پروفیسر خورشید احمد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کو آج سب سے بڑا خطرہ اس ’اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ‘ سے ہے جو گذشتہ ۱۰ برسوں میں امریکا اور بھارت کے درمیان پروان چڑھی ہے اور جسے مستحکم کرنے میں افغانستان میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے خونیں اور انسانیت کش واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے لیکن جس طرح اُس وقت کی امریکی قیادت نے اسے اپنے استعماری مقاصد کے لیے استعمال کیا اور جس طرح آج کی امریکی قیادت اسے استعمال کر رہی ہے، وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک باب ہے۔ جن ۱۹ افراد پر اس جرم کے ارتکاب کا الزام ہے، ان میں سے کسی ایک کا بھی تعلق نہ افغانستان سے تھا، نہ عراق سے اور نہ پاکستان سے___ لیکن اس واقعے کے نام پر جس طرح افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی گئی اور اس پورے علاقے میں دورِحاضر کی سب سے طویل اور خون آشام جنگ برپا کر دی گئی، اور جس طرح پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلا گیا اور اب نت نئے انداز میں اسے نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ایک گھنائونا استعماری کھیل ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔

افسوس ہے کہ پاکستان کی مفاد پرست اور عاقبت نااندیش قیادت بار بار چوٹیں کھاکر بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی، دوست اور دشمن میں تمیز سے محروم ہے اور دوسروں کی جنگ کو اپنے گھر میں لاکر اپنے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ بلاشبہہ ملک میں اندرونی مسائل کا بھی ایک انبار ہے لیکن جس چیز نے ملک کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے، وہ امریکا کی آہنی گرفت ہے جس کے نتیجے میں ان ۱۰ برسوں میں عملاً ملک امریکا کی غلامی اور محکومی میں آگیا ہے، اور آج زندگی کے ہرشعبے اور میدان میں اس کا حکم چل رہا ہے اور وہ حکمرانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح اپنے مفاد کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ’دوستی‘ اور ’شراکت‘ ایسے الفاظ ہیں جو اپنے معنی کھوچکے ہیں اور مفادات کا کھیل ہے جس نے ہر میدان میں تباہی مچا دی ہے۔

امریکی خارجہ پالیسی کی اصل بنیاد کو امریکا کے سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے مختصراً یوں بیان کیا تھا:

America has no friends or enemies, only interests.

یعنی امریکا کا نہ کوئی دوست ہے اور نہ دشمن___ سارا معاملہ صرف اور صرف مفادات کا ہے۔

پاک امریکا تعلقات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ گذشتہ ۶۳ برسوں میں سارے نشیب و فراز، دوستی اور دشمنی، امداد اور پابندیاں صرف امریکی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ نام کچھ بھی دے لیں، اصل حقیقت یہی ہے کہ ہمیشہ ہمارے تعلقات صرف وقتی اور عارضی رہے ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ ’دوستی‘ کے عنوان سے امریکا کی محکومی کی ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔

ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ امریکا سے دشمنی یا تصادم نہ ہمارے مفاد میں ہے اور نہ ہم اس کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں، البتہ ہمیں پوری دقّتِ نظر سے یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکا کے مفادات کیا ہیں اورہمارے مفادات کیا ہیں۔ جہاں ان میں مطابقت ہو، وہاں تعاون ہوسکتا ہے اور جہاں ان میں عدم مطابقت ہو، وہاں ہمیں اپنے مفادات کا ہرقیمت پر تحفظ کرنا چاہیے اور امریکا کو      وہ حیثیت ہرگز نہیں دینی چاہیے جس سے وہ ہم پر اپنے مفادات کو مسلط کرسکے اور ہمیں محض اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرے۔

ماضی میں بھی ہمارا ریکارڈ کچھ بہتر نہیںرہا۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے بدقسمتی سے جو کچھ ہورہا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم امریکی مفادات کے تابع مہمل بن کر رہ گئے ہیں اور ملک اپنی آزادی اور خودمختاری تک سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ قومی غیرت و حمیت کا کوئی پاس باقی نہیں رہا ہے اور حالت یہ ہے کہ اب ملک کی سلامتی بھی دائو پر لگ گئی ہے، نیز بش کے بقول اس ’کروسیڈ‘ (صلیبی جنگ) میں امریکا تنہا نہیں بلکہ بھارت بھی پوری چابک دستی سے اس میں شریک ہوگیا ہے اور امریکا اور بھارت اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے بڑی ہم آہنگی کے ساتھ پاکستان کے گرد دائرہ   تنگ کر رہے ہیں۔ اگر پاکستانی قوم یک آواز ہوکر امریکا اور بھارت کے اس خطرناک کھیل کا بروقت مقابلہ نہیں کرتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ ہم خدانخواستہ اپنی آزادی ہی نہیں اپنے وجود سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ امریکا کی دوغلی پالیسی کے تمام خدوخال کو اچھی طرح سمجھا جائے، نیز اس کھیل میں بھارت کے کردار کا بھی پورا ادراک کیا جائے، اور پھر مقابلے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی بنائی جائے جس پر قومی اتفاق راے پیدا کر کے بھرپور انداز میں عمل کیا جائے۔

بین الاقوامی تعلقات کا تاریخی تناظر

آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ تاریخِ انسانی کی روشنی میں اور خصوصیت سے ۲۰ویں صدی کے دوران بین الاقوامی تعلقات کے باب میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، ان کا ادراک کرتے ہوئے چند حقائق پر نگاہ ڈالی جائے تاکہ آیندہ کی حکمت عملی زیادہ حقیقت پسندی کے ساتھ مرتب کی جاسکے۔

پوری تاریخِ انسانی میں جنگ خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ رہی ہے اور بالعموم طاقت ور اقوام نے اپنے سے کمزور اقوام کو جارحیت کا نشانہ بناکر اپنے دروبست کا حصہ بنایا ہے یا کم از کم اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح کمزور ممالک نے اپنے تحفظ کے لیے طرح طرح کے راستے اختیار کیے ہیں جن میں اپنے دفاع کے لیے طاقت کے حصول کے ساتھ دوسرے ممالک سے امداد باہمی کے معاہدے اور سیاسی الحاق اور اشتراک قابلِ ذکر ہیں۔ امن کے قیام کے لیے قوت اور مقابلے کی قوت کی موجودگی ہی اصل ضمانت رہے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں اور خصوصیت سے عالمی سیاست میں خلافت اسلامی کے زیراثر بین الاقوامی قانون کی ترقی وجود میں آئی جس کے تحت طاقت کے استعمال سے ہٹ کر سفارت کاری اور معاہدات اور روایات (conventions) کے ذریعے عالمی سیاسی تعلقات کو مرتب اور منظم کرنے کا دروازہ کھلا جسے یورپ کی تاریخ میں ۱۷ویں صدی میں وسٹفائل کے معاہدے (Treaty of Westfile)کی شکل میں اور پھر  ۱۹ویں اور ۲۰ویں صدی میں جنیوا کنونشنز اور لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کے اداروں کی شکل میں ایک عالمی نظام براے قیامِ امن کی صورت دی گئی۔

اقوام متحدہ کا چارٹر اور حقوقِ انسانی کا عالمی اعلان اندھی طاقت کے مقابلے میں قانون، اصولِ انصاف اور اشتراکِ باہمی کی بنیاد پر اختلافی امور کو طے کرنے اور مفادات کے درمیان توازن اور توافق کے حصول کا نظام قائم کرنے کی ایک کوشش ہے جس کے نتیجے میں اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اور طاقت ور اقوام کو ایک گونہ بالادستی دیے جانے کے علی الرغم، عالمی امن اور تنازعات کے حل کا ایک نظام وجود میں آیا ہے۔ اسی زمانے میں جنگ کی ٹکنالوجی اور ایٹمی سدّجارحیت کی وجہ سے جنگ اور خصوصیت سے عالمی جنگ سے انسانیت کو بچانے کا ایک راستہ رونما ہوا، البتہ اقوام متحدہ کا نظام ہو یا ایٹمی عدم پھیلائو کا انتظام، سب ہی میں پانچ بڑے ممالک کو ہمیشہ بالادستی حاصل رہی اور اس بالادستی کو ان طاقت ور ممالک نے اپنے اپنے مفاد میں استعمال بھی کیا۔ تاہم عسکری، سیاسی اور معاشی قوت میں عدم توازن کے باوصف اقوام کی قانونی اور اخلاقی برابری کے اصول کو کم از کم نظری طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ جنگ کو سیاسی اختلافات کے حل یا مفادات کے حصول کا ذریعہ تسلیم کرنے کی نفی کی گئی اورسب کو ایک عالمی قانون کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔

ان مثبت پہلوئوں کا حاصل یہ ہوا کہ امیر اور غریب، طاقت ور اور کمزور سب کو اپنی اپنی حدود میں رہنے اور جینے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ نیز عالمی اداروں کو اس سلسلے میں ایک واضح کردار ادا کرنے کا اختیار دیا گیا۔ عالمی راے عامہ بھی ایک قوت کی حیثیت سے اُبھری اور اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اور طاقت ور اقوام کے اپنے مفاد میں قانون، اصول اور روایات کو نظرانداز کرنے کے علی الرغم ایک ایسی صورت پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں طاقت ور اقوام کے لامتناہی   حقِ غلبہ پر ضرب پڑی اور طاقت ور کی طاقت کی حدود (limits of power of the powerful) کی حقیقت واشگاف ہوئی۔ روس کو اس کا تلخ تجربہ افغانستان میں ہوا اور امریکا نے ویت نام میں اس کا مزہ چکھا اور اب عراق اور افغانستان میں ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔

امریکا کی ناکام افغان پالیسی

افغانستان میں راے عامہ کے جو سروے امریکا اور ناٹو کے زیرنگرانی ہوئے ہیں، ان کی رُو سے آبادی کے ۸۰ فی صد نے امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی اور جنگ بندکرنے اور صلح اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان میں ایک نہیں گیلپ کے تین جائزوں کی رُو سے ۹۰ فی صد امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مخالف ہیں۔ برطانیہ کی آبادی کا ۷۲ فی صد برطانوی افواج کے افغانستان سے ایک سال کے اندر اندر انخلا کا مطالبہ کر رہا ہے اور خود امریکا میں صدر اوباما کی افغان پالیسی کے خلاف راے دینے والوں کی تعداد اب ۵۰ فی صدسے بڑھ گئی ہے۔    لندن کے اخبار گارڈین کی ۲۱جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں اس کے مضمون نگار سیوماس مائلن (Seumas Milne) نے لکھا ہے:

افغانستان میں کوئی فریق بھی دوسرے کو پچھاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، البتہ اس سال طالبان کے حملے پچھلے سال کے مقابلے میں ۵۰ فی صد زیادہ ہوگئے اور شہری اموات ۲۳ فی صد بڑھ چکی ہیں۔ یہ جنگ اپنے بدلتے ہوئے مقاصد میں سے ہر ایک میں ناکام ہوچکی ہے___ دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنے، افیون کی پیداوار ختم کرنے، جمہوریت کی ترویج اور خواتین کی حیثیت بہتر بنانے کے لیے صورتِ حال حقیقت میں مزید خراب ہوگئی ہے، بلکہ اب تو امریکا اور ناٹو کی ساکھ تک دائو پر لگی ہوئی ہے۔  عرصے سے افغانستان کی پیچیدہ صورت حال سے نکلنے کا ایک واضح راستہ تھا، یعنی تمام نمایاں افغان طاقتوں بشمول طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے غیرملکی افواج کی واپسی جس کی ضمانت خطے کی دیگر طاقتوں نے دی ہو۔ مسئلے کا یہ حل عرصے سے جنگ کے مخالفین پیش کر رہے ہیں، اب جنگ کے حامی بھی اس کے قائل ہو رہے ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ برسرِزمین حالات کتنے خراب ہوچکے ہیں۔

افغانستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ عراق میں جو کچھ ہوچکا ہے اس کو تقویت دینے کا باعث ہے، یعنی امریکا کی اپنی مرضی بذریعہ طاقت نافذ کرنے کی حدود۔    اگر امریکی فوج کو جس کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں، ایک خستہ حال فوج دنیا کے ایک غریب ترین ملک میں شکست سے دوچار کرسکتی ہے تو یقینا اس کے مضمرات ایک نئے عالمی نظام کے لیے سنگین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے قریب ترین حلیف شکست کے اظہار سے بچنے کے لیے ہرممکن حربہ آزمائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ   کئی ہزار مزید افغان اور ناٹو افواج ایک ایسی جنگ کی قیمت چکائیں گے جس کے لیڈر یہ جانتے ہیں کہ وہ اس جنگ کو جیت نہیں سکتے۔

امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ

تاریخ کے ان تجربات کی روشنی میں جہاں یہ بات صحیح ہے کہ عسکری، سیاسی اور معاشی قوت کا تفاوت ایک حقیقت ہے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں جب سب حدود کو پامال کردیتے ہیں تو قدرت کا یہ قانون ہے کہ طاقت کا ایک نیا توازن رونما ہوتا ہے جس کے نتیجے میں جو کمزور ہیں وہ بالآخر غالب ہوتے ہیں اور جو طاقت ور ہیں وہ بے بس ہوجاتے ہیں۔ امریکا آج دنیا کی طاقت ور ترین مملکت ضرور ہے لیکن اس کا اقتدار اب زوال پذیر ہے۔ اس کی معیشت قرضوں تلے دبی ہوئی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کی عسکری جولانیوں کے سبب دنیا کے عوام کی عظیم اکثریت اس کو عالمی امن اور اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ اس کی ٹکنالوجی دہشت گردوں سے کہیں زیادہ عام انسانوں کے قتلِ عام کا آلہ بن گئی ہے۔ ایک امریکی تحقیقی ادارے کے مطابق امریکی افواج کے حملوں اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں صرف ۳ فی صد دہشت گرد نشانہ بنے ہیں، جب کہ ۹۷ فی صد سویلین شہری ہیں جن میں بوڑھے، عورتیں اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں اور عوام میں امریکا کے خلاف نفرت   کے سونامی کو جنم دے رہے ہیں۔ امریکا کے ایک اور تھنک ٹینک Natonal Bureau of Economic Research، (واقع کیمبرج، مساچوٹس) نے اسی ماہ اپنی ۷۰صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں افغانستان میں صرف ۱۵ مہینے میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں مرنے والے ۴ہزار سویلین اموات کا ریکارڈ پیش کیا گیا ہے اور یہ مبنی برحقیقت تنبیہہ بھی کی گئی ہے کہ افغانستان میں انتقامی کارروائیاں کرنے والوں اور خودکش بم باروں کی اکثریت ان کی ہے جو امریکی اور ناٹو افواج کی کارروائیوں میں شہید ہونے والے عام افراد کا انتقام لینا چاہتے ہیں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ئ)

یہی صورتِ حال پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کی تباہ کاری کے نتیجے میں رونما ہورہی ہے۔  برطانیہ کی ایک چوٹی کی Communication Agency (GCHQ) نے اپنی جولائی ۲۰۱۰ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ کی قیادت تو منتشر ہوئی ہے لیکن سیکڑوں شہری بھی ہلاک ہوگئے اور انسانی حقوق کے ایک نمایاں وکیل پروفیسر فلپ آرسٹان نے (جو اقوام متحدہ کی طرف سے ان حملوں کی تحقیقات کر رہے تھے) ڈرون حملوں کے قانونی جواز کو چیلنج کیا ہے۔ (دی نیشن، ۲۵ جولائی ۲۰۱۰ئ)

افغانستان میں عوامی تحریکِ مزاحمت کی حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اس تحریک کو ’دہشت گردی‘ کہنا اور پھر اس عنوان سے پورے ملک کو تخت و تاراج کرنا ایک سامراجی جارحیت ہے۔ اس تحریک کا اصل ہدف بیرونی قبضے سے نجات ہے۔ ایک مغربی صحافی Jere Van Dyler نے، جو افغانستان اور اس علاقے کے بارے میں ۱۹۷۰ء سے لکھ رہا ہے جس کو طالبان نے ۴۵ دن (۲۰۰۸ئ) اپنی تحویل میں رکھا، اپنے ایامِ اسیری کی داستان My Time as a Prisoner of the Taliban نامی کتاب میں بیان کی ہے۔ اس نے نیویارک میں اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی ہے جو افغانستان اور خود پاکستان کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے صحیح حکمت عملی کی تشکیل میں مددگار ہوسکتی ہے۔ اس نے کہا کہ: ’’القاعدہ کے برعکس، طالبان امریکا کے خلاف اپنی مرضی سے برسرِجنگ نہیں ہیں۔ وہ امریکی سرزمین پر ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ وہ ہمارے اس لیے دشمن ہیں کیونکہ ہم وہاں ہیں‘‘۔ (دی نیشن، ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ئ)

ہماری ان گزارشات کا حاصل یہ ہے کہ:

۱- طاقت کا عدم توازن اپنی جگہ، لیکن ضروری نہیں طاقت ور ہی ہمیشہ غالب رہیں۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ بالآخر مظلوم ظلم کا جوا اُتار پھینکنے میں کامیاب ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ حق پر ہوں اور اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہدکریں۔

۲- امریکا اپنی طاقت کے زعم میں اور اپنے سامراجی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوا لیکن وہ ایک دلدل میں پھنس گیا ہے اور افغانستان پر قبضہ ختم کرنے کے سوا اس کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کے لیے جنگ کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے نجات کا راستہ انخلا کی حکمت عملی ہے اور اس کے لیے جتنی جلد منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا اہتمام کیا جائے اتنا بہتر ہے۔

نیا تناظر اور زمینی حقائق

شروع میں امریکا کے جو بھی مقاصد اور اہداف ہوں اور نظریاتی طور پر امریکا کے نوقدامت پسندوں اور بش انتظامیہ کی جو بھی سوچ ہو، نوسال کے تجربات کے بعد امریکی قیادت بھی اپنے بنیادی مقاصد اور حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ اس میں افغانستان کے زمینی حقائق کے ساتھ امریکا کی معاشی اور مالی حالت، داخلی مسائل اور ضروریات، عالمی اور ملکی راے عامہ اور افغانستان سے آنے والے فوجیوں کے تابوت، سب ہی پالیسی کی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ امریکا کا ایک نام وَر دانش ور اور سابق صدارتی مشیر رچرڈ این ہاس (Richard N. Haass) اس وقت Council of Foreign Relations کا سربراہ ہے، اس کا ایک اہم مضمون نیوزویک کی ایک حالیہ اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ امریکا کے پالیسی ساز حلقوں میں اسے بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ اس کے چند نکات کو سامنے رکھنا امریکی قیادت کے ذہن کو سمجھنے میں مددگار ہوگا۔ اس کا کہنا ہے: افغانستان میں امریکا آج جو جنگ لڑ رہا ہے وہ بش انتظامیہ کی پالیسی سے مختلف اور بارک اوباما کی اپنی پسند کی جنگ بن چکی ہے اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا انتخاب اس کی واضح علامت ہے۔ رچڑد ہاس کی سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ: ’’افغانستان میں امریکی خون اور خزانے سے کی گئی سرمایہ کاری لاحاصل ہے، اور اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے وہاں کے منصوبوں کو کم کریں اور ان کی سمت بھی بدلیں‘‘۔

رچرڈ ہاس یہ تجزیہ کرتا ہے کہ جنگ کے اوّلیں مقاصد میں افغانستان اور عراق ہی نہیں پورے شرق اوسط میں ایسی حکومتوں کا قیام تھا جو امریکا کے زیراثر اور دنیا کے ان علاقوں میں اس کے ایجنڈے کے مطابق کام کرسکیں اور اس طرح مقامی حکومتوں کے ذریعے امریکا کے مقاصد حاصل ہوسکیں۔ یہ ماڈل وجود میں نہیں آسکا اور نہ اس کی کامیابی کا کوئی امکان ہے۔ اس لیے اب ہدف یہ ہونا چاہیے کہ افغانستان میں کمزور لیکن ضروری فرائض انجام دینے والی حکومت وجود میں آجائے جسے کوئی امریکا کے مفادات کے خلاف استعمال نہ کرسکے۔ پھر اس نے افغانستان کی تقسیم، یعنی مقامی قیادتوں کو اُبھارنا، اور علاقائی لشکروں کی تشکیل اور طالبان کے بارے میں زیادہ لچک دار رویے کی حمایت کی ہے جس پر ڈیوڈ پیٹریاس نے عمل شروع کر دیا ہے اور جسے اب صدر کرزئی نے بھی عملاً قبول کرلیا ہے۔ اس نئی حکمت عملی کے کیا نتائج نکلتے ہیں، یہ تو مستقبل ہی بتائے گا مگر امریکا کی افغان پالیسی کیا ہونے جارہی ہے اور اس کے پس منظر میں پاکستان کے کردار اور خود پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مستقبل کے خدوخال پر ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔

رچرڈ ہاس نے جو نتیجۂ فکر امریکی قیادت کے سامنے پیش کیا ہے وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے:

امریکا اس وقت افغانستان میں جو جنگ لڑ رہا ہے اس کے اس طرح لڑے جانے کی نہ کوئی قدروقیمت ہے اور نہ وہ کامیابی سے ہم کنار ہورہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکی مقاصد کا دوبارہ تعین کیا جائے اور برسرِزمین مداخلت کو بھی واضح طور پر کم کیا جائے۔ افغانستان بہت زیادہ امریکی جانیں لے رہا ہے، بہت زیادہ توجہ لے رہا ہے اور بہت زیادہ وسائل جذب کر رہا ہے۔ جتنی جلد ہم یہ تسلیم کرلیں کہ افغانستان کوئی ایسا مسئلہ نہیں جسے حل کیا جانا ہے بلکہ ایسی صورتِ حال ہے جس کو ٹھیک کرنا ہے،    اتنا ہی بہتر ہے۔

پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت اور پالیسی ساز اداروں کے لیے اس آخری جملے، یعنی less a problem to the fixed, than a situation to be managed (ایک مسئلہ نہیں جسے حل کرنا ہے بلکہ صورت حال ہے جسے ٹھیک کرنا ہے) میں غوروفکر کا ایک خزانہ پوشیدہ ہے۔ پوری بحث کا خلاصہ مسئلے کے فوجی حل کے مقابلے میں سیاسی حل کی طرف مراجعت ہے۔

حالات کے اس جائزے کی روشنی میں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا افغانستان میں خود کس طرف جارہا ہے اور پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو کس طرف دھکیل رہا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کے مقاصد، اہداف اور مفادات اور پاکستان کے مقاصد، اہداف اور مفادات میں کتنا جوہری فرق ہے، اور امریکا کی اپنی افغان پالیسی اور جو پالیسی وہ پاکستان پر مسلط کر رہا ہے اس میں کتنے بنیادی تضادات ہیں، اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ پاکستان اپنے اہداف کا اور اپنی حکمت عملی کا تعین اپنے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں کرے اور امریکا اور اس کی مسلط کردہ پالیسیوں سے دامن چھڑا کر خود اپنی وضع کردہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔

امریکی مداخلت اور ملکی خودمختاری

’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کی شرکت نہ پسند کی جنگ تھی اور نہ ہمارے مفادات کی روشنی میں ضروری جنگ۔ اس جنگ کا تعلق ہماری اپنی کسی ضرورت سے نہ تھا بلکہ یہ ہم پر جبر کے ہتھیاروں سے مسلط کی گئی، اور مشرف حکومت نے محض خوف اور ذاتی مفادات خصوصاً اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ملک کو اس آگ میں جھونکا۔ اگر ان نوبرسوں کا ایک میزانیہ پوری دیانت داری اور معروضی انداز میں مرتب کیا جائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا نتیجہ ممکن ہی نہیں کہ یہ ہراعتبار سے خسارے کا سودا تھا۔ موجودہ حکومت نے آزاد خارجہ پالیسی اور امریکا کی گرفت سے نکلنے کے قومی مطالبے کو یکسر نظرانداز کرکے پرویز مشرف کی پالیسی کو اور بھی قبیح انداز میں آگے بڑھایا اور نقصانات کو دوچند کر دیا۔ امریکا اور برطانیہ نے این آر او کی بیساکھیوں کے سہارے جس سیاسی قیادت کو ملک کی باگ ڈور سونپی اور جس طرح خود فوج کی قیادت کو اس انتظام کا حصہ بنایا، وہ بڑی دل خراش داستان ہے لیکن اب وہ کوئی راز نہیں۔ ملک کی معیشت کو جس طرح بیرونی امداد کا اسیر بنایا گیا وہ بھی ایک کھلی کتاب ہے اور اس وقت جو صورتِ حال ہے، وہ یہ ہے کہ امریکی قیادت لالچ اور خوف جس میں لالچ کا کردار کم اور خوف کا زیادہ ہے، کے ذریعے ہماری قیادت کی نکیل پکڑ کر اسے اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے اور اس خطرناک کھیل میں بھارت کا کردار روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے اصل حقائق کو بے کم و کاست پیش کیا جائے اور پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے۔

ہالبروک صاحب جو افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے سفیر مقرر کیے گئے ہیں، دوسال میں ۱۴ بار پاکستان تشریف لائے ہیں اور ہربار پاکستان آنے سے پہلے یا اس کے فوراً بعد بھارت بھی تشریف لے گئے ہیں جہاں سے اہم پالیسی اعلانات بھی کرتے رہے ہیں۔ ایڈمرل مولن کی الطاف و عنایات اس سے بھی زیادہ ہیں۔ وہ ماشاء اللہ ۱۹ بار تشریف لائے ہیں اور سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں سے اعلیٰ ترین سطح پر شیروشکر ہوئے ہیں۔ ڈیوڈ پیٹریاس اور دوسرے فوجی اور سیاسی کرم فرمائوں کے ٹڈی دل اس پر مستزاد ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر خود محترمہ ہیلری کلنٹن صاحبہ کی ایک سال میں دو بار آمد اور صدراوباما کے دربار میں ہمارے حکمرانوں کی پیشیاں اور ان کے فرامین کی بارش___ اس آئینے میں پاکستان کی بے چارگی کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اصل آقائوں کے چند ارشادات بھی سامنے رکھنا ریکارڈ کی درستی کے لیے مفید ہوگا:

محترمہ ہیلری کلنٹن صاحبہ فرماتی ہیں اور بار بار اس کی تکرار کر رہی ہیں کہ: l مجھے یقین ہے کہ بن لادن یہاں پاکستان میں ہے l اسامہ کہاں ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی انتظامیہ کے بعض عناصر کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے؟ l ابھی کچھ ایسے اضافی اقدامات ہیں جن کے لیے ہم پاکستان سے کہہ رہے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ یہ اقدامات اُٹھائے گا lکسی کے ذہن میں یہ شبہہ نہیں رہنا چاہیے کہ اگر امریکا کے خلاف کسی حملے کا سرا پاکستان تک پہنچا تو اس کا ہمارے تعلقات پر بہت تباہ کن اثر ہوگا۔

ہیلری کلنٹن اور ناٹو کے سیکرٹری جنرل دونوں نے پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ بڑے جارحانہ انداز میں کیا ہے اور ان کی تشریف آوری کے بعد ایڈمرل مولن نے صاف الفاظ میں     نہ صرف یہ کہا ہے کہ اسامہ اور القاعدہ کی قیادت پاکستان میں ہے بلکہ پاکستانی اخبار دی نیشن، بھارتی اخبار دی ہندو اور برطانوی اخبار گارڈین کے الفاظ میں: ’’اپنی قیادت کو کھلے الفاظ میں بتا دیں کہ امریکا پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے توقع کرتا ہے کہ وہ امریکا کے سلامتی کے مفادات کا لحاظ رکھے‘‘۔

ہالبروک صاحب نے پاکستان، بھارت اور افغانستان سے واپسی پر لندن میں فرمایا ہے کہ: ’’برطانیہ اور امریکا کے لیے یہ ناگزیر ہے اور ان کے ایجنڈے میں یہ بات سرفہرست ہے کہ مل کر پاکستان کے ساتھ اس طرح کام کیا جائے کہ پاکستان خطے کے مسائل کے حل کا حصہ ہو‘‘ (دہلی ٹائمز، ۲۶ جولائی ۲۰۱۰ئ)۔ اس سے قبل رچرڈ ہالبروک صاحب نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’واشنگٹن سمجھتا ہے کہ اس کوشش میں اسلام آباد کا کردار مبہم ہے اور نظر نہیں آتا‘‘۔ (ڈان، ۱۶جولائی ۲۰۱۰ئ)

امریکا کے سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستان کی قیادت کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ انھیں ان تمام عناصر کے خلاف جنگ کرنا ہوگی جو افغانستان میں امریکیوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ نیویارک ٹائمز اپنے ۲۳ جنوری ۲۰۱۰ء کے اداریے میں پاکستان کو تحکمانہ شان سے متنبہ کرتا ہے:

پاکستان افغان طالبان کو آگے بڑھنے کا موقع دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اور واشنگٹن کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسلام آباد اس حقیقت کا سامنا کرے۔ مسٹر گیٹس نے جب کھلے عام یہ کہا کہ: ’’اسلام آباد اس سرطان کے ایک حصے کو نظرانداز کرے اور یہ ظاہر کرے کہ اس کا کوئی اثر اس کے ملک کے قریب نہیں ہوگا‘‘ تو دراصل انھوں نے پاکستان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’ہمیں امید ہے کہ وہ نجی ملاقات کے دوران زیادہ سخت رہے ہوں گے‘‘۔

امریکا کے نیشنل سیکورٹی کے ایڈوائزر جنرل جیمز جونز کے احکامات بھی سامنے رہیں تو تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’پاکستان کو اپنے ملک میں موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف کسی امتیاز کے بغیر سخت کارروائی کرنا ہوگی۔ ہمیں پاکستان کی حدود کے اندر ایسی   دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر شدید تشویش ہے جن کا مقصد ہمارے طرزِ زندگی اور آپ کے طرزِزندگی پر حملہ کرنے اور غیرمستحکم کرنے اور افغانستان میں ہمارے اسٹرے ٹیجک مقاصد کے حصول میں کامیابی کو روکنا ہے‘‘۔

اور خود صدر اوباما نے اپنی دسمبر ۲۰۰۹ء کی تقریر میں پاکستان کو صاف لفظوں میں متنبہ کردیا کہ ’’ہم دہشت گردوں کے لیے ایسی محفوظ جنت برداشت نہیں کرسکتے جس کا مقام معلوم ہے اور جن کے ارادے واضح ہیں‘‘۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق: ’’نجی طور پر سرکاری حکام نے پاکستان کے قائدین کو تنبیہہ کی ہے کہ اگر وہ اقدام نہیں کرتے تو امریکا کرے گا‘‘۔ (اداریہ، ۸جولائی ۲۰۱۰ئ)

ان تمام احکامات، دھمکیوں اور ڈرون حملوں کی روشنی میں پاکستان کے جوائنٹ چیف  آف اسٹاف کے ہیڈکوارٹر کا یہ اعلان سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے:’’پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کا امریکا کے ساتھ باہمی تعلقات کے فریم ورک میں تحفظ کیا جائے گا‘‘۔ (بحوالہ دی نیشن، ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ئ)

کیا اس پر سر پیٹ لینے اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کے علاوہ کسی ردعمل اور اقدام کی ضرورت نہیں؟

؎ جس کشتی کی پتواروں کو، خود ملاحوں نے توڑا ہو

 اس کشتی کے غم خواروں کو، پھر شکوۂ طوفاں کیا ہوگا

بہارت کا بڑہتا ہوا اثر و رسوخ

امریکا کے اس خطرناک کھیل میں بھارت ہرسطح پر شریک ہے۔ صدر بش کی حکومت نے جس وقت جنرل پرویز مشرف سے کہا تھا: ’تم یا ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے‘‘ اور پاکستان کو پتھر کے زمانے کی طرف لوٹا دینے کی دھمکی دی تھی، اس وقت بھی بھارت امریکا کے دوش بدوش کھڑا تھا اور افغانستان پر امریکی حملے کے لیے اپنا کندھا دینے کی بات نہیں کر رہا تھا بلکہ پاکستان پر بھی حملے کے اشارے دے رہا تھا۔ پھر افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران بھارت شریک رہا ہے اور افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے ساتھ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں مصروف ہے۔

لندن کی جنوری ۲۰۱۰ء کی کانفرنس میں بھارت کے کردار کو کم کرنے کی پاکستان کی کوشش کے جواب میں جولائی ۲۰۱۰ء میں کابل میں جو کانفرنس ہوئی ہے اس میں بھارت کے کردار کو  بحال کیا گیا ہے۔ ہیلری کلنٹن اور ہالبروک نے بھارت کے کردار کو ایک حقیقت کے طورپر پیش کیا ہے اور کھل کر یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت کے کردار کا حدود اربعہ متعین نہیں کرسکتا۔ہالبروک نے دہلی میں کہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کا ایک ’اہم کردار‘ ہے اور واشنگٹن پہنچ کر پاکستان کے منہ پر یہ کہہ کر ایک طمانچہ رسید کیا کہ: ’’لیکن اس وقت کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان کو یہ طے کرنے کا اختیار ہے کہ پڑوسی ملک میں کیا ہو‘‘۔(دی نیشن، ۱۶ جولائی ۲۰۱۰ئ)

دی ہندو کی ۲۳ جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت کے مطابق رچرڈ ہالبروک نے بھارت کو یقین دلایا ہے کہ ’’اسے ایک انتشار کے شکار ملک افغانستان کے حل میں بڑا کردار ادا کرنا ہے‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’پاکستان افغانستان پر قبضہ کرنے والا نہیں ہے اور نہ طالبان ہی، بلکہ خطے کے ہرملک کو اس کا حصہ ہونا ہے۔ یہ بھارت کو طے کرنا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا کیا کردار چاہتا ہے۔ بھارت کے لیے ہماری حمایت کم ہونے والی نہیں ہے۔ ہم سب سمجھتے ہیں کہ خطے میں اس کا مرکزی کردار ہے‘‘۔

یہ امر بہت اہم ہے کہ لندن کانفرنس میں افغانستان کے مسائل کے حل میں پڑوسی ممالک کا ذکر تھا لیکن کابل کانفرنس میں اعلان کیا گیا ہے کہ: ’’افغانستان کے پڑوسی اور قریبی پڑوسیوں کو سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش ہے اور یقینا اس میں بھارت بھی شامل ہے‘‘۔

علاقے کی مستقبل کی سیاست میں امریکا اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے بارے میں اب کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں۔ امریکا اس علاقے میں بھارت کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے، اس کی معیشت اور فوجی قوت دونوں کو تقویت دینے میں سرگرم ہے اور اسے چین، جو پاکستان کا سب سے قابلِ اعتماد دوست ہے، کے مقابلے کے لیے تیار کررہا ہے۔ امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ صرف چین ہی کے لیے خطرہ نہیں، پاکستان بھی اس کی زد میں ہے۔

پاک امریکا تعلقات کا مستقبل

  • صدر بارک اوباما نے اپنی قاہرہ کی تقریر میں عالمِ اسلام سے دوستی اور تعاون کے لیے تین بنیادوں کو بڑی اہمیت دی تھی:

مشترک اقدار

  • اعتماد باہمی
  • مشترک مفادات۔ امریکا سے پاکستان کے تعلقات اور ان کے مستقبل کا انحصار بھی انھی تینوں باتوں پر ہے، اس لیے ان تینوں کے بارے میں ذرا کھل کر اصل حقائق پر گفتگو کرنا ضروری ہے۔

پاکستان کا قیام ایک نظریے کی بنیاد پر ہوا ہے جس کا واضح الفاظ میں اعلان قرارداد مقاصد اور پاکستان کے دستور میں کردیا گیا ہے۔ بلاشبہہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ بحیثیت مجموعی اسلامی اصولوں اور اقدار سے ہم آہنگ ہیں اور ان کی بنیاد پر دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکا سے ہمارے تعلقات استوار ہونے چاہییں لیکن یہاں بھی یہ مشکل آڑے آتی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہمیشہ امریکا ہی نے کی ہیں اور آج بھی خود امریکا ہی کررہا ہے اور امریکا کی پشت پناہی میں اسرائیل اس سے بھی چار قدم آگے ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر تمام اقوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن امریکا زبانی جمع خرچ کے علی الرغم فلسطین، کشمیر اور دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی حمایت سے گریز کررہا ہے یا عملاً حق خودارادیت کی مخالفت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر آزاد ممالک میں باہر سے قیادت کی تبدیلی کی کوششوں کا مخالف ہے اور امریکا اکھاڑپچھاڑ کے اس کھیل میں پوری طرح ملوث ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر دوسرے ممالک پر فوج کشی کو ناجائز قرار دیتا ہے، مدافعت کے سوا جنگ کا دروازہ بند کرتا ہے لیکن امریکا دنیا کے ۴۰ سے زیادہ ممالک میں ۸۶۵ فوجی اڈے رکھتا ہے جن میں ہمیشہ اس کے لاکھوں فوجی موجود رہتے ہیں (ان کی تفصیل امریکا کے مشہور Cats Institute کے   فیلو ڈوگ بانڈو (Doug Bandow) نے اپنی کتاب Foreign Follies: America's New Global Empireمیں دی ہے)۔

امریکا کی، اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزیوں کی داستان بڑی طویل ہے لیکن پاکستان کے ساتھ مشترک اقدار کا معاملہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی شناخت اسلام ہے اور امریکا کے بااثر عناصر، مغرب کی دوسری اقوام کی طرح، جس طرح اسلام اور مسلمانوں پر فکری اور تہذیبی یلغار کیے ہوئے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو دہشت پسندی اور وحشت اور درندگی کی علامت بناکر پیش کر رہے ہیں، قرآن اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک اور تذلیل میں مصروف ہیں اور مسجد کے مینار اور مسلمان خاتون کے حجاب تک کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، اس پس منظر میں ’مشترک اقدار‘ کی بات کرنا حقائق سے صرفِ نظر کرلینے کے مترادف ہے۔ اسی طرح جمہوریت کو ایک قدرِ مشترک کہا جاتا ہے لیکن امریکا نے دنیا بھر میں جمہوریت کے قتل اور سول اور فوجی آمروں کی پشت پناہی کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے، وہ الم ناک ہی نہیں ہوش ربا بھی ہے۔

ہم دل و جان سے چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک میں ہرشخص اور ہر قوم کے عقیدے،   دین اور تہذیب و تمدن کا احترام ہو اور اختلاف کو حدود میں رکھ کر مشترکات میں تعاون اور اختلافی امور و معاملات میں رواداری کا طریقہ اختیار کیا جائے لیکن مغربی اقوام نے جو جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برپا کی ہوئی ہے، اس کی موجودگی میں ’مشترک اقدار‘ کی بنیاد متزلزل ہوچکی ہے۔

رہامعاملہ اعتمادِ باہمی کا، تو اس کا جو حشر امریکا نے کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ صدر اوباما اور ہیلری کلنٹن سے لے کر مغربی میڈیا تک سب پاکستان سے اعتماد کی کمی (trust deficit) کا رونا رو رہے ہیں۔ کوئی بیان ایسا نہیں ہے جس میں پاکستان، اس کی سیاسی اور عسکری قیادت، اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف زہرافشانی نہ کی جارہی ہے۔ ’ڈو مور‘ کا جو راگ صبح وشام الاپا جارہا ہے وہ ’اعتمادِ باہمی‘ کی مثال ہے یا بے اعتمادی کا ثبوت!

مشہور مقولہ ہے: ’’اعتماد سے اعتماد پیدا ہوتا ہے‘‘۔ اس کے برعکس یہاں امریکا نے     ’’بے اعتمادی سے بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے‘‘ کی فضا پیدا کر دی۔ امریکا کی قیادت کو اپنا دوغلاپن نظر نہیں آتا اور پاکستان سے شکوہ و شکایت بلکہ اس پر بے جا الزامات کا ہرلمحے چرچا کر رہا ہے۔ ابھی وکی لیکس (wikileaks) نے جو ساڑھے نو ہزار سرکاری دستاویزات شائع کی ہیں، وہ پاکستان پر الزام تراشیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ کیا اس اعتماد کی کمی کی موجودگی میں ’اعتمادِ باہمی‘ کی بات ممکن ہے؟

اشتراکِ مفادات کی حقیقت

اسی طرح اگر اشتراکِ مفادات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک محدود دائرے کو چھوڑ کر، پاکستان اور امریکا کے مفادات میں کوئی مطابقت نہیں۔ امریکا کا اصل ہدف پوری دنیا میں اپنی بالادستی کو قائم کرنا اور قائم رکھنا ہے اور اس کے چوٹی کے دانش وَر اور حکمت عملی کے ماہر صاف کہہ رہے ہیں کہ کم از کم اگلے ۵۰سال میں کوئی طاقت ایسی اُبھرنے نہیں دینی چاہیے جو امریکا کی بالادستی کو چیلنج کرسکے۔ اسی وجہ سے چین اور عالمِ اسلام کا اُبھرتا ہوا اتحاد امریکا کا ایک بڑا ہدف ہیں۔ اسرائیل کے ذریعے شرقِ اوسط کا امن تباہ کیا گیا ہے اور اسے ایک ایٹمی طاقت بنایا گیا ہے لیکن پاکستان کی ایٹمی صلاحیت امریکا کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے اور اس سے پاکستان کو محروم کرنا بھی امریکا کے لیے ایک ’اسٹرے ٹیجک‘ ہدف کی حیثیت رکھتا ہے۔

ایٹمی پھیلائو کا سارا شور اسی و جہ سے ہے اور ایٹمی اثاثوں تک دہشت گردوں کی رسائی کا واویلا اسی سلسلے میں کسی جارحانہ اقدام کے لیے زمین ہموار کرنے کے لیے ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ ایران کو بھی نشانہ بنانے کے امریکی عزائم ۲۷جولائی ۲۰۱۰ء کی ایک خبر سے واضح ہوتے ہیں:

امریکا کے اندازے کے مطابق خلیج فارس، افغانستان، پاکستان اور آبناے کوریا دنیا کے خطرناک ترین علاقے ہیں اور اس نے ان علاقوں میں جاسوسی کے لیے ایک نیا خلائی سیارہ OTV خلا میں چھوڑا ہے، اس کا اصل نام X37B ہے۔ یہ لیزر ہتھیاروں سے مسلح ہے۔ امریکی اسے جارحانہ ہتھیار قرار نہیں دیتے مگر امریکی مینوٹار IV میزائل سے مل کر یہ ایک ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس میزائل کی رفتار ۵ہزار ۷سو ۹۲کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اس لیے دشمن کو دفاع کا موقع نہیں دیتا۔ یہ اتنا طاقت ور ہے کہ اپنے ہدف کو خواہ اسے کتنا ہی محفوظ بنایا گیا ہو، زد پر لے سکتا ہے۔ اس میزائل کو مستقبل کا ہتھیار کہا جا رہا ہے۔ یہ جوہری ہتھیاروں سے مسلح نہیں ہے لیکن اس کے لیزر ہتھیار ٹام ہاک میزائل سے سات گنا زیادہ تیزرفتار ہیں۔ مینوٹارIV میزائل کو سمندر، زمین یا فضا سے چلایا جاسکتا ہے۔

پاکستان اور ایران کو بھی یہ سوچنا ہے کہ امریکا اس ہتھیار کو ان کی جاسوسی کے لیے استعمال کرے گا اور بہت محفوظ مقامات پر رکھے گئے اسلحے کو بھی نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے لیے بہت خطرناک ہے اور اسی طرح ایران کے جوہری پروگرام کے لیے بھی۔ امریکی کسی تکلف کے بغیر ایران پر حملے کی بات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی کھلی دھمکی دی ہے کہ اگر ٹائم اسکوائر جیسا واقعہ دوبارہ ہوا تو اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۷ جولائی ۲۰۱۰ئ)

پاکستان کے مفاد کا تقاضا چین سے دوستی اور تعاون میں ہے اور چین امریکا کا اوّلین ہدف ہے اور بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے وہ امریکا کا حلیف اور معاون کار ___ ہمارے اور امریکا کے مفادات میں کہاں ’اشتراک‘ ہے؟

پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہے اور امریکا پاکستان کے ایران سے گیس اور بجلی کے تعاون اور چین سے انرجی کی افزایش کے لیے چشمہ کنال بیراج کے تسلسل میں دو نئے ری ایکٹر حاصل کرنے کا مخالف ہے۔ ہیلری کلنٹن نے اپنے حالیہ دورے کے موقع پر دونوں کا راستہ روکنے کی بات کی ہے۔ یہ مفادات کے ’اشتراک‘ کی مثال ہے یا ان کے تصادم اور تضاد کی!

پاکستان کی اوّلیں ضرورت ملک میں امن و امان کا قیام اور عوام کے جان، مال اور آبرو کی حفاظت ہے لیکن ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ اور اس میں پاکستان کی شرکت نے ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا ہے اور امن و امان کے قیام کا کوئی امکان اس وقت تک نظر نہیں آتا جب تک پاکستان اس جنگ سے دست کش نہ ہو اور مسائل کا سیاسی حل نہ نکالے۔ امریکا افغانستان میں تو سیاسی حل کی بات کر رہا ہے مگر پاکستان پر اس کا سارا دبائو اس سمت میں ہے کہ قوت کا استعمال تیز تر کرو، نئے محاذ فی الفور کھولو اور اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کرو۔

پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات کا فیصلہ خود کرے اور اس کی سرزمین کو دوسرے اپنے مفاد کے حصول کے لیے استعمال نہ کریں لیکن امریکا نے پاکستان کو اس طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے کہ عسکری پالیسی ہو یا معاشی پالیسی، تعلیم ہو یا صحت کی منصوبہ بندی، فوج اسکائوٹس   حتیٰ کہ پولیس تک کی تربیت، سب کچھ امریکا کی خواہش کے مطابق، بلکہ سب پالیسیاں اس کے احکامات کی روشنی میں ترتیب دی جارہی ہیں۔ کیری لوگر بل کے تحت امریکی امداد کی تقسیم اور نگرانی اب بلاواسطہ امریکا اور اس کی طے کردہ ایجنسیاں اور این جی اوز کریں گی۔ اس کے لیے انتظامی اور مالیاتی کنٹرول کا نیا نظام وضع کیا گیا ہے اور امریکی عملہ ہرشعبے کی نگرانی کے لیے ملک میں آئے گا اور اس کے لیے اس نے بڑی تعداد میں ملٹی انٹری ویزا تک پر اختیار حاصل کرلیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں نصاب، اساتذہ اور طلبہ کی تربیت بھی امریکی نگرانی میں ہوگی۔ خیالات پر اپنا اجارہ قائم کرنے کے لیے امریکی امداد کے اس پیکج میں ۵۰ ملین ڈالر میڈیا کی تربیت اور ترقی یا بالفاظ صحیح تر فکروخیال پر قبضے (thought control) کے لیے رکھے گئے ہیں۔

امریکی ڈرون حملوں میں اوباما کے صدر بننے کے بعد تین گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے ذریعے صبح و شام ہماری حاکمیت کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں اور اس خونی کھیل میں پاکستان کی حکومت عملاً شریک ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے باوجود زرداری گیلانی حکومت نے ان کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ وزیردفاع احمدمختار نے اس کی ’افادیت‘ کا اعتراف کیا ہے اور امریکا میں پاکستانی سفیر نے ۲جولائی ۲۰۱۰ء کو اپنے ایک بیان میں یہ تک ارشاد فرما دیا ہے کہ ’’پاکستان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں چاہتے‘‘۔ (Pakistan's Drone Dilemma، طیب صدیقی، ڈان، ۱۸ جولائی ۲۰۱۰ئ)

واضح رہے کہ جولائی ۲۰۱۰ء تک ۱۴۴ ڈرون حملوں میں امریکا نے پاکستان کے ۱۳۶۶ عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے (ملاحظہ ہو: رپورٹ US National Counter Terrorism Centre  ڈان، ۱۸جولائی ۲۰۱۰ئ)، جب کہ القاعدہ کے کتنے لوگ ان میں نشانہ بنے ہیں، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ مئی ۲۰۰۹ء میں امریکی حکومت کے مشیر جنرل ڈیوڈ کلیمولین نے امریکی کانگریس کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ:’’۲۰۰۶ء کے بعد سے ہم القاعدہ کے ۱۴ سینیررہنمائوں کو قتل کرسکے ہیں اور اسی دوران ہم نے ۷۰۰ سے زیادہ پاکستانی شہریوں کو قتل کیا ہے‘‘۔ (ڈان، ۱۸جولائی ۲۰۱۰ئ)

کیا امریکا کی کارروائیاں اور پاکستان کے مفادات میں کوئی نسبت ہے؟

اُوپر وکی لیکس دستاویزات کا ذکر آیا تھا، ان میں بھی بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کی شہادت موجود ہے جن کا اعتراف نہیں کیا گیا بلکہ جن کو سرکاری طور پر دبا دیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ ہوش ربا حقائق اس بل میں سامنے آئے ہیں جو امریکا کے دو ارکان کانگریس نے ایوان میں اسی مہینے پیش کیا ہے اور جس میں پاکستان کی سرزمین پر ایسے امریکی فوجی کارندوں کا اعتراف کیا گیا ہے جن کے لیے امریکی قانون کے مطابق کانگریس سے اجازت نہیں لی گئی ہے اور پاکستانی اخبارات اور سیاسی کارکنوں کے واویلا کے باوجود پاکستان کی سرزمین پر ان کے موجود ہونے کا انکار کیا جاتا رہا ہے۔

دی نیشن نے اپنی ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں واشنگٹن سے یہ خبر دی ہے جس کا حرف حرف بغور پڑھنے کی ضرورت ہے:

ایک ڈیموکریٹ اور ایک ری پبلکن، دو امریکی سینیٹروں نے اس ہفتے ایک بل پیش کیا ہے، جس میں افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے جو وہاں جنگجوئوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں کر رہی ہیں: ’’ہمیں معلوم ہے کہ امریکی افواج کانگرس کی اجازت کے بغیر پاکستانی حدود کے اندر خفیہ کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں‘‘۔ سینیٹر کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں اس قرارداد کی خلاف ورزی ہیں جو ویت نام جنگ کے بعد منظور ہوئی جس کے مطابق امریکی صدر کو صرف اس صورت میں فوج باہر بھیجنے کی اجازت ہے جب کانگریس نے فیصلے کی تائید کی ہو یا امریکا کو کوئی سنگین خطرہ درپیش ہو۔

دوسرے سینیٹر ران پال نے کہا کہ امریکی فوج نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں نمایاں طور پر بڑھا دی ہیں اور کوئی اعداد وشمار نہیں دیے جاتے۔ ڈیڑھ سال قبل اوباما کے صدر بننے کے بعد پاکستان میں بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں پر بھی انھوں نے توجہ دلائی۔ پاکستان میں امریکی فوج کی بڑھتی ہوئی سرگرمی کا امریکا کی حفاظت سے بہت کم تعلق ہے۔ درحقیقت یہ جتنے دشمنوں کو شکست دے رہی ہے، اس سے زیادہ دشمن پیدا کررہی ہے۔ انتظامیہ اپنے پیش رو کی طرح نائن الیون کے بعد کی اصل قرارداد کے الفاظ کو غلط استعمال کر رہی ہے تاکہ وسیع تر علاقائی جنگ جاری رہ سکے اور کانگرس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

گارڈین کے مقالہ نگار مائیکل ولیمز نے ۴ فروری ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں The Secret War in Pakistanمیں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں ہم ایک خفیہ لڑائی میں مصروف ہیں:

زمین پر امریکی افواج کی موجودگی بجاطور پر زیادہ متنازع ہے لیکن امریکی افواج اور برطانوی ایس اے ایس افواج برسوں سے پاکستان میں مختلف مقامات پر کام کر رہی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ حکومت ِ پاکستان کی اجازت کے بغیر ہوا، اور اکثر امریکی اور پاکستانی افواج کے درمیان بداعتمادی کی وجہ سے، مگر حالیہ حملے کے بعد واشنگٹن اور اسلام آباد کو چاروناچار ماننا پڑا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کو یہ تسلیم کرنے میں تامّل رہا کہ امریکی افواج بغاوت کے خلاف کارروائی  کے لیے پاکستانی فوج کو تربیت دے رہی ہیں، اس بات کو جانے دیں کہ بعض اوقات امریکی افواج پاکستان کی حدود کے اندر بھی کارروائیاں کرتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ۸۰ فی صد پاکستانی، طالبان سے لڑنے میں امریکی امداد کو مسترد کرتے ہیں، خاموشی زیادہ دانش مندانہ تھی۔ مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ یہ خفیہ جنگ جوامریکا اسلام آباد کی منظوری سے لڑ رہا ہے بہت سوں کو قبول نہیں ہوگی۔ بہرحال امریکی صدر کو اس لیے منتخب کیا جاتا ہے کہ وہ امریکی عوام کا تحفظ کرے اور یہ توقع کرنا کہ کوئی انتظامیہ اس لیے اقدام نہ کرے کہ حالات خود ٹھیک ہوجائیں گے، ایک خام خیالی ہے۔

معاشی مفادات پر کاری ضرب

معیشت کے میدان میں پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ معاشی ترقی تیزرفتاری سے ہو  اور ملک سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو، ملکی وسائل ملک کی معیشت کی ترقی اور عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے استعمال ہوں۔ قرضوں کا بار کم ہو اور ملک میں ظاہری شان و شوکت پر فضول خرچی کے بجاے بچت کو بڑھانے اور سرمایہ کاری کی طرف اسے استعمال کرنے کا اہتمام ہو۔ لیکن عملاً یہ ہو رہا ہے امریکا کی اس تباہ کن جنگ کی اصل قیمت پاکستان کے غریب عوام      ادا کررہے ہیں۔ جنگ کے ان نو برسوں میں جو نقصان پاکستان کی معیشت کو پہنچا ہے اس کو   سائنسی انداز میں آج تک متعین نہیں کیا گیا۔ سب سے پہلے ۲۰۰۴ء میں امریکا کی مرکزی کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ آیا کہ پاکستان کو ۱۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ جب سینیٹ میں یہ مسئلہ راقم اور اسحاق ڈار صاحب نے اٹھایا تو ویب سے یہ اعداد و شمار ہٹا دیے گئے۔ پھر وزارتِ خزانہ نے  ۲۰۰۹ء میں ۳۵ ارب ڈالر کے نقصان کا ذکر کیا اور ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء کے سالانہ معاشی جائزے میں یہ رقم ۴۳ارب ڈالر لکھی گئی۔ حال ہی میں (۱۱ جون ۲۰۱۰ئ) آئی ایم ایف نے اپنا Poverty Reduction Strategic Paper (PRSP-II) شائع کیا ہے جسے حکومت ِ پاکستان کی وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے مطابق: ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کے باعث پاکستان کو جو نقصان ہوا ہے، اس کی تفصیل اس طرح ہے:

’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی قیمت جو پاکستان نے ادا کی: (ارب روپوں میں)

۰۵-۲۰۰۴ء

۰۶-۲۰۰۵ء

۰۷-۲۰۰۶ء

۰۸-۲۰۰۷ء

۰۹-۲۰۰۸ء

براہِ راست

۱۰۳.۶۷

۰۶۰.۷۸

۴۹۹.۸۲

۵۲۷.۱۰۸

۰۳۳.۱۱۴

بالواسطہ

۰۰۰.۱۹۲

۷۲۰.۲۲۲

۴۰۰.۲۷۸

۸۴۰.۳۷۵

۷۶۰.۵۶۳

کُل قیمت

۱۰۳.۲۵۹

۷۸۰.۳۰۰

۸۹۹.۳۶۰

۳۶۷.۴۸۴

۷۹۳.۶۷۷

اس تخمینے کی رُو سے پاکستان نے اوسطاً سالانہ ۴۰۱ ارب روپے کا نقصان اٹھایا ہے، جب کہ اس پورے عرصے میں امریکا نے صرف ایک ارب ڈالر کے قرضے معاف کیے ہیں اور کُل ۱۵ ارب ڈالر  دیے ہیں جن میں سے ۹ ارب ڈالر ان سالانہ اخراجات کی ادایگی تھی جو فوج نے ادا کردیے تھے، کوئی مدد نہیں تھی۔نام نہاد مدد صرف ۶ ارب ڈالر تھی اور آیندہ کے لیے ۵ئ۱ ارب ڈالر سالانہ کے حساب سے کیری لوگر بل کے ذریعے پانچ سال میں ۵ئ۷ ارب ڈالر دینے کا وعدہ ہے جسے امریکا خود اپنے طے کردہ پروگرام پر اپنے معتمدعلیہ اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کی بات کررہا ہے۔ غضب ہے کہ راہ داری کی جو سہولت پاکستان نے امریکا اور ناٹو اقوام کو دی ہے اور جس کے تحت ایک اندازے کے مطابق ۴ہزار ٹرک ماہانہ افغانستان جارہے ہیں، ان کی راہ داری کے مصارف پورے طور پر وصول نہیں کیے جارہے اور جو نقصان سڑکوں کو اس سے ہو رہا ہے اس کی تلافی کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ مشرف اور موجودہ حکمرانوں نے کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ صرف اس سے کیا جاسکتا ہے امریکا کی جنگ کا پیٹ بھرنے کے لیے ہزاروں شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکت اور معذوری پر مستزاد اوسطاً ۴۰۰ ارب روپے سالانہ پاکستان کے غریب عوام نے دیے ہیں، جب کہ اس زمانے میں کُل سالانہ ترقیاتی بجٹ دو ڈھائی سو ارب سے بھی کم رہا ہے۔ غربت میں اضافہ ہوا ہے، فاقہ کشی سے اموات بشمول خودکشیاں بڑھی ہیں، بے روزگاری اور مہنگائی بڑھی ہے اور عام انسانوں کے لیے جان و مال کا عدم تحفظ اتنا بڑھ گیا ہے کہ گیلپ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق آبادی کا ۹۰ فی صد عدم تحفظ کا شکار ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر ہم امریکا سے مدد نہ لیں تو معیشت کابھٹہ بیٹھ جائے گا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کا بھٹہ اس جنگ نے بٹھایا ہے اور اگر صرف وہ وسائل جو اس جنگ کی آگ میں ہم نے جھونکے ہیں صرف وہ ملک کی معاشی ترقی پر صرف ہوئے ہوتے تو ترقی کی رفتار دگنی ہوسکتی تھی۔

پاکستان کے سیاسی اور معاشی مفادات پر تو کاری ضرب لگی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت سے جو خطرہ پاکستان کو ہے اور جو مسائل ہمارے درمیان نزاع کا باعث ہیں وہ اور بھی اُلجھ گئے ہیں۔ شمال مغربی محاذ پر فوجوں کے منتقل ہونے سے ہمارا جنوبی محاذ کمزور ہوا ہے اور بھارت نے پاکستان پر ’اچانک حملے‘ کا ایک نیا جارحانہ منصوبہ تیار کرلیا جس کی امریکا نے جھوٹے منہ بھی مذمت نہیں کی۔ ممبئی کے واقعے کے سلسلے میں بھارت کے ساتھ امریکا بھی پاکستان کو بلیک میل کرنے میں شریک ہوگیا۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے اصولی موقف کی تائید تو کجا، امریکا نے اپنے اوّلیں موقف کو ترک کر کے اسے صرف بھارت اور پاکستان کا دوطرفہ مسئلہ قرار دے دیا۔ پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے میں بھی امریکا نے کوئی مؤثر اقدام کرنے سے گریز کیا اور سب سے بڑھ کر پاکستان پر دبائو ڈال کر افغانستان اور بھارت کے درمیان واہگہ کے راستے راہداری معاہدہ کے لیے پیش خیمہ کے طور پر ایک MOU پر دستخط کرائے جس کی ہیلری کلنٹن صاحبہ نے بنفس نفیس شہادت دی۔ یہ معاہدہ پاکستان کی ۴۶سالہ پالیسی کے خلاف ہے اور اس پر تجارتی اور ٹرانسپورٹ برادری سخت نکتہ چین ہے۔

امریکا نے ایک طرف بھارت سے نیوکلیر ٹکنالوجی اور نیوکلیر ایندھن کی فراہمی کا معاہدہ کیا اور نیوکلیر سپلائی گروپ کو بھی اپنے اثرورسوخ کے ذریعے بھارت سے تعاون پر آمادہ کیا اور دوسری طرف نہ صرف یہ کہ پاکستان کو وہی سہولت فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے بلکہ پاک چین معاہدے کی بھی مخالفت کر رہا ہے اور نیوکلیر سپلائی گروپ میں چین کا راستہ روکنے کا عندیہ دیا ہے۔

یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ بار بار کے مطالبات کے باوجود نہ امریکا اور یورپ نے پاکستان کی مصنوعات کو اپنی منڈیوں میں داخلے کی وہ سہولتیں دی ہیں جو علاقے کے دوسرے ممالک کو حاصل ہیں اور نہ فاٹا میں برآمدی زون کے سلسلے میں ہی کوئی پیش رفت کی ہے جس کا وعدہ پانچ سال قبل کیا گیا تھا۔

صاف ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر میدان میں پاکستان اور امریکا کے مفادات میں اشتراک نہیں اور پاکستان سے امریکا کے تعلقات میں کوئی جوہری فرق واقع نہیں ہوا بلکہ جس طرح ماضی میں امریکی مفاد کی حد تک وقتی اور عارضی تعلقات تھے، اسی طرح آج بھی ہیں اور ہرلمحہ امریکی قیادت آنکھیں دکھانے اور ہاتھ مروڑنے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں امریکا سے تعلقات اور خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔

نئی حکمت عملی کی ضرورت

امریکا سے تعلقات پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر استوار ہونے چاہییں نہ کہ امریکا کے مفادات کے تابع۔ ہمارے لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت اور ملکی سلامتی اور معیشت کے استحکام کے لیے اوّلیں ضرورت امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے اپنے کو علیحدہ کرنا ہے۔ اس کے لیے خارجہ پالیسی اور علاقائی حکمت عملی دونوں کو ازسرنو مرتب کرنا ضروری ہے۔ امریکا سے باہمی بنیادوں پر معاملہ ضرور کیا جائے لیکن فوری طور پر اس جنگ سے نکلنے کی طرف اقدام ضروری ہے۔ نیز ڈرون حملوں کے بارے میں دوٹوک وارننگ کہ اب انھیں ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا اور ایئرچیف کے اس اعلان کی روشنی میں کہ سیاسی قیادت اگر فیصلہ کرے ہماری ایئرفورس ان ڈرون حملوں کو ناکام بناسکتی ہے، پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ امریکا اور ناٹو کو سپلائی ڈرون حملوں کے خاتمے اور راہداری کے معقول معاوضے کے ساتھ مشروط کیا جائے۔ ملک دہشت گردی کی جس لہر کی لپیٹ میں آگیا ہے خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کی جنگ سے لاتعلقی کا اس پر گہرا اثر پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ مذاکرات اور مسئلے کے سیاسی حل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ قوم کی دینی اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے اور سب کے تعاون سے ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ امریکا کی معاشی مدد اور آئی ایم ایف کی زنجیروں سے نجات حاصل کی جائے اور اپنے ملکی وسائل، بیرون ملک پاکستانیوں کے تعاون اور دوست ممالک خصوصیت سے چین اور مسلم ممالک کے مشوروں سے معاشی ترقی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے مناسب حکمت عملی وضع کی جائے۔

