بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماعات کا اپنا ایک مزاج اور کردار ہے۔ جماعت کا ہراجتماع ابتدا ہی سے ملک و ملّت دونوں کے لیے ایک مخصوص پیغام دینے اور ہدایاتِ کار فراہم کرنے کی روشن روایت رکھتا ہے لیکن ۲۴ تا ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو مینارِ پاکستان کے زیرسایہ اقبال پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اجتماع کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان اور ملّتِ اسلامیہ کی تاریخ کے بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر اس اجتماع نے پاکستان اور عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے مستقبل کی جس روشن راہ کی نشان دہی کی ہے وہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے گوشے گوشے سے جمع ہونے والے لاکھوں تحریکی کارکنوں، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی قیادت، کینیڈا اور امریکا سے لے کر جاپان اور ملایشیا تک سے شریک ہونے والے مندوبین نے کامل یکسوئی کے ساتھ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و حالات کا جس دقتِ نظر سے تجزیہ کیا اور عمومی مایوسی کے ماحول میں اعتماد اور فراست کے ساتھ مستقبل کے لیے جس طرح ایک روشن شاہ راہ کی نشان دہی کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ خوف، بدامنی اور عدم تحفظ کی ملک گیر فضا میں لاکھوں افراد کے اس شہر میں تین روز تک علمی اور دعوتی اجتماع کی شکل میں جس سکون، اطمینان اور عزم و استقلال کا نمونہ پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
افغانستان میں یہ جنگ ہزاروں افراد کی جانیں لے چکی ہے، لاکھوں زخمی اور بے گھر ہیں اور جنگ کی آگ اب پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بڑھ کر آباد علاقوں (settled areas) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ۱۵ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں اور بے گھر افراد کی تعداد ۸لاکھ سے متجاوز ہے۔۱؎ عراق میں تباہی سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر ہے۔ وہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط اندازوں کے مطابق ۶ لاکھ سے متجاوز ہے اور ملک کا چپہ چپہ معصوموں کے خون سے رنگین ہے اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ساری دنیا بے چینی اور عدم تحفظ کی گرفت میں ہے اور اسرائیل اور بھارت کو چھوڑ کر دنیا کے ہر ملک میں امریکا سے بے زاری اور نفرت کی لہریں اُٹھ رہی ہیں اور آبادی کی عظیم اکثریت (۶۰ سے ۹۰ فی صد تک) امریکی پالیسیوں سے اپنے اختلاف کا برملا اظہار کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت، میڈیا اور اہلِ قلم کی ایک بڑی تعداد اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی خاص عنایت اسلامی تحریکات پر ہے جن کا اصل ’جرم‘ یہ ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھتی ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کی اسلام کی تعلیمات اور قوانین کی روشنی میں تشکیلِ نو کرنا چاہتی ہیں۔ اسے پہلے Radical Islam (انقلابی اسلام) اور Fundamentalism (بنیاد پرستی) کا نام دیا گیا اور اب اسے Islamic Terrorism (اسلامی دہشت گردی) اور Islamo-fascism (اسلامی فاشزم) کا منبع قرار دیا جارہا ہے۔
اس پس منظر میں ۴۰ مسلم ممالک کے اسلامی قائدین کی جماعت کے اجتماع میں شرکت اور اسلام کے عالمی پیغام اور اُمت کی وحدت کی ضرورت پر مکمل یک جہتی کا اظہار روشنی کے سفر کی ایک تابناک علامت ہے۔
سیاسی تبدیلی کا یہ عمل ایک عظیم تحریکِ مزاحمت سے شروع ہوا تھا جس کی قیادت ملک کی وکلا برادری کر رہی تھی اور جس کی علامت چیف جسٹس افتخار چودھری تھے۔ اس تحریک میں پوری سول سوسائٹی اور اہم سیاسی کارکن اور جماعتیں شریک ہوئیں اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں عوام نے مشرف اور اس کی پالیسیوں کے خلاف اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ دے کر یہ پیغام بھی صاف لفظوں میں دے دیا کہ سب سیاسی قوتوں کو، خصوصیت سے پی پی پی اور نواز مسلم لیگ کو مل کر، قومی مفاہمت کے ذریعے پرویزی دور کی زیادتیوں اور انحرافات (deviations ) کی اصلاح کر کے دستور کی اس شکل میں جو ۱۹۹۹ء میں تھی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی اور غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی باعزت بحالی، نیز قومی آزادی، خودمختاری اور عزت کی قیمت پر امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کی پالیسی کی تبدیلی اور خارجہ پالیسی کی اس قلبِ ماہیت کی تصحیح کا مینڈیٹ دیا جو امریکا، بھارت اور اسرائیل کے دیے ہوئے ایجنڈے کے تحت پرویز مشرف نے آمرانہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کی تھی۔ معاشی پالیسی کے دروبست کی تبدیلی بھی عوام کے مینڈیٹ کا حصہ تھی کہ پرویزی دور کی پالیسیوں کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے تھے اور ملک کو نمایشی ترقی کے سراب کے نشے سے مسحور کیا جا رہا تھا، جب کہ فی الحقیقت زرعی اور صنعتی شعبوں میں حقیقی پیداواری ترقی مفقود تھی اور ملک بجٹ، تجارت اور توازن ادایگی کے خساروں سے دوچار، اور ملکی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔
قوم کو نئی مخلوط حکومت سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ زرداری صاحب نے ایک طرف ساری توجہ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے پر دی تو دوسری طرف ایک ایک کر کے ان تمام وعدوں کی خلاف ورزی کی راہ اختیار کی جو میثاقِ جمہوریت، جولائی ۲۰۰۷ء کے اعلانِ لندن، اور فروری مارچ ۲۰۰۸ء کے اعلانِ بھوربن اور اعلانِ دوبئی میں کیے گئے تھے۔ اس کا پہلا نتیجہ مسلم لیگ نواز کی حکومت سے علیحدگی اور اس کے بعد زندگی کے ہر شعبے میں عملاً پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل اور بالآخر معیشت کے میدان میں آئی ایم ایف کے جال میں دوبارہ گرفتاری، بھارت کے مقابلے میں مسلسل پسپائی، کشمیر کے مسئلے پر پریشان کن ژولیدہ بیانی، اور امریکا کے پنجے میں اس حد تک گرفتاری کہ ۳ستمبر کو امریکی افواج نے پاکستان کی سرزمین پر زمینی حملہ بھی کردیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے ۴۰ سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین پر ہوچکے ہیں جن میں ۴۰۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
اس سب کچھ پر مستزاد امریکا اور یورپ کی مجالس دانش (think tanks)کی وہ فکری اور نفسیاتی جنگ ہے جو روز افزوں ہے۔ ان تمام جائزوں اور رپورٹوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ناکام ہوتی ہوئی (failing ) ریاست ہے، ’دہشت گردی‘ کا اصل مرکز پاکستان کے علاقوں میں ہے، پاکستان کے لیے اