مضامین کی فہرست


فروری ۲۰۲۰

برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں سیّد علی شاہ گیلانی (پیدایش: ۲۹ستمبر ۱۹۲۹ء، بانڈی پورہ، کشمیر) ایک قابلِ رشک مجاہد آزادی اور شان دار زعیمِ ملّت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنی ۹۰برس کی زندگی میں انھوں نے ۲۷برس قیدوبند میں گزارے ہیں اور ہرحال میں، بہار ہو کہ خزاں، کلمۂ حق بلند کیا ہے۔ قلم، تقریر، دلیل اور عمل کے ہردائرے میں جہادِ زندگانی اور تحریک ِ آزادی کا مجسم نمونہ ہیں۔ اس اعتبار سے گیلانی صاحب، ۲۰ویں اور اب ۲۱ویں صدی میں، حق و انصاف، قربانی و استقلال، ایمان و کردار، فکرو دانش اور پیہم رواں کا ایسا استعارہ ہیں کہ جن کے عہد میں ہمیں سانس لینے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔
محترم گیلانی صاحب نے حسب ذیل کھلے خط میں جس دل سوزی سے، جموں و کشمیر کے مظلوموں اور پاکستان کے شہریوں اور مقتدر حلقوں کو مخاطب کیا ہے، اسے ہم ۵فروری کے یومِ یک جہتی کشمیر کی مناسبت سے ترجمان القرآن کے ذریعے پیش کر رہے ہیں، اور اس عزم اور یقین کے ساتھ پیش کررہے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی یہ تاریخی جدوجہد اب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور ان شاء اللہ کامیابی سے سرفراز ہوگی۔ البتہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ مختصراً یہ ہے:
    ۱-      بھارت سرکار کی طرف سے بدترین مخالفت اور ظلم و استبداد کے علی الرغم سرفروشانہ جدوجہد کا تسلسل اور اس میں زیادہ سے زیادہ عوامی شرکت۔
    ۲-     پاکستانی قوم اور حکومت کی پوری یکسوئی اور استقلال کے ساتھ اس جدوجہد کی مکمل تائید، عالمی دباؤ کے حصول کی بھرپور کوشش، اور بھارت کے ہرہتھکنڈے، منفی ابلاغی پروپیگنڈے اور جارحانہ اقدام سے نبٹنے کے لیے مکمل تیاری۔ اور اس میں عوامی شمولیت کا احساس بیدار کرنا۔
    ۳-     بارباراور ہرمحاذ پراس امر کو واضح کرنا کہ مسئلہ کشمیر محض دو ملکوں کے درمیان کوئی زمینی تنازع نہیں ہے، بلکہ تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کا اصل اور جوہری ایشو جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقِ خودارادیت کا حصول ہے، جسے اقوام متحدہ کی ایک درجن سے زیادہ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور جس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ انسانی حقوق کی پامالی اور ایک گونہ کشمیریوں کی نسل کشی (Genocide) بھی بڑااہم پہلو ہے، لیکن اس میں اوّلین حیثیت حقِ خودارادیت کو حاصل ہے۔ حقِ خود ارادیت کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک مظلوم اور محکوم قوم کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر یہ جدوجہد بھارتی عسکریت کی وجہ سے جوابی عسکریت کی شکل اختیار کرتی ہے، تب بھی اسے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا اوراس کی حیثیت جنگ ِ آزادی کی ہوگی۔
    ۴-    یہ مسئلہ سیاسی جدوجہد اور عالمی اداروں کے کردار کے ذریعے طے ہونا چاہیے اور صرف وہی حل مسئلے کا یقینی حل ہوگا، جسے جموں و کشمیر کےعوام اپنی آزاد مرضی سے قبول کریں۔ عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ مسئلے کے حل اور علاقے کے امن کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں، اور جس طرح دنیا کے دوسرے علاقوں میں محکوم اقوام کے لیے حقِ خودارادیت کو یقینی بنایا گیا ہے، اسی طرح جموں و کشمیر کے عوام کو یہ حق فراہم کیا جائے۔ یہ مسئلہ کسی ملک یا ادارہ کی ثالثی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ کا مسئلہ ہے، جس سے بھارت صرف جبر کی قوت کے سہارے راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔ سیّد علی گیلانی پاکستان اور اُمت مسلمہ اور انسانیت کو اسی طرف متوجہ کر رہےہیں۔ (مدیر)
_____________
اےلوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائےگی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال ۸:۴۵-۴۶)
 عزیز ہم وطنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
تمام تعریفیں اللہ ربّ العزت کے لیے، جس نے ہمیں غاصب بھارت کے ریاست جموں و کشمیر پر قائم ناجائز قبضے کے خلاف خندہ پیشانی سے مزاحمت کرنے کی ہمت عطا کی، اور اس مکار قابض کے تمام تر ظلم وجور اور مکروفریب کے باوجود حق پر قائم وثابت قدم رہنے کی طاقت بخشی۔  اسی کی طرف رجوع لازم ہے، جس کی نصرت فتح کی نوید ہے اور جس کی رضا ہماری منتہاے نظر ہے۔
عزیز ہم وطنو!
جن حالات سے ریاست جموں و کشمیر گزر رہی ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں اور تاریخ کے جس موڑ پرآج ہماری قوم کھڑی ہے، ایسے میں آپ سے مخاطب ہوکر آپ کے سامنے لائحہ عمل پیش کرنا میرافرضِ منصبی ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے ہرطرح کی قدغنیں نافذ کررکھی ہیں، لیکن خداے بزرگ و برتر اپنی غیبی تائید سے ہم محکوموں کی نصرت کرتا ہے۔
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک روز ہم بھی غلامی سے نجات پائیں گے اور بھارت بالآخر ہماری مزاحمت کےآگے گھٹنے ٹیک دے گا اور اس کے آخری فوجی کے انخلا تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی،ان شاء اللہ!
۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک ہماری تحریک ِآزادی کٹھن مراحل سے گزری ہے۔ ہم نے ہر وہ راستہ اختیار کیاہے، جس سے ہم اپنے مبنی بر صداقت مطالبے کو منوا کر حقِ خود ارادیت کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ چاہے وہ جمہوری راستہ ہو یا کوئی اور طریقہ، ہم نے اپنی مزاحمت میں کوئی لچک نہیں آنے دی۔ تحریک ِ آزادی نے، ۱۹۸۷ء میں یہ ثابت کیا کہ بھارت کا جمہوری نقاب ایک ڈھکوسلا ہے اور اس نقاب کے پس پردہ ایک خونخوار درندہ ہے۔ ’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘ کے مصداق ہمارے غیور جوانوں نے میدانِ کارزارکا راستہ اختیار کیا اور تاریخ اسلام  میں مزاحمت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ بھارتی استعمار آج تک ششدرہے۔ عوامی تحاریک ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۶ء ، ۲۰۱۹ء کے ذریعے ریاست کے طول وعرض میں عوام نے اپنے مطالبۂ آزادی کو دُہرا کر لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی۔ عوامی جذبے کی شدت سے حواس باختہ ہوکر بھارت نے اپنے آخری حربے کے طور پر ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کا خودساختہ غیرقانونی اعلان کیا۔
ایسے حالات میں، جب کہ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح کشمیر اور کشمیریوں کےخلاف نفرت اور انتقام کی مہم جاری رکھی اور مقامی اخبارات بھی زمینی صورتِ حال پر پردہ پوشی کے مرتکب ہوئے۔ ان کے برعکس بین الاقوامی صحافتی ادارو ں نے کماحقہٗ موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کرکے ہندستانی مظالم اورسفاکیت کی داستان دُنیا تک پہنچانے کی منصبی ذمہ داری نبھائی۔
عزیزانِ ملّت!
پچھلے ۷۰برسوں کےدوران بھارتی حکومتوں کی فریب کارانہ سیاست اور بھارتی فوجی جبرومظالم سے یہاں کے عوام کو اپنے پیدایشی حقِ خود ارادیت کے مطالبے سے دستبردار کرنے میں ناکام ہوکر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ایک نسل پرست فسطائی بھارتی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کاغیراخلاقی، غیرانسانی اور غیرجمہوری فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی متنازعہ ریاست کی جغرافیائی وحدت کو توڑ کراسےدوحصوں میں تقسیم کردیا،حالانکہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت کی حیثیت محض ایک قابض اور جابر کی ہے، جس کا واضح ثبوت اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اس فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے بھارتی حکومت پورے خطے میں غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو کانفاذ عمل میں لائی۔ ۱۸ہزارسے زائد لوگوں کو حراست میں لےکر پولیس تھانوں اور جیلوں میں نظربند کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں کمسن بچوں، نوجوانوں اوربزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گھروں میں گھس کر پردہ دار خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ احتجاج کرنے کی صورت میں خواتین اور لڑکیوں کی عصمت پامال کرنے کی کھلے عام دھمکیاں دی گئیں۔ لوگوں کی زمینوں اور گھروں کو ضبط کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ صوبہ جموں اور لداخ کی مسلم آبادی پہلے سے ہی بھارتی فوج کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ہرطرح کی مواصلات اور انٹرنیٹ سروس کومعطل کیا گیا۔ پیلٹ گن کا بے تحاشا استعمال کرکے بچوں اور نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ان تمام مظالم اور جبر و زیادتیوں کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام نے بھارتی استعمار کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی ہے، اور دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ ہم اپنی جدوجہد اور مطالبۂ آزادی سے کسی بھی صورت میں دست بردار نہیں ہوسکتے۔
عزیز ہم وطنو!
میں نے آپ کو بارہا اس حقیقت سے باخبر کیا ہے کہ بھارت صرف جموں و کشمیر پر قابض ہونے پر ہی نہیں رُکا، بلکہ وہ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے علاوہ ہمارا عقیدہ، ہماری شناخت اورہماری تہذیب چھیننے کے درپے ہے۔ ۵؍اگست کا فیصلہ اسی فسطائی حقیقت کا ایک عملی اقدام ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت سے غیرمسلم آبادی کو لاکر یہاں جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنےکی کوشش کی جائے گی۔ لاکھوں کنال کی عوامی اراضی ، جس پر بھارتی فوج پہلے ہی قبضہ جمائے ہوئے ہے ، اس کے علاوہ مزید اراضی کو ہڑپ کر لیا جائے گا۔ ان غیرریاستی باشندوں کو بھارتی افواج کی پشت پناہی حاصل ہوگی، جو یہاں کے مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے بھارت کے ہراول دستے کا کام انجام دیں گے۔
نام نہاد تعمیر و ترقی ، تعلیمی اور طبی اداروں کے قیام کےعلاوہ تجارت کے نام پر مزید اراضی بھارتی اداروں کے حوالے کی جائے گی۔ ہمارےقدرتی وسائل بھی ہم سے چھین لیے جائیں گے۔ میوہ جات، باغات، سدابہار جنگلات اور آبی وسائل تک سے محروم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارے مسلم اکثریتی کردار کو ہرسطح پر نشانہ بنا کر ہم سے بحیثیت مسلمان زندہ رہنے کاحق چھینا جائے گا۔
 اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہماری مساجد اور ہماری خانقاہوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو تاریخی بابری مسجد کے ساتھ عملاً کیا گیا۔ اسی طرح ہمارے دینی مدارس بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ بابری مسجد کو شہیدکرکے اسے مندر میں تبدیل کرنے کے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قائداعظم محمدعلی جناح، حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور وہ ہزاروں لاکھوں مسلمان، جنھوں نے تحریک ِ پاکستان کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، نہ صرف بصیرت افروز تھے بلکہ اپنے خدشات میں قائم بالحق تھے۔
عزیز ہم وطنو!
مَیں یہاں ان ہندنواز سیاست دانوں کاذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو بھارتی فوجی قبضے کو ریاست میںدوام بخشنے کے لیے پچھلے ۷۰برسوں سے بھارت کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیںاور نام نہاد انتخابات کے ذریعے یہ باور کراتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے نمایندے ہیں۔ حالانکہ مَیں باربار یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ بھارتی میکاولی سیاست میں ایسے لوگوں کی وقعت فقط قابلِ استعمال    آلہ کاروں کی سی ہے۔ وہ آج تک اس زعمِ باطل میں مبتلا تھے کہ وہ قوم کی خدمت کر رہے ہیں، حالانکہ وہ بھارت کے دست ِ راست ہیں اور اس مکروفریب میں وہ بین الاقوامی سطح پر تحریک آزادی اور عوامی جذبات کے خلاف اپنی آوازیں بلند کرکے بھارتی قبضے کو سند ِ جواز بخشتے رہے ہیں۔
لیکن وقت اور تاریخ نے اس نہتی قوم کو یہ دن دکھایا کہ جس میکاولی اور فریب کارانہ سیاست کی چاپلوسی کرتے ہوئے، جس دلّی دربار کی خوش نودی کے لیے یہ ہندنواز ٹولہ اپنے ہی محکوم و مجبور عوام کو تختۂ مشق بناتارہا، اسی دلی دربار نے خود انھیں ایسا نشانۂ عبرت بنا کے چھوڑا ہے کہ وہ منہ چھپانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اب ان کے لیے ایک باغیرت اور ذی حس انسان کی طرح اپنی فاش غلطیوں اور قومی دغا بازیوں سے توبہ کرکے حق و صداقت کا علَم تھامنا ہی راہِ نجات ہے۔ ذلّت اور رُسوائی سے حاصل شدہ مال و متاع کے بجاے حق و انصاف کے حصول کا خاردار راستہ ہی سرخروئی، عزت اور وقار کی زندگی عطا کرسکتاہے۔
مَیں ایک بار پھر ان ہندنواز سیاست دانوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ تاریخ نے انھیں ایک اور موقع فراہم کیا ہے، جو شاید آخری ہو کہ عوامی جدوجہد ِ آزادی میں شامل ہوکر قومی جذبۂ حُریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
غیور ہم وطنو!
اس نازک مرحلے پرمَیں اپنی قوم کے مستقبل اور اپنی آنے والی نسلوں کے حوالے سے متفکر ہوں۔ میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ بھارتی عزائم کی ہرسطح پرمزاحمت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری آج کی مزاحمت، کل کی آزادی کی نوید ہوگی۔ یہاںکاہرباشندہ اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کرکے تحریک ِ آزادی میں اپنا کردار ادا کرے اور کسی بھی طرح کی غفلت، لاپروائی اور غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب برتے:
    ٭    آپ کو کسی بھی صورت میں کسی بھی قیمت پر، کسی بھی غیرریاستی باشندے کو اپنی جایداد، بشمول اراضی، املاک، مکانات و دکانات وغیرہ فروخت نہیںکرنی ہے۔ غیرریاستی باشندوں کو کرایہ دار کی حیثیت سے بھی قبول کرنے سے اجتناب برتنا ہے۔
    ٭    تاجروں کو اس بات پر متفق ہوجانا ہے کہ وہ تجارت کے نام پرکسی بھی غیرریاستی باشندے یا حکومت سے کوئی بھی ایسا معاہدہ نہیں کریں گے کہ جس کے عوض انھیں اپنی املاک کو فروخت کرنا پڑے۔
    ٭    یادرکھیے، تعلیم، تجارت، طبی ادارہ جات اور ترقی کے نام پر عوام کو ورغلانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لیےعوام کسی نعرے کے دامِ فریب میں نہ آئیں اور ایسی کسی پالیسی کے نام پر غیرریاستی اداروں اور افراد کو اپنی املاک فروخت نہ کریں۔
    ٭    اپنی مساجد، خانقاہوں اور دینی مدارس کی حفاظت کے لیے چاک وچوبند رہیں۔
    ٭    بھارت ہم سے ہماری زبان مختلف طریقوں سے چھیننے کی کوشش کرے گا، لیکن نئی نسل اپنی زبان پہچانے اور اس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔
    ٭    اُردو جو کہ ہمارے لیے اسلامی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے، اس پر بھی ڈاکا ڈالنے کی کوشش ہوگی۔ آپ کو اس کی بھی حفاظت کرنا ہے، تاکہ ہماری اسلامی،علمی اور تہذیبی شناخت برقرار رہے۔
    ٭    لداخ، جموں، پیرپنچال، وادیِ چناب کے مسلمانان نے ہمیشہ قلیل وسائل کےباوجود قابض قوتوں کےخلاف سینہ سپر ہوکر جذبۂ آزادی کو اپنے خون سے سینچا ہے۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر مَیں انھیں ان کی استقامت و جرأت پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ وادیِ کشمیر کے عوام کو چاہیے کہ تحریک ِ مزاحمت کے ہرمرحلے پر ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں، انھیں خراجِ تحسین پیش کریں اورانھیں اپنی ہرسعی میں شاملِ حال کریں۔
    ٭    تعلیمی اداروں کے ذریعے سے تاریخ کو ہندوانےاور مسخ کرنے کا قبیح کام کیا جائے گا۔ اس لیے اپنی ملّی تاریخ کو اپنی نسل تک پہنچانے کا انتظام آپ کو خود کرنا ہے۔ گھروں میں ایسی روایات کو جاری کرنا ہے کہ ہماری نئی نسل ریاست جموں و کشمیر کی اصل تاریخ سے باخبر رہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی اس کوشش کے مدمقابل حقیقی تاریخ کو مرتب اور منضبط کرنا آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
    ٭    نام نہاد انتخابات کی حقیقت آپ پرعیاں ہوچکی ہے۔ اس لیے آپ کو کسی بھی قسم کے بھارتی انتخابی ڈرامے بشمول پنچایت، میونسپل، اسمبلی اور ہندستانی پارلیمان میں کسی بھی سطح یا طریقے سے شامل نہیں ہونا ہے۔ ایسی کوئی بھی حرکت قومی غداری کے مترادف ہے۔
    ٭    تحریک ِ آزادی میں متاثرہ افراد خاص طور پر جوانوں، قیدیوں، بیواؤں، زخمیوں، جسمانی طور پر معذور افراد کی امداد آپ پر لازم ہے۔ میدانِ کارزار میں مصروف جوانوں کو ہردم اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیے اور یہ بھی اَزبر کرلیجیے کہ ہم شہدا کے امین ہیں اور اس امانت کی آپ کو حفاظت کرنی ہے۔
    ٭    جموں و کشمیر پولیس جو کہ ۱۸۷۳ء سےہی ریاستی عوام پر ظلم و جبر ،قتل اوردرندگی کے پہاڑ ڈھانے کی مرتکب ہے ،جن کے ہاتھ کشمیریوں کے قتل عام، عصمت دری، آتش و آہن اور جوانوں کی بینائی چھیننے میں ملوث ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ روزِ اوّل سے ہی جموں و کشمیر کی پولیس نے ریاست پر ہرناجائز قابض کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج، جب کہ بھارت نے حد ِ فصیل کھینچ دی ہے ، ہمارے اور ہماری آزادی کے درمیان بھارتی فوج اورجموں و کشمیر پولیس کی بندوقیں حائل ہیں۔ مَیں جموں و کشمیر پولیس کو تاریخ کے اس فیصلہ کن مرحلے پر خبردارکرتا ہوں: اس سے پہلے کہ عوامی جذبۂ حُریت انھیں پر ِکاہ کی مانند بہا لے جائے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنے عمل کا حساب کریں اور طے کریں، آیا کہ   وہ مظلومانِ کشمیر کے ہمراہ کھڑے ہوں گے یا بھارتی قاتلوں اورسفاکوں پر مشتمل فورسز کے شانہ بشانہ ان کے خلاف نبردآزما ہوں گے۔
عزیز ہم وطنو!
اس صبرآزما اور کٹھن مرحلے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جس جرأت، بالغ نظری اور حقیقت پسندی سے کام لے کر پوری دنیا میں ہماری جدوجہد ِ آزادی اور ہم پرروا رکھے گئے بھارتی مظالم کو پیش کیا ہے، وہ قابلِ ستایش ہے۔ ایسی توقع ایک مخلص دوست اور شفیق محسن سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ پاکستان ہی کی اَن تھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ۵۲سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر زیربحث آیا۔ ہم حکومت ِ پاکستان اور پاکستانی عوام کی مدد کا    تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ بھارتی استعمار اور اس کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرکے بھارت کو ایک غاصب اور قابض کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بارہا ایسا ہواہے کہ پاکستان کی داخلی سیاست کے منفی اثرات، مسئلہ کشمیر کو جھیلنا پڑے ہیں۔ اس لیے میں پاکستانی سیاست دانوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ یک زبان کھڑے رہیں۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اور ان کے بعد ہرپاکستانی حکومت نے اس کی تائید کی۔ اب وقت آچکا ہے یہ ثابت کرنے کا کہ یہ محض ایک نعرہ نہیں، اور اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام تر وسائل بشمول جرأت اور حوصلے کو بروے کار لاکر بھارت کی حالیہ جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے کشمیر کا دفاع کرے۔
اس دوران دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیریوں نے جس طرح اپنی تحریک ِ آزادی کے حق میں اور بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کی، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری جہاں بھی ہیں وہ تحریک ِ آزادی کے سفیر ہیں۔
غیور ہم وطنو!
آج ایک بار پھر یہ عہد کریں کہ ہم بھارت کی غلامی کو کبھی بھی سند ِ جواز نہیں بخشیں گے۔ ہم اتحاد واتفاق، نظم و ضبط، صبرواستقلال ، یکسوئی و یک جہتی اور باہمی ربط و اخوت کے زریں اصولوں پر عمل کرکے اپنی جہد مسلسل کو آزادی کی سحر تک جاری رکھیں گے۔
پیرانہ سالی اور صحت کی ناسازی شاید ہی مجھے آپ سے آیندہ گفتگو کی مہلت دے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ِواسعہ سے یہ اُمید ہے کہ وہ میری لغزشوں، کوتاہیوں سے درگزرفرمائے اور مغفرت سے نوازے۔ بہرحال زندگی اور موت کے فیصلے قاضیِ حیات کے دست ِ قدرت میں ہیں۔
میری دیرینہ خواہش رہی ہے کہ میرا مدفن مزارِ بقیع میں ہوتا کہ روزِقیامت مَیں ان عظیم ہستیوں کی معیت میں اپنے ربّ سے ملوں، جن کے نقش ہاے قدم ملّت اسلامیہ کے لیے روشنی کے مینار ہیں اور جن کی پیروی کرتے ہوئے مَیں نے ملّت اسلامیہ کا دفاع اور اقامت دین کی جدوجہد حسب ِ استطاعت کی ہے۔ لیکن پچھلے ۷۰برسوں سے عموماً اور گذشتہ ۳۰،۳۵ برس کے دوران خصوصاً جس طرح اور جس بڑی تعداد میں کشمیر کے نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم و جبر کے خاتمے اور آزادی اور اسلام کے غلبے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں، اس میں کشمیر کی اس سرزمین اور خاص طور پر اس کے ان حصوں کو جہاں پہ پاک نفوس دفن ہیں، ایک خاص تقدس اور احترام بخشا ہے، اس لیے انھی کے پہلو میں جگہ پانا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں۔
یاد رکھیں کہ ربِّ کائنات کی رحمت سے نااُمید ہونا مسلمان پر حرام ہے۔ پُراُمید رہیں کہ ظلم کی تاریک رات چاہے کتنی ہی طویل ہو، بالآخر اختتام کو پہنچے گی۔ تاریخ فرعون و قارون اورہامان و چنگیز کا انجام دیکھ چکی ہے___ دوام فقط حق کو ہے۔

علی گیلانی

سلطان الخطاطین حافظ محمد یوسف سدیدیؒ (۱۹۲۶ء- ۸محرم ۱۴۰۷ھ/۱۳ستمبر ۱۹۸۶ء) بیسویں صدی کے نام وَر خوش نویسوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یوں تو اُن کی خطاطی کے شہ کار بہت سے مقامات پر فنی کمال کے گواہ ہیں، تاہم یہاں پر ایک مثال پیش ہے۔ حافظ صاحب نے اپنی عمر کے آخری حصے میں لاہور میں جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی جامع مسجد منصورہ کے ہال کی چاروں بیرونی پیشانیوں کی آرایش کے لیے پانچ انچ قط کے قلم سے پانچ فٹ بلند حروف میں سورئہ توبہ کی آیات ’بخط ِ ثلث‘ ۲۶۰فٹ طویل رقبے پر پھیلاکر بیسویں صدی کی جلی نویسی کی ایک شان دار مثال قائم کی۔ انھوں نے اس مسجد کے ایوان کی چاروں دیواروں کی اندرونی پیشانیوں پر سورۃ الصف کی آیات جلی خط ِ کوفی میں ۲۶۰فٹ کے لگ بھگ طویل اور پانچ فٹ سے زیادہ اُونچائی کی عبارتیں لکھیں۔ علاوہ ازیں مسجد کے ایوان کی محراب کو سورئہ حشر کی آخری تین آیات بخط ِ کوفی جلی لکھ کر آراستہ کیا۔ اس ضمن میں ذیل میں حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم کا ایک خودنوشت طویل اقتباس درج ہے:
_______________
’’ یہ جامع مسجد جماعت اسلامی [پاکستان] کے مرکزی دفتر منصورہ، ملتان روڈ،لاہور میں واقع ہے۔اس مسجد کی بنیاد مولانا مودودیؒ نے۲۸رمضان المبارک ۱۳۹۳ھ بمطابق ۲۶؍اکتوبر ۱۹۷۳ء میں رکھی، جس کا ایوان ۶۰x۸۰ فٹ، ۱۹۷۴ء میں تیار ہوگیا ۔مسجد کے باقی حصوں کی تعمیر کا کام ابھی جاری تھا کہ مسجد کے ایوان کو خطاطی سے مزین کرنے کے لیے جماعت کے نمایندوں نے مجھ سے رجوع کیا۔چنانچہ میں نے ’خط کوفی مقفل‘ کا ایک نمونہ لکھ کر مولانا مودودیؒ کو دکھایا تو انھوں نے تجویز کیا کہ ’’یہ رسم الخط پڑھنے میں سہل نہیں، لہٰذا آپ ’آسان کوفی خط‘ میں لکھیں جو پڑھا جا سکے‘‘۔ نیز انھوں نے یہ بھی تجویز کیاکہ مسجد کی بیرونی چاروں پیشانیوں کو مسجد سے متعلق قرآنی آیات کی خطاطی سے ’بخط ثلث‘ مزین کیاجائے اور اسی طرح ایوان کی اندرونی پیشانیوںکو قرآنی آیت سے بخط ِ کوفی آراستہ کیا جائے‘‘۔چنانچہ بیرونی پیشانیوںکے لیے قرآن مجید کی   سورۂ توبہ کی آیت نمبر۱۸،۱۹ اور ۲۰ کا کچھ حصہ انتخاب کیا گیا ۔ کتابت کا کا م میں نے اپنے گھر میں کیا۔ اس کے لیے جماعت نے مجھے ایک بڑا سا لکڑی کا بورڈ تیار کروا کے دیا، جو میرے گھر کے برآمدے کی لمبائی اور اونچائی کے برابر تھا۔انھوں نے مجھے کھڑے ہو کر لکھنے کے لیے لکڑی کی ایک چوکی بھی بنوا دی۔ چنانچہ جب مجھے لکھنا ہوتا تو میں مطلوبہ سائز کا کاغذ بورڈ پر پنوں [Pins]سے کس لیتا اور پھرچوکی پر کھڑا ہو کر لکھائی نیچے سے شروع کرکے اوپر تک لکھتا چلا جاتا۔ ’بخطِ ثلث‘ عبارتوں کی اُونچائیپانچ فٹ کے لگ بھگ اور قلم کی چوڑائیپانچ انچ تھی ۔ بیرونی چار پیشانیوں پر مذکورہ آیات کی عبارتوں کی تقسیم حسب ذیل تھی:
- ایوان کی مشرقی پیشانی کے ماتھے پر ایوان کی لمبائی کے برابر سیمنٹ سے ایک ابھروی پٹی بنائی گئی، جس کے آغاز میں عمودی مستطیل پٹی میں اللہ جل جلالہ  اور آخر میں جنوبی جانب اسی طرح کی عمودی مستطیل پٹی میں محمدؐ رسول اللہ  اوران دونوں کے درمیان طویل اُفقی پٹی میں بسم اللہ شریف سے آغاز کرکے سورۂ توبہ کی ۱۸،۱۹ اور ۲۰ویں آیت کی عبارت:
اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ وَلَمْ يَخْشَ  اِلَّا اللہَ  
lایوان کی جنوبی پیشانی: حسب سابق ڈیزائن میں دائیں بائیں اللہ جل جلالہ اور محمدؐ رسول اللہ کے درمیان بقیہ آیت کی عبارت:
 فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَo اَجَعَلْتُمْ سِقَايَۃَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
- ایوان کی مغربی پیشانی: عبارت دو حصوں میں درمیانی محراب کی عقبی ابھار کی وجہ سے تقسیم ہے۔ دائیں طرف سے پہلے حصے میں حسب سابق اللہ جل جلالہ اور بائیں جانب محمدؐرسول اللہ کے درمیان آیت کی بقیہ عبارت:
كَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ
- محراب سے اگلے شمالی حصے میں اللہ جل جلالہ اور محمدؐرسول اللہ  کے درمیان میں آیت کی بقیہ عبارت:
فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ
o
- ایوان کی شمالی پیشانی: حسب سابق ڈیزائن میں دائیں بائیں اللہ جل جلالہ اور محمدؐرسول اللہ  کے درمیان بقیہ آیت کی عبارت:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ
اور آخر میںاوپر خفی قلم میں اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰  اور یوسف السدیدی ، ۱۴۰۰ھ ۔اس طرح چاروں بیرونی پیشانیوں کی عبارت کی کل لمبائی۲۶۰ فٹ بنتی ہے۔
- ایوان کی اندرونی پیشانیاں: دیواروں کی چاروں اندرونی پیشانیوں کے ماتھے پر آرایشی ’خط کوفی‘ میں قرآنی سورۃ الصف کی آیات تحریر ہیں۔ کتابت کی اُونچائی پانچ فٹ اور قلم کی موٹائی چاراِنچ کے قریب ہے اور عبارت کی کل لمبائی تقریباً ۲۶۰ فٹ ہے۔
- مغربی دیوار پر جنوبی رخ  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ کے بعد عبارت درج ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَہُوَ يُدْعٰٓى   
- جنوبی دیوار کی پیشانی پر سورۂ صف کی یہ عبارت درج ہے:
اِلَى الْاِسْلَامِ   ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo  يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَo ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ
- مشرقی دیوارکی اندرونی پیشانی پر سورۂ صف کی درجہ ذیل عبارت ہے:
رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَo يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَۃٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍo  تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہ
- شمالی دیوار کی اندرونی پیشانی پر سورۂ صف کی درجہ ذیل عبارت تحریر ہے:
بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَۃً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ
- محراب سے شمالی جانب مغربی دیوار کی سورۂ صف کی درجہ ذیل عبارت تحریر ہے :
الْعَظِيْمُo وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا۝۰ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ۝۰ۭ وَبَشِّـرِ الْمُؤْمِنِيْنَo
_______________
 مسجد کی اندرونی اور بیرونی پیشانیوں کی کتابت گویا حافظ محمد یوسف صاحب نے ۱۴۰۰ ہجری بمطابق ۱۹۸۰ء میں مکمل کر دی تھی، جسے ایوان کی دیواروں کی اندرونی اور بیرونی سطح پر لکھائی کو سیمنٹ کے ذریعے تیار کیا گیا۔یہ ساری لکھائی جماعت اسلامی کے رکن مولانا فیض الرحمان ہمدانی (م:۱۶جون۱۹۹۹ء) نے مکمل کرائی۔
تاہم، مسجد کی محراب کی لکھائی ابھی باقی تھی کہ حافظ صاحب سعودی عرب چلے گئے۔ جب وہ رخصت پر ۱۹۸۴ء میں پاکستان آئے تو مولانا ہمدانی نے ان سے دوبارہ رابطہ کیا۔ اس دوران حافظ صاحب کراچی گئے اور سعودی عرب روانگی سے پہلے وہاں اپنی بیٹی کے گھر میںبیٹھ کر    سورۃ الحشر (آیات:۲۲-۲۴) کی کاغذ پر کتابت کرکے اپنے بھائی محمد اقبال کے حوالے کی، جنھوں نے واپس لاہور آکر عزیزم بہارِ مصطفےٰ کے ذریعے اسے فیض الرحمان ہمدانی صاحب کے حوالے کردیا۔ چنانچہ یہ عبارت محراب کی دائیں اور بائیں جانب ایک چوڑی عمودی پٹی میں دیوار کی سطح پر ایک اُبھرے ہوئے فریم کے اندر ’بخطِ ثلث‘ اُبھار دی گئی۔عبارت کا متن یہ ہے:
ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ۝۰ۚ ہُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُo ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَo   ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ يُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُo     
عبارت کو بھی محراب کے گرد ایک چوڑی پٹی میں سیمنٹ کے ذریعے ابھارویں شکل میں نمایاں کر دیا گیا۔اس طرح مسجد پر حافظ صاحب کی لکھائی کی دوسری قسط ۱۹۸۴ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنازے کو اٹھانے میں جلدی کرو کیونکہ اگر مرنے والا صالح تھا، تو اس کا جنازہ اٹھانے میں جلدی کرنا ایک بھلائی ہے، جو تم اس کے ساتھ کرو گے۔ اگرمرنے والا اور قسم کا آدمی تھا تو وہ ایک برائی ہے، جسے تم جتنی جلدی کندھوں سے اتار دو ، اتنا ہی بہتر ہے۔[متفق علیہ، مشکوۃ:۱۵۵۶]
لیکن ہمارے ہاں جنازے کو دیر تک گھر میں ڈالے رکھنے کا طریقہ عام ہو چکا ہے ۔ تاخیر کا یہ طریقہ غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جتنی جلدی ممکن ہو جنازے کو اٹھا لیاجائے‘‘۔ اس کے اندر ایک مصلحت تو یہ ہے کہ کہ لاش سڑنے یا گلنے نہ پائے اور اس میں بو نہ پیدا ہو ۔ اور یہ بھی کہ مرنے والے کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے، وہ اس کی روح سے ہوتی ہے ۔ روح کے نکلنے کے بعد یہ جسم محض مٹی ہے، اس مٹی کو گھر میں ڈالے رکھنا محبت نہیں ہے۔ اور یہ بات خود مرنے والے کے لیے بھی اچھی نہیں ہے۔ اگر نیک ہے تو جتنی جلدی منزل پر پہنچا دو اتنا ہی بہتر ہے، اور اگر بد ہے تو جتنی جلدی اس بار کو اپنے اوپر سے ہٹا دیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔
 حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جب جنازہ لا کر رکھا جاتا ہے ، (یعنی گھر سے نکال کر ) پھر لوگ اپنے کندھوں پر اٹھا کر اسے لے کر چلتے ہیں، تو اگر مرنے والا نیک انسان ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ’’مجھے جلدی لے چلو‘‘۔ اگر مرنے والا صالح نہیں ہوتا، تو اٹھا کر لے جانے والوں سے کہتا ہے: ’’ہائے میری کم بختی !کہاں لے جا رہے ہیں یہ میرا جنازہ ‘‘۔اس کی آواز ہر چیز سنتی ہے مگر انسان نہیں سنتا۔ اگر انسان اس آواز کو سن لے تو بے ہوش ہو جائے ۔[بخاری، مشکوٰۃ: ۱۵۵۷]
اس سے مراد یہ نہیں کہ خود مردہ بولتا ہے بلکہ روح یہ سمجھتی ہے کہ اب میری شامت آگئی___  اگر نیک انسان ہو تو اسے اللہ کے دربار میںجانے کی خوشی ہوتی ہے۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے کسی انسان کو باد شاہ یا حکمران کے دربار میں حاضری کا موقع ملے تو اسے مسرت ہوتی ہے، لیکن اگر وہ مجرم کی حیثیت سے وہاں جائے تو معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے ۔ اگر مرنے والا غیر صالح ہو تو اسے قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ میں مجرم ہوں، اور مجھے حوالات میں بند کرنے کے لیے لے جارہے ہیں___ یہ احساس ، یہ سوچ اور چیخنا چلّانا مردہ جسم کا نہیں ہوتا بلکہ یہ روح کہہ رہی ہوتی ہے ___مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ روح کس شکل میں ہوتی ہے ، اورکس زبان میں بولتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ علم ہوتا ہے کہ نیک کو جلدی ہوتی ہے اور بد کو اپنی شامت نظر آتی ہے ___ یہ جو فرمایا کہ ’’اس آواز کو کوئی انسان نہیں سنتا ، باقی ہر چیز سنتی ہے، تو یہ اس لیے ہے کہ انسان سے عالم آخرت کی ہر چیز کو مخفی رکھا گیا ہے۔ اسے تو رسول ؐ کے واسطے سے جو معلومات ملتی ہیں، انھی پر ایمان بالغیب لانا ہوتا ہے۔ اگر انسان کو معلوم ہو جائے کہ مرنے کے بعد کیا کیا ہوتا ہے؟ اور وہ ان سب چیزوں کو آنکھوں سے دیکھ لے، تو پھر کون شخص ہے جو ایمان نہ لائے گا؟ اس عالم کے سارے معاملات کو انسان سے مخفی رکھنے کی غرض اس کا امتحان ہی ہے ۔
حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔ پھر جو جنازے کے ساتھ جائے تو اسے چاہیے کہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے ۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ:۱۵۵۸]
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:ایک تو یہ کہ جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہو جاؤ۔ اب اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا لازم ہے یا ایسا کرنا اچھا ہے ؟ اگر کھڑا ہو تو بہتر ہے ، اور نہ ہو تو کیا گناہ گار ہوگا؟ اس کے بعد جو احادیث آگے آرہی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واجب نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ کھڑا نہ ہو تو گنہگار ہوگا۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ جب جنازہ گزر رہا ہو تو انسان کھڑا ہو جائے اور اس وقت تک کھڑا رہے، جب تک کہ گزر نہ جائے۔ یہ ایک ادب واخلاق کی بات ہے، بجاے خود شرعی حکم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ ’’جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے ، بیٹھو نہیں‘‘۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک قبر میں نہ رکھ دیا جائے ، اس وقت تک نہیں بیٹھنا چاہیے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رکھنے کا مطلب کندھوں سے اتار کر زمین پر رکھنے کا ہے، جاتے ہی بیٹھ جانا درست نہیں ۔
حضرت جابر ؓ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جنازہ گزر رہا تھا ، اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے ۔ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم نے عرض کیا : یہ تو ایک یہودی عورت کا جنازہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’ یہ موت خوف ناک چیز ہے۔ جب جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو‘‘۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ:۱۵۵۹]
یعنی کھڑا ہونا اس وجہ سے ہے کہ جو وقت اس پر آیا ہے، وہ کل ہم سب پر بھی آنے والا ہے۔ یہ گویا اشارہ ہے اس بات کا، کہ دراصل موت کا خوف ہر آدمی کو ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اگر قبرستانوں، مُردوں اور جنازوں کو دیکھ کر بھی کسی انسان کو یہ یاد نہ آئے کہ اسے بھی مرنا ہے اور حساب دینا ہے، تو اس آدمی کی غفلت کی کوئی حد ہی نہیں۔ جنازہ دیکھ کر یہ حقائق سوچنے اور ان احساسات کو اپنے اُوپر طاری ہونے دینے کا ایک بہت بڑا اخلاقی فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ انسان عبرت محسوس کرتا ہے ۔ اگر قبرستانوں ، اور جنازوں کو دیکھ کر بھی کوئی شخص اس غلط فہمی میں رہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں گا، تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اصل بات بار بار یاد دلانے کا انتظام کر رکھا ہے۔
حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازے کے لیے کھڑے ہوتے، تو ہم بھی کھڑے ہوتے۔ جب آپ بیٹھتے، تو ہم بھی بیٹھ جاتے ___  دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے کھڑے ہوتے تھے ، بعد میں بیٹھنے لگے ۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۵۶۰]
اس سے معلوم ہوا کہ کھڑا ہونا لازم نہیں۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کام قانون کا ماخذ بننا تھا، اس لیے اگر آپؐ کوئی حکم فرماتے ہیں تو یہ فرض بن جاتا___ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طریقہ تو یہ تھا کہ کھڑے ہو جاتے، مگر کبھی کبھی بیٹھے رہتے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ فرض نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ اپنے ایمان اور احتساب (اللہ کی خوش نودی) کی بنا پر رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فارغ ہو جائیں، تو وہ دہرا اجر لے کر پلٹتا ہے، جس کا ایک ایک حصہ اُحد [پہاڑ] کے برابر ہے ۔اور جو شخص نماز پڑھ کر واپس آ جاتا ہے، قبل اس کے کہ میت کو دفن کیا جائے، تو وہ ایک حصہ اجر لے کر آتا ہے۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۵۶۱]
یعنی جو صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آ جائے، وہ ایک حصہ اور جو شخص دفن کے بعد لوٹے وہ دو حصے اجر لے کر آتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی نیکی نہیں ہے، بلکہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ایک ایک حصہ اُحد کے برابر ہے، مگر شرط یہ عائد کی گئی ہے کہ یہ کام ایک تو ایمان کے جذبے سے کیا جائے اور دوسرے مقصود یہ ہو کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ اگر اس سے کسی دوست کو راضی کرنا پیش نظر ہو تو لیجیے وہ راضی ہو گیا، مگر ربّ کے ہاں سے تو اجر تب ہی ملے گا، جب اس کی خوشنودی اور رضا کے لیے کام کیا جائے۔ اللہ کے ہاں اجر پانے کا یہی اصول ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کو اپنی محبت کی بنا پر روٹی کھلاتے ہیں، تو آپ کا دل خوش ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس خیال سے کھلاتے ہیں کہ ’’یہ بچہ اللہ کا عطا کیا ہوا ہے اور اس کی پرورش اللہ کی طرف سے مجھ پر فرض ہے‘‘۔ اور اس صورت میں جب آپ روٹی اپنے بچے کو کھلائیں گے، تو اس پر اجر اللہ کی طرف سے ملے گا۔کسی بھی کام میں اللہ کی رضا کو نظر انداز کر کے دنیوی مقاصد کے لیے کیا جائے، تو اس پر اجر کیوں کر مل سکتا ہے؟
پھر حدیث نبویؐ میں جنازے کے ساتھ جانے کی جو ہدایت کی گئی ہے، غور کیا جائے تو ایک معاشرے میں اس کی بڑی بنیادی اہمیت ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں ایک دوسرے سے جذبۂ محبت ، رفاقت ، ہمدردی اور غم خواری کا پیدا ہونا ہی وہ اصل چیز ہے، جو اسے باہم مربوط معاشرہ اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اگر معاشرہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہو کہ ان میں سے کسی کو کسی کے ساتھ ہمدردی نہ ہو، وہ ایک دوسرے سے بغض وحسد رکھتے ہوں، ایک دوسرے کو ذلیل کرنے ، گرانے اور ایک دوسرے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی فکر میں لگے رہتے ہوں، تو وہ  مل کر کوئی متحد ہ طاقت بنانے کے قابل نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے ہر وہ چیز جو مسلم معاشرے کو باہم پیوستہ کرنے والی ہو، باہمی اخوت پروان چڑھانے اور برادری کا جذبہ پیدا کرنے والی ہو،ایک دوسرے سے جوڑنے اور وابستہ کرنے والی ہو، اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اجر کا مستحق قرار دیا ہے۔ درحقیقت معاشرہ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جی رہا ہو، تو اس کی ہر حرکت اجر کی مستحق ہو گی۔
غور کیجیے کہ ایک آدمی کے ہاں موت واقع ہو جائے اور اس کے گرد وپیش کوئی حرکت نہ پیدا ہو، تو اس پر کیا بیتے گی۔ ایسا معلوم ہو گا کہ اس معاشرے میں انسان نہیں حیوانات رہتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست بمبئی میں رہتے تھے۔ ایک زمانے میں وہ ملحدانہ خیالات رکھتے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے رہایش بھی بمبئی کے اس محلے میں رکھی جس میں فرنگی رہتے تھے___  اس دوران ان کی بیوی بیمار ہوئی اور رات کے وقت فوت ہو گئی۔ گھر میں ان کے علاوہ ایک بچی تھی ، جو ماں کی موت پر رونے لگی۔ بچی کے رونے کی آوازیں سن کر آس پڑوس والے جاگ گئے اور آ کر کہا کہ ’’ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’میری بیوی مر گئی ہے اور بچی رو رہی ہے‘‘ ۔ وہ کہنے لگے ’’یہ تو ٹھیک ہے مگر ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہو؟‘‘ صبح محلے بھر میں جنازہ اٹھانے والا تو کجا، ہمدردی کے دو بول کہنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ وہ وہاں سے دور مسلمانوں کے محلے میں گئے۔ وہاں سے لوگ آئے اور جنازہ اٹھا ۔ اس واقعے نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور یہی واقعہ ان کے لیے کفر سے اسلام کی طرف پلٹنے کا سبب بنا۔ گویا کہ اس طرح کے معاشرے میں یہ ہوتا ہے کہ اگر موت واقع ہو جائے تو کمپنی کو اطلاع دے دی جاتی ہے اور وہ بزنس کے طور پر لاش کو گاڑی میں  رکھ کر لے جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انسانیت نہیں ہے ۔ انسانیت، اخوت اور معاشرتی ہمدردی یہ ہے کہ پورا محلہ جمع ہو، تعزیت کرے، مرنے والے کے رشتہ داروں سے سچے دل سے ہمدردی کرے۔ ان کے ہاں کھانا نہ پک سکے، تو کھانا مہیا کرے۔ اللہ کی رضا کے لیے یہ سارے کام کیے جائیں، تو یقینا یہ ساری چیزیں ایک دوسرے سے پیوستہ کرنے والی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ میں لوگوں کو نجاشی کے مرنے کی خبر دی، اس روز کہ جس روز وہ مرا اور لوگوں کو لے کر مصلے (وہ کھلا مقام جو نمازِ عید کے لیے مقرر کیا گیا تھا ) کی طرف نکلے۔ انھیں صف بستہ کیا اور چار مرتبہ جنازے میں تکبیریں پڑھیں۔ [متفق علیہ، مشکوٰۃ: ۱۵۶۲]
اس حدیث میںپہلی بات تو یہ ہے کہ نجاشی جو حبشہ کا باد شاہ تھا، جب حبشہ میں وفات پا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف فرما تھے۔ اسی روز آپ نے مدینہ میں لوگوں کو خبر دی کہ تمھارا بھائی نجاشی مر گیا ہے۔ اس زمانے میں کوئی ٹیلی گراف نہ تھا، نہ ریڈیو۔لیکن رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے خبر دے دی گئی۔ دوسرے یہ کہ نجاشی وہی ہے جس کے پاس صحابہ ؓ ہجرت کر کے گئے تھے اور حضرت جعفر طیار ؓ کی تبلیغ سے اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ نجاشی نے ہی ام حبیبہ ؓ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھایا (جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام حبشہ پہنچا )اور اپنی طرف سے مہر دیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، لوگوں کو نجاشی مرحوم کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے مصلے کی طرف گئے ۔ اس سے دو مسئلے پیدا ہوتے ہیں :  lنماز جنازہ غائبانہ  l نماز جنازہ مسجد نبویؐ میں نہیں بلکہ باہر عید گاہ میں پڑھی گئی ۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین اشخاص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی: ایک نجاشی کی، دوسرے حضرت جعفر ؓ طیار کی، تیسرے ایک اور صحابیؓ کی۔ حنفی مسلک میں ان تین واقعات کی بنا پر غائبانہ نماز جنازہ مسنون نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بکثرت صحابہ ؓ کا مدینہ سے باہر انتقال ہوا،جن کی وفات کی خبریں مدینہ میں پہنچتی رہیں، مگر ان کی غائبانہ نماز جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھی ۔ اگر   اس طریقے کو رائج کرنا مقصود ہوتا تو یہ حکم دیا جاتا کہ جو کوئی وفات پائے، تو جہاں جہاں خبر پہنچے وہاں کے لوگ غائبانہ نماز جنازہ پڑھیں۔ اس طرح خلفاے راشدین کی نماز جنازہ تمام دنیاے اسلام میں پڑھی جاتی مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ گویا یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر نہیں کیا ۔ مثال کے طور پر ان واقعات میں غائبانہ نماز جنازہ کا کوئی نہ کوئی سبب موجود تھا۔
نجاشی حبش میں اکیلے مسلمان تھے۔ یہ بھی بعید نہیں کہ عیسائیوں نے انھیں اپنے طریقے کے مطابق دفن کیا ہو۔ حضرت جعفر ؓ طیار کفا ر کے ملک میں شہید ہوئے، وہاں جنازے کا سوال ہی نہ تھا۔ اس طرح کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے نماز جنازہ غائبانہ پڑھی جاتی ہے ۔ یعنی اس کا پڑھنا ناجائز یا حرام بھی نہیں ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر مسجد نبوی میں دی، مگر نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔یہاں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ نماز جنازہ مسجد میں ہوسکتی ہے، مگر حنفی اور مالکی اس بات کے قائل ہیں کہ مسجد میں نہیں باہر پڑھی جانی چاہیے۔ چنانچہ وہ ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ آںحضور ؐ نے ، جیسا کہ متعدد دوسری احادیث سے ثابت ہے، مسجد نبویؐ سے باہر ایک جگہ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے مقرر کی تھی۔ پہلے گروہ والے اس واقعے سے استدلال کرتے ہیں جس کے مطابق سہیل بن بیضاء کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانے میں آپ ؐ مسجد نبوی میں اعتکاف میں بیٹھے تھے۔
حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد آپ ؐ نے لوگوں کو صف بستہ کیا اور چار تکبیریں پڑھیں۔ تکبیروں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ احادیث میں تعداد تین سے آٹھ تک ہے۔ مختلف زمانوں میں آپ ؐ نے مختلف طرح سے مختلف تعداد میں تکبیریں پڑھیں۔ صحابہ ؓ نے اس تحقیق کی کوشش کی ہے کہ آخری عمل کیا ہے ؟ معلوم ہوا کہ آخری زمانے میں چار تکبیریں ہی پڑھیں۔ چنانچہ عام طور پر وہی طریقہ رائج ہے، مگر زائد تکبیریں پڑھنا ناجائز بھی نہیں ہے۔
سوالات وجوابات

س:کیا آپ ٹیپ ریکارڈر کو ایک فرشتہ تصور کرتے ہیں ؟
ج: (مسکراتے ہوئے ) میرا خیال ہے کہ کسی بات کو سنتے ہوئے ، سوچنے کا کام کانوں کے بجاے دماغ سے لینا چاہیے ۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فرشتے ہماری تمام باتوں کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ریکارڈ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے رکھا جا رہا ہے یا فرشتے کاپی پنسل لے کر ہرچیز لکھ رہے ہیں۔ درحقیقت ریکارڈ رکھنے کی بے شمار شکلیں ہیں جو ہمارے علم سے بالاترہیں۔ جب خود انسان ٹیپ ریکارڈر بنانے پر قادر ہو گیا ہے، جس کے ذریعے انسانی آواز اور لہجہ تک محفوظ ہوجاتا ہے، تو اللہ کے فرشتے نامعلوم کس کس طرح ہماری باتوں کو ریکارڈ کر رہے ہیں ۔

س: کیا انسان کے مرنے کے فوراً بعد جزاو سزا کا عمل شروع ہو جاتا ہے ؟
ج : اصل میں قیامت کا روز تو وہ ہو گا جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی، اور اس عدالت سے فیصلہ ہو گا کہ کون سزا کا مستحق ہے اور کون جزا کا؟ مگر مرنے کے وقت سے یہ فیصلہ تو ہو جاتا ہے کہ یہ آدمی دنیا میں نیکوکار کی حیثیت سے رہا یا مجرم کی حیثیت سے ___ اور اسی سے یہ بات معلوم ہو جاتی کہ آنے والا معزز مہمان ہے یا ’حوالاتی‘ ہے، یعنی اسے مہمان خانے میں اُتارا جائے یا حوالات میں رکھا جائے؟ فرشتوں کا ریکارڈ تو عدالت کے موقعے پر کام آئے گا ۔ مگر ذاتِ باری تعالیٰ کا براہِ راست علم (جسے معلوم ہے کہ کون ہے جو نیک ہے اور کون ہے جو بد ہے ) اس کا م آتا ہے کہ مرنے کے فوراً بعد اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ یہی ثواب وعذابِ برزخ کی حقیقت ہے ۔

س: میرے دل ودماغ میں برے کاموں کی طرف رغبت ہوتی ہے ، نیکی کے بجاے شیطانی کاموں کی طرف زیادہ توجہ رہتی ہے۔ اس سے نجات کا کوئی طریقہ بتائیے؟
ج: اپنے دل میں اللہ کا خوف پیدا کریں ۔اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کو پیدا کرنے اور اسے تازہ رکھنے کی کوشش کریں ۔ اس کے سوا اور کوئی ذریعہ شیطان کے پھندے سے نکلنے کا نہیں ہے۔ اگر اس کے باوجود شیطان کے پھندے میں پھنس جائیں تو مایوس نہ ہوں، کبھی ہمت نہ ہاریں، شیطان کی ترغیبات کو برابرresist کرتے رہیں، مسلسل جدوجہد اور کش مکش کرتے رہیں۔ ایک پہلو ان کی طرح اپنے اس دشمن سے برابر لڑتے رہیں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔

س: مجھے نیکی کی بات یاد نہیں رہتی مگر بُری بات پانچ سال گزرنے پر بھی یاد رہتی ہے۔ اس کا کیا علاج ہے؟
ج: اس کے لیے باہر سے کوئی ترکیب نہیں بتائی جاسکتی۔ آپ کو اپنے اندر سے مسلسل کش مکش جاری رکھنی چاہیے۔ آپ کا اس بارے میں دریافت کرنا بھی یہ بتاتا ہے کہ آپ اس مصیبت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں اور بُرے خیالات سےبچنے اور اچھے خیالات کو اپنانے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ اس صورت میں آپ مسلسل کوشش کرتے رہیں اور مایوس نہ ہوں۔

س: یہ سنا ہے کہ مسجد میں نمازِ جنازہ نہیں ہوتی؟
ج: درست سنا ہے، مگر کہنا یہ چاہیے کہ ’مسجد میں نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے‘۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس بات کا خطرہ نہ ہو کہ مُردے کے جسم سے کوئی رطوبت وغیرہ ٹپک کر مسجد کو گندا نہ کردے گی، تو نمازِ جنازہ پڑھ لینی چاہیے۔ مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کو حرام کوئی نہیں کہتا۔

س: کیا اس کی ایک صورت یہ نہیں ہوسکتی کہ مسجد کے محراب میں ایک کھڑکی ہو، جنازہ اس کھڑکی کے باہر رکھا جائے، اور نمازِ جنازہ پڑھنے والے مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھیں؟
ج: (مسکراتے ہوئے فرمایا:) آخر اتنے تکلّف کی ضرورت کیا ہے کہ محراب میں سے کھڑکی نکالی جائے اور یہ سارے تکلفات کیے جائیں۔ خدا کی زمین اتنی تنگ تو نہیں ہے کہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے جگہ نہ مل سکے۔

س: کیا عورتیں نمازِ جنازہ میں شریک ہوسکتی ہیں؟
ج: نمازِ جنازہ میں عورتوں کی شرکت حرام یا ممنوع نہیں ہے، مگر عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے سعد ابی وقاصؓ کا جنازہ مسجد ِ نبوی میں منگوایا کہ وہ بھی شریک ہوسکیں۔ان معاملات میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ بہتر کیا ہے۔

یہ ایک طویل مکتوب کا ترجمہ ہے، جو حسن البنا شہیدؒ نے ۱۹۳۷ء میں مصر کے وزیرقانون کے نام تحریر کیا تھا۔ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے یا اس مقصد سے ہمدردی رکھنے والے افراد اس خط کو بالکل آپ بیتی محسوس کریں گے۔ حتیٰ کہ اس میں دوچار جگہ جہاں ’مصر‘ کا لفظ اگر ’پاکستان‘ کے لفظ سے بدل دیں تو یہ یوں لگتا ہے کہ یہ داستان مصر نہیں بلکہ پاکستان سے متعلق ہے۔ادارہ

ہم اس بات پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری قوم کی نجات اسی میں ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہرگوشے میں اسلام کی تعلیمات و ہدایات کااِتباع کرے۔ اس کے حق میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔ آپ کے سامنے ان دلائل کے دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ الحمدللہ  آپ اس نظریے کے خود بھی قائل ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا اوّلین اور اہم ترین شعبہ قانون ہے۔ اس وقت ہم اور آپ میدانِ عمل میں ہیں اور ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم حقائق کا سامنا کریں۔
آج وزارتِ قانون کا قلم دان آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ اس بات کا اختیار رکھتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی اُن تمناؤں اور آرزوؤں کو بارآور کریں، جن کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے پر آمادہ ہیں۔ مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ مصر کے قانون اور عدالتی نظام کو اسلامی شریعت کی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ چونکہ آپ بھی ایک دائرے میں رعیت کے راعی ہیں، اس لیے اس سلسلے میں آپ اللہ اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔
اس قوم کے افرادجب یہ دیکھتے ہیں کہ اس ملک میں اللہ کے قانون کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں، تو وہ اپنے دلوں میں سخت تنگی محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلک جاتا ہے اور اندر ہی اندر جو لاوا پک رہا ہوتا ہے وہ بسااوقات پھوٹ نکلتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک تصادم کی صورت اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ ایک قوم کا ذہن حق کے حصول اور باطل کے نظریات پر اصرار کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ ہمارے موجودہ ملکی قوانین اور اسلام کےقوانین ایک دوسرے کی ضد ہیں اوردونوں جابجا ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اہلِ وطن کے دل و دماغ میں ایک اضطراب اور بے چینی رُونما ہورہی ہے، اور وہ اس تضاد کو بُری طرح محسوس کررہے ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آپ مسلمانوں کو قوانین کی بے احترامی اور خلاف ورزی پر مجبور نہ کریں اور حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔ آیئے، ہم اللہ کے حضور میں حاضرہوں اوراس بارے میں اُس کےارشادات کوسنیں۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۝۶۵ (النساء۴:۶۵) پس نہیں، تیرےربّ کی قسم! وہ نہیں ایمان لاسکتے جب تک کہ وہ تجھے حَکم نہ بنالیں اپنے متنازعہ فیہ معاملات میں، پھروہ اپنےدلوں میں تنگی بھی نہ محسوس کریں تیرے فیصلے پر اور سرتسلیم خم نہ کردیں۔
وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللہُ اِلَيْكَ۝۰ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّصِيْبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ۝۴۹ اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝۵۰ (المائدہ ۵:۴۹-۵۰) اور یہ کہ تم فیصلہ کرو اُن کے مابین اُس کے مطابق جسے اللہ نے اُتارا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور اُن سے چوکنے رہواور تمھیں بہکا دیں تم پر اللہ کے نازل کردہ بعض احکام سے۔ اگر وہ منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ انھیں ان کے بعض گناہوں پر عذاب دینا چاہتا ہے۔ اوریقینا لوگوں میں بہت سے فاسق ہیں۔ کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور کون ہےبہتراللہ سےفیصلے میںیقین رکھنے والوں کے لیے۔
مذکورہ بالا آیات سورئہ مائدہ کے جس رکوع سے لی گئی ہیں، وہ سارا اسی موضوع پر ہے۔ اس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے کہ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں، وہی ظالم ہیں، وہی فاسق ہیں:
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۝۰ۭ وَلَا تَكُنْ لِّلْخَاۗىِٕنِيْنَ خَصِيْمًا۝۱۰۵ۙ (النساء۴:۱۰۵) ہم نے نازل کی ہے تم پر کتاب حق کے ساتھ  تاکہ تم فیصلہ کرو لوگوں کے درمیان اُس کے مطابق جوتمھیں اللہ نے دکھایا ہے اور خائنوں کے طرف دار نہ بنو۔
یہ تو ہیں کُلّی اورعمومی احکام، لیکن ان کے علاوہ قرآن میں بہت سے تمدنی، تجارتی، فوجداری، بین الملّی اور اسی نوعیت کےدوسرے احکام ہیں، جو جزئیات سے متعلق ہیں اور ان کی مزید تفصیل وتائید احادیث میں ملتی ہے۔ ان تمام احکام کی غرض یہی ہے کہ مسلمان ان پرعمل پیرا ہوں اور اپنےتنازعوں کا فیصلہ ان کے مطابق کریں۔ اب اگر آپ اپنے ملک کے دستور اور قانون پر نگاہ ڈالیں، توآپ کواندازہ ہوجائے گا کہ اُن کا مآخذ اور سرچشمہ کتاب وسنت نہیں بلکہ یورپی ممالک (بلجیم، فرانس، اٹلی وغیرہ) کے دساتیر و قوانین ہیں۔ یوں ہمارادستور وقانون، کلیات کے اعتبار سے بھی اور جزئیات کے لحاظ سے بھی، اسلام سے صریح طور پرمتصادم اور برعکس ہے۔ اب غور کیجیے کہ اگر ایک مسلمان کے سامنے ایسا معاملہ آتا ہے جس کافیصلہ اسلام کی رُو سے کچھ اور ہے، اورموجودہ قانون کی رُو سے کچھ اور، تو اُس وقت وہ مسلمان کون سا موقف اختیار کرےگا؟ پھرغور کیجیے کہ اس ملک کے مجسٹریٹ، جج،چیف جسٹس اور وزیر قانون و عدل کے لیے احکم الحاکمین کے احکام کی مخالفت کیسے جائز اور حلال ہوگی؟
میں آپ سے پُرزور درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس تضاداور دو رنگی کو دُورکریں۔ ہمیں اس کرب و بلا سے نجات بخشیں اور اعمال اورعقائد کے اس ٹکراؤ کو ختم کریں۔ یہ چیز میرےعلم میں ہے کہ بکثرت مسلمان اپنے جائز جانی ومالی حقوق سے دست بردار ہوجاتے ہیں اور بہت سے نقصانات کو محض اس لیے گوارا کرلیتے ہیں کہ وہ ایسی عدالت اور ایسے جج کے سامنے جانا حرام سمجھتے ہیں، جو خلاف ِ شریعت فیصلے صادر کرے۔ اس صورتِ حال کے نتائج بڑے خوفناک ہیں اور    اللہ اپنے محاسبے میں بڑا سخت گیر ہے۔میرا یہ فرض ہے کہ آپ کوتوجہ دلاؤں اوریاد دہانی کراؤں۔ اللہ کے سامنے عُذرات کچھ کام نہیں آئیں گے۔ اللہ کی نظر اعمال پر بھی ہے اور نیتوں پر بھی!
یہ تو اس معاملے کاباطنی پہلو ہے، جس کا تعلق ہمارے ایمان اورعقیدے سے ہے۔ لیکن اگر قانون کے خالص ظاہری نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تب بھی ملکی و غیرملکی، مسلم و غیرمسلم دونوں قسم کے ماہرین قانون نے اعتراف کیا ہے کہ اسلامی شریعت، قانون سازی کا ایک نہایت شاداب، جامع اوربیش قیمت ذخیرہ ہے۔ فرانس کے متعدد قانون دانوں نے اپنی قوم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے قوانین میں اسلامی شریعت کے مطابق ترمیم کریں اور کئی بین الاقوامی اجتماعات میں قانون سازوں نے اسلامی قوانین کی تعریف کی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ شریعت کی تعلیمات، قانون سازی کے بارے میں ہرطرح سے تقاضے پورے کرتی ہیں۔
یورپ کے غیر اسلامی قوانین کو ہم مصر میں ایک مدت تک برت کر دیکھ چکے ہیں۔ ان کا حاصل جرائم کی کثرت اور اضافے کے سواکچھ نہیں ہے۔ سنگین وارداتیں چاروں طرف رُونما ہورہی ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ موجودہ قوانین ہمارے امراض کا علاج نہیں ہیں اور ہمارے ماحول اور قومی مزاج سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جن چند ممالک میں شرعی قوانین نافذ ہیں، وہاں ملک کے امن و اخلاق پر ان کے اچھے نتائج مترتب ہورہے ہیں۔ کیا سرزمینِ مصر کو اس کا موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ بھی اسلامی قوانین کی برکات سے استفادہ کرسکے؟
- شبہات و اعتراضات:یہ مسئلہ اپنی نوعیت کے اعتبارسے بالکل واضح ہے، تاہم کچھ لوگ ہیں جو نیک نیتی یا بدنیتی کی بنا پر اس اصلاح کےراستے میں حائل ہیں اور عموماًچند شبہات پیش کرتے ہیں:
 -  ان میں سے پہلا شبہہ یہ ہے کہ: ’’مصر میں کچھ غیرمسلم اقلیتیں ہیں۔اگر یہاں اسلامی احکام نافذ کردیے جائیں تو اس سے اُس مذہبی آزادی میں مداخلت واقع ہوگی، جس کی دستوری طور پر ضمانت دی جاچکی ہے اور اگر غیرمسلموں کوان احکام سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو یہ حقوقِ شہریت میں ایک ناپسندیدہ امتیاز ہوگا، جس سے ہم چھٹکارا حاصل کرچکے ہیں‘‘۔ اس شبہے کے دو اجزا ہیں۔ اگر ملک میں اسلامی احکام نافذ کیے جائیں تو اس سے مذہبی آزادی پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ دستور میں اقلیتوں کو جس چیز کی ضمانت دی جاتی ہے، وہ عقیدہ، عبادت، شعائر اور شخصی حقوق کی آزادی ہے۔ ملکی قانون بہرحال اکثریت کی مرضی کا آئینہ دار اور ان کے نظریات کا مظہر ہوتا ہے ۔ اس بارے میں اقلیت کو اکثریت کی بات مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔
یورپی اقوام اس بات پر فخر کااظہار کرتی ہیں کہ وہ شخصی حقوق کا بہت احترام کرتی ہیں اور جمہوریت کی علَم بردار ہیں۔ لیکن وہ بھی اپنی اقلیتوں کے ادیان و عقائد کا لحاظ کیے بغیر اپنی منشا کے مطابق قوانین وضع کرتی ہیں۔فرانس، برطانیہ، جرمنی وغیرہ میں ایک فرد خواہ پناہ چاہنےوالا ہو، خواہ اس کا تعلق ایسی اقلیت سے ہو جس کا دین اکثریت کے دین سے مختلف ہے، وہ ملک کے قانون کی پابندی کرتا ہے۔ اس کے بغیر جمہورکی آزادی اورداخلی و خارجی استقلال متحقق نہیں ہوسکتا۔ اگر غیرمسلم اپنے شخصی معاملات میں فیصلے اپنے پرسنل لا کے مطابق کریں اور بقیہ معاملات میں قانونِ موضوعہ پر عمل کریں، تو اس سے کوئی ایساامتیاز نہیں پیدا ہوتا جو کسی خدشے یا اعتراض کا موجب ہوسکے۔
ہم کسی غیرمسلم کو اس امر پر مجبور نہیں کرتے کہ وہ اپنے پرسنل لا کی پابندی کرے، بلکہ ہم اس کا انتظام اُس کی اپنی خواہش اورمرضی کی بنا پر کرتے ہیں۔ اس سے مقصود کوئی ناروا پابندی یا حق تلفی نہیںہے۔ دوسری طرف اگر ہم ملکی قانون کو اقلیت کے مسلک اور نظریےکے مطابق بنائیں تو یہ اکثریت کے حقوق پر ایک شدید ظلم اور زیادتی کےمترادف ہوگا۔ پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سےمسیحی برادرانِ وطن نے بھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ بلاامتیاز تمام معاملات میں شرعی احکام  کو اُن پر بھی نافذ کیا جائے اور اس بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰـتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۭ (المائدہ ۵:۴۴) ’’پس، تم مت ڈرو لوگوں سے بلکہ ڈرو مجھ سے اور مت لومیری آیات کے عوض حقیر قیمت‘‘۔
- دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ’’اسلامی قوانین کا اجرا عملاً ناممکن ہے‘‘۔مثلاً یہ کہتے ہیں کہ ’’ہم سود کا خاتمہ کیسے کرسکتے ہیں، جب کہ ہم بین الاقوامی اقتصادی نظام کی جکڑبندیوں میں بندھے ہوئے ہیں؟‘‘لیکن یہ اعتراض بھی بالکل بے اصل ہے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض مضبوط عزائم کی حامل قوموں نے اپنے لیے مخصوص طور پر منفرد معاشی نظام وضع کیے ہیں اور ساری دنیا کو مجبور کردیا ہے کہ وہ ان کا احترام کریں۔ اس معاملے میں فیصلہ کن شے حکومت کی قوتِ ارادی اورقوم کی عملی استعداد ہے۔ اس بارے میں ہماری راہ میں اصل رکاوٹ صرف عزم کی کمزوری اورموہوم خطرات کابے جا خوف ہے۔ ہماری قوم اللہ کے فضل سے ہرمشکل کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ ہم زندگی کی جملہ ناگزیر ضروریات خود پیدا کرسکتے ہیں اور اس بارے میں ہمیں اغیار کادست ِ نگر بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہمارے ارادے مضبوط ہوجائیں تو ہم اقوامِ عالم کے علی الرغم اپنے مالی نظام کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
آپ نےدیکھا ہے کہ اٹلی پر ایک وقت ایساآیا تھا ، جب اُس پرچاروں طرف سے ۵۲؍اقوام نے یورش کر دی تھی اور ان میں دنیا کی طاقت ور ترین سلطنتیں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے مل کر اٹلی پر تاوان عائد کیے تھے، لیکن آخرکار اٹلی کی عزیمت کے سامنے ان سب کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اور قومی غیرت کےسامنے بندوق اور تلوار کی کچھ پیش نہ گئی۔ اسی طرح آپ کو معلوم ہے کہ [جرمن نسل پرست] ہٹلر نے یہ فرمان صادر کردیا تھا کہ ’’جرمنی کا سونا اور سکّہ جرمنی سے باہر نہیں جائے گا‘‘۔ کیا اس سے دوسرے ممالک کے ساتھ جرمنی کا لین دین ختم ہوگیا تھا؟ ہرگز نہیں، بلکہ دوسری قوموں نے اس فیصلے کا احترام کیا،اور مبادلے کے اصول پر جرمنی سے معاملہ کرنا شروع کردیا۔
یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ دونوں قومیں طاقت ور تھیں اور ہم کمزور ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں فوج کشی اور لشکر آرائی تک نوبت شاذونادر ہی پہنچتی ہے۔ خریدوفروخت اور لین دین کے مسائل میں کوئی قوم خواہ کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو، وہ اس میدان میں بالکل آزاد ہے بشرطیکہ وہ یکسو ہوکر اپنے مطمح نظر کوواضح کردے اور پھر ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر جم جائے۔
دوسری قومیں تو صرف یہ چاہتی ہیں کہ ہم اُن کے ساتھ شریف لوگوں کا سا معاملہ کریں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ قرض کا کاروبار کرنےوالے بہت سے بنک اوردوسرے ادارے برابر کے لین دین پر رضامند ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ ادایگی یقینی ہوجائے۔ اس لیے ایک طرف اگر ہم سود کو قانوناً ممنوع قرار دے دیں اوردوسری طرف واجبات کی پوری پوری ادایگی کا شدت سے اہتمام کریں، تو دوسری حکومتیں اس پر راضی ہوجائیں گی اور اداے حقوق کی ضمانت کے بعد وہ سودی لین دین پر اصرار نہیں کریں گی،خصوصاً، جب کہ انھیں بتایا جائے گا کہ سود تمام مذاہب ِ عالم کے نزدیک حرام ہے۔ آخرکیوں نہ مصر کو اس شرف میں سبقت حاصل ہو کہ وہ دنیا کو سود کی لعنت اور خباثت سے نجات دلانے کی جدوجہدکرے اور کیوں نہ مصری حکومت نوعِ انسانی کے لیے اس نوید ِ رحمت کی پیامبر ثابت ہو؟
ایک زمانہ تھا کہ یورپ کی قومیں انسانی خریدوفروخت کواپنی تہذیب و معاشرت کے لیے بالکل اسی طرح ضروری سمجھتی تھیں، جس طرح آج وہ سود کو سمجھتی ہیں۔ انھی میں سے بعض نے اس کاروبار کو ختم کرنے کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ اورآخرکار دوسری قوموں نے بھی اس کی نامعقولیت کو تسلیم کیا، اور ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ کل اگر بردہ فروشی کے خلاف علَم بلند کیا جاسکتا تھا تو آج کیا سود کے خلاف جہاد نہیں کیا جاسکتا؟ اس میں آخر خوف ویاس ہمیں کیوں لاحق ہو؟ کیا ہم انسانیت کی خدمت سے بالکل عاجز ہوچکے ہیں؟ حالانکہ کل تمام دنیا میں علم وعرفان کی روشنی پھیلانے والے ہم ہی تھے۔ یہ محض شاعری یا خیال آرائی نہیں ہے، بلکہ یہ حقائق ہیں جنھیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
اگر ہم سودکو ترک کردیں تو یہ امر ہماری اقتصادی خودمختاری کا باعث ہوگا اور ہماری قوم جو اغیار کے سہاروں پر جینے کی عادی ہوچکی ہے، اس میں خود اعتمادی،عزّتِ نفس اور دوسروں سے بے نیازی کا جذبہ پیدا ہوگا۔اس مقصد کے حصول کے لیے اس سے زیادہ موزوں اورقیمتی موقع آخر کون ساہوگا ۔ ہماری قوم ایک دینی مزاج رکھتی ہے اور اسے متحرک اور آمادئہ عمل کرنے کے لیے دینی عوامل سب سے زیادہ کارگر ہوسکتے ہیں۔ سودکی تحریم سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوگا کہ ہماری غریب قوم انسانیت کے قاتلوں، سود خوار لٹیروں اورقزاقوں سے گلوخلاصی حاصل کرلےگی۔
- ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ’’اگرشرعی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا، تو چوروں کے ہاتھ کٹنے شروع ہوجائیں گے اور زانیوں کو سنگسار کیا جایا کرےگا۔ ہماری قوم دورِوحشت کی طرف لوٹ جائے گی، ترقی کی رفتار رُک جائے گی اور ہمارا شمار غیرتہذیب یافتہ قوموں میں ہونے لگےگا‘‘۔
یہ اعتراض بھی بالکل بے حقیقت ہے، اوردراصل یہ ایسے افراد کے ذہن کی پیداوار ہے جو اجتماعی نظم کو درہم برہم کرنے کے درپے ہیں اورزندگی کےہرگوشے میں مطلق اباحیت اور بےقیدی کے خواہش مند ہیں۔وہ دوسروں کی جان و مال اور عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں اور اس اندیشے نے ان کی نیند حرام کررکھی ہے کہ کہیں اسلام کی قربان گاہ پر سب سے پہلے انھی کی خواہشات کو بھینٹ نہ چڑھا دیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ جرائم کی کثرت کو تمدن و ارتقا کی علامت قرار دے دینا صحیح ہے اور نہ اُس قانون کو رجعت پسندانہ اورسنگ دلانہ سمجھ لینا درست ہے ، جو جرائم و فواحش کا استیصال کرے۔ ایسا قانون توتہذیب و ترقی کا عین مظہرہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان فاسد افکارو نظریات کو   ختم کیا جائے۔ مصلحین اسلام کے لیے یہ موقع شرمانے کا نہیں بلکہ آگے بڑھ کرکام کرنے کا ہے۔ آج کل نظریات میں قانون کی ہمدردی مجرم کے حق میں زیادہ اورمعاشرے کے حق میں کم ترہوگئی ہے۔ مجرم کے ساتھ سختی کے بجاے نرمی کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہولناک جرائم چاروں طرف پھیل چکے ہیں اور پھیل رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں قانون بالکل عاجز اور بے بس ہے۔ قومی کمائیوں اور محنتوں کا بیش تر حصہ پولیس، قیدخانوں اور عدالتوں میں صرف ہورہا ہے، لیکن کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہورہا۔ اس وقت فلسفۂ جرم سے متعلق خوش نما بحث اور بے فائدہ استدلال کی اتنی ضرورت نہیں ہے، جتنی ضرورت جرم کے عملی سدباب اور روک تھام کی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’اسلامی قوانین کے نافذ کرنے میں ایک عملی مشکل یہ ہے کہ ایسی جامع شخصیتوں کا ملنا محال ہے، جو بیک وقت اسلامی علم وعمل سے آراستہ ہوں۔ حاملینِ دین قانون کی تدوین و تنفیذ کے جدید تقاضوں سے بے خبر ہیں اورقانون دان دین کا علم نہیں رکھتے اور جب تک مردانِ کار پیدا نہ ہوں، اسلامی قانون کو مفید اور مناسب شکل میں کیسے رائج کیا جاسکتا ہے؟‘‘
لیکن یہ شبہہ بھی بےبنیاد ہے اور اس مشکل پرقابو پالینا بالکل آسان ہے۔ اللہ کے فضل سے ایک طرف ہمارےعلماے دین میں بہت سے حضرات ایسے ہیں، جن کی جدید قانون پربھی وسیع نظر ہے، اوردوسری طرف ہمارے ہاں قانون کےبہت سے ماہرین ایسے موجود ہیں، جنھیں اسلامی فقہ و تشریع سے پورا پورا شغف ہے، اور جنھوں نے اس سلسلے میں بڑی محنت سے اسلامی اور غیراسلامی قانون کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اپنی تحقیق کے نتائج ہمارے سامنے پیش کیے ہیں۔
پھر ایک اعتراض ایسا بھی وارد کیا جاتا ہے جو خالص مادی نقطۂ نظر اور شخصی مصالح اور تعصب کی بنیاد پر کیاجاتا ہے کہ’’ شرعی قانون پر اصرار کرنے والے درپردہ عدالت ہاے شرعیہ پر قابض ہونا چاہتے ہیں اوران کے ارادے یہ ہیں کہ عدالتوں میں کام کرنے والوں کی کثیر تعداد کو بالکل بے کار و بے روزگار بنادیں، اوریہ چاہتے ہیں کہ ایک خاص گروہ سارے عدالتی مناصب سنبھال لے، اور دوسروں کو ان سے بالکل محروم کردے۔عدالتوں کا نظام بہت وسیع، دقیق اور ہمہ گیر ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ شرعی عدالتوں کے چند جج ایسی کٹھن ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکیں؟‘‘ یہ اعتراض بھی بالکل لغو، مہمل اور پوچ ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ایک خاص قسم کا علم کیا کسی خاص طبقے کی نسلی میراث ہے؟ کیا ہر ذہین آدمی کی رسائی ہرعلم وفن تک نہیں ہوسکتی؟
ہمیں اس بارے میں مکمل اطمینان ہے کہ دونوں قسم کی عدالتوں کے مجسٹریٹ اور جج صاحبان اگرچہ چند ماہ بھی باہمی تدریس و تربیت پر صرف کریں تو وہ قانون کے سارے شعبوں پرحاوی ہوجائیں گے۔ آدمی جس راہ پر بھی پیش قدمی کرنے کا پختہ ارادہ کرلے، تو وہ راہ اس کے لیے ہموار ہوجاتی ہے۔ ہم کسی بھی فرد یا گروہ کی بے جا طرف داری یاعداوت میں مبتلا نہیں ہیں۔ ہم تو اس تفریق اور دوعملی کو سرے سے مٹادینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سیکولر اور شرعی امتیازات یکم قلم ختم کر دیے جائیں اورعدالت کا ایک کُلّی اور وحدانی نظام قائم کیا جائے اور اُس کے لیے اصل بنیاد اور ماخذ شریعت الٰہی کوقرار دیا جائے۔
یہ چند شبہات جو میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیںاوران کے مختصر جوابات بھی دے دیےہیں، جن سے بآسانی اندازہ ہوجاتا ہے کہ قانونِ شرعیہ کے نفاذ سے متعلق جن شکوک و شبہات کااظہار کیا جاتا ہے،وہ کتنے بے اصل اور بے بنیاد ہیں۔ یہی حال ہر ا س اعتراض کا ہوتا ہےجس کی پشت پرنفسانی اغراض اور حق سے اعراض کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔
الاخوان المسلمون کا مطالبہ یہ ہے کہ ہماری حکومت، شریعت اسلامیہ کی طرف لوٹے اور مصری قانون کے نظام کو فوراً شریعت کی بنیادوں پر استوار کرے۔ ہم ایک مسلم قوم ہیں۔ ہم نے عزم کرلیا ہے کہ ہم صرف اللہ کے قانون، قرآن اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی حکمرانی اور بالادستی تسلیم کریں گے، خواہ اس کی بھاری سے بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑے اوربڑی سے بڑی قربانی بھی پیش کرنا پڑے۔ ایک آزاد اور خودمختار مسلمان قوم ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا فطری حق ہے، اور سیاسی و اجتماعی شوکت و استقلال کا کوئی دوسرا مظہر اس کابدل اور قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ آپ بھی اس حق کے حصول میں ہماری مدد کیجیے۔ اس صورتِ حال کو بدلنے کی کوشش کیجیے اور قوم کو مجبور نہ کیجیے کہ وہ کسی ایسے راستے پر پڑ جائے جس پرمایوسی کی حالت میں قومیں پڑ جایا کرتی ہیں۔

بھارت میں مسلمان، دیگر مذاہب کے ماننے والے اور پسی ہوئی اقوام برہمنی فسطائیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ۹دسمبر ۲۰۱۹ء کو بھارتی لوک سبھا اور پھر ۱۱دسمبر کو راجیہ سبھا نے ایک نسل پرستانہ قانون منظور کیا۔ یہاں اسی مناسبت سے چھے مختصر مضامین پیش ہیں، جن سے وہاں موجودہ عوامی اُبھار کے خدوخال کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کے رہنے والے، بھارت کے مظلوموں اور مسلمانوں کی مدد اسی صورت میں کرسکتے ہیں کہ وہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں مضبوط پاکستان بنائیں، خالق اور خلق سے جو عہد کیا تھا اس کے تقاضے پورے کریں۔(ادارہ)

بھارتی مسلمانوں کے لیے، پاکستان یا قبرستان؟
افتخار گیلانی

بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخابات کی کوریج کے دوران، میں دربھنگہ ضلع سے نیپال کی سرحد سے ملحق علاقے مدھوبنی کی طرف رواں تھا کہ راستے میں ایک پولیس ناکہ پر گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔پولیس جب تک گاڑی کی تلاشی لے رہی تھی، میں سڑک کنارے چائے کے ایک کھوکھے کی طرف چل پڑا۔ چند لمحوں کے بعد پولیس سب انسپکٹر ، جو نیم پلیٹ سے مسلمان معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا، اور پوچھا کہ ’’کیا دہلی میں ایسی کوئی بات ہورہی ہے کہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان جانا ہوگا؟‘‘ اس سوال پر میں چکّرا گیا، اور پوچھا کہ ’’ایسا آپ کیوں سمجھتے ہیں اور کس نے یہ افواہ پھیلائی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیاکہ ’’میں پاس ہی ملاحوں کے گاؤں میں چند آسودہ حال مسلم گھرانوں کے محلے میں رہتا ہوں، اور حال ہی میں ایک تین منزلہ مکان تعمیر کیا ہے۔ چند روز سے گاؤں کا نمبردار مسلسل گھر آکربتا رہا ہے کہ اپنا مکان جلد فروخت کرو، انتخابا ت کے بعد کوئی دام نہیں دے گا، کیونکہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جلد ہی پاکستان بھگا دیا جائے گا‘‘۔ پوچھاکہ ’’آپ کا گاؤں کتنا دُور ہے؟‘‘ مجھے اب ایک بڑی اسٹوری کی بُو آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گاؤں قومی شاہراہ سے ہٹ کر چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی معیت میں گاؤ ں کی طرف چل پڑا۔
نمبردار سے ملا تو اس نے بتایا کہ ’’ایک ہفتہ قبل مجھ کو سمستی پور شہر میں بلایا گیا تھا، جہاں پٹنہ سے ایک لیڈر آئے تھے۔ انھوں نے ایک بند کمرے کی میٹنگ میں تمام نمبرداروں کو بتایا کہ انتخابات کے بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی صوبے میں اقتدار میں آئے گی، تو مسلمان پاکستان جائیں گے اور ان کی جایدادیں گاؤں والوں میں بانٹی جائیں گی‘‘۔ اس سے یہ گرہ کھلی کہ نمبردار اب اپنے طور پر ان مسلم گھرانوں کے ساتھ احسان کرکے یہ یقینی بنارہا تھا، کہ ان کی جایداد انتخابات سے پہلے فروخت ہو، تاکہ پاکستان جانے سے قبل ان کو ’مناسب دام‘ مل سکیں۔
میں نے اپنا صحافت کا چوغہ اتار کر گاؤ ں والوں کو بھارتی آئین، اور اس میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق، بھائی چارہ وغیرہ پر تفصیلی لیکچر دیا۔ اور یہ بھی بتایا کہ دہلی میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، بس کوئی آپ کو ورغلا کر اپنا سیاسی اُلو سیدھا کر رہا ہے۔ ان کو یہ بھی بتایا کہ۱۹۴۷ء میں جن لوگوں کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانا تھا وہ چلے گئے اور اب جو مسلمان یہاں ہیں، و ہ تو بھارتی شہری ہیں اور ان کو ملک سے باہر نکالنے کا کوئی سوال ہی پید ا نہیں ہوسکتا۔
مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس واقعے کے محض چار سال بعد اتر پردیش کے مظفر نگر قصبے میں ۷۲سالہ حاجی حامد حسین کو پولیس کی لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ کے وار سہتے ہوئے یہ سنناپڑے گا کہ ’’پاکستان ورنہ قبرستان جاؤ‘‘۔ کلکتہ کے ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق حاجی صاحب قصبے کی ایک معتبر شخصیت ہیں، اور انھی کی وجہ سے علاقے میں ایک روز قبل متنازعہ شہریت قانون کے خلاف ہونے والا مظاہر ہ پُرامن طور پر ختم ہو گیا تھا۔ ان کے گھر کا فرنیچر، باتھ روم ، کچن اور عنقریب بچوںکی شادی کے لیے خریدا ہو ا سامان توڑ پھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی طرح میرٹھ شہر میں سینیر پولیس آفیسر اکھلیش سنگھ نے مظاہر ہ کرنے والے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ’’پاکستان چلے جاؤ‘‘۔
اترپردیش کے متعدد شہروں، قصبوں اور دُور دراز دیہات سے آنے والی خبریں نہایت ہی پریشان کن ہیں۔ ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ انتہائی متعصبانہ اور ہولناک ہے۔صوبے میں ۲۵ مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں [اور ان اموات کا سبب اس طرح رپورٹ کیا گیا ہے: سینے میں گولی لگنے سے ۶، سر میں لگنے سے ۸، کمر میں لگنے سے ایک، ماتھے پر لگنے سے ایک، گردن پر لگنے سے ۲، اور پیٹ میں گولیاں لگنے سے ۴؍افراد جان سے گئے]۔  اس کے ساتھ ہی سول انتظامیہ مسلمانوں کو نوٹس جاری کر رہی ہے کہ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کریں۔ صوبہ اترپردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم مظاہرین سے بدلہ لیں گے‘‘۔
عہد رفتہ کے نوابوں کے شہر رام پور میں پتنگ بنانے والے محمد عابد دن بھر گھرپر اپنے کام میں مصروف تھے۔ شام کو گھر سے نکلتے ہی گرفتار کر لیے گئے۔ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دن بھر شہر میں کیا ہو رہا تھا۔ اگلے دن ان کے گھر پرنوٹس آیا کہ پولیس کی لاٹھی، ڈنڈے اور ہلمٹ کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کے لیے خزانہ میں ۱۴ہزار روپے جمع کروائیں۔ سو روپے سے بھی کم یومیہ کمانے والے اور وہ بھی جب کمانے والا ہی جیل میں ہو، ۱۴ہزار روپے کہاں سے لائیں گے؟ اسی طرح ۳۶سالہ یومیہ مزدور اسلام الدین ۲۱دسمبر کو اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ہمراہ گھاس پھونس جلا کر آگ تاپ رہا تھا کہ پولیس نے گرفتار کرلیا، اور کہا کہ شہر میں پولیس کی گاڑیوں اور بسوں کی جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس کا جرمانہ ادا کریں، ورنہ ان کی جایداد ضبط کرکے نیلام کی جائے گی۔
سکرول انڈیا کے مطابق نہٹور کے نیزا سرائے میں  ۵۵ سالہ رفیق احمدنے پولیس کے کہنے پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے عوام سے امن برقرار رکھنے اور گھر جانے کی اپیل کی۔ پُرامن لوگ واپس گھر جانے لگے تو آنسو گیس کے گولے اور لاٹھیاں ان کے سر سے ٹکرانی شروع ہوگئیں۔ حالانکہ کسی نے کوئی پتھر نہیں پھینکا تھا، اس کے باوجود پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ کیرانہ سے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ سعید الزماں صدیقی کے بیٹے نے بتایا کہ ’’پولیس نے ہماری چارکاریں بلاجواز نذر آتش کر دیں۔ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی ہندی کے سوربھ شکلا کا کہنا ہے کہ مظفر نگر میں پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے سے قبل سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے۔ مگر اس کے باوجود بہت سی ویڈیوز ایسی بھی منظر عام پر آ رہی ہیں، جن میں نظرآرہا ہے کہ لوگ پُرسکون انداز میں   چل رہے ہیں اور پولیس اچانک پیچھے سے لاٹھی چارج کرنے لگتی ہے۔ کہیں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں اور پولیس انھیں پکڑ کر زدوکوب کررہی ہے۔ دو پولیس اہلکار ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں، اور پولیس کے دو افراد اسے لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔پولیس کی ایسی درندگی کی ویڈیوز واٹس ایپ میں گشت کر رہی ہیں، جنھوں نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے ۔ لکھنؤ سے گرفتار ہونے والوں میں دیپک کبیر تھیٹر اداکار بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے بارے میں پتا کرنے کے لیے تھانے گئے تو انھیں بھی گرفتار کرکے ان پر قتل اور فساد بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سابق سینیر پولیس افسر ایس آر داراپوری اور ۷۶سالہ انسانی حقوق کے کارکن محمد شعیب کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ کانگرسی رہنما صدف جعفرکو بھی پتھراؤ کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ، لکھنؤ ایسٹ کے بقول: ’’ہم نے انھیں فساد کرتے ہوئے موقع سے گرفتار کیا ہے ‘‘۔
لکھنؤ میں انگریزی اخبار دی ہندو  کے صحافی عمر راشد کو پولیس نے ایک ریسٹورنٹ سے حراست میں لیا۔ نئے شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ شمال مشرق کے سبھی صوبے سراپا احتجا ج ہیں۔ وہاں کئی جگہوں پر حکمران بی جے پی کے دفاتر اور لیڈروں کے گھر بھی جلائے گئے، مگر سزا صرف مسلمانوں کو ہی دی گئی ہے۔ چند سال قبل دہلی کے متصل ہریانہ میںنوکریوں میں کوٹہ کے مسئلے پر جاٹوں نے ریلوے اسٹیشن، شاپنگ مال، پولیس اسٹیشن اور ایک وزیر کے گھر تک کو آگ لگاکر راکھ کر دیا۔ مگر کس کی ہمت تھی کہ ان کو گرفتار کرے، یا پیلٹ گن سے ہی ان کے ہجوم کو منشر کرے، یا ان سے معاوضہ طلب کرے ؟ تاہم، مسلمان کے لیے یہ سب تعزیریں موجود ہیں۔

شاہین صفت مسلم خواتین، فسطائی حکومت کے مدِ مقابل
شکیل رشید

آج بھارت کی شاہین صفت گھریلو اور پڑھی لکھی مسلم خواتین حجاب کی پاس داری کے ساتھ کچلی پسی قوم کا ہراول دستہ ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لے کر پٹنہ، ارریہ ، مدھوبنی، الٰہ آباد کے روشن باغ، سیلم پور، خوریجی، ذاکر نگر، کولکاتہ، کوٹہ، پونے، یعنی پورے بھارت میں مسلم خواتین سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک میں وہ تاریخی کردار اداکررہی ہیں، جس نے حکمران پارٹی کے کیمپ میں کھلبلی مچا دی ۔
یوں تو ان باہمت اور بہادر خواتین میں تمام ہی مذاہب کی خواتین شامل ہیں ، مگر سچی بات یہ ہے کہ مسلم خواتین کا حوالہ اس لیے زبان زدعام ہوا ہے کہ اس تحریک کی ابتدا انھوں نے ہی کی ہے۔ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پیٹا گیا، مظفرنگر، کانپور، فیروز آباد، بجنور میں ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں اور داخلِ زنداں کیاگیا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ ایک ایسے کالے قانون کے خلاف میدان میں ڈٹ گئیں، جو ان سے اور ان کی اولاد سے اس ملک میں، اور جہاں وہ پیدا ہوئے، شہریت چھیننے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ _یہ شاہین صفت مسلم خواتین آج اسی مودی کے خلاف ہیں، جس نے ’طلاق ثلاثہ‘ کے معاملے پر کہا تھا: ’’مسلم خواتین کا استحصال بند ہونا چاہیے اور انھیں انصاف ملنا چاہیے‘‘۔ یہ مسلم خواتین آج مودی سے سوال کررہی ہیں کہ کیا ’استحصال‘ سے ’نجات‘ اور ’انصاف‘ دلانے کا مقصد ان پر اس ملک کے دروازے بند کرنا، انھیں یہاں سے دربدر کرنا تھا؟ اور وہ جواب بھی دے رہی ہیں کہ ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘۔
شاہین باغ دہلی سے شروع ہونے والی خواتین کی اس تحریک کا تاریخ میں ذکر سنہرے حروف میں کیا جائے گا۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک طلبہ نے شروع کی، پھر خواتین سامنے آئیں، اور آج یہ تحریک جسے جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی تحریک بھی کہاجاسکتا ہے، سارے ملک میں طلبہ اور خواتین ہی کے دم سے جاری ہے۔ مودی بوکھلائے ہوئے ہیں، اس لیے کہ انھوںنے اس سے پہلے خواتین کی طاقت نہیں دیکھی ہے۔ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین نے جو تحریک شروع کی ہے، اس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ شاہین باغ کی تحریک نے مودی کے فسطائی ایجنڈے کو اس طرح عیاں کردیا ہے کہ ساری دنیا اس پر نفرت بھیج رہی ہے۔
اب کوشش یہ ہے کہ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کی تحریک کو کسی طرح سے کمزور کیا جائے بلکہ ختم کردیاجائے۔ اس کےلیے مسلمانوں میں جو نفاق پرور ہیں ان کی بھی مدد لی جارہی ہے۔ میناکشی لیکھی نے کھلے طو رپر دھمکی دی ہے، اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جارہا ہے۔   آج ۱۴جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے پولیس سے کہہ دیا ہے کہ یہ قانون کا معاملہ ہے۔ وہ اپنے طورپر شاہین باغ کی خواتین کو ہٹائے۔ پولیس اس کی تیاری کررہی ہے۔ ممکن ہے کہ ان بہادر خواتین پر لاٹھی ڈنڈے برسائے جائیں۔ اب جو بھی ہو، یہ وہ باہمت خواتین ہیں، بقول اسرارالحق مجاز: جنھوں نے ’آنچل کو پرچم‘ بنالیا ہے اور مودی کے ’استحصال‘ اور ’انصاف‘ کے ’جھوٹ‘ کو ان کے منہ پر دے مارا ہے۔ اگر وہ جبراً ہٹائی گئیں تو بھی ’فاتح‘ وہی رہیں گی اور یہ زعفرانی سرکار ہمیشہ ہمیشہ تاریخ میں ظالم اور جابر کے طو رپر ہی جانی جائے گی۔

بھارتی مسلمان ، مودی کا نشانہ؟
سنجیو سبھلوک

ہمارے ہاں کہا جارہا ہے کہ ابتدا میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل رہنے والے محمدعلی جناح پر ہندوؤں سے متعلق ایک بلاجواز خوف غالب ہوا۔ اس لیے ۱۹۲۸ء کے کل جماعتی اجلاس میں انھوں نے چودہ مطالبات پیش کیے۔ لیکن اب [۹۱برس گزرنے کے بعد] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ خوف بڑی حد تک صحیح ثابت ہوا ہے۔ پھر گذشتہ ۷۲برسوں کے دوران بھارت میں ان مسلمانوں پر جو ۱۹۴۷ء سے یہیں پر مقیم ہیں، مسلسل دباؤ ڈالا گیا۔ بجاے اس کے کہ تحریک ِ آزادی میں انڈین نیشنل کانگریس کے وعدے کے مطابق مذہب کو ملک کے نظام سے علیحدہ رکھا جاتا، تاریخ کے اوراق پر بھارت قطعی طورمسلمانوں کے خلاف رہا۔
بھارتی دستور مملکت کی دفعہ ۴۸ میں ’’گائے، بچھڑے یا دودھ دینے والے دیگر جانوروں کے ذبیحے پر پابندی عائدہے‘‘ اور یہ پابندی جو بزعم خود ’جدید سائنس‘ کےمفاد میں قرار دی گئی تھی، لیکن اسے ہندو راشٹر کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا۔ اس آئینی اختیار کی بنیاد پر کئی ریاستوں میں گائے کا گوشت (beef) بیچنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح سے بیف کھانے والے لاکھوں بھارتیوں پر ان کے پسند کے کھانے پینے کی آزادی پر قدغن لگادی گئی ہے۔
وزیراعظم نہرو نے ایک اور قدم آگےبڑھایا۔ بجاے اس کےکہ شہریوں کے لیے  ایک معیاری قانون لاگو کیا جاتا، انھوں نےہندو ایکٹ قائم کیا۔ مزیدیہ کہ مندروں کو حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جو ان کی دیکھ بھال کرتی اور بعض اوقات انھیں فنڈز بھی فراہم کرتی۔  اسی طرح بابری مسجد کا انہدام ممکن نہیں ہوتا اگر اس کے پس پردہ بالخصوص کانگریسی حکومتوں کی چشم پوشی نہ ہوتی۔ اس انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد کوئی شبہہ باقی نہیں رہا کہ ہندو راشٹر کے اہداف کو جواز بخشنے کے لیے املاک کے حقوق کو بدلا بھی جاسکتا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا حقیقت تو بھارتی مسلمانوں کی معاشی ومعاشرتی صورت حال ہے۔ گویا کہ یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ’’ تمام ہوشیار اور ذہین مسلمان تو پاکستان چلے گئے ہیں، اس لیے ہمارے ملک کے  تمام اہم عہدوں کے لیے یہاں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔ گویا بھارتی مسلمان غیر معیاری قرار دے دیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ ملک کے بڑے عہدوں کے اہل نہیں ہیں۔ سچر کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ انڈین افسر شاہی میں محض۲ اعشاریہ ۵ فی صد مسلمان ہیں۔ اسی طرح اگر جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری کو الگ رکھا جائے تو دفاعی فورسز میں بھارتی مسلمانوں کی شمولیت محض ۲ فی صد ہے، جب کہ دفاعی فورس میں اعلیٰ مسلم افسران کی شرح تو اس سے بھی کم ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ’اکنامک ٹائمز انٹیلی جنس گروپ‘(ETIG) کے ایک جائزے کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی ۵۰۰کمپنیوں میں ڈائریکٹروں اور سینئر ایگزیکٹوز کے عہدوں پر محض ۲ء۶ فی صد مسلمان فائز ہیں۔
اس ضمن میں مجھے وہ چار روزہ نیشنل ریفارم کانفرنس یاد آرہی ہے، جو میں نے بابا رام دیو  کے پتن جالی ہیڈ کوارٹرز پر اپریل۲۰۱۳ ء میں منعقد کی تھی۔ اُس وقت ہم ایک نئی سیاسی جماعت (سورنا بھارت پارٹی) بنانے کے لیے مشترکہ طور کام کر رہے تھے۔ اس کانگریس میں ملک بھر کی ۱۰۰ معروف شخصیات بشمول سابق وائس چانسلر اورسابق جرنیل موجود تھے۔ اس کانگریس کے حوالے سے میرا مقصد مجوزہ پارٹی کے منشور کو پیش کرنا اور کچھ نئے تصورات حاصل کرنا تھا۔ اجلاس میں کئی آر ایس ایس اراکین اور حمایتی بھی موجود تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں سے نکال باہر کیا جائے۔ کیونکہ ان کاخیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلمان دغا کریں گے۔
میں نے اس خوف ناک تجویز کو مسترد کر دیا اور یہ اچھا ہی ہوا کہ رام دیو اور میں نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ مگر یہ صرف آرایس ایس نہیں بلکہ کئی ممتاز بھارتی ہندو اُن مسلمانوں کے حوالے سے جانب دار ہیں، جن کے زندگی میں آگے بڑھنے کے ذرا سے بھی امکانات ہیں۔ ویسے بھی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی شرح ہمیشہ مسلم آبادیوں کے تناسب سے بہت کم رہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے نیا ریکارڈ قائم کرلیا کہ اس کے ۳۰۳ ممبران پارلیمنٹ میں صرف ایک مسلم رکن ہے۔
یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجوزہ ہندو راشٹرمیں مسلمان واقعی دوسرے درجے کے شہری ہوں گے، لیکن ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ پاس کر کے اس کے لیے قانونی راہ ہموار کرلی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ بھارت کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم واقعہ بن گیا ہے اور یہ ایکٹ کئی لحاظ سے پریشان کن ہے۔ اس میں سماجی مہاجرین اور معاشی مہاجرین میں فرق ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس ایکٹ میں فوری شہریت کے حصول کے لیے مذہب کو اہمیت دی گئی ہے۔ شہریت دینے سے انکار کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ’’آپ مسلمان ہیں‘‘۔ بھارت کے قانون میں اسلام کو سرکاری طور پر تنزل یافتہ قرار دیا گیاہے۔ مسلمانوں کو سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ ان کا مذہب بھارت میں قابل قبول نہیں ہے۔ پولیس انھیں احتجاج کے لیے جمع ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ظاہر ہے کہ دوسرے درجے کے شہری جمہوری حقوق کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اتر پردیش میں جب وہ صداے احتجاج بلند کرتے ہیں تو ان پر گولی چلائی جاتی ہے اور ان کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم مودی تو مظاہرین کے کپڑوں کو دیکھ کر ان کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے یہی طے پایا گیا ہے کہ انھیں پہلے زخم دو   اور پھر ان کی تذلیل بھی کرو۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں مودی کا کھیل کیا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں بی جے پی کے منشور سے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں مسٹرمودی کی مادری تنظیم (آر ایس ایس) اور ان کے گورو گولوالکر سے صاف صاف جوابات ملتے ہیں، اور وہ مسلمانوں کو ملک دشمن تصور کرتے ہیں: ’’انھوں نے نہ صرف ہماری زمین کے دوبڑے ٹکڑے حاصل کیے ہیں جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کر رہے ہیں اور ہمارے باقی ماندہ ملک کو فتح کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اچھی خاصی تعداد میں بطور چھپے دشمن کے رہ رہے ہیں‘‘۔
یہی گولوالکرجب جوان تھے تو وہ نازی طرزِ عمل کے گرویدہ تھے۔ ان کا کہنا ہے:’’اپنی نسل کی پاکیزگی اور اس کے کلچر کو برقرارکھتے ہوئے ملک کو سامی نسل، یعنی یہودیوں سے پاک کرکے جرمنی نے پوری دنیا کو جھٹکا دیا، تو ہندستان کے لیے اس سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کا ایک اچھا سبق ہے‘‘۔ تاہم، جب انھیں احساس ہوا کہ نسل کشی کرنا آسان نہیں ہوگا، ان کے لیے دوسرے درجے کی شہریت کو قابل عمل سمجھا اور کہا: ’’ہندستان میں غیر ملکی نسل کو یا توہندو مذہب کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا، یا ہندو نسل میں ضم ہو جانا ہوگا، یا پھر ملک میں ہندو قوم کا مکمل طور پر تابع دار بن کر رہنا ہوگا۔ وہ کسی چیزکا مطالبہ نہ کریں اور نہ کسی قسم کی مراعات کے مستحق ہوں گے۔ یہاں تک کہ انھیں شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے‘‘۔ مسلمانوں کے لیے گولوالکر کی ہدایات واضح تھیں: ’’واپس آجاؤ پہناوے اور رسومات کے حوالے سے اپنے اجداد کی شناخت اپناؤ‘‘۔ گویا مسلمان اگر بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے مذہب کو ترک کرنا ہوگا۔
مودی حکومت کے لیے اب صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو دبانا بند کر دے، ان کے مذہب میں ہر قسم کی مداخلت کو ختم کر دے (بشمول شہریت ترمیمی ایکٹ، مندر کے مالکانہ حقوق اور حج سبسڈی)، اور تمام بھارتیوں کوقانون کے مطابق یکساں حقوق فراہم کرے۔(ٹائمز آف انڈیا، ۲جنوری ۲۰۲۰ء)

آسام: دستاویزات کے باوجود کیمپوں میں رہنے پر مجبور
افروز عالم ساحل

۴۵ برس کے محمد ابراہیم علی کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ بار بار اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میں یہاں تیج پور سے ایک مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے بطور امام آیا تھا اور یہیں بس گیا۔ میں یہاں کی مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں۔ پچھلے سات، آٹھ برسوں سے مسلسل تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرکے زمین خریدی اور یہ مکان تعمیر کیا۔ لیکن ۵ دسمبر۲۰۱۹ءکو میرے اس آشیانے کو یہ کہتے ہوئے کہ مسمار کر دیا گیا کہ ’’میں بنگلہ دیشی ہوں‘‘۔
یہ کہانی صرف ابراہیم علی کی نہیں ہے بلکہ کم و بیش یہی کہانی آسام کے سونت پور ضلع کے  ۴۲۶ خاندانوں کی ہے، جن کے مکان یہی کہتے ہوئے زمیں بوس کر دیے گئے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ اب ان خاندانوں کے تقریباً ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد شدید سردی کے  موسم میں کھلے آسمان تلے بنے عارضی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سونت پور کے مکوا، سیرووانی اور  بیہیا گاؤں کے کیمپ اس بے بسی اور تباہی کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں زیادہ تر لوگ ڈیگولی چپوری، بالی چپوری، لالٹوپ، باٹی ماری بھیروی اور لنگی بازار گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ان کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیے گئے شہریوں کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے پاس اپنی اپنی زمینوں اور ہندستانی شہریت کو ثابت کرنے والی تمام دستاویزات موجود ہیں۔ اس کے باوجود مقامی بی جے پی کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا نے ہمارے گھروں کو اس لیے منہدم کروا دیا کہ اس بستی کے مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں ڈالے تھے‘‘۔ ڈیگولی چپوری کے محمدابراہیم علی آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان لوگوں نے ہمارے کچّے مکانوں پر ہاتھی چلوا دیا، اور پکے مکانوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ ساتھ میں پولیس فورس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ ہمیں کچھ بھی بولنے یا کاغذ دکھانے کا موقع نہیں دیا گیا‘‘۔ ابراہیم علی کہتے ہیں: ’’میں اور میرے باپ دادا سب یہیں آسام میں پیدا ہوئے ہیں۔ این آر سی لسٹ میں ہمارا نام تو پہلی مردم شماری۹۵۱ ۱ میں بھی تھا، اور اس بار کے بھی این آرسی میں موجود ہے۔ میرے پاس تمام دستاویز ہیں، پھر بھی نہ جانے کس بنیاد پر مجھے بنگلہ دیشی بتا رہے ہیں‘‘۔
۶۵ سالہ کسان اکاس علی نے گاؤں میں چھوٹے سے مکان کی تعمیر میں اپنی پوری زندگی کا سرمایہ لگا دیا۔ وہ اس پیرانہ سالی میں ایک عارضی کیمپ میں اپنے ساتھ ایک لال پوٹلی لیے پریشان پھر رہے ہیں۔ اس پوٹلی میں ان کے ہندستانی شہری ہونے کے تمام کاغذات موجود ہیں۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم ایک بار چل کر ان کا بھی گھر دیکھ لیں۔ چنانچہ ہم اپنے دورۂ آسام کے بیچ ان کے ساتھ ان کے باٹی ماری بھیروی گاؤں پہنچے۔ جیسے ہی انھوں نے اپنا تباہ شدہ گھر دیکھا تو ڈبڈبائی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے بولے: ’’میرا آبائی گاؤں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ۱۵سال سے زیادہ عرصہ ہوا، میں یہاں رہ رہا ہوں۔ میں آسام کا ایک حقیقی شہری ہوں اور این آر سی میں بھی میرا نام شامل ہے۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں سوتیا اسمبلی حلقہ میں جہاں میرا گاؤں پڑتا ہے وہاں ایک ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوں۔ میرے ووٹ کا اندراج پڑوسی انتخابی حلقے میں ہے۔ ایم ایل اے پدما ہزاریکا نے انتظامیہ کی ملی بھگت سے مجھے اور ہم جیسے ۴۰۰ سے زیادہ خاندانوں کو صرف اس وجہ سے علاقے سے باہر نکال دیا کہ ہم نے انھیں ووٹ نہیں دیا۔ اس کارروائی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ بی جے پی یہاں ہندو بنگالیوں کو آباد کرنا چاہتی ہے‘‘۔
طہورہ خاتون کی بھی یہی کہانی ہے۔ وہ چپ چاپ خاموشی سے اپنے تباہ کردہ گھر کی طرف نظریں ٹکائے ہوئی ہیں۔ کئی بار سوال کرنے کے بعد وہ آسامی زبان میں بتاتی ہیں کہ ’’میرا ووٹ سونت پور میں درج ہے۔ بی جے پی اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیا تو اس نے میرا گھر اُجاڑ دیا‘‘۔ اسی کیمپ میں ۶۰ سالہ واحد علی نے بتایا کہ ان کا گھر اس سے قبل نوگاؤں میں تھا اور میں ۱۲ سال پہلے یہاں آیا تھا۔ اسمبلی حلقہ سے بی جے پی اُمیدوار نے میرا مکان گرا دیا ہے کیونکہ میں نے اس کو ووٹ نہیں دیا تھا‘‘۔ کھلے آسمان تلے کیمپ میں مقیم خواتین اور بچوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خواتین کا کہنا ہے کہ: ’’ہمیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ریاستی اسمبلی کے لوگ ان کیمپوں میں گھس کر ان کی عزت پر بھی حملہ نہ کردیں‘‘۔
ضیاء الرحمان سے جب پڑھائی کا پوچھا تو اس نوجوان نے سخت غصّے میں کہا: ’’ہم کیمپ میں کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟ ہمیں بنگلہ دیشی کا ٹھپہ لگا کر بے گھر اور بے زمین کر دیا گیا ہے، ہم اسکول جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں تو یہ بھی نہیں پتا کہ زندگی کیسے گزرے گی؟ ہم میں زیادہ تر لوگ خود کشی کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ ہمارے گھر ہم سے چھین لیے گئے۔ پہلے قریب کے گاؤں میں کام مل جاتا تھا، لیکن جب سے حکومت این آر سی اور نیا قانون (شہریت ترمیمی ایکٹ) لے کر آئی ہے، ہم سب بیکار پڑے ہیں‘‘۔
آٹھویں میں پڑھتی سمون نشا ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن اب اس کے لیے اسکول کی تعلیم ختم ہوگئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اسکول کیمپ سے بہت دور ہے۔ اب کیسے جا سکیں گے؟‘‘ اسی طرح نیہا آٹھویں جماعت میں پڑھتی ہے ، اس نے بتایا کہ: ’’اسکول میں سب مجھے بنگلہ دیشی سمجھتے ہیں‘‘۔ یوں ان بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب ان بچوں کے والدین کو وہاں سے بے گھر کر دیا گیا ہے، اگرچہ ان تمام لوگوں کے پاس اس زمین سے متعلق دستاویزات موجود ہیں۔ اس کی طرف متوجہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر منویندر پرتاپ سنگھ کہتے ہیں: ’’اگر ان کے پاس دستاویز ہے تو انھوں نے یہ زمین غیر قانونی قبضہ کار سے خریدی ہے، کیونکہ یہ ایک سرکاری اراضی ہے‘‘۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وجہ ہے کہ: ’’صرف چند منتخب مکانات کو چُن چُن کر منہدم کیا گیا ہے، جب کہ ان کے بالکل بازو کے مکانات محفوظ ہیں۔ کیا یہ سرکاری اراضی نہیں ہے؟‘‘ اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ سماجی کارکن اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ ’’پہلے تو یہ بیچارے قدرتی آفات کا شکار ہوئے۔ جیا بھرولی ندی نے ان کی زمین اپنے اندر سمو لی اور اب حکومت کے کارندے ان سے ان کی زمینیں چھین رہے ہیں۔ کسی کے ساتھ اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہاں کا ہر فرد جانتا ہے کہ یہ جیا بھرولی ندی لوگوں کی زمین کس طرح چھینتی ہے‘‘۔ اشفاق حسین نے مزید بتایا کہ ’’اگر یہ لوگ واقعی بنگلہ دیشی ہیں تو حکومت کو فوری طور پر انھیں پکڑ کر بنگلہ دیش بھیجنا چاہیے۔ اور اگر وہ نہیں بھیج رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہندستانی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو ان کے لیے رہایش کا بندوبست کرنا چاہیے۔ جبری پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ وہ کب تک کیمپ میں قیام پذیر رہیں گے؟ ایک بار بارش شروع ہونے کے بعد تو وہ کیمپ میں رہنے کے لائق بھی نہیں رہیں گے‘‘۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ادارے یہاں کے تین کیمپوں میں لوگوں کو ریلیف کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔سماجی کارکن عبدالقادر کہتے ہیں، ’’سونت پور ضلع کا سوتیا اسمبلی حلقہ ایک مثال ہے کہ کس طرح سے آسام میں مسلمانوں کو حکومت کے ذریعے دبایا جا رہا ہے؟ کس طرح سے مسلمانوں کے انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں اور کس طرح سے حکومت ہندوتوا ذہنیت کو بڑھاوا دے رہی ہے؟‘‘ ۲۶ برس کے شاہ جمال کہتے ہیں: ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے۔ اس علاقے کے کچھ مسلمان یہاں کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا کے ساتھ بی جے پی میں ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ آج ان کے گھروں کو گرایا گیا ہے، کل ان کا نمبر بھی آئے گا‘‘۔
مسلم بستیوں کو اجاڑنے کی اطلاع ملنے پر ۲۲ دسمبر کو جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری محمد احمد نے آسام کے ان علاقوں کا دورہ کیا، اور بے دخل کیے گئے سبھی خاندانوں سے ملاقات کی اور متاثرین کو ہرممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ جماعت اسلامی ہند اَپر آسام ڈویژن کے اشفاق اللہ حسین اور بذل الباسط چودھری بھی ان کے ساتھ تھے۔ جماعت کی ٹیم نے ان علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں متاثرہ خاندان کے گھر تھے اور جنھیں منہدم کر دیا گیا ہے۔ ٹیم کی جمع کردہ معلومات سے پتا چلا کہ یہ لوگ آسام ہی کے شہری ہیں اور ان کے نام بھی این آر سی میں شامل ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ’’ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے اور ہر طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
یہ غریب مسلمان قدرتی آفات اور نفرت کی مار ایک ساتھ جھیل رہے ہیں۔ یہ مجبور و بے کس کھلے آسمان تلے اپنے دن کاٹ رہے ہیں۔ سرپر منڈلاتے خطرات اور مستقبل کے اندیشے ان کی زندگیوں پر مہیب سایے بن کر چھائے ہوئے ہیں۔

اعلیٰ تعلیمی ادارے اور بھارت کا بدلتا سیاسی منظرنامہ
ڈاکٹر سلیم خان

این آر سی کے خلاف اور حمایت میں فی الحال پورے بھارت میں مہمات چل رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) میں دہشت گردی اور اس میں آر ایس ایس کی فسطائی طلبہ تنظیم اے بی وی پی (ABVP:اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کے ملوث ہونے کے ثبوت ذرائع ابلاغ کی زینت بننےلگے ہیں۔ ان دونوں واقعات کے زیر اثر ملک میں سیاسی رجحان ایک خاص انداز میں بدل رہا ہے۔ اس کو وارانسی کی سنسکرت یونی ورسٹی کے انتخابات اور ممبئی میں گیٹ آف انڈیا پر ہونے والے غیر معمولی مظاہرے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
اترپردیش میں بی جے پی کا جلاد صفت یوگی اقتدار پر قابض ہے۔ جس نے ابھی حال میں مظاہروں کو کچلنے کی نا کام کوشش کی اور ہار گیا۔ ساتھ ہی ساتھ مودی، یوگی اور امیت شا ایسی قانون سازی سے ہندو عوام کا دل جیتنے میں جٹے ہوئے تھے۔ مہم اپنے شباب پر پہنچی تو وارانسی میںواقع سنسکرت یونی ورسٹی کے اندر طلبہ یونین کا انتخاب ہوا، جس میں اے بی وی پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا نے اے بی وی پی کو چاروںشانے چت کر دیا۔ ان انتخابات میں خود ہندو طلبہ نے سنگھیوں کی چتا جلائی کیونکہ سنسکرت تو شاید ہی کوئی مسلمان پڑھتا ہے۔
بنارس ہندو یونی ورسٹی میں پروفیسر فیروز خان کا تقرر زعفرانی طلبہ کو اس قدر ناگوار گزرا کہ  وہ ہنگامے کرنے لگے۔ حالانکہ یونی ورسٹی انتظامیہ نے ضروری ٹیسٹ اور انٹرویو لینے کے بعدہی پروفیسر صاحب کو یہ عہدہ دیا تھا، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔سنگھی طلبہ کا الزام تھا کہ ہماری تہذیب سے بیگانہ شخص ہمیں اور ہمارے مذہب کو کیسے سمجھے گا؟ راجستھان کے پروفیسر فیروز خان نے بتایا ’’جب میں نے سنسکرت کی تعلیم لینی شروع کی تو کسی نے اس پر انگلی نہیں اٹھائی۔ میرے محلے میں ۳۰ فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ خودمسلم مذہبی پیشواؤں نے بھی میری سنسکرت کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ مسلم سماج نے بھی مجھے کبھی سنسکرت سے دُور رہنے کے لیے کہا‘‘۔ یعنی اپنی رواداری کا ڈھول پیٹنے والے ہندو سماج کے مقابلے میں کہیں زیا دہ مسلمان معاشرہ کشادہ دل، روشن خیال اور روادار ہے۔
سنسکرت یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابی نتائج میں اترپردیش کے اندر ٹھاکروں کی دادا گیری کے خلاف بیزاری کا اظہار ہے۔ اترپردیش کے یوگی راج میں خوف و دہشت کے ماحول کو سمجھنے کے لیے یہ بات کا فی ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد یونی ورسٹی  وائس چانسلر نے منتخب طلبہ کو کامیابی کا جلوس نکالنے سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا۔ یہی کامیابی اگر اے بی وی پی کے حصے میں آتی تو کیا وائس چانسلر یہ مشورہ دینے کی جرأت کرتے؟ اور اگر اعلان ہو بھی جاتا، تو کیا سنگھی طلبہ ان کی بات پر کان دھرتے؟
ہندستان کے اندر برہمنوں کی سب سے بڑی آبادی اترپردیش میں رہتی ہے۔ صوبے کے ۲۰ کروڑ باشندوں میں ۱۰ فی صد یعنی ۲ کروڑ برہمن ہیں۔ ایک عرصے تک یہ لوگ کانگریس میں رہ کر اقتدار میں رہے۔ بی جے پی بنیادی طور پر شہروں کی پارٹی ہے۔ گذشتہ انتخاب میں اس نے ممبئی، پونے، ناگپور، احمدآباد، سورت، بڑودہ اور دہلی کی ساری سیٹیں جیت لی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ ان شہروں کا نوجوان طبقہ ہے جو مودی کے پیچھے ہلکان ہوا جا رہا تھا لیکن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور دہلی کی جے این یو اور جامعہ ملیہ نے نقشہ بدل دیا۔ اس تشدد کے خلاف ملک بھر کے دیگر مقامات کے ساتھ ان شہروں میں بھی احتجاج ہوا ۔ ممبئی میں اگست کرانتی میدان پر ہونے والے مظاہرے کو غیرمعمولی کامیابی ملی۔ اس میں غیر مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس کے بعد آزاد میدان پر بھی نوجوانوں کا احتجاج بہت کامیاب ہوا۔ گیٹ آف انڈیا کا ۴۰گھنٹوں تک گھیراؤ تو ایک ناقابلِ تصور واقعہ تھا، اور اسی طرح باندرہ کے کارٹر روڈ پر ہزاروں لوگوں کا سڑک پر آجانا حیرت انگیز تھا۔ ان تمام مظاہروں کی قیادت نوجوان کر رہے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ طبقہ بی جے پی کے نسل پرستانہ سحر سے نکل رہا ہے اور اس کو سبق بھی سکھانا چاہتا ہے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کے خلاف پس ماندہ طبقات میں بڑھتا اضطراب ایک بڑی لہر کا پتا دے رہا ہے۔ بی جے پی والوں نے پہلے مسلمانوں پر ہجومی تشدد کیا اور اس کے بعد یہ معاملہ دلتوں تک جاپہنچا ہے۔ آگے چل کر اشتراکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اب یہ لڑائی پارٹی کے اندر پس ماندہ ذاتوں تک پہنچ گئی ہے۔ مہاراشٹر کے دیہات میں یہی طبقات بی جے پی کی قوت کا سرچشمہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فسطائی جماعت نے بیک وقت پورے سماج کے خلاف نسلی جنگ چھیڑ دی ہے۔

بھارت میں موجو دہ لہر اور بنیادی تقاضا
پروفیسر محسن عثمانی ندوی

یہ ۱۹۷۸ء کی بات ہے کہ ایران میں اور پھر ۲۳برس بعد ۲۰۱۱ء میں عرب ملکوں، تیونس، مصر اور لیبیا کے عوام اپنے ہاں جابر حکومتوں کے خلاف انقلاب کے پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا۔ کہیں یہ انقلاب کامیاب ہوا اور کہیں دنیا کی بڑی طاقتوں کی سازش اور خلیجی ملکوں کی پشت پناہی سے یہ انقلاب اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔ جو منظر ان عرب ممالک میں چند سال پہلے دیکھنے میں آیا تھا، وہی منظر اب بھارت میں دیکھنے میں آرہا ہے ، جس کے طول وعرض میں احتجاج کی لہر اُٹھ رہی ہے۔ یونی ورسٹیوں کے طلبہ اور خواتین کا اس میں قائدانہ کردار ہے۔
حدیث نبویؐ کی روشنی میں انسان کو نہ تو ظالم ہونا چاہیے اور نہ مظلوم۔ ظلم کا مقابلہ کرنا ایک دینی قدر ہے۔ جو نوجوان حکومت کے ظلم کو روکنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، وہ قابل قدر ہیں۔ ہرخاص و عام میں یہ احساس پختہ تر ہے کہ اگر اس وقت مزاحمت نہ کی گئی، تو اس ملک میں اقلیتوں کو لوحِ ایام سے مٹا دیا جائے گا ۔ پھر نہ مسجدیں رہیں گی، نہ گرجے اور نہ مدرسوں کا وجود باقی رہے گا۔ ہجومی تشدد، جے شری رام کے نعرے، تین طلاق کا قانون ،دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی منسوخی، بابری مسجد، اور اب شہریت کے قانون میں ترمیم کا ایکٹ، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتاجارہا ہے۔ اگر ظلم کی اس سیاہ رات کے خلاف پوری طاقت سے عوام نہیں کھڑے ہوں گے تو اس ملک کو ایک نیا اسپین اور ہندو راشٹر بنانے کا خواب پورا ہو گا ۔
اس منظر نامے کی ایک قابلِ ذکر خاص بات یہ ہے کہ معروف علما یا مذہبی قیادت کا کردار اس میں قائدانہ نہیں ہے۔ جب پورا ملک احتجاج کے نعروں سے گونجنے لگا تو پھر کچھ علما جو پہلے بی جے پی کی بولی بول رہے تھے، وہ بھی نئے قوانین کے خلاف لب کشا ہوئے۔ حالانکہ ظلم اور ناانصافی کی مخالفت میں پہلی آواز تو انھی کی بلند ہونی چاہیے تھی۔ جیساکہ شاہ بانوکیس میں احتجاج منظم کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تحریک خلافت اور بھارت چھوڑو تحریک میں علما نے بڑے بڑے احتجاج منظم کیے تھے۔ ایران اور پھر بہار عرب کی قیادت دینی شخصیات نے کی تھی۔ بعدازاں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ،جو اپنے ملکوں میںاستبدادی نظام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں کو پسند نہیں تھا کہ عرب اور مسلم ملکوں میں جمہوریت آئے ،شریعت کا نفاذ ہو، اور استبدادی نظام کا خاتمہ ہو ۔ دولت مند خلیجی ملک بھی اپنی اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے ردِ انقلاب کی کوششوں کے ساتھی بن گئے۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا اور انقلاب کی کوشش ناکام ہوگئی ۔
بھارت کی موجودہ احتجاجی تحریک یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جرأت مندانہ اور سرفروشانہ انداز میں چلارہے ہیں۔  اس سے حکومت کو اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ بھی حکومت کا ہم نوا نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ افسوس ناک آثار موجود ہیں کہ کچھ مؤثر علما اس احتجاج کو بھی محض ایک سیاسی کام سمجھتے ہیں۔یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ طبقۂ علما میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو بصیرت اور اندیشۂ فردا سے محروم ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑاہونا ایک دینی قدر ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے:  اِنَّ النَّاسَ ا ِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَم یَأْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ اَوْشَکَ اَن یَّعُمَّہُمُ اللہُ  بِعِقَابٍ مِنْہُ  [الترمذی، ابواب الفتن، حدیث:۲۱۴۵] ’’ لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، توقریب ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب میں لپیٹ لے‘‘۔  
بھارت میں ۷۰ ہزار کروڑخرچ کرکے این آر سی، یعنی رجسٹریشن کا قومی ترمیمی قانون لایا گیاہے۔ جس کے ذریعے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ۵ لاکھ ہندووں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمانوں کو نظربند کیمپوں میں رکھا جائے گا یا ان کو ملک بدر کردیا جائے گا ۔ شہریت ثابت کرنے کے لیے وہ دستاویز طلب کی جائیں گے، جن کا مہیا کرنا تقریباً ۲۵ فی صدی آبادی کے لیے مشکل ہوگا۔ اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو ان کو شہریت مل جائے گی، اور مسلمان ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جب قانون کا یہ طبلِ جنگ بجا تو کم نظر مسلم قیادت اپیل کرتی رہی،’’ مسلمان شہریت کا دستاویزی ثبوت تیار رکھیں‘‘۔ایسی تیرہ و تار فضا میں سب سے پہلے جامعہ ملیہ، پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ساتھ ہی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) اور دیگر یونی ورسٹیوں کے طلبہ نے بیداری اورزندگی کا ثبوت دیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا ’’ جوانوں کو پیروں کا استادکر‘‘۔ ان شاہین صفت بچوںنے سال خورد عقابوں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ہے، جن کو اپنا اور مسلمانوں کا مستقبل عزیز ہے ۔شاہین باغ کی مسلم خواتین نے بھی فسطائیت کے خلاف اس جنگ میں حصہ لیا ہے ۔  
 مسلمان نوجوان طلبہ، غیر مسلم قائدین کو بھی ساتھ لے کر میدان میں آگئے کہ اُمید کے چراغ بجھنے لگے تھے۔ انھوں نے نوجوانوںکی شیرازہ بندی کی، اور انصاف پسند ہم وطنوں کو ساتھ لیا۔ ایک طرف نوجوانوں کا عزم جواں ہے، دوسری طرف ظلم وستم کا کوہ گراں ہے۔ اس صورتِ حال میں ایمان، تقویٰ اور صبر، تینوں سے مل کر کامیابی کا راستہ نکلتا ہے۔
قرآن کریم سے اور سیرت نبویؐ کے مطالعے سے دین کا جومزاج سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’صرف مسلمانوں کی اصلاح کی فکر نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی عاقبت بخیر ہونے کی فکر کی جانی چاہیے‘‘۔ مسلمانوں کو خیر امت اس لیے کہا گیا تھا کہ ان کو تمام بنی نوع انسان کے لیے مبعوث کیا گیا تھا: اُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ۔ لیکن بیش تر علما نے اپنے خطبات میں معنوی اور عملی تحریف کرڈالی اور اسے اُخْرِجَتْ لِلْمُسْلِمِیْنَ  کا مترادف سمجھ لیا ۔تمام انبیاے کرامؑ کے بارے میں آیا ہے:  وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ۝۰ۭ [ابراہیم ۱۴:۴، ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے ، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ قوم کے سامنے حق واضح کریں]۔
آج، جب کہ ہزاروں مدارس سے بڑی تعداد میں علما تیار ہوتے ہیں، اور وہ صرف مسلمانوں کو خطاب کرنے کے لائق ہیں۔ مسلمانوں کی جماعتیں بھی صرف مسلمانوں کے درمیان کام کرتی ہیں اور ملک کے دوسرے لوگوں سے ان کا رابطہ ٹوٹا ہوا ہے ۔علما کو بھارت کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کی بہت فکر ہے مگر ۱۰۰کروڑ سے زیادہ اللہ کی مخلوق کی کچھ فکر نہیں۔ ایک شخص کے تین بیٹے ہوں: ایک صحت مند ہو (مسلمان کی تمثیل)،دو بیمار ہوں ( کافر اور مشرک)، تو کیا اس کے لیے درست ہوگا کہ وہ بیمار بیٹوں کے علاج کی فکر نہ کرے اور ان سے لاپروا ہوجائے۔ یقین کرنا چاہیے کہ آج جو حالات پیش آرہے ہیں، وہ ہماری صدیوں کی غلطیوں کاشاخسانہ ہیں۔ ہمارا انداز اور طرزِ فکر مزاج نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ علماے دین کی بڑی تعداد اس بنیادی طرزِ فکر سے دُور ہے۔اس وقت عام بھارتیوں تک دین کی دعوت پہنچانے سے پہلے ان کو خدمت خلق یا کسی اور عنوان سے اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے عمومی رابطے اور حُسنِ سلوک کے ذریعے اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ [المؤمنون ۲۳:۹۶] کا تصور جاگزیںکرنا چاہیے کہ مسلمان اچھا شہری ،  اچھا پڑوسی، ایک اچھا انسان ہوتا ہے، شریف، خوش اخلاق اور مہذب۔ ہم نے یہ کام صدیوں سے نہیں کیا ہے۔ اس لیے دشمن عناصر کو یہ موقع مل گیا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کازہر لوگوں کے رگ وپے میں اتار دے۔
شہریت ترمیم ایکٹ کے خلاف احتجاج بہت خوش آیند ہے۔ البتہ سب سے اہم کام یہی ہے کہ عام لوگوں کی غلط فہمیاں دُور کی جائیں۔ ہرمسلمان تنظیم کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے اپنے یہاں شعبہ قائم کرے۔ اگر یہ طویل مدتی منصوبہ دوسرے مختصر مدتی منصوبوں کے ساتھ اختیار نہیں کیا گیا، تو بھارت میں مسلمان دوسروںکے ظلم وستم ہی کا ماتم کرتے ر ہیں گے۔ جن ملکوں میں مسلمان ۸۰،۹۰ فی صدی اکثریت میں ہوں وہاں اس ناقابلِ فہم غفلت کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے، لیکن جہاں چاروں طرف غیر مسلموں کا عددی غلبہ ہو، وہاں غیرمسلموں کو نظرانداز کرنا انبیائی طریقۂ دعوت نہیں ہے ۔اگر یہ ضروری کام نہیں انجام پایا تو منزلِ مقصود حاصل نہ کی جاسکے گی ۔

(امریکی فوجی مؤرخ اور مصنّف: Ghostriders of Baghdad: Myth of the Surge ،کنساس، امریکا)

گذشتہ انیس برسوں [۲۰۰۱ء-۲۰۲۰ء] سے امریکی فوج نے دنیاکی ایک انتہائی دُورافتادہ سرزمین پر جنگجو قبائلی مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ کیا یہ صورت حال کچھ جانی پہچانی نہیں معلوم ہوتی ہے؟
جی ہاں، اس صورت حال کے جانے پہچانے ہونے میںکوئی شک نہیں ہے، کیوں کہ  ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے، فلپائن کے انتہائی جنوبی جزائر میں اس جنگ کا آغاز ہوا۔اس وقت امریکی فوجی، افغانستان کے طالبان سے نہیں بلکہ انتہائی خودمختار اور آزاد اسلامی قبائلی،مورو مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ تب غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف ان قبائلیوں کی شدید مزاحمت کے قصّے بہت مشہور تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے میں محض چند افراد نے ہی مورو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ (۱۸۹۹ء-۱۹۱۳ء) کے متعلق سن رکھاہوگا۔ اس کے بعد افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت،امریکا کی دوسری طویل ترین جنگ ثابت ہوئی ہے۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ امریکا نے اس وقت مسلم دنیا میں بامقصد انداز میں  دل چسپی لینا شروع کی، جب واشنگٹن ۱۹۷۹ء میں ایرانی انقلاب میں اُلجھ کر رہ گیا۔ اسی سال کے   آخر میں افغانستان پر سابق کمیونسٹ روسی سلطنت حملہ آور ہوئی۔ یہ واقعات اگرچہ ایک ہی سال میں رُونما ہوئے، لیکن معاملہ اس قدر سادہ نہیں۔ انیسویں صدی میں امریکیوں کے خلاف مورو نسل کے مسلمانوں نے ایک طویل چھاپہ مار جنگ لڑی۔ یہ ’ہسپانوی اور امریکی جنگ‘ کا شاخسانہ تھی۔
یہ مہم نہ صرف تاریخ بلکہ اجتماعی امریکی یادداشت سے محو ہو چکی ہے۔مثال کے طور پر ’مورو مسلمانوں کے خلاف جنگ‘ کے موضوع پر [کتابوں کی فراہمی کے عالمی نیٹ ورک] ’امیزون‘ سے دست یاب بنیادی کتب صرف سات کی تعداد میں سامنے آتی ہیں۔اس کے برعکس امریکی ’جنگ ویت نام‘ کے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنے والی کتب کی تعداد ۱۰ ہزار سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ چیز اپنی جگہ ایک پُراسرار امر ہے۔جنوبی فلپائن کے جزائر میں جنگ،ازاں بعد ویت نام میں روایتی امریکی فوجی کارروائی سے نہ صرف چھے برس طویل تھی بلکہ اس جنگ کے نتیجے میں ۸۸ ’کانگریشنل میڈلزفارآنر‘ عطا کیے گئے، اور مستقبل کے پانچ امریکی آرمی چیف بھی انھی فوجیوں سے ترقی کرکے مقرر ہوئے۔ اگرچہ فلپائن کے شمالی جزائز میں شورش اور سرکشی کے خلاف جنگ ۱۹۰۲ء میںختم ہوگئی تھی، لیکن موروباغی مزید ایک عشرے تک لڑتے رہے۔جیسا کہ لیفٹیننٹ بینی فیولوس ___بعدازاں آرمی ایویشن کے ’بانی‘ نے لکھا:’’فلپائن کی شورش کو بہت کم ان مشکلات سے تقابل کیا جا سکتا ہے، جو ہمیں مورو [مسلمانوں]کے ساتھ جنگ میںپیش آئیں‘‘۔
    مورو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے حوالے سے ذیل میں کچھ نکات پیش کیے جارہے ہیں: یہ جنگ حتمی طور پر امریکا کی ایک ناکام جنگ ہے۔ اس جنگ کو کسی ایک عرصے کے خونیں المیے کے طور پر نہیں، بلکہ  ’نسل درنسل جدوجہد‘ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ مورولینڈ سے بظاہر امریکی فوج کے انخلا کے باوجود ایک سوسال بعد، مجاہدینِ اسلام اور دیگر علاقائی شورشیں،بدستور جنوبی فلپائن کو متاثرکرتی رہی ہیں۔

خوش آمدید مورولینڈ

مورو جزائر اور افغان عقبی علاقے کے درمیان کئی صورتوں میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔ منڈانوائے کا موروجزیرہ، خود آئرلینڈ سے بڑا ہے۔۳۶۹ سے زائد جنوبی فلپائنی جزائر تقریباً دشوارگزار اور غیرترقی یافتہ علاقے ہیں، جوایک لاکھ ۱۶ہزار ۸سو ۹۵ مربع کلومیٹر جنگلوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہیں۔ وہاں امریکیوں کی آمد کے وقت محض ۷۵ کلومیٹر طویل پختہ سڑکیں موجود تھیں۔ یہ سرزمین اس قدر دشوارگزار ہے کہ یہ فوجی دُورافتادہ علا قوںکوbundok (غیرآباد)کہتے تھے، جو تیگالگ زبان کے ایک لفظ’پہاڑی علاقہ‘کی بگڑی ہوئی شکل ہے___اور اب یہ لفظ امریکی ذخیرۂ الفاظ میں داخل ہے۔
۱۴۹۲ء میں سپین سے بے دخل کیے گئے مسلمانوں کے ذریعے یہ مقامی مسلم قبائل منظم ہوئے۔ اسلام عرب سوداگروں اور تاجروں کے ذریعے ۱۲۱۰ء میں یہاں آیا تھا۔ اسلام ہی نے ان جزائر کے درجنوں کثیرالتہذیبی اور لسانی دھڑوں کو ایک قوتِ اتفاق مہیا کی۔ ان کی آمد سے پہلے یہاں قبیلوں کے درمیان جنگیں معمول کا حصہ تھیں۔ فلپائن میں تین صدیوں کی حکومت کے دوران، ہسپانیوں نے مورولینڈ میں محض علامتی موجودگی سے زیادہ کبھی کچھ ظاہر نہیں کیا۔
مورو اور افغان حُریت پسندوں میں اور بھی مشابہتیں ہیں۔دونوں،افغان اور مورو،جنگجو فطرت ومیلان کے حامل ہیں۔ہر بالغ مورو، تلوارزیب ِتن کرتا اور جب بھی ممکن ہوتا، اس کے پاس آتشیں اسلحہ بھی ہوتا۔ اکیسویں صدی کے افغانوں کی طرح انیسویں صدی کے مورو،اکثر اوقات،قابض امریکی فوجیوں کے خلاف طاقت استعمال کرتے۔حتیٰ کہ مورو خودکش بمبار کا ابتدائی رُوپ ’جورامینٹاڈو‘ (Juramentado) بھی تھے۔ جو اپنا سر منڈوا دیتے اور سفید لباس پہن کر امریکی فوجیوں کے خلاف زندگی اورموت کی جنگ کے لیے پیش قدمی کرتے۔یوں مورو مسلمانوں کی طرف سے امریکی قابض فوجیوں کو نشانہ بنانے کی بے مثال صلاحیت توڑنے کے لیے امریکی فوج نے  کلاٹ ۴۵  پستول کااستعمال شروع کردیا۔
خلیج منیلا میں ہسپانوی بیڑے کوشکست دینے اوروہاں موجودہ محافظ فوج کوبلاتاخیرشکست دینے کے بعد،امریکا نے ۱۸۸۹ء کے ’معاہدہ پیرس‘ کے تحت فلپائن کواپنی عمل داری میںشامل کرلیا اور یہ فیصلہ کرتے وقت مورو مسلم قبائل سے مشاورت تک نہ کی گئی۔اسپینی حکومت اپنے زیرانتظام علاقوںمیں ہمیشہ محتاط رویہ اپنایا کرتی تھی، جب کہ موروں نے توپیرس کے متعلق کچھ سنابھی نہیں تھا۔
امریکی جنرل جان بیٹس،جو مرکزی جزائرمیں فلپائنی شورش کوختم کرنے پراپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا،اس نے مورو رہنماؤںکے ساتھ ایک معاہدے پردستخط کیے کہ ’’امریکا ان کے ’حقوق اوروقار‘ یا’مذہبی عقائدورسوم‘ میں مداخلت نہیں کرے گا‘‘۔ تاہم، جنرل جان بیٹس نے جب مناسب جانا،یہ معاہدہ کاغذکامحض ایک ٹکڑاثابت ہوا۔ دراصل واشنگٹن نے ان مورو قبائلی رہنماؤں کے ساتھ تعلقات کوماضی میں ’وحشی‘ مقامی قبائل کی حیثیت ہی سے دیکھا۔
جنرل بیٹس کامعاہدہ اس وقت تک قائم رہا،جب تک امریکی فوج اور سیاسی رہنماؤں کو اس کی ضرورت تھی۔ بلاشبہہ یہ معاہدہ ان جزائرمیںامن کی واحد امید تھی۔مورولینڈ میں ’محدود ابتدائی امریکی مقاصد‘___ ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر امریکی سی آئی اے/سپیشل فورسزکے حملے کے ’محدود مقاصد‘ کے مانند تھے۔ پھر یہ دونوں مہنگی جنگیں ثابت ہوئیں۔ افغانستان پر قبضہ جمانے کے بے سود مقاصد یہ تھے کہ ’جمہوریت کا فروغ اور ’دہشت گردی‘ کا خاتمہ۔ امریکی فوجی افسران اور سیاسی انتظامیہ مورو میں بھی یہ موہوم کھیل کھیلنا چاہتے تھے، لیکن ’بیٹس معاہدہ‘ کی منسوخی کا نتیجہ جنگ کی صورت میں برآمد ہوا۔

نقطہ ہاے نظر اورحکمت عملیاں

مورولینڈ میں امریکیوں نے اسی طرح جنگ لڑی، جس طرح۲۰۰۱ء سے ’دہشت گردی کے خلاف افغانستان میں جنگ‘۔ فتح کی حکمت عملی یہ اپنائی گئی کہ زیادہ تر دُورافتادہ علاقوں میں موجود نوجوان افسروں کے ذریعے جنگ کی دھاک بٹھائی جائے۔ اس طرح کچھ کو تو کامیابی نصیب ہوئی، جب کہ کہیں بُری طرح ناکام ہو گئے۔ تاہم، وہ دُورافتادہ ملک کے عوام پر ’جمہوریت‘ اور ’امریکی طرزِزندگی ‘مسلط کرنے میں ہرگز کامیاب نہ ہوسکے۔مورولینڈ میں امریکی راج مسلط کرنے کے لیے عدم ربط،عدم تسلسل اور مسلسل تبدیل ہوتی حکمت عملیاں سامنے آئیں۔
جب مورو قبائل نے امریکی فوجیوں پر وقفے وقفے سے چھاپامار کارروائیاں شروع کیں، تو ان کے خلاف ایک جابرانہ فوجی مہم کا آغاز کر دیا گیا۔اس قسم کے پہلے واقعے میں،جنر ل ادنا شیفے (بعدازاں آرمی چیف آف اسٹاف) نے مقامی موروقبائل کے راہ نماؤں کو دو ہفتے کی مہلت دی کہ حملہ آور چھاپہ ماروں کو ہمارے حوالے کر دیاجائے۔ وہ جنھیں ایک زمانے میں امریکیوں کے ہسپانوی پیش رو بھی فتح نہیں کر سکے تھے،انھوں نے انکار کر دیا۔
کرنل فرینک بالڈون نے فوج کشی کی قیادت کرتے ہوئے مورو قبائل پر فتح حاصل کرنے کے لیے ظالمانہ اور خوں ریز ہتھکنڈے( جو اکیسویں صدی کے افغانستان میں رُوبۂ عمل ہتھکنڈوں سے ملتے جلتے تھے) استعمال کیے۔ تاہم، کچھ نوجوان فوجی افسروں نے کرنل فرینک کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا۔بریگیڈیئر جنرل جان جے پرشنگ نے شکایت کی کہ ’’کرنل بالڈون چاہتا تھا کہ وہ پہلے مورو قبائل کو گولی مار دے اور بعد میں انھیں زیتون کی شاخ پیش کرے‘‘۔
اگلے ۱۳برس کے دوران ایک دوسرے کے بعد آنے والے امریکی کمانڈروں اور افسرشاہی کے درمیان چپقلش جاری رہی کہ کس طرح فتح حاصل کی جائے ___ یہ بالکل ویسی جنگ تھی، جس نے نائن الیون کے بعد امریکی فوج کو نقصان پہنچایا۔ایک طبقے کا خیال تھا کہ ’’محض جارحانہ اور ظالمانہ کارروائیاں ہی جنگجو مورو قبائل کو تسخیر کر سکتی ہیں۔ جس طرح جنرل جارج ڈیوس نے ۱۹۰۲ء میںلکھا کہ ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ طاقت، واحد حکمت عملی ہے جس کا مورو احترام کرتے ہیں‘‘۔
لیکن پرشنگ جیسی سوچ رکھنے والوں نے اختلاف کیا اور صبروتحمل کے ساتھ مورو رہنماؤں کے ساتھ معاملات طے کیے۔ قدرے مجہول فوجی اثر برقرار رکھا اور مخالفانہ خیالات کو بھی تسلیم کیا۔ فلپائن میں خدمات انجام دیتے ہوئے پرشنگ کے بیانات نے۲۰۱۶ء کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ایک بار توجہ حاصل کرلی، جب صدارتی اُمیدوار ڈونالڈٹرمپ نے دانستہ ایک جھوٹی کہانی دہرائی کہ کس طرح ’’اس وقت کے جان پرشنگ( پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکی افواج کے اعلیٰ کمانڈر) جیسے ’ایک ترش اور تنُدخو شخص‘نے ایک بار۵۰مسلمان’دہشت گرد ‘گرفتار کر لیے، ۵۰گولیوں کو سؤر کے خون میں تر کیا،ان میں سے ۴۹ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور ایک کو محض اس لیے چھوڑ دیا، تاکہ وہ یہ خونیں واقعہ اپنے باغی ساتھیوں کو سنا سکے‘‘۔ ٹرمپ کے مطابق اس کہانی کا نتیجہ یہ تھا کہ ’’آیندہ ۲۵برس تک وہاں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا ،ٹھیک ہے نا!‘‘ حالانکہ عملی طور پر اس کے باوجود فلپائن کی شورش مزید ایک عشرے تک جاری رہی اور پھر ان جزائر میں مسلم علیحدگی پسند بغاوت آج بھی موجود ہے۔
درحقیقت، پرشنگ عرف’بلیک جیک‘ مورولینڈ میں امریکی کمانڈر تھا۔ ا س نے مقامی بولی سیکھی۔ وہ دُورافتادہ دیہات کا سفر کرتا اور گھنٹوں سپاری چباتا رہتا( جس کے استعمال سے بدن میںچستی اور مستعدی پیدا ہوتی تھی) اور مقامی لوگوں کے مسائل سنتا۔ پرشنگ بظاہر نرم خُو تھا، لیکن  بعض اوقات وہ کہیں زیادہ خباثت کا بھی مظاہرہ کرتا۔دراصل اس کی جبلت یہی تھی کہ سب سے پہلے بات چیت کی جائے اور آخری چارۂ کار کے طور پر لڑائی کا راستہ اپنایا جائے۔
جب پرشنگ کے بعد جنرل لیونرڈ ووڈ، مورولینڈ میں تعینات ہوا توحکمت عملی تبدیل ہوگئی۔ اپاچی جنگوں میں گرنیمو (Geronimo) مہم کے ایک کہنہ مشق افسر اور بعدازاں مستقبل میں ایک اور امریکی چیف آف سٹاف (میسوری میں ایک امریکی فوجی اڈا اس کے نام پر ہے) نے موروں کے خلاف اپنی مہمات میںScorched Earth Tactics (ایسی فوجی کارروائیاں جن کے ذریعے دشمن کے لیے مفید ہر چیز تباہ کر دی جاتی ہے) استعمال کیے اور کہا کہ ’’انھیں اس طرح صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے جیسا کہ امریکا کے ریڈ انڈینز کوصفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا‘‘۔اس نے یہ جنگ جیت کر ہزاروں مقامیوں کو ذبح کر دیا، لیکن مورو مزاحمت کو ختم نہ کر سکا۔
اس عمل کے دوران، اس نے بیٹس نامی معاہدہ بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، اور مغربی طرز کا فوجداری انصاف کا نظام نافذ کر دیا۔ اس نے امریکی طرز کی سڑکوں، اسکولوںکی تعمیر کے علاوہ انفراسٹرکچر کی بہتری پر رقوم خرچ کیں___ موروں پر نئے ٹیکس عائد کر دیے، جن کو قبائلی رہنماؤں نے اپنے سماجی، سیاسی اور مذہبی رسوم ورواج پر حملہ تصور کیا۔
اس کی کارروائیوں کی مثال امریکی اتحادی فوجوں کی زیرسرپرستی اس انجمن کے مانند تھی، جس نے عراق پر ۲۰۰۳ء میںامریکی حملے کے بعد حکومت کی۔ اس غیرمنتخب ادارے میں بذاتِ خود جنرل لیونراڈ ووڈ (جس کا ووٹ دو دفعہ گنا جاتا تھا)، دو امریکی افسران، اور دو امریکی سیاسی حکام شامل تھے۔ وڈ نے نہایت تکبر کے عالم میں فلپائن کے امریکی گورنر،مستقبل کے صدر ولیم ہوارڈٹافٹ کے نام لکھا:’’اس وقت یہی ضروری ہے کہ موروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے اور قانون پر سختی سے عمل کیا جائے‘‘۔
لیونراڈووڈ کے ایک ماتحت کمانڈر میجر رابرٹ بلارڈ (پہلی جنگ عظیم میں پہلی انفنٹری ڈویژن کے کمانڈر) نے لکھا کہ ’’یہاں کے عوام کے متعلق ووڈ کی بہت کم معلومات ہیں ___ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ معلومات حاصل کیے بغیر ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتا ہے‘‘۔
اس کی مرضی اور  ہتھکنڈوں کا نمونہ یہ تھا کہ محصور مورو، دیہات پر توپ خانے سے بمباری کی گئی، بے شمار خواتین اور بچوں کو ہلاک کر دیا اور پھر پیادہ فوج کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ اس یلغار کے نتیجے میں تقریباً کوئی بھی قیدی نہیں لے جایا گیا، یعنی سب کو ختم کر دیا گیا۔ یوں بے شمار جانی نقصان ہوا۔ اسی طرح جولو کے جزیرے پر ایک ایسی ہی مہم کے نتیجے میں ۵ہزار مورو (جزیرے کی آبادی کا ۲فی صد) کو ہلاک کر دیا۔ جب کبھی اخبارات کو اس قتل عام کے متعلق بھنک پڑی،  ووڈ نے حقائق کو مسخ کرنے یا جھوٹی کہانیاں سنانے سے کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، تاکہ    اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے بریت حاصل کی جائے۔تاہم،جب اس کے ذاتی محافظ نے منہ کھولا تواسے مجبوراً اپنی ظالمانہ کارروائیوںکا اعتراف کرنا پڑا۔
جنگ ویت نام کے دور میں بدنام زمانہ امریکی بیان کی تمہید میں یہ لکھا ہوا ہے:’’یہ ضروری ہو گیا تھا کہ دیہات کو بچانے کے بجاے انھیں تباہ کر دیا جائے‘‘۔ اس سے قبل جنرل ووڈ نے کہا: ’’اگرچہ یہ اقدامات بہت زیادہ سخت معلوم ہوتے ہیں،لیکن یہ نرم ترین اقدامات ہیں جن پر عمل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس کی کارروائیاں بھی موروں کو تسخیر نہ کرسکیں۔آخرکار اس نے اپنی کمان جنرل تاسکر بلس کے سپرد کی ، تب بھی بغاوت اُبل رہی تھی۔
اس کا جانشین ،مستقبل کا ایک اور امریکی آرمی چیف بلس (جس کے نام پر ایک امریکی اڈے کا نام رکھا گیا ہے) قدرے معتدل مزاج انسان تھا، لکھتا ہے: ’’حکام یہ فراموش کر چکے ہیں کہ انتہائی مشکل وقت وہ ہوتا ہے، جب قتل عام مکمل کیا جاچکا ہوتا ہے‘‘۔ اس نے وسیع پیمانے پر عقوبتی فوجی مہمات روک دیں اور محتاط رہتے ہوئے یہ امر تسلیم کر لیا کہ ’’مورولینڈ میں فی الواقع تشدد اور غارت گری کا ارتکاب کیا گیا ہے‘‘۔ بہرحال تقریباً اکثر حاضر ملازمت امریکی جرنیلوں کے مانند، جو ’نسلی جنگ‘ اختیار کرنے کی جبلت رکھتے تھے، اس نے بھی کہا کہ ’’امریکی فوجی موجودگی لامحدود عرصے کے لیے لازمی ہوگی‘‘۔ جنرل بلس کی پیش گوئی تھی: ’’حکومت کی طاقت، تمام گمراہ کن بیانیے اور لفاظی کو ختم کر دے گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو گلے سے پکڑ کر اکثر آبادی کو اپنا مطیع رکھنا ہو گا، باوجود یہ کہ آبادی کے محض چھوٹے سے حصے پر اس کی حکومت ہو‘‘۔

بڈڈاجو کا قتل عام اور’روشن ضمیر‘افسرشاہی

مورو لینڈ میں سڑکوں کی تعمیر،تعلیم کی فراہمی،شہری ڈھانچے کی بہتری کے بھیس میں امریکی فوجی راج قوت اور ظلم کے بل پر قائم ہو ہی گیا۔ ۱۹۰۵ء کے اواخر میں ،میجرہف سکاٹ، جو اس وقت جولو میں کمانڈر ( مستقبل کا ایک اور امریکی آرمی چیف) تھا، اسے یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ ’’ایک ہزار تک مورو خاندانوں نے ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کے لیے جولو جزیرے میں واقع بڈڈاجو کے عظیم الجثہ خوابیدہ آتش فشاں کے دہانے کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کر لیا ہے‘‘۔ میجرہف کو اس احتجاجی مظاہرے پر حملہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی تو اس نے مذاکرات کو ترجیح دی، جیساکہ اس نے لکھا:’’ یہ واضح تھا کہ بہت سے قبائلی ہماری کارروائی سے پہلے ہی مر جاتے، لیکن  وہ کس مقصد کے لیے مرتے؟کیا اس لیے کہ قبائلیوں سے ایک ہزار سے بھی کم ڈالر محصول اکٹھا کیا جائے؟یاد رہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر زندگی بہت ہی مشکل ہے اور زیادہ تر مورو اس وقت نہایت پُرامن طور پرنیچے آ جاتے جب ان کی فصلیں پک جاتیں‘‘۔
پھر ۱۹۰۶ء میں ہف سکاٹ چھٹی پر گھر چلاگیا اور اس کے غصیلے جنگجو اور دوسرے درجے کےکمانڈر کیپٹن جیمز ریوز نے، جسے سبک دوش صوبائی کمانڈر لیونراڈ ووڈ کی بہت زیادہ حمایت حاصل تھی، جولو کے موروں کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ موروں کی ہلکی سی مزاحمت کو بھی امریکی راج کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔
جیمز ریوز نے خوں ریز حملے کے متعلق خطرناک اطلاعات روانہ کیں۔لیونراڈ ووڈ نے مورولینڈ میں اپنے فرائض منصبی کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے آخرکار یہ فیصلہ کیا کہ ’’اب بڈڈا جو کے موروں کا قلع قمع کر دینا ہو گا‘‘۔پھراس نے حملے کے جواز کے لیے مزید جھوٹی اطلاعات روانہ کیں، جب کہ وزیرجنگ ٹافٹ کے ایک حکم کو نظرانداز کردیا، جس میں تحریری اور واضح طور پر پیشگی منظوری کے بغیر وسیع پیمانے پر فوجی کارروائیوں سے منع کیا گیا تھا۔
بہت سے مورو آتش فشاں کے دہانے سے واپس لوٹ آئے تھے۔۵ مارچ ۱۹۰۶ء کو ووڈ کی ایک بڑی باقاعدہ فوج نے پہاڑ کا محاصرہ کر لیا اور تین اطراف سے فوری طور پر حملہ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ موروقبائل نے جو زیادہ تر تلواروں اور پتھروں سے مسلح تھے، شدید مزاحمت کی، لیکن ان کی یہ مزاحمت انھی کے قتل عام پر منتج ہوئی۔ کیونکہ ووڈ نے بڈڈاجوکے دہانے پر مشین گنیں،  توپ خانہ، جب کہ سیکڑوں بندوق بردار تعینات کر دیے اورمو روں پر بلاتفریق گولیوں کی بوچھاڑ کردی، جس کے نتیجے میں غالباً ایک ہزار مورو مسلمان ہلاک ہو گئے۔جب دھواں صاف ہوا،  چھے کے سوا تمام مور،تقریباً۹۹فی صد ہلاک ہو چکے تھے۔لیونراڈ ووڈ موروں کی لاشیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پانچ لاشوں کواسی مقام پر پانچ فٹ گہرے گڑھے میں دبا دیا اور یوں اپنی اس ’فتح‘ پر  فخر محسوس کرتے ہوئے اس نے اطلاع دی: ’’تمام مزاحمت کار ہلاک ہوگئے ہیں‘‘۔ اس کے کچھ فوجیوں نے فخریہ انداز میں سیکڑوں خواتین اور بچوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر تصویریںبنوائیں کہ جیسے وہ جانوروں کے شکار کے بعد بہت بڑی ٹرافی جیت کر لائے ہوں۔ یہ بدنامِ زمانہ تصاویر بیسویں صدی کے اوائل میں تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ اس پر سامراج مخالف میڈیا غصّے سے پاگل ہو گیا اور ووڈ کو انتہائی بدنامی کا سامنا تھا۔
اس سے پہلے کہ اس بدنام زمانہ واقعے کا تذکرہ اخبارات میں آتا،امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے ووڈ کوایک مبارک باد کا خط بھیجا: ’’ہتھیاروں کی نمایش کا شان دار مظاہرہ کرکے تم اور سپاہیوں نے امریکی جھنڈے کا وقار بلند رکھا ہے، شاباش‘‘۔
دانش وَر،مارک ٹوین نے یہ کہا: ’’قدیم قاتلوں کی روایت کے مطابق ایک دوسرے پر دھری ہڈیوں پر مشتمل ڈھیر پر جھنڈا بلند کر دینا چاہیے‘‘۔ وڈو نے لکھا:’’ہم نے انھیں مکمل طور پرختم کر دیا اور اپنی مُردہ ماں کے لیے روتا ہوا ایک بچہ بھی نہیں زندہ چھوڑا‘‘۔ ڈبلیو ای بی ڈیو بوئس نے پہاڑ کے دہانے کی تصویرکو ’ایک انتہائی روشن علامت قرار دیا، اور لکھا: ’’اسے کمرہ ٔ جماعت کی دیوار پر آویزاں کیا جائے تاکہ طلبہ کو علم ہو سکے کہ جنگیں، خاص طور پر حقیقی فتح کی جنگیں‘کیا ہوتی ہیں؟‘‘
۱۹۰۶ء کے بڈڈا جو قتلِ عام کا حقیقی سانحہ، موروجنگ کا ایک ایسا باب تھا کہ جس طرح افغانستان کے خالی دیہات، جہاں قدم قدم پر بارودی سرنگوں کا بچھایا گیا جال تھا، جس کا ۲۰۱۱ء-۲۰۱۲ء میں میرے اپنے [امریکی] فوجیوں نے افغانستان میں ارتکاب کیا۔ جس کا بدنامِ زمانہ نتیجہ وہ تباہی تھی جب طالبان نے ۲۰۰۹ء میں واقع کیٹنگ نامی متحارب چوکی کو تقریباً روند دیا تھا۔
یہ بدنامِ زمانہ واقعہ ایک ماہ تک امریکی اخباروں کی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا۔ مثال کے طو رپر۱۵مارچ ۱۹۰۶ء کو روزنامہ نیشن کے اداریے میں سوال اُٹھایا گیا: ’’کیا موروں کے متعلق کوئی مخصوص حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے؟___ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بے مقصد جنگی مشق کی جارہی ہے، جس کے دوران بعض اوقات خوںریز کامیابیاں بھی حاصل ہو جاتی ہیں___ لیکن جنگ مسلسل جاری رہتی ہے اور کوئی یہ معلوم بھی نہیں کر سکتا کہ ہم کوئی کامیابی حاصل کر بھی رہے ہیں؟‘‘یہ اقتباس جنوبی فلپائن میں بے سود اور بے اُمید جمود کو مختصر طور پر بیان کرتا ہے۔تاہم،اس وقت (اور جس طرح حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے) انکشاف کیا ہے: ’’امریکی جرنیلوں اور سینیر امریکی حکام، جنگوں کے جمود کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہیں‘‘۔

مورولینڈمیں ’ترقی‘ کاسراب

جیسا کہ ماضی میں ویت نام اور حال میںافغانستان میں ،وہ امریکی جرنیل، جنھوں نے موروں کے خلاف جنگ لڑی، ہمیشہ سے عوام کویہی سمجھا یا تھا کہ ’’کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں اور  یہ کہ فتح اب حاصل ہوا ہی چاہتی ہے‘‘۔ اب مورولینڈ کی طرح افغانستان کی نہ ختم ہونے والی جنگ نے سیاست دانوں اور یکساں طور پر طالع آزما جرنیلوں کی حسرتوں کو نگل لیا ہے۔ جس کی ایک وجہ ماضی کی طرح یہ رہی ہے کہ تنازع بڑی حد تک عوامی نگاہ سے ماورا نمٹانا چاہا۔    
اگر فلپائن کے جزائر میں وسیع پیمانے پر یورش دب جاتی ہے، تو اکثر امریکی، وطن سے ہزاروں کلومیٹر دُور جنگ کے تماشے میں دل چسپی کھو دیں گے۔موروں کے خلاف جنگ میں شامل جرنیلوں (’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی طرح) کو زیادہ تر نظرانداز کیا گیا۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ امریکا میں بہت سے لوگوں کو یہ احساس تک نہیں کہ فلپائن میں کوئی جنگ جاری ہے۔
ایک کہنہ مشق جرنیل نے وہاں سے اپنے گھرو اپسی پر استقبالیہ دوستوں کو یوں مخاطب کیا: ’’خوشی بھرے ہاتھوں کے بجاے لوگ خاکی وردی میں ملبوس مجھے یوں گھور رہے ہیں کہ جیسے چڑیاگھر سے بچ کر واپس آیا ہوں‘‘۔جنگ میں نسبتاً کم امریکی جانی نقصان کی وجہ عوام میں بے حسی تھی۔ ۱۹۰۹ء اور۱۹۱۰ء کے برسوںمیں باقاعدہ امریکی فوج کے محض آٹھ فوجی ہلاک ہوئے، جب کہ اسی طرح افغانستان میں۲۰۱۶ء-۲۰۱۷ء کے دوران محض ۳۲فوجی ہلاک ہوئے۔ضرورت اس بات کی تھی کہ مورولینڈکا دورہ کیا جاتا، جس طرح آج افغانستان کا دورہ کر لیا جاتا ہے۔ لیکن مورولینڈ اس قابل نہیں کہ سنجیدہ قومی توجہ یا جنگ کی وسیع پیمانے پر مخالفانہ توجہ حاصل کر سکے۔
حال ہی میں ایسا انکشاف واشنگٹن پوسٹ کے وہائٹ لاک کی طرف سے ہوا کہ جب وہ افغانستان کے زمینی حقائق کا مشاہدہ کرکے واپس آیا۔مستقبل کے پانچ آرمی چیف اپنے سیاسی آقاؤں اور عوام کے ساتھ مسلسل سفید جھوٹ بولتے رہے۔ وہ بدحواسیوں کے مرتکب ہوئے، جب کہ انھوں نے عوام کو ’کامیابی‘ کے سبزباغ دکھائے۔ ادناشیفے،لیونراڈ ووڈ،ہف سکاٹ،تاسکر بلس اور جان پرشنگ جنھیں امریکی فوج میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل رہی، قوم کو مسلسل یقین دہانی کراتے رہے کہ ’’موروں کے خلاف جنگ میں فتح اب ہمارے ہاتھوں کی گرفت میں ہے‘‘۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو سکے گا۔موروں کے خلاف امریکی جنگ کے خاتمے کے ۱۰۶ برس بعد بھی، واشنگٹن پوسٹ نے یہ بتایا ہے کہ ’’ہمارے موجودہ دور میں بھی کس طرح ایک کے بعد دوسرے کمانڈروں اور امریکی حکام نے ایک نہایت طویل جنگ میں کامیابی کے حوالے سے شہریوں کے سامنے مسلسل جھوٹ بکا۔ اس لحاظ سے اس دور کے مختلف جرنیلوں، مثلاً ڈیوڈپیٹریاس، سٹینلے میک کرسٹل، مارک ملے وغیرہ نے بھی لیونارڈووڈ، ٹاسکر بلس کی طرح پریشان کن خبریں تخلیق کیں‘‘۔
اکتوبر ۱۹۰۴ءمیں،لیونراڈ ووڈ نے لکھا تھا کہ’’ مورو کا معاملہ بخوبی طے کر دیا گیا ہے‘‘۔ بعدازاں جون ۱۹۰۶ءمیں،ایک باغی رہنما راتوعلی کو گرفتار اور ہلاک کر دیا گیا۔ تب کولیرز نامی جریدے نے’راتو علی کا انجام:موروجنگ کی آخری جنگ‘ کے عنوان سے ایک ہوش ربا مضمون شائع کیا۔
بڈڈاجوکے بعد، ٹاسکربلس نے ووڈ کی فوجی کارروائیوں کی رفتار مدھم کر دی، مورولینڈ کا تفصیلی دورہ کیا اور کہا تھا:’’ ’نسل درنسل جنگ‘ کے مانند ایک ایسی ممکنہ مہم ، جو صوبے کو مکمل طور پرمطیع کرنے کے لیے ضروری تھی‘‘۔۱۹۰۶ء میں اس نے موروں کو ’وحشی‘اور’مسلمانوں‘کے لقب سے پکارتے ہوئے کہا کہ ’’انھیں محض چند برسوں میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور امریکی عوام کو فوری نتائج کی توقع نہیں کرنی چاہیے، کہ جس طرح اپنا مقصد حاصل کرنے کی خاطر ایک صدی یا زیادہ مدت درکار ہوتی ہے‘‘۔ بلاشبہہ،مور،آج بھی عرصۂ درازسے منیلا میں مقیم امریکی اور ان کے حلیف فلپائنی فوجیوں کے خلاف، ایک حقیقی’نسل درنسل جنگ‘ لڑرہے ہیں۔

تب اوراب

۱۹۱۳ء میں جولو میں امریکی سربراہی میں لڑی گئی آخری بڑی جنگ،بڈڈاجو کی تکرار ثابت ہوئی،جب سیکڑوں مور، بڈباگسک کے ایک اور دہانے کے اُوپر چڑھ گئے۔ پرشنگ، جس نے ووڈ کے ان ہتھکنڈوں اور حکمت عملیوں پر تنقید کی تھی، ایک دفعہ پھراس نے ایک انتہائی غیرانسانی اور بے رحم فوجی کارروائی انجام دینے کے لیے پہلے بات چیت کا جال بچھایا، اسی دوران ناکہ بندی کا اہتمام کیا۔ پھر آخر میں اس نے پہاڑ کی چوٹی پر فوجی یلغار کر کے تقریباً ۲۰۰ تا ۳۰۰ مرد،خواتین اوربچے ہلاک کر دیے۔ پرشنگ کی فوج کی بھاری اکثریت فلپائنی تھی، جس کی قیادت امریکی افسران کے ہاتھ میں تھی۔ یہی حکمت عملی افغانستان میں مقامی فوجیوں کے ذریعے اپنائی گئی،  جس کے باعث ان ناکام جنگوں میں دونوں جگہ،امریکی فوجیوں کو بہت کم نقصان پہنچا۔
اگرچہ موجودہ فوجی افسران اور بعد کے مؤرخین کا دعویٰ تھا کہ بڈباگسک کی لڑائی نے مورومزاحمت کی کمر توڑ دی، لیکن ایساکم ہی ہوا۔ اس کے بعد فلپائنی فوجیوں ہی کو تقریباً تمام اموات کا سامنا کرنا پڑا،جب کہ امریکی فوجی آہستہ آہستہ میدان جنگ سے غائب ہوکر پس پردہ تماشائی بن گئے۔
مثال کے طورپر جب کل جانی نقصان کااندازہ لگایاگیا، تو۱۹۱۳ءکاسال موروجنگ کا حقیقی طورپرخوں ریزترین برس تھا کہ جس طرح۲۰۱۸ء، جنگ افغانستان کاخوںریزترین برس تھا۔ ۱۹۱۳ء کے اواخرمیں،پرشنگ نے صوبے کے مستقبل کے متعلق غیریقینیت کاخلاصہ یوں پیش کیا: ’’جوچند کامیابیاں حاصل کیں اور بزورِ قوت ایک حکومت بھی قائم کرلی مگر اس کو کیسے چلایا جائے، اس کاابھی تک تعین نہیں کیا جاسکا‘‘۔ اور سچی بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات،مورواور افغانستان کہیں بھی ہماری کامیابی کا تعین نہیںکیاجاسکا۔
منیلامیں فلپائنی حکومت، باغی موروں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔آج بھی، دوتنظیمیں’اسلامی ابوسیاف‘ اور’علیحدگی پسندمورواسلامک لبریشن فرنٹ‘ ___وہاںمرکزی حکومت کے تسلط کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد،امریکی فوج نے ایک دفعہ پھر مورولینڈ میںمداخلت کی اور فلپائنی فوجی یونٹس کی مشاورت اورمعاونت کے لیے سپیشل فوجی دستے بھجوائے۔
۲۰۰۳ء میں جب امریکی افواج جولوکے مرکزی ہوائی اڈے پراتریں،تو ان کا استقبال ایک بینرکی اس تحریر سے کیا گیا تھا:’’ہم تاریخ کو دُہرانے کی اجازت نہیں دیں گے!یہاں سے واپس چلے جاؤ‘‘۔جولوکے ریڈیواسٹیشن نے روایتی منظوم قصّے نشرکیے، اورایک گلوکارنے یہ گیت گایا،’’ہم نے سناکہ امریکی یہاں آرہے ہیں اورہم تیارہورہے ہیں۔ہم اپنی تلواریں تیزکررہے ہیں تاکہ جب وہ آئیں،تو ہم انھیںذبح کردیں‘‘۔
مورو مسلمانوں کے خلاف امریکی مہم،خود امریکا کے لیے بدقسمتی کاموجب ثابت ہوئی ہے۔ایک صدی سے زیادہ عرصے بعد ا س کے فوجی وہیں واپس آ گئے، جہاں سے انھوں نے آغاز کیا تھا،اور ایک دفعہ پھر غضب ناک آزاد مقامی افراد کی طرف سے ان کے خلاف ناراضی کا اظہار ہورہا ہے (CounterPunch ، پٹرولیا، کیلے فورنیا، امریکا، ۱۹دسمبر ۲۰۱۹ء، ترجمہ: ادارہ)۔

ارشادِ الٰہی ہے:
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۝۳۴  ( بنی اسرائیل۱۷:۳۴)  اور وعدہ کو پورا کرو، بے شک وعدہ کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔
انسان اللہ ربّ العزت سے عہد کرتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے سے بھی قول و قرار کرتا ہے،یعنی ایفاے عہد کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے ہے۔ بلاشبہہ دینِ برحق دونوں حقوق کی اد ایگی سے عبارت ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے اس آیت میں جس عہد یا وعدہ کے پورا کرنے کا حکم دیا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے۔ قرآن کریم میں دونوں عہد کے پورا کرنے کی بار بار تاکید بھی ہے ۔ مذکورہ بالا آیت سے نامور سیرت نگار مولانا سید سلیمان ندویؒ کا اخذ کردہ یہ نکتہ لائقِ توجہ ہے کہ ’’ جس کی باز پرس خدا فرمائے اس کی اہمیت کتنی بڑی ہوگی‘‘(سیرۃ النبیؐ، دارالمصنّفین، شبلی ا کیڈمی، اعظم گڑھ،ج۶،ص ۳۹۵)۔
 یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قرآن میں وعدہ کے لیے مختلف الفاظ (عہد، میثاق، وعد ، موعد) استعمال ہوئے ہیں، لیکن ان میں سب سے جامع لفظ ’ عہد ‘ ہے، جس میں دیگر الفاظ کے مفہوم شامل ہیں۔ قر آ ن کریم میں عہد یا وعدہ کو پورا کرنے کی جو ہدایت دی گئی ہے اس میں وہ عہد شامل ہے جو فطری طور پر اللہ اور انسان کے مابین قرار پاتا ہے۔ وہ عہد بھی شامل ہے، جو اللہ بندے سے لیتا ہے۔ وہ وعدہ بھی جو بندہ اللہ سے کرتا ہے اور وہ قول و قرار بھی اس میں آتے ہیں، جو اللہ کے بندوں کے مابین ہوتے ہیں۔ قرآن میں یہ سب وعدے یاد دلائے گئے ہیں۔
l وعدہ کا جامع مفہوم: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۱۵۲ۙ (الانعام۶:۱۵۲) ’’ اور اللہ کا وعدہ پورا کرو، اس نے اس کی تم سب کو نصیحت کی ہے تاکہ یاد کرلو‘‘۔ صاحبِ تفہیم القرآن اس آیت کی تشریح میں تحریر فرماتے ہے: ’’’اللہ کے عہد ‘ سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے،اور وہ بھی جو انسان اور خدا اور انسان اور انسان کے درمیان ا سی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے‘‘ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۶۰۰ ) ۔
ان سب سے یہ واضح ہوا کہ قرآن کی رُو سے عہد یا وعدہ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ عام طور پر لوگ عہد سے مراد صرف وہ قول و قرارلیتے ہیں جو معاملات طے کرتے ، بالخصوص مالی معاملہ کے وقت کیا جاتا ہے، جب کہ وسیع مفہوم میں اس کا اطلاق مذہب،اخلاق، معاشرت، معیشت اور عام معاملات کی ان تمام صورتوں پر ہوتا ہے جن کا پابند رہنا شرعی،اخلاقی اور قانونی اعتبار سے فرض کے برابر ہے۔
اللہ ربّ العزت سے کیے گئے وعدہ کی اہمیت اس سے بخوبی واضح ہوتی ہے کہ قرآن وعدہ کرنے والوں کو اس سے متنبہ کرتا ہے کہ اسے بہرحال پورا کرنا ہے ،ورنہ اس سے متعلق بازپُرس سے بچ نہیں سکتے۔ منافقین کو دین کی خاطر قربانی کے لیے ان کے وعدے کو یاد دلاتے ہوئے قرآن انھیں اس طور پر متنبہ کرتا ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَلَقَدْ كَانُوْا عَاہَدُوا اللہَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ۝۰ۭ وَكَانَ عَہْدُ اللہِ مَسْـُٔــوْلًا۝۱۵ (الاحزاب۳۳:۵ا) اور اس سے قبل انھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ[مخالفین سے جنگ میں] پیٹھ نہیں پھیریں گے اور اللہ سے کیے گئے عہد کے بارے میں باز پرس تو ہو نی ہی تھی۔
قرآن میں اُس عہد یا وعدے کو پورا کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے جو انسان اللہ کا نام لے کر کر تا ہے اور اس پر قسمیں کھا کر اسے پختہ کرتا ہے۔ ایسے عہد کو نہ توڑنے کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے ۔ ارشادِ الٰہی ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۹۱ (النحل ۱۶: ۹۱) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو، جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بنا چکے ہو۔اللہ تمھارے سب اعمال سے با خبر ہے۔
لو گ آپس میں ایک دوسرے سے جو وعدے ( خاص طور سے مالی معاملات سے متعلق ) کر تے ہیں ان کی پابندی کی ہدایات کے ضمن میں عام طور پر اس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۝۰ۥۭ ( المائدۃ ۵:۱) ’’اے اہلِ ایمان قول و قرار پورا کرو‘‘۔ بعض مفسرین نے ’ عقود‘ میں روز مرّہ زندگی سے متعلق شریعت کے تمام اصول و ضوابط کو شامل کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ شریعتِ الٰہی کا ہر ضابطہ ( ا للہ پر ایمان لانے کے بعد) ایک طرح سے صاحبِ ایمان کا اللہ سے معاہدہ ہوتا ہے اس کو پورا کرنے اور اس کو کسی بھی حالت میں نہ توڑنے کا۔ اور آیت میں دراصل اسی قول و قرار کی پابندی کی ہدایت دی گئی ہے جو شریعت کو قبول کرنے والا اللہ سے کرتا ہے ( تفہیم القرآن، ج۱، ص ۴۳۷ )۔
 ایفاے وعدہ اہلِ ایمان کی شناخت ہے۔ اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنینِ صادقین یا اپنے مخلص بندوں کی امتیازی خصوصیات میں یہ بیان کیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو پورا کرنے والے ہیں:
الَّذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ۝۲۰ۙ وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ ( الرعد۱۳:۲۰-۲۱) اور وہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑتے نہیں۔ اور ان کی یہ روش ہوتی ہے کہ اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انھیں جوڑتے ہیں۔
ان آیات کے حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ نے یہ واضح کیا ہے کہ پہلے عہد کا تعلق اللہ سے کیے گئے وعدے سے ہے، جب کہ دوسرے کا ان وعدوں سے جو اہلِ قرابت آپس میں فطری طور پر کرتے ہیں ( سیرۃ النبیؐ،ج۶،ص  ۲۹۸)۔ قرآن میں اللہ کے مومن بندوں کی شان یہ بتائی گئی ہے: وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰ۚ(البقرہ۲:۱۷۷) ’’اور جب وہ عہد کریں تو اسے پورا کریں‘‘۔ اسی طرح اللہ کی بندگی بجا لانے میں سر گرم رہنے والوں کا ایک امتیاز یہ بھی بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝۳۲(المعارج ۷۰:۳۲) ’’اور جو اپنی امانتوں کی حفاظت کرنے والے اور اپنے عہد کا پاس و لحاظ کرنے والے ہیں‘‘۔ مزید برآں مومنین صادقین کا ایک وصفِ خاص یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو سچ کر دکھاتے ہیں، جیسا کہ یہ آیت بتا رہی ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۝۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ (الاحزاب۳۳:۳ ۲) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایاہے۔ ان میںکوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔
l وعدہ خلافی ، جھوٹ اور منافقت:یہاں یہ پیشِ نظر رہے کہ قرآن و حدیث دونوں میں اہلِ ایمان کے مطلوبہ اوصاف میں ایفاے وعدہ اور امانت داری دونوں خوبیاں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں میں بہت گہرا تعلق ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ اس کے برخلاف عہد شکنی کرنے والوں کو مفسد قرار دیتے ہوئے ان کے انجامِ بد سے اس طور پر انھیں متنبہ کیا گیا ہے:       
وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِہٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۙاُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ۝۲۵ (الرعد ۱۳:۲۵) جو اللہ سے کیے گئے عہد کو اسے مضبوط باند ھ دینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز کواللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں، ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے [آخرت میں] بدترین گھر ہے۔
 ان آیات سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ اللہ سے کیے گئے عہد کو توڑنا انتہائی سنگین جرم ہے اور بار بار اس جرم کو کرنے والے خیر کی قبولیت کی صلاحیت سے محروم اور رحمتِ الٰہی سے   دُور کردیے جاتے ہیں اور آخرت میں ان کا جو بدترین انجام ہو گا وہ علیحدہ ہے۔
قرآن سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ وعدہ خلافی و کذب دونوں برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ دونوں کا نفاق سے بہت گہرا تعلق ہے۔ دونوں کو نفاق کی و ا ضح علامت قرار دیا گیا ہے۔  قرآن میں منافقین کو کاذبین و مفسدین کہا گیا ہے (البقرۃ ۲:۱۱-۱۲، ۲۷، الرعد ۱۳:۲۵، المنافقون ۶۳:۱) اور اس سے بھی باخبر کیا گیا ہے کہ کاذب و عہد شکن کا وہی انجام ہوتا ہے جو منافقین کے لیے مقدر ہے (النساء ۴: ۱۴۰،۱۴۵)۔ مزید یہ کہ قرآن یہ بھی بتاتاہے کہ عہد شکنی و وعدہ خلافی سے دل میں نفاق کی پرورش ہوتی ہے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کے ذکر میں جنھوں نے اللہ سے یہ عہد وپیمان کیا تھا کہ اگر اللہ کے فضل و کرم سے انھیں مال نصیب ہوا تو وہ صدقہ و خیرات کریں گے، لیکن مال ملنے کے بعد وہ اس وعدہ کو بھول گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:   
فَاَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِہِمْ اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝۷۷ (التوبۃ۹:۷۷) نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جوبولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھادیا جو اس کے حضور ان کی پیشی تک پیچھا نہ چھوڑے گا ۔
نفاق کی علامات کے بارے میں یہ حدیث بہت مشہور ہے:
 عَنْ اَبِیْ   ھُریْرَۃَ  انَّ رَسُوْلَ اللہَ   قَالَ : آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ، وَاِذَا اوئْتُمِنَ خَانَ (بخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس کا قلب نفاق کا مسکن بن جائے اس کا انجام بڑا تباہ کن ہوگا۔
دیگر متعدد احادیث میں بھی وعدہ پورا کرنے کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور وعدہ خلافی کو سخت گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت انسؓ کی یہ روایت بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا ہو اور یہ نہ فرمایا ہو: لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ  ، ’’اس کا دین دین نہیں جسے عہد کا پاس و لحاظ نہ ہو‘‘ (احمد ابن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، الکتب العلمیہ، بیروت،۱۹۹۹ء،ج۶،ص ۴۷۱)۔
ایک حدیث کے مطابق ایفاے وعدہ ان خصوصی اوصاف میں شامل ہے جن سے مزین ہونے والوں کو جنت نصیب ہو نے کی ضمانت دی گئی ہے۔ حضرت عبادہ ابن صامتؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے چھے چیزوں (کے پورا کرنے) کا ذمہ لے لو تو میں تمھارے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں: اضْمَنُوْا لِیْ سِتًّا مِنْ اَنْفُسِکُمْ  اَضْمَنْ لَکُمُ الْجَنَّۃ (مسنداحمد، سندالانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت، حدیث:۲۲۱۶۶) ان چھے باتوں میں سے اولین دو کا تعلق سچ بولنے اور وعدہ پورا کرنے سے ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص اللہ کا نام لے کر عہد کرے اور پھر اسے توڑ دے تو وہ ایک حدیثِ قدسی میں مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان تین افراد میں شامل ہوگا جن کے خلاف روزِ قیامت خود اللہ تعالیٰ خصم (فریقِ مقدّمہ) بنیں گے۔ حدیث کا متعلقہ حصہ ملاحظہ ہو:
 عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  عَنِ النَّبِیِّ  قَالَ قَالَ اللہُ  عَزَّ وَ جَلَّ ثَلَاثَۃٌ اَنَـا خَصْمُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، رَجَلٌ اَعْطیٰ  بِیْ   ثُمَّ غَدَرَ (بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حُرّاً) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا[یعنی ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا] ۔ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑدیا۔
حقیقت یہ کہ ایفاے عہد کے باب میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارکہ مثالی رہا ہے ۔ آپؐ پوری زندگی سچا ئی، ایفاے عہد اور امانت داری کا مظاہرہ بلاکسی امتیاز سب کے ساتھ کرتے رہے ۔ غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم فوجیوں کی تعداد میں کمی گوارا کرلی، لیکن کفّارِ مکہ(جنھوں نے دوصحابیوں کو پکڑنے کے بعد اس شرط پر رہا کیا تھا کہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد جنگ میں شریک نہ ہوں گے) سے کیے گئے وعدے کو توڑنا گوارا نہ کیا۔ ان دونوں صحابہ ؓ کو غزوہ میں شرکت کی اجازت نہ دی اور یہ کہہ کر انھیں واپس بھیج دیا کہ ہم کو صرف اللہ کی مدد درکا رہے ( سیرۃ النبی ؐ،ج۲،ص ۲۷۷ ) ۔
 بلا شبہہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قیمتی سبق ملتا ہے کہ قول وقرار کی پابندی اور وفاے عہد مومن کی شان ہوتی ہے، جس سے وہ کسی قیمت پر دستبردار ہونا گوارا نہیں کرتا ( سیرۃ النبیؐ، ج۲، ص ۲۷۶، ۲۷۷ ،ج۶،ص۳۹۹، ۴۰۰) ۔
l وعدہ خلافی اور معاشرتی مسائل : ان تفصیلات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث کی نظر میں عہد کا پاس ولحاظ رکھنے اور وعدہ پورا کرنے کی بڑی اہمیت ہے اور یہ کہ عہد شکنی یا وعدہ خلافی ایک سنگین جرم یا بڑے گناہ کا کام ہے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ اللہ کے بندوں سے کیے گئے وعدے یا قول و قرار کی خلاف ورزی کا معاملہ اس پہلو سے بھی سنگین ہوجا تا ہے کہ یہ معاملہ حکمِ الٰہی کی سرتابی کے ساتھ اللہ کے بند وں کے لیے باعثِ زحمت و موجبِ تکلیف ہوتا ہے۔ قرآن کا یہ صاف اعلان ہے کہ اللہ ہر گز ایسے کام کو پسند نہیں فرماتا جس سے اس کے بندوں کو تکلیف پہنچتی ہے یا ان کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔
ان سب ہدایات و تعلیمات کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرے میں جو خرابیاں در آئی ہیں ان میں وعدہ خلافی نے ایک عام برائی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اسے برائی بھی نہیں سمجھتے۔ لوگوں کے ذہنوں سے ایفاے وعدہ کی اہمیت نکلتی جارہی ہے۔ وعدہ خلافی کو بہت معمولی گناہ سمجھا جاتا ہے اور یہ احساس بھی نہیں ہو تا کہ اس کے لیے آخرت میں جواب دہ ہونا پڑے گا، جب کہ قرآن میں بہت واضح طور پر خبر دار کیا گیا ہے کہ عہد اور وعدے کی بابت بازپُرس ہوگی۔ یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ وعدہ خلافی خود برائی ہے اور بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے جن میں غلط بیانی،کذب ، حقیقی صورتِ حال پر پردہ پوشی، منافقانہ رویہ وغیرہ شامل ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلسل وعدہ خلافی کرنے والے اپنی کوتاہی کو چھپانے کے لیے ایسی ایسی ناپسندیدہ حرکتیں کرتے ہیں کہ بس اللہ کی پناہ۔ بلا شبہہ وعدہ خلافی ان لوگوں کے لیے بھی وبال کا باعث بنتی ہے جو اس بُرائی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ جب بار بار کسی سے وعدہ خلافی ہوتی ہے تو ایسے شخص کا اعتبار اٹھ جاتا ہے یا وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور یہ یقیناً بہت بڑی دولت سے ہاتھ دھونا ہے۔ دوسرے کسی کام کے لیے وعدہ خلافی کرنے پر بعض اوقات اسی کام کے لیے بار بار دوڑنا پڑتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وعدہ خلافی کی وجہ سے ایک بار وہ کام ٹل گیا تو پھر دوبارہ ہو ہی نہیں پاتا جس کے لیے وعدہ کیا گیا تھا۔ اس صورتِ حال میں اصحابِ معاملہ کا وقت ضائع ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے انھیں جو ذہنی کوفت ہوتی ہے وہ علٰٰیحدہ ہے۔
وعدہ خلافی کی وجہ سے سامنے آنے والی ان تکلیف دہ باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ وعدہ خوب سوچ سمجھ کر کیا جائے اور کسی سے ایسا وعدہ نہ کیا جائے جسے پورا نہ کیا جاسکے یا جس کا پورا کرنا انتہائی مشکل ہو۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے مروی آپؐ کایہ ارشاد گرامی حکمت سے معمور ہے کہ  اپنے بھائی سے ایسا وعدہ نہ کرو جسے تم پورا نہ کرسکو ( وَلَا تَعِدْہُ  مَوْعِداً فَتُخْلِفَہٗ   ، جامع ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء)۔وعدہ خلافی کی وجہ سے پیش آنے والی زحمتوں اور پریشانیوں سے بچنے بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی وجہ سے وعدہ پورا نہ ہو سکے یا پورا نہ ہونے کا اندیشہ ہو، تو اس صورت میں صاحبِ معاملہ( یعنی جس سے کوئی وعدہ کیا گیا ہے) کو اس سے با خبر کردیا جائے اور اگر وقت ہے تو بہتر ہوگا کہ اس کی پیشگی اطلاع دی جائے ۔
♦  ایفاے عہد کی برکات  :دوسری جانب اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ایفاے وعدہ بہت سے فیوض و برکات کا وسیلہ بنتا ہے ۔ اول یہ کہ یہ دونوں اصحابِ معاملہ کے لیے نفع بخش ثابت ہوتا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وعدہ پورا کرنے والے کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے اور اس سے صاحبِ معاملہ کو بھی سہولت و راحت ملتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وعدہ پورا کرنے والا وقت کے ضیاع سے خود محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس میں کیا شبہہ ہے کہ جو کام وقت پر انجام پا جا تا ہے وہ دونوں فریقِ معاملہ کے لیے وجہِ مسرت ہوتا ہے۔ تیسرے اس وصف کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اعتماد قائم ہوتا ہے،یعنی وعدے کا  پکّا قابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے اور لوگ اس سے معاملہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ بلاخوف و خطر اس سے معاملات طے کرتے یا لین دین کرتے ہیں۔
سورۃ المعارج کی آیت۳۲ کے حوالے سے اہلِ ایمان کے اوصاف میں ’ایفاے وعدہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سید جلال الدین عمری صاحب نے اس وصف کے فضائل وبرکات میں یہ رقم فرمایا ہے: ’’ اس طرح آدمی کو اطمینان ہوکہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی نہ ہوگی ، جو عہد وپیمان ہوا ہے وہ لازماً پورا ہوگا، تو وہ بے خوف وخطر معاملہ کرسکتا اور آگے بڑھ سکتا ہے۔اس سے پورے معاشرے میں امن و سکون کاماحول ہوگا اور ترقی کی راہیں کھلیں گی‘‘ (راہیں کھلتی ہیں، ۲۰۱۷ء،ص ۸۱) ۔
♦  وعدہ اور احساسِ جواب دہی: رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کے بند وں میں یہ صفت کیسے پرورش پاتی ہے؟ قر آن کریم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ خوبی تقویٰ کے اثر سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، انھیں متقین سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھیں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے (التوبۃ۹ :۴،۷)۔ بلا شبہہ اللہ ربّ العزت کی نگاہ میں محبوبیت کا مقام پالینا بہت بڑا شرف و فضل ہے جو اللہ کے رحم و کرم سے عہد یا وعدہ کی حرمت و تقدس کا پاس و لحاظ رکھنے و ا لوں کو عطا ہوتا ہے ۔ بلا شبہہ وہی شخص وعدہ پورا کرنے کا خوگر ہوتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے اور روزِ جزا اس کے حضور حاضری و بازپُرس کا احساس تازہ رکھتا ہے۔ ایسے شخص کا دل وعدہ کی خلاف ورزی کے خیال سے ہی کانپ اٹھتا ہے ، چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ وعدہ پورا کرکے رہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وعدہ پورا کرنے میں بڑی سخت آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وقت کی قربانی ہے، اپنے ذاتی تقاضوں کو تیاگ دینا ہے ،دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا ہے اور اپنے نقصانات کو گوارا کرنا ہے۔ اس کٹھن آزمایش سے وہی مومن کامیابی کے ساتھ نکل سکتا ہے، جس کا دل تقویٰ کا مَسکن بن جائے اور جس پر اللہ ربّ العزت کے سامنے حاضری اور جواب دہی کا احساس غالب رہے۔
 مختصر یہ کہ وعدہ پورا کرنا اہلِ ایمان کا امتیازی وصف ہے۔ اس سے ان کی شناخت بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وعدہ خلافی مومن کی شان کے خلاف ہے۔ عہد یا وعد ہ کسی سے کیا جائے ، اس کا پورا کرنا بلا شبہ قرآن و حدیث کی رُو سے لازمی ہے۔ اس کی خلاف ورزی ایک بد ترین خصلت ہے اور عند اللہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ یہ برائی دنیا میں موجبِ وبال ہے اور آخرت میں وجہِ خسران اور باعثِ ذلت و رسوائی ہوگی۔اللہ ربّ العزت ہم سب کو ا یفاے وعدہ کی صفت سے متصف فرمائے اور ہمیں ان تمام باتوں و کاموں سے دور ر ہنے کی توفیق عنایت کرے، جو اس کی ناپسندیدگی و ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ اللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ  وَتَرُضٰی، آمین ثمّ آمین!

مالک بن نبی (یکم جنوری ۱۹۰۵ءقسطنطنیہ ،۳۱؍اکتوبر۱۹۷۳ء، الجزائر) نے ابتدائی تعلیم الجزائر، ثانوی تعلیم مصر میں اور اعلیٰ تعلیم پیرس میں حاصل کی اور انجینیرنگ کی ڈگری لی۔ آپ گذشتہ صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کی مؤثر آواز تھے۔ وہ جمال الدین افغانی اور ان کے شاگردوں کی طرح سامراج ہی کو ہمارے تمام امراض کا سبب نہیں تصور کرتے، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ’دشمن تو دشمن ہے، لیکن مرض خود ہم میں ہے‘۔ اپنی کتاب شروط النھضۃ (نشاتِ ثانیہ کی شرائط) میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر ہم میں سامراج کو قبول کرنے کا مرض نہ ہوتا تو سامراج نہ سیاسی و سماجی طور پر ہم پہ کبھی مسلط ہوتا اور نہ فکری اور تہذیبی اعتبار سے ہم پہ اثرانداز ہوتا۔ کسی نشاتِ ثانیہ کے لیے ہم کو اپنے نفسیاتی، فکری اور اجتماعی امراض کا علاج کرنا ہوگا‘‘۔ مالک بن نبی، مغربی افکار کی بڑے پیمانے پر قبولیت اور اپنے ہاں متعارف کرانے کی بھیڑچال کے بھی خلاف ہیں اور مسلم دنیا پر مسلط ادبار کو ’تہذیبی افلاس‘ (Civilizational bankruptcy) سے منسوب کرتے ہیں۔  وہ کہتے ہیں: ’’نشاتِ ثانیہ کے لیے عقیدے میں پختگی، تحریک اور مثبت قوت ضروری ہے‘‘۔(ادارہ)
سب سے پہلے ہمیں اصطلاح ’مستشرقین‘ (Orientalists)کا مفہوم متعین کرنا ہوگا۔ مستشرقین سے ہماری مراد وہ مغربی اہلِ قلم ہیں، جو اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب پر تحقیق و تالیف سے خود کو وابستہ کرتے ہیں۔ انھیں دو جماعتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

الف: زمانے کے اعتبار سے، قدیم مستشرقین، مثلاً گربر ڈور بیک اور سینٹ تھامس اکویناس [م: ۱۲۷۴ء] وغیرہ، اور جدید مستشرقین جیسے برنارڈ کارے ڈی فو [م: ۱۹۵۳ء] اور ایگناز گولڈزیہر [۱۸۵۰ء- ۱۹۲۱ء] وغیرہ۔

ب: اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی تحریروں کے عام انداز کے اعتبار سے ان میں سے ایک طبقہ اسلامی تہذیب کی مدح سرائی کرتا ہے اور دوسرے کا مقصد محض نکتہ چینی اور اس کی مقبولیت کو داغ دار کرنا ہے۔
استشراق (Orientalism)کا جامع مطالعہ اسی ترتیب سے کرنا چاہیے۔ مضمون کے اختصار کے سبب، ہم یہاں ایک خاص پہلو پر ہی گفتگو کریں گے۔

مستشرقین کی فکر اور اثرات

یہ واضح بات ہے کہ قدیم مستشرقین، مغربی دنیا کے فکری دھارے پر نہ صرف یہ کہ ماضی میں بلکہ اب تک اثرانداز ہورہے ہیں، جب کہ ہم مسلمانوں کے افکار پر ان کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا۔ قدیم مستشرقین کی تحریریں یقینی طور پر ان افکار کا محور تھیں، جو یورپ کی نشاتِ ثانیہ (رینے ساں) کی بنیاد بنے۔ دوسری طرف آج جسے ہم اسلامی نشاتِ ثانیہ کہتے ہیں، اس پر ان قدیم مستشرقین کی تحریروں کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے یہ مسئلہ ہم تواریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح سردست ہم اسلامی تہذیب پر نکتہ چینی کرنے والے مستشرقین کو بھی نظرانداز کردیں گے۔ خواہ ہمارے اہلِ قلم پر وہ کسی نہ کسی طرح اثرانداز ہوئے ہوں یا انھوں نے اپنے زمانے میں اپنے یہاں کچھ شہرت بھی حاصل کی ہو، جیسے فادر ہنری لامنس [۱۸۶۲ء- ۱۹۳۷ء] وغیرہ۔
درحقیقت یہاں یہ پہلو زیر بحث نہیں ہے، کیونکہ اس مفروضے کے باوجود کہ ان کی تحریروں کا ہماری ثقافت پر تو کسی حد تک اثر رہا ہے، لیکن وہ ہمارے مجموعی افکار پر مکمل طور پر اثرانداز نہ ہوسکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم میں ان کے خطرات کا فوری مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود تھی، کیونکہ قدرتی طور پر یہ ہمارے ثقافتی اور تہذیبی وجود کے دفاع کا مسئلہ تھا۔ اس کی ایک واضح مثال دورِ جاہلیت کی شاعری کے بارے میں طٰہٰ حسین [م: ۱۹۷۳ء] کی کتاب الشعر الجاھلی ہے۔اس کتاب کی اشاعت سے ایک سال قبل برطانوی مستشرق ڈیوڈ سموئیل مارگولیوتھ [۱۸۵۸ء-۱۹۴۰ء] نے شعر جاہلی کے بارے میں ایک مفروضہ پیش کیا تھا۔ طٰہٰ حسین کی مذکورہ کتاب کی اشاعت کے بعد مصر میں غم و غصے کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور مصری شاعر مصطفےٰ صادق الرافعی [۱۸۸۰ء-۱۹۳۷ء] کے شعلہ بار قلم نے اسلامی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی اس کتاب کا اثر زائل کرنے کی کوشش کی تھی۔
لیکن اس کے برعکس، ہم اسلامی تہذیب کی قصیدہ خوانی کرنے والے مستشرقین کے نمایاں اثر کو محسوس کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اس قسم کے مدح خواں استشراق کے سلسلے میں ہمارا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا، کیوںکہ بظاہر اس کے دفاع کی کوئی وجۂ جواز نہ تھی۔ گویا اس باب میں ہماری قوتِ مدافعت سلب ہوگئی۔
یہاں ہماراموضوع بحث یہ ہے کہ ہمارے ثقافتی وجود کے دفاعی نظام میں قصیدہ خواں مستشرقین کے بارے میں جو یہ خلل پایا جاتا ہے، اس کا ایک صدی قبل سے اور خصوصاً بیسویں صدی کے دوران اسلامی معاشرے کے بدلتے ہوئے افکار پر کیا اثر ہوا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تہذیب کی تعریف و توصیف کرنے والے مستشرقین ، مثلاً جوزف رینو [۱۷۹۵ء-۱۸۶۷ء]، جس نے انیسویں صدی کے وسط میں جغرافیے پر ابوالفدا دمشقی [۱۲۷۳ء- ۱۳۳۱ء] کی کتاب کا ترجمہ کیا، اور رین ہنٹ ڈوزی [۱۸۲۰ء-۱۸۸۳ء] جس کے قلم نے اسپین میں عربوں کی روشن صدیوں کو اُجاگر کیا، اور لویس سیڈیو[۱۸۰۸ء-۱۸۷۵ء] جو زندگی بھر اس کے لیے برسرِپیکار رہا، تاکہ عرب عالم فلکیات و انجینیرابوالوفا، البوزجانی [۱۹۴۰ء- ۱۹۹۸ء] کو ’چاند کی حرکت کے دوسرے قانون‘ کا موجد قرار دیا جاسکے۔ اسی طرح آسین پلاتھیوس [۱۸۷۱ء-۱۹۴۴ء] جس نے ’الاھیاتی کا میڈیا‘ کے عرب مآخذ کا انکشاف کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مغربی اہلِ قلم حضرات نے علمی حقائق کی برتری ثابت کرنے اور حقیقی تاریخ کو اُجاگر کرنے کے لیے لکھا، اور یہ سب انھوں نے اپنے مغربی معاشرے کے لیے کیا۔ لیکن ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کے دانش وَر طبقے پر یہ افکار زیادہ اثرانداز ہوئے ہیں۔

استشراقی فکر کے منفی اثرات

میں عمر کے اعتبار سے اس مسلم نسل سے تعلق رکھتا ہوں، جو ان مغربی مستشرقین کی اس معنی میں احسان مند ہے کہ ان کے توسط سے اسے وہ ذریعہ ہاتھ لگا، جس سے مغربی تہذیب کی چمک دمک سے متاثر اسلامی ضمیر کا احساس کمتری دُور ہوسکتا تھا۔لیکن اگر ہم اس مسئلے کا اپنے حالیہ تجربات کی روشنی میں جائزہ لیں، تو محسوس ہوگا کہ اس طریقے کے نتائج ہماری فکروثقافت کی خوش آیند تبدیلی تک ہی محدود نہیں رہے، بلکہ دوسری طرف اس کے منفی اثرات بھی ظاہر ہوئے۔ انھی اثرات کو ہم یہاں زیربحث لانا چاہتے ہیں۔
اسلامی معاشرے پر ان اثرات کی حقیقی شکل کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ہمیں اس قسم کے استشراق کا جائزہ اس کے اصل تاریخی مآخذ کی روشنی میں لینا ہوگا۔
یورپ نے اپنی تاریخ کے دو مرحلوں میں اسلامی فکر کا انکشاف کیا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے مرحلے میں تھامس اکویناس [م: ۱۲۷۴ء] سے پہلے اور بعد کے دور میں یورپ نے اس فکر کا انکشاف اور ترجمہ کرکے اپنی تہذیب اور ثقافت کو مالا مال کرلیا تھا، اور اسی سبب وہ پندرھویں صدی کے آخر سے اپنی نشاتِ ثانیہ کی جانب کامیابی سے گامزن ہوسکا۔
جدید سامراجی دور میں اس نے فکر اسلامی کا ایک بار پھر انکشاف کیا۔ اس بار ثقافتی ترمیم کے لیے نہیں بلکہ سیاسی ترمیم کے لیے، تاکہ وہ اپنے سیاسی منصوبوں کو مسلم ملکوں کے حالات کے مطابق جماسکے اور ان حالات کو مسلم ملکوں کے لیے اپنی طے شدہ پالیسیوں کے رُخ پر موڑ کر مغلوب اقوام پر اپنی گرفت مضبوط کرسکے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اہلِ مغرب ان علمی کوششوں کے ذریعے انسانیت کے تمدنی سرمایے میں ان اقوام کی خدمت کی صرف ستایش کرنا چاہتے ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لویس سیڈیو اور چارلس گستاولیبان [۱۸۴۱ء-۱۹۳۱ء] جیسے مستشرقین حقیقی علمی جذبے کے تحت تحقیق و تلاش کر رہے تھے۔ لیکن یہاں اس بات کو سامنے رکھنا ضروری ہے کہ یہ تعارف ایسے تاریخی حالات میں ہوا، جب اسلامی علوم کی یہ حیثیت نہیں تھی کہ ان کو اساتذہ کے لیکچرز اور ان کی جدید تالیفات سے حاصل کیا جاسکتا، بلکہ وہ ایک طرح سے آثارِ قدیمہ کی شکل اختیار کرچکے تھے، جن کا انکشاف مغربی اہلِ علم کے ہاتھوں محض اتفاقاً ہوتا تھا۔ وہ انھیں منتقل کرنے میں کبھی دیانت داری اور کبھی بددیانتی سے کام لیتے۔ یہ سائنسی دریافتیں کبھی مسلمان علما اور کبھی اہل یورپ کی طرف منسوب کر دی جاتی تھیں۔ اس طرح عظیم انکشاف کو اصل موجدوں کے بجاے دوسروں کی طرف منسوب کیا جاتا رہا۔ جیسے خون کی گردش کے نظام کا پتا لگانا برطانیہ کے ماہر حیاتیات اور معروف معالج ولیم ہاروے [۱۵۷۸ء-۱۶۵۷ء] سے منسوب کیا گیا، حالاںکہ دراصل مسلمان طبیب علاء الدین ابن النفیس [۱۲۱۳ء-۱۲۸۸ء] اس سے چارسو سال قبل اس کا انکشاف کرچکا تھا۔
مذکورہ رویوں سے عالمِ اسلام کو مغربی ثقافت سے سخت دھچکا لگا۔ اس کے دو طرح کے اثرات ظاہر ہوئے: ایک طرف تو اسے واضح احساسِ کمتری سے دوچار ہونا پڑا، اور دوسری طرف اس احساسِ کمتری کے ازالے کی کوشش میں وقت اور قوت کا ضیاع ہوا، خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی رہی ہو۔
اس صدمے نے مسلم دانش وروں کی ایک جماعت کی ثقافتی قوتِ مدافعت کے نظام کو تقریباً مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس احساسِ کمتری کے نتیجے میں وہ مغرب کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ نہ کرسکے اور فکری جنگ شروع ہوتے ہی کسی شکست خوردہ فوج کی طرح میدان میں اسلحہ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس قسم کے دانش وروں کو مغرب کی پوشاک، رہن سہن اور طور طریقے اپنانے ہی میں راہِ نجات  نظر آئی، خواہ ان کے اس طرزِعمل کا مغرب کی حقیقی تہذیبی اقدار سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۔

اسلامی فکر کے دو کیمپ

اس طرح اسلامی ثقافتی اُفق پر ایک نئی فکر نمودار ہونا شروع ہوئی، جو ایک طرف ہندستان کی پہلی جنگ ِ آزادی [۱۸۵۷ء] کے بعد سرسیّداحمد خان [م: ۱۸۹۸ء]کے ہاتھوں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے قیام کی شکل میں سامنے آئی۔ دوسری طرف اسلامی نشاتِ ثانیہ کے بانی جمال الدین افغانی [م:۱۸۹۷ء] کے رُوپ میں جلوہ گر ہوئی۔ یوں اسلامی فکر دو کیمپوں میں بٹ گئی۔ ایک کیمپ مغربی علوم و فنون اور مادی اشیا یہاں تک کہ مغربی لباس تک اپنانے کی دعوت دیتا تھا، تو دوسرا احساس کمتری کے ازالے کے لیے فخر و انبساط کی خوراکیں کھاکھا کر اپنے دل کو بہلاتا رہا۔
پہلی لہر کے نتیجے میں ذہنی، سیاسی اور سماجی میدان میں دو طرح کے اثرات رُونما ہوئے: ایک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے قیام اور دوسرا جمال الدین افغانی کی دعوت کی شکل میں اُبھر کر سامنے آیا۔ مقاصد میں اختلاف کے باوجود دونوں نے جو یکساں طریق کار اپنایا، وہ دونوں حالتوں میں عالمِ اسلام کو ترقی کی اس منزل تک لے گیا جو شیئیت اور تکدیس (مادی اشیا اور وسائل کو جمع کرنے) کی شکل میں ظاہر ہوا۔
دوسری لہر جو مستشرقین کی تحریروں کے تعلق سے ہمارا موضوعِ بحث ہے، اسے اپنے سفر کے لیے ہموار راستہ فخر اور اسلاف پرستی پر مبنی تاریخی اثاثے (لٹریچر) میں ملا، جو اسلامی تہذیب پر ڈوزی، جیسے مستشرقین کی تحریروں کے منظرعام پر آنے کے بعد انیسویں صدی ہی سے وجود میں آگئی تھی۔
بہرحال، ہم دونوں مکاتب ِ فکر کے درمیان کوئی قطعی حد مقرر نہیں کرسکتے، کیوں کہ دوسرا مکتب ِ فکر پہلے سے کوئی علیحدہ وجود نہیں رکھتا، بلکہ وہ فکر اسلامی میں عمومی طور پر سرایت کرچکا ہے۔ اس نے ایسی صورت اختیارکرلی ہے، جس میں مغربی ثقافت کی برتری کی ذلت کا اثر دُور کرنے کے لیے اسی طرح فخر کی دوا کی تلاش ہوتی ہے، جس طرح منشیات کا عادی اپنی وقتی تسکین کے لیے کسی نشہ آور انجکشن کا متلاشی رہتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس فکری مدرسہ اور اس کی ادبیات نے اسلامی معاشرے کے مستقبل پر کوئی بہتر اثر مرتب نہیں کیا۔ یقینا اسلامی معاشرے کے تشخص کے تحفظ میں ان ادبیات نے قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے۔ میں جس نسل سے تعلق رکھتا ہوں وہ اپنے اسلامی تشخص کی بقا کے لیے اس لٹریچر کی بہرحال احسان مند ہے۔ مثال کے طور پر مَیں نے پندرہ اور بیس سال کی عمر کے درمیان اسلامی تہذیب کی خوبیوں کو جن کتابوں کے ذریعے دریافت کیا، ان میں ڈوسلان کا مقدمہ ابن خلدون کا فرانسیسی ترجمہ اور رین ہنٹ ڈوزی اور احمد رضا کی تحریریں بھی شامل ہیں۔

ذہنی و فکری بیماری اور اس کا علاج

ان کتابوں نے میرے ذہن و فکر پر کیا اثرات مرتب کیے، ان کا مجھے بخوبی اندازہ ہے۔ میں چالیس سال کے تجربے کے بعد نہ صرف یہ کہ ذاتی بلکہ اسلامی معاشرے کی سطح پر بھی اس علاج کی حقیقت کی نشان دہی کرسکتا ہوں۔ مختصراً اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میرے خیال میں متعدد اسباب کی بناپر اس علاج کی خرابیاں، اس کی خوبیوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
پہلا واضح سبب ذہنی تشکیل اور اس کے نفسیاتی ردعمل میں نمایاں ہے، مثلاً: جب ہم غریب و مسکین سے (جو پیٹ بھر روٹی کا محتاج ہو) اس دولت و ثروت کا تذکرہ کریں، جو ماضی میں اس کے آبا و اجداد کے پاس تھی، تو گویا وقتی تسکین کے لیے ہم اسے کوئی نشہ آور چیز دے کر اس کے فکروضمیر کو مفلوج کردینا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس طرح اس کے غم کا مداوا نہیں کریں گے۔
اسی طرح ماضی کی شان دار روایات کا تذکرہ کرکے ہم کسی معاشرے کی بیماریوں کا علاج نہیں کرسکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موحدین{ FR 692 } کے بعد کے دور میں، فن قصہ گوئی کے ماہرین مسلمان نسلوں کو الف لیلہ کی کہانیاں سناسنا کر، ہرمحفل کے بعد ان پر ایسا سرور طاری کردیتے تھے کہ وہ ماضی کے سنہرے خواب سجانے نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔لیکن عظمت رفتہ کے داستان گو حضرات کو اس بات کی کوئی فکر نہ تھی کہ دوسری صبح یہ عوام بیدار ہوکر پھر زندگی کے انھی زندہ اور تلخ حقائق کا سامنا کریں گے، جو کسی صورت قابلِ رشک نہیں۔
تواریخ پر مبنی وہ کتابی اثاثہ جس میں اسلامی تہذیب کے عہد زریں کا راگ الاپا گیا ہو، ان کے یہی دوکردار رہ جاتے ہیں: ان کے ذریعے ایک خاص مرحلے میں مغرب کے ثقافتی چیلنج کا جواب دیا گیا، اور دوسرے عوامل کے ساتھ وہ اسلامی تشخص کی بقا کے لیے بھی مفید ثابت ہوئیں۔ لیکن دوسری طرف اس لٹریچر نے اسلامی تشخص کو خودپرستی کے سانچے میں ڈھال دیا اور متحرک اور میکانیکی دور کے مطابق نہیں بنایا۔
اس خیال کو سرسری طور پر ایک عام بات سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ہمارے لیے بہت غوروفکر کا مقام ہے۔ معاشرتی اعتبار سے تو اس کی اہمیت ہے ہی، لیکن موجود دور میں عالمی سطح پر عوام عموماً اور اسلامی معاشرے کی سطح پر، خصوصاً افکارکی جو جنگ جاری ہے، اسے دیکھتے ہوئے اس خیال کی اہمیت اور بھی زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔

عالم اسلامی کی فکری کش مکش

یہاں ہم عالمِ اسلام کی ’فکری کش مکش‘ کے بارے میں اپنے فہم کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ مسلّمہ امر ہے کہ جب کوئی ایک یا چند مسلمان، اپنے کسی سماجی مسئلے کو موضوعِ بحث بناتے ہیں، تو اس سے پہلے سامراج کی زیرسرپرستی ماہرین کی ایک جماعت اس مسئلے کا جائزہ لینا شروع کرچکی ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے حل میں جس قدر کامیابی حاصل ہوگی، اتنی ہی تیزی کے ساتھ ماہرین اس حل کا جائزہ لیں گے۔ اگر وہ غلط ہوا تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کی غلطی کے دائرۂ اثر میں مزید اضافہ کردیں گے، اور اگر کچھ فائدہ مند نظر آیا تو وہ اس کی اہمیت کو گھٹانے اور اسے بے قیمت ثابت کرنے میں اپنا سارا زور صرف کردیں گے، تاکہ اس کا کوئی فائدہ ہی باقی نہ رہے۔
یہ اس فکری کش مکش کا عام اصول ہے جس کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ لازم آتاہے کہ عالمِ اسلام میں جب بھی کسی اہم پیش رفت کی جھلک دکھائی دے گی ، خواہ وہ ہماری انگلیوں کے دائرے میں ہی ہو، وہ تجزیے کے لیے فوراً ان ماہرین کی خوردبین (مائیکروسکوپ) کے نیچے پہنچ جائے گی۔ اگر اس میں انھیں عالمِ اسلام کی فکری تحریک سے ادنیٰ سا بھی ربط نظر آئے گا تو وہ نشترزنی کرکے اور تجرباتی عمل سے گزار کر، اس کے سماجی اثرات اور کارکردگی کی صلاحیت کو  کم کریں گے اور اس کی راہ میں دشواریاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
درحقیقت کسی معاشرے کا صحیح رُخ معلوم کرنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کے افکار کس رُخ کو جارہے ہیں؟ اِن کا رُخ ایک تعمیری اور صحت مند اور مطلوب مستقبل کی طرف ہے، یا ایک مرض کی شکل میں انھیں پیچھے مڑمڑ کر دیکھنے کی عادت ہے؟ فکری کش مکش کے ان گہرے اور اُلجھے ہوئے پہلوؤں کا مزید جائزہ لینے کے بجاے آیئے، یہ دیکھیں کہ مدح سرائی اور فخرومباہات پر مبنی یہ کتابی اثاثہ موجودہ مسلم معاشرے میں افکار کی رفتار اور سمت پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟
ہمارے ملکوں میں فکری کش مکش کے تاروں کو حرکت دینے والے ماہرین جب ان کتب کے ذریعے اپنا شیطانی کھیل شروع کر دیتے ہیں، تو فوراً ہی ان ادبیات کا دوسرا رُخ بھی ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اس خطرناک عمل کا آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور اپنی فکری، سیاسی اور سماجی زندگی کے ہر گوشے میں اس کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ خصوصاً عرب ممالک میں جہاں ایک عام شہری اور ادیب و صحافی کی حیثیت سے میرے تجربات و مشاہدات پروان چڑھے ہیں۔ یہاں صرف ایک واقعے کی نشان دہی کر رہا ہوں:
گذشتہ دنوں پیرس میں یورپ کے الجزائری مزدوروں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے ذمہ داروں نے ہمارے کسی مسئلے کے بارے میں ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس مسئلے کا تعلق الجزائر سے تھا، جس کے آئین میں ملک کے نام کے ساتھ ’ڈیمو کریٹک‘ کی صفت کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ فکری کش مکش کے ماہرین نے اس موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ان کی کوشش تھی کہ مذکورہ پمفلٹ میں شامل وہ افکار کہ جن میں سے بعض کانفرنس کے سامنے اُٹھائے جانے والے تھے، ان کا راستہ کیسے روکا جائے، اور کانفرنس کے شرکا پر ان کے اثرات کو امکانی حد تک کیسے کم کیا جائے؟
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شمس اللہ تشرق علی الغرب  (مغرب پر عرب تہذیب کے احسانات) نامی کتاب کی مصنّفہ ڈاکٹر این میری شمل [۱۹۲۲ء-۲۰۰۳ء]کوکانفرنس کی طرف سے دعوت نامہ بھیجا گیا۔ وہ اپنی کتاب کے ساتھ کانفرنس کے اجتماع میں شریک ہوئیں اور کانفرنس، دورِحاضر کے اہم مسائل پر بحث مباحثہ کرنے کے بجاے ماضی کی شان و شوکت کی طرف متوجہ ہوگئی۔ میرے دوستوں نے بتایا کہ آخر میں جب کانفرنس کے تمام شرکا کھڑے ہوکر مذکورہ جرمن خاتون کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے، تو انھیں خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ اس واقعے کا آج کی فکری کش مکش کے مسئلے سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں؟
درحقیقت اس واقعے کے دو پہلو سامنے آتے ہیں: ایک یہ کہ مسلم عوام اپنے حال کو بہتر بنانے سے زیادہ اپنے ماضی کی عظمت کے بارے میں حد درجہ جذباتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ حالیہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے مسلم عوام کی جذباتیت سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے۔
یہاں ہم اسی پہلو کو زیربحث لائیں گے، کیوں کہ یہ دنیا کو درپیش فکری کش مکش کی موجوں کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ بنیادی طور پر اس کا رُخ عالمِ اسلام کی طرف ہے۔ یہاں تک کہ بسااوقات مسلم ملکوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ درحقیقت فکری کش مکش کو اپنے حق میں پھیرنے والے یہ ماہرین اس تاک میں رہتے ہیں کہ مسلم عوام کو جب فکروعمل کی کوئی راہ دکھائی جائے، تو وہ اس موقعے پر بڑی چابک دستی سے ایسے خیالات پیش کردیں، جو زیادہ پُرکشش ہوں اور مسلم عوام کو خوابوں کے خوش گوار لمحات اور الف لیلہ   کی رنگین دنیا میں کھینچ کر لے جاتے ہوں۔
ہمیں اس عام اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہمیں جب کسی مسئلے کا سامنا ہوگا اور ہم اس کا حل تلاش کر رہے ہوں گے، تو فکری کش مکش کے ماہرین اس مسئلے سے ہماری توجہ ہٹانے اور اسے غلط رنگ میں پیش کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
سیاسی میدان میں ہماری مشکلات کا جو حل شام کی بعث پارٹی، یا الجزائر میں بربر قومیت، پان افریقن ازم یا اشتراکیت کی شکل میں پیش کیا گیا، اسی لٹریچر  میں ہمارے شان دار ماضی کی مدح سرائی بھی کی گئی۔ وہ عصرِحاضر میں عالمِ اسلام کے اہم ترین فکری، تہذیبی، سماجی، سیاسی، معاشی مسائل سے توجہ ہٹاکر، اسے خیالی مسائل اور ان کے تصوراتی حل میں اُلجھا دینا چاہتے ہیں۔ ۵جون ۱۹۶۷ء کو عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شرمناک شکست اس سنگین صورتِ حال کا ایک بھیانک اور فطری نتیجہ تھی۔
درحقیقت  توجہ ہٹانے اور بہلاوے کی کارروائیوں کا مسئلہ پہلی جنگ ِ عظیم [۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء] کے زمانے سے ہی باربار سامنے لایا جارہا ہے۔ تاہم، آج، عالمِ اسلام میں اس مسئلے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ یہاں تک کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر عالمِ اسلام کی بعض ظاہری ترقیات کو نظرانداز کردیا جائے، تو آج سے چند عشرے قبل جب یہاں پر سامراج کا غلبہ تھا، وہ اپنے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنے کا سوچ سکتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت ان کے درمیان روحانی یا نظریاتی اتحاد آج سے کہیں زیادہ پاے دار تھا۔ لیکن اب، جب کہ عالمِ اسلام مغربی سامراجی شکنجے سے آزاد ہوچکا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے دُور ہوتا جارہا ہے۔ کیوںکہ اس آزادی کے حصول کے دوران چند عشرے قبل، تقسیم کے عمل جراحی نے اس کا یہ اتحاد پارہ پارہ کردیا ہے۔

اسلامی معاشرے کی اصل ضرورت

بعض ظاہری ترقیات سے قطع نظر، یہی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے اگر مجموعی طور پر تمام مسلم معاشروں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر ترقی نہیں کرسکے، بلکہ مزید پیچھے چلے گئے ہیں تو ہماری اس بات کی سچائی سے انکار لازم نہیں آئے گا۔ یہاں ہماری بنیادی غلطی کا سبب یہ بھی ہے کہ تمام کے تمام مسائل کو سیاسی پیمانے سے ناپنا ہماری عادت ہے۔ کیوںکہ ہم مسلم مملکتوں کو تاریخ کے دو کناروں پر رکھ کر ان کی حالت کا موازنہ کرتے ہیں۔ یعنی دوسری جنگ ِ عظیم سے پہلے جب مسلم ممالک سامراج کے زیراثر تھے اور جنگ کے بعد جب ان میں سے اکثر سیاسی آزادی حاصل کرچکے تھے، حالانکہ موہوم آزادی کی اس حقیقت پر ہم نے غور نہیں کیا۔ ذرا سوچیے کہ یہ کیسی سیاسی آزادی ہے کہ جو ان ملکوں کو اسرائیل جیسی چھوٹی ریاست کی تباہ کاریوں سے بھی نہ بچاسکی۔ مسلم ملکوں کے حالات یا ترقیات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مسلم معاشرہ اس عرصے میں اپنے حقیقی سرمایے سے بھی ہاتھ دھو چکا ہے۔ اور اس میں یہ احساس مفقود ہوچکا ہے کہ تمام مسلم معاشرے ایک ہی مستقبل سے وابستہ ہیں اور ان سب کے مسائل کا ایک ہی حل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نقلی اشتراکیت، افریقیت، جدیدیت اور الف لیلہ کے خیالی قصے کہانیوں سے عالمِ اسلام کے غم کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ آج عالمِ اسلام کے لیے یہ مسئلہ مزید سنگین ہوگیا ہے۔ آج مسئلہ ہماری بقایا عدم بقا کا ہے۔ وقت کی رفتار دوسرے امکان کی نشان دہی کر رہی ہے، خصوصاً جون ۱۹۶۷ء کے واقعات کے بعد سے سیاسی اور فوجی بے اعتباری و کمزوری کا احساس مزید شدت اختیار کرچکا ہے، کیوں کہ ان کی بنیاد ’شیئیت‘ یعنی صرف مادی اشیا تھیں، جو ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے بیس سال کے عرصے تک دفاع کے لیے جمع کی گئی تھیں۔ لیکن وہ تو اسرائیل کے پہلے ہی حملے میں ریت کے گھروندوں کی طرح بکھر گئیں۔ اب جان لینا چاہیے کہ محض مادی اشیا کی جدت کاری قابلِ قدر اقدام نہیں ہے بلکہ افکار کی بنیادی تجدید لازمی ہے، تاکہ اس اسلحے اور سامانِ حرب کے پیچھے کھڑے انسان کی فکری و شخصی تعمیر کے ذریعے وہ بنیادی کمی پوری ہوسکے، جو بھیانک اور شرمناک شکست کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے کہ زندہ افکار ہی سے انسان بڑے بڑے معرکے سر کرتا ہے، اور اسلام کے حقیقی پیغام سے بڑھ کر کون سی فکر ہوسکتی ہے؟
ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کسی معاشرے کے مصائب کا سبب مادی اشیا کی کمی نہیں بلکہ اس کا فکری افلاس ہوتا ہے۔یہاں ہم اس سے ایک عبرت یہ حاصل کرسکتے ہیں کہ اسرائیل نے عربوں کے پاس موجود ناکارہ اشیا کے ڈھیر پر جو اچانک فتح حاصل کی تھی، اب [۱۹۶۷ء سے پہلے کی عرب ریاستوں کے مقابلے میں، ان حکمرانوں کے بجاے عوام کی سطح پر جنم لینے والے اُبھار سے] اسرائیل کو غیرمتوقع دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج اس کا ایسے اشخاص سے مقابلہ ہے جو نئے افکار کے تحت حرکت میں آچکے ہیں، بلکہ ان افکار نے ان افراد کی شخصیت کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اسرائیل کے جنگی جہاز ’ایلات‘ پر گولہ باری اور اُردن کی سرحدوں پر فلسطینی چھاپہ ماروں کا سرفروشانہ موقف، اسرائیل سے شکست کے بعد مادی اشیا کی دنیا میں نہیں بلکہ عربوں کے افکار کی دنیا میں تبدیلی کا مظہر ہے۔

فکری سطح پر کمزور کوششیں

خلاصہ یہ کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی ضمیر کو جو دھچکا لگا، اسے افکار کی دنیا میں خصوصیت کے ساتھ محسوس کیا گیا اور سائنسی افکار کی دنیا میں اس کا اثر زیادہ نمایاں شکل میں سامنے آیا، یہاں تک کہ قرآن کی تفسیر بھی اس سے محفوظ نہ   رہ سکی۔ اس پس منظر میں مجھے کوئی شک نہیں کہ طنطاوی جوہری [۱۸۶۲ء-۱۹۴۰ء]کی ضخیم اور مفصل تفسیر کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ یہ تفسیری کام ایک طرف ہمارے افکار پر سائنسی اثرات کی نشان دہی کرتا ہے تو دوسری طرف معلومات کا ڈھیر لگانے کا رجحان پیدا کرتا ہے۔ اس طرح یہ دشوار گزار عمل، تفسیر قرآن سے زیادہ انسائی کلوپیڈیا بن کر رہ گیا ہے۔ فکر ِ اسلامی کے سلسلے میں اس بے فائدہ سائنسی رجحان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مغربی تہذیب کے مقابلے میں جس میدان میں اپنی کمی کا زیادہ احساس پیدا ہوا، اسے دُور کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی۔
آسانی سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مدح سرائی اور قصیدہ خوانی پر مبنی مستشرقین کے لٹریچر کو اس میدان میں اپنی منشیات کی کاشت کے لیے زرخیز زمین مل گئی۔ ہمارا موجودہ اسلامی معاشرہ اسے بڑے ذوق و شوق سے قبول کرتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اس کے ضمیر پر نشے کی کیفیت طاری کرکے اس کا غم غلط کردیتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ضمیر داخلی کش مکش کا شکار ہے، جسے کبھی طنطاوی جوہری، احمد رضا اور محمد فرید وجدی [۱۸۷۸ء-۱۹۵۴ء] جیسے مشرقی مؤلفین یا ڈوزی اور گستاو لیبان جیسے مستشرقین کی کتابیں پڑھ کر سکون ملتا ہے تو کبھی دیگر مشرقی مؤلفین اور مستشرقین کی تصنیفات اسے مشتعل کرتی ہیں۔ کیوں کہ مصنّفین کا آخر الذکر گروپ عربوں کے تمدنی عروج کے زمانے میں سائنسی ترقیات کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجاے یہ کہتا ہے کہ: ان کا کارنامہ صرف اتنا ہے کہ انھوں نے یونانی اور رومی تہذیب کو یورپ تک پہنچایا تھا۔

مستشرقین کے سادہ لوح شاگرد

مغربی مستشرقین کے شاگرد، اور ان کے شاگرد مشرقی مؤلفین، سامراجی حلقوں کی کھلی شہ پر اسلام کے خلاف تخریبی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کھوکھلی ترقی پسندی کے نام پر عالمِ اسلام سے ہرتمدنی خوبی سلب کرکے اُلٹا ، اسلام ہی کو ان کی حالیہ پس ماندگی کا ذمہ دار ٹھیرانا چاہتے ہیں۔ الایدیدلو جیات العربیۃ فی محضر الغرب  (عرب افکار پر مغربی اثرات)کے نام سے ایک کتاب فرانسیسی مستشرق میکسیم روڈنسن [۱۹۱۵ء-۲۰۰۴ء] کے مقدمے کے ساتھ کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب مذکورہ مکتب ِ فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب کے مراکشی مؤلف، روڈنسن کے شاگرد ہیں۔ اس مکتب ِ فکر میں ایسے سادہ لوح بھی شامل ہوجاتے ہیں، جو بے سوچے سمجھے مغربی ثقافت بلکہ مغربی سیاست میں قدم رکھ دیتے ہیں اور ایسے غیراہم مسائل کا ناقص حل پیش کرتے ہیں، جن کو وہ عالمِ اسلام کے اہم ترین مسائل تصور کرتے ہیں۔ ایسے بے خبرلوگوں کے بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی نیت میں کھوٹ نہیں ہے۔ تاہم، فکری کش مکش کے ماہرین کے آلۂ کار دوسرے دانش ور اپنے اسلوب اور طرزِ نگارش سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے مستشرقین اساتذہ کی طرح فکر اسلامی کو بے قیمت ثابت کرنا چاہتے ہیں، بلکہ ان سے ایک قدم آگے بڑھ کر نام نہاد ترقی پسندی کی بے معنی باتوں سے اسلامی فکر کے مستقبل کو مشکوک اور مبہم بنانا چاہتے ہیں۔
اس طرح مسلم قائدین کا ضمیر داخلی کش مکش کا شکار رہتا ہے، جب کہ عوام میں کبھی قصیدہ خوانوں کی تحریریں باعث تسکین ہوتی ہیں اور کبھی نکتہ چینیوں کا قلم مشتعل کردیتا ہے۔ یہ کش مکش گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے مسلسل جاری ہے۔ جس میں عالمِ اسلام کی مفید فکری صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں۔ اس طرزِعمل نے اسلامی فکر کی ترقی میں کوئی حقیقی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ صرف دل کش ادبی آتش بازیاں ہی کی ہیں۔ جس کی ایک مثال روحِ اسلام  کے نام سے سیّد امیرعلی [م:۱۹۲۸ء] کی کتاب بھی ہے۔
ان تحریروں کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسی کیسی اعلیٰ فکری صلاحیتوں کو بے دریغ ضائع کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف یورپ کی تحریک اصلاح کے دوران مارٹن لوتھر [۱۴۸۳ء- ۱۵۴۶ء] اور بیدرو کالدرون [۱۶۰۰ء-۱۶۸۱ء] کی تحریروں نے فکری فرسودگی کے برعکس نیا رنگ پیدا کیا تھا۔ ڈیکارٹ کی تحریروں نے یورپ کو ٹکنالوجی میں ترقی کی راہ دکھائی۔ اور صنعتی دور میں داخل ہونے پر مارکس [م:۱۸۸۳ء]، اینجلز [م:۱۸۹۵ء]اور لینن [م:۱۹۲۴ء]نے ایک بالکل مختلف معاشرہ تشکیل دینا چاہا ۔(جاری)

وفاقی حکومت نے پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصابِ تعلیم کے نفاذ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں مرکزی وزارتِ تعلیم نے پرائمری جماعتوں کے مجوزہ نصاب کا مسودہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق :
-  پہلی اور دوسری جماعت میں انگریزی ، اردو ، ریاضی اورمعلومات عامہ (جنرل نالج) کے مضامین تجویز کیے گئے ہیں۔ جنرل نالج میں معاشرتی علوم، سائنس اور اسلامیات کی معلومات دی گئی ہیں۔
-  تیسری جماعت میں انگریزی، اردو، ریاضی، معلومات عامہ اور اسلامیات کے مضامین تجویز کیے گئے ہیں۔
-  چوتھی اور پانچویں جماعت میں انگریزی، اردو، ریاضی ، سائنس، اسلامیات، معاشرتی علوم کے مضامین تجویز کیے گئے ہیں۔
 نصابی تجاویز میں ’اقداری تعلیم‘ (Value Education)کے نام سے ایک علیحدہ نصابی کتابچہ فراہم کیا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ مجوزہ قدریں (Values) سارے نصاب اور سارے مضامین میں اساسی فکر کے طور پر نصابی وجود میں پھیلی ہوں گی اور یہی قدریں طلبہ و طالبات کی شخصیت کا حصہ بنائی جائیں گی۔

’اقداری تعلیم‘ کے لیے سفارشات

نصاب کے باقی حصوں پرتبصرہ بعد میں کیا جائے گا پہلے ’اقداری تعلیم‘ (ویلیو ایجوکیشن) کو دیکھتے ہیں کیونکہ اس کی تفصیلات پہلی سے بارھویں جماعت تک دی گئی ہیں۔ حقیقتاً ’ویلیو ایجوکیشن‘ کا یہ کتابچہ حکومت کی نصابی پالیسی کی بنیاد ہے۔
اقداری تعلیم، معلوماتِ عامہ، معاشرتی علوم وغیرہ کی تفصیلات دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ نصاب کی تشکیل ہیومنزم (Humanism)کے فلسفے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اقداری تعلیم میں جن اقدارکو طلبہ کی شخصیت اور ان کے فکر وخیال میں راسخ کرنے کا عزم کیا گیاہے وہ اساسی اقدار حسب ذیل ہیں: ۱- ہمدردی اورنگہداشت یادیکھ بھال ۲- راست بازی اور امانت داری ۳- ذمہ دارانہ شہریت۔
ذیلی اقدار میں جن قدروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:
’’اپنی ذات کے لیے ہمدردی، اپنوں اور دوسروں کی دیکھ بھال؍نگہداشت،ماحول کے لیے ہمدردانہ دیکھ بھال، حفاظت اور سلامتی، سچائی، اعتباریت، انصاف، محنت، بہترین کی تلاش، بدعنوانی سے اجتناب، معاشرے کی تنظیم کا فہم، قانون ، قواعد و ضوابط کا احترام، باہمی اشتراک، اختلاف راے کا احترام،برداشت، امن اور سماجی ربط، جمہوری اقدار، انسانی حقوق، مقامی اور عالمی شہریت،حفظان صحت کی تعلیم، جنسی مساوات، شہری برابری، وابستہ بہ شمار (ڈیجٹیل) شہری، سائیبر رہبری وغیرہ کا فہم‘‘۔
بیان کیا گیا ہے کہ یہ اقدار نظامِ عقائد (Belief System)کی وضاحت کرتی ہیں کہ ایسا نظامِ عقائد جو ہمارے رویوں، فکر وتدبر اور اعمال کی تشکیل کرتا ہے ۔یہ اقدار ہمیں اس قابل بناتی ہیں کہ ہم منصفانہ اور غیر منصفانہ میں تمیز کرسکیںاور درست اور غلط میں فرق سمجھ سکیں۔
نصابی دستاویز میں جابجا کہا گیا ہے کہ مذکورہ اقدار پورے نصاب میں ایک راسخ اور مضبوط دھارے کے طور پر پھیلا دی جائیں گی۔ جب ہم معلوماتِ عامہ، معاشرتی علوم، حتیٰ کہ اسلامیات کے مجوزہ نصاب پر نظر ڈالتے ہیں تو ’اقداری تعلیم‘ کے یہ تصورات ہرطرف نظر آتے ہیں۔
یہ بات علمی حلقوں میں واضح ہے کہ ہیومنزم (Humanism)باقاعدہ ایک فلسفہ ہے، جس کا ایک اپنا تصورِ جہاں اورتصورِ کائنات ہے اور یہ کسی خدائی نظام کو نہیں مانتا ۔ یہی آج کے دور میں مغرب کا نظامِ حیات ہے۔ ہیومنزم اپنے عملی اقدامات میں انسانوں کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے: پہلی قسم ہے انسان (Humans)، دوسری قسم ہے تابع انسان( Sub-Humans ) اور تیسری قسم ہے منفی انسان(Non-Humans) ۔
مغربی لوگ اپنے آپ کو ’انسان‘ کہتے ہیں۔ ایشیائی لوگ ان کے نزدیک ’تابع انسان‘ ہیں اور غیر ترقی یافتہ معاشرے، مثلاً افریقی ’منفی انسان‘ ہیں۔ دنیا میں اس وقت جو جنگ وجدل ، قتل وغارت اور ظلم وستم نظر آرہا ہے، وہ ہیومنزم کے انھی تصورات کی وجہ سے ہے۔
ہمارے مقتدرحلقے ہیومنزم کے فلسفۂ حیات کو اور ہیومنزم کی اقدار کو ہماری تعلیم کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں: ہمارا نظامِ حیات، ہمارا تصورِ جہاں اور ہمارا آئین اور معاشرتی نظام، جس فلسفۂ حیات پر مبنی نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کو تشکیل دینا چاہتے ہیں وہ اسلام ہے۔ نظریۂ پاکستان ، قائد اعظم کے تصورات، قرار دادِ مقاصد، دستوراسلامی جمہوریہ پاکستان کا آرٹیکل۳۱  تقاضا کرتا ہے کہ ہمارا قومی نظامِ تعلیم اور ہمارا قومی نصاب اسلام کے نظامِ حیات پر مبنی ہوگا، جس کی اساسی اقدار توحید ،رسالت ، آخرت اور عبادت ہیں۔ ان اقدار کے مطابق انسان بنیادی طور پر اللہ کا بندہ ہے اور اس کا مقصد ِزندگی اللہ کی عبادت، یعنی بندگی اور اطاعت ہے۔ جن کی ذیلی اقدار میں حلال، حرام، عدل، ظلم، گناہ ، ثواب ، خیر ، شر، دیانت، امانت، صدق، تعاون، اعتدال وغیرہ ہیں۔ یہی وہ اقدار ہیں جو پورے نصاب کے تانے بانے میں پھیلانا ہوں گی اور تعلیم کا مقصد انھی اقدار کو نئی نسل کے رویوں اور فکروعمل میں جاری وساری کرنا ہے۔
تاہم، یہاں بالکل مختلف ذہن اس نصابی کام پر حاوی ہے جو ہماری آیندہ نسلوں کو اپنے دین، اپنے کلچر، اپنی روایات اور اپنے تصورِ کائنات سے دور لے جانا چاہتا ہے۔اگر ہم پچھلے چندبرسوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ مغربی وسائل پر پلنے اوران کے ایجنڈے کو لے کر چلنے والی این جی اوز اور خاص طور پر ’یوایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم‘یعنی ’امریکی کمیشن براے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘ نے ہماری تعلیمی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ مذکورہ امریکی کمیشن نے ۲۰۱۵ء میں ہماری نصابی اور درسی کتب پر جو تحقیقات کروائیں، ان کے مطابق تقریباً ۷۰ موضوعات کو قابلِ اعتراض گردانا گیا۔ یہ سب کے سب موضوعات دینی موضوعات ہیں۔ اس کے بالمقابل جن اقدار کو ہمارے نصاب اور درسی کتب میں نافذ کرنے کی سفارش کی گئی، وہ تمام وہی ہیں جو ہم نے ان کی ’اقداری تعلیم‘ کے تحت گنوائی ہیں۔ مذکورہ امریکی کمیشن کی رپورٹوں میں جہاد کو خصوصی نشانہ بنایا گیا، نیز قادیانیت کے متعلق اعتراض اٹھائے گئے۔ مذکورہ کمیشن کی ۲۰۱۹ء کی رپورٹ میں پاکستان کے اس قانونی اقدام کی سخت مخالفت کی گئی ہے جس کے مطابق ناظرہ قرآن اور     ترجمۂ قرآن اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ صدافسوس کہ ہمارے ہاں نصابی خاکے میں پوری اطاعت گزاری کے ساتھ امریکی سفارشات پر عمل کیا گیا ہے۔

مجوزہ نصابات پر ایک نظر

- اسلامیات کا نصاب : اسلامیات کا نصاب پہلے بھی ہمارے ہاں اپنے حجم اور تنوع کے لحاظ سے بہت مختصر ہوتا ہے، جس سے طالب علم کے ذہن میں نہ اسلامی عقائد راسخ ہوتے ہیں اور نہ اسلامی نظام حیات کا کوئی واضح اور مربوط تصور پیدا ہوتا ہے۔ زیر غور نصاب میں پہلی سے پانچویں تک ناظرہ قرآن شامل کیا گیا ہے جو فی الحقیقت ۱۹۶۰ء سے لازمی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے لیے اسکولوں میں زیرو پیریڈ ہوا کرتا تھا، جس میں ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا تھا۔ عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا رہا۔ اب حکومت نے تدریس القرآن کے متعلق بل پاس کیا ہے، جس سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن اور اعلیٰ ثانوی درجے تک ترجمۂ قرآن کی تکمیل ہوگی۔ زیر غور نصاب میں اچھا ہوتا اگر تدریس القرآن کو علیحدہ حیثیت دی جاتی، نیز اسلامیات کے نصاب میں بنیادی تصورات زیادہ وسعت اور گہرائی کے ساتھ دیے جاتے۔
نصاب کو ایمانیات ، عبادات، سیرت طیبہ، ہدایت کے سرچشمے، مشاہیر اسلام، اسلامی تہذیب اور عصر حاضر کے عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے ۔ عنوانات تو بلاشبہہ جامعیت ظاہر کرتے ہیں، لیکن مواد جو ان عنوانات کے تحت تجویز کیا گیا ہے، وہ بہت ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ مشاہیر اسلام میں چار پیغمبر اور چار خلفاے راشدین دیے گئے ہیں ۔ بہتر ہوتا اگر حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر سے پیغمبروں کا سلسلہ شروع ہوتا۔ درجہ بدرجہ جماعتوں میں بچوں کو تصور یہ دیا جانا چاہیے کہ حضرت آدمؑ سے لے کر نبی آخر الزماں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ کی طرف سے دین اسلام ہی بھیجا جاتارہا ہے۔ نصاب میں سے غزوات کو بالکل نکال دیا گیا ہے اور جہاد کا تصور بھی مکمل طور پر مفقود ہے۔ حق کے لیے اللہ کی راہ میں جدوجہد جب تک بچوں کے اذہان میں جاگزیں نہ ہو،  اُن میں حریت اور حق وصداقت کے لیے کھڑا ہونے کا جذبہ کیسے پیدا ہوگا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’اقداری تعلیم‘ جوفی الحقیقت امریکی اور مغربی دباؤ اور ہدایت کے تحت بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کی گئی ہے، اُس نے اسلامیات کے نصاب کو محدود کردیا ہے۔ نصاب میں قدریں تو اسلام کی پھیلائی جانی چاہیے تھیں، لیکن ہیومنزم کی ’خوش نما اقدار‘ نصاب پر چھا گئی ہیں۔ اسلامیات کا نصاب تجویز کرنا ایک قومی مجبوری تھی۔ اس لیے بے دلی سے بکھرے بکھرے انداز میں کچھ سمویا گیا ہے۔
- دیگر نصابات :اس کے بعد اردو کے نصاب پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اردو دانی کے لحاظ سے تنوع ہے۔ اردو بعض بچوں کی مادری زبان ہے۔ بعض گھروں میں اگرچہ اردو مادری زبان نہیں ہے لیکن گھر میں والدین بچوں کے ساتھ اردو میں بات کرتے ہیں۔ اس طرح اسکول میں آنے والے بچوں کا اردو زبان کے لحاظ سے پسِ منظر مختلف ہے۔ لہٰذا نصاب میں اس کا مناسب طور پر خیال رکھا جانا چاہیے، لیکن پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے، اور اب، جب کہ ’یکساں نصاب‘ کی بات ہورہی ہے، تو اردوکے نصاب میں بچوں کے مختلف پسِ منظر کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ذخیرۂ الفاظ کے لحاظ سے نصاب میں طے کیا گیا ہے، کہ’’ تیسری جماعت کے بچے اڑھائی ہزار الفاظ کو جانتے، سمجھتے اور استعمال کرتے ہوں گے، جب کہ پانچویں جماعت کے بچے پانچ ہزار الفاظ کو بولنے لکھنے پڑھنے میں استعمال کرسکیں گے۔ اب یہ اڑھائی ہزار یا پانچ ہزار الفاظ کون سے ہوں گے؟ اس ذخیرۂ الفاظ کی فہرست موجود نہیں ہے۔ یہ تحقیق کا کام ہے اور مختلف پس منظر کے بچوں کے لیے اس طرح کے ذخیرۂ الفاظ کی فہرستیں تیار کرنا بڑی مہارت اور جاں فشانی کا کام ہے۔ انگریزی کا نصاب اگر دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی لسانی پالیسی نہیں ہے۔ نیز ذہنی سطح کے لحاظ سے شاید ان بچوں کو سامنے رکھا گیا ہے، جن کے گھرو ںمیں ماں باپ زیادہ تر انگریزی الفاظ اپنی بول چال میں برتتے ہیں اور ان کے گھر میں انگریزی میڈیا کے پروگرام دیکھے سُنے جاتے ہیں۔ المختصر یہ کہ انگریزی کا نصاب بچوں کی ضروریات اور ذہنی سطح کے مطابق نہیں ہے، بلکہ کسی انگلش بولنے والے ملک کے لیے ہے۔
انگریزی ، اردو، اسلامیات ، معاشرتی علوم اور معلوماتِ عامہ کے نصابات کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں اُفقی اور عمودی ربط غائب نظر آتا ہے۔ سارے مضامین اور سارا نصاب تو ایک ہی بچے نے پڑھنا ہوتا ہے، لہٰذا یہ ربط اشد ضروری ہے۔ معلومات میں خلا یا تکرار نہیں ہونی چاہیے۔
معاشرتی علوم کا نصاب مکمل طور پر گنجلک نظر آتا ہے ۔ ’اقداری تعلیم‘ میں دی گئی قدروں کو بچوں کے ذہنوں پر ٹھونسنے کی وجہ سے زبان وبیان میں پیچیدگی بڑھ گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب باتیں بچوں کے ذہنوں کے اوپر اوپر سے ہی گزر جائیں گی۔
معاشرتی علوم، معلوماتِ عامہ اور انگریزی کے نصاب میں کمپیوٹر کی مدد سے مختلف جگہوں پر نقل کرتے ہوئے چسپاں کا کمال زیادہ ہے۔ بعض امریکی ریاستوں ، اسکولوں اور اسکول سسٹمز کے نصابی خاکے اٹھا کر ڈال دیے گئے ہیں۔ ویب سائٹس اور حوالے جو بطور رہنمائی دیے گئے ہیں، ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امریکی اسکولوں کے نصاب کو پاکستانی بنائے بغیر بڑے پھوہڑپن سے شامل کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں پہلے جو نصابات بنائے جاتے تھے، ان کے عمومی مقاصد اور خصوصی مقاصد اس طرح بیان کیے جاتے تھے کہ انھیں بچوں کو منتقل کرنے کے لیے بہت توضیح وتشریح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن زیر نظر نصابی دستاویز میں سٹینڈرڈ اور سٹوڈنٹس لرنگ آؤٹ کم(SLOs)کے نام سے طلبہ کے تعلیمی مقاصد دیے گئے ہیں، جو پریشان کن ہیں اور ان سے یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کون سا لوازمہ درسی کتب کا حصہ بنے گا!
سائنس اور ریاضی کے نصاب کے متعلق مختصر تبصرہ یہ ہے کہ ان میں عمودی ربط کا فقدان ہے۔ اسی طرح بعض تصورات غیر ضروری اور ماحول سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اصل میں مسئلہ وہی ہے کہ امریکی اسکولوں کا نصاب اٹھا کر شامل کر دیا گیا ہے، جس سے مقامی ماحول سے ان کی نامناسبت کھل کر سامنے آگئی ہے۔
مثالیں
یہاں کچھ مثالیں پیش ہیں، جن سے ہماری تحریر کو منطقی بنیاد مہیا ہوگی:
    ۱-     ڈیماکریسی ، ہیومن رائٹس اور رول آف لا (جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی عمل داری) کے تحت پہلی سے تیسری جماعت کے دوران، بچوں سے جو اُن کی ذہنی سطح سے بلند ہے غیرمنطقی توقع کی جارہی ہے۔ اس کی مثال حسب ذیل ہے: ’’اس امر کا فہم کہ انصاف کیا ہے اور کمرۂ جماعت کے علاوہ ان کے والدین،بھائی بہنوں، دوستوں،رشتہ داروں اورہمسایوں کے ساتھ انصاف پرور ہونے کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس امر کا فہم کہ بنیادی انسانی ضروریات اور بنیادی انسانی حقوق کیا ہیں؟‘‘
    ۲-  چوتھی اور پانچویں جماعت سے Diversity (تنوع) اور Tolerance (تحمل، بُردباری) کے حوالے سے مندرجہ ذیل توقع کی جارہی ہے: ’’اختلاف و تنوع کی اصطلاح کو بیان کریں اور معاشروں میں اختلاف راے کے حامل دھڑوں کی اہم خصوصیات کی نشان دہی کریں‘‘۔
    ۳-     معلومات عامہ کے نصاب کے تحت پہلی جماعت کے بچے سے ٹریفک قوانین کے متعلق جو توقع کی جارہی ہے وہ یہ ہے: ’’ان حفاظتی قوانین کی نشان دہی کریں، جن کی پیروی سڑک پر چلتے ،سڑک عبور کرتے اور بس کے ذریعے سفر کرتے ہوئےکرنی چاہیے‘‘۔
    ۴-    معاشرتی علوم میں چوتھی پانچویں جماعت کے طلبہ سے جو توقع کی جارہی ہے وہ یہ ہے: ’’تمام طلبہ آئین پاکستان کی اہم خصوصیات اور روح کی نشان دہی کریںگے اور مقامی ، قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر شہریوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھیں گے‘‘۔
    ۵-  پانچویں کی اسی سطح کے بچوں سے جوتوقع کی جارہی ہے اس کا بیان اس طرح ہے:’ابتدائی بچپن کی تعلیم‘ (ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن)کے نصاب میں تین چار سال کی عمر کے بچے کے لیے انفرادی اور سماجی تعمیروترقی کے عنوان کے تحت متوقع نتیجے کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ: ’’تمام طلبہ بیان کریں گے کہ مصنوعات اور پیداواری خدمات کی تقسیم،استعمال کے متعلق وسائل اور خدمات، ایک فرد اور معاشرے کی بہبودی پر اثراندازہوتے ہیں‘‘۔
    ۶-  انگلش کا نصاب بڑی ’محنت‘ سے کسی انگریزی پس منظر کے حامل ملک کے نصابی خاکے سے نقل کیا گیا ہے۔ ہم یہاں نصابی رپورٹ میں سٹینڈرڈ اور سٹوڈنٹس لرنگ آؤٹ کم (SLOs) کا ذکر کریں گے، مثلاً صلاحیت (Competency) یعنی لکھنے کی مہارت (Writing skills)  کے تحت سٹینڈرڈ نمبر۱ کا بیان یوں ہے:’’مسائل اور ان کے بہترین حل کی نشان دہی کے ذریعے مسائل حل کرنے کی مہارت پیدا کریں‘‘۔
    ۷-    ’’طالب علموں کو چاہیے کہ وہ ایک ایسی تعلیمی،معاملہ فہمی اور تخلیقی تحریر لکھنے میں مہارت حاصل کریں جو رواں،درست،مرتکز اور بامقصدہو اور تحریری عمل میں آپ کی بصیرت کو ظاہر کرتی ہو‘‘۔
    ۸-    درج بالا معیار کے تحت چوتھی جماعت کے لیے ایک سٹوڈنٹ لرننگ آؤٹ کم کی مثال اس طرح ہے: ’’کسی بھی عبارت کے پس منظر کے ابلاغی مقصد کے لیے درکار مناسب لب ولہجہ(بشمول ذخیرۂ الفاظ) استعمال کرتے ہوئے بولنے کے ابتدائی طریقوں اور مزاحیہ خاکوںکے ٹکڑوں میں مختصر عبارتیں استعمال کریں‘‘۔
اوّل تو ہمارے اساتذہ کے لیے یہ باتیں سمجھنا ممکن نہیں ہے، اور اگر وہ بالفرض سمجھ بھی جائیں، تو طالب علموں سے یہ سب کچھ کروانا ممکن نہیں ہے۔ نصابی کمیٹی نے کسی انگلش سپیکنگ ملک کا نصاب اٹھا کر دے دیا ہے، یہ سوچے بغیر کہ اسے پاکستان میں پڑھانا ہے جہاں ابھی تک ’مارننگ واک‘ کا مضمون رٹا لگوا کر یاد کرایا جاتا ہے ۔ نصاب اچھا اور معیاری ہونا چاہیے لیکن اسے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے قابل نفاذ بھی ہونا چاہیے۔

حاصل مطالعہ

پہلی سے پانچویں تک کے نصابی کتابچوں کو اور خاص طور پر ’اقداری تعلیم‘ کے حصے کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ:  lیہ نصاب مغربی تہذیب اور کلچر کے فروغ کے لیے بنایا گیا ہے۔ lنظامِ اقدار جس پر یہ مبنی ہے وہ ہیومنزم کی اقدار ہیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ lنصابی خاکہ میں جو تصورات اور لوازمہ تجویز کیا گیا ہے، وہ بچوں کی ضروریات، معاشرے کی ضروریات اور بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق نہیں ہیں۔ lمغربی اسکولوں کے نصابات کی بھونڈی نقل ہے، جو ہمارے نظامِ تعلیم میں جگہ نہیں پاسکے گا۔ lنصاب میں اُفقی اور عمودی ربط کا خیال نہیں رکھا گیا۔ l’یوایس کمیشن آن ریلیجس فریڈم‘ کی سفارشات بلکہ ڈکٹیشن پر عمل کیا گیا ہے ۔ اسلامی اقدار اور اسلامی فکر کے تصور کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ lاردو اور انگریزی کا نصاب بچوں میں مطلوبہ لسانی صلاحیتیں پیدا نہیں کرسکے گا۔ خصوصاً متوسط اور نچلے متوسط گھرانوں کے بچے، دیہاتی اسکولوں کے بچے اور اساتذہ اس نصاب کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکیں گے۔
کیا کیا جائے؟
    ۱-     اس نصاب کو قبول کرنے کے بجاے حکومتی زعما کو احساس دلایا جائے کہ یکساں نظامِ تعلیم کا مستحسن فیصلہ، اس نصاب کے ہوتے ہوئے نافذ نہیں ہوپائے گا۔
    ۲-    چونکہ اس نصاب کی پشت پر امریکی/ مغربی دباؤ ہے اور اندرون ملک سیکولر لابی اس نصاب کی تائید میں ہوگی، اس لیے ملک کی دینی اور محب وطن قوتوں کو میڈیا کے ذریعے سیمی ناروں اور کانفرنسوں کے ذریعے، اخباری مضامین کے ذریعے اور خصوصاً سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال سے اس احمقانہ نصاب کے حوالے سے ایک بیداری پیدا کرنا چاہیے۔
    ۳-     اٹھارھویں ترمیم کے بعد پاکستان کے سب صوبے اپنا اپنا نصابِ تعلیم بنانے میں قانوناً آزاد ہیں۔ اس سلسلے میں پنجاب کے محکمۂ تعلیم نے جو نصاب بنارکھا ہے، وہ وفاقی حکومت کے اس زیرغور نصابی مسودے سے بہتر ہے ۔ اس حوالے سے صوبائی سطح پر بھی لابنگ ہونی چاہیے، تاکہ وفاق درست رویہ اختیار کرے۔ نیز دینی مدارس کے وفاقوں کو بھی متحرک کرنا چاہیےکیونکہ یہی نصاب انھیں بھی اپنے قائم کردہ اسکولوں میں پڑھاناہوگا۔   نیز ضروری ہے کہ اگر کوئی یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصابِ تعلیم نافذ ہونا ہے تو وہ سب کی شراکت، مشاورت اور رضامندی سے نافذ ہو۔

طبی ماہرین نے کراچی میں نیوز کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں ہر تیسرا فرد پژمردگی (Depression) یا ذہنی دباؤ میں مبتلا ہے اور پاکستان میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پژمردگی عالمی سطح پر ایک نفسیاتی عارضہ بن کر نمایاں طور پر سامنے آچکی ہے۔ طبی ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین، مردوں سے زیادہ خودکشی کررہی ہیں، اور خودکشی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں غربت، بے روزگاری، مایوسی، افسردگی، غصّہ، افراتفری، پولیس تشدد، اعتماد کی کمی اور امتحان میں نمبروں کی کمی شامل ہیں۔ طبی ماہرین نے اس امر کی بھی نشان دہی کی کہ کراچی میں ۵۰لاکھ سے زیادہ افراد کسی نہ کسی نفسیاتی عارضے بالخصوص ڈپریشن یا گہرے اضطراب میں مبتلا ہیں۔ (روزنامہ ڈان کراچی، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں، جس میں خود قومی رہنما اور ماہرین تعلیم و تربیت تک رہنمائی کے محتاج ہیں۔ مثلاً مذکورہ نیوز کانفرنس کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ ماہرین نے یہ تو بتایا: ’’ملک میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے‘‘ مگر یہ نہیں بتایا کہ خودکشی کے رجحان میں اضافے کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ آپ کہیں گے کہ انھوں نے بتایا تو ہے کہ:’’اضطراب، پژمردگی یا ڈپریشن، یاسیت، غصہ، غربت اور بے روزگاری خودکشی میں اضافے کا سبب ہیں‘‘۔ تاہم، اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جن ’اسباب‘ کو انھوں نے خودکشی کا سبب قرار دیا ہے، وہ تو خود ’نفسیاتی امراض‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اگر یاسیت یا اضطراب لوگوں کو خودکشی پر مائل کررہے ہیں، تو اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے کہ ’’خود یاسیت یا اضطراب کیوں پیدا ہورہے ہیں؟‘‘ مذکورہ نیوز کانفرنس کی زیادہ بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس میں شریک تمام مسلمان ماہرین میں سے کسی نے بھی نفسیاتی امراض اور خودکشی میں اضافے کے رجحان کو دینی تناظر میں دیکھنے اور بیان کرنے کی رتّی برابر بھی کوشش نہیں کی۔ حالاں کہ ہمارے تمام نفسیاتی امراض کا ہماری بدلی ہوئی روحانی، اخلاقی اور عالمی ساخت سے بہت گہرا تعلق ہے۔اسے محض معاشی فساد اور ظلم تک محدود سمجھنا بھی ظلم ہوگا۔
جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ: ’’۲۰ ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی‘‘۔ ٹامس مان کی یہ بات سو فی صد درست ثابت ہوئی۔ اس تناظر میں ۲۱ویں صدی کو ’اقتصادیات کی صدی‘ قرار دیا جارہا ہے اور لکھنے والے انسانی تقدیر کو معاشی یا اقتصادی اصطلاحوں میں تحریر کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر چیز کو اقتصادیات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ خودکشی کے بارے میں بھی عام خیال یہ ہے کہ ’’یہ غربت اور بے روزگاری کا نتیجہ ہے‘‘۔ طبی ماہرین نے اپنی نیوز کانفرنس میں ’غربت اور بے روزگاری کو خودکشی کے اسباب‘ میں شامل کیا ہے۔ بلاشبہہ بعض لوگوں کے لیے غربت اور بے روزگاری اتنا بڑا مسئلہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی زندگی ہی کا خاتمہ کرلیں۔ نبی اکرمؐ نے ایسی غربت سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے، جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔
انسان بسا اوقات جب ایسی غربت کا تجربہ کرتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اس کی زندگی اور کائنات میں خدا موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں خودکشی کی شرح غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں خودکشی کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔(دنیا میں سالانہ آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد خودکشی کر رہے ہیں، جن میں زیادہ تعداد ۱۵ سے ۲۰ برس کے درمیان افراد کی ہے۔ ۲۰۱۲ء میں پوری دنیا کے ۴۵ فی صد خودکشی کرنے والوں کا تعلق بھارت اور چین سے تھا۔ اسی طرح ۲۰۱۲ء میں پاکستان میں ۱۳ہزار ۳سو۷۷ خودکشی کے واقعات ریکارڈ ہوئے، جن میں مرد ۶ہزار۲۱ اور عورتیں ۷ہزار ۸۳ تھیں۔ اسی طرح ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۲ء تک پاکستان میں خودکشی کے واقعات میں ۲ء۶ فی صد اضافہ ہوا (پروفیسر صالحہ شیخانی ، سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ، آغا خان یونی ورسٹی، کراچی، فروری ۲۰۱۸ء۔ادارہ)
 آئیے، اس سلسلے میں ۲۰۱۶ء کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ’عالمی ادارہ صحت‘ (WHO) کی رپورٹ میں درج اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۶ء میں مختلف ممالک میں ہر ایک لاکھ آبادی میں سالانہ خودکشی کی شرح یہ رہی: پاکستان میں ۲ء۹ فی صد، آسٹریلیا میں ۵ء۶ فی صد، برطانیہ میں ۸ء۹ فی صد، جنوبی افریقا میں ۱۱ء۶ فی صد،کینیڈا، ڈنمارک میں ۱۲ء۸ فی صد، جرمنی میں ۱۳ء۶ فی صد،امریکا میں ۱۵ء۳ فی صد، فن لینڈ میں ۱۵ء۹ فی صد،بھارت میں ۱۶ء۳ فی صد، جاپان میں ۱۶ء۵ فی صد،  فرانس میں ۱۷ء۷ فی صد اور جنوبی کوریا میں ۲۶ء۹ فی صد(روزنامہ، ڈان،۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)۔
ان اعداد و شمار سے ثابت ہے کہ جن ممالک میں غربت اور بے روزگاری کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، وہاں خودکشی کی شرح غریب اور ترقی پذیر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ غربت اور بے روزگاری خودکشی کا سبب نہیں بن سکتے مگر اس مسئلے کو ذرا گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک چیز ہے غربت، اور دوسری چیز ہے غربت کا احساس اور اس کا نفسیاتی اثر۔
غربت آج سے سو سال اور پانچ سو سال پہلے بھی موجود تھی، مگر اس وقت اس کا احساس اتنا شدید نہیں تھا، جتنا آج ہے۔ دوسری بات یہ کہ پرانے زمانے میں معاشرہ غریبوں کو مکمل طور پر ’ترک‘ نہیں کرتا تھا۔ منشی پریم چند کے افسانے ’کفن‘ کے دونوں بنیادی کردار اتنے غریب ہیں کہ ان کے پاس اپنے گھر کی ایک عورت کو کفن مہیا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں، مگر انھیں معلوم ہے کہ معاشرہ ان کی مدد کو آئے گا اور معاشرہ فی الواقع ان کی مدد کو آتا ہے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے ریاست ہی نے نہیں معاشرے نے بھی فرد کو ’ترک‘ کرنا شروع کردیا ہے۔ چناں چہ غریب فرد کے لیے اس کی غربت کا احساس شدید بلکہ جان لیوا بننے لگا ہے۔

خودکشی کے رجحان کے حقیقی اسباب

اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حقیقی اسباب کیا ہیں؟
- اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دیا جائے تو کہا جائے گا: ’’خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ’معنی کے بحران‘ کا نتیجہ ہے‘‘۔ لیکن یہ بات وضاحت طلب ہے۔ آج سے تین سو سال پہلے کی دنیا اپنی اصل میں مذہبی دنیا تھی۔اُس دنیا میں جنگیں تھیں، تصادم تھا، آویزش تھی، غربت تھی، وبائیں اور ان سے ہونے والی ہلاکتیں تھیں، مگر اس دنیا میں شاذ ہی کوئی خودکشی کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دنیا میں معنی کا بحران نہیں تھا۔ خدا کی موجودگی کے شعور سے زندگی کے ہر پہلو کی توجیہہ ہوسکتی تھی۔
- اس توجیہہ کے دو پہلو تھے: یہ ’جامع‘ بھی تھی اور ’تسکین بخش‘ بھی، مگر مغرب نے خدا کے وجود کا انکار کردیا اور اس نے مادے کو اپنا خدا بنالیا۔ خدا کے انکار سے وحی کا انکار پیدا ہوا۔ وحی کے انکار سے ’عقل پرستی‘ بلکہ ’عقل کی خدائی‘ نمودار ہوئی۔ اس خدائی سے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ زندگی کی ایک توجیہہ اور ایک تعبیر ممکن نہ رہی۔ نتیجہ یہ کہ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے ’تعبیروں کا جنگل‘ بن گئی۔ ان بھانت بھانت کی تعبیروں کے جنگل میں معنی کا بحران پیدا ہونا ہی تھا۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ’مذہبی مفہوم‘ جامع بھی تھا اور تسکین بخش بھی، مگر مغرب نے عقل کی خدائی کے زیر اثر زندگی کی جو تعبیریں وضع کیں، وہ نہ ’جامع‘ ہیں اور نہ تسکین بخش۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مغرب کی معاشیات کہتی ہے: ’’انسان ایک معاشی حقیقت ہے‘‘۔ مغرب کی سیاسیات کہتی ہے: ’’انسان ایک سیاسی حیوان ہے‘‘۔ مغرب کی حیاتیات کہتی ہے: ’’انسان ایک ’حیاتیاتی حقیقت‘ کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ اس فکری انتشار میں ’فکری وحدت‘ ممکن ہی نہیں۔ چوں کہ مغرب کے تمام فکری سانچے اپنی اصل میں بہ زعم خود عقلی سانچے ہیں، اس لیے مغرب کا کوئی فکری سانچا انسان کے جذباتی وجود کی تسکین کا سامان مہیا نہیں کرپاتا۔ چناں چہ مغرب کا انسان فکری سطح پر بھی جاں بہ لب ہے اور جذباتی سطح پر بھی پیاسا ہے۔ یہی پیاس اسے خودکشی کی طرف مائل کرتی ہے۔
- اسلام کی فکری کائنات میں انسان کی زندگی ’تقدیر‘ اور ’تدبیر‘ کے درمیان بسر ہوتی ہے۔ ایک باشعور مسلمان جانتا ہے کہ بہت سی چیزیں ’تقدیری امر‘ ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ تقدیر کے آگے سر تسلیم خم کرے، اسے خوش دلی سے قبول کرلے، کیوں کہ کاتبِ تقدیر کوئی اور نہیں خود خالقِ کائنات ربِ جلیل ہے۔ تقدیر کو تسلیم کرنے سے انسان میں صبر بھی پیدا ہوتا ہے اور شکر بھی۔ صبر انسان کو مصائب و آلام سے بلند ہو کر زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے، اور شکر سے زندگی میں ایک جمال پیدا ہوتا ہے، جو انسان کی طبیعت میں موجود بوجھل پن کو دُور کرکے اسے خوش گوار بناتا ہے۔ ’تدبیر‘ انسان کو بُرے حالات کی مزاحمت اور ان پر فکر و عمل کے ذریعے غالب آنا سکھاتی ہے۔ چنانچہ ’تقدیر‘ اور’ تدبیر‘ کی کائنات میں سانس لینے والا انسان خود کشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایک مسلمان کے لیے زندگی کی معنویت اتنی اہم ہے کہ معنویت کا فرق ایک جگہ موت کو ’خودکشی‘ بنادیتا ہے اور دوسری جگہ موت کو ’شہادت‘ کے مرتبے پر فائز کردیتا ہے۔ آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ خودکشی کرنے والا انسان ایک ’مایوس انسان‘ ہوتا ہے___ اپنے خالق و رازق، اپنی تقدیر اور اپنی تدبیر کی اہلیت سے مایوس انسان (Frustrated Person)۔ اس کے ہاتھ میں نہ تقدیر کی ڈھال ہوتی ہے نہ تدبیر کی تلوار۔
- اگرچہ پاکستان سمیت مختلف مسلم معاشروں میں اسلام کوئی ’علامت‘ (Label) یا آویزہ (Tag) نہیں ہے۔ بلاشبہہ اسلام ایک مربوط وجودی تجربے (Existential Experience)  کا نام ہے۔ بدقسمتی سے تمام مسلم معاشرے اس حد تک مغرب زدہ ہوچکے ہیں کہ اکثر مسلمانوں کا ’باطن‘ مغرب ہے اور ’ظاہر‘ اسلام۔ مغرب صرف ہماری سیاست اور ہماری معیشت نہیں بلکہ ہماری خواہش اور آرزو ہے۔ یہ ہماری تمنا اور خواب ہے۔ اصولی اعتبار سے دین ہماری ’محبت‘ ہے اور دنیا ہماری ’ضرورت‘۔ تاہم، مغرب کے زیر اثر ’عملی صورتِ حال‘ یہ ہے کہ دنیا ہماری ’محبت‘ ہے اور دین کو ہم نے ’بقدر ضرورت‘ اختیار کیا ہوا ہے۔ بلاشبہہ ایک سطح پر دین ہماری ’آرزو‘ ہے مگر ہماری ’جستجو‘ آرزو سے ہم آہنگ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین ہماری ’آرزو‘ ہے اور دنیا ہماری ’جستجو‘۔
فکرونظر اور سوچ و عمل کے اس فساد کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کو ہم نے ’برکت‘ تک محدود کردیا ہے اور دنیا ہماری ’حرکت‘ بن گئی ہے۔ چناں چہ ہماری مادہ پرستی ہمیں انھی کیفیات سے دوچار کررہی ہے، جن کیفیات میں مغرب کے لوگ مبتلا پائے جارہے ہیں۔ اصولی طور پر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’جسمانی خودکشی‘ وہی شخص کرتا ہے جو پہلے ’روحانی خودکشی‘ کرچکا ہو۔ جن لوگوں کی روحانی زندگی سلامت ہوتی ہے، انھیں خودکشی کا خیال تک نہیں آتا۔ لیکن جن لوگوں کا تعلق باللہ کمزور ہوجاتا ہے، ان کا انسانوں سے تعلق بھی سرسری اور سطحی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا، جو شخص نہ خدا کا دوست ہو اور نہ انسانوں کا، وہ نفسیاتی مریض نہیں بنے گا اور خودکشی نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