اس سلسلے میں ہم اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس میں ۲۲؍اکتوبر کو جو متفقہ قرارداد منظور کی ہے اور جس کی روشنی میں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اپریل ۲۰۰۹ء کو جو تفصیلی سفارشات ایک واضح نقشۂ کار کی شکل میں دی ہیں، ان میں نئی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کے لیے مؤثر حکمت عملی کے واضح خدوخال موجود ہیں۔ ان کی بنیاد پر قومی اتفاق راے کی قوت سے آزاد خارجہ پالیسی اور خودانحصاری پر مبنی معاشی ترقی اور اجتماعی خوش حالی کا منصوبہ بناکر اس پر جنگی بنیادوں پر عمل ہی میں ہماری نجات ہے۔ اس طرح ہم فوج اور قوم دونوں کو اس آزمایش سے نکال سکیں گے جس میں امریکا کے مفادات کی خدمت میں پرویز مشرف کے دور میں ملک کو جھونک دیا گیا اور زرداری گیلانی دور میں پارلیمنٹ کی قرارداد کے برعکس حالات کو اور بھی دگرگوں کر دیا گیا۔ اس دلدل سے نکلنے کا راستہ آج بھی واضح ہے لیکن اس کے لیے مفادات کی قربانی،  اللہ پر بھروسا اورقوم کو ساتھ لے کر اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے۔


(اس تحریر کا کتابچہ منشورات، منصورہ، لاہور سے دستیاب ہے۔ قیمت: ۱۱ روپے)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بجٹ صرف حکومت کی آمدن و خرچ کا ایک میزانیہ ہی نہیں ہوتا بلکہ حکومتِ وقت کی تمام معاشی اور مالیاتی پالیسیوں اور ان کے مالی تقاضوں کا آئینہ بھی ہوتا ہے، اور اس میں ملک کی معاشی اور مالی صورت حال اور سیاسی حکمت عملی کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ بجٹ کا کام وسائل کے حصول کے ذرائع کی نشان دہی کرنا اور یہ بتانا ہوتا ہے کہ انھیں کن پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے کس انداز میں استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے بجٹ، حکومت ِ وقت کی ایک بنیادی دستاویز ہوتی ہے، جس میں اس کی تمام پالیسیوں کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔

موجودہ حکومت کی طرفہ کارگزاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے اپنے کنبے سے کوئی لائق وزیرخزانہ میسر نہیں آیا۔ پہلے چند مہینے مسلم لیگ (ن) کے جناب اسحاق ڈار اس ذمہ داری پر فائز ہوئے۔ پھر چند ہفتے کے لیے جناب نوید قمر نے جلوہ دکھایا۔ اس کے بعد جناب شوکت ترین مستعار لیے گئے اور اب ڈاکٹر محمد حفیظ شیخ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، جو اپنی ذاتی قابلیت کے باوصف جنرل پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور صوبہ سندھ کے وزیرخزانہ اور مرکزی حکومت کے وزیر نج کاری کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اسی طرح حنا ربانی کھر صاحبہ بھی پچھلی اور موجودہ حکومت کا حصہ رہی ہیں۔ گویا ڈھائی سال کے عرصے میں چار وزراے خزانہ کی آمدورفت جاری رہی۔ ہر ایک اپنے ساتھ اپنی من پسند ٹیم لایا اور اپنی پالیسی اور ترجیحات بھی۔ رہا معاملہ حکومت کی معاشی پالیسی کا تو ہر وزیر اور ہر وزارت اپنی اپنی ڈفلی بجانے اور اپنا اپنا راگ الاپنے کا منظر پیش کرتی رہی اور پاکستان کی معیشت کا جو حشر ہوا اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ  ع

شد پریشاں خواب من از کثرتِ تعبیر ہا

بے سمت معاشی پالیسی

بجٹ تقریر کے حوالے سے عوام الناس میں اب یہ تاثر عام ہے کہ یہ ناقابلِ اعتماد اعدادوشمار اور بے سروپادعووںکا پلندا ہواکرتی ہے۔ اس حوالے سے موجودہ وزیرخزانہ کی تقریر نسبتاً بہتر ہے کہ اس تقریر میں اگرچہ مکمل صداقت نہ تھی لیکن صداقت کی کم از کم کچھ جھلکیاں موجود تھیں۔ تقریر میںوزیرخزانہ نے حالات کا کچھ تجزیہ بھی کیا، اور چھے ایسے نکات بھی دیے جو ان کی نگاہ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔تاہم، بجٹ تقریر میں ایک بڑی خامی یہ رہی کہ اس میں کسی عام فرد کی طرح مسائل کی نشان دہی تو کی گئی، لیکن مسائل کاکوئی واضح اور قابل عمل حل پیش نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ حل پیش کرنا ہی اصل کام اور حکومت کی اصل ذمہ داری ہے۔ اس بجٹ کی سب سے بڑی خامی  یہ ہے کہ اس میں مستقبل کے حوالے سے کسی واضح منزل اور سمت کا تعین قطعی طور پر مفقود ہے ع

منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی

بجٹ کے حوالے سے قوم اور قوم کے نمایندہ ایوانوں سے ایک سنگین مذاق یہ بھی ہے کہ وزیرِ خزانہ کی تقریر اور حکومت کی طرف سے فراہم کردہ بجٹ دستاویزات میں بڑا فرق ہے ۔وزیرِ خزانہ تو یہ کہہ کر داد وصول کر گئے کہ کفایت شعاری کی غرض سے تنخواہوں کے علاوہ غیرترقیاتی اخراجات کو منجمد کیا جا رہا ہے، لیکن جو تفصیل تحریری طور پر فراہم کی گئی ہے اس میں اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا، بلکہ بجٹ تقریباً ہر مد میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں ۵۰ فی صد اضافے کا جو اعلان کیا گیا، بجٹ دستاویز میں اس کا اشارہ تک نہیں ہے۔ اس لیے کہ کم از کم اس کی بنا پر یہ ۶۰،۷۰ ارب روپے مرکزی بجٹ میں اور پھراس سے بھی کچھ بڑی رقوم کی فراہمی صوبوں میں دکھائی دینی چاہیے تھی، لیکن بجٹ دستاویز میں یہ کہیں نظر نہیں آتا۔

اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ اور اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل کرنے کے فیصلے کے بعد، یہ پہلا بجٹ ہے جو سامنے آیا ہے۔ اصولی طور پر اگرچہ یہ درست ہے کہ صوبوں کو اختیارات اوروسائل کی منتقلی کے لیے ایک سال کی مدت رکھی گئی ہے، لیکن خود بجٹ کو بھی اس بات کا عکاس ہونا چاہیے تھا ۔ مثال کے طور پر کم از کم ۲۱ ایسے ڈویژنز ہیں جو اَب صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں لیکن ان وزارتوں کے بارے میں اسی طرح کا بجٹ ہے جیسے پہلے تھا۔ پھر ۵۵۰ میں سے ۱۲۵ سرکاری اداروں کو صوبوں کی طرف منتقل ہونا ہے۔وسائل اور اختیارات کی اس منتقلی کا  لائحۂ عمل بجاطور پر اس بجٹ میں نظر آنا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً اڑھائی لاکھ سرکاری ملازمین جو مرکزی حکومت کے تحت ہیں، ان کی خدمات صوبہ جات کی طرف منتقل ہونے کے حوالے سے کوئی ابتدائی اقدامات تو نظر آنے ہی چاہییں تھے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ سازی کوئی اور کررہا ہے،جس کے علم میں یہ بات آئی ہی نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کیا قانون سازی کررہی ہے۔ حد یہ ہے کہ CTV اور سروسز پرسیلز ٹیکس جواب صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں، بجٹ کی ان دستاویز میں انھیں مرکز کے مشمولہ فنڈ (consolidated fund ) میں ایک آمدنی کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے، حالانکہ اب ان کو صوبوں کے بجٹ میں جانا چاہیے۔ اس لیے یکم جولائی ۲۰۱۰ء کے بعد ان کا مرکزی بجٹ میں اندراج دستور سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ماضی کی حکومت اور ماضی کے مسائل کو بیان کرنا اور کیڑے نکالنا ہر موجودہ حکومت کا مستقل طرزِ عمل رہا ہے۔موجودہ وفاقی حکومت، اقتدار کے تقریباً اڑھائی سال مکمل کر چکی ہے اور اب اس کے پاس نصف عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ اس وقت معیشت کی جو بھی صورتِ حال ہے، اس کی ذمہ داری کلی طور پر سابقہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ان اڑھائی برسوں کا حساب موجودہ حکومت کو ہی دینا ہوگا۔ اگرچہ پاکستان میں اندازِ حکمرانی کبھی بھی مثالی نہیں رہا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے کسی بھی دور میں ہماری معاشی پالیسی اتنی بے ربط اور بے ہنگم نہیں رہی جتنی موجودہ حکومت کے دور میں ہے۔ حکومت کی کوئی واضح سمت نہیں ہے اور ہر وزیر اور ہر شعبہ ایک الگ ہی سمت میں جارہا ہے۔اگرچہ قومی زندگی کاہر شعبہ ہی ’دیکھو اور وقت گزارو‘ (ایڈہاک ازم یا ’ڈنگ ٹپائو) کی پالیسی پر چل رہا ہے، لیکن جو عدم استحکام خاص طور پر وزارتِ خزانہ میں نظر آیا ہے، اس نے یقینا ملک، قوم اور خود حکومت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ کسی مرکزی نظام کی غیر موجودگی میں وزارت کی سطح پر پالیسیوں کے تسلسل پر بہت فرق پڑا ہے۔سوا دو سال میں وزارتِ خزانہ کی قیادت چار بار تبدیل ہوئی ہے اور ملک کے معاشی مسائل اور بھی گھمبیر ہوگئے ہیں۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ    ؎

رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

تشویش ناک معاشی صورت حال

وزیر خزانہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ملک معاشی طور پر بہتری اوراستحکام کی جانب گامزن ہے لیکن حکومت پاکستان کے سالانہ اقتصادی جائزے (اکنامک سروے) میں ملکی معیشت کی سخت پریشان کن صورت سامنے آتی ہے۔ اکنامک سروے میں کم از کم ۲۵ مقامات پر یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ حالیہ معاشی صورتِ حال غیر مستحکم اور ناپایدار ہے۔ وزارتِ خزانہ اور عالمی بنک کے معاشی جائزے کے مطابق غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا ۴۰ فی صد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر دو ڈالر (=۱۷۰ روپے) آمدنی روزانہ کو بنیاد بنائیں تو یہ رقم کروڑوں پاکستانیوں کی دسترس سے باہر ہے، اس لیے ۷۶فی صد آبادی غربت کا شکار ہے۔ ان کے برعکس تقریباً ۲۰ فی صد کے پاس ساری دولت ہے اور وہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، جس سے معاشرے کے اندر تصادم، نفرت، تناؤ اورانتہا پسندی کے رجحانات پیداہو رہے ہیں، جب کہ ۸۰ فی صد آبادی کا حال یہ ہے کہ  ع

زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا!

حال ہی میں پاکستان کے حوالے سے ہونے والے سماجی و معاشی جائزے کے مطابق ملک میں ۶ئ۴۸ فی صد آبادی غذا کی کمی کا شکار ہے اورملک کے ۶۱ فی صد اضلاع میں غذائی قلت ہے۔ جس ملک میں یہ صورت حال ہو، حقیقت یہ ہے کہ ان کے حکمرانوں اور ارکینِ پارلیمنٹ کی نیندیں اُڑجانی چاہییں، لیکن مقامِِ حیرت ہے کہ ان کے معاملاتِ زندگی اور سوچ کے انداز میں کوئی فرق ہی نہیں، بلکہ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ان کی زندگی کا نقشہ تو کچھ ایسا ہے کہ  ع

ہر روز، روزِ عید ہے اور ہر شب شبِ برات!

پاکستان کی ۶۳ سالہ تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا ہے کہ۲۰۰۹ء اور۲۰۱۰ء کے درمیان صرف ایک سال کی مدت میں ملک میں گندم اورآٹے کے استعمال اور کھپت میں ۱۰ فی صد کمی ہوئی ہے، یعنی لوگوں کو روٹی میسر نہیںہے۔ اس جائزے کے مطابق ایک بڑی تعداد وہ ہے کہ جنھیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر ہے۔ اس صورت حال کو نظر انداز کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔

مہنگائی کی صورت حال یہ ہے کہ۲۰۰۹ء میں مہنگائی کی شرح۹ئ۸ فی صد رہی،جو   موجودہ برس میں تشویش ناک حد تک بڑھ کر ۵ئ۱۳ فی صد ہو گئی ہے اور اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ۵ئ۱۴ فی صد ہوا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام کی اوسط قوتِ خرید ۲۳ فی صد کم ہوئی ہے۔ستم بالاے ستم یہ ہے کہ موجودہ بجٹ میں سب سے زیادہ کٹوتی ترقیاتی بجٹ میں ہوئی ہے، یعنی ۴۰ فی صد کم کر دیا گیا ہے۔

بجلی اور توانائی کے بحران کے سبب قوم جس پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہے وہ تو اپنی جگہ جوں کی توں موجود ہے ،لیکن اس کا تشویش ناک نتیجہ یہ ہے کہ ملکی پیداوار میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔ گذشتہ دوسال کے عرصے میں ۱۳۳۲ صنعتی کارخانے بند ہوگئے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ۴۹ ملین افرادلیبر فورس کا حصہ ہیں اور حکومتی اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو برس کے دوران حددرجہ بے روزگاروں میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت کے مطابق اس وقت ۳۰ لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ لیکن اعدادوشمار کے ساتھ تکلیف دہ مذاق یہ کیا گیا ہے کہ جو۵۰ ملین لوگ برسر روزگار دکھائے گئے ہیں، ان میں سے ۴۵ئ۱۴ ملین بغیر تنخواہ کے ملازم ہیں ۔اگر لفظوں کی اس جادوگری کے سحر سے نکل کر دیکھا جائے تو دراصل ایک کروڑ ۷۰ لاکھ ۳۷ ہزار افراد بے روزگار ہیں۔ اس میں ۳۸ فی صد وہ ہیں جو ۱۰ سے ۲۵ سال عمر کے درمیان ہیں۔ یہ بے کاری اور معاشی ظلم ان اسباب و محرکات میں سے ایک ہے، جن کی وجہ سے نوجوانوں میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے رجحانات میںاضافہ ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ بجٹ نے ان حالات کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔

پبلک سیکٹر میں۲۶۰ ارب روپے کا خسارہ صرف چھے بڑے اداروں میںہوا ہے۔ جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ان منافع بخش اداروں کو من پسند اور نااہل افراد کو نوازنے کا ذریعہ بنالیا گیا، جنھوں نے بدنظمی، بداحتیاطی اور اقربا نوازی سے دو سال کے اندر اندر ان اداروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، اور اب ان اداروں کو بیچ کھانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔اس وقت دنیا کو جو معاشی بحران درپیش ہے، اس کی بڑی وجہ نجی اداروں کی آزادانہ اور بلا روک ٹوک پالیسیاں ہیں جس کے نتیجے میں عالمی معیشت میں صرف دو سال میں ۹ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ اس لیے معیشت کو آنکھیں بند کرکے محض منڈی (market) کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑا جاسکتا اور نہ ہرمسئلہ کا حل نج کاری (Privatization) ہی ہے۔ معیشت کے میدان میں حکومت کا ایک مثبت کردار بہت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے کردار کے ذریعے سے نہ صرف معاشی بڑھوتری کو یقینی بنائے بلکہ قومی مقاصد اور اسٹرے ٹیجک ضروریات کے حصول کو یقینی بنانے کا بھی خیال رکھے۔ اس لیے ہمارا ماڈل نج کاری کے بجاے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہونا چاہیے۔

قرضوں کا بڑہتا ھوا سنگین بوجھ

قومی معیشت کی ایک نہایت خطرناک شکل اندرونی و بیرونی قرضو ں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ ہمارے بیرونی قرضے ۴ہزار ارب روپے ہیں، لیکن ہمارے لیے اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ہمارے اندرونی قرضے بھی اب ۴ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اس طرح ملک پرقرضوں کا مجموعی بار ساڑھے آٹھ ہزار ارب روپے ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستانی قوم کو تقریباً ساڑھے چھے سے سات ارب ڈالر مبادلہ کی شکل میں سالانہ بیرونی اقوام اور اداروں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے اور اس وقت بجٹ میں اخراجات کی سب سے بڑی مد قرضوںپرسود کی ادایگی پر خرچ ہورہی ہے، جو ۷۵۰ ارب روپے سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ اگر ہماری قرض خوری اور فاقہ مستی کی کیفیت یہی رہی تو آیندہ اس غریب قوم کے دیے ہوئے ٹیکسوں کی آمدنی کا نصف سے بھی زیادہ صرف قرضوں کی ادایگی کی نذر ہوجائے گا اور بیرونی قرضوں کوادا کرنے کے لیے مزید نئے قرضے لینے ہوں گے۔

اس خطرناک ترین صورتِ حال میں بھی حکومت کے پاس بظاہر یہی ایک حل ہے کہ مزید قرض حاصل کر کے پہلے سے واجب الادا قرض ادا کر دیا جائے۔ یہ معاشی خودکشی کا راستہ ہے۔ اس بجٹ میں کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ خود انحصاری بھی ہماری ترجیحات میں کہیں شامل ہے۔معلوم ہوتا ہے اپنی معاشی خودمختاری کھو دینے کے بعد اب ہم اپنی سیاسی خود مختاری کا سودا بھی کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔

’دہشت گردی کے نام پر امریکی جنگ‘ میں امریکا نے ہمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانا بھی مشکل ہے۔ شماریاتی جائزے کے مطابق ملک کا صرف معاشی نقصان ہی۴۳ ارب ڈالر ہے، یعنی ۳ہزار ۷ سو ارب روپے جو ہمارے اس سال کے پورے بجٹ سے بھی ۲۵ فی صد زیادہ ہے۔ بیرونی ممالک سے پاکستان کو صرف ۱۵ارب ۵۰ کروڑ ڈالر ملے ہیں، جن میں سے ۱۰ ارب ڈالر سروس چارجز کی مد میں ہیں۔ اس طرح درحقیقت پاکستان کو اس عظیم، سیاسی، سماجی اور معاشی نقصان کے بدلے صرف ساڑھے پانچ ارب ڈالر ملے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں اس ملک کے غریب عوام نے امریکا کی ہوس کے لیے ۳۷ ارب ڈالر کا بوجھ اٹھایا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں ہی کا خون بھی بہایا گیاہے۔ہم نے اپنے ۱۳۰۰ فوجی اور۳۵۰۰ سویلین امریکا کی راہ میں قربان کیے ہیں۔ ہمارے ۳ہزار فوجیوں اور ۱۲ہزار عام شہریوں نے جسمانی زخم اٹھائے ہیں، جب کہ روح تو ہر فرد کی زخمی ہے۔اس کے باوجود امریکا کے دبائو میں وزیرستان، پنجاب، کراچی اور کوئٹہ میں بھی فوجی کارروائی شروع کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ جب تک ہم آنکھیں کھول کر پاکستان کے مفاد میں آزاد معاشی و سیاسی حکمتِ عملی وضع نہیں کریں گے، حالات میں مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔ پارلیمنٹ نے یہی بات اپنی ۲۲؍اکتوبر۲۰۰۸ء کی قرارداد میں واضح الفاظ میں اور متفقہ طور پر کہی تھی لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہورہا۔

شاہ خرچیاں اور طفل تسلیاں

ٰٰٓٓایک طرف تو یہ روح فرسا حقائق ہیں اور دوسری طرف شاہ خرچیوں کا یہ عالم ہے کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء کے مالی سال میں ۳۵۰ ارب روپے طے شدہ بجٹ سے زیادہ خرچ کیے گئے ہیں۔ لاکھوں نہیں، اربوں روپے اشتہار بازی کی نذر کیے گئے ہیں۔اربوں روپے وی آئی پی کلچر کر فروغ دینے اور اپنے مکانات کی تعمیر اور تزئین و آرایش پر خرچ کیے گئے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومت کے صواب دیدی اختیارات ختم کیے جائیں۔اپنے منظورکردہ بجٹ پر عمل درآمد کروانا بھی پارلیمنٹ کا ہی کام ہونا چاہیے۔ کسی بھی شعبے یا وزارت کو بجٹ سے زیادہ وسائل درکار ہوں تو پارلیمنٹ اس کی منظوری دے۔اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انتظامیہ کے اس اختیار کو فی الفور ختم کیا جائے کہ وہ جب چاہے، اور جس مد میں چاہے، پارلیمنٹ کے منظورشدہ بجٹ سے زیادہ رقوم خرچ کرسکے۔ کوئی خرچ پارلیمنٹ کی پیشگی منظوری کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔

وزیر اعظم نے سال کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ ان کے دفتر کا خرچ ۴۰فی صد کم کیا جائے گا لیکن بجٹ کی جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں ،ان میں یہ خرچ۴۰ فی صد کم ہونے کے بجاے ۲۰ فی صد بڑھ گیا ہے اور اگلے سال اس میں مزید ۱۴فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے۔اس وقت بہت ضروری ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم اور اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کی جائے ۔ جب تک اہلِ ثروت کو اللّوں تللّوں کی کھلی چھوٹ دی جاتی رہے گی ہم عام آدمی کی مشکلات کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ صدر و وزیرِ اعظم کے بیرونی دوروںاور دعوتوں سمیت اسراف اور فضول کرچی کی تمام عادات کو ترک کیا جائے۔یہ قاعدہ بنا دیا جائے کہ عام حالات میں پانچ افراد اور غیر معمولی حالات میں زیادہ سے زیادہ ۱۰ افراد کسی بھی بیرونی دورے پر جائیں گے۔ بنکوں اور انشورنس کے اداروں نے بے تحاشا منافع کمایا ہے، ان پر زیادہ ٹیکس لاگو کیے جائیں۔ سینیٹ بار بار اس کی طرف متوجہ کرتا رہا ہے کہ مالیاتی اداروں پر کم از کم ۴۰ فی صد کارپوریٹ ٹیکس لگنا چاہیے۔ اسی طریقے سے ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر کو حکومتی وسائل پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ جب تک حکومتی دعوے یا خواب جو وزیرخزانہ نے دکھائے ہیں،انھیں پورا کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جائیں گے ، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایات کی روشنی میں ہم macro معاشی اشاریوں میں استحکام لانے کے لیے کوشاں ہیں، لیکن جب تک ہماری شرحِ پیداوار میں اضافہ نہ ہو اس وقت تک حقیقی استحکام اور ترقی ممکن نہیں۔ اس لیے جب تک شرحِ پیداوار میں اضافے، غربت میں کمی اور روزگار میں اضافہ کی حکمتِ عملی اختیار نہیں کی جائے گی، ہم اپنی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں کرسکیں گے۔

حکومت نے ہمیںسال رواں کے باب میں ۱ئ۴ فی صد شرحِ نموکی خوش خبری سنائی ہے، جو محض کاغذی کاری گری اور سراسر دھوکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱ئ۴فی صد شرحِ ترقی ظاہر کرنے کے لیے سب سے پہلے ۰۸-۲۰۰۷ء کی شرحِ ترقی کو کم کیا گیا ہے۔ اسے پہلے ۱ئ۴ سے ۷ئ۳ اور پھر ۲ئ۳ کیا گیا۔ اسی طرح ۰۹-۲۰۰۸ء کے اعداد وشمار کو بھی تبدیل کیا گیا۔ ان کو ۲ کے بجاے ۲ئ۱فی صد پر لے جایا گیا۔ اس تمام کاغذی ’کارناموں‘ کے بعد حالیہ سال کی شرحِ نمو کو۳ فی صد بڑھا کر۱ئ۴ فی صد قرار دیا گیا، جب کہ حقیقت میں یہ۳ فی صد بھی نہیں ہے۔ لطف کی بات ہے کہ اس دعوے کے ساتھ جو ۵ جون کی تقریر میں کیا گیا ہے، دوسری حکومتی دستاویزات بالکل دوسری تصویر پیش کر رہی ہیں۔

خود پاکستان نے ۳ مئی۲۰۱۰ء کو آئی ایم ایف کوجو سرکاری یادداشت پیش کی ہے اس میں یہ توقع ظاہر کی گئی تھی کہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی حقیقی شرحِ نمو ۳ فی صد تک ہوجانے کا امکان ہے اور جون ۲۰۱۰ء میں، یعنی بجٹ کے اعلان سے صرف چند دن پہلے خود آئی ایم ایف کی پاکستان پر رپورٹ میںبھی متوقع شرح نمو کو ۳فی صد دکھایاگیاہے۔ تمام عالمی رپورٹوں میں یہی بات دہرائی گئی ہے۔ آخر یہ دودن میں کیا ماجرا ہوگیا ہے کہ۳ فی صد کی متوقع شرح سے بڑھ کر یہ ۱ئ۴ فی صد ہو گئی ہے، حالانکہ توانائی کے بحران کے نتیجے میں جی ڈی پی میں ۲ فی صد کمی ہوئی ہے۔ نجی سرمایہ کاری میں ۵ئ۳ فی صد اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں ۴۶فی صد کمی ہوئی ہے۔ ہماری حکومتیں جب تک خودفریبی اور قوم کو طفل تسلیاں دینے کی روش سے باز آکر حقائق کا سامنا نہیں کریں گی، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے۔

استحصالی مالیاتی نظام

قومی زندگی کے چار بنیادی شعبہ جات تعلیم ، صحت ،تحقیق و ترقی اور انسانی وسائل کی ترقی، معاشی ترقی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ان چاروں کے حوالے سے حالیہ بجٹ اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کسی مثبت پیش رفت میں قطعی ناکام نظر آتا ہے۔ جب تک ان کے لیے وسائل فراہم نہیں کیے جائیں گے، اس وقت تک معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر ایک بہت بڑی نعمت ہیں۔ہمیں ہر سال ۷ سے۸ ارب ڈالر اس ذریعے سے وصول ہو رہے ہیں۔مقامی مارکیٹ میں اس رقم کے آنے سے طلب کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ہماری پیداوار ناکافی ہے۔ اس کی وجہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔عام پیداواری صلاحیت میں کمی کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبے میں بھی ملک خسارے کا شکار ہے۔ توانائی کے بحران نے زرعی ضروریات (inputs) کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے اور اس وقت ہم چھوٹی اور بڑی،  تمام فصلوں کی پیداوار میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ زرعی شعبے کے حوالے سے جو چند مثبت اعداد و شمار  پیش کیے جاتے ہیں وہ صرف اس وجہ سے ہیں کہ مویشیوں کی افزایش (لائیو سٹاک) کو بھی اسی ضمن میں گِنا جاتا ہے، جس میں کارکردگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ تاہم لائیو سٹاک کے شعبے پر بھی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔

پاکستانی معیشت کے تمام تر تجزیوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیں اپنی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا جو کہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک سرمایہ کاری اور بچت کے رجحان میں اضافہ نہ ہو، لیکن موجودہ استحصالی پالیسیوں کے ساتھ ایسا ممکن نہیں ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے جس شرحِ سود کو بنیادی شرح (base-line) مقرر کیا ہے، وہ ساڑھے بارہ فی صد ہے۔مارکیٹ میں یہی شرحِ سود ۱۵ سے ۱۸ فی صد ہو جاتی ہے۔ہم ہر طرح کے سود کے شدید مخالف ہیں، لیکن ہمارا مالیاتی نظام بنیادی طور پر اس استحصالی نظام کو مزید استحصال کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بنک کے ساڑھے بارہ فی صد شرحِ سود کے مقابلے میں امریکا میں شرحِ سود ۲۵ئ۰ فی صد، برطانیہ میں ۵۰ئ۰ فی صد،بقیہ یورپ میں ایک فی صد، جاپان میں ۱ئ۰ فی صد، کینیڈا میں ۲۳ئ۰ فی صد، آسٹریلیا میں ۵ئ۴ فی صداور چین میں۳ئ۵فی صد ہے۔ خود ہمارے خطے میں بھارت میں شرحِ سود ۲۵ئ۵فی صد، ملائشیا میں ۲ فی صد، انڈونیشیا میں ۲ئ۲ فی صد، فلپائن میں ۵ئ۶ فی صد، تھائی لینڈ میں ۴ فی صد، نیوزی لینڈ میں ۲ئ۱ فی صد ہے۔ جب سرمایہ کاری مہنگی اور مشکل ہو، مراعات موجود نہ ہوں، ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لیے وسائل فراہم نہ کیے جائیں اور سبسڈیز واپس لے لی جائیں تو پیداوار میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے۔

محصول اضافہ قدر (VAT)نافذ کرنے کا فیصلہ حکومت نے آئی ایم ایف سے اپنے ایک معاہدے میں مارچ ۲۰۰۹ء میں کر لیاتھا (ویلیو ایڈڈ ٹیکس، ایک عمومی ٹیکس ہے جو ہر طرح کی اشیا اور خدمات پر، بنیادی پیداوار سے لے کر آخری صارف تک لگایا جاتا ہے۔ یہ ایک بالواسطہ ٹیکس ہے، جس کی زد ہرسطح پر پڑتی ہے) لیکن اس حوالے سے کوئی بنیادی اورضروری اقدامات نہیں کیے گئے جس سے قوم کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ پھر اپنے ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو بھی اس قابل نہیں بنایا گیا کہ اسی ذریعے سے کسی حقیقی فائدے کی توقع رکھی جاتی۔ اس وقت پاکستان کے عوام پر لاگو بالواسطہ ٹیکس ۶۲ فی صد ہیں، جب کہ بلاواسطہ ٹیکس صرف ۳۸ فی صد ہیں۔

ویٹ ایک رجعی ٹیکس (regressive) ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس سکیم میں دولت مند طبقے کے بجاے عام افراد کو ٹیکس کا ہدف رکھا گیا ہے جو سراسر استحصال ہے۔ جب تک اس طرزِ عمل کو بدلا نہیں جائے گا، یہ نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔ اسی طرح حکومت نے اس بجٹ میں سیلز ٹیکس میں ایک فی صد اضافہ کر دیا ہے، گویا موجودہ حکومت کے آنے کے بعد جنرل سیلز ٹیکس میں ۲ فی صد اضافہ ہواہے۔ اس ٹیکس کا سارا بوجھ تو ملک کے ۸۰ فی صد عوام پر ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ اس ٹیکس سے جو آمدنی ہوگی، اس سے کہیں زیادہ آمدنی صرف درآمدات پر ٹیکس میں دانستہ نظراندازی اور ہیرپھیر کا رویہ (evasion) اختیار کیا جا رہا ہے، اسے روک کر ہی کی جاسکتی ہے۔ حالیہ معاشی سروے کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف درآمدی مال میں ۱۰۰سے ۳۰۰ارب روپے سالانہ کا ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے۔ ان امرا سے ٹیکس وصول کرنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔

بڑہتی ھوئی کرپشن

کرپشن اور بدعنوانی کا حال یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ہونے والی کرپشن کا اندازہ ۲۰۰ سے ۲۵۰ارب روپے سالانہ کا ہے، جب بعض آزاد تجزیہ نگاروں کے اندازے کے مطابق ہر سال ۶۰۰سے۷۰۰ ارب روپے ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے۔ اگردستیاب وسائل کو درست انداز میں حاصل کرلیں اور کرپشن پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے، تو ملک کو قرض کی لعنت سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔عالمی بنک کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ۱۰برسوں میں کرپشن ۴۰۰فی صد بڑھی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق صرف پچھلے ایک سال میں کرپشن میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود حکومت اب تک کرپشن کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی میں ناکام رہی ہے بلکہ جو قانون زیرِغور ہے وہ دراصل کرپشن کی سرپرستی اور بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے کا فارمولا ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف عوام اور میڈیا چیخ رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مَس نہیں ہو رہی۔ دُور دُور تک گُڈ گورننس کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ مالیاتی نظم و ضبط کا کہیں وجود نہیں ہے۔ملکی سلامتی و خود مختاری تک داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ان حالات میں وفاقی بجٹ مایوس کن ہے۔

حکومت کی طرف سے کم از کم تنخواہ ۶ ہزار سے بڑھا کر ۷ہزارروپے کرنے کا اعلان بظاہر خوش کُن، لیکن درحقیقت امتیازانہ ہے۔ اگر گریڈ ایک سے گریڈ ۲۲ کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ۵۰ فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے تو کم از کم تنخواہ میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیوں نہیں کیا جا رہا۔پھر تمام ملازمین کے لیے ۵۰ فی صد کا اضافہ بلا جواز ہے۔ پہلے گریڈ سے ۱۶ویں گریڈ تک کے سرکاری ملازمین کو ۶۰فی صد اور گریڈ ۱۷ اور اس سے بالائی گریڈ زکو ۴۰ فی صد اضافہ ملنا چاہیے تاکہ معاشی ناہمواری میں کمی ہو۔ اگر گریڈ ۱۷ سے گریڈ۲۲ تک کے ملازمین کو۵۰فی صد دینا ضروری ہو، جب بھی ضروری ہے کہ پہلے گریڈ ایک سے ۱۶ویں گریڈ تک کے ملازمین کو     ۶۰ سے۶۵ فی صد تک کا اضافہ دیا جائے۔ اسی طرح گیس پر۵ فی صد اضافی سرچارج بھی قطعاً بلا جواز ہے۔ اسے ختم ہونا چاہیے اور سیلزٹیکس بھی ایک فی صدی کا مزید اضافہ ایک ظالمانہ اقدام ہے اور اسے بھی ختم کیا جانا چاہیے۔

آئی ایم ایف سے نجات کی ضرورت

اصولی طور پر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جو ملک بھی آئی ایم ایف کی گرفت میں آیا ہے،  وہ کبھی ترقی نہیں کرسکا۔ آئی ایم ایف کا اصل کام ملک کی ادایگیوں کے توازن میں مدد کرنا تھا جسے اب قرض لینے والے ملک کی پوری معاشی پالیسی اور خصوصیت سے بڑے پیمانے پر استحکامی پالیسی (macro stabilization) کے نام پر ایسی پابندیوں کے شکنجے میں کسنا ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں ضروریاتِ زندگی پیدا کرنے والے شعبوں کی مدد (subsidy) کو ختم کرنے اور تمام خدمات کی قیمتوں کو بڑھانے اور منڈی کی حکمرانی قائم کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔

نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جوزف سٹک لٹز(Joseph Sticlets) نے دنیا کے ۴۰سے زیادہ ممالک کی معیشت پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی ایک ملک میں بھی اس کی مسلط کردہ پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی حاصل نہیں ہوسکی۔

افسوس کا مقام ہے کہ ہم انھی ناکام پالیسیوں کو اپنے ملک پر ایک بار پھر مسلط کرنے کی حماقت کر رہے ہیں۔ ملک کی معاشی ترقی اور سیاسی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کی جائے لیکن اس حکومت نے جناب شوکت ترین کے دور میں صدر  آصف علی زرداری کے احکام کے مطابق جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ معاشی تباہی اور مسلسل قرضوں کے بار میں اضافے کا راستے ہے اور یہ قرض بھی اس لیے مل رہے ہیں کہ ہم امریکا کے حکم پر اپنی خارجہ پالیسی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک قبیح کردار ادا کر رہے ہیں۔

اگر ہم آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی جسارت کریں گے تو آئی ایم ایف اسی دن لال جھنڈی دکھا دے گا اور ہم ایک عظیم تر بحران کی گرفت میں ہوںگے۔ کاش! ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اوراس تباہ کن پالیسی کوتبدیل کریں۔

اس ملک میں وسائل کی کمی نہیں۔ اصل کمی پالیسی کے صحیح وژن، اپنی قوم اور اپنے وسائل پر بھروسا، بُری حکمرانی (bad governance) اور کرپشن کا خاتمہ اور معاشی ترقی کا وہ آہنگ اختیار کرنا ہے جو ترقی کی رفتار کے ساتھ عوام کی خوش حالی، دولت کی منصفانہ تقسیم اور ملک کی پوری آبادی کو صحت مند معاشی جدوجہد میں شریک کرنے کا ذریعہ بنے۔ جب تک معاشی ترقی کا مثالیہ (paradigm) تبدیل نہیں ہوگا ہم ایک بحران کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہوتے رہیں گے اور عوام کی زندگی اجیرن رہے گی۔ موجودہ حکومت معیشت کی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے جس کے نتیجے میں عوام کی تکالیف اور معاشی مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور اندر ہی اندر وہ لاوا پک رہا ہے جو پورے نظام کو خدانخواستہ ایک دھماکے سے اُڑانے کا باعث ہوسکتا ہے۔ ہم پوری دردمندی سے ملک کی پوری قیادت سے اپیل کریں گے کہ معاشی خودکشی اور سیاسی محکومی کے اس راستے کو ترک کریں، صحیح اہداف کا تعین کریں، اپنی ترجیحات کو ازسرنو ترتیب دیں، عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں، ترقی کا رُخ اور وسائل کے استعمال کی سمت کو تبدیل کریں، اور پاکستان میں اسلام کے دیے ہوئے معاشی اصولوں اور اقدار کی روشنی میں پالیسی سازی اور زندگی کے ہر شعبے کی صورت گری کریں۔ پاکستان کی بقا، نجات اور ترقی کا یہ واحد راستہ ہے۔ ابھی موقع ہے کہ ہم اپنی پالیسی، اپنے رویوں اور اپنے وسائل کے استعمال کے طریقوں کو تبدیل کریں۔ اس صورت میں ہم چند سال میں ملک کی قسمت کو بدل سکتے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کسی ملک میں جمہوری نظام کے قیام اور استحکام کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ وہاں انتخابات آزاد اور شفاف طریقے سے، اور مقررہ وقت پر ہوں۔ لیکن اس سے بڑی مبالغہ آمیزی بلکہ خودفریبی ممکن نہیں کہ محض انتخابات کو جمہوریت کے لیے کافی سمجھ لیا جائے۔ پھر ’عوامی عدالت‘ کے گمراہ کن نعرے کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جائے کہ: ’’انتخاب جیتنے کے بعد حکمرانوں کو اپنی من مانی کا کُلی اختیار حاصل ہوگیا ہے، اور ہرقیمت پر انھیں ایک متعین مدت کے لیے حکمرانی کے غیرمحدود اختیارات حاصل ہوگئے ہیں‘‘۔ ایسی سوچ نہ تو جمہوری ہے اور نہ دیانت و شائستگی کی عکاس۔

جمہوریت کی اصل بنیاد: قانون کی حکمرانی، مسلسل مشاورت کا نظام اور ہرقدم پر دستور، قانون، پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے جواب دہی کے اصولوں پر قائم ہے۔ خصوصیت سے جن ممالک میں تحریری دستور ہے، ان کے بارے میں تو اس معاملے میں دو آرا ممکن نہیں کہ دستور ہی مملکت کا اساسی قانون ہے اور ریاست کا ہر ادارہ دستور کی تخلیق (creation) اور دستور کے مقرر کردہ حدود کا پابند اور اختیارات کا امین ہے۔

یہ عوام کا حق ہے اور ان کی ذمہ داری بھی، کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے پارلیمنٹ کا انتخاب کریں اور ارکانِ پارلیمنٹ اس دستور کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ریاست کے تمام ادارے بشمول پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ، فوج اور ذرائع ابلاغ اپنے اپنے دائرے میں پوری آزادی، ذمہ داری اور جواب دہی کے ساتھ اپنا منصبی کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کا کام یہ ہے کہ وہ قانون سازی، ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی صورت گری، انتظامیہ کا انتخاب اوراس کی کارکردگی کی نگرانی کرے۔ اسی طرح انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی پاس داری اور پالیسی سازی کے ساتھ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے فیصلوں کی مکمل تنفیذ کا اہتمام کرے۔ عدلیہ انصاف کی فراہمی، قانون پر عمل درآمد، اور دستور اور قانون کی تعبیر وتشریح کا فریضہ انجام دے، نیز عوام اور تمام اداروں کے بنیادی حقوق کی حفاظت اور نگہبانی کی ذمہ دار ہو۔ میڈیا کی آزادی اور بنیادی حقوق کی ضمانت ہی وہ ماحول پیدا کرتے ہیں جس میں جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔

ایک مہذب معاشرے میں کسی ایک ادارے کی دوسرے پر بالادستی کوئی مسئلہ نہیں ہوتی، بلکہ دستور کی بالادستی کی حدود میں ہر ادارے کو اپنا اپنا وظیفہ، آزادی اور ذمہ داری سے اداکرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ اس تناظر میں موجودہ وفاقی حکومت نے جو طریق کار اپنایا ہے، وہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے گوناگوں مشکلات اور خطرات کو جنم دے رہا ہے۔ اس لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ ملک کی تمام جمہوری قوتیں ہوش مندی کا مظاہرہ کریں اور دستور کی پاس داری اور جمہوریت کے حقیقی فروغ کے لیے سینہ سپر ہوجائیں کہ اس نازک وقت میں معمولی سی لغزش بھی بڑے بھیانک اور خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ گویا  ع

یک لحظہ غافل گشتم و صدسالہ راہم دور شد

سیاسی منظرنامہ

جنرل پرویز مشرف کا نوسالہ دورِ اقتدار (۱۹۹۹ئ-۲۰۰۸ئ) پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور ہے۔ اس زمانے میں جمہوریت کے ہراصول کو بڑی بے دردی سے پامال کیا گیا۔ دستور کی شکل بگاڑ دی گئی اور تمام دستوری و آئینی اداروں کو اپنی اپنی قانونی حدود میں کام کرنے کے مواقع سے محروم کر دیا گیا۔ فوج کی قوت کے ناجائز استعمال کے ذریعے شخصی آمریت کا نظام قائم کیا گیا۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور معاشرے کے اجتماعی اداروں کو غیرمؤثر کردیا گیا۔ فیڈریشن کے مسلّمہ اصولوں کے برعکس ایک طرز کا وحدانی نظام ملک پر مسلط کردیا گیا۔ دو صوبوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے دستوری انتظام اور وسیع علاقوں کے امن و سکون کو درہم برہم کر دیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ  ایک طرف پاکستان کے نظریاتی، تہذیبی اور اخلاقی تشخص کو تباہ و برباد کیا گیا، تو دوسری طرف امریکا کی محکومی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں سیاست، معیشت، ثقافت، تعلیم، غرض زندگی کا ہر شعبہ امریکا اور اس کے کارپردازوں کی گرفت میں آگیا۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر امریکی شعلہ باری نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکی حکام اور سفارت کار ہرمعاملے میں دخیل اور ہرپالیسی پر اثرانداز ہوگئے اور قوم عملاً اپنی آزادی سے محروم ہوگئی، نیز  سالہا سال سے فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور محبت کا جو رشتہ تھا، اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ معاشی اعتبار سے بھی ملک ایسی صورت حال سے دوچار ہوگیا جس میں ترقی کا عمل منجمدہوکر رہ گیا۔ مالی نقصانات ۴۵سے ۵۰ بلین ڈالر کی حدوں کو چھونے لگے اور ملک بیرونی اور ملکی قرض کے پہاڑ تلے دبتا ہی چلاگیا۔ ان حالات میں طاقت کے نشے میں مست جنرل پرویز مشرف نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر بھرپور وار کیے، اور اس زعم پر کیے کہ وہ بلاشرکت غیرے حاکمِ مطلق ہے اور ہر ادارے کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے لامتناہی اقتدار کو مستحکم کرسکتا ہے، مگر اللہ کا منصوبہ کچھ اور تھا اور چیف جسٹس، اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان، ملک کی وکلابرادری، سیاسی کارکن، سول سوسائٹی اور میڈیا کے پُرعزم کارکنوں کی عوامی تحریک نے حالات کا رُخ تبدیل کر دیا۔

جنرل پرویز مشرف نے ایک آخری وار، سیاسی قوتوں کو تقسیم کرنے، بدعنوانیوں اور کرپشن کی دھلائی (laundering) کے لیے این آر او کی شکل میں کیا۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے ساتھ ملا کر شراکت ِاقتدار کا ایک نیا بندوبست کرنے کی کوشش کی۔ مئی ۲۰۰۶ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک اہم معاہدہ ’میثاقِ جمہوریت‘ کی شکل میں کیا تھا، جسے جمہوری جدوجہد کی تاریخ میں ایک سنگِ میل قرار دیا جا رہا تھا۔ اس کے ذریعے ان دو بڑی جماعتوں نے نہ صرف یہ کہ ماضی میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا بلکہ آیندہ کے لیے ایک جمہوری لائحہ عمل (روڈمیپ) قوم کو دینے کی کوشش کی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور جمہوریت کی طرف سفر کے باب میں یہ دستاویز چند جزوی کمزوریوں کے باوجود، ایک بڑا مثبت قدم تھی۔ اس میثاق میں ان دونوں جماعتوں نے خود آپس میں اور پوری قوم سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ آیندہ ان میں سے کوئی بھی فوجی طالع آزمائوں سے کسی طرح کا معاملہ نہیں کرے گا، اختلافِ راے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کریں گے اور ملک میں حقیقی جمہوریت، یعنی قانون کی حکمرانی، بنیادی حقوق کی پاس داری، دستور کی ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی، آزاد اور شفاف انتخابات اور عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں گے۔

حالات کی ستم ظریفی ہے کہ ادھر یہ معاہدہ ہو رہا تھا اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان خفیہ ملاقاتوں میں شراکتِ اقتدار کے نئے شاطرانہ انتظام کے تانے بانے ’این آر او‘ کی شکل میں مرتب کیے جا رہے تھے۔ اس انتظام میں امریکا اور برطانیہ دونوں کی حکمران قیادتیں شریک اور ضامن تھیں۔ اس سیاسی بندوبست کو آخری مراحل تک خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی، لیکن بالآخر بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ اب تو بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قتل کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ میں ہرچیز بہت ہی صاف لفظوں میں ساری دنیا کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ اس داستان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے ’میثاقِ جمہوریت‘ کی کھلی خلاف ورزی کی اور جنرل مشرف کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کا بندوبست کیا، جسے تاریخ نے درہم برہم کردیا۔ انجامِ کار پیپلزپارٹی پر سیاسی بے اعتمادی اور اصول فروشی کا ایسا دھبّا لگ گیا،جسے مٹایا نہیں جاسکے گا۔

اس پس منظر میں ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات ہوئے، جن میں عوام نے ایک طرف جنرل پرویز مشرف اور اس کے سیاسی حلیفوں کو یکسر مسترد کر دیا۔ دوسری طرف بنیادی تبدیلی کی  توقع پر سیاسی جماعتوں کو اس طرح ووٹ دیا کہ کوئی ایک جماعت واضح اکثریت میں نہ آسکی۔  یوں سیاسی جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ رہا۔ شروع میں ایک بار پھر میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتوں نے مل کر حکومت قائم کرنے کی کوشش کی مگر نت نئی وعدہ خلافیوں اور سیاسی چال بازیوں سے ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔ یہاں سے مفادپرستی کی سیاست کا نیا دور شروع ہوگیا۔ تمام ہی سیاسی جماعتوں نے، بشمول ان جماعتوں کے جنھوں نے اپنے اصولی موقف کی وجہ سے انتخابات میں شرکت نہیں کی تھی، مگر سب یہ چاہتے تھے کہ آمریت سے نجات، فوج کی سیاست میں عدم مداخلت اور نئے جمہوری سفر کی پیش رفت کی جائے۔ جس کی منزل دستور اور قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی، بنیادی حقوق کی پاس داری، سماجی انصاف اور معاشی خوش حالی کا حصول ہو۔ اس کے لیے اختلافات کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے اور قومی یک جہتی کی فضا پیدا کی جائے۔ جو بھی حکومت اس جمہوری دور کے آغاز میں قائم ہوگئی، اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ مشترکہ نکات میں تعاون کی راہیں تلاش کی جائیں اور انھیں کشادہ بھی کیا جائے، تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی طرف پیش رفت کا باب کھل سکے۔

یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر سب جماعتوں نے اتفاق راے سے جناب سید یوسف رضا گیلانی کی تائید کی اور ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پارلیمنٹ نے آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل، قومی سلامتی کے نئے مثالیہ (paradigm) کی تشکیل اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی کے متفقہ خطوط مرتب کیے۔ پھر اسی اسپرٹ میں تمام جماعتوں نے مکمل اتفاق راے سے دستور کو ۱۹۹۹ء کی صورت سے قریب ترین شکل میں بحال کرنے کے لیے اٹھارھویں دستوری ترمیم تیار کی اور اسے متفقہ طور پر منظور کیا۔

جمھوریت کا مستقبل اور خدشات

گذشتہ ۲۷ مہینوں میں یہ مثبت پیش رفت ہوئی، لیکن ہمیں بہت دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مرکز میں جو حکومت اس زمانے میں برسرِاقتدار رہی ہے، اس نے یکسوئی اور اصول پرستی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ خصوصیت سے پیپلزپارٹی اور اس میں بھی جناب آصف علی زرداری اور ان کے منظورِنظر گروہ نے ایک متوازی حکمت عملی پر عمل کیا۔ اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لیے عوام کے مینڈیٹ اور پارلیمنٹ کے متفقہ موقف کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جو راستہ اختیار کیا، اس نے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر چلنے کے مواقع سے محروم کر دیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ملک کو اداروں اور سیاسی اور دینی قوتوں کے درمیان کش مکش، ٹکرائو اور تصادم کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ اس سلسلے میں جو رجحانات بہت کھل کر سامنے آگئے ہیں، ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:

مفاھمت کا نام اور مفادات کا تحفظ

مفاہمت کے نام پر صرف مفادات کے تحفظ کا کھیل کھیلا گیا اور جو وعدے عوام سے کیے گئے تھے، ان سے سوچے سمجھے انداز میں انحراف کا راستہ اختیار کیا گیا۔ چونکہ حکومت کمزور تھی،    اس لیے جب حالات نے مجبور کیا تو پسپائی اختیار کی، لیکن کج روی کی مسلسل روش کوترک نہیں کیا۔ اس کی سب سے اہم مثال عدلیہ کے ساتھ اس حکومت کا رویہ ہے۔ وزیراعظم نے حلف اٹھاتے ہی ججوں کی حراست کو ختم کر دیا جس سے بڑی توقعات پیدا ہوئیں، لیکن پھر طرح طرح کے شوشے چھوڑ کر عدلیہ کی بحالی کو معرضِ التوا میں ڈال دیا گیا۔ کبھی دستور میں ترمیم کی بات کی، کبھی پارلیمنٹ کی قرارداد کا فسانہ گھڑا، کبھی وکلا کو تقسیم کرنے کا کھیل کھیلا اور ان چال بازیوں میں ایک سال ضائع کر دیا۔ بالآخر عوامی تحریک کے نتیجے میں جب ۱۵ مارچ ۲۰۰۹ء کو حالات حکومت کی گرفت سے نکلتے نظر آئے، اور مقتدر قوتوں نے بھی تعاون سے دست کش ہونے کا عندیہ دیا تو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے عدلیہ کو بحال کر دیا گیا، اس طرح ایک طوفان ٹل گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی سیاسی قوتوں کی طرح اس حکومت نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ آزاد عدلیہ سے خائف ہے اور ہرممکن طریقے سے عدلیہ کو اپنے دبائو میں رکھنے کی بار بار کوشش کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ کی مشیت کے تحت اس کی ہرچال ناکام ہوئی، اور اسے ہر بار پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ عدلیہ میں تقرریوں کے معاملے پر جو تنازع کھڑا کیا گیا اس کے دوران دھمکی آمیز انداز میں یہاں تک کہہ دیاگیا کہ عدلیہ کو محض ایک نوٹیفیکیشن سے بحال کیا گیا ہے، پارلیمنٹ نے تو ابھی قرارداد منظور نہیں کی۔

اس طرح یہ تاثر دیا گیا کہ ہم کسی وقت بھی پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ لیکن حکمران یہ بھول گئے کہ عدلیہ کی بحالی محض ان کے نوٹیفیکیشن سے نہیں، عوامی تحریک کے دبائو کے نتیجے میں واقع ہوئی تھی، یعنی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدلیہ اپنی استقامت اور عوام کی تائید اور اعتماد سے بحال ہوئی ہے اور اب وہ ایک محکوم عدلیہ نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں آزاد عدلیہ ہے، جس نے ۳۱جولائی ۲۰۰۹ء اور ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلوں کی شکل میں اپنی خودمختار اور آزادانہ حیثیت کو منوا لیا ہے۔ نیز عدلیہ نے انتظامیہ کی مداخلت کی بھی مزاحمت کی ہے اور عوام کے حقوق اور شکایات کے ازالے کے لیے احتیاط کے ساتھ مگر مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ مارچ ۲۰۰۹ء سے اس وقت تک کی عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بحیثیت مجموعی اس کا کردار بہت مثبت، باوقار اور دستور اورقانون کی حکمرانی کو مستحکم کرنے والا نظر آتا ہے۔ عدالتی فعالیت (judicial activism) اور عدالتی احتیاط کے درمیان ایک مناسب توازن نظر آتا ہے، جو ملک کے حالات اور عالمی تجربات دونوں کی روشنی میں لائق تحسین ہے۔ اس کے برعکس حکومت کا رویہ نہایت غیرتسلی بخش بلکہ اشتعال انگیز محسوس ہوتا ہے، اور انگریزی محاورے میں ’ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے‘ کی نظیر پیش کرتا ہے۔

اس دوغلے رویے کو سمجھنے کے لیے چند مثالیں سامنے رکھنا ضروری ہیں:

l ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کو بحال کرنے میں جس لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا اور جس طرح بار بار موقف تبدیل کیا گیا اور پھر مجبور ہوکر اسے بحال کیا گیا، اس سے پہلی غلط مثال قائم ہوئی، اور اس کے نتیجے میں حکومت کے خلوص اور اصول پرستی کے باب میں شدید بے اعتمادی کی  فضا قائم ہوئی۔

  • عدالت کے ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے تاریخی فیصلے نے دستور کی حکمرانی، مارشل لا کے  نظام کی غیرقانونی حیثیت اور اس بارے میں خود عدالتوں کے ماضی کے رویوں کی تنقیص اور احتساب نے عدلیہ پر قوم کے اعتماد کو مزید مستحکم کیا، یوں ۱۶مارچ کے بعد کی عدلیہ کو ماضی کی عدلیہ سے ممیز کر دیا، لیکن حکومت نے اس تبدیلی کو دل سے قبول نہیں کیا اور خصوصیت سے عدلیہ میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی تجویز کردہ تقرریوں کے برعکس اپنی من مانی کرکے عدلیہ سے ٹکر کی ایک کھلی کوشش کی، جو الحمدللہ ناکام ہوئی۔ جس طرح عدلیہ کی بحالی پر حکومت کو مجبور ہوکر صحیح اقدام کرنا پڑا، بالکل اسی طرح مذکورہ دوسرے اہم موقع پر بھی اس نے منہ کی کھائی اور بالآخر عدلیہ کے فیصلے کو بالادستی حاصل ہوئی۔

دستور کی بحالی میں ٹال مٹول

دستور کی بحالی کے مسئلے کو بھی حکومت نے مسلسل ٹال مٹول کا شکار کیے رکھا۔ مارچ ۲۰۰۸ء سے لے کر مئی ۲۰۰۹ء تک ۱۴ مہینے ضائع کیے اور صرف ضائع ہی نہیں کیے، اس زمانے میں اپنا  ایک مسودّۂ ترمیم دستور تیار کیا، جو دستور کی بحالی سے زیادہ اس کا حلیہ مزید بگاڑنے کی ایک کوشش تھی۔ پارلیمنٹ، عوام اور میڈیا کے پُرزور ردِّعمل کی وجہ سے اس مسودّے کا پیدایش سے پہلے ہی اسقاط ہوگیا اور حکومت مجبور ہوئی کہ کُل جماعتی پارلیمانی کمیٹی قائم کرے، جسے مئی ۲۰۰۹ء میں قائم کیا گیا اور جس نے دو ماہ کے بعد اپنے کام کا آغاز کر کے مارچ ۲۰۱۰ء میں اٹھارھویں ترمیم کا مسودہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کر دیا۔

عدلیہ سے محاذ آرائی

این آر او کے قانون کے بارے میں حکومت نے بہت ہی متضاد رویے اختیار کیے۔ اس سیاہ اور شرمناک قانون سے سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت، کارکنوں اور ان سرکاری افسروں نے اٹھایا، جن پر کرپشن اور قتل و غارت گری یا ان میں معاونت کے سنگین الزامات تھے۔ عدالت نے اپنے ۳۱جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے میں جنرل پرویزمشرف کے تمام آرڈی ننسوں کو خلافِ قانون قرار دیا، مگر عملی مشکلات سے ملک کو بچانے کے لیے ان آرڈی ننسوں کو بشمول    این آراو پارلیمنٹ کی طرف لوٹا دیا، کہ اگر ان کو جاری رکھنا چاہتی ہے تو چار مہینے کے اندر قانون سازی کے ذریعے انھیں حیاتِ نو دے دے۔

حکومت نے این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش کیا، مگر اسے منظور نہ کراسکی۔ نتیجہ یہ کہ عدالت کو اس کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑا۔ اس لیے کہ عدالت میں اکتوبر ۲۰۰۷ء سے اس کے خلاف رٹ  کا مقدمہ موجود تھا۔ حکومت نے عدالت میں این آر او کا دفاع نہیں کیا اور حکومت کے وکیل   جناب کمال اظفر نے اپنے تحریری بیان میں صاف لفظوں میں کہا : ’’این آر او کے تحت تمام مقدمات کو اس کے نفاذ سے پہلے کی صورت میں بحال کیے جانے پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔ جب عدالت نے اس بدنامِ زمانہ قانون کو اس کی تاریخِ پیدایش سے کالعدم قرار دیا، اور اس کے نتیجے میں احتساب، کرپشن پر گرفت، قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے بارے میں گیارہ احکام جاری کیے تو حکومت کے ہوش اُڑ گئے۔ اس لیے کہ اس کے نتیجے میں جناب آصف زرداری کے خلاف سارے مقدمات بھی کُھل رہے تھے اور خصوصیت سے سوئس عدالت میں مقدمات کی بحالی اس کا لازمی تقاضا تھا۔ یہ وہ موقع ہے کہ حکومت نے عدالت کے خلاف نئی محاذآرائی کا آغاز کیا اور حکومت کے وزرا، سرکاری ترجمان اور پارٹی کے زیراثر وکلا نے بھانت بھانت کی بولیاں بولنا شروع کردیں۔ یہ سلسلہ اس وقت زور شور سے جاری ہے، اور وزیرقانون اس یورش کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ گو ۲۵مئی کو عدالت ِ عظمیٰ میں جو معرکہ وہ سر کرنا چاہتے تھے، اور ان کے حواری    جس طرح انصاف کی مشینری کو اپنی ایک ہی ضرب سے پاش پاش کرنے کی فضا بنا رہے تھے، وہ تو ٹائیں ٹائیں فش ہوگئی، اور بقول غالب   ؎

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے

دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا

حکومت نے عدلیہ کے فیصلے کے مطابق تمام مقدمات کی بحالی، نیب کی تشکیلِ نو یا احتساب کے نئے نظام کے قیام کے سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ دو سال سے قومی اسمبلی میں احتساب کے نام پر جو کمزور اور خامیوں سے پُر مسودّۂ قانون زیرغور ہے، اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد، اس کی روشنی میں، مقدمات کے احیا اور ان کی مؤثر پیروی حکومت ِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حکومت جس دلدل میں پھنس گئی، وہ یہ تھی کہ بیش تر مقدمات جن پارٹیوں کے قائدین اور کارکنان کے خلاف تھے، ان کا تعلق دو حکمران جماعتوں سے تھا، یعنی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اور ان کو بچانے کے لیے حکومت نے ان مقدمات میں کوئی دل چسپی نہ لی، اور جو مقدمات بحال ہوگئے، ان کے بارے میں بھی ملزموں پر گرفت کے بجاے ان کی معاونت اور گلوخلاصی کا راستہ اختیار کیا۔ نیب کے ادارے کو عضومعطل بنا دیا گیا۔ جو سرکاری وکیل اس کے تابع مہمل نہ تھے، ان کو فارغ کر دیا گیا اور اپنے من پسند افراد کو اس میں لانے کی کوشش کی گئی۔ وزیرقانون، جو خود مختلف بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے الزام میں مطلوب تھے ان کو نیب کا ذمہ دار بنا دیا گیا۔ دو اٹارنی جنرل مستعفی ہوئے، وزارتِ قانون کے دو سیکرٹری مستعفی ہوئے، جوائنٹ سیکرٹری مستعفی ہوئے، اور عدالت کے احکامات کے مطابق سوئس عدالت میں مقدمات کی بحالی کے لیے خط پانچ مہینے گزرجانے کے باوجود نہیں بھیجا گیا، بلکہ وزیرقانون نے یہ تک فرما دیا کہ ’’ایسا کوئی خط نہیں بھیجا جائے گا اور اگر کسی نے بھیجا تو وہ میری لاش سے گزر کر جائے گا‘‘ (on my dead body) ۔  یہ عدالت کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں تو اور کیا ہے؟ عدالت نے پھر بھی پورے تحمل اور بُردباری سے اپنے احکام پر عمل درآمد کا مطالبہ جاری رکھا۔ دیکھیے اس کا انجام کیا ہوتا ہے، البتہ حکومت نے حکم عدولی کے باب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

صدر زرداری اور سوئس مقدمات

عدالت کے سامنے تو ان سطور کے لکھنے تک دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت صدر کے استثنا کی درخواست نہیں دی گئی تھی مگر اس پر میڈیا میں لفظی جنگ پورے زورشور سے جاری ہے، حالانکہ اگر زرداری صاحب کا دامن پاک ہے تو انھیں بڑھ کر عدالت سے صفائی کا پروانہ حاصل کرنا چاہیے۔ دفعہ ۲۴۸ کا سہارا لینے کے معنی تو یہ ہیں کہ دال میں کچھ کالا کالا موجود ہے، اور ان کا دامن پاک نہیں ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقدمے کا تعلق ان کے صدر بننے سے برسوں پہلے کے زمانے سے ہے اور مسئلہ مالی معاملات کا ہے، جب کہ دفعہ ۲۴۸ میں استثنا صرف فوجداری معاملات میں ہے اور وہ بھی ان امور کے بارے میں جو زمانۂ صدارت سے متعلق ہوں۔

یہ معاملہ ایسا ہے جس پر ساری دنیا کے اخبارات میں اور امریکا کی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کی کارروائیوں میں سیکڑوں صفحات پر مشتمل مواد موجود ہے، اور سوئس عدالت میں بھی ابتدائی طور پر جرم ثابت ہوچکا ہے۔ اگر سوئس بنک میں ۶۰ملین ڈالر ان کے حساب میں موجود ہیں تو کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ یہ رقم کہاں سے آئی؟ اگر یہ ان کی جائز کمائی ہے تو اس کی تفصیل سامنے آنی چاہیے کہ کہاں سے یہ رقم کمائی گئی؟ کیا اس پر ٹیکس ادا ہوا؟ اور یہ سوئٹزرلینڈ کے بنک میں کیسے پہنچی؟ اس وقت تو معاملہ اس ایک رقم کا ہے مگر امریکا اور یورپ کے اخبارات میں، اور سب سے بڑھ کر امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی کارروائیوں میں خود سٹی بنک کے ذمہ دار افراد کی جو شہادتیں موجود ہیں اور بنک کے حسابات میں جو تفصیلات آئی ہیں، وہ عالمی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، فرانس اور اسپین کے بنکوں کے حسابات کی جو تفصیل ان تمام مقامات پر موجود ہے اور جس میں سے کچھ خود پاکستان کے میڈیا خصوصیت سے جیو، آج اور   اے آروائی کے چینلوں پر دکھائی جاچکی ہے۔ ان میں۵ئ۱ ارب ڈالر کی خطیر رقم موصوف کے ذاتی یا ان کمپنیوں کے حسابات میں ہے جو ان کی ملکیت ہیں یا جن میں ان کا حصہ ہے۔ تو کیا اس قوم کا یہ حق نہیں کہ اسے معلوم ہو کہ اتنی بڑی رقم اقتدار کی اتنی قلیل مدت میں (یعنی ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۶ء تک) ان کے قبضے میں کیسے آئی؟ اگر وہ اپنی اس جائز کمائی کو عدالت میں ثابت کردیں تو اس سے ان کو بھی سرخ روئی حاصل ہوگی اور یہ قوم بھی مطمئن ہوجائے گی لیکن اگر وہ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر دستور کی دفعہ ۲۴۸ کا سہارا ان کے دامن کو پاک ثابت نہیں کرسکتا، بلکہ وہ اس احساس کو تقویت پہنچاتا ہے کہ یہ رقم یا اس کا بڑا حصہ قوم سے لوٹا ہوا ہے اور اسے اس غریب قوم کی طرف لوٹایا جانا چاہیے جس کی ۷۶ فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

معاملہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ اصول اور قوم کی دولت اور امانت کی حفاظت کا ہے، اور پھر اس کا تعلق کرپشن کی اس لعنت سے ہے جو پاکستانی قوم اور ملک کو گُھن کی طرح کھا رہی ہے۔ ورلڈبنک کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں گذشتہ ۱۰ برسوں میں کرپشن میں چار گنا (۴۰۰ فی صد) اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۹ء کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں کرپشن میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ قوم جس پر قرضوں کا بوجھ اس وقت ۸ ارب۹۲کروڑ روپے سے متجاوز ہے، جو صرف قرضوں پر سود کی مد میں ۷۵۰ ارب روپے سالانہ ادا کررہی ہے، اور جس کو اس کے اربابِ اقتدار اور اصحابِ ثروت کرپشن کے ذریعے ہرسال ۱۸۰۰ ارب روپے سے محروم کررہے ہیں، اس کی قسمت کو بدلنے کے لیے کرپشن کے خاتمے کے سوا اور کون سا راستہ ہے؟ اگر عدالت ِ عالیہ یہ چاہتی ہے کہ کرپشن کے ذریعے جس نے بھی جتنی دولت ہڑپ کی ہے اور قوم کو دووقت کی روٹی سے محروم کیا ہے تو کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ اب سب کا حساب ہو اور حق کو حق دار کی طرف لوٹایا جائے۔ اب یہ مسئلہ ایک فرد کا نہیں پوری قوم کا ہے اور احتساب اُوپر سے ہو جب ہی وہ مؤثر ہوسکتا ہے۔ اس لیے این آر او کے مقدمات کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ معاشی انصاف اور قانون کی حکمرانی کے قیام اور نظام کی اصلاح کے لیے ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ چند روپے چرانے والے کو تو جیل کی ہوا کھانی پڑے اور اربوں روپے لوٹنے والے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے پیچھے پناہ لے لیں، یہ انصاف نہیں کرپشن کی پشت پناہی ہے اور اس سلسلے کو اب ختم ہونا چاہیے۔

این آر او ہی کے سلسلے میں وزیرداخلہ رحمن ملک پر بھی مقدمات ہیں، اور ان کے ایف آئی اے کے دوسرے رفقاے کار بھی اس کی گرفت میں آتے ہیں۔ معاملہ چاہے ریاض شیخ کا ہو یا رحمن ملک کا، یا ان کے دوسرے معاونین کا، جن جن حضرات نے این آر او کے تحت گلوخلاصی حاصل کی ہے ان کو کھلے انداز میں عدالتوں میں اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنا چاہیے، اور حکومت کا فرض ہے کہ ان سب حضرات کو ان کے سرکاری عہدوں سے اس وقت تک کے لیے فارغ کر دے، جب تک ان کی بے گناہی عدالت کے ذریعے ثابت نہیں ہوتی۔ حکومت کا رویہ یہ ہے کہ وہ نہ تو ان مقدمات میں کوئی دل چسپی لے رہی ہے اور نہ آزادانہ عدالتی کارروائی کا موقع دے رہی ہے، حالانکہ یہ  اس کی دستوری ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں پر الزام ہے کہ وہ ملک اور قوم کے وسائل میں خردبرد کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان کے خلاف جو بھی شواہد اور دستاویزات موجود ہیں ان کو دیانت داری سے عدالت کے سامنے پیش کرے اور ملزموں کی صفائی کے لیے پھرتی نہ دکھائے بلکہ ملک وقوم کے وسائل کی حفاظت کے لیے اس کا حق اداکرے۔

بار بار یہ کہا گیا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی وجوہ سے بنائے گئے ہیں اور یہ کہ ان لوگوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں مگر ان پر جرم ثابت نہیں ہوا۔ ہم صاف کہتے ہیں کہ جن حضرات پر سیاسی وجوہ سے مقدمہ بنایا گیا ہو اور حقائق سے یہ ثابت ہوجائے تو نہ صرف ان کو باعزت بری کیا جائے اور قومی ذمہ داریاں ان کو سونپی جائیں بلکہ جن لوگوں نے ان کے خلاف غلط مقدمات بنائے، ان کو سزا دی جائے تاکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔ لیکن جن کے بارے میں سارے قرائن یہ پتا دیتے ہیں کہ ان کی دولت ان کی جائز آمدنی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی اور جو اپنی دولت کے ذرائع کا تسلی بخش جواز پیش نہیں کرسکتے، ان کو قرارِ واقعی سزا ملنی چاہیے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس آنی چاہیے۔

سزا کی معافی یا تخفیف کا صدارتی اختیار

زرداری صاحب نے اس سلسلے میں جو نیا ریکارڈ قائم کیا ہے وہ دستور کی دفعہ ۴۵ کا استعمال ہے جس کا تعلق سزا کی معافی یا تخفیف سے ہے۔ اصلاً تو یہ صدارتی اختیار دورِ بادشاہت یا سامراجی حکمرانی کے دور کی باقیات میں سے ہے اور اصولِ انصاف کے منافی ہے۔ لیکن اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ عدل کے مقابلے میں احسان اور ترحم (mercy) کی بنیاد پر کچھ حدود کے اندر  یہ اختیار صدرِمملکت استعمال کرسکتا ہے تب بھی اصولِ قانون (jurisprudence) کے مطابق چند شرائط اور ضوابط ہیں جن کی پاس داری ضروری ہے۔ یہ اختیار غیرمشروط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تخفیف یا معافی کے لیے ضروری شواہد اور دلائل ہونے چاہییں۔

کینیڈا کے دستور میں یہ گنجایش موجود ہے لیکن وہاں ایک نیشنل پے رول بورڈ ہوتا ہے   جو ہرکیس کے حالات کو سامنے رکھ کر سفارش کرتا ہے جس پر سربراہِ مملکت سزا میں تخفیف کرسکتا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور بھارت میں معافی یا تخفیف کا یہ استعمال عدالتی محاکمے کے لیے کھلا ہے اور صدر یا ملکہ کے اعلان کو عدالتیں زیرغور لاسکتی ہیں، اورجہاں مناسب وجوہ موجود نہ ہوں اس تخفیف یا معافی کو ختم کرسکتی ہیں۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے متعدد فیصلوں میں اس اختیار کے استعمال کے آداب و قواعد کی وضاحت کی ہے اور یہ اصول طے کیا ہے: ’’ہرامتیازی حق کو قانون کی حکمرانی کے تابع ہونا چاہیے‘‘۔( جسٹس ارجیت پسیات اور جسٹس کپادری)

بھارت کی سپریم کورٹ کے ان دو ججوں نے بڑی پتے کی بات کہی ہے:

معافی دینے کے لیے ذات، مذہب یا سیاسی وفاداری کا نامناسب لحاظ رکھنا ممنوع ہے۔ سیاسی مصلحت کی بنیاد پر قانون کی حکمرانی کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ ان امور کا لحاظ رکھ کر چلنے سے قانون کی حکمرانی کا بنیادی اصول مسخ ہوگا اور یہ ایک خطرناک مثال قائم کرنے کے مترادف ہوگا۔

بھارت ہی کی سپریم کورٹ کے ایک اور بنچ نے جس میں چیف جسٹس بالاکرشنان،  جسٹس پنچال اور جسٹس چوہان شامل تھے، لکھا ہے کہ اگر کوئی مجرم ایک منظورِ نظر فرد کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے تخفیف یا معافی کو ایک سہولت کے طور پر دیا جاتا ہے تو یہ ’جرائم کے فروغ کے لیے ایک محرک‘ ہوگا اور وہ اسے ایک عظیم دھوکا قرار دیتے ہیں۔

ان اصولوں کی روشنی میں اگر آپ غور کریں تو زرداری صاحب نے جناب رحمن ملک اور   ریاض شیخ صاحب کے سلسلے میں جو کچھ کیا ہے وہ عظیم دھوکا اور انصاف کے قتل سے کم نہیں۔    رحمن ملک صاحب کو عدالت نے مجرم قرار دیا اور قانون میں عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے حق کی گنجایش موجود تھی، لیکن انصاف کے اس عمل کو ناکام کرتے ہوئے اور عدالت کے فیصلے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر غالباً کسی باقاعدہ درخواست کے بغیر سزا کو معاف کر دینا اور وہ بھی اپنے ایک سیاسی وفادار ہی نہیں، اپنی ناک کے بال کو معافی دینا کسی جرم سے کم نہیں۔ اس پر وزیراعظم کا یہ ارشاد کہ ’’وزیرداخلہ کو جیل نہیں جانا چاہیے‘‘ اور بھی شرم ناک ہے، حالانکہ ان کا موقف یہ ہونا چاہیے تھا کہ ’’کسی مجرم کو وزیرداخلہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے‘‘ لیکن اس حکومت کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کرپشن اس کے گلہاے سرسبد کے لیے تمغاے افتخار ہے، کلنک کا ٹیکا نہیں۔ جعلی ڈگریوں پر   انتخاب لڑنے والے اور قوم کو دھوکا دینے والے نئے ٹکٹ کے مستحق ٹھیرتے ہیں اور وزیراعظم صاحب خود بنفس نفیس ان کی انتخابی مہم کے لیے تشریف لے جاتے ہیں اور کھلے کھلے الیکشن قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف انتخابی مہم میں سرکاری حیثیت سے حصہ لیتے ہیں بلکہ علاقے کے لیے پیکج کا اعلان (سیاسی رشوت) بھی فرماتے ہیں۔ رحمن ملک صاحب کو جس جرم کے حوالے سے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس میں چند تولے سونا اور چندلاکھ روپے سے متاثرہ فریق کو محروم کرنے کا ذکر بھی تھا، اور اس پر حکومت کے ایک ترجمان کا یہ ارشاد بھی اس پارٹی کے سیاسی کلچر کاآئینہ ہے کہ صرف چند تولے سونے اور چند لاکھ روپے کے لیے، اتنے بڑے آدمی کو سزا دینا ناقابلِ فہم ہے۔

جب قیادت کی اخلاقی حالت یہ ہوجائے تو پھر قوم کو تباہی اور ملک کو عذابِ الٰہی سے بچانے والی اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں یہ چند پہلو بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ سپردِقلم کیے ہیں اور پوری دردمندی سے حکمرانوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں،  اللہ کے عذاب اور عوام کے غیظ و غضب اور جذبۂ انتقام سے بچنے کی کوشش کریں۔

قانون کی حکمرانی ، وقت کا تقاضا

عدالت عوام کے حقوق اور قوم کی دولت کی حفاظت کے لیے قانون کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ انتقام نہیں انصاف کی طرف ایک قدم ہے۔ اسے اداروں کا تصادم کہنا بھی صحیح نہیں۔ عدالت کا تو فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ مظلوم کو ظلم سے بچائے اور ظالم کا ہاتھ روکے اور اسے قرارواقعی سزا دے تاکہ دوسروں کے لیے باعثِ عبرت ہو اور معاشرہ جرائم اور ظلم سے پاک ہوسکے۔ اب تک عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ نے جو کچھ کیا ہے، اسے عدالتی تحرک کہنا صحیح نہیں۔ عدالت دستور کے مطابق بنیادی حقوق اور حقوق میں مساوات کے اصول کی روشنی میں کمزوروں کی مدد اور منہ زور طاقت ور اور قانون توڑنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانے کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ حکومت عدالت کے فیصلوں کی خلاف ورزی، ان کے نتائج کو ناکام کرنے اور مسخ کرنے کی ناپاک سعی میں مصروف نظر آتی ہے، یا عدالت کے فیصلوں پر عمل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اور عدالت پر جانب داری اور سیاسی محرکات کے ناقابلِ التفات الزامات لگاکر اسے بلیک میل کرنے اور دفاعی پوزیشن میں ڈالنے کا کھیل کھیل رہی ہے۔     اسے عدلیہ اور انتظامیہ کا تصادم کہنا حقیقت سے دُور کی بھی مناسبت نہیں رکھتا۔ یہ انتظامیہ کی طرف سے عدالت کی حکم عدولی کرنے (defy) اور اسے دبائو میں لانے کی یک طرفہ یورش ہے۔ یہ نہ  صرف عدالت کی توہین ہے بلکہ قانون کو مسخ کرنے کی بھی کوشش ہے جو اس ملک اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے فالِ بد ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کا ارشاد ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں۔ نظامِ عدل معاشرے کی صحت، زندگی، ترقی اور استحکام کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے اپنے نبی اور رسول بنا کر جن مقاصد کے لیے بھیجے تھے، ان میں سرفہرست مقصد انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام تھا (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ، الحدید)۔ ہر مہذب اور جمہوری معاشرے کے لیے قانون کی حکمرانی اور انصاف کا قیام اولین ضرورت ہے۔ اور آج ہمارا حال اگر دگرگوں ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان، انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام سے غفلت، دولت مند اور طاقت ور انسانوں کا قانون سے بالا ہونا اور کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم اور ان کے حقوق اور اثاثوں پر دست درازی بگاڑ کی وجہ اور تباہی کا راستہ ہیں۔ حکومت کو اپنی روش فوری طور پر بدلنی چاہیے اور اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب عوام کا غیظ و غضب وہ صورت اختیار کرلے جو اس ظالمانہ نظام کو تہ و بالا کرڈالے یا خدانخواستہ اللہ کا عذاب سب کو اپنی گرفت میں لے لے۔ عدالت کو انصاف اور دادرسی کا منبع ہونا چاہیے کہ اس سے معاشرے میں استحکام آتا ہے اور جمہوریت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

ہم اپنی معروضات کو انگلستان کے ایک نام وَر ماہر قانون لارڈ جیمز برایس کے ان  زریں الفاظ پر ختم کرتے ہیں اور اربابِ اقتدار کو مشورہ دیتے ہیں کہ ان الفاظ پر سنجیدگی سے    غور کریں اور اس قوم اور ملک کے لیے خیر اور فلاح کا ذریعہ بنیں، ظلم، فساد اور بگاڑ کا نہیں:

کسی حکومت کی حُسنِ کارکردگی جانچنے کا پیمانہ اس کے عدالتی نظام کی مستعدی سے بہتر  کوئی نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ عام شہری کی سلامتی او رفلاح و بہبود کو کوئی چیز اس احساس سے زیادہ متاثر نہیں کرتی کہ وہ انصاف کے فوری اور یقینی حصول پر اعتماد کرسکتا ہے۔

زرداری گیلانی حکومت، امریکا کے ساتھ اسٹرے ٹیجک شراکت داری کے راگ الاپ رہی تھی۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، واشنگٹن کے بعد اسلام آباد میں اسٹرے ٹیجک مذاکرات کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں یکم مئی ۲۰۱۰ء کو نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں ایک وین سے دھواں نکلتا دیکھ کر ایک صومالی مسلمان خوانچا فروش کی اطلاع پر شہر میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ چند گھنٹے کے بعد ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے ڈرائونے خواب (nightmare) نے ایک بار پھر امریکا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ۳تاریخ کو امارات ایئرلانز کی پرواز سے ایک پاکستانی نژاد امریکی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان فیصل شہزاد کو گرفتار کرلیا گیا۔ شروع میں اسے ’تنہا بھیڑیا‘ قرار دیا گیا، لیکن پھر جلد ہی امریکا اور خود پاکستان میں اس کے مبینہ ساتھیوں کی پکڑدھکڑ شروع ہوگئی۔

پاکستان اور امریکا کے دارالحکومتوں میں جس امریکی قیادت سے سر جوڑنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس نے سرتوڑنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) جیمز جونز، سی آئی اے کے سربراہ لیون پانے ٹا اور افغانستان میں امریکی فوجوں کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل اپنے مشیروں کے لائولشکر کے ساتھ اسلام آباد پر ڈرون حملوں کی طرح نازل ہوئے۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے طرزِتکلم میں ۸۰ درجے کی تبدیلی لاکر پاکستان کو بش انتظامیہ کے مذموم لہجے میں  ’خطرناک نتائج‘ اور ’کچھ مزید کرنے‘ کی دھمکیوں پر مشتمل احکامات جاری کرنے شروع کردیے، یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جو اسامہ اور مُلاعمر کے ٹھکانے سے واقف ہیں۔ امریکی میڈیا نے پاکستان کے خلاف بھرپور  ابلاغی جنگ کا آغاز کر دیا۔ یوں آن واحد میں دوستی اور نئے تعلقات کے سارے خیالی قلعے زمین بوس ہوگئے۔

فیصل شہزاد نے جو کچھ کیا وہ ’ایک معما ہے سمجھنے کا، نہ سمجھانے کا‘۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، متمول اور ماڈرن گھرانے کا چشم و چراغ، جس کی اعلیٰ تعلیم امریکا میں ہوئی، جہاں وہ ۱۱ سال سے مقیم اور اب امریکی شہریت کا حامل ہے،اعلیٰ سوسائٹی میں اٹھنا بیٹھنا جس کا معمول ہو، اور امریکا کی ’معاشی دنیا‘ (Finance World) میں وہ ایک تربیت یافتہ کھلاڑی کی طرح دولت کمانے کا شغل کر رہا ہو، یکایک ایک دہشت گرد بن جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان سے اس کے رشتے تلاش کرلیے جاتے ہیں اور اسے امریکا کی سیکورٹی کے لیے ایک چیلنج اور پاکستان کو دنیا بھر میں ’دہشت گردی‘ کے مرکز کے طور پر پیش کیا جانے لگتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ ’ماہر اور تربیت یافتہ دہشت گرد‘ جس وین کو دہشت گردی کے مبینہ مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے، اس میں کھاد (fertilizer) اور دھماکا خیز مواد استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور پھر ایک الیکٹرک آلہ جو خودکار صلاحیت سے محروم ہے اور یوں وہ ایک ایسی جگہ جہاں پارکنگ کی اجازت نہیں ہے، چھوڑ کر اس اہتمام سے غائب ہوتا ہے کہ وین میں اس کی چابی لگی ہوئی ہے اور چابی میں موصوف کے گھر کا پتا بھی موجود ہے۔ اپنی شناخت کے لیے یہ تمام سہولتیں فراہم کرنے کے بعد وہ ۴۸گھنٹے گزرنے کے باوجود گرفت میں نہیں آتا، اور جب جہاز میں اس کو پکڑا جاتا ہے تو پہلے الفاظ وہ یہ ادا کرتا ہے: ’’میں آپ ہی کی توقع کر رہا تھا اور ہاں، آپ کون سی ایجنسی سے متعلق ہیں، ایف آئی اے یاکوئی اور‘‘۔

کیا وہ مبینہ دہشت گرد اتنا ہی اناڑی تھا، کہ جسے شمالی وزیرستان سے جوڑا جا رہا تھا۔  ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکا کی خفیہ ایجنسیوں اور دہشت گردی کے خلاف ایک نہیں دسیوں نئی فورسز کے قیام، اور اربوں ڈالر سالانہ اخراجات کی بنیاد پر اعلیٰ ترین ٹکنالوجی کے ذریعے دہشت گردی کی ہرشکل کو قبل از وقت ناکام اور غیرمؤثر بنادینے کے تمام اہتمام دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وہ سب فیصل شہزاد کو بھی نہ روک سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس میں فیصل شہزاد کی بچگانہ حرکات کی داد دی جائے یا امریکی ایجنسیوں کی نااہلی اور ناکامی کا نوحہ پڑھا جائے۔

اس واقعے کے چار ہفتے بعد بھی تفتیش کا بازار گرم ہے۔ دو ہفتے کے بعد فیصل شہزاد کو عدالت میں خفیہ طور پر پیش کرکے ریمانڈ لے لیا گیا ہے، اور پاکستان میں اب تک جو تفتیش ہوئی ہے اس میں موصوف کے اہلِ خانہ کو تو بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا ہے، البتہ چند دوسرے نوجوان اُٹھا لیے گئے ہیں، جن کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہے۔ اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کی بنیاد پر اگر فی الحقیقت فیصل شہزاد نے خود یہ ڈراما رچایا ہے تو اس کی عقل کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے، اور اگر اسے کسی ادارے یا ایجنسی نے پاکستان پر دبائو بڑھانے اور شمالی وزیرستان میں پاکستان کو فوجی آپریشن پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا ہے تو ان ایجنسیوں کی شاطرانہ کارکردگی کی داد ہی دینی چاہیے کہ آن کی آن میں منظر تبدیل کردیا۔ اگرچہ ہم اسے سازش قرار دینے کی پوزیشن میں نہیں، لیکن اس کے باوجود سارا معاملہ بظاہر ایک ڈراما ہی نظر آتا ہے۔ اسی طرح امریکی قیادت کے بیانات اور پاکستان آکر یہاں کی سیاسی اور عسکری قیادت پر دبائو ایسے سوالات کو اٹھاتا ہے جن کے جواب ابھی سامنے نہیں آئے۔

اس پورے واقعے نے سوچ بچار کے لیے کئی موضوعات نمایاں کردیے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فیصل شہزاد نے یہ سب کچھ خود کیاہے تو پھر امریکی دانش وروں اور دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی وضع کرنے والوں کو اپنے بنیادی مفروضوں پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ ان کی نگاہ میں اس وقت امریکا میں کی جانے والی دہشت گردی کا اصل محرک مذہبی عناصر ہیں، اور القاعدہ اس کی پشت پر ہے۔ دینی مدرسوں کے طلبہ اس فکر کی وجہ سے انسانی میزائل بن گئے ہیں۔ بالعموم غریب اور محروم طبقات کے نوجوانوں کو اس کام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’مسلمان دہشت گرد‘ کی جو تصویر امریکا، یورپ اور خود ہمارے اور دوسرے مسلمان ملکوں میں پیش کی گئی ہے، فیصل شہزاد اس میں کہیں جچتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لیے حقائق کی تہ تک پہنچنے میں سرگرداں تجزیہ نگار بڑے بنیادی سوال اُٹھا رہے ہیں۔ اگر ان سوالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو امریکا کی ۱۰سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اختیار کردہ حکمت عملی کے غیرحقیقت پسند ہونے کے وجوہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں نیویارک ریویو آف بکس کے تازہ شمارے میں جو مضمون شائع ہوا ہے، اس کے چند اقتباسات اس لائق ہیں کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ خصوصیت سے امریکا اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو دہشت گردی کے پورے مسئلے کے بارے میں حکمت عملی پر ازسرِنو غور کرنا چاہیے، تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا کو جس دہشت گردی کے جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے، اس سے نکلنے کی کوئی صورت بن سکے:

گذشتہ چند مہینوں میں، یہ اور جو دوسرے ممکنہ دہشت گرد گرفتار کیے گئے ہیں، ان میں اس کے علاوہ بہت کم کوئی بات مشترک ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ امریکا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ ٹیکسی ڈرائیوروں اور خوانچا فروشوں سے لے کر مالیاتی تجزیہ نگاروں تک، مختلف معاشرتی اور معاشی طبقات سے وابستہ ہیں۔ اسلامی انقلابیت اور بیرونی انتہاپسند گروپوں سے ان کے اپنے رابطے کی نوعیت میں فرق ہے۔ ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ جو چیز ان کو متحد کرتی ہے، وہ امریکا اور اس کی خارجہ پالیسی سے ایک بامقصد نفرت ہے، جس نے بتدریج انقلابیت کی جڑ پکڑی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک بڑی امریکا مخالف تحریک میں شامل ہونے کی خواہش کو بھی تیز کیا ہے۔

۱۱ستمبر کے بعد کے برسوں میں بہت سے اہلِ دانش اور صحافیوں نے کہا ہے کہ یورپ میں مسلم آبادیوں کے برعکس جہاں انتہاپسندی سے متعلق مسائل کو بہت شہرت ملی ہے، امریکا کی اپنی مسلمان آبادی اس انقلابیت سے محفوظ رہی ہے۔ لیکن ۱۰ برس بعد واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ اس عمل کو سمجھنے اور اس کی گہرائی میں جانے کی کوشش کرنے کے بجاے امریکی صحافی اور امریکی حکومت بھی صرف اس فکر میں غلطاں دکھائی دیتے ہیں کہ معلوم کریں کون سا پاکستانی گروپ شہزاد کی تربیت کا ذمہ دار ہے، اور کیا اس کے القاعدہ سے روابط تھے؟ اس دوران میں امریکی سرزمین پر دہشت گردی کی ہر ناکام کوشش، درجنوں نوجوان امریکی مسلمانوں کو نت نئی کوشش کرنے اور کامیابی حاصل کرنے پر اُبھار سکتی ہے۔ جب تک اس طرح کی انقلابیت کی جانب لے جانے والے مسائل کے بہتر فہم اور ان کے حل کی کوشش نہ ہو تو ہم مستقبل میں ایسے حملوں کو روکنے کی منزل کے قریب بھی نہ آسکیں گے۔ (نیویارک ریویو بکس بحوالہ ڈیلی ٹائمز، ۱۶ مئی ۲۰۱۰ئ)

دہشت گردی کے مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر ازسرِنو غور کرنے کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں اور فوجی قائدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملات کو امریکا کی آنکھ سے دیکھنے کا رویہ ترک کریں اور امریکی مطالبات پر نئے محاذ کھولنے کی خطرناک حماقت سے باز رہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادت اور فوج نے امریکا کی جنگ میں شرکت اور پھر کمال تابع داری سے امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر جو نقصانات اٹھائے ہیں، ان کے پیش نظر اس دلدل میں اور بھی دھنستے چلے جانے کے راستے کو ترک کیا جائے۔ پارلیمنٹ نے ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی مشترکہ قرارداد میں دہشت گردی کے مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے واضح الفاظ میں جس حکمت عملی کی نشان دہی کی ہے، اس کو دیانت داری سے قبول کر کے اس نہ ختم ہونے والی اور کبھی نہ جیتی جانے والی جنگ سے اپنے آپ کو نکالنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان نے اس جنگ میں امریکا کے چوکیدار کا کردار ادا کرکے سیاسی، معاشی، اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے جو نقصانات برداشت کیے ہیں، وہ   تباہ کن رہے ہیں۔ جتنی جلد اس خسارے کے سودے سے جان چھڑا لی جائے، اتنا ہمارے لیے  بہتر ہے۔

معاشی ’ترقی‘ کا ایک آسان نسخہ

دودھ میں ملاوٹ، کھانے پینے کی چیزوں اور مسالوں میں ملاوٹ، حتیٰ کہ دوائیوں میں ملاوٹ تو سنی تھی، لیکن موجودہ حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اعداد وشمار میں ملاوٹ کے ذریعے معاشی ترقی کا ایک نادر کارنامہ انجام دیا ہے۔

معاشیات کے سارے ماہرین عام آدمی کے تجربات کی گواہی کی روشنی میں، یہ کہہ رہے تھے کہ ۲۰۱۰ئ-۲۰۰۹ء پاکستان کی معاشی تاریخ میں بہت ہی مشکل سال رہا ہے۔ معیشت، جن مشکلات سے دوچار رہی، ان میں بجلی اور گیس کا بحران، صنعتی پیداوار اور برآمدات میں کمی،   سرمایہ کاری کی سست روی، مہنگائی کا طوفان، بے روزگاری میں اضافہ، روپے کی عالمی قیمت میں کمی قابلِ ذکر ہیں، اور ان سب عوامل کی وجہ سے خود اسٹیٹ بنک کی مارچ ۲۰۱۰ء تک کی تمام ہی رپورٹوں میں معیشت میں شرحِ نمو (growth rate) کے بارے میں اندازہ تھا کہ وہ ۵ئ۲ اور ۳فی صد کے درمیان ہوگی اور بہت زور لگایا تو شاید ۵ئ۳ فی صد ہوجائے۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ بجٹ سے ایک ماہ پہلے مئی ۲۰۱۰ء میں حکومت یہ انکشاف کرے گی کہ  سالِ رواں میں جی ڈی پی میں اضافہ ۱ئ۴ فی صد ہوگا۔ نیشنل اکائونٹس کمیٹی نے یہ اعلان کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا لیکن جب اس محیرالعقول تبدیلی کا سبب دریافت کیا گیا تو یہ حیران کن بات سامنے آئی کہ اس سال شرحِ نمو میں اضافہ دکھانے کے لیے گذشتہ دو سالوں کی شرحِ نمو پر نظرثانی کی گئی ہے تاکہ اس کی بنیاد (base) کو نیچے لے جاکر سالِ رواں میں ترقی کی رفتار کو زیادہ دکھایا جاسکے۔

پہلے دعویٰ کیا گیا ۰۸-۲۰۰۷ء میں ۱ئ۴ فی صد ترقی کا جو دعویٰ کیا گیا تھا وہ صحیح نہیں تھا، بلکہ اصل اضافہ ۷ئ۳ فی صد تھا۔ پھر نیا دعویٰ کیا گیا کہ یہ ۷ئ۳ فی صد نہیں ۳ئ۳ فی صد تھا اور اسی طرح ۰۹-۲۰۰۸ء میں اضافہ ۲ فی صد نہیں تھا، بلکہ صرف ۲ئ۱ فی صد تھا۔ اعداد وشمار میں اس رد وبدل کے نتیجے میں ۱۰-۲۰۰۹ء کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ متوقع اضافہ ۳ فی صد نہیں، بلکہ ۱ئ۴ فی صد ہے۔ گویا ۰۹-۲۰۰۸ء کے مقابلے میں ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا ہے جسے ایک ’عظیم کرشما‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔

جب پوچھا گیا کہ معیشت کے تمام بڑے بڑے مراکز تو کوئی اچھی صورت حال ظاہر  نہیں کررہے اور خصوصیت سے توانائی کے بحران کی وجہ سے پیداوار میں یہ اضافہ قابلِ فہم نہیں ہے۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ اصل اضافہ تعمیرات کے شعبے (construction industry)کی وجہ سے ہوا ہے، جس نے سالِ رواں میں ۱۵ فی صد کے حساب سے ترقی کی ہے، حالانکہ اسٹیل اور سیمنٹ دونوں، جو اس صنعت کے اہم ترین بنیادی اجزا ہیں، وہ تو مشکلات کا شکار رہے ہیں، پھر اس کے باوجود اس صنعت میں ۱۵ فی صد اضافہ کیسے ہوگیا؟ اس سوال کا کوئی معقول جواب پیش نہ کیا جاسکا۔ اسی طرح لائیوسٹاک میں بھی دگنا اضافے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یوں اعدادوشمار کے ہیرپھیر سے معاشی ترقی کی رفتار میں اضافے کا شعبدہ دکھا دیاگیا۔ پاکستان کے کئی معروف ماہرین معاشیات، مثلاً ڈاکٹر ایس اکبر زیدی (ڈان، ۲۴ مئی ۲۰۱۰ئ) اور ڈاکٹر اشفاق حسین (دی نیوز، ۱۸ مئی ۲۰۱۰ئ) اور ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی (جنگ، ۲۵ مئی ۲۰۱۰ئ)نے اس ’کارنامے‘ پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر زیدی نے بڑی دردمندی سے ملکی معیشت کے ذمہ داروں کو  بڑا مفید مشورہ دیا ہے، جسے ہم ہدیۂ ناظرین کرتے ہوئے ہم بھی حکومت کی ٹیم کو ان کے اس طبع زاد کارنامے پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے:

ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے جنھوں نے گذشتہ دو برسوں میں پاکستان کی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ میں نے ان میں سے صرف چند کو بیان کیا ہے۔ کوئی ایسا راستہ نظر نہیں آتا کہ پاکستانی معیشت میں اتنی معجزانہ بہتری رونما ہوسکے۔ اگر ایسا ہوا ہے، جیساکہ پاکستانی معیشت کے ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ ہوا ہے، تو ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے معاشی انتظامیات کی بنیادی منطق ہی کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ ضروری ہے کہ وہ اپنے کارناموں کے لیے ثبوت مہیا کریں، تاکہ دوسرے بھی سیکھ سکیں۔ (روزنامہ ڈان، ۲۴ مئی ۲۰۱۰ئ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اٹھارھویں دستوری ترمیم پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ کا اہم سنگِ میل ہے۔ اپنی چند خامیوں کے باوجود، مجموعی طور پر پاکستان میں جمہوریت کے قیام، دستوری نظام کی اپنی اصل شکل میں بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، صوبائی حقوق کی حفاظت، بنیادی حقوق کی عمل داری اور ایک اسلامی، وفاقی اور فلاحی ریاست کے قیام کے تاریخی سفر کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔

دستور کسی ریاست اور معاشرے میں بنیادی قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ضابطہ، قوم کی دیرینہ روایات و اقدار، اس کے سیاسی اور اجتماعی عزائم اور منزلِ مراد کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ اس تصورِحیات، اجتماعی نظام اور تاریخی وژن کا امین ہوتا ہے جو ایک قوم اپنے مستقبل کے بارے میں رکھتی ہے، اور اس کی جڑیں معاشرے اور ریاست کے زمینی حقائق میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک نظامِ کار اور نقشۂ راہ وجود میں آتا ہے، جو زندگی کے تمام پہلوئوں کی صورت گری میں اساسی کردارادا کرتا ہے۔ دستور اگر ایک طرف اس لنگر کے مانند ہے جو جہاز کو اس کے قیام میں استحکام فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف یہ مملکت کی کشتی کے لیے اس چپو کا کردار بھی ادا کرتا ہے، جو کشتی کو اس کی منزل کی طرف کشاں کشاں لے جانے کی خدمت انجام دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دستور، ملک کے پورے نظام کے خطوط کار متعین کرتا ہے۔ ریاست اور قوم کے تشخص کا محافظ و نگہبان اور اس کے تمام کلیدی اداروں کے لیے واضح خطوط کار متعین کرتا ہے۔ اس میں یہ صلاحیت بھی ہونی چاہیے کہ بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دے سکے۔ نئے حقائق اور بدلتی اور نئی اُبھرتی ہوئی ضرورتوں کی روشنی میں مطلوبہ ہدایت اور رہنمائی فراہم کرنے کی خدمت انجام دے سکے۔ یہ ہے وہ ضرورت، جو دستوری ترمیم کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ دنیا کے تمام ہی دساتیر اس امر پر شاہد ہیں کہ وہ ریاست کے مقاصد اور نظامِ حکومت کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کا ضامن ہوتے ہیں۔ چونکہ اس کے ساتھ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی کی ضرورت باربار رونما ہوتی ہے، اس لیے ریاستی دساتیر ایک زندہ دستاویز کے طور پر ان ضرورتوں کی تشفی کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

امریکا کے دستور میں گذشتہ دو صدیوں میں درجنوں ترمیمات کی گئی ہیں، جو بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے ساتھ وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بنی ہیں۔ یہی صورت دنیا کے دوسرے ممالک کے دساتیر کی بھی ہے، لیکن پاکستان میں بار بار کی فوجی مداخلت اور دستور کی چیرپھاڑ کے باعث ہمارا مسئلہ بالکل مختلف نوعیت اختیار کر گیا۔ ہمیں دو چیلنج درپیش تھے: ایک یہ کہ دستور کے بنیادی اہداف کی روشنی میں نئے حالات اور مسائل کے تقاضوں کو دستور کے فطری ارتقا کے عمل کا حصہ بنایا جائے۔ نیز یہ کہ گذشتہ ۳۷ برسوں میں دستور میں جو ناہمواریاں اور انمل بے جوڑ تبدیلیاں اربابِ اقتدار اور خصوصیت سے فوجی حکمرانوں نے محض قوت کے نشے میں اور بڑی حد تک ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے کی ہیں، ان سے دستورِ پاکستان کو کس طرح پاک کیا جائے۔ یہ بڑا مشکل اور نازک کام تھا، جسے الحمدللہ پارلیمنٹ کی دستوری اصلاحات کی کمیٹی نے بڑی محنت اور حکمت سے انجام دیا۔ اس عمل کے نتیجے میں دستور کی ۹۵ دفعات میں ضروری ترامیم کی گئیں۔

ان سفارشات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جس طرح ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قومی اتفاق راے سے تمام سیاسی جماعتوں کے بھرپور تعاون اور مؤثر حصہ داری سے، افہام و تفہیم کے ذریعے تیار اور منظور کیا گیا تھا، تقریباً اسی طرح ساڑھے نو مہینے کی مسلسل مشاورت اور کوشش کے ذریعے اٹھارھویں ترمیم کو مرتب کیا گیا ہے۔ کمیٹی میں اتفاق راے پیدا کیا  گیا اور پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے مکمل اتفاق راے سے انھیں منظور کیا۔ اس طرح یہ ترامیم اب دستور کا جزولاینفک بن گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دستورِ پاکستان ایک طرف ان حشو و زوائد اور متعدد ناہمواریوں اور تضادات سے پاک ہوگیا ہے، جو دو مارشل لا حکومتوں میں آٹھویں (۱۹۸۵ئ) اور سترھویں (۲۰۰۳ئ) ترامیم کے ذریعے اس میں داخل کر دی گئی تھیں۔ دوسری طرف ان ۳۷برسوں میں جو نئے مسائل اور نئی ضرورتیں سامنے آئیں، ان کی روشنی میں دستور کو اس کی اصل شکل اور روح کے مطابق نہ صرف بحال کیا گیا ہے بلکہ اس کے بنیادی ڈھانچے اور مقاصد کے مطابق مزید ارتقائی منزلوں سے ہم کنار کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ بلاشبہہ کوئی بھی انسانی کوشش ہراعتبار سے مکمل اور خطا سے پاک نہیں ہوسکتی لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ بحیثیت مجموعی اٹھارھویں دستوری ترمیم ایک مثبت پیش رفت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرناچاہیے۔ البتہ، اس میں اب بھی جو خامیاں رہ گئی ہیں، یا جو امور مزید اصلاح طلب ہیں، یا جو دستوری مسائل حل طلب ہیں، ان کے لیے کوششیں جاری رکھی جائیں تاکہ ہمارے قدم آگے ہی بڑھتے رہیں۔

دستوری کمیٹی کے لیے چیلنج

اس وقت دستور کے بارے میں دستوری کمیٹی، پارلیمنٹ اور پوری قوم کے سامنے بنیادی طور پر دو چیلنج تھے: پہلا یہ کہ دستور میں جو انمل بے جوڑ چیزیں داخل کر دی گئی ہیں، ان سے اس کو پاک کیا جائے۔ لیکن اس پورے عمل میں اگر کچھ چیزیں صحیح اور دستور کے فریم ورک اور مقاصد سے ہم آہنگ ہیں تو ان کو محض اس وجہ سے رد نہ کردیا جائے کہ انھیں دستور کا حصہ بنانے کا عمل خام یا ان کا وجود محلِ نظر تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ ایک طرف جو عمل غلط ہوا ہے، اس کے غلط ہونے کا ادراک ہی نہیں اعلان بھی ہو۔ دوسری طرف تعصب یا ہٹ دھرمی کے راستے سے دامن بچاتے ہوئے خذ ما صفاء ودع ما کدر (جو صحیح ہے اسے قبول کرلو اور جو نادرست ہے، اسے ترک کر دو) کے زریں اصول پر عمل کرتے ہوئے جو تبدیلیاں صحیح مقاصد کے حصول اور دستور کے مزاج اور فریم ورک سے مطابقت رکھتی ہیں، ان کو قبول کرلیا جائے___ اس پس منظر میں اگر آپ اٹھارھویں دستوری ترمیم کی شق ۲ اور شق ۹۵ (ترمیم شدہ دستوری دفعہ ۳۷۰ اے اے) کا مطالعہ کریں، تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ ایل ایف او کو، جو ایک غلط اور ناجائز اقدام تھا، بجاطور پر غلط اور ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سترھویں دستوری ترمیم کو جو خاص حالات میں منظور کی گئی تھی، اسے بھی دستور کی زبان میں کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ان میں جو چیزیں دستور کے فریم ورک سے ہم آہنگ یا وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہیں، ان کو جاری رکھا گیا ہے___کچھ کو تحفظ دے کر اور کچھ کو دوبارہ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بناکر۔

اس خاص طریقِ کار کے ذریعے دو مقاصد حاصل کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ اصل اقدام کے ناجائز ہونے کا اعلان دستور میں آجائے، تاکہ آیندہ کے لیے دستور میں اس طرح کی دراندازیوں کا دروازہ بند ہو۔ پھر اعلیٰ عدالتوں پر بھی واضح ہوجائے کہ ان کے جواز (validation) کو پارلیمنٹ نے رد کر دیا ہے۔ دوسری طرف قوانین کے تسلسل اور مناسب تبدیلیوں کو محض ضد اور عناد کی بنا پر رد نہیں کیا گیا، بلکہ ان کو حیاتِ نو دے دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ان کو مکمل قانونی جواز حاصل ہوگیا ہے۔

اس عملِ تطہیر اور تصحیح کے ساتھ دستوری کمیٹی نے تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو نئی تجاویز دینے، دستور کو تازہ دم کرنے اور نئے مسائل کی روشنی میں ترامیم کی نشان دہی کرنے کی دعوت دی۔ ۸۰۰ سے زیادہ تجاویز آئیں، جن کا جائزہ لیتے ہوئے، جو کچھ اس وقت ضروری اور قابلِ عمل سمجھا گیا، اسے اس جامع دستوری ترمیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔

دستوری کمیٹی نے اپنے کام کے آغاز ہی میں چند اصولی باتیں طے کیں، جن کو سمجھنا ضروری ہے:

۱- ہم پورے دستور پر نظرثانی نہیں کر رہے اور نہ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور فریم ورک ہی میں کوئی تبدیلی ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم صرف ان دو ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جو اُوپر بیان کی گئی ہیں۔

۲- اس کے لیے ضروری ہے کہ دستور کے فریم ورک کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ پاکستان کا دستور تحریکِ پاکستان کے مقاصد کے پس منظر میں مرتب اور منظور کیا گیا ہے۔ ’قراردادِ مقاصد‘ (مارچ ۱۹۴۹ئ) اس فریم ورک کی بنیاد اور ماخذ ہے۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور کو منظور کرنے والی دستورساز اسمبلی نے دستور کی بنیادوں کو واضح کر دیا ہے، جنھیں جو اس وقت کے صدرِ مملکت اور دستور ساز اسمبلی کے چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو نے دستور کے مسودے کے منظور ہونے کے موقع پر اپنے اختتامی خطاب میں اس طرح بیان کیا تھا:

بہت سے تنازعات کے بعد ۲۵ سال بعد ہم ایسے مقام پر آگئے ہیں جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک دستور رکھتے ہیں اور کوئی اس بات سے انکارنہیں کرسکتا۔ یہ دستور پاکستان کے عوام کی مرضی کی نمایندگی کرتا ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت کی کسی بھی تعریف کے مطابق یہ ایک جمہوری دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ایک وفاقی دستور ہے۔ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ اسلامی دستور ہے۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی سابقہ دستور یا دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک کے دستور جہاں شاہی نظام ہے، زیادہ اسلامی دفعات ہیں۔

موصوف نے ایک بار پھر دستور کی بنیادی خصوصیات اور اس کے اساسی فریم ورک کا اس طرح اظہار کیا:

میرے دوستو! یہ دستور جو جمہوری ہے، جو وفاقی ہے اور اسلامی نظام کا جوہر اپنے اندر رکھتا ہے، اسلامی سیاسی نظام کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ دستور عدلیہ کو آزادی فراہم کرتا ہے۔ یہ دستور شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ [نیشنل اسمبلی آف پاکستان (بحیثیت دستورساز اسمبلی) ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ئ، ص ۶۹-۲۴۶۸ سرکاری رپورٹ اور بحث، اپریل ۱۹۷۳ئ۔]

صدر دستور ساز اسمبلی کے ان واضح ارشادات سے دستور کے بنیادی اور اساسی ستون  واضح طور پر سامنے آجاتے ہیں اور وہ یہ ہیں:

ا-  دستور کی بنیاد اسلام اور اسلام کا دیا ہوا سیاسی نظام ہے، جس کی حفاظت اور جس پر عمل پہلا ہدف ہے۔

ب- دستور جمہوری ہے، جو پارلیمانی نظامِ حکومت کے اصول پر قائم ہے۔

ج- دستور ایک وفاقی نظام کا تصور پیش کرتا ہے۔

د- بنیادی حقوق کی حفاظت اس دستور کا ایک ناقابلِ تنسیخ پہلو ہے۔

ہ- عدلیہ کی آزادی دستور کا پانچواں ستون ہے۔

ان پانچوں بنیادوں کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بار بار دستور کا بنیادی فریم ورک قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس حمودالرحمن نے قرارداد مقاصد کو اپنے اس تاریخی فیصلے میں grund-norm [معروف و مقبول ضابطہ] قرار دیا تھا، جس میں جنرل محمد یحییٰ خان کے اقتدار کو غاصبانہ اور ناجائز قبضہ قرار دیا گیا تھا۔ پھر عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے میں، جس میں جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو جواز بخشا گیا تھا، اور اسے دستوری ترمیم کا حق بھی بن مانگے عطا کردیا گیا تھا، تاہم یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ یہ پانچوں اصول دستور کا بنیادی ڈھانچا ہیں اور ان میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے اپنے ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے میں دستور کے بنیادی ڈھانچے کو ان اصولوں سے عبارت قراردیا ہے اور عدالت عظمیٰ کا یہی احساس ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلے میں بھی پوری شان سے نظر آتا ہے۔

کمیٹی نے ایک اولیں اصول یہ طے کیا: اگرچہ اس کے سامنے ’میثاقِ جمہوریت‘ اور تمام سیاسی جماعتوں کی تجاویز رہیں گی، لیکن اس کا سارا کام دستور کے اس فریم ورک کے اندر ہوگا۔ ترامیم کا رد و قبول اس کسوٹی پر ہوگا۔ کمیٹی نے اپنے دائرۂ کار کا اس طرح تعین کیا:

کمیٹی سترھویں ترمیم، میثاقِ جمہوریت اور صوبائی خودمختاری کو پیش نظر رکھ کر ترامیم تیار کرے گی تاکہ پاکستان کے عوام کی جمہوری اور اسلامی تمنائیں پوری ہوسکیں۔

دستوری کمیٹی نے دوسرا اصول یہ متعین کیا کہ حتی الوسع کوشش ہوگی کہ تمام ترامیم اور تجاویز اتفاق راے سے مرتب کی جائیں، اور اگر یہ ممکن نہ ہو، تو پھر کمیٹی کی کل تعداد کے دو تہائی سے فیصلہ ہوگا جسے اختلاف کرنے والے ارکان اکثریت کے فیصلے کے طور پر قبول کرلیں گے، البتہ انھیں اختیار ہوگا کہ اپنی اصولی اور ’پارٹی پوزیشن کو اعادۂ موقف کے نوٹ‘ (note of reiteration) کے ذریعے ظاہر کر دیں اور مستقبل میں اپنے موقف کے حصول کے لیے کوشش کا حق محفوظ رکھیں۔ بظاہر یہ صرف لفظی کھیل نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں اتفاق اور تعاون کے ایک نئے ماڈل کو ترویج دینے کے لیے اختلافی نوٹ (note of dissent) کے بجاے سب نے اعادۂ موقف کی اصطلاح کو اختیار کیا۔

دستوری کمیٹی نے اپنی تمام کارروائیوں کو بند کمرے کی کارروائی اس لیے رکھا کہ تمام جماعتیں پوری آزادی کے ساتھ افہام و تفہیم کے عمل کو آگے بڑھا سکیں، اور وقت سے پہلے بحث و مباحثے کا بازار گرم نہ ہو۔ اس ذیل میں صرف اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے مسئلے کو استثنا حاصل رہا۔ یہ اسی طریق کار کا نتیجہ تھا کہ اختلافات کے باوجود بڑے بنیادی امور کے بارے میں کمیٹی متفقہ تجاویز مرتب کرسکی اور پارلیمنٹ کی متفقہ منظوری کے ۱۹۷۳ء کے دستور کی ۲۸۰ میں سے ۹۵ دفعات میں مکمل اتفاق راے کے ساتھ تبدیلی کا عمل ممکن ہوسکا۔

دستوری استحکام کی طرف اھم پیش رفت

اٹھارھویں دستوری ترمیم کا سب سے بڑا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے مکمل اتفاق راے سے ۱۹۷۳ء کے دستور کو اس کے بنیادی ڈھانچے کی مکمل حفاظت اور مزید مضبوطی اور وسعت دینے کے ساتھ ۲۰۱۰ء کی ضرورتوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تقسیم اختیارات اور توازن کے سہ کونی انتظام (triconomy of power) کے بنیادی اصول کی پاسداری کی گئی ہے۔ تمام اداروں کو دستور کے فریم ورک میں اور دستور سے اختیارات حاصل کرنے والے اداروں کی حیثیت سے، اپنے اپنے وظیفے اور ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک مشکل اور حساس مسئلے، یعنی مرکز اور صوبوں میں اختیارات اور ذمہ داریوں کی تقسیم کو نئے حالات کی روشنی میں ایک متفق علیہ فارمولے کی شکل دے کر منظوری دی گئی ہے، جس کا مرکزی تصور ملکیت، انتظام، نگرانی اور احتساب میں شراکت ہے۔

اس نئے مثالیے (paradigm) کے نتیجے میں ملک کو ایک ’مرکزیت کے حامل وفاق‘ (centralized federation) کے تصور سے ہٹ کر ایک ’باہم شراکت کے حامل وفاق‘ (participatory federation) کے تصور کی طرف لایا گیا ہے، جو اٹھارھویں ترمیم کا فی الحقیقت ایک اہم کارنامہ ہے۔ اگر اس تصور پر صحیح صحیح عمل ہو تو مرکز اور صوبوں میں جو کھچائو، بے اعتمادی بلکہ تصادم کی فضا بن رہی تھی، وہ ان شاء اللہ تعاون اور اعتماد میں تبدیل ہوجائے گی، اور اس طرح مرکز اور صوبوں کے درمیان زیادہ یک جہتی پیدا ہوسکے گی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی متوقع ہے کہ مرکز گریز یا علیحدگی پسندی کی تحریکات اور غیرجمہوری راستے اختیار کرنے کے جو رجحانات سر اُٹھا رہے تھے، وہ ختم ہوسکیں گے۔ یوں معاشرے کے تمام عناصر کو جمہوری عمل کا حصہ بناکر اختیارات کی شراکت کے ذریعے ایک ایسے نظام کو فروغ دیا جاسکے گا، جس میں سب ایک ٹیم بن کر اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔ اس طرح صوبوں کی مضبوطی اور خوش حالی کے ذریعے پورے ملک کی مضبوطی، استحکام اور  خوش حالی کا حصول ایک حقیقت بن سکے گا۔ مگر یہ سب کام خلوصِ نیت، احساسِ ذمہ داری، ایثارکیشی اور پاکستانیت کے حقیقی شعور کے ساتھ ہی ممکن العمل ہے۔ اور اصل چیزیں اصولوں اور ضابطوں پر عمل ہے، محض انھیں کتاب دستور کا حصہ بنانا کافی نہیں۔

اٹھارھویں ترمیم کے پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہونے کا ایک اور تاریخی اثر یہ ہے کہ اب دستور میں جو بھی ہے، اسے پوری پارلیمنٹ اور قوم کی تائید حاصل ہے۔ جنرل محمدضیا الحق کے نام اور ریفرنڈم کے ذریعے صدر بننے کے ذکر کو دستور سے خارج کرنے اور جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم اور اقتدار کے جواز سے دستور کے اوراق کو پاک کرنے کا جو مثبت قانونی نتیجہ رونما ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ آٹھویں اور سترھویں ترامیم کے جن اجزا کو دستور میں رکھا گیا ہے، وہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور قوم کی مکمل تائید سے دستور کا مستقل حصہ بن گئی ہیں اور اب اس کی حفاظت کی ذمہ داری مکمل طور پر پارلیمنٹ اور پاکستانی قوم پر آتی ہے۔ ایسی تمام دفعات اب کسی آمرمطلق کے  نشاناتِ جبر اور کسی عدالت کے جواز کا حاصل نہیں رہے، بلکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کا جائز اور مبنی برحق حصہ بن گئے ہیں اور ان پر انگشت نمائی کا کوئی جواز باقی نہیں رہا، جو ایک خاص طبقے کا معمول بن گیا تھا۔

اس سلسلے میں دستور کی دفعہ ۲ (الف) جس کے ذریعے ’قرارداد مقاصد‘ کو دستور کا    قابلِ تنفیذ حصہ بنایا گیا تھا، دفعات ۶۲ اور ۶۳ میں جو تبدیلیاں کی گئی تھیں اور دستور کا باب ۳-الف    بہ سلسلہ وفاقی شرعی عدالت اور اس کی متعلقہ دفعات ۲۰۳-اے سے لے کر ۲۰۳-جے تک فوجی آمر کے سایے سے آزاد ہوکر دستور کی باقی دفعات کی طرح پارلیمنٹ کا فیصلہ قرار پائیں ہیں۔ یہاں پریہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایل ایف او اور سترھویں دستوری ترمیم کو تو منسوخ کیا گیا ہے، مگر اس کے برعکس آٹھویں ترمیم سے بالکل مختلف معاملہ کیا گیا ہے۔ اسے صرف ۱۹۸۵ء کی پارلیمنٹ کی توثیق ہی کی بنا پر نہیں، بلکہ ۱۹۸۸ء سے لے کر ۱۹۹۹ء تک کی پارلیمنٹوں کی تائید اور توثیق کی بنیاد پر، ۲۰۱۰ء کی ترمیمات کے ذریعے مکمل سندِجواز اور دستور کی باقی دفعات کے ہم رنگ قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ خود ’میثاقِ جمہوریت‘ میں ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں دستور کی بحالی کے مطالبے میں بھی اس امرواقعی کو امرقانونی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔

اٹھارھویں ترمیم کے بعد دستور اب ایک مکمل یک جان، یک روح وجود کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، اور یہ تجدیدِ عہد دراصل سیکولر لابی کی بڑی شکست ہے، وہ لابی کہ جس نے اس پورے عرصے میں ان دفعات کو نشانہ بنایا ہوا تھا اور خود کمیٹی کے کام کے دوران میں بھی اس طبقے نے انھیں سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ ان کی کوشش تھی کہ: اسلامی دفعات میں جو اضافے ہوئے ہیں، ان کو کسی طرح ختم یا کم از کم تحلیل (dilute) کریں، لیکن الحمدللہ وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوئے۔

ہم نے ان صفحات میں اٹھارھویں ترمیم کے تین نمایاں قانونی، اخلاقی اور سیاسی پہلوئوں کا ذکر کیا ہے یعنی (۱) ان کا مکمل اتفاق راے سے منظور کیا جانا (۲) اسلامی دفعات کو دستور کے وجود کا جزولاینفک (Integral) بنانا، اور (۳) صوبائی خودمختاری کے ایک نئے ماڈل کو دستوری شکل دینا۔ یہ دستوری کمیٹی، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک عظیم خدمت ہے۔ ایسی خدمت جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی اور اس کے نتیجے میں ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ۲۰۱۰ء میں ایک زیادہ محکم، واضح اور نکھری شکل اختیار کرلی ہے۔ توقع ہے کہ مستقبل کی منزلوں کو طے کرنے میں یہ دستور اپنی اس  ارتقا یافتہ شکل میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرسکے گا۔

پاکستان کی دستوری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک افسوس ناک صورت حال سامنے  آتی ہے۔ وہ دستور ساز اسمبلی جسے ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں منتخب کیا گیا تھا، اس کے سپرد حصولِ آزادی کے بعد دستور بنانا تھا، مگر افسوس کہ اسے قرارداد مقاصد کو منظور کرنے کے بعد دستور بنانے سے محروم رکھا گیا۔ پھر جب بڑی سخت جدوجہد کے بعد۱۹۵۴ء میں دستور کا مسودہ دستورساز اسمبلی میں لانے کا موقع آیا تو اس اسمبلی ہی کو غیرقانونی طور پر تحلیل کردیا گیا۔ پھر اس کی جگہ ایک نئی اسمبلی نے ۱۹۵۶ء میں پہلا دستور بنایا تو اس دستور کے تحت انتخابات کے انعقاد سے چند ماہ قبل اس دوسری دستورساز اسمبلی کو بھی تحلیل اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور کو منسوخ کردیا گیا اور بے رحم فوجی راج کا تاریک دور شروع ہو گیا۔

۱۹۶۲ء میں، وقت کے فوجی آمر نے ایک دستور مسلط کیا، جس سے قرارداد مقاصد حذف کردی گئی تھی اور جمہوریہ کے نام سے بھی ’اسلامی‘ کا لفظ نکال دیا گیا تھا، مگر عوامی دبائو کے تحت دوسال ہی کے اندر ان دونوں اسلامی دفعات کو بحال کرنا پڑا۔ البتہ ملک کا دستوری نظام، پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔ فیڈریشن کا نام تو باقی رہا مگر عملاً وحدانی (unitary) نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا۔ جنرل آغا یحییٰ خان نے جنرل ایوب خان کے دستور ۱۹۶۲ء کو   منسوخ کردیا اور ایک نئی دستورساز اسمبلی وجود میں لانے کے لیے عام انتخابات کا انعقاد کرایا۔ یہ دستور ساز اسمبلی بدقسمتی سے پورے پاکستان کی جگہ صرف مغربی پاکستان کے لیے دستور بناسکی، کیونکہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بھارتی جارحیت اور بنگلہ قوم پرستی کے مشترکہ عمل سے مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تھا۔

ان مایوس کن حالات میں ۱۹۷۳ء کا دستور بنانا ایک بہت بڑی کامیابی تھی، مگر اس پر دیانت داری کے ساتھ عمل کرنے سے حکمرانوں نے پہلوتہی اختیار کیے رکھی۔ بلکہ پہلی سات میں سے چھے ترامیم ایسی تھیں، جن کے ذریعے دستور کے بنیادی ڈھانچے کو مجروح کیا گیا۔ صرف دوسری ترمیم کو استثنا حاصل ہے جس کے ذریعے ’مسلم ‘کی تعریف کی گئی اور وہ پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ باقی تمام ترامیم کی پوری اپوزیشن نے مخالفت کی اور انھیں محض عددی قوت کے بل بوتے پر زبردستی دستور کا حصہ بنایا گیا۔ آٹھویں ترمیم اور پھر سترھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام کو عملاً نیم صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔ صدر مملکت کو نہ صرف پارلیمنٹ کاحصہ بنایا گیا، بلکہ اسے اسمبلی توڑنے اور اہم ترین تقرریوں کا اختیار بھی دے دیا گیا جس سے عملاً صدر کو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اٹھارھویں ترمیم کا اوّلیں ہدف دستور کو پارلیمانی نظام کی شکل میں لانا تھا۔ نیز ملک کو ایک ایسے وفاقی نظام کی صورت دینا تھا، جس میں مرکز اور صوبے اختیارات اور ذمہ داریوں میں حقیقی شراکت کرسکیں، مزید یہ کہ ۳۷سال کے تجربات کی روشنی میں دستور کو نئے حالات سے نمٹنے کے لائق بنانا تھا، تاکہ مملکت کے قیام کے مقاصد کو بہتر انداز میں حاصل کیا جاسکے۔

آیئے دیکھیں کہ اس ترمیم کے ذریعے دستور میں کون کون سی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں:

صدر، وزیراعظم اختیارات میں توازن

پارلیمانی نظام کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فیصلوں، قانون سازی اور جواب دہی کا مکمل اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے۔ انتظامیہ، پارلیمنٹ میں سے وجود میں آتی ہے اور پارلیمنٹ کے سامنے پوری طرح جواب دہ ہوتی ہے۔ وزیراعظم کاانتخاب قومی اسمبلی کرتی ہے، جو بالغ حق راے دہی کی بنیاد پر براہِ راست منتخب ہوتی ہے اور وہی اسمبلی وزیراعظم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرسکتی ہے۔ مملکت کا انتظام، کابینہ کے ذریعے ہوتا ہے جسے پارلیمنٹ ہی میں سے مقرر کیا جاتا ہے اور وہ ’اجتماعی جواب دہی‘ کے اصول پر کام کرتی ہے۔ اہم تقرریاں وزیراعظم کے مشورے کے مطابق کی جاتی ہیں اور صدرمملکت کی حیثیت بڑی حد تک علامتی ہوتی ہے، جس کے لیے اس کا غیرجانب دار ہونا بھی ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ کاروبارِ حکومت بالعموم صدر کے نام پر ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ ریاست کی علامت اور وفاق کی شناخت تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن عملاً حکومت کی ذمہ داری کابینہ انجام دیتی ہے، جو وزیراعظم، وزرا اور وزراے مملکت پر مشتمل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمانی نظام میں اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ وہ کہیں وزیراعظمی نظام نہ بن جائے۔ اس کے لیے وزیراعظم کو بھی اداراتی مشاورت کے نظام کا پابند کیا جاتا ہے اور ’صواب دیدی اختیارات‘ کو جس حد تک ممکن ہو محدود کیا جاتا ہے۔ فیصلہ سازی اور تقرریوں کے عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف اور اہلیت کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ اختیارات کا ارتکاز نہ ہو اور افراد اور اداروں کے درمیان توازن قائم رہ سکے۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ صدر نے جو اختیارات آٹھویں اور سترھویں ترامیم کے ذریعے حاصل کرلیے ہیں، ان کو بطریق احسن وزیراعظم، کابینہ اور پارلیمنٹ کی طرف منتقل کیا جائے، اور ان سے وابستہ تصورات کوغیرمبہم بنانے کے لیے الفاظ بھی وہ استعمال کیے جائیں، جو توازن اختیارات کو حقیقی بناسکیں۔

اس مقصد کے حصول کے لیے اٹھارھویں ترمیم میں حسب ذیل تبدیلیاں ہوئی ہیں:

۱- نمایاں ترین چیز دستور کی دفعہ ۵۸ (۲) ب کی تنسیخ ہے، جس کے ذریعے صدر کو مرکز میں اور صوبوں میں اس کے نمایندہ گورنر کو اسمبلیاں توڑنے کا اختیار دیا گیا تھا (۱۱۲ (۲) ب)۔ بلاشبہہ آٹھویں ترمیم میں صدر کے اس اقدام کو عدالت میں قابلِ مواخذہ بنایا گیا تھا، اور سترھویں ترمیم میں ایسے اقدام کو آپ سے آپ سپریم کورٹ کے ’جائزے‘ (ریویو) کا پابند کر دیا گیا تھا، مگر اصل چیز صدر کا وہ صواب دیدی اختیار تھا، جو اسمبلیوں پر تلوار کی طرح لٹک رہا تھا۔ اب اس اختیار کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔

۲- صدر کو اپنے صواب دیدی اختیار سے مسلح افواجِ پاکستان کے تینوں سربراہوں اور جوائنٹ چیف کے تقرر کا اختیار تھا، وہ اَب وزیراعظم کو منتقل ہوگیا ہے۔ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان، اور عبوری حکومت کے سربراہ کا تقرر کا اختیار بھی صدر کو حاصل ہوگیا تھا، لیکن اب اٹھارھویں ترمیم کے تحت یہ تقرریاں وزیراعظم کے ہاتھوں ایک پارلیمانی انتظام کی مشاورت سے واقع ہوں گی۔ گورنروں کے تقرر میں بھی اب وزیراعظم کا مشورہ فیصلہ کن ہوگا۔ اسی طرح ججوں کے تقرر کا بھی نیا نظام تجویز کیا گیا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کا سربراہ بھی اب وزیراعظم کے مشورے پر مقرر کیا جائے گا۔

۳- آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ صدرِ مملکت کو کابینہ کے تمام فیصلوں اور جملہ انتظامی امور اور قانون سازی کی تجاویز کے بارے میں مطلع رکھے، اور صدر کو بھی یہ اختیار تھا کہ وہ کابینہ سے اس کے کسی بھی فیصلے یا کسی بھی دوسرے امر کے بارے میں ازسرِنو غور کا مطالبہ کرسکتا تھا۔ ان تمام حصوں کو اب حذف کردیا گیا ہے، اور اس کے لیے ایک جامع دفعہ رکھی گئی ہے، جس کے تحت وزیراعظم تمام ملکی اور بیرونی امور پر صدر کو عمومی طور پر مطلع رکھے گا۔ مگر محض صدر کے ایما پر کوئی مسئلہ زیرغور نہیں آئے گا۔

۴- ایک اہم تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ دفعہ ۹۹ میں انتظامِ حکومت، صدر کے بجاے    مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ ایسی ہی تبدیلی گورنر اور صوبائی حکومت کے ذیل میں بھی کی گئی ہے۔ نیز حکومت کی جانب سے ’حکومتی قواعد کار‘ (rules of business) مرتب کرنے اور   ان میں تبدیلی لانے کی ذمہ داری بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو حاصل ہوگئی ہے، جن کے سربراہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہوں گے۔ صدر یا گورنر کا دخل اس باب میں بھی ختم کردیاگیا ہے۔

۵- دستور کی دفعہ ۴۸ میں صدر کو وزیراعظم کے مشورے پر ۱۵اور ۱۰ دن کے اندر اندر عمل کرنے کا پابند کردیا گیا ہے۔ ایسی ہی پابندی گورنر پر بھی عائد کی گئی ہے۔

۶- صدر کو ریفرنڈم کا جو صواب دیدی اختیار حاصل تھا، اب وہ بھی ختم کردیا گیا ہے، بلکہ  کسی ایسے فیصلے کے لیے وزیراعظم کو بھی پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی تائید کا پابند کیا گیا ہے۔

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح صدر کے اختیارات کو محدود اور اس کے مقابلے میں وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو مضبوط کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، جب کہ صدر کی پارلیمنٹ کے سامنے کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ وہ صرف ہر سال سیشن کے آغاز پر پارلیمنٹ سے خطاب کرتا ہے اور پارلیمنٹ اگر چاہے تو اس کا مواخذہ کرسکتی ہے، لیکن صدر کی عمومی جواب دہی کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔

صدر آصف علی زرداری صاحب بار بار یہ احسان جتا رہے ہیں کہ: ’’میں نے پارلیمنٹ کو اور وزیراعظم کو اپنے اختیارات منتقل کر دیے ہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوجی صدور نے یہ اختیارات جبراً حاصل کیے تھے اور ان غصب شدہ اختیارات کی واپسی ’میثاقِ جمہوریت‘ اور تمام سیاسی جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منشور کا بنیادی حصہ تھا۔ اٹھارھویں ترمیم، صدر زرداری صاحب کا عطیہ نہیں ہے بلکہ عوامی مینڈیٹ کو پورا کرنا ہے۔ صدرموصوف نے دو سال تک ان اختیارات کی منتقلی میں مسلسل لیت و لعل کی، جس کی جواب دہی ان کو کرنا چاہیے، نہ کہ وہ اب دو سال بعد اس تبدیلی کو اپنا ذاتی احسان قرار دیں۔

واضح رہے کہ تیرھویں ترمیم کے موقع پر بھی یہ اختیارات اس وقت کے صدر جناب فاروق احمد خاں لغاری سے وزیراعظم کو منتقل ہوئے تھے اور صدر مملکت نے بخوشی اس ترمیم پر دستخط کردیے تھے، تب انھوں نے کوئی احسان نہیں جتایا تھا۔

پارلیمان کی بالادستی کے لیے نیا نظام

پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام اور اہم تقرریوں کو خود وزیراعظم کے صوابدیدی اختیار کے دائرے سے نکال کر اداراتی مشاورت کے ذریعے انجام دینے والے نظام کا اختیار کیا جانا، اٹھارھویں ترمیم کے حوالے سے یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ اس کے لیے جو نیا نظامِ کار اختیار کیا گیا ہے، وہ پارلیمنٹ کو زیادہ کارفرما قوت بنانے اور وزیراعظم کے اختیارات کو محدود کرنے کا باعث ہوگا:

۱- سب سے اہم تبدیلی الیکشن کمیشن کے تصور اور اس کے تقرر کے طریق کار میں ہے، جس کے نتیجے میں الیکشن کا نظام زیادہ غیر جانب دار اور شفاف ہوسکے گا، جو جمہوریت کی روح ہے۔ اس سلسلے میں پہلی تبدیلی یہ ہے: اب الیکشن کمیشن ایک مستقل ادارہ ہوگا اور اس میں مرکزی کردار صرف الیکشن کمشنر کا نہیں بلکہ پورے کمیشن کا ہوگا، جو چیف الیکشن کمشنر اور چار ججوں پر مشتمل ہوگا، اور وہ چاروں صوبوں سے لیے جائیں گے۔ ان کا تقرر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف باہمی مشورے سے کریں گے اور وہ تین نام ایک پارلیمانی کمیٹی کو دیں گے، جو ۱۲ افراد پر مشتمل ہوگی، جس میں ایک تہائی ارکانِ سینیٹ ہوں گے اور یہ کمیٹی تجویز کردہ ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرے گی۔ اسی طرح کمیشن کا تقرر پانچ سال کے لیے ہوگا اور اس میں توسیع نہیں ہوسکے گی۔

۲- پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کا تقرر بھی وزیراعظم، قائد حزب اختلاف کے مشورے سے کرے گا۔ یوں، الیکشن کے نظام کو شفاف اور قابلِ اعتماد بنانے اور سروسز کے انتخاب کے عمل کو حکومتِ وقت کی گرفت سے نکالنے اور معیار و قابلیت کے نظام کو ترویج دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

۳- اسی طرح ججوں کے تقرر کے نظام کو ہرسطح کے ’صواب دیدی اختیار‘ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے سینیر جج کے چیف جسٹس بننے کے اصول کے تسلیم کیے جانے اور اس اہم ترین تقرری میں انتظامیہ کی مداخلت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ نئے ججوں کے تقرر کر لیے برتری عدالت کو حاصل ہے، جس میں عدالتی کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہوگا۔ اس میں سپریم کورٹ کے دو سب سے سینیر جج اور سپریم کورٹ کا ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج ہوگا، جسے چیف جسٹس آف پاکستان باقی دو ججوں کے مشورے سے مقرر کریں گے۔ باقی تین افراد وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کا ایک سینیرایڈووکیٹ جسے پاکستان بار کونسل نامزد کرے گی۔ اس طرح سات میں سے چار جج ہوں گے۔ یہ عدالتی کمیشن، نئے ججوں کے لیے جو نام تجویز کریں گے، وزیراعظم اپنے صواب دیدی اختیار سے تقرر کے لیے صدر کو نہیں بھیجیں گے، بلکہ ایک پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے، جس میں چار ارکان حکومتی پارٹی سے اور چار حزبِ اختلاف سے ہوں گے۔ نیز اُن میں سے چار قومی اسمبلی اور چار سینیٹ کے ارکان ہوں گے، جنھیں ۱۴ دن کے اندر اندر تجویز کردہ نام کی توثیق کرنا ہوگی اور صرف تین چوتھائی اکثریت سے انھیں نام رد کرنے کا اختیار ہوگا۔ گویا کہ اس طرح ہرسطح پر صواب دیدی اختیار کو ختم کرکے اداراتی مشاورت کا نظام قائم کیا جا رہا ہے اور نئے ججوں کے ناموں کا اوّلیں انتخاب عدلیہ کے توسط سے ہوگا۔

ججوں کے تقرر پر اعتراض کی حقیقت

اٹھارھویں ترمیم کی اس تجویز پر کچھ حلقوں کی طرف سے سخت اعتراضات کیے جارہے ہیں اور اسے عدلیہ کی آزادی کے تصور سے بھی متصادم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان اعتراضات کا مختصر جائزہ لے لیا جائے:

پہلی اصولی بات یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور عدالت کے لیے ججوں کا تقرر دو الگ الگ امور ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کا عمل ججوں کا عدلیہ کا حصہ بننے کے بعد شروع ہوتا ہے، اس کا تعلق ججوں کے تقرر سے نہیں۔ ججوں کے تقرر میں دو ہی چیزیں دیکھی جاتی ہیں: ایک قابلیت، دوسرے کردار، دیانت داری اور راست بازی___ عدلیہ کی آزادی کی ایک قابلِ ذکر مثال امریکا سے سامنے آتی ہے۔ یاد رہے امریکا میں ججوں کا تعین صدرِ مملکت کی تجویز پر سینیٹ کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن تقرر کے اس طریقے کو آج تک کسی نے عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار نہیں دیا اور عدلیہ نے بھی اپنی آزادی کو برقرار رکھا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک میں ججوں کے تقرر کے طریق کار میں پارلیمنٹ کا کردار ایک واضح حقیقت ہے۔ جرمنی میں تومرکزی اور صوبائی اسمبلیاں باقاعدہ ووٹ سے ان کو منتخب کرتی ہیں۔ فرانس، اٹلی، ہالینڈ، جنوبی افریقہ، سنگاپور، تقریباً ۲۰ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں وزیرقانون، پارلیمنٹ کے نمایندوں اور قانون سے وابستہ اداروں کے نمایندوں کا اس میں دخل ہے لیکن اسے کہیں بھی عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار نہیں دیا گیا اور نہ ججوں کے کسی بھی عمل کے ذریعے منتخب یا مقرر ہوجانے کے بعد انھوں نے اپنی آزاد حقیقت کو مجروح ہونے دیا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ ججوں کے تقرر کے سلسلے میں پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بدقسمتی سے صرف چیف جسٹس کی سفارش پر تقرر، یا وزیراعظم اور وزیرقانون کی تجویز پر تقرر، دونوں ہی کا ریکارڈ کوئی بہت قابلِ فخر مثال پیش نہیں کرتا۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب نے اپنی خودنوشت میں خود اپنے تقرر کا جو احوال بیان کیا ہے، اور اس میں خود زرداری صاحب کا کردار ناقابلِ رشک رہا ہے۔ اسی طرح خود ’ججوں کے کیس‘ (۱۹۹۶ئ) نے جو ایک کلاسیک حیثیت حاصل کرچکا ہے، جو معیار مقرر کیا تھا، اس پر اس فیصلے دینے والے جج بھی پورے نہیں اُتر رہے تھے۔

ان حالات میں ایک نئے تجربے کی تجویز کو ابتدا ہی میں اس طرح مطعون کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس پر تجربے کی ضرورت ہے اور اگر تجربے کی روشنی میں کسی رد و بدل کی ضرورت ہو تو اس کا دروازہ بھی کھلا ہے۔ خود پاکستان بار کونسل نے کمیٹی کو جو تجویز بھیجی تھی، اس میں ۱۹افراد پر مشتمل کمیشن کی تجویز دی گئی تھی، جن میں سے سات جج اور چھے وکیل اور چھے ارکانِ پارلیمنٹ رکھے گئے تھے۔ گویا اس کمیشن میں جج اقلیت میں ہوتے اور وکیل اور پارلیمنٹ کے ارکان سات ججوں کے مقابلے میں ۱۲ بن جاتے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ کے چھے ارکان کو اس کمیشن میں رکھا جاسکتا ہے تو ایک پارلیمانی کمیٹی کے بننے سے کون سی انہونی ہو جائے گی۔

اس مسئلے پر جذباتی، گروہی یا طبقاتی انداز میں غور نہیں ہونا چاہیے اور اٹھارھویں ترمیم کی تجویز پر کھلے دل سے عمل کرنا چاہیے۔ بلاشبہہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کی بھی ذمہ داری بہت بڑی ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان کو میرٹ اور اصول پرستی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، لیکن چشم زدن میں اس نظام کو دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دینا مبالغہ آمیز حد تک زیادتی ہے۔

اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو زیادہ مؤثر بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں، اور اس سلسلے میں دستور کی دفعہ ۲۰۰ اور ۲۰۳ میں جو ترامیم کی گئی ہیں، ان سے ان شاء اللہ عدلیہ مستحکم اور آزاد ہوگی اور ججوں کے تبادلوں کے سلسلے میں اگر وہ دو سال سے کم مدت کے لیے ہو تو ان کی مرضی کے خلاف تبادلہ اور تبادلہ قبول نہ کرنے پر ریٹائرمنٹ، عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف تھا  اور اسے اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے ختم کیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کو جس طرح  بے توقیر کیا گیا تھا، ان کا تقرر، تبادلہ، برخاستگی جیسی ذلت آمیزی اور ان کو اپنی گرفت میں رکھنے  کے لیے، بطور سزا ان کی مرضی کے بغیر ان کو اس عدالت میں بھیجنے کے تمام امکانات کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے جج اب عدالت عالیہ کے باقی تمام ججوں کے مساوی ہوں گے اور ان کو وہی تحفظ حاصل ہوگا جو دوسروں کو حاصل ہے۔ جس کے بغیر عدلیہ کی آزادی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ یہ تمام پہلو مثبت ہیں اور ان کو نظرانداز کرنا قرینِ انصاف نہیں۔

بنیادی حقوق کا تحفظ

اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کو مضبوط اور مستحکم کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم تبدیلی دستور کی دفعہ ۲۵-اے کا اضافہ ہے، جس کی رُو سے اب ملک کے ہر بچے کے لیے بنیادی تعلیم (۵ سے ۱۶ سال تک) مفت اور لازمی قرار دی گئی ہے اور یہ حق حاصل کیا جاسکے گا۔ یہ محض پالیسی کی سفارش نہیں ہے۔ اسی طرح حصولِ اطلاعات کا حق بھی کرپشن کو روکنے کے نظام کو شفاف بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔اسی طرح right to fair trial and dur process of law پہلی مرتبہ ایک دستوری حق کے طور پر کتابِ دستور میں لکھا گیا ہے۔ دستور توڑنے یا معطل کرنے یا اس میں معاونت کرنے والوں اور اس عمل کو سندِجواز دینے والوں کو دستور کی دفعہ ۶ کی گرفت میں لایا گیا ہے۔ بلاشبہہ صرف دستور میں ’غداری کا ارتکاب‘ جیسے الفاظ کے اندراج سے فوجی طالع آزمائوں اور ان کے سیاسی اور خود عدالتی پشتی بانوں کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جرم کے ان تمام پہلوئوں کے دستور میں آنے کا ایک ’سدِجارحانہ‘ (deterrent) کردار ضروری ہے۔ البتہ آمریت کا راستہ روکنے کا اصل ذریعہ تو راے عامہ کی قوت، اداروں کا استحکام، سیاسی جماعتوں کا اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا، اور سب سے بڑھ کر اچھی حکمرانی کا وجود ہے۔ آزاد ذرائع ابلاغ بھی اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں دفعہ ۶ کو وسعت دینا اور اس جرم کے تمام پہلوئوں پر اس کو محیط کردینا ایک مفید خدمت ہے۔

صوبائی خودمختاری

اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے ایک انقلابی اقدام ’مشترک لسٹ‘ کا خاتمہ اور مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقاتِ کار کی نئی بساط بچھانا، ایک مستحسن قدم ہے جس کے نتیجے میں اختیارات اور وسائل، صوبوں کی طرف منتقل ہوں گے۔ قانون سازی کی مرکزی فہرست کے حصہ دوم کو وسعت دی گئی ہے اور مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) کو ایک مؤثر اور کارفرما ادارہ بناکر حکمرانی اور فیصلہ سازی میں مرکز اور صوبوں کے اشتراک کا ایک نیا نظام تجویز کیا گیا ہے۔ قومی اقتصادی کونسل (NEC)کو بھی مؤثر اور متحرک بنایا گیا ہے۔ ’قومی مالیاتی اوارڈ‘ کو صوبوں کو وسائل کی فراہمی کے لیے ایک نیاآہنگ دیا گیا ہے۔ ملک کے وسائل پر مرکز اور صوبوں میں ملکیت اور انتظام و انصرام کے اشتراک کا بندوبست تجویز کیا گیا ہے۔ پن بجلی کے منصوبوں کے سلسلے میں متعلقہ صوبے سے مشاورت لازم کی گئی ہے اور مرکز اور صوبوں میں تعلقاتِ کار کے نظام کو بالکل ایک نئی جہت دی گئی ہے۔

اگر ان تجاویز پر ایمان داری سے عمل ہوتا ہے اور مرکز اور صوبے اپنے اپنے کام ذمہ داری سے انجام دیتے ہیں، تو اگلے چند برسوں میں ملک کی قسمت بالکل بدل سکتی ہے۔ وسائل کا بہائو مرکز سے صوبوں کی طرف مڑسکتا ہے۔ بالکل نچلی سطح پر معاشی اور سیاسی گرمیوں میں غیرمعمولی اضافہ واقع ہوسکتا ہے، جو محرومیوں کو دُور کرنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح صوبوں کی نمایندگی، مرکز ہی نہیں تمام مرکزی اداروں میں یقینی بنانے اور ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کا انتظام بھی دستوری ترامیم میں تجویز کیا گیا ہے۔

صوبائی خودمختاری کا نیا مثالیہ جو ان دستوری سفارشات میں دیا گیا ہے، اپنی اصل کے اعتبار سے ۱۹۷۳ء کے بعد ایک انقلابی آئینی اقدام ہے۔ خدا کرے کہ اس پر صحیح خطوط پر عمل ہوسکے۔ نتائج کا اصل انحصار عمل پر ہے اور ان ترامیم کے بعد اب مرکز اور صوبوں، سب کا       بڑا امتحان ہے۔

اسلامی دفعات

دستور کی اسلامی دفعات کے سلسلے میں اٹھارھویں ترمیم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ۱۹۷۳ء اور ۱۹۸۵ء کی دفعات کو باہم یک جان کردیا ہے، اور اس طرح دستور کی اسلامی دفعات زیادہ مؤثر ہوگئی ہیں۔ سیکولر قوتوں کو اس سلسلے میں جو پسپائی ہوئی ہے، وہ اسلامیانِ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے، لیکن اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صرف ان دفعات کو مستحکم ہی نہیں کیا گیا ہے، بلکہ کئی چیزیں ایسی ہیں جو شدید مزاحمت کے باوجود حاصل کی گئی ہیں، مثلاً:

۱- وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونا دستور کے متن میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس سے پہلے صرف وزیراعظم کے حلف میں اس کا ذکر تھا، جو ایک بالواسطہ کیفیت تھی۔

۲- سب سے اہم چیز وفاقی شرعی عدالت کی حیثیت، اس کے ججوں کی آزادی اور ان کو توہین آمیز حد تک جس بے وقعتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، اسے ختم کرنا ہے۔ حکومت جس جج کو چاہے اس عدالت میں اُس کی مرضی کے خلاف بھیج سکتی تھی۔ اس عدالت میں اگر حکومت کسی جج سے ناخوش ہے، تو جس وقت چاہے اس کوتبدیل کرسکتی تھی، فارغ کرسکتی تھی، کوئی دوسرا کام اس کو  سونپ سکتی تھی۔ ان کو ملازمت کا کوئی تحفظ حاصل نہ تھا اور عملاً بھی یہ سب کچھ ماضی میں کیا گیا۔ جس جج حتیٰ کہ چیف جسٹس نے بھی اگر حکومت کے اشاروں کو نظرانداز کیا، تو اسے یک بینی و دوگوش فارغ کر دیا گیا۔ اب شرعی عدالت کے جج بھی عدالت عالیہ کے ججوں کے مساوی ہوں گے۔ ان کا حلف بھی وہی ہوگا۔ ان کے تقرر، تبادلے اور برطرفی کے لیے وہی قانون لاگو ہوگا۔ پہلی مرتبہ وفاقی شرعی عدالت ایک حقیقی، آزاد اور بااختیار عدالت بن سکے گی۔

۳- اس کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت میں علماے کرام سے بطور جج تقرر کے لیے جو مطلوبہ دینی اور علمی صلاحیت درکار تھی، اسے بھی بہتر بنایا گیا ہے۔ پہلے کسی بھی شخص کو جسے اسلامی علوم کا ماہر قرار دیا جائے جج مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اب اس کے لیے وہی استعداد اور صلاحیت مقرر کردی گئی ہے جو دستور میں ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ (IIC) کے علما ارکان کے لیے ہے، یعنی ۱۵سال کا تجربہ، اسلامی قانون کی تعلیم، تحقیق یا افتا کا تجربہ۔

۴- اسلامی نظریاتی کونسل کے سلسلے میں بھی ایک ترمیم یہ کی گئی ہے کہ کونسل میں علما ارکان کی تعداد کل تعداد کا کم از کم ایک تہائی (۳/۱) ضروری ہے۔ پہلے ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد چار تھی، جو اس وقت تو مناسب تھی جب کونسل کے کُل ارکان آٹھ ہوتے تھے، مگر اب جب کہ وہ ۲۰ہیں، ان میں چار کی تعداد بہت کم تھی۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے علما کی کم سے کم تعداد ایک تہائی مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح علما اور مختلف مکاتبِ فکر کی بہتر نمایندگی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

۵- دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ سیکولر لابی کا خاص ہدف تھے، لیکن نہ صرف یہ کہ ان میں اسلامی نقطۂ نظر سے کوئی تبدیلی یا تخفیف نہیں کی جاسکی، بلکہ دفعہ ۶۳ -ایف میں، جس کو بہت   نشانہ بنایا گیا، ایسی ترمیم کی گئی ہے جس سے اس کے غلط استعمال کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ ایک شخص کی امانت، دیانت اور اچھی شہرت کے سلسلے میں نااہلی کو عدالتی فیصلے سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔

آرڈی ننس سے قانون سازی کی حوصلہ شکنی

پارلیمنٹ کا اصل کام قانون سازی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون سازی کے لیے بے محابا آرڈی ننس جاری کرنے کا آسان راستہ اختیار کرلیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ ایک قسم کی ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ گئی ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں انتظامیہ کو آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں۔ امریکا اور یورپ میں تو اس کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ برعظیم پاک و ہند میں برطانیہ نے اپنے دورِاقتدار میں آرڈی ننس کے ذریعے حکمرانی کا راستہ اختیار کیا۔ نتیجتاً جب اُن کے جانشین یہاں پر حکمران بنے تو انھوں نے بھی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں قانون سازی کی یہ قبیح صورت جاری رکھی۔ تاہم اس میں ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ بھارت میں ۱۰۰ میں سے بمشکل ۱۰ قوانین، آرڈیننس کے ذریعے اور ۹۰ معمول کی قانون سازی کے ذریعے کتابِ قانون کا حصہ بنتے ہیں، جب کہ پاکستان میں یہ تناسب بالکل اُلٹ ہے، یعنی ۸۰فی صد سے زیادہ قوانین آرڈی ننس کے ذریعے مسلط کیے جاتے ہیں اور ایک ہی آرڈی ننس کو بلاترمیم یا کچھ نمایشی تبدیلی کے بعد بار بار نافذ کیا جاتا رہتا ہے۔ بڑے مفصل قوانین کو نافذ کرنے کے لیے اسمبلی کے اجلاس کی برخاستگی کا انتظار کیا جاتا ہے۔ پھر اسمبلی کے اجلاس کے ختم ہونے کے ۲۴گھنٹے کے اندر ہی آرڈی ننسوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں جب حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہیں تو قانون سازی بذریعہ آرڈی ننس کی مخالفت کرتی ہیں اور جب اقتدار میں آتی ہیں تو بڑی ڈھٹائی اور سخت بے رحمی کے ساتھ اس مکروہ طریقے کو روا رکھتی ہیں۔ میں نے پوری  دل سوزی کے ساتھ دستوری کمیٹی میں آرڈی ننس کے اس طرح مسلط کرنے کا دروازہ بند کرنے کی تجویز پیش کی، لیکن بڑی مشکل سے جو کچھ حاصل کیا جاسکا، وہ یہ ہے:

۱- پہلے جب سینیٹ برسرِکار (in session) ہو، اس وقت بھی آرڈی ننس نافذ کیا جاسکتا تھا۔ صرف اسمبلی کے سیشن کے دوران یہ پابندی تھی کہ آرڈی ننس نہیں لاگو کیا جاسکتا (دفعہ ۸۹)۔ اب فرق یہ پڑا ہے کہ اگر سینیٹ بھی سیشن میں ہو تو آرڈی ننس نہیں آسکے گا۔

۲- ایک ہی آرڈی ننس کو بار بار نافذ کرنا پارلیمنٹ کے ساتھ مذاق ہی نہیں، اس کی توہین بھی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے بھی اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا کئی بار اظہار کیا ہے، مگر لاحاصل۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کم از کم یہ پابندی لگ گئی ہے کہ حکومت ایک ہی آرڈی ننس کو دوبارہ اپنی مرضی سے جاری نہیں کرسکتی۔ اگر اس کی مدت میں توسیع ناگزیرہے تو اس کے لیے پارلیمنٹ  کے کم از کم ایک ایوان کی قرارداد لازم قرار دی گئی ہے، اور پارلیمنٹ کو بھی پابند کردیا گیا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ توسیع نہیں دے سکتی۔

توقع ہے کہ اس کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کے عمل میں اضافہ ہوگا اور آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی میں کمی واقع ہوگی۔

سینیٹ کے اختیارات میں اضافہ

پارلیمنٹ کا ایوانِ بالا (سینیٹ) فیڈریشن کا مظہر اور صوبوں سے برابری کی بنیاد پر نمایندگی کی وجہ سے ان کے حقوق کے محافظت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کو قومی اسمبلی کے مساوی حیثیت تو نہیںدی جاسکی، لیکن نصف درجن سے زیادہ ترامیم کے ذریعے اس کے اختیارات اور کردار میں خاطرخواہ اضافہ ضرور کیا گیا ہے۔ اب سینیٹ سال میں ۹۰دن کے بجاے ۱۱۰ دن لازمی سیشن میں رہے گا۔ متعدد سرکاری اور پارلیمانی رپورٹوں کے بارے میں بھی یہ لازم کیا گیا ہے کہ ان کو قومی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ میں بھی پیش کیا جائے، تاکہ  سینیٹ ان پر اپنی راے دے سکے۔

جیساکہ اُوپر عرض کیا گیا ہے، سینیٹ جب سیشن میں ہوتو اس وقت بھی آرڈی ننس کے اجرا پر پابندی لگادی گئی ہے۔ اہم حکومتی پارلیمانی کمیٹیوں میں سینیٹ کو نمایندگی دی گئی ہے، یعنی ججوں کے تقرر کی کمیٹی اور الیکشن کمیٹی کے ارکان کی نامزدگی کی ذمہ دار کمیٹی وغیرہ میں۔ اسی طرح بجٹ، فنانس بل اور منی بل کے لیے بھی اب سینیٹ میں غوروبحث اور اپنی تجاویز دینے کے لیے سات کے مقابلے میں ۱۴ دن مقرر کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ سینیٹ کی سفارشات پر غور کرے گی، گو اس پر پابندی لازم نہیں ہے۔

اپنے جوہر کے اعتبار سے ایک بڑی اہم ترمیم یہ کی گئی ہے کہ اب مرکزی کابینہ اور وزیراعظم، قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کے سامنے بھی جواب دہ ہوں گے۔ گو وزیراعظم کے انتخاب کا فریضہ صرف قومی اسمبلی ہی ادا کرے گی، لیکن حکومت کی جواب دہی کو اب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںتک وسعت دے دی گئی ہے___ اس سلسلے کی تمام ترامیم کے نتیجے میں توقع ہے کہ سینیٹ کا کردار بڑھے گا، قانون سازی کا عمل بہتر ہوسکے گا اور صوبوں کی آواز کو زیادہ وقعت اور اہمیت حاصل ہوسکے گی۔ صوبائی خودمختاری کے نئے ماڈل پر عمل درآمد کے لیے سینیٹ کا کردار بہت کلیدی اہمیت کا حامل ہے اور ان سب ترامیم کا حاصل فیڈریشن کے باہم اور متوازن تعلقاتِ کار کے تصور کو ایک قابلِ عمل صورت دینا ہے۔

ترمیم پر اعتراضات

اٹھارھویں دستوری ترمیم پر پانچ اہم اعتراضات سیاسی، صحافی، اور قانونی حلقوں کی طرف سے ہو رہے ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں چند گزارشات پیش ہیں۔

  • ججوں کے تقرر کا نیا نظام: سب سے بڑا اعتراض ججوں کے تقرر کے نئے نظام پر کیا جا رہا ہے۔ گو اس سلسلے میں سیاسی اور قانونی حلقوں کی راے منقسم ہے لیکن ایک قابلِ ذکر حلقے نے اس پر اعتراض کیا ہے۔ خود دستوری کمیٹی نے ان اعتراضات پر سنجیدگی سے غور کیا اور جوڈیشل کمیشن کو ترکیب میں ایسی تبدیلیاں کیں، جن کی وجہ سے چیف جسٹس اور ججوں کی راے کو بالاتر حیثیت حاصل ہوسکی، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ ایک اچھا تجربہ ہے، تاہم اس بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

بدقسمتی سے ماضی میں ججوں کے تقرر کے سلسلے میں دو انتہائی صورتیں رہی ہیں، یعنی: وزیراعظم کی سفارش پر تقرر یا چیف جسٹس کی سفارش پر تقرر۔ ان کے ذریعے اچھے جج بھی آئے ہیں اور ایسے جج بھی مقرر کیے گئے ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کے لیے نیک نامی کا باعث نہیں بنے۔ اس لیے اس نئے تجربے کو جس کے خدوخال اور اس کے دلائل کا ذکر ہم اُوپر کرچکے ہیں، پوری احتیاط سے آگے بڑھانا ہوگا اور دونوں اداروں (جوڈیشل کمیشن اور پارلیمنٹ کی جوڈیشل تقرر کی کمیٹی) کو اپنی ذمہ داری پوری دیانت اور امانت سے ایک شفاف عمل کے ذریعے انجام دینا ہوگی۔ عدلیہ کی آزادی کا باب ججوں کے تقرر کے بعد شروع ہوتا ہے، اور کمیٹی کی کوشش رہی ہے کہ ہرسطح پر ’صواب دید‘ کی جگہ اداراتی مشاورت کے نظام کو رائج کیا جائے۔ اس نظامِ کار کو تجویز کرتے وقت جمہوری ممالک کے تجربات کو سامنے رکھا گیا ہے۔ البتہ اب کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی دونوں کی آزمایش اور امتحان ہے۔ گو ہماری نگاہ میں جو نظام تجویز کیا ہے، ان خطرات اور منفی پہلوئوں کے علی الرغم جن کی نشان دہی کی جارہی ہے، ماضی کے برعکس اس نظامِ کار میں خوبی کے امکانات زیادہ ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جن خطرات کے بارے میں متنبہ کیا جا رہا ہے، متعلقہ ادارے اور ذمہ داران ان کا پورا ادراک کریں اور ان سے بچنے کی ہرممکن کوشش کریں۔ نیتوں پر حملہ صحیح رویہ نہیں۔

  • صوبہ سرحد کا نیا نام: دوسرا مسئلہ صوبہ سرحد کے نئے نام کا ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک مشکل مسئلہ تھا۔ نام کی تبدیلی پر کسی کو بھی اعتراض نہیں تھا۔ البتہ کیا نام ہو، اس پر اتفاق راے موجود نہیں تھا، اور بالآخر جو نام مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کی مشترک تجویز پر اختیار کیا گیا، اس کو صوبے کے ایک بڑے حصے نے خوشی سے قبول کیا، اور دوسرے حصے نے اس پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس ردعمل میں اتنی شدت سامنے آئی جس کا پہلے سے کسی کو بھی ادراک نہیں تھا۔    ہم لسانی اور علاقائی قومیت کی بنیاد پر صوبوں کی تشکیل کو صحیح نہیں سمجھتے، لیکن نام کے معاملے میں علاقے کے لوگوں کی پسند کو اہمیت دیتے ہیں۔

قرآن پاک میں بھی یہ اشارہ موجود ہے کہ باہمی تعارف اور پہچان کے لیے گروہوں اور قوموں کے نام ہوسکتے ہیں، لیکن معاشرے کی بنیاد اور معیار اور کمال کا تعلق شناخت کے لیے مقرر کردہ ناموں سے نہیں تقویٰ اور اخلاقی بالیدگی پر ہے (وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ طالحجرات ۴۹:۱۳) چونکہ صرف ’پختون خواہ‘ سے ایک خاص زبان اور قوم کا گہرا تعلق تھا، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی تجویز پر جب کمیٹی کے ارکان کی اکثریت نے خیبرپختون خواہ پر اتفاق کرلیا تو اختلافی نقطۂ نظر رکھنے کے باوجود ہم نے بھی اسے قبول کرلیا۔

اس معاملے میں اے این پی نے دستوری ترمیم کی مکمل منظوری سے بھی پہلے جس طرح فتح کے شادیانے بجائے، ان کے اس عاجلانہ اور فاتحانہ انداز سے صوبے کے دوسرے لوگوں کو دُکھ پہنچا اور اشتعال انگیز فضا بن گئی۔ ساتھ ہی ہزارہ کے لوگوں کا سخت ردعمل سامنے آیا، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر ستم بالاے ستم کہ صوبائی انتظامیہ نے ہزاروںلوگوں کی طرف سے اظہار راے کے جمہوری حق کو کچلنے کے لیے جس طرح قوت کا وحشیانہ استعمال کیا، اس نے حالات کو تیزی سے بگاڑ دیا۔ اس لیے ہم مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ مسئلے کا سیاسی حل افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں اور، فاتح اور مفتوح کی ذہنیت سے بالاتر ہوں۔ کوئی مسئلہ لاینحل نہیں، جذبات کا اظہار بجا، لیکن ان کو حدود میں رکھنا بھی ضروری ہے۔ نام کے مسئلے پر بھی مزید مذاکرات ہوسکتے ہیں اور ہزارہ کے لوگوں کے دوسرے تحفظات اور مطالبات کی روشنی میں تبدیلیاں بھی ممکن ہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہیں۔

  • پارٹی کے اندر انتخاب کی پابندی:تیسرا مسئلہ دستور کی دفعہ ۱۷ (۴) کا ہے، جو سترھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنی تھی اور جس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے اندر انتخاب کی پابندی کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ یہ ایک اچھی تجویز تھی اور سیاسی جماعتوں کے قانون میں بھی یہ شرط موجود ہے۔ کمیٹی نے قانون میں اس شرط کے موجود ہونے کو کافی سمجھا اور سترھویں ترمیم سے نجات کے شوق میں اس دفعہ کو خارج کر دیا۔ میں اپنے آپ کو اس تساہل کی ذمہ داری سے مبرا نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس شق پر کمیٹی نے اس زمانے میں فیصلہ کیا، جب میں علاج کے لیے انگلستان گیا ہوا تھا۔ میری نگاہ میں اس شرط کو دوبارہ دستور میں لانا مفید ہوگا اور قانون میں جو شرط موجود ہے، وہ اس طرح اور بھی مستحکم ہوجائے گی۔ اس سہو کا دفاع یا جواز پیش کرنا غیرضروری ہے اور آیندہ دستوری ترمیم کے ذریعے اس کی بہرصورت اصلاح کرنی چاہیے۔
  • اسمبلی سے رکنیت کے خاتمے کا اختیار: چوتھا مسئلہ سیاسی جماعت کے سربراہ کے اس اختیار سے متعلق ہے کہ وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی شکل میں ایک رکن اسمبلی کو سیٹ سے محروم کرنے کی سفارش سینیٹ کے چیئرمین یا اسمبلی کے اسپیکر کو کرسکتا ہے، اور ایسی صورت میں ایک متعین مدت کے اندر چیئرمین سینیٹ یا اسپیکراسمبلی کو اسے الیکشن کمیشن کو بھیجنا ہوگا۔

ہمارے خیال میں اس شق پر تنقید پوری ذمہ داری سے نہیں کی جارہی۔ جس طرح سیاسی جماعتوں میں قیادت کا انتخاب اور جمہوری روایات کا احترام ضروری ہے، اسی طرح پارٹی میں ڈسپلن بھی ایک ضروری شے ہے۔ دستور میں دفعہ ۶۳ (اے) کا اضافہ، پارٹی سے ’بغاوت‘ یا    ’بے وفائی‘ کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس میں جو ترامیم اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کی گئی ہیں، وہ صرف دو ہیں: ایک یہ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی جگہ پارٹی کے سربراہ کو  یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں دو آرا ہوسکتی ہیں، لیکن پارٹی ڈسپلن کے نقطۂ نظر سے پارٹی کے سربراہ کو اس کا اختیار دینا کسی اعتبار سے بھی جمہوری اصولوں سے متصادم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ اس دفعہ میں یہ بات بھی وضاحت سے لکھی گئی ہے کہ:

بشرطیکہ اعلان کرنے سے پہلے پارٹی کا سربراہ ایسے ممبر کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ وجہ بتائے کہ اس کے خلاف ایسا اعلان کیوں نہ کیا جائے۔

اس طرح یہ اعلان دفاع کا حق دیے جانے سے مشروط ہے۔ لیکن دوسری شرط اور بھی اہم ہے کہ یہ اقدام محض اختلاف راے یا عام معاملات، حتیٰ کہ قانون سازی کے معاملات میں اختلاف کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا۔ اس اقدام کا جواز صرف اس وقت ہے، جب ایک رکن پارٹی کے فیصلے کے خلاف صرف چار امور پر ووٹ دیتا ہے یا پارٹی کی ہدایت کے باوجود ووٹ دینے سے احتراز کرتا ہے، اور وہ یہ ہیں: lوزیراعظم یا وزیراعلیٰ کا انتخاب l حکومت پر اعتماد یا عدمِ اعتماد کاووٹl منی بل کے بارے میں ووٹl دستوری ترمیم پر ووٹ۔

واضح رہے کہ ۶۳-اے کا اضافہ ۱۹۹۷ء میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں ہوا تھا، اور اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صرف دستوری ترمیم پر ووٹ کو اس فہرست میں شامل  کیا گیا ہے، نیز پارٹی سربراہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ اس ’بے وفائی‘ (defection ) کا تعلق صرف ان چار امور سے ہے___محض اختلاف راے یا ضمیر کے مطابق اظہارِ خیال سے نہیں ہے، جیساکہ میڈیا میں بہ تکرار کہا جا رہا ہے۔

نیز یہ بات بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ پارٹی کا سربراہ صرف ایک اعلان (declaration) کرے گا جسے چیئرمین سینیٹ یا اسپیکراسمبلی الیکشن کمیشن کو بھیج دے گا۔ فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا جو ایک عدالتی ادارہ ہے اور معاملے کے سارے پہلوئوں کا احاطہ کرکے اور متعلقہ فرد کو صفائی کا موقع دے کر کوئی فیصلہ کرے گا اور قانون کے مطابق اس فیصلے کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ آخری فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔

جماعت اسلامی کا نقطۂ نظر

جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے اس کے نمایندہ نے اٹھارھویں دستوری ترمیم سے عمومی اتفاق کے ساتھ اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے مفصل نوٹ دیا ہے، جو رپورٹ کا حصہ ہے۔ اس میں جن اہم امور کا ذکر کیا گیا ہے، وہ مختصراً یہ ہیں:

۱- تعلیم کے حق کے بارے میں ہماری کوشش تھی کہ اس پر مکمل عمل درآمد کے لیے زمانی حد زیادہ سے زیادہ ۱۰ سال مقرر کی جائے، جس پر اتفاق نہ ہوسکا۔ اسی طرح ہم نے تعلیم کے ساتھ غربت کے خاتمے اور ہرشہری کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو بھی ایک دستوری حق کے طور پر شامل کرانے کی کوشش کی، جسے موجودہ دستوری ترمیم میں شامل کرنے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

۲- دستور کی دفعہ ۴۵ میں صدر کو سزا میں تخفیف کا غیرمحدود اختیار حاصل ہے، جس کا حال ہی میں صدرزرداری نے اپنے منظورِنظر افراد کو قانون کی گرفت سے نکالنے کے لیے اس وقت استعمال کیا، جب کہ ابھی اٹھارھویں ترمیم کو نہ سینیٹ نے منظور کیا تھا اور نہ خود صدر ہی نے اس پر دستخط ثبت کیے تھے۔ ہماری تجویز تھی کہ یہ امتیازی، صواب دیدی اور اخلاق سے ماورا اختیار ختم کیا جائے اور عدالت کسی مجرم کے لیے جو بھی سزا طے کرے، اسے پورا ہونا چاہیے۔ لیکن اگر یہ تجویز قبول نہ ہو تو کم از کم حددو کے باب میں تخفیف کا اختیار تو لازماً ختم کیا جائے کہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ہماری یہ تجویز بھی منظور نہ کی گئی۔

۳- ہم نے سینیٹ میں غیرمسلموں کی نشستوں کے اضافے پر بھی اصولی اعتراض کیا تھا۔ ہماری نگاہ میں ’جداگانہ انتخاب‘ کا طریقہ حق و انصاف پر مبنی اور ملک کی نظریاتی اساس سے      ہم آہنگ ہے۔ اس کے تحت غیرمسلموں کو اپنی آبادی کے تناسب سے نمایندگی مل جاتی ہے۔ لیکن جب اقلیتوں اور سیکولر لابی کے اصرار پر ’مخلوط طرزِ انتخاب‘ کا اصول تسلیم کیا گیا ہے تو پھر غیرمسلموں کے لیے علیحدہ نشستوں کا وجود ان کو دوہری نمایندگی دینے کے مترادف ہے اور یہ حق کسی سیکولر، جمہوری یا مغربی ملک میں بھی نہیں دیا جاتا۔ پاکستان میں غیرمسلم کسی ثانوی درجے کے محروم طبقے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کا کام ہے کہ ان کو ٹکٹ دیں اور اس طرح وہ منتخب اداروں میں آئیں۔ چور دروازے سے داخل ہونا صحیح نہیں۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ اس وقت بھی سینیٹ میں دو غیرمسلم سینیٹر موجود ہیں، اس لیے الگ نشستوں کا کوئی جواز نہیں۔

۴- ہماری نگاہ میں ججوں کے تقرر کے لیے جو، جوڈیشل کمیشن بنایا گیا ہے، اس میں حکومت کی نمایندگی کے لیے صرف وزیرقانون کا ہونا کافی تھا۔ ہم نے اٹارنی جنرل کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔

۵- ہم نے سول سروس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرنے کے لیے ان کے لیے ان دستوری ضمانتوں کے اختیار کی تجویز بھی دی تھی، جو انھیں ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں حاصل تھیں۔

۶- ہم نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ ملک کے اہم اداروں کے سربراہوں کی ملازمت کے سلسلے میں توسیع کا طریقہ ختم کیا جائے، چاہے ان کی مدت ملازمت میں کچھ اضافہ کردیا جائے۔ فوج اور دستوری سول اداروں کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے بڑے تلخ نتائج سامنے آئے ہیں جو آج تک ملک بھگت رہا ہے۔ تمام سروسز چیف، پبلک سروس کمیشن اور الیکشن کمیشن وغیرہ کے سربراہوں کی مدت مقرر اور ناقابلِ توسیع ہونی چاہیے۔ صرف چیف الیکشن کمیشن کے سلسلے میں ہماری تجویز منظور ہوئی۔ فوج کے سربراہوں اور دوسرے دستوری اداروں کے بارے میں اسے قبول نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں آزادی کے حصول سے آج تک کسی ایک بھی سروس چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی گئی۔ اس طرح ہرشخص کو علم ہوتا ہے کہ اسے ایک متعین مدت میں اپنے کام کو مکمل کرنا اور پھر دوسروں کے لیے جگہ خالی کردینا ہے۔ ہمارے ملک میں ملازمت میں توسیع کا جو سخت مکروہ سلسلہ جنرل ایوب خان کے دور میں شروع ہوا، وہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تک جاری رہا، اور اب بھی ہر ایک کی نگاہ توسیع ہی پر ہوتی ہے۔

۷- جہاں ہم نے قانون سازی کی ’مشترک فہرست‘ کے خاتمے کی تجویز پیش کی، وہیں ہم نے یہ بھی کہا کہ ایک نظریاتی ملک کی حیثیت سے ضروری ہے کہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم ہو، کہ  قومی یک جہتی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے۔ اس لیے تعلیمی پالیسی اور نصاب کی یکسانی ضروری ہے۔ بلاشبہہ تعلیمی پالیسی کی تشکیل اور نصاب کی صورت گری میں ہرصوبے کے لوگوں کی شرکت ضروری ہے اور جہاں جہاں علاقائی ضرورتوں کے لیے مقامی ادب اور تاریخی روایات کو نصاب کا حصہ بننا ضروری ہو، وہ لازماً ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ قومی اور ملکی ضروریات کے لیے یکسانی اور وحدت بھی ضروری ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے معاملات کو تو ’وفاقی فہرست‘ (حصہ دوم) میں شامل کیا جاسکا، لیکن یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصاب کے لیے ہم کمیٹی کی تائید حاصل نہ کرسکے۔

۸-قومی زبان کے ساتھ جو مجرمانہ سلوک کیا جا رہا ہے اس کے خاتمے کی تجویز بھی ہم نے پیش کی اور مطالبہ کیا پانچ سال کے اندر اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر لازماً نافذ کیا جائے، اور دستور کی دفعہ ۲۵۱ کی جو مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے، اسے ختم کیا جائے، لیکن ہماری یہ تجویز بھی مقتدر سیاسی پارٹیوں سے شرفِ قبولیت حاصل نہ کرسکی۔

۹- ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ سینیٹ کا انتخاب متناسب نمایندگی کے اصول پر ہرصوبے سے بلاواسطہ (direct) طور پر کیا جائے، اور سینیٹ کو وزیراعظم کے انتخاب اور بجٹ اور منی بل  کے باب میں قومی اسمبلی کے مساوی حیثیت دی جاسکے۔ اس پر ہمیں خاصی تائید حاصل ہوئی، مگر مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔

۱۰- ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ تمام اہم کارپوریشنوں، فیڈرل اتھارٹیز اور مقتدر اداروں کے سربراہوں اور ’غیرپیشہ ورانہ سفارتی عہدے داروں‘ کے تقرر کی توثیق کم از کم سینیٹ کی کمیٹی سے حاصل کی جائے، کم و بیش اسی اصول پر جس پر ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ کے کردار کو شامل کیا گیا ہے۔ دنیا کے بیش تر جمہوری ممالک میں اور خصوصیت سے جہاں وفاقی نظام قائم ہے وہاں پارلیمنٹ یا ایوانِ بالا کا ایک کردار ہوتا ہے، لیکن یہ تجویز بھی شرفِ قبولیت نہ پاسکی۔

۱۱- ہم نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ تمام بین الاقوامی معاہدات اور کنونشنز کو پارلیمنٹ میں آنا چاہیے اور ان کے لیے پارلیمان کی توثیق ضروری قرار دی جائے۔ اس وقت یہ سارا اختیار محض کابینہ کو حاصل ہے، پارلیمنٹ کو ان کی ہوا بھی نہیں لگتی۔ یہ تجویز بھی قبول نہ کی گئی۔

۱۲- ہماری یہ بھی تجویز تھی کہ بنیادی حقوق میں اس حق کو بھی شامل کیا جائے کہ کسی شخص کو خواہ وہ پاکستان کا شہری ہو، یا پاکستان میں مقیم ہو، ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے ملک کے سپرد نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ بھی متفقہ دستاویز کا حصہ نہ بن سکی۔

۱۳- ہم نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ جس طرح تمام وزرا، ارکانِ پارلیمنٹ حلف لیتے ہیں اسی طرح دستور کے تحت مقرر کیے جانے والے تمام مشیروں (advisors) سے بھی حلف لیا جائے بشمول حلف رازداری۔ اس وقت یہ تمام مشیر کسی حلف کے بغیر کابینہ اور پارلیمنٹ میں شرکت کرتے ہیں، جو بڑی بے قاعدگی ہے، جلداز جلد اس بے قاعدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے، مگر اسے بھی متفقہ سفارشات کا حصہ نہ بنایا گیا۔

۱۴- ہم نے فاٹا کے علاقے میں سیاسی حقوق کی حفاظت، سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں کی آزادی، اور اس علاقے کے لوگوں کو فراہمیِ انصاف اور قانون کے باب میں پاکستان کے باقی تمام علاقوں کے مساوی قرار دینے اور ان کے اپنے منتخب نمایندوں کو علاقے کے مستقل انتظام کو طے کرنے کا موقع دینے کی تجویز بھی پیش کی۔ اس تجویز کے ایک حصے کو پالیسی کے لیے اپنی سفارشات میں تو شامل کرلیا گیا، مگر دستوری ترمیم کا یہ تجویز حصہ نہ بن سکی۔

ان تمام امور کو دستور کا حصہ بنانے کے سلسلے میں ہماری جدوجہد ان شاء اللہ جاری رہے گی۔

ہماری نگاہ میں اٹھارھویں ترمیم مجموعی طور پر ایک مثبت پیش رفت ہے اور اگر اس پر خلوص اور دیانت سے عمل کیا گیا تو حالات کی اصلاح اور حقیقی جمہوری اقدار کے فروغ، سماجی انصاف کے قیام اور علاقائی توازن کے پیدا کرنے میں اس کا کردار کلیدی ہوگا۔ ملک اور قوم، قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کی طرف مؤثر پیش قدمی کرسکیں گے، لیکن اس کا انحصار نیت، ادراک، اخلاص اور عمل پر ہے۔ دستور کے الفاظ ہمارے مسائل کا حل نہیں۔

اب مرکز، صوبے، سیاسی جماعتیں، تمام دستوری اداروں اور پوری قوم ایک عظیم امتحان میں ہے۔ وقت کی اصل ضرورت مسائل کا حل اور ان اہداف کا حصول ہے، جو دستور میں ان ترامیم کے بعد قوم کی آرزو اور تمنا کے طور پر واضح شکل میں سامنے آگئے ہیں۔ بلاشبہہ جو خامیاں رہ گئی ہیں، آیندہ دستوری ترامیم کے ذریعے ان کو دُور کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن فوری ضرورت ان دستوری ترامیم پر مؤثر عمل درآمد ہے۔ اس سلسلے میں ذرا سی کوتاہی بھی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ دستوری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اور خود اٹھارھویں دستوری ترمیم کی شق ۹۵ میں نئی دستوری دفعہ ۲۷۰ اے اے کے ذریعے ایک نقشۂ کار دیا ہے اور ایسے ادارات کے قیام اور کارفرمائی کی سفارش کی ہے جو ان تبدیلیوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں۔ اب اصل امتحان میدانِ عمل میں   قومی قیادت کی کارگزاری اور مرکز اور صوبوں کے نظام میں بنیادی تبدیلیوں کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کا ہے۔ ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں   ع

پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

۱۴؍اپریل ۲۰۱۰ء میں سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ابھی راستہ ہی میں تھا کہ موبائل فون سے ’مختصر پیغام‘ پڑھ کر دل سے ایک آہ نکلی___ اسرار بھائی ایک عالم کو سوگوار چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

’مختصر پیغام‘ بھیجنے والے نے ڈاکٹر اسرار احمد کی حرکت ِ قلب کے بند ہونے سے انتقال کی خبر اور نمازِ جنازہ میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے آخری دیدار اور نمازِجنازہ میں شرکت سے محروم رہا، لیکن دل کی گہرائیوں سے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعائیں کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر بھر کی مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے، بشری لغزشوں سے عفوودرگزر فرمائے، ان کی قبر کو گوشۂ فردوس بنادے اور ابدی زندگی میں ان کو جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے نوازے، آمین، ثم آمین!

اسلامی جمعیت طلبہ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سب سے اہم زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور اہداف کا شعور اور رب کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے کا عزم، شوق، کوشش اور دین حق کی شہادت اور اس کے قیام کی جدوجہد کے لیے زندگی کو وقف کرنے کا عہد ہے۔ تاہم عام لوگوں کی نظر میں بظاہر ایک معمولی اور حقیقت میں بڑا ہی قیمتی احسان یہ بھی ہے، کہ اس کی آغوش میں شعور کی منزلیں طے کرنے والے ایک ایسے رشتۂ اخوت میں جڑ جاتے ہیں، جسے زمانے کی کروٹیں اور اختلافات کے طوفان بھی کمزور نہیں کرپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد ایک عالمِ دین، ایک داعیِ خیر، ایک معتبر شخصیت ہونے کے ساتھ’ڈاکٹر اسرار‘ ہی ہوں گے، لیکن میرے لیے اور جمعیت کی پوری برادری کے لیے        وہ اوّل و آخر اسرار بھائی تھے، ہیں اور رہیں گے  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

میری اور اسرار بھائی کی پہلی ملاقات ۱۹۵۰ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سالانہ اجتماع منعقدہ لاہور میں ہوئی۔ میں جمعیت کا نیا نیا رکن بنا تھا اور ساتھ ہی کراچی جمعیت کی نظامت کا بار ڈال دیا گیا تھا۔ اسراربھائی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے غالباً پہلے سال میں تھے۔ برادرم ظفراللہ خان جمعیت کے ناظم اعلیٰ تھے اور ہماری سرگرمیوں کا گہوارا محترم نصراللہ خان عزیز صاحب کا گھر تھا۔ اس ملاقات میں جن تین ساتھیوں نے بہت متاثر کیا ان میں نسیم بھائی، اسراربھائی اور مسلم سرحدی نمایاں تھے۔ اخوت کا جورشتہ اس موقع پر قائم ہوا، اس نے ساری عمر ہم کو ایک دوسرے کے لیے اسراربھائی اور خورشید بھائی ہی رکھا___ اگرچہ ۶۰سال کے اس طویل عرصے میں اتفاق اور اختلاف، قربت اور عدمِ ارتباط کے شیریں اور تلخ لمحات سفینۂ حیات کو ہچکولے دیتے رہے۔ جمعیت میں ہم نے چار سال ساتھ گزارے۔ ۱۹۵۰ء میں نسیم بھائی ناظم اعلیٰ بنے، ۱۹۵۱ء میں خرم بھائی، ۱۹۵۲ء میں اسرار بھائی، اور ۱۹۵۳ء میں یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ پھر جماعت اسلامی میں بھی ہمارا ساتھ رہا۔ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں میرے اور ان کے موقف میں بڑا فرق تھا، لیکن ذاتی محبت کا وہ رشتہ جو ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا وہ کبھی نہ ٹوٹا: الْحَمْدُلِلّٰہ عَلٰی ذٰلِکَ۔

اسرار بھائی اور مَیں ایک ہی سال اس دنیا میں آئے۔ وہ جمعیت میں میرے سینیر رہے۔ تقسیم سے قبل اسرار بھائی رہتک، ہریانہ میں ابتدائی تعلیم اور تحریکِ پاکستان میں شرکت کے مراحل سے گزرے۔ میں نے دہلی میں آنکھیں کھولیں اور وہاں تحریکِ پاکستان میں بھرپور شرکت کی۔ ہمارے یہ ابتدائی تجربات زندگی کے رُخ کو متاثر کرنے کا ذریعہ بنے لیکن اصل فیصلہ کن دور، اسلامی جمعیت طلبہ میں گزارے ہوئے چند سال ہی رہے۔ پہلے دن سے اسرار بھائی کی خطابت اور خوداعتمادی کا نقش دل پر ثبت ہوگیا۔

اللہ تعالیٰ نے اسرار بھائی کو دل و دماغ کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ علمی، دعوتی اور تنظیمی، تینوں اعتبار سے وہ منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ قرآن سے شغف اور زبان و بیان پر قدرت کے باب میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ بے پناہ خوداعتمادی کے حامل تھے جو کبھی کبھی   شدتِ اظہار میں غلط فہمی کا باعث بھی ہوجاتی تھی اور قائدانہ صلاحیت جو ان کو نمبر ایک پوزیشن سے کم پر ٹھیرنے نہیں دیتی تھی، ان کے مزاج اور کردار کی امتیازی شان تھے۔

وہ ایک اچھے اور مہربان ڈاکٹر تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے طبّی علاج معالجے سے کہیں بڑا کام لینا تھا۔ علامہ اقبال، مولانا مودودی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کی فکر اور شخصیت کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔ دین کا جامع تصور ان کے رگ و پے میں سماگیا تھا۔ پھر اپنی محنت اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فیضان سے انھوں نے قرآن کریم کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ اسلامی انقلاب کے طریق کار کے بارے میں انھوں نے مولانا مودودی کے تجزیے اور عملی جدوجہد سے اختلاف کیا، لیکن یہ حقیقت ہے جماعت سے رشتہ توڑ لینے کے باوجود وہ زندگی کے ہردور میں، اور اپنے آخری لمحے تک اسلام کے انقلابی تصورِ دین کے   علَم بردار رہے۔ اپنے علم اور ادراک کے مطابق پورے خلوص، یکسوئی اور جانفشانی کے ساتھ قرآن کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے اور دین کو غالب قوت بنانے کی جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی جہاد زندگانی میں جاں جانِ آفریں کے سپرد کی۔

اسرار بھائی نے جدید اور قدیم، دونوں علوم سے بھرپور استفادہ کیا اور اس علم کو دعوتِ دین کے لیے بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ ان کی شخصیت کے سب سے اہم پہلو ان کی یکسوئی، خوداعتمادی اور خدمتِ دین کے لیے خطابت تھے۔ قرآن کو انھوں نے اپنا وظیفۂ حیات بنا لیا تھا۔ اس کے پیغام کو گہرائی میں جاکر سمجھا تھا اور جس بات کو حق جانا اس پر نہ صرف خود قائم ہوئے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کے قیام کی منظم جدوجہد میں شریک کیا۔ ان کے درسِ قرآن کے پروگرام ملک اور ملک سے باہر دعوت کا اہم ذریعہ بنے۔ پھر الیکٹرانک میڈیا پر قرآن کے پیغام کو پھیلانے   کے لیے انھوں نے منفرد خدمات انجام دیں۔ بلاشبہہ ان کو اللہ تعالیٰ نے تحریر کی صلاحیت سے بھی نوازا تھا، تاہم ان کی تحریر میں بھی خطابت کی شان نمایاں رہی۔ جو کتابیں انھوں نے جم کر لکھی ہیں،       وہ ہراعتبار سے علمی شاہکار ہیں۔ البتہ ان کے لٹریچر کا بڑا حصہ ان کی تقاریر اور دروسِ قرآن کا مرہونِ منت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں اعلیٰ تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انھوں نے     اسلامی جمعیت طلبہ، انجمن خدام القرآن، تنظیم اسلامی اور عالمی تحریکِ خلافت کے ذریعے      اپنی بہترین صلاحیتیں دین کی خدمت میں صَرف کیں۔ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام تھا اور بلاشبہہ ان کی شعوری کوششوں کا بھی اس میں بڑا دخل تھا کہ ان کا پورا خاندان دین حق کی خدمت میں ان کا شریکِ سفر تھا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جو چراغ انھوں نے جلائے ہیں وہ ہمیشہ روشن رہیں۔ گذشتہ کئی سال سے ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ میری آخری ملاقات ان سے امریکا میں ہارٹ فورڈ سیمینری میں ہوئی، جہاں مجھے لیکچرز کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان کے حلقے سے چند نوجوانوں کے ذریعے جو میرے لیکچرز میں بھی شریک تھے، ان کے ساتھ ایک شام گزارنے کا موقع ملا۔ پروفیسر ابراہیم ابوربیعہ کے گھر پر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا اور پرانے تعلقات کی تجدید کی۔

اختلافی امور پر بھی ملک میں اور ملک سے باہر بھی بارہا بات ہوئی، لیکن محبت اور اعتماد  کا جو رشتہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا، وہ زندگی بھر قائم رہا۔ یہ سب اللہ کا فضلِ خاص اور طریق کار      کے بارے میں اختلاف کے باوجود اصل مقصد کے اشتراک اور باہمی اخوت اور اعتماد کا نتیجہ تھا۔ اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے    ؎

ساز دل چھیڑ کے بھی، توڑ کے بھی دیکھ لیا

اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بلاشبہہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام کی اصطلاح اللہ اور اس کے رسولؐ کے پیغام کی حقیقت کا احاطہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس بات کو بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اسلام کے ساتھ تحریک کے لفظ کا اضافہ کرنے کی جسارت کیوں کی ہے، اور تحریکِ اسلامی سے ہماری کیا مراد ہے؟

دراصل تحریکِ اسلامی کے لفظ سے مراد نہ دین میں کسی چیز کا اضافہ ہے اور نہ کمی، البتہ ہمیں اپنے حالات میں یہ دیکھنا ہے کہ جو پیغام، جو مشن، جو دعوت اور جو نمونہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم کیا ہے، فی زمانہ اس کی زیادہ سے زیادہ حقیقی اور صحیح تفہیم اور پھر اس کا اظہار کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ دورِ رسالت کے ۲۳سال دیکھیے، خواہ مکے کا دور ہو یا مدینے کا، ان میں تسلسل ہے ، یک رنگی ہے۔ حالات کی مناسبت سے کب کس چیز کو زیادہ اہمیت دینی ہے، کون سے طریقے اختیار کرنے ہیں اور کس طریقے سے گریز کرنا ہے، یہ سب اس عمل کا حصہ ہے۔ یہ پوری زندگی ایک مسلسل اور مربوط زندگی ہے، ایک دعوت اور جدوجہد ہے۔

اگر اسے ہم چند الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کریں تو اس میں پہلی چیز ربانیت ہے، یعنی اپنے خالق و مالک اور آقا کوپہچاننا اور دنیا سے کٹ کر اس سے جڑنا۔ اس کی ہدایت اور اپنے خلیفہ اور نائب ہونے کی ذمہ داری جو اس نے بحیثیت انسان ہم پر عائد کی ہے، یہ استخلاف کی حیثیت ہے اور یہ ایک مسلمان کی زندگی کی بنیاد ہے۔ استخلاف کی ذمہ داری ہدایت کے بغیر ادا نہیں ہوسکتی اور ہدایت کا سرچشمہ دو چیزیں ہیں: ایک قرآن، اللہ کی کتاب اور دوسرے: اللہ کے رسولؐ کا اسوہ حسنہ___ یہ وہ ہدایت ہے جو ہمیں استخلاف کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق بناتی ہے۔ لیکن استخلاف کا ہدف ہے کیا؟ یہ بڑا نازک معاملہ ہے کہ اس میں ہمارا اصل مقصود صرف اپنے مالک اور خالق کے احکام کی اطاعت، اس کے ساتھ جڑنا، اس سے محبت، اس کی طرف پلٹنا، اور اس کی رضا اور اس کی خوشنودی کا حصول ہے اور اس کا مظہر جنت ہے جس کا حصول ہماری تمنا اور ہماری آرزو ہے۔

ایک مفکر نے بڑے خوب صورت انداز میں اس بات کو چار نکات کی شکل میں ادا کیا ہے کہ پہلا مرحلہ دنیا سے پہلوتہی کرکے رب کی طرف مراجعت ہے، یعنی مِن الخلق اِلَی اللّٰہ، یعنی دنیا سے اورانسانوں سے رشتے کو کاٹ کر اللہ سے رشتہ قائم کرنا یا صرف اس سے جڑ جانا۔ دوسرا مرحلہ مع اللّٰہ کا ہے، یعنی صبغۃ اللّٰہ کے رنگ میں رنگ جانا۔ صرف اللہ کا ہوجانا تاآنکہ اللہ کی رضا کے طریقوں اور ہمارے طریقِ حیات میں کوئی فرق نہ رہے، یہ مع اللّٰہ ہے۔ لیکن یہ سفر کا اختتام نہیں۔ اس بلندی کو حاصل کرنے کے بعد سب سے اہم سفر کا آغاز ہوتا ہے، یعنی دوبارہ   اللہ کے بن کر دنیا کی تعمیرنو کے ہنگامہ خیز اور پُرخطر راستے کو اختیار کرنا۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ یہی فرق ہے نبیؐ اور صوفی میں۔ صوفی کے معیار کی انتہا یہ ہے کہ وہ اللہ کا قرب پالے۔ گویا اس نور اور معرفت سے اتنا قرب حاصل کرنے کے بعد اس نے سب کچھ پالیا۔ لیکن نبیؐ کا مقام یہ ہے کہ وہ قرب الٰہی کی معراج پر پہنچ کرپھر انسانوں کے درمیان آتا ہے۔ جو روشنی اسے حاصل ہوئی ہے، جو نور اسے حاصل ہوا اور جو ہدایت اسے حاصل ہوئی، اسے انسانوں تک پہنچاتا ہے، اور اس کے ذریعے سے انسانوں کی زندگیوں کو اور پوری کائنات اور پوری تاریخ کو منور کرتا ہے۔

اس بزرگ نے پھر اس تیسرے مرحلے کو من اللّٰہ الی الخلق کے الفاظ میں ادا کیا ہے کہ اللہ کے دروازے پر جانے کے بعد پھر دوبارہ اسے انسانوں کے پاس جانا ہے۔ اسی دنیا میں جانا ہے جو ظلم اور فسق کی دنیا ہے، کفر اور نافرمانی کی دنیا ہے۔ اس دنیا کو تبدیل کرنا ہے۔ اس پیغام کو انسانوں تک پہنچا کر دنیا کی تعمیرنو کرنا ہے۔ ہمارا بھی یہی ہدف ہے لیکن یہ بھی اختتامِ سفر نہیں۔ آخری مرحلہ پھر اللہ کی طرف لوٹنے کا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اب ساری انسانیت کو اپنے ساتھ لے کر اور رب کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے سب کو اللہ کی طرف لے جانا ہے، یعنی مع الخلق الی اللّٰہ۔ اب انسانوں کو ساتھ لے کر اللہ کی طرف چلنا ہے تاکہ اللہ اور اس کے دین کی طرف جانے کا جو بڑا ہدف ہے، یہ زندگی کا ہدف بن جائے۔

بس یہی تحریک کا مفہوم ہے___ اسلام جو ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، اسے تھام کر اللہ سے جڑنا اور اللہ کا ہوجانا، یہ اس کا اوّلین تقاضا ہے۔ اللہ کے اس پیغام کو قبول کرنے کے ساتھ اپنے آپ کو اور دنیا کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی ہدایت انسانوں تک پہنچانے کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ انبیا و رسل ؑبھیجے، لیکن یہ مقام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ جنھیں ہدایت کے ساتھ دین حق دیا گیا، تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردیں:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا o (الفتح ۴۸:۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔

تحریک کے تین دائرے

تحریکِ اسلامی کے تین دائرے ہیں اور ہمیں ان تینوں دائروں کو سامنے رکھنا چاہیے:

پہلے دائرے میں، میری ذات، میرا خاندان، میرے عزیز واقارب، میرے دوست احباب، میرے ساتھی اور میری جماعت ہے۔ بلاشبہہ اگر ہم اپنی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے، اپنی ذاتی زندگی، اپنے وسائل کو اللہ کی راہ میںجھونک نہیں دیتے، تو پھر ہم اپنے دعوے میں سچے نہیں ہیں۔ اپنی اور اپنی تحریک کی اصلاح، مضبوطی، فکرمندی، استحکام ہی ہماری پہلی ذمہ داری ہے۔

دوسرا دائرہ وہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے، ملک اور اُمت مسلمہ کا وہ خطہ کہ جس کا ہم حصہ ہیں، وہاں پر اگر ہم محض تحریکِ اسلامی کے خول میں بند رہتے ہیں اور اپنے معاشرے، اپنے ملک، اپنی دنیا اور اپنی اُمت کی تبدیلی اور اصلاح کی فکر نہیں کرتے تو پھر شاید اپنی بھی حفاظت نہ کرسکیں۔ اس لیے کہ یہ دعوت امربالمعروف ونہی عن المنکر خود ہماری اپنی اصلاح، اپنی استقامت کے لیے ضروری ہے۔

ایک تیسرا دائرہ ہے: پوری انسانیت اور عالمی کش مکش کا۔ چاہے چند افراد ہوں یا     انبوہِ کثیر___ اسی عقیدے، اطاعت، دعوت اور اقامتِ دین کی جدوجہد کا نام اسلام ہے ___  اور تحریکِ اسلامی کی اصطلاح اسی مفہوم کو آج کی زبان میں ادا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ الحمدللہ آج ہم چند افراد نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کا ایک نہایت قابلِ قدر حصہ اس قافلے کا ہمراہی ہے۔لیکن اگر ہم چند ہوں تب بھی ہمیں پوری دنیا کی فکر کرنا ہے۔ ہم اس سے غیرمتعلق نہیں رہ سکتے اور آج کی دنیا پر تو عالم گیریت کا سحر طاری ہے جس میں ہم تنہا نہیں رہ سکتے، ہمیں اس سحر کو توڑنا اور حقائق کی دنیا کو نکھارنا ہے۔

یہ تینوں دائرے ہمارے سامنے رہنے چاہییں۔ ان تینوں کا صحیح صحیح ادراک،اپنے ہدف کا تعین اور اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے صحیح منصوبہ بندی، صحیح حکمت عملی، طریق کار کا تعین، اور پھر سعی و جہد___ یہ دراصل ہمارے کرنے کا کام ہے۔

نظریاتی کش مکش

نظریاتی کش مکش نہ دنیا میں کبھی ختم ہوئی ہے نہ ہوگی۔ مفادات کا تصادم بھی ہوتا ہے اور مادی ذرائع کے حصول کے لیے تصادم بھی ایک حقیقت ہے۔ لیکن انسانیت کی پوری تاریخ میں نظریات کی کش مکش ایک بنیادی حقیقت ہے اور یہ کش مکش روزِاوّل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ سورئہ فاتحہ جس کی تلاوت ہم نماز کی ہر رکعت میں کرتے ہیں، ہمارے سامنے انسانیت کی دو قوتوں کو پیش کرتی ہے:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o (الفاتحہ ۱:۵-۶) ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا جو معتوب نہیں ہوئے،جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔

مراد یہ ہے کہ انعام یافتہ لوگوں اور گمراہوں کے درمیان یہ کش مکش ابدی ہے اور انسانی تاریخ میں جابجا ہمیں اس کا عکس نظر آتا ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔

آج جس عالم گیر کش مکش سے انسانیت گزر رہی ہے میری نگاہ میں اس کے دو بڑے  مثالیے (paradigms) ہیں۔ ایک وہ مثالیہ ہے جس کی بنیاد اللہ سے بغاوت یا اللہ کا انکار، یا کسی شکل میں اللہ کو ماننے کے باوجود اللہ کی ہدایت پر اپنے نفس، اپنی عقل اور اپنے مفادات کا غلبہ منوانے کی جسارت ہے۔ یہ لادینی ماڈل ہے اور سرمایہ داری، اشتراکیت یا فسطائیت کا روپ لیے دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بے شمار شکلیں ہیں اور یہ تہذیبی کش مکش میں ایک منزل اور ماڈل ہے۔

دوسرا ماڈل وہ ہے جس کی صحیح شکل اسلام پیش کرتا ہے، اور جسے تحریکِ اسلامی نے اس دور میں نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایمان اور انکار کی یہ کش مکش روزبروز زیادہ سے زیادہ نکھرتی چلی جارہی ہے۔ اس کش مکش کی بڑی قدروقیمت ہے۔ اس راہ میں ایثار، جدوجہد کے نتیجے میں جو مصائب حق کے غلبے اور وسعت کے لیے برداشت کیے جائیں، وہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس حقیقی کش مکش میں اسلامی تحریک اور اس کے کارکنوں اور خصوصیت سے  ذمہ دار افراد کو یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ دنیوی اعتبار سے اپنے سے بہت زیادہ قوی قوتوں کا وہ کیسے مقابلہ کرسکتی ہے؟ ایک طرف تو ہمیں اللہ کی ذات پر بھروساہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ قوی ہے۔ وہی ہمارا اصل سہارا ہے اور صرف اس کی خوشنودی کی خاطر ہم یہ کام کررہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو خطرات، مشکلات اور حالات ہیں، ان کا پورا پورا ادراک ہو، اور پھر ان حالات ہی میں سے ہم اپنا راستہ نکالیں۔

افغانستان میں اشتراکی روس کی شکست، تاریخ میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا ذریعہ بنی ہے۔ ایران کے انقلاب ۱۹۷۹ء اور اسلامی تحریکات کے وجود اور ان کی جدوجہد کو ہمیں اس عالمی پس منظر میں دیکھنا ہے۔ ہمیں اس چیز کا جائزہ لینا ہے کہ افغانستان کے کامیاب جہاد کے ثمرات سے افغانستان کو، اسلامی تحریکات اور اُمت مسلمہ کو کیونکر محروم کیاگیا۔ اس المیے پر تدبر کی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے، اور پھر اس کی روشنی میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آگے کے مراحل میں ہم یہ کام کس طرح کریں؟

تحریف دین کی کوششوں کا جائزہ

تحریکِ اسلامی نے دین کا جو واضح تصور پیش کیا تھا اور جو عالمِ اسلام میں ایک نئی لہر    اور بیداری کا سبب بنا، آج وہ تصور تنقید کا ہدف بنا ہوا ہے۔ اس تصور پر جہاں ایک طرف مغرب حملہ آور ہے تو دوسری جانب اس کے مقاصد اور اہداف کی عملی خدمت کرنے والوں میں خود مسلمانوں میں سے ایک طرف تجدّد پسند حضرات ہیں تو دوسری طرف نادان دوستوں کا بھی ایک کردار ہے جو حالات کو مزید بگاڑنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔

تحریکِ اسلامی کے لیے پہلا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تصور کی جامعیت، اس کے توازن اور اس کو اس کی اصل روح کے ساتھ پیش کرے، اس کا دفاع کرے، اس کی بالادستی اور برتری کو دنیا پر ثابت کرنے کی سعی و جہدکرے۔ علامہ محمداقبال، مولانا مودودی، حسن البنا شہید، سیدقطب شہید، یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے اپنے اپنے انداز میں دین کے اس تصور کو نکھار کر   اُمت مسلمہ اور دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آج اس تصور کو مختلف انداز میں بگاڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کہیں اس کو پولیٹیکل اسلام (سیاسی اسلام) کہا جاتا ہے اور کہیں صوفی اسلام کو اسلام کا اصل ماڈل قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کہیں اس طریق کار کے اس توازن کو درہم برہم کیا جارہا ہے، جس میںاصلاح اخلاق و کردار، معاشرے کی تعمیر، انقلابِ قیادت، اخلاقی تعلیمات کی تلقین، تعلیم و تربیت اور تبدیلی کے لیے جدوجہد کا واضح نقشۂ کار پیش کیا گیا ہے۔

ہم اس دعوت اور پیغام کے امین ہیں۔ ہمیں خود بھی اس پر اعتماد ہونا چاہیے اور جو کام  سید مودودی علیہ الرحمہ نے اس تصور کو پیش کرنے، اس کی صحت اور اس کی برتری ثابت کرنے   کے لیے کیا اور جس کی وجہ سے واقعہ یہ ہے کہ ۲۰ویںصدی کی دینی سوچ کا رُخ بدل گیا، آج تحریکِ اسلامی کو اس کام کو جاری رکھنا اور وسعت اور گہرائی دونوں کے اعتبار سے آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے علمی و تحقیقی کام، ابلاغ اور ابلاغ کے مؤثر ترین ذرائع اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ہمیں لکیر کا فقیر نہیں ہونا چاہیے۔ ابلاغ کے مؤثر ذرائع کا بہترین استعمال، پہلا چیلنج ہے جو ہمیں قبول کرنا ہے۔ اس کے لیے تحریکِ اسلامی کو مردانِ کار کی تیاری، اداروں کی تقویت، وسائل کی فراہمی اور تقسیم کار کی ضرورت ہے، تاکہ ہرشخص سے ایک ہی کام نہ لیا جائے بلکہ جو ہماری ضرورتیں ہیں، جو اسلام کے تقاضے ہیں اور تحریکِ اسلامی کی کامیابی کے لیے جو کام ضروری ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے پاس ایک نظام ہو، ادارے ہوں، افراد ہوں اور اس کام کو حُسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا جائے۔

تبدیلیِ نظام کی حکمت عملی

دوسری چیز جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریکِ اسلامی نے تبدیلی کا جو طریقہ بتایا ہے، وہ بہت اہم ہے۔ اس میں ایمان، قلب و نظر کی تبدیلی، شخصیت، اخلاق و کردار کی تعمیر، خدمتِ خلق، معاشرے کو ظلم، محکومی و مجبوری اور فسق و فجور سے پاک کرنا، اور پھر انقلابِ قیادت ہے۔ انقلابِ قیادت کے معنی صرف سیاسی قیادت کی تیاری کے نہیں ہیں۔ بلاشبہہ سیاسی قیادت اس کا ایک بڑا اہم پہلو ہے۔ درحقیقت اس سے مراد قیادت کی ہمہ گیر تبدیلی ہے بشمول فکری قیادت، معاشی قیادت، سماجی قیادت، تعلیمی قیادت، غرض زندگی کے ہرشعبے میں تبدیلیِ قیادت ہے۔    نظامِ کار کی تبدیلی کے لیے جو خدا اور اس کے رسولؐ کے متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے حکومت اور ریاست کے وسائل کو حق اور عدل کے قیام، اور اسلامی نظامِ زندگی کے غلبے کے لیے استعمال کرنا بھی ازروے ایمان لازم ہے۔

یہ توازن، یہ طریق کار ازحد ضروری ہے۔ اس کے لیے کوئی شارٹ کٹ یا مختصر راستہ نہیں ہے۔ اس میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ جبر اور قوت کے ذریعے سے نظریات اور اخلاقی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ یہ تحریک اسلامی کی غیرمعمولی خدمت ہے۔ اس معاملے میں اگر ہم نے توازن کو چھوڑ دیا تو ہم اپنے مقصد کے ساتھ بے وفائی کا ارتکاب کریں گے۔ ذمہ دارانِ تحریک کے لیے اس تصور کو زندہ رکھنے اور اس کی برتری کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ احسن طریق کار کی صحت، اس کی کامیابی اور برتری اور اسی کے موثر ہونے پر یقین اور اس پر عمل ناگزیر ہے۔ وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ہی ہمارا طریق کار اور دنیا میں اصلاح اور آخرت میں کامیابی کا راستہ ہے۔

دعوت کے عمل سے غفلت

اس کے ساتھ ساتھ تیسری اہم بات یہ ہے کہ دعوت جو ہمارا سب سے اہم ذریعہ اور ہتھیار ہے، اس کا ہم حق ادا نہیں کر رہے۔ ہم میں ایک قسم کے اطمینان اور قناعت کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے حالانکہ دعوت کے معنی یہ ہیںکہ ہم اللہ کے بندوں تک اللہ کے پیغام کو پہنچانے کے لیے بے چین رہیں۔

اس ضمن میں سب سے پہلی ذمہ داری ہمارا خاندان ہے: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔ پھر ہمارا محلہ ہے اور معاشرہ ہے۔ کیا ہم دیانت داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے گھر کے افراد، اپنے عزیز و اقارب، اہلِ محلہ اور وہ لوگ جن کے ساتھ ہم دفاتر میں کام کر رہے ہیں، یا کہیں بھی جہاں ہمارا لوگوں کا ساتھ ہے، میل جول ہے، ہم ان تک دعوت پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ اس سلسلے میں ہم غفلت اور کوتاہی کا شکار ہیں اور اس کی اصلاح کے بغیر نہ تو ہم تحریک کے ساتھ وفاداری برت سکیں گے اور نہ اللہ کو منہ دکھا سکیں گے۔ سیاسی کام بے حد اہم ہے لیکن وہ بھی ہمارے لیے دعوت کا ذریعہ ہے۔ ہمیں لوگوں تک پہنچنا اور ان تک دعوت پہنچانا ہے۔ ہماری بنیادی دعوت اللہ کی طرف ہے اور اللہ کے دین کی طرف ہے، اور اللہ کے دین کو قائم کرنے والی تحریک کی طرف ہے۔ اس میں کوتاہی یا لاتعلقی کی کوئی وجہ یا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔

اس لیے میرے اور آپ کے وقت کا بڑا حصہ دوسروں تک دین کے پیغام کو پہنچانے، ان کے شکوک دُور کرنے، ان کے سوالوں کا جواب دینے، ان کو خیر کے لیے منظم کرنے اور ان کے دل کو مطمئن کرنے میں صَرف ہونا چاہیے۔ اگر دعوت کے راستے کو اختیار کریں گے تو معاشرے اور سیاست میں تبدیلی واقع ہوگی۔ اگر دعوت کمزور ہوگی تو پھر سیاسی نتائج بھی غیرتسلی بخش ہوں گے۔ اس کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری دعوت ملک کے تمام طبقات جن میں خواص بھی ہیں اور عوام بھی، ان سب تک پہنچنی چاہیے۔ میں یہ بات خاص طور پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ تحریکِ اسلامی کے کارکن ایک قسم کے ذاتی خول کے اسیر بنتے جارہے ہیں، حالانکہ ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ ہماری زندگی دوسروں کے لیے وقف ہو۔ ہم دوسروں کے لیے جئیں اور دوسروں کی خدمت کریں۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوں، ان کی مشکلات کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے غم کو اپنا غم اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھیں۔ یہ کیفیت جب تک پیدا نہیں ہوگی دعوت کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔

کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ وہ خاتون جو محسنِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھاتی تھی، آپؐ نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ جب آپؐ نے یہ دیکھا کہ آپؐ کے راستے میں کانٹے نہیں ہیں، تو کیا آپؐ خود اس کی مزاج پُرسی کے لیے نہیں گئے؟

کیا ہم اس واقعے کوبھول سکتے ہیں کہ مکّی دور میں دن بھر کی محنت اور مشقت کے بعد آپؐ دارارقم میں آرام کے لیے تشریف لاتے ہیں کہ اتنے میں اطلاع آتی ہے کہ ایک نیا قافلہ آیا ہے۔ باوجود اس کے کہ آپؐ تھکے ہوئے ہیں، آپؐ اُٹھ بیٹھتے ہیں کہ مجھے ان تک اللہ کے دین کا پیغام پہنچانا ہے۔ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ یارسولؐ اللہ! آپؐ  تھکے ہوئے ہیں، آپؐ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے، آپؐ  ذرا آرام فرما لیں اور کل ان کو دین کا پیغام پہنچا دیں۔ آپ کو علم ہے کہ اس موقع پر آپؐ نے کیا فرمایا تھا؟ آپؐ نے فرمایا تھا: کیا پتاوہ قافلہ صبح تک یہاں سے رخصت ہوجائے، اور کیا خبر کل تک میں رہوں، یا نہ رہوں۔ چنانچہ اسی حالت میں آپؐ  نے قافلے والوں تک خدا کا پیغام پہنچایا۔یہ دعوت ہے جسے ہماری زندگیوں کا مرکز ہونا چاہیے اور ان شاء اللہ اسی دعوت، اور اسی  شوقِ دعوتِ حق سے تبدیلی آئے گی اور ضرور آئے گی، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔

جدوجھد کی کامیابی کا یقین

دعوت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ یقین بھی ہونا چاہیے کہ ہماری دعوت حق ہے اور بالآخر غالب آکر رہے گی۔ اس بارے میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دعوت کے علَم بردار چند سرپھروں نے بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکر لی ہے اور تاریخ کا رُخ بدل کر  رکھ دیا۔ اس دنیا کی تاریخ سوپرپاورز کا قبرستان ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کوئی سوپر پاور   عالمی طاقت بننے کے بعد ہمیشہ کے لیے غالب نہیں رہی۔

ہم نے خود اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ جب برطانیہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ برطانیہ عظمٰی یا گریٹ برٹن ہے۔ اس لیے کہ دنیا کے اتنے بڑے حصے پر اس کی حکومت ہے کہ اس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا، اور سمندر کی لہروں پر اس کی حکمرانی ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وہ سوپرپاور کس طرح ایک معمولی سا یورپی ملک بن کر رہ گئی اور اس کو ایک دن یورپی یونین کی رکنیت اختیار کرنے کے لیے درخواست دینا پڑی۔

روس کا کیا دبدبہ تھا۔ خروشیف جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں گیا تو اپنے جوتوں سمیت پائوں اُٹھا کر میز پر رکھ کر اس نے کہا کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ مجھے سرمایہ داری کو دفن کرنا ہے۔ آج اس سوویت یونین کا وجود تک باقی نہیں رہا۔ امریکا کے بارے میں بھی آپ سے کہتا ہوں کہ ان شاء اللہ عراق اور افغانستان میں اسے جوہزیمت اٹھانا پڑرہی ہے، جو عالمی معاشی بحران آیا ہے اور جس نے اس کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں، یہ اب امریکا کے زوال اور پسپائی کی نوید ہے۔

گویا کوئی سوپرپاور ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہی ہے۔ ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ حق غالب آکر رہے گا، لیکن یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ حق آپ سے آپ غالب نہیں ہوگا۔ اس کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، اس کے لیے قربانیاں دینا ہوں گی۔ الحمدللہ آج دنیا کے گوشے گوشے میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں اسلامی تحریک، اسلام کی صحیح فکر اور جامع تصور پیش نہ کر رہی ہو۔

جدید سوپرپاور کے ذریعے آج جو خطرات رونما ہو رہے ہیں، ان سے یہ بات بھی واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ سوپرپاور عالمی طاقت تو ہوسکتی ہے، لیکن وہ جو چاہے کرنہیں سکتی۔ اس کا سارا کروفر، اس کی ساری ٹکنالوجی، اس کی ساری دولت اور وسائل اور منصوبوں کو ایک معمولی سی چیز درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔ دنیا میں asymetry of power یعنی طاقت کا عدم توازن پایا جاتا ہے۔ آج نظر آرہا ہے کہ کمزور، طاقت ور کو چیلنج کرسکتا ہے اور طاقت ور بے بس ہوکر رہ جاتا ہے۔

ان حالات میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ایک طرف تحریک کی فکر اور وژن کو ہرقسم کی تحریف، آمیزش،دراندازی اور کمزوری سے پاک رکھیں، اور اگر تحریک کایہ وژن نظروں سے اوجھل  ہوگیا تو پھر ہم کچھ نہیں کرسکیں گے۔ دوسری طرف تحریک نے تبدیلی کا جو راستہ دکھایا ہے، اس کا جو طریق کار متعین کیا ہے، اس پر صبرواستقامت کے ساتھ قائم رہنا ہے۔ بلاشبہہ مایوس کن نتائج بھی رونما ہوں گے لیکن مثبت نتائج کا نکلنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا کام تو پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ السَّعْیُ مِنَّا وَالْاِتْمَامُ مِنَ اللّٰہِ تَعالٰی کے مصداق کوشش اور جدوجہد کرنا ہمارا کام ہے اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا اللہ کا انعام ہے۔ روزِ جزا، ہم سے   کوشش کے بارے میں پوچھا جائے گا، لہٰذا کوشش میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کوشش میں جو طریق کار ہے، جو توازن ہے اور جس طریقے سے وہ خیروبرکت کا باعث ہے، جس کے ذریعے سے وہ رحمت کا نظام قائم ہوگا، جو اللہ کے رسولؐ نے دیا اور قائم کرکے دکھایا ہے، اس کے لیے اگر جذبہ ماند پڑجاتا ہے یا اس میں کوئی کمی آجاتی ہے توپھر ناکامی ہے۔

جدید تقاضوں سے ھم آھنگ منصوبہ بندی

ہماری دعوت، جدوجہد اور کوشش کا مرکز و محور رضاے الٰہی کا حصول ہے۔ اس دعوت کا ایک اہم تقاضا مردانِ کار کی تیاری، اداروں کو مستحکم کرنا ہے اورتقسیم کار کے ذریعے سے ہر محاذ پر پہنچنا ہے۔ الحمدللہ، آج لوگوں کی ایک بڑی تعداد تحریک کے ساتھ وابستہ ہے، لیکن زندگی کے مختلف شعبوں میں جو ہمارے اثرات تھے اور زندگی کے ہر میدان میں ہم جس طرح سے راستہ نکال رہے تھے، ایک بار پھر ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ اس کام کو کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اُمت کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی بے حد ضروری ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں روزمرہ کا کام اہم ہے، ہر سال کا منصوبہ اہم ہے، وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنی سوچ میں کچھ مزید وسعت پیدا کریں۔ اس دنیا میں، میںاور آپ نہیںہوں گے لیکن یہ پیغام، یہ دعوت، یہ تحریک، یہ جدوجہد  ان شاء اللہ آگے بڑھے گی اور اپنا کردار ادا کرکے رہے گی، لیکن اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں۔ کیا حضرت یوسف ؑ کے واقعے میں یہ سبق نہیں ملتا کہ انھیں سات سال غلے کی فراوانی اور سات سال قحط اور خشک سالی کا سامنا تھا اور اس کے لیے انھوں نے منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ منصوبہ بندی انبیا ؑ کا طریقہ ہے اور ہم اس معاملے میں کچھ غفلت برت رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ مردانِ کار کی تیاری اور درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے درمیانی مدت اور طویل المدت منصوبہ بندی کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل اور حکمت عملی تیاری کریں۔

اس منصوبہ بندی کا ایک اور اہم تقاضاجسے ہم بھول جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہرایک کی ذمہ داری ہونی چاہیے اور ہماری یہ سوچ ہونی چاہیے کہ ہماری جگہ لینے والے ایک نہیں  کئی ہوں اور صلاحیت و استعداد میں وہ ہم سے بہتر ہوں، مگر دکھائی یہ دیتا ہے کہ ہم جو کچھ کرسکتے ہیں کرگزریں، باقی دیکھا جائے گا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک فرد جب اُٹھتاہے تو اس کا   خلا پُر کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔

نبی پاکؐ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں لیکن دو چیزیں بہت اہم ہیں: ایک یہ کہ جو شہادتِ حق انھوں نے دی، اس شہادت کی ذمہ داری اُمت مسلمہ کے ذمّے ہے اور اس کام کا ایک تسلسل سے جاری رہنا ضروری ہے۔ دوسری اہم بات اپنے پیچھے ایسے مردانِ کار کو چھوڑ جانا جن میں سے ہر ایک روشن ستارے کی مانند تھا اور نور کا منبع تھا۔ کتنی بڑی بات ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: علیکم بِسنَّتِی وسنۃ خلفائے الراشدین، جس کے معنی یہ ہیں کہ میں تمھارے درمیان   وہ عمل چھوڑکر جا رہا ہوں اور اس کے ساتھ وہ قیادت اور نظامِ کار بھی چھوڑے جارہا ہوں جس سے یہ کام آگے بڑھے گا۔

کیا انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری سوچ بھی یہ ہے؟ کیا ہمیں بھی یہ فکر ہوتی ہے کہ ہماری جگہ لینے والے ہم سے بہتر ہوں؟ کیا ہم اس فکر اور کوشش میں رہتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے    آس پاس ہیں، جن لوگوں تک ہم دعوت پہنچا رہے ہیں، ان میں سے کون کس صلاحیت کا مالک ہے، اور اس صلاحیت کو کیسے آگے بڑھایا جائے، اور اس فرد سے کیسے بہتر سے بہتر انداز میں کام لیا جائے؟ اگر ہم یہ ذہن نہیں رکھتے، اس کی فکر نہیں کرتے تو یہ بڑی غفلت اور خلافِ حکمت بات ہے۔ ہم میں سے ہر فرد تحریک کا ایک ذمہ دار فرد ہے، اور اسی مناسبت سے اس کا فرض ہے کہ   اپنی جگہ لینے کے لیے اپنے سے بہتر فرد کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ یہ دعوت، یہ پیغام،   یہ تحریک کامیاب ہو اور ان شاء اللہ یہ کامیاب ہوگی، لیکن ہمیں اس کے لیے اپنا فرض اور اپنی    ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔(اُس تقریر پر مبنی جو مدیر ترجمان نے ۸مارچ ۲۰۱۰ء کو جماعت اسلامی پاکستان کے کُل پاکستان اجتماعِ ذمہ داران ، لاہور میں کی)

مولانا عبدالحق بلوچ دو سال کی صبرآزما علالت کے بعد جو زندگی اور موت کی کش مکش سے عبارت تھی، ۲۹ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ (۱۶ مارچ ۲۰۱۰ئ) ربِ حقیقی سے جا ملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

مولانا عبدالحق ۵ جنوری ۱۹۴۷ء کو مکران کے شمالی علاقے زمران میں پیدا ہوئے۔ وہ پیدایشی طور پر ہی ایک گردے سے محروم تھے، اس طرح صرف اس ایک گردے نے ۶۳ سال تک ان کا ساتھ دیا۔ آخری دو سال ڈائی لیسز پر زندگی گزار رہے تھے اور بالآخر ڈاکٹروں کے مشورے پر گردے کی تبدیلی (transplant) کا فیصلہ ہوا اور ان کے ایک صاحبزادے نے باپ کی زندگی بچانے کے لیے اپنا گردہ پیش کیا لیکن اللہ کا حکم کچھ اور تھا۔ جسم نے اس گردے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بالآخر مولانا نے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی، اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں اور اپنے خاندان ہی کو سوگوار نہیں چھوڑا، بلوچستان کے ہرطبقے اور ہرمسلک اور ہرسیاسی وفاداری کے حامل ہزاروں انسانوں کو اَشک بار چھوڑ کر عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف عازمِ سفر ہوگئے۔

مولانا عبدالحق سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ۱۹۸۵ء کی قومی اسمبلی میں تربت سے منتخب ہوکر پہنچے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں جماعت اسلامی کو نمایندگی ملی تھی۔ مولانا عبدالحق نے تربت سے قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کی نشستیں جیتی تھیں اور پھر مرکزی اسمبلی کی سیٹ کو رکھ کر قومی سطح پر انھوں نے ایک کامیاب کردار کا آغاز کیا۔ پھر ۱۹۸۸ء میں وہ صوبہ بلوچستان کے امیرجماعت اسلامی مقرر ہوئے اور یہ ذمہ داری انھوں نے ۱۵ سال تک بڑی حکمت اور جانفشانی سے انجام دی۔ ۲۰۰۳ء میں مرکزی نائب امیر کی ذمہ داری سنبھالی اور آخری لمحے تک صحت کی خرابی کے باوجود تحریکِ اسلامی اور ملک و ملّت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ آخری ایام میں بھی جب بیماری نے جسمانی قوت کو شدید مضمحل کردیا تھا تحریکِ اسلامی اور پاکستان کے مسائل کے بارے میں ان کی فکرمندی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔    اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبول سے نوازے، بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازے، آمین!

مولانا عبدالحق بلوچ ہر اعتبار سے ایک ایسے قومی اور تحریکی رہنما تھے جنھوں نے اپنے خلوص اور اپنی شب و روز کی محنت سے قیادت کے اعلیٰ مقامات کو حاصل کیا۔ ابتدائی زندگی دیہات کے زرعی ماحول میں گزاری۔ تعلیم کا آغاز اپنے شوق سے، زمین داری اور گلہ بانی کی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنے والد مولانا محمد حیات اور اپنے چچا مُلّا شفیع محمد کے دست شفقت پر کیا۔ تربت کے    ہائی اسکول سے میٹرک کی سند حاصل کرکے دینی تعلیم کے لیے کراچی منتقل ہوئے۔ یہاں پہلے مدرسہ مظہرالعلوم، لیاری میں ایک سال تعلیم حاصل کی اور پھر حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے دارالعلوم کراچی کورنگی میں داخلہ لیا جہاں سے وہ ۱۹۷۳ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔

مولانا مودودیؒ کی کتب سے والد محترم کی لائبریری ہی سے تعلق قائم ہوگیا تھا۔ پھر کراچی کے قیام کے دوران تحریک کا پورا لٹریچر پڑھا اور عملاً جمعیت اور جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ البتہ باقاعدہ رکنیت کا تعلق ۱۹۸۰ء میں قائم ہوا، اور پھر اپنے خلوص، محنت، مسلسل جدوجہد اور علمی اور تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک قومی سطح کے لیڈر کی حیثیت سے اپنے نقوش چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔

مولانا عبدالحق کی زندگی بڑی سادہ اور ہرقسم کے تصنع سے پاک تھی۔ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری نقش ان کی سادگی، اور ظاہر اور باطن کی یکسانی ہی کا اُبھرتا ہے۔ دنیا پرستی کا کوئی سایہ ان کی زندگی پر نظر نہیں آتا۔ مجھے اپنے ۲۵ سالہ ربط و تعلق میں دنیوی مفادات کے باب میں دل چسپی کا کوئی ایک واقعہ بھی یاد نہیں۔ روایتی دینی اور مشرقی تہذیب کا وہ ایک بے مثال نمونہ تھے اور حق کی تلاش، حق کا قبول اور حق کی راہ پر استقامت ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ علمی اعتبار سے میں نے ان کو بہت بلندمرتبہ انسان پایا۔ ان کا مطالعہ وسیع اور حافظہ اور استحضار قابلِ رشک تھا اور اس کے ساتھ بے مثال انکسار۔ ان کی گفتگو سے ادعاے علم کا دُور دُور بھی کوئی شائبہ کبھی محسوس نہیں ہوا لیکن میں نے علمی اعتبار سے ان کو بہت ہی محکم پایا۔ کتابوں سے ان کو غیرمعمولی شغف تھا۔ ۱۹۹۳ء میں کابل میں ایک ماہ ہمیں ایک ساتھ ایک کمرے میں رہنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں ان کی شخصیت کو سمجھنے کا نادر موقع ملا۔ سادگی کے ساتھ بذلہ سنجی اور لطیف مزاح ان کی شخصیت کا حصہ تھے لیکن ان سب سے مستزاد ان کا علمی شوق اور دعوت و خدمت کا جذبہ تھا۔ کابل کے قیام کے دوران صبح و شام میزائلوں کی بارش کے ماحول میں بھی وہ، پروفیسر ابراہیم اور یہ خاکسار بار بار کابل کے بازاروں میں پرانی کتابوں کے انبار میں گوہرمطلوب کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے، اور   مولانا عبدالحق کا انہماک ہم میں سب سے زیادہ تھا۔ مولانا کا علمی ذوق بہت ہی ستھرا اور متنوع تھا۔

بلوچستان اور ملک کے مسائل پر مولانا سے جب بھی بات کرنے کا موقع ملا ان کو بہت زیرک پایا۔ معلومات کا ایک خزانہ ان کے پاس ہوتا اور یہ صرف اخباری اطلاعات پر مبنی نہیں تھا۔ ان کا ذاتی ربط ہر مکتب ِ فکر اور ہر سیاسی نقطۂ نظر کے حامل افراد سے رہتا تھا اور اس طرح ان کے سامنے مسئلے کے تقریباً تمام ہی رُخ ہوتے اور سب جماعتوں اور گروہوں کی راے اور تجزیے سے  وہ واقف ہوتے تھے۔ سیاسی مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ وسعتِ نظر اور حقیقت پسندی بے حد ضروری ہے۔ ہمارے حلقے میں سب ساتھی اس کا پورا اہتمام نہیں کرتے لیکن مولانا عبدالحق کا ربط و تعلق ہرگروہ سے تھا اور وہ ان کے فکر اور تجزیے سے بخوبی واقف ہوتے تھے، بلکہ میں یہاں تک کہنے کی جسارت کروں گا کہ ان کو سب حلقوں کا اعتماد حاصل تھا اور یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کی سیاسی قیادت کو لازماً فکر کرنی چاہیے۔ ان کی وفات پر جس طرح جماعت اسلامی کے تمام کارکن اور قیادت افسردہ اور غم زدہ ہے، اسی طرح دوسرے سیاسی مسلک، حتیٰ کہ ان کے موقف کے بالکل برعکس راے رکھنے والے بھی ان کی کمی کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے لیے اَشک بار ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مسلک بقول ماہر القادری کچھ ایسا تھا کہ    ؎

وہ کوئی رند ہو، یا پارسا ہو

فقیروں کا تو یارانہ ہے سب سے

مولانا عبدالحق بلوچ کے انتقال پر جن تاثرات کا اظہار سید منور حسن، قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ نے کیا ہے اس سے ملتے جلتے جذبات ہی کا اظہار نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک، ڈاکٹر اسماعیل بلیدی اور بلوچ نیشنل فرنٹ کے ترجمانوں نے بھی کیا ہے۔ اسی طرح افغانستان اور ایران کے رہنمائوں نے بھی اس غم میں شرکت کا اسی طرح اظہار کیا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے ان کا جنازہ تربت کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں بلوچستان ہی نہیں تمام ملک سے سوگواروں نے شرکت کی اور نمازِ جنازہ پڑھانے کی ذمہ داری محترم نعمت اللہ خان صاحب نے انجام دی۔ اللہ تعالیٰ مولانا عبدالحق مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کی بیوہ اور بچوں کو اور تمام رشتہ داروں اور محبت کرنے والوں کو صبرجمیل سے نوازے، اور جو خلا ان کے اُٹھ جانے سے پیدا ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے، آمین!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

افغانستان بلاشبہہ آج دنیا کے پس ماندہ اور غریب ترین ممالک کی فہرست میں بھی   پست ترین مقام پر آتا ہے، اور کم از کم ۳۰ سال سے جنگ اور خانہ جنگی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ حکمرانی کے آداب کی زبوں حالی، کرپشن اور بدعنوانی کی فراوانی میں بھی سرفہرست ہے۔ برطانوی استعمار کی ۱۰۰سالہ خون آشام عسکری جولانیاں اور دخل اندازیاں، روس کا ۱۰سالہ قبضہ اور پسپائی، اور امریکا اور ناٹو اقوام کی نوسالہ بے نتیجہ فوج کشی اور بالآخر افغان دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے کی سعی و جہد تاریخ کے اس ناقابلِ انکار سبق کی یاد تازہ کرتے ہیں کہ افغانستان کے غیور عوام کو ان کی تمام بے سروسامانی کے باوجود کوئی طاقت ور طالع آزما غلامی اور محکومی کے طوق نہیں پہنا سکا۔

یہ تاریخ کا ایک عجوبہ نہیں تو کیا ہے کہ یہ پس ماندہ ترین ملک گذشتہ صدی کی دو عالمی طاقتوں کے ناپاک عزائم کا قبرستان بنا، اور آج تیسری اور بظاہر دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا کی بالادستی کا ۵۰۰ سالہ دور اپنے انجام کی طرف جا رہا ہے اور افغانستان جیسے ایشیا کے کمزور، چین جیسے طاقت ور ملک ایک بار پھر اپنے اپنے انداز میں تاریخ کے نئے باب کے آغاز کے لیے ورق گردانی کر رہے ہیں۔ تقریباً ۸۰سال پہلے    اقبال نے اپنی خداداد بصیرت کی بناپر جاویدنامہ میں افغانستان کے ماضی اور حال کی جھلک دکھائی تھی:

آسیا یک پیکرِ آب و گل است

ملّتِ افغاں درآں پیکر دل است

از فسادِ او فسادِ آسیا

در کشادِ او کشادِ آسیا

اقبال کے یہ اشعار، افغانستان کی موجودہ صورت حال کی روشنی میں اس کے مستقبل کے امکانات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے ’دہشت گردی‘ کے واقعات کو امریکا کی قیادت نے اپنے عالمی عزائم کے حصول کے لیے کامل عیاری کے ساتھ استعمال کیا۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن ایک گھنائونی استعماری جنگ کا عنوان بن گئے۔ جس فوجداری جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں افغانستان سے کوئی ایک فرد بھی شریک نہ تھا اور جس کی منصوبہ بندی جرمنی کے شہر ہیمبرگ اور خود امریکا میں ہوئی، اس کو بہانہ بناکر افغانستان پر حملہ کیا گیا، پاکستان کو دھمکیاں دے کر اپنا آلۂ کار بنایا گیا، اور پھر عراق پر فوج کشی کی گئی اور پوری دنیا کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک عالمی ہیجان اور لاقانونیت میں مبتلا کر کے عملاً میدانِ جنگ بنادیا گیا۔

صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں عراق کی جنگ کو نشانہ بنایا لیکن افغان جنگ کو  ’ضرورت کی جنگ‘ قرار دیتے ہوئے جاری رکھنے کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا پیغام بھی دیا، لیکن مسندِ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد ان کی پالیسیاں تضادات کا شکار اور اپنے کیے ہوئے عہدوپیمان سے روگردانی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ حلف برداری کے فوراً بعد انھوں نے افغانستان میں ۱۷ہزار تازہ دم فوجی بھجوائے اور اب افغان پالیسی پر سال بھر کے نظرثانی کے عمل کے بعد مزید ۳۰ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ ۱۸ مہینے کے بعد فوجوں کی واپسی کا آغاز کردیا جائے گا۔ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کو ایک سال میں بند کرنے کا اعلان حلف برداری کے بعد ہی کیا تھا، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ قیدی عدل و انصاف سے بدستور اسی طرح محروم ہیں جس طرح بش کے دور میں محروم تھے۔ تفتیش کے دوران معلومات حاصل کرنے کے لیے اذیت اور تشدد کے حربوں کو استعمال کرنے کا کاروبار یکسر ختم کرنے کے دعوے کیے گئے تھے مگر وہ بھی اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کی جو اُمید امریکا کے ووٹروں اور دنیا کے عوام کو تھی وہ دم توڑتی نظرآرہی ہے اور صدر اوباما کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرنا شروع ہوگیا ہے۔

ان حالات میں یکم دسمبر ۲۰۰۹ء کو مہینوں کی مشاورت اور بحث و مذاکرے کے بعد افغانستان کے بارے میں جس ’نئی پالیسی‘ کا اعلان کیا گیا ہے وہ نئی اور توقعات سے کہیں کم اور بش کی پالیسی کا تسلسل کہیں زیادہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف لابیوں کو مطمئن کرنے کے لیے  نئی پالیسی کے نام پر ایک ایسا ملغوبہ تیار کیا گیا ہے جو تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اصول، قانون، انصاف اور حقیقی امن کے قیام کے امکانات ایک بار پھر دم توڑ گئے ہیں۔ زمینی حقائق سے صرفِ نظر کیا گیا ہے اور حق اور عدل کے تقاضوں کا خون کرتے ہوئے صرف مفادات کے کھیل کو آگے بڑھانے کی ایک اور کوشش کی گئی ہے۔ پالیسی کے مرکزی اجزا میں کسی تبدیلی کے بغیر جو بھی     ملمع سازی اور لفظی ہیرپھیر کیا گیا ہے، اس سے حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو اوباما کی تازہ افغان پالیسی نئی خرابیوں اور مشکلات کو جنم دے گی اور حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث ہوگی، اس لیے ضروری ہے کہ اس پالیسی پر نقدواحتساب سے پہلے امریکا کی افغان جنگ کی اصل حقیقت، اس جنگ میں پاکستان کے کردار، اور افغانستان کے  اس وقت کے حالات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے تاکہ اس دلدل سے نکلنے اور حقیقی راہِ نجات کے خدوخال کو سمجھنے اور ان پر عمل کے لیے نقشۂ کار تیار کرنے کا کام انجام دیا جاسکے۔

افغان جنگ کے حقائق

پہلی بات جسے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ امریکا جو بھی دعوے کرے اور مغربی مفادات کا محافظ میڈیا جو بھی گل افشانیاں کرے، یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ افغانستان پر امریکا کی فوج کشی بین الاقوامی قانون، اصولِ سیاست اور اخلاقی اقدار و ضوابط ہر ایک کے اعتبار سے ایک استعماری اور جارحانہ اقدام تھا، ایک ایسا بین الاقوامی جرم جو بہراعتبار ناقابلِ قبول تھا اور رہے گا۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے اور ایشوز کو الجھانے کی منظم کوششوں کے باوجود، اب اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں (بشمول امریکا) جنگ کے خلاف اہلِ علم ہی نہیں، سول سوسائٹی کے اہم عناصر کی طرف سے بھی آواز بلند ہو رہی ہے اور جنگ مخالف (anti war) تحریک  تقویت پکڑ رہی ہے۔ اوباما کے یکم دسمبر کے پالیسی خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی دانش ور سائمن جنکنز نے لندن کے روزنامے گارڈین میں اپنے مضمون میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ: ’’افغانستان پر حملہ سزا دینے کے لیے تھا لیکن یہ ایک قبضے میں بدل گیا۔ یہ کام نہ صرف بری طرح انجام دیا گیا بلکہ ابتدا ہی بغیر سوچے سمجھے کی گئی تھی‘‘۔ (۲ دسمبر ۲۰۰۹ء)

امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ماتھیو ہوہ نے(جو سابق میرین بھی ہے)   افغان پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے اکتوبر ۲۰۰۹ء میں استعفا دے کر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ اس استعفے کو رکوانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر ناکام رہی۔ اسے چھپوانے سے روکنے کی سعی بھی لاحاصل ثابت ہوئی۔ اب اس بات کا بھی اعتراف کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں امریکی سفیر کارل ایکنبری اور خود امریکی نائب صدر جوبیڈن اس استعفے پر فکرمند ہیں۔ (ملاحظہ ہو، گیلیز ڈورون سو کا مضمون دی گارڈین لندن میں، ۲۸؍ اکتوبر۲۰۰۹ء)

ماتھیو ہوہ کے استعفے کے یہ حصے بڑے قابلِ غور ہیں:

میرا افغانستان میں امریکا کی موجودگی کے مقاصد کے بارے میں اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ مجھے موجودہ حکمت عملی اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں شکوک وتحفظات ہیں لیکن میرا استعفا اس پر نہیں ہے کہ ہم کس طرح لڑ رہے ہیں بلکہ اس پر ہے کہ ہم کیوں اور کس لیے لڑ رہے ہیں؟

اس نے اپنے استعفے میں صاف الفاظ میں وہ بات بھی کہی ہے جسے کہنا اور سمجھنا تو چاہیے تھا پاکستان کی قیادت کو، جو امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’افغانستان میں ہماری موجودگی نے پاکستان میں عدم استحکام اور بغاوت میں اضافہ ہی کیا ہے‘‘۔

اس نے اس استعفے میں امریکا کی افغان پالیسی کے تباہ کن منطقی تقاضوں کو بیان کرنے کے بعد یہاں تک کہہ دیا ہے:

دیانت دارانہ طور پر اگر ہم القاعدہ کی بحالی یا تنظیمِ نو کو روکنا، اور افغانستان کو القاعدہ سے محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہماری حکمت عملی کا تقاضا یہ ہوگا کہ ہم اس کے بعد پاکستان، صومالیہ، سوڈان اور یمن وغیرہ پر بھی حملہ کریں اور قبضہ کرلیں۔ خطرہ جغرافیائی یا سیاسی سرحدوں کے اندر محدود نہیں ہے۔

ماتھیو ہوہ نے یہ بھی صاف لکھا ہے کہ اگر ہم نے اس جنگ کے بارے میں بنیادی سوچ نہ بدلی تو پھر یہ جنگ لامتناہی ہوسکتی ہے اور عشروں اور نسلوں تک جاری رہ سکتی ہے۔

دی گارڈین کے مضمون نگار گیلیز ڈورن سو، نے اس استعفے پر ایک جملے میں یوں تبصرہ کیا ہے: ’’افغانستان میں امریکی افسر کی حیثیت سے میتھیو ہوہ کا استعفا جنگ پر ایک واضح درست اور سخت تنقید ہے‘‘۔ وہ مزید کہتا ہے: ’’ہوہ کی بات درست ہے کہ ۱۱ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی زیادہ تر جرمنی میں کی گئی تھی اور افغانستان میں جنگ امریکا کو زیادہ محفوظ نہیں بناتی‘‘۔ (دی گارڈین، ۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

افغانستان پر امریکی فوج کشی اور قبضے کے غیرقانونی اور ناجائز ہونے کا کھلاکھلا اعتراف خود امریکا کے اعلیٰ قانونی حلقوں میں کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب    Rules of Disengagement ہے جو تھامس جیفرسن اسکول آف لا کی پروفیسر اور امریکا کی نیشنل لایرز گلڈ کی صدر پروفیسر مارجوری کوہن نے لکھی ہے اور ۲۰۰۹ء کے اواخر میں شائع ہوئی ہے۔ اپنی اس کتاب کے نتائج کو پروفیسر مارجوری کوہن نے اپنے ایک مضمون (Counter Punch ، ۲۱ دسمبر ۲۰۰۹ء)میں بیان کیا ہے اور پاکستان کے لیے اس میں ایک پیغام ہے کہ موصوفہ نے مضمون کا عنوان: Why Af/Pak war is illegal[افغان پاکستان جنگ کیوں غیرقانونی ہے؟]    رکھا ہے۔ ہم اس مضمون کے چند اقتباس پیش کرتے ہیں:

  • افغانستان پر امریکا کا حملہ عراق پر حملے کی طرح غیرقانونی تھا لیکن پھر بھی بہت سے امریکی اسے ۱۱ستمبر کے حملوں کا درست ردعمل سمجھتے تھے۔ ٹائم کے سرورق پر اس کو درست جنگ قرار دیا گیا۔ اوباما کی مہم یہ تھی کہ عراق میں جنگ ختم کریں گے لیکن افغانستان میں بڑھائیں گے، مگر اب امریکیوں کی اکثریت اس کی بھی مخالف ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہے کہ ریاستیں اپنے بین الاقوامی تنازعات پُرامن طریقے سے طے کریں گی اور کوئی قوم اپنے دفاع کے علاوہ فوجی قوت استعمال نہیں کرسکتی،     یا جب تک کہ سلامتی کونسل اس کی اجازت نہ دے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد سلامتی کونسل نے دوقراردادیں منظور کیں مگر ان میں سے کسی ایک میں بھی افغانستان میں فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حملے کے ثبوت نہیں ملے، لہٰذا طالبان نے بن لادن کو حوالے نہیں کیا لیکن   بش نے افغانستان پر بم باری شروع کر دی۔

  • افغانستان پر حملے کے لیے بش کا جواز بے بنیاد تھا۔ اسی بنیاد پر ایرانی امریکا پر حملہ کرسکتے تھے جب انھوں نے ۱۹۷۹ء میں رضاشاہ پہلوی کا تختہ اُلٹا اور امریکا نے اسے پناہ دی۔ اگر حکومتِ ایران نے مطالبہ کیا ہوتا کہ ہم شاہ کو اس کے حوالے کریں اور ہم نے انکار کیا ہوتا تو کیا ایران کے لیے قانونی طور پر جائز ہوتا کہ امریکا پر حملہ کر دیتا؟ یقینا نہیں۔
  • افغانستان میں اپنی افواج میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے اوباما نے نائن الیون کے حملوں کا ذکر کیا۔ افغانستان میں بش کی جنگ جاری رکھنے اور اسے بڑھاتے ہوئے اوباما بھی یو این چارٹر کی خلاف وزی کر رہا ہے۔ نوبل امن انعام وصول کرتے ہوئے اوباما نے اعلان کیا کہ اسے یک طرفہ طور پر جنگ کرنے کا حق حاصل ہے۔ [حالانکہ] یک طرفہ طور پر فوجی طاقت کا استعمال اپنے دفاع میں نہ ہو تو غیرقانونی ہے۔
  • جن لوگوں نے ۹ستمبر کو ہوائی جہاز اغوا کرنے اور ہزاروں آدمیوں کو مارنے کی سازش کی، انھوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کی شناخت ہونی چاہیے اور قانون کے مطابق انصاف ہونا چاہیے۔
  • لیکن افغانستان پر حملے کا جواز نہ تھا۔ اس سے امریکیوں اور افغانیوں کی ہلاکت میں اضافہ ہوا ہے،اور امریکا کے خلاف نفرت بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
  • قومی مباحثے میں یہ سیاسی تجزیہ غائب ہے کہ نائن الیون کا المیہ کیوں رونما ہوا؟ ہماری ضرورت ہے کہ یہ بحث ہو اور امریکی خارجہ پالیسی کو ازسرِنو تشکیل دینے کے لیے جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ ہم امریکی استعمار سے نفرت کرنے والوں کے     غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ اس ملک میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو بغیر تنقید کے بیش تر لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ دہشت گردی دشمن نہیں، ایک تدبیر ہے۔ تدبیر کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی بنیادی وجوہات (بشمول غربت، تعلیم کی کمی اور بیرونی قبضہ) کو جانا جائے اور ان وجوہ کو دُور کرنے کو ہدف بنایا جائے۔
  • اوباما نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وہ افغانستان میں ۳۰ہزار مزید امریکی فوج بھیجے گا، پاکستان کا براے نام تذکرہ کیا لیکن اس کی سی آئی اے نے پاکستان کے خلاف بش سے زیادہ ڈرون حملے کیے۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ ان حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر پاکستانی اس کے مخالف ہیں۔ گیلپ کے گذشتہ جائزے میں ۶۷ فی صد مخالف تھے اور صرف ۹ فی صد حامی تھے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے طالبان یا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے زیادہ امریکا کو پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیا۔
  • پاکستان میں ڈرون کا استعمال یو این چارٹر اور جنیوا کنونشن دونوں کی خلاف ورزی ہے جن میں ارادے سے قتل کی ممانعت ہے۔ اس طرح کے ماوراے عدالت قتل کسی حکومت کے حکم پر یا اس کی مرضی سے کیے جاتے ہیں مگر ان کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا، حتیٰ کہ حالتِ جنگ میں بھی نہیں۔ یہ جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔

امریکی جارحیت اور عالمی ردعمل

اس جنگ کے نتیجے میں اگر ایک طرف بین الاقوامی اصولِ عدل وا نصاف،جنیوا کنونشن اور اخلاقی اقدار و ضوابط کا خون ہوا ہے، تو دوسری طرف ۳ہزار انسانوں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان میں دسیوں ہزار اور عراق میں ۱۰ لاکھ افراد کو بے رحمی کے ساتھ ہلاک کیا جاچکاہے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں اور کم از کم دو ملک بالکل تباہ ہوگئے ہیں، جب کہ پوری دنیا میں   دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور جو مصیبت ایک محدود علاقے میں محصور تھی، اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ صرف دہشت گردی نہیں بلکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، وہ خود اصل مسئلہ ہے۔

امریکا کی اوہایو یونی ورسٹی کے علمِ سیاسیات کے پروفیسر جان موئیلر نے اپنی کتاب Overblown میں بڑے واضح الفاظ میں حکمت عملی کے اس تباہ کن رُخ کی نشان دہی کی ہے:

دہشت گردی یا اس کے خلاف ہمارا ردعمل___ زیادہ بڑا خطرہ کس میں ہے؟ ایک خطرہ جو حقیقی ہے لیکن اس کا دائرہ محدود ہے، اسے بڑے پیمانے پر بڑھاچڑھا کر پیش کر کے، بلاجواز پریشانی پیدا کردی گئی ہے۔ اس عمل سے غیرضروری اخراجات اور پالیسی میں ضرورت سے زیادہ ایسے ردعمل ہوئے ہیں جنھوں نے عام طور پر اس سے زیادہ نقصان اور اخراجات کروائے ہیں جو دہشت گرد پہنچا سکتے تھے۔

ایک دوسرے امریکی پروفیسر رابرٹ پاپ نے جو شکاگو یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور معروف کتاب Dying to Winکے مصنف ہیں، نیویارک ٹائمز (۱۵؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) میں اپنے مضمون میں امریکا کی افغان پالیسی کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ چند پہلو قابلِ غور ہیں:

  • جنرل میک کرسٹل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی اور ناٹو کی فوجیں بذاتِ خود حالات کے بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہیں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ مغربی افواج کو   بیرونی قابض افواج سمجھا جاتا ہے۔ جنگی طاقت پر بہت زیادہ انحصار کی وجہ سے افغان عوام کی نظروں میں بین الاقوامی سلامتی کی فوج کے جواز کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ امریکا کے پسندیدہ حامد کرزئی کی قیادت میں کام کرنے والی مرکزی حکومت بہت زیادہ بدعنوان ہے اور اسے ناجائز سمجھا جاتا ہے۔
  • بدقسمتی سے یہ سیاسی حقائق گذشتہ برسوں کے میدانِ جنگ کے حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں اپنی چند سو افواج کے ساتھ امریکا نے طالبان کا تختہ اُلٹا اور القاعدہ کو افغانستان سے نکال باہر کیا۔ یہ امریکا کی فضائی طاقت اور شمالی اتحاد کی زمینی فوجوں کے اشتراک سے ہوا۔ پھر آیندہ برسوں میں امریکا اور ناٹو نے اپنی فوج کی تعداد ۲۰ہزار تک پہنچا دی، جب کہ ان کا اصل مشن صرف کابل کی حفاظت تھا۔ ۲۰۰۴ء تک افغانستان میں بہت کم دہشت گردی تھی اوربہت کم احساس تھا کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔

l ۲۰۰۵ء میں پورے افغانستان میں امریکا اور ناٹو نے اپنی افواج کو باقاعدہ بڑھایا۔ اس کے مقاصد اس وقت موجود معمولی سی بغاوت کو کچلنا، پوست کی فصلوں کو تباہ کرنا  اور مرکزی حکومت کے لیے مقامی حمایت بڑھانا تھا۔ یہ افواج جنوب اور مشرق کے پشتون علاقوں تک لگائی گئیں اور آج وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہیں۔

  • مغربی قبضے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دونوں شکلوں، خودکش حملے اور بم دھماکوں میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۱ء سے پہلے افغانستان میں خودکش حملے ریکارڈ پر نہیں ہیں۔ امریکا کی فتح کے فوراً بعد بہت کم ہوئے، ۲۰۰۲ء میں ایک بھی نہیں، ۲۰۰۳ء میں دو، ۲۰۰۴ء میں پانچ اور ۲۰۰۵ء میں نو۔  لیکن ۲۰۰۶ء سے خودکش حملوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۶ء میں ۹۷، ۲۰۰۷ء میں ۱۴۲، ۲۰۰۸ء میں ۱۴۸، اور ۲۰۰۹ء کے پہلے نصف میں ۶۰۔ ۸۰ فی صد سے زیادہ حملے امریکا اور اس کی اتحادی افواج پر ہوئے نہ کہ افغان شہریوں کے خلاف، اور کرنے والے ۹۵ فی صد افغان تھے۔
  • دہشت گرد حملوں کا انداز بیش تر ایک ہی ہے۔ سب سے خطرناک سڑک کے کنارے لگے بم ہوتے ہیں جو ریموٹ کنٹرول سے یا چھونے سے پھٹ جاتے ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں صرف ۷۸۲ حملے ہوئے تھے لیکن اس کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں ۱۷۳۹، ۲۰۰۷ء میں ۲ہزار اور گذشتہ برس ۳ہزار ۲ سو۔ یہ حملے بھی زیادہ تر مغربی افواج کے خلاف ہوئے ہیں نہ کہ افغان اہداف پر۔
  • تصویر واضح ہے، افغانستان میں ہم نے جتنی زیادہ افواج بھیجی ہیں مقامی لوگوں نے اتنا ہی ملک کو بیرونی تسلط کے تحت تصور کیا ہے جس سے خودکش اوردوسرے دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کوئی بیرونی مسلح طاقت امن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے، ہم یہی صورت دیکھتے ہیں مغربی کنارے سے کشمیر اور سری لنکا تک۔
  • جنرل میک کرسٹل افغانستان میں طرزِ عمل بدلنے کی توقع کرتے ہیں۔ ترجیح مزید فوجی بھیجنے کی نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بیرونی قابض افواج ہونے کا تاثر ختم کرنے کی ہے۔ افغانستان میں ہمارا مقصد مستقبل میں نائن الیون جیسے حملوں کو روکنا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ امریکا دشمن دہشت گردوں کی ایک نئی نسل کی پرورش کو روکا جائے۔ خاص طور پر خودکش دہشت گرد جو بڑی تعداد میں معصوم لوگوں کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ خودکش دہشت گرد کو جو چیز تحریک دیتی ہے، وہ ان کے علاقے میں غیرملکی فوجوں کا وجود ہے۔

پروفیسر رابرٹ پاپ کا یہ تجزیہ کہ اصل مسئلہ غیرملکی افواج کی موجودگی اور قبضہ ہے جو دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں، پالیسی سازوں کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اس کی تجویز کردہ حکمت عملی سے اتفاق نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان ہو یا عراق، فلسطین ہو یا کشمیر، جب تک بیرونی قوتیں ان ممالک پر قابض ہیں، مزاحمت اور ردعمل رونما ہوگا اور وہ خونی اور تباہ کن بھی ہوسکتا ہے، بلکہ ہوتا جا رہا ہے۔ مسئلے کا حل فوج کشی اور قوت کا بے محابا استعمال یا خانہ جنگی کو ہوا دینا نہیں۔ اگر افواج میں اضافہ ہوگا تو یہ چیز بذاتِ خود تصادم، خون خرابے اور ہلاکتوں میں اضافے کا باعث ہوگی، اصلاحِ احوال کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔

امریکا کی ناکام حکمت عملی

افغانستان کے زمینی حقائق کے معروضی مطالعے سے جو حقیقت سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا اور ناٹو کی فوجی حکمت عملی یکسر ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے کہ افغانستان کی ۳۴ ولایات میں سے ۳۳ پر طالبان کا عملاً قبضہ ہے اور ان میں ان کے متبادل گورنر (shadow governor) تک موجود ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں امریکی، ناٹو اور خود افغان فوج کا وجود ہے مگر باقی تمام مضافات پر طالبان کی حکمرانی ہے اور شہروں میں بھی رات کو انھی کا حکم چلتا ہے۔ ناٹو کے کمانڈر، برطانیہ کے فوجی تجزیہ نگار، حتیٰ کہ خود امریکی فوجی قیادت اب کھل کر اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے    بی بی سی سے اپنے انٹرویو میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ یہ جنگ ہاری جاچکی ہے اور اخراج کی حکمت عملی ہی وقت کی ضرورت ہے۔ اب یہ بات امریکی کمانڈر اسٹنیلے میک کرسٹل بھی کہنے پر مجبور ہوا ہے اور ہالبروک، رابرٹ گیٹس اور ہیلری کلنٹن بھی اعتراف کر رہی ہیں کہ طالبان افغان حقیقت کا حصہ ہیں اور ان سے معاملہ کیے بغیر افغانستان سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے وہ شیطنت کا ایک دوسرا مظہر ہے، یعنی ایک طرف فوج اور قوت کے استعمال کو بڑھا دیا جائے اور دوسری طرف تحریکِ مزاحمت کو تقسیم کرنے، طالبان میں پھوٹ ڈلوانے اور رشوت اور روزگار کا لالچ دے کر طالبان کے تمام سپاہیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، اور افغان حکومت اور اس کا ساتھ دینے والوں کے ذریعے ملک کا نظم و نسق اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ حکمت عملی بدنیتی اور دھوکے پر مبنی ہے اور زمینی حقائق اور تاریخی تجربات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ حالات کو بگاڑنے کا نسخہ ہے، اصلاحِ احوال کی تدبیر نہیں۔

امریکا کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ حقائق کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں۔ اوباما کو اس طرح گھیر لیا گیا ہے کہ عملاً اس نے ’بش کی جنگ‘ کو اب ’اوباما کی جنگ‘ بنا لیا ہے۔ اوباما کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ اس نے حالات کا آزاد اور معروضی جائزہ نہیں لیا اور وہ بہت جلد امریکی نیوکونز اور بش انتظامیہ کے شاطر پالیسی سازوں کے نرغے میں آگیا ہے اور امریکا کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اس پر حاوی ہوگیا ہے۔ اس کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے بااثر عناصر اس کی پالیسیوں سے پریشان ہیں کہ  ری پبلی کنز اور بش کے حواری پالیسیوں کا رُخ متعین کر رہے ہیں۔ امریکی محقق پیٹربیکر کا مضمون نیویارک ٹائمز کے بلاگ (blog)  پر Obama's War Over Terrorکے عنوان سے ۱۷جنوری ۲۰۱۰ء کو شائع ہوا ہے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح پالیسی سازی پر بش کے دور کے لوگ چھا گئے ہیں۔ رابرٹ گیٹس جسے بش نے وزیردفاع بنایا تھا اور دو سال اس نے بش کی ٹیم میں کام کیا، اوباما کا وزیردفاع بھی وہی ہے۔ جان برینان جو بش کی ٹیم کا ایک اہم ستون تھا، اس کے بارے میں پیٹر بیکر کا یہ تبصرہ قابلِ غور ہے کہ صدر کے لیے اس کی راے اہم ترین ہوگئی ہے۔

چیف آف اسٹاف رہن ایمونیل صہیونی لابی کا ایک فرد ہے جو اسرائیل میں جنگی خدمات تک ادا کرچکا ہے۔ فوجی قیادت وہی ہے جو بش کے زمانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی تھیں، یعنی ایڈمرل مولن، جنرل اسٹینلے میک کرسٹل۔ بیکر نے تقریباً ایک درجن سول، خفیہ سروس اور فوج کے شعبوں کے متعلق کلیدی شخصیات کی نشان دہی کی ہے جو اوباما کی ٹیم کا حصہ اور پالیسی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ بش کے دور کے سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیل ہائیڈن کے الفاظ میں:

یہ بش انتظامیہ کا تسلسل ہے۔ میرے خیال میں اسے ’بش کی طرح‘ کہنا بھی درست نہیں، یہ بش ہی ہے۔ دونوں میں کوئی بامعنی فرق نظر نہیں آتا۔کافی محنت نظر آتی ہے کہ معاملات کو نئی طرح پیش کیا جائے مگر اس سے خاص فرق نہیں پڑتا۔

یہی وجہ ہے کہ اوباما کی صدارت سے پالیسی کی تبدیلی کے باب میں جو توقعات مختلف حلقوں نے وابستہ کر لی تھیں وہ بُری طرح مجروح ہوئی ہیں، اور امریکا اسی طرح دہشت گردی کی دلدل میں مزید پھنستا چلا جا رہا ہے جس طرح بش کے دور میں یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔

امریکی اور یورپی تجزیہ نگار تو یہ بات کہہ ہی رہے ہیں مگر خود افغانستان سے وہ خاتون  رکن پارلیمنٹ جسے ہیرو بناکر پیش کیا گیا تھا، یعنی مالائی جویا، اوباما کی یکم دسمبر کی تقریر سے صرف ایک دن پہلے اپنے ۳۰نومبر ۲۰۰۹ء کے ایک مضمون میں جو گارڈین لندن میں شائع ہوا ہے، کہتی ہیں:

کئی مہینوں کے انتظار کے بعد اوباما افغانستان کے لیے نئی حکمت عملی کا اعلان کرنے والے ہیں۔ تقریر کا طویل عرصے سے انتظار ہے لیکن کم ہی لوگوں کو کسی حیران کن بات کی توقع ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ وہ جنگ میں کسی بڑے اضافے کا اعلان کریں گے۔ یہ کرتے ہوئے وہ ’غلطی‘ سے بہت زیادہ کریں گے۔ یہ میرے ملک کے تکلیف اٹھانے والے عوام کے خلاف جنگ کے جرم کا تسلسل ہے۔ اس سال ہم نے افواج میں اضافے کا اثر دیکھا ہے، یعنی زیادہ تشدد اور زیادہ شہری ہلاکتیں۔ جنگ کے آٹھ سالوں کے بعد صورت حال عام افغانوں کے لیے خاص طور پر عورتوں کے لیے ہمیشہ کی طرح خراب ہے۔

محترمہ جویا امریکی عوام کے جذبات کے بارے میں یہ تک کہتی ہیں:

راے عامہ کے جائزے تصدیق کرتے ہیں کہ امریکی عوام جنگ میں اضافہ نہیں، امن چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اوباما سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ بش اور اس کی انتظامیہ کو جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھیرائیں۔ خارجہ پالیسی کے دائرے میں امید اور تبدیلی کے بجاے اوباما پہلی پالیسی پر پہلے سے سے زیادہ عمل پیرا ہیں۔ (دی گارڈین، ۳۰ نومبر ۲۰۰۹ء)

ورلڈ سوشلسٹ موومنٹ (International Committee of the Fourth International) نے اپنی ویب پر ۴ جنوری ۲۰۱۰ء کو امریکا کی افغان جنگ کے خلاف ایک تفصیلی چارج شیٹ شائع کی ہے جس میں ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں اس جنگ کے نتیجے میں افغانستان اور خود پاکستان میں جو تباہ کاریاں اور ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں ان کو اعداد وشمار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،  اور یہ اعدادو شمار اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ فوجی کارروائیوں کے اضافے سے تشدد اور   دہشت گردی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، بلکہ اس میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۰۹ء افغانستان کی تازہ تاریخ کا سب سے خونیں اور بدترین سال رہا ہے۔ بالعموم ۲۰۰۹ء میں ۲۰۰۸ء کے مقابلے میں اس جنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں اور دوسری تباہ کاریوں میں ۵۰ سے ۸۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ہم اس رپورٹ سے کچھ اقتباس دیتے ہیں:

  • اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ سال کے پہلے ۱۰ مہینوں میں ۲۰۳۸ شہری ہلاک ہوئے جس میں صوبہ فرح میں مئی میں امریکی حملے میں ۱۵۰، اور ستمبر میں صوبہ کندز میں جرمن افواج کے کروائے ہوئے حملے میں ۱۴۲ افراد شامل ہیں۔ بعد کے دو مہینے میں بھی سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جس میں صوبہ کندز کے دُوردراز علاقوں میں ناٹو افواج نے ۱۰ افراد قتل کیے، ان میں آٹھ اسکول کے طالب علم تھے۔
  • اوباما کے دور میں امریکی فوج نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کے مشتبہ قائدین کو مارنے کے لیے غیرقانونی قتل و غارت کی مہم میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔ اس عمل میں متعدد مرد و خواتین، بچے، راہ گزر ہلاک ہوتے ہیں جنھیں ایک معمول کے ضمنی نقصان کے طور پر بیان کر دیا جاتا ہے۔
  •  پاکستانی حکومت پر شمال مغربی علاقے میں فوجی آپریشن تیز کرنے کا امریکی دبائو ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ اسلامی دہشت گرد حملوں اور ردعمل کی دوسری کارروائیوں میں ۵۰۰ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں۔ پاکستان میں امریکی پالیسی کی مخالفت بہت عام اور بہت زیادہ ہے۔ واشنگٹن سے طویل مدت سے تعلقات کے باوجود پاکستانی فوج کے بعض عناصر میں سخت ناراضی اور مخالفت کے  آثار پائے جاتے ہیں۔
  •  یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے اور نہ پاکستان یا افغانستان کو مدد دینے کے لیے ہے بلکہ یہ آس پاس کے توانائی سے بھرپور علاقوں پر امریکی بالادستی قائم کرنے کی کوشش ہے۔ امریکا کے حکمران طبقے کی طرف سے اوباما افغانستان کو ایک نوآبادیاتی امریکی علاقہ اور وسطی اور جنوبی ایشیا اور شرق اوسط میں مزید سازشوں کے لیے ایک مرکز بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہزاروں جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔

مذاکرات یا نیا جال

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکا کی افغان پالیسی ہر اعتبار سے ناکام رہی ہے اور افغانستان اور پاکستان خصوصیت سے اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جس طرح اوباما بش کی پالیسیوں پر کارفرما ہے، اسی طرح پاکستان کی موجودہ قیادت (زرداری گیلانی حکومت) جنرل مشرف کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور ملک کو ہر روز نئی مصیبتوں اور ہلاکتوں میں جھونک رہی ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس (اکتوبر ۲۰۰۸ء) میں ایک متفقہ قرارداد کے بعد خارجہ پالیسی کو آزاد بنیادوں پر ازسرِنو مرتب کرنے اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کی پالیسی کو تبدیل کرنے کی سفارش کی تھی۔ ڈرون حملوں کی مذمت ہی نہیں مزاحمت کا مطالبہ کیا تھا  اور فوجی حل کی جگہ سیاسی حل اور مذاکرات پر مبنی پالیسی کو ملک کے لیے تجویز کیا تھا، مگر حکومت نے ۱۵مہینے ضائع کردیے اور پالیسی اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور ملک تباہی کی دلدل میں مزید دھنستا چلا جارہا ہے۔

لندن کانفرنس میں جو حکمت عملی تجویز کی گئی ہے بظاہر اس میں طالبان سے مذاکرات کو اس کا مرکزی پیغام قرار دیا جا رہا ہے مگر یہ ایک دھوکا ہے۔ اس لیے کہ اس حکمت عملی کا اصل مقصد مذاکرات اور مفاہمت نہیں بلکہ طالبان میں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو (divide and rule)کی سامراجی پالیسی پر عمل ہے۔ ایک طرف فوج کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے اور دوسری طرف ۵۰۰ ملین ڈالر سے لے کر ڈیڑھ ارب ڈالر تک کے فنڈ کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں، اور توقع کی جارہی ہے کہ ڈالروں کے ذریعے طالبان کے ایک بڑے حصے کی وفاداریاں خریدی جاسکیں گی۔ طالبان کی قیادت نے اس کا صاف الفاظ میں جواب دے دیا ہے کہ ہمارا ایمان اور ہماری وفاداریاں کوئی قابلِ خریدوفروخت شے نہیں۔ اگر ڈالر اور اقتدار ہماری منزل ہوتی تو بہت پہلے یہ کچھ حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اصل ایشو امریکا اور ناٹو افوج کا قبضہ ہے اور جب تک افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا نہیں ہوتا اور اس کا واضح ٹائم ٹیبل طے نہیں ہوتا، کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ طالبان نے دوبڑے اہم بیانات دیے ہیں، ایک نومبر ۲۰۰۹ء میں عیدالاضحی کے موقع پر اور دوسرا لندن کانفرنس کے جواب میں۔ ان کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں کھلے الفاظ میں اور بین السطور طالبان کی تازہ سوچ کو اور آیندہ ان کی حکمت عملی کے رُخ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تعجب ہے کہ طالبان کے ان بیانات کا پاکستان اور عالمی میڈیا نے قرار واقعی نوٹس  نہیں لیا اور ان میں نئی سوچ کے جوروشن اشارے ہیں ان سے صرفِ نظر کرلیاگیا ہے۔ صرف نیویارک ریویو آف بکس کے تازہ شمارے میں مُلا عبدالسلام ضعیف کی خودنوشت پر،جس کا ترجمہ حال ہی میں امریکا سے My Life with the Talibanکے نام سے شائع ہوا ہے، احمدرشید کے تبصرے میں نومبر۲۰۰۹ء والے بیان کا ذکر اس اعتراف کے ساتھ ہے کہ افغان طالبان اب ایک ایسی تحریک ہیں جس کا اثر ملک کے تمام علاقوں میں ہے اور صرف جنوبی افغانستان تک محدود نہیں۔

طالبان کے تصورِ حکمرانی کے بارے میں مضمون نگار کا یہ تبصرہ غوروفکر کا متقاضی ہے:

دریں اثنا طالبان نے لچک کا پہلا اشارہ دیا ہے جیساکہ نومبر ۲۰۰۹ء میں عید کے موقع پر ۱۰ صفحے کے بیان میں ظاہر ہوتا ہے۔ طالبان رہنما ملاعمر نے اپنے جنگجوئوں سے امریکا کے خلاف جہاد کی اپیل کے ساتھ یہ وعدہ کیا ہے کہ مستقبل کی طالبان حکومت امن قائم کرے گی، بیرونی افواج کی مداخلت ختم ہوگی اور پڑوسی ممالک کے لیے کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ اس میں یہ مضمر ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ القاعدہ واپس نہیں آئے گی۔ ملاعمر نے انتہاپسند سے زیادہ ایک مدبر کے طور پر کہا ہے کہ اسلامی امارت افغانستان تمام ملکوں کے ساتھ مل کر باہمی تعاون اور معاشی ترقی اور باہمی احترام کی بنیاد پر   اچھے مستقبل کے لیے تعمیری اقدام کرے گی۔

ایک ہفتے بعد اوباما کی تقریر کے ردعمل میں ایک بدلے ہوئے رویے کا اشارہ ملتا ہے۔ جہاد یا اسلامی قانون نافذ کرنے کا ذکر ہی نہ تھا۔ اس کے بجاے طالبان نے افغانستان کی آزادی کے لیے حب وطن اور قومیت کی بنیاد پر جدوجہد کی بات کی اور کہا کہ       اگر بیرونی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں تو وہ قانونی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں۔ نئے سال کے پیغام میں طالبان نے امریکی فوج کے اضافے کی مذمت کی لیکن اوباما کے ساتھ یہ کہہ کر ہمدردی بھی کی کہ امریکی صدر کو اپنے ملک میں بہت سارے مسائل اور مخالفت کا سامنا ہے۔ (نیویارک ریویو آف بکس، جلد۵۷، نمبر۳، ۲۵، جنوری ۲۰۱۰ء)

سوچ کا یہی رُخ طالبان قیادت کے ۲۸ جنوری ۲۰۱۰ء کے بیان میں بھی واضح ہے جو لندن کانفرنس کے اعلامیے پر ان کا بروقت ردعمل ہے:

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امیرالمومنین ملاعمر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی قانون چاہتے ہیں۔ ہم پڑوسی ممالک اور دنیا کے ممالک کا نقصان نہیں چاہتے اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائیں۔ ہم اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اسلامی امارت باہمی احترام کے ماحول میں پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے مثبت تعلقات چاہتی ہے، اور دو طرفہ تعاون، معاشی ترقی اور خوش حال مستقبل کے لیے دیرپا اقدامات کرنا چاہتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ارادوں کے جواب میں ایسے ہی ارادے رکھیں۔ مزیدبرآں اسلامی امارت اسلامی بنیادوں اور عصرحاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے عوام کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کی پابند ہے۔ اسلامی امارت افغانستان کسی لسانی یا نسلی تعصب سے پاک خوش گوار ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے، تاکہ لوگ   اتحاد اور قوت کے جذبے سے مل کر کام کرسکیں۔ اس طرح وہ اسلامی حکومت کی حمایت کریں گے جو ہمارے شہدا کی تمنائوں کی عملی شکل ہوگی اور جان و مال، عزت و حیثیت اور قومی اور تاریخی اقدار کی محافظ ہوگی۔

یہ امر افسوس ناک ہے کہ امریکا کی قیادت میں حملہ آور مسئلے کے فوجی حل پر مصر ہیں۔ ہم وضاحت سے کہنا چاہتے ہیں کہ حملہ آور اپنے آپ کو مزید مالی اور جانی نقصان سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے عوام کو پُرفریب منصوبوں اور حکمت عملی سے دھوکا نہیں دینا چاہیے، ان پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے، اور ہمارے عوام کے لیے زیادہ تکلیف اور پریشانیوں کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ انھیں اسلامی امارت کا پیش کردہ حل قبول کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک سے حملہ آور فوجیں مکمل طور پر چلی جائیں۔ اس میں حملہ آوروں کے لیے نجات اور تحفظ ہے۔ اگر وہ واقعی مسئلے کے حل کے لیے اقدام کرنا چاہتے ہیں تو انھیں افغانستان، پاکستان، گوانتانامو اور دوسری جیلوں میں موجود لوگوں کو رہا کردینا چاہیے۔ تمام عالمی اصولوں کے خلاف انھیں اتنے برس جیل میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ انھیں اپنی بلیک لسٹ مکمل ختم کر دینا چاہیے تھی اور مزید فوج نہیں بھیجنا چاہیے تھی۔ جو وہ کہتے ہیں وہ کرنا چاہیے تھا۔

آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ حملہ آوروں کی غارت گری اور سفاکیت کے خلاف ہمارے مسلمان اور غیور عوام کی مزاحمت اور جہاد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ دشمن مختلف ہتھکنڈوں سے ان کی قوت کو نہ کمزور کرسکا ہے اور نہ ختم کرسکا ہے۔ انھوں نے ماضی میں بھی کوشش کی ہے اور اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے بہادر مسلمان عوام اور ان کی قیادت اسلامی امارت کو الجھائیں۔ کبھی وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ جو مجاہدین جہاد کا راستہ ترک کرنے کے لیے تیار ہوں، وہ انھیں مال و دولت، روزگار اور ملک سے باہر ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریںگے۔و ہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین نے رقم حاصل کرنے کے لیے، یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے ہتھیار اٹھائے ہیں یا انھیں مجبور کیا گیا ہے کہ ہتھیار اٹھائیں۔ یہ بے بنیاد اور مہمل بات ہے۔ اگر اسلامی امارت کے مجاہدین کا مقصد مادی مقاصد حاصل کرنا ہوتا تو وہ پہلے ہی حملہ آوروں کے غلبے کو تسلیم کرلیتے اور ان کی حمایت کرتے۔ ہر چیز ان کی پہنچ میں تھی، آرام دہ زندگی، مال و دولت اور اقتدار۔ لیکن اسلامی امارت، عقیدے، ضمیر اور اپنی سرزمین کا مادی مفادات کے لیے سودا نہیں کرے گی اور نہ ذاتی مراعات اور دھمکیوں کی بنیاد پر ان کو دبایا جاسکے گا۔ افغانستان کے غیور عوام کی تاریخ میں اس طرح کا گھنائونا کھیل کبھی کامیاب نہیں ہوا۔

مجوزہ افغان پالیسی: بنیادی خطوط

طالبان قیادت کے یہ بیانات غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں اور بحران سے نکلنے کے لیے ابتدائی خطوطِ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکا اور پاکستان دونوں کے لیے صحیح افغان پالیسی وہی ہوسکتی ہے جس میں مندرجہ ذیل امور کو مرکزی حیثیت حاصل ہو:

                ۱-            فوری جنگ بندی اور افغانستان سے تمام غیرملکی فوجیوں کا ایک طے شدہ نظامِ کار کے مطابق مکمل انخلا۔

                ۲-            افغانستان میں قومی مفاہمت کا آغاز جس میں ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی مذاکرات میں شرکت اور قومی جرگے کے ذریعے نئے نقشۂ کار پر اتفاق کا حصول۔

                ۳-            بیرونی افواج کے ساتھ دوسری بیرونی قوتوں کے بارے میں واضح پالیسی اور افہام و تفہیم کے ذریعے اور مہمان داری کی اسلامی اور افغان روایات کے مطابق، اور ان مقاصد اور حدود کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے جو حالات کا تقاضا ہے، مناسب کارروائی۔

                ۴-            افغانستان کے معاملات میں بھارت کے کردار پر نظرثانی اور امریکا اور بھارت کی ملی بھگت سے جو کھیل وہاں تعمیروترقی اور تربیت کے نام پر کھیلا جارہا ہے، اس کا مکمل سدّباب۔

                ۵-            قومی مفاہمت اور علاقائی امن کے حصول کے عمل میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا مشورہ اور شراکت، اور ایک دوسرے کے معاملات میں مکمل عدم مداخلت اور شفاف تعلقات کے نظامِ کار پر اتفاق، نیز باہم رضامندی سے تاریخی تعلقات اور روایات کی روشنی میں تعاون اور امداد باہمی کے نظام کا قیام۔

                ۶-            افغانستان کی معاشی، تعلیمی اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے فوری اور لمبے عرصے کی  منصوبہ بندی، وسائل کی فراہمی اور عملی نقشۂ کار اور تقسیمِ کار کا اہتمام۔

                ۷-            عالمی سامراجی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور عالمی سطح پر حقیقی دوستی اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور نقشۂ کار۔

                ۸-            افغانستان نے گذشتہ ۳۰ سال میں اور خصوصیت سے گذشتہ ۱۰ سال میں جو نقصانات اُٹھائے ہیں ان کا سائنسی بنیادوں پر تخمینہ اور تعین اور ان کی تلافی اور آیندہ کی ترقی    کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے اُمت مسلمہ اور عالمی سطح پر قابلِ عمل منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے نظام کا قیام۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور ___صدر زرداری کا طبلِ جنگ

جمہوریت میں عوام کے ووٹ اور انتخابی عمل کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے لیکن جمہوریت پر اس سے بڑے ظلم کا تصور مشکل ہے کہ اسے محض انتخابی عمل تک محدود کردیا جائے۔ قیادت کا انتخاب بلاشبہہ عوام کی آزاد مرضی سے ہونا چاہیے اور عوام کے سامنے قیادت کی بار بار جواب دہی انتخابی عمل کا اہم ترین حصہ ہے۔ تاہم جمہوریت کا اصل جوہر قانون کی حکمرانی اور  دستور کے تحت تمام اداروں کی کارفرمائی ہے، اور ان حدود کی پاس داری ہے جو کاروبارِ ریاست کی   انجام دہی کے ضمن میں ہرادارے کے لیے دستور نے قومی اتفاق راے سے مقرر کی ہیں۔ جمہوری نظام کی کامیابی کے لیے بنیادی حقوق کا تحفظ، عدلیہ کی آزادی، راے کے اظہار کی ضمانت، صحافت کی آزادی اور قیادت کا پارلیمنٹ، قانون اور عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ضروری ہے۔

جمہوری ریاست اور معاشرے میں تمام ادارے دستور اورقانون کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے درمیان مکمل تعاون اور توازن ہی جمہوری نظام کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں۔ جو بھی قانون سے بالاتر ہونے یا دستوری تحدیدات اور مواقع سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ دراصل جمہوریت پر تیشہ چلانے کا مجرم ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ یہاں جمہوری عمل کو خطرہ باہر کی قوتوں سے کہیں زیادہ، اندر کے طالع آزمائوں اور ذاتی مفاد کے اسیروں سے رہا ہے۔ اگر قوم اور ملک کی سیاسی قیادت موجودہ حالات میں دستوری نظام اور جمہوری عمل کے آداب و روایات کی مکمل پاس داری کے باب میں کسی طرح کی کوتاہی دکھاتے ہیں تو یہ ملک اور اس کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہوگا۔ فوجی آمر سے نجات، عدلیہ کی بحالی اور صحافت کی آزادی سے جمہوری عمل کے فروغ اور استحکام کے جو مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ ذرا سی غلطی سے خطرے میں پڑسکتے ہیں۔

قومی مصالحتی آرڈی ننس (این آر او) کے بارے میں ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ء کے سپریم کورٹ کے ۱۷ رکنی فل بنچ کے متفقہ فیصلے سے ملک میں قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے اور اسے کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست سے بچانے کے جو روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں، وہ زرداری گیلانی حکومت کے جارحانہ اور گاہے بچگانہ رویے سے معرضِ خطر میں پڑ سکتے ہیں۔ ۲۷ دسمبر کو بے نظیر بھٹو صاحبہ کی دوسری برسی پر صدر آصف علی زرداری صاحب نے جو تقریر کی ہے اور جس لب و لہجے میں کی ہے، وہ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک فالِ بد اور قومی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ زرداری صاحب اور ان کے حواریوں کی طرف سے پہلے بوکھلاہٹ اور پھرتصادم کی سیاست کے اشارے تو ۱۷دسمبر ہی سے ملنے لگے تھے، لیکن طبلِ جنگ اب ۲۷ دسمبر کو بجایا گیا ہے۔

نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کو جس طرح پاکستان کی جنگ بنا دیا گیا ہے، اس نے ایک طرف ملک کی آزادی اور خودمختاری پر کاری ضرب لگائی ہے، دوسری طرف ملک کو لاقانونیت، تشدد، خانہ جنگی، اور معاشی تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جس قومی یک جہتی اور سیاسی بالغ نظری کی ضرورت ہے، موجودہ برسرِاقتدار قیادت کادامن اس دانش سے خالی نظر آرہا ہے، اورجس راستے پر یہ قیادت آگے بڑھنے لگی ہے   وہ تصادم اور تباہی کا راستہ ہے۔ امریکا کی جنگ سے خلاصی، معاشی مسائل کے حل اور ملک      اور جمہوریت کی اصل دشمن قوتوں سے نبردآزما ہونے کے بجاے، وہ عدلیہ، فوج، میڈیا اور    حزبِ اختلاف کو نشانہ بنانے کی خطرناک حکمت عملی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان کا یہ عمل خود ان  کے لیے اور پھر وطن عزیز کے لیے ایک خودکش حملے سے کم نہیں۔ یہ وقت تصادم کا نہیں، قومی سلامتی اور پاکستانی قوم اور معاشرے کی حقیقی ترجیحات کی روشنی میں حقیقی قومی مفاہمت پیدا کرنے، اور دستور کی مکمل پاس داری کے ذریعے درپیش سنگین مسائل کا حل تلاش کرنے کا ہے۔

عوام نے پیپلزپارٹی کو جو اختیارِ حکمرانی فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے ذریعے دیاتھا، بدقسمتی سے اسے موجودہ حکمرانوں نے یکسر نظرانداز کر دیا ہے، اور اس کی ساری تگ و دو ذاتی مفادات کے حصول پر مرکوز نظر آرہی ہے۔ بدانتظامی اور بدعنوانی کے سیلاب نے پورے ملکی نظام کی چولیں ہلادی ہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور اصل مسائل کے حل کے لیے مل جل کر حکمت عملی اور نقشۂ کار بنانے اور اس پر سختی سے کاربند ہونے کا راستہ اختیار کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے ۳۱جولائی اور ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلوں کے ذریعے جو شمع روشن کی ہے، اس سے تاریکیوں کا سینہ چیرکر ملک کو ایک روشن مستقبل کی طرف لے جایا جاسکتا ہے۔ اس کا راستہ باہم مشاورت، دستور کا احترام، قانون کی پاسداری، مفاد کی سیاست سے اجتناب اور ملک کی آزادی، سلامتی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے ساتھ عوام کی مشکلات اور مصائب کو حل کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔ پاکستان نہ کل ایک ناکام ریاست تھا اور نہ آج ایسا ہے۔ ناکامی اگر ہے تو وہ قیادت کی ہے اور ابھی وقت ہے کہ حالات کو تباہی کے راستے پر جانے سے بچانے کے لیے    قومی یک جہتی کے حصول اور صحیح حکمت عملی کی ترتیب و تنفیذ کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نام نہاد قومی مصالحتی آرڈی ننس کی اصل حقیقت اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے مضمرات اور تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے۔ این آر او زدہ قیادت نے حالات کو جو زاویۂ نظر دینے کی کوشش کی ہے، اس کا پردہ چاک کر کے اصلاح اور نجات کی راہ کو واضح کیا جائے۔ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری، دستور، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے تاکہ بدعنوانی کی سیاست سے نجات اور عوام کے حقوق کی حفاظت اور مسائل کے حل کی عوامی جدوجہد میں سرگرم حصہ ادا کیا جاسکے۔

ملکی تاریخ کا شرمناک باب

وہ آرڈی ننس جو جنرل پرویز مشرف نے فوجی وردی میں اپنے ناجائز صدارتی انتخاب (۶؍اکتوبر ۲۰۰۷ئ) سے صرف ۲۴گھنٹے پہلے ’قومی مصالحت‘ کے نام پر جاری کیا تھا، وہ پاکستان کی تاریخ کا نہایت شرمناک فرمان تھا۔ یہ فرمان دنیا کی تاریخ میں اس پہلو سے منفرد تھا کہ بدعنوانی تو انسانی زندگی پر ایک بدنما اور قابلِ مذمت داغ کی حیثیت سے ہمیشہ سے رہی ہے، لیکن اس داغ کو ’مفاہمت‘ کے نام پر دستور، قانون، اخلاق اور سیاسی اصول و آداب کا خون کرکے بے حمیتی کے ساتھ دو سیاسی قوتوں کا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسے قانون قرار دینا، اور اس سیاہ کاری کو ’تمغاے بحالی جمہوریت‘ کا نام دینا نہ ماضی میں کہیں دیکھنے میں آیا اور نہ مستقبل میں کسی مہذب معاشرے میں یہ ممکن ہوگا لیکن یہ سیاہی جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے نہ صرف اپنے چہرے پر مَلی بلکہ پاکستان کے چہرے کو بھی داغ دار کیا۔ اب کہ جب سپریم کورٹ نے سیاسی قیادت کو اصلاحِ احوال کا ہر موقع فراہم کرنے کے بعد اس نام نہاد ’قانون‘ کو کالعدم قرار دیا ہے تو اپنی غلطی کے اعتراف کے بجاے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا افسانہ تراشا جا رہا ہے اور ملک کو ایک نئے تصادم اور انتشار کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

ریکارڈ کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے تمام حقائق بے کم و کاست پیش کیے جائیں۔ حق وانصاف اور پاکستان اور جمہوریت کے مفاد میں وہ راستہ اختیار کیا جائے، جو   اصلاحِ احوال کا ذریعہ بنے، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت کسی کو ادا کرنی پڑے۔ ہم ان تمام حقائق کو جن کو سمجھے بغیر قوم اصل صورتِ حال کا ادراک اور خرابیوں کی تلافی کا اہتمام نہیں کرسکتی، پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

میثاقِ جمہوریت جس پر لندن میں ۱۴ مئی ۲۰۰۶ء کو دیگر چھوٹی پارٹیوں کے علاوہ پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے دستخط کیے اور جس کی تیاری میں تقریباً دو سال لگے، اس معاہدے کو سب ہی نے پاکستان میں جمہوریت اور دستور کی بالادستی کی طرف ایک سنگِ میل قرار دیا۔ اس میں مِن جملہ اور عہدوپیمان کے، یہ باتیں طے کی گئی تھیں:

ا- بدعنوانی اور سیاسی انتقام سے نجات اور اربابِ اختیار کی حقیقی اور مبنی بر انصاف   جواب دہی کے لیے ایک ’سچائی اور مفاہمت کا کمیشن‘(Truth and Reconciliation Commission)قائم کیا جائے گا ،جو ۱۹۹۶ء سے تمام حالات کا جائزہ لے کر ملک کے مجرموں کی گرفت کرے، اور سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والوں کی پاک دامنی کے اظہار کی راہ ہموار کرے۔

ب- عوام کے مینڈیٹ کے مکمل احترام کے ساتھ اس میں یہ بھی عہدوپیمان کیا گیا تھا کہ:

ہم کسی فوجی حکومت، یا فوج کی حمایت یافتہ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ کوئی پارٹی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے، یا اقتدار میں آنے کے لیے فوج کی حمایت حاصل نہیں کرے گی۔

لیکن جس وقت اس میثاق کی نوک پلک درست کی جارہی تھی اور اس پر دستخط ثبت کیے جارہے تھے، اسی وقت پیپلزپارٹی کی قیادت، دوسری سیاسی پارٹی (مسلم لیگ ن) اور قوم کو تاریکی میں رکھ کر جنرل پرویز مشرف اور اس کے باوردی نمایندوں سے سیاست کے نئے نقشے کے خدوخال طے کر رہی تھی جس کا حاصل نام نہاد ’قومی مصالحت کا آرڈی ننس‘ ہے۔اس کا اعلان پرویز مشرف نے ۵؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کو کیا اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے اسمبلیوں سے استعفا دینے کے بجاے پرویز مشرف کے بے معنی صدارتی انتخاب کے بعد، اس کے ساتھ سیاسی اشتراک کا معاملہ طے کیا۔ اس طرح ملک پر وہ قانون مسلط کیا جس کے ذریعے قومی دولت لوٹنے، اختیارات کے غلط استعمال کرنے اور حتیٰ کہ فوجداری جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو دستور، قانون اور اخلاق کے تمام تقاضوں کو بالاے طاق رکھ کر ’پاک دامنی‘ کا سرٹیفیکیٹ دیا جاسکے، تاکہ وہ اس ناپاک غسل کے ذریعے ایک بار پھر قوم کی قسمت سے کھیلنے کے لیے اقتدار پر براجمان ہوسکیں۔

جنرل پرویز مشرف سے اس زمانے میں سارے معاملات طے کرنے کی داستان خود  بے نظیرصاحبہ نے اپنی کتاب Reconciliation (مفاہمت)میں بیان کی ہے، جس سے چند اقتباس صرف اس لیے پیش کیے جا رہے ہیں کہ اس دوغلی سیاست کا اصل چہرہ خود ان کے الفاظ میں دیکھا جاسکے: ’’مشرف کے دور کے آغاز سے ہی اس کی حکومت اور پیپلزپارٹی کے درمیان مسلسل مکالمہ جاری رہا‘‘۔ (ص ۲۲۳)

اس کا ایک نمونہ موصوفہ کے الفاظ میں وہ رابطہ بھی ہے جو ۲۰۰۲ء میں آئی ایس آئی کے  اعلیٰ باوردی ذمہ داروں کی آصف زرداری صاحب سے ملاقات کی صورت میں سامنے آیا جس کے دوران میں خود ان سے، جب وہ کیلی فورنیا، امریکا میں تھیں مشورہ کیا گیا اور معاملہ طے کرنے   کے لیے شرائط پیش کی گئیں۔ پھر ۲۰۰۴ء میں آصف زرداری صاحب کی رہائی عمل میں آئی۔    اس کے بعد جنرل مشرف سے بے نظیر صاحبہ کی ملاقات کا انتظام شروع ہوا اور بقول بے نظیر بھٹو، جنرل صاحب کے نمایندوں سے بات چیت کرنے کے لیے میری اس شرط پر عمل ہوا کہ      جنرل مشرف نے خود مجھ سے ٹیلی فون کر کے اپنے نمایندوں کے مینڈیٹ کا اعتراف کیا۔        ادھر مئی ۲۰۰۶ء کے ’میثاقِ جمہوریت‘ پر دستخط ہو رہے تھے اور ساتھ ہی مشرف سے سلسلہ جنبانی   اپنے عروج پر تھا اور بالآخر اگست ۲۰۰۶ء میں جنرل مشرف سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا اور بطور    اعتماد سازی اقدام اس قانون کو اسمبلی سے منظور کرایا گیا، جس میں حدود قوانین میں ترمیم کی گئی تھی۔

جنرل مشرف اور اس کی ٹیم سے جو معاملات طے ہو رہے تھے، ان میں لندن اور واشنگٹن کے حکمران بھی شریک تھے اور فوجی قیادت میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ بھی۔ اس سیاسی جوڑتوڑ اور معاملہ طے کرانے میں، یہ سبھی کردار گویا ’ضمانت کار‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر جنوری ۲۰۰۷ء اور جولائی ۲۰۰۷ء میں بے نظیر صاحبہ اور جنرل مشرف کی ملاقاتیں ابوظبی میں     شیخ زاید کے محل میں ہوئیں اور اس طرح ہر دو اطراف کے نمایندوں کی شب و روز کی محنت سے اکتوبر ۲۰۰۷ء میں این آر او کی ولادت واقع ہوئی (ملاحظہ ہو، ص ۲۲۷-۲۳۰)۔ امریکا، انگلستان، بے نظیر صاحبہ اور جنرل مشرف میں جرائم کی سیاہی کو پاک دامنی کا چوغا پہنانے کا جو معاہدہ ہوا،  اس کا اصل مقصد انھی کے الفاظ میں یہ تھا کہ موڈریٹ یعنی ’روشن خیال‘ قیادت کو برسرِاقتدار لایا جائے اور جنرل مشرف اور پیپلزپارٹی مل کر آگے کے مراحل کو طے کریں:

جنرل مشرف اور ان کے نمایندے مجھے برابر یقین دلاتے رہے کہ اسٹرے ٹیجک فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، اعتدال پسند فورم بناکر مل جل کر کام کیا جائے۔

اس سلسلے میں دستاویزات کا باقاعدہ تبادلہ ہوتا رہا ،اور بے نظیر صاحبہکے الفاظ میں:  ’’این آر او کے تبادلے میں ہماری طرف سے یہ کیا گیا کہ ہم نے اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیے،  گو کہ اس کو ووٹ بھی نہیں دیا‘‘۔ (ص ۲۲۹)

اس کہانی سے صاف ظاہر ہے کہ این آر او کا قانون اپنی اصل کے اعتبار سے دستور، قانون، سیاست اور اخلاق، ہر پہلو سے غلط اور گندا قانون تھا، بلکہ انگریزی محاورے میں:    it was conceived in sin and fraud [اس کی تشکیل میں دھوکا دہی اور گناہ دونوں شامل تھے]۔

اب یہ جناب نواز شریف ہی کی ’وسعت قلبی‘ ہے کہ اس پوری داستان سے واقفیت کے باوجود وہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں شریک ہوئے، پھر وعدہ خلافیوں کے نام پر باہر نکلے اور اب تک ’فرینڈلی اپوزیشن‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

قانون اور انصاف کا خون

آیئے اب دیکھیں کہ یہ قانون تھا کیا اور اس کے ذریعے کس طرح دستور، قانون، انصاف، سیاست اور اخلاق کو قتل کیا گیا۔

۱- اس کے ذریعے ۱۸۹۸ کے ضابطہ قانون فوجداری (Code of Criminal Procedure) کی دفعہ ۴۹۴ میں یہ ترمیم کی گئی کہ وہ تمام فوجداری مقدمات جو یکم جنوری ۱۹۸۶ء سے لے کر ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء تک قائم کیے گئے ہیں، ان کو مقدمے کی تکمیل کے بغیر ایک نظرثانی بورڈ کے ذریعے مرکز اور صوبوں میں ختم کیا جاسکتا ہے۔

۲-  عوامی نمایندگی کے قانون ۱۹۷۶ء میں یہ ترمیم کی گئی کہ ریٹرننگ افسر الیکشن کے نتائج کی ایک نقل امیدوار اور اس کے نمایندوں کو دے گا۔

۳- ’قومی احتساب آرڈی ننس ۱۹۹۹ئ‘ میں یہ ترمیم کی گئی کہ کسی رکن پارلیمنٹ اور  صوبائی اسمبلی کو، کسی پارلیمانی اخلاقی کمیٹی کی سفارش کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکے گا۔

۴- اسی ’قومی احتساب آرڈی ننس‘ میں یہ ترمیم کہ، نیب کے وہ تمام مقدمات جو ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل ملک کے اندر یا ملک سے باہر چلائے گئے ہیں، فوراً واپس لے لیے جائیں گے۔

اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ فوجداری اور بدعنوانی کے وہ تمام مقدمات جو ۱۹۸۶ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان قائم کیے گئے ہیں، قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر محض سیاسی مفادپرستی اور نام نہاد ’روشن خیال‘ قوتوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے لیے ختم کردیے جائیں گے اور اس طرح دیوانی اور فوجداری دونوں نوعیت کے ملزموں کو ’مفاہمت‘ کے نام پر غسلِ بے گناہی دے کر فارغ کر دیا جائے گا۔

بلالحاظ اس امر کے کہ اس آرڈی ننس کا فائدہ کس کو پہنچا ہے اور کس کس قسم کے جرائم کی اس کے ذریعے ’تطہیر اور صفائی‘ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، ہم پہلے چند اصولی باتیں    عرض کریں گے جن کی تائید عدالتِ عظمیٰ کے مختصر فیصلے سے بھی ہوتی ہے:

ا- قانون کو سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے بالاے طاق رکھا جا رہا ہے اور ملزموں کو ان کے دفاع کا پورا موقع دے کر جرم کے ارتکاب کے تعین یا بے گناہی کے تعین کو یکسر نظرانداز کرکے، حتیٰ کہ سچائی اور اعترافِ گناہ کے قانون اور اخلاقی عمل تک سے بے نیاز ہوکر، محض سیاسی بنیادوں پر اور جوڑ توڑ کے ذریعے ملزموں کو قانون اور عدالت کی گرفت سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ عمل انصاف اور قانون کی حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں کی کھلم کھلا اور شرمناک خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ ریاست، مجرموں کو معاشرے کے نمایندے کے طور پر انصاف کے کٹہرے میں لاتی ہے۔ اصولِ قانون کا یہ مسلّمہ کلیہ و قاعدہ ہے کہ جو چیز معاشرے کے خلاف جرم ہے، اس کے مرتکب کو قانونی ضابطے کے عمل سے گزارے بغیر جرم کے الزام سے بری نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کا یہ اختیار ہے ہی نہیں کہ جب ایک مقدمہ عدالت کے سامنے آگیا تو وہ اسے واپس لے سکے۔ جرم کا اثبات یا انکار اب عدالت کا کام ہے، سیاسی قیادت یا حکومت کی اجارہ داری نہیں ہے۔ حکومت کا دائرہ کار وہاں ختم ہوجاتا ہے، جب استغاثہ کسی مقدمے کو عدالت کے سامنے   لے آتا ہے۔ اس لیے یہ قانون اپنے پہلے ہی دن سے اصولِ قانون کے مسلّمات کے خلاف تھا اور قانون کی نگاہ میں ایک ’گھنائونا قانون‘ تھا، جس کا نفاذ ہی ایک جرم تھا، جس کی سزا اس قانون کے بنانے والوں کو ملنی چاہیے نہ کہ اس کے سہارے ملزموں کو غسلِ صفائی دیا جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کے جرائم کو داخل دفتر کردیا جائے۔ معاشرہ اور ان جرائم کا نشانہ بننے والے مظلوم انسانوں کو بے سہارا چھوڑ دیا جائے اور ملک اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو غاصبوں کی ہوسِ زر پوری کرنے کے لیے چاندی کی پلیٹ پر سجا کر دے دیا جائے۔

ب- دستور نے جن بنیادی حقوق کی ضمانت تمام انسانوں کو دی ہے، ان میں قانون کی نگاہ میں برابری اور مساوات ایک بنیادی حق ہے (دفعہ ۲۵)۔ اس نام نہاد صدارتی فرمان کی شکل میں دستور کی اس شق اور انصاف کے بنیادی اصول کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے کہ یکم جولائی ۱۹۸۶ء اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کے درمیان کیے جانے والے جرائم، بدعنوانی اور لوٹ مار کو کھلی چھوٹ مل جائے۔ البتہ ان تاریخوں سے پہلے یا ان کے بعد کیے جانے والے جرائم تو جرائم رہیں اور مجرموں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے۔ نیز ان تاریخوں کے درمیان بھی فوجداری اور جواب دہی کے قانون کی گرفت میں آنے والے سب ملزموں کو خلاصی کی یہ سہولت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ صرف [اُن خصوصی] ملزموں یا مجرموں کو رعایت حاصل کو ہوگی، جن کے مقدمات کو سرکار واپس لے۔ اس عمل کو قانون کی زبان میں discrimination[امتیازی یا جانب دارانہ سلوک] کہا جاتا ہے جو دستور، قانون اور اخلاق کے خلاف ہے۔ اس طرح ’قانونی برابری‘ کے اصول کا خون کیا گیا ہے اور ایسا قانون ایک لمحے کے لیے بھی قانونی درجہ نہیں پاسکتا۔

قرآن و سنت اور دستور کی صریح خلاف ورزی

یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ دستور نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو محکم بنیادوں پر قائم کرنے کے ساتھ پارلیمنٹ پر دو پابندیاں لگائی ہیں۔ ان پابندیوں کی خلاف ورزی پارلیمنٹ اپنے قانون سازی کے اختیار کے استعمال کے باب میں نہیں کرسکتی ،اور نہ ان کے برعکس کوئی آرڈی ننس ہی انتظامیہ لاسکتی ہے۔ یہ پابندیاں دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۸ اور دفعہ۲۲۷ میں درج ہیں، یعنی بنیادی حقوق کے خلاف اور قرآن و سنت کے احکام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی اور یہ قانون ان دونوں دفعات کی رُو سے دستور پاکستان کے خلاف ہے۔

دستور کی دفعہ ۸ صاف الفاظ میں کہتی ہے:

آرٹیکل ۸- بنیادی حقوق کے نقیض یا منافی قوانین کالعدم ہوں گے:

۱- کوئی قانون یا رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو۔

۲- مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا    کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے، اس   خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا۔

دستور کی دفعہ ۲۷۷ کہتی ہے:

تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے، اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔

قرآن و سنت کے احکام اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ (النساء ۴:۵۸) مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں    اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

مسلمانوں کی صفت قرآن کے الفاظ میں یہ ہے کہ: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ o (المومنون ۲۳:۸) ’’اور جو امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔

خیانت کی ہر شکل کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الانفال ۸:۲۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو جانتے بوجھتے اللہ اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ بنو حالانکہ تم جانتے ہو۔

وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۱) اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہوجائے گا اور ہر نفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔

اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزِ قیامت جب حساب کتاب کے لیے بارگاہِ الٰہی میں پیشی ہوگی اور آدمی کے پائوں اپنی جگہ سے سرک نہ سکیں گے جب تک    مِن جملہ اور باتوں کے، اس سے یہ پوچھ گچھ نہ کرلی جائے گی: وَعَنْ مَالِہِ مِنْ أیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَا أَنْفَقَہٗ، یعنی مال کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں سے اسے حاصل کیا اور کن کاموں پر اور کن راہوں میں اس کو صرف کیا۔

ارشادِ نبیؐ برحق ہے کہ جس شخص نے کسی دوسرے کی کچھ بھی زمین ناحق لے لی تو قیامت کے دن وہ اس زمین کی وجہ سے (اور اس کی سزا میں) زمین کے ساتوں طبق تک دھنسا دیا جائے گا۔

وَمَنْ اَخَذَ مِنَ الْاَرْضِ شَیْئًا بِغَیْرِ حَقّہِ خُسِفَ بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِلٰی سَبْعِ أَرْضِیْن (بخاری)

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ اِنْتَھَبَ نَھْبَۃً فَلَیْسَ مِنَّا (ترمذی) ’’جس نے کسی کی کوئی چیززبردستی چھین لی اور لوٹ لی تو وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے جہاں مسلمانوں کے درمیان ہدیوں کے تبادلے کو محبت میں اضافے کا ذریعہ قرار دیا ہے وہیں  حاکمِ وقت اور فرماں روا کے لیے ہدیوں کے لینے کی مخالفت کی ہے اور انھیں خیانت اور ایک طرح کی رشوت قرار دیا ہے: ھَدَایَا الْاِمَامِ غُلُوْل (امام وقت کے ہدیے غلول، یعنی ایک طرح کی رشوت اور خیانت اور ناجائز استحصال کی قبیل سے ہیں)

راشی اور رشوت دینے والے دونوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے: الرَّاشِیِ وَالْمُرْتَشِیِ کِلَاھُمَا فِی النَّار، اور حضوؐر کا ارشاد ہے:

لاَ یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ یَتَصَدَّقُ مِنْہٗ فَیُقْبَلَ مِنْہُ ، وَلَا یُنْفِقُ مِنْہُ فَیُبَارَکَ لَہٗ فِیْہِ ، وَلاَ یَتْرُکُہُ خَلَفَ ظَھْرِہِ اِلَّا کَانَ زَادُہُ اِلَی النَّارِ (مسند احمد) ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ کسی ناجائز طریقے سے حرام مال کمائے اور اس میں سے پہلے صدقہ کرے، تو اس کا صدقہ قبول ہو اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میںبرکت ہو، اور جو شخص حرام مال (مرنے کے بعد) پیچھے چھوڑ جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہی ہوگا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قانون کے نفاذ میں انسانوںکے درمیان تفریق نہ کرو اور وہ قومیں جو کمزور لوگوں کو تو قانون کے مطابق سزا دیتی ہیں، مگر صاحب ِ اختیار اور طاقت ور اور بالائی طبقے کے لوگوں کو سزا سے بچا لیتی ہیں وہ تباہی کا راستہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر     فاطمہؓ بنت محمدؐ نے بھی چوری کی ہوتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔

یہ ہیں اللہ، اللہ کے رسولؐ اور خود ہمارے دستور کے واضح احکامات۔ این آر او ان سب کی کھلی کھلی خلاف ورزی تھا اور اپنے اعلان کے پہلے دن ہی سے ایک ناجائز حکم نامہ تھا۔ اچھا ہوا سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے ختم کر دیا، خس کم جہاں پاک۔

اس قانون سے فائدہ اُٹہانے والے

یہ تو اس قانون کے بارے میںاصولی پوزیشن تھی لیکن ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اس قانون سے فائدہ اٹھانے والوں پر کیا کیا الزامات تھے اور ان میں کیسے کیسے نام وَر شامل تھے    ؎

نہ من تنہا دریں میخانہ مستم

جنید وشبلی و عطار ہم مست

اس بدنامِ زمانہ قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کی کُل تعداد ۸۰۴۱ بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے ۷۷۹۳ کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ ۳۰۰ اہم سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے اپنے مقدمات ختم کرائے ہیں، جس کے نتیجے میں صرف ان ۳۰۰ افراد نے این آر او کے تحت۱۶۵ ارب روپے کی بدعنوانیوں، اختیارات کے غلط استعمال اور غبن کے مقدمات معاف کروا کر اپنے کو ’پاک‘ کرا لیا۔ دی نیوز اخبار کی ۲۰ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں یہ اطلاع قابلِ اعتبار ذرائع سے دی گئی ہے: ۱۶۵ ارب روپے کا اندازہ اصل رقم سے بہت کم ہے، جب کہ صحیح رقم ایک ہزار ارب روپے بنتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے اور اغلب یہی ہے کہ اصل رقم ایک ہزار ارب ہے تو صرف اتنی بات پیش نظر  رکھی جائے کہ صرف یہ رقم جو ۱۲؍ارب ڈالر بن جاتی ہے پانچ سال میں امریکا سے ملنی والی مدد (۵ئ۷ بلین ڈالر) سے کہیں زیادہ ہے اور ملک کے لیے بیرونی امداد کی بھیک مانگنے والی تمام رقوم سے زیادہ ہے۔ حکومتِ پنجاب نے جو ۷۷ افراد کی فہرست عدالتِ عظمیٰ کو بھجوائی ہے اس میں صرف ایک سابقہ رکن قومی اسمبلی نے ۱۷۰ ملین ڈالر کا فائدہ اٹھایا ہے۔

پیپلزپارٹی کے مرکزی حکومت کے وزیرمملکت براے قانون افضل سندھو نے جو فہرست عدالت کو دی ہے (اور اب وہ اس وزارت سے فارغ کردیے گئے ہیں اور ان کی جگہ ایک ایسے سینیٹر کو وزارتِ قانون و انصاف کا قلم دان سونپ دیا گیا ہے جن پر حارث اسٹیل مل کے مقدمے میں ساڑھے تین کروڑ روپے ججوں کو خریدنے کرنے کے لیے دیے جانے کا الزام ہے اور بحیثیت وزیرقانون ’قومی احتساب بیورو‘ (NAB) کا محکمہ خود ان کے ماتحت ہوگا) اس فہرست کی رُو سے اس قانون سے عظیم ترین ’فائدہ‘ اٹھانے والوں میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن اور موجودہ صدرمملکت جناب آصف زرداری ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنوں کی بڑی تعداد یعنی ۳ہزار ۷ سو ۷۵ افراد بھی اس سے مستفید ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے لیڈر جناب الطاف حسین کے  خلاف ۷۱ مقدمات تھے، جن میں سے ۳۱ کا تعلق قتل اور ۱۱ کا اقدامِ قتل سے تھا۔ واضح رہے کہ روزنامہ دی نیشن کی اطلاع کے مطابق (۱۹ نومبر ۲۰۰۹ئ) اس قانون کے آنے کے بعد ان آٹھ ہزار سے زائد مقدمات کی واپسی کے علاوہ نیب سے ۳۰۰ مزید ان مقدمات کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، جو ابھی زیرتفتیش تھے۔ اس کے علاوہ ساڑھے پانچ ہزار کے قریب مزید مقدمات ہیں جن کی ’قومی احتساب بیورو‘ اب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پیروی میں مشکل محسوس کر رہا ہے۔

قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں لیکن پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت صدرمملکت اور گورنر صاحبان کو ان کے دورِ اقتدار میں ہرقسم کی فوجداری جواب دہی سے مستثنیٰ قرار دیا گیاہے، جو اسلامی احکام و روایات اور خود جمہوری ممالک کے تعامل سے متصادم ہے۔ کیا امریکا کے دو سابق صدور رچرڈ نکسن اور کلنٹن صاحبان پر عدالت کے ذریعے فوجداری تفتیش و جواب دہی کا معاملہ  نہیں ہوا، کہ جس کے نتیجے میں ۱۹۷۴ء میں صدرنکسن کو استعفا دینا پڑا۔ کیا اٹلی کے موجودہ وزیراعظم سلوایو بریاسکونی کو ایسی رعایت ختم کر کے وہاں کی عدالتِ عظمیٰ نے، ان کے خلاف مقدمات کا دروازہ نہیں کھولا۔ حتیٰ کہ اسرائیل میں اس کے ایک صدر اور ایک وزیراعظم پر دورِاقتدار میں کیا فوجداری اور کرپشن کے مقدمات قائم نہیں ہوئے؟ کیا اس مشق سے وہاں کا سیاسی نظام اور جمہوریت کسی خطرے کا شکار ہوئے؟ زرداری صاحب نے این آر او سے جس فیاضی سے فائدہ اٹھایا ہے، اس کی تفصیل سینیر قانون دان جناب محمد اکرم شیخ نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ دی نیوز (۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ئ) میں دی ہے، جو اہلِ نظر کے لیے چشم کشا ہے۔

l ۱۵ فروری ۲۰۰۸ء کو زرداری صاحب نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنے تمام زیرسماعت مقدمات سے این آر او کے تحت گلوخلاصی کی درخواست دی، اور ۲۸ فروری کو اس وقت پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے عدالت کو ہدایت دی کہ عدالت ان کے مقدمات کو تیزی سے نمٹا دے، نتیجہ یہ کہ ۲۴گھنٹے میں سندھ ہائی کورٹ نے معاملہ ختم کر دیا۔

  • مارچ ۲۰۰۸ء کو زرداری صاحب نے محمدنوازشریف صاحب کے ساتھ ’معاہدۂ مری‘ کیا۔ اس کے چار دن بعد ۱۲مارچ کو سوئٹزرلینڈ کے ایس جی ایس کوٹیکنا مقدمے سے زرداری صاحب کو بری کر دیا گیا۔ ۱۴مارچ ۲۰۰۸ء کو ’بی ایم ڈبلیو مقدمہ‘ ختم ہوا۔ ۲۴ مارچ ۲۰۰۸ء کو جسٹس نظام اور ان کے صاحبزادے کے قتل کے مقدمے سے زرداری صاحب کو بری قرار دیا گیا۔ ۸؍اپریل ۲۰۰۸ء مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے مقدمے سے نجات مل گئی۔ ۱۶؍اپریل ۲۰۰۸ء عالم بلوچ کے قتل کے مقدمے سے موصوف کو فارغ کر دیا گیا۔ ۱۳ مئی ۲۰۰۸ء کو موصوف اور ان کے دوسرے شریکِ جرم واجد شمس الحسن (برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر اور سوئس مقدمے کی دستاویزات کے ۱۲ڈبوں کو بنفسِ نفیس سوئس عدالت سے لانے کی شہرت کے مالک) کے ساتھ اسمگلنگ کے مقدمے سے نجات مل گئی۔ اسی طرح ۱۹ مئی ۲۰۰۸ء کو لاہور سے اسمگلنگ ہی کے ایک مقدمہ کاتیا پانچا کردیاگیا۔ یوں جناب چیئرپرسن مکمل ’غسل‘ کرنے کے بعد مملکت خداداد پاکستان کی صدارت کی کرسی پر رونق افروز ہوگئے۔

بلاشبہہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے سب افراد اب آزمایش کی کسوٹی پر ہیں۔ انھیں اپنے اُوپر عائد شدہ الزامات کا کھلے انداز میں مقابلہ کرنا چاہیے اور ایک غیر جانب دار عدالتی انتظام کے سامنے اپنی بے گناہی کو ثابت کرنا چاہیے، یا پھر اپنے کیے کی سزا بھگتنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اب اس دلدل سے نکلنے کا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری خود جناب آصف علی زرداری کی ہے۔

سب سے پہلے یہ پاکستان کے مجبور و مقہور عوام کا حق ہے کہ ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والوں کا احتساب ہو اور حقیقی مجرموں کی قرارواقعی سزا ملے۔ قوم کی دولت ان سے واپس لی جائے، نیز جو لوگ بے جا طور پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنے ہیں، ان کی پاک دامنی قابلِ بھروسا اور شفاف عدالتی عمل کے ذریعے ثابت ہو، اور پاکستان کے عوام ان کے بارے میں مطمئن ہوسکیں۔ اس کے ساتھ پاکستان کی ساکھ کو ساری دنیا میں جو شدید نقصان پہنچا ہے، اس کی تلافی بھی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اب بڑے اور چھوٹے سب کو عدالت کے سامنے لایا جائے ،اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ء کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ملک ہی میں نہیں پوری عالمی برادری میں آصف زرداری صاحب کے معاملے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ محض سیاسی شعبدہ بازی سے اب اس مسئلے کو قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا۔ ۱۷؍دسمبر کے اخبارات نے جو کچھ لکھا، وہ ایک آئینہ ہے۔ اس آئینے میں موجودہ برسرِاقتدار قیادت اپنا اصل چہرہ اور پاکستان کو درپیش اصل چیلنج کے صحیح خدوخال دیکھ سکتی ہے۔ ریکارڈ کی خاطر چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

لندن کے اخبار دی ٹائمز کی رپورٹ ملاحظہ ہو:

پاکستان کے سیاسی لیڈروں میں بدعنوانی بہت پھیلی ہوئی ہے لیکن زرداری کی سرگرمیاں مبینہ طور پر جس بڑے پیمانے پر جاری ہیں اس نے تجربہ کار مبصرین کو بھی صدمے سے دوچار کر دیا۔ صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے غیرقانونی ذرائع سے دنیا بھر میں ۵ئ۱ارب ڈالر جمع کیے ہیں۔ نیب نے عدالت کو جو رپورٹ دی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ زرداری کی دولت ذرائع آمدن سے بہت زیادہ ہے۔ بیورو کے عہدے دار نے بتایا کہ کمیشن اور رشوت سے جمع رقم میں سے ۶۰ ملین ڈالر سوئس بنک میں زرداری اور بے نظیر بھٹو کے اکائونٹ میں ہیں۔ ایک سوئس عدالت نے زرداری اور بے نظیربھٹو کو مجرم قرار دیا اور چھے ماہ کی سزاے قید دی جسے اپیل پر معطل کردیا گیا۔ جناب زرداری عدالت میں کبھی پیش نہیں ہوئے۔

نیویارک ٹائمز اس طرح اس مسئلے کو بیان کرتا ہے:

کسی دہشت گرد کے حملے کا نشانے بننے سے خوف زدہ مسٹر زرداری ایوانِ صدر سے شاذ ہی باہر آتے ہیں۔ گذشتہ ۱۰ دنوں میں جب سپریم کورٹ ان کے اختیارات پر بحث کر رہی تھی وہ بیش تر وقت ایوانِ صدر میں رہے۔ گذشتہ ہفتے جب این آر او پر سماعت شروع ہوئی توپاکستان کے ایک معروف اخبار نے ایک دفعہ پھر انھیں ایسے آدمی کی حیثیت سے پیش کیا جسے عام طور پر بدعنوان سمجھا جاتا ہے۔

خلیج ٹائمز بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے: ’’بدھ کو آنے والے فیصلہ مایوس کن حد تک غیرمقبول زرداری پر ایک بڑا حملہ تھا جو اس کے زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔

حقائق کا سامنا کرنے کی ضرورت

بات صرف پاکستانی دانش وروں، سیاسی کارکنوں، صحافیوں ہی کی نہیں، پوری دنیا زرداری صاحب کے معاملے کو ایک ’ٹیسٹ کیس‘  سمجھتی ہے، اور اب اس سے فرار کی کوئی راہ نہیں بچی۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ: ’’الزامات عدالت میں ثابت نہیں ہوسکے اور ہم نے اتنی قید کاٹ لی ہے، اس لیے اب ہم قانون کی گرفت سے آزاد ہیں یا یہ کہ سب کچھ سیاسی انتقام کا شاخسانہ تھا‘‘۔

ہر کوئی جانتا ہے اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے اور مشہور قانون دان ایس ایم ظفر صاحب نے، کہ جو حقائق سے واقف ہیں، صاف لفظوں میں کہا ہے کہ بدعنوانی کے مقدمات کے فیصلے    نہ ہونے میں بڑا دخل اس حکمت عملی کا تھا کہ ملزموں نے عدالتی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے، باربار اور مسلسل تاخیری حربے استعمال کیے۔ اس کا ثبوت وہ حلفیہ بیانات بھی ہیں جو ملزموں کے یا ان کے وکیلوں نے عدالت کے سامنے پیش کیے اور پیشی پر پیشی لیتے چلے گئے۔ سوئٹزرلینڈ کی عدالت کے سامنے زرداری صاحب کے وکیلوں نے ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ تک دیے کہ وہ ایسی بیماری (Dementia) میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے حافظہ متاثر ہوتا ہے اور مریض بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کھلی عدالت میںشفاف طریقے سے جب تک کوئی الزام ثابت نہ ہو، وہ الزام ہی رہتا ہے۔ لیکن عدالتی عمل کی طوالت کا بہانہ بناکر جرم سے فرار کا کوئی جواز نہیں ہے۔ زرداری صاحب کے معاملے میں تو بین الاقوامی اداروں اور آزاد اخبارات کی اپنی تحقیق، کئی مغربی ممالک بشمول سوئٹزرلینڈ، اسپین، فرانس اور انگلستان میں عدالتوں کی تحقیق اور کارروائیاں بھی موجود ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ۹جنوری ۱۹۹۸ء کی اشاعت میں اپنے نمایندے جان ایف بورس (John F. Burus) کی مفصل رپورٹ جو House of Graft: Tracing the Bhutto Millions ___ A Special Reportکے عنوان سے شائع کی ہے، جس میں اخبار نے اپنے ذرائع سے تحقیق کا بھی حوالہ دیا ہے، جوقابلِ توجہ ہے:

بھٹو خاندان کے بارے میں پاکستانی تفتیش کاروں کی جانب سے دستاویزات سامنے آنے کے بعد مسٹر بھٹو اور مسٹر زرداری کے بارے میں کچھ تفصیل گذشتہ برس یورپی اور امریکی اخباروں میں آنا شروع ہوئی۔ لیکن زیادہ واضح تصویر اس وقت اُبھر کر سامنے آئی جب اکتوبر میں نیویارک ٹائمز کو دستاویزات کی کئی جلدیں فراہم کی گئیں۔ ٹائمز نے پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں تین ماہ تک خود تحقیقات کی اور ان مرکزی شخصیات سے انٹرویو بھی کیے جن کا ذکر پاکستانی تفیش کاروں نے کیا تھا۔ پاکستان میں تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت تک جن ۱۰۰ ملین ڈالر کا پتا چلا ہے۔ وہ بدعنوانیوں کی کل یافت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ۱۹۹۶ء میں بے نظیر بھٹو کی برطرفی کے بعد جو تحقیقات شروع کی گئی تھیں ان سے معلوم ہوا تھا کہ ان کے خاندان اور ساتھیوں نے سرکاری کاموں کے تقریباً ہر دائرے میں___ چاولوں کے سودے، سرکاری زمین کی فروخت اور سرکاری ویلفیئر اسکیموں سے حصہ___ غیرقانونی منافع اور رشوت کی شکل میں ۵ئ۱ارب ڈالر تک جمع کیے۔

اس سلسلے کی سب سے ہوش ربا شہادت امریکا کے ادارے ’نیشنل سیکورٹی ایجنسی‘ (NSA) کی وہ ٹیلی فون ریکارڈنگ ہے ،جو نومبر ۲۰۰۷ء میں خود محترمہ نے اپنے صاحبزادے بلاول زرداری سے دوبئی سے کی تھی، اور جس میں اپنے بنک اکائونٹس کی تفصیل اور ضروری ہدایات دی گئی تھیں۔ یہ پوری تفصیل رون سسکند (Ron Suskind) نے اپنی کتاب The Way of The World (مطبوعہ ۲۰۰۸ئ) میں دی ہے۔

یہ سب باتیں ساری دنیا میں زبان زدِخاص و عام ہیں اور ان کا سامنا کیے بغیر ان الزامات سے گلوخلاصی ممکن نہیں۔ ہم اب بھی یہی کہتے ہیں کہ الزامات میں بڑا وزن ہے اور واقعاتی شہادت زوردار ہے، تاہم مسئلے کا حل وہی ہے جو عدالت ِعظمیٰ نے تجویز کیا ہے، یعنی مقدمات اور الزامات کا کھلی عدالت میں مقابلہ۔ سب کو اپنے دفاع کا پورا حق اور موقع ملنا چاہیے مگر محض سیاسی انتقام کا واویلا حقائق سے فرار اور الزامات کو ختم نہیں کرتے بلکہ شبہات کو بڑھا دیتے ہیں۔

سرے محل اور سوئس بنک کے ۶۰ ملین ڈالر تو زرداری صاحب کے اپنے تحریری اعتراف کے مطابق ان کی ملکیت ہیں۔ لیکن جو دستاویزات موجود ہیں ان کے مطابق تو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کے پاس یہاں پاکستان میں ۲۲ کروڑ اور ملک سے باہر ۵ئ۱ بلین ڈالر کے اثاثہ جات ہیں۔ اگر یہ ہوائی بات ہے تو سچائی کو ثابت کرنا چاہیے اور اگر یہ رقوم اور اثاثہ جات ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کیسے حاصل کی گئیں۔ اس لیے کہ زرداری صاحب نے ۱۹۹۰ء میں پارلیمنٹ کے سامنے اپنے اثاثہ جات میں اپنی جس دولت اور آمدنی کا ذکر کیا ہے، اس سے تو آج کی دولت کے عشرعشیر کی بھی توجیہہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی محاذآرائی مسئلے کا حل نہیں۔ حقائق کا سامنا کرنے کے سواکوئی چارۂ کار نہیں ہے۔

ہم یہ سب حقائق بڑے دکھ بلکہ شرمندگی کے احساس کے ساتھ نذرِ قارئین کر رہے ہیں لیکن یہی ہے وہ داستان جس نے پوری دنیا میں پاکستان کی عزت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ پورے عالمی میڈیا میں ہماری سیاسی قیادت اور کارفرما عناصر کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے، وہ ہرپاکستانی کے لیے شرم اور خفت کا باعث ہے۔ ملک کو بدعنوانی کا جو ناسور کھائے جا رہا ہے، اس نے ملک کو اخلاقی بگاڑ، معاشی تباہی اور سیاسی خلفشار کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔

ہماری اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے کہ کھلی کھلی بدعنوانی و بددیانتی کے مرتکب افراد اپنے گھنائونے کرتوتوں پر نادم ہونے کے بجاے چوری اور سینہ زوری کی راہ پر گامزن ہیں۔ قتل اور اغوا کے ملزم سرعام کہہ رہے ہیں کہ ہم پر کرپشن کا تو کوئی الزام نہیں ہے۔ گویا مال لوٹنے والوں کے مقابلے میں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا، بوریوں میں لاشوں کے ’تحفے‘ بھیجنا اور زندہ انسانوں کو تعذیب اور ان کی ہڈیوں کو برموں سے چھیدنا (drilling) کوئی جرم نہیں، اجتماعی خدمت تھی۔ جو قوم اپنے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لاسکے، وہ اجتماعی بگاڑ اور تباہی سے بچ نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پوری قوم نے عدالتِ عظمیٰ کے ۱۶دسمبر کے فیصلہ پر سُکھ کا سانس لیا ہے اور عدلیہ کے اس اقدام سے مظلوم انسانوں کی آنکھوں کو اُمید کی ایک کرن نظر آنے لگی ہے۔ لیکن جہاں اس ملک کے عوام اور تمام مظلوم طبقات نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور چین کا سانس لیا ہے، وہیں اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ مفاد پرست عناصر اور ان کے نام نہاد لبرل دانش ور میدان میں کود پڑے ہیں اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں اور اداروں کی کش مکش کا واویلا کر رہے ہیں۔

عدلیہ کے فیصلے پر اعتراضات

یہ بھی ایک عجب تماشا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیپلزپارٹی کے ترجمانوں اور اس کے ہم نوا دانش وروں اور صحافیوں نے کھل کر تنقید کی ہے۔ بلاشبہہ ہر فیصلے کا قانون اور مسلّمہ اصولِ انصاف کی روشنی میں جائزہ لیا جاناچاہیے، تاہم جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم  کیا جاسکتا ہے: ایک سیاسی اعتراضات جن میں کہا گیا ہے عدالت نے مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا ہے اور فیصلے میں ایک سیاسی پیغام بھردیا ہے۔ کچھ نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے کہ جج انتقام    لے رہے ہیں۔ کچھ تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ اسے ججوں اور فوجی مقتدرہ کی طرف سے ’جوابی حملہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

ہماری نگاہ میں یہ تمام اعتراضات نہ صرف یہ کہ حقائق سے کوئی نسبت نہیں رکھتے، بلکہ  بیمار ذہنوں اور مجرم ضمیروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کی ۲۷دسمبر ۲۰۰۹ء کی نوڈیرو کی تقریر بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی پوزیشن کو مزید کمزور کرنے کا باعث ہوئی ہے۔  ہمارا مشورہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت فرار اور تصادم کایہ راستہ اختیار نہ کرے۔ اس میں اس کا اور ملک کا خسارہ ہے۔ حقائق کا سامنا کرے اور دستور اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا دفاع کرے۔ اس کے بغیر اسے نہ سندِجواز حاصل ہوسکتی ہے اور نہ اعتبار ہی بحال ہوسکتا ہے۔

رہے دوسرے اعتراضات، تو ان کا دلیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم مختصراً ان کا جائزہ لیتے ہیں:

  • اختیارات سے تجاوز: پہلا اعتراض یہ ہے کہ سپریم کورٹ عدالتی فعالیت (judicial activism) کا راستہ اختیار کر رہی ہے اور یہ اس کا اپنے دائرۂ کار سے باہر جانے اور انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے دائرۂ کار میں مداخلت کے مترادف ہے‘‘___ ہماری نگاہ میں عدالتی فعالیت اور عدالتی نظم و ضبط دونوں کے حق میں مضبوط دلائل موجود ہیں اور دنیا کے مہذب اور جمہوری ممالک میں دونوں ہی کی مثالیں ملتی ہیں۔

ہماری دیانت دارانہ راے ہے کہ مارچ ۲۰۰۹ء میں عدلیہ کی بحالی کے بعد سے عدلیہ نے پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے اور دستور کے تحت دیے گئے اختیارات سے کہیں تجاوز نہیں کیا۔ دستور کی دفعہ (۳) ۱۸۴ بڑی واضح ہے کہ عدالت کو بنیادی حقوق کی حفاظت کے باب میں عوامی اہمیت کے مسائل پر ازخود کارروائی کا اختیار ہے۔ عدالت نے اس اختیار کو عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے پوری احتیاط سے استعمال کیا ہے۔ لیکن چونکہ اس کی زد حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں پر پڑتی ہے، اس لیے وہ اس پر چیں بہ جبیں ہیں۔ اس نوعیت کی عدالتی فعالت کی مثالیں امریکا، یورپی ممالک اور خود بھارت میں بے شمار موجود ہیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے تو دہلی میں بسوں سے خارج ہونے والے دھوئیں تک کا نوٹس لیا اور حکومت نے عدالت کے احکام کی پاس داری کی۔

ہماری نگاہ میں اداروں کے تصادم کی جو بات کی جارہی ہے وہ حقائق کے منافی تو ہے ہی لیکن اس کے اندر ملک میں فساد، خرابی اور بگاڑ کی کیفیت پیدا کرنے کا خطرہ ہے اور یہ سب کے لیے بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے ملک کی سیاسی قیادت، خصوصیت سے حزبِ اختلاف اور میڈیا کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور برائی کو آغاز پر ہی مٹانے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

  • فرد یا جماعت کو ھدف بنانا: دوسرا بڑا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ: ’’اس فیصلے کے نتیجے میں خاص طور پر ایک فرد یا جماعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میڈیا کے کچھ عناصر اس سلسلے میں بہت منفی کردار ادا کررہے ہیں‘‘۔ ہماری نگاہ میں یہ الزام بھی کُلی طور پر بدنیتی پر مبنی ہے۔ عدالت کے مذکورہ فیصلے میں کسی فرد کا ذکر نہیں ہے۔ تمام بات اصولی اور عمومی حوالہ لیے ہوئے ہے۔ اب اگر اس کی زد چند خاص افراد یا جماعتوں پر پڑتی ہے تو یہ ان کو سمجھناچاہیے کہ اس کی وجہ ان کے اپنے رویے اور طور طریقے ہیں، جن کی اصلاح کے لیے انھیں فکر کرنی چاہیے نہ کہ آئینے میں چہرے کے داغ دیکھ کر وہ آئینے کو چکناچور کرنے کی سعی بلیغ فرمائیں۔

اس باب میں یہ بات بھی بڑی پریشان کن اور نقصان دہ ہے کہ میڈیا کی آزادی اور خصوصیت سے چند لائقِ احترام صحافیوں اور اینکرپرسنز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صدر سے لے کر وزیروں اور پارٹی لیڈروں تک نے ان پر رکیک حملے کیے ہیں۔ یہ آمرانہ ذہن اور مجرم ضمیر کی علامت ہے۔ قوم کو ایسی جارحیت کا دلیل کے ساتھ اور جم کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ ان پر اقتدار کا یہ حملہ ہرگز قابلِ برداشت نہیں۔ صحافیوں کو نشانہ بنانے کی بات تو اب اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ وزرا کے بچے تک ان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر اس روش کا فوری طور پر اور سختی سے سدباب نہ کیا گیا تو یہ شاخسانہ ملک کی آزادی اور اس کے اداروں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

  • مھلت کیوں دی؟ ایک تیسرا اعتراض یہ ہے:’’اگر عدالت کو اس آرڈی ننس کو اس کے یومِ پیدایش سے  باطل قرار دینا تھا تو اس کو چار مہینے کی نئی زندگی عطا کرکے پارلیمنٹ کو کیوں بھیجا؟‘‘ بلاشبہہ ہماری نگاہ میں اس کی ضرورت نہیں تھی اور عدالت اپنے ۳۱ جولائی کے فیصلے میں بھی اسے باطل قرار دے سکتی تھی، لیکن غالباً اس نزاکت کی بنا پر ایسا نہ کیا گیا، چونکہ اس کو بظاہر سیاسی مصالحت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اس لیے یہ موقع پارلیمنٹ اور سیاسی عمل کو دیا جائے کہ وہ خود اس کی اصلاح کرلیں۔ پارلیمنٹ کا کام محض اس آرڈی ننس کی تائید اور منظوری نہیں بلکہ اس کی تبدیلی بھی ہوسکتا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلے تو اس کو اندھادھند طریقے سے منظور کرانے کی کوشش کی اور کمیٹی میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے اسے تقریباً منظور کرا لیا، لیکن پھر پارلیمنٹ اور عوام کا ردعمل دیکھ کر اسے واپس لیا۔ یہ ساری کارستانی حکومت کی بدنیتی کا بین ثبوت ہے۔ حالانکہ حکومت کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی پارٹیوں کو شریکِ مشورہ کرکے اس کو یکسر بدل ڈالتی اور بدعنوانی کی ’دھلائی‘ کے بجاے اسے حقیقی بدعنوانی پر گرفت کا قانون بنا دیتی۔ چونکہ پارلیمنٹ اس امتحان میں ناکام رہی اور عدالت نے بجاطور پر ایک غلط قانون کو غلط قرار  دے کر اپنی ذمہ داری ادا کی ہے، اس پر اس کی تحسین ہونی چاہیے، نہ کہ نکتہ چینی!
  • دستور کی اسلامی دفعات پر اعتراض: چوتھا اعتراض سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے اوراس ملک کے نام نہاد لبرل طبقے کے ذہن کا ترجمان ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی حقوقِ انسانی کی علَم بردار خاتون بھی اس فیصلے پر تلملا اُٹھی ہیں کہ عدالت نے دستور کی دفعہ ۲ الف، ۶۲، ۶۳ اور ۲۲۷ کا حوالہ کیوں دے دیا۔ یہ اس طبقے کے اسلام سے گریزپا (الرجک) ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ ان کو یہ بھی اعتراض ہے کہ دستور میں یہ ترامیم جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوئیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ پارلیمنٹ نے ان کی توثیق کی ہے، تمام جماعتوں نے ان کو قبول کیا ہے   اور میثاقِ جمہوریت میں دستور کے ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی کا جو عہدوپیمان کیا گیا ہے  اس میں یہ سب دفعات من و عن شامل ہیں۔ ایوب خان کے مسلط کردہ مسلم فیملی لاز پر توکبھی     یہ تشویش اس طبقے کونہیں ہوئی کہ ایک آمرمطلق نے اسے مسلط کیا تھا اور دستور میں بھی اسے تحفظ ایک آمر ہی نے دیاتھا، لیکن پاکستان کے اسلامی تشخص اور کردار کو دستور میں واضح کرنے والی جو ترمیم بھی ہوئی وہ ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔

اسی سلسلے میں یہ بے ہودہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ: ’’امانت، دیانت اور صادق و امین ہونے کا تعین کون اور کیسے کرے گا؟‘‘ حالانکہ دنیا کے تمام قانونی اور اخلاقی ضابطوں میں یہ   باتیں معروف ہیں۔ برطانوی دستور و قانون کے بہترین شارح سر آئیور جیننگز نے اپنی کتاب Cabinet Government(وزارتی حکومت) میں کھل کر یہ بحث کی ہے کہ جمہوریت میں اربابِ اختیار و اقتدار کے لیے سب سے ضروری وصف دیانت اور امانت ہے۔ اگر اہلیت کی کمی ہو تو وہ مشیروں اور اہل ترین افراد کی مشاورت سے دُور کی جاسکتی ہے، لیکن اگر دیانت نہ ہو تو پھر ایسے فرد کا حکمرانی کا حق ختم ہوجانا چاہیے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے بددیانت اور بدعنوان افراد کبھی بھی عوام یا قانون کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکے۔

ان اعتراضات کے علاوہ ایک سلسلہ اس بدزبانی اور یاوہ گوئی کا ہے، جس کا سہرا   زرداری صاحب کے خاص حواریوں کے سر ہے۔ زرداری صاحب خود اداروں کے تصادم اور مخالفین کی آنکھ پھوڑنے کی باتیں کر رہے ہیں اور من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید کے مترادف جو گُل کھلا رہے ہیں ان پر ماتم تو کیا ہی جائے گا، لیکن وہ خطرے کی گھنٹی کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سینیر راہنما اور اسمبلی میں چیف وہپ خورشید شاہ صاحب ذرا محتاط انداز میں  ’سندھ کارڈ‘ ان الفاظ میں استعمال کرتے ہیں کہ:’’سندھ نے وفاق کے لیے دو وزراے اعظم کی قربانی دی ہے، اب مزید کوئی قربانی نہیں دیںگے‘‘، جب کہ سندھ کے صوبائی وزیر اور قومی اسمبلی کی اسپیکرصاحبہ کے شوہر نامدار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پاکستان کو توڑنے اور بموں سے جہاز اڑانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی صدر رانا آفتاب صاحب، سینیرصوبائی وزیر راجا ریاض مزاحمت کی سیاست کی وارننگ دیتے ہیں، لاشوں کو گرانے کی بات کرتے ہیں۔

یہ سارے بیانات بڑے تشویش ناک اور خطرناک رجحانات اور عزائم کی خبر دیتے ہیں۔ جمہوریت کو خطرہ عدلیہ یا صحافت سے نہیں، بدعنوانی کے مرتکب افراد اور تصادم کی سیاست کے   ان دعوے داروں سے ہے۔ اس روش کو برداشت کرنا ملک و قوم کے لیے زہر قاتل کی مانند ہے۔ تمام دینی اور سیاسی قوتوں کا فرض ہے کہ سیاست کے اس رُخ پر سختی سے احتساب کریں اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہ اُترنے دیں۔

احتساب کے مؤثر نظام کی ضرورت

آخر میں ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں حکومت کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ عدالتِ عظمیٰ کے اس  اور دوسرے تمام فیصلوں پر دیانت سے ان کے الفاظ اور اس کی روح کے مطابق عمل کرے اور اس دوغلی سیاست کو ترک کردے کہ زبان سے کہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن عملاً اس فیصلے کے ہر تقاضے کو نہ صرف نظرانداز کرے بلکہ اس کے برعکس اقدام کرے۔

ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر قومی احتساب کا مؤثر اور قابلِ اعتماد نظام قائم کیا جائے۔ نیب کا ادارہ اپنی افادیت کھو چکا ہے اور  یہ وزارتِ قانون کی گرفت میں ہے جس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ آزادانہ قانونی کارروائی اور  ایسی قابلِ بھروسا عدالتی اتھارٹی جو سب کو شفاف انصاف دے سکے وقت کی اولین ضرورت ہے۔ میثاقِ جمہوریت میں دونوں بڑی جماعتوں نے اس کا وعدہ بھی کیا ہے۔ کرپشن کے عفریت کو قابو میں کرنے کے لیے تفتیش اور تحکیم کے آزاد اور قابلِ اعتماد ادارے کا وجود ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں جو مسودہ قانون حکومت لائی ہے، وہ غیرتسلی بخش اور ناقابلِ قبول ہے۔ وہ بدعنوانی کے تحفظ کا ذریعہ تو بن سکتا ہے، اس کے خاتمے کا منبع نہیں بن سکتا۔ اس لیے اولین اہمیت احتساب اور تفتیش کے مناسب ادارے اور انتظام کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی اور بے لاگ طور پر اس ادارے کا قیام ہے ورنہ ملک بدعنوانی کی لعنت سے نجات نہیں پاسکے گا اور قومی دولت، قوم کی بہبود کے لیے استعمال ہونے کے بجاے چند مفاد پرستوں کی عیاشیوں کا سامان فراہم کرتی رہے گی۔ اس طرح ملک کو بالآخر تصادم اور انارکی کی طرف جانے سے روکنا مشکل ہوگا۔

تفتیش کا آزاد نظام، احتساب کا قابلِ اعتماد ادارہ اور آزاد میڈیا ملک کو اس دلدل سے نکالنے میں سب سے مؤثر کردار اداکرسکتے ہیں، نیز قانون کے ساتھ اخلاق کی قوت کا استعمال بھی وقت کی ضرورت ہے۔ کسی قوم کی قوت کا آخری منبع افراد اور قوم کا اخلاق ہے۔ خود قانون بھی اخلاق کے بغیر اپنا اصل کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اخلاق محض وعظ و نصیحت کا نام نہیں ہے، بلکہ ہرسطح پر کردارسازی اور قیادت کا بہتر نمونہ اس کا اصل سرمایہ ہے۔ مقصد کا شعور، خوداعتمادی، نظم و ضبط اور اتحاد اور یگانگت کے اصول ہی قوموں کو ترقی کی راہ پر لے جاتے ہیں۔ خود غرضی، ظلم اور حقوق کی پامالی، نفسانفسی اور تصادم زوال کا باعث ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے وقت ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو دستور ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا تھا، اس میں ایک بڑا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ کرپشن اور بدعنوانی کے ساتھ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ لا اینڈ آرڈر کے قیام اور جان و مال کے تحفظ کے بعد جس چیز کو قائداعظم نے سب سے اہم قرار دیا وہ رشوت اور کرپشن سے نجات ہے۔ قائداعظم کا ارشاد تھا:

(رشوت اور بدعنوانی) دراصل یہ ایک زہر ہے۔ ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کردینا چاہیے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں مناسب اقدامات کریں گے، جتنی جلد اس اسمبلی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ص ۳۵۸)

۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد قائداعظم کے اس ارشاد پر فوری عمل  کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کیا یہ قوم اور قومی قیادت ایک بار پھر اس نادر موقع کو ضائع کر دے گی، یا وقت کی ضرورت کا احساس کرکے ہم سب اس لعنت کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون، اخلاق، راے عامہ اور اجتماعی اصلاح کا پُرامن اور معقول راستہ اختیار کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں گے؟

قائداعظم نے اپنا آخری پیغام اس قوم کو ۶؍ اگست ۱۹۴۸ء عیدالفطر کے موقع پر دیا اور آج ہم پاکستان کے تمام لوگوں کو اس پیغام کی یاد دیانی کراتے ہیں:

میں آپ سے یہ اپیل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں، آپ اسے الفاظ اور زبان کا کوئی سا جامہ پہنا دیں، میرے مشورے کا لُبِ لباب یہی نکلے گا کہ ہر مسلمان کو دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ (ایضاً، ص ۵۰۲-۵۰۳)

پاکستان آج اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہرطرف سے سنگین خطرات کی یورش ہورہی ہے اور گمبھیر بحرانوں کے ایک خوف ناک سیلاب بلکہ سونامی نے زندگی کے ہرشعبے کوتہ و بالا کر دیا ہے۔ عوام بے چین ہیں، دانش ور انگشت بدنداں ہیں، نوجوان مایوس ہیں،  دوست اوربہی خواہ دل گرفتہ ہیں لیکن حکمران جن پر سب سے بڑی ذمہ داری ہے، بے حسی اور   بے تدبیری کی تصویر بنے ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مفاد پرستوں کو  من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ ہے، ادارے تباہ ہو رہے ہیں، امن و امان کی صورت ابتر ہے،   شب وروز کا اطمینان و سکون اور چین رخصت ہوچکا ہے، اور معیشت کا حال دگرگوں ہے۔ غربت، فاقہ کشی اور بے روزگاری میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے، کرپشن کا طوفان ہے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے۔

’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ نے اب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ صوبہ سرحد، صوبہ بلوچستان اور مرکز کے زیرانتظام علاقہ جات (فاٹا) میں فوجی آپریشن جاری ہے، جس سے عملاً سارا ملک اس آگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ پاکستان کی قومی فوج اور عوام ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ امریکا کی مداخلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب اس کے سفارت کار کھلے بندوں حکمرانی (مائیکرومینجمنٹ) کرتے نظر آرہے ہیں۔ امریکی ڈرون حملے روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں، جن پر رسمی احتجاج کا تکلف بھی روا نہیں رکھا جا رہا۔ امریکا کی    خفیہ ایجنسیوں کے کارندے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں سرگرم ہیں اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایسی جارحانہ دراندازیوں پر پوری بے حمیتی کے ساتھ عملاً ممنونیت کے پھول نچھاور کر رہے ہیں۔ ایک نہیں متعدد امریکی ذمہ دار اپنی نجی گفتگو میں اس امر کا فخر سے اظہار کر رہے ہیں کہ: موجودہ صدر آصف زرداری سابقہ صدر جنرل مشرف سے بھی زیادہ خوش دلی کے ساتھ امریکا کے ہر اشارے پر عمل کر رہے ہیں___ یہی وجہ ہے کہ ۲۰ ماہ ہی میں موجودہ حکمرانوں نے عوام کو بُری طرح مایوس کر دیا ہے، یوں ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو روشنی کی جو کرن اُفق پر اُبھری تھی وہ دم توڑ کر رہ گئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی نمایندہ پامیلا کونسٹیبل پاکستان کے اپنے حالیہ دورے کے بعد ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات کو یوں بیان کرتی ہے:

طالب علم، دکان دار عام شہری غرض جس سے بھی پچھلے ہفتے بات کی گئی، اس نے شکایت کی کہ زرداری حکومت نے ملک کے کسی بھی پیچیدہ مسئلے میں عوام کو سہولت نہیں دی۔ سب نے کہا کہ فوجی حکومت کے بجاے سول حکومت کے آنے پر ہم نے جو اُمیدیں باندھی تھیں وہ ختم ہوگئی ہیں۔

پامیلا کونسٹیبل، قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے ایک پروفیسر کا یہ تبصرہ نقل کرتی ہے:

یہ تاثر عام ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب قوم کو مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، حکومت بے پتوار کشتی کی مانند ہچکولے کھا رہی ہے۔ مسٹر زرداری کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے بہترین آدمیوں کو اپنے سے دُور کر دیا ہے اور کابینہ میں ان لوگوں کو بہ کثرت شامل کررکھا ہے جو تعمیل کے لیے احکامات کے منتظر رہتے ہیں۔ اس لیے حکومت سے توقعات ختم ہوگئی ہیں۔

برٹش کونسل کے زیراہتمام پاکستانی نوجوانوں کے ایک سروے کے مطابق جو The Next Generation Report (نئی نسل کے بارے میں رپورٹ)کی شکل میں ۲۱ نومبر ۲۰۰۹ء کے اخبارات میں شائع ہوا ہے، نوجوانوں کے صرف ۱۵ فی صد نے حکومت کے رُخ اور کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، جب کہ ۸۵ فی صد غیرمطمئن ہیں اور ۷۲ فی صد نے کہا ہے کہ اس زمانے میں ہمارے معاشی حالات بگڑے ہیں۔ رپورٹ کے الفاظ میں:

نتائج زیادہ تر تشویش ناک ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ بیش تر پاکستانی ادارے بدعنوانی سے آلودہ ہیں۔ زیادہ تر یہی سمجھتے ہیں کہ حکومت کسی بھی سطح پر کچھ کرنے میں ناکام ہے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۲نومبر ۲۰۰۹ء)

یوں تو اس حکومت کی کارکردگی روزِ اول ہی سے مایوس کن تھی، لیکن گذشتہ دو ماہ میں  حالات نے بڑی فیصلہ کن کروٹ لی ہے۔ ایک طرف امریکا کے شدید دبائو کے تحت سوات اور مالاکنڈ کے بعد جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز، اور اس کے ردعمل میں صوبہ سرحد ہی   میں نہیں اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں بھی تشدد کا لاوا کچھ اس طرح پھٹا ہے کہ ان دو مہینوں میں سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن گئے ہیں اور پورے ملک کا سیکورٹی کا نظام درہم برہم ہے، حتیٰ کہ  تعلیمی ادارے تک محفوظ نہیں رہے ہیں۔

فیصلہ کن موڑ

اس پس منظر میں دو اہم ترین واقعات ایسے ہیں، جنھوں نے وطن عزیز کو ایک فیصلہ کن  موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ پہلا ’کیری لوگر بل‘ کی شرمناک شرائط اور اس کے بعد امریکا کا منظور کیا جانے والا اسی نوعیت کی شرائط سے بھرپور فوجی امداد کا قانون۔ دوسرا این آر او (’قومی مفاہمتی آرڈی ننس‘) کے بدنامِ زمانہ قانون کا سپریم کورٹ کے فیصلے کے تقاضے کے نام پر قومی اسمبلی میں پیش کرنا، پھر اسے واپس لینا۔ عوامی دبائو کے تحت ہزار پس و پیش کے بعد ۸۰۴۱ این آر او زدہ افراد کی فہرست کی اشاعت، جس میں صدرِ مملکت سے لے کر مرکزی اور صوبائی وزرا تک اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لیڈر سرفہرست ہیں۔ اس میں متعدد سفیر اور بیورو کریسی کے بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ پہلے نے ہماری سیاسی حاکمیت کو پارہ پارہ کیا تو دوسرے نے ملک کی اخلاقی ساکھ اور عزت کو خاک میں ملا دیا۔

ان تمام ایشوز پر جس بھونڈے انداز میں اور جس بے غیرتی کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہے اس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور حکومت بلکہ خصوصیت سے صدر زرداری، پیپلزپارٹی اور   ایم کیو ایم کی قیادت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آج پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے   پست ترین مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اور اگر این آر او کے آئینے میں اس بدقسمت ملک کی قیادت کی بدنما شکل میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ ۲۰۰۹ء کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے پوری کر دی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ان حالات کا بے لاگ جائزہ لے کر خرابی کی اصل جڑ کا تعین کیا جائے۔ اب لیپاپوتی سے کوئی کام نہیں چل سکتا۔ تلخ حقائق کا کھل کر سامنا کرنا ہوگا۔ قوم کو اور   خود اپنے کو دھوکا دینے کے لیے اس وقت مفادپرست قیادت جو تین بڑی گمراہ کن باتیں کر رہی ہے، ان کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔

بے بنیاد خدشات

  •  جمھوریت کے خلاف سازش: پہلی بات یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’یہ سب کچھ جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہے۔ جب بھی جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے، اس قسم کے الزامات شروع کر دیے جاتے ہیں۔ دراصل یہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے‘‘۔

ہم صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ آمریت فوجی ہو یا سول، تباہی کا راستہ ہے اور پاکستانی قوم باربار کے تجربے کے بعد یکسو ہے کہ فوج کی سیاسی مداخلت یا خفیہ قوتوں کا سیاسی کھیل کسی شکل میں بھی قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ قوم اور اعلیٰ عدلیہ نے پہلی بار دوٹوک انداز میں فوجی مداخلت کے امکان (option) کو رد کر دیا ہے اور متفقہ طور پر طے کر دیا کہ آیندہ کسی کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی ناقابلِ برداشت ہے کہ آمریت اور خفیہ قوتوں کا نام لے کر سیاسی قیادت اپنی مجرمانہ حرکتوں کے لیے سندِجواز یا رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ بلاشبہہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت پر قابلِ ترجیح ہے، لیکن بدترین جمہوریت خود جمہوریت کی   تباہی کا راستہ بناتی ہے۔ جمہوریت کو عوام کے لیے خیروفلاح اور عدل و ترقی کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اس لیے کہ جمہوریت محض پرچی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا نام نہیں۔ جمہوریت دستور اور قانون کی حکمرانی، عوام کے مفادات، احساسات اور عزائم کی بالادستی، پارلیمنٹ کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق کی حفاظت اور پارلیمنٹ، میڈیا اور عوام کے سامنے حکمرانوں کی جواب دہی کا نام ہے۔ محض آمریت کا ہوّا دکھا کر جمہوریت کی خوبیوں سے قوم کو محروم کر کے زبانی جمع خرچ سے جمہوریت کا واویلا کرنا بھی ایک ایسا مجرمانہ فعل ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ انتقام غلط ہے لیکن انصاف اور احتساب، جمہوریت کی روح اور اسلام کا تقاضا ہے اور جمہوریت ہی کے نام پر احتساب اور انصاف سے بچنے کی کوشش مجرمانہ فعل ہے۔ کرپشن ایک سرطان (کینسر) ہے اور محض یہ کہہ کر کہ: ’’ہمیں عوام نے ووٹ دیا ہے‘‘، کرپشن پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قانون اور انصاف کی گرفت سے بچا جاسکتا ہے۔

  •  نظام کو خطرہ: دوسری نہایت گمراہ کن دلیل بار بار یہ دی جارہی ہے کہ: ’’نظام کو خطرہ ہے‘‘۔ خطرہ نظام کو نہیں بلکہ بدعنوان عناصر اور مفادات اور طاقت کے اس شیطانی شکنجے کو  خطرہ ہے جس کا سیاہ چہرہ پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے اور جس نے اصل دستوری اور جمہوری نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ دستور اور قانون کی بالادستی ہی نظام کے استحکام کا ذریعہ ہے۔ تبدیلی، دستور اور قانون کے مطابق آنی چاہیے اور سسٹم کی کامیابی کے معنی ہی یہ ہیں کہ حکمرانی کا نظام دستور اور قانون کے مطابق چلے، اور اگر حکمران ناکام ہورہے ہوں یا قانون کی گرفت میں آرہے ہوں تو دستور اور قانون کے مطابق ان کا احتساب ہو اور تبدیلی قانون کی حدود میں لائی جائے۔

درمیانی مدت کے انتخابات (مڈٹرم الیکشن) بھی اس کا ایک ذریعہ ہیں اور یہ ایک معروف جمہوری و دستوری عمل ہے۔ دنیا کے تمام ہی جمہوری ممالک میں یہ عمل جاری و ساری ہے۔ امریکا میں تو دستوری نظام ہی ایسا ہے کہ ہر دوسرے سال قیادت کو عوام کی عدالت میں جانا پڑتا ہے۔ برطانیہ جسے پارلیمانی جمہوریت کا گہوارا کہا جاتا ہے وہاں ایک دو بار نہیں، دسیوں بار پارلیمنٹ کا انتخاب مقررہ مدت سے پہلے ہواہے۔ اس لیے درمیانی مدت کے انتخابات کو گالی بناکر پیش کرنا دراصل اپنی ناکامیوں اور مجرمانہ افعال کے احتساب سے بچنے کی کوشش ہے، جو ہر اعتبار سے جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں اور روایات کے خلاف ہے۔ درمیانی مدت کے انتخابات ہی مسئلے کا حل نہیں اور نہ ابھی قوم نے اس کا مطالبہ کیا ہے۔ اس وقت تو مطالبہ صرف یہ ہے کہ: ’’پارلیمنٹ کو بالادست کیا جائے، عدالت کی آزادی اور غیر جانب داری کی مکمل حفاظت ہو، اور قانون کے مطابق ہر ایک کا احتساب اور جواب دہی ہو‘‘۔ لیکن ان معقول مطالبات پر ’نظام‘ کے ’درہم برہم‘ ہونے کی دہائی دی جانے لگتی ہے اور اس میں حکومت ہی نہیں دوسری سیاسی جماعتیں جن کو عوام کے حقوق اور دستور اور قانون کی پاس داری کا علَم بردار ہونا چاہیے، خود وہ بھی سخت الجھائو اور ذہنی انتشار کا شکار نظر آتی ہیں۔

اس لیے ہم یہ بات برملا کہنا چاہتے ہیں کہ دستور اور قانون کے مطابق مکمل، شفاف اور بے لاگ احتساب اور انصاف سے کسی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ نظام کے تحفظ اوراستحکام کے لیے ضروری ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہوں اور قانون کے مطابق ہر حکمران اور اس کے ہراقدام کا احتساب ہو، خصوصیت سے کرپشن کے باب میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے۔ نہ کسی کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے اور نہ اصل مجرموں کو قانون کی گرفت سے فرار کا موقع دیا جائے۔ قانون اور عدالت کے سامنے سب کو پیش ہونے کا موقع ہو، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب فوری طور پر احتساب کا ایک قابلِ اعتماد اور غیر جانب دار ادارہ قائم کیا جائے اور کھلی عدالت میں پورے شفاف انداز میں اُوپر سے نیچے تک ان تمام افراد کو جن پر یہ الزامات ہیں، اپنی صفائی کا پورا موقع ملے۔ ان کے اور قوم کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ جو بے قصور ہیں وہ عزت سے بری ہوں اور جنھوں نے قوم کاسرمایہ لُوٹا ہے اور طاقت کا غلط استعمال کیا ہے ان کوقرار واقعی سزا ملے اور عوام کی دولت ان کو لوٹائی جائے۔ حق و انصاف کا یہی راستہ ہے اور اس سے انحراف کی جو کوشش بھی کی جائے گی، اسے قوم کبھی قبول نہیں کرے گی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بارے میں بھی پیپلزپارٹی کی قیادت بڑی بے سروپا باتیں کہہ رہی ہے، جس کے پردے کے پیچھے مجرم ضمیر کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آج نہیں آئی ہے، ۱۱ سال سے اس کی رپورٹیں آرہی ہیں۔ یہ محض پاکستانی ادارہ نہیں ایک عالمی تنظیم ہے جس کا طریقۂ کار معروف ہے۔ اس کی رپورٹ  محض ہوائی خیالات و تصورات پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس کے اپنے جائزے کے علاوہ اس بارے میں دوسرے بین الاقوامی اداروں کے تیار کردہ جائزوں سے بھی استفادہ کیا جاتاہے، جن میں عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک بھی شامل ہیں۔

یہ توایک آئینہ ہے۔ اگر اس آئینے میں آپ کی شکل بدنما اور داغ دار نظر آرہی ہے تو آئینے کو برا بھلا کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فکر آپ کو اپنی کرنا چاہیے  ع

زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا

  •  میڈیا پر الزام: اس سلسلے میں تیسری بات بڑے دھڑلے سے یہ بھی کہی جارہی ہے کہ: ’’یہ سب کچھ پریس اور خصوصیت سے الیکٹرانک میڈیا کا کیا دھرا ہے اور اسے لگام دینے کی ضرورت ہے‘‘۔ ہم صحافت کی آزادی کے ساتھ اس کے ذمہ دار کردار کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ بنیادی سیاسی ایشوز کے سلسلے میں گذشتہ دو تین برسوں کے دوران میں میڈیا کا کردار بحیثیت مجموعی مثبت رہا ہے اور قومی زندگی کو جو خطرات درپیش ہیں، ان کو اس نے بروقت نمایاں (highlight) کیا ہے۔ آمریت کے خلاف عوامی جدوجہد، عدلیہ کی آزادی کی تحریک اور برسرِاقتدار طبقوں اور بااختیار افراد کے اجتماعی احتساب کے سلسلے میں میڈیا کا کردار مفید اور حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ممد اور مددگار رہا ہے۔ اربابِ حکومت کو ان بے جان حیلوں کا سہارا نہیں لینا چاہیے بلکہ حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔ اس کے سوا اب ان کے لیے بچائو کا کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ اسی سے نظام کی اصلاح کی راہیں استوار ہوں گی۔

اس وقت ’زرداری گیلانی حکومت‘ جن بحرانوں کے گرداب میں ہے، ان کی حقیقت کو  سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ ملک اور خصوصیت سے اس کی سیاسی قیادت جس بحران کا شکار ہے،   وہ کثیرجہتی (multi-dimensional) ہے۔ ضروری ہے کہ قوم اور پارلیمنٹ دونوں کے سامنے اس بحران کے اہم ترین پہلو کھول کر رکھ دیے جائیں، تاکہ اصلاحِ احوال کی مؤثر تدبیر کی جاسکے۔

ہماری نگاہ میں اس کے مندرجہ ذیل پہلو اہم ہیں:

سندِ جواز کا بحران

۱-  اولین طور پر زرداری حکومت اپنی سندِ جواز کے بحران (crisis of legitimacy) کی گرفت میں ہے اور اس کے بھی تین پہلو ہیں: دستوری، سیاسی اور اخلاقی___ اور ہر ایک اپنے طور پر انتہائی اہم ہے۔

  •  دستوری پھلو: اکتوبر ۱۹۹۹ء کی فوجی بغاوت اور اس وقت کی سپریم کورٹ کی جانب سے مجرمانہ معاونت کے نتیجے میں جنرل پرویز کی دستوری ترمیمات نے دستور اور سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا۔ سترھویں ترمیم ایک سیاسی سمجھوتا تھا، جس کے ذریعے کچھ خرابیوں کو دُور کیا گیا تو      کچھ دوسری خرابیوںکو سندِجواز بھی فراہم کی گئی۔ پھر جنرل پرویز کے اس معاہدۂ عمرانی کو، جس کے تحت سترھویںترمیم پارلیمنٹ کے لیے قابلِ قبول ہوئی تھی، تار تار کر دینے کے عمل نے ایسے  دستوری بحران کو جنم دیا جس کی تباہ کاریوں میں ملک اب تک مبتلا ہے۔ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور ہماری تاریخ کا تاریک ترین باب شروع ہوا۔

الحمدللہ ۱۵ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدلیہ کی بحالی اور ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے عدالت عالیہ کے فیصلے نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے ذریعے صحیح دستوری اور قانونی پوزیشن کو واضح کیا۔ لیکن جو بنیادی خرابیاں (deformities)  دستور اور ملک کے سیاسی نظام پر مسلط کر دی گئی ہیں،  وہ موجود ہیں اور اس کی بڑی ذمہ داری ’زرداری گیلانی حکومت‘ اور ان کے اتحادیوں پر ہے۔    میثاقِ جمہوریت میں دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا اور یہی ان جماعتوں کا انتخابی منشور تھا، جس پر ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو عوام نے ان کو حکمرانی کا اختیار دیا۔ لیکن زرداری صاحب کی قیادت میں پی پی پی اور اس کے اتحادیوں نے ۲۰ماہ کے اقتدار میں اس سمت میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اور یوں جنرل پرویز مشرف کے جرم میں برابر کے شریک بن گئے۔ زرداری صاحب نے دو بار پارلیمنٹ کے سامنے اعلان کیا کہ دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا، مگر عملاً ساری قوت کو اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھا۔پارلیمنٹ اسی طرح بے اختیار ہے اور عدلیہ ہاتھ پائوں مار رہی ہے لیکن عملاً ایوانِ صدر اقتدار کا سرچشمہ بنا ہوا ہے، اور سارے بگاڑ کی وجہ  ہے۔

بجاے اس کے کہ زرداری صاحب اس جواز کے فقدان (lack of legitimacy) کا مداوا کرتے، انھوں نے صدارت کے حلف کے بعد بھی پارٹی کی صدارت کو باقی رکھ کر اور صوبوں میں جنرل پرویز مشرف کے دور کے گورنروں کو باقی رکھ کر اپنے دستوری جواز کو اور بھی داغ دار کردیا۔ صدارتی انتخاب کے ڈرامے کے باوجود دستور کی زبان میں وہ منتخب صدر سے زیادہ عملاً غاصب کا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اس چیز نے دستوری بحران میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایوانِ صدر پارٹی کا دفتر بن گیا ہے اور تمام سیاسی کھیل وہیں سے کھیلا جارہا ہے۔

  •  سیاسی پھلو:سندِجواز کو مجروح کرنے والا دوسرا پہلو امریکا سے ان کے تعلقات، امریکا کی مدد سے این آر آو کی بیساکھیوں پر ان کی حالیہ سیاست میں آمد، اور امریکا کی تائید سے حکمرانی کا انتظام و انصرام چلانا ہے۔ اس وقت ان کا اصل سرچشمۂ قوت پاکستانی عوام نہیں، امریکا اور اس کی تائید ہے۔ جس طرح پرویز مشرف اپنے ۲۰۰۱ء کے بعد کے دور میں امریکا کے سہارے برسرِاقتدار رہا بالکل اسی طرح اب زرداری صاحب امریکا کی تائید اور امریکی پالیسیوں کی تعمیل کے سہارے کرسیِ صدارت پر براجمان رہنا چاہتے ہیں۔

’کیری لوگر بل‘ کے بارے میں ان کے کردار نے اس تعلق کوبالکل الم نشرح کر دیا ہے۔ صدر اوباما نے اس بل کا اعلان زرداری صاحب کے دورۂ واشنگٹن کے موقع پر کیا اور زرداری صاحب نے اسے اپنا عظیم کارنامہ قرار دیا۔ پھر عوام، پارلیمنٹ، فوج، میڈیا سب کے منفی ردعمل کے باوجود ان کی حکومت نے اس بل کو گلے سے لگایا، اور بالآخر بھونڈے انداز میں پارلیمنٹ کو نظرانداز کر کے اس بل کو اس کی تمام شرمناک شرائط کے ساتھ قبول کرلیا۔ اس بل کے بعد ایک دوسرے فوجی امداد کے بل کو بھی بالکل ویسی ہی شرائط کے ساتھ قبول کیا۔ امریکی احکام کے مطابق جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کو شروع کیا اور پاکستان میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں افغانستان کی ایجنسیوں اور افغانستان کے راستے بھارت کی ایجنسیوں کے کردار کو نظرانداز کیا۔ پھر انتخابی ڈھونگ کے نتیجے میںبرسرِاقتدار آنے والے افغانستان میں کٹھ پتلی صدر حامدکرزئی کی تقریب حلف برداری میں ذاتی طور پر شریک ہوکر امریکی منصوبے سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ ان سب اقدامات نے پاکستان میں زرداری صاحب کے سیاسی جواز کو اور بھی داغ دار کر دیا ہے۔ اسی لیے آج اہلِ پاکستان کی نگاہ میں ان کی عزت و وقار اپنی پست ترین سطح پر ہے۔

  •  اخلاقی پھلو:کسی ملک کی قیادت کے لیے دستوری اور سیاسی جواز کے ساتھ اخلاقی جواز بھی نہایت ضروری ہے، لیکن اس باب میں بھی صدر زرداری کا ریکارڈ بہت ہی مایوس کن ہے۔ بے نظیر بھٹوصاحبہ کے شوہر کی حیثیت سے وہ سیاست میں آئے، تاہم پیپلزپارٹی کی تنظیم اور حکومت کے نظام میں ان کی کوئی خدمات ریکارڈ پر نہیں ہیں۔ البتہ مالی خیانت کی بدنامیاں ان کے اپنے اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے دامن کو داغ دار کرنے کا ذریعہ بنیں۔ وہ این آر او کے کندھے پر سوار ہوکر ملک میں واپس آئے اور اس پس منظر میں آئے کہ یہاں صحت مند اور صحیح و سالم تشریف آوری سے چند ماہ پہلے ہی سوئٹزرلینڈ کی عدالت کے سامنے مشہورزمانہ Cotecna کیس کے سلسلے میں میڈیکل سرٹیفیکیٹ کے ذریعے حاضری سے معذوری کی درخواست پیش کی ہوئی تھی کہ موصوف ایک ایسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ  سے وہ گواہی دینے اور عدالت میں پیش ہونے سے معذور ہیں۔ این آر او، جنرل پرویز مشرف کا سیاہ ترین اقدام تھا جس کی تشکیل میں برطانیہ کے سابق وزیر جیک اسٹرا اور سابق ہائی کمشنر گرانٹ لائل اور امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کا فیصلہ کن کردار تھا۔ اس پورے کھیل کا مقصد پاکستان کی سیاست پر ایسے لوگوں کو مسلط کرنا اور رکھنا تھا جن کا کردار  داغ دار ہو اور جو امریکا اور برطانیہ کے مرہونِ منت ہوں اور ان کے مقاصد کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکیں۔ اس سلسلے میں خواہ زرداری صاحب ہوں یا ان کے دوسرے ہم مشرب اور ہم راز افراد،   وہ سب اخلاقی جواز سے اس وقت تک محروم ہیں اوررہیں گے جب تک وہ آزاد اور بااختیار عدلیہ سے پورے شفاف اور کھلے عدالتی عمل کے ذریعے اپنی پاک دامنی ثابت نہیں کرلیتے۔ محض یہ کہنا کہ ہم جیل میں رہے ہیں اورہم پر کوئی چیز ثابت نہیں ہوسکی کوئی وزن نہیں رکھتے، اس لیے کہ متعدد چیزیں ایسی ہیں جو ان تمام دعوئوں کو مشکوک بنادیتی ہیں۔

’سیاسی انتقام‘ کے الزام کا بھی اسی طرح جائزہ لیا جانا چاہیے جس طرح بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزام کا۔ زمینی حقائق این آر او زدہ افراد کے کردار کو بلاشبہہ مشکوک بناتے ہیں اور ان حضرات کی اخلاقی ساکھ اس وقت تک بحال نہیں ہوسکتی جب تک آزاد اور شفاف عدالت کی کسوٹی پر وہ پورے نہیں اُترتے۔

سرے محل ایک حقیقت ہے۔ اس سے زرداری صاحب اور خود بے نظیر صاحبہ کا انکار بھی ایک حقیقت ہے اور پھر زرداری صاحب کا برطانوی عدالت کے سامنے یہ دعویٰ بھی حقیقت ہے کہ یہ محل ان کا تھا اور اس کے نیلام سے حاصل ہونے والی رقم ان کو ملنا چاہیے اور وہ مل بھی گئی۔   سویس عدالت نے ان کو مجرم قرار دیا ہے اور سوئٹزرلینڈ کے بنک میں رقم کا وجود ایک حقیقت ہے۔ ۶۰ملین ڈالر این آر او کے تحت ان کو واپس کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ۶۰ ملین اور دوسرے کروڑوں ڈالر جو ان کے بیرونی ممالک کے بنکوں میں موجود ہیں اور مغربی میڈیا حتیٰ کہ ایک معروف انسائیکلوپیڈیا وکی پیڈیا کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اسی طرح NASA کے ریکارڈ پر وہ ٹیلی فون گفتگو موجود ہے، جس میں ماں اور بیٹے کے درمیان بنکوں کی رقوم کے بارے میں بات چیت ہے۔ کیا قوم کو یہ حق حاصل نہیںکہ وہ صرف زرداری صاحب ہی نہیں، بلکہ ان سب اربابِ اقتدار سے پوچھیں جن کے باہر کے ملکوں میں حسابات میں یہ اربوں ڈالر ہیں کہ: ’’جناب،یہ رقوم آپ نے کیسے حاصل کیں؟ آپ کی جو آمدنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے گوشواروں میں ظاہر کی گئی ہے اس میں تو اس کا ذکر نہیں‘‘۔ آگسٹا آب دوز کی ناجائز کمیشن (kickbacks) ایک معروضی حقیقت ہے۔ آپ کے بنک کے حساب میں رقوم آئی ہیں۔ کیا قوم کو یہ حق نہیں کہ کم از کم یہ پوچھیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی ہے اور آپ کی کون سی خدمات کا صلہ ہے؟ اسلام آباد میں آپ کے اور آپ کے صاحبزادے کی تجارتی کمپنی پارک لینڈ کو تین ہزار ایکڑ اراضی کوڑیوں کے مول دی گئی اور ملک کی صدارت کے دوران دستور کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ اس کے ڈائرکٹر ہیں۔

اسی طرح این آر او کے دوسرے مقدمات سے محض دستور کے آرٹیکل ۲۴۸ کے سہارے آپ کیسے پناہ لے سکتے ہیں۔ اخلاقی سندِجواز کے بغیر کوئی حکمران اور کوئی حکومت اپنے اقتدار کے لیے جواز حاصل نہیں کرسکتی۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ این آر او کے زیربحث کے آتے ہی کتنے اربابِ اقتدار و سیاست ایسے ہیں جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے این آر او کے تحت کوئی رعایت حاصل نہیں کی۔ لیکن اب اسی حکومت کے وزیرمملکت نے جو فہرست شائع کی ہے، اس میں یہ سارے نام موجود ہیں۔  یہ فہرست کسی دشمن نے نہیں بنائی، آپ کی اپنی حکومت کی فراہم کردہ ہے۔ اور اس حالت میں ہے کہ ڈان کے نمایندے نے دعویٰ کیا ہے اور اپنے اس دعویٰ پر قائم ہے کہ اس فہرست میں یہ گڑبڑ کی گئی ہے کہ اصل فہرست میں ہرفرد کے نام کے ساتھ خردبرد کی جانے والی رقم درج تھی، مگر اس آخری فہرست میں سے رقم کا خانہ نکال دیا گیا ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ رقم ۱۰ کھرب سے زیادہ کی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائدین نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے این آر او سے فائدہ نہیں اٹھایا لیکن اب جو نام آئے ہیں ان میں ایم کیو ایم کی پوری قیادت اور اس کے ۳ ہزار سے زیادہ کارکن شامل ہیں اور عملاً ان سب نے فروری ۲۰۰۸ء کے بعد اس بدنامِ زمانہ کالے قانون سے فائدہ اٹھایا ہے۔

وزیراعظم صاحب کی اہلیہ کا نام اس میں نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے دومختلف زرعی قرضوں کی شکل میں ۲۰۰ ملین روپے کے قرض لیے جو سود کے ساتھ نادہندگی کی وجہ  سے ۵۷۰ ملین کا قرض بن گئے۔ پھر راضی نامے کے ذریعے ۵ء۴۵ ملین روپے کی ادایگی کے بعد پورے قرضے کو ساقط کر دیا گیا۔ گویا ۵۲ کروڑ سے زیادہ رقم معاف کر دی گئی۔

مسئلہ صرف این آر او کی زد میں آنے والی بدعنوانیوں کا نہیں، بدعنوانی کے پورے کلچر کا ہے جس کے نتیجے میں ملک دیوالیہ ہورہا ہے۔ امیر امیر تر بن رہے ہیں اور غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ صرف این آر او زدگان ہی نہیں تمام قرض معاف کرانے والے سرمایہ داروں، زمین داروں، جاگیرداروں، سرکاری افسروں، تاجروں اور جرنیلوں کا احتساب ہونا چاہیے۔

حکومت پر عدم اعتماد

۲- دستوری، سیاسی اور اخلاقی جواز کی کمی کے ساتھ ساتھ ’زرداری گیلانی حکومت‘ ساکھ کے بحران (credibility crisis)کا بھی شکار ہے۔ زرداری صاحب وعدے توڑنے اور اعلان کر کے مُکرجانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پھر یہ بھی کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے کہ سیاسی عہدوپیمان کوئی قرآن و حدیث ہیں کہ ان کو بدلا نہ جاسکے۔ وزیراعظم صاحب نے بھی پارلیمنٹ کے قائد منتخب ہونے کے وقت سے جو اعلانات کیے ہیں اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے  ع

دُور تک ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا

انھوں نے بار بار کہا کہ اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں گے، لیکن آج تک کسی اہم مسئلے پر پارلیمنٹ میں فیصلے کی نوبت نہیں آئی ہے۔ حتیٰ کہ ’کیری لوگر بل‘ پر بھی بحث تک مکمل نہ کی گئی، پارلیمنٹ میں فیصلے کا تو کیا سوال۔ نیز جن معاملات پر پارلیمنٹ نے واضح قرارداد متفقہ طور پر منظور کی، اس پر نہ صرف یہ کہ عمل نہیں ہوا بلکہ عمل اس کے برعکس ہوا اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کے دیے ہوئے روڈمیپ پر عمل تو درکنار، کمیٹی کے اس فیصلے کے باوجود کہ حکومت اس رپورٹ پر کارکردگی رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرے، آج تک کوئی رپورٹ تک نہیں دی گئی۔

پارلیمنٹ کے منظور کردہ ’مالیاتی ذمہ داری کے قانون‘ (Fiscal Responsibility Act) کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور ملک پر قرضوں کا بار آنکھیں بند کر کے بڑھایا جا رہا ہے۔ ان دو برسوں میں بیرونی قرضوں میں ۱۵ ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا ہے اور اب کُل بیرونی قرضوں پر سالانہ ۵ ارب ڈالر صرف سود وغیرہ کی ادایگی پر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں، جو قرض لے کر ادا کیے جارہے ہیں۔ قول وفعل کا یہ تضاد شدید بحران پیدا کر رہا ہے۔

ناقص حکومتی کارکردگی

۳- بحران کا تیسرا بڑا پہلو حکمرانی کے بحران (crisis of governance) سے متعلق ہے۔ ایک طرف مرکز اور صوبوں میں وزیروںکی فوج ظفرموج ہے اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ کسی شعبے میں بھی اچھی حکمرانی کا کوئی نشان دُور و نزدیک نظر نہیں آتا۔ قانون اور ضابطوں کو  بے دردی سے توڑا جارہا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کا تقرر مارچ ۲۰۰۹ء میں ہوجانا  چاہیے تھا اور اس وقت سے سیکڑوں اُمیدوار انتظار میں ہیں، لیکن حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ وزیراعظم صاحب قواعد کو نظرانداز کر کے ۲۱ اور ۲۲گریڈ کی تقرریاں تھوک کے بھائو کررہے ہیں۔ ۵۰ سے زیادہ سینیر سرکاری افسر عدالت جانے پر مجبور ہوئے ہیں کہ جنھیں قواعد کے خلاف نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ سفارش، اقرباپروری، دوست نوازی کا دور دورہ ہے۔ حکومت کے ہر شعبے میں میرٹ اور قاعدے قانون کا کھلے بندوں خون ہو رہا ہے، جس سے انتظامی ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔    اے اہلِ نظر! نظام پر ضربِ کاری ان حرکتوں سے لگا کرتی ہے، بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے والی اطلاعات سے نہیں۔

ملکی سلامتی کو سنگین خطرہ

۴- بحران کا ایک اہم ترین اور بے حد خطرناک پہلو حاکمیت کا بحران (crisis of sovereignty ) ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکا کی بالادستی اور ملکی معاملات میں دراندازی کا دروازہ جس طرح کھلا، موجودہ حکومت نے اسے اور بھی چوپٹ کھول دیا ہے۔ اور اب امریکا، اس کے نمایندے، کارندے اور خفیہ ایجنسیوں کے کارپرداز، سیکورٹی اور معیشت دونوں میدانوں میں عملاً حکمرانی کر رہے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت کی جوقیمت اس ملک نے ادا کی ہے، وہ تباہ کن ہے۔ ہماری سرزمین پر امریکا کے فوجی اڈے آج بھی قائم ہیں۔ افغانستان کی جنگ میں امریکا نے ۵۷ہزار سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین سے کیے ہیں۔ افغانستان سے پاکستان پر ڈرون حملوں کا عدد ۱۰۰ کا ہندسہ عبور کرچکا ہے۔ جس میں امریکی ترجمان کے مطابق القاعدہ کے مبینہ طور پر ۱۸ یا ۲۰ افراد مارے گئے ہیں، لیکن پاکستان کے عام شہریوں کی ہلاکت ۸۰۰ افراد سے زیادہ ہے، جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔ اس میں سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ مشرف کے زمانے میں حملہ امریکی کرتے تھے، مگر پاکستان کا حکمران ٹولہ اس کا سہرا اپنے سر باندھتا تھا اور بقول سیمور ہرش: ’’مشرف نے خود کہا کہ چاہے حملہ امریکی کریں لیکن اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا کریں‘‘۔ ’زرداری گیلانی حکومت‘ میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ڈرون حملوں کو ملک کی سالمیت اور حاکمیت پر ضرب قرار دیا اور انھیں روکنے کے لیے ہرراستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن عملاً ڈرون حملے، امریکی صدر اوباما کے دورِحکومت میں بڑھ گئے۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امریکا کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ان حملوں میں پاکستان کی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کی معاونت موجود ہے۔ گویا یہ سب امریکا اور ’زرداری گیلانی حکومت‘ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے، جو قوم بھگت رہی ہے۔

دیکھیے خود امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے کن صاف الفاظ میں پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجیوں کے وجود کا اعتراف کیا ہے۔ اپنے حالیہ دورے کے بعد موصوفہ نے کہا ہے: ’’انتہاپسندی اور دہشت گردی کو شکست دی جائے گی، کہ ہم نے افغانستان اور وزیرستان میں اپنے فوجی کھوئے ہیں‘‘۔ (دی نیوز، ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

ڈان اخبار نے اپنی ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں امریکی سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر کا یہ اعتراف شائع کیا ہے: ’’ڈرون کے ذریعے میزائل حملوں کے لیے سی آئی اے، پاکستان کے تعاون پر انحصار کرتی ہے۔ ان حملوںسے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں مشتبہ انتہاپسند ہلاک کیے گئے ہیں‘‘۔ نیز امریکی فوج کی مرکزی کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے واشنگٹن میں اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے: ’’امریکا میزبان ممالک کی رضامندی کے بغیر ڈرون حملے نہیں کرتا‘‘۔ انھوں نے پاکستان میں ڈرون حملوں کی کامیاب کارکردگی کے دعوے کے ساتھ دیکھیے کیا کہا ہے:

جاسوس اور ڈرون طیاروں کے استعمال نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس قسم کے حملوں سے ۲۰ سے زائد انتہاپسند ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ حملے میزبان ملک کی مرضی کے خلاف نہیں کیے جاتے ہیں۔ وہاں [پاکستان میں] ہمارا کام پاکستانی فوجی ہم منصبوں کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہے۔ (نواے وقت، ۱۶نومبر ۲۰۰۹ء)

اس پس منظر میں اگر سیمور ہرش کے نیویارک کے مضمون کے مندرجات پر غور کیا جائے تو مجہول سرکاری وضاحتوں کے برعکس حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ مشرف نے ہرش سے کہا: ’’میں نے امریکیوں سے کہا: ہمیں ڈرون طیارے دو۔ مجھے انکار کیا۔ میں نے امریکیوں سے کہا کہ صرف علانیہ طور پر کہہ دو کہ تم ہمیں یہ دے رہے ہو۔ تم ان سے حملے کرتے رہو، لیکن ان پر پاکستان ایئرفورس کے نشانات لگادو، مگر امریکیوں نے اس سے بھی انکار کیا‘‘۔ سیمور ہرش کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ: ’’امریکا پاکستانی فوج سے پاکستان کے ایٹمی اسلحے کی سلامتی کے بارے میں انتہائی حساس نوعیت کے امور پر بات چیت کرتا رہا ہے‘‘۔ ہرش مزید کہتا ہے: ’’صدرمشرف نے تسلیم کیا کہ ان کی حکومت نے امریکا کے محکمۂ خارجہ کے عدم پھیلائو کے ماہرین کو پاکستانی اسلحے کے کمانڈ اور کنٹرول، اس کے برموقع تحفظ اور حفاظت کے طریقۂ کار کے بارے میں آگاہ کیا‘‘۔

اور اب ہرش کا یہ بیان بھی پڑھ لیجیے کہ صدر زرداری نے اپنی خدمات کا کس طرح اعتراف کیا ہے: "we give comfort to each other, and the comfort level is good". (ہم نے ایک دوسرے کو سہولت فراہم کی ہے، ایسی سہولت جس کی سطح بلند ہے)

جس قوم کی قیادت کا یہ حال ہو، وہ اس کے سوا کیا کہے کہ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

جنرل مشرف اور پی پی پی کی قیادت میں تعاون اور این آر او سب اسی کہانی کے حصے ہیں۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سین میک کورمڈ نے فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر صاف لفظوں میں کہا تھا:

ہمارا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے اور پاکستان کا بھی بہت کچھ دائوپر لگا ہوا ہے، خصوصاً پاکستان کے مستقبل کے لیے فکرمندی بھی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ پینٹاگان نے صدرکرزئی کے ساتھ طویل مدت تک معاملات کیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ کوئی فوج بھی اس کے قریب رہ کر کام کرنا پسند نہیں کرے گی۔ (دی نیوز،    انجم نیاز، Last Tango in Washington، ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

اس سلسلے میں امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا کی قیادت میں این آر او کا ڈھونگ رچایا گیا۔ اسی لیے مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے: ’’این آر او کی پیدایش اسلام آباد میں نہیں، واشنگٹن میں ہوئی ہے‘‘۔اور یہ بھی کہ: ’’واشنگٹن جو چاہتا ہے اسے مل جاتا ہے‘‘۔

پاکستان کی سرزمین پر امریکی کمانڈروں اور خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کا وجود ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ وزیرداخلہ رحمن ملک جو بھی کہیں یہ حقیقت ہے کہ آج     اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی ہر جگہ امریکیوں نے قدم جما لیے ہیں۔

امریکی اور ان کے زرخرید پاکستانی کارندے ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں۔ امریکی فوج اور کمانڈر بلاروک ٹوک ملک میں داخل ہوتے ہیں اور وزارتِ داخلہ ان کے اس داخلے میں سہولت فراہم کرتی ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ، سامراجی حکمرانی کا قلعہ بن چکا ہے۔ اسلام آباد میں ۳۰۰ سے زیادہ مکان امریکیوں کے تصرف میں ہیں۔ سہالہ کی پولیس ٹریننگ فیکلٹی کے ایک حصے پر بھی ان کا قبضہ ہے اور وہ وہاں تربیت کے نام پرفوجی اڈا قائم کیے ہوئے ہیں۔

محب وطن کالم نگار، دانش ور اور سیاسی قائدین اس امریکی یلغار پر احتجاج کر رہے ہیں، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

دی نیشن نے اپنی ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں یہ خبر دی ہے:

اسلام آباد کے علاقے جی-۶/۳ میں مشتبہ غیرملکیوں کی موجودگی نے جو ’بلیک واٹر‘ کے اہل کار ہوسکتے ہیں، تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان میں سے ایک کو سڑک سے  گزرنے والے ایک مقامی شخص سے لڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ ’بلیک واٹر‘ جس کا نام  ’ایکس ای سروسز‘ ہوگیا ہے کا عملہ نومبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد پہنچا۔ ۲۰؍اگست ۲۰۰۹ء کے نیویارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے ۲۰۰۴ء میں القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کو تلاش کرنے اور قتل کرنے کے خفیہ پروگرام کے لیے ’بلیک واٹر‘ کی خدمات حاصل کیں۔

دی نیشن ہی نے اپنی ۱۰ نومبر کی اشاعت میں سفارتی عملے کے ان افراد کی نشان دہی کی جو مسلح ہوکر شہر میں گھومتے پھرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق: چار امریکی اور دو ڈچ سفارت کاروں کو اسلحہ اور گرنیڈ کے ساتھ پکڑا گیا مگر وزارتِ داخلہ نے انھیں فوراً رہا کرا دیا۔ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو اسلام آباد کے اخبارات نے ایف-۸/۳ میں ایسے مسلح امریکیوں کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر دی، جو افغانوں کے لباس میں تھے اور مسلح گشت کر رہے تھے، لیکن امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر ان کو رہا کر دیا گیا۔ ۴نومبر ۲۰۰۹ء کے دی نیشن نے ایکس ای سروسز کے ۲۰۲کمانڈوز کے پی آئی اے کی فلائٹ ۷۸۶-PK سے لندن ہیتھرو ہوائی اڈے سے اسلام آباد آنے کی خبر شائع کی، جنھیں کسی جانچ پرکھ کے بغیر وزارتِ داخلہ کی ہدایت کے مطابق ملک میں آنے دیا گیا۔ ایئرپورٹ پر متعلقہ افسر کا بے بسی سے یہ کہنا تھا: ’’ہمیں ہدایات ہیں کہ غیرملکیوں کو کسٹم کے بغیر داخلہ دیا جائے‘‘۔

اسلام آبادمیں امریکی سفارت خانے کی توسیع اور ۱۸؍ایکڑ مزید اراضی کا حصول ایک جانی بوجھی بات ہے۔ پشاور، لاہور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی قونصل خانوں کو توسیع دی جارہی ہے۔ پاکستانی وزیرداخلہ نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی پرائیویٹ سیکورٹی کی ایجنسی Dyn Corp   (ڈین کور) کو پاکستان میں آنے اور امریکیوں کو حفاظت فراہم کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔   سہالہ کے پولیس ٹریننگ کالج میں جو بہارہ کہو اور سملی ڈیم کے قریب ہے، امریکیوں کو ٹریننگ کے نام پر اڈا قائم کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ سہالہ پولیس کالج کے ذمہ داروں کو بھی اس جگہ      پَر مارنے کی اجازت نہیں۔ امریکیوں کی مشتبہ سرگرمیوں سے پریشان ہوکر پولیس کالج کے سربراہ نے اس اڈے کو وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا، جس سے ہمارے پولیس کالج کے انچارج کی نوکری خطرے میں پڑگئی ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور ہمارے ملک کے حکمرانوں کا اس میں کیا کردار ہے؟ یہ سوالات اب نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔۱؎

جنوبی وزیرستان پر فوجی آپریشن امریکا کے دبائو اور مطالبے پر ہوا ہے اور اب امریکی صدر کا پیغام صدر زرداری کے لیے آیا ہے کہ اس کو شمالی وزیرستان اور اورکزئی ایجنسی تک بڑھایا جائے۔ امریکی صدر کے پیغام کے بعد سی آئی اے کے ڈائرکٹر لیون پینیٹا (Leon Panetta) کی آمد ہوئی ہے اور ان کا حکم ہے:’’پاکستان فوجی آپریشن سے قبائلی علاقوں کے تمام انتہاپسندوں کو نشانہ بنائے‘‘۔

اس خدمت کو انجام دینے کے لیے امریکا کی پوری قیادت پاکستان کے ’دفاعی نظام‘ اور ’خطرے کے تصورات‘ کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ اوباما، ہیلری کلنٹن، ایڈمرل مولن،  ہال بروک سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ:’’ پاکستان کو اصل خطرہ بھارت سے نہیں،  القاعدہ اور طالبان سے ہے‘‘۔

امریکا خود طالبان سے بات چیت کرنے اور افغانستان کے چھے صوبوں میں ان کو شریعت نافذ کرنے کی اجازت دینے کی باتیں کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کے سوچنے سمجھنے والے ادارے اور راے عامہ کے جائزے سب اس سمت اشارہ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا اور سیاسی حل کے سوا کوئی حقیقی آپشن نہیں ہے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کی افواج کو پشتون علاقے میں پھنساکر مسلسل اور مزید جنگ کی آگ میں جھونکنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

یہ واضح ہے کہ امریکا اور ناٹو کو بہرصورت افغانستان سے جانا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس پر غور کرکے پاک افغان تعلقات اور خصوصیت سے پاکستان سے ملحق پشتون علاقوں کے درمیان تعاون اور تعلقات کیسے استوار ہوں گے؟ اس کے لیے فوری اور لمبے عرصے کی حکمت عملی بنانے کا یہ وقت ہے۔ خود افغانستان میں جو سوچ اور رجحانات اس وقت فروغ پارہے ہیں، ان کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں اپنے ملکی اور ملّی مفاد کی روشنی میں حکمت عملی وضع کرنے اور نیا نقشۂ کار مرتب کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ہم آنکھیں بند کرکے امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھ رہے کہ افغانستان میں حالات کس رُخ پر جارہے ہیں اوروہاں طالبان کا مستقبل میں کیا کردار ہونا ہے۔

خلیج ٹائمز نے اپنی ۱۶ مارچ کی اشاعت میں ایک چشم کشا حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ: ’’کیپٹن یا میجر سطح کا کوئی ایک افغان افسر بھی چھے سال کی جنگ میں ہلاک نہیں ہوا ہے، اس لیے کہ افغان اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتے‘‘۔ کیا اس میں ہمارے دفاعی حکام کے لیے کوئی سبق کا پہلو نہیں ہے!

قومی تحریک کی ضرورت

پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲ اکتوبر۲۰۰۸ء کی قرارداد میں متفقہ طور پر یہ ہدایت دی تھی کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پوری حکمت عملی اور ملک کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے مثالیے پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے فوجی حل کی جگہ سیاسی حل اور قوت کے استعمال کے بجاے مذاکرات، ترقی اور سدّجارحیت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی ڈرون حملوں کا مقابلہ کرنے اور ان کو روکنے کی ضرورت ہے مگر حکومت نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ مسئلے کی اصل جڑ افغانستان پر امریکا اور ناٹو کی فوجوں کا قبضہ اور ہماری خارجہ پالیسی اور فوجی حکمت عملی کو امریکا کے مقاصد کے تابع کردینا ہے۔ ملک کے وجود اور اس کی حاکمیت اور سالمیت کو خطرہ امریکا کے ساتھ نتھی ہوجانے سے ہے اور دہشت گردی اور شدت پسندی بھی انھی حالات کی پیداوار ہے جس کے دیرپا حل کے لیے ان  حقیقی اسباب کی طرف توجہ دینا ہوگی۔

معاشی اعتبار سے بھی ملک اس جنگ میں شرکت کی جو قیمت ادا کر رہا ہے وہ ہوش اُڑا دینے والی ہے۔ پاکستان ۲۰۰۲ء سے اب تک محتاط اندازے کے مطابق ۴۰ سے ۴۵ ارب ڈالر کی مالیت کا نقصان اُٹھاچکا ہے اور صوبہ سرحد اور فاٹا کے حالیہ آپریشن کے نتیجے میں عملاً سالانہ ۳ سے ۴ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، جس میں انسانی جانی نقصان شامل نہیں۔ اس جنگ میں شرکت ہر پہلو سے ہمارے لیے خسارے اور تباہی کا سودا ہے جس سے جتنی جلد نجات حاصل کی جائے بہتر ہے۔

وزیراعظم صاحب آج امریکا سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ اپنی افغان پالیسی کے بنانے میں ہم سے بھی مشورہ کرو اور ہم پر رونما ہونے والے اثرات کا بھی لحاظ رکھو۔ لیکن یہ مقصد    بھیک مانگنے سے حاصل نہیں ہوسکتا، اس کے لیے حکمت اور خودداری کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، جس سے جنرل مشرف کا دامن خالی تھا اور موجودہ حکومت کا بھی دامن خالی ہے۔

ملک کو درپیش بحران کے چار اہم پہلوئوں کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ معاشی بحران بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور بحران کے اس پورے عمل کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ ملک شدید اخلاقی بحران اور نظریاتی شناخت کے بحران میں جھونک دیا گیا ہے۔ بحران کے یہ چھے پہلو باہم مربوط ہیں اور ان کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتیں سرجوڑکر بیٹھیں اور ملک کو اس انتشار سے نکالنے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کریں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام امور پر کھل کر بحث ہو اور اصول اور ملکی اور ملّی مفاد کی بنیاد پر قوم کو ایک واضح منزل کا شعور دے کر منظم اور متحرک کیا جائے۔ جس طرح برعظیم کی تاریخ میں ۱۹۴۰ء میں مسلمانوں نے ایک واضح منزل اور مقصد کا تعین کرکے جدوجہد کی، اسی طرح آج پاکستان کو بچانے، اس کو امریکا کی نئی غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جس طرح اس وقت برطانیہ کے ساتھ مقابلہ ان ہم وطنوں سے بھی تھا جو برطانیہ کے نقشے میں رنگ بھرنے اور اس کے مقاصد کو پورا کرنے میں اس کے آلۂ کار تھے، اسی طرح آج امریکا کے ساتھ امریکا کے پاکستانی حواریوں اور امریکی استعمار کو فروغ دینے والی این جی اوز کے خلاف بھی منظم سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ملک کے نوجوان اور غیور عوام ہماری اصل قوت ہیں اور ان کو بیدار اور منظم و متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی نے اس تاریخی جدوجہد کاآغاز کر دیا ہے لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ تمام محب وطن اور اسلام دوست قوتیں ایک ہوکر امریکی استعمار کی اس خطرناک یلغار کا مقابلہ کریں۔ مہلت کم ہے اور خطرات روزافزوں ہیں۔ زندگی اور عزت کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ حق کی پہچان اور اس پر استقامت کا راستہ ہے۔ اور   حق کے غلبے کے لیے مسلسل جدوجہد اور جہاد کا راستہ ہے۔ یہ وقت تذبذب اور انتظار کا نہیں،  فیصلہ اور پیکار کا ہے۔ ہمیں ہرگز بھولنا نہیں چاہیے کہ   ؎

یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

 

ایک مسلّمہ اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، تاریخ انھیں سبق سکھا کر رہتی ہے۔ انسانوں کے منصوبے اور چالیں اپنی جگہ، لیکن اللہ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب ہوکر رہتی ہے۔۱؎

بہت سی چیزیں ہم ناپسند کرتے ہیں لیکن بسااوقات انھی ناپسندیدہ چیزوں کے شر سے خیر کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور جس طرح رات کی تاریکی کے بطن سے دن کی روشنی رونما ہوتی ہے، اسی طرح وہی ناپسندیدہ شر، خیر اور بھلائی کی تمہید اور بعض بنیادی تبدیلیوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔۲؎

دراصل اس طرح کی تبدیلی اللہ کی سنت ہے اور وہ اسی طرح زمانے کو کروٹیں دیتا رہتا ہے۔ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ(اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔

تاریخ کے اوراق میں انسان، صدیوں سے یہ ’تماشا‘ دیکھتا چلا آرہا ہے  ع

ہوتا ہے شب و روز تماشا ، مرے آگے!

کسے خبر تھی کہ ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو طاقت کے نشے میں مست ایک پاکستانی جرنیل امریکی صدر بش کی پوری پشت پناہی کے زعم میں، پاکستان کے چیف جسٹس کو برطرف کرکے عدالت عالیہ اور نظامِ عدل پر حملہ آور ہوکر اسے اپنی مٹھی میں لینے کا جو اقدام کرے گا، اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو عدلیہ پر ایک دوسرا اور زیادہ بھرپور وار کر کے اپنے تئیں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کا جو کھیل کھیلے گا، وہ کس طرح خود اس کی اپنی تذلیل، شکست اور بالآخر ملک سے اس کے فرار پر منتج ہوگا اور قوم دستور کی دفعہ ۶ کے تحت اس کے جرم کا محاسبہ کرنے اور اسے قرارواقعی سزا دینے کا مطالبہ کرے گی اور وہ دَر دَر بھٹکتا پھرے گا۔

بلاشبہہ ۹مارچ ۲۰۰۷ء اور ۱۵مارچ ۲۰۰۹ء میں ۲۴ مہینے کا فاصلہ ہے۔ تبدیلی میں دو سال لگ گئے (اس دوران وکلا برادری، سول سوسائٹی، سیاسی کارکنوں اور میڈیا نے تاریخی مزاحمتی کردار ادا کیا) لیکن اس شر سے ایک بڑا خیر نمودار ہونے سے ملک میں آزاد اور خودمختار عدلیہ کے پروان چڑھنے کے امکانات روشن ہوگئے۔

شاید آج کچھ لوگوں کو یہ امکان دُور ازکار اور یہ بات بھی مجذوب کی بڑ محسوس ہو مگر کیا   بعید ہے کہ جس طرح بش کی سرپرستی میں مشرف کے مجرمانہ اور ہتک آمیز اقدامات ہی عدلیہ کی تاریخ کے ایک نئے باب کے آغاز کا ذریعہ بنے، اسی طرح کیری لوگر بل کی شکل میں مغرور امریکا کا حاکمانہ، استعماری اور ہتک آمیز اقدام بالآخر ملک میں ایک حقیقی طور پر آزاد خارجہ پالیسی کے فروغ کی تمہید ثابت ہو، اور امریکا کی ۶۰سالہ سیاسی اور معاشی غلامی سے نجات کا پیش خیمہ بن جائے۔

لیکن مستقبل کی دھندلی تصویر کو حقیقی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کے اصل اہداف کا دقّت نظر سے تجزیہ کیا جائے، خصوصاً گذشتہ ۶۰ سال کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور اس کے نتائج کو معروضی انداز میں سمجھا جائے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قوم کو بیدار اور متحرک کیا جائے تاکہ وہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے اسی طرح کمربستہ ہوجائے جس طرح انگریزی سامراج اور ہندو کانگریس کے خطرناک کھیل کا مقابلہ کرنے کے لیے تحریکِ پاکستان کے دوران سرگرم ہوئی تھی، اور جس طرح ۲۰۰۷ء تا ۲۰۰۹ء میں مشرف کے آمرانہ اقتدار سے نجات اور پھر زرداری کی عدلیہ کو محکوم رکھنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے دو سال تک شب وروز جدوجہد کی اور بالآخر پرویزی اقتدار سے نجات پائی۔ پھر زرداری کا کھیل بھی خاک میں مل گیا۔

بل کی ھتک آمیز شرائط

کیری لوگر بل کے مندرجات کی زہرناکی کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جنھیں اچھی طرح سمجھنا ازبس ضروری ہے۔

اس بل کے حامیوں کی یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ امریکا اپنی امداد پر ہمیشہ شرائط لگاتا ہے اور یہ بھی غلط نہیں کہ معاشی اور فوجی امداد دینے والے ملک امداد کو اپنی خارجہ پالیسی اور  اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ خالص انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دی جانے والی بے لوث مدد اس دَور میں عنقا ہے۔ عالمی سیاست طاقت کا کھیل ہے اور جیساکہ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد امریکا کی خارجہ سیاست کی صورت گری کرنے والے مفکر جارج کینان نے بہت ہی صاف الفاظ میں کہا تھا کہ خارجہ پالیسی وغیرہ کا اخلاق اور قانون کی پاس داری سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو صرف مفاد کا کھیل ہے۔

اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امریکا کا مفاد کیا ہے اور ہمارا مفاد کیا ہے اور اگر ان میں کوئی مطابقت اور ہم آہنگی نہیں تو پھر ہمارے درمیان اشتراکِ عمل اور حقیقی شراکت کیسے وجود میں آسکتی ہے؟ متضاد مقاصد، اہداف اور مفادات کے ساتھ ہم ایک دوسرے کے ہم سفر کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور اگر طاقت ور اور استعماری قوت فی الحقیقت ہماری آزادی اور مفادات کے لیے خطرہ ہوتی ہے تو پھر  ع

جس کو ہو جان و دل عزیز ، اُس کی گلی میں جائے کیوں؟

بلاشبہہ امریکا شروع ہی سے ہم پر کچھ نہ کچھ شرائط لگاتا رہا ہے۔ روئیداد خان کی مرتّبہ دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ امریکا ۱۹۵۴ء ہی سے فوجی اور معاشی دونوں نوعیت کی امداد کے سلسلے میں اپنے مقاصد اور اہداف کو مختلف شکلوں میں ہم پر مسلط کرتا رہا ہے اور کہیں پاکستان کی قیادت نے سپر ڈالی ہے اور کہیں پابندیوں سے فرار کی راہیں بھی نکالی ہیں۔ لیکن اس اولیں دور میں شرائط کی زبان سخت اور نگرانی کا نظام حاکمانہ نہیں تھا۔

سب سے بڑھ کر یہ سب چیزیں سرکاری دستاویز اور خط کتابت میں دفن تھیں اور قوم اور پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا سارے معاملات طے ہو رہے تھے۔ ۱۹۸۰ء میں امریکا نے اسرائیلی اور بھارتی لابی کے زیراثر زیادہ واضح شرائط اور پابندیوں کا راستہ اختیار کیا۔ سیمنگٹن، پریسلر اور گلین ترامیم ان کی مثال ہیں لیکن ان کا تعلق بڑی حد تک جوہری صلاحیت سے تھا اور افغانستان میں  روس کی مداخلت کے پس منظر میں گو یہ تمام تحدیدات کتابِ قانون میں موجود تھیں لیکن انھیں لاگو کرنے سے عمداً چشم پوشی کی گئی، حتیٰ کہ جب روسی فوجوں کی واپسی کا اعلان ہوگیا تو ہم پر معاشی پابندیاں لگ گئیں۔

۲۰۰۱ء کے بعد پھر حالات نے نئی کروٹ لی اور ۱۹۹۸ء کے جوہری تجربات کے بعد جو پابندیاں لگی تھیں، وہ مصلحت کے ایک ہی جھونکے میں پادر ہوا ہوگئیں۔ اس پس منظر سے چار باتیں بالکل واضح ہیں:

۱- پابندیاں مختلف شکلوں میں لگتی رہی ہیں،وہ نئی چیزیں نہیں ہیں لیکن سوال صرف پابندیوں کا نہیں ان کی نوعیت، اثرانگیزی، زبان اور وسیع تر اثرات کا ہے۔

۲- پابندیوں پر عمل درآمد، مفادات اور سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تابع رہا ہے اور بالعموم امریکا نے صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر انھیں استعمال کیا یا نظرانداز کیا۔

۳- یہ پابندیاں برابر بڑھتی رہیں اور اب ان پابندیوں نے ایک ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ وہ اپنی وسعت، گہرائی اور کاٹ کے اعتبار سے تباہ کن ہوگئی ہیں۔

۴- اس پورے دور کے مطالعے سے جو حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا سے ہمارا تعلق سارے زبانی جمع خرچ کے باوجود، نہ اصولی بنیادوں پر اشتراکِ مقاصد کا تھا اور نہ اسے حقیقی اور دیرپا دوستی (جسے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کہا جاتا ہے) کے فریم ورک کی حیثیت حاصل رہی۔ اس کا امکان ماضی میں تھا نہ آج ہے، مستقبل میں بھی دُور دُور تک یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ سارا معاملہ خالص امریکی مفادات کے فریم ورک میں لین دین پر مبنی تھا اور آج بھی ہے۔ اگر کوئی امریکا کا حقیقی پارٹنر رہا ہے تو وہ صرف برطانیہ اور اسرائیل ہیں، اور اب بھارت اس محدود دائرے میں داخل ہوچکا ہے۔ پاکستان کبھی اس کا حقیقی حلیف تھا اور نہ آج ہے اور مستقبل میں بھی اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ خواہ دل خوش کرنے (مگر درحقیقت دھوکا دینے) کے لیے اسے کبھی نہایت قریبی حلیف کہا جائے اور کبھی ناٹو کا غیررکن حلیف کے القابات سے نوازا جائے، حقائق بہت واضح ہیں۔ ہمیں اپنے کو دھوکا نہیں دینا چاہیے اورنہ دوسروں سے دھوکا کھانا چاہیے۔

اس پس منظر میں پھر وہ کیا بات ہے جس نے کیری لوگر بل کو ایک مختلف حیثیت دے دی ہے؟ ہماری نگاہ میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے جو شرائط اور پابندیاں اس کے ذریعے لگائی گئی ہیں اور تھوک کے بھائو سے یک مشت لگائی گئی ہیں، وہ اپنی موجودہ شکل میں نہایت سخت ہتک آمیز اور ’غلام آقا‘ تعلقات کی بدترین مثال ہیں۔ اس طرح جو عمل ۱۹۵۴ء میں شروع ہوا تھا، وہ اب اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ کر امریکا کے قانون کا حصہ بن گیا ہے، جو آیندہ بھی ہرقانون اور معاہدے کے لیے نمونے کا کام انجام دے گا۔ اب ہم محکوم اور   تابع مہمل بنا دیے گئے ہیں اور امریکا نے اپنے لیے حاکم اور آقا کے سارے اختیارات لے لیے ہیں۔ پھر اس قانون میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو عادی مجرموں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ آزاد اور خودمختار ممالک کے درمیان معاملات اس زبان میں اور اس انداز میں نہیں کیے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ قانون اپنے تمام پیش روؤں پر بازی لے گیا ہے۔ اب امریکی عزائم اور ہمارے لیے غلامی کی زنجیریں بالکل برہنہ ہوکر سامنے آگئی ہیں اور اس قانون پر پردہ ڈالنے کی جو آخری کوشش پاکستانی عوامی ردعمل کے جواب میں پانچ صفحات پر مشتمل نام نہاد مقاصد کے توضیحی بیان کی شکل میں کی گئی ہے،  وہ دھوکے اور طفل تسلی کے زمرے میں آتی ہے جس سے حقائق میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اس قانون کا جو بھی دیانت داری سے مطالعہ کرے گا وہ اسے دوستی کا پروانہ نہیں، غلامی کا طوق اور قومی تذلیل اور تحقیر کی دستاویز قرار دے گا، جیساکہ ہم آگے شواہد سے ثابت کریں گے۔

قومی ردعمل

دوسرا پہلو جو اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اب سے پہلے امریکی امداد کی شرائط کا تعین فوجی حکومت کے دور میں ہوا یا فوج کی قیادت کا اس میں زیادہ عمل دخل رہا۔ اس بار ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے نمایندوں نے یہ گل کھلائے ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ آج آزاد پریس کی فضا میں یہ قانون سازی ہوئی ہے، اور گو دیر سے سہی امریکا کے سینیٹ اور ایوانِ نمایندگان میں اختلاف کے بعد جو آخری مسودہ منظور ہوا ہے وہ کھلی کتاب کی مانند پاکستانی قوم کے سامنے آگیا ہے۔ نیز عالمی میڈیا اور خود پاکستان کے میڈیا اور سیاسی قیادت نے خصوصیت سے حزبِ اختلاف نے اسے اجتماعی غورو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی پہلی بار کھل کر بات ہوئی ہے۔     گو پارلیمنٹ کو کسی فیصلے پر پہنچنے کا موقع نہیں دیا گیا اور حکومت نے بحث کے دوران مسئلے کو ہائی جیک کر کے ایک نمایشی سمجھوتے کا ڈھونگ رچایا لیکن اس بار کلھیا میں گڑ نہیں پھوڑا گیا اور معاہدے کی ہانڈی چوراہے پر پھوٹی ہے۔ پوری قوم کو احساس ہے کہ ’دوستی کی دستاویز‘ کے نام پر اسے محکومی اور غلامی کا طوق پہنایا گیا ہے۔ قوم نے اسے رد کر دیا ہے اور ہرسطح پر اپنی بے زاری کا اظہار کردیا ہے جس کا تازہ ترین ثبوت گیلپ پاکستان کا سروے ہے جس میں قوم کے فیصلے کی بازگشت صاف   سنی جاسکتی ہے اور یہی جماعت اسلامی کے زیراہتمام عوامی ریفرنڈم کا فیصلہ ہے جس کے مطابق ۹۹فی صد عوام نے کیری لوگر بل کو مسترد کردیا ہے۔ گیلپ کے چار سوال اور ان کے جواب بھی  قوم کے فیصلے کے مظہر ہیں:

اس سروے کے مطابق ۵۲ فی صد نے کہا: مسترد کر دیں، ۱۵ فی صد نے کہا: قبول کرلیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا کیری لوگر بل کے تحت امداد پاکستان کی معاشی ترقی میں مددگار ہوگی؟ ۶۰ فی صد نے نفی میں جواب دیا۔ پھر یہ کہ کیا یہ امداد ایک عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لائے گی؟ ۶۹ فی صد نے نہیں میں جواب دیا۔ کیا پاکستان امریکا اور دوسرے ملکوں کی امداد پر چل رہا ہے یا یہ اپنے وسائل سے بھی ترقی کرسکتا ہے؟ اس آخری سوال کے جواب میں ۶۲ فی صد نے برملا کہا کہ پاکستان اپنے وسائل سے بھی ترقی کرسکتا ہے۔

اس پس منظر میں امریکا سے تعلقات کا مسئلہ اب خواص اور مفاد پرست قیادت کے اختیار سے نکل کر عوام کی عدالت میں آگیا ہے اور اب ان شاء اللہ اس کا آخری فیصلہ واشنگٹن کے   وائٹ ہائوس یا اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں نہیں، پاکستان کے گلی کوچوں میں ہوگا۔ اگر پارلیمنٹ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عوام نے جس طرح عدلیہ کی بحالی کا مسئلہ طے کیا، ان شاء اللہ اسی طرح یہ مسئلہ بھی طے کریں گے خواہ اس میں کتنا بھی وقت لگے اور عوام کو اپنے حق اور آزادی اور خودمختاری سے محروم کرنے کے لیے اپنے اور غیر کیسی ہی چالیں کیوں نہ چلیں۔

نیا عالمی منظرنامہ

تیسرا پہلو بہت ہی بنیادی اور شاید سب سے اہم ہے اور معاملات کی تہہ تک جانے کے لیے سب سے زیادہ فیصلہ کن ہے۔

۵۰ کے عشرے سے لے کر ۲۰۰۹ء کے حالات تک دنیا بہت بدل گئی ہے اور خود امریکا کے عالمی عزائم اور اس خطے کے بارے میں اس کے ایجنڈے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جن کی تفہیم بہت ضروری ہے۔

۱۹۴۵ء سے ۱۹۸۹ء تک دنیا سردجنگ کی گرفت میں تھی اور امریکا کی ساری سیاست اسی کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس میں امریکا نے سیاسی اور معاشی حلقہ بندیوں کی جو حکمت عملی اختیار کی، اس میں پاکستان کا ایک خاص کردار تھا۔ ۱۹۹۰ء میں حالات بالکل بدل گئے اور امریکا اور مغرب نے نیا ایجنڈا بنایا جس میں ایک یک قطبی دنیا اور عالم گیریت، عالمی سرمایہ داری، سیکولر جمہوریت، آزاد معیشت اور امریکا کی عالمی بالادستی کی بنیاد پر نیا نقشہ تعمیر کیا گیا۔ ایک طرف تہذیبوں کے تصادم کا راگ الاپا گیا تو دوسری طرف مغرب کے تہذیبی نظریے کو، جسے سیاسی اور معاشی آزاد روی (political & economic liberalism) کا نام دیا گیا، پوری دنیا پر مسلط کرنے اور ان کے نظریے سے اختلاف یا اسے چیلنج کرنے والے کسی دوسرے نظریے کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینے کے عزائم کو پروان چڑھایا گیا۔ اس سلسلے میں اسلام اور اسلامی دنیا کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا۔   نائن الیون اسی سلسلے کی اہم ترین کڑی تھا لیکن آٹھ سال تک دنیا کو ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے ایک نہ ختم ہونے والے ہیجان اور انسانی اور معاشی تباہی کے جہنم میں جھونکنے کے باوجود امریکا اور ناٹو اقوام اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکیں۔

اس کے نتیجے میں ایسا نظرآرہا ہے کہ آیندہ کے لیے نئی صف بندی ہو رہی ہے اور اب امریکا، اسرائیل اور بھارت کا ایک نیا گٹھ جوڑ وجود میں آرہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یورپ، جاپان اور چین میں بھی اہم تبدیلیاں کروٹ لے رہی ہیں۔ اس نئے نقشۂ جنگ میں شرق اوسط اور خصوصیت سے پاکستان اور ایران کی بڑی اسٹرے ٹیجک اہمیت ہے۔ان دونوں ملکوں کے لیے بڑی خطرناک منصوبہ بندیاں کی جارہی ہیں، خصوصیت سے پاکستان کو قابو کرنے، اسے کمزور کرنے اور خانہ جنگی اور اندرونی انتشار میں مبتلا کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے مختلف النوع حکمت عملی وضع کی جارہی ہیں۔ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھارت کو خصوصی کردار دیا گیا ہے۔ ایران کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے اور پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ اب جملہ کارروائیوں کا مرکز افغانستان سے پاکستان کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے اور افغانستان میں بھی، ناکامی کا سبب پاکستان کے کردار کو قرار دے کر، اسے نہ صرف ہراعتبار سے اپنی گرفت میں لینے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے بلکہ فوج کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اُلجھا کر اور فوج اور قوم کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرکے اپنے ہاتھوں میں کھیلنے والی سیاسی قیادت کو آلۂ کار بناکر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قوت، رشوت اور بلیک میلنگ کے ہتھیار پوری چابک دستی سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے اب ایک نئی پروپیگنڈا وَار کی دھمکی دے دی ہے۔

امداد کی حقیقت

ان حالات میں عوامی مخالفت اور پارلیمنٹ کی مزاحمت کے باوجود کابینہ نے کیری لوگر بل کو جس طرح منظور کیا ہے، وہ انتہائی افسوس ناک ہے اور مشرف دور کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی اقدام ہے جیسا پرویز مشرف نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو کیا تھا۔ اگر اس اقدام کا ہدف عدلیہ اور اس کی آزادی تھی تو اِس مرتبہ اصل ہدف ملک کی آزادی اور خودمختاری ہے اور عزت و وقار کا سودا کر کے اسے امریکا کی گرفت میں دینے کی سازش ہے۔ اسے زرداری صاحب اور ان کے وزیرخارجہ ایک ’تاریخی کامیابی‘ قرار دے رہے ہیں اور دعویٰ ہے کہ اب امریکا سے ’مستقل دوستی‘ اور لمبے عرصے کے فریم ورک میں امداد حاصل کی جارہی ہے،  حالانکہ کیری لوگر قانون ان دونوں باتوں کی تردید کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ کہ پہلی بار پانچ سال کے لیے امداد کا وعدہ کیا جارہا ہے، واقعاتی اعتبار سے غلط ہے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ڈاکٹر محبوب الحق کی وزارتِ خزانہ کے دور میں بھی پانچ سال کے لیے امریکی امداد دی گئی تھی اور اس کے نتائج قوم  دیکھ چکی ہے۔

جہاں تک موجودہ امداد کے لیے پانچ سال کے فریم ورک کا سوال ہے تو یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ کیری لوگر بل کے مطابق ہرسال جائزہ لیا جائے گا اور اس کے لیے ہر چھے ماہ بعد امریکا کی وزارتِ خارجہ رپورٹ تیار کرے گی اور پاکستان میں احتساب، نگرانی اور آڈٹ کا بھرپور نظام قائم کیا جائے گا۔ نیز ان ۴۲ شرائط (benchmarks) کی روشنی میں، جو اس قانون کا حصہ ہیں، اگر  رپورٹ میں ذرا بھی خلاف ورزی پائی گئی تو امداد کی اگلی قسط کو روک دینے کی سفارش قانون کا حصہ ہے۔ اس کی موجودگی میں نہ امداد کا تسلسل یقینی ہے اور نہ معاشی ترقی کے منصوبوں کے دیرپا ہونے کی کوئی ضمانت ہوسکتی ہے۔

۵ء۷ ارب ڈالر کو ایک ’خطیر امداد‘ قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ ۱۹۸۴ء میں صرف ایک سال میں ۱ء۵ ارب ڈالر کی امداد بھی پاکستان کو مل چکی ہے۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۲ ارب ڈالر کی امداد کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور اگر اس زمانے میں افراطِ زر اور ڈالر کی قوتِ خرید اور اس کی عالمی قیمت میں کمی کو سامنے رکھا جائے تو حقیقی طور پر ۵ء۱ ارب ڈالر سالانہ کی امداد مونگ پھلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ پھر اس ۵ء۱ ارب ڈالر میں سے ۲۰۰ ملین ڈالر امداد پر امریکا کی نگرانی کے   نظام کے لیے وقف ہیں۔ باقی ۳ء۱ ارب میں سے کتنا امریکا کے پاکستانی منصوبوں پر خرچ ہوگا   وہ ایک معما ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ صرف امریکی سفارت خانے کی توسیع کے لیے ۶۰۰ سے ۷۰۰ ملین ڈالر درکار ہوں گے۔ اگر اس سے صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تب بھی ہمارا اپنا اور دنیا کے سارے ممالک کا تجربہ ہے کہ معاشی امداد کا ۵۰ فی صد امداد دینے والے ملک کے ادارے اور مشیر واپس لے جاتے ہیں اور باقی ۵۰ فی صد میں سے ۲۰ فی صد امداد لینے والے ملک میں بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔ ملک اور اس کے عوام کے حصے میں بمشکل ۲۰ یا زیادہ سے زیادہ ۳۰ فی صد آتا ہے اور وہ بھی ان منصوبوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو امداد دینے والے ملک کی ترجیح ہوتے ہیں (قطع نظر اس کے کہ امداد لینے والے ملک کی ترجیح میں وہ کہاں آتے ہیں اور اُسے کتنا حقیقی فائدہ ہوتا ہے)۔ یہ بھی مشتبہ ہے کہ ان میں سے کتنے منصوبے مکمل ہوتے ہیں، کتنے صرف کاغذ پر بنتے ہیں اور فائلوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کی خودمختاری

کیری لوگر بل میں غیرحکومتی اداروں کو خصوصی کردار دیا گیا ہے اور پالیسی کی یہ ترجیح واضح الفاظ میں موجود ہے کہ حکومتی ذرائع کے علاوہ امداد کا ذریعہ این جی اوز ہوں گی۔ ٹائٹل J کے سیکشن ۱۰۱ میں صاف بیان کیا گیا ہے:

صدر کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اس سیکشن کے تحت امداد فراہم کرنے کے لیے پاکستانی اداروں، کمیونٹی اور مقامی این جی اوز بشمول میزبان ملک کے ساتھ معاہدوں اور مقامی لیڈروں کے ساتھ کام کریں۔

سارا کام یو ایس ایڈ اور اس فنڈ کے لیے پاکستان کے سربراہ کے ذریعے انجام دیا جائے گا جو مانٹیرنگ کے فرائض بھی انجام دے گا۔ اس امداد پر تصدیق نامہ جاری کرنے کا نظام ہوگا جو سیکرٹری آف اسٹیٹ کے اختیار میں ہوگا اور اسے نظرانداز کرنے (waiver ) کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔ امریکا نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ کے منصوبوں میں دخل اندازی کریں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آڈٹ کا پورا نظام امریکی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ منصوبوں اور پروگراموں کو روبہ عمل لانا، ان کا انتظام، ان کا آڈٹ اور ان کی نگرانی اس کی ذمہ داری ہوگی۔

بات ارادوں سے بہت آگے جاچکی ہے۔ امریکا عملاً بہت کچھ اپنے ہاتھ میں لے چکا ہے۔ اب کیری لوگر بل نے اس عملی انتظام کے لیے قانونی ڈھانچا تجویز کیا ہے اور یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ باہر کے محققین جن کی نگاہ پاکستان کے حالات اور امریکی امداد کے طریقۂ واردات پر ہے، وہ اس کا برملا اعتراف کر رہے ہیں۔

لندن کے اخبار دی گارڈین کا نامہ نگار اپنے مضمون Pakistan's American Aid Dilemma میں امریکا اور پاکستان دونوںکو ان الفاظ میں آئینہ دکھاتا ہے:

پاکستان میں جو بات لوگوں کو خوف زدہ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ امداد پاکستان کی سلامتی کے پورے نظام کے حساس ترین پہلوئوں کی امریکی نگرانی سے مشروط ہے۔ ان اقدامات پر اتنا شدید احتجاج ہوا کہ کانگریس کو ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا     جس میں وعدہ کیا گیا کہ امریکا ریاست کے انتظامی امور میں جزئیات کے انتظام (micro management) تک نہیں جائے گا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اس وقت بھی جزئیات کے انتظام میں دخل انداز ہے۔ اب بڑا فرق یہ ہوگیا ہے کہ امریکی انتظامیہ جب یہ کرے تو کانگریس کو زیادہ جواب دہ ہوگی۔ (دی گارجین، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

اس مضمون میں دی گارڈین کے نامہ نگار کا مندرجہ ذیل تبصرہ بھی غور کرنے کے لائق ہے:

یہ ایک ہمہ گیر قانون ہے جو عملاً پاکستان کے ریاستی امور، تعلیم اور ماحولیات سے لے کر سلامتی کے معاملات تک، ہر پہلو کا ذکر کرتا ہے۔بلاشبہہ یہ واضح نہیں ہے کہ کتنی امداد پاکستان کو براہِ راست دی جائے گی اور کتنی امداد امریکا اور نجی مشیران اس کے انتظامی امور پر خرچ کریں گے۔

پاکستان کے وزیرخزانہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انتظامی اخراجات امداد کو نصف کردیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امدادی پیکج کے ساتھ جو شرائط لگائی گئی ہیں، وہ پاکستان کا بازو موڑنے کو چھپانے کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ محکمہ خارجہ اور اس کے ساتھ  کم تر درجے میں کانگرس اور پینٹاگون کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ  یہ امداد کرپشن کی نذر نہ ہو۔ بہرحال یہ ادارے غیرجانب دار اور آزاد نہیں ہیں۔  افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی بقا کے لیے امریکا پر انحصار کرتا ہے۔

کیا اب بھی اس میں کوئی شک ہے کہ بات جزئیات کے انتظام کو ہاتھ میں لینے سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ اگر اس قانون پر پورا عمل ہوتا ہے (اور امریکا کروائے گا) تو پاکستان ایک محکوم ملک ہوگا اور امریکاکی حیثیت ریاست بالاے ریاست کی ہوگی، محض ریاست کے اندر ریاست کی نہیں!

بل کے مضمرات

یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ کیری لوگر بل ایک مربوط اور جامع قانون ہے جس میں معاشی اور سیکورٹی امداد کے لیے الگ الگ سیکشن تو ضرور قائم کیے گئے ہیں لیکن یہ دونوں باہم مربوط ہیں۔ قانون کے اولین حصے کا سیکشن ۳ بہ عنوان Findings ۱۲ نکات پر مشتمل ہے، اور اس کے سیکشن ۴ بہ عنوان Statement of Principles میں پانچ اصول بیان کیے گئے ہیں۔ پانچویں اصول کے ذیل میں ۱۴نکات سموئے گئے ہیں۔ یہ حصے پورے بل پر حاوی ہیں اور معاشی اور سیکورٹی امداد دونوں ان کے تابع ہیں۔ یہ حصے پورے قانون کے مقاصد اور مزاج کو متعین کرتے ہیں۔ پورے امدادی نظام کے لیے جو مانٹیرنگ اور تصدیق کا دروبست طے کیا گیا ہے، وہ بھی ناقابلِ تقسیم ہے۔ سب سے بڑھ کر خود پاکستان اور حکومت ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ کچھ شرائط کا تعلق صرف سیکورٹی امداد سے ہے، ایک مغالطہ ہے۔ جیسا کہ امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بجاطور پر لکھا ہے، یہ تفریق ناقابلِ عمل ہے۔ (دی نیوز، ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۰ء)

نسیم زہرہ کی بات بھی غورطلب ہے:

اس بل سے پاکستان میں اقتدار کے معاملات کو غیرمستحکم کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس بل سے سول اور فوجی حکام کے درمیان اعتماد کی کمی ظاہر ہوتی ہے۔ حزبِ اقتدار کی جماعتوں اور سیکورٹی کے اداروں میں ایک راے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ حکمران سیاسی قیادت کے ایک حصے نے ان شرائط کی شمولیت کے لیے جن کا نشانہ پاکستان کے سیکورٹی کے ادارے اور پالیسیاں ہیں، اگر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی تو ساتھ ضرور دیا ہے۔

اس قانون کے مطالعے سے جو ناقابلِ انکار حقائق سامنے آتے ہیں وہ ہم ڈاکٹر ملیحہ لودھی ہی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ محترمہ ملیحہ لودھی حکومتی نظم کا بہت اہم حصہ رہی ہیںاور ان پر تعصب یا امریکا دشمنی یا بنیاد پرستی کا الزام نہ زرداری صاحب لگا سکتے ہیں اور نہ صدر اوباما، یا  محترمہ ہیلری کلنٹن یا سینیٹر جان کیری۔

  •  قانون امریکی انتظامیہ کو پابند کرتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو اور دہشت گردی کے خلاف متعین دائروں سے لے کر فوجی بجٹ اور ترقیوں کے طریقۂ کار تک کی نگرانی کرے، یا اس میں پاکستان سے تعاون حاصل کرے۔
  •  یہ ایکٹ ایسے مستقل معیارات (benchmarks) طے کرتا ہے جو نہ صرف فوجی امداد کو، بلکہ دوسرے دائروں میں بھی تعلقات کو مشروط کریں گے۔ درحقیقت یہ ایسا فریم ورک فراہم کرتا ہے کہ آیندہ تعلقات انھی شرائط اور فریم ورک پر منحصر و محدود ہوں گے اور ممکن ہے کہ دوسری مغربی قومیں بھی اس کے مطابق معاملہ کریں۔
  •  یہ شرائط طویل عرصے سے قائم اس تصور کو تقویت دیتی ہیں کہ امریکا اپنی امداد کو پاکستان کی داخلہ و خارجہ پالیسیاں طے کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتاہے۔
  •  یہ اعتماد کے فقدان کا تاثر دیتی ہیں، خصوصاً پاکستان کی مسلح افواج پر۔ اس سے وہ تعاون بھی قابلِ بحث ہوجاتا ہے جو اس نے پیش کیا ہے۔
  •  یہ  شرائط پریسلر لا کی طرح تعلقات پر تلوار کی طرح لٹکتی رہیں گی۔
  •  بعض دفعات کو ملا کر پڑھا جائے تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کھوجنے (probe) کی کوشش نظر آتی ہے۔
  •  ان شرائط کے ہوتے ہوئے پاکستان شدت پسندی کے خلاف جو اقدام اٹھائے گا، ملک میں اسے واشنگٹن کے احکامات سمجھا جائے گا اور اس سے جو قومی مفاہمت حال ہی میں قائم ہوئی ہے، اسے نقصان پہنچے گا۔
  •  اس قانون کے بعض حصوں میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ بھی قابلِ گرفت ہے، مثلاً دفعہ ۲۰۳۔ اس میں انتظامیہ کی اس تصدیق کو لازمی کیا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان، پاکستانی فوج کے اندر بعض عناصر یا اس کی خفیہ ایجنسی کی طرف سے انتہاپسند اور  دہشت گرد گروہوں کی حمایت ختم کرنے پر آگے بڑھ رہی ہے___ اور اس قرارداد جرم کا ہدف یہ ہے کہ امریکا کو مطلوبہ تعاون ملے!

بل: غیر جانب دارانہ نقطۂ نظر

اس قانون کا جو مفہوم پیپلزپارٹی کے اربابِ اقتدار کو چھوڑ کر پاکستان کے دانش وروں، صحافیوں اور خود فوج کی قیادت نے سمجھا ہے، اس کی تصدیق امریکا کے غیر جانب دار اہلِ قلم بھی کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کی ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ان کے مضمون نگار ڈیوڈ اگناشیس (David Ignatius) نے اہلِ پاکستان کے جذبات کی پوری دیانت اور جرأت سے ترجمانی کر دی ہے۔ یہ مضمون امریکی قیادت کو آئینہ دکھاتا ہے اور پی پی کی قیادت کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے چند اقتباس ملاحظہ کیجیے:

کانگریس نے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے امداد کو تین گنا کیا ہے لیکن ممبران نے جو ہمیشہ دوسروں کو یہ بتانے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں کہ وہ کیا کریں، ایسی شرائط داخل کردی ہیں جو پاکستانیوں کو توہین آمیز لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ امداد اور دوستی کو خوش آمدید کہنے کے بجاے پاکستانی [عوام] امریکی مداخلت پر ناراض ہیں۔ گذشتہ ہفتے میں اسلام آباد میں تھا تو اس وقت پاکستانی پریس امریکا مخالف جذبات سے بھرا ہوا تھا۔

پاکستانیوں پر کچھ حرف گیری کرنے کے بعد ڈیوڈ اگناشیس کام کی بات کہتا ہے:

یہ دراصل ان بلاجواز الفاظ کا نتیجہ ہے جنھیں ان تنبیہات کے باوجود قانون میں لکھا گیا کہ اس سے اس طرح کا ردعمل پیدا ہوگا۔ امریکی سیاست دان دوسروں کو لیکچر دینے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیںکہ وہ دوسرے ملکوں میں ان کے الفاظ سے جو مفہوم لیا جائے گا، اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ لیکن جب کچھ بلاجواز جملے القاعدہ کے خلاف ہمارے سب سے اہم اتحادی کے ساتھ تعلقات کو غیرمستحکم کرسکتے ہیں تو پھر یہ ہمارا مسئلہ بھی ہے۔

مضمون نگار اس کے بعد بل کی تاریخ بیان کرتا ہے کہ کس طرح سینیٹ میں منظور ہونے والا بل کم از کم زبان کے اعتبار سے نسبتاً نرم تھا مگر ایوانِ نمایندگان کے مسودے کے ذریعے ایسی شرائط کا اضافہ کردیا گیا جو کسی بھی باغیرت قوم کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتیں۔ مضمون نگار کے الفاظ میں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ:

پاکستان کو فوجی امداد نہیں ملے گی جب تک کہ وہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف اپنے مضبوط عہد کا مظاہرہ نہ کرے اور دہشت گرد گروپوں کے لیے اپنی حمایت ختم نہ کرے اور کوئٹہ اور مریدکے (جہاں لشکرطیبہ کا مرکز ہے) کے دہشت گرد اڈوں کو ختم نہ کردے۔ اگرچہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ان گروپوں سے ماضی میں تعلقات رہے ہیں لیکن کانگریس کی طرف سے اس برسرِعام ڈانٹ ڈپٹ نے پاکستانی خفیہ سروس کے افسران اور فوجی حکام کو پریشان کرنا ہی تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے سپاہی طالبان اور دوسرے انتہاپسند گروپوں کے خلاف لڑائی میں اپنی جانیں دے رہے ہیں اور انھیں کانگریس کی طرف سے کسی رعب کے اظہار کی ضرورت نہیں۔

امریکا کے ایک اور رسالے ورلڈ پولٹیکل ریویو میں اس کے مقالہ نگار ڈاکٹر کلاڈ رکی سٹس (Claude Rakisits )٭ نے اس بل کے ایک اور خطرناک پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:

کیری لوگر بل کی بعض شرائط بہت سخت ہیں اور انھوں نے پاکستان کی سول اور فوج کی مقتدرہ کے درمیان ایک گہری دراڑ ڈال دی ہے جو اس ملک میں جمہوریت کے استحکام میں مددگار نہیںہوگی۔ ایک شرط جس نے پاکستانی فوج کو بہت زیادہ ناراض کیا ہے، یہ ہے کہ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن ہر چھٹے ماہ کانگریس کو رپورٹ کریں گی کہ حکومت پاکستان فوج پر مؤثر سول کنٹرول کر رہی ہے یا نہیں؟ وزیرخارجہ کو دوسری باتوں کے علاوہ     یہ اندازہ بھی لگانا ہوگا کہ حکومت کس حد تک فوجی بجٹ، فوج کی قیادت، رہنمائی     اور منصوبہ بندی اور سینیرافسران کی ترقی پر نظر رکھتی ہے۔ پاکستانی فوج کے افسران    کے لیے یہ بیل کے سامنے سرخ جھنڈا لہرانے کے مترادف ہے۔

کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، پاکستان میںفوج نے ظاہری یا خفیہ طور پر ملک کے سیاسی   فیصلہ سازی کے عمل میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ منتخب سول قائدین کو بالآخر فوج پر بالادست ہونا چاہیے لیکن یہ یقین کرنا کہ ایسا چند مہینوں میں ہوجائے گا بہت سادگی کی بات ہے اور خاص طور پر اس وقت، جب کہ یہ کوشش واشنگٹن سے مسلط کی جارہی ہو۔ گذشتہ سال اس کا مظاہرہ ہوا ہے جب صدر آصف زرداری نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ آئی ایس آئی کوسول کنٹرول میں لے رہے ہیں۔اگلے ہی دن انھیں جنرل کیانی کی مخالفت کی وجہ سے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔

کیری لوگر بل کے لیے زرداری کی بہت شدید کھلی حمایت نے پاکستانیوں کے اس تاثر کو گہرا کر دیا ہے کہ ان کا صدر امریکا کی ہر بات مانتا ہے، یہاں تک کہ وہ سخت ضروری رقوم کی خاطر پاکستان کی خودمختاری کے کچھ حصے سے بھی دست بردار ہونے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایسے ملک میں جہاں امریکی مخالفت عام ہے اور اس وقت سب سے زیادہ ہے، ایسے صدر کو جو پہلے ہی سیاسی طور پر کمزور ہو، مزید کمزور کردیتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ سول اور فوجی قیادت میں بداعتمادی کو بڑھادے گا مگر اس سے امریکا کو پاکستان میں حکمرانی کو بہتر کرنے کے اپنے مقصد میں مدد    نہیں ملے گی۔ ان سب باتوں سے پاکستانی فوج میں یہ احساس تقویت پاتا ہے کہ واشنگٹن ان پر اعتماد نہیں کرتا۔

بات صرف فوج اور امریکا کے درمیان اعتماد کی نہیں، بلکہ پوری پاکستانی قوم کے بارے میں امریکا کے اور امریکا کے بارے میں پاکستانی قوم کے اعتماد میں کمی کی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور بالآخر دونوں کے راستے ایک دوسرے سے جدا ہوکر رہیں گے۔ مضمون نگار جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے:

کیونکہ اسلام آباد کو رقم کی سخت ضرورت ہے، اس لیے اس کے پاس اس کڑوی گولی کو نگلنے اور اس بل کو جیسا یہ ہے قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس سے  منہ بدذائقہ ہوجائے گا اور یقینا دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد قائم نہیں رہے گا۔

امریکیوں کی نظر میں

یہ تو پھر بھی دوسروں کا تجزیہ اور تبصرہ ہے، اگر خود امریکی ایوانِ نمایندگان کے کچھ ارکان کے ارشادات پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے تو امریکی کانگریس اور حکمرانوں کا اصل ذہن سامنے آجاتا ہے، اور قانون کے مقاصد کے بارے میں کسی نمایشی یافرمایشی بیان کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایوانِ نمایندگان میں اس بل کے مجوز کانگریس کے ڈیموکریٹک رکن ہاورڈ برمین کا بیان ہے:

ہم القاعدہ یا کسی دوسرے دہشت گرد گروپ کو جو ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں، اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ قبائلی علاقوں میں یا پاکستان کے کسی دوسرے حصے میں کسی اندیشے کے بغیر کارروائی کریں، نہ ہم یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ طالبان ریاستِ پاکستان اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرلیں۔

ایوان کے ایک دوسرے رکن ڈانا روہرباخر (Dana Rohrbochar) بل کی تائید میں کہتے ہیں:

چین اور پاکستان، دونوں حکومتیں ہمیشہ ہمارے مفادات کے خلاف منصوبے بناتی اور کارروائیاں کرتی ہیں۔ انقلابی اسلام کا خطرہ حقیقی ہے لیکن یہ ہمارے اپنے ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے کے بارے میں غیر ذمہ دار ہونے سے حل نہیں ہوگا۔

سینیٹر جان کیری امریکا کے بڑے معتبر سیاست دان ہیں، انھیں پاکستان کادوست ہونے کا بھی دعویٰ ہے لیکن یادش بخیر جب وہ ۲۰۰۴ء میں صدارتی امیدوار تھے تو ان کا ارشاد تھا کہ اگر میں امریکا کا صدر منتخب ہوگیا تو میری اولین ترجیح پاکستان کے نیوکلیر ایٹمی اسلحے پر قبضہ ہوگا۔ خود اس  بل پر بحث کے دوران ان کا کہنا ہے:

بغاوت کے خلاف حکمت عملی کے برخلاف دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی اس نظریے پر مبنی ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات کو حقیقی خطرہ پاکستان میں ہے افغانستان میں نہیں۔ پاکستان اہم مرکز ہے اور امریکا کے لیے سب سے بڑا سیکورٹی رسک ہے، اور یہ ساری مشق بالآخر ہماری اپنی سلامتی سے متعلق ہے۔

اپنے حالیہ دورے میں بھی جب وہ پاکستانی صحافیوں اور سیاست دانوں کو (پی پی کے ٹولے کو چھوڑکر) قائل نہ کرسکے تو ان کے منہ سے سچی بات ان الفاظ میں نکل ہی پڑی: ’’یہ قانون امریکا کی پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ ہم مدد دے رہے ہیں، پاکستان کواختیار ہے کہ وہ مدد نہ لے‘‘۔

پاکستان کے ردعمل پر امریکا کے سرکاری ترجمان کا تبصرہ  جو دی نیوز کے واشنگٹن کے نمایندے نے اپنی رپورٹ مورخہ ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء میں بھیجا ہے، سنجیدہ غوروفکر کے لائق ہے:

اس رپورٹر کو ایک سینیر امریکی افسر نے بتایا: ’’شاید کیری لوگر بل کی زبان پاکستانیوں کے لیے زیادہ حساس ہوسکتی تھی لیکن موجودہ زبان ہماری کانگریس کی راے کی عکاس ہے۔ کانگریس کے دونوں ایوانوں کے ۵۰۰ ممبران بعض وقت دوسرے ملکوں کے بارے میں شدید غیر محتاط زبان استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں امریکا کی سفیر محترمہ پیٹرسن نے ۸؍اکتوبر کو لاہور میں اس قانون کے  ۴۲ ہتک آمیز مطالبات کی توجیہ کا بالعموم یہی آسان حل نکالا ہے کہ بس کیری لوگر بل کی زبان نامناسب تھی۔ گو فوج کے بارے میں دفعات کے باب میں یہ بھی ان کی زبان سے نکل گیا کہ یہ دفعات    "a big mistake" (ایک بڑی غلطی) تھیں۔

بل کے مجوزین کی طرف سے توضیحی بیان کا سارا زور بھی اس پر ہے کہ زبان کو سمجھنے میں ابہام رہا ہے اور مسئلے کا حل الفاظ کی بہتر تعبیر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ الفاظ کی بہتر تعبیر سے معاملہ  رفع دفع تو کیا جاسکتا ہے لیکن زبان جن خیالات اور مطالبات کی ترجمان ہے ان کی کوئی دوسری تعبیر یا توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ ہمارا اصل مسئلہ وہ اہم بنیادی موضوعات اور مسائل (substantive issues) ہیں، جن میں پاکستانی قوم اور امریکی قیادت کی سوچ اور اہداف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیری لوگر بل کے الفاظ ہی بقول سرکاری ترجمان: امریکی پارلیمنٹ کے ذہن کے عکاس ہیں اور توضیحی بیانات کی لیپاپوتی سے حقائق پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس بات کی توثیق اس تازہ ترین قانون کی شکل میں ہوگئی ہے جو اس ساری بحث کے بعد امریکی ایوانِ نمایندگان نے ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو Fiscal 2010 Defence Authorization Bill کی شکل میں منظور کیا ہے اور جسے ۲۳؍اکتوبر کو سینیٹ نے بھی منظور کرلیا ہے۔ اس بل میں عملاً وہ شرائط ایک تازہ ترمیم کے ذریعے شامل کردی گئی ہیں جن پر کیری لوگر بل کے حوالے سے تنقید ہورہی ہے اور جسے پاکستانی قوم نے یکسر رد کر دیا ہے۔ سی بی این نیوز کی رپورٹ US Congress Quietly Okays New  Curbs on Military Aid (۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) پڑھنے کے لائق ہے:

میڈیا کو بتایا گیا کہ محکمہ دفاع کے بل میں ایک ترمیم شامل کردی گئی ہے تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ پاکستان کو جو فوجی امداد دی جارہی ہے، حقیقی طور پر اپنے مقصد یعنی طالبان اور القاعدہ سے لڑنے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اس کے مطابق امریکا کے وزیرخارجہ اور وزیردفاع پاکستان کو امداد دینے سے پہلے یہ تصدیق نامہ دینے کے پابند ہیں کہ یہ ادایگی قومی سلامتی کے مفادات کے تحت ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر نہیں کرے گی۔

واضح رہے کہ اس تازہ ترین قانون کے مطابق امریکی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ امداد کی رقم اور اس کے تحت دیے جانے والے اسلحے کے استعمال پر نگاہ رکھے، یعنی یہ کہ کتنا اور کون سا اسلحہ کہاں، کیسے اور کب، کس طرح اور کس لیے استعمال ہوا؟ ہراسلحے اور ہرڈالر کے استعمال پر امریکا کی ایسی نگاہ ہو کہ وہ صرف امریکی سیکورٹی مقاصد کے لیے استعمال ہو اور علاقے میں قوت کا توازن  متاثر نہ ہو جس کے معنی بھارت کے مفادات اور اس کی عسکری برتری کی حفاظت ہے۔

یہ تازہ ترین قانون زرداری حکومت کے منہ پر ایک اور طمانچا ہے لیکن اسی حکومت نے امریکا کی ہر زیادتی اور ہر ناروا مطالبے پر سرتسلیم خم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے (بالفاظِ دیگر امریکی غلامی کو طوق در طوق قبول کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے) اور اس وقت جب خود امریکا کے کچھ صحافی اور سیاست دان یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ امریکا کی یہ سامراجی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی، پاکستان کے مفاد پرست حکمران اپنے ہی ملک کی آزادی اور خودمختاری کاجنازہ نکالنے کے لیے کندھا دینے میں پیش پیش ہیں۔

کیری لوگر بل پر امریکی کانگریس کے ایک رکن گیری ایکرمین کا یہ تبصرہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو عبرت اور پاکستان کے غیور عوام کو حالات کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے پیشِ خدمت ہے:

ہماری کامیابی کا سارا انحصار ان اصلاحات پر ہوگا جو پاکستانی پاکستان میں کریں گے اور مجھے اس بل میں کوئی ایسی یقین دہانی نظر نہیں آتی کہ اس طرح کی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر پاکستان کے سرپرست بن رہے ہیں نہ کہ شراکت دار۔ آخر میں یہ ہوگا کہ جو کچھ ہم دے رہے ہیں، وہ اس کو ہضم کرلے گا اور رہے گا وہی پاکستان۔ سب سے بُری بات یہ ہے کہ پھر بھی یہی دعویٰ کریں گے کہ ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

ایکرمین کا یہ تبصرہ پاکستان سے دوستی اور فکری ہم آہنگی پر مبنی نہیں، اس لیے کہ اس کا اصل ذہن تو یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کی اساس، سوچ اور مفادات متصادم ہیں۔ اس نے صاف الفاظ میں کہا ہے: ’’امریکا اور پاکستان کے مفادات قریب قریب یکساں نہیں ہیں‘‘۔

لیکن اگر مخالف کے منہ سے بھی سچی بات نکل جائے تو اس کی ناقدری نہیں کرنی چاہیے۔

منظم جدوجھد کی ضرورت

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے ماضی، حال اور مستقبل کی جو تصویر ۶۰سالوں پر   پھیلی ہوئی اس داستان سے اُبھرتی ہے، کیری لوگر بل اور امریکی کانگریس کے منظورشدہ تازہ ترین The Defence Authorization Bill for 2010 میں صاف نظر آتی ہے۔ اس سے دیانت داری کے ساتھ صرف یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مفادات میں   کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ ہمارے لیے آزادی، عزت اور ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ایسی آزاد خارجہ پالیسی کے اختیار کرنے میں ہے جس میں ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ ہمارے خارجہ تعلقات کی بنیاد بڑی طاقتوں کے مفادات اور ان کی کاسہ لیسی سے عبارت نہ ہو، بلکہ خود  اپنے نظریاتی اور تہذیبی وجود اور سیاسی اور معاشی عزائم اور مفادات پر مبنی ہو اور دوست اور دشمن کی صحیح تمیز کی بنیاد پر تعلقات کو مرتب اور مستحکم کیا جائے۔ پاکستانی عوام امریکا کو اپنا دوست نہیں سمجھتے اور اس علاقے کے بارے میں امریکا کی پالیسیوں کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔   کم و بیش یہی جذبات پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی اس قرارداد میں بھی سامنے آئے تھے جو ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو   متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی اور جس پر پورا ایک سال گزر گیا، حکومت نے  رتی بھر بھی عمل نہیں کیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں اور عوام کی خواہشات میں کوئی مطابقت نہیں، بلکہ حکومت کی کارکردگی انتہائی غیراطمینان بخش ہے۔ حالات روز بروز بگاڑ کی طرف جارہے ہیں۔ اس صورت حال میں ضرورت کس بات کی ہے؟

تبدیلی کے لیے جدوجہد کی___ غلط پالیسیوں کے خلاف عوامی اور جمہوری جدوجہد، امریکا کی سیاسی اور معاشی گرفت سے نکلنے اور اپنی آزادی، خودمختاری اور عزت و وقار کی حفاظت، معاشی خودانحصاری کے حصول اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کو پروان چڑھانے کے لیے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔

کیری لوگر بل نے ’گو امریکا گو‘ کی تحریک کی ضرورت، افادیت بلکہ ناگزیریت کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے۔ کیری لوگر بل کا تازیانہ اگر قوم کو بیدار کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، ملّت اسلامیہ پاکستان کی آزادی، خودمختاری، خودانحصاری اور عزت و وقار کی بحالی کی تحریک اگر آگے بڑھتی ہے اور یہ تحریک عوامی اور جمہوری قوت کے ذریعے استعماری قوتوں اور ان کے حواریوں سے نجات کا راستہ استوار کرتی ہے تو پھر یہ ایک تاریخی تبدیلی کی نقیب بن سکتی ہے___ اور یہی وہ راستہ ہے جو آزادی، زندگی، قوت اور عزت کی منزل کی طرف لے جاسکتا ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو.ُ عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے


(کتابچہ:  کیری لوگر بل اور پاک امریکا تعلقات دستیاب ہے، قیمت: ۱۰ روپے۔ سیکڑے پر خصوصی رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور)