گولڈا مائیر ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی چوتھی وزیراعظم تھی۔ وہ ۱۸۹۸ءمیں روس میں پیدا ہوئی، لڑکپن میں امریکا چلی گئی اور ۱۹۲۱ء میں فلسطین میں منتقل ہوگئی۔ فلسطین پر قبضہ کرکے بنائی جانے والی ریاست کی سفیر پھر وزیر خارجہ اور ۱۹۶۹ءسے ۱۹۷۴ء تک وزیراعظم رہی۔ کئی حوالوں سے اس کی شخصیت او ر اس کا دور بہت اہم ہے۔ حال ہی میں اس کا ایک ویڈیو انٹرویو دیکھنے کا موقع ملا، جس میں وہ ۱۹۴۸ءسے پہلے کے فلسطین کا تفصیلی احوال بیان کرتی ہے۔ وہ اعتراف کرتی ہے کہ ۱۹۲۱ء سے ۱۹۴۸ء تک وہ خود بھی فلسطینی پاسپورٹ رکھتی تھی۔ فلسطین، اس پر قائم کی جانے والی غاصبانہ ریاست اور فلسطینی عوام کے بارے میں اس کے کئی اقوال بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا خوف ناک ترین دن کون سا تھا اور سب سے خوش گوار دن کون سا؟ اس نے کہا کہ خوف ناک ترین دن ۲۱؍ اگست ۱۹۶۹ء کا تھا جب مسجد اقصیٰ کے جلائے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ میں ساری رات سو نہیں سکی۔ مجھے لگتا تھا کہ کسی بھی وقت ہر طرف سے عرب فوجیں ہم پر ٹوٹ پڑیں گی۔ اور خوش گوار دن اس سے اگلا روز تھا، جب ہمیں تسلی ہوگئی کہ فوج کشی تو کجا کسی عرب حکومت نے اس کا سنجیدہ نوٹس بھی نہیں لیا۔ پھر وہ کہتی ہے کہ ہمیں ان عربوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، البتہ ہمیں اس دن سے ضرور ڈرنا چاہیے کہ ’’جب ان کی مسجدوں میں نماز فجر کے لیے اتنے لوگ آنا شروع ہوجائیں گے جتنے لوگ ان کی نماز جمعہ میں آتے ہیں‘‘۔
۲۸جنوری ۲۰۲۰ء کو امریکی صدر ٹرمپ اور صہیونی وزیراعظم نتن یاہو نے فلسطین کے بارے میں اپنا ایک اہم منصوبہ پیش کرتے ہوئے اسے ’صدی کا سب سے بڑا سودا‘ (Deal of the Century )قرار دیا۔ اس دن سے فلسطین کے تمام شہروں میں ایک نئی فلسطینی قوم سامنے آرہی ہے۔ الفجر العظیم کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے فلسطینی عوام، ہزاروں کی تعداد میں نمازِ فجر مساجد میں ادا کرتے ہیں۔ کئی شہروں میں یہ تعداد نماز جمعہ ہی نہیں، عید کے اجتماعات سے بھی بڑھ جاتی ہے اور مساجد سے باہر سڑکوں پر دور دور تک نمازی اُمڈ آتے ہیں۔ یہ اجتماعات صرف گولڈا مائیر کے طعنے ہی کا جواب نہیں، بلکہ نتن یاہو (عربی زبان میں نتن کا مطلب مردار کی بدبو ہے) کے اس اعلان کا بھی عملی جواب ہے کہ ’’اسرائیل اب ایک یہودی ریاست ہے اور پورے کا پورا بیت المقدس اس کا ابدی اور ناقابل تقسیم دار الحکومت ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے کی باز گشت گذشتہ تقریباً تین سال سے سنائی دے رہی تھی، لیکن جب تفصیل سامنے آئی تو وہ تحصیلِ حاصل بلکہ کسی ناجائز مردہ بچے کی ولادت سے زیادہ کچھ نہ نکلی۔ کوئی بھی معاہدہ یا سوداایک سے زیادہ فریقوں کے مابین ہوتا ہے، جب کہ یہاں صرف ایک ناجائز قابض اور اس کے سرپرست کے سوا کوئی دوسرا فریق تھا ہی نہیں۔ ٹرمپ، نتن یاہو منصوبے میں وہ تمام تکلفات بھی برطرف کردیے گئے ہیں، جو گذشتہ ۷۲ سال سے دنیا کو دھوکا دینے کے لیے برتے جارہے تھے۔ پہلے بیت المقدس کو متنازعہ تسلیم کرنے کا ڈھونگ رچایا جاتا تھا۔ سرزمین فلسطین پر اس کے اصل شہریوں کا حقِ وجود تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے ایک آزاد ریاست تشکیل دینے کا وعدہ کیا جاتا تھا۔ صہیونی نوآبادیوں کو غیر قانونی قرار دیا جاتا تھا۔ گولان کے علاقے کو اسرائیل کے زیرتسلط شامی علاقہ مانا جاتا تھا۔ اب صہیونی جارحیت کے مکروہ عریاں بدن پر باقی یہ بچی کھچی دھجیاں بھی نوچ پھینکی گئی ہیں۔ ٹرمپ فخریہ انداز سے ان اقدامات کو اپنا تاریخی کارنامہ قرار دے رہا ہے کہ اس نے امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرکے پورے بیت المقدس کو صہیونی علاقہ تسلیم کرلیا۔ اس نے گولان کو اسرائیلی علاقہ قرار دے دیا۔ اور اب وہ صدی کے اس سب سے بڑے سودے کا اعلان کرتے ہوئے، اس قدیم تنازعے کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کررہا ہے۔
البتہ فلسطین اور دنیا کو اب بھی یہ دھوکا دینے کی کوشش ضرور کی گئی ہے کہ باقی ماندہ فلسطینیوں کے لیے ایک فلسطینی ریاست بھی تشکیل دی جائے گی۔ اس سراب ریاست کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے فلسطینی عوام کو چار سال تک یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس سمیت ۸۵ فی صد سرزمین فلسطین پر صہیونی قبضہ تسلیم کرتے ہیں۔ ساری مسلم دنیا سے بھی یہ حقیقت منوانے کے بعد بالآخر کئی ٹکڑیوں میں تقسیم کیے گئے، کٹے پھٹے فلسطینی علاقے پر ایک ایسی ریاست قائم کی جائے گی جس کے شہریوں کا باہمی رابطہ بھی زیر زمین سرنگوں یا صہیونی چیک پوسٹوں کی اجازت سے مشروط گزرگاہوں کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے گا۔اس ریاست کی نہ اپنی فوج ہوگی، نہ وہ کوئی دفاعی اسلحہ رکھ سکے گی، نہ اس کی کوئی اپنی خارجہ پالیسی ہوگی۔ اس کا اصل ہدف اور ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ وہاں بسنے والے فلسطینی شہریوں کو صہیونی ریاست کے خلاف کسی بھی کارروائی سے باز رکھے۔ اگر یہ سب شرائط پوری کردی گئیں تو پھر پانچ سال کی مدت تک اسے ۵۰؍ ارب ڈالر کی امداد کی بتی کے پیچھے دوڑایا جاتا رہے گا تاکہ فلسطینی ریاست کے ڈرامے میں مزید رنگ آمیزی کی جاسکے۔
یہ سارا معاہدہ ایک ایسا دھوکا اور ناقابل عمل منصوبہ ہے کہ جسے خود کئی اسرائیلی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں نے بھی مسترد کردیا ہے۔ درجنوں اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے ٹرمپ، نتن یاہو پر یہ پھبتی کسی ہے کہ انھوں نے اپنی حماقت سے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر دنیا کا موضوع سخن بنادیاہے۔ پورا منصوبہ اس کے بنانے والوں کی زمینی حقائق سے لاعلمی کی دلیل قرار دیا جارہا ہے۔ ایک اسرائیلی تجزیہ نگار یہودا شاؤول اسے ناقابلِ عمل دھوکا دہی قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے ’’جسے صدی کا بڑا سودا قراردیا جارہا ہے وہ بعینہٖ آج سے ۴۰ سال پہلے متتیاہو ڈروپلس نامی صہیونی دانش ور نے بھی پیش کیا تھا۔ وہ یہودی نوآبادیوں کی تعمیر کا ایک اہم ذمہ دار تھا، لیکن وہ ٹرمپ اور اس کے (یہودی) داماد کو چنر سے زیادہ انصاف پسند تھا۔ اس نے فلسطینیوں کے لیے مجوزہ انتظامات کو کم از کم ریاست کا نام نہیں دیا تھا‘‘۔ گویا اگر یہ قابلِ عمل ہوتا تو۴۰سال پہلے نافذ ہوجاتا۔ وہ جانتا تھا کہ اس انتظام پر فلسطینی ریاست کانام چسپاں کرنا ایک تہمت ہوگی۔
کئی اسرائیلی اور مغربی اخبارات و تجزیہ نگاروں نے اس منصوبے کا اصل مقصد ٹرمپ کی اپنی صدارتی مہم اور نتن یاہو کی اپنی انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ ’اسرائیل‘میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت اس قابل نہیں ہوسکی کہ وہ اکیلی یا دوسروں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کرسکے۔ اب ۲مارچ کو ایک بار پھر انتخاب ہونا ہے اور نتن یاہو اس میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ اس کی بے تابی کی ایک بنیادی وجہ اس کے خلاف ثابت ہوجانے والے بڑی کرپشن کے چارمقدمات ہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسمبلی کے ذریعے ایسی قانون سازی کرسکے جو اسے سزا سے محفوظ رکھ سکے۔ اسرائیلی روزنامے ھآرٹز برطانوی اخبار دی گارڈین کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ’’صدر ٹرمپ سے یہ اعلان کروانے میں دیگر لوگوں کے علاوہ ایک بنیادی کردار شیلڈن اولسن نامی ایک امریکی جواری اور اس کی اہلیہ کا ہے۔ انھوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کا چندہ بھی دیا ہے۔ امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کروانے میں بھی ان دونوں کا اہم کردار تھا‘‘۔
امریکی پالیسی اور صہیونی عیاری کو دیکھیںتو گذشتہ ۱۰۰ سال سے وہ ایک جانب فلسطینی عوام کے حقوق مسلسل اور مرحلہ وار غصب کرتے چلے جارہے ہیں، اور دوسری طرف فلسطینی ذمہ داران اور دنیا کو وعدۂ فردا کے لالچ پر ٹرخاتے چلے جارہے ہیں۔ ذرا ۱۹۹۳ء میں ہونے والے معاہدہ اوسلو پر ایک نگاہ دوڑائیے۔ اس وقت بھی اس معاہدے کو تاریخ ساز معاہدہ قرار دیتے ہوئے پورے خطے میں امن کی نوید سنائی گئی تھی۔ اس معاہدے کا ایک اہم کردار حالیہ فلسطینی ’صدر‘ محمود عباس تھے۔ انھوں نے اس معاہدے کے بارے میں ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل اپنی یادداشت لکھی ہے۔ ’طریق اوسلو‘ (اوسلو کا راستہ) کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں انھوں نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبے سارپسبرگ میں کئی ہفتے جاری رہنے والے خفیہ مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے کی اندرونی کہانی بیان کی ہے۔ اپنی کتاب میں وہ صہیونی ریاست کے ساتھ درپیش آنے والے معاملات اور اس دوران حاصل ہونے والی ’اہم کامیابیوں‘ کا ذکر کرتے ہوئے صفحہ ۳۲۴پر لکھتے ہیں کہ ’’۱۹۸۸ءمیں فلسطینی قومی مجلس کا اجلاس مراکش میں منعقد ہوا۔ اس دوران امریکی صدر بش نے مراکش کے شاہ حسن الثانی کے نام خصوصی خط میں اس مجلس کے لیے ایک خصوصی ’تحفہ‘ بھجوایا۔ تحفہ یہ تھا کہ ’’امریکی انتظامیہ آج کے بعد فلسطینیوں کو صرف فلسطینی کہنے کے بجاے ’فلسطینی عوام‘ کہا کرے گی‘‘۔ گویااب سمجھو کہ بس تمھاری ریاست قائم ہونے جارہی ہے۔
محمود عباس جنھیں یاسر عرفات کو زہر دے کر مارنے کے بعد بڑی آؤ بھگت اور کئی اندرونی سازشیں کرتے ہوئے فلسطینی رہنما کا منصب دیا گیا تھا، پہلے دن سے آزادیِ فلسطین کے لیے کسی بھی طرح کی جہادی سرگرمی کے مخالف تھے۔ وہ ہمیشہ اعلان کیا کرتے تھے کہ ان کا اصل مقصد ’’إنھاءُ عَسْکَـرَۃِ الْاِنْتفَاضَۃ : تحریکِ انتفاضہ سے عسکریت کا خاتمہ‘‘ ہے۔ وہ مسلسل اپنے صہیونی دوستوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ فلسطینی عوام کو بھی ہمیشہ یہی باور کرواتے رہے کہ ہم بہت کچھ حاصل کررہے ہیں۔ اپنی اسی کتاب میں وہ اوسلو معاہدے کی شقوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’معاہدے کی شق ۷ میں فلسطینی اتھارٹی کو بجلی، پانی، ماحولیات، پٹوار خانے اور بندرگاہ کے انتظامات دیے گئے ہیں۔ ان سارے اختیارات میں اس خود مختاری کے کافی پہلو شامل ہیں، جو ہم مستقبل میں حاصل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ بیت المقدس کے مستقبل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بیت المقدس کو اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کے ایک فیصلے کے تحت اسرائیلی سرزمین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اب اوسلو معاہدے میں بیت المقدس کو حتمی مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرلیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے‘‘۔
محمود عباس اپنی کتاب میں ایک طرف اس طرح کے بودے دلائل دیتے ہوئے صہیونی انتظامیہ سے ہونے والے معاہدوں کو خوش نما بنا کر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف ان مذاکرات اور معاہدے پر دستخط ہونے کے آخری لمحے تک، صہیونی ذمہ داران کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی کی مثالیں پیش کررہے ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل نے تنظیم آزادی فلسطین کو بحیثیت فریق ثانی قبول نہیں کیا تھا۔ سارے مذاکرات اسرائیل اور ’اُردنی و فلسطینی مشترک وفد‘ کے مابین ہوئے۔ معاہدہ تیار ہوگیا تو گویا اسرائیل نے تنظیم آزادی فلسطین کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرلیا۔ اس موقعے پر یاسر عرفات نے تجویز پیش کی کہ معاہدے کے آخر میں تنظیم کانام ثبت کیا جائے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں اس ساری شٹل ڈپلومیسی کی تفصیل بھی لکھی ہے، جو تنظیم آزادی فلسطین کا نام لکھنے کے لیے کی گئی۔ اس ضمن میں کی گئی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں تو یاسر عرفات نے معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شریک نہ ہونے کی دھمکی دے دی۔ اس دوران صبح ۹بجے اہم امریکی ذمہ دار جیمز بیکر عرفات کی اقامت گاہ پر آئے۔ انھوں نے پوچھا معاہدے پر دستخط کس وقت ہونا ہیں؟ عرفات نے بتایا کہ گیارہ بجے صبح۔ بیکر نے کہا اسرائیلی وفد ۵۸:۱۰ پر راضی ہوجائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا، معاہدے سے چند لمحے قبل اسرئیل نے ترمیم قبول کرنے کا عندیہ دے دیا۔ میزیں سج گئیں، دستخط کرنے سے قبل ہم نے مسودہ دیکھنے کا تقاضا کیا، تو اس پر حسب سابق شمعون پیریز از حکومت اسرائیل اور محمود عباس از فلسطینی وفد لکھا ہوا تھا۔ میں نے پھر واضح طور پر کہا کہ یاسر عرفات اسے کسی طور قبول نہیں کریں گے، بالآخر مزید ردوکد کے بعد کہا گیا کہ محمود عباس دستخط کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ترمیم کرتے ہوئے ’فلسطینی وفد‘ کا لفظ کاٹ کرتنظیم آزادی فلسطین لکھنا چاہیں تو لکھ لیں‘‘۔
یہ ہے وہ کل حاصل محصول جو ان گذشتہ ۷۲ سالہ مظالم اور اس دوران امن مذاکرات اور معاہدوں کی دھوکا دہی کے ذریعے فلسطینی عوام کے ہاتھ آیا۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ سے پہلے بھی مذاکرات کے سیکڑوں دور ہوئے، درجنوں معاہدے ہوئے، روڈ میپ پیش کیے گئے، امن کانفرنسیں منعقد ہوئیں، لیکن عملاً ہربار صہیونی جارحیت اور غاصبانہ قبضے میں مزید توسیع ہوئی اور فلسطینی عوام مزید تباہ و برباد کیے گئے۔ یاسر عرفات اپنے سارے اخلاص کے باوجود اسی مذاکراتی گورکھ دھندے اور صہیونی عیاری کی نذر ہوگئے۔ انھیں جتنا استعمال کیا جانا تھا، کیا گیا اور پھر بالآخر فرانس کے ایک ہسپتال میں زہر دے کر ان کی جان لے لی گئی۔ محمود عباس پہلے دن سے مشکوک قرار پائے۔ اپنے قریبی فلسطینی دوستوں کا اعتماد بھی حاصل نہ کرسکے۔ اب ان کے بارے میں بھی صہیونی اخبارات لکھنا شروع ہوگئے ہیں کہ ’’محمود عباس کا اکلوتا ہدف خود کو یاسر عرفات کے انجام سے بچانا رہ گیا ہے‘‘۔
ایک جانب یہ کھلی دھوکے بازی اور فریب ہے، اور دوسری جانب آج بھی کئی مسلم حکمران اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لالچ میں اسی فریب کے جال میں گرفتار ہونے پر مصر ہیں۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ کا لفظ سب سے پہلے مصر کے خونی ڈکٹیٹر جنرل سیسی کی زبان سے سننے کو ملا تھا۔ اس نے ٹرمپ سے ملاقات کے دوران میں اس منصوبے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ٹرمپ، نتن یاہو کے اعلان کردہ منصوبے پر سامنے آنے والے ردعمل (بالخصوص فلسطینی عوام کی طرف سے) کی وجہ سے سیسی سمیت کوئی بھی عرب اور مسلمان حکمران اس کی حمایت کی جرأت نہ کرسکا۔ عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں بھی اسے اتفاق راے سے مسترد کرنا پڑا۔ اس کے باوجود کئی عرب حکمران اب بھی اسی صہیونی عطار سے دوا لینے پر مصر ہیں۔ سوڈان میں صدر عمر البشیر کا تختہ الٹ کر حکمران بننے والے جنرل عبدالفتاح البرھان نے اسی عرصے میں یوگنڈا کے دار الحکومت میں نتن یاہو سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات اتنی خفیہ رکھی گئی کہ سوڈانی وزیر خارجہ سمیت اکثر وزرا نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ صہیونی حکومت نے اپنی دیرینہ عیاری کا ثبوت دیتے ہوئے اس ملاقات کا بھانڈا خود ہی پھوڑ دیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت وہ کئی عالمی شخصیات کے ساتھ کوئی خفیہ ڈیل کرتے ہیں اور انھیں شیشے میں اتار لینے کے بعد اسے بے نقاب کردیتے ہیں، تاکہ ایک طرف اسے بلیک میل کیا جاتا رہے اور دوسری طرف اس کے دیگر ہم جنس عناصر کو پھانسا جاسکے کہ اس ڈیل میں تم تنہا نہیں ہو۔
سوڈانی صدر کی یہ خفیہ ملاقات خفیہ نہ رہی، تو اس نے تاویل کی کہ سوڈان کو بلیک لسٹ سے نکالنے اور سوڈان پر عائد پابندیاں ختم کروانے کے لیے ملاقات کی ہے۔ اسرائیل ہماری مدد کرے گا۔ حالانکہ سوڈان کو دہشت گردی کے سرپرست ممالک کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ یا امریکی انتظامیہ نہیں، امریکی کانگریس ہی کرسکتی ہے۔ اسی طرح سوڈان پر ۶۰؍ارب ڈالر کے قرض اور اقتصادی پابندیوں کا معاملہ پیرس کلب اور یورپی یونین کے پاس ہے، ٹرمپ یا نتن یاہو کے پاس نہیں۔ ایسے میں اسرائیل کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے کا کوئی ادنیٰ فائدہ بھی سوڈانی عوام کو کیسے حاصل ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ جنرل برہان، نتن یاہو ملاقات کے چند روز بعد ہی اسرائیلی ایئرلائن نے جنوبی امریکا اور افریقا کے کئی ممالک تک پہنچنے کے لیے اپنے جہاز سوڈان کی فضائی حدود سے گزارنا شروع کردیے۔جنوبی امریکا جانے والی ان پروازوں کا سفر اس راستے سے گزرنے کی وجہ سے تقریباً تین گھنٹے کم ہوگیا جو اس کے لیے سیاسی اور نفسیاتی ہی نہیں، ایک بڑی اقتصادی کامیابی ہے۔ نتن یاہو نے اس کامیابی پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا ’’سوڈان اب تک ہمارے لیے ایک سیکورٹی خطرہ تھا، اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے اس خطرے کا سدباب بھی کیا جاسکے گا۔ اب کوئی سوڈانی صحرا سے گزرتے ہوئے غزہ کو اسلحہ سمگل کرنے کی کوشش نہیں کرسکے گا‘‘۔
یہ وہی سوڈان ہے جس کے دارالحکومت خرطوم سے ۱۹۶۷ء میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس نے تین اہم پیغام دیے تھے۔ یہ اعلان ’اللاء اتُ الثَّلاثَۃ‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہا گیا تھا: لا للإعتراف، لا للتفاوض، لا سلام مع اسرائیل ’’اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے، اسرائیل سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور اسرائیل کے ساتھ کبھی امن (معاہدہ) نہیں ہوگا‘‘۔
نتن یاہو کا مزید کہنا تھا: ’’ہم اس وقت عرب اور مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں عروج تک پہنچ چکے ہیں۔ آپ کو اس وقت صرف سطح سمندر پر برفانی تودے کا اُوپری سرا دکھائی دے رہا ہے، سمندر کی تہ تک پہنچنے والے اس تودے میں بہت سی کارروائیاں جاری ہیں جن سے پورے مشرق وسطیٰ کا چہرہ تبدیل ہوجائے گا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل عالمی اور علاقائی سطح پر ایک سپر پاور کی حیثیت سے اُبھرے گا، یہ ہماری کامیاب پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم اسرائیل کو ایک بڑی قوت بنا چکے ہیں اور یہ سارے ممالک اس بڑی قوت کے ساتھ اپنے تعلقات قائم اور معاہدات تحریر کررہے ہیں‘‘۔
اب ایک طرف کئی حکمرانوں کی یہ خیانت اور اقتدار کا لالچ ہے اور دوسری جانب تمام تر مظالم کے باوجود آزادی اقصیٰ کے لیے مسلسل قربانیاں دینے والی فلسطینی قوم۔ اپنے ان اُمتیوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہر صاحب ایمان کے لیے ایک اہم پیغام رکھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تھا: لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی عَلَی الْحَقِ ظَاہِرِیْن، لِعَدُوِّھِمْ قَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ اِلَّا مَا أَصَابَہُمْ مِنْ لَأوَاء حَتّٰی یَأتِیَہُمْ أَمْرُ اللہِ وَ ھُمْ کَذٰلِکَ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللہِ وَ أَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ: بِبَیْتِ الْمَقْدِسِ وَ اَکْنَافِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ’’ میری اُمت کا ایک گروہ ایسا ہوگا جو بہرصورت حق کے ساتھ مضبوطی سے جما رہے گا۔ اپنے دشمنوں کو زیر کرتا رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والے انھیں تکالیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ وہ اسی طرح (ثابت قدم) رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آن پہنچے گا۔ صحابہؓ نے دریافت کیا: یارسولؐ اللہ! یہ لوگ کہا ں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ بیت المقدس اور اس کے گردونواح میں ہوں گے‘‘۔
فلسطین کے ہر بچے کو یہ حدیث اَزبر ہے اور اس کی روح اسی یقین سے سرشار ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی حقانیت اس سے زیادہ کیسے واضح ہوگی کہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا، دنیا کی ساری بڑی قوتیں، تمام خائن حکمران او رسارے صہیونی وسائل سرزمین اقصیٰ کو ہڑپ کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں لگے ہیں، لیکن ان کا یہ خواب نہ پورا ہوسکا اور نہ ان شاء اللہ کبھی پورا ہوسکے گا۔ اہل فلسطین کو یقین ہے کہ فتح مبین اہل ایمان کا مقدر ہوکر رہے گی۔ غلیلوں اور پتھروں سے شروع کیا جانے والا ان کا سفر ،تمام تر صعوبتوں کے باوجود اب جدید ہتھیاروں میں بدل چکا ہے۔ (سینیٹ آف پاکستان کو اعزاز حاصل ہے کہ اس نے نام نہاد مذکورہ بالا امریکی، یہودی منصوبے کو مسترد کیا۔ اس حوالے سے سینیٹ کی منظور شدہ متفقہ قرارداد ، ص۱۰۹ پر ملاحظہ فرمائیں۔ادارہ)
حکومت ِ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ان ہنگاموں اور واقعات کے اسباب معلوم کرنے کے لیے، جو ۶مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مارشل لا لگانے کا باعث بنے تھے، جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی کی سماعتوں کے دوران میں جسٹس محمدمنیر باربار قائداعظمؒ کی اس تقریر سے جو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو انھوں نے مجلس دستور ساز میں کی تھی، یہ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا قائداعظم کے پیش نظر نہ تھا‘‘۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے ۸نومبر۱۹۵۳ء کو جیل ہی سے ایک تفصیلی بیان کمیٹی کے نام بھیجا ، جس کا ایک حصہ یہاں پیش ہے۔ یادرہے کہ منیر انکوائری کمیٹی کی مرتبہ رپورٹ اپریل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے تضادات اور بدنیتی پر مبنی نتائج کا تفصیلی جواب بھی مولانا مودودیؒ نے تحریر فرمایا تھا، جسے پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے انگریزی میں An Analysis of Munir Report کے عنوان سے اور محترم نعیم صدیقی صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ ادارہ
اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے مَیں اس غلط فہمی کو صاف کر دینا چاہتا ہوں جو قائداعظمؒ کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:
♦ اوّل یہ کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر میں ایک ایسی ’پاکستانی قومیت‘ کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا، جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
♦ دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیرمذہبی نوعیت کا، یعنی ’سیکولر‘ ہوگا۔
♦ سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے، یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطورِ نتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیں ہیں اور اپنی اس راے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:
قائداعظمؒ کی اس تقریر کے الفاظ خواہ بظاہر پہلے اور دوسرے مفہوم کے حامل ہوں، مگر ہمارے لیے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ ان کا منشا بھی حقیقت میں وہی تھا، جو ان کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے مرتبے کے انسان سے ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے دس سال تک جن اصولوں کو بنیاد بناکر لڑتے رہے تھے ، ان سے وہ پاکستان قائم ہوتے ہی یک لخت پلٹ گئے ہوں گے، اور انھی اصولوں کے قائل ہوگئے ہوں گے، جن کے خلاف انھوں نے اپنی ساری قوم کو ساتھ لے کر جنگ کی تھی۔ نیز ہم یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ قیامِ پاکستان کے پہلے ہی دن یکایک اپنے ان تمام وعدوں سے پھر گئے ہوں گے، جو انھوں نے بارہا، صاف اور صریح الفاظ میں اپنی قوم سے کیے تھے، اور جن کے اعتماد ہی پر قوم ان کو اپنا لیڈر مان کر اپنی جان و مال ان کے اشاروں پر قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔
پھر ہمارے لیے یہ ماننا بھی ممکن نہیں ہے کہ قائداعظمؒ ایسی متضاد باتیں کرسکتے تھے کہ ۱۱؍اگست کو ایک اعلان کریں اور پھر اس کے بعد بار بار اس کے بالکل خلاف باتوں کا مسلمان پبلک کو یقین دلاتے رہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان کی مذکورہ بالا تقریر کو ان کے اگلے اور پچھلے ارشادات کی روشنی میں سمجھنا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ ہم اس کا کوئی ایسا مفہوم لیں، جو ان کی تمام باتوں کے خلاف پڑتا ہے، جو انھوں نے اس سے پہلے فرمائیں اور اس کے بعد بھی فرماتے رہے۔
سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم کی [انڈین نیشنل]کانگریس سے لڑائی تھی ہی دو قومی نظریے کی بنیاد پر۔ ۱۰؍اگست ۱۹۴۷ء تک ان کا مستقل نظریہ یہ تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ غیرمسلموں کےساتھ مل کر ایک متحدہ وطنی قومیت نہیں بناسکتے۔ اس کے متعلق ان کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں سے صرف ایک تحریر کا اقتباس مَیں یہاں نقل کروں گا، جو ۱۵ستمبر۱۹۴۴ء کو گاندھی جی کے ساتھ اپنی خط کتابت کے سلسلے میں لکھی تھی: [قائداعظمؒ اور خان لیاقت علی خانؒ کی تحریروں اور تقریروں سے اقتباسات عدالت میں پیش کردہ بیان میں انگریزی میں تھے۔ یہاں اشاعت کی سہولت کے لیے ان کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔]
ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں، جو ’قوم‘ کی ہرتعریف اور معیار پر پورا اُترتی ہیں۔ ہم ۱۰کروڑ کی ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں، جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور فن تعمیر ، احساس اقدار و تناسب، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج وتقویم (کیلنڈر)، تاریخ اور روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویۂ نگاہ ہے، اور بین الاقوامی قانون کی ہردفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(مسٹرجناح کی تقریریں اور تحریریں (بزبانِ انگریزی)، مرتبہ: جمیل الدین احمد، ص ۱۸۱)
اب کیا ہم یہ باور کرلیں کہ ۱۱؍اگست [۱۹۴۷ء] کو یک لخت وہ تمام خصوصیتیں مٹ گئیں، جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے جداکرکے ایک الگ قوم بناتی تھیں اور یکایک ایک ایسی نئی قومیت کے اسباب فراہم ہوگئے، جس میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کا جذب ہونا ممکن ہوگیا؟ اگر ہم اس بات کو مان لیں تو قائداعظمؒ کو اس الزام سے نہیں بچایا جاسکتا کہ وہ ایک بااصول آدمی نہ تھے، بلکہ محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر اصول بناتے اور بدلتے تھے۔ مرحوم کی وفات کے پانچ سال بعد ان کی روح کو ایسے الزامات کا تحفہ پیش کرنے کے لیے مَیں توکسی طرح تیار نہیں ہوسکتا۔
بے شمار شہادتیں اس امر کی موجود ہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی قائداعظمؒ مسلمانوں سے ایک اسلامی ریاست کا وعدہ کرتےرہے تھے اور اس کے بعد بھی وہ اس وعدے کو دُہراتے رہے۔ پہلے کے وعدوں میں سے صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ ۲۱نومبر ۱۹۴۵ء کو فرنٹیرمسلم لیگ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
مسلمان، پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں (حوالہ مذکور، ص۴۳۷)۔
پھر اسی کانفرنس میں انھوں نے ۲۴نومبر کو تقریر کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار فرمایا:
ہمارا دین، ہماری تہذیب ، ہمارے اسلامی تصورات ہی وہ اصل طاقت ہیں، جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں(حوالہ مذکور،ص ۴۲۲)۔
پھر اسی زمانے میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
لیگ، ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کےقیام کی علَم بردار ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، تاکہ وہ وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں (حوالہ مذکور، ص ۴۴۶)۔
پھر ۱۱؍اگست والی تقریر سے صرف ایک مہینہ ۱۲دن پہلے ۲۹ جون ۱۹۴۷ء کو قائداعظمؒ ایک بیان میں [انڈین نیشنل کانگریس کے اتحادیوں] خان عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ: ’’پاکستان کی دستورساز اسمبلی، شریعت کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردے گی ‘‘ اور بیان دیتے ہیں:
مگر خان برادران نے اپنے بیانات میں اور اخباری ملاقاتوں میں ایک اور زہرآلود شور برپا کیا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔ یہ بات بھی قطعی طور پر غلط ہے (ڈان، دہلی،۳۰جون ۱۹۴۷ء)۔
دوسری طرف ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے بعد جو ارشادات قائداعظمؒ کی زبان سے سنے گئے، اور ان کے معتمد ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی باربار خود ان کی زندگی میں کی ،اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی، ان کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
پشاور، ۱۴جنوری : پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خانؒ نے اتحاد و یک جہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظمؒ کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا.... انھوں نے فرمایا کہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ۱۳سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں(روزنامہ پاکستان ٹائمز، لاہور،۱۵جنوری ۱۹۴۸ء)۔
اور پھر ۱۱؍اگست والی تقریر کے ساڑھے چار مہینے بعد قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں، جو انھیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دی گئی، تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابلِ فہم ہے جو خواہ مخواہ شرارت برپا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرر ہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنے گا (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)۔
راولپنڈی، ۵؍اپریل: مسٹر لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میں اعلان کیا کہ ’’پاکستان کا آیندہ دستور قرآنِ مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو، جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے‘‘ (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۷؍اپریل ۱۹۴۸ء)۔
ان صاف اور صریح بیانات کی موجودگی میں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قائداعظمؒ کی ۱۱؍اگست والی تقریر کا ایک ایسا مفہوم نکالنا، جو ان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو، مرحوم کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔
علاوہ بریں، اگر قائداعظمؒ کی اس تقریر کو اس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میں بھی لے لیا جائے، تو ہمیں جذبات سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ غور کرنا چاہیے کہ ان کے ان ملفوظات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ انھوں نے یہ تقریر خواہ صدرِ مجلس دستورساز کی حیثیت سے کی ہو یا گورنر جنرل کی حیثیت سے، بہرحال کسی حیثیت میں بھی وہ مجلس دستور ساز، ایک شاہانہ اختیارات رکھنے والے ادارے (Sovereign Body ) کو اس امر کا پابند نہیں کرسکتے تھے کہ وہ دستور انھی خطوط پر بنائے، جو وہ کھینچ دیں۔ رہی قوم، تو اس نے مرحوم کو اس لیے اپنا لیڈر مانا تھا کہ وہ اس کے قومی عزائم اور مقاصد پورے کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔
تُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ ___! یہ قرآنِ مجید کی بڑی جامع پکار اور بار بار متوجہ کرنے والی یاددہانی ہے، جس پر اہلِ ایمان کو زندگی کے تمام معمولات سرانجام دیتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ اپنی توجہ دینی اور مہلت ِ عمل ختم ہونے، یعنی موت آنے سے پہلے پہلے اپنی خطاؤں، قصوروں اور غلطیوں کی معافی طلب کرنی چاہیے ، اور یہ عمل باربار دُہرانا چاہیے۔ اپنے خالق و مالک اور معبودِ حقیقی کے حضور استغفار کرنا نہ تو شرم کا باعث ہے، نہ عار کی بات۔ یہ تو بندگی کی شان اور اُس کے اور ربّ کے درمیان معاملہ ہے۔ مگر ہے بہت اہم اور انسان کے دائمی مستقبل، یعنی آخرت کے لیے انتہائی فیصلہ کن۔
اِس بات کا قوی امکان ہے کہ بشری تقاضوں اور انسانی فطرت کے زیراثر انسان سے خطائیں سرزد ہوں، قصور اور کوتاہیاں ظاہر ہوں، اپنے ربّ کے حق میں بھی اور اُس کے بندوں، مخلوق کے حق میں بھی۔ مگر اللہ ہمارا خالق و مالک، آقا و مولا جو بہت رحمٰن و رحیم ہے، نے اپنے بندوں کو بھی نہ تو گناہوں، خطاؤں کی ظلمتوں میں بھٹکتا چھوڑ ا ہے، نہ کسی بندگلی میں دھکیلا ہے، جہاں تلافیِ مافات کی کوئی صورت نہ ہو اور نہ کوئی واپسی ہی کا راستہ میسر ہو۔ توبہ ایسا ہی ایک اللہ کو بے حد پسندیدہ عمل ہے جو انسان کو ضمیر کا بوجھ اور قصورو خطا کی دلدل سے نجات عطا کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ اور اُس کے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ ایمان ہی نہیں، کائنات کے تمام انسانوں کو توبہ و استغفار کی بار بار دعوت دی اور تلقین کی ہے۔
توبہ کا مفہوم: توبہ کا لفظی معنٰی پلٹنا، واپس آنا ، رجوع کرنا ہے۔ انسان سے اگر کوئی ایسی خطا اور قصور سرزد ہوجائے، جو شرعی طور پر بھی ممنوع ہو اور اخلاقی طور پر بھی۔ جب بھی اُسے اپنی غلطی اور کوتاہی کا احساس ہو، وہ اپنے اُس رویے سے رجوع کرے، غلطی کی اصلاح اور تلافی کرنے کا فیصلہ کرے، غلط راستے کو فوری طور پر ترک کرکے درست رویہ اور سمت اختیار کرلے ، تو تائب کہلائے گا اور اُس کا یہ رویہ توبہ کے مترادف ہوگا۔ یہ کس قدر جہالت اور حماقت ہوگی کہ ایک انسان کو اُس کے راستے، رویّے، عمل یا عقیدے کی غلطی کا علم بھی ہوجائے اور وہ اُس کی خرابیوں، خامیوں ، ہلاکتوں اور نقصانات و بُرے نتائج سے آگاہ ہونے کے باوجود اُسی راستے پر چلتا رہے۔ کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے ایسا ممکن ہے، نہ مناسب۔ یقینا وہ درست راستے کی طرف پلٹ کر جانب ِ منزل روانہ ہوگا۔
اسلامی تعلیمات میں توبہ کا تعلق انسان کے عقائد و اعمال سے ہے۔ اِن سب کی تفصیل اور درست راستوں کی وضاحت اور مطلوب اعمال و عقائد کی نشان دہی، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی تعلیمات ، احکامات، یعنی قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ اہلِ ایمان کے لیے تو ہرگز جائز ہے نہ ممکن کہ وہ اِن بتائے گئے راستوں، اُصولوں اور عقائد و اعمال سے مختلف رویوں کا انتخاب کریں۔ اس حوالے سے اُن پر لازم ہے کہ وہ حددرجہ محتاط رہیں۔ قرآن و حدیث، سنت ِ طیبہ اور سیرتِ طیبہ کے ساتھ علماو صلحا و اتقیاے اُمت کے ساتھ فکری و عملی طور پر وابستہ رہیں۔ یقینا گمراہی کے امکانات کم ہوجائیں گے۔ اور اگر شیطان کے بہکاوے، بشری کمزوریوں یا کسی دوسری وجہ سے اُن سے قصور، خطا، اور غلطی سرزد ہوجائے تو اُن پر لازم ہے کہ فوراً تَـابَ وَاَصْلَحَ ،درست راستے کی طرف پلٹ کر، اپنی غلطی کی اصلاح اور تلافی کرکے رب، رحمٰن و رحیم کی بارگاہ میں مغفرت طلبی کے لیے رجوع کریں۔ اسی عمل کو توبہ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ گناہ کرنے سے انسان کے دل پر سیاہ نقطے پڑ جاتے ہیں اور اگر وہ انسان توبہ کرلے تو یہ سیاہی دُور ہوجاتی ہے، بصورتِ دیگر یہ سیاہی سارے دل پر پھیل کر انسان کو توبہ و استغفار اور غلطی کے احساس و شعور سے محروم کر دیتی ہے۔
خطاکار بندے اور اللہ کا تعلق : قرآنِ عظیم میں گناہ سرزد ہوجانے کو دل پر مَیل چڑھ جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ (المطففین ۸۳:۱۴) ’’خبردار! لوگوں کے دلوں پر میل کچیل کی تہیں چڑھی ہوتی ہیں‘‘۔ انسان طبعاً گندگی کو ناپسند کرتا اور کراہت محسوس کرتا ہے۔ مگر جب میل کچیل کی تہیں بڑھ جائیں، تو اُس کی ناگواری کی حِس دَم توڑ دیتی اور اُس سیاہی، گندگی اور اُس کی بُو کو قبول کرلیتی ہے۔ پھر وہ شخص اِس کے وجود اور شعور سے عاری ہوجاتا ہے اور اُسے دُور کرنے کی فکر سے بے نیاز۔ اسلام نے تو معمولی سے معمولی گندگی اور کراہت کی ہرچیز خواہ وہ منہ کی بدبو ہو ، بالوں، ناخنوں میں بے ہنگم اضافہ، یا جسم سے خارج ہونے والی ریح، خون، پیپ یا کوئی اور صورت کو ناپسند کیا ہے۔ غسل، وضو، صفائی کا حکم اس طرح دیا کہ اُسے نصف ایمان گردانا گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ طہارت و پاکیزگی کا علَم بردار دین دل کے زنگ، آلودگی، میل اور سیاہی کو پنپنے دے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک معروف حدیث کے مطابق دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیساکہ لوہا اگر وہ کھلی فضا میں پڑا رہے تو نمی سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ دل گناہوں سے زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔اس زنگ کو دُور کرنے اور دل کو مجلّٰی و مصفّٰی بنانے کا طریقہ تلاوتِ قرآن اور موت کے ذکر کی کثرت کو بتایا گیا۔ بالکل اسی طرح دل کے میل، گندگی اور آلایشوں سے نجات و خلاصی کا دوسرا اور بنیادی طریقہ اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں توبہ و استغفار ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت کردہ ایک حدیث کے مطابق اللہ اپنے اُس خطاکار بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو اپنےقصور و خطا کی معافی طلب کرنے کے لیے اُس کی بارگاہ میں سرجھکائے، ہاتھ اُٹھائے اور توبہ کرے۔اُس شخص کی خوشی سے بھی زیادہ، جو لق ودق صحرا میں سفر کرتے ہوئے اپنے سامانِ زیست سے لَدی ہوئی اُونٹنی سے محروم ہوجائے، اُسے اپنی موت سامنے نظر آرہی ہو، پھر اچانک وہ اُونٹنی اُسے مل جائے۔ نااُمیدی، مایوسی اور ہلاکت کے اندیشوں سے نجات کے عالم میں اُس کی ناقابلِ بیان خوشی کا جو انداز اور اظہار کا جو بے ساختہ پن ہوگا اور خوشی و بے خودی کے عالم میں وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُسے اپنا بندہ اور خود کو اُس کا ربّ کہہ گزرے، تو اللہ ربّ العالمین اُس پر غصہ کرنے کے بجاے مسکرا دیتے ہیں۔ اللہ کی یہ خوشی توبہ کرنے والے بندے کے لیے اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اللہ یقینا يَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ ’’اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتے ہیں‘‘ مگر اس کے لیے ایک مہلت طویل بھی ہے اور محدود بھی۔ انسان سے ساری زندگی میں بلااِرادہ بے شمار قصور سرزد ہوں، لیکن اگر موت سے پہلے اور زندگی کی آخری ہچکی سے قبل توبہ کرلے، تو اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے___ تَوَّابٌ رَحِیْمٌ۔ مگر یہ مہلت اس طرح محدود ہے کہ کسی کو کیا خبر کہ اُس کی موت کب آئے گی، وہ کتنا اور جیئے گا اور کب اُس کی آخری ہچکی ظہورپذیر ہوگی؟ اِس اعتبار سے توبہ کی مہلت بہت قلیل ہے۔ بندے کو غلطی کا احساس ہونے کے بعد توبہ میں ہرگز تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اور فوراً ربّ، رحمٰن اور رحیم کی بارگاہ میں سر جھکا دینا اور ہاتھ اُٹھا دینے چاہییں۔
اگر انسان جان بوجھ کر گناہ، قصور اور خطا نہ کرے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق جسے امام مسلمؒ نے اپنے مجموعۂ احادیث میں شامل کیا کہ ایک دن میں بندئہ خدا ایک سو بار بھی خطا کرے اور اللہ کے حضور معافی طلب کرے تو اُس کی توبہ قبول کی جاتی ہے۔ تُوْبُوْا اِلَی اللہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ ’’اللہ سے توبہ اور استغفار کرتے رہا کرو‘‘۔ فَاِنِّیْ اَتُوْبُ فِیْ الْیَوْمِ مِأَۃَ مَرَّۃٍ ۔ اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دن میں سو بار خطائیں اور قصور سرزد ہوتے تھے۔ یقینا وہ تو معصوم عن الخطا تھے۔ یہ تو اُمت کے لیے تعلیم ہے کہ خواہ خطائیں ہوں یا نہ ہوں، وہ بار بار بارگاہِ الٰہی میں توبہ اور مغفرت طلب کرتے رہیں۔ ممکن ہے اُن سے اَنجانے میں کچھ ایسے قصور سرزد ہوگئے ہوں، بڑے یا چھوٹے، جن کا اُنھیںشعورو اِدراک نہ ہوسکا ہو۔ یوں وہ بھی معاف ہوجائیں گے۔ اور اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی اللہ کو اپنے بندوں کا اپنی بارگاہ میں بار بار پلٹنا، رجوع کرنا اور توبہ کرنا ، استغفار کرنا یقینا بہت محبوب ہے۔اور یہ استغفار بندوں کے لیے دیگر بے شمار انعاماتِ الٰہی کا موجب بن جاتا ہے۔
توبہ کے حوالے سے قرآنِ عظیم نے دو مختلف رویوں کی نشان دہی کی۔ ایک حضرت آدم و حوا علیہما السلام کا رویہ اور دوسرا شیطانِ مردود کا طرزِعمل۔ اللہ ربّ العزت نے حضرت آدم ؑ و حواؑ کو جنّت میں ایک مخصوص درخت کے پاس جانے اور اُس کا پھل کھانے سے منع کیا۔ جب اُن سے غلطی سرزد ہوگئی، تو فوراً اُس کا احساس و ادراک ہوجانے کے بعد ربّ العزت کی بارگاہ میں پلٹے، اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور مغفرت کے خواستگار ہوئے: رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ’’اے ہمارے پروردگار ہم سے بھول ہوگئی اور ہم نے خود اپنے ہاتھوں خود پرظلم ڈھا لیا‘‘۔ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنِ ۲۳ (الاعراف ۷:۲۳)’’اے مالک! اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو یقینا ہم بڑے خسارے سے دوچار ہوجائیں گے‘‘۔
دوسری طرف جب شیطان مردود نے اللہ کے بے شمار انعامات، احسانات، تقرب و فضیلت عطا کیے جانے کے باوجود اللہ کے حکم کی مخالفت کی، بجاے اپنی غلطی تسلیم کرنے اور طالب ِ مغفرت ہونے کے سرکشی، بغاوت اور طغیانی کا راستہ اپنایا۔ اپنی اصلاح اور توبہ کے بجاے اپنی غلطی کا الزام بھی اللہ پر لگا دیا۔ لہٰذا، اللہ نے اُس پر ہمیشہ کے لیے توبہ کے دروازے بند کردیے اور اُسے اپنی بارگاہ سے مستقلاً خارج کر دیا۔
قبولیتِ توبہ کی شرائط: قبولیت ِ توبہ کے لیے قرآن میں چند شرائط کا ذکر ہے۔ پہلی یہ کہ انسان اپنی غلطی کا احساس ہوجانے پر حضرت آدم ؑ و حواؑ کی طرح اعترافِ خطا کرے۔ خودکو کسی فریب کا شکار ہونے دے نہ کسی بے بنیاد اور بے حیثیت سہارے کے آسرے پر رہے۔ اللہ کے سوا معاف کرنے اور سزا سے بچانے پر کوئی ذرّہ برابر بھی قادر نہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ معافی کے لیے انسان اللہ کی طرف رجوع کرے۔ کسی قسم کی فکری و عملی بغاوت، سرکشی اور بے نیازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ انسان کودنیا بھر میں کہیں امان مل سکتی ہے نہ سکون، سواے رب العالمین، پروردگار و مالک، رحیم و کریم خداے برحق کے دامنِ عفو وکرم اور سائبانِ رحمت کے۔تیسری شرط یہ ہے کہ وَاَصْلَحَ ، انسان فی الفور اپنی غلطی کی اصلاح، کوتاہی کی تلافی کرے، بگڑی ہوئی بات کو درست کرلے۔ یہ گناہ، خطا اور کوتاہی برقرار رہے،توبہ کی قبولیت اور مغفرت کی اُمید کی جائے، ناممکن ہے کہ بارآور ہو، توبہ قبول اور معافی مل سکے۔ قرآن میں یہ دونوں شرائط بار بار دُہرائی گئیں: تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا ، اس کے ساتھ ایک اور شرط لگائی گئی: وَبَیَّنُوْا ، اپنی غلطی کو اچھی طرح جان کر اس عزم و ارادے اور اعلان کو واضح کیا جائے کہ وہ دوبارہ اس بُرے کام اور غلطی سے شعوری طور پر خود کو دُور اور باز رکھے گا۔ اس عزم و اعلان کے بغیر بھی توبہ کی قبولیت ممکن نہیں۔
توبہ کی قبولیت کی ایک اہم شرط ندامت اور اللہ کے حضور آنسو بہاکر، گڑگڑاکر توبہ کرنا ہے۔ جو شخص توبہ کی فوری قبولیت کا خواہش مند ہو، اُس پر لازم ہے کہ دل میں اپنے گناہ اور خطا پر شرمندگی محسوس کرے اور حتی الوسع تلافی کے بعد اللہ کے حضور پیش ہو۔ گناہ اور خطا پر بغاوت، سرکشی، اطمینان کا احساس اور پشیمانی کے جذبے سے عاری توبہ شاید زبان سے بھی اچھی طرح ادا نہ ہوسکے اور توبہ توبہ کے لفظ ادا ہو بھی جائیں تو دل کا حال تو اللہ خوب جانتا ہے۔ توبہ لوگوں کو دکھانے، جتانے کے لیے نہ کی جائے۔دل کے خالص جذبے، شرمندگی کے قوی احساس، غلطی کے واضح شعور، تلافی اور عاجزی کے ساتھ ربّ، رحمٰن و رحیم کی بارگاہ میں چھپ چھپا کر، لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر، سجدے میں گرکر، آہ و زاری کے ساتھ پیش کی جائے، تو توبہ کہلائے گی۔
توبہ کرنے والے پرلازم ہے کہ حُسنِ عمل کے ذریعے اپنے ربّ کو اپنی سچائی اور خلوصِ نیت کا یقین دلائے ۔اگرچہ اللہ کو سب کچھ خبرہے۔ نیتیں، ارادے، عزائم، سینے کے راز، سب کچھ۔ تاہم، عملِ صالح بھی مطلوب ہے، جو اس توبہ کو مزید مؤثر و کارگر بنا دے گا۔ سورئہ مریم میں ارشاد الٰہی ہے: مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا(مریم ۱۹:۶۰) ’’جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عمل اختیار کرلیں‘‘۔
توبہ کے ساتھ تلافیِ مافات اس لیے ضروری قرار دی گئی کہ مہلت ِ عمل اور زندگی محدود ہونے کے باعث ممکن ہے کہ گناہ وخطا کی تلافی یا حُسنِ عمل کا موقع میسر نہ آئے، اگر تاخیر کی جائے۔ بالکل اُسی طرح جیسے فرعون نے مرتے وقت ایمان لانے اور توبہ کرنے کا اعلان کیا، مگر اُس کے پاس مہلت ِ عمل ختم اور موت کا لمحہ حتمی طور پر قریب آچکا تھا۔ لہٰذا یہ بھی توبہ کی شرائط میں سے ہے کہ گناہ کے فوراً بعدتوبہ کی جائے، اس کو نہ تو مؤخر کیا جائے، نہ ٹالا جائے۔ قرآن نے رہنمائی عطا کی: اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَي اللہِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ(النساء۴:۱۷)۔ اس آیت میں ایک اور پہلو سے رہنمائی کی گئی۔ اللہ پر توبہ کی قبولیت واجب ہے، مگر اُن لوگوں کے لیے جو محض نادانی میں گناہ و خطا کربیٹھیں اور پھر فوراً توبہ کرلیں۔ جان بوجھ کر اور مسلسل اور عرصۂ دراز تک گناہ کیے چلے جانا اور وقت ِ آخر توبہ کی رسمی کارروائی توبہ کے دروازے بند کرنے کا موجب ہوسکتی ہے۔ سورۃ النساء میں ارشادِ الٰہی ہے: وَلَيْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ (النساء۴:۱۸) ’’مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بُرے کام کیے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے، اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی‘‘۔
ساری زندگی خوب جی بھر کر گناہ کیے اور خطائیں کیں اور موت آنے پر توبہ کرنا چاہی، ایسے لوگوں کے لیے توبہ کا دروازہ بندہے۔ البتہ وقت ِ آخر کوئی گناہ ہوگیا، ندامت کے احساس، تلافی کے جذبے اورسچے عزم کے ساتھ توبہ کی جائے، تو موت کی آخری ہچکی سے پہلے توبہ کادروازہ کھلا رہتا ہے، مگر عادی مجرم اور سرکش و باغی انسان کے لیے نہیں۔
سورۃ النساء ہی میں قبولیت ِ توبہ کے کچھ اور پہلو بتائے اور دُہرائے گئے:تَـابُوْا، لوگ توبہ کریں، وَاَصْلَحُوْا، کیے گئے گناہ یا خطا کی تلافی اور اصلاح احوال کرلیں۔ وَاَعْتَلَمُوْا بِاللہِ ، اللہ کی تعلیمات، احکامات ، ہدایات، اللہ کی ذات سے جڑ جائیں،یعنی شیطان اور بُرائی کے راستوں سے یکسر خود کو علیحدہ کرکے اللہ کے راستے پر چلنے لگیں۔ وَاَخْلَفُوْا دِیْنَھُمْ لِلٰہِ ، اپنے دین، یعنی نظام و معاملات و معمولاتِ حیات کواللہ کے لیے خالص، اُس کے اور رسولؐ کے احکامات و قوانین اور فرامین کے تابع کرلیں، تو اُن کی توبہ قبول ہوگی، اور فَأُوْلٰئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، ایسے لوگوں کا شمار اور معاملہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہوگا۔
ایسے لوگ جو اِن شرائط کو پورا اور ہدایات کو اختیار کرتے ہوئے بارگاہِ ربّ العالمین میں توبہ کے لیے دست ِ دُعا اُٹھائیں گے، آنسو بہائیں اورگڑگڑائیں گے تو اللہ فرماتے ہیں: اَنَا التَّوَابُ الرَّحِیْمِ ، میں بہت بہت توبہ قبول کرنے والا اور اپنے بندوں پر اُن کی توقعات سے بڑھ کر رحم و کرم کا معاملہ کرنے والا ہوں۔ اللہ ایسی سچّی اور مخلصانہ توبہ کرنے والوں کو بہت محبوب رکھتا ہے، اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَوَّابِیْنَ ۔اللہ جس سے محبت کرے، اُس کی نیک بختی، خوش نصیبی اور سعادت کا کیا ٹھکانہ ہوگا، اور کون بندہ ایساہوگا جو گناہ و خطا بھی کرے اور اللہ کی محبت اور رحم و کرم کا متمنی نہ ہو اور بے نیازی کا رویہ اختیار کرے۔
توبہ کرنے والوں کے لیے انعامات: قرآن بتاتا ہے کہ اللہ توبہ کرنے والوں کو متعدد انعامات سے نوازتا ہے۔ حضرت آدم ؑ نے جب جنّت میں اپنے قصور پر معافی مانگی، تو اللہ ربّ العالمین نے اُنھیں نبوت عطا کرکے انسانیت کی رُشد و ہدایت کے منصب پر فائز کردیا اور انسانوں کا باپ، جدالاجداد بنا دیا اور قیامت تک اُن کی نسل کو تکریمِ آدمیت اور شرفِ انسانیت سے بہرہ وَر کرکے اشرف المخلوقات بنا دیا۔
ظلم، زیادتی اور گناہ و خطا کے بعد توبہ اور اصلاحی اعمال کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اللہ بھی بندے کی طرف متوجہ ہوتا اور اُسے اپنی رحمتوں اور مغفرتوں کے حصار میں لے لیتا ہے۔ سورۃ المائدہ میں ارشاد الٰہی ہے: فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ يَتُوْبُ عَلَيْہِ۰ۭ(المائدہ ۵:۳۹)۔ گویا اللہ بھی اُس کی طرف توجہ فرمائے گا۔ ایک دوسری جگہ سورۃ الانعام میں ارشاد فرمایا: مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢ ا بِجَــہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ۰ۙ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۵۴ (الانعام ۶:۵۴)۔ جو شخص نادانی سے کوئی خطا کربیٹھے، پھر اُس کے فوراً بعد اللہ کی طرف پلٹ آئے، توبہ واستغفار کرے اور غلطی کو درست کرلے، تو اللہ بہت معاف اور رحم کرنے والا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ اپنے بندے کی طرف رُخ نہ کرے، توجہ نہ کرے، اُس کی توبہ قبول نہ کرے ، اُسے معاف نہ کرے، اُس پر اپنے رحم و کرم کا سایہ نہ کرے۔ اللہ کا بندے کی طرف پلٹنا یہی ہے کہ وہ اُسے معاف کردے، اُس کے دامن سے اُس قصور کو دھو ڈالے ، اور اُس پر اپنے انعامات کی بارش برسا دے اور اُس کو اہلِ ایمان میں شمار کرتے ہوئے اپنی محبت سے نوازے۔
اللہ توبہ کرنے والے بندوں پر ایک اور بڑاا نعام یہ کرتا ہے کہ اُن کی خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے ۔ سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوا: اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ (۲۵:۷۰)، توبہ، ایمان اور عملِ صالح اُس بندے کو اس انعام کے اہل بنادیتے ہیں کہ ربِّ کریم اپنی خاص رحمت سے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کا انوکھا انعام کرتا ہے، جو اُس کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ اس قدر لطف و کرم، بخشش و عطا صرف اُسی کا کام ہے۔
توبۃ النصوح: اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار اہلِ ایمان کو متوجہ کرکے توبہ کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلانا اپنے بندوں پر رحم و کرم کے سوا کسی اور چیز کا ثبوت نہیں۔ بس یہ کہ اُس کے بندے اُس کی طرف پلٹ آئیں، اُس کی بارگاہ میں عاجزی، اِلحاح و زاری اور مغفرت طلبی کا رویہ اپنائیں۔ زبان سے توبہ توبہ کرنے کے بجاے عملی طور پر توبہ کے سچے اور حقیقی راستے کا انتخاب کریں اور مثبت رویہ اپنائیں۔ قصور و خطا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اس سے خبردار اور محتاط رہنا لازم ہے، مگر گناہ سرزد ہونے کی صورت میں، جو ناممکن نہیں___ اللہ کی بارگاہ میں پلٹنا، توبہ کرنا، قصور کا اعتراف کرکے معافی مانگنا ،اُس کی تلافی ، اصلاح کرنا ہی بچاؤ اور دین و دنیا کی سلامتی کا واحد ذریعہ اور راستہ ہے۔ بندگانِ خدا سے مطلوب ’توبۃ النصوح‘ ہے۔ ایک سچی، کھری، پُرعزم اور آیندہ نہ کرنے کے پختہ ارادے کی توبہ۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ توبہ کے بے شمار کھلے دروازوں اور مواقع کے باوجود توبہ کیوں نہیں کرتے؟ اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللہِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَہُ ط (المائدہ ۵:۷۴)۔کیوں اُس سے مغفرت نہیں مانگتے حالانکہ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ ، اللہ بہت معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔توبہ نہ کرنا اور اس آس و اُمید پر بیٹھے رہنا کہ اللہ معاف کر ہی دے گا، درست رویہ نہیں۔ یہ خام خیالی اور حددرجہ جہالت و حماقت ہے کہ انسان گناہ پر گناہ کرتاچلا جائے۔ توبہ و استغفار سے منہ موڑے رکھے اور اللہ پر توقع اور اُمید باندھے کہ وہ توبہ و مغفرت طلبی کے بغیر ہی اس کے گناہ دھو ڈالے گا۔
اہلِ کفر بھی اگر اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں، اللہ و رسولؐ پر ایمان لاکر، حلقہ بگوشِ اسلام ہوجائیں،اپنے ماضی کو بھلا کر گناہوں کی سچے دل کے ساتھ معافی طلب کریں، تو لازماً بخشے جائیں گے، مگر اُن پر لازم ہوگا کہ بقیہ زندگی کو اللہ کے احکام اور شریعت کے قوانین کے مطابق بسر کریں اور سابقہ گناہوں سے محتاط رہیں۔
اہلِ ایمان کو توبہ و مغفرت طلبی کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں یہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا ، اے ہمارے ربّ، ہدایت و راستی عطا کرنے کے بعد، دلوں کو ہرقسم کی فکری و عملی کجی، خرابی، ٹیڑھ اور گندگی و آلودگی سے بچاتے رہنا۔ وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ج ، اور اپنی جناب سے ہمیں رحمت سے نوازتے رہنا۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ (اٰلِ عمرٰن ۳:۸)، اے پروردگار! آپ بہت عطا کرنے والے ہیں۔ مغفرت، رحم، کرم، انعام، ہدایت و راستی، سلامتیِ فکروعمل، ایمان پر استقامت و استقلال اور استحکام، سب عطا فرما۔ آمین!
(۷دسمبر۱۹۷۰ء کو پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں مایوس کن نتائج سامنے آئے تو چند روز بعد سیّدمنورحسن صاحب (کراچی) کو برطانیہ سے ایک طویل خط لکھا، جس کا ایک حصہ پیش ہے۔ ادارہ)
کئی دن سے آپ کو خط لکھنے کے لیے بے چین تھا، مگر وقت نہیں مل رہا تھا، نہ طبیعت پر اتنا قابو تھا کہ دل جمعی کے ساتھ کچھ باتیں کروں۔ رمضان المبارک کے آخری ایام خاصی پریشانی سے گزرے۔ سرکا درد اور تکلیف ۱۰؍۱۲دسمبر تک جاری رہی۔ اسی دوران انتخابی نتائج بھی سامنے آئے۔ دل چاہتا تھا کہ فوراً ہی خط لکھوں، لیکن طبیعت پر کچھ ایسا اثر تھا کہ خیالات کو مجتمع کرنا محال ہوگیا۔ میدانِ جنگ سے دُور بیٹھے انسان کا دل کچھ زیادہ ہی بیٹھنے لگتا ہے۔ کش مکش اور جدوجہد جہاں دل و دماغ کی قوتوں کے سامنے ہرلحظہ نئے مطالبات پیش کرتی ہے ، وہاں ان کو تازہ دم کرنے کے لیے نئے نئے چشموں سے سیراب بھی کرتی ہے۔ کار کی بیٹری کی سی کیفیت ہوتی ہے کہ جہاں گاڑی کے چلنے سے ایک جانب بیٹری صرف ہوتی ہے، وہیں اسی عمل سے چارج بھی ہوتی ہے۔ آدمی جب دُور ہو تو ان دونوں نعمتوں سے محروم ہوتا ہے، لیکن افکار و حوادث کا بوجھ دل و دماغ پر برابر پڑتا ہے اور یہ آزمایش زیادہ جاں گسل معلوم ہوتی ہے۔
شب و روز کی جدوجہد کے نتائج بظاہر پریشان کُن اور افسوس ناک ہیں (واضح رہے کہ یہ نتائج صرف ایک بہت ہی محدود دائرے کے ہیں اور اُخروی نتائج تو بہرحال خیرٌ وابقٰی کے حکم میں آتے ہیں)۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری توقعات ہی کچھ زیادہ ہوں، مگر تمام چیزوں کا الاؤنس دینے کے بعد بھی صورتِ حال تشویش ناک ہے۔
جہاں تک دعوتِ اسلامی کا تعلق ہے، اس کے لیے شکست کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ ہماری دعوت، حق اور سرتاسر حق ہے اور اس کا جھنڈا ان شاء اللہ ہرحال میں بلند رہے گا۔ پریشانی اپنی ذات یا اپنے ساتھیوں کی ذات کے بارے میں نہیں کہ حق سے وابستہ ہوجانے کے بعد پھر بفضلِ الٰہی ناکامی کا کیا سوال؟ ہم نے آزمایش کو کبھی دعوت نہ دی، لیکن راہِ حق میں جو آزمایش اور جو مرحلہ بھی آیا ہے، اس کے بارے میں اپنے ربّ سے صبرواستقامت اور توفیق و استعانت کی دُعا بھی کی ہے اور اُمید بھی رکھی ہے۔ بحمداللہ، اس نے ہرحال میں صرف اپنی مدد سے اپنے کمزور بندوں سے اپنا کام لیا ہے۔
ہاں، پریشانی اگر ہے تو اس قوم کے مستقبل اور ملکِ عزیز کے بارے میں ضرور ہے، جو اللہ سے ایک وعدے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، لیکن آج وہی قوم اپنی نادانی کی وجہ سے اس وعدے سے رُوگردانی کررہی ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر دل اگر ڈرتا ہے تو اس غضب ِ الٰہی سے جو غفلت اور بغاوت کے نتیجے میں حرکت میں آتا ہے، اور اس سے دن رات پناہ مانگنا ہمارا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے ہمارے لیے مہلت کی مدت کو طویل تر کردے اور بالآخر ہمیں ان وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے، جن کا عہد کرنے کی توفیق بھی اسی نے مرحمت فرمائی تھی، آمین!
قوم کے ’انتخاب‘ کی تفصیلات پر غور کرتے ہوئے بلاتمثیل میرا ذہن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف کی اس دُعا کی طرف منتقل ہوگیا، جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ہے:
اللّٰھُمَّ اِلَیْکَ أَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِیْ ، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ ، وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ، اَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ، اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ اِلٰی عَدُوٍّ یَتَجَھَّمُنِیْ ، أَمْ اِلٰی قَرِیْبٍ مَلَّکْتَہ أَمْرِیْ، اِنْ لَمْ تَکُنْ غَضْبَانًا عَلَیَّ ، فَلَا أُبَالِیْ ، اِنَّ عَافِیَتَکَ أَوْسَعُ لِیْ ، أَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ أَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ ، وَصَلُحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ أَنْ تُنْزِلَ بِیْ غضَبَکَ ، أَوْ تُحِلَّ عَلَیَّ سَخَطَکَ ، لَکَ الْعُتْبٰی حَتَّی تَرْضَی ، لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث ۱۳۶۰۹)
اے اللہ! میں اپنی طاقت کی ناتوانی، اپنی بے سروسامانی اور لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے، ایسے دشمن کے حوالے جو ترش روئی سے میرے ساتھ پیش آتا ہے، کیا کسی قریب کو تُو نے میری قسمت کا مالک بنا دیا ہے، اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے ان تکلیفوں کی ذرا پروا نہیں۔ تیری طرف سے عافیت اور سلامتی میرے لیے زیادہ دل کشا ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیرے نُور کے ساتھ جس سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا و آخرت کے کام سنور جاتے ہیں، (اور میں پناہ مانگتا ہوں) کہ تیرا غضب میرے اُوپر نازل ہو یا تیری ناراضی مجھ پر اُترے۔ میں تیری رضا طلب کرتا رہوں گا یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔ تیری ذات کے بغیر نہ میرے پاس نیکی کرنے کی کوئی طاقت ہے، اور نہ بدی سے بچنے کی قوت۔
بلاشبہہ، ہرحال میں ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنے مالک و خالق کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اسی سے خیر اور بلندیِ حق کی دُعا مانگیں۔ہمارا کام قوم سے شکایت کرنا نہیں ہے، اسے سمجھانا ہے بلکہ مسلسل اس کی اصلاح کے لیے جدوجہدکرنا ہے۔ ان شاء اللہ حالات اس طرح تبدیل ہوں گے، جس طرح تار یکی بالآخر چھٹتی ہے اور صبح کی روشنی کے آگے اس کا مقدّر ہے کہ وہ چھٹ جائے۔
اس پوری جدوجہد میں ہماری سرگرمیوں کا ایک نمایاں پہلو اپنے ربّ سے دُعا اور مسلسل دُعا رہا ہے۔ نتائج اوردُعا کے اس تعلق پر جب مَیں غور کرتا ہوں تو دل کو بڑی سکینت حاصل ہوتی ہے۔ امام غزالیؒ نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ’’دُعا کی حیثیت صرف التجا ہی کی نہیں بلکہ ہماری خواہشات اور تمناؤں کے بارے میں ربّ سے مشورے کی بھی ہے‘‘۔ ہم اپنی درخواست اللہ کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ گویا ہم اس سے مشورہ اور استصواب کر رہے ہیں، اور وہ اس کو جس درجے میں قبول فرما لیتا ہے،اس درجے میں گویا ہماری درخواست کو منظوری (approval) مل جاتی ہے۔ جو حصہ ابھی قبول نہیں ہوتا، وہ کسی بلندتر حکمت کی بنا پر ہوتا ہے۔ دُعا کے سہارے کیا جانے والا کام گویا بندے کا کام نہیں بلکہ مالک ہی کا کام ہوجاتا ہے، جس کا فیصلہ بلاشبہہ سب سے بہتر فیصلہ ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا کے اس حصے کو جسے وہ صحیح و مناسب سمجھتا ہے قبول فرما لیتا ہے اور باقی کو (بعدازاں) اس سے بہتر صورت میں قبول فرما لیتا ہے، دُنیا ہی میں یا آخرت میں۔ لہٰذا، ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری پوری جدوجہد کی حیثیت ایک دُعا کی سی تھی اور ہے۔ اس دُعا کا ایک حصہ ہم اپنی زبان سے ادا کر رہے ہیں اور ایک حصہ اپنے عمل سے۔ یہ دُعا مالک کے حضور میں ایک استصواب کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم اس کے ہرفیصلے پر خوش اور مطمئن ہیں۔ ہمارا مطمح نظر اس کی رضا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ وہ بالآخر اپنے کلمے کو ضرور بلند کرے گا۔ ہاں، اگر ہمیں اس سعادت کا کچھ حصہ مل گیا تو ہماری خوش نصیبی ہے۔ اس جدوجہد میں شرکت کی سعادت تو اس کے فضل سے حاصل ہوگی اور آخری لمحے تک حاصل رہے گی اور وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ [البقرہ ۲:۱۳۲، لہٰذا مرتے دم تک تم سب مسلم ہی رہنا] کا ادراک تو ہم سب کو حاصل ہے۔
قرآن کے بارے میں بارہا یہ تجربہ ہوا ہے کہ کسی خاص سورۃ کو باربار پڑھا ہے، مگر ایک خاص کیفیت میں پڑھنے سے اس کاکچھ اور ہی لطف آیا ہے۔ اِس زمانے میں تو سورۃ الصف کو باربار پڑھا ہے۔ اصل مسئلہ وہی اللہ کی حاکمیت کا ہے، جسے: سَبَّحَ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ [الحدید ۵۷:۱، اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو زمین اور آسمان میں ہے] میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اصل بگاڑ وہی لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ [الصف ۶۱:۲، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟] کا ہے اوراس کا حل بھی سنت ِ انبیا ؑ کی وہی حکمت ِعملی ہے، جو جہاد یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللہِ [النساء ۴:۷۶، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں] اور محکم تنظیم صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۴ [الصف ۶۱:۴، صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں] کے اصولوں میں بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل بھی کتنا واضح اور صاف ہے:لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ ۰ۭ [الصف ۶۱:۵، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالاں کہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسولؐ ہوں؟] اور فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْٓا اِنَّ ہٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِيْنٌ۷۶ [یونس ۱۰:۷۶،پس جب ہمارے پاس سے حق ان کے سامنے آیا تو انھوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے]۔ گمراہی کا ڈھنگ کتنا ’بین الاقوامی‘ اور زمان و مکان کی حدود کا ناپابند ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِـمَّنِ اِفْتَرَیٰ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلَامِ ۰ۭ [الصف ۶۱:۷،اب بھلا اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالاں کہ اُسے اسلام کی دعوت دی جارہی ہو؟] لیکن ہمارا یقین ہے اور ربّ کا وعدہ ہے کہ:
نُورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اور ان شاء اللہ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ[التوبہ ۹:۳۳، تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے]کی کیفیت ضرور رُونما ہوگی۔ پس ضرورت ایمان اور صبروعزیمت کے ساتھ جدوجہد کی ہے۔ نجات اُخروی بھی اسی میں ہے اور ان شاء اللہ غلبۂ دُنیوی بھی۔ وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا۰ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ۰ۭ [الصف۶۱:۱۳، اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح]۔ یعنی صلح حدیبیہ کو ربِ حقیقی نے فتح قرار دیا تھا۔ گو دل اس پر مغموم تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ حضوؐر نے طوافِ کعبہ کا خواب دیکھا تھا۔ کیا وہ سچا تھا؟ نہیں، رسولؐ کا خواب سچا تھا: لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۰ۚ [الفتح ۴۸:۲۷، فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا] اور وہ پورا ہوا۔ البتہ خواب میں یہ کب تھا کہ اسی سال میں وہ پورا ہوگا۔ ضرورت صبر اور مالک کی حکمت ِ بالغہ پر اعتماد کی ہے اور خود کو مکمل سپردگی کے ساتھ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ۰ۚ [اٰل عمرٰن۳:۵۲]کی روش پر سرگرم کرلینا ہے۔اسی میں قافلۂ حق کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد فرمائے گا۔
دل کے ان جذبات و کیفیات کے ساتھ اس امر کی ضرورت بھی پوری طرح محسوس کرتا ہوں کہ حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے کہ ’اُونٹ باندھنے‘ اور ’توکّل‘ کرنے دونوں کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ جہاں یہ صحیح ہے کہ ہماری دعوت حق ہے اور اس میں رائی کے برابر بھی شبہہ نہیں اور یہ سچ ہے کہ ہرفیصلہ مالک کا فیصلہ ہے، اور اس پر دل میں ذرا بھی شک نہیں ہونا چاہیے، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرمہم کے بعد یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے اپنے رویے اور جدوجہد میں کیا پہلو ایسے تھے جو خام رہے یا معیارِ مطلوب سے فروتر تھے؟
غزوئہ اُحد پر اللہ تعالیٰ نے جوتبصرہ سورۂ آل عمران میں کیا ہے، اس پر تدبر کرنے سے بڑے اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس میں واقعات کا تجزیہ بھی ہے، کمزوریوں کی نشان دہی بھی ہے۔ ان کمزوریوں کی روشنی میں تمدنی اصلاحات کی ضرورت بھی ہے۔ ان کی تلقین بھی ہے اور پھر ان حکمتوں کی طرف اشارہ بھی ہے، جو دُنیوی جدوجہد کے ان نشیب و فراز میں پوشیدہ ہوتی ہیں اور اعتماد اور بھروسا اور جدوجہد کی تلقین بھی (آیات ۱۲۱ تا ۱۷۵)۔ اس حصے کو نکال کر پڑھیں، رہنمائی کی جارہی ہے کہ اللہ کے بھروسے پر ہرخطرے کا مقابلہ کرو۔ وہ تم کو ضرور کامیاب کرےگا۔ آج بھی ساری دنیا کی اور اس کی تمام طاقتوں کی یہی کیفیت ہے، جو اس وقت تھی:
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَـنَۃٌ تَـسُؤْھُمْ۰ۡ وَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَۃٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا۰ۭ (الِ عمرٰن ۳:۱۲۰) تمھارا بھلا ہوتا ہے توان کو بُرا معلوم ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔
اندر اور باہر کھلے دشمن اور آستین کے سانپ، اہلِ دنیا اور اہلِ ’دین‘ سب میں یہ نمونے مل جائیں گے، اور یہ اُحد ہی کی ہزیمت تھی، جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:
وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۳۹ اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّـامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۰ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۰ۭ (الِ عمرٰن ۳:۱۳۹-۱۴۰) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو۔ اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتےرہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا ہے کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں۔
قرآن کا یہ اسلوب ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم بھی حالات کا بے لاگ جائزہ لیں اور آیندہ پیش آنے والے معرکوں کی تیاری کریں۔ ہمارے لیے تو زندگی ایک مسلسل جہاد ہے۔کسی ایک لڑائی میں کامیابی یا ناکامی، دونوں کسی اعتبار سے مختلف نہیں۔ اس لیے ہمارے لیے دونوں آزمایش کا درجہ رکھتی ہیں۔ ناکامی بھی دراصل آزمایش ہے، اور کامیابی بھی آزمایش۔ فرق یہ ہے کہ ہردو میں آزمایش کی شکل (form) مختلف ہے، مگراصل مسئلے کی نوعیت (nature) کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
(ہندی سروس، بی بی سی لندن کی نمایندۂ خصوصی اور مصنّفہ No Nation for Women)
ہسپتال میں کشمیری لباس پہنے ایک ۳۰ سالہ شخص خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں ڈپریشن کے علاج کی پرچی ہے۔ تعارف کے بعد جب ان کا حال پوچھا تو انھوں نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ مجھے بڑی گہری آنکھیں اور غم میں ڈوبا ہوا اُداس چہرہ نظر آيا۔
میں نے آہستہ سے صحت کے بارے پوچھا تو اس شخص نے کہا: ’’کیا بتاؤں اور کہاں سے شروع کروں؟ چلیے، ابھی جو رات گزار کر ہسپتال آیا ہوں، اسی کا حال سناتا ہوں۔ دس بجے [بھارتی] فوج ہمارے علاقے میں آئی اور محاصرہ کر لیا۔ صبح کی نماز تک تمام مردوں کو کھڑا رکھا۔ پھر وہی تفتیش اور وہی تھپڑ، حالانکہ ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ یہ دیکھو، میرا کیا حال ہو گیا ہے! میں ڈپریشن میں ہوں‘‘۔
اچانک اسی وقت کچھ مریضوں نے ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے کیمپس کا مرکزی دروازہ کھولا، اندر آنے والی سرد ہوا کے جھونکے سے ہم دونوں لرز گئے کہ باہر برف پڑ رہی تھی۔ یہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع پلوامہ میں ضلعی سرکاری ہسپتال ہے۔ ہم ہسپتال کے چھوٹے سے 'دماغی صحت مرکز میں موجود ہیں۔ وادی میں جاری اس برفیلی سردی میں بھی ذہنی صحت مرکز میں کشمیری مریضوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہے۔
صبح دس بجے ہی او پی ڈی [بیرونی مریضوں کے شعبے] میں تقریباً ۵۰ سے زیادہ مریض قطار میں کھڑے ہیں۔میں اور راشد مرکزی دروازے کے اندر بنچ پر بیٹھے ہیں۔ اس نے بتایا: ’’میں بجلی کا کام کرتا ہوں۔ پلوامہ شہر میں رہتا ہوں، میرے گاؤں کا نام وشبوک ہے۔ جب سے آرٹیکل ۳۷۰کو ہٹایا گيا ہے، میرا کام بہت کم ہو گیا ہے۔ یہاں رہنے والے سبھی لوگوں کا کاروبار ختم ہوا تو میرا کیونکر بچتا؟ پہلے دو ماہ تک تو کام مکمل طور پر بند رہا۔ میری تو عمر بھی کم ہے، مجھے تو ڈپریشن نہیں ہونا چاہیے تھا! لیکن میں ڈپریشن میں ہوں۔ سارا دن دل گھبراتا رہتا ہے۔ ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور یاداشت بھی ختم ہونے لگی ہے‘‘۔
پلوامہ ضلعی ہسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر ماجد شفیع کی او پی ڈی میں یہ بہت مصروف اور یخ بستہ صبح ہے۔ جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی درجہ دینے والے آرٹیکل کو ختم ہوئے پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔ اس دوران جہاں وادی میں کئی ہفتوں تک فون بند رہے، وہیں انٹرنیٹ آج تک معطل ہے۔
جب تک ڈاکٹر ماجد مریضوں کو دیکھتے ہیں، میں ان کے ساتھ گفتگو کا انتظار کرتی ہوں۔ شدید ذہنی تناؤ جیسے اُداسی، افسردگی، خوفناک خواب آنا، نیند نہ آنا، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی)، پسینہ آنا، یاد داشت متاثر ہونا اور خود کو الگ تھلگ اور تنہا محسوس کرنے جیسی کیفیات سے متاثر مریض ڈاکٹر ماجد کے سامنے اپنی شکایات کا پلندہ کھول رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ان کے مسائل کو ہمدردی اور صبر سے سن رہے ہیں۔ اسی دوران وہ افسردگی کے عالم میں رونے والی ایک کشمیری خاتون کے سر پر ہمدردی سے ہاتھ رکھتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں۔ مَیں دیکھ رہی ہوں کہ ڈاکٹر ماجد کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔
ڈاکٹر ماجد کہتے ہیں کہ ’’کشمیر۱۹۸۹ء سے ہی ذہنی صحت کے المیے سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جب بھی یہاں صورتِ حال خراب ہوئی ہے، جیسے۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء کے مظاہرے یا اب آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ، ایسے ہراُتار چڑھاؤ کے دوران تناؤ میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔
لوگوں کی نفسیات پر آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے اثرات کی وضاحت میں ڈاکٹر صاحب نے کہا: ’’ایک عام کشمیری نے اچانک آرٹیکل ۳۷۰ کے ہٹائے جانے کو اپنی شناخت اور شہریت پر حملے کے طور پر لیا ہے۔ جس روز یہ اعلان کیا گیا تھا، اس دن مَیں او پی ڈی میں تھا، لیکن اچانک ٹریفک کے ساتھ ساتھ فون کی سہولیات بند ہونے کی وجہ سے لوگ ہسپتال نہیں پہنچ سکے۔ جو ہسپتال میں تھے، ان کے چہروں پر اُداسی تھی۔ پانچ اگست کے بعد یہاں کے لوگ بہت دنوں تک مسکرا نہیں سکے۔ اس کے بعد میں نے جو سارے مریضوں کو ابتدائی طور پر دیکھا تو انھوں نے ایسے سوالات اٹھائے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟ ہرایک گہرے صدمے میں تھا۔
اس کے بعد رفتہ رفتہ جب ٹریفک اور دیگر پابندیوں میں نرمی کی گئی تو مریضوں نے آنا شروع کیا تو: ’’او پی ڈی میں 'پہلے جہاں ۷۰ سے ۱۰۰مریض آتے تھے، اب ان کی تعداد ۲۰۰ ہوگئی ہے۔ یہ تقریباً ۱۵۰ فی صد کا اضافہ ہے۔ ابتدائی طور پر اس ہسپتال میں ایک کوآپریٹو دکان کے علاوہ ادویات کی تقریباً ساری دکانیں بھی آٹھ ہفتوں تک بند رہیں۔ جب مریضوں نے آنا شروع کیا تو ان میں اضطراب یا افسردگی یا ڈپریشن سب سے زیادہ ہے‘‘۔
ڈاکٹر ماجد نے بتایا کہ ’’ان کے مریضوں میں سب سے زیادہ خوف 'اٹھائے جانےکا ہے۔ ۲۷نومبر کو پارلیمان میں دیے گئے ایک بیان میں وزیر مملکت براے داخلہ امور کرشنا ریڈی نے اعتراف کیا کہ ۵؍اگست کو آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کے بعد حکومت نے کشمیر میں ۵۱۶۱؍ افراد کو حراست میں لیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر ماجد اس حالت کو 'مستقل ٹراما قرار دیتے ہیں: ’’ ۱۶،۱۷ سال کے لڑکے میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ہرلمحہ گھبراہٹ ہے، وہ سو نہیں پا رہے ہیں۔ انھیں ایک ہی چیز کا خوف ہے کہ انھیں پوچھ گچھ کے لیے اچانک اٹھا لیا جائے گا۔ واقعی انھیں اٹھایا لیا جاتا ہے۔ جب یہ جذباتی زخم بار بار لگتے ہیں تو وہ ذہن پر گہرا اثر چھوڑ دیتے ہیں۔ لہٰذا، کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ پوسٹ ٹراما یا پی ٹی ایس ڈی صورتِ حال نہیں ہے، بلکہ ایک مستقل صدمہ ہے۔ اس اُلجھی ہوئی ذہنی حالت میں مریض دو قسم کے خطرات کے قیدی ہوتے ہیں۔ ایک 'اصلی خطرہ ' ہے اور دوسرا 'خوف، یعنی ان کے ذہن میں خوف کا گہرا سایہ ہے‘‘۔ '
انھوں نے وضاحت سے بتایا کہ ’’جب امریکی فوجی عراق میں جنگ لڑنے گئے تو وہ وہاں طویل عرصے تک پُرتشدد فضا میں رہے۔ لیکن جب بھی وہ اپنے ملک لوٹے تو انھیں احساس ہوا کہ وہ 'اپنے گھر میں ' ہیں اور محفوظ ہیں۔لیکن کشمیر کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ 'یہاں کوئی 'سیفٹی نیٹ ' نہیں ہے کہ وہ سمجھیں کہ اب ہم تشدد کے دائرے سے باہر ہیں۔ لہٰذا، یہاں کے لوگ بار بار اپنے مستقبل کے متعلق خوف زدہ رہتے ہیں۔ یہاں لوگوں میں آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے تعلق سے خوف ہے۔ لوگ مجھ سے باربار پوچھتے ہیں کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ ‘‘
’خواب میں بھی فوج کے سوالوں کا جواب دیتا ہوں‘
ہسپتال کے باہر برف پڑ رہی ہے۔ پلوامہ شہر کی عمارتوں کی بالکونیوں پر برف کی سفید چادریں بچھ گئی ہیں۔ مینٹل ہیلتھ سنٹر کے باہر۳۱ سالہ شفق ابھی ڈاکٹر کے پاس سے نسخہ لے کر آئے ہیں۔ وہ اپنی کہانی بتانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ شفق کے بڑے بھائی شدت پسند گروہ میں شامل ہوگئے تھے اور مارے گئے تھے۔
وہ سر جھکائے کہتے ہیں: ’’یہاں کشمیر میں میری زندگی اُلجھ چکی ہے کہ میں ڈپریشن کا شکار ہوں۔ دراصل میرے بھائی نے اکتوبر ۲۰۱۷ء میں گھر چھوڑ دیا۔ وہ ۱۵ ماہ تک عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ سرگرم تھا اور فروری ۲۰۱۹ء میں اسے مار دیا گیا۔ اس وقت سے آج تک مجھے ہرہفتے اپنے گاؤں کے قریب واقع آرمی کیمپ میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا جانے لگا۔ میں جاتا ہوں، وہ سوال پوچھتے ہیں، میں جواب دیتا ہوں‘‘۔
بھائی کے مارے جانے اور پھر عدالت سے پولیس سٹیشن تک کے چکر نے شفق کی زندگی کا محور بدل دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’میں اپنے خوابوں میں بھی آرمی افسر کے سوالوں کا جواب دیتا رہتا ہوں۔ نیند نہیں آتی اور جب آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں کوئی دھماکا ہوگا اور پورا گھر مجھ پر ٹوٹ گرے گا اور میں مر جاؤں گا‘‘۔
دوپہر کے وقت بھی ایسا لگتا ہے کہ پلوامہ ڈھلتے سورج کی روشنی میں ڈوبا رہتا ہے۔ پلوامہ کے سرکاری ہسپتال سے دس کلومیٹر آگے اب ہم اس ضلع کے اریہل گاؤں میں موجود ہیں۔ خاموشی سے گرنے والی برف نے اس پورے گاؤں کو سفید چادر سے ڈھک دیا ہے۔ ڈرتے ڈرتے وسیم شیخ ہمیں مرکزی سڑک سے ایک کلومیٹر دور اپنے گھر لے گئے۔ سارا راستہ دو فٹ برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ملاقات میں ۱۹ سالہ سلیم جالی دار کشمیری پردے کے پاس سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ ۲۰۱۶ءمیں سلیم دسویں کے امتحانات کے دوران پلوامہ میں ایک احتجاج میں پھنس گئے اور ان کی ایک آنکھ پیلٹ گن کی زد میں آکر ضائع ہوگئی۔
وہ وضاحت کرتے ہیں: ’’اس وقت برہان وانی کے مارے جانے کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ میں کسی پتھراؤ یا احتجاج میں شامل نہیں تھا، صرف ایک جگہ پھنس گیا‘‘۔
لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہوئی۔ مئی۲۰۱۹ء میں پڑوسی گاؤں کے ایک جنازے میں شرکت کے لیے جانے والے سلیم ایک بار پھر فوج اور مظاہرین کے مابین جاری تصادم میں پھنس گئے۔ اس بار ان کی دوسری آنکھ کے ساتھ ان کے چہرے اور جسم میں بہت سارے چھرّے لگے۔
سلیم کے والد مجھے اپنے فون کی سکرین پر دو تصاویر دکھاتے ہیں۔ ایک میں ان کے بیٹے کا خون آلود چہرہ ہے اور دوسرے میں اس واقعے سے پہلے کی ایک تصویر ہے جس میں سلیم دھوپ کا چشمہ لگائے کالی ٹی شرٹ میں نظر آتا ہے۔ بغیر بینائی کے اپنی زندگی کے صدمے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سلیم کہتے ہیں: ’’میرے گاؤں میں مجھ جیسے اور بھی بہت سے لڑکے ہیں، جنھیں پیلٹ گنز لگی ہیں۔ میرے اب تک آٹھ آپریشن ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بینائی واپس آنے کی امید بہت ہی کم ہے۔ میں سارا دن افسردہ رہتا ہوں‘‘۔
دو منٹ تک سر جھکائے بیٹھے سلیم نے اچانک کہا: '’’مجھے بھی شوق تھا۔کچھ بننے کا… کرکٹ کھیلنے کا… جم جانے کا… کشتی کا… لیکن اب میری زندگی برباد ہوگئی ہے۔ والدین کب تک میرا خیال رکھیں گے؟ کون سی لڑکی مجھ سے شادی کر کے اپنی زندگی خراب کرنا چاہے گی؟ میں نابینا بنا بیٹھا ہوں۔ سارا دن درد سے سر پھٹتا رہتا ہے۔ کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ نہ مجھے بھوک لگتی ہے، نہ پیاس لگتی ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ بس دل گھبراتا رہتا ہے‘‘۔
اگست ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل۳۷۰ کے خاتمے کے بعد معروف برطانوی میڈیکل جریدے 'لانسیٹ ' نے اپنے ایک ادارتی مضمون میں ہندستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کی ذہنی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یہاں کے عوام کئی عشروں سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اقتصادی خوش حالی سے پہلے لوگوں کو پرانے ذہنی زخموں سے نجات چاہیے‘‘۔ اگرچہ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (IMA) نے اس اداریے کو مسترد کردیا تھا، لیکن طبی دنیا میں کشمیریوں کی ذہنی صحت کے بارے میں یہ پہلا تبصرہ نہیں تھا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (DWB) ' نے مئی ۲۰۱۶ء میں شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ وادی میں مقیم ۴۱ فی صد افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہیں‘‘۔ ان اطلاعات کی اشاعت سے دس سال قبل بھی وہاں کے حالات بہت اچھے نہیں تھے۔ ۲۰۰۶ءمیں شائع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر مشتاق مگروب کا کہنا ہے کہ ’’اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے ۱۵برسوں میں کشمیر میں شدید افسردگی، تناؤ اور پی ٹی ایس ڈی کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے‘‘۔
ہماری کار پلوامہ سے واپسی پر دارالحکومت سری نگر کی طرف مڑ چکی ہے۔ یہاں انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (ایمہانس: IMHANS) سے وابستہ ایک سینیئر ماہر نفسیات نے بتایا کہ ’’مذکورہ تحقیقی مقالوں میں موجود تمام حقائق درست ہیں۔ 'جب ہم نے ۱۹۹۰ء میں ذہنی صحت کا یہ مرکز شروع کیا تھا، اس وقت سے ہر سال یہاں پر صرف۲۰۰۰ مریض آتے تھے۔ لیکن آج ہمارے سرکاری مرکز میں ایک لاکھ مریض آرہے ہیں اور علاج کے لیے اندراج کرا رہے ہیں۔ میں ان ایک لاکھ افراد میں محکمہ چائلڈ سائیکالوجی کے مریضوں اور منشیات یا منشیات کے استعمال کے مریضوں کو شامل نہیں کررہا ہوں‘‘۔
وہ کہتے ہیں: '’’ٹریفک اور مواصلات کے تمام ذرائع بند کردیے گئے تھے۔ لیکن جیسے ہی ٹریفک بحال ہوئی، مریضوں کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا۔ میں اپنی او پی ڈی میں ایک دن میں ۲۵۰ سے زیادہ مریض دیکھ رہا ہوں۔ یہ بہت بڑا اضافہ ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے چندہی دنوں بعد میں نے دو ایسے مریضوں کا علاج کیا، جنھوں نے صدمے، الجھنوں اور خوف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے خودکشی کی کو شش کی تھی۔ ان میں ایک نوجوان عورت ہے اور ایک کالج کی طالبہ ہے۔ ان دومریضوں پر براہِ راست اثر آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے ہوا تھا‘‘۔
سری نگر کے ایمہانس میں اپنا علاج کروانے کے لیے پوری وادی سے لوگ آتے ہیں۔ ان کی تعداد میں مسلسل اضافے کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں: ’’آج کشمیر میں ہم بہت سارے مریضوں کو نفسیاتی دوائیں (جیسے نیند کی گولیاں) دے رہے ہیں‘‘۔
سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں آج برف باری ہو رہی ہے۔ یہاں ہماری ملاقات سب سے پہلے ۲۳ سالہ صاحبہ سے ہوتی ہے، جو نفسیاتی او پی ڈی میں بیٹھی ہیں۔ سری نگر میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کرنے والی صاحبہ پچھلے پانچ مہینوں سے ڈپریشن کا علاج کرا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سارا دن ان کا بلڈپریشر کم یا موڈ غم زدہ رہتا ہے۔ 'میں سارا دن اپنے اندر ایک منفی جذبہ محسوس کرتی ہوں۔ میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کررہی ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرا امتحان کب ہوگا اور ہوگا بھی یا نہیں؟ اگر نہیں، تو میرا سال ضائع ہوجائے گا اور اگر ایسا ہے تو پھر میں امتحان کیسے دوں گی؟ ہماری تو کوئی پڑھائی نہیں ہوئی ہے کہ یہاں اتنے مہینوں سے سب کچھ بند ہے‘‘۔
اپنی بیماری کے بارے میں کہتی ہیں: ’’ہر وقت افسردگی رہتی ہے، لہٰذا میں یہاں دوا لینے آئی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کی سڑکیں فوج سے بھری ہوئی ہیں اور ذہن ڈپریشن سے جام ہے‘‘۔
صاحبہ سے کچھ ہی فاصلے پر سری نگر کے لال بازار سے آنے والی ۲۱ سالہ نوشید بیٹھی ہیں۔ جو اُداس چہرے اور دُکھی نظروں سے فرش کی طرف مسلسل دیکھتے ہوئے کہتی ہیں: ’’میں گریجویشن کررہی ہوں، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنا کورس مکمل کر پاؤں گی یا نہیں؟ کلاسز بند ہیں۔ یہ سوچتی رہتی ہوں کہ آگے کیا ہوگا؟‘‘
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ’’وادیِ کشمیر میں مردوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ خواتین افسردگی کا شکار ہیں۔ اپنی پریشانی کو بتانے اور بانٹنے کے لیے ان کے پاس نسبتاً راستے کم ہیں۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
گرتی ہوئی برف کے درمیان سری نگر کے رہایشی علاقے میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کے سامنے لوہے کے بڑے سے گیٹ کے باہر مجھے لینے کے لیے شمع آتی ہیں اور خاموشی سے عمارت کی تیسری منزل پر لے جاتی ہیں۔یہ سری نگر میں رہ کر امتحانات کی تیاری کرنے والی لڑکیوں کا ایک ہاسٹل ہے اور شمع اپنی سخت گیر وارڈن سے بچا کر ہمیں اپنے کمرے میں لے آئی ہیں۔ کمرے میں ان کی روم میٹ صائمہ بھی ہے۔ کمرے میں بھی شدید ٹھنڈ ہے۔ لیکن وہ دونوں فوراً مجھے اپنے بستر پر بٹھا کر میرے پیروں پر کمبل ڈالتی اور مجھے ایک گلاس گرم پانی دیتی ہیں۔یہ دونوں اپنی میڈیکل کی تعلیم شروع کرنے کے لیے این ای ای ٹی امتحان کی تیاری کے لیے ضلع شوپیان سے یہاں آئی ہیں۔ بات چیت شروع کرنے سے پہلے ہی ہاسٹل کی بجلی چلی جاتی ہے۔
موبائل سے ٹارچ جلاتے ہوئے شمع نے کہا: ’’میں سیبوں کے شہر ایپل ٹاؤن سے یہاں تعلیم حاصل کرنے آئی ہوں، لیکن اب صورتِ حال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ میں ہر وقت افسردہ رہتی ہوں۔ این ای ای ٹی کے امتحانات بہت مشکل ہیں۔ کلاس الیون میں مناسب طریقے سے کلاسز نہیں لگیں‘‘۔ اس کی تائید کرتے ہوئے صائمہ نے بتایا: ’’ہم بہت غریب خاندان سے ہیں۔ اگر اس بار امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکے تو شاید ہمارے لیے تعلیم کے تمام راستے بند ہوجائیں گے‘‘۔
لڑکیوں کے ہاسٹل سے نکل کر ریذیڈنسی روڈ پر ہماری ملاقات اکرم اور شاہد سے ہوئی۔ قدیم شہر میں پروان چڑھنے والے اکرم اور شاہد بچپن کے دوست ہیں۔ان کی کہانی اس کشمیر کی تصویر ہے جس کے رہایشیوں کے سینے میں برسوں پرانے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ اگر آپ کسی پر مرہم لگاتے ہیں تو دوسرا زخم رسنے لگتا ہے۔
مئی ۱۹۹۶ء کو شاہد کے والد اور دادا دونوں ایک ساتھ اپنے گھر میں مارے گئے۔ اس دن کو یاد کرتے ہوئے شاہد کہتے ہیں: 'اس وقت۱۹۹۶ء کے انتخابات ہورہے تھے اور ہمارے گھر کے سامنے شہر میں ایک پولنگ بوتھ تھا۔ کہیں سے ایک پٹاخہ آ کر اس پولنگ بوتھ کے سامنے گرا۔ سکیورٹی اہلکاروں کو شک گزرا کہ ہمارے گھر سے آیا ہے۔ وہاں سے فوراً ہی فائرنگ شروع ہوگئی اور گھر کے برآمدے میں کھڑے میرے والد اور دادا دونوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میں اس وقت چھے سال کا تھا اور میری والدہ صرف ۲۲ سال کی تھیں۔ اس وقت میری چھوٹی بہن صرف ایک ماہ کی تھی‘‘۔ اگرچہ شاہد کی والدہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سرکاری ملازمت مل گئی، لیکن وہ اور ان کے بیٹے شاہد شدید ڈپریشن میں ہیں۔ شاہد کہتے ہیں: ’’ماں کو وہم گھیرے رہتے ہیں۔ رات کو نیند نہیں آتی۔ وہ ہمیشہ ڈپریشن میں رہتی ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں نہ جانے کتنے ماہر ڈاکٹر بدل چکے ہیں، مگر کوئی افاقہ نہیں۔ میں انٹرنیٹ کمپنیوں کے ساتھ کام کرتا تھا اور پچھلے پانچ ماہ سے وہ بھی بند ہیں‘‘۔
کمیونٹی جنرل ہسپتال یونٹ کے چلڈرن سائیکیاٹری سینٹر میں کام کرنے والے پروگرام کے کونسلر سرمد نے بی بی سی کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو میں بتایا ہے کہ ’’آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کا وادی کے بچوں پر سب سے بُرا اثر پڑا ہے‘‘۔وہ کہتے ہیں: ’’پچھلے ۹ مہینوں میں، ہم نے یہاں علاج کے لیے۱۵۰۰ بچوں کا اندراج کیا ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے کیونکہ کشمیر میں ابھی ذہنی صحت کے بارے میں شعور اور معلومات بہت کم ہیں۔ کئی بار والدین کو یقین نہیں آتا ہے کہ ان کے بچوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہاں بچے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔بچوں کی ذاتی جگہیں چھین لی گئی ہیں۔ 'بڑوں کی طرح بچوں کی بھی اپنی جگہ ہوتی ہے، جیسے اسکول، ٹیوشن، کھیل کا میدان وغیرہ۔ گھروں میں بند بچے اندر ہی اندر گھٹنے لگتے ہیں‘‘۔
یہاں ہماری ملاقات ماجد اشرف میر سے ہوئی ہے جو اپنے چھے سالہ بیٹے کو لے کر ہسپتال آئے ہیں۔ بچے کی صحت کے بارے میں دریافت کرنے پر سری نگر کے رہایشی ماجد کا چہرہ اس طرح بجھ جاتا ہے جیسے ماضی کے کسی گہرے زخم کی ٹیس نے نڈھال کر دیا ہو۔ وہ کہتے ہیں: ’’جیل کس کو کہتے ہے؟ وہی جگہ جہاں آپ اپنی مرضی سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں، آپ کہیں بھی نہیں جا سکتے۔ اسی طرح میرا بیٹا گھر کی جیل میں بند ہے۔ پانچ اگست سے آج تک ہم نے اسے گھر سے باہر جانے نہیں دیا ہے‘‘۔ اسی وقت ماجد کا بیٹا اپنا ہاتھ چـھڑوا کر او پی ڈی کے دالان میں دوڑنے لگتا ہے۔ ماجد سری نگر میں آج اپنی کپڑے کی دکان بند کر کے اپنے بیٹے کو دکھانے آئے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: ’’گذشتہ تین مہینوں سے میرے بیٹے کے برتاؤ میں تبدیلی آئی ہے۔ مجھ پر اور اپنی ماں پر یہ بہت چیختا ہے، غصہ کرتا ہے۔ بار بار پوچھتا ہے کہ مجھے باہر کیوں نہیں جانے دیتے، مجھے باہر کیوں نہیں جانے دیتے؟ اب میں اس کو کیا جواب دوں!‘‘ یہ کہتے ہوئے ماجد کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ’’بچے کے برتاؤ کے سبب اس کی والدہ کا ذہنی توازن متاثر ہو رہا ہے۔ میری اہلیہ کو بھی طبی امداد کی ضرورت ہے، لیکن ہم نے سوچا کہ پہلے بچے کا علاج کروائیں‘‘۔
سری نگر سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہم اس وقت جنوبی کشمیر میں انتہائی سرگرمیوں کے مضبوط گڑھ شوپیاں ضلع کے ورپورہ گاؤں میں ہیں۔ پلوامہ سے آگے ورپورہ تک جانے والا راستہ برف کی سفید چادر سے ڈھکا ہے۔ فضا میں ایک برفیلی اُداسی اور خاموشی بھی ہے۔ ہمیں اپنی کار کی آواز کے علاوہ دور کی ہوا کے سوا کوئی آواز نہیں سنائی دیتی ہے۔
ورپورہ گاؤں میں رحمت کے گھر پہنچنے کا راستہ برف پرپڑے چنار کے پتوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ۱۹ سالہ رحمت کی والدہ بیٹے کے پیلٹ گن کی زد میں آنے کے بعد سے ڈپریشن میں ہیں۔ ۲۰۱۶ء کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں: 'یہ برہان وانی کے جانے کے فوراً بعد کی بات ہے۔ یہاں زبردست احتجاج ہو رہے تھے۔ اسی دوران ایک صبح فوج گاؤں میں آئی اور مظاہرین پر پیلٹ گنز چلانی شروع کی۔ میری نظروں کے سامنے رحمت کی ایک آنکھ میں پیلٹ لگی۔ کئی آپریشن کے بعد بڑی مشکل سے اس کی آنکھ تھوڑی ٹھیک ہوئی ہے، لیکن میں ہمیشہ کے لیے بیمار ہو گئی ہوں‘‘۔
ورپورہ سے آگے ہمہونا گاؤں میں ہماری ملاقات رسول احمد سے ہوئی۔ جون ۲۰۱۷ء میں انھیں 'آزادی کے لیے جاری ایک مظاہرے میں خطاب کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ رسول احمد کہتے ہیں کہ ’’انتظار میری زندگی کا مرکزی لفظ ہے‘‘۔ فیرن کے نیچے کانگڑی لیے کھڑے رسول احمد نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’’عشروں سے یہاں لڑائی اور ہڑتال جاری ہے۔ میرے لڑکے کو گرفتار کیا گیا، اور اس پر ۱۶مقدمات عائد کیے گئے۔ ان میں سے آٹھ میں وہ بری ہو گیا لیکن باقیوں پر ابھی سماعت جاری ہے۔ اس کی ماں اور اس کی بیوی کی زندگی صرف انتظار ہے! اس کی ماں شدید ڈپریشن میں ہے۔ ساری ساری رات دروازے پر جاکر اپنے بیٹے کو تلاش کرتی ہے۔ بُرے خواب آتے ہیں۔ مسکرانا، بولنا، کھانا پینا سب بھول گئی ہے‘‘۔
شوپیان سے واپس سری نگر کا سفر بھی وادی پر بچھی اسی برف میں ہوا جس میں اس کا آغاز کیا تھا۔ بجلی کے تاروں پر ٹھٹھرتے پرندے زمین پر جنت نشان کہی جانے والی اس وادی کی گہری اُداسی کے تنہا اور سچّے پیام بر نظر آئے۔ یوں محسوس ہوا کہ وہ برف باری میں فیض کا یہ شعر گنگنا رہے ہوں: بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی۔
بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے قبل یا اس کے فوراً بعد کشمیر، بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے ، ایک ایک کرکے وہ سبھی درست ثابت ہو رہے ہیں۔ غالباً۲۰۱۴ء اور۲۰۱۵ء میں جب ان خطرات سے آگاہ کرانے کے لیے میں نے مودی کا کشمیر روڑ میپ ، کشمیر میں ڈوگرہ راج کی واپسی وغیرہ جیسے موضوعات پرکالم لکھے توکئی افراد نے ’قنوطیت پسندی‘ کا خطاب دے کر مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کانگریس کی کمزور اور پس وپیش میں مبتلا سیکولر حکومت کے برعکس، بھارت میں ایک سخت گیر اور خبط عظمت کے شکار حکمران کو رام کرنا یا شیشے میں اتارنا زیادہ آسان ہوگا ۔ اس سلسلے میں بار بار ۱۹۷۷ء سے ۱۹۷۹ءکی مرارجی ڈیسائی کی جنتا پارٹی حکومت اور پھر۱۹۹۸ء سے۲۰۰۴ء تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت اٹل بہاری واجپائی کے دور کی یاد دلائی جاتی تھی۔ لیکن جب ’ڈوگرہ راج کی واپسی‘ مضمون لکھا تو آزاد کشمیرسے تعلق رکھنے والے چند دانش ور وں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان مضامین کی بنیاد خیالی گھوڑے یا کوئی غیبی اشارہ نہ تھا، بلکہ مختلف لیڈروں کی بریفنگ پر مبنی معلومات ہی تھیں۔
مجھے یاد ہے ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے قبل جب موجودہ وزیر داخلہ امیت شا کو اہم انتخابی صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا گیا ، تو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے قومی میڈیا کے کچھ چنیدہ صحافیوں اور دہلی کے دیگر عمائدین سے ان کو متعارف کروانے اور ملاقات کے لیے اپنی رہایش گاہ پر ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اس سے قبل امیت شا گجرات صوبہ کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے فسادات، سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کا پولیس انکاونٹر کروانے اور اس کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانے اور پھر عدالت کی طرف سے تڑی پار ہونے کے لیے ہی مشہور تھے۔ اس تقریب میں وہ ہندستان ٹائمز کے ایک ایڈیٹر ونود شرما پر خوب برس پڑے کہ ’’تم ہر وقت ان کے خلاف ہی کیوں لکھتے رہتے ہو‘‘۔
ان کی گفتگو سے اندازہ ہوگیا تھا کہ مودی کا دور اقتدار، واجپائی حکومت سے مختلف ہوگا۔ واجپائی حکومت میں جارج فرنانڈیز ، جسونت سنگھ اور دیگر اتحادیوں کی شکل میں جو ایک طرح کا کشن تھا، اس کی عدم موجودگی میں ہندو انتہاپسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنے میں اب کوئی پس و پیش نہیں کرے گی۔ انھوں نے گفتگو میں واضح کیا کہ ’’اکثریت ملتے ہی وہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کو پہلی فرصت میں ختم کر واکے ہی دم لیں گے‘‘۔ ان کا ایک اور رونا تھا کہ جموں و کشمیر اسمبلی میں وادی کشمیر کو عددی برتری حاصل ہے۔ اس لیے اسمبلی حلقوں کی حد بندی کچھ اس طرح کروانے کی ضرورت ہے کہ جموں کے ہندو علاقوں کی سیٹیں بڑھ جائیں، جس سے ان کے مطابق سیاسی طور پر کشمیرپر لگام ڈالی جاسکے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کو بھی سوچ بدلنی پڑے گی۔
اس سے قبل انڈین ایکسپریس سے وابستہ ایک رپورٹر نے مشرقی اتر پردیش میں امیت شا کے دورے کے دوران کارکنوں کے ساتھ ان کی ایک میٹنگ میں رسائی حاصل کی تھی۔ جہاں وہ ان کو بتا رہے تھے کہ ’’مظفر نگر اور اس کے نواح میں ہوئے فسادات کا کس طرح بھر پور فائدہ اٹھاکر ہندو ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں لام بند کرایا جائے‘‘۔ بقول رپورٹر انیرودھ گھوشال، وہ کارکنوں کو خوب کھر ی کھری سنا رہے تھے، کہ مظفر نگر فسادات کا دائرہ دیگر ضلعوں تک کیوں نہیں بڑھایا گیا، تاکہ مزید انتخابی فائدہ حاصل ہوجاتا۔
جیٹلی کے گھر پر ہوئی اس ملاقات میں ان کے جس ارادے نے سب سے زیادہ میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجائی وہ ان کایہ بیان تھا کہ ’’بھارت کی سبھی زبانوں کو زندہ رہنے کا حق تو ہے ، مگر ان کا رسم الخط ہندی یا دیوناگری میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سے بھارت کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ کشمیری زبان کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری مسلمانوں کی منہ بھرائی کرکے اس زبان کو واپس شاردا یا دیوناگری اسکرپٹ میں لانے میں پچھلی حکومتیں لیت و لعل سے کا م لیتی آرہی ہیں‘‘۔
۲۶جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقعے پر حکومت کی طرف سے اخباروں کو جاری ایک اشتہار پر نظر پڑی ۔ یہ اشتہار بھارتی آئین میں تسلیم سبھی۲۲ شیڈولڈ زبانوں میں شائع کیا گیا تھا۔ بغور دیکھنے پر بھی کشمیر ی یا کاشرٗ زبان نظر نہیں آئی۔ بعد میں دیکھا کہ کسی نامعلوم رسم الخط میں لکھی ایک سطر کے نیچے انگریزی میں لکھا تھا کہ یہ کشمیر ی زبان ہے۔ یعنی سرکاری طور پر باضابط کشمیری یا کاشرٗ کا رسم الخط شاردا میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجایش ہی نہیں رہی کہ ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے کے بعد کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص ،تہذیب و کلچر پر بھارتی حکومت نے باضابط طور پر کاری ضرب لگانے کا بھی آغاز کر دیا ہے۔پچھلے سال اگست میں ریاست کو تحلیل کرکے اس کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بناکر اس کے آئین کو بھی منسوخ کرنے کے ساتھ ریاست کی سرکاری اور قومی زبان اردو کا جنازہ نکال دیا گیا تھا۔ اردو اب کشمیر کی سرکاری زبان نہیں ہے۔ چونکہ اس علاقے پر اب بھارت کی مرکزی وزارت داخلہ کی براہ راست عمل داری ہے، اس لیے اب جموں ،کشمیر و لداخ کی سرکاری زبان ہندی ہے۔ پچھلے سال ہی بی جے پی کے چند عہدے داروں نے ایک عرض داشت میں مطالبہ کیا تھا کہ ’’علاقائی زبانوں کا رسم الخط ہندی میں تبدیل کرکے ملک کو جوڑا جائے‘‘۔ اس کی زد میں براہ راست کشمیری (کاشرٗ) اور اردو زبانیں ہی آتی ہیں، جو فارسی۔عربی یعنی نستعلیق رسم الخط کے ذریعے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح چند برس قبل ایک موقعے پر بھارتی قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے کہا تھا کہ ’’کشمیر مسئلہ کا حل تہذیبی جارحیت اور اس خطہ میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔
یاد رہے کہ پچھلے سال کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پر پابندی لگادی تھی۔ پہلے تو اسے سیکورٹی رسک قرار دیا گیا، جس کے بعدتعلیمی و سرکاری اداروں میں عام لوگوں اور صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ وزیر اعظم مودی جب بھی کسی صوبہ کے دورہ پر ہوتے ہیں، تو وہاں کے مقامی لباس و روایتی پگڑی پہن کر عوامی جلسوں کو خطاب کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مقامی زبان کے چند الفاظ ادا کرکے عوامی رابطہ بناتے ہیں۔ لیکن ان کے ہرقدم سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر یوں کے لباس و زبان سے ان کو حددرجے کا بیر ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی کے ساتھ کشمیر کی ثقافت کو ختم کرنا ان کے منصوبے کا حصہ ہے۔
کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تحویز اس سے قبل دو بار۲۰۰۳ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں بھارت کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی مگر ریاستی حکومتوں نے اُس کو رد کردیا۔ بی جے پی کے لیڈر اور اس وقت کے مرکزی وزیر پروفیسر مرلی منوہر جوشی نے ۲۰۰۳ءمیں تجویز دی تھی کہ ’’کشمیری زبان کے لیے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس رسم الخط میں لکھنے والوں کے لیے ایوارڈ وغیرہ تفویض کیے جائیں۔ اس طرح کشمیری زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال کیا جائے گا۔ سوال ہے کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا قدیمی رسم الخط بھی بحال کرو۔ یہ کرم صرف کشمیری زبان پر ہی کیوں؟
وزیر موصوف نے یہ دلیل بھی دی تھی، کہ چونکہ بیشتر کشمیری پنڈت پچھلے ۳۰برسوں سے کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں، ان کی نئی جنریشن اردو یا فارسی رسم الخط سے ناآشنا ہے، اس لیے ان کی سہولیت کی خاطر ہندی رسم الخط کو کشمیر ی زبان کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس میٹنگ میں مرحوم وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید نے مرلی منوہر جوشی کو قائل کرلیا کہ ان کے فیصلہ سے پچھلے ۶۰۰برسوں سے وجود میں آیا کشمیری زبان و ادب بیک جنبش قلم نابود ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ ’’کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں ، جن کو دیو ناگری اسکرپٹ میں ادا نہیں جاسکتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ان آوازوں کو فارسی اسکرپٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی اب ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ کشمیری زبان میں ۱۶حروف علت یا واولز اور ۳۵حروف صحیح ہیںنیز چھے ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیر موصوف ، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔مودی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دلانے کے لیے ایک یادداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دیے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں۱۵۰۰سے ۲۰۰۰سال قدیم ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثے کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشرٗ زبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ یہ عرض داشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائے گی۔ عرض داشت میں بتایا گیا تھا کہ ’’کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے۔ بھارت میں جہاں آجکل تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے ماخذ بھی سنسکرت سے جوڑے جا رہے ہیں۔ تب، مرکزی حکومت نے بتایا کہ کشمیری و اقعی کلاسک زبان قرار دیے جانے کی اہل ہے، مگر شرط رکھی کہ اس کے لیے اس کا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کشمیری زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے پر کیوں اصرار کررہی ہے؟ کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون (زون) ہو یا محمود گامی یا عبدالاحد آزاد ، غلام احمد مہجور یا مشتاق کشمیری چونکہ عام طور پر سبھی کشمیری شاعروں نے اس خطے پر ہونے والے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے اور تحریک آزادی کو ایک فکری مہمیز عطا کی ہے، اسی لیے شاید ان کے کلام کو بیگانہ کرنے کے لیے زبان کے لیے تابوت بنا جا رہا ہے۔ پچھلے ۷۰۰برسوں میں علَم دار کشمیر شیخ نورالدین ولی ہو یا لل دید، رسو ل میر، وہا ب کھار یا موجودہ دو ر میں دینا ناتھ نادم ، سوم ناتھ زتشی رگھناتھ کستور، واسدیو ریہہ ، وغیرہ ، غرض سبھی نے تو نستعلیق رسم الخط کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر اور وادی چناب میں ۸ء۶ملین افراد کشمیری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نیلم اور لیپا کی وادیوں میں مزید ایک لاکھ ۳۰ہزار افراد کشمیری کو مادری زبان قرار دیتے ہیں۔ علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے کشمیری زبان کی پانچ بولیاں یا گفتار کے طریقے ہیں۔ کسی کشمیری کے گفتار سے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ ریاست کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں مرازی(جنوبی کشمیر) کمرازی (شمالی کشمیر) یمرازی (وسطی کشمیر)، کشتواڑی (چناب ویلی) اور پوگلی(رام بن ) ہیں۔ جرمنی کی لیپزیگ یونی ورسٹی کے ایک محقق جان کومر کے مطابق کشمیر ی زبان آرین زبانوں کی ایک مخصوص فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قواعد اور تاریخی جائزوںکے مطابق اس کا ایرانی یا انڈین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ سنسکرت اور کشمیری زبانیں ہم عصر رہی ہیں، اس لیے ان میں لفظوں کی ادلا بدلی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری کو انڈو۔ داردک فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں چترالی، شینا، سراجی، کوہستانی، گاوی اور توروالی زبانیں آتی ہیں۔ اگرچہ کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی سنسکرت میں لکھی گئی ہے، مگر اس میں کشمیری زبان بہ کثرت استعمال کی گئی ہے۔
کشمیری وازہ وان، یعنی انواع قسم کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ی زبان اور اس کا ادب بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے ۔پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو اس کا نوٹس لے کر کشمیری زبان و ثقافت کے بچاؤ کی تدبیریں کرنی چاہییں۔ کم سے کم یونیسکو کے ذمہ داروں کو باور کرائیں کہ ایک زندہ قوم سے اس کی ثقافت بزور طاقت چھینی جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو اُجاگر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ ہوسکے تو دنیا کے مختلف شہروں میں کشمیری ثقافت، آرٹ، فن تعمیر و زبان کی نمایش کا اہتمام کیا جائے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو بے رحم تاریخ پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی:
بادِ صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی
حرفے ز ما بہ مجلسِ اقوام باز گوے
دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
[بادِ صبا اگر جنیوا کی طرف تیرا گزر ہو تو مجلسِ اقوام تک ہماری یہ بات پہنچا دینا۔ دہقان، اس کی کھیتی، ندیاں، پھولوں کی کیاریاں سب کو فروخت کر دیا۔ ساری قوم کو فروخت کر دیا اور کس قدر ارزاں فروخت کر دیا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے ایک حکم نامے کے ذریعے (جو کہ پانچ مہینے بعد سنایا گیا) جموں وکشمیر کی انتظامیہ نے ۲۴جنوری کو ۱۷۴دنوں بعد مشروط بنیادوںپر انٹرنٹ بندشوں میں نرمی کا فیصلہ کیا ۔جموں و کشمیر انتظامیہ نے جہاں سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر پابندی عائد کیے رکھی، وہیں چند محدود ویب گاہوں پر صارفین کی رسائی کے لیے مواصلاتی کمپنیوں کو ہدایات جاری کی ہیں، تاکہ کوئی کشمیری دُنیا تک، اپنے اُوپر ہو رہے ظلم و استبداد کی کہانی نہ سُنا سکے ۔انٹرنیٹ بندشوں میں نرمی اس وقت انتظامیہ کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہے، جب لوگوں نے وی پی این (VPN) ایپلی کیشنز کی مدد سے تمام سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر رسائی حاصل کر لی۔
اس صورتِ حال میں انتظامیہ نے دیگر ریاستوں سے ماہرین کی ٹیمیں بھی کشمیر لانا شروع کر دی ہیں، تا کہ کشمیریوں کی سماجی رابطے کی ویب گاہوں تک پہنچ روکی جاسکے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق تادمِ تحریر انجینیر کشمیر یوں کی سماجی ویب گاہوں تک رسائی روکنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بھارت کی مواصلاتی کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹڈ (BSNL) نے سماجی رابطے کی ویب گاہوں تک رسائی روکنے کے لیے کروڑوں روپے مالیت کا سافٹ ویئر’فائر وال ‘خرید ا ہے۔ بھارتی محکمہ داخلہ کی طرف سے ۳۱ جنوری کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’’متعلقہ محکمے کی طرف سے ۲۴جنوری کو جموں وکشمیر کی سیکورٹی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔ جنگجوانہ سرگرمیوں ،وی پی این ایپلی کیشنز کی وساطت سے انٹرنیٹ کے ذریعے ضرر رساں پیغامات کی تشہیر کا جائزہ لیا گیا‘‘۔ بھارتی راجیہ سبھا میں وزیر اطلاعات روی شنکر پرساد نے بتایا کہ ’’سپریم کورٹ نے انٹرنیٹ کے استعمال کو بنیادی انسانی حق قرار دیا ہے، تاہم یہ بنیادی حق نہیں ہے ۔ اس معاملے میں انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی اور ضابطوں کا نفاذ ہوگا‘‘۔
اس انتہائی مایوس کن صورتِ حال کے بیچ کشمیریوں کو انٹرنیٹ کے بغیر زندگی کی گاڑی کو چلانا پڑ رہا ہے ۔ اکیسویں صدی کے دور کو انٹرنیٹ کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ دور جس میں سماج کا ہر حصہ انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہے، وہ چاہے تعلیم ہو یا تجارت ،معیشت ہو یا سیاست، صحافت ہو یا صحت، غرض انٹرنیٹ انسانی زندگی کا جُزو لاینفک بن گیا ہے ۔ایسے وقت میں بھارت دنیا میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ پابندیوں والا ملک بن گیا ہے۔
۵ ؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے جمو ں و کشمیر کی معیشت رُوبۂ زوال ہے ۔کشمیر جو کہ پہلے سے اَن گنت مسائل کے بھنور میں پھنس چکا ہے، وہیں انٹرنیٹ کی بندشوں میں یہاں زندگی کا ہرشعبہ بدترین انداز سے متاثر ہوا ہے۔ گذشتہ پانچ ماہ میں ہوئے نقصان کے حوالے سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی سب سے بڑی تجارتی تنظیم کشمیرچیمبرآف کامرس اینڈانڈسڑیز کی دسمبر ۲۰۱۹ء تک کی رپورٹ کے مطابق: ’’۵؍اگست کے بعد کشمیر کے ۱۰ ؍اضلاع میں ۱۲۰دنوں میں۱۸ ہزار کروڑ کا نقصان ہوا ہے ۔یاد رہے وادیِ کشمیر کے یہ ۱۰؍اضلاع کُل آبادی کا ۵۵فی صد حصہ ہیں‘‘۔
اگر شعبہ جات کی بات کی جائے تو رپورٹ کے مطابق: ’’زراعت و باغبانی اور اس کے ذیلی شعبہ جات میں ۲۸۱۷کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح مال مویشی اور جنگلات وغیرہ کو ۱۷۶۴ کروڑ روپے، جب کہ پیداواری شعبے کو۲۴۶۶ کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ انڈسٹری میں تعمیری شعبے کے علاوہ کان کنی ،کھدائی ،بجلی ،گیس ،پانی اور دیگر ضروری خدمات کو ۱۶۲۹کروڑ کا خسارہ اُٹھانا پڑا‘‘۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’تجارت بشمول ہوٹل، ریستورانوںکو ۲۲۶۷ کروڑ کا خسارہ ہوا ہے ۔اس کے علاوہ مالی خدمات کو ۱۱۸۴ کروڑ اور زمین و مکانات کی خریدوفروخت رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو۳۱۲۵ کروڑ کا نقصان ہوا‘‘۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’کشمیر کے ۱۰ ؍اضلاع میں ۱۲۰ دنوں کے دوران میں تقریباً ۵لاکھ لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس غیر یقینی صورتِ حال اور دوسری جانب بے روز گار نوجوانوں میں نفسیاتی امراض کا بھی ہوش ربا اضافہ ہوا ہے ۔ جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ کی بندشوں کی وجہ سے طلبہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر وہ طلبہ جو دُنیا کے مختلف اداروں اور ملکوں میں آن لائن کورسز کرتے ہیں ۔ انتظامیہ نے کشمیر میں چند جگہوں پر طلبہ اور دیگر ضرورت مندوں کے لیے انٹرنیٹ کی سہولیات کا محدود پیمانے پر انتظام کر رکھا تھا،تاہم حقیقت جاننے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ جس ریاست کی آبادی ۸۰ لاکھ ہو، کیا وہاں چند انٹرنیٹ سہولیاتی مراکز سے ان کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں ؟ضرورت پوری ہونا تو دور کی بات ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان مراکز پر کئی کئی دنوں تک خون منجمدکر دینے والی ٹھنڈ میں طلبہ و طالبات کی قطاریں جمہوری دنیا کی نظروں نے دیکھ لی ہیں ۔
ان ظالمانہ پابندیوں کی وجہ سے ہزاروں طلبہ ایسے بھی ہیں، جو اعلیٰ تعلیم کے لیے جموں و کشمیر سے باہر کی یونی ورسٹیوں میں بر وقت داخلہ لینے میں ناکام ہوئے۔ بارہمولہ سے ایک طالب علم ارشد احمد کا کہنا ہے کہ’’ میں نے پورا ایک سال جی توڑ کوشش کر کے ہندستان سے باہرکی ایک یونی ورسٹی میں داخلے کے لیے امتحان بھی پاس کیا، لیکن بدقسمتی سے انٹرنیٹ کی بندش کے سبب میں وقت پر یونی ورسٹی حکام کی طرف سے ارسال کیے گئے برقی پتے(e-mail) کا جواب نہ دے پایا، اور گذشتہ دنوں جب میں نے ای میل باکس میں داخلے کی منظوری کی ڈاک دیکھی، تو انتہائی تکلیف محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری طلبہ کی قسمت کو کوسنے کے سوا کچھ نہیں کر پایا‘‘۔
جہاں ایک طرف جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ او ر سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر شدید نوعیت کی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، وہیں دوسری طرف پانچ ماہ تک طویل عرصے تک خاموش رہنے کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جموں وکشمیر کی انتظامیہ کی سماجی انٹرنیٹ پر سے پابندی ہٹا کر 5Gکے زمانے میں 2G انٹرنیٹ کی سہولیات میسر کرنا سمجھ سے باہر ہے۔جس پر جموں وکشمیر کے عوام کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، تاکہ دنیا کو اعتراض اُٹھانے سے روکا جائے کہ یہاں انٹرنیٹ پر پابندی ہے‘‘۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’بھارت کی طرف سے کشمیر میں انٹرنیٹ پر بندشیں لگانا، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گٹیرس نے بھی اپنے ایک بیان میں کشمیر میں جاری پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان پابندیوں سے انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوئے ہیں‘‘۔
بھارت کے ایک مؤقر انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں موجودہ انٹرنیٹ کی بندش ملک کی طویل ترین بندش ہے ۔اس سے قبل ۲۰۱۶ء میں برہان مظفر وانی کے جاںبحق ہونے کے بعد۱۳۳ دنوں تک کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی رہی۔ لیکن جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی، ۲۰۱۹ء کے دوران پوری دنیا میں عائد کردہ پابندیوں میں طویل ترین شمار کی جاتی ہے‘‘۔اسی اخبار نے لکھا ہے کہ ’’بین الاقوامی سطح پر انٹرنیٹ تک رسائی مواصلات کا ایک اہم ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔کچھ ممالک نے اسے ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا ہے ۔دسمبر ۲۰۰۳ء میں،اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ورلڈ سوسائٹی براے انفارمیشن نے اعلان کیا تھا کہ مواصلات ایک بنیادی معاشرتی عمل اور ایک انسانی ضرورت ہے اور یہ وسیلہ معاشرتی تنظیم کی بنیاد ہے‘‘۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ۲۰۱۶ء میں مختلف حکومتوںکی طرف سے انٹرنیٹ تک رسائی میں جان بوجھ کر رکاوٹ پیدا کرنے کے بڑھتے ہوئے عمل کی مذمت کرتے ہوئے پابندی ختم کرنے کی قرار داد منظور کی تھی۔
غرض یہ کہ انٹرنیٹ موجودہ دور میں انسان کی ایک بنیادی ضرورت اور بنیادی حق ہے، بلکہ دورِ حاضر میں دنیا کا کم و بیش ہر کام انٹرنیٹ سے ہی جُڑا ہوا ہے۔ وہ چاہے حکومتوں کے کام کاج، کالج اور یونی ورسٹیوں میں پڑھائی، ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج، ملک اور بین الاقوامی سطح پر سفر کی بکنگ اور میڈیا اور روزگار کے نہ جانے کتنے ذریعے ہیں، جو انٹرنیٹ کی مددسے تکمیل پاتے ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد چھے ماہ سے زیادہ مدت تک انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے جموں وکشمیر کی معاشی صورتِ حال قابلِ رحم ہے ۔جس کی وجہ سے بھارتی زیر انتظام کشمیرمیں عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے ۔
گذشتہ برس پاکستان میں ’عورت مارچ‘ میں ’میرا جسم، میری مرضی‘ یعنی دوسرے لفظوں میں شادی سے قبل آزادانہ جنسی تعلقات کو عورت کا حق قرار دینے کا نعرہ لگایا گیا۔آیئے، مغرب کے معروف تھنک ٹینکس (مراکز دانش)کی رپورٹوں کی روشنی میں '’میرا جسم، میری مرضی‘ یا فری سیکس کے نظریے کے عورت کی زندگی اور مغربی تہذیب پر ہمہ گیراثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مغرب میں تحریک خود اختیاریِ نسواں (Feminism) نے عورتوں کے حقوق کی مناسبت سے کافی پیش رفت کی ہے۔ اس کا ایک منفی پہلو آزادانہ جنسی تعلقات کوعورتوں کے حق کے طور پر متعارف کروانا بھی ہے۔ آج مغربی ممالک اور دیگر صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں غیر شادی شدہ جوڑوں کا ایک ساتھ رہنا قانوناً درست ہے، معاشرے میں اسے کوئی بُرائی نہیں سمجھا جاتا اور ایسے بچوں کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہے، جو ان تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوں۔ ایسے بچوں کی ذمہ داری ان کے حقیقی ماں باپ پر تو عائد ہوتی ہے، مگر ریاست بھی انھیں اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے۔ تاہم، ان کے اپنے ’مراکز دانش‘ کے مطابق ’’اس کے نتیجے میں بے شمار پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں، جن سے خود خواتین بھی متاثر ہیں اور آبادی میں کمی کے رحجان سے ان قوموں کی بقا کو خطرہ لاحق ہے‘‘۔
- بنا شادی بچوں کی شرح پیدایش میں اضافہ: ۲۰۱۷ءمیں شائع ہونے والی ییل یونی ورسٹی کی تحقیقاتی رپورٹ Out of Wedlock Births Rise Worldwide (شادی کے بغیر دنیا میں بچوں کی پیدایش کا اُبھار) کے مطابق دنیا کے کچھ علاقوں میں بغیر شادی کے پیدا شدہ بچوں کی تعداد،کُل بچوں کے ۷۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا میں یہ تعداد ۴۰فی صد، اور شمالی یورپ کے ممالک میں یہ شرح ۷۰فی صد تک چلی گئی ہے۔ گذشتہ ۵۰برسوں میں شادی کے بغیر بچوں کی پیدایش میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ’سنگل مدرز‘ (اکیلی ماؤں) کی تعداد میں بھی۔ تفصیل یہ ہے کہ ساری دنیا میں ’اکیلی ماؤں‘ کے ساتھ پلنے والے بچوں کی تعداد کُل بچوں کی تعداد کے۲۵ سے ۳۳ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجوہ میں ترقی یافتہ ممالک میں: خاندانی نظام کا ختم ہونا اور مخالف جنس کے لوگوں کا آزادانہ میل جول، ایسے بچوں کو قانونی حیثیت دینا اور پالنے والے والدین کو مالی مدد فراہم کرنا شامل ہیں۔
بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ What Can Be Done to Reduce Teen Pregnancy and Out of Wedlock Births (نوعمری کے حمل اور نکاح کے بغیر پیدایش کو کیسے کم کیا جائے؟) کے مطابق ’’اس معاملے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ایسی کم عمر ماؤں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو ہائی اسکول کے دوران ہی ماں بن جاتی ہیں۔ ایسے واقعات بھی اچنبھے کی بات نہیں رہ گئے ، جن میں نوعمر لڑکیاں دس گیارہ سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ اسکولوں میں ابتدائی کلاسوں سے بچوں کو جنسی تعلیم دی جاتی ہے اور برتھ کنٹرول کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ بلاشبہہ ملکی قانون ان بچوں کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ایسی اکیلی ماؤں کو مالی امداد دیتا ہے، مگر ان میں سے بیش تر مائیں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتیں اور ان کی جوانی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کی نگہداشت میں گزر جاتا ہے۔ گو کبھی کبھی باپ بھی شادی کے بندھن سے باہر پیدا ہونے والے بچے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، مگر ایسے بے نکاحے باپوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے‘‘۔ بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق اکیلے والدین (single parents) کی ۸۴ فی صد تعداد عورتوں، جب کہ ۱۶فی صد تعداد مردوں پر مشتمل ہے۔
۲۰۱۶ءمیں جان ہاپکنز یونی ورسٹی کی تحقیق Changing Fertility Regimes and the Transition to Adulthood (تولیدی بارآوری میں تبدیلی اور بلوغت کی راہ میں عبوری مرحلہ ) کے مطابق ’’امریکا میں ۶۴فی صد عورتیں کم از کم ایک ایسے بچے کی ماں ضرور ہیں، جو شادی کے بندھن سے باہر (Out of Wedlock) پیدا ہوتا ہے۔ غریب یا کم آمدنی والے علاقوں میں ایسی غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد ۷۴ فی صد تک جاپہنچی ہے‘‘۔ ۲۰۰۷ءکی ایک اور تحقیق کے مطابق ’’پہلی دفعہ ماں بننے والی ۶۶ فی صد سفید فام، ۹۶فی صد سیاہ فام اور ۷۶فی صد میکسیکن خواتین غیر شادی شدہ ہوتی ہیں۔ مغربی قانون کے علاوہ معاشرتی طور پربھی اب اسے کوئی برائی تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن ایسی ماؤں کا تعلیمی مستقبل، پڑھائی پر توجہ کا سارا منصوبہ یا خواب اور کیرئیر، پہلی دفعہ حاملہ ہونے کے بعد تباہ ہو جاتا ہے‘‘۔
ییل یونی ورسٹی کی اس رپورٹ (۲۰۱۷ء) کے مطابق ’’شادی کے بغیر پیدایش کی کم ترین شرح ان ملکوں میں ہے، جہاں ایسے بچوں کی پیدایش سے منسوب ماں اور باپ کو رُسوائی کا سامنا ہوتا ہے اور خود ایسے بچے کو معاشرہ قبول نہیں کرتا اور انھیں کلنک کا ٹیکا گردانتا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے مسلم ممالک اور بھارت میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے ایک فی صد سے بھی کم ہے‘‘۔
اس ضمن میں ملکی قانون بھی واضح کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ جن ممالک میں ایسے تعلقات قانوناً درست ہیں، وہاں شادی کے بغیر پیدایش کی شرح بہت زیادہ ہے۔ لاطینی امریکا کے بیش تر ممالک میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے ۶۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے، مگر اس معاملے میں سب سے زیادہ بُراحال سویڈن، ڈنمارک، ناروے اور فن لینڈ جیسے خوش حال ممالک کا ہے، جہاں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ۷۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا میں یہ تعداد ۴۰فی صد ہے‘‘۔
ییل رپورٹ (۲۰۱۷ء) کے مطابق: ’’ایک ہی ملک میں مختلف نسلی گروہوں میں اس شرح میں مجموعی طور پر بھی فرق دیکھا گیا ہے۔ امریکی سیاہ فاموں میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ۷۱ فی صد، جب کہ امریکا کی لاطینی آبادی میں یہ شرح ۵۳فی صد، مگر سفیدفاموں میں یہ شرح۲۹فی صد ہے۔ یاد رہے کہ آج سے ۵۰ سال پہلے امریکا میں مجموعی طور پر یہ شرح ۷فی صد تھی اور اب مجموعی طور پر تقریباً ۴۰فی صد ہے‘‘۔
یہاں ایک فطری سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا مغربی معاشرہ ہمیشہ سے ایسا تھا؟
بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق ’’شادی کے بغیر پیدایش کی شرح میں اضافہ پچھلے ۵۰برسوں کے دوران دیکھنے میں آیا ہے۔ مثلاً: ۱۹۶۴ء میں ’آرگنائزیشن آف اکنامک اینڈ کوآپریٹیو ڈویلپمنٹ‘ (OECD: معاشی و باہمی تعاون کی ترقیاتی تنظیم) میں شامل بیش تر ممالک میں بنا شادی بچوں کی تعداد، کُل بچوں کے ۱۰فی صد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، جب کہ ۲۰۱۴ء کے اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں صرف یونان، ترکی، اسرائیل، ساؤتھ افریقہ، اور جاپان وغیرہ ایسے ملک ہیں، جہاں یہ شرح ۱۰فی صد سے کم ہے۔ یاد رہے ’معاشی و باہمی تعاون کی ترقیاتی تنظیم‘ میں ۳۵ ممالک شامل ہیں اور یہ بلند ترین قومی معاشی پیداوار کے حامل ممالک ہیں، جن میں شمالی امریکا، شمالی اور مغربی یورپ اور آسٹریلیا کے علاوہ جنوبی کوریا، اسرائیل، ترکی اورجاپان بھی شامل ہیں‘‘۔
ایک اور دل چسپ بات یہ کہ وہاں کی ریاست چونکہ ان بچوں کو اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے اور معاشرے میں اسے بُرا نہیں سمجھا جاتا، اس لیے بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس رحجان میں اس وقت سے اس تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب سے ریاست نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے۔
- بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کے مسائل:ایسے زیادہ تر بچے ’سنگل والدین‘ کے ساتھ پلتے ہیں، کچھ فوسٹر ہوم، یعنی اڈاپڈڈ [اختیار کردہ] والدین کے ساتھ اور کچھ اپنے حیاتیاتی (اصلی) ماں باپ کے ساتھ پلتے ہیں، جو بعض سورتوں میں شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ بعض ماں باپ بچہ ہونے کے بعد شادی بھی کر لیتے ہیں، مگر ان کا تناسب بھی کم رہ گیا ہے۔
یاد رہے کے سنگل پیرنٹ کا تصور صرف بنا شادی کی پیدایش سے وابستہ نہیں بلکہ کبھی کبھی ماں یا باپ کی موت یا طلاق اور علیحدگی کی وجہ سے بھی، بچے والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ پلتے ہیں۔ جوزف چیمی کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے ۳؍ارب بچوں میں سے ۳۲ کروڑ بچے اکیلے والدین کے ساتھ پلتے ہیں۔
- شادی کے بغیر خواتین کی بچوں کے انتخاب کی وجہ:یاد رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بعض اوقات خواتین خود اکیلی ماں بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس معاملے میں ’مصنوعی تولیدی عمل‘ ، insemination یا ٹیسٹ ٹیوب وغیرہ سے، یعنی بغیر فطری عمل کے بھی بچہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس انتخاب کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ معاشرے میں بنا شادی، جنسی تعلق عام ہونے کے با عث مرد شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ جان ہاپکنز رپورٹ ۲۰۱۶ء کے مطابق ’’بعض عورتیں جن میں اکثریت سیاہ فام عورتوں کی ہے، خود بنا شادی بچے چاہتی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آزادانہ اختلاط کے باعث اس معاشرے میں عورتیں مرد کے مقابلے میں اولاد کو زیادہ قابل بھروسا ساتھی خیال کرتی ہیں۔ کچھ خواتین اسقاطِ حمل اس لیے نہیں کرواتیں کہ کیتھولک مذہب میں اسقاط حرام ہے‘‘۔ عام تاثر یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں مذہب کا کوئی کردار نہیں، لیکن راقمہ کے مشاہدے کے مطابق اس کے برعکس ایسی عورتیں بھی موجود ہیں، جو عیسائیت کی اس پابندی کا احترام کرتی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ خود کیتھولک عیسائی مذہب بھی موجودہ ابلاغی و سماجی دباؤ کے باعث ’آزادانہ جنس کاری‘ کے خلاف بات نہیں کر سکتا، کیونکہ معاشرے میں اس کے خلاف بات کرنے کو انسانی حقوق کے منافی سمجھا جاتا ہے۔
بروکنگز رپورٹ کے مطابق ’’دوسرے بچوں کے مقابلے میں بنا شادی پیدا ہونے والے اکیلی ماؤں کے بچے، پیدایش کے وقت کم وزن پیدا ہونے، بعد کی زندگی میں جسمانی اور نفسیاتی صحت کے مسائل کا شکار ہونے، اسکولوں میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے، اپنے والدین کی طرف سے نظر انداز اور دوسروں کی زیادتیوں کا شکار ہونے کے نتیجے میں بڑے ہو کر خود مجرم بننے کے امکانات کا زیادہ شکارہوتے ہیں‘‘۔
- ’اکیلی ماں‘ پر منفی اثرات:بچے کے علاوہ بچے کی غیرشادی شدہ اکیلی ماں کی زندگی پر بھی اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کے اسکول سے ڈراپ آوٹ ہونے کے امکانات دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی مائیں عام طور سے اپنا کیرئیر نہیں بنا پاتیں اور اپنے آپ کو مالی طور پر خودکفیل نہیں بناسکتیں۔ پانچ میں سے صرف ایک خاتون کو بچے کے باپ سے مالی مدد ملتی ہے، مگر قانون کے باوجود ان سے پیسے نکلوانا آسان نہیں ہوتا۔ نتیجتاً ایسی عورتیں حکومت کی ’رفاہی یا خیراتی اسکیم‘ سے امداد حاصل کرتی ہیں اور طویل عرصے تک اس واجبی وظیفے پر گزارا کرتی رہتی ہیں۔
- بڑھتا ہوا معاشی بوجھ :اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے بچے ٹیکس دینے والے پر ایک بوجھ ہوتے ہیں۔ پرنسٹن یونی ورسٹی کے میتھیمٹک پالیسی ریسرچ سنٹر کی تحقیق کے مطابق کم عمر غیرشادی شدہ مائیں اور ان کے بچوں پر حکومت ہر سال امریکی ٹیکس دینے والوں کا ۷؍ارب ڈالر خرچ کرتی ہے، اور اسی لیے اس رحجان کو کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
- اس مسئلے کا حل کیا ہو؟:بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی یہ تحقیق امریکی حکومت کو متعدد تجاویز دیتی ہے۔ اس میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کے بچوں کو اسکول کی سطح پر شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ کم از کم شادی تک جنسی تعلقات سے پرہیز کرسکیں۔ لیکن معلوم نہیں اس حل کے عملی نفاذ کا خواب کتنا دور ہے، کیونکہ امریکی اور مغربی معاشرے میں شادی کے بغیر جنسی تعلق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عورت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ والدین تک اپنے بچوں کو اس اخلاق باختگی سے روکیں تو یہ ذاتی معاملات میں مداخلت کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی کسی تجویز پر عمل درآمد کے امکانات صفر سے بھی کم ہیں۔
نتیجہ: آبادی کا بحران اور معاشرتی انتشار: اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عورتوں اور جوڑوں کی اکثریت اب بچے پیدا کرنے سے پرہیز کر رہی ہے۔ مانع حمل ادویات اور اسقاط کو عورت کا بنیادی حق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ مغرب کے بیش تر ممالک آبادی کے بحران کا شکار ہیں۔ خصوصاً معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے اور اس حد تک کم ہو رہی ہے کہ بہت سے ممالک اپنی صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیسری دنیا کے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہیں۔ یاد رہے ان تمام ممالک میں شرح اموات شرح پیدایش کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور اس سے آہستہ آہستہ یہ قومیں نا پید ہوتی جا رہی ہیں۔
آبادی میں کمی کے اس رجحان کو صرف مغرب میں نہیں، جاپان جیسے بلند ترین شرح آمدنی رکھنے والے صنعتی ملک میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ دو سال قبل جاپان کی ٹوہوکو یونی ورسٹی میں جاپانی قوم کی بتدریج ناپید ہونے کی خبر دینے والے گھڑیال کی تنصیب کی گئی، جو سیکنڈ کے حساب سے جاپانی آبادی میں کمی کی لمحہ بہ لمحہ نشان دہی کرتا ہے۔
۲۰۱۷ء میں شائع ہونے والی یورپ کی آبادی کے بارے میں ’برلن انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی میں یورپ خصوصاً یورپی یونین (EU) کا حصہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی معیشت اس وقت دنیا کی کامیاب ترین معیشت ہے، لیکن اس رپورٹ اور متعدد تحقیقات کے مطابق دنیا میں سب سے کم شرح پیدایش اِس وقت یورپ میں ہے اور سب سے زیادہ اوسط عمر بھی یورپ میں ہی ہے۔ یاد رہے کہ یورپ میں لاتعداد تحقیقی ادارے اور ’مراکز دانش‘ مستقبل میں آبادی کی کمی سے پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں لیکن تاحال خبریں کچھ اچھی نہیں ہیں۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق جرمنی میں آیندہ نسلوں میں کام کرنے والے، پنشن لینے والے بوڑھوں کے مقابلے میں کم ہوتے جائیں گے۔ یوں مینوفیکچرنگ اور خدمات سے متعلقہ صنعتوں کو مطلوبہ افرادی قوت نہیں مل سکے گی۔
باقی یورپ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ خوش حال یورپ اور بہت سے دوسرے مغربی ممالک کے ارباب اختیار آبادی میں مسلسل کمی پر شدید تشویش کا شکار ہیں۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی قوم کی بقا کے لیے آبادی کی شرح پیدایش میں جس کم سے کم اضافے کی ضرورت ہوتی ہے، اکثر مغربی ممالک اس حد تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ مغرب کی لاتعداد یونی ورسٹیوں اور ’مراکز دانش‘ میں اس موضوع پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اس وقت یورپ بالخصوص جرمنی خوش حالی اور معاشی ترقی کے رول ماڈل ہیں، لیکن اگر آبادی میں کمی کی شرح اسی رفتار سے جاری رہی تو چند عشروں کے بعد آبادی میں کمی کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا کرسکتا ہے ۔
دُور اندیش قومیں آنے والے مسائل کے حل ایک آدھ صدی پہلے تحقیق کے ذریعے ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’برلن انسٹی ٹیوٹ‘ کے ڈائریکٹر رینہر کولینگس کا یہ کہنا ہے کہ ’’عالمی منظرنامے میں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے یورپ کو آنے والے دور میں جن جدید اور اختراعی خیالات و افکار اور تجدیدی عمل پسندی کی ضرورت ہے، وہ نوجوانوں کے بغیر ممکن نہیں، لیکن افسوس کہ جن کی تعداد بہت تیزی کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔
ہمارے نزدیک آبادی میں کمی کی واضح وجوہ خواتین کا بڑی تعداد میں ورک فورس کا حصہ بننا، شادی کے رجحان میں کمی، طلاقوں کی زیادتی، ہم جنس جوڑوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ لیکن اس میں سر فہرست آزادانہ جنسی تعلقات کی قانونی اور معاشرتی اجازت ہے، جس کی وجہ سے جوڑے شادی کی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے، اور اسے ایک دوسرے کی قید تصور کرتے ہیں۔ مانع حمل طریقوں اور اسقاطِ حمل کے حق نے آزادانہ جنسی تعلقات کو اور بھی آسان کردیا ہے۔ یہ حق بھی ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے تحت عورت کے حق کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔
یہ رجحانات محض سماجی تبدیلیوں کا ہی با عث نہیں بن رہے بلکہ فی الوقت مغرب کی سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں، جو اس وقت تارکینِ وطن کے گرد گھوم رہی ہے اور گذشتہ کئی عشروں تک گلوبلائزیشن (عالم گیریت) میں کامیابی کے بعد مغربی معاشرہ دوبارہ نسل پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ایسے میں ’میرا جسم، میری مرضی‘ یعنی فری سیکس کے نعرے کو خواتین کے حق کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ آزادانہ جنسی تعلقات خواتین کے خلاف ہی نہیں ملک اور قوم کی بقا کے خلاف بھی سازش ہیں اور اس سازش کو پروان چڑھانے والے ہی اس کا نشانہ بھی ہیں۔
سرمایہ داری اور اشتراکیت نے انسان کو زندگی آسان تر بنانے، فلاحی و عدم طبقاتی معاشرے بنانے اور عمومی مساوات قائم کرنے کے اعلانات بہت دیے۔ ان پر عمل درآمد کے مراحل میں انسان کو تجربہ ہوا کہ معاملہ تبدیل ہو کر مسئلہ بن گیا ہے۔
’عورت‘ کا مقام و مرتبہ بھی اسی طرح سے ان دونوں نظاموں کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔ اشتراکیت نے عورت کو طبقہ قرار د ےکر جدلیاتی کش مکش کا ایندھن بنا دیا۔ سرمایہ داری نے اس ایندھن کو استعمال کرتے رہنے اوراس آگ کو سلگانے کا ذریعہ بنائے رکھا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ عورت چنگاری بن رہی ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ اس کی تپش سے اس کی آزادی اور خود مختاری کا سورج روشن ہے۔
عورت گھر سے نکلی یا نکالی گئی ، اس سے قطع نظر کہ وہ نت نئے مسائل سے دوچار ہوتی رہی۔ ’حرکت میں برکت‘ والی اصطلاح کا لوگوں نے یہاں بھی استعمال کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گھر بیٹھی رہتی تو وہ انسانیت پر محض بوجھ ہی بنی رہتی۔ اس لیے عورت کو ورکنگ ویمن بنایا گیا اور وہ آزادی ، خود مختاری اور عوامی زندگی میں کردار ادا کرنے کی توقعات لے کر گھر سے باہر نکلی۔ اس طرح نکلنا اس کے اپنے لیے مسائل سے اٹا پڑا راستہ ثابت ہوا۔
ہم آج کی ورکنگ ویمن کے حالات پر نگاہ دوڑائیں، تو وہ مجسم شکایت نظر آتی ہے۔ وہ جنسی مسائل سے کہیں زیادہ دوچار ہے، اور کچھ نہیں تو نگاہوں کے نشتر (Eye Teasing)ہی اس کی روح کو گھائل کیے دیتے ہیں ۔ وہ تشدد زدہ بھی ہے اور خوف زدہ بھی،لیکن اس کو آگے لانےکی کوشش کرنے والوں نے گردن سے دبوچ کر اسے ان مسائل میں دھکیل رکھا ہے۔ وہ مرد سے زیادہ کام کرتی ہے، لیکن اس سے نصف اُجرت بھی مشکل سے پاتی ہے۔
یہ مسائل تب ہی شروع ہوگئے تھے ،جب عورت، ورکنگ ویمن بن رہی تھی۔ ان مسائل نے ایسی شدت اختیار کی کہ ان کی نوعیت امریکا میں بھی مقامی نہ رہی، ملکی اور قومی بنتی گئی۔ سرمایہ داری ان مسائل کی وجہ تھی اور اشتراکی علاج ڈھونڈنے والوں نے ۲۸فروری ۱۹۰۹ء کو یہ فیصلہ کیا کہ ’’اس تاریخ اور دن کو انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمن ڈے کے طور پر منایا جائے گا‘‘۔یہ تجویز جرمن خاتون کلارا زیٹکن (Clara Zetkin)نے پیش کی تھی۔ اسی دن کو ،پھر بین الاقوامی ویمن ڈے کہا گیا۔ گویا اشتراکیت نے سرمایہ داری کے پیدا کردہ مسئلے کو امریکا کے مقامی مسئلے کے بجاے عالمی بنا دیا۔
۱۹۱۷ء میں سابق سوویت یونین میں عورت کو بالغ راے دہی کے ذریعے ووٹ کا حق دیا گیا۔ یاد رہے کہ مغرب نے اس وقت تک عورت کو ووٹ کا حق نہیں دیا تھا۔ اس کامیابی پر جشن منانے کے لیے ۸مارچ کا انتخاب سوویت حکومت اور سوشلسٹ اداروں نے کیا۔ دنیا بھر کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ملکوں میں اسی سال یہ دن منایا گیا۔ اسے تحریک نسائیت (Feminism) نے ۱۹۶۷ء میں قبول کیا، لیکن مزید آٹھ سال بعد، ۱۹۷۵ء میں اس دن کو اقوام متحدہ نے عالمی یومِ نسواں قرار دیا۔
سرمایہ داری سے اس دن کا واضح تعلق ۱۹۷۵ء کے بعد سے ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۰۹ء کے بعد اگست ۱۹۱۰ء میں یا اس کے لگ بھگ دو اہم واقعات رُونما ہوئے۔ سیکنڈ سوشلسٹ انٹرنیشنل کا انعقاد ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ہوا۔ اس کے بعد امریکا کے شہر نیویارک میں ۱۹۱۰ء میں انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمن کانفرنس ہوئی۔ اس سے ایک سال قبل سوشلسٹ خاتون ورکر تھریسا مالکیل(Theresa Malkel)نے بھی یہ دن منانے کی تجویز دی تھی۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ یہ دن ۸مارچ ۱۸۵۷ء میں نیویارک میں گارمنٹس صنعت کی خواتین کارکنان کی حالتِ زار پر احتجاج کے طور پر منایا گیا تھا، تاہم اس کی زیادہ تفصیل سامنے نہیں آسکی۔
۱۹۱۱ء میں یہ دن ۱۹مارچ کو منایا گیا۔ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی، سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں بھی یہ دن ۱۹مارچ کومنایا گیا۔ اس دن سیکڑوں جلوس نکالے گئے اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ امریکامیں ہر سال فروری کے آخری اتوار کو یہ دن منایا جاتا رہا۔اس کی سال بہ سال تاریخ کا حوالہ ضروری نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس دن کو اشتراکیت ا ورسرمایہ داری نے مختلف حوالوں سے منایا۔
۸مارچ کی مناسبت سے دیکھا جائے تو تحریک نسائیت سرگرم عمل ملتی ہے۔ اس تحریک (Feminism)کو عرف عام میں تحریک نسواں بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے موضوع میں عالمی یومِ نسواں کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اسی مناسبت سے ہمارے ہاں اسے عالمی یوم خواتین کہا جاتا ہے۔
ہم پہلے اس پر غور کرتے ہیں کہ یہ عالمی یوم خواتین سوشلسٹ طبقات کی نمایندگی کرے تو اس سے کیا مفہوم برآمد ہوتا ہے؟ اس بارے میں یاد رہے کہ تحریک نسائیت کے چار بڑے مکاتب ِفکر ہیں۔ ان میں تقسیم موجود ہے۔ سوشلسٹ فکر کے قریب کے دو مکاتب قرار دیے جاسکتے ہیں:
- سوشلسٹ نسائیت: اس سے مراد وہ نسائی حلقے (Feminists)ہیں، جو کارل مارکس اور اینجلز کے نظریات پر کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق:
__ مرد اور عورت دو طبقات ہیں (بعدازاں سارے طبقات صنف (Gender)پر رضا مند ہوئے)۔ معاشرے میں دوسری طبقاتی کش مکش کی طرح یہ بھی ایسے ہی متحارب طبقات ہیں۔ اس طرح عورت اپنے مفادات کے حصول کے لیے مرد کے مقابلے پر کھڑی ہے اور مرد عورت کے مدمقابل ہے۔
__ عورت کو نظام سرمایہ داری نے غلام بنا رکھا ہے۔ وہ اس کی وجہ سے دوہری مشقت میں ہے۔ ایک مشقت وہ ہے ،جو وہ فیکٹری میں مزدور بن کر کرتی ہے اور رات کو گھر واپس آکر شوہر اور گھر کے لیے کرتی ہے۔ یوں وہ پیداوار اور عمل پیداوار میں ایک کل پُرزے کے طور پر کام کرتی ہے۔
__ عورت خاندان کی صورت میں ایک پدرسری (Patriarchal)نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس کی تقدیر کے فیصلے باپ، بیٹا ، بھائی یا شوہر کی صورت میں مرد کرتا ہے۔
__ اس کی آزادی، خود مختاری کا ذریعہ یا راستہ اس پدرسری سماج، یعنی خاندان کا خاتمہ ہے۔
l لبرل اور ریڈیکل نسائیت: سرمایہ داری کی نمایندہ تحریک ہے۔ اس کے مطابق:
__ عورت اور مرد برابر کی صنف (Gender)ہیں۔ ان میں مساوات ضروری ہے۔ اسے صنفی مساوات(Gender Equality)کہا جاتا ہے۔
__ ہر ملک کے قانون، معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی ضابطوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ عورت بھی مرد کے مساوی فیصلہ سازی میں کردار ادا کرے۔ بجٹ سازی میں صنفی تصورات (Gender Concepts)کے مطابق کام کیا جائے تاکہ وسائل، پراجیکٹس اور ان کی فیصلہ سازی میں عورت برابر کی سطح پر شریک رہے۔
__ عورت کا جسم اس کی ملکیت ہے۔ کسی کو اس کے جسم پر کسی نوعیت کا تصرف حاصل نہیں ہے۔ کوئی مذہب، قانون، اخلاق یا معاشرہ کسی عورت سے یہ تصرف کسی شادی، نکاح، طلاق ، اکٹھے رہنے یا نہ رہنے کے نام پر یا کسی بھی طرح حاصل نہیں کر سکتا۔ عورت کو اپنے جسم کے مکمل اور جملہ استعمالات میں خود مختاری حاصل ہے۔
__ عمل تولید عورت کے فیصلے سے مشروط ہے۔ وہ نکاح یا شادی کے باوجود چاہے تو شوہر کو حقوق زوجیت سے روک سکتی ہے۔ بچے پیدا کرنے، نہ کرنے، بچوں کی پیدایش میں وقفہ، اپنے بچے کے لیے کرایے کی کوکھ لینے، کسی کے بچے کو اپنی کوکھ میں پالنے کا فیصلہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کا اسے اختیارِ کلی حاصل ہے۔ ریڈیکل اور لبرل حلقے اس کی تائید کرتے ہیں۔
یہاں مزید دو نکات بھی زیرغور ہیں:
- پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمان کا اس دن سے کیا تعلق ہے؟ دنیا میں اس دور میں بہت سے کام ہو رہے ہیں، بہت سے ایام منائے جا رہے ہیں۔ یہ کام نئے بھی ہیں اور پرانے بھی۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ ہم کسی بھی کام یا ایام کے حوالے سے فیصلہ کریں کہ اسلام ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
ہمارا فیصلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ عصر حاضر میں اسلام اور مسلمان ان سے کس طرح سے اور کس حد تک متاثر ہو رہے ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ جب ہم ویلنٹائن ڈے کا ذکر سنتے ہیں، تو فیصلہ کرتے ہمیں دیر نہیں لگتی۔ اسی طرح ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن، استاد کا عالمی دن، خاندان کا عالمی دن، غرض یہ کہ کوئی بھی دن ہو، ہمیں فیصلہ کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ عالمی یوم خواتین یا عالمی یوم نسواں کے بارے میں بھی یک سو رہنا چاہیے کہ یہ ہمارا دن نہیں ہے۔ یہ اسلامی یا غیر اسلامی کی بحث نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے :
__ اس دن کے دونوں پس منظر ہمارے سامنے ہیں ۔ ان کے لیے کام کرنے والوں سے ہم واقف ہیں۔ یہ دنیا میں تہذیبی شناخت کا معاملہ ہے۔ ہماری تہذیبی شناخت ہمیں ان دنوں کے پس منظر سے الگ کرتی ہے ،تو ان کا حل بھی متفقہ کیوں کر ہو سکتا ہے؟
__ یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہم اس دن کو چھوڑ دیں تو عورت کے بارے میں ہمارے تصورات کون جان پائے گا؟ سیدھی سی بات ہے کہ آپ اس دن ان تصورات سے ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں گے، جن پر آپ کاربندہیں۔ فرق ظاہر کرنے کے لیے اس دن کو نظر انداز کر دیں۔ ایسا دن اپنے وقت، تاریخ اور اہمیت کے مطابق منایا جاسکتا ہے۔
__ یہ امر پیش نظر رہے کہ یہ دنیا نظریاتی تضادات کی دنیا ہے۔ مسلم عورت پر ہونے والے اعتراضات، حملے اور الزامات ایک طرف، اسلام اور عورت کو جدا کرنے کے ایجنڈے کا، خواہ وہ کسی بھی طرح سے اشتراکی ہو یا سرمایہ دارانہ ، حصہ نہیں بننا چاہیے۔
- دوسرا نکتہ اسلامی یا مسلم نسائیت کے حوالے سے بیان کرنا ضروری ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمارے معاشروں میں بعض رجحانات راہ پاتے جا رہے ہیں، جس کے تحت ہر تصور اور نظریے کو ہم ’مسلمان‘ یا ’اسلامی‘ بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ رجحان عمومی یا مقامی نہیں ،بلکہ یہ خصوصی اور عالمی ہے۔ یہ عمومی اس لیے نہیں ہے کہ اس کی ابتدا کرنے والے عامتہ المسلمین میں شمار نہیں ہوتے۔ وہ خصوصی پہچان کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اسلام کو بنیاد پرست، رجعت پرست، قدامت پرست، توحید پرست وغیرہ بنانے کے مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ سارے کام عام مسلمان نہیں کرتا۔ اسی طرح سے نسائیت ہے۔ اسلامی نسائیت یا مسلم نسائیت کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ ان کو جاننا کیوں ضروری ہے؟مسلمانوں میں ’مسلم نسائیت‘ کا فتنہ عجیب و غریب تصورات پیش کرتا ہے، جیسے:
٭ قرآن ایک پدرسری کتاب ہے، مرد کی حکمرانی عورت پر مسلط کرتا ہے۔ اللہ کی تذکیر و تانیث کو مرد کی مثال سے پیش کرتا ہے۔ کچھ نسائی خواتین اس سے اختلاف ضرور کرتی ہیں، تاہم خاندان کو عورت کے محکوم و مجبور بنانے کا مرکز قرار دیتی ہیں۔
٭ قرآن کے مفسرین مرد تھے، عورتیں بھی تھیں ،لیکن ان مرد مفسرین نے قرآن کی دعوت اور پیغام کو جس طرح سے تفاسیر میں پیش کیا، وہ عورت سے نفرت کا کلچر بنا۔ اس طرح سے تفسیر قرآن دراصل عورت سے نفرت کو وسعت دینے کا سبب بنی(اس سے محتاط بات شاید نہیں لکھی جاسکتی )۔
٭ قرآن سمجھنے کے لیے کسی شارح کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر شارح نے ہی سمجھانا ہوتا تو قرآن کی قدر کم ہو جاتی اور شارح کی بڑھ جاتی۔ ہر دور میں انسان اپنی عقل سے ہی قرآن سمجھ سکتا ہے۔
٭ سنت اور حدیث کا علم اسلام کا ماخذ نہیں ہے۔ یہ بعد کی اختراعات اور ایجادات ہیں۔
آپ غور کریں تو اس مختصر و محتاط تعارف سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حکیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فقط یہ تعلق ہے کہ آپؐ پہنچانے اور منتقل کرنے والے تھے۔ اہل مغرب نے بہت کوشش کی کہ قرآن اور رسالتؐ کو الگ الگ کر دیا جائے۔ یہ کام ’مسلم نسائیت‘ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔
المختصر ! ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اسلام نے جن ایام، اصطلاحات اور امور تک ہمیں راستہ دیا ہے، ان سے ہم اس لیے تو تجاوز نہیں کر رہے کہ دنیا کا ساتھ دے سکیں۔ اگر ایسا ہے، تو ہم دنیا کا ہی ساتھ دے رہے ہیں۔ اسلام میں ایسے معذرت خواہانہ کردار کی کتنی گنجایش ہے؟ فیصلہ خود کیجیے!
قرآن کریم میں سود کے لیے ’ربوٰ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لفظ کے مفہوم کی وضاحت کردی جائے، تاکہ اس کی حُرمت کے اسباب کا ادراک ہوسکے۔ یہ بات قابلِ فہم بن جائے کہ اس کے حرام نہ سمجھنے کی وجہ سے اور انسانی معاملات میں اس کے جاری ہونے کے سبب انسانی معاشرے کو کیسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ربوٰ کے لفظی معنی اضافہ کے ہیں۔ کسی بھی واجب الادا شے یا مال میں ایسا مشروط اضافہ جس کا کوئی عوض نہ ہو، اسے ربوٰ کہتے ہیں۔ واجب الادا رقم یا شے کو ادا کرتے وقت اگر کوئی شخص ازخود زیادہ واپس کردے تو اسے ربوٰ نہیں کہیں گے، لیکن اضافہ شرط کا حصہ ہے تو وہ ربوٰ ہوگا۔ اسلامی شریعت اس بات کی وضاحت کردیتی ہے کہ واجب الادا رقم یا شے میں اضافے کا درست عوض کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جن وجوہ سے اضافہ ممکن ہے ان کی وضاحت کردی گئی ہے اور اب اگر اس اضافے کے درست ہونے کے لیے کوئی اور دلیل لائی جائے تو وہ ناقابلِ قبول ہوگی۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے اپنی ایک تقریر میں اضافے کی درست وجوہ کو یوں بتایا ہے: ’’ربوٰ کا مطلب کسی بھی بیع میں راس المال میں وہ اضافہ ہے، جس کا سبب اس کے بالمقابل محنت، مہارت، خطر یا شے نہ ہو‘‘۔ اس طرح واجب الادا رقم یا شے میں ان چار اسباب کے علاوہ اضافہ ناحق ہے اور وہ حرام ہے۔
سود کے حق میں ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ جیسے کسی شے یا جایداد کے حقِ استعمال کے طور پر متعین کرایہ دینا درست ہے، اسی طرح کسی کے مال کو استعمال کرنے کے عوض طے شدہ شرح پر سود دینا جائز ہونا چاہیے۔ دراصل یہ دلیل اسلامی شریعت کے ایک بنیادی اصول سے ناواقفیت کی بنا پر دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: اسلامی احکام میں کسی چیز کے ’استعمال‘ (use) کرنے اور ’صرف‘ (consume) کرنے میں تمیز کی گئی ہے۔ جو چیز استعمال کی جاتی ہے وہ دراصل اپنی اصل حالت میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے استعمال کے عوض ’اجر‘ (کرایہ) دینا جائز ہے۔ مثلاً ’الف‘ نے ’ب‘ سے ایک مکان ایک ماہ کے لیے کرایے پر لیا۔ ماہ کے اخیر میں مکان ’الف‘ کو واپس ہوجائے گا اور اس مدت کے حقِ استعمال کے طور پر پہلے سے طے شدہ کرایہ’ب‘ کے ذمہ واجب الادا ہوگا۔ دوسری طرف جو چیز ’صرف‘ ہوجاتی ہے، وہ اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہتی ہے۔ اس لیے اس کے حقِ استعمال کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔ جتنی چیز ’صرف‘ کے لیے لی تھی، اتنی ہی واجب الادا ہوگی۔ مثلاً کسی نے اپنے پڑوسی سے دوکلو گرام چینی لی اور ’صرف‘ کر دی تو اب اسے صرف دو کلو چینی یا اس کی قیمت واپس کرنی ہوگی۔ اصل چینی تو وہ چٹ کرچکا ہے۔ اب اس کا حقِ استعمال بے معنی ہے۔
درج بالا اصول کا اطلاق رقم اور مال کے سلسلے میں کرنے سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ حقِ استعمال کے طور پر متعین شرح سود کیوں جائز نہیں ہے۔ جو مال قرض کے طور پر حاصل کیا جاتا ہے، وہ اپنی اصل صورت میں باقی نہیں رہتا، بلکہ مختلف ضرورتوں کے لیے ’صرف‘ کردیا جاتا ہے۔ مشین و سامان کی خریداری، مزدوری کی ادایگی اور تجارت کی دیگر ضروریات میں ’صرف‘ ہوکر اس مال کی شکل بدل جاتی ہے۔ اس کے بعد جو چیز تیار کی جاتی ہے، اس کے فروخت سے جو یافت ہوتی ہے، اس سے قرض کی ادایگی کی جاسکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مال اور رقم استعمال نہیں ہوتے بلکہ ’صرف‘ ہوجاتے ہیں۔ اس تصرف کے بعد زیادہ ادا کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا ہے۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی نے سود سے متعلق قرآنی آیات کا جائزہ لینے کے بعد انسانی نفسیات اور انسانی سماج پر اس کی وجہ سے مرتب ہونے والی درج ذیل پانچ خرابیوں کا ذکر کیا ہے:
۱- فساد فی الارض: زمین، عدل و قسط کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ اس نظام میں جب بھی ظلم کو روا رکھا جائے گا، اس کا توازن بگڑے گا اور زمین فساد میں مبتلا ہوجائے گی۔ سود ظلم پر مبنی ایک ایسا نظام ہے جو انسانی معاشرے کے تانے بانے کو بکھیر دیتا ہے۔
۲- اکل بالباطل: سود کے نتیجے میں اس نفسیات کو فروغ ملتا ہے کہ دوسروں کے پاس موجود دولت کس طرح خود کسی خطرے میں مبتلا ہوئے بغیر حاصل کرلی جائے۔ باطل طریقے سے بغیر محنت اور سعی کے دولت سمیٹنا انسانی معاشرے کا عمومی طریقہ بن جاتا ہے۔
۳- منفی شرحِ نمو: انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریاتِ زندگی کا ہمہ دم پھیلتا دائرہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ معیشت ترقی پذیر ہو اور اس کی شرحِ نمو (growth) ہمیشہ مثبت ہو،لیکن سود کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ انسان اپنی ضروریات کے لیے پیداوار اور خدمت کی جو صورتیں اختیار کرتا ہے، ان سب میں شرحِ نمو ایک جیسی نہیں ہوتی ہے اور ان سب کے مجموعی تعامل سے ترقی کی اوسط رفتار حاصل ہوتی ہے۔ شرحِ سود سے اس نظام میں خلل پڑتا ہے۔ پیداوار اور خدمات کی تمام صورتوں پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ شرح سود سے زیادہ نمو حاصل کریں، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ معاشی عمل کے نتیجے میں جو ترقی ہوتی ہے ، اس کا متعین حصہ سود کی ادایگی کی نذر ہوجاتا ہے اور جو چیز بچتی ہے، وہ اکثر منفی شرحِ نمو ہوتی ہے۔
۴- انسانی اقدار کی پامالی: انسانی شخصیت سود کے نتیجے میں پستی کا شکار ہوجاتی ہے۔عدل اور احسان اور تمام اعلیٰ انسانی اقدار کا فقدان ہوجاتا اور انسانوں کی دنیا جنگل کی دنیا بن جاتی ہے کہ جہاں ہر جان دار کے سامنے ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ خود اچھی طرح جی لے اور اس کے نتیجے میں اگر دوسرے کسی جاندار کا بُرا ہوتا ہو تو ہوتا رہے۔ قرآن نے سود خور کی مثال اس شخص سے دی ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کردیا ہو۔ اس کے نتیجے میں انسانی اقدار پامال ہوتی ہیں اور شیطان کی پسندیدہ اقدار فروغ پانے لگتی ہیں۔
۵- سود ناحق اور باطل ہے:پوری انسانی تاریخ میں سود کی خباثت پر اتفاق رہا ہے۔ البتہ پچھلی چند صدیوں میں سرمایہ دارانہ نظام میں اس ’ناخوب‘ کو اتنا ’خوب‘ بنا کرپیش کیا گیا ہے، گویا یہ ایک پسندیدہ عمل ہے، جس کے بغیر تمدن اور معیشت کی گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔ معلوم انسانی تاریخ میں سود کا رواج شروع سے پایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اسے ہمیشہ غلط سمجھا گیا ہے۔ تمام مذاہب کی تعلیمات میں سود اور سودخوری کے خلاف احکامات موجود ہیں۔
قرآنِ کریم نے سورئہ بقرہ، آیت ۳۵ میں سود کے مقابل زکوٰۃ اور سورئہ بقرہ، آیت ۲۷۶ میں صدقات کو پیش کیا ہے اور یہ بات بتائی ہے کہ اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے، جب کہ زکوٰۃ و صدقات انسانوں کے لیے مفید اور انسانی معاشرے کی ترقی کے ضامن ہیں۔ سورئہ بقرہ آیت ۲۷۵ میں معترضین کا یہ اعتراض دُہرایا گیا ہے کہ ’تجارت، سود کے مانند ہے‘۔ قرآنِ کریم نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ ’تجارت حلال ہے اور سود حرام ہے‘۔ ان آیات کی روشنی میں ایک طرف سود اور زکوٰۃ و خیرات کے فرق کے مطالعے اور دوسری طرف سود اور تجارت کے موازنے اور ان سب کے اثرات جو معاشرے پر پڑتے ہیں، ان پر غور کرنے سے سود کے بُرے اثرات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بیع کے لیے اُردو میں ’خرید و فروخت‘ یا ’لین دین‘ کے ہم معنی الفاظ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دراصل یہ انسان کے معاشی عمل کا مقصد ہے۔ ایک فریق اپنی پیداوار یا خدمات دوسرے فریق کو فروخت کرتا ہے اور اس کی قیمت وصول کرتا ہے۔ اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی آزاد مرضی سے، بغیر کسی جبر و اِکراہ کے اپنے اپنے معلوم فائدے کے لیے شریک ہوں۔ قیمت اگر نقد ادا کردی جائے تو بیع مکمل ہوجاتی ہے۔ ادایگی اگر نقد نہ ہو تو چند مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن کے ازالے کے لیے قرآن کریم نے تفصیلی احکام دیے ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ آیت (البقرہ۲:۲۸۲) قرآنِ کریم کی سب سے بڑی آیت ہے۔ وہ آیت، آیت الدین کہلاتی ہے۔ سود کا معاملہ اسی وقت پیش آتا ہے، جب ادایگی باقی رہ جاتی ہے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ جو رقم واجب الادا ہے، اس میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف سود پر مبنی نظامِ معیشت اس بات پر مصرہے کہ اس ادھار ادایگی میں سود کا عنصر شامل ہونا چاہیے۔
قرآنِ کریم کی متذکرہ آیت میں دونوں فریق کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے اور کسی کے حق میں کوئی ظلم روا نہیں رکھا گیا ہے۔ سودی نظامِ معیشت بائع کے حق میں فیصلہ کرتا ہے اور مشتری کے نقد ادایگی نہ کرسکنے کی بنا پر اس پر ظلم کرتا ہے، اور جو لین دین ایک دوسرے کی آزاد مرضی سے اور فائدے کے لیے ہوا تھا، اس میں سود کی گنجایش نکال کراس ’خیر‘ کو ’شر‘ میں تبدیل کردیتا ہے، اور فساد فی الارض کا باب وا کردیتا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ مستشرقین کی دونوں طرح کی تحریریں مسلم معاشرے کے حق میں بُری ثابت ہوئیں، کیونکہ انھوں نے اُمہ کے ذہن میں محرومی کا احساس بھر دیا۔ خواہ وہ مدح سرائی یا قصیدہ خوانی کی شکل ہی میں ہو۔ اس چیز نے موجودہ حقائق پر غوروفکر سے ہٹاکر، ہمیں شان دار ماضی کی خیالی جنّت میں پہنچا دیا۔ ہم پر اس طرح نکتہ چینی کی گئی اور ہمیں یوں بے قیمت ثابت کیا گیا کہ ہم موحدین کے بعد کے زوال پذیر معاشرے کے محافظ تصور کیے جانے لگیں۔ اس صورت میں ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اسلامی نقطۂ نظر کے تحت مستشرقین کی تحریروں کو علم و عقل کی کسوٹی پہ پر کھیں اور اسلامی حقیقت کو واضح کریں۔ اس لیے کہ اسلامی حقیقت کی وضاحت یا دفاع کا حق اور ذمہ داری مسلمانوں پر ہی ہے۔
اگر اس استشراق کا کوئی مثبت پہلو ہے، تو وہ اسلامی فکر کی قصیدہ خوانی نہیں بلکہ اس پر ٹھوس تنقید کی صورت میں ہے۔ اس لیے کہ جب استشراق کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جائے گا کہ ’’عربوں نے سائنسی علوم میں کوئی حصہ نہیں لیا‘‘ تو ہوسکتا ہے، اس کی تلافی سطحی علمیت سے کی جائے جیساکہ طنطاوی جوہری نے تفسیر میں کیا ہے۔ لیکن مثبت اور ٹھوس تنقید کے نتیجے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسلام کے مخالفین شدت پسندی اور حقیقت سے انکار کی بنا پر، اسلام اور سائنس کا مسئلہ ایک نئی شکل میں پیش کیا جائے، جو دین کے بلندمقام اور سائنس کی منطق سے زیادہ قریب ہو۔ قرآنی آیات میں کوئی خلا کو ڈھونڈنے یا ایٹمی توانائی کے تجزیے کا مفہوم تلاش کرنے کے بجاے، ہمارے سامنے اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا قرآنی آیات کی روح سائنسی عمل کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے یا اس کی ہمت افزائی کرکے اسے ترقی دیتی ہے؟
یہ سوال بھی توجہ چاہتا ہے کہ کیا قرآن کسی معاشرے میں سائنسی ترقی کے لیے سازگار فضا قائم کرسکتا ہے؟ اور کیاوہ سائنسی علوم کو قبول کرنے اور انھیں دوسروں تک پہنچانے کے لیے لازمی ذہنی صلاحیتیں بیدار کرسکتا ہے؟
اس ضمن میں ہمیں نفسیاتی اور سماجی پہلو سے مسئلے کو پیش کرنا چاہیے، نہ کہ سائنسی علوم کی ترقی کے پہلو سے ۔اگر ہم اسلامی فکر کو اس پہلو سے صحیح ثابت کرسکیں تو اس کے کھاتے میں ان دو انکشافات کو درج کرسکتے ہیں، جن کے بغیر بیسویں صدی کی سائنسی ترقیات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آج نیوکلیائی سائنس کے باب میں جو حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے، کیا طبیعیات کے ماہرین اسے ریاضی کے قواعد اور الیکٹرانک کیلکولیٹر کے بغیر حاصل کرسکتے تھے؟ اور کیا یہ آلات اعشاری نظام کے بغیر اپنا عمل جاری رکھ سکتے تھے، جس کے ذریعے ہم مثلاً ایووگیڈرو نمبر{ FR 645 } کے صرف پانچ یا زیادہ صحیح یہ کہ سات نمبروں کو لکھ سکتے ہیں؟ کیا ریاضی کا یہ حیرت انگیز نظام اس ذہنی فضا کا ثمر نہیں ہے، جو اسلامی معاشرے میں قرآنی تعلیمات نے قائم کی تھی؟
یہاں ہم ریاضیات کی ترقی میں ’الجبرا‘ کے کردار پر بھی سوال اُٹھائیں گے، جس نے مادی اعداد کے علم کو خالص رُموز و علامات کا علم بنادیا۔ ’الجبرا‘ کا لفظ ہی اس کے عرب ماخذ کی نشان دہی کے لیے کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی عقل، اسلامی دانش کی اس معنی میں احسان مند ہے کہ اس نے ایک ایسا ذریعہ دیا، جس کے بغیر انسانیت ریاضیاتی سائنس کے میدان میں ترقی نہیں کرسکتی تھی۔ ہمیں اس کی فکر نہیں کہ فرید وجدی کی طرح مستشرقین کے کاسہ لیس شاگردوں نے بغیر کسی دلیل و ثبوت کے ’الجبرا‘ کو یونانی فلسفی دیوفانتوس کی طرف منسوب کر دیا، بلکہ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ’الجبرا‘ کا علم اس ذہنی فضا میں پیدا ہوا تھا ،جو قرآن نے قائم کی تھی۔ لیکن یہ بھی ایک بے معنی اور طفلانہ حرکت ہوگی کہ سائنسی علوم کی ترقی کی نشان دہی کرتے ہوئے ہم اعشاری نظام اور ’الجبرا‘ کو قرآنی آیات سے مربوط کردیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں براہِ راست اعشاری نظام یا ’الجبرا‘ کا ذکر نہیں ہے، لیکن قرآن نے ایک ایسی نئی ذہنی فضا ضرور قائم کر دی، جس میں سابقہ یونانی اور رومی دور کی طرح سائنسی علوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ سائنسی ترقی کو صرف سائنس کی کامیابیوں میں نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اسے ان تمام ذہنی اور سماجی حالات کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے، جن سے ایک مخصوص ماحول تشکیل پاتا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہردور میں عقل کی دل چسپی کے مراکز ذہنی فضا کی تبدیلی کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔
ہم تاریخی اعتبار سے صنعت اور صنعت کاری کو ڈونیس بیبان کے انکشاف سے مربوط کرسکتے ہیں، جس نے آگ پر رکھی ہوئی کیتلی کے ڈھکن کو بھاپ سے اُوپر نیچے ہوتے دیکھ کر اتفاقیہ طور پر اسٹیم کی طاقت دریافت کرلی تھی۔
لیکن ہمیں یہاں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آگ کے انکشاف کے لمحے سے لے کر یہ اتفاق تمام انسانی نسلوں میں پیش آتا رہا تھا، لیکن بیبان کے دور تک کوئی شخص بھی بھاپ کی طاقت کا انکشاف نہ کرسکا۔ ایسا کیوں تھا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈونیس بیبان یا انگریز موجد واٹ اپنے تجربات اور جائزوں کو اس نئے ذہنی ماحول میں پروان چڑھا رہے تھے، جو یورپ میں دو صدی پہلے سے قائم تھا، جب ڈیکارٹ نے میتھڈ پر اپنی مشہور کتاب میں اس طرح پیش گوئی کی تھی:
ایسے علم کا حصول ممکن ہے جس کی زندگی میں نفع بخش طریقے سے تطبیق کی جاسکے۔ اس طرح درس گاہوں کو تصوراتی فلسفہ ترک کرکے ایسے فلسفے کی تعلیم دینا چاہیے، جو تطبیق کے قابل ہو۔ آگ، ہوا، اجرامِ فلکی، اور آسمانوں اور ہماری زمین کے اردگرد جو سیارے ہیں، ان سب کے بارے میں معلوم کرکے ہمیں یہ موقع فراہم کرے، کہ خود ان کے قانون کے تحت اسے اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرسکیں، تاکہ ہم فطرت کی قوتوں پر قابو پاکر انھیں زیراستعمال لاسکیں۔
یہ عبارت واضح طور پر ڈیکارٹ کے بعد آنے والے سائنس اور ٹکنالوجی کے انقلاب کی پیش گوئی اور اس راہ کی نشان دہی کر رہی ہے، جسے سودمند علمی حقیقت کی تلاش کے لیے یورپی فکر نے اختیار کیا۔ یہ ضروری تھا کہ اس راہ پر چل کر یورپی فکر کو اسٹیم کی طاقت ملتی، خواہ اس کا انکشاف کرنے والا ڈوینس بیبان ہوتا یا کوئی اور۔
اس طرح ڈیکارٹ کے اسلوب اور قاعدے (میتھڈالوجی) نے وسیع پیمانے پر وہ ذہنی ماحول تشکیل دیا، جس میں فائدے کی متلاشی عقلی توانائیاں پروان چڑھیں، جو نئی تہذیب کی علامت ہیں۔
٭سائنس کیا ہے؟ یہی وہ مقام ہے، جہاں ہم اسلام اور سائنس کے عمومی تعلق کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس لیے کہ مظاہرِ قدرت کی دنیا کے مقابلے میں ایک مسلمان قرآنی متن کے زیراثر اسلامی ذہن سے اپنے لیے جو راہ اختیار کرے گا، اور جس نئے عقلی ماحول میں یہ ذہن ترقی کرے گا، یہ سب درحقیقت مسئلے کے مختلف بنیادی پہلو ہیں۔
سائنس بذاتِ خود معلومات کا اور اسے حاصل کرنے کے طریقوں کے مجموعے کا نام ہے۔ لیکن اس تعریف میں جو ہم نے سائنسی ترقی کی تاریخ کے نقطۂ نظر سے کی ہے، کچھ اور اضافہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ سائنسی ترقی صرف اسی گوشے تک محدود نہیں ہے ، بلکہ اس کے لیے متعدد ذہنی اور سماجی شرائط لازم ہیں، جو منفی یا مثبت طریقے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس طرح کہ وہ یا تو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی یا اسے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کریں گی۔
اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جب گلیلیو نے سورج کے گرد زمین کے گھومنے کا نظریہ پیش کیا، تو اسے کسی علمی مخالفت کا نہیں بلکہ مخصوص مذہبی عقائد کے اختلاف کا سامنا کرنا پڑا۔ گلیلیو کو کسی سائنسی اکیڈمی نے مجرم قرار نہیں دیا تھا، بلکہ ایک مذہبی عدالت نے عیسائی عقیدے کے تحفظ کے نام پر مجرم قرار دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ گلیلیو کو جبرو محرومی کے متعدد عوامل نے مجرم قرار دیا تھا جو اسے موت کی سزا سنانے والے اس معاشرے کی ذہنیت میں جمے ہوئے تھے۔
اس بات کی حقیقت اور مفہوم کو سمجھنے کے لیے ہمیں ڈیکارٹ سے پہلے کے اس یورپی معاشرے کو دیکھنا ہوگا، جس نے فلکیات کے ایک بڑے سائنس دان کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس معاشرے میں [ستاروں کا علم رکھنے کا دعویٰ کرنے والے]نجومی کو ایک اہم ترین مشیر کا مقام حاصل تھا، جیسے تھوسٹراڈ موسی جو فرانس کے ایوانِ شاہی میں ملکۂ کاترینا کا مشیر خاص تھا۔
اس امر کی مزید وضاحت کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر یہ گلیلیو،ایک مسلممعاشرے میں زندگی گزار رہا ہوتا (باوجودیکہ اس دور میں مسلم تہذیب رُوبہ زوال تھی) تو اسے ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا، جو اس کی علمی تحقیق کی راہ میں رکاوٹ بنے اور نتیجے کے طور پر اسے اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تیسری صدی ہجری کے اوائل میں اس دور کے ایک بڑے ملحد اسحاق ابن الراوندی [م:۹۱۱ء] نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا تھا:
لَقَدْ تحجر عَرِیْضًا اِبْنِ اَبِیْ کِبْشَۃَ حِیْنَ ادّٰعِی اَنَّہٗ خَاتَمَ الْاَنْبِیَآء (ابن ابی کبشہ نے کس ہٹ دھرمی سے آخری نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے)
سب کو معلوم ہے کہ یہاں ’ابن ابی کبشہ‘ سے کون مراد ہے؟ اسلام کی عظیم ترین ہستی کی شان میں گستاخی کے باوجود ابن الراوندی پر مقدمہ چلانے اور اسے مجرم قرار دینے کے لیے کوئی مذہبی عدالت نہیں لگائی گئی، تاہم اسے اپنی گستاخی کا نتیجہ خود بھگتنا تھا۔ اس نے مکہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں خودکشی کرلی۔
اسی طرح قرآن کے بارے میں اندلس کے ایک یہودی کی دریدہ دہنی کے خلاف ابن حزم نے بڑا مؤثر جواب دیا تھا، جو رسالۃ ابن التجریلۃ کے نام سے مشہور ہے۔ ایسے سخت رو واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نئے ذہنی ماحول میں، جب اسلامی معاشرہ دنیا کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ اور مثالی معاشرہ تھا، فکروخیال کی آزادی کو زبردستی ختم نہیں کیا جاتا تھا۔
اسلامی تاریخ میں فکری جبر کی مثالیں شاذونادر ہی ملیں گی، جیسے مامون الرشید کے دور میں ’خلق قرآن‘ کا مسئلہ سامنے آیا تھا۔ ان حالات میں بھی بعض اُمور سامنے آتے ہیں،جو فکری جبر کی شدت کے عوامل کو ممکن حد تک کم کردیتے تھے۔یہ اُمور اسلامی ضمیر میں قرآنی تعلیمات کے زیراثر جاگزیں تھے۔ آیئے دیکھیں کہ نزولِ وحی کے بعد سے کیسا ذہنی ماحول تشکیل پارہا تھا؟
٭ نزولِ وحی کے بعد کا ذہنی ماحول: عہد نامہ قدیم میں باب ’پیدایش‘ کی ابتدا کائنات کے مادی مظاہر سے ہوتی ہے۔ انجیل یوحنا کے عہدنامہ جدید کی ابتدا تجسیم کے عمل سے ہوتی ہے، جب کہ قرآن کی ابتدا ذہنی پہلو لیے ہوئے ہوتی ہے: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ ، ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے‘‘۔ اِقْرَاْ …یہ پہلا لفظ ہے جو پہلے اسلامی ضمیر، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمیر پر وارد ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہرمسلمان کے ضمیر پر اپنے لیے جگہ بناتا چلا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ الفاظ ہی ’روح‘ اور پیغام و بیان کا وسیلۂ اظہار ہیں۔ وہ ہرمعرفت کے حامل اور علامت ہوتے ہیں۔ نزولِ قرآن کا اوّلین لمحہ اِقْرَاْ کی شکل میں الفاظ کی اہمیت کی نشان دہی، ان کے موضوع کا خصوصی تذکرہ اور اسلامی ضمیر میں ان کی قدروقیمت کو ثبت کردیتا ہے۔
لفظ، ’روح‘ کو منتقل کرنا اور اس کے پیغام کو پہنچانا ہے اور اس کے ساتھ اسے ضائع ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ لفظ سب سے پہلے خود قرآن کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کا چودہ سو سال سے ایک حرف بھی نہیں بدلا جاسکا۔ اس کے برعکس دورِ قدیم سے دورِ جدید تک کی تمام کتابیں ہیں کہ جن کی تاریخی صداقت کو جدید تنقید ، علمی توثیق کے بغیر صرف علامتی حیثیت میں قبول کرتی ہے۔
یہ خصوصیت اس جدید فکر کا پہلا علمی نتیجہ تھی، جو قرآنی فضا میں پروان چڑھی۔ اس ماحول کا آغاز ٹھیک اس وقت ہوا، جب سیّدنا عثمانؓ کے زمانے میں نوخیز اسلامی معاشرے نے قرآنی آیات کو جمع کیا، تاکہ انھیں ضائع ہونے سے بچایا جاسکے اور ان کا اس طرح احاطہ کیا جاسکے کہ کسی قسم کی تبدیلی کی گنجایش باقی نہ رہے۔ سیّدنا زید بن ثابتؓ کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے یہ کام انجام دیا تھا۔ درحقیقت منہج (میتھڈ) کے مطابق یہ پہلا علمی کام تھا۔ زیربحث موضوع میں اس کی تفصیلات کا تذکرہ ممکن نہیں، لیکن تدوین قرآن میں جس محنت، احتیاط اور متن کی صحت سے کام لیا گیا ہے، اسے جدید تنقید کی نظر میں قابلِ ستایش ہونا چاہیے۔
درحقیقت یہ فکر ِاسلامی کا ہی نہیں بلکہ اس انسانی فکر کا پہلا علمی کارنامہ تھا، جس نے قابلِ تقلید مثالی شخصیت کے سامنے بے چون و چرا سر جھکا کر اپنی طویل تاریخ میں بارہا ٹھوکریں کھائی ہیں، بلکہ اس جدید دور میں بھی بسااوقات انسانی فکر کے قدم ڈگمگائے ہیں۔ اس سلسلے میں سوویت یونین [اشتراکی روسی سلطنت]کی مثال دی جاسکتی ہے، جہاں بائیولوجی جدید سائنسی قافلہ سے ۳۰سال پیچھے رہ گئی کیونکہ لیسنکو نے خود کو قابلِ مثال نمونہ سمجھ لیا تھا۔
تمام انسانی معاشروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انھیں اپنی ذہنی عمر کی ترقی کے مختلف مراحل میں اس طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانیت اپنی ذہنی ترقی کے عمل میں عمر کے بالعموم تین مراحل سے گزرتی ہے:
عمر کے پہلے دور (ایامِ طوفُولت) میں وہ اپنے فیصلے ’عالم الاشیاء‘ (مادی اشیا کی دنیا) کے معیار کے مطابق کرتی ہے۔ اس طرح کہ اس کا معمولی سا فیصلہ بھی ابتدائی ضرورت کے مطابق ہوگا۔
اپنی عمر کے دوسرے دور میں انسانیت کے اپنے فیصلے مثالی نمونے کے اصول و معیار کے مطابق ہوں گے، اور ان کا تعلق ’عالم الاشخاص‘ (اشخاص کی دنیا) سے ہوگا۔ اس مرحلے میں فکروخیال تجسیم سے دُور نہیں ہوتا۔ اس کی ساری قیمت اس ذات پر منحصر ہوتی ہے، جو ہماری نظروں میں فکروخیال کا مجسم نمونہ ہوتی ہے۔
اس کے بعد انسانیت بلوغ کے مرحلے، یعنی اپنی عمر کے تیسرے دور ’عالمِ الافکار‘ (افکار کی دنیا) میں داخل ہوتی ہے۔ اس وقت افکار کی بذاتِ خود ایک منفرد حیثیت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ’عالم الاشیاء‘ یا’عالم الاشخاص‘ میں سے کسی کی توثیق کی ضرورت نہیں رہتی۔
یہاں اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ انسان جب عقلی پختگی کی عمر کو پہنچ جاتا ہے، تو فکر اپنی قدروقیمت کی بقا کے لیے اشخاص یا اشیا کی محتاج نہیں رہتی۔ آگے آنے والی ایک قرآنی آیت اس صورتِ حال کو پوری طرح واضح کردے گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسلامی فکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑی حد تک مربوط تھی۔ جس معاشرے میں اسلام کی دعوت دی جارہی تھی، اس کی نظروں میں یہ فکر آپؐ کی ذات میں مجسم تھی۔ لیکن قرآنِ کریم چاہتا تھا کہ اس کی آیات اس قید سے آزاد ہوجائیں، تاکہ جدید معاشرہ بھی اس قسم کی تمام قیود سے آزاد ہوجائے، جو علم وفکر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۰ۭ (اٰل عمرٰن۳:۱۴۴)محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسولؐ ہیں، اُن سے پہلے اور رسولؐ بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پاؤں پھرجاؤ گے؟
اس آیت کے نزول نے نوخیزمعاشرے کو مادی اشیا اور شیئیت (مادہ پرستی)کے دور سے نکال کر فکر کے دور میں پہنچا دیا۔
٭ علم کی حقیقت:ہم دیکھتے ہیں کہ نزول اِقْرَاْ کے بعد سے اس معاشرے کے نفسیاتی خدوخال میں تبدیلی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں ایک نیا ذہنی ماحول وجود میں آیا۔ اس کے ساتھ اس ماحول پر ایسے تجربات کیے جارہے تھے، تاکہ نوخیز اسلامی ضمیر میں اس کی شکل خوب واضح ہوجائے۔ قرآن سوال کرتا ہے:
ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۰ۭ (الزمر ۳۹:۹) کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟
مذکورہ آیت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سوال کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، وہ درحقیقت اسلامی ضمیر میں علم کی قدروقیمت بٹھانے، اور نئے معاشرے میں جاہل کے مقابلے میں اہلِ علم کی فوقیت کا اعلان تھا۔
اگر چند لفظوں میں علم کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ’’ ہرمیدان میں حقیقت کی تلاش کا نام علم ہے ، خواہ وہ اخلاق، قانون اور سماجیات ہوں یا طب و طبیعیات وغیرہ‘‘۔ البتہ اس تلاش کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں اور وہ تلاش بے راہ بھی ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم کسی وہم کو حقیقت سمجھ لیں اور خیالات کے جنگل میں بھٹک جائیں۔ بسااوقات خیالات غلط بھی ہوتے ہیں۔ علم کو ایسے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، جن میں عقل شک و یقین کی کیفیت میں مبتلا ہو۔ اسے ان حالات کے مقابلے کے لیے عقل کو تربیت دینا چاہیے۔
قرآن نے اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا، بلکہ وہ اشارے کنائے میں اس طرف توجہ مبذول کراتا ہے، مثلاً وہ ’حقیقت‘ اور ’وہم‘ کا فرق یہودیوں کی بدعنوانی اور گمراہی کے واقعات سنا کر واضح کرتا ہے:
وَمِنْھُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ۷۸ (البقرہ ۲:۷۸) ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں۔ بس اپنی بے بنیاد اُمیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔
یہاں نفس کا میلان، شک و شبہہ اور محض امکانات بے یقینی کی مختلف کیفیتیں ہیں، جنھیں ہم ایک ’روشن حقیقت‘ کے بالمقابل نہیں رکھ سکتے کہ جو ذہنی یقین کی واضح ترین شکل کی نشان دہی کرتی ہے۔ پھر دوسری قرآنی آیات میں اس روش کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو زیربحث موضوع کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیے بغیر ان مسائل پر بحث کرے، جن کا اسے کوئی علم نہیں ہے:
ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ حَاجَجْتُمْ فِـيْمَا لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْـمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۶۶) تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو اُن میں تو خوب بحثیں کرچکے، اب اُن معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔
یہ قرآنی آیات، اسلامی فکر کو علم کی راہ پر گامزن کرتی ہیں اور حصولِ علم کے لیے اسے بہتر طریق کار کی ہدایات دیتی ہیں۔ اس اعتبار سے قرآن کے نظام تعلیم و تربیت کا تفصیلی مطالعہ ضروری ہے۔ تاہم، قرآنی تصور کو حدیث نے عملی طور پر ان احکام کی شکل میں پیش کیا ہے جن کا تعلق براہِ راست مسلمان کی روزمرہ زندگی سے ہے: ’’علم کا حصول ہرمسلمان پر فرض ہے‘‘۔ ایسی احادیث، عملی طور پر ان ذہنی بنیادوں کو مزید مستحکم کرتی ہیں، جو فکر ِ اسلامی میں قرآن کے زیراثر قائم ہوئی تھیں، تاکہ یہ اسلامی فکر اپنے علمی، سیاسی اور معاشرتی کردار کو بہتر طریقے پر انجام دے سکے۔
قرآن کے جس نظامِ تربیت نے نئے معاشرے کو عقلی ذمہ داریوں کے لیے تیار کیا تھا، اس کے اثرات فرد کے طریق عمل اور زندگی کے معمول کے مطابق تجربات میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عمر بن الخطابؓ ایک دن مدینہ کی کسی گلی سے گزرتے ہوئے والہانہ جذبے سے قرآن پڑھتے جارہے تھے۔ اور جب وہ ان آیات پر پہنچے:
اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا۲۵ۙ ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا۲۶ۙ فَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا حَبًّا۲۷ۙ وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا۲۸ۙ وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْلًا۲۹ۙ وَّحَدَاۗىِٕقَ غُلْبًا۳۰ۙ وَّفَاكِہَۃً وَّاَ بًّـا۳۱ۙ (عبس ۸۰: ۲۵- ۳۱) ہم نے اُوپر سے پانی برسایا، پھر زمین کو پھاڑا، پھر ہم نے اس میں غلہ، انگور، ترکاری، زیتون، کھجور، گنجان باغ اور میوے اور چارہ پیدا کیا۔
حضرت عمرؓ نے ’اَ بًّـا‘ کے لفظ پر توقف کرتے ہوئے محسوس کیا کہ انھیں اس لفظ کے معنی معلوم نہیں ہیں۔ اب آیئے دیکھیں کہ حضرت عمرؓ اس مشکل کو کیسے حل کرتے ہیں؟ حضرت عمرؓ لغت کے عالم نہیں ہیں۔ اس وقت تک یہ علم وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس کو کتاب العین کے مؤلف الخلیل بن احمد الفراھیدی نے رائج کیا، جنھیں آج کی اصطلاح میں ’ماہر لسانیات‘ کہنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ مفسر بھی نہیں تھے۔ وہ تو صرف عام انسان تھے، ایک ایسا عملی انسان، جو اپنے دائرۂ کار سے باہر کے اُمور میں دخل دینا پسند نہیں کرتا۔اور وہ اس آیت کو پیش نظر رکھتے ہیں:
فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ۰ۭ (الِ عمرٰن ۳:۶۶) اُن معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اس لفظ پر چند لمحے توقف کیا، کہ ایک لفظ کے معنی کی ناواقفیت مومن کے ضمیر کے لیے آیت کے مفہوم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ حضرت عمرؓ کے نزدیک اس وقت مسئلے کا تعلق علم کے دائرے سے نہیں بلکہ طریقِ عمل سے تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے خود اپنی سرزنش کرکے اس مسئلے کو حل کرلیا۔ انھوں نے کہا: ’’عمر کا اَ بًّـا سے کیا تعلق؟ اَ بًّـا سے ناواقفیت ہے تو کیا ہوا؟عمر ! یہ اپنے آپ کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالنا ہے‘‘۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ اپنے معاملات کی طرف متوجہ ہوگئے، جہاں بڑی بڑی ذمہ داریاں ان کی منتظر تھیں۔
اسی طرح ایک بار حضرت عمرؓ نے عورت کے مہر کی حد مقرر کرنا چاہی، اس لیے کہ ان کے خیال میں وہ مناسب مقدار سے زیادہ وصول کیا جارہا تھا۔ لیکن اس وقت ایک عورت نے یہ کہتے ہوئے ان کی مخالفت کی: ’’اے عمرؓ! اللہ نے آپ کو اس کا حق نہیں دیا‘‘ اور پھر اس عورت نے یہ آیت پڑھی:
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ ۰ۙ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَـيْـــًٔـا۰ۭ اَتَاْخُذُوْنَہٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا۲۰(النساء۴:۲۰) اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو، تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اُس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔ کیا تم اسے بہتان لگاکر اور صریح ظلم کرکے واپس لوگے؟
حضرت عمرؓ خاموش ہوگئے اور پھر کہا:’’اے عمر، سب لوگ تم سے زیادہ ذی علم ہیں، یہاں تک کہ یہ بوڑھی عورت بھی‘‘۔ اور اس طرح حضرت عمرؓ نے اپنی راے سے رجوع کرلیا۔
ان دونوں حالتوں میں تجربات کے سامنے عقل کا موقف واضح ہوجاتا ہے۔ پہلی حالت میں نئے ماحول کے زیراثر عقل ظاہری قیدوبند، یعنی الفاظ کی بالادستی سے آزاد ہوجاتی ہے، جو علم کی ترقی کی راہ میں اکثر رکاوٹ بنتی ہے۔اور دوسری حالت میں حضرت عمرؓ ہٹ دھرمی سے باز رہتے ہیں، جو حقیقت کی اَزلی دشمن اور اس کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں متعدد ایسی مثالیں ملیں گی، جو قرآن کے زیراثر نئے تشکیل شدہ عقلی ماحول کی نشان دہی کرتی ہیں، مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہروان کے معرکے کے دوران نجومی کی راے کی پروا کیے بغیر، اس کے بتائے ہوئے مقررہ وقت کے بجاے قصداً کسی دوسرے وقت جنگ شروع کرتے ہیں اور دشمن پر غالب رہتے ہیں۔ پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: ’’اگر ہم نجومی کے بتائے ہوئے وقت پر جنگ شروع کرتے، تو وہ کہتا کہ ہمیں ستاروں کی چال کی بدولت فتح نصیب ہوئی ہے‘‘۔
لیکن دوسرے موقعے پر یہی حضرت علیؓ، زیاد بن النظر کو پرچم دے کر کہتے ہیں: ’’تمھیں مجاہدین کی قیادت کرنا ہے۔ ان کے اہلِ علم کے مشورے سے فائدہ اُٹھاؤ اور ان کے جاہلوں کو تعلیم دو‘‘۔
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی فکر اس نئے ماحول میں فرد کے لیے ایک زینہ تیار کرتی ہے، جس کے ذریعے وہ بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔ وہ کم علم کو سکھاتا ہے اور ذی علم سے سیکھتا ہے۔ اس طرح علم و معرفت کی یہ برقی رو دونوں رُخ پر دوڑنے لگے گی۔ بسااوقات یہ رو نیچے سے اُوپر آتی ہے، مثلاً مہر کی حد مقرر کیے جانے کے موقعے پر حضرت عمرؓ کے خلاف عورت کا اعتراض۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی زینے کی بدولت فکر ِ اسلامی دورِ جاہلیت کی شیئیت (مادیت) سے نکل کر ان بلندیوں تک پہنچی، جہاں سے اس نے تاریک دنیا کو علم کی روشنی سے منور کردیا۔
آج مستشرقین کی تحریروں میں جب ہم ان بلندیوں کی جھلک دیکھتے ہیں، تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور ہم خیال کی وادیوں میں کھو جاتے ہیں۔ لیکن یہی مستشرقین اگر مسلمانوں کے ان علمی کارناموں کا انکار کرتے ہیں، تو ہم احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دونوں ہی حالتوں میں مستشرقین کی یہ تحریریں ہمارے ذہنوں میں دوطرفہ محرومی کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ اس مخمصے سے ہم اسی حالت میں نجات حاصل کرسکتے ہیں، جب ہم قرآن کے تیارکردہ اس زینے کو دیکھیں، جسے طے کرکے انسانی فکر ان علمی کارناموں کی بلندیوں تک پہنچی ہے، جنھیں آج ٹکنالوجی کی ترقی کا بامِ عروج سمجھا جاتا ہے، مثلاً ریاضی کا اعشاری نظام، الجبرا، کیمیا، بائیولوجی کے متعدد اصول،طبیعیات اور فلکیات۔
جب ہم علم کے اس زینے پر نظر ڈالیں، تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر اسلامی معاشرہ چاہے تو یہ علمی زینہ اس وقت بھی اس کے قبضے میں بلکہ اس کے قدموں میں آسکتا ہے۔ ہمیں صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسلامی فکر کی جانب سے انسانیت کے علمی سرمایے میں اضافے کا مسئلہ صرف ان کارناموں پر منحصر نہیں ہے، جنھیں ایک مستشرق اپنی مرضی سے ثابت کرے یا ان کا انکار کرے، بلکہ اِقْرَاْ کے نزول کے بعد سے قرآنی مفہوم کے زیراثر عقلی فضا اور عقلی ڈھانچے میں جو بنیادی تبدیلی رُونما ہوئی، وہ اس کا حقیقی معیار ہے۔
اس جائزے کی روشنی میں مستشرقین کی تحریروں کے بارے میں اپنے موقف کے تعین کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اوّلاً ہم مستشرقین کی تحریروں کی علمی قیمت سے انکار نہیں کرسکتے بلکہ بسااوقات وہ قابلِ ستایش ہوتی ہیں، جیسے سیڈیو، گوسٹاف لوبون اور آسین پلاتھیوس کی تحریریں جو علمی لحاظ سے قابلِ احترام سمجھی جاتی ہیں ، اور اخلاقی پہلو کی حامل ہیں۔
٭ بنیادی پہلو: بیسویں صدی کا تمام فکری کام جو تاثیر اور فعالیت کے اعتبار سے اعلیٰ معیار کا قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا ایک عملی پہلو بھی ہے، جس سے سیاست اور منفعت پسندی کے میدان میں ناجائز فائدہ بھی اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ اور گھٹیا دونوں قسم کی کتابیں پریس سے باہر آتی ہیں۔ بسااوقات ان کے مصنّفین کی لاعلمی میں، ان ماہرین کے ہاتھوں تک پہنچ جاتی ہیں جو انھیں فکری کش مکش کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ہنگامہ آرائی، اخلاقی بے راہ روی اور صرف توجہ ہٹانے اور بہلانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اس قسم کی کتابیں جب یورپ کے کسی شہر سے شائع ہوتی ہیں، تو اسی وقت کسی عرب دارالحکومت سے اس کا عربی ایڈیشن بھی شائع ہوجاتا ہے۔
اس مطابقت پر ان ملکوں میں بھی توجہ نہیں دی جاتی، جو فکری کش مکش کے ناپسندیدہ اثرات سے دوچار ہیں۔ ان ملکوں کو یہ تک خبر نہیں کہ اس فکری کش مکش کے ذرائع اور مقاصد کیا ہیں؟ بلکہ وہ اس کے مفہوم سے بھی ناآشنا ہیں، گویا ان کے نزدیک ’فکری کش مکش‘ محض ایک بے معنی لفظ ہو۔
آیئے کسی ’روشن خیال‘ شخص سے پوچھیں وہ مبہم اور غیرواضح جواب دے گا، ’’فکری کش مکش؟ غالباً آپ فلسفۂ وجودیت اور مارکسیت کا ذکرکر رہے ہیں؟‘‘ اگر آپ نے اپنے سوال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ’’نہیں جناب! میں اس مارکسیت کا ذکر کر رہا ہوں، جس کا مارکس سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ یہ محض چند الفاظ اور نعرے ہیں، جنھیں ہمارے نوجوانوں کو اس لیے سکھایا جاتا ہے کہ ہمارے بعض حکام کے خیال میں مارکسیت کو صرف ایک ذریعہ بناکر اس سے اسلام کے خلاف کام لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اس فلسفۂ وجودیت کو ہمارے وجود سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ اشیا درحقیقت نئی نسل کے ذہنوں پراثرانداز ہونے کے ذرائع ہیں، جنھیں اس مقصد کے لیے وہ حلقے استعمال کر رہے ہیں، جو ان کے فلسفیانہ ، فنی یا سماجی پہلو کے خود بھی قائل نہیں ہیں۔ میرا اشارہ ڈائجسٹ قسم کی ان کتابوں کی طرف ہے، جو مفت یا بہت معمولی قیمت پر نوجوانوں میں تقسیم کی جارہی ہیں، تاکہ ان کی جیب پر بوجھ نہ پڑے، اور وہ ضمیر پر اثرانداز ہونے والے ان افکار کو بآسانی قبول کرلیں۔
صدافسوس کہ نام نہاد روشن خیال لوگ اس گفتگو کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکتے۔ ان کی نگاہوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ وہ بزعمِ خود فکری سطح پرہیں، جہاں غیروں کے افکار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’خیال اپنا اپنا، پسند اپنی اپنی۔ اس پر بحث کی ضرورت نہیں‘‘۔
دوسری طرف غالباً آپ نظریاتی سطح پر ہیں، جہاں ہرنئی فکر کا خوردبین (مائیکروسکوپ) سے تجزیہ کرنا چاہیے، کیونکہ اس سطح پر ایک فکر محض فکر نہیں رہ جاتی جسے صرف فکری یا فنی نقطۂ نظر یا صاحب ِ فکر کے عزائم کی روشنی میں دیکھا جائے گا، بلکہ اس فکر کو اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے والوں کے حقیقی عزائم کے اعتبار سے پرکھا جائے گا۔ بہرحال آپ کی باتوں کو وہ لوگ اس لیے نہ سمجھ سکیں گے کہ وہ دنیا کی فکری کش مکش کے مفہوم کو دو بڑی سامراجی طاقتوں کی چپقلش تک محدود رکھتے ہیں۔
زیربحث موضوع کے مطابق ہمیں مستشرقین کی تحریروں کا صرف ان کی ذاتی اور فکری خصوصیات اور عزائم کے نقطۂ نظر سے جائزہ نہیں لینا چاہیے، بلکہ اس پہلو سے بھی دیکھنا چاہیے کہ کون لوگ مستشرقین کی تحریروں کو عالمِ اسلام میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں؟
ان مقاصد میں، جیساکہ ہم پہلے نشان دہی کرچکے ہیں، تسخیر عقل و ضمیر بھی شامل ہے۔ اسے ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ہروہ نظریاتی خلا جہاں ہمارے افکار معدوم ہوں گے، اسے ہمارے مخالف اور دشمن افکار سے پُر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ ایک عام اصول ہے، جس سے فکری کش مکش کے ماہرین بخوبی واقف ہیں۔ لیکن یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ یہ ماہرین محض ایسے دانش ور نہیں ہیں، جو حقیقت براے حقیقت کی جستجو کررہے ہیں، بلکہ وہ اسے سیاسی مفادات کے میدان میں عملی شکل دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ نظریاتی خلا ظاہر ہونے تک کا انتظار نہیں کریں گے تاکہ اسے پُر کرسکیں، بلکہ یہ خلا وہ خود پیدا کریں گے۔ ہوسکتا ہے اس خلا کو عارضی طور پر دوسروں کے افکار سے پُر کردیں تاکہ پہلے مرحلے کے طور پر وہ ہم کو ہمارے افکار سے جداکرسکیں۔
درحقیقت یہ وہ میدان نہیں ہے کہ جہاں ’خط ِ مستقیم‘ کے اصول کے تحت کام ہوتا ہو۔ صاف سی بات ہے کہ ایک منطقی عمل کا منطقی نتیجہ ہی نکلے گا۔ اس کے برعکس فکری کش مکش کی اپنی ایک علیحدہ منطق ہے۔ عموماً اس کی راہ پُرپیچ ہوتی ہے۔ یہاں ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک درمیانی اور پُرپیچ راہوں سے پہنچا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ نقلی مارکسزم جو بائیں بازو کے خیالات کے حامل ہمارے نوجوانوں کو گھول کر پلائی جارہی ہے، صرف ایک درمیانی مرحلہ ہے۔ جس کا مقصد ہمارے نوجوانوں کے ایک طبقے کو ملک میں نظریاتی محاذ سے علیحدہ کرنا ہے۔ علیحدگی کی اس کارروائی کا ذمہ دار لیڈر، نوجوانوں سے یہ تو کہہ نہیں سکتا کہ ’’ہم آپ کے ملک میں ترقی کی رفتار کم کرنا چاہتے ہیں ، اس لیے کیا آپ ان افکار و خیالات کی تحریر و تنقیص میں ہماری مدد کریں گے جو ترقی کی اس رفتار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں؟‘‘ اس لیے کہ اس قسم کی باتوں کو سراسر یاوہ گوئی اور جنون کہا جائے گا۔ اب اس کے سامنے صرف ایک ہی راہ ہے کہ وہ نوجوانوں کی اس جماعت کو بیرونی افکار کے پُل سے دوسرے کنارے تک لے جائے، جہاں نقلی مارکسسٹ، فریبی قوم پرست اور جعلی انقلاب کے نقاب اُوڑھے ہوئے افراد نظر آئیں گے۔
فکری اور عملی بہروپ کے ان سوداگروں کی اس کارروائی کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ وطن کا اخلاقی اتحاد ختم ہوگیا، جب کہ آزادی کے بعد کے اہم اور نازک مسائل کا سامنا کرنے کے لیے وطن عزیز کو اس اتحاد کی اشد ضرورت تھی۔ اس کارروائی کے منفی فکری نتائج جس قدر ہمارے نوجوانوں پر، اور سماجی نتائج جس قدر ہمارے معاشرے پر ظاہر ہوں گے، اسی قدر ان مسائل میں کمی کے بجاے اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس طرح ان نوجوانوں کی شکل میں، مخصوص فکری کش مکش مسلط کرنے کے ماہرین کے ہاتھوں میں ہماری نکیل ہوگی___ کتنا بڑا المیہ ہے!
٭ ایک شبہہ اور اس کا ازالہ:ہو سکتا ہے کہ مستشرقین کے حوالے سے زیربحث موضوع پر ہماری ان باتوں کا بظاہرکوئی تعلق نظر نہ آرہا ہو، لیکن سچ پوچھیے تو یہ موضوع سے علیحدہ نہیں ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پوری کارروائی کا مجموعی اور مکمل جائزہ لیں۔ وہ اس طرح کہ فکری کش مکش کے یہ ماہرین ایک طرف نوجوانوں کی ایک جماعت کو دینی شعائر کا مذاق اُڑانے اور اسلام کے مخالف خیالات کا انجکشن دے کر انھیں پاگل کتوں کی طرح بھونکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری طرف یہی ماہرین ہمارے نوجوانوں کی ایک دوسری جماعت کو مستشرقین کی تحریروں سے تیار کردہ خواب آور گولیاں مہیا کرنے اور کھلانے کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارے دونوں قسم کے نوجوانوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ایک ہیجان انگیزی کے زیراثر فکری طور پر مفلوج اور دوسرا خواب آور دوا کی وجہ سے فکری طور پر ناکارہ و نامراد۔ ایک ہنگامہ آرائی پر آمادہ اور دوسرا خوابوں کی دنیا میں مست۔ ہمارے خیال میں مسلم دنیا میں فکری کش مکش کے دائرے میں مستشرقین کی تحریروں کا یہی کردار ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس دائرے میں ہمارے فکری عمل کی کیا شکل ہونی چاہیے؟ یہاں مجھے یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ تفصیلات کو نظرانداز کرکے صرف اس خیال کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو زبان زدخاص و عام ہے کہ صرف سیاسی آزادی کا حصول ہی کافی نہیں، اسے معاشی آزادی کے ذریعے مستحکم کرنا بھی ضروری ہے۔
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے لیکن ہم اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ جو معاشرہ اپنے بنیادی افکار خود وضع نہیں کرتا، وہ نہ تو ضروریاتِ زندگی کی اشیا تیار کرسکتا ہے اور نہ صنعت کاری کے لیے لازمی مصنوعات۔ ایک زیرتعمیر معاشرہ درآمد شدہ افکار سے تعمیر نہیں کیا جاسکتا، خواہ یہ افکار استشراق سے ماخوذ ہوں یا اشتراکیت اور وجودیت سے۔ اسے کتابوں کے بجاے عملی تجربے سے اپنی راہ نکالنی ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنا ذاتی تجربہ حاصل کرنا چاہیے اور اپنے دائرۂ فکر و عمل کا تعین خود کرنا چاہیے نہ کہ کسی اور کی طرف سے ہمارے لیے متعین کیا جائے۔ آخری بات یہ کہ عقیدے اور فکر کے میدان میں اپنا حقیقی وجود، اور آزادی بحال کرکے ہی ہم معاشی اور سیاسی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔
عصرِحاضر جسے زعم ہے کہ وہ’جدید‘ ہے، لیکن ظلم و زیادتی کے باب میں یہ ’جدید‘ اُتنا ہی بھیانک اور قدیم ہے، جتنا کہ ظلم و ستم سے لتھڑا تاریک ماضی ہوا کرتا تھا۔ ظلم کی طرف داری اور ظلم کی پردہ داری کےلیے عصرِحاضر کے مقتدر ملکوں، طبقوں اور ’غیرسرکاری تنظیموں‘ کی سیاہ کاری کا گندا کھیل برابر عروج پر ہے۔ اس ظلم کی ایک شرم ناک مثال بنگلہ دیش میں موجودہ عشرے میں برابر پیش کی جارہی ہے۔ لیکن عالمی ادارے، ملکوں کے حکمران اور انسانی حقوق کے ’سوداگر‘ سب خاموشی سے آنکھیں بند کیے دکھائی دیتے ہیں۔ ظلم کے اس طوفان نے ایک اور سعید روح مولانا عبدالسبحان کو نگل لیا ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالسبحان ۱۹فروری ۱۹۳۶ء کو مومن پارہ، ضلع پبنہ مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی نعیم الدین احمد ایک دینی اسکالر تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم رام چندر پور سے حاصل کی، ۱۹۵۲ءمیں مدرسہ عالیہ سراج گنج سے فاضل اور ۱۹۵۴ء میں کامل کی سند اس اعزاز سے حاصل کی کہ مدرسہ بورڈ کے مشرقی پاکستان بھر کے امتحان میں ساتویں پوزیشن پر آئے۔ بنگلہ کے علاوہ، عربی، اُردو میں دسترس کے ساتھ انگریزی اور فارسی کا اچھا فہم رکھتے تھے۔ فاضل کی سند لیتے ہی خداداد قابلیت کی بنیاد پر ، اپنے مدرسے میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے لگے، اور اس کے ساتھ مزید تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کی کتب اورکلامِ اقبال سے والہانہ عشق پیدا ہوا، اورپھر جماعت اسلامی کے قافلے کے ہراوّل دستے میں دعوت، تربیت اور خدمت پر مبنی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ مولانا عبدالسبحان ضلع پبنہ میں جماعت اسلامی کے دعوت و تنظیم میں تاسیسی رہنما تصور کیے جاتے تھے۔
۱۹۶۵ء میں پبنہ شہر منتقل ہوگئے، جہاں جماعت کے تنظیمی اور رفاہی نظم و ضبط کے ذمہ دار مقرر ہوگئے اور کچھ ہی عرصہ بعد جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی حکمرانوں کی بے تدبیری، سیاست دانوں کی خودغرضی اوربھارتی پشت پناہی سے شروع ہونے والی بدامنی اور تخریب کاری کے دوران امن کمیٹی پبنہ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس دوران مولانا عبدالسبحان نے غیربنگالی اہلِ وطن کو عوامی لیگی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل و غارت سے بچانے کے لیے اپنی جان تک داؤ پر لگادی اور تخریب کاری روکنے کے لیے شہری سطح پر انتظامات کیے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہجرت کرکے مغربی پاکستان آگئے اور پھر ۱۹۷۵ء میں واپس بنگلہ دیش چلے گئے۔
۲۰۰۱ء کے پارلیمانی انتخابات میں پبنہ سے پانچویں بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور اس کے دو سال بعد۲۰۰۳ء میں ، یعنی ۱۹۷۱ء کے ۳۲برس بعد عوامی لیگ نے ان کے خلاف اچانک ایک فوجداری ’مقدمہ‘ درج کرا دیا، جس میں کہا گیا کہ:’’ اپریل تا اکتوبر ۱۹۷۱ء انھوں نے ۴۵۰؍افراد کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔ گھروں کو آگ لگائی اور لوٹ مار کی‘‘۔ جب حسینہ واجد (عوامی لیگ) کی حکومت ایک باقاعدہ سازش کے تحت قائم کی گئی تو اس حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف تواترکے ساتھ مقدمات چلانے کے لیے ۲۰۱۰ء میں نام نہاد کرائمز ٹریبونل (ICT) بنائے۔
اِس شیطانی کھیل کو آگے بڑھانے کے لیے ۲۰ستمبر ۲۰۱۲ء کو، جب مولانا عبدالسبحان ڈھاکہ سے اپنے گھر پبنہ شہر جارہے تھے کہ راستے میں پڑنے والے بنگ بندو پُل پر انھیں گرفتار کرلیا گیا، اور یہ بتایا گیا: ’’۲۰۰۳ء کے قائم شدہ مقدمے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ اگلے روز خصوصی ٹریبونل میں پیش کرکے مقدمے کی کارروائی شروع کی۔
اس خانہ ساز عدالت نے ۳۱دسمبر ۲۰۱۳ء کو مقدمے کا ڈراما شروع کیا اور ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو آپ کو سزاے موت سنائی۔ ۱۸مارچ ۲۰۱۵ء کو مولانا عبدالسبحان نے جھوٹے مقدمے، یک طرفہ کارروائی اور سرکاری گواہوں پر جرح کرنے کے حق کو سلب کرنے کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی۔ظاہر ہے کہ جب سب چیزیں ہی ایک جہل اور حددرجہ جعل پر مبنی تھیں تو شریک ِ جرم بنگلہ دیش سپریم کورٹ کیسے اپیل کا میرٹ پرفیصلہ دیتی؟ یوں اپیل مسترد ہوئی اور مولانا عبدالسبحان تب سے اب تک جیل کی پھانسی گھاٹ کوٹھڑی میں قید تھے اور کسی بھی وقت تختۂ دار کے لیے بلیک وارنٹ کے اجرا کے منتظر تھے۔
بڑھاپے اور مسلسل قید کی وجہ سے مولانا عبدالسبحان متعدد امراض کے شکارہوچکے تھے۔ ۲۴جنوری ۲۰۲۰ء کو جب صحت کی حالت بہت زیادہ بگڑگئی تو جیل حکام کی سفارش پرڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں ۱۴فروری ۲۰۲۰ء کو دن ڈیڑھ بجے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر ، بزرگ پارلیمنٹیرین ، دینی رہنما اور ۸۴سال کے بزرگ مولانا عبدالسبحان انتقال فرماگئے۔ یوں ۱۹۷۱ء میں برہمنی سامراجیت کےخلاف کھڑے رہنے اور پھر آخردم تک بھارت کی طفیلی اور ’را‘ کی پروردہ حکومت کے سامنے ڈٹ کر دیوار بننے اور اسلامی اُمت کے موقف کی تائید کرنے والے مجاہد نے جان کانذرانہ دے کر عہد ِ وفا نبھایا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جو انسانی حقوق کے نام پر دکان سجاتے ہیں، انھیں نہ ایسے بے معنی فوجداری مقدمات میں کوئی خرابی نظر آتی ہے، نہ انھیں جعلی عدالتی عمل میں کچھ قباحت دکھائی دیتی ہے، اور نہ ایسی اموات اور پھانسیوں پر ان کے ضمیر پہ کچھ بار پڑتا ہے۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے تعزیتی بیان میں کہا: ’’مولانا عبدالسبحان صاحب ایک متنازعہ اور سیاسی تعصب سے آلودہ انتقامی مقدمے میں جعلی اور عوامی لیگی گواہیوں کی بنیاد پر سزاے موت سے منسوب کیے گئے۔ وہ گذشتہ آٹھ برس سے جیل میں قید تھے۔ حالانکہ ۱۹۷۲ء سے لے کر اب سے چند برس پہلے تک، بنگلہ دیش میں کبھی کسی نے، مولانا عبدالسبحان کو کسی فوجداری جرم کا ملزم قرار نہیں دیا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے بنگلہ دیش کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور دینی ترقی کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ بنگلہ دیش میں اسلامی شعائر کی سربلندی اور عدل و انصاف کا دور دورہ دیکھنا ان کا خواب تھا۔ ایک مدت سے وہ شدید بیمار تھے۔ اہلِ خانہ نے بار بار اپیل کی کہ انھیں علاج کی سہولت مہیا کی جائے، لیکن موجودہ حکومت نے کسی اپیل پر دھیان نہ دیا۔ اور جب حالت بہت بگڑگئی تو چند روز کے لیے اس طرح ہسپتال بھیجا کہ علاج ان کے لیے بے معنی ہو کر رہ گیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ اپنے کچھ بندوں کے ساتھ خصوصی احسان کرتاہے تو ان کو کفر و شرک کی گمراہیوں سے نکال کر رشد وہدایت کی راہ سے نوازتا ہے۔ ایسے ہی خوش نصیبوں میں ایک بڑا نام ڈاکٹر ولفریڈ ہوف مین ہیں جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد اپنا نام مراد ہوف مین رکھا۔ وہ مراد ہوف مین، جو قبولِ اسلام کے بعد بے لاگ اسلامی مفکر کی حیثیت سے مغرب کے اُفق پر جلوہ افروز ہوئے۔ مترجم قرآن، مصنف، تجزیہ نگار، داعی، مفکر اور ایک سفارت کار کی حیثیت سے نہ صرف عیسائی دنیا میں بلکہ عالم اسلام میں بھی مشہور ومعروف ہیں۔
مراد ہوف مین ۶جولائی ۱۹۳۱ء کو اُسچا فنبرگ (جرمنی) کے ایک کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے نیو یارک میں یونین کالج سے گریجویشن کی اور پھر میونخ یونی ورسٹی سے قانون میں Contempt of Court Publication under American and German Law کے موضوع پر ۵ ۱۹۷ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس کے بعد NATOکے انفارمیشن ڈائرکٹر کے طور پر تعینات رہے، اور ۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۷ء تک برسلز میں انفارمیشن ڈائرکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ موصوف پہلے(۱۹۸۳-ء۱۹۹۰ء)الجیریا اور بعدازاں(۱۹۹۰ء-۱۹۹۴ء) مراکش میں جرمنی کے سفیر جیسی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔
- قبولِ اسلام :مراد ہوف مین ۲۵؍ دسمبر ۱۹۸۰ء کو مشرف بہ اسلام ہوئے۔ قبولِ اسلام کے متعلق انھوں نے ماہنامہ الدعوۃ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:’’ سفارت کاری نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں نے مغربی فکر و تہذیب کا گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کیا ۔ اسلام کے متعلق میرا علم سطحی معلومات پر مبنی تھا‘‘۔ وہ اپنی کتاب Journey to Makkah میں لکھتے ہیں: ’’میں ۱۹۶۲ء میں الجیریا کے جرمن سفارت خانے میں تعینات تھا۔ اس دوران میں نے اسلام کے متعلق پڑھنا شروع کیا۔ میں اس مذہب کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کا متمنی تھا، جس کے ۱۰لاکھ متبعین نے اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ ۱۹۶۲ ء میں الجیریا کے عوام آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ پھر میں نے اسلام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان سیکھی اور قرآن مقدس کو پڑھنا شروع کیا ،اور جوں جوں اس کی گہرائیوں میں اترتا گیا، اس کے ساتھ تعلق خاطر پختہ سے پختہ تر ہوتا گیا۔ یوں اس کتاب انقلاب کے ساتھ میرا یہ تعلق قائم ودائم ہوگیا۔ یہ مقدس کتاب علم وفکر کا محور اور دل کی جملہ بیماریوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہے‘‘۔
مراد ہوف مین نے ایک انٹرویو میں بتایا: ’’یوں اسلام نے میری روحانی ضرورتوں کو اطمینان اور یک سوئی کے ساتھ میری زندگی کو متوازن بنا دیا۔اور سب سے حیرت انگیز تجربہ یہ ہوا کہ قبولِ اسلام کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے مجھے گلے سے لگالیا‘‘۔ انھوں نے ۱۹۸۰ء میں پہلا عمرہ کیا۔ جب وہ جدہ کے پاسپورٹ آفس پہنچے تو اچانک ان کے پاس ایک افسر آیا اور ان کی آنکھیں نم تھیں۔ اس نے انھیں گلے سے لگایا اور کہا: ’میرا اسلامی بھائی‘۔ پھر جب مَیں نے ’ناٹو‘کے صلاح کار کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تو اسلام کے خلاف مغرب کے بُرے عزائم اور فریب کاریوں کا پتا چلا۔ ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یورپ کی نوجوان نسل عیسائیت سے کیوں دُوری اختیار کرتی جارہی ہے؟ تو جواب ملا: ’’ان کو کسی متبادل کی تلاش ہے‘‘۔ اسی لیے مَیں نے ۱۹۸۵ء میں اپنی پہلی کتاب ایک جرمن مسلم کاروزنامچہ (Diary of German Muslim) لکھی اور ۱۹۹۳ء میں اسلام بطور متبادل (Islam the Alternative) شائع کی‘‘۔
اسلام بطور متبادل میں جب انھوں نے مغرب کو دعوت دی کہ آپ اسلام کے جھنڈے تلے ہی زندگی گزاریں تو جرمنی میں سیاست دانوں، پادریوں ، صحافیوں اور نام نہاد حقوقِ نسواں کے علَم برداروں نے ان کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں ’بنیاد پرست‘ کہا۔ ہوف مین نے سفارت کاری سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ ترکی میں قیام کیااور اپنا سارا وقت دعوتی کام پر صرف کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر وتہذیب کی پستی وزوال پر علمی سطح کا کام کیا ۔ یہ کتاب فوکویاما کی کتاب The End of Historyکا جواب ہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں:’’اسلام پوری انسانیت کے لیے متبادل نظام ہے‘‘۔ ۱۹۹۶ء میں ان کی کتاب Islam-2000 کے عنوان کے تحت شائع ہوئی۔ ۱۹۹۶ء میں مکہ کا سفر (Journey to Makkah) اور ۲۰۰۰ء میں ’اسلام تیسرے ہزاریےمیں‘ (Islam in the Third Milliennium)جیسی علمی کتابیں شائع ہوئیں، جو جرمن، عربی اور انگریزی میں بھی دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے قرآن مجید کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا ہے، جو ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔
مراد ہوف مین بین الاقوامی سطح کے علمی وفکری جرائد میں لکھتے رہے ہیں، جس میں برطانیہ کا Encounter اور American Journal of Social Science قابل ذکر ہیں۔ موصوف ’دی اسلامک فاؤنڈیشن‘ برطانیہ کے رسالے The Muslim World Book Reviewکے مستقل تبصرہ نگاروں میں شامل رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر کتابوں اور مقالات کا موضوع مـغربی دنیا میں اسلام کی نمایندگی ہے۔ ۲۰۰۷ء میں انھوں نے آپ کے اور ہمارے درمیان مشترکہ نقطۂ نظر کے عنوان سے ایک کھلا خط لکھا، جس میں مسیحی دنیا کو بہت سی مشتر کہ باتوں پر متوجہ ہونے کے لیے اُبھارا گیا۔ ۱۳جنوری ۲۰۲۰ء کو یہ عظیم داعی خالقِ حقیقی سے جاملے ،انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
- اسلام ایک متبادل : ’’دنیاے انسانیت کے لیے اسلام ایک نجات دہندہ دین ہے، جو وحی الٰہی پر مبنی ہے ۔اسلام نے ابتدا ہی سے انسانی مسائل کو حل کیا اور عصر حاضر کے مسائل کا حل بھی اسلام ہی کے پاس ہے، اور اسلام ہی اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُمید کی واحد کرن ہے ‘‘۔
’’لاریب، دنیا کا مستقبل اسلام کے سائے میں ہے ۔ اسلام کو بطورِ متبادل پیش نہ کرنے کی ذمہ دار مغربی مراکز دانش، میڈیا اور مذہبی مقتدرہ پر تو ہے ہی، لیکن اس کے برابر ذمہ دار مسلمان بھی ہیں۔ اسلام مادہ پرستانہ زندگی پر ایک شدید چوٹ ہے اور مغرب میں مادہ پرستانہ سوچ عروج پر ہے، جس کا شکار مغرب کا ہر فرد ہے۔ تاہم، وہاں اب اس مادہ پرست زندگی سے ہر فرد تنگ آچکا ہے جس کاوہ برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغرب اب اللہ پر ایمان رکھنے کے بجاے مادیت، ترقی، فحاشی، ہم جنسی اور انسانی حقوق کی پامالی پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مغرب کو پتا ہے کہ اسی پیغام میں انسانیت کے مصائب اور مسائل کا حل ہے اور اسلام ہی پیغام رحمت ہے، جو زمان و مکان کی قید سے مبرا ہے‘‘۔ (Al-Dawah,2003)
- دعوتِ دین ، ذرائع ابلاغ اور اسلوب : ’’مغرب میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، اس لیے ان سے یہ کہنا آسان بات نہیں ہے کہ اللہ نے فلاں فلاں بات کہی ہے اور وہ مان جائیں۔ اس مقصد کے لیے آپ کو قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ سائنسی اسلوب اختیار کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے ان کو اللہ اور اللہ کے وجود پر ایمان لانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ہمارے پاس جو لٹریچر موجود ہے، وہ پوری طرح اس ضرورت کا شافی جواب نہیں ہےکہ جس کی ضرورت ہے۔لہٰذا، جدید اسلوب میں لٹریچر تیار کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
اسی طرح مغر ب سے مکالمے کی آج کئی گنا زیادہ ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو خود سے پیش قدمی کر نی چاہیے۔ہمیں اکیسویں صدی میں رہناہے اور اسلام کی نمایندگی کرنی ہے، نہ کہ پیش آمدہ چیلنج کے مقابلے میں فرار کی راہ اختیار کرنی ہے۔ جن لوگوں تک پیغامِ حق ابھی تک نہیں پہنچا ،ان تک یہ پیغام بہم پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور اس کے لیے ان تمام معروف اورجدید ذرائع کو بروے کار لانے کی ضرورت ہے جو آج کل میسر ہیں‘‘۔ (ایضاً)
’’پہلے اپنے آپ کو اُن کے لیے قابلِ قبول بنایئے کہ جن کو دعوت دینی ہے، اور پھر ان تک پیغامِ رحمت پہنچائیں۔ یہ دعوت کا سب سے کار آمد اور مفید پہلو ہے۔داعی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مشرق اور مغرب دونوں کی فکر و علوم سے واقف ہو۔ اس طرح مغربی زبان اور تہذیب سے بھی بخوبی واقف ہو تاکہ ان تک صحیح اور مؤثر انداز سے بات پہنچا سکے۔ اسلام دنیاے انسانیت کے لیے کوئی نیا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ انبیاے کرام کے تسلسل کا ایک حصہ ہے۔ اسلام حضرت عیسٰیؑ ہی کے طریق کار کا ایک مظہر ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عیسائی دنیا نے ان مسیحی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا بلکہ ان میں بے شمار تحریفات بھی کیں۔ بعد کے ادوار میں بھی عیسائی راہبوں اور عالموں نے تحریفات کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ جان پال نے عیسائیت کی پوری تصویر بدل کے رکھ دی، جس کے نتیجے میں آج کی عیسائیت درحقیقت سینٹ پال کی تعلیمات اور خرافات کا مرکب بن گئی ہے ۔اسلام کا کردار یہ ہے کہ وہ عیسائیت کو اصل مقام کی طرف واپس لایا اور اس کے ان تمام خرافات اور تحریفات کی نشان دہی کی، جس کی وجہ سے عیسائت فکری انحراف اور انتشار کی شکار ہوئی۔ اب ضرورت ہے کہ ان کے پاس اس الٰہیاتی ہدایت اور انبیاے کرام کی دعوت کی آخری قسط (Episode) کو سائنٹفک اسلوب میں پہنچایا جائے‘‘۔
- احیاے اسلام اور تجدید: مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’تجدید اور احیا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ تجدید کا کام اسلام کے کن موضوعات پر ہوگا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اسلام میں تجدید کا کام عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق بنانا ہوگا۔ عقائد، عبادات اور اخلاقیات کو چھوڑ کر اس کے تہذیبی پہلوؤں پر تجدید کا کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔
’’معیاری اور ہمہ جہت نصاب میں قرآن ،تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت اور علم کلام کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو شامل کیا جائے۔ قرآن کے مطالعے کے ساتھ کائنات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ دراصل ان دونوں کا مطالعہ ہمارے فکر و عمل میں توازن قائم رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔اور میرا یقین ہے کہ احیاے اسلام کا آغاز یورپ سے ہوگا‘‘۔
- مغربی فکر و تہذیب کا زوال: مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’مغربی تہذیب اپنی ساخت کے اعتبار سے کامل شربن چکی ہے۔ اس انسانیت خور تہذیب میں منشیات کے ساتھ ساتھ ٹی وی اور انٹرنیٹ بھی شامل ہے ۔مغرب کی اس بے شرم اور روح فرسا تہذیب کی اندرونی صورتِ حال پر اپنے ایک لیکچر میں لکھتے ہیں:’’ مغرب میں طلاق کی شرح خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں آدھے گھر مجرد فرد چلا رہے ہیں، جس میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جو بچہ تو چاہتی ہیں، لیکن شوہر نہیں ۔بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد بن باپ کے پل رہی ہے۔ بہت سے بچے ذہنی عدم توازن کا شکار ہیں ۔انسان نے خدا کے تصور سے دامن چھڑا کر خود کو ہرشے کا معیار قرار دے لیا۔ مذہب تیزی سے انسان کا ذاتی معاملہ بنتا چلا گیا۔ سائنسی علوم نے اس کی جگہ لے لی اور نتیجہ یہ کہ سائنٹزم اور ریشنلزم (Scientism and Rationalism) خود ساختہ مذاہب کا درجہ اختیار کر گئے‘‘۔
- حقوق نسواں اور اسلام : مراد ہوف مین کہتے ہیں:’’دنیا میں اسلام کے سوا ہرمذہب اور تحریک نے صنفِ نازک کو استحصال کے سوا کچھ بھی نہیں دیا اور صرف اسلام نے ہی ان کو ان تمام حقوق سے نوازا، جن کی وہ حق دارہیں اور جو ان کی فطرت کے عین مطابق ہیں‘‘۔
’’عورت کے حقِ خودارادیت اور مردوں سے کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے کے نتیجے میں، مغرب اب بے تحاشا مسائل کا سامنا کر رہا ہے ۔بچوں کو رحم مادر ہی میں گلا گھونٹ دینے کا نعرہ مغرب کا ہی ہے اور جس پر وہ فخر کے ساتھ رُوبہ عمل بھی ہے‘‘ ۔دورِ جاہلیت اور دورِ حاضر کے درمیان فرق کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’دورِجاہلیت میں بچپن میں ہی لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا، جب کہ دورِ جدید میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ تو اب لڑکوں کا بھی اسقاط حمل کے ذریعے سے گلا گھونٹا جا رہا ہے‘‘ ۔مراد ہوف مین کہتے ہیں کہ ’’دنیا میں نصف سے زیادہ آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ کوئی بھی قوم یا تہذیب، جو ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے میں ناکام رہے گی، اسے بالآخر خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مغرب میں مردوں کے برعکس دوشیزاؤں کے اسلام کی طرف زیادہ مائل ہونے کے باوجود بحیثیت مجموعی مغرب میں عورتیں، اسلام سے بہت حد تک شدید بُغض رکھتی ہیں۔ جس کی وجہ محض یہ غلط فہمیاں ہیں کہ اسلام مردوں کا مذہب ہے اور اگر مسلمان مردوں نے ہرجگہ خواتین کو قرآن کے عطاکردہ حقوق دیے ہوتے، تو ہمیں اس غلط فہمی کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘‘۔
’’یہ حقیقت ہے کہ روایت پسند مسلم معاشروں نے اپنی عورتوں کو کئی قرآنی حقوق نہیں دیے۔ کیا ہم بھول گئے کہ قرآن کو ہم تک منتقل کرنے والوں میں حضرت حفصہؓ بنت عمر الخطاب بھی ہیں،یا یہ کہ ایک عورت نے مسجد نبوی میں جمعہ کے خطبے میں امیرالمومنین کو عین خطبے کے درمیان روک کر ان پر تنقید کی تھی؟‘‘
- اسلام اور جمہوریت: مغرب ہی کیا عالم اسلام میں بھی سب سے زیادہ جو موضوعِ بحث ہے، وہ اسلام اور جمہوریت ہے ۔اس حوالے سے بعض اسلامی مفکرین اور اسکالرز اسلام اور جمہوریت کو دو متضاد شے قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض ان دونوں کو ہم آہنگ ٹھیراتے ہیں۔ مراد ہوف مین ثانی الذکر طبقے سے تعلق رکھتے اور لکھتے ہیں کہ ’’منطقی طور پر سب سے پہلے مسلمانوں کو اس غلط تصور کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ جو لوگ اسلام اور جمہوریت کو باہم متضاد سمجھتے ہیں، وہ نہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ جمہوریت کے بارے میں۔ دنیا کو سب سے پہلے جمہوری اصول اسلام نے سکھائے ہیں۔ ایک چھوٹی اکائی سے لے کر پارلیمنٹ تک اسلام نے ٹھوس اصولوں کو متعین کیا ہے۔ ہم ،جنھوں نے سب سے پہلے اپنا خلیفہ منتخب کیا اور اسے دنیا کے سامنے بھرپور دلیل بنایا کہ خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین دنیا کی تاریخ میں پہلے منتخب سربراہانِ مملکت تھے‘‘ــ۔
ان کے نزدیک: ’’اسلام جمہوریت کا جو تصور پیش کرتا ہے، اس میں حاکمیت الٰہیہ کو مرکزی مقام حاصل ہے اور قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے،جس میں تبدیلی کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔اسلامی جمہوریت میں کوئی بھی پارلیمان اپنے اہل دستور، یعنی قرآن و سنت میں دیے گئے خدائی احکامات کو اپنے تمام تر قانونی اختیار کے باوجود تبدیل نہیں کر سکے گی۔ اسلام میں جمہوریت نہ مذہبی علَم برداروں کی ہوتی ہے نہ سیکولر علَم برداروں کی بلکہ یہ نظریاتی حکومت ہوتی ہے، جس کا دستورِ اساسی قرآن مجید ہوتا ہے‘‘ (Islam 2000 ،ص۱۲)۔
مراد ہوف مین کا کہنا ہے کہ ’’دنیا میں ہرشخص نے کسی دوسرے شخص سے فیض حاصل کیا اور ہر شخص نے کسی دوسرے شخص کی کامیابیوں پر عمارت کھڑی کی‘‘ ۔موصوف کے نزدیک ’’اسلام تصادم کا قائل نہیں، بلکہ افہام و تفہیم سے تہذیبوں کو آگے بڑھاتا ہے‘‘ ۔
ہمارے عزیز دوست اور سرپرست محترم عبدالرشید صدیقی، ۲۳دسمبر ۲۰۱۹ء کو انتقال فرما گئے: اِنَّـا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ! مجھے اُن کے ساتھ ۱۹۸۵ء سے بہت قریب رہ کر کام کرنے کا موقع ملا، خصوصاً ’ینگ مسلمز‘ (YM)، اسلامک سوسائٹی آف بریٹن (ISB) اور یوکے اسلامک مشن (UKIM) میں تو وہ ہمارے مربی، استاد اور رہنما تھے۔ اُن کی پارسائی، للہیت، بلندخلقی، فروتنی، مخلصانہ سرپرستی اور محبت آگیں رفاقت، وہ جوہری خوبیاں تھیں، جنھوں نے مجھے بے پناہ متاثر کیا اور دینی جذبے کی آنچ سے روشناس کرایا۔
وہ نجی ملاقاتوں میں اور زندگی کے رسمی اور غیررسمی مراحل اور مواقع پر قرآنِ عظیم کی آیات، احادیث کے اسباق اور سیرتِ طیبہ کے واقعات کو بروقت اور اس قدر دل نشین انداز سے تازہ کرتے، سدابہار مسکراہٹ سے دُہراتے اور اس پیارے انداز سے دل میں اُتارتے کہ جی چاہتا: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ وہ مزید کچھ بتائیں اور ان مقدس تعلیمات کے زیرسایہ وقت گزارنے کا موقع عنایت فرمائیں۔ یہ تو ایک بڑا روشن پہلو ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو میں نے ذاتی زندگی کے معاملات اور بحرانوں اور پریشانیوں میں رہنمائی کے لیے جب بھی ان سے رجوع کیا، تو انھوں نے کمالِ شفقت، بڑے خلوص، سراپا ہمدردی اور دُور اندیشی سے میری دست گیری کی۔ ان کی راے ہمیشہ صائب، مضبوط اور متوازن ہوتی۔
عبدالرشید صدیقی صاحب ستمبر ۱۹۳۲ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۳ء میں نقل مکانی کرکے برطانیہ تشریف لائے۔ اُن کی صالح فطرت نے انھیں یہاں پہنچنے کے پہلے ہی روز سے اسلامی تنظیموں سے وابستہ رکھا، اور پھر اس دیارِغیر میں انھوں نے زندگی کے ۶۰برس، دعوتِ دین، تزکیہ و تربیت اور تحقیق و تالیف کی سرگرمیوں میں اس طرح گزارے کہ ان کا نام برطانیہ میں خدمت ِ دین کا استعارہ بن گیا۔ مذکورہ بالا تینوں تنظیموں میں بڑا اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ طویل مدت تک دی اسلامک فاؤنڈیشن،لیسٹر (TIF) اور مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن (MIHE) کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن بھی رہے۔ مزید یہ کہ ۵۵برس تک ان اداروں کی رہنمائی اور نگرانی کے لیے بہت سی مرکزی ذمہ داریاں بھی ادا کیں، جن میں سینیر نائب صدر، سیکرٹری جنرل، سربراہ شعبۂ دعوت اور صدر شعبۂ منصوبہ سازی شامل ہیں۔
عبدالرشید صدیقی صاحب اپنے حُسنِ اخلاق، اَن تھک ریاضت، کامل یکسوئی، اعلیٰ تحقیقاتی قابلیت کے سبب اور اس سے بڑھ کر مطالعۂ قرآن اور مطالب ِ قرآن میں گہری نظر کی وجہ سے ہم سب کے مرکز نگاہ بن گئے تھے۔ وہ دعوتِ دین اور تربیت ِدین کی مصروفیتوں میں دلی سکون اور طمانیت محسوس کرتے تھے۔
انھوں نے اپنی زندگی کے سفر میں اہم موڑ کی نشان دہی ان لفظوں میں کی ہے: ’’بمبئی میں کالج کی تعلیم کے دوران میں زندگی کے معاملات اور سماجی مسائل سے لاتعلق سا تھا۔ اسی دوران میں میرے ایک عزیز دوست ذاکر علی صدیقی نے مجھے مولانا مودودیؒ کی کتب سے متعارف کرایا، جن کے مطالعے نے طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ اسی زمانے میں جماعت اسلامی کے ممتاز مربی مولانا شمس پیرزادہؒ کے حلقۂ درسِ قرآن میں باقاعدگی سے شریک ہونے لگا۔ امرواقعہ ہے کہ ان بلندپایہ اور علم وفضل سے مالا مال دروسِ قرآن نے نقطۂ نظر اور مقصد ِ زندگی میں یک سر تبدیلی پیدا کردی اور یہ شعور دیا کہ قرآن صرف پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ غوروفکر کرنے اور زندگی کو اس کے زیراثر گزارنے کے لیے ہے۔ اسی سلسلۂ درس میں مجھے معلوم ہوا کہ قرآن کریم اس وقت تک سمجھ میں آنہیں سکتا، جب تک کہ سنت اور حدیث کے فہم سے انسان کورا اور لاتعلق ہو۔ اس پہلو نے مجھے دینی علوم کی روشنی میں پڑھنے، سمجھنے، لکھنے اور سمجھانے کی راہیں دکھائیں‘‘۔
محترم صدیقی صاحب نے مزید بتایا: ’’شروع میں تو اجلاسوں کی رپورٹیں لکھنے اور پریس ریلیز مرتب کرنے کا کام بڑے شوق سے کرتا رہا۔ پھر اسٹڈی سرکلز چلانے میں مصروف ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی درسِ قرآن دینے پر زور دیا جانے لگا۔ طبیعت میں جھجک تھی اور آواز بھی کچھ تیز تھی، اس لیے حوصلہ نہیں پاتاتھا۔ تاہم، ۲۵برس کی عمر میں بمبئی جیسے بڑے شہر میں ناظم مقرر کردیا گیا۔ اس ذمہ داری نے لازمی طور پر وہاں درس دینے اور اسٹڈی سرکل چلانے کے لیے مطالعے میں وسعت پیدا کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک، مؤثر انداز میں ابلاغ کی ذمہ داری ادا کرنے پر اُبھارا،جس نے بہت سی صلاحیتوں کو اُجاگر کیا‘‘۔
یاد رہے زندگی کے ابتدائی عرصے میں عبدالرشید صدیقی صاحب نے معاشیات، سیاسیات اور قانون کی تعلیم بمبئی یونی ورسٹی سے حاصل کی تھی۔ اس کے بعد لندن میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کی سند ِ فضیلت لی۔ وہ لیسٹر یونی ورسٹی میں ۱۹۶۶ء سے ۱۹۹۷ء تک لائبریرین کے منصب پر خدمات انجام دیتے رہے۔ اس مدت میں یونی ورسٹی میں جمعہ کا خطبہ دینے کی ذمہ داری بھی باقاعدگی سے ادا کرتے رہے۔
بقول صدیقی صاحب: ’’جب برطانیہ آیا تو اسلامک مشن کی تشکیل کے بعد اس کے ترجمان پیغام کا مدیر مقرر ہوا۔ اداریہ نویسی کے ساتھ مضامین لکھنے، لکھوانے اور خبروں کو مرتب کرنے کی لازمی مشق بھی شروع ہوئی۔ اس چیز نے لکھنے اور لکھوانے کی منصوبہ سازی کی تربیت دی‘‘۔
تحریرو تصنیف کے ذیل میں عبدالرشید صدیقی صاحب نے بہت قیمتی کتب صدقۂ جاریہ کے طور پر چھوڑی ہیں، جن میں: *Living in Allah's Presence *Treasurers of the Quran *Key to al-Fatihah *Key to Al-Imran *Tazkiyah: The Islamic Path of Self-Development *Quranic Keywords: A Reference Guide *Lift up Your Hearts *Man and Destiny *Shariah: A Divine Code of Life وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح انھوں نے مختلف اسکالروں کی کتب کو بہت اعلیٰ معیار پر مرتب و مدون کیا۔(ترجمہ: س م خ)
اہلِ کشمیر ایک طویل مدت سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف اور اسلام کی سربلندی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے عزم و ہمت اور صبرواستقامت سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب کشمیری مرد و خواتین، نوجوان اور بچے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، جب کہ ایک لاکھ سے زائد زخمی و معذور ہوچکے ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں مرد و خواتین، نوجوان، بزرگ اور بچے بھارتی غاصب فوج کے ہاتھوں گرفتار، جیلوں، تعذیبی مرکزوں، انٹروگیشن سنٹروں اور ٹارچر سیلوں میں نہایت وحشیانہ اور انسانیت سوز مظالم سے دوچار ہیں جن کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد لاپتا ہے جن کے بارے میں نہیںمعلوم کہ آیا وہ زندہ بھی ہیں یا ہلاک ہوچکے ہیں۔
اس تمام تر جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کے باوجود اہلِ کشمیر نے بھارتی جارحیت اور تہذیبی و ثقافتی یلغار کا منظم انداز میں ایک جامع حکمت عملی سے مقابلہ کیا ہے۔ سیاسی محاذ ہو یا نظریاتی محاذ، تہذیبی و ثقافتی محاذ ہو یا تعلیمی محاذ اور دعوتی محاذہو یا عسکری محاذ___ ہرہرمحاذ پر اہلِ کشمیر نے مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کی بھارت کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور لازوال قربانیوں سے داستانِ عزیمت رقم کی ہے۔
اس تحریکِ آزادی میں خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ حصہ لیا ہے اور کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ انھوں نے مردوں کو حوصلہ اور سہارا دیا ہے، اپنے بیٹوں کو جہادکشمیر کے لیے تیار کیا اور بھارتی فوج کے ظلم و جبر اور سفاکیت کو بڑے حوصلے اور ہمت سے برداشت کیا۔ مردوں کے شہید یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں خواتین کو بہت سے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ وہ نیم بیوہ اور نیم بیوی کی سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ خاوند حیات ہیں یا شہید ہوچکے ہیں۔ مائوں کو لاپتا ہوجانے والے بچوں کا انتظار ہے کہ آیا زندوں میں ہیں یا مُردوں میں کہ صبر ہی آجائے۔ مردوں کی عدم موجودگی میں خواتین معاشی بوجھ بھی اُٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ لاپتا خاوند کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ نہیں پیش کرسکتیں کہ پنشن کی وصولی کی کوئی صورت بن سکے، بلکہ باپردہ خواتین بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں اپنے بچوں بالخصوص بچیوں کے تحفظ کے لیے بھی فکرمند اور ہراساں ہیں اور اس کے نتیجے میں ذہنی امراض سے بھی دوچار ہیں۔
ان حالات میں ادبی محاذ پر کشمیری اہلِ قلم نے ظلم کے خلاف بالخصوص خواتین کو درپیش مسائل اور ان کی قربانیوں کو موضوع بناتے ہوئے قلم اُٹھایا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں کئی ناول اور رپورٹیں سامنے آئی ہیں جنھوں نے مؤثرانداز میں ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے اور دنیا کو متوجہ کیا ہے۔ ان میں شہناز بشیر کا ناول Half Mother (نصف ماں)، بشارت پیر کا Curfewed Night (کرفیو کی رات) اور مرزا وحید کا The Collaborater (دشمن سے خفیہ تعاون کرنے والا) معروف ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیرڈ پرسنز، کے تحت ایک رپورٹ Half Widow, Half Wife(نصف بیوہ، نصف بیوی) بھی سامنے آئی ہے جس میں براہِ راست خواتین سے رابطہ کر کے ان کے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ ان خواتین کے مسائل پر مبنی ہے جنھیں نہیں معلوم کہ ان کے خاوند زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: نیم بیوائیں، نیم بیویاں، ترجمان القرآن، مئی ۲۰۱۲ئ)
’نصف ماں‘ (Half Mother) حال ہی میں سامنے آنے والا ناول ہے جس کے جواں سال مصنف، شہناز بشیر سنٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر میں میڈیا اسٹڈیز سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے اپنے ناول میں ۱۹۸۷ء کے انتخابات کے بعد جب اہلِ کشمیر نے سیاسی عمل سے مایوس ہوکر عسکریت کی حکمت عملی کو اپنایا اور ۱۹۹۰ء میں وادی میں مظالم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تھا، کو موضوع بنایا ہے۔ مختلف کرداروں کے ذریعے اس دور کے مظالم کی عکاسی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ۸ہزار لاپتا افراد کے لواحقین بالخصوص مائیں جس کرب اور اذیت سے گزر رہی ہیں، اس کو حلیمہ کے کردار سے نمایاں کیا ہے جس کے جوان بیٹے (عمران) کو بھارتی فوجی اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اس دوران اس کا سہارا اور حوصلہ دلانے والا باپ بھی شہید کردیا جاتا ہے۔ وہ بے یارومددگار لیکن ماں کی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بیٹے کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہے اور ماری ماری پھرتی ہے۔ پولیس اسٹیشن، جیل، آرمی کیمپ اور ٹارچر سیل اور جہاںتک اس کی رسائی ممکن ہوتی ہے، بیٹے کو تلاش کرتی پھرتی ہے لیکن ناکامی کا منہ ہی دیکھتی ہے۔ یہ خون کے آنسو رُلا دینے والی کہانی ایک کشمیری ماں کے جذبات و احساسات اور اس کے مسائل کی عکاسی کرتے ہوئے قاری کو بہت متاثر کرتی ہے اور سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔
ادبی محاذ پر ایک اور آواز معروف ادیب، مین بُکر پرائز اور سڈنی پیس پرائز کی حامل ارون دھتی راے کی ہے جو ہندو ہونے کے باوجود کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اُٹھاتی رہتی ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں امرناتھ منتقلی زمین کا تنازع اُٹھا تھا اور حکومت نے غیرقانونی طور پر کشمیر کی زمین ہندو پنڈتوں کو الاٹ کرنے کی کوشش کی تھی تو پورے کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوگئی تھی اور لاکھوں کشمیری اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس موقعے پر ارون دھتی راے نے کشمیر کا دورہ کیا تھا اور پھر ایک تنقیدی انٹرویو میں چشم دید مشاہدات کی روشنی میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اہلِ کشمیر اگر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ان کو علیحدگی کا حق ملنا چاہیے۔ یہ انٹرویو ٹائمز آف انڈیا میں ۸؍اگست ۲۰۰۸ء کو شائع ہوا۔ اس پر انھیں ہندوئوں کی طرف سے سخت احتجاج اور دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہ دبائو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں اس ادیبہ کو اہلِ کشمیر کے حق میں آواز بلند کرنے سے نہ روک سکا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح اہلِ کشمیر ادبی محاذ پر سرگرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، پاکستانی ادیب بھی اپنا فرض ادا کریں۔ افسانہ، ناول اور شاعری کے ذریعے کشمیر کا مقدمہ پیش کریں اور دلوں اور جذبات کی ترجمانی کریں۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں آواز پہنچانا بہت سہل ہوگیا ہے۔ اہلِ کشمیر اگر اپنے خون کی سرخی سے تاریخ رقم کر رہے ہیں، تو کیا پاکستانی اہلِ قلم کا فرض نہیں کہ وہ بھی اپنے قلم کی سیاہی سے کچھ قرض ادا کریں۔