرف سے عملی اقدام کرے۔ دفعہ ۲۴ کے مطابق:
اقوامِ متحدہ کی جانب سے فوری اور مؤثر اقدام یقینی بنانے کے لیے اس کے ممبران عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اوّلین ذمہ داری سلامتی کونسل پر ڈالتے ہیں۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اس ذمہ داری کے تحت اپنے فرائض کی ادایگی کا عمل سلامتی کونسل ان کی جانب سے کرتی ہے۔
اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ہرملک کا اتفاق کرنا ضروری ہے یا اس کا اطلاق صرف باب ہفتم کی قراردادوں پر ہے۔ اس شرط کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی جارح کے خلاف اقدام نہ ہوسکے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف اقدام کو کیوں قبول کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ دفعہ ۲۵ میں کہا گیا ہے:
اقوامِ متحدہ کے ممبران موجودہ چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کے فیصلوں کو قبول کرنے اور بجالانے کو تسلیم کرتے ہیں۔
پھر دفعہ ۳۳ میں ہر تنازعے کے تمام فریقوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خود، یا اقوامِ متحدہ کے ذریعے، تمام تنازعات کے پُرامن تصفیے کے لیے اقدام کریں گے۔ دفعہ ۳۶ ، اور ۳۷ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ مناسب اقدامات اور طریقۂ کار تجویز کرے، خصوصیت سے ان معاملات میں جہاں دفعہ۳۳ کے تحت کارروائی نہ ہوپارہی ہو۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر ان دفعات پر عمل نہ ہورہا ہو تو یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ باب ہفتم کی دفعہ ۵۱-۳۹ کے تحت کارروائی کا اہتمام کرے۔
یہ یاد دلانے کی بھی ضرورت ہے کہ اعلانِ لاہور، معاہدۂ تاشقند یا شملہ معاہدہ دو ملکوں کے درمیان معاہدے کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء اور ۵جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں بین الاقوامی معاہدات کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے بارے میں ان کے چارٹر کی دفعہ ۱۰۳ یہ کہتی ہے:
اقوام متحدہ کے ممبران کے فرائض میں، جو موجودہ چارٹر کے مطابق طے ہیں، اور کسی دوسرے بین الاقوامی معاہدے کے تحت فرائض میں اگر کوئی تنازع ہو، تو موجودہ چارٹر کے تحت متعین فرائض رُوبۂ عمل آئیں گے۔
اس سب کی موجودگی میں اقوامِ متحدہ کے ذمہ داران اور دوسرے قائدین کا، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ سے مجرمانہ پہلوتہی اور محض مذاکرات کی بات اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوامِ متحدہ صرف طاقت ور ملکوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ ان کے مفادات کے لیے تو سب دفعات حرکت میں آجاتی ہیں، خواہ معاملہ عراق کا ہو، یا مشرقی تیمور اور سوڈان کا۔ اور اگر ان کا مفاد نہ ہو تو کمزور ملکوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں، اور ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو راستہ بھی انھیں نظر آئے خود اختیار کریں۔ چومسکی نے صحیح کہا ہے کہ یہی رویہ پورے عالمی نظام کے لیے خطرہ ہے:
ایسے لوگوں کی قسمت دائو پر لگی ہے جنھوں نے سخت تکلیفیں اُٹھائی ہیں اور اب بھی اُٹھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عالمی نظام اور بین الاقوامی قانون کی بنیادیں بھی دائو پر لگی ہیں بشمول طاقت کے استعمال اور ناقابلِ تنسیخ حقِ خود ارادی کے یو این چارٹر کے اہم اصول کے، جو تمام ریاستوں پر لازمی اور فرض ہے۔ (کتاب مذکور، ص ۲۰۴)
جب عالمی طاقتوں اور خود اقوامِ متحدہ کا عملاً یہ حال ہو تو پھر کمزور ملکوں اور قوموں کے لیے کیا راستہ رہ جاتا ہے بجز اس کے کہ جو قوت بھی ان کو حاصل ہو ___ سیاسی اور عسکری___ اسے اپنے حق کے دفاع اور اپنی آزادی کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ عقل، اخلاق اور بین الاقوامی قانون مظلوم کو ظلم کرنے کے خلاف جدوجہد اور مقبوضہ علاقوں اور لوگوں کو اپنی آزادی کے لیے قوت استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسے ان کا ایک جائز حق تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون طاقت کے ہراستعمال کو تشدد اور دہشت گردی قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی، ایک معروف حقیقت ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور چارٹر کے تحت اجتماعی طور پر قوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حق خو دارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں، اقوامِ متحدہ نے ان کی تائید کی اور آزادی کے بعد انھیں آزاد مملکت تسلیم کیا۔ گویا بین الاقوامی قانون نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ایک ماہر کرسٹوفر او کوئے (Christopher O. Quaye) نے اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں کا ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مندانہ قرار دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law، فلاڈلفیا، ٹمپل یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۱ء، ص ۲۸۲)
یہی مصنف صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ: ’’دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں‘‘(ص۱۷)۔نیز یہ کہ: ’’اقوام متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ حقِ خود ارادی کی ہرجدوجہد قانونی اور جائز ہے‘‘۔ (ص ۲۶۱)
بین الاقوامی امور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہر استعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:
دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک کا دہشت گرد، دوسرے کا آزادی کا سپاہی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کرسکا ہے۔(ص ۱۷۷)
لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حقِ خود ارادیت ایک مسلّمہ حق ہے، جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں:
سیاسی حقِ خود ارادی لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے اعلانِ آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوقِ انسانی میں مضمر ہے۔ اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔(ص ۴۷۷-۴۷۸)
ہارورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے اپنی کتاب The Clash of Civilizations and The Remaking of World Order (نیویارک، ۱۹۹۷ء) میں دہشت گردی کے خلاف سارے غم و غصے کے باوجود یہ اعتراف کیا ہے:
تاریخی طور پر دہشت گردی کمزوروں کا ہتھیار ہے، یعنی ان لوگوںکا جو روایتی عسکری طاقت نہیں رکھتے۔ (ص۱۸۷)
اور اس خطرے سے بھی متنبہ کیا ہے کہ:
دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیار علاحدہ علاحدہ غیرمغربی کمزور قوموں کے ہتھیار ہیں۔ اگر، یا جب بھی، یہ ایک ہوئے، غیرمغربی کمزور ملک طاقت ور ہوجائیں گے۔ (ص ۱۸۸)
ہن ٹنگٹن کی بات تو ایک جملہ معترضہ تھی لیکن اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کا حقِ خود ارادیت ایک مسلّمہ قانونی حق ہے اور اگر بھارت، اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس حق سے ان کو محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، تو انھیں اپنی آزادی کے لیے ہرطرح کی جدوجہد کا، بشمول قابض دشمن کے خلاف قوت کے استعمال کا، حق حاصل ہے اور اسے کسی طرح بھی دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بھارت کے ایک چوٹی کے وکیل کے بالاگوپال (K Balagopal) وہاں کے اہم مجلے اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی (۱۷ جون ۲۰۰۰ء) میں ’دہشت گردی‘ کے مسئلے پر TADA (بھارت کا انسداد دہشت گردی کا قانون) پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’ٹاڈا‘ کے مقاصد کے لیے جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے ، وہ سیاسی عسکریت ہے۔ سیاسی اور اجتماعی عسکریت میں دہشت کا ایک عنصر، جو ضروری نہیں کہ کم ہو، شامل ہے لیکن یہ اصل بات نہیں ہے۔ اصل چیز جو اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں ہے۔(ص۲۱۱۵)
بالاگوپال نے سیاسی عسکریت کو مجرمانہ دہشت گردی سے ممیزکیا ہے اور بھارتی قیادت کو متنبہ کیا ہے کہ:
اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈمیں عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت، دیانت داری سے یہ سمجھتی ہے کہ ’’ہم بھارتی نہیں ہیں اور ہم کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو بھارتی سمجھیں‘‘ ۔ یقینا یہ بہت ہی نامناسب ہے کہ اس وسیع البنیاد عوامی احساس پر انھیں سزا دی جائے۔ (ص۲۱۲۲)
موصوف کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ’بھارت میں تشکیل کردہ اور نافذ شدہ قوانین جو ظالمانہ، استبدادی ذہنیت کے عکاس ہیں، کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔ وہ سیاسی عسکریت کا مداوا نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے‘۔
اس پس منظر میں اب یہ آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ کشمیر میں عسکریت ظلم کی پیداوار ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف ان کو محض بندوق کی گولی کی قوت پر زیردست رکھنا ممکن نہیں۔ اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں ایک مشہور صحافی گوتم ناولکھا (Gautam Navalakha) نے لکھا ہے:
یہ قابلِ ذکر ہے کہ عسکریت بھارتی [مقبوضہ] کشمیر میں شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا جو لوگوں کے ہتھیار اُٹھانے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا، اور ایسا جب ہوا تھا جب قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر ہر جمہوری راستے کو بند کر دیا گیا۔ اختلاف کو کچلا گیا۔ مطالبات مسترد کر دیے گئے۔ حکومت کی فوجی کارروائیاں کشمیری عوام کو مغلوب کرنے میں ناکام ہوگئیں۔ فدائیوں کے حملے روکنے کے لیے سیکورٹی فورسز کچھ زیادہ نہیں کرسکتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں CRPF کے انسپکٹر جنرل نے ایک انٹرویو میں کہا : ’’مجھے صاف کہنا چاہیے کہ فدائی حملے کا سرے سے کوئی جواب نہیں ہے۔ فوج کا کم سے کم ایک حلقہ اس بارے میں واضح ہے کہ فدائی حملے جاری رہیں گے، جنگ بندی ہو یا نہ ہو اور کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ کشمیر میں فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ دبائو کے تحت فوجیوں کا اپنے ہی ساتھیوں اور افسروں کا قتل کرنا خود اپنی کہانی کہہ رہے ہیں۔
یہ احساس اب تقویت پکڑ رہا ہے کہ عوام کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ موصوف نے لکھا ہے:
جو لوگ ظلم و جبر کے تحت زندگی گزار رہے ہوں، جن کا وجود شناختی کارڈ سے ثابت ہوتا ہو، جن کی نجی زندگی کو جب چاہے برباد کیا جاسکتا ہو، جن کو احتجاج کے حق سے محروم کیا گیا ہو، ایسے لوگوں کے لیے آزادی اپنا ایک معنی رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے آزادی ان کی اور ان کی تہذیب کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی واحد راستہ ہوتا ہے، جس سے وہ اپنی انسانی حیثیت کو حاصل کرسکتے ہیں۔ اس عوامی کیفیت (Mood) کی بہترین مثال [کشمیر میں]حزب المجاہدین کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ جو مکمل طور پر سب سے بڑے مقامی عسکری گروپ کی حیثیت سے متحرک نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں عوامی سوچ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کی رضامندی نہ ہو تو عسکری اقدامات نہیں کیے جاسکتے۔ وہ اس موقف پر قائم ہیں کہ اصل فیصلہ کن عامل جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔
جموں و کشمیر کے مسلمان جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کی جرأت کا تو یہ حال ہے کہ وہ جنازوں میں شرکت کرتے وقت بھارتی فوجیوں کی بے رحمانہ فائرنگ تک کو پرِکاہ کی حیثیت نہیں دیتے۔ اسی لیے بھارت کے کچھ تجزیہ نگار اب یہ کہنے کی جرأت بھی کر رہے ہیں کہ ’سرحد پار دہشت گردی‘ کا واویلا مبنی بر کذب ہی نہیں، حماقت ہے۔ نئی دہلی کے اخبار سنڈے پاینیر نے ’سرحد پار دہشت گردی‘ کے بارے میں کہا ہے:
یہ جھوٹ ہے اور خطرناک حد تک سادہ بات ہے۔ دہشت گردی عوامی بے اطمینانی سے پرورش پاتی ہے اور عوامی بے اطمینانی غیرہمدردانہ حکمرانی سے پھیلتی ہے۔
مزید اعتراف کیا گیا ہے کہ:
تنازع کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ بھارتی فوجیں عوام کو قتل کرسکتی ہیں لیکن جدوجہدِ آزادی کو کچل نہیں سکتیں۔ یہ معلوم کرنا بے حد آسان ہے کہ ہم کشمیر پر کب اور کیوں ہولناک غلطی کا شکار ہوئے؟ جو بات آسان نہیں ہے، وہ واپس نکلنے کا راستہ معلوم کرنا ہے۔ جنگ بندی کوئی حل نہیں ہے۔ یہ مقصد کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے۔
جس مقام پر اس وقت بھارت کی قیادت اور دانش ور ہیں، وہاں سے اگلا قدم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھیں جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کی بالادستی تسلیم کرنا ہوگی۔ پاکستان اور تحریک مزاحمت کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس نازک مرحلے کو صبروہمت اور جرأت و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنے اور تیز تر کرنے کے لیے استعمال کرے۔ ایک قدم کی لغزش بھی حالات کو متاثر کرسکتی ہے۔
یہاں اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں بھی بھارت کی حکمت عملی یہی تھی کہ ’جنگ بندی‘ تسلیم کرلو مگر استصواب اور مسئلے کے حل کی بات مؤخر کردو۔ تاہم، ہمارا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اندرونی اور بیرونی دبائو نہ صرف جاری رہے، بلکہ بھارت کے لیے اپنے قبضے کو باقی رکھنا عسکری، سیاسی اور معاشی، ہراعتبار سے ممکن نہ رہے۔ گوتم ناولکھا نے بھارت کے طریق واردات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اس پر پاکستانی قیادت اور صحافت کے ان کرم فرمائوں کو غور کرنا چاہیے، جو وقت بے وقت غیرمشروط مذاکرات کے لیے بے چینی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ گوتم نے بیان کیا ہے:
ماضی کا ایک پیغام ہے۔ بھارتی حکومت نے کئی بار یہ مظاہرہ کیا ہے کہ یہ اسی وقت بات سنتی ہے جب لوگ ہتھیار اُٹھا لیں۔ مسلح گروپوں کو سر پہ بٹھاتی ہے، مگر غیرمتشدد تحریکوں کو حقیر گردانتی اور نظرانداز کرتی ہے اور یہ خواہ مخواہ کی بات نہیں ہے۔حُریت کانفرنس نے غیرمتشدد جدوجہد کو اختیار کیا ہے، مگر اسے مسلسل نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسے پُرامن مہم چلانے یا احتجاجی مظاہرے کرنے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ اس کے بالمقابل باغیوں کو تحریک پر حملہ کرنے اور نفرت کی بنیاد پر قائم شیوسینا، سنگھ پری وار اور پَنن کشمیر جیسوں کو کھلی آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے یہ توقع کرنا کہ جنگجو مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر غیرمسلح ہوجائیں، عبث ہے۔ رائفلیں بھی اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گی، جب تک کوئی پُرخلوص کوشش نظر نہیں آتی۔
گذشتہ عشروں سے آزادی کے لیے ناگا تحریک [ناگالینڈ، شمال مشرقی ہند کی بھارتی ریاست ہے جہاں ۸۸ فی صد عیسائی، ۸ فی صد ہندو اور ڈھائی فی صد مسلمان ہیں] کے ساتھ جو برتائو کیا گیا ہے، وہ سامنے ہے۔ زیرزمین ناگا تحریک کے ساتھ کئی بار جنگ بندی ہوئی، جس کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر مذاکرات ہوئے (کئی بھارتی وزیراعظم زیرزمین ناگالیڈروں سے مل چکے ہیں)۔ حکومت نے ایسے ہرموقعے کو ان میں تفریق ڈالنے کے لیے استعمال کیا، اور ان کے ایک حصے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تصفیہ کا اعلان کیا اور کہا کہ حالات معمول پر آگئے ہیں اور مسئلہ حل ہوگیا لیکن ناگا عوام ہربار پھر بغاوت کرتے نظر آئے۔ مسلح جدوجہد کو شکست نہ دی جاسکی بلکہ بی ایس ایف خصوصاً فوج پھنس کر رہ گئی۔ بھارتی فوج کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، لیکن وہ پُرعزم عوام کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہ تلخ سبق بھارتی فوج نے ناگا زیرزمین سے اپنی جنگ میں سیکھا ہے۔ اب نہ صرف غیرمشروط مذاکرات ہورہے ہیں بلکہ تین سال کی ٹال مٹول کے بعد حکومت نے تسلیم کرلیا ہے کہ مطالبے کے مطابق جنگ بندی تمام ناگاعلاقوں کے لیے ہے۔
اسی طرح حُریت کانفرنس اور پاکستان کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات کے بغیر امن کا عمل سطحی ہوکر رہ جاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں ایک طرف ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ قانون کی حکمرانی بحال ہو اور دوسری طرف ایسے اشارے ہوں جس سے بھارت اور پاکستان میں امن چاہنے والوں کو تقویت ملے۔
بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی اور چال بازیوں، اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی اور بے توجہی، تحریک مزاحمت کی قربانیاں اور خود بھارت میں ایک نئی سوچ کے آثار تقاضا کرتے ہیں کہ ثابت قدمی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھا جائے۔ اصولی موقف پر دل جمعی اور استقا مت سے تحریک آزادی کی مکمل حمایت اور ممکنہ مددو استعانت کی جائے۔ عالمِ اسلام اور دنیا کی تمام انصاف پرور اور آزادی پسند قوتوں کو متحرک اور منظم کرنے کی جان دار مہم چلائی جائے۔
کشمیر کے مسلمانوں کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے، تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ بھارتی ظلم کے خلاف ہرممکن ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر کارفرما ہوکر اہل جموں و کشمیر اپنے ایمان، اپنی آزاد ی اور اپنی ثقافت و تہذیب کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ان کی اس جدوجہد میں مدد ہی کے ذریعے پاکستانی قوم اپنا فرض ادا کرسکتی اور خود اپنی سرحدوں کی حفاظت کرسکتی ہے۔ بلاشبہہ جہاد اور محض جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور خود قرآن نے ’حرب‘ کی اصطلاح کو ترک کرکے ’جہاد‘ کی اصطلاح کو اختیار کرکے ان کے فرق کی ہم کو تعلیم دی ہے۔
جہاد، فی سبیل اللہ کی شرط سے مشروط ہے اور ان آداب اور احکام کے فریم ورک میں اسے انجام دیا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں۔ نیز جہاد ان ہی حالات میں فرض ہوتا ہے جو شریعت نے طے کر دیے ہیں۔ ان تمام اُمور کی روشنی میں ، فلسطین ہو یا جموں و کشمیر، جو جدوجہد مسلمان کر رہے ہیں، وہ جہاد ہے۔ اس میں ان کی مدد و نصرت تمام مسلمانوں پر اور خصوصیت سے پاکستانی مسلمانوں پر لازم ہے۔
ہم ۲۷ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی مؤثر اور مدلل تقریر کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس معنویت کی تحسین کرتے ہیں کہ انھوں نے ثالثی کی نعرے بازی کو اپنے خطاب میں کوئی جگہ نہیں دی اور پوری توجہ، حقِ خود ارادیت پر مرکوز کیے رکھی۔ یہی درست، قانونی اور اخلاقی موقف ہے۔
تاہم، بھارت اس وقت جس دلدل میں پھنسا ہے، اس سے نکلنے کے لیے حسب ِ روایت وہ جو ہتھکنڈے استعمال کرے گا ، ان کا ادراک ضروری ہے:
اس لیے ہم واضح لفظوں میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران بھارت کی جانب سے درندگی اور غیرانسانی اقدامات کی بدترین مثالیں قائم کرنے کے نتیجے میں بھارتی حکومت، عالمی سطح پر دبائو میں آئی ہے۔ ماضی کا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ بھارت بہت جلد، ممکن ہےدو ماہ کے اندر ’’مذاکرات شروع کرنے پر راضی‘‘ ہونے کی چمک دکھائے۔ جو درحقیقت مسلم دنیا کے ایک حصے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور عالمی سطح پر اقوام کو فریب دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ایسا موقع جب بھی آئے گا اور جلد آئے گا، تو پاکستان کے حکمرانوں کو ہوشیار رہنا ہوگا کہ وہ موجودہ نفرت پرور بھارتی آر ایس ایس مافیا کے اپنے ایجنڈے کے تحت مذاکراتی پیغام ہوگا۔ اس لیے پاکستانی پارلیمنٹ اور دفترخارجہ اور میڈیا کو ان امکانی چالوں کا پیشگی اندازہ ہونا چاہیے اور کشمیر کی مناسبت سے گذشتہ تمام ’’پاکستان بھارت مذاکرات‘‘ کا ایک زائچہ مرتب کرکے نگاہوں کے سامنے رکھنا چاہیے کہ مذاکرات کب اور کس شکل میں شروع ہوئے؟ ان سے بھارت نے کیا حاصل کیا؟ مذاکرات کیسے اور کن چالوں سے ختم کیے گئے؟ ان کے بعد فضا میں تنائو کو بڑھانے کے لیے کس نوعیت کی نعرے بازی کی گئی؟ اور اس ساری مشق کے دوران کشمیر کے مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے اور عتاب نازل کرنے کا موسم کس طرح گولہ بارود کی بارش کرتا رہا؟
ہم بڑے واشگاف لفظوں میں یہ بیان کیے دیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر نہ دوطرفہ مسئلہ ہے، نہ تولیت کا معاملہ ہے، اور نہ ثالثی کی کاک ٹیل پارٹی کا سامانِ ضیافت۔
اس معاملے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس میں بنیادی فریق کشمیر کے عوام اور ان کی وہ قیادت ہے، جس نے مسلسل جدوجہد آزادی کی قیادت کی، صعوبتیں برداشت کیں اور قربانیاں دی ہیں۔ اس لیے کبھی اور کسی سطح پر اس نوعیت کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے، جیساکہ صدر جنرل پرویز مشرف نے بھارت کو پیش کشوں کے ذریعے کیا تھا۔ یہ چیز قومی موقف کی نفی اور عالمی فیصلوں سے رُوگردانی تھی اور اگر آیندہ کسی نے ایسا کیا تو وہ گویا آگ سے کھیلے گا۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بھارتی حکومت کے غیرآئینی اور غیراخلاقی اقدامات کے بعد، اعلانِ تاشقند اور شملہ معاہدہ کی کھائیوں میں پھنسے مخمصے کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ بھارت نے یک طرفہ طور پر ان معاہدوں میں دوطرفہ مکالمے کے ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ آج ۶۰ روز کے بدترین کرفیو اور بھارتی فیصلوں سے پیدا شدہ تنائو، بھارت کے خلاف فضا کو نام نہاد دو طرفہ مذاکرات کا موضوع نہیں بننا چاہیے۔ تمام ظلم، دھاندلی اور وعدہ خلافیوں سے لتھڑے بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے پاکستان کو’اعتماد سازی‘ جیسی نفاق پر مبنی اصطلاح کا اسیر نہیں بننا چاہیے، بلکہ مسئلہ کشمیر پر اس عالمی بیداری کو، اقوام متحدہ کے تحت حل کرانے اور حقِ خود ارادیت کے حصول کی طرف توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
اگر آج پھر اس بے معنی مذاکراتی چکّر میں پھنس گئے تو ۳۵-الف کی ترمیم چند برسوں میں مسلم آبادی کا توازن بگاڑ کر رکھ دے گی اور ممکن ہے چند تاجروں کو بھی کچھ مادی فائدہ پہنچ جائے، لیکن اس سے مسئلہ کشمیر پھر ایک طویل عرصے کے لیے مزید گہرے کنویں میں ڈبو دیا جائےگا۔
اندریں حالات دفترخارجہ کو پوری توجہ اور قوت اس جانب لگانی چاہیے کہ ہم کسی ایک بڑے یا چھوٹے ملک، مسلم یا غیرمسلم ملک کی ’ثالثی‘ کے زہر کا پیالہ نہیں پئیں گے، بلکہ ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرائیںگے اور انھی کو مانیںگے۔ اس اصولی موقف سے جب بھی ایک انچ قدم پیچھے ہٹایا گیا تو یاد رکھیے یہ بدترین غداری ہوگی۔
زنیرہ کومل، کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے اپنے مضمون: Untill Kashmir is Free, War It Will Be (Milestones: Commentry on the Islamic World ۲۱؍اگست ۲۰۱۹ء) میں ایک کشمیری نوجوان لڑکی جس کا نام احتیاطاً تبدیلی کے ساتھ عائشہ بتایا گیا ہے کہ اس کے دو بھائی یکے بعد دیگرے جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں اور وہ خود ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔ وہ اپنے جذبات، احساسات اور عزائم کا اظہار اپنے اشعار میں کرتی ہے۔ ہم اس کے چند اشعار پر اپنی گزارشات کو ختم کرتے ہیں اور اللہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ مظلوموں کی اس جدوجہد کو جلد کامیابی سے ہم کنار فرمائے گا:
کہتے ہیں کشمیر جنّت ہے
جنّت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی
اے کافرو! ہٹ جائو کشمیر ہمارا ہے
سارے کا سارا ہے
میں کہتی ہوں کشمیر کی آزادی تک
جنگ رہے گی، جنگ رہے گی
عائشہ کے اشعار ایک فرد کے نہیں، ایک قوم کے جذبات، احساسات اور عزائم کے آئینہ دار ہیں۔ دو بھائیوںکی قربانی دے کر اور خود زخم کھا کر پوری قوم کی آواز بن گئے ہیں۔ جس قوم کی ستم زدہ اور زخموں سے چور لڑکیوں کے یہ عزائم اور یہ اُمنگیں ہوں، ان کو گولی اور چھرّوں سے خاموش اور محکوم نہیں بنایا جاسکتا۔
آج ہماری بہت سی مشکلات میں سے کچھ تو اجتماعی اُمور سے متعلق ہیں، کچھ کا تعلق حکومتوں سے ہے، اور کچھ انفرادی نوعیت کی ہیں۔ اس آخری قسم سے تعلق رکھنے والی مشکلات کے سرسری جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو حل کرنے کے لیے ہمیں نہ تو بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، نہ کسی کثیرسرمایے یا تربیت یافتہ افرادی قوت کی۔ یہ اُمور چونکہ ہم سب کی اپنی دسترس میں ہیں، اس لیے کسی سے مطالبہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ضرورت صرف صدقِ دل سے عمل کرنے کی ہے اور عمل بھی زیادہ مشکل نہیں۔ معمولی کوشش سے ہم اپنی عادات بدل سکتے ہیں، اور ان روایات اور رسوم و رواج سے چھٹکارا پاسکتے ہیں، جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اسی حوالے سے یہاں چند اُمور کے متعلق سیرتِ طیبہؐ اور تعلیماتِ نبویؐ سے راہ نمائی پیش کی جارہی ہے:
حقوق کی ادایگی میں کوتاہی
ہماری بہت سی مشکلات کا سبب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک (الا ماشاء اللہ) اپنے حقوق کے حصول کا تو دعوے دار ہے، مگر دوسروں کے اپنے اُوپر عائد ہونے والے حقوق اور اپنے فرائض کی ادایگی سے بے نیازی و لاپروائی کا بھی شکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی مطمئن نہیں، اور ہر ایک کام ناقص و ادھورا ہے اور تقریباً ہرشخص دوسرے کا حق نادہندہ ہے۔ چونکہ کوتاہی سب کی جانب سے ہے، اس لیے متاثر بھی سب ہی ہیں، لیکن اصلاح کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔
یہ صورتِ حال ہر میدان میں موجود ہے۔ استاد اپنے طلبہ سے اپنے حقوق کی ادایگی کا خواہاں ہے، تو دوسری جانب اس کے شاگرد مطمئن نہیں کہ وہ اپنے فرائض کی ادایگی میں اپنی انتہائی صلاحیتوں کو صرف کرنے سے قاصر ہے۔ بھائی بھائی سے نالاں ہے، مگر وہ خود بھی اپنے بھائی کے بہت سے حقو ق ادا نہ کرنے کا ذمے دار ہے۔ شریعت نے یہ حل پیش کیا ہے کہ حقوق کی ادایگی کو بغیر کسی معمولی رکاوٹ کے تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ اسی بنا پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی سخت تاکید فرمائی ہے اور حقوق کی ادایگی کی تلقین فرمائی ہے۔ یہ حقوق متعدد نوعیت کے ہیں: والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، استاد شاگرد کے حقوق، اہلِ قرابت کے حقوق، دوست احباب کے حقوق اور ملازمین کے حقوق وغیرہ۔ ہر ایک کے علیحدہ علیحدہ حقوق، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کیے اور سب کی ادایگی کی الگ الگ تلقین فرمائی ہے۔
اہلِ قرابت کے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی ہمارے ہاں عام ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
الرَّحِمُ شَجْنَۃٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ قَالَ اللہُ تَعَالٰی مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہٗ (بخاری، ج۵، ص ۲۲۳۲، رقم:۵۶۴۲) رحم (حق قرابت) رحمٰن سے مشتق ہے، اور اللہ تعالیٰ نے رحم سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا، میں اسے جوڑوں گا، اور جو تجھے کاٹے گا، میں اسے قطع کردوں گا۔
یعنی جو شخص اپنے تعلق والوں کے حقوق احساسِ ذمہ داری سے ادا کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب سے نوازے گا، اور جو قطع رحمی کرتے ہوئے ان کے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی اس سے قطع تعلق فرمائے گا۔
صلۂ رحمی کرنے اور اہلِ قرابت کو ان کے حقوق کی ادایگی کے دنیاوی فوائد بھی کثرت سے ہیں۔ حضرت انسؓ کی روایت میں آپؐ نے فرمایا:
مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُبْسَطَ فِیْ رِزْقِہٖ وَیُنْسَأَ لَہٗ فِیْ اَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ (مسلم: رقم ۲۵۵۷؛ بخاری، الادب المفرد ، ج۱، ص ۳۴، رقم: ۵۶) جو شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور دنیا میں اس کے آثار تادیر رہیں (یعنی اس کی عمردراز ہو) تو اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔
اسلام دوسروں کے حقوق کی ادایگی کی تلقین کے ساتھ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا خواہاں ہے، جہاں سکون و اطمینان، خوش دلی اور باہمی تعاون کی فضا پروان چڑھے ۔ ضروری ہے کہ بُرائی کا جواب بھی اچھائی سے دیا جائے، حقوق ادا نہ کرنے والوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔
ابن عمرؓ سے روایت میں اسی کی تلقین ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیٔ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ ھُوَ الَّذِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا (ابوداؤد، ج۲، ص ۵۹، رقم: ۱۶۹۷؛ بیہقی، السنن الکبریٰ، بیروت، ۱۹۹۶ء، ج۷، ص ۲۷،رقم: ۱۲۹۹۸) وہ شخص صلۂ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا جو بدلے کے طور پر صلۂ رحمی کرتا ہے۔ صلہ رحمی کرنے والا تو اصل میں وہ شخص ہے جو اس شخص سے بھی صلۂ رحمی کرے جو اس کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ کرتا ہے۔
حقوق کی بحث صرف رشتے داروں کے حقوق تک محدود نہیں، اسلام کی نظر میں تو اس کی حدود بہت وسیع ہیں،جیساکہ ذکر کیا گیا کہ اس کی بہت سی شاخیں ہیں، اور بحیثیت مسلمان ہم پر فرض ہے کہ تمام حقوق کی نگہبانی کریں، اس یقین کے ساتھ کہ اس کے نتیجے میں اُخروی اجر تو ان شاء اللہ ملنا ہی ہے، دنیاوی مصائب بھی ختم ہوں گے، مشکلات کم ہوں گی اور ہمارے گھر پھر سے پریشانیوں سے آزاد اور مسرت و انبساط کا مرکز بنیں گے۔
دوسری جانب ہمارے قیمتی وقت اور صلاحیتوں کے ضیاع نے بھی صورتِ حال سنگین کردی ہے۔دونوں چیزیں اَنمول ہیں، جنھیں ہم قطعاً مہمل، لایعنی اور بے مول مصروفیات یا بے کاری میں برباد کررہے ہیں، جس کے سبب ہم بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں۔ سرکاری دفاتر میں اگر کام آٹھ گھنٹے ہونا چاہیے توعام طور پر بہ مشکل دو اڑھائی گھنٹے ہوتا ہے۔ طرح طرح کے بہانوں کے نتیجے میں ہونے والی چھٹیاں اس کے علاوہ ہیں۔ یہ بات ایک جانب بدترین خیانت ہے، دوسری طرف وقت کے ضیاع کا گناہ بھی اس کے نتیجے میں لازم آتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل گھنٹوں بلکہ بعض اوقات پوری شب انٹرنیٹ کے سامنے بیٹھ کر گزار دیتی ہے۔ پھر طویل طویل ٹیلی فون کالیں ہیں۔ کرکٹ وغیرہ مختلف کھیلوں کی خرافات الگ ہیں، جن میں پوری قوم کے کروڑوں روپے اور ہزاروں گھنٹے برباد ہورہے ہیں ، اور افسوس کہ اتنی قیمتی دولت کے ضیاع کا احساس تک نہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرائض کی ادایگی میں سخت کوتاہی و لاپروائی عام ہے۔ گھر کے روزمرہ کے اُمور سے بھی بے توجہی کی شکایات کم نہیں۔ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد، سب ہی پامال ہورہے ہیں، اور حاصل کچھ بھی نہیں۔ نہ دین کا فائدہ نہ دنیا ہی کا حصول، نتیجتاً گھریلو ناچاقی، بے روزگاری، مالی پریشانیاں ، بڑھتے ہوئے اخراجات سب جمع ہوکر ہماری مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
ان مشکلات سے بچنے کے لیے اسلام نے اپنے اوقات کو قیمتی بنانے اور انھیں کارآمد سرگرمیوں میں صرف کرنے کی تلقین کی ہے، اور وقت کی قدروقیمت کو واضح کیا ہے۔ ان مشکلات کا واحد حل یہی ہے کہ ہم اپنے وقت کو کارآمد مصروفیات میں صرف کر کے قیمتی بنائیں، اور فضول و لایعنی اُمور سے چھٹکارا حاصل کریں۔
قرآنِ حکیم میں روزِ قیامت کی منظرکشی کرتے ہوئے فرمایاگیا:
وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ۰ۭ (یونس۱۰:۴۵) جس روز اللہ انھیں اکٹھا کرے گا تو (انھیں اپنی بیتی ہوئی زندگی اس قدر محسوس ہوگی کہ) گویا وہ محض ایک گھڑی کو آپس کی جان پہچان کے لیے ٹھیرے تھے۔
انھیں محسوس یہ ہوگا کہ دنیا میں ان کا قیام اتنا ہی تھا جس میں محض دو افراد باہمی ملتے ہوئے سلام دُعا کرتے ہیں، اور کچھ نہیں۔ اتنی مختصرمدت کو لایعنی اُمور میں ضائع کر دینا نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟
اسی بنا پر لایعنی اُمور سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ (ابن حبان، ج۱، ص ۴۶۶، رقم:۲۲۹،مالک بن انس ؛ الموطا، مصر، ج۲،ص ۹۰۳، رقم: ۱۶۰۴) اسلام کے حسن میں یہ بات بھی ہے کہ انسان لایعنی (فضول، بے کار)مشاغل ترک کردے۔
انسان کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ ، شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ (حاکم، المستدرک، ج۴، ص ۳۴۱، رقم:۷۸۴۶)پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: بڑھاپے سے پہلے جوانی، بیماری سے پہلے تندرستی، تنگ دستی سے پہلے مال داری، مشغولیت سے پہلے فراغت اور موت سے پہلے زندگی کو۔
اور ایک روایت میں آپؐ نے وقت کی قدروقیمت کی جانب اس طرح توجہ دلائی، فرمایا:
نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْھِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ ، اَلْفَرَاغُ وَالصِّحَۃُ (ابن ابی شیبہ، المصنف، ریاض، ۱۴۰۹ھ، ج۷، ص۸۲، رقم:۳۴۳۵۷) دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے کا شکار ہیں: ایک فراغت اور دوسری صحت۔
ہر چڑھنے والا سورج جہاں ایک نئے دن کی نوید لے کر طلوع ہوتا ہے، وہیں اس کا مغرب کے اُفق میں غائب ہو جانا بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ انسانی زندگی اور دنیاوی مہلت کے مزید چوبیس گھنٹے کم ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا:
ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے۔ آج کے بعد مَیں پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔(بیہقی، شعب الایمان، ج۳،ص ۳۸۶، رقم: ۳۸۴۰)
ان نصوص کی روشنی میں ہمیں اپنے طرزِعمل کا جائزہ لینا ہوگا، تاکہ ہم مشکلات کے بھنور سے نکل کر کامیابی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔
ایک اور بہت بڑا مرض جس میں ہم مبتلا ہیں وہ اسراف و دکھلاوا ہے۔ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن نتائج یکساں ہیں۔ ریاکاری و دکھلاوے میں بھی انسان اسراف سے کام لیتا ہے، اور اسراف کے نتیجے میں بھی ریاکاری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ان کے مفاسد اس قدر واضح ہیں کہ کسی بیان کے محتاج نہیں۔ اسراف درحقیقت ہماری لامحدود خواہشات کا نتیجہ ہے ، جن کی ہم تکمیل کی آرزو رکھتے ہیں، حالانکہ ان کی تکمیل اس دنیا میں تو ممکن ہی نہیں۔ اس لیے اسلام نے خواہشات کی تہذیب کی ہے، اور ان کی تکمیل کے لیے حدود متعین کردی ہیں:
۱- ہم انواع و اقسام کے اسراف میں مبتلا ہیں، جن میں ہماری تقاریب سرفہرست ہیں، مثلاً بات بات پر تقاریب کا انعقاد گویا ہمارے فیشن کا حصہ بن گیا ہے۔
۲- تقاریب میں کھانوں کا بہ کثرت اہتمام اور پھر ان کا ضیاع الگ سے اسراف ہے۔
۳- خصوصاً تقاریب میں خواتین کے ملبوسات، زیورات اور آرایش، یہ اسراف بھی ہے اور دکھلاوا بھی۔ جو اکثر ایسی حدود میں داخل ہوجاتا ہے کہ شریعت کی نگاہ میں سراسر ناجائز ہے۔
اس موقعے پر ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول کیا تھا؟ اور اس دکھلاوے یا اسراف کو آپؐ نے ناپسند تو نہیں فرمایا؟ حیاتِ طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے:
۱- ’’آپؐ کے زیراستعمال کپڑوں کا ہمیشہ ایک ہی جوڑا ہوتا تھا‘‘۔(قاضی عیاض: الشفاء، قاہرہ، ۱۹۵۰ء، ج۱، ص ۸۲)
۲- حضرت عائشہؓ سے روایت ہے ’’آپؐ نے کبھی مسلسل دو وقت سیر ہوکر روٹی نہیں کھائی‘‘۔(ترمذی، ج۴، ص ۱۵۹، رقم: ۲۳۶۳)
۳- ایک بار حضرت فاطمہؓ نے اپنے گھر میں پردے لٹکا لیے، آپؐ نے دیکھا تو گھر میں داخل تک نہیں ہوئے۔پوچھنے پر فرمایا کہ’’ اس دنیاوی زیب و زینت سے میرا کیا تعلق؟‘‘ (ابوداؤد: ج۴،ص ۴۲، رقم:۴۱۴۹)
اسی طرح ایک بار حضرت عائشہؓ نے اپنے حجرے میں پردے لٹکائے، آپؐ نے دیکھ کر ناگواری کا اظہار فرمایا اور فرمایا: ’’ہمیں اللہ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ہم اس کے دیے ہوئے رزق میں سے اینٹوں اور پتھروں کو کپڑے پہنائیں‘‘۔(مسلم، ج۳، ص ۸۲، رقم:۷۱۰)
۴- حضرت فاطمہؓ کو ایک بار حضرت علیؓ نے سونے کا ہار دیا۔ آپؐ کو علم ہوا تو فرمایا کہ اے فاطمہؓ! کیا تو یہ پسند کرتی ہے کہ لوگ کہیں کہ رسولؐ اللہ کی صاحب زادی کے ہاتھ میں آگ کی زنجیر ہے؟ حضرت فاطمہؓ نے اسے بیچ کر ایک غلام خرید کر اسے آزاد کردیا۔ آپؐ کو علم ہوا تو فرمایا کہ خدا کا شکر ہے، اس نے فاطمہؓ کو آگ سے نجات دے دی۔(نسائی، السنن الکبریٰ، بیروت، ۱۹۹۱ء، باب الکراھیۃ للنساء فی اظہر الحلی والذھب)
حالانکہ سب ہی اس امر سے واقف ہیں کہ خواتین کے لیے زیورات کی ممانعت نہیں، اس کے باوجود آپؐ کا اپنے اہل کے بارے میں یہ معمول تھا۔ ایسے میں زیورات کی موجودہ کثرت اور ان کے ساتھ ہمارا موجودہ ذوق و شوق کس طرح درست قرار دیا جاسکتا ہے؟
۵- آپؐ کے استعمال کے بستر میں صرف کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (مسلم، ج۳، ص ۳۶۹، رقم: ۲۰۸۲)
۶- یاد رہے کہ یہ سب سادگی، زہد اور قناعت آپؐ کا اختیاری عمل تھا۔ چنانچہ ابوامامہؓ سے روایت ہے: رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ مجھے میرے ربّ نے پیش کش کی کہ (اگر میں چاہوں تو) میرے لیے پورے بطحا (مکّہ) کو سونے کا بنا دیا جائے، مگر میں نے کہا: نہیں، میرے رب! مَیں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن مَیں سیر ہوں اور ایک دن بھوکارہوں۔ آپؐ نے یہ بات تین بار فرمائی، اور جب بھوک لگے تو تیرے سامنے تضرع کروں (روئوں، گڑگڑائوں، تجھ سے مانگوں) اور تجھے یاد کروں، اور جب سیر ہوں تو تیرا شکر ادا کروں اور تیری حمد کروں۔ (ترمذی، ج۴، ص ۱۵۵، رقم: ۲۳۵۴)
اسی بنا پر آپؐ نے قناعت کی تلقین فرمائی اور اہلِ قناعت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام لایا اور گزر اوقات کے مطابق اسے رزق مل گیا اور اللہ نے اسے قناعت کی دولت سے نوازا۔ (ترمذی، ج۴، ص ۱۵۶، رقم: ۲۳۵۵)
ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا کہ: اس شخص کے لیے خوش خبری ہے، جسے اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی اور اس کی زندگی کی گزراوقات کے مطابق اسے روزی ملی اور قناعت حاصل ہوئی۔(ترمذی: ج۴، ص ۱۵۶، رقم:۲۳۵۶، المستدرک، ج۱، ص ۹۰)
دوسری جانب ریاکاری بھی پسندیدہ فعل نہیں، خصوصاً دینی اُمور میں اس کے نقصانات واضح ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللہُ بِہٖ وَمَنْ رَاءَیٰ رَاءَیٰ اللہُ بِہٖ (مسلم: رقم ۲۹۸۶، نسائی، کبریٰ، ج۶، ص۵۲۲، رقم:۱۱۷۰۰) جس نے اپنا کوئی عمل دکھاوے کے لیے کیا، اللہ تعالیٰ اس کی رُسوائی کا سامان کرے گا، اور جس کسی نے اپنا کوئی عمل ریاکاری کی نیت سے کیا تو اللہ اس کے راز لوگوں پر عیاں کر دے گا۔
اس بنا پر ہماری کوشش و خواہش ہونی چاہیے کہ ان خطرناک اُمور سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور ان عام ہوجانے والی بُرائیوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کریں۔
جھوٹ ہر معاشرے میں بُرا سمجھا جاتا اور وعدہ خلافی کو سخت بُرائی گردانا جاتا ہے۔ اسلام نے بھی ان سے بچنے کی سختی سے تاکید کی ہے، لیکن اس کے باوجود ہم ان اُمور میں مکمل طور پر غرق ہیں۔
جھوٹ اپنی اصل کے لحاظ سے ہی غلط، ناروا اور ممنوع ہے۔ پھر اس کی بے شمار قسمیں ہمارے ہاں رائج ہیں، لیکن سب کی سب ممنوع اور کسی بھی معاشرے کے لیے سخت ضرر رساں۔
قرآنِ حکیم میں جھوٹ کی بُرائی بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:
اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَكٰذِبٌ كَفَّارٌ۳(الزمر ۳۷:۳) بلاشبہہ اللہ اس کو راستہ نہیں دکھاتا جو جھوٹا اور ناشکرا ہو۔
اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَمُسْرِفٌ كَذَّابٌ۲۸ (المومن۴۰:۲۸) یقینا اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھ جانے والا، بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔
آپؐ نے جھوٹ کو نفاق کی علامت شمار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جس شخص میں چار عادتیں ہوں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں ان چار میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے جب تک وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ پھر ان علامات کا ذکر ان الفاظ سے فرمایا:
۱- جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
۲- جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
۳- جب کسی سے عہد کرے تو اسے دھوکا دے۔
۴- جب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اُتر آئے۔ (بخاری، ج۱،ص ۱۶، رقم:۳۴)
عہد اور وعدے کا ایفا بھی ضروری ہے اور وعدہ خلافی سخت ممنوع۔ قرآنِ حکیم میں حکم ہوا:
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ ۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۳۴ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴) اور اپنے عہد کو پورا کرو، یقینا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
ہمارے ہاں جو جھوٹ کی اقسام رائج ہیں، ان میں عام روز مرہ کے جھوٹ سے لے کر گواہی، قسم اور شہادت میں غلط بیانی، جھوٹے سرٹیفکیٹ، وکلا کا غلط مقدمہ لینا، غلط سفارش، ناپ تول میں کمی، تجارتی فریب، صحافتی رپورٹنگ میں غلط بیانی اور حکومتی و سیاسی سطح کے جھوٹ، سب ہی شامل ہیں۔ سب سے ہی بچنے کا حکم ہے ، اور ہماری موجودہ مشکلات میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
جھوٹ اور کذ ب بیانی کے بعد جس دوسرے حد سے زیادہ بڑھنے والے مرض میں ہم شدت سے مبتلا ہیں، وہ خیانت اور بددیانتی ہے۔ یہ مرض بھی ہم میں اس قدر گہری جڑیں پکڑ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنابھی آسان نظر نہیں آتا۔امانت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص کوئی کام یا کوئی چیز یا کوئی مال اس بھروسے اور اعتماد کے ساتھ دوسرے شخص کے سپرد کردے کہ وہ شخص اس سلسلے میں اپنا فرض پوری ذمے داری کے ساتھ بجا لائے گا، اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا۔ قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ(النساء۴:۵۸) اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کر دو۔
حدیث میں بھی اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی تمھارے پاس کوئی چیز امانت رکھے تو تم اس کو واپس کردیا کرو، اور جو تم سے خیانت کرے تم اس سے خیانت نہ کرو‘‘۔ (ابوداؤد، ج۳،ص ۲۷۶، رقم:۳۵۳۴)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی بھی خطبہ دیا تو اس میں یہ ضرور فرمایا:’’ جس شخص کے اندر امانت نہیں، اس کے اندر ایمان نہیں، اور جس شخص میں عہد کا پاس نہیں، اس کے پاس دین نہیں‘‘۔(احمد، المسند، ج۳،ص ۵۹۴)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چار چیزیں تمھیں میسر ہوں تو دنیا کی کسی چیز سے محرومی تمھارے لیے نقصان دہ نہیں، اور وہ یہ ہیں:
۱- امانت کی حفاظت کرنا، ۲- سچ بولنا، ۳- خوش خلقی اختیار کرنا، ۴- روزی میں پاکیزگی اختیار کرنا۔(احمد، ج۲،ص ۳۷۰، رقم: ۶۶۱۴)
’امانت‘ کا مفہوم بہت وسیع ہے، اور انسانی زندگی کا ہر شعبہ اس کے دائرے میں داخل ہے۔ مثال کے طور پر ’تاجر‘ کے لیے امانت یہ ہے کہ وہ لین دین میں سچ بولے اور دیانت داری سے تجارت کرے۔ ’آجر‘ کے حق میں امانت یہی ہے کہ وہ ’اجیر‘ (مزدور) کے حقوق کی ادایگی بروقت کرے، اور اس میں کسی بخل سے کام نہ لے۔ ’اجیر‘ کے حق میں امانت یہ ہوگی کہ وہ مالک اور ’آجر‘ کے حقوق کی نگہبانی کرے اور اس کے مفاد کا بھرپور خیال رکھے۔ ملازم اپنی ڈیوٹی پوری ذمہ داری سے ادا کرے۔ صنعت کار اپنا فریضہ دیانت داری سے انجام دے اور کسی قسم کی غلط سرگرمی میں ملوث نہ ہو۔ یہ سب امانت داری ہے، اور اگر کوئی شخص اس کے برعکس کرتا ہے تو وہ خیانت کا مرتکب ہے، اور خیانت کے بُرا ہونے میں کس کو کلام ہوسکتا ہے؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَدُّوْا الْخِیَاطَ وَالْمَخِیْطَ وَ اِیَّـاکُمْ وَالْغُلُوْلَ ، فَاِنَّہٗ عَارٌ عَلٰی اَھْلِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (دارمی، ج۲،ص ۳۰۲، رقم: ۲۴۸۷) دھاگا اور سوئی (تک) ادا کردو ، اور خیانت سے بچو، اس لیے کہ یہ خیانت قیامت کے دن عار اور ندامت کا باعث ہوگی۔
ہمارے ہاں خیانت کی بہت سی شکلیں رائج ہیں: ملازمت کے اوقات میں خیانت، ذمے داریوں کی ادایگی میں خیانت،علمی خیانتوں سے لے کر عملی خیانت تک۔ ہم وقت پر دفتر نہیں پہنچتے، ذمے داریوں کی ادایگی میں امانت و دیانت کا لحاظ نہیں رکھتے، دوسروں کے حقوق کی ادایگی میں خیانت کرجاتے ہیں، لین دین میں اپنے مفادات کو ترجیح دے کر دوسروں کو نقصان پہنچانا عام ہے۔ یہ سب چیزیں خیانت میں شامل اور سخت ممنوع ہیں۔ ہماری بہت سی مشکلات اس بنا پر ہیں کہ ہم امانت و دیانت کے ان اسلامی تقاضوں کا پاس نہیں رکھتے، جن کی تاکید قرآن و حدیث میں بار بار کی گئی ہے۔ ان اصولوں کو نافذ کیے بغیر ایک فلاحی معاشرے کا قیام ممکن نہیں، اور اس مقصد کے لیے ہرشخص اپنی ذات سے اس کا آغاز کرسکتا ہے۔
ہماری بہت سی مشکلات کا ایک سبب رزقِ حلال کی کمی ہے۔ ہمارا مطمح نظر صرف کمائی بن کر رہ گیا ہے، خواہ وہ کسی طریقے سے ہو۔ اکثریت کے سامنے تو حلال و حرام کا تصور رہا ہی نہیں، جنھیں اس کا تھوڑا بہت خیال ہے وہ بھی حیلے بہانے سے سب کچھ جائز کرلیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ حرام کھانے کا گناہ اپنی جگہ پر، آخرت کا وبال بھی درست، لیکن ان کے علاوہ خود ہماری دنیاوی زندگی بھی اس کے ساتھ اطمینان و سکون کے ساتھ نہیں گزرسکتی۔ ایک جانب حرام لقمہ ہماری خوراک بن رہا ہو اور دوسری جانب ہم آرام و بے فکری کی زندگی بسر کریں، یہ ممکن ہی نہیں۔ حرام غذا سے اسلام کے منع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے اثرات خود ہم پر ہی پڑتے ہیں اور اس کے نقصانات براہِ راست ہمیں ہی متاثر کرتے ہیں، جن میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے مال، زندگی اور کام، سب سے برکت اُٹھ جاتی ہے، مشکلات بڑھنے لگتی ہیں، مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، غیرمتوقع اخراجات سامنے آتے ہیں، اور زندگی حادثات کا شکار ہونے لگتی ہے۔ ان سےبچنے کا واحد نسخہ یہ ہے کہ کسب ِ حلال کی کوشش کریں اور حرام سے ہرصورت میں بچیں۔ اسلام نے جہاں ایک جانب حلال کمائی کی تلقین کی ہے، وہیں حرام سے بچنے کی بھی سخت تاکید فرمائی ہے۔ قرآنِ حکیم میں رزقِ حلال کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ (البقرہ ۲:۱۷۲) اے ایمان والو! تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تمھیں عطا کی ہیں۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ (طبرانی، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۷۴) حلال روزی کا طلب کرنا (دوسرے) فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔
اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کمائی سے اجتناب کی تلقین واضح الفاظ میں اور متعدد مقامات پر کی ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے، آپؐ نے کعب بن عجرہؓ سے فرمایا:
اِنَّہٗ لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ (دارمی،ج۲،ص۴۰۹، رقم:۲۷۷۶) بلاشبہہ حرام کمائی سے پلنےوالا گوشت جنّت میں داخل نہ ہوسکے گا۔
ایک موقعے پر حرام کمائی سے صدقہ و خیرات کرنے والوں کی بابت فرمایا کہ جس شخص نے بُرائی کے ذریعے مال کمایا، پھر اس کے ذریعے صلۂ رحمی کی، یا اس سے صدقہ کیا، یا اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا، تو یہ سارا مال جمع کر کے اس کے ساتھ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ (ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، بیروت،ج۱، ص ۱۰۲)
جن مسائل سے آج ہم ذاتی حیثیت میں دوچار ہیں، اور جو آج کسی نہ کسی اعتبار سے ہمارے گھروں کو متاثر کیے ہوئے ہیں، ان کے تمام نقصانات اپنی جگہ پر، لیکن ان کا ایک سب سے بڑا نقصان یہ سامنے آرہا ہے کہ نااُمیدی اور مایوسی جیسی خطرناک نفسیاتی کیفیت سے ہم دوچار ہوتے جارہے ہیں۔ خصوصاً مستقبل کے حوالے سے مسلسل ایسے خیالات ہمارے ذہنوں میں پرورش پارہے ہیں جو ہمیں مایوسیوں کی جانب دھکیلنے اور مختلف نفسیاتی و جسمانی امراض کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے بھی اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے ، تاکہ اس کیفیت سے باہر نکل سکیں، کیوں کہ ایسی ہرسوچ اسلام کے منافی ہے۔ اسلام تو خداے واحد پر غیرمتزلزل ایمان کی دعوت دیتا ہے جو حوادث کے سامنے ہرحالت میں پورے استقلال کے ساتھ قائم رہتا ہے اور مصائب و مشکلات کی آندھیاں اسے ذرہ برابر بھی متاثر نہیں کرسکتیں۔
درحقیقت، انسانی مزاج دو انتہائوں سے عبارت ہے۔ ایک جانب اگر خوف، شکستگی اور انفعالیت کی انتہا ہے تو دوسری جانب ہرطرح کے نتائج و عواقب سے بے پروا ہوکر دنیاوی لذتوں سے جیسے بھی ممکن ہو اور جس قدر بھی ممکن ہو، لطف اندوزی کی انتہا ہے۔ یہ دونوں انتہائیں انسان کی حقیقی کامیابی کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے اسلام کو ان میں سے ایک بھی انتہا مطلوب نہیں، وہ تو دونوں کے درمیان ایک راہ متعین کرتا ہے، اعتدال کی راہ۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ خوف و رجا کے ارتباط سے ایسی معتدل کیفیت تشکیل پائے جہاں ایک جانب خدا کا خوف اسے منکرات کی جانب بڑھنے سے روکے، تو دوسری جانب اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اُمید اسے حیاتِ مستعار کے آخری سانس تک جدوجہد کرنے پر اُبھارتی رہے۔ اسلام تو نااُمیدی کا تعلق گم راہوں سے جوڑتا ہے۔ گویا اس کے نزدیک راہِ حق پر ہم لوگ گامزن ہوں تو نااُمیدی چھو کر بھی نہیں گزر سکتی۔ نااُمیدی تو اسلام کے مزاج کے یک سر خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا قول قرآنِ حکیم نے ہم تک یوں پہنچایا:
وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۵۶(الحجر ۱۵:۵۶) اپنے رب کی رحمت سے تو فقط گم راہ لوگ ہی نااُمید ہوتے ہیں۔
یہی تعلیم حضرت یعقوب ؑ کی زبانی بھی ہمیں ملتی ہے۔(یوسف۱۲:۸۷)
اور ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ہم گناہ گاروں کو مخاطب کرکے فرمایا:
يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۰ۭ (الزمر ۳۹:۵۳) اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، تم اللہ کی رحمت سے نااُمید مت ہونا۔
اسی لیے دوسرے مقام پر قرآنِ حکیم نے اُمید کا تعلق مومنین سے جوڑا اور بتایاکہ رحمت باری کی اُمید صرف مومن ہی رکھ سکتا ہے۔ فرمایا:
وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا يَرْجُوْنَ ۰ۭ(النساء۴:۱۰۴) بلاشبہہ اللہ کے بارے میں حُسنِ ظن رکھنا بھی عبادت کرنا ہے۔
اور اللہ کے بارے میں حُسنِ ظن کا یہی مفہوم ہے کہ اس کی رحمت کی اُمید رکھی جائے، اور اس پر ہرحال میں اور ہر کام میں بھروسا کیا جائے۔ حدیث قدسی میں خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَنَـا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ فَلْیَظُنَّ بِیْ مَاشَاءَ (دارمی، ج۲، ص ۳۹۵، رقم:۲۷۳۱) میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں، سو وہ جو چاہے میرے بارے میں گمان رکھے۔
اسی لیے اسلام نے خوف اور اُمید دونوں کو جمع کر دیا ہے۔ نیک بندوں اور صالحین کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۰ۡ (السجدہ ۳۲:۱۶) ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے ربّ کو خوف و اُمید کی کیفیات کے ساتھ پکارتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مومن کے قلب میں خوف اور اُمید کی دونوں کیفیتیں بیک وقت، یک جا ہونی چاہییں۔ وہ ایک جانب اگر اپنے گناہوں کی بازپُرس اور خطائوں پر مواخذے کا ڈر رکھتا ہو، تو دوسری جانب وہ اللہ کی رحمت کی اُمید سے بھی مالا مال ہو۔ یہ دونوں کیفیات اس لیے بھی ضروری ہیں کہ ایک جانب اگر ڈر گناہوں اور معاصی پر جری ہونے سے باز رکھتا ہے، تو اُمید و رحمت اسے مایوس و شکستہ دل نہیں ہونے دیتی۔ اس کی آرزوئوں کو توانا اور عزائم کو بلند رکھتی ہے جو کارزارِ حیات میں سرگرم ہونے کے لیے ازبس ضروری ہے۔
حُسنِ اعتدال پر مبنی خوف و اُمید کی اسی کیفیت کے ذریعے ہم مایوسی و نااُمیدی کی فضا سے نکل سکتے ہیں، اور اللہ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کی اُمید پر ہی ہم مصائب اور حوادث کی مشکل گھڑیوں میں جہد مسلسل کے سلسلے کو دوبارہ قائم کرسکتے ہیں۔
رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے۔ ایک صحابیؓ نے نماز میں شریک ہوتے ہوئے اللہ اکبر کہنے کے بعد نسبتاً بلند آواز میں کہا: اللہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُ لِلہِ کَثِیْرًا وَسُبْحٰنَ اللہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ’’اللہ کی بڑائی اتنی بیان کرتا ہوں جتنا کہ بڑائی بیان کرنے کا حق ہے۔ انتہائی کثرت سے اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں اور صبح وشام اسی کی تسبیح کرتا ہوں‘‘۔ آپؐ نے سلام پھیرنے کے بعد پوچھا: ’’یہ کلمات کن صاحب نے کہے تھے ؟‘‘ ایک صحابیؓ نے عرض کیا : میں نے یارسولؐ۔ آپ ؐ نے فرمایا : عَجِبْتُ لَھَا ، فُتِحَتْ لَھَا اَبوَابُ السَّمَاءِ’’مجھے ان کلمات پر بڑا تعجب ہو رہا ہے۔ ان کے لیے تو آسمانوں کے دروازے کھول دیے گئے‘‘۔ صحیح مسلم میں روایت کی گئی یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کی ہے۔ وہ مزید فرماتے ہیں: میں نے جب سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہے، اس کے بعد سے نماز میں یہ کلمات کہنا نہیں چھوڑے۔
ایک اورموقعے پر آپ ؐ امامت کروا رہے تھے ۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے آپ نے سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ (جس نے اللہ کی حمد بیان کی، اللہ نے اسے سن لیا)فرمایا تو مقتدیوں میں سے ایک صحابی بے اختیار پکار اٹھے: رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ، حَمْدًا کَثِیْرًا، طَیِّبًامُبَارَکًا فِیْہِ ’’اے ہمارے رب اور ساری تعریفیں تو ہیں ہی آپ کے لیے۔ بے انتہا تعریفیں ، پاکیزہ اور برکتوں والی تعریفیں‘‘۔ نماز ختم ہونے کے بعد آپؐ نے پوچھا یہ کن صاحب نے کہا تھا ؟صحابیؓ نے جب بتایا کہ میں نے یارسولؐ اللہ، تو آپؐ نے فرمایا: میں نے ۳۰سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پہلے یہ کلمات لکھنا چاہتے تھے۔ (بخاری، حدیث: ۷۹۹، عن رفاعہ بن رافعؓ)
ایک صبح آپؐ نے حضرت بلال رضی اللہ کو بلایا اور پوچھا: بِمَ سَبَقْتَنِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ الْبَارِحَۃَ ، سَمِعتُ خَشخَشَتَکَ اَمَامِیْ، ’’رات میں نے جنت میں خود سے آگے آپ کے قدموں کی چاپ سنی ، آپ اپنے کس عمل کی وجہ سے مجھ سے آگے نکل گئے ؟‘‘ ایک امتی بھلا کیسے رحمتہ للعالمینؐ سے آگے نکل سکتا ہے؟ لیکن صحابیؓ کی حوصلہ افزائی اور امت کو ترغیب دینا مقصود تھا۔ جناب بلالؓ نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا: یا رسولؐ اللہ !جب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت نماز ادا کر لیتا ہوں اور جیسے ہی وضو کی حاجت ہوتی ہے، وضو تازہ کر لیتا ہوں۔ آپ نے ان کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا :بِھَذَا،’’یقینا اسی عمل کی وجہ سے ‘‘۔
اس موقعے پر وہ تمام احادیث بھی ذہن میں تازہ کر لیں جن میں آپؐ نے بعض اعمال اور تسبیحات واذکار کا ڈھیروں اجر بتایا ہے مثلاً: کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ خَفِیفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ والی حدیث کلمے ادا کرنے میں تو بہت آسان ، روز قیامت میزان میں بہت وزنی اور رحمٰن کو انتہائی پسندیدہ ہیں اور ان کے اجر سے زمین وآسمان کے مابین ساری فضا بھر جاتی ہے۔ اور وہ ہیں : سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحْمَدِہِ سُبْحٰنَ اللہِ الْعَظِیْمِ (بخاری، کتاب التوحید، حدیث:۱۲۹۳)
اب ایک طرف یہ ایمان افروز واقعات و فرمودات ہیں، آسان عبادات کا اجر عظیم ہے، اور دوسری جانب آپؐ اور صحابہ کرامؓ کی حیات طیبہ میں ہمہ پہلو جہاد، جہد مسلسل ، سنگین ابتلائیں اور آزمایشیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ دونوں میں سے کون سا راستہ اختیارکرنا چاہیے؟ ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے دونوں جانب اس قدر افراط وتفریط کا رویہ اختیار کر لیا جاتا ہے، کہ یا تو چند اذکار ہی کو دین کامل سمجھ لیا جاتا ہے ، یا بزعم خود جہاد وجہدِ مسلسل میں اتنا مصروف ہو جاتے ہیں کہ اور ادو اذکار تو کجا، فرائض وسنن تک کی اہمیت عملاً ثانوی لگنے لگتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں پہلوئوں پر یکساں اور بھرپور توجہ دی جائے۔ دونوں پہلو لازم و ملزوم اور ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ ایک معدوم ہوا تو دوسرا بھی کالعدم قرار پاجاتا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے الفاظ میں: ’’ یہ کام جس کے لیے ہم ایک جماعت کی صورت میں اٹھے ہیں، یہ تو سراسر تعلق باللہ کے ہی بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اتنا ہی مضبوط ہو گا، جتنا اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہو گا۔ اور یہ اتنا ہی کمزور ہو گا جتنا خدانخواستہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہو گا‘‘۔
سابق الذکر ان تینوں واقعات ہی کو دیکھ لیجیے ۔ جنت میں حضرت بلالؓ کے قدموں کی چاپ ان کے ہمیشہ با وضو رہنے کی وجہ سے سنائی دی، لیکن اس سے قبل یہی بلالؓ مکہ کے ریگ زاروں پر گھسیٹے گئے ۔ تنور کی طرح دہکتی ریت پر لٹا کر ، انگاروں کی طرح جھلستے پتھر سینے پر رکھ دیے گئے، لیکن اللہ کا وہ بندہ ایک ہی نغمہ ء توحید بلند کرتا رہا: اَحَدٌ … اَحَدٌ…اَحَدٌ ۔ اسی طرح جن صحابہؓ نے بے ساختہ دوران نماز حمد وتسبیح کے کلمات ادا کیے ، وہ خود کو دینِ کامل میں اس طرح کھپا دینے والے تھے اور ہر دم ایک ہی تڑپ تھی کہ کسی طرح اپنے رب کی حمد وثنا زیادہ سے زیادہ کی جائے ۔ خود آپؐ نے اپنی ساری جمع پونجی میدان بدر میں پیش کر دی اور پھر رات بھر اپنے رب سے مناجات ودعائیں کرتے رہے۔ غزوۂ خندق میں جب اہل ایمان کی پوری جماعت بری طرح ہلا ڈالی گئی، دل حلق میں آن اٹکے ، صحابہ کرامؓ نے آپ سے کوئی دعا اور ذکر بتانے کی درخواست کی۔ آپؐ نے فرمایا: آپ کہیں اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا ، اے اللہ ہماری کمزوریوں کا پردہ رکھ لے اور خوف کو امن میں بدل دے‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے انھی الفاظ میں درخواست پیش کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرماتے ہوئے پانسہ پلٹ دیا۔
تعلق باللہ کے اس راستے کا سیّد مودودیؒ ’عملی طریقہ‘ بتاتے ہیں: ’’اور وہ عملی طریقہ ہے احکام الٰہی کی مخلصانہ اطاعت اور ہر اُس کام میں جان لڑا کر دوڑ دھوپ کرنا جس کے متعلق آدمی کو معلوم ہو جائے کہ اس میں اللہ کی رضا ہے۔ احکام الٰہی کی مخلصانہ اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ جن کاموں کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کو بادل نخواستہ نہیں، بلکہ اپنے دل کی رغبت اور شوق کے ساتھ خفیہ اور علانیہ انجام دیں اور اس میں کسی دنیوی غرض کو نہیں، بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی کو ملحوظ خاطر رکھیں ، اور جن کاموں سے اللہ نے روکا ہے ان سے قلبی نفرت وکراہت کے ساتھ خفیہ وعلانیہ پرہیز کریں اور اس پرہیز کا محرک کوئی دنیوی نقصان کا خوف نہیں، بلکہ اللہ کے غضب کا خوف ہو۔
سیّد مودودیؒ تعلق باللہ میں اضافے کی اہمیت وضرورت کو واضح کرتے ہوئے ، اور اس کے لیے مختلف وسائل بیان کرتے ہوئے ، نماز کی اہمیت بیان کرنے کے بعد ذکر الٰہی پر توجہ دینے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’ذکر الٰہی جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے ۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیا کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے، بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبی ؐ نے اختیار فرمایا اور صحابہ کرامؓ کو سکھایا۔ آپ حضور ؐ کے تعلیم کردہ اذکار اور دعائوں میں سے جس قدر بھی یاد کر سکیں یاد کر لیں۔ مگر الفاظ کے ساتھ ان کے معانی بھی ذہن نشین کیجیے اور معانی کے استحضار کے ساتھ ان کو وقتاًفوقتاً پڑھتے رہا کیجیے۔ یہ اللہ کی یاد تازہ رکھنے اور اللہ کی طرف دل کی توجہ کو مرکوز رکھنے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہے‘‘۔
الاخوان المسلمون کے بانی امام حسن البناؒ اسی لیے اپنے تمام ساتھیوں کے لیے قرآنی اور مسنون دعائوں کا وہ خزانہ جمع کر گئے جن سے آج بھی ان کا ہر تحریکی ساتھی روزانہ استفادہ کرتا ہے۔ کیا ہم سب بھی اس کا باقاعدہ اہتمام کر سکتے ہیں؟ آئیے آغاز میں بیان کیے گئے تین واقعات ہی سے ابتدا کر لیتے ہیں۔ ذرا حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی بات بھی دوبارہ تازہ کر لیں کہ ’’میں نے جب سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہے، اس کے بعد سے نماز میں یہ کلمات کہنا نہیں چھوڑے‘‘۔
بارہا اس بات کو ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں کہ: ’’یہ عالمِ مادی اپنے وجود کے لیے کسی خالق کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اس عالم کا وجود بہرحال ایک امرِواقعہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے لامحالہ اس کے موجود ہونے کی کوئی نہ کوئی توجیہہ کرنی پڑتی ہے۔ عام طور پر اس کی چار توجیہات پیش کی جاتی ہیں:
پہلی توجیہہ اگر تسلیم کرلی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں انسانی شعور کی مابعد الطبیعی تعبیر کے سوا کوئی حل طلب مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، اور اسے خود ایک واہمہ قرار دیا جاچکا ہے۔ علمِ طبیعیات (Physics) کے ماہر سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پُراسرار کائنات میں ان غیرحقیقی مفروضات پر ان الفاظ میں بحث کی ہے:
علمِ طبیعیات کے جدید تصورات کے مطابق کائنات کی کوئی مادی توجیہہ ممکن نہیں اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ کائنات کا سارا معاملہ ہی ایک تخیلاتی معاملہ ہے۔
اس نقطۂ نظر کے مطابق گویا صورتِ حال یہ ہے کہ خیالی گاڑیاں، جو نظرِ بظاہر فرضی مسافروں سے لدی ہوئی ہیں، غیرحقیقی دریائوں کو تصورات کے ساختہ و پرداختہ پُلوں کے ذریعے عبور کررہی ہیں۔
دوسرا تصور کہ یہ مادہ و توانائی کی دنیا اَزخود پردئہ عدم سے وجود میں آگئی۔ یہ بھی اسی طرح ایک ایسا لغو مفروضہ ہے کہ اسے کسی طرح قابلِ غور نہیں قرار دیا جاسکتا۔
تیسرا خیال کہ یہ کائنات اَزلی و اَبدی ہے، نظریۂ تخلیق سے کم از کم اس پہلو سے میل کھاتا ہے کہ یا تویہ جامد مادّہ اپنے اندر مستور توانائی کے ساتھ اَزلی و ابدی وجود رکھتا ہے اور یا پھر اس کے خالق کی ذات اَزلی و اَبدی ہے۔ اس پہلو سے ان دونوں تصورات کے دلائل بھی تقریباً یکساں ہیں۔
لیکن حرکیات حرارت (Thermo Dynamics) کے قوانین سے یہ پتا چلتا ہے کہ کائنات بہ تدریج انحطاط پذیر ہے، اور ایک وقت آنے والا ہے جب تمام موجودات اپنی حرارت کھو بیٹھیں گی، توانائی و قوت فنا ہوجائے گی اور زندگی ناممکن ہوجائے گی۔ یہ دہکتا ہوا سورج، ستارے اور زندگی کے ہمہموں سے بھرپور یہ زمین اس حقیقت کی ایک جامع شہادت ہیں کہ اس کائنات کا کوئی نہ کوئی نقطۂ آغاز ضرور ہے اور ایک معین و مقرر ساعت میں یہ کائنات وجود میں آئی ہے۔ اور یہی حقیقت اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں نہیں آگئی بلکہ یہ کسی کی قوتِ تخلیق کا کرشمہ ہے۔ یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ علّت ِ اولیٰ کی حیثیت سے ایک اَزلی و اَبدی اور ایک علیم و قدیر ہستی کا وجود لازماً ہونا چاہیے۔ جس نے اس کائنات کو پیراہنِ وجود بخشا اور اس کی صورت گری کی۔
زندگی کو قائم و برقرار رکھنے کے لیے اس کرئہ ارضی پر اتنے بے شمار انتظامات نظر آتے ہیں کہ یہ کسی طرح باور نہیں کیاجاسکتا کہ یہ سب محض بخت و اتفاق کا نتیجہ ہیں۔
اوّلاً، یہ کرئہ زمین ایک گولے کی شکل میں خلا میں معلّق ہے۔{ FR 644 } اور اپنے قطبی محور پر اس طرح گردش کر رہا ہے کہ اس سے دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن آتا ہے۔ پھر یہ کرہ سورج کے گرد بھی گھوم رہا ہے اور سال کی معین مدت کے اندر اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔ یہ حرکات خلا میں اس کو صحیح سمت میں قائم رکھتی ہیں۔ قطبی محور پر اپنے مدار کی جانب اس کا ۲۳درجہ جھکائو موسموں میں باقاعدگی پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں زمین کا زیادہ سے زیادہ رقبہ آبادکاری کے قابل ہوجاتا ہے اور مختلف انواع و اقسام کی رنگارنگ روئیدگی، زمین کی رونق و افادیت کو دوبالا کردیتی ہے۔ اگر یہ کرئہ زمین گردش کرنے کے بجاے ساکن و جامد ہوتا، تو نباتات اور پیداوار میں اتنی متنوع اور گوناگوں اقسام ممکن نہ ہوتیں۔
دوم، ایسی گیسیں جو بقاے حیات کے لیے ضروری ہیں، فضا میں تقریباً آٹھ سو کلومیٹر کی بلندی تک محیط ہیں، اور ان کا نہایت دبیز پردہ، کرئہ زمین کو اُن شہابوں کی تباہ کن بارش سے محفوظ رکھتا ہے جو روزانہ تقریباً ۲ کروڑ کی تعداد میں ۴۵ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے کرئہ ارضی کی فضا میں داخل ہوتے ہیں۔ دوسرے اثرات کے علاوہ اسی ہوا کا پردہ، درجۂ حرارت کو ان حدودِ اعتدال کے اندر رکھتا ہے، جو زندگی کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔ ہوائیں بادلوں کی صورت میں سمندروں کے تازہ پانی کی بھاپ کو اُڑا کر خشکی کی طرف لے جاتی ہیں اور دُور دُور تک خشک اور پیاسی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں۔ ورنہ یہ زمین بے آب و گیاہ صحرا میں تبدیل ہوجائے۔ گویا دوسرے لفظوں میں فطرت نے سمندروں اور ہوائوں کی ہم آہنگی کو اس کرئہ ارضی میں بقاے زندگی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔
پانی میں چار اہم خصوصیات رکھ دی گئی ہیں: پہلی خصوصیت یہ کہ وہ کم سے کم درجۂ حرارت میں آکسیجن کی زیادہ سے زیادہ مقدار کو جذب کرتا ہے۔ دوسری خصوصیت یہ کہ نقطۂ انجماد سے ۴درجہ سنٹی گریڈ اُوپر اس کی کثافت (Density)انتہائی حد کو پہنچ جاتی ہے، جس کی وجہ سے دریا اور جھیلیں عموماً منجمد نہیں ہوتیں۔ تیسری خصوصیت یہ کہ برف کی کثافت پانی سے کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے برف پانی کی سطح کے اُوپر ہی اُوپر رہتی ہے۔ اور چوتھی خصوصیت یہ کہ جب پانی جمنے لگتا ہے تو وہ کثیرتعداد میں حرارت خارج کرتا ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے سخت سردیوں کے طویل موسم میں جھیلوں، دریائوں اور سمندروں کے اندر بے شمار حیوانات زندہ رہتے ہیں۔ ورنہ اگر ان کا سارا پانی جم جاتا تو اِن میں کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی۔
خشک زمین،زمین پر زندگی کے لیے ایک مستحکم بنیاد کا کام دیتی ہے۔ مٹی ایسے نمکیات مہیا کرتی ہے، جنھیں جذب کرکے مختلف قسم کی نباتات اور پودے دھرتی کا سینہ چیر کر باہر نکلتے ہیں اور جان دار مخلوق کے رز ق کا وسیلہ بنتے ہیں۔ اسی طرح زمین کی سطح کے بالکل قریب مختلف قسم کی دھاتوں کا وجود تہذیب کے نشوونما اور ارتقا میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے۔
بعض لوگ فضاے بسیط کی بے اندازہ پہنائیوں میں اس ذرا سے کرئہ زمین کا کچھ اس طرح ذکر کرتے ہیں، جیسے یہ بڑی انمل بے جوڑ سی بات ہو۔ لیکن انھیں اس کا اندازہ نہیں کہ اگر اس کا حجم کم و بیش ہوتا، تو اس میں زندگی محال ہوجاتی۔اگر یہ کرئہ زمین چاند جتنا چھوٹا ہوتا ، یعنی اس کا قطر اصل کی نسبت ۴/۱ ہوتا تو اس کی کششِ ثقل زمین کی موجودہ کششِ ثقل کا ۶/۱ رہ جاتی۔ اس میں پانی اور ہوا کا وجود ممکن نہ رہتا۔ اس میں درجۂ حرارت چڑھتا تو انتہائی حد تک جاپہنچتا اور گرتا تو انتہائی حد تک گرجاتا۔
اس کے برعکس کرئہ زمین کا قطر، اگر موجودہ قطر کی نسبت دگنا ہوتا تو اس کی سطح موجودہ سطح کے مقابلے میں چار گنا وسیع ہوجاتی، کششِ ثقل دگنی بڑھ جاتی، ہوا کے غلاف کا حجم خطرناک حد تک گھٹ جاتا اور اس کے دبائو میں فی مربع انچ ۱۵ تا ۳۰ پونڈ کا اضافہ ہوجاتا۔جس کا ردعمل زندگی پر نہایت مہلک ہوتا۔ ہمیشہ سرد رہنے والے خطوں میں نمایاں اضافہ ہوجاتا اور بہت تھوڑے ایسے علاقے باقی رہ جاتے، جہاں زندگی اور آبادی ممکن ہوسکتی۔ ایک علاقے کے رہنے والے دوسرے علاقے کے لوگوں سے بالکل کٹ جاتے۔ ذرائع رسل و رسائل اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آمدورفت مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہوجاتی۔
اگر ہماری زمین سورج جتنی بڑی ہوتی اور اس کی کثافت برقرار رہتی تو اس کی کششِ ثقل ڈیڑھ سو گنا بڑھ جاتی، ہوا کے غلاف کی دبازت گھٹ کر ساڑھے سات سو کلومیٹر کے بجاے صرف چھے کلومیٹر رہ جاتی۔ پانی کا بھاپ میں تبدیل ہونا ممکن نہ رہتا، اور ہوا کا دبائو ایک ٹن فی مربع انچ تک جاپہنچتا۔ ایک پونڈ وزنی جانور کا وزن بڑھ کر ۱۵۰ پونڈ ہوجاتا۔ انسان کا جسم گھٹ کر گلہری کے برابر رہ جاتا، اور اس مخلوق میں کسی قسم کی ذہنی زندگی اور اس کی نشوونما ناممکن ہوجاتی۔
بخلاف اس کے کہ اگر زمین کا سورج سے موجودہ فاصلہ بڑھا کر دگنا کردیا جاتا، تو سورج سے حاصل ہونے والی حرارت کی مقدار گھٹ کر صرف ایک چوتھائی رہ جاتی۔ اس کی گردش کی رفتار نصف رہ جاتی، موسمِ سرما کا دورانیہ طویل ہوکر دگنا ہوجاتا اور زندگی منجمد ہوکر رہ جاتی۔
اگر سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ گھٹا کر نصف کردیا جاتا، تو سورج سے حاصل ہونے والی حرارت چار گنا بڑھ جاتی۔ زمین کی رفتارِ گردش دوگنی تیز ہوجاتی۔ موسموں میں اوّل تو تغیر کا امکان نہ رہتا اور اگر سردی کا موسم آتا بھی تو اس کی مدت نصف رہ جاتی اور کرئہ زمین پر تپش اس درجہ بڑھ جاتی کہ اس میں زندگی کا برقرار رہنا ممکن نہ ہوتا۔
یہ صرف کرئہ زمین کی موجودہ جسامت، اس کے سورج سے موجودہ فاصلے اور اس کی مقررہ رفتارِ گردش ہی کے برقرار رہنے کا نتیجہ ہے، کہ اس زمین پر جینا ممکن ہے اور بنی نوع انسان طبعی، ذہنی اور روحانی زندگی کی مسرتوں سے ہم کنار ہے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس عالمِ وجود کے پیچھے کوئی اسکیم اور کوئی کارفرما قوت موجود نہیں ہے، تو لامحالہ یہ قرار دینا پڑے گا کہ یہ عالمِ رنگ و بُو محض ایک اتفاقی حادثے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوگیا۔ اب دیکھیے، بخت و اتفاق محض ایک فرضی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت ہی ترقی یافتہ حسابی نظریہ ہے، جس کا اطلاق ان اُمور پر کیا جاتا ہے جن میں قطعی اور یقینی معلومات ممکن نہیں ہوتیں۔ اس نظریے کے ذریعے ایسے بے لاگ اصول ہمارے ہاتھ آجاتے ہیں جن کی مدد سے ہم حق و ناحق میں بآسانی امتیاز کرسکتے ہیں اور کسی خاص نوعیت کے واقعے کے امکاناتِ صدور کا حساب لگاکر صحیح صحیح اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اتفاقاً اس کا پیش آجانا کس حد تک ممکن ہے۔
پروٹین جو تمام ذی حیات خلیوں (Cells) کے لیے اجزاے لازم کی حیثیت رکھتے ہیں، پانچ عناصر پر مشتمل ہیں: کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور گندھک۔ ہر پروٹینی سالمہ (Molecule) ان عناصر کے ۴۰ ہزار دقیق ذرّات یا جواہر (Atoms) پر مشتمل ہوتا ہے۔ پھر کائنات میں ۹۲کیمیاوی عناصربالکل منتشر اور غیرمرتب حالت میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اب اس امر کا امکان کہ ان ۹۲عناصر کے بے ترتیب ڈھیر میں سے نکل کر یہ پانچوں عناصر اس طرح باہم ملیں کہ ایک پروٹینی سالمہ آپ سے آپ وجود میں آسکے، کہاں تک ممکن ہے؟ مادّے کی وہ مقدار جسے مسلسل ملانے سے اتفاقاً یہ نتیجہ حاصل ہوسکتا ہو اور وہ مدت جس کے اندر اس کام کی تکمیل ممکن ہو، حساب لگاکر معلوم کی جاسکتی ہے۔ ایک سوئس حساب دان چارلس ایوجین گائی نے اس کا حساب لگایا ہے، اور اس کی تحقیق یہ ہے کہ اس طرح کے کسی اتفاقی واقعے کا امکان ۱۶۰ ۱۰ کے مقابلے میں صرف ایک درجہ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ ۱۶۰ ۱۰ کا مطلب یہ ہے کہ ۱۰ کو ۱۶۰ مرتبہ پے درپے ضرب دی جائے۔ گویا یہ ایک ایسا بعید از امکان قیاس ہے کہ اعداد کی زبان میں اس کا اظہار بھی مشکل ہے۔ صرف ایک پروٹینی سالمے کے اتفاقاً وجود میں آنے کے لیے اس پوری کائنات کے موجود مادّہ سے کروڑوں گنا زیادہ مقدارِ مادّہ مطلوب ہوگی جسے یک جا کرکے ملایا جائے، اور اس عمل سے کوئی نتیجہ برآمد ہونے کا ارب ہا ارب برسوں میں کہیں کوئی امکان ہوگا۔
پروٹین، امینو ایسڈز کے طویل سلسلوں سے وجود میں آتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس طریقے کی ہے، جس سے یہ سلسلے باہم ملیں۔ اگر یہ غلط شکل میں یک جا ہوجائیں تو زندگی کی بقا کا ذریعہ بننے کے بجاے مہلک زہر بن جاتے ہیں۔ پروفیسر جے بی لیڈز (برطانیہ) نے حساب لگایا کہ ایک سادہ سے پروٹین کے سلسلوں کو لاکھوں ( ۴۸ ۱۰ ) طریقے سے یک جا کیا جاسکتا ہے۔ یہ کسی طرح عقل میں آنے والی بات نہیں ہے کہ ایک پروٹینی سالمہ کو وجود میں لانے کے لیے اتنے بہت سے بعید از امکان اتفاقات بیک وقت صادر ہوجائیں۔
پھر پروٹین خود ایک کیمیاوی شے ہے، جس میں زندگی موجود نہیں ہوتی۔ ان میں زندگی کی حرارت تو اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب ان کے اندر روح پھونکی جائے۔ صرف ایک عقل کُل، یعنی خدا ہی یہ سوچ سکتا تھا کہ زندگی کی آماج گاہ بننے کے لیے اس طرح کا ایک سالمہ موزوں ہوسکتا ہے، وہی اس سالمہ کی تخلیق کرسکتا تھا اور وہی اسے زندگی بخش سکتا تھا۔
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل و تقسیم کرنے جیسے غیر آئینی اقدامات، مواصلاتی ناکہ بندی اور ملٹری آپریشنوں کے ذریعے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے پر، جہاں دنیا بھر میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت پر لعن طعن ہو رہی ہے، وہیں بھارتی مسلمانوں کی قدیمی تنظیم جمعیۃ العلماء ہند کے دونوں دھڑوں نے سادگی میں یا دانستہ طور پر ایسے بیانات داغے کہ بھارتی حکومت کی باچھیں کھل گئیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ و امریکا میں سول سوسائٹی و میڈیاکو بھارت میں اُبھرتے ہوئے فاشزم کا ادراک ہوا اور ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس (راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ) کی مقامی شاخوں کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے۔ چاہے بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہو یا ’گھر واپسی‘ یا ہندو فرقہ پرستوں کی دیگر انتہاپسندانہ مہمات، اس کے لیے خاصی بڑی رقوم بیرون ملک بھارتیوں کی طرف سے ہی آتی رہی ہیں۔
پہلے جمعیۃ العلماء ہند کے ایک دھڑے کے رہنما مولانا ارشد مدنی صاحب نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن سنگھ بھاگوت سے ملاقات کر کے اس کی خوب تشہیر کی۔ مسلم اور یورپی ممالک میں جہاں بھارتی سفیروں کوکشمیر میں یلغار اور فاشزم کے خلاف مہم کی وجہ سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ اس پس منظر میں مولانا مدنی صاحب اور موہن بھاگوت کی ملاقات ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’یہ ملاقات فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور مسلمانوں کے خلاف ’ہجومی تشدد‘ کو قابو کرنے کے لیے رکھی گئی تھی‘‘، مگر اس کا انعقاد اس موقعے پر ہوا کہ یورپ و امریکا میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے سکون کا سانس لیا، جس سے برہمنی فاشزم کے خلاف مہم پر کاری ضرب لگ گئی۔ بھارتی سفار ت کاروں نے اس میٹنگ کی رپورٹ میڈیا میں پیش کرکے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ’’آر ایس ایس تو ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہے، جو مسلمانوں کی بہبود کے لیے بھی کوشاں ہے ۔ اس لیے اس کو فاشزم کے ساتھ نتھی کرنا ایک پروپیگنڈا ہے‘‘۔
جمعیۃ العلماء ہند کی طرف سے آسام میں شہریت کے معاملے پر مسلمانوں کی رہنمائی اور جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کو مفت قانونی امداد کی فراہمی پر ہم نے ہمیشہ تحسین کی ہے۔ ان کے قدردان اور دینی خدمات کے معترف کے طور پر گزارش ہے کہ دشمنوں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے وقت کی نزاکت کو بھی سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملاقات ناگزیر ہی تھی، تو اس کو میڈیا کی تشہیر سے دُور رکھنا چاہیے تھا، مگر کیا کریں: ’ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘۔
جب چچا مولانا ارشد مدنی صاحب نے آرایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کرکے بھارتی میڈیا اور حکومت کی واہ واہ لوٹی ، تو بھتیجا صاحب بھلا کیوں پیچھے رہتے۔مولانا محمود مدنی صاحب کی سربراہی میں جمعیۃ العلماء کے دوسرے دھڑے نے، کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرکے اور بیانات داغ کر، مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ پھر مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر (۱۶۱۸ء-۱۷۰۷ء) اور شیواجی مرہٹہ (۱۶۲۷ء-۱۶۸۰ء) کا موازنہ کرکے، اور شیواجی کو قابلِ تقلید بتا کر تاریخ کو ایسا مسخ کیا، کہ مسلم اُمت کی حُرمت اور تاریخ کا تقدس ایک طرف رہے، انھوں نے خود اپنے علم و فراست پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔ کاش! وہ امریکی محقق خاتون پروفیسر آڈری تروشکی (Audrey Truschke) کی کتابیں Aurangzeb:The Man and the Myth اور Aurangzeb: The Life and Legacy ،یا جواہر لال نہرو کی مشہور کتاب The Discovery of India میں شیوا جی پر تبصرہ، یا مغربی اسکالر جیمس لاویا کی نگارشات پڑھ لیتے۔
بدقسمتی سے کشمیریوں کی جمہوری آواز کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت نے کئی بار جمعیۃ العلماء اور دیگر مسلم لیڈران کو استعمال کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی نے فرمایا ہے: ’’کشمیر، بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہندستان کی وحدت ہمارے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے ہم کسی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتے اور میری نظر میں کشمیر کی فلاح ہندستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘‘۔ قرارداد میں پاکستان کا نام لیے بغیر اسے ’’تمام مسائل کی جڑ‘‘ بتایا گیا ہے۔ قرارداد کے مطابق: ’’ملک اور دشمن طاقتیں کشمیر کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ دشمن نے ہندستان کے خلاف کشمیر کو محاذ بنار کھا ہے جو مظلوموں کی فریاد رسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ‘‘۔ ستمبر میں محمود مدنی صاحب سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے اور جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب میں فرمایا: ’’دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵،اے کا خاتمہ بھارتی حکومت کا داخلی مسئلہ ہے اور ہم مودی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔
اس پریس کانفرنس کے لیے جانے سے قبل جمعیت العلماء کے صدر محمد عثمان منصور پوری، مولانا محمود مدنی اور مولانا اصغر علی سلفی جنرل سیکرٹری مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند نے مشترکہ طور پر بھارتی وزیرداخلہ امیت شا سے ملاقات کے بعد یہ اعلانات کیے۔ مولانا اصغرعلی سلفی نے کہا: ’’ہم ۳۷۰دفعہ میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ مولانا عثمان منصورپوری نے فرمایا: ’’ہم مودی حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں‘‘ اور محمود مدنی صاحب نے کہا: ’’ہم حکومت ِ ہند کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔ پھر اجمیرشریف کے مہتمم سلمان چشتی صاحب نے کہا: ’’کشمیر کے حوالے سے کوئی سوال جواب نہیں، وہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘۔
معروف بھارتی دینی ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ میں مذکورہ علما کے موقف کا نوٹس لیتے ہوئے مدیر مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی صاحب نے بجاطور پر لکھا ہے: ’’ [ہمارے علما کی] آج جو ’ملاقاتیں‘ ہورہی ہیں، اور جو قراردادیں اور بیانات صادر ہورہے ہیں یا کروائے جارہے ہیں، ان کا مقصد عالمی برادری میں [مودی حکومت کی] بُری طرح بگڑتی ہوئی شبیہوں کو درست کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں، اور افسوس ہے کہ ہمارے لوگ استعمال ہورہے ہیں‘‘۔(اکتوبر ۲۰۱۹ء، ص۱۰)
اب اگر کوئی نیازمند، ان محترم حضرات سے یہ پوچھے:’’کون اپنے اٹوٹ انگ پر تیر و نشتر چلاتا ہے؟‘‘ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ بھارت کی طرف دار کشمیری مسلم قیادت نے جموں وکشمیر میں جمہوریت پر شب خون مارا، اور اپنے ہاتھ نہتے کشمیریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۰ء تک اگر بھارتی قیادت نے بار بار دغا بازیاں نہ کی ہوتیں، مہاتما گاندھی ،جواہر لال نہراور دیگر لیڈروں کے وعدوں کو نبھا کر بھارتی آئین کے اندر بھی جمہوری حقوق ملے ہوتے، انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں نہ کی گئی ہوتیں، تعصب نہ برتا گیاہوتا، تو شاید کشمیر میں جذبات اتنے شدید نہ ہوتے۔یہ بھی شاید یا د دلانا پڑے گا کہ خاص طور پر ۱۹۷۱ءکے بعد اور پھر شیخ عبداللہ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تو تحریک آزادی کب کی ٹھنڈی پڑچکی تھی۔ کشمیریوں نے بھی لاچار، حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ چاہے ۹؍اگست ۱۹۵۳ءمیں وزیر اعظم شیخ محمدعبداللہ کی گرفتاری اور برخاستگی ہو، یا جون۱۹۸۴ء میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی معزولی، یا ۱۹۸۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں ہوں، بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیریوں کے سینوں میں خنجر گھونپنے کے لیے برابر استعمال کیا گیا۔
شیخ محمد عبداللہ کے انتقال (۸ستمبر ۱۹۸۲ء)کے اگلے برس ۱۹۸۳ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی، نیشنل کانفرنس کے خلاف میدان میں اتری تھی۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے این ٹی راما رائو، جیوتی باسو ، جارج فرنانڈس کے ساتھ اتحاد و قربت پر بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی سخت ناراض تھیں۔ جموں خطے میں مسز اندرا گاندھی نے خود ہی نودن قیام کرکے انتخابی مہم کو خوب فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ کشمیر میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور میرواعظ مولوی محمد فاروق کے اتحاد کا حوالہ دے کر ہندو ووٹروں کو خوب بڑھکایا۔ دوسری طرف کشمیر میں جمعیۃ العلما کے لیڈروں نے فاروق عبداللہ کے مذہبی رجحان وغیرہ کو ایشو بناکر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
اگست ۱۹۵۳ءکو شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور غیر آئینی معزولی میں بھی مولانا ابولکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی نے کردار ادا کیا۔ شیخ صاحب بھارت سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں بھارتی فوج کشمیر وارد ہوئی، اور پھر نہرو نے ۳جون ۱۹۵۲ء کو ’دہلی ایگریمینٹ‘ پر دستخط کرکے کشمیر کی ’خودمختاری‘ مان لی۔ تب شیخ صاحب، نہرو سے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کی بھارتی پارلیمنٹ سے توثیق چاہتے تھے، تاکہ آیندہ کوئی حکومت اس کو تحلیل نہ کرسکے۔ جموں کے مسلم کش فسادات، میں ۶۰فی صد سے زائد مسلم آبادی کو راتوں رات اقلیت میں تبدیل کرکے ۳۰فی صد کردیا گیا ، اور کپور تھلہ ، بھرت پور، اور آلوار جیسے علاقوں میں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا گیا۔ شیخ عبداللہ کو خدشہ تھا کہ ایسی سازش کسی وقت کشمیر میں بھی دہرائی جاسکتی ہے۔ اس لیے کشمیری مسلمانوں کی شناخت اور انفرادیت کو بچانے کے لیے کسی آئینی ضمانت کے وہ خواست گار تھے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اُٹھایا گیا ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کا قدم، فلسطین میں اسرائیلی کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ سنگین ترین ہے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے کچھ آدھے ہی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی عرب ممالک یا پورے فلسطین کا آبادیاتی تناسب بگاڑنہیں سکتے۔ کشمیر میں تو مقابلہ ایک ارب ۲۵ کروڑ آبادی کے ساتھ ہے، جو چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دے گی۔
۲۰۱۴ء کے کشمیر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے وادیِ کشمیر کے بجاے پوری توجہ جموں اور لداخ پر مرکوز کیے رکھی۔ امیت شا نے جموں کی ۱۳؍اور لداخ کی دو مسلم اکثریتی نشستوں پر مسلم ووٹ کو بے وقعت بنانے کے لیے زرکثیر خر چ کر کے مسلم امیدواروں کی فوج کھڑی کردی تھی۔ اس خطے کے مسلم علاقوں کا بھار ت کے مسلم اداروں خاص طور پر دارالعلوم دیوبند وغیرہ کے ساتھ نسبت اور رابطہ ہے، اس لیے کئی خیر خواہوں نے تجویز دی تھی: ’’اس علاقے میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے کے لیے بھارتی مسلم زعما سے مدد لی جائے‘‘۔ دوسری جانب تشویش کی بات یہ بھی تھی کہ ’جماعت علما‘ کے نام کی ایک تنظیم ان علاقوں میں بی جے پی کے لیے ووٹ مانگ رہی تھی اور عوام اس کو ’جمعیۃ العلماء‘ سے خلط ملط کر رہے تھے۔ خیرخواہوں نے دہلی میں جمعیۃ العلماء کے دروازوں پر دستک دے کر ان سے صورت حال کو واضح کرنے کی گزارش کی، مگر کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ جب بہت خرابی ہوچکی تو جمعیۃ العلماء نے لاتعلقی کا ایک بیان جاری کیا، مگر تب تک انتخابی عمل ختم ہو چکا تھا۔ معلوم نہیں کہ یہ حرکت دانستہ تھی یا نادانستہ۔ بھارتی مسلمانوں کی اس تنظیم کے لیڈر نے بتایا ، کہ مشورہ کرنے کے بعد وہ اطلاع دیں گے کہ آیا وہ جموں اور لداخ کے مسلم علاقوں میں رہنمائی کے لیے کوئی ٹیم بھیجیں گے یا نہیں؟ بعد میں ان کا پیغام آیا کہ ’’مسلم لیڈران اپنے آپ کو کشمیر کی سیاست کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ دعا کے سوا کچھ نہیں کرپائیں گے‘‘۔
چند برس قبل کشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید اور کچھ صحافیوں کے ہمراہ مولانا وحید الدین خان صاحب سے دہلی میں شرفِ نیاز حاصل ہوا۔ انجینیر صاحب رکن اسمبلی ہونے کے سبب کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا چہرہ تھے۔ وہ بضد تھے کہ مولانا صاحب سے جموں وکشمیر کی صورتِ حال پر راے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال وجواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا۔ ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورتِ حال خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراکے مسئلہ کشمیر کے پاے دار حل کے لیے مولانا کا نقطۂ نظر جاننا چاہا۔
مولانا وحید الدین خان صاحب نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا: ’’کشمیری ’امن‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں تسلیم کرناہوگاکہ ان کی گذشتہ کئی عشروں کی جدوجہد غلط تھی‘‘۔ رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کاقیام کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو مولانا نے فرمایا: ’’انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔ میرے نزدیک کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازع کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں‘‘۔جب ان سے پوچھا گیا: ’’جموںوکشمیر کے تنازعے کو تو خودہی بھارتی لیڈر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے،اس میں کشمیریوں کا کیا قصور؟ وہ بے چارے تو صر ف وعدے کے ایفا ہونے کامطالبہ کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں‘‘۔ اس سوال پر مولانا غصّے سے لال پیلے ہوگئے اوروہاں سے اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظار کے بعدہم بھی وہاں سے واپس چلے آئے۔اس سے قبل میز پر ان کا لکھا ہوا ایک پمفلٹ دیکھا، جس میں انھوں نے کشمیری مسلمانوں کو ہدایت دی تھی، کہ اپنے کردار اور تبلیغ سے وہاں موجود ۷لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستو ں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں، اور ان کے ساتھ دشمنی پر مبنی رویے کو بند کریں ۔سوال یہ ہے کہ کشمیریوں کو تبلیغ کا مشورہ دینے والے ہمارے یہ محترم مولانا صاحب پھر بھارت میں بسنے والے کروڑ ہندوؤں کو مسلمان کیوں نہیں بناتے۔
اگست ۲۰۱۹ء میں دہلی کے ’جنتر منتر چوراہے‘ پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے کشمیر پر ہونے والی آر ایس ایس کی فسطائی یلغار کے خلاف مظاہرے کا اہتمام کیا تھا، مگر وہاں بھارتی مسلمانوں کی کوئی تنظیم نہیں آئی۔ پچھلے ۲۶برسوں کے دوران کشمیر میں سیکورٹی ایجنسیوں اور اس کے حاشیہ برداروں کے ہاتھوں معصوم بچیو ں، لڑکیوں اور عورتوں کی عصمتیں پامال کی گئی ہیں، اس کا ہلکا سا اشارہ ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے اپنی معرکہ آرا تصنیف The Meadows [۱۹۹۵ء: ۵۷۶ صفحات] میں کیا ہے۔ ا ن برطانوی مصنّفین نے لکھا ہے: ’’کس طرح ایک سرکاری بندوق بردار نے ایک ماں کی گود سے اس کے شیرخوار بچے کو چھین کر اس کی آنکھوں کے سامنے ہی یخ بستہ پانی میں ڈبو دیا اور تڑپاتڑپا کر مارڈالا۔ اس کشمیری مسلمان خاتون کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی عصمت اس بندوق بردار سرکاری اہلکار کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا‘‘۔ کتاب کے مصنّفین نے ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’راشٹریہ رائفلز کے زیرسایہ ایک اور سرکاری بندوق بردار نے ایک دیہاتی لڑکی نسیمہ کو اغوا کرکے اس وقت تک اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، جب تک کہ وہ لڑکی حاملہ نہ ہوگئی۔ا سی دوران اس سرکاری بندوق بردار کی نگاہ نسیمہ کی بہن پر بھی پڑ گئی تو اسے بھی اغوا کرلیا۔ جب بدقسمت والدین نے پولیس میں شکایت کی تو دوسرے ہی دن بندوق بردار نے بھرے بازار میں پہلے تو اپنی بندوق کی نوک پر ہجوم کو اکٹھا کیا اور پھر آٹھ ماہ کی حاملہ نسیمہ کا لباس تار تار کرکے سب کے سامنے گولیاں اس کے پیٹ میں اتار دیں۔ نسیمہ نے وہیں دم توڑ دیا اور اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کے آغوش میں چلاگیا۔ کشمیر کی موجودہ تاریخ ایسے اَن گنت واقعات سے بھری پڑی ہے! ‘‘
چند روزقبل دہلی کی شاہی جامع مسجدکے امام سید احمد بخاری صاحب نے شکوہ کیا: ’’کشمیری مسلمانوں نے کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا‘‘۔ محترم بخاری صاحب کو معلوم ہونا چاہیے: ’’گذشتہ ۶۰برس میں جب بھی بھارت کے کسی کونے میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، تو کشمیریوں نے اپنے جلتے ہوئے گھروں کے شعلوں کو فوراًفراموش کرکے ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے کسی نہ کسی طرح سے اپنی آوازبلند کی۔ مراد آباد کے فسادات کے وقت کئی روز تک کشمیر بند رہا۔ سوپور میں تو مظاہروں کے دوران ایک شخص سرکاری فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک بھی ہوگیا۔ یہ واقعی سخت شرم کی بات ہے کہ بھارت کے مسلم لیڈروں اور دانش وروں نے جموں وکشمیر میں روا رکھی جانے والی زیادتیوں کے متعلق اپنے منہ ایسے بند کیے ہیں، جیسے ان کی چابیاںہندو انتہا پسندوں کے پاس ہوں۔
ان بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیرکے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی خدشات اور واہمے لاحق ہیں۔ سب سے پہلا وہم یہ ہے کہ اگر کشمیر الگ ہواتو ان کے بقول ملک کی اکثریتی آبادی پورے ملک کے مسلمانوں کو ملک دشمن اورعلیحدگی پسندوں کے طور پر دیکھے گی۔ غرض یہ کہ، مسلمان لیڈروں کی غالب اکثریت جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو عدل اور انصاف سے زیادہ اپنے اوپراس کے پڑنے والے اثرات کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس مخصوص سوچ سے باہر نکلنے کے لیے وہ تیار نہیں۔ کوئی بھارتی مسلم دانش وَراورحساس طبقے سے یہ پوچھے کہ اگرآپ کشمیری مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر جدا نہیں کرنا چاہتے ہیں، تو پھرکم از کم جموں و کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کبھی اپنے لبوں کو معمولی سی جنبش دینے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے؟ آپ جموں وکشمیر میں روز ہونے والی زیادتیوں کے خلاف صرف اس لیے آواز اٹھانے سے گھبرارہے ہیں کہ کہیں آپ پر ملک دشمنی کا لیبل لگنے نہ پائے اور بھارتی انتہاپسندوں سے محفوظ رہیں۔
خوش آیند پہلو یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان، عمومی طور پر کشمیر میں مسلمان بھائیوں کی حالت ِ زار پر خاصے اضطراب میں ہیں۔ پچھلے کئی برسوں کے دوران جب بھی مجھے بھارت کے اندرونی اور دُوردراز علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ، تو عوام کو کشمیر کے سلسلے میں خاصا فکرمند پایا۔ چند برس قبل خواجہ معین الدین چشتی درگاہ کے دیوان زین العابدین اور خادم پیر نسیم میاں نے جب یہ اعلان کیا: ’’ہم اپنے حامیوں اور مریدوں کی فوج سرینگر لے جا کر ایک ہزار بھارتی پرچم لہرائیں گے‘‘ تو وہ خود اپنے ہی مریدوں کی ناراضی کا شکار ہوگئے۔ بریلی میں حضرت امام احمد رضا خاں بریلویؒ کے خانوادے کے ایک رہنما نے مجھے بتایا:’’ہماری گردن شرم سے جھک جاتی ہے کہ بے بس اور مظلوم کشمیری بھائیوں کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔
امیر جماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے ۷؍اگست کو اپنے بیان میں کہا: ’جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے اقدامات، پارلیمانی جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ دفعہ۳۷۰ کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت کو وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں سے مشاورت کے بغیر یک طرفہ، محض صدارتی حکم نامے کے ذریعے یک لخت ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق مجروح کیے جارہے ہیں۔ ریاست میں فوجی چوکیاں غیرمعمولی طور پر بڑھانا اور جبر کے اس ماحول میں یک طرفہ فیصلوں کو مسلط کرنا باعث تشویش ہے۔ ان یک طرفہ فیصلوں اور اقدامات کو واپس لیا جائے۔ گرفتار قائدین کو رہا کیا جائے، تعلیمی ادارے کھولےجائیں، عوام کی نقل و حرکت اور مواصلات پر پابندیاں ہٹائی جائیں اور خوف و دہشت کا ماحول ختم کیا جائے۔ جموں و کشمیر کے معاملات وہاں کے عوام اور ان کے نمایندوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی مشاورت ہی سے طے ہونے چاہییں‘___ پھر امیرجماعت اسلامی ہند، سیّد سعادت اللہ حسینی نے یکم اکتوبر کو پریس کانفرنس میں کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کشمیری عوام پر سے سخت پابندیوں کو ہٹائے۔ وہاں کے لوگ تقریباً دو ماہ سے انٹرنیٹ اور مواصلاتی سہولیات سے محروم ہیں۔ ریاست کے سیاسی قائدین کو نظربند کرنا جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ تنظیم براے انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے وادیِ کشمیر کے سلسلے میں جورپورٹیں پیش کی ہیں، وہ شدید تشویش کا باعث ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو قید کیا جارہا ہے، احتجاج پر قابو پانے کے لیے ضرورت سے زیادہ فوج تعینات کی گئی ہے اور طب و صحت کی سہولیات بھی بُری طرح متاثر ہیں‘۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے، جموں و کشمیر پر غیرآئینی حملہ کرنے کی مذمت کی اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’گوڈسے کی اولاد کے ہاتھوں ناگالینڈ، میزورام، نئی پور اور آسام پر بھی ایسا وار ہوسکتا ہے‘‘۔ مولانا توقیر رضا خاں بریلوی نے کہا: ’’دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے کے ساتھ کشمیر پر جو ظلم ہورہا ہے، وہ محض کشمیریت کا نہیں بلکہ انسانیت کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ ہم خود کشمیر جاکر برسرِزمین، حالت ِ زار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں ہندستان کے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ کشمیر پر روا اس ظلم کا واحد سبب، اس علاقے کا مسلم اکثریتی علاقہ ہونا ہے‘‘۔
کتنی حیرت کا مقام ہے کہ اسیرانِ مالٹا مولانا محمودحسنؒ اور مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے جانشین، اپنے بیانات اور اقدامات سے کشمیری عوام کے زخموں کو مزید کریدکر ناسور بنار ہے ہیں۔ تاریخ خاصی بے رحم ہوتی ہے۔آئین کی دفعات اور ملک تحلیل ہو سکتے ہیں، مگر قانونِ قدرت تحلیل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ کا پہیہ ساکت نہیں رہتا، اور اُس قوم کے لیے خاصا بے رحم ثابت ہوتا ہے، جو اکثریت اور طاقت کے بل بوتے پر کمزور اور ناتواں کی زندگیاں اجیرن بنادے۔ بے بسی پر ہنسنے والو، تاریخ سے سبق لے کر مستقبل کے آئینے میں اپنی بربادی کا منظر دیکھو۔ چلیے اگر درد کا علاج نہیں کرسکتے تو درد کی لاج رکھنے کے لیے خاموش ہی رہو ع ’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘۔
بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ، جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے، تو ایک دن پارٹی صدر دفتر میں پریس بریفنگ کے دوران ’’بھارت کی روایتی مہمان نوازی ، ہندو کلچر کے بے پناہ برداشت اور تحمل‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’صدیوں سے بھارت نے غیر ملکیوں کو پناہ دی اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا‘‘۔ روزنامہ دی ہندو میں سیاسی اُمور کی ایڈیٹر نینا ویاس نے سوال کیا:’’آپ کی پارٹی نے پھر اس تاریخی ہندو کلچر کے برعکس ، بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کو انتخابی موضوع کیوں بنایا ہے؟‘‘ اس پر مودی کا پارہ چڑھ گیا اور انھوں نے پریس بریفنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح ایک بار بی جے پی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سیاسی قرارداد پر بحث کے دوران ایک مسلمان ممبر نے، جو اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر بھی تھے ، شکوہ کیا: ’’پارٹی کو دیگر فرقوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ قرار داد صرف مسلمانوں کی مخالفت کے ایشوز سے بھری پڑی ہے۔ قرارداد میں بنگلہ دیشیوں کی شناخت کرکے ان کو ملک بدر کرنا، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنااور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر وغیرہ، یہ سبھی ایشو تو مسلمانوں ہی کے متعلق ہیں‘‘۔
حال ہی میں شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ اور اس کے نتائج حکمران بی جے پی کے لیے ایک طرح سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن گیا ہے اور ’نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز‘ یعنی NRC کی لسٹ ، ان سے نگلتے نہ اُگلتے بنتی ہے۔ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی والی مثال ہندو فرقہ پرستوں پر صادق آرہی ہے۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ اور سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ کی۹۰ لاکھ ۳۹ ہزار آبادی میں ۱۹لاکھ ۶ ہزار افراد ایسے پائے گئے، جو شہریت ثابت نہیں کرسکے۔ برسرِزمین کام کرنے والے رضا کاروں کے مطابق: ’’ان میں سے۱۱ لاکھ افراد ہندو ہیں اور صرف ۸لاکھ ہی مسلمان ہیں‘‘۔ اُن میں سے بھی بیش تر ایسے ہیں، جو فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں کرگئے۔ خاندان کے متعدد افراد میں ناموں کے ہجے کا فرق ہے۔
۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی ۳۴ء۲۲ فی صد ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ اس لیے۹؍اضلاع میں ان کی واضح اکثریت فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی آرہی ہے۔ گذشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اُس میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں۔ بہت سے ایسے تھے جن کااپنا نام توشامل تھا، لیکن ان کے لڑکوں کا نہیں تھا۔ کسی لڑکے کا تھا تو اْس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا۔ ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا۔
ابھجیت شرما ، جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے شہریوں کی شناخت کرنے کا آپریشن شروع کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ’’نتائج ان کی توقع کے برعکس ہیں‘‘۔ گوہاٹی سے فون پر راقم سے ان کا کہنا تھا: ’’غیر ملکی افراد کی تعداد ۴۰سے ۵۰لاکھ کے قریب ہونی چاہیے تھی۔ فی الحال جن ۱۹لاکھ افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگا ہے، ان میں بیش تر ایسے لوگ ہیں ، جو صدیوں سے آسام میں رہ رہے ہیں‘‘۔ شرما نے اب سپریم کورٹ میںشہریوں کی فہرست کی از سر نو تصدیق کی درخواست کی ہے، اور پوچھا ہے: ’’ اس پورے عمل پر ۱۳؍ارب روپے کیسے خرچ ہوئے ہیں؟‘‘ اسی طرح بھارتیہ گھورکھا پری سنگھ کی آسام شاخ کے سربراہ نیتیانند اوپادھیائے نے بتایا: ’’ہماری کمیونٹی کے تقریباً ایک لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں نہیں ہیں، یعنی ان کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے‘‘۔ نیپال نژاد گھورکھا جوان، بھارتی فوج میں کام کرتے ہیں ۔ ان کی شہریت سے بے دخلی کے دورس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (AASU)، جس نے ۸۰ء کے عشرے میں آسامی بمقابلہ غیرآسامی کے ایشو کو لے کر احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی، کا کہنا ہے: ’’این آر سی کی فہرست ہم کو منظور نہیں ہے۔ یہ تعداد حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے بھی کم ہے‘‘۔ ۲۰۱۶ءمیں وزیرمملکت براے داخلہ نے پارلیمان کو بتایا تھا:’’ملک بھر میں تقریباً۲کروڑ غیرقانونی بنگلہ دیشی مقیم ہیں۔ اس سے قبل۲۰۰۴ء میں ایک اور وزیر داخلہ سری پرکاش جیسوال نے یہ تعداد ایک کروڑ ۲۰لاکھ بتائی تھی اور ان کا کہنا تھا اس میں ۵۰ لاکھ آسام میں مقیم ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: نشیبی آسام مغربی علاقہ ہے، بالائی آسام مشرقی علاقہ ہے، اور بارک وادی جنوب میں واقع ہے۔آسام بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے، جہاں کی تقریباً۴۰ فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ہندو بنا کر رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی صوبہ کی راے عامہ اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔
معروف تجزیہ کار کلیان بروا کے مطابق: ’’مسلم اکثریتی علاقوں میں نہایت کم افراد غیرملکیوں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں‘‘۔ جب یہ مشق شروع ہوئی تو معلوم تھا کہ اس کا ہدف مسلمان ہی ہوں گے۔ اس لیے مسلم تنظیموں خاص طور پرجمعیۃ علما ہند ، اس کے مقامی لیڈر مولانا بدرالدین اجمل، ان کے رفقا اور کئی غیر سرکاری تنظیموں نے مسلمانوں کو دستاویزات تیار کرانے اور قانونی مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مولانا اجمل آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (AIUDF) کے سربراہ اور لوک سبھا کے ممبر بھی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور کئی دیگر اداروں سے مسلم طلبہ نے بھی رضاکارانہ طور پر ان سے تعاون کیا۔ دُور دراز کے علاقوں میں پہنچ کر ان نوجوانوں نے شہریت ثابت کرنے کے لیے مطلوب دستاویزات تیار کرنے میں لوگو ں کی مدد کی۔
کلیان بروا کے نزدیک: ’’چونکہ ہندو اس عمل سے زیادہ خائف نہیں تھے، انھوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جس کی وجہ سے ان کی خاصی تعداد شہریت کی فہرست سے باہر ہوگئی ہے۔ اب،جب کہ بی جے پی کے ہی ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد غیر ملکیوں کے زمرے میں آگئی ہے ، بی جے پی نے اس این آر سی کے پورے عمل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آسام کے وزیرخزانہ اور بی جے پی کے مقتدر لیڈر ہیمنت بیسواسرما نے این آر سی کے عمل میں متعین افسران پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’ان افسران نے۱۹۷۱ءمیں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آئے ہندو ؤں کو دی گئی ریفیوجی اسناد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اور بھگوان کرشنا، بھگوتی درگا کے ماننے والوں کو غیر بھارتیہ قرار دیا گیا ہے۔ آسام میں مقیم بنگلہ دیشی اب بھارت کے دیگر علاقوں میں بس گئے ہیں۔ اس لیے آسام کی طرز کا آپریشن پورے ملک میں لاگو کیا جانا چاہیے، جس پر ۱۷کھرب روپے لگیں گے‘‘۔
’مہاجرین کے بحران‘ پر کام کرنے والے سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’آسام میں آبادی کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ۲۴مارچ۱۹۷۱ء سے قبل وہ اسی صوبے میں مقیم تھے، جو بہت مشکل کام ہے۔ ۱۹۷۱ءمیں آسام کی ۴۴فی صد آبادی خواندہ تھی۔ باقی آبادی آخر کہاں سے پیدایشی سند حاصل کرے؟ اس عمل میں اکثر بے زمین مزدور شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔ سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’چائے کے باغات میں کام کرنے والے قبائلیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی کمیونٹی آسام کی اصل رہایشی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی‘‘۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے جنرل سیکرٹری امین الاسلام کا کہنا ہے: ’’پچھلے ۴۰برسوں سے مسلمانوں کے سروں پر شہریت کی جو تلوار لٹک رہی تھی، وہ ہٹ گئی ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق شہریت کا پیمانہ مذہب نہیں ، بلکہ ’آسام ایکارڈ‘ تھا، جس کی رُو سے ’’مارچ ۱۹۷۱ءتک آسام میں رہنے والوں کو شہری تسلیم کرنا تھا‘‘۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلا، یعنی شناخت کا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ ووٹر اور شہریت کی فہرست سے ایسے افراد کا اخراج کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ملک بدر کرنا۔ حکومت پریشان ہے کہ ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد کو کہاں بھیجے؟ حکومت قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے کہ: ’’بنگلہ دیش، پاکستان،ا ور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، جین اور پارسی بھارتی شہریت کے حق دار ہوں گے‘‘۔ اس کے لیے ان کو کوئی بھی دستاویز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری طرف اگر ملک بدر یا نظر بند ہوں گے تو، صرف مسلمان ہی ہوںگے۔
تقسیم ہند ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۱ء میںسقوط مشرقی پاکستان کے عرصے کے دوران مجموعی طور پر دعوئوں کے مطابق تقریباً ایک کروڑ افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ ۱۹۷۱ء میں تو پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں۔ لیکن جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس اپنے گھروں میں چلے گئے۔۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس یونین سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ ’’بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجاے آسام میں بس گئے ہیں‘‘۔۱۹۷۸ء کے انتخابات میں ۱۷مسلمان اسمبلی کے لیے منتخب ہو گئے، جس پر آسمان سر پر اٹھا لیا گیا: ’’آسام کو ’اسلامی ریاست‘ میں تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ریلا چلا آرہا ہے‘‘۔پہلے تو غیر آسامیوں، یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی، پھر اس کا رُخ خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑدیا گیا۔ بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خوں ریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا، جس میں ہزاروں بے گناہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں، مسلمان عورتوں کی بے حُرمتی اورکروڑوں روپے مالیت کی جایدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔
آسام میں ’بنگلہ دیشی‘ کہہ کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس میں ۱۶فروری ۱۹۸۳ءکو نیلی (Nillie: ضلع ناگائوں) اور چولکاوا میں قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے، جن میں تقریباً ۳ ہزار (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۰ ہزار) افراد کو محض چھے گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا۔ اس المیے کی تحقیقات کے لیے ’تیواری کمیشن‘ نے ۶۰۰صفحوں پر پھیلی مفصل رپورٹ میں ظلم کی رُوداد کو مرتب کیا، جو فروری ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی۔ پھر ۱۵؍اگست ۱۹۸۵ء کو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی مرکزی حکومت، آسام حکومت اور احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان معاہدہ ’آسام آکارڈ‘ وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث ۶۸۸؍ افراد کے خلاف فردِ جرم عائد کی، مگر ’آسام اکارڈ‘کی ایک شرط کے تحت معلوم قاتلوں اور فسادیوں کے خلاف قتل کے تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔ اس طرح آج تک مسلمانوں کی اس نسل کشی کے لیے کسی ایک قاتل اور فسادی کو سزا تک نہیں ملی۔
بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی ’آل آسام سٹوڈنس یونین‘ کے بطن سے نکلی ’آسام گن پریشد‘ کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔معاہدے کے مطابق مارچ ۱۹۷۱ء (کو ایک حتمی تاریخ) بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر رہایش اختیار کرنے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس معاہدے کے بعد مر کزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعے ’’شہریت کے قانون مجریہ ۱۹۵۵ء‘‘ میں سیکشن ۶ (الف) داخل کر کے اسے منظور کیا،جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ بشمول کانگریس، بی جے پی،کمیونسٹ جماعتوں، نیز تمام غیرسیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے۔ اس لیے پہلے ۲۰۰۹ء میں اور پھر ۲۰۱۲ء میں آسام سنمیلیٹا مہاسنگھـ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرض داشت داخل کرکے ۵مارچ ۱۹۷۱ءکے بجاے، ۱۹۵۱ءکی ووٹرلسٹ بنیاد پر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔ نیز اسی طرح مذکورہ معاہدے کی قانونی حیثیت اور پارلیمنٹ کے ذریعے’شہریت کے ترمیمی قانون ۱۹۵۵ء‘ کو بھی چیلنج کیا گیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۱ءکو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی فہرست تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔ ممبر پارلیمنٹ اجمل نے جو ریاست کی ڈھبری حلقے سے پارلیمنٹ میں نمایندگی کرتے ہیں، ان کی جماعت کے ریاستی اسمبلی میں ۱۳؍ ارکان ہیں۔ ان کے بقول: ’’سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گو گوئی نے اپنے ۱۵سالہ دورِ حکومت (۲۰۰۱ء-۲۰۱۶ء) میں ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں: پہلے انھوں نے۲۰۰۵ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا، جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیش سے آنے والوں کا پتا لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ۱۹۸۳ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کو ختم کردیا گیا ۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیار دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کرسکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ گرفتار شدہ لوگوں سے راشن کار ڈ بھی چھین لیے گئے‘‘۔
مسلمانوں کو کس حد تک پاور اسٹرکچر سے باہر رکھنے کا کام کیا گیا، اس کی واضح مثال بھارتی حکومت اور ’بوڈو لبریشن ٹائیگرز‘ (BLT) کے درمیان۲۰۰۵ء کا معاہدہ ہے، جس کی رُو سے آسام کے کھوکھرا جار اور گوپال پاڑہ میں بوڈو علاقائی کونسل قائم کی گئی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفیدفام اقلیت کی نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے۔ کیوں کہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی، ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض ۲۸ فی صد ہے۔ بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ۸۰ء کے عشرے میں ’یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ‘ (UMF) کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی، لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا، حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر ۲۰۰۵ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔ چنانچہ صوبے کی ۱۳ملّی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ ’آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (AIDF)کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم کردار رہا، لیکن وہ بے زری کے سبب قیادت نہ نبھاسکے۔ چنانچہ قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔
آسام کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے، جہاں ۱۳ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ءمیں جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا، تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا۔ چونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں اورمشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے،ان میں ۸۵فی صد مسلمان تھے۔ آج تین صدیوں سے آباد انھی مسلمانوں کو ’غیر ملکی یا بنگلہ دیشی‘ قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔
ریاست میں اکثر یت قبائلی فرقوں کی ہے، جو کل آبادی کا لگ بھگ ۴۰ فی صد ہیں۔ قبائلیوں کی کل ہند تنظیم راشٹریہ آدیواسی ایکتا پریشد کے نیشنل کو آرڈی نیٹر پریم کمار گیڈو کہتے ہیں: ’’آئین ہندکی رو سے قبائلی ہندو نہیں ہیں۔ پھر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، جس نے قبائلیوں کو غیر ہندو قرار دیا ہے‘‘۔ چنانچہ ریاست میں ہندو حقیقی معنوں میں اکثریت میں نہیں ہیں۔یہ چیز بھی فرقہ پرستوں کو کھٹکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی شہریت چھیننے اور ان کو بے حیثیت کر نے کی کوششیں شروع کی تھیں، اور یہ معاملہ برما کے اراکانی مسلمانوں سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا تھا۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق اگست ۲۰۱۷ءسے جاری اس کارروائی میں اب تک ۳۹ہزار ۵سو ۸۹؍ افراد کو غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپوں میں نظر بند کیا جا چکا تھا۔
انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ایک طرف آسام میں مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے، تو دوسری طرف بھارت کی مرکزی حکومت لاکھوں غیرملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دلانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔اس سے بڑی اور کیا ستم ظریفی ہوسکتی ہے کہ آسام میں تو مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے لاکھوں بنگالی نژاد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر شہریت سے محروم کر نے کی کوشش ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے علانیہ دوہرے پیمانے صرف اس لیے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ آسام کی ۳۵ فی صد اور جموں و کشمیر کی ۶۸ فی صد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ ہندو فرقہ پرست دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کردیں۔
’’ضلع شوپیان،جموں و کشمیر میں ہر تیسرے بچے میں دماغی بیماری تشخیص کی جا سکتی ہے‘‘۔ ۲۰۱۹ء کے اوائل میں اس امر کا اظہار اس جائزے میں کیا گیا، جو Community Mental Health Journal میں شائع ہوا۔ تنظیم ’سرحدوں سے ماورا ڈاکٹروں‘ کے مطابق وادیِ کشمیر میں تقریباً ۱۸ لاکھ افراد میں،جو کُل آبادی کا ۴۵ فی صد ہیں،۲۰۱۵ء میں ذہنی بیماری کی علامتیں پائی گئی تھیں۔ یوں ۵؍اگست کے واقعے سے قبل بھی، وادی میں غیرقانونی گرفتاریوں اور اذیت رسانی کے گہرے اثرات اور نشانات کشمیر کے بچوں پر نمایاں تھے۔
آج بھی نہ صرف دہشت کا یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، جیسا کہ دُنیابھر کے ذرائع ابلاغ گواہی دے رہے ہیں۔ میڈیا نے بے شماربچوں کی غیرقانونی گرفتاریوں کے متعلق اطلاع دی ہے کہ امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دارحکام کی جانب سے، ان میں سے بہت سے بچّے آدھی رات کو اٹھا لیے گئے، مگر ان کی گرفتاریوں کی کوئی تفصیل بھی مرتب نہیں کی گئی۔ جس کے باعث ان کی مختلف جیلوں یا حراستی مراکز میں موجودگی یا تلاش کی راہ میںمشکل پیش آ رہی ہے۔ ماہرمعاشیات جین ڈریزنے اپنی ایک رپورٹ میں اگست ۲۰۱۹ء میں لڑکوں کی غیرقانونی گرفتاریوں اور اذیت رسانی کی تفصیل مہیا کی ہے۔’انڈین فیڈریشن آف انڈین ویمن‘ (IFIW) اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ایک حالیہ رپورٹ میں ان مائوں کے تازہ ترین احوال بیان کیے گئے ہیں، جو اپنے بچوں کی تلاش میں امید بھرے انداز سے سارا سارا دن اپنے گھر کے دروازوں پر کھڑی رہتی ہیں کہ ’’میرا گم شدہ بچہ واپس آ جائے گا‘‘، جب کہ ان مائوں کو یہ قطعاً علم نہیں کہ ان کے بچے کہاںہیں؟ یہ گم شدگیاں،ڈی کے باسو مقدمے میں بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں، جس میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا: ’’تلاشی کے دوران گرفتار شدگان کی گرفتاریوںکی وجوہ سے ان کے قریبی رشتہ داروں کو مطلع کیا جائے‘‘۔
۲۰۱۹ء کے آغاز میں ’’اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن براے انسانی حقوق‘‘ کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا:’’ کشمیر میں بچوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA)،جس کے تحت بغیر کسی الزام کے، کئی دنوں تک،پولیس حوالات میں رکھا گیا ہے‘‘۔ یاد رہے اس قانون کے مطابق ’’بلامقدمہ کسی کو دو برس تک قید رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’جواب دہی میں اہم رکاوٹ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ (AFSPA) رہا ہے‘‘۔
۲۰۱۸ء میں’جموں کشمیر کوالیشن سول سوسائٹی‘ (JKCCS) نے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت معلوم کیا کہ: ۱۹۹۰ء اور۲۰۱۳ء کے درمیان سیکڑوں بچوں کو’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ (PSA) کے تحت حراست میں لیاگیا۔ان میں سے بہت سے بچوں کے مقدمات کے بارے میں پولیس اور مجسٹریٹ کے پاس کوئی ایسا طریقہ دستیاب نہیں ہے کہ گرفتارشدگان کی عمر کی تصدیق کی جائے۔ پھر ان بچوں کوبالغ جرائم پیشہ افرادکے ساتھ حراست میں رکھا گیا اور بعدازاں محض عدالتی مداخلت کی وجہ سے انھیں رہا کیا گیا۔ان میں سے تقریباً ۸۰ فی صد گرفتاریوں کو عدالتوں کی طرف سے غیرقانونی قرار دیا گیا‘‘۔
بچوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک واضح طور پر ،متعددقوانین اور کنونشنز کی خلاف ورزی ہے۔ یہ International Convention on Civil & Political Rights کی شق۱۴(۴)کی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق:’’بچوں کے خلاف تمام کارروائیوں کے دوران ان کی عمر کے پیش نظر ان کی بحالی کو فروغ دینے کو مدنظر رکھا جائے گا‘‘۔ The UN Convention on the Rights of the Child،جس پر بھارت نے بھی دستخط کیے ہیں،کے مطابق: ’’کسی بچے کی گرفتاری، قانون کے مطابق ہونی چاہیے اور گرفتاری کو آخری چارۂ کار کے طور پر اور مختصر ترین مدت کے لیے مناسب طور پر استعمال کرنا چاہیے‘‘۔ National Commission for Protection of Child کے رہنما نکات بتاتے ہیں کہ ’’خانہ جنگی کے دوران سلامتی کے خطرات کی حیثیت سے نوعمر لڑکوں کی درجہ بندی سے احتراز کرنا چاہیے اور حکام کو چاہیے کہ وہ تفتیش کریں اور جبری گرفتاریوں،بدسلوکی یا بچوں کی اذیت رسانی میں ملوث عملے کے خلاف کارروائی کریں‘‘۔
تاہم،ان میںسے کسی بھی ہدایت کو [بھارتی حکومت] پرکاہ کی اہمیت نہیں دے رہی اور حکومت من مانے قانون بناکر انھیں مسلط کررہی ہے۔ اس وقت والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بارے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں کہ کہیں انھیں سیکورٹی حکام اٹھا کر نہ لے جائیں اور گولیوں کے تبادلے میں کہیں وہ مارے نہ جائیں۔جب ایک شورش زدہ علاقے میںاس قسم کی گم شدگیاں ہوتی ہیں،تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ متاثرہ فریق کس سے شکایت کرے؟ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عدالتیں ہی صرف وہ ادارے رہ جاتے ہیں، جن سے کچھ انصاف مل سکتا ہے۔ تاہم، ۵؍اگست،جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی گئی، کے بعد سے [بھارتی]ریاستی اقدامات نے کشمیری شہریوںسے ان کے اس دستیاب محدود متبادل حق کو بھی چھین لیا ہے۔سیفٹی ایکٹ کے تحت جموںوکشمیر ہائی کورٹ اینڈ ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے صدر اور سینیئر وکلاء کی گرفتاری کے بعدجن میں سے اکثر کاتعلق کشمیر سے ہے، کے خلاف ۱۰۵۰وکلا نے ہڑتال کر دی ہے۔اب تک حبس بے جا کی ۲۰۰سے زائد درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں۔ چونکہ زیادہ تر ڈاک خانے بند ہیں، اس لیے وکلا، مدعاعلیہان کو نوٹس نہیں بھجوا سکے۔
۵؍اگست کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی سرینگربنچ کی آرڈرلسٹ میں تمام۳۱ مقدمات کا اندراج تھا جبکہ ہائی کورٹ نے یہ مقدمات’نقل وحمل پر پابندیوں کے باعث‘ ملتوی کر دیے کیونکہ وکلاء پیش نہیں ہوسکتے تھے۔ہفتوں بعد ۲۴ ستمبر کو۷۸ مندرج مقدمات میں سے، دونوں فریقین کی طرف سے محض۱۱ وکلاء حاضر تھے،جب کہ ۹ مقدمات میں کوئی بھی نہیںپیش ہوا۔ صرف ۹مقدمات میں درخواست گزاروں کے وکلاء، اور ۴۷ مقدمات میں سرکاری وکلاء حاضر تھے۔
اس قسم کے ہنگامی حالات کے پیش نظر دستور، شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے انھیں اختیار دیتا ہے کہ وہ ’’ان مقدمات میں براہِ راست سپریم کورٹ سے رجوع کریں، جن میں ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہو‘‘۔آئینی اور عدالتی رسائی بذات خود ایک بنیادی حق ہے۔کشمیریوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے کے اپنے فرض سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے، اعلیٰ عدلیہ نے خود پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ’’بچوں کے خلاف ریاستی تشدد کے الزامات کی تفتیش کرے‘‘۔
’انٹر امیریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس‘ (IACHR) نے ۲۰۰۵ء کے ایک مقدمے میں جس کا تعلق ’کولمبیا میپریپن قتل عام‘ سے تھا،یہ قرار دیا:’’ایک شخص دہشت کا دہشت سے مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ اسے قانون کی حدود میں رہ کر ہی مقابلہ کرنا چاہیے۔وہ لوگ جو متشدد قوت کا استعمال کرتے ہیں،خود پر ہی ظلم کرتے ہیں اور وسیع پیمانے پر تشدد کے سلسلے کو فروغ دیتے ہیں جس کے باعث معصوم،بچے شکار ہو جاتے ہیں‘‘۔
یہ ا مرمحسوس کرتے ہوئے کہ زندہ شہریوں میں دہشت اور موت کا بیج بونے کے باعث ان کی جبری گم شدگیاں واقع ہوئیں۔ مذکورہ امریکی عدالت نے کہا: ’’ریاست اور عوام کی طرف سے عدم توجہ، رواداری اور تعاون کی وجہ سے’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ‘‘۔
کس قسم کا لفظ یہ بچے اپنی زندگی میں تلاش کریں گے کہ اگر انھیں مسلسل ایسے خوف میں رہنا پڑے کہ انھیں ایک نامعلوم جرم کی پاداش میں اٹھا لیا جائے گا اور انھیں ایک نامعلوم مقام تک لے جایا جائے گا؟ یقینی طور پر زمین پر یہ وہ جنت نہیں جس کا بہت سے کشمیری تصور کرتے ہیں؟
’ترقی کے نام‘ پرجمہوری حقوق پرپابندیاں،بچوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا بہانہ نہیں بن سکتیں۔ہمیںضرورت ہے کہ ہم کشمیر کے بچوں کے متعلق آواز بلند کریں یا پھر ریاستی مشینری کی طرح اس گھنائونے جرم کے شریک بن جائیں۔حفاظتی حراستوں کی روک تھام ہونی چاہیے، خدا نہ کرے کہ کشمیر کے یہ معصوم بچے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں۔(روزنامہ ،The Hindu، ۲۷ستمبر۲۰۱۹ء)
ہمارے اُردو کے ادیب اور دانش ور حالات حاضرہ پر زبان کھولنے کےلیے تیار نہیں۔ یہ بات افسوس کی ہے اور شرم کی بھی۔ افسوس اور شرم اس لیے کہ ادیبوں اور دانش وروں کی حیثیت ایک ’تھنک ٹینک‘ کی ہوتی ہے۔ منہ کھولے مسائل سے نمٹنے کےلیے یہ قوم کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ ان کا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ یہ ’ضمیر‘ کو ’زندہ‘ رکھتے ہیں: اپنے ’ضمیر‘ کو بھی اور قوم کے ’ضمیر‘ کو بھی ___مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ادیب اور ہمارے دانش ور یہ کام جو اپنی نوعیت میں بہت ہی اہم بلکہ اہم ترین ہے، کررہے ہیں؟
کچھ عرصہ پہلے شہر ممبئی میں اردو کے ایک بہت بڑے، شہرت یافتہ اور رجحان ساز ادیب آئے تھے، ان سے ملاقات کےلیے پہنچے اور عرض کیا: ’’’ادب‘ پر نہیں ’حالاتِ حاضرہ‘ پر آپ سے بات چیت کرنی ہے‘‘۔ انھوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ’ہم تو ادب کے آدمی ہیں۔ ہم سیاست وغیرہ پر کیا بات کریں گے؟‘ ان کے غصّے پر حیرت بھی ہوئی اور تعجب بھی کہ اتنا بڑا ادیب ، دانش ور بھلا حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنے سے کیو ںکترا رہا ہے؟ بہت منت سماجت پر انھو ںنے بات توکی، مگر سوالوں کے جواب بے دلی سے دیے اور جواب بھی ایسے، جو کسی مسئلے کو حل کرنے میں مفید ثابت نہ ہوسکیں۔
آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ ہوگیا، کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے، انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہیں، اس خطے کا رابطہ ساری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیاگیا ہے، مگر ہمارے ادیب اور دانش ور ہیں کہ اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ اتنا بڑا واقعہ ہوا، ساری دنیا میں اس کی گونج ہے مگر انھیں کوئی فکر نہیں۔ ان کے مقابلے میں انگریزی ، ہندی، تمل، تیلگو ، گجراتی اور بنگالی و مراٹھی زبانوں کے ادیب اور دانش ور حالت حاضرہ پر نہ صرف غور کرتے ہیں بلکہ پوری قوم کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ یہ کشمیر پر بھی لکھ رہے اور بات کررہے ہیں۔
ٹھیک ہے ، افسانے ، شاعری، تنقید اور تحقیق اپنی جگہ درست ہے، مگر ادب تو آنکھیں کھولنا سکھاتا ہے او راپنے اطراف میں جو ہورہا ہے اسے ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی، جانچنے او رپرکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ اگر ہم عالمی ادب کا جائزہ لیں ، یا عالمی سطح کے دانش وروں کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ظلم وجبر کے خلاف آواز اُٹھانے سے وہ نہیں گھبراتے، بلکہ وہ عوام کی آواز کو بھی اپنی آواز میں شامل کرلیتے ہیں اور سب کی آواز وں سے مل کر جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اس قدر پُراثر ہوتی ہے کہ حکمران حالات کو بہتر بنانے پر غور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اردو کے ادیبوں اور دانش وروں کو کیا کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان میں چند ہی لوگوں نے ۲۰۰۲ء میں گجرات فسادات کو اپنا موضوع بنایا ہے؟ ۲۰۱۳ء میں مظفر نگر کے فسادات اور ’ہجومی تشدد‘ اور فاشزم پر لکھا؟ بھارت میں ’زعفرانی لہر‘ کے بعد اقلیتوں کی سماجی، معاشی، تہذیبی اور تعلیمی اقدار کی شکست وریخت کو موضوع بنایا؟ عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی اور کشمیر کہ جہاں پیلٹ گنوں سے نکلنے والے چھرّوں سے لوگ نابینا ہوگئے ہیں، ان پر لکھا اور بات کی ہے؟ کتنے ہی موضوعات ہیں جن پر لکھنا،بولنا اور قوم کو راہ دکھانی ہے۔ فاشزم یا فسطائیت کے خلاف وہ لڑائی جو بھارت کی دوسری زبانوں کے ادیبوں اور دانش وروں نے شروع کررکھی ہے، اس میں شامل ہوکر ایک متحدہ جدوجہد کرنی ہے۔
کیوں اُردو میں کوئی اروندھتی راے، شیکھر گپتا ، پنکج مشرا ، یا چندراگوہا پیدا نہیں ہوتے؟ جب بات حق کہنے کی آتی ہے، تب اُردو خواں اہلِ دانش کی زبانوں پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں ؟ اب سے سوپچاس سال پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا! پہلے، جب انگریز اس ملک پر قابض تھے تب ہم میں ایسے لوگ موجود تھے، جو سب کچھ سہہ کر بھی حق بولتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد ، ظفرعلی خاں، حسرت موہانی، کتنے ہی جگمگاتے نام ہیں، مگر آج ’کشمیر ‘ پر ہم میں سے کوئی نہ اروندھتی راے کی طرح زبان کھولنے پر آمادہ ہے اور نہ کوئی رویش کمار ہی کی طرح جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کو تیار!
آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے اب تک، جب کہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کو ٹھپ ہوئے ۵۰ واں دن شروع ہوچکا ہے۔ کرفیو ہے کہ مسلسل جاری ہے۔ لوگ ہیں کہ جیلوں کے اندر اس طرح سے ڈال دیے گئے ہیں کہ ان کے گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہے۔ پیلٹ گنیں ہیں کہ رہ رہ کی چلتی اور لوگوں کے چہروں اور بدن کو بدنما بنارہی اور بینائی چھین رہی ہیں، اور ہر جانب فوجی وردیوں کا ایک سیلاب نظر آرہا ہے ۔ کشمیر کے حالات پر رپورٹوں ، تجزیوں ، اور روزمرہ کی خبروں کا جائزہ لیں تو خوب اندازہ ہوجائے گا کہ سچ کو جس طرح سے اجاگر کرنا چاہیے تھا ’ہم‘ نے تو نہیں کیا ہے، مگر ’اُنھوں‘ نے کیا ہے ، اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے کیا ہے ۔
اروندھتی راے بھی تو ایک ادیبہ ہیں۔ صرف ایک ناول نگار نہیں بلکہ وہ انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ رہنما بھی ہیں ۔کشمیر پر ان کا ناول The Ministry of Utmost Happiness ۲۰۱۷ء میں شائع ہوچکا ہے۔ ’مسئلہ کشمیر‘ پر وہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے بہت پہلے سے بولتی چلی آرہی ہیں۔ ان کے ایک مضمون’آزادی‘ نے حکمراں جماعتوں کی نیندیں اڑادی تھیں۔ انگریزی ماہنامہ کارواں میں کشمیر کے تازہ ترین حالات پر ان کا ایک تجزیہ شائع ہوا، جس میں انھوں نے ۵؍ اگست کے روزمرکز کا مودی سرکار کے ہاتھوں آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کو ’یک طرفہ فیصلہ‘ قرار دیا اور واضح لفظوں میں کہا ہے: ’’مودی حکومت نے اپنے فیصلے سے ان بنیادی شرطوں کو تار تار کردیا جن کی بنیاد پر جموں وکشمیر کی سابق ریاست ہندستان کے ساتھ ملی تھی‘‘۔ محترمہ راے تحریر کرتی ہیں: ’’۴؍ اگست کو پورے کشمیر کو ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ، ۷۰ لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں بند کردیے گئے ، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون خدمات بھی بند کردی گئیں‘‘۔
وہ لکھتی ہیں:’’ اطلاعات کے اس زمانے میں کوئی حکومت کتنی آسانی سے ایک پوری آبادی کو باقی دنیا سے کیسے کاٹ سکتی ہے ، اس سے پتا لگتا ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کشمیر کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ ’تقسیم‘ کے ادھورے کاموں میں سے ایک ہے ۔ ’ تقسیم‘ جس کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر کے بیچ میں لاپروائی سے ایک لکیر کھینچ دی اور یہ مان لیا گیا کہ انھوں نے ’ مکمل‘ کو تقسیم کردیا ہے۔ برطانیہ کے تحت ہندستان کے سیکڑوں رجواڑے تھے، جن سے الگ الگ مول تول کیا گیا، اور جوریاستیں اس کے لیے تیار نہیں تھیں ان سے زبردستی منوا لیا گیا‘‘ ۔
معروف مؤرخ رام چندرگوہا کا کہنا ہے کہ: ’’صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کا آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنا بالکل ۱۹۷۵ء میں [اندرگاندھی کے] ایمرجنسی کے نفاذ کی مانند ہے۔ یہ جمہوریت نہیں، یہ آمریت ہے۔ ایسے حواس باختہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے حکمرانوں کی کاریگری، جو پارلیمنٹ کے اندر یا باہر مناسب مباحثے کی جرأت بھی نہیں رکھتے‘‘۔
اسی طرح پنکج مشرا بھی تو ادیب ہیں۔ وہ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور دانش ور بھی ہیں۔ انھوں نے فاشزم کے خلاف ایک بلندپایہ کتاب Age of Anger لکھی ہے۔ کارواں ہی میں وہ ایک مضمون: ’’کشمیر میں ہندستان اپنے ہی پیروں پر گولی ماررہا ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہرگزرتے ہفتے کے ساتھ کشمیر پر ہندستان کا کریک ڈاؤن بڑھتا جارہا ہے ۔ انٹرنیٹ اور فون کی لائنوں کو کاٹ دینے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو حراست میں لے کر، کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار نے اطلاعات کے مطابق ہزاروں کشمیریوں، طالب علموں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو بھی قیدخانوں میں ڈال دیا ہے‘‘۔ پنکج مشرانے کشمیر میں کیے جانے والے اقدام کو سربیا کی نسل پرستی اور وہاں کے نسل پرست لیڈر راتکو ملادیچ کے اقدامات سے تعبیر کیا ہے___ وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ہندستانی میڈیا کی جانب سےملنے والی تقریباً اجتماعی حمایت نے مودی سرکار کو بے خوف کردیا ہے ۔ تاہم، غیرملکی میڈیا کے صفحۂ اول پر، کشمیر کی خالی گلیوں میں پوری طرح سے مسلح فوجیوں کی ، چھپنے والی تصویریں یہ ظاہر کردیتی ہیں کہ یہ خطّہ پوری طرح سے فوجی تسلط میں ہے، اور اب عالمی میڈیا کھل کر مودی سرکار کو ’نسل پرست‘ اور ’ فاشسٹ‘ لکھ رہا ہے ‘‘۔
سدھارتھ بھاٹیہ کا کہنا ہے: ’’ کشمیر میں جو ہوا اس کا مقصد کشمیریوں پر کنٹرول کرنا ہی نہیں، ان کو ذلیل کرنا بھی ہے ‘‘___ دی وائر اردو میں وہ صاف صاف لکھتے ہیں: ’’ابلاغ کے سارے ذرائع کو کاٹ کر، ان کو قابو میں رکھنے کے لیے سیکورٹی اہل کاروں کا استعمال ، اور روز روز کی توڑپھوڑ کا مقصد کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ان کا ہر قدم اور وجود اقتدار کے ہاتھ میں ہے ، وہ اقتدار کہ جس کی نمایندگی ایک بڑی اور ہرجگہ موجود فوج کررہی ہے ، جو ان کی روزمرہ کی زندگی میں دخل دیتی ہے‘‘۔
انگریزی پورٹل (ویب) The Wire نے سواگتا یادوار کی کشمیر سے ایک دل دہلانے والی رپورٹ شائع کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے: ’ کشمیر‘ کے محاصرے سے وہاں ’ ذہنی بیماریاں‘ پھوٹ پڑی ہیں ۔ رپورٹ کے دواقتباسات ملاحظہ کریں۔ ’’ وہ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی ہے ، ڈاکٹر کے کمرے کے دروازے کے بغل میں ، کمپاؤنڈر کی میز پر پھیلے کاغذات اور بکسوں سے چھپی ہوئی۔ میں مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر مایوس ہورہی ہوں ، مجھے لگتا ہے کہ ہمارا کوئی مستقبل ہے ہی نہیں‘‘۔ ۲۴ سالہ زہرا جس نے قانون کی ڈگری لی ہے اور اب ریاستی سول سروسز (جوڈیشل) کے امتحان کی تیاری کررہی ہے۔ وہ اب ڈپریشن (مایوسی) کی مریضہ ہے۔ تین برسوں سے اسے دواؤں کی ضرورت نہیں پڑی تھی، لیکن آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد اس کا اضطراب پھر لوٹ آیا ہے:’’ اب میں اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں مرکوز کرپاتی ‘‘۔ زہرا ان ۱۵ مریضوں میں سے ایک ہے، جو اعصابی امراض کے ماہر آکاش یوسف خان کے پاس بارہمولہ اس کے کلینک میں بغرض علاج آئے ہیں ‘‘۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے حالات دشوار ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق علاج ومعالجے کے لیے لوگوں کا آنا کم سے کم ہوگیا ہے اور ۵؍ اگست کے بعد ذہنی مریضوں میں سے بس چند ہی ڈاکٹروں سے مل سکے ہیں۔ نتیجے میں کشمیر میں ذہنی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں ۔ لوگوں کو مایوسی ، بے چینی اور اضطراب نے گھیر لیا ہے جسے ’ ڈپریشن‘ کا نام دیا جاتا ہے ‘‘۔
The Quint میں آدتیہ مینن نے کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا ذکر کرتے ہوئے ’سورہ‘ علاقے کو کشمیر کا ’ غزہ‘ قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’سورہ میں اسی روز سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے، جس روز حکومت نے جموں اور کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا، مگر ۹؍ اگست کا بڑے پیمانے کا احتجاج سب سے زیادہ اہم تھا۔ اس احتجاج نے حکومت ہند کے بہت سارے دعوؤں کو ہوا میں اُڑا دیا:
رویش کمار بھی تو ایک ادیب اور دانش وَر ہیں۔ تہذیب، قوم اور جمہوریت کے موضوع پر ان کی کتاب بولنا ہی ہے نے دھوم مچا رکھی ہے۔
پھر اس مستعفی اعلیٰ پولیس افسر کے چند جملے پیش ہیں، جو کبھی پنجاب میں ’ انتہا پسندی‘ کے خاتمے کے لیے سرگرم تھا۔ ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ، صدارتی ایوارڈ یافتہ پدم بھوشن جولیوایف ریبریو نے کاروان میں شائع شدہ انٹرویو میں کہا :’’فوج کو کبھی اپنے ہی لوگوں سے لڑنے کی تربیت نہیں دی گئی۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ کشمیری مسلمان ہندستان کا اٹوٹ اَنگ ہے،تو آپ کو چاہیے کہ ان سے اسی طرح سےپیش آئیں‘‘۔ کیا نریندر مودی ، امیت شا وغیرہ جولیو ایف ریبریو کے مشورے پر عمل کرکے کشمیری مسلمانوں کے بارے میں ان کی بات سنیں گے، یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑادیں گے ؟
یہ تو بس چندمضامین اور تجزیوں اور احوال سے لی گئی کچھ مثالیں ہیں، ایسے دانش وروں، سیاست دانوں اور صحافیوں کی، جو ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اُن کی ایک بڑی تعداد ’مسئلہ کشمیر‘ پر زبان کھول رہی ہے، اور کشمیریوں پر جو کچھ ان دنوں بیت رہی ہے اس کا احوال پیش کررہی ہے ۔ جھوٹ کو جھوٹ کہہ رہی ہے اور حق کو حق___ نہ جانے کیوں ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں ایسے لوگ نہیں ہیں ، اور اگر ’مسئلہ کشمیر‘ پر ہماری زبانیں کھلتی بھی ہیں، تو بڑی ہی احتیاط سے الفاظ نکلتے ہیں۔ حکومت کے موقف کی تائید تو کی ہی جاتی ہے ، مگر کشمیری عوام پر جو ان دنوں بیت رہی ہے اس کا ذکر سرسری کیا جاتا ہے ___ کیا کوئی ’ ہم ‘ میں سے کھل کر بات کرے گا؟
اُردو کے قلم کارو! آپ کا قلم کب بولے گا؟ آپ کی زبان کب کھلے گی؟ آپ کب افسانوں اور غزلوں اور نظموںکی دنیاسے باہر نکل کر حالاتِ حاضرہ پر بھی کچھ لکھیں او ربولیں گے؟
یہ ایک انتہائی خطرناک مغالطہ ہے جو پیدا کیا جا رہاہے۔ ہمارے ایک دانش وَر [ایازامیر] نے مخصوص طبقے کی نمایندگی کرتے ہوئے کہا ہے: ’’بھارت اگر ہندو ریاست ہے تو اس میں خرابی کیا ہے؟ ہم بھی تو آخر ایک مسلم ریاست ہونے کے دعوے دار ہیں۔ اگر وہ فاشسٹ ہیں تو پھر ہمیں بھی خودکو فاشسٹ ڈکلیئر کر دینا چاہیے‘‘۔ یہ بات کئی مغالطوںکا ملغوبہ ہے اور اس ملک میں ایک خاص ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ بات کی وضاحت یوں کی جاتی ہے: ’’جناح نے تو ۱۱؍اگست کو جس نظام کا اعلان کیا تھا، ان کے مطابق ایک سیکولر ریاست تھی، جب کہ ان کی وفات کے فوراً بعد اس بات کی کوششیں شروع ہو گئیں کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنا دیا جائے۔ قراردادِ مقاصد اسی کوشش کا نتیجہ ہے‘‘۔
پہلی بار میں نے یہ بات ایم بی نقوی کے ہاں پڑھی جو بائیں بازو کی طرف کھلا جھکائو رکھتے تھے،مگر تھے انتہائی سنجیدہ اور باوقار صحافی۔ انھوں نے لکھا: ’’قائد اعظم کے خیالات سے پہلا انحراف قراردادِ مقاصد تھی‘‘۔ اگلے ہی روز وہ ہمارے ممتاز فلسفی استاد ڈاکٹر منظوراحمد صاحب کے ہاں اس محفل میں موجود تھے، جہاں کراچی کے ۲۰،۳۰ چوٹی کے اہل علم ہر ماہ شریک ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا: ’’اگر یہ مان لیا جائے کہ قائد اعظم کا مطلب وہی تھا جو آپ لوگ بیان کرتے ہیں تو آیا ایک شخصِ واحد کی راے جو چاہے قائد اعظم ہی کی کیوں نہ ہو، اہم ہے یا اس کے مقابلے میں منتخب دستور ساز اسمبلی کی متفقہ راے؟‘‘ ظاہر ہے ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ پھر عرض کیا: ’’حضور، پہلے تو آپ جنابِ جناح کو غلط سمجھے اور ان سے سیکولرزم کا تصور منسوب کر دیا، حالانکہ انھوںنے زندگی بھر اس لفظ کو اپنی کسی تقریر میں بھی استعمال تک نہیں کیا‘‘۔ پھر تفصیل کے ساتھ اپنا موقف دہرایا جو میں اس ۱۱؍اگست کی تقریر کے حوالے سے رکھتا ہوں: ’’یہ میثاقِ مدینہ کا عکسِ ثانی ہے، اس کی ایک ایک سطر اس سے مشابہت رکھتی ہے‘‘۔
علامہ اقبال نے تو خطبہ الٰہ آباد میں واضح کر دیا تھا کہ: اسلام انسان کی وحدت کو کسی ناقابلِ ملاپ دوئی یا ثنویت میں تقسیم نہیں کرتا۔ ایسی دوئی جو مادہ اور روح، ریاست اور کلیسا میں پیدا کردی گئی ہے۔ اس طرح گویا ریاست اور مذہب کے الگ الگ ہونے کے خیال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا تھا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے یہ دانش ور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ: ’’تم سیکولرزم کا اردو میں غلط ترجمہ کرکے اسے ’لادینیت‘ کے معنوں میں استعمال کرتے ہو‘‘۔ ہم نے عرض کیا: ’’اچھا تو آپ بتادیجیے، پھر اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘
اس کا پس منظر سن لیجیے کہ یہ یورپ میں کلیسا کی بالادستی کے خلاف بغاوت تھی۔ اس لفظ نے مختلف مواقع پر مختلف شکلیں اختیارکیں، تاہم اس کی فلسفیانہ تعبیر سب سے پہلے لندن میں بیٹھے ایک شخص نے اس وقت کی، جب کارل مارکس فروری ۱۸۴۸ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو شائع کر رہا تھا۔ دو سال پہلے ۱۸۴۶ء میں جارج جیکب ہولیاک (۱۳؍اپریل ۱۸۱۷ء- ۲۲جنوری ۱۹۰۶ء) اسی شہر میں بیٹھا سیکولرزم کو باضابطہ منضبط کر رہا تھا ۔اُس نے اسے کلیسا کے مقابلے ایک نظام اور ایک سوچ کے طور پر مرتب کیا۔ فلسفے کی بحث سے قطع نظر، اس وقت دنیا میں اس کے چھے ماڈل ہیں، جن سے سیکولرزم کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد [م: ۳۱؍مارچ ۲۰۱۶ء] نے مذہب اور ریاست کے تعلق پر بڑی عالمانہ شان سے چار مزید اضافے کیے، مگر میں خود کو چھے تک ہی محدود رکھتا ہوں:
۱- پہلا ماڈل امریکا کا ہے، جس کے سیکولرزم کے دو اصول ہیں: ایک یہ کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور دوسرا یہ کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔
۲- دوسرا ماڈل برطانیہ کا ہے جس میں ریاست کا مذہب ہے، اس کا اپنا کلیسا ہے اور برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ اس کے سربراہ ہیں، البتہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔
۳- تیسرا ماڈل فرانس کا ہے جو انقلابِ فرانس میں کلیسا سے جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اس میں کلیسا یا مذہب سے اس کی مخاصمت واضح ہے، جو گویا اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔
۴- ترکی کا ماڈل اسی فرانسیسی ماڈل سے متاثر، مگر بہت آگے بڑھ گیا۔ وہاں مسلمان اپنے مذہب کے مطابق شادی کر سکتے تھے نہ عبادت، مگر یہودی ہر معاملے میں آزاد تھے۔ ترکی میں عربی میں اذان تک دینے پر پابندی تھی۔ غیر مسلموں کو بڑی چھوٹ تھی۔ یہ جو میرا دانش وَر پوچھتا ہے کہ: ’’لبرل کو سیکولر سے ملا دیا جائے تو اس سے دین دار طبقہ کیوں چڑتا ہے؟‘‘ اس لیے کہ پھر اس کی یہی شکل ہمارے اس سیکولر یا لبرل طبقے کے لیے پسندیدہ بنتی ہے، جو ترکی میں رہی ہے اور جس سے ترکی اب نجات حاصل کر رہا ہے۔
۵- اس کی پانچویں شکل اشتراکی روس میں پائی جاتی تھی، جس کے مطابق ’مذہب افیون ہے‘۔
۶- اور آخری شکل بھارت کی ہے، جس کے بارے میں اول روز سے کہا جاتا تھا اور درست کہا جاتا تھا: ’’یہ منافقت کے لبادے میں اپنی جنونیت کو چھپانے کا دوسرا نام ہے‘‘۔ حالات نے ثابت کر دیا کہ اب پردہ چاک ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے [یعنی علامہ اقبال، محمدعلی جناح، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مودودی وغیرہ] اس جھانسے میں نہیں آئے۔ وہ اس لفظ سے دُور رہے۔ ان کی نظر میں ان کا اپنا نظام حیات زیادہ طاقت ور اور جان دار ہے جس میں ریاست کا اپنا مذہب ہے۔(برطانیہ کی طر ح) ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل تو ہے، مگر زندگی کے تمام معاملات میں آپ کو مادر پدر آزادی نہیں، آپ ایک ضابطۂ حیات اور ضابطۂ اخلاق کے پابند ہیں۔
اس مختصر مضمون میں گنجایش نہیں ہے کہ اُس اسلوبِ حیات کو بیان کیا جائے جو یہ لبرل سیکولر طبقہ ان لفظوں کی آڑ میں اپنانا چاہتا ہے۔ تاہم، یہ ایک بڑی حماقت ہو گی اگر اس بات پر اصرار کیا جائے کہ: ’’اسلامی جمہوریہ اورہندو توا کے ایک ہی معنی ہیں‘‘۔ آپ کو’ ہندوتوا‘کا متبادل ڈھونڈنا ہے تو پھر ’داعش کا ماڈل‘ دیکھیے۔ حتیٰ کہ پاکستان میں طالبان کا ماڈل بھی قبول نہیں کیا گیا، جس نے افغانستان سے نہ صرف پوست تک کی کاشت ختم کر دی تھی بلکہ اس ہتھیار بند معاشرے سے نجی ملکیت میں ہتھیار بھی ختم کرنے کا ناقابلِ تصور کارنامہ عملاً کر دکھایا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں الیکشن جیتنے کے بعد جب مولانا فضل الرحمان صاحب سے پوچھا گیا: ’’کیا آپ طالبان کا ماڈل لائیں گے؟‘‘، تو انھوں نے صاف لفظوں میں کہا: ’’طالبان کا اپنا ماڈل ہے اور ہمارا اپنا آئین‘‘۔ ان کا جواب وہی تھا جو فرانس میں بائیں بازو والوں نے اور کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹی نے انتخابات جیت کر اختیار کیا تھا۔
’اسلامی جمہوریہ‘ کا ماڈل صاف بتاتا ہے کہ یہ پہلی ’ری پبلک‘ ہے، جو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلنا چاہتی ہے۔ یہاں ’ری پبلک‘ کا لفظ اہم ہے۔ پاکستان ان معنوں میںمذہبی ریاست نہیں، جن معنوںمیں اسرائیل ہے اور بھارت ان معنوں میں مذہبی نہیں ہو سکتا، جن معنوں میں اسرائیل ہے۔ اس لیے کہ یہاں ہندوئوں کے علاوہ ایک بہت بڑی اکثریت غیرہندوئوں کی آباد ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت صاف بتا دیا گیا تھا، یہ شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے یا بنگال کے مسلمانوں کے لیے ایک تجویز ہے۔ باقی جو لوگ ہندستان میں رہ جائیں گے، ان میں آبادی کی تقسیم ویسی نہ ہو گی جیسی مسیحی یورپ میں تھی۔ آبادی کے اس مجموعے میں اگر آپ ان اصولوں پر نہیں چلتے، جن کی بنیاد پر ملک بنا تھااور اس کا آئین ترتیب دیا گیا تھا، تو پھر تاریخ اس خطے کے بارے میں ایک بار پھر نئے فیصلے کرے گی۔ شاید ان فیصلوں کا وقت ان ’ہندوتوا‘ والوں نے خود ہی قریب کر دیا ہے۔
ایک ہندو ریاست کے یہ معنی کیسے ہو گئے کہ آپ اپنے اندر موجود ایک مسلم آبادی کے اکثریتی خطے پر فسطائیت نافذ کریں، جیسا کشمیر پر کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ ہندو ریاست سے ڈر کر ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اسلام کا نام لینا چھوڑ دیں، وہ سمجھ لیں کہ ہم نے ہر بات میں احتیاط برتی ہے۔ ’جمہوریہ‘ کا لفظ ہم نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھا اور ہم کبھی ’تھیوکریسی‘ کے قائل نہیں رہے۔ ہم نے اپنے نظام کو اور کوئی نام بھی نہیں دیا۔ رہی رام راج کی بات تو اس پر قائد اعظم کی سدابہار اور جامع تنقید یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ ہم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ ہم نے بحیثیت قوم تو ان کو بھی پذیرائی نہیں بخشی، جو حکومت الٰہیہ اور غلبۂ اسلام کا پروگرام پیش کرتے تھے۔ برصغیر میں مسلم فکر کا ذرا باریک بینی سے جائزہ لیجیے آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ یہ دیس کیسا دیس ہے؟ رہا، آپ کے نائو نوش اور عیش وعشرت کا معاملہ، تو اس کے لیے ہم ملک کا نظام نہیں بدل سکتے، بلکہ دوسرے لفظوں میں اپنا دین نہیں چھوڑ سکتے!
سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے۔ اس سرزمین پر اکثر انبیا اور رسل آئے ہیں۔ یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی۔ یہ آسمان کا دروازہ ہے۔ یہ سرزمین محشر بھی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے: بَارَکُنَا حَوْلَہُ (بنی اسرائیل ۱۷:۱) ’’جس کے اردگرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں‘‘۔ اس سے مراد ملک شام ہے۔ سریانی زبان میں ’شام‘ کے معنی پاک اور سرسبز زمین کے آتے ہیں۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیا کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے۔ یہیں لوگ روزِ محشر میں جمع کیے جائیں گے۔ حضرت حسن اور حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے۔ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ اس سے مراد ملک شام کے گائوں ہیں۔ عبداللہ بن شوذب کہتے ہیں: اس سے مراد سرزمینِ فلسطین ہے۔
سرزمین فلسطین کو قرآنِ کریم میں پانچ مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب کیا گیا ہے:
۱- سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۱) ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ ہربات سننے والی، ہرچیز دیکھنے والی ذات ہے‘‘۔
۲- وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا۰ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۰ۥۙ بِمَا صَبَرُوْا۰ۭ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ۱۳۷(اعراف ۷:۱۳۷) ’’اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، ہم نے انھیں اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنادیا، جس پر ہم نے برکتیں نازل کی تھیں اور بنی اسرائیل کے حق میں تمھارے ربّ کا کلمۂ خیرپورا ہوا، کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتی چڑھاتی رہی تھی، ان سب کو ہم نے ملیامیٹ کر دیا‘‘۔
۳- وَنَجَّيْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا لِلْعٰلَمِيْنَ۷۱ (الانبیاء ۲۱:۷۱) ’’اور ہم نے نجات دی اسے اور لوطؑ کو اس زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی اس میں تمام جہان والوں کے لیے‘‘۔
۴- وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِيْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا۰ۭ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ۸۱ (الانبیاء ۲۱:۸۱) ’’اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمان کے تابع کر دیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، اور ہمیں ہرہربات کا پورا پورا علم ہے‘‘۔
۵- وَجَعَلْنَا بَيْنَہُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا قُرًى ظَاہِرَۃً وَّقَدَّرْنَا فِيْہَا السَّيْرَ۰ۭ سِيْرُوْا فِيْہَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ۱۸(السبا۳۴:۱۸) ’’اورہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دُور سے نظر آتی تھیں، اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ ان (بستیوں) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو‘‘۔
يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِيْ كَتَبَ اللہُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ۲۱ (المائدہ ۵:۲۱) اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجا جو اللہ نے تمھارے واسطے لکھ دی ہے، اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد ہوجائو گے۔
ہُوَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ۰ۭؔ (الحشر۵۹:۲) وہی ہے جس نے اہلِ کتاب کافروں کوپہلے ہی ہلّے میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔
یہاں ’اوّل حشر‘ سے مراد، یعنی ان یہودیوں کا ملک شام میں اکٹھا ہونا ہے، جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کو سرزمین مدینہ سے جلاوطن کر دیا تھا۔ زہری سے مروی ہے: اوّل حشر کے طور پر ان کی دنیا میں جلاوطنی سرزمین شام میں ہوئی تھی۔ ابن زید کہتے ہیں: ’اوّل حشر‘ سے مراد سرزمین شام ہے۔ ابن عباس سے بکثرت روایات میں منقول ہے کہ: ’’جس کو اس بات میں شک ہو کہ ارضِ محشر سے مراد سرزمین شام ہے، وہ اس آیت کو پڑھے۔ پھر اس آیت کا آپؐ نے تذکرہ فرمایا۔
۱- وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا۴ (بنی اسرائیل ۱۷:۴) ’’اور ہم نے فیصلہ سنا دیا بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ بلاشبہہ ضرور تم فساد کرو گے زمین میں دو مرتبہ اور بالضرور تم چڑھائی کرو گے بہت بڑی چڑھائی‘‘۔ شوکانی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں اس آیت میں سرزمینِ شام اور بیت المقدس مراد ہے۔
۲- وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۱۰۵ (الانبیاء ۲۱:۱۰۵) ’’اور ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے‘‘۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہاں ارضِ مقدسہ سے سرزمینِ شام اور فلسطین مراد ہے۔ شوکانی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔مجیدالدین حنبلی کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرزمینِ بیت المقدس ہے جس کے مسلمانانِ اُمت محمدیہؐ وارث ہوں گے۔
۳- وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ۰ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۹۳ (یونس ۱۰:۹۳) ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو ایسی جگہ بسایا جو صحیح معنی میں بسنے کے لائق جگہ تھی، اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق بخشا۔ پھر انھوں نے (دین حق کے بارے میں) اس وقت تک اختلاف نہیں کیا جب تک ان کے پاس علم نہ آگیا۔ یقین رکھو کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے، ان کا فیصلہ تمھارا پروردگار قیامت کے دن کرے گا‘‘۔یہاں مبوا سے ملک شام کا جنوبی علاقہ فلسطین مراد ہے۔
۴- وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ۱ۙ وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ۲ۙ(التین۹۵:۱-۲) ’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا کی‘‘۔ اکثر مفسرین کے یہاں انجیر اور زیتون سے مراد وہ شہر ہیں جہاں ان کی بکثرت زراعت اور پیداوار ہوتی ہے۔ حضرت کعبؓ سے مروی ہے: ’التین‘ سے دمشق اور ’زیتون‘ بیت المقدس مراد ہے۔ شہر بن حوشب سے مروی ہے کہ ’الزیتون‘ سے ملک شام مراد ہے۔
۱- وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّہٗٓ اٰيَۃً وَّاٰوَيْنٰہُمَآ اِلٰى رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيْنٍ۵۰ (المؤمنون ۲۳:۵۰) ’’اور مریم ؑ کے بیٹے کو اور ان کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا، اور دونوں کو ایک ایسی بلندی پر پناہ دی جو ایک پُرسکون جگہ تھی اور جہاں صاف ستھرا پانی بہتا تھا‘‘۔ ابن جریر اور مرہ نہزی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں ’الربوۃ‘ سے مراد’الرملۃ‘ ہے۔ ابن عساکر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں: ’ربوۃ‘ سے فلسطین کا علاقہ مراد ہے۔ قتادہ ، کعب اور ابوالعالیہ فرماتے ہیں: اس سے مراد بیت المقدس ہے۔
۲- فَـحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَكَانًا قَصِيًّا۲۲ (مریم ۱۹: ۲۲) ’’تو وہ حاملہ ہوگئی اس سے پھر وہ الگ ہوگئی اس کے ساتھ ایک دُورجگہ (یعنی جنگل)میں‘‘۔ مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بتایا ہے کہ حضرت مریم ؑ حالت ِ حمل میں دُور چلی گئیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’وادیِ اقصیٰ تک گئیں، اور یہی بیت اللحم ہے۔ اس کے اور ’ایلیا‘ کے درمیان چار میل کا فاصلہ ہے اور ’ایلیا‘بیت المقدس کا ہی ایک نام ہے۔
۳- وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ۴۱ (قٓ۵۰:۴۱)’’اور توجہ سے سنیے جس دن پکارنے والا پکارے گا قریب جگہ سے‘‘۔ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ عزوجل کے اس قول کے بارے میں ارشاد ہے: مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ سے ’صخرہ‘ بیت المقدس مراد ہے۔ قتادہ کہتے ہیں: ہم کہتے تھے کہ منادی صخرہ بیت المقدس سے آواز لگائے گا اور کلبی اور کعب فرماتے ہیں: یہ آسمان سے زمین کا قریبی حصہ ہے۔
۴- وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِہِ الْقَرْيَۃَ فَكُلُوْا مِنْہَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ۰ۭ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِـنِيْنَ۵۸(البقرہ ۲:۵۸) ’’اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ اس بستی میں داخل ہوجائو اور جہاں سے چاہو جی بھر کر کھائو اور (بستی کے) دروازے میں جھکے سروں سے داخل ہونا اور یہ کہتے جانا کہ (یااللہ) ہم آپ کی بخشش کے طلب گار ہیں۔ (اس طرح) ہم تمھاری خطائیں معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے‘‘۔
علما کے مابین اس گائوں کے تعیین میں اختلاف ہے۔ جمہور علما کا کہنا ہے یہاں ’قریۃ‘ گائوں سے مراد بیت المقدس ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: یہاں ’باب‘ دروازے سے مراد بیت المقدس کا ’باب الحطۃ‘ ہے۔
۵- اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَۃٍ وَّہِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا ۰ۚ (البقرہ۲:۲۵۹)’’یا (تم نے) اس جیسے شخص (کے واقعے) پر (غور کیا) جس کا ایک بستی پر ایسے وقت گزرہوا جب وہ چھتوں کے بل گری پڑی تھی؟‘‘ قرطبی نے ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد وہب بن منبہ اور قتادہ وغیرہ کے قول کے مطابق بیت المقدس ہے۔ جس وقت اللہ عزوجل نے بخت نصر کے ذریعے بیت المقدس سے ان کا تخلیہ کرایا تھا۔ یہ عراق کا والی تھا۔ شوکانی اور جمہور بھی اسی بات کے قائل ہیں۔
۶- فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُـنُوْدِ ۰ۙ قَالَ اِنَّ اللہَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَہَرٍ ۰ۚ (البقرہ ۲:۲۴۹) ’’چنانچہ جب طالوت لشکر کے ساتھ روانہ ہوا تو اس نے (لشکر والوں سے) کہا کہ اللہ ایک دریا کے ذریعے تمھارا امتحان لینے والا ہے‘‘۔قتادہ نے ذکر کیا ہے کہ یہاں نہر سے مراد اُردن اور فلسطین کے درمیان کی نہر ہے۔ شوکانی نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ نہر اُردن ہے۔ ابن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد نہرِ فلسطین ہے۔
۷- حَتّٰٓي اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَادِ النَّمْلِ۰ۙ قَالَتْ نَمْــلَۃٌ يّٰٓاَيُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ۰ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ۰ۙ وَہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۱۸ (النمل ۲۷:۱۸) ’’یہاں تک کہ جب وہ آئے چیونٹیوں کی وادی پر،کہا ایک چیونٹی نے،اے چیونٹیو! تم داخل ہوجائو اپنے گھروں (بلوں) میں (کہیں) ہرگز کچل نہ دیں تمھیں سلیمان اور اس کا لشکر اس حال میں کہ وہ شعور نہ رکھتے ہوں‘‘۔ امام رازی کہتے ہیں: اس وادی النمل سے مراد ’وادی شام‘ ہے، جہاں چیونٹیوں کی کثرت ہوتی ہے۔ یہ وادی ’عسقلانی‘ کے پڑوس میں واقع ہے۔
یہ سرزمین جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآنِ کریم میں بار بار آیا ہے، جس کے مسلمانوں کے بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآنِ مجید نے کیا ہے۔ یہ سرزمین مسلمانوں کے یہاں نہایت متبرک اور مقدس گردانی جاتی ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ اس مقدس اور پاک سرزمین پر ناپاک یہودی اپنے قدم جماکر اور اس کو ملک غاصب اسرائیل کا دارالحکومت بناچکے ہیں۔ مسلمانوں کو اس کے تقدس کو سمجھنا اور اس بیت المقدس کی بازیابی کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔
پچھلے دنوں فیس بک پر عورتوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے خلاف ایک پوسٹ پر کچھ ایسا رد عمل دیکھنے میں آیا: ’’عورت کا دائرہ کار اس کا گھر ہے۔ اگر وہ گھر سے نکلے گی تو اس کے ساتھ یہ تو ہوگا، کیوںکہ یہ مرد کی فطرت ہے‘‘۔ یعنی جنسی ہراسانی اور دوسرے مسائل کا حل یہ ہے کہ صنف نازک کو گھر تک محدود رکھا جائے ورنہ ان برائیوں کا سد ِباب نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی کہا گیا کہ: ’’ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ عورتیں نامناسب لباس میں نکلتی ہیں‘‘۔ پوسٹ پر بہت بڑی تعداد میں پردہ دار خواتین نے (جن کی پوری زندگی نقاب اور حجاب میں گزری، یہاں تک کہ جنھوں نے کینیڈا، امریکا ، برطانیہ میں رہ کر بھی نقاب اور حجاب کو نہیں چھوڑا) گواہی دی کہ انھوں نے پردے کے باوجود پاکستان کی سڑکوں پر جنسی ہراسانی کا سامنا کیا ہے۔ بعض انصاف پسند مردوں نے بھی اس بات کی گواہی دی۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جنسی ہراسانی کا موضوع عام طور سے نظر انداز رہتا ہے، اس وقت ہم بحث کا موضوع اس نکتے تک محدود رکھیں گے کہ ’’کیا واقعی اسلام، عورت کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے اسے محض گھر تک محدود کرنا چاہتا ہے؟‘‘
ہراسانی سے متعلق یہ دیکھتے ہیں کہ مغربی تعبیر کیا ہے: ’’جنسی ہراسانی، جنس کی بنیاد پر، کوئی بھی ایسا قولی یا جسمانی رویہ اختیار کرنا، جس سے دوسرے فرد کو اس کی مرضی کے خلاف کوئی ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچے‘‘۔ اسلام اس ضمن میں فرد کی مرضی کی نفی کرتا اور جائز حدود سے تجاوز کی ممانعت کرتا ہے۔ صرف قانون ہی کو حرکت میں نہیں لاتا بلکہ آخرت میں دردناک عذاب کی وعید بھی سناتا ہے۔ہراسانی میں سڑکوں پر یا اسکول کالج یونی ورسٹی یا گھروں میں دوسری صنف کو نامناسب طریقے سے گھورنا، فقرے کسنا، غلط طرزتخاطب استعمال کرنا، تعلقات میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، موقع ملنے پر چھونے کی کوشش کرنا، یا اس سے آگے بڑھ کر اور کوئی نا مناسب رویہ اختیار کرنا شامل ہو سکتا ہے، جس سے دوسرا فریق اذیت محسوس کرے۔ یاد رہے، ضروری نہیں کہ ایسا رویہ خواتین کے خلاف ہی اپنایا جاتا ہو۔ اس موضوع پر ہماری تحقیق کے دوران ایک نو عمر لڑکے نے بھی اپنی استاد کے ہاتھوں ہراسانی محسوس کرنے کی شکایت کی۔ تیسری صنف نے بھی اس حوالے سے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ایسے تلخ رویوں کی شکایات کی۔ افسوس کہ معاشرے میں اس حوالے سے تربیت یا اقدار کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں مردوں کی عظیم اکثریت شریف النفس ہے۔ اس کے باوجود ہماری سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو اپنے گھر کے علاوہ باقی خواتین کی عزت کرنا نہیں جانتے۔ یہ مسئلہ اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے، جب ایسا کرنے والے کو معاشرے یا خود متاثرین کی خاموشی کی وجہ سے رد عمل کا کوئی خوف باقی نہ رہے۔
یہ رویہ ہمارے معاشرے میں عام ہے، لیکن اسے کوئی قابل ذکر مسئلہ شاید اس لیے نہیں سمجھا جاتا، کہ ان کا شکار عموماً خواتین ہوتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں شرم و حیا کے معیارات کچھ ایسے ہیں کہ ان میں اس مسئلے پر بات کرنا ممکن نہیں۔ چہ جائیکہ وہ اپنے اُوپر گزرنے والی واردات کی روداد کا کچھ ذکر بھی کر سکیں۔ تیسری صنف کے لوگ اس کے خلاف آواز اٹھانے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہے ہیں اور بعض بیرونی این جی اوز ان کی مظلومیت کے بل پر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر رہی ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ ان مظلوموں کو بھی مذاق سے زیادہ اہمیت دینے پر راضی نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیرونی این جی اوز سے پہلے ہم خود اس کے خلاف ہراسانی پر آواز اٹھاتے، لیکن سنجیدہ حلقوں کی توجہ اس طرف نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر شریف خاندانوں کے مرد حضرات اپنی ہی ماؤں، بہنوں، اور بیٹیوں پر گزرنے والے ایسے واقعات سے مکمل طور پر بے خبر رہتے ہیں۔ خود خواتین کے لیے ان واقعات پر خاموشی کے علاوہ کسی اور رد عمل کی ہمت اور اختیار نہیں ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں ان موضوعات پر بات کرنا اہم صرف اس وقت ہوتاہے جب ہم ’زینب قتل کیس‘ کی طرح کا کوئی سنسنی خیز دل دہلا دینے والا واقعہ سنتے ہیں۔ ایک عام لڑکی، سڑکوں اور پبلک مقامات پر کیسا محسوس کرتی ہے؟ اسے ہم عموماً ایک عام سا رویہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خود خواتین نوجوانی کے دوران اس جبر کو معاشرے کا عمومی چلن سمجھ کر خاموش رہتی ہیں۔
ہمارے دیہی اور شہری علاقوں میں بیش تر خواتین ایسے تکلیف دہ تجربات سے گزرتی ہیں۔ پھر سڑکوں، گلیوں، پبلک مقامات پر خواتین کو ہراسانی سے بچانے کے لیے انھیں گھر بٹھا لینا ہی مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے، لیکن اس حقیقت کو بھلا دیا جاتا ہے کہ یہ عملاً ممکن نہیں اور نہ ہمارا دین ہمیں اس کا یہ حل بتاتا ہے۔
الحمدللہ ، ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو بہت تحفظ دیا جاتا ہے۔ شہروں کا ماحول دیہی علاقوں سے مختلف ہے، لیکن کبھی اُن بچیوں کے چہروں پر حسرت دیکھیے جو صرف اس لیے اسکول یا دینی مدرسے نہیں جا سکتیں کہ گاؤں کی گلیوں میں ایسے نوجوان موجود ہیں، جن سے ان کی عزت محفوظ نہیں اور لڑکیوں کے گھر والے، محلے دار اور گاؤں والے بجاے اس مسئلے کو حل کرنے کے، بچیوں کو گھر بٹھا لیتے ہیں۔ ضلع صوابی کے ایک گاؤں میں قیام پذیر ایک خاتون نے بتایا: ’’ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا اسکول تو موجود ہے، لیکن گاؤں کی گلیوں میں نوجوانوں کی فقرے بازی کی وجہ سے لوگ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنے کے بجاے گھر بٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔ چترال سے ایک نوجوان ٹیچر نے بتایا: ’’ویسے تو کوئی بچی ہراسانی کی شکایت کی ہمت نہیں کرتی، لیکن اگر کہیں ایسا ہوجائے تو باقی اساتذہ یہی کہتے ہیں کہ لڑکی کا کوئی قصور ہوگا، لڑکی ٹھیک ہو تو اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔ یہ اذیت ناک جملہ ہمارے ہاں ضرب المثل کی طرح بولا جاتا ہے۔
بڑے شہروں میں رہنے والی بچیوں کو مختلف صورتوں میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن دیہی علاقوں میں یہ معاشرتی برائی بچیوں کی پوری زندگی پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے اور کرتی ہے۔ آبادی کا بہت بڑا حصہ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں مقیم ہے۔بڑے شہروں میں رہنے والی خواتین، دیہی خواتین کے مسائل کو اپنے محدود تناظر میں دیکھنے کی عادی ہیں۔ شہر کی عورت، گاؤں کی عورت کے مقابلے میں زیادہ بااختیار نظر آتی ہے۔ اس کی آواز بھی توانا ہے، اس لیے اسے نسبتاً ایسے رویے کا کم ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک عمومی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ ’’یہ ساری دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے‘‘۔ لیکن عمومی مشاہدے کے مطابق سعودی عرب، مصر، ترکی، مغربی یورپ، اور شمالی امریکا میں سڑکوں یا پبلک مقامات پر ایسی حرکتیں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں، جو ہمارے مسلم اور مشرقی معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
بلاشبہہ مغرب میں جنسی جرائم ہوتے ہیں اور بڑے ہولناک ہوتے ہیں، مگر وہ اکثر ریکارڈ پر آجاتے ہیں، اور پھر اُن کے قوانین کے مطابق وہاں اخلاقی جرائم کے اکثر متاثرین کو آسانی سے انصاف ملتا ہے۔ ’می ٹو موومنٹ‘ نے مغربی معاشرے کی بچی کھچی اخلاقیات کی ساری قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ترکی جیسے دیگر مسلم ممالک میں جنسی ہراسانی جیسی اخلاقی برائی سرے سے پائی ہی نہیں جاتی ہوگی، لیکن راقمہ نے محسوس کیا کہ معاشی اعتبار سے امیر دنیا میں اس مسئلے پر مکالمہ موجود ہے۔ اسے مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے اقدار کا ایک نظام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور متاثرہ کو ترچھی نظر سے نہیں بلکہ ہمدردی سے دیکھا جاتا ہے۔ انفرادی جرائم ہوتے ہیں لیکن قانون اور معاشرہ بہ حیثیت مجموعی ان غلط رویوں کا دفاع نہیں کرتا۔ دیکھا جائے تو ہراسانی کے کلچرل دیوالیہ پن کی مناسبت سے ہمارا معاشرہ مغرب کے مقابلے میں بھارتی معاشرتی بدتہذیبی سے قریب تر ہے۔
ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات اور حیا کے فطری تقاضوں کی پاس داری کے لیے بچیوں کو چھوٹی عمر سے ہی دوپٹہ یا چادر لینے اور بغیر محرم گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا جاتا ہے، جو بہت ضروری اور بہت بنیادی اقدامات ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہلِ خانہ یا محرم کے ساتھ نکلنے پر بھی اور پردے کی پابندی کے ساتھ نکلنے پر بھی، ہراسانی کا سامنا بہرحال ہوتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ قابلِ ذکر مسئلہ زیربحث نہیں لایا جاتا، اس لیے اس کے خلاف کوئی عوامی رد عمل موجود نہیں۔
پھر معاشرے میں خواتین کے پردے کی کمی کو اس اخلاقی فتنے کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے، اور صنف نازک ہی کو مردوں کے اس غیر اخلاقی طرز عمل کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ لڑکوں کے ایسے کسی طرزِعمل کے بارے یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’یہ مرد کی فطرت ہے اور خواتین کا دائرۂ کار ان کا گھر ہے۔ جب خواتین گھر سے نکلیں گی تو ان کے ساتھ یہ تو ہوگا‘‘۔
قرآن و سنت نے چودہ سو سال پہلے ان مسائل کو معاشرے کے اہم مسائل قرار دے کر حدود اور قیود واضح کر دی تھیں۔ ہم وہ امت ہیں، جنھیں چودہ سو سال پیش تر ان ا قدار کے لیے مرد و عورت کے اختلاط کے مقامات پر غضِ بصر اور پردے جیسی ہدایات فراہم کر دی گئی تھیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن، اختلاط سے متعلق برائیوں کے خاتمے کی ذمہ داری مرد اور عورت دونوں پر ڈالتا ہے، لیکن معاشرہ عام طور سے مرد کے اخلاقی انحطا ط کی سزا بھی عورت ہی کو دینا چاہتا ہے۔
سورۂ نور آیت۳۰ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘۔
اس سے اگلی آیت ۳۱ میں ارشاد فرمایا گیا:’’اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بناؤسنگھار نہ ظاہر کریں، مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو، اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔
یہ تو وہ احتیاطیں ہیں، جو مرد اور عورتوں دونوں کو گھر سے باہر نکلنے اور نا محرموں سے بات چیت اور معاملات کے حوالے سے بتا دی گئی ہیں۔ مرد کو نظر نیچی رکھنے، اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا،جب کہ عورت کو سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھنے کا بھی اور اپنی زینت چھپانے کا بھی۔ اور ان محرم رشتوں کی تفصیل بھی بتا دی گئی ہے، جن سے باہر ہر رشتے میں یہ احتیاط ملحوظ رکھنا ہے۔
سورۂ احزاب آیت ۳۲ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘۔
یہاں خواتین کو نا محرم مردوں سے بات کرتے ہوے اپنے لہجے کو راست، واضح اور سخت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حدود میں رہ کر ضرورت کے مطابق بات چیت کی اجازت ہے۔ اسلام بات کرنے پر پابندی نہیں عائد کرتا، اس کی تہذیب سکھاتا ہے۔
اس سے اگلی آیت ۳۳ میں ارشاد ہے:’’اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیت ِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے‘‘۔
یہ دو آیتیں بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو مخاطب کرتی ہیں، لیکن ایک عام اصول کے تحت اس کا اطلاق تمام مسلمان عورتوں پر ہوتا ہے۔ کیوںکہ نبیؐ کی بیویاں ہمارے لیے مثال ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے اور خصوصاً دینی طبقات وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ کا جو مطلب لیتے ہیں، کیا دورِ نبویؐ میں بھی اس کا مفہوم وہی تھا، یا اس معاملے میں آج کے مسلم معاشرے اور خصوصاً بر صغیر جنوب مشرقی ایشیا کی مسلم معاشرت افراط و تفریط کا شکار ہے؟
جہاں تک قرآن کے اس حکم کا تعلق ہے کہ’’اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ بیٹھو۔ دورِجاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو‘‘، تو دورِ رسولؐ کی مختلف مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ اس سے مقصد بناؤ سنگھار دکھانا اور بے پردہ نکلنے ہی کی ممانعت تھی ورنہ اسلامی تاریخ پر معمولی نظر رکھنے والا بھی اس امر سے واقف ہے کہ اس دور میں گھر سے باہر خواتین کے آنے جانے اور خرید و فروخت کی سرگرمیوں میں حصہ لینا عام تھا، بلکہ جو حدود و قیود اسلا م عورت کے لیے متعین کرتا ہے، وہ خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کا باہر نکلنا مطلقاً منع نہیں۔ البتہ عورتوں کی تربیت کے ساتھ مردوں کی تربیت کا سامان بھی اسلام پیش کرتا ہے۔
آج کے دور میں جہاں اور بہت سی بُرائیاں اور بداخلاقیاں ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھارہی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی بیماری افواہیں پھیلانے کی ہے۔ شاید افواہیں پھیلانے والوں کو یہ اندازہ بھی نہ ہو کہ بسااوقات اس کے منفی اثرات معاشرے اور مملکت دونوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں، اور جس کے تباہ کن اثرات سے خود افواہ سازی کا کام کرنے والے بھی نہیں بچ سکتے۔
شرعی نقطۂ نظر سے افواہیں پھیلانا یا افواہوں کے ذریعے معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلانا ایک بدترین جرم ہے۔ اس لیے کہ افواہیں بغیر کسی بنیاد کے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان نہ صرف نفرت و حقارت پیدا کرتی ہیں، بلکہ بسااوقات بلاوجہ لڑائی جھگڑے کا سبب بھی ہوتی ہیں۔ افواہوں کے مہلک اور مضر اثرات کے پیش نظر اسلامی مملکت کے شہریوں پر یہ فریضہ شرعاً عائد ہوتا ہے کہ وہ خود کسی قسم کی افواہیں نہ پھیلائیں، بلکہ افواہیں پھیلانے والوں پر بھی کڑی نظر رکھیں اور انھیں بھی افواہیں نہ پھیلانے دیں۔ من گھڑت اور جھوٹی باتیں نہ صر ف دُنیوی اعتبار سے جرم ہیں،بلکہ آخرت میں بھی اس جرم کی پاداش میں سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔
افواہیں خواہ حکومت کے خلاف ہوں یا کسی ادارے کے، جماعت مسلمین کے کسی فرد کے خلاف ہوں یا اُمت ِ مسلمہ کے کسی طبقے کے خلاف، ہرحالت میں قابلِ مذمت ہیں۔ تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ چندافراد کی پھیلائی ہوئی باتیں پوری قوم کے لیے شرمندگی اور پریشانی کا باعث بن گئیں، اور اس کے سنگین نتائج آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے۔
عہد ِ نبویؐ میں افواہیں پھیلانے کا کام منافقین کیا کرتے تھے۔منافقین نہ ملّت اسلامیہ کے خیرخواہ تھے اور نہ مملکت اسلامیہ کے۔ وہ ہرقت اس تاک میں رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے تو ملّت اسلامیہ پر بھرپور وار کریں۔ خصوصاً ان حالات میں جب مسلمانوں پر جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہوتا تھا تو ان کی تخریبی سرگرمیاں مزید تیز تر ہوجاتی تھیں۔ منافقین کبھی خوف و ہراس پھیلانے کے لیے افواہیں پھیلایا کرتے تھے اور کبھی کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے غلط قسم کا اطمینان پیدا کرنے کے لیے بے بنیاد اور مبالغہ آمیز خبریں پھیلاتے تھے۔ قرآنِ حکیم نے اس کا سدّباب کرنے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب اس قسم کی غیرمصدقہ خبر یا افواہ پہنچے تو اُسے ہرگز لوگوں میں نہ پھیلایاجائے، بلکہ اس قسم کی بے بنیاد خبروں اور افواہوں کے بارے میں ارباب حل و عقد کو آگاہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ اس قسم کی افواہوں کا جائزہ لیں اور ٹھیک ٹھیک صورتِ حال سے ملّت کو آگاہ کریں۔ اگر کوئی بات صحیح ہے اور اُمت کو اس سے آگاہ کرنا ضروری ہے تو حکومت خود اس خبر کی اشاعت کرے گی، اور معاشرے میں محض بے چینی یا فتنہ و فساد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور افواہوں کے مضر اثرات کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات اُٹھائے گی۔
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ۰ۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۰ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا۸۳(النساء ۴:۸۳) اور جب اُن کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں۔ اگر یہ اس کو رسول اور اپنے اولوالامر کے پاس پہنچا دیں تو وہ بات ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچ جائیں اور صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
اس آیت میں افواہیں پھیلانے کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے اور ذمہ دار شہریوں پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ کوئی افواہ سنیں تو اربابِ حل و عقد کو اِس سے آگاہ کریں، خود اس افواہ کو بیان کر کے نہ پھیلائیں۔ بلاوجہ سنی سنائی بات کو لوگوں میں بیان کر کے اس مقصد میں شریک نہ ہوں، جو کوئی بدکردار اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا فرد افواہ پھیلا کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا سنہری اُصول بیان فرمایا ہے، جو ایک دستوری ہدایت بھی ہے:
کَفٰی بِالْمَرءِ اِثْمًا اَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ط (سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی التشدید فی الکذب، حدیث:۴۳۶۱ ) گناہ کے لیے یہ بات کافی ہے کہ انسان ہرسنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔
قرآنِ حکیم اصلاحِ معاشرہ کے لیے جہاں ضروری ہدایات دیتا ہے ، وہاں ایسی باتوں کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو معاشرے کے پُرامن اور پُرسکون ماحول کو بگاڑنے کا سبب ہوں۔
سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت ِ مبارکہ کو غور سے پڑھیے ، جو نہ صرف یہ کہ بے بنیاد باتوں کے پیچھے نہ لگنے کا حکم دے رہی ہے،بلکہ ذمہ داری کا شعور بھی بیدار کر رہی ہے:
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۰ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۳۶ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ یقینا کان، آنکھ اور دل سب کی بازپُرس ہوگی۔
یعنی جس چیز کے بارے میں تمھیں کامل اطمینان اور پوری طرح علم نہ ہو تو محض اٹکل اور گمان کی بنا پر اس کے پیچھے نہ لگ جایا کرو۔ تہمتیں، بدگمانیاں اور افواہیں سب ایک ہی قبیل کی بُرائیاں ہیں۔ ایک اچھے اور مہذب معاشرے کو ان بُرائیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ اسلام جو معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس کی بنیاد باہمی تعاون، اعتماد اور حُسنِ ظن پر ہوتی ہے۔لہٰذا، کسی معاملے میں کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالنی چاہیے جو محض افواہ پر مبنی ہو، اور بدگمانی کی وجہ سے کسی کے بارے میں کوئی غلط بات نہ کہی جائے جس کی وجہ سے کسی فرد، جماعت، ادارہ یا طبقے کی عزت و شہرت کو نقصان پہنچتا ہو، یا کچھ لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔
سورۃ الحجرات میں اُمت مسلمہ کی اجتماعی اور شہری زندگی کے لیے ایک جامع ضابطۂ اخلاق پیش کیا گیا ہے۔ اس سورہ میں ان تمام بُرائیوں سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فتنہ و فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے لوگوں کے باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں اور رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، مثلاً ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا، طعن و تشنیع کرنا، لوگوں پر پھبتیاں کسنا ، یا ان کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرنا، لوگوں کی غیبت کرنا، عیب جوئی کرنا وغیرہ۔ یہ سب وہ افعال ہیں جو صراحتاً گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑو فساد پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام بُرائیوں کو نام بنام ذکر کرکے انھیں حرام قرار دیا ہے۔
موضوع کی مناسبت سے یہاں سورئہ حجرات کی ایک آیت خاص طور پر قابلِ توجہ ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۶ (الحجرات ۴۹:۶) اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو، پھر تمھیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
اِس آیت مبارکہ میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی خبر یا اطلاع ناقابلِ اعتماد ذرائع سے آئے تو بغیر تحقیق و تصدیق اسے من و عن نہیں ماننا چاہیے، بلکہ خوب اچھی طرح اس کی تحقیق کرلینی چاہیے کہ آیا واقعی اس خبر میں کوئی صداقت ہے؟ بغیر کسی تحقیق اور بغیر کامل اطمینان کے اگر کسی ردعمل کا مظاہرہ کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ سواے رُسوائی اور ذلّت کے کچھ نہیں ہوگا۔
مفسرین نے اس آیت کا جو پس منظر بیان کیا ہے وہ بھی اس مسئلے کی وضاحت کرتا ہے ۔ عہدنبویؐ میں بعض لوگوں نے قبیلہ بنی المصطلق کے بارے میں رسولِ کریمؐ اور مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو غلط اطلاع دی تھی کہ اس قبیلے نے مرکز کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ اور یہ کہ انھوں نے مرکز کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن مدینہ منورہ کی جانب سے کسی کارروائی سے قبل خود اس قبیلے کے سردار حارث بن ضرارؓ رسولِ کریمؐ کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے تمام حقیقت بیان کی اور بتایا کہ اس قبیلے کے کسی فرد نے بھی زکوٰۃ کی ادایگی سے انکار نہیں کیا، اور نہ مرکز کی جانب سے بھیجے گئے محصِّل کو کسی نے قتل کی دھمکی دی ہے۔ دراصل قبیلہ بنو المصطلق سے مخالفت رکھنے والے بعض افراد نے غلط اطلاعات پھیلا کر مرکز کو اس قبیلے کے خلاف کارروائی پر اُبھارنے کی کوشش کی تھی۔ اصل حقائق معلوم ہونے پر مرکز نے بنو المصطلق کے خلاف کارروائی کا ارادہ موقوف کر دیا۔ قرآنِ حکیم نے اس موقعے پر یہ حکم دیا کہ اس قسم کی جب کوئی خبر یا اطلاع ملے تو اربابِ حل و عقد کو چاہیے کہ اس کی خوب تحقیق کرلیا کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات سے مغلوب ہوکر یا جذبات میں آکر کسی بے گناہ طبقے کے خلاف اقدام کربیٹھیں جس پر بعد میں پچھتانا پڑے۔
عہد نبویؐ میں منافقین اور یہودی افواہیں پھیلانے اور اُمت مسلمہ کے مختلف طبقات کے درمیان منافرت پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ اس کے لیے وہ ہرحربہ استعمال کرتے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے انصار و مہاجرین کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لیے علاقائی تعصب بھی اُبھارنے کی کوشش کی۔ انصار و مہاجرین کے درمیان خوش گوار تعلقات اور اسلامی اخوت و محبت نے مدینہ منورہ میں جو وحدت پیدا کر دی تھی اس میں عبداللہ بن ابی کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ وہ باہمی نفرت پیدا کر کے اپنی قیادت کو آگے بڑھانا چاہتا تھا ۔ غزوئہ بنو مصطلق سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین کے بارے میں عبداللہ بن ابی نے یہ دھمکی آمیز الفاظ کہے تھے:
لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ ۰ۭ (المنافقون ۶۳:۸) اگر ہم مدینہ لوٹ جائیں تو وہاں سے عزت والے لوگ بے حیثیت لوگوں کو نکال باہر کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان منافقین کی حرکتوں پر کڑی نظر رکھتے تھے اور ان کی تمام تخریبی حرکات کو اپنی حکمت عملی اور بصیرت سے غیرمؤثر بناتے رہے۔ منافقین کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور سرگوشی کے انداز میں آپ سے باتیں کرتے۔ ان کی سرگوشیوں کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ عام لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی اور قریبی تعلقات ہیں۔ یہ تاثر پیدا کرکے وہ جو بات رسولِ کریمؐ کی طرف منسوب کرکے پھیلائیں گے عام لوگ اسے مان لیں گے۔
اسی طرح عام جگہوں پر کھڑے ہوکر سرگوشی کے انداز میں گفتگو کرتے تھے، جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ کوئی خاص بات ہے جس کا صرف ان لوگوں کو علم ہے، یا شاید کوئی راز کی بات ہے جو انھیں معلوم ہوئی ہے۔ اس طرح ذہنی اور نفسیاتی طور پر راہ ہموار کی جاتی تھی، تاکہ جب کوئی افواہ پھیلائی جائے تو لوگ اس پر یقین کرلیں۔ یہ لوگ خفیہ اجتماعات بھی کرتے تھے جس کا مقصد اپنی تخریبی پالیسیوں کا جائزہ لینا اور ان کو عملی شکل دینے کی تدابیر کرنا ہوتا تھا۔ قرآنِ حکیم نے منافقین کے خفیہ اجتماعات کے تین مقاصد کا ذکر کیا ہے۔ یہ لوگ گناہ کے کاموں، ظلم و زیادتی اور رسول کریمؐ کی نافرمانی کے لیے اس قسم کے اجلاس کرتے تھے۔ منافقین کے اس طرزِعمل کی وجہ سے قرآنِ حکیم نے سرگوشیاں کرنے اور رازداری کے انداز میں گفتگو کرنے پر پابندی لگا دی، تاکہ یہ لوگ عام لوگوں میں کوئی غلط تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں۔
قرآن کریم نے فرعون کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ بہت غرور میں مبتلا تھا، اپنے اقتدار کی خاطر لوگوں میں نسلی امتیاز پیدا کرتا تھا، اور ان میں پھوٹ ڈال کر ان پر حکومت کرتا تھا:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۴ (القصص ۲۸:۴) فرعون نے زمین میں سر اُٹھا رکھا تھا۔ اس نے وہاں کے باشندوں کو فرقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا۔ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا اورلڑکیوں کو زندہ رکھتا، یقینا وہ فساد برپا کرنے والوں میں تھا۔
اس آیت مبارکہ میں فرعون کے بھیانک جرائم کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اُوپر ہم نے منافقین کی تخریبی حرکتوں کو بیان کیا ہے جن میں افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانا بھی شامل ہے۔ سورئہ بقرہ میں منافقین کی ان حرکتوں کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۱۱ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۱۲ (البقرہ۲:۱۱-۱۲) اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلائو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کررہے ہیں۔ خبردار! یہی لوگ فسادی ہیں ، مگر انھیں شعور نہیں۔
فساد اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں:
وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۲۰۵ (البقرہ ۲:۲۰۵) اور اللہ تعالیٰ فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا۔
اخلاقی نقطۂ نگاہ سے غور کریں تو بھی افواہیں پھیلانا بہت گھٹیا اور مذموم حرکت ہے۔ اس لیے کہ غیبت کرنا، تہمتیں لگانا، جھوٹ بولنا، لوگوں کی کردار کشی کرنا اور تحقیر و تذلیل نہ صرف گناہِ کبیرہ ہیں، بلکہ وہ بُرائیاں ہیں جنھیں تمام اخلاقی نظام غیراخلاقی حرکت تصور کر کے رد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افواہیں پھیلانے میں ان تمام بُرائیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اسلام کا اخلاقی ضابطہ تو ایسے کردار کی تعمیر و تشکیل کرتا ہے جس کی بنیاد صداقت، امانت و دیانت داری، باہمی اخلاص و محبت، اعتماد اور عدل و انصاف پر ہوتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہرانسان فطرتاً اچھا ہے، بدگمانی گناہ ہے۔ حدیث نبویؐ میں ہے کہ اہلِ ایمان کے بارے میں اچھا گمان رکھو۔ بلاوجہ تجسّس اور عیب جوئی بھی جائز نہیں ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ قرآن و سنّت کی رُو سے افواہیں پھیلانا، بے بنیاد خبریں شائع کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اس قسم کی حرکتوں میں جو لوگ ملوث ہوں گے وہ جرم میں ملوث تصور کیے جائیں گے۔ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ قرآن و سنت میں جہاں اس قسم کی مذموم حرکتوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، وہاں مملکت کے عام اور ذمہ دار شہریوں پر بھی یہ فریضہ عائد کیاگیا ہے کہ وہ بھی افواہوں کی روک تھام اور ملک و ملّت کی سلامتی کے معاملات میں پورا پورا تعاون کریں۔
افواہوں کی روک تھام میں حکومت کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ خاص طور پر نشرواشاعت کے وہ ادارے جو حکومت کی زیرنگرانی کام کر رہے ہیں، مثلاً ریڈیو یا ٹیلی ویژن وغیرہ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام یہ کرناہوگا کہ یہ ادارے عوام میں اپنا اعتماد پیدا کریں تاکہ لوگ ان اداروں کی مہیا کردہ اطلاعات پر بھروساکرسکیں۔ یہ ادارے کردار سازی کا تو کام کریں، لیکن کردار کشی کے لیے استعمال نہ ہوں۔ ان اداروں پر اعتماد بحال ہونے سے افواہ سازوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ہماری ملکی اور ملّی صحافت پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہمارے بعض اخبارات کا طرزِعمل تو بہت ہی غیرمحتاط ہوتا ہے۔ وہ غیرمصدقہ اور بے بنیاد خبریں شائع کرکے معاشرے اور مملکت دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اخبارات کو چاہیے کہ وہ ایسی خبریں جن کا براہِ راست اثر ملک و ملّت پر پڑتا ہو، یا جن سے ہمارے ملّی ادارے متاثر ہوتے ہوں، یا افراد کے کردار پر ان کا اثر پڑتا ہو، بلاتحقیق شائع نہ کریں۔ صرف ان چیزوں کو شائع کرنا چاہیے، جن کی اشاعت واقعی ضروری ہو اور ان کی اشاعت سے منفی اثرات معاشرے میں نہ پیدا ہوتے ہوں۔
اگر ہمارے ذرائع ابلاغ اِن آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ کی روشنی میں ایک ضابطۂ اخلاق طے کرلیں، تو یقینا مثبت اور صحت مند صحافت بھی افواہ سازی کے خلاف اپنا کردار ادا کرسکے گی۔
دَربرگِ لالہ وگُل، [کلامِ اقبال میں مطالعۂ نباتات]دوم، ڈاکٹر افضل رضوی۔ ناشر: بقائی یونی ورسٹی پریس، سپر ہائی وے، کراچی۔ فون:۳۴۴۱۰۲۹۳-۰۲۱۔ صفحات: ۳۴۹۔ قیمت (مجلد ): ۹۵۰ روپے ۔
اقبالیات کے ایک نادر موضوع پر زیرنظر کتاب کی پہلی جلد دسمبر ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی تھی، اور اب اس کی دوسری جلد سامنے آئی ہے۔ پہلی جلد میں ۱۸نباتات کا ذکر تھا اور دوسری جلد میں ۲۴نباتات کا تذکرہ ہے۔ مصنف تیسری جلد پر بھی کام کر رہے ہیں۔
جیساکہ ہم نے جلداوّل پر تبصرے (ترجمان: اگست ۲۰۱۷ء) میں بتایا تھا: ’’مصنف بنیادی طور پر نباتیاتی سائنس دان ہیں اور آج کل آسٹریلیا کے محکمۂ تعلیم میں خدمات انجام دے رہے ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال نے شاعری کو احیاے ملّت کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ قوم کو اُمیدوارتقا کا پیغام دیا اور جہد ِ مسلسل کی ترغیب دلائی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے عناصرِ فطرت اور برسرِزمین اور زیرِزمین جمادات کے ذکر سے بھی کام لیا۔
زیرنظر جلد کا آغاز ’پھول‘ سے ہوتا ہے اور پھر اسی تسلسل میں: تاک، جھاڑی، چوب، حنظل، حشیش، حنا، خیابان، ریاض، غنچہ، فصل، کلی، گلاب، گلستان،گلزار، مرغزار، نیستان اور نخل وغیرہ کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔افضل رضوی صاحب کا مطالعہ عمیق اور فکر راست ہے۔ ان کی یہ کتاب ایک اعتبار سے اقبال کے فارسی اور اُردو کلام کی نہایت عمدہ شرح بھی ہے۔ اس کتاب کے ایک تقریظ نگار ڈاکٹر عابد خورشید کی نظر میں: ’’یہ غیرمعمولی کارنامہ ہے، جسے افضل رضوی نے بخوبی انجام دیا ہے‘‘۔(رفیع الدین ہاشمی)
سفینۂ حجاج کے دو مسافر، میاں محمد اسلم۔ ناشر: جمال الدین سنز اینڈ کمپنی، ۴۴-عمرمارکیٹ، لنک ریلوے روڈ،لاہور۔ فون: ۳۷۶۵۷۲۵۲-۰۴۲۔ صفحات:۳۵۵ ۔ قیمت(مجلد): ۷۰۰ روپے
سفرِ حج بیت اللہ ، سفرِ شوق ہے اور سفرِسعادت بھی جس کے لیے ہزاروں برسوں سے پروانے لپک لپک کر خانہ کعبہ حاضری کے لیے رواں دواں رہتے ہیں۔
ماضی میں سب سے بڑا اور مشکل مرحلہ خود مکہ مکرمہ پہنچنا تھا اور اس مقصد کے لیے زائرین چھے چھے مہینے پیدل یا قدیمی روایتی سواریوں پر روانہ ہوتے، اور پھر اسی طرح واپس آتے تھے، یا پھر بحری جہازوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔آج حجاج ہوائی جہازوں میں اُڑان بھرتے اور چند گھنٹوں میں جدہ یا مدینہ منورہ پہنچتے اور سُرعت سے فریضۂ حج ادا کرکے دنوں میں واپس آجاتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ۵۵برس پہلے، حج کے ایک سفر کی رُوداد ہے، جب حاجی بحری جہاز سے جدہ جایا کرتے تھے۔ میاں محمداسلم ایڈووکیٹ نے ۱۹۶۸ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ مصنف نے سفر کے دوران مختلف کیفیات اور دل چسپ معلومات کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ ۵۵برس پہلے حرمِ کعبہ کے نواح میں کس طرح کا ماحول تھا اور اُس مشکل دور میں حجاج کی مصروفیات و مشکلات کیا ہوتی تھیں۔ اس رُوداد میں ایمان کی حلاوت ہرصفحے پر ثبت نظر آتی ہے۔ یاد رہے فاضل مصنف اس سے پہلے طفیل قبیلہ لکھ چکے ہیں، جو جماعت اسلامی پاکستان کے دوسرے امیر [۱۹۷۲ء- ۱۹۸۷ء] محترم میاں طفیل محمدؒ کے بارے میں ہے۔ (س م خ)
اسلام کا خاندانی نظام، ایک تقابلی مطالعہ، زہرہ جبین۔ ناشر: مکان نمبر۴، گلی نمبر۹، بلال ٹائون، ایبٹ آباد۔ فون: ۰۹۵۳۸۸۹-۰۳۳۵۔ صفحات:۲۲۲۔ قیمت: درج نہیں۔
مصنفہ قانون کی استاد ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں عائلی نظام سے متعلقہ قوانین کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ فقہ، قانون اور سماجیات کے مطالعے کی بنیاد پر رہنمائی دی ہے کہ اسلام کس طرح کا خانگی نظام قائم کرتا ہے؟ اس میں کن راہوں سے رخنہ اندازی پیدا ہوتی ہے؟ پھر ہمارا قانون کس انداز سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ درحقیقت خواتین کے لیے مددگار کتاب کا درجہ رکھتی ہے، جو یہ معلوم کرسکتی ہیں کہ دیگر تہذیبوں میں خواتین کس انداز سے زندگی گزار رہی ہیں اور ایک مسلمان خاتون کو زندگی کن راہوں پر چلتے ہوئے گزارنی چاہیے؟(س م خ)
مریم جمیلہ، نقاد تہذیب مغرب ، روبینہ مجید۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت (مجلد): ۲۶۵ روپے۔
مریم جمیلہ (سابقہ مارگریٹ مارکوس: ۲۲ مئی ۱۹۳۴ء ، ریاست نیویارک۔ ۳۱/اکتوبر ۲۰۱۲ء، لاہور) ایک خوش نصیب روح تھیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وہ یہودیت ترک کرکے ۲۴مئی ۱۹۶۱ء کو دائرۂ اسلام میں داخل ہوئیں۔ ۲۶برس کی عمر میں ۲۴جون ۱۹۶۲ء کو اپنا وطن امریکا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے پاکستان آگئیں۔ یہاں ۸؍اگست ۱۹۶۳ء کو مولانا مودودی کے رفیق محمدیوسف خان صاحب سے ان کی شادی ہوئی، جو پہلے سے شادی شدہ اور صاحب ِ اولاد تھے۔
محترمہ مریم جمیلہ کی نجی اور علمی زندگی، اسلام سے وابستگی اور اسلام کے لیے زندگی گزارنے کی اُمنگ وہ پہلو ہیں کہ انھیں جتنا جاننا، سمجھنا اور پڑھنا شروع کر یں، اسی قدر ان کی قدرومنزلت بڑھتی اور اپنے دائرۂ اثر میں لیتی جاتی ہے۔ انھوں نے مغرب میں پروان چڑھ کر مغربی تہذیب کی انسانیت کش بنیادوں اور مادی تہذیب کی سفاکیوں کو جس گہری نظر سے دیکھا اور پھر آزادانہ فیصلے سے اسے مسترد کیا، وہ سب ایک روحانی، تہذیبی اور علمی سفر کا دبستان ہے۔
مصنفہ نے بڑی خوبی سے محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کے ان پہلوئوں پر تحقیق اور تجزیات پر مبنی مقالات مرتب کیے ہیں۔ ان میں مرکزی مضامین ’اسلام اور مغربی تہذیب و تمدن‘ اور ’مریم جمیلہ بحیثیت نقاد تہذیب ِ مغرب‘ ہیں۔کتاب میں تقریباً تمام ضروری معلومات ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کتاب پڑھتے ہوئے قاری اس شرمندگی اور کم مائیگی کے احساس کی گرفت محسوس کرتا ہے ع ’پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے‘ ۔ ہم نے مسلم گھرانوں میں پیدا ہوکر وہ کچھ نہ سیکھا اور وہ کچھ نہ کرسکے، جو ہزاروں کلومیٹر دُور سے ہجرت کر کے آنے والی قابلِ رشک خاتون نے کردکھایا۔ (س م خ)
اقبال کا ایوانِ دل، محمد الیاس کھوکھر۔ ناشر: نگارشات، ۲۴ مزنگ روڈ، لاہور۔ فون: ۹۴۱۴۴۴۲-۰۳۲۱۔ صفحات:۵۴۴۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔
اقبال سوتے ہوئوں کو جگانے اور عمل پر اُبھارنے والی شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنے پیغام کو قرآن، سیرتِ نبویؐ اور تاریخِ اسلام کے گہرے مطالعے کے علاوہ عصرِحاضر کے مشاہدے سے اخذ کیا اور بستی بستی اس کو پھیلایا۔ کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس حیات بخش پیغام کو محض مغنیوں کی آوا ز سے سنا، چند نظموں اور کچھ اشعار کو زمانۂ طالب علمی میں درسی جبر کے ساتھ ہی پڑھا، مگر اس مطالعے اور سماعت نے ان کی زندگی اور زندگی کے چلن پر کچھ اثر نہ ڈالا۔
مصنف نے بجاطور پر کلامِ اقبال اور حیاتِ اقبال میں خاص کشش محسوس کی ہے۔ پھر اپنے دل پر گزرنے والی اس فکری اور روحانی واردات کو ۱۸ مضامین کی شکل میں مرتب کرکے، قوم کو متوجہ کیا ہے۔ یہ مضامین گہرے مطالعے، فہم اقبال کی وسعت، اور بے پایاں لگن کے مظہر ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ کتاب کسی محکمانہ ترقی کی ضرورت کے تحت نہیں لکھی گئی بلکہ تعلیم و تربیت کی غرض سے تحریر کی گئی ہے۔ زبان سادہ اور عام فہم ہے۔(س م خ)
خدمات علماءِ سندھ اور جمعیت العلما، مولانا محمد رمضان پھلپوٹو۔ ناشر: جمعیت علماءِ اسلام، کریم پاک ، راوی روڈ، لاہور۔ صفحات:۴۴۸۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔
علماے کرام نے دعوتِ دین کے چراغ روشن کرنے کے لیے، بے پناہ ایثار اور یکسوئی کے ساتھ پوری پوری زندگیاں اللہ کی راہ میں لگادی ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں، وہ عقائد کی دنیا ہو یا عمل کا میدان، افراط و تفریط کا مشاہدہ قدم قدم پر دکھائی دیتا ہے۔ کہیں عصبیت اور کہیں غلو۔ یہ کتاب ان دونوں پہلوئوں پر بحث کرتی ہے۔
زیرنظر کتاب میں فاضل مرتب نے خدماتِ علما کا ریکارڈ مرتب کیا ہے: خطۂ سندھ میں جمعیت علماے اسلام اور دارالعلوم دیوبند کی دینی، تعلیمی اور تربیتی روایت نے کون کون سے کارہاے نمایاں انجام دیے؟ ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’جمعیت علماے اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسری سیاسی یا مذہبی جماعت میں شامل ہونے کو مَیں سیاسی کفر سمجھتا ہوں،کیونکہ موجودہ دور میں جمعیت، قرآن و سنت میں بیان کردہ الجماعۃ کی مصداق ہے‘‘(ص ۲۴۹)۔ بڑے احترام سے عرض ہے کہ اس عقیدے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دینی تعلیم و تربیت کے لیے علماے کرام کی کاوشوں کو برگ و بار اور وسعت عطا فرمائے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب معلومات افزا ہے۔ (س م خ)
ستمبر کے شمارے میں کشمیر پر برہمنی مظالم کی مناسبت سے بہت قیمتی تحریریں مطالعے کے لیے ملیں۔ سچی بات ہے کہ اس مرحلے پر سیّد علی گیلانی صاحب کی تحریر اور پکار کو ’اشارات‘ میں پیش کرکے، آپ نے کشمیری بھائیوں سے یک جہتی اور مسئلے کی مرکزیت کو نمایاں کرنے میں ایک شان دار مثال قائم کی ہے۔ مولانا مودودی مرحوم نے ’ جنگ ِ ستمبر‘ کے حوالے سے ۵۵برس پہلے جو باتیں کی تھیں، وہ آج حرف بہ حرف توجہ اور ترجیح کے لائق ہیں۔ افتخار گیلانی تو کشمیر کی جدوجہد پر انسائیکلوپیڈیا کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر شمارہ ان کے ذریعے ہمیں کشمیر اور بھارت لے جاتا ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی ایمان افروز تحریر اور پطرس بخاری مرحوم کے احساس ذمہ داری اور کشمیر سے وابستگی نے معلومات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر صفدر محمود صاحب، قومی پریس میں غالباً واحد دانش ور ہیں جو سیکولر لہر کا مدلل انداز سے مقابلہ کر رہے ہیں اور جواب دے رہے ہیں۔
تازہ شمارے میں ایچ عبدالرقیب صاحب نے زکوٰۃ کی عالمی سطح پر قدر و منزلت ، قبولیت اور معنویت کا نقشہ پیش فرمایا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر محمد واسع ظفر صاحب نے ایک دینی اور عملی مضمون کو مکمل کر کے کاروبار میں اسلام کی رہنمائی سے آگاہ کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے دینی مدارس پر ریاستی شب خون مارنے کی حرکت کو بے نقاب کیا ہے اور مراد علوی صاحب نے تجدد پسند گروہ کو آئینہ دکھایا ہے۔ یہ سب تحریریں علم میں اضافے کا باعث ہیں۔
محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے مضمون: ’’کیا حفظ ِ قرآن ایک ’بدعت‘ ہے؟‘‘ (ستمبر۲۰۱۹ء) پڑھا۔ اسلام کے دورِ اوّل اور بہت بعد تک یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ کوئی بغیرسمجھے بھی قرآنِ مجیدکو پڑھے گا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ خود ہمارے یہاں عربی مدارس میں بھی طلبہ کی بڑی تعداد کو عربی نہیں پڑھائی جاتی۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ابتدائی جماعتوں میں عربی پڑھائی جاتی اور پھر حفظ ِ قرآن اور باقی علوم اسلامیہ کی تعلیم دی جاتی؟ تلاوتِ قرآن کا مطلب معانی سمجھے بغیر تلاوت کیسے ہوسکتا ہے؟ قرآن کے ابتدائی قاری تو وہ تھے، جنھیں عربی زبان آتی تھی۔ قرآن کا اصل مقصد اُس کے الفاظ کے معانی سمجھنا ہے۔ ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ قرآن کا مفہوم (سیدھاسادہ مفہوم) سمجھے۔ [مفتی صاحب نے کہیں یہ نہیں کہا کہ قرآن فہمی کی ضرورت نہیں اور نہ ہم کہتے ہیں کہ محض تلاوت مقصود و مطلوب ہے۔ قرآن کریم کا یاد ہونا اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر اس کا فہم اور تفقہ فی الدین ہونا اور اس پر عمل کرنا ہی مطلوب ہے۔ مگر حفظ کو ’بدعت‘ قرار دینا نامناسب بیان ہے۔ ادارہ]
شمارہ اگست ۲۰۱۹ء میں مقالہ بعنوان ’تحفظ حقوق ماوراے صنف قانون‘ از محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب میں مفتی صاحب نے صنفی لحاظ سے متنوع اقسام کے بارے تحقیق کرکے پاکستان کی پارلیمان کے منظور کردہ قانون کا محاکمہ کیا ہے۔ ان کی دو باتوں سے کُلی اتفاق ہے: اوّل، یہ کہ منظور کردہ قانون میں ماوراے صنف افرادکے لیے سہولتوں، فوائد، استحقاق یا مواقع کے ضمن میں متضاد سہولتوں کی منظوری دی گئی ہے۔ ایک جگہ ان کو ان کی متعین شدہ جنس کے مطابق سہولتوں کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ گویا نارمل افراد کی متعلقہ جنس کے مطابق یا مساوی۔ دوسری جگہ ان کے لیے الگ جیل خانے یا حفاظتی حراستی مراکز بنانے کو کہا گیا ہے۔ لہٰذا، اس تضاد کو دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ وراثت کے معاملے میں منظورکردہ قانون میں ان افراد کے حصے کے لیے ۱۸سال سے پہلے اور ۱۸سال کی عمر کے بعد میں فرق رکھا گیا ہے، جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مفتی صاحب کی دلیل کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے (اگرچہ اس کا انھوں نے ذکر نہیں کیا ہے) کہ پارلیمان اس قانون میں ضروری ترمیمات کروا کر اسے اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق ڈھالے۔
مفتی صاحب نے مضمون میں جس ’فتوے‘ کو رد کیا ہے، میری راے میں یہ فتویٰ بنیادی طور پرشریعت کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہے۔ البتہ، اس کی زبان و بیان میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ دوم، نفسیاتی اصطلاح Gender Dysphoria کا ترجمہ ’صنفی احساسِ ملامت‘ کے بجاے ’صنفی احساسِ عدم اطمینان یا احساسِ ناگواری‘ زیادہ مناسب ہے۔
مفتی سیّد عدنان کاکاخیل صاحب نے اپنے قابلِ قدر مضمون: ’چائلڈ میرج بل، مسئلہ یا مغالطہ!‘ (جون ۲۰۱۹ء) میں بہت مفید باتیں بیان کی ہیں۔ البتہ، بعض پہلو توجہ طلب ہیں، مثلاً قرآنِ کریم میاں بیوی کے رشتے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے: رفاقت، مؤدت، رحمت اور سکینت وغیرہ ، جو کہ بالغ افراد ہی کے درمیان ممکن ہے، نابالغ کے درمیان نہیں۔اسی شمارے میں ڈاکٹر نازنین سعادت نے بصیرت افروز مضمون: ’شادی سے قبل رہنمائی اور مشاورت‘ میں لکھا ہے: ’’اسلام نے شادی میں لڑکے اور لڑکی کی راے کو بہت اہمیت دی ہے کہ ایجاب و قبول انھی میں ہوتا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ایجاب و قبول بالغ افراد کے درمیان ہی ممکن ہے۔ اس لیے نابالغ بچی کی شادی کے مسئلے اور پاکستان کے قوانین پر علمی بحث اور عملی تجاویز کو پیش کیا جانا چاہیے۔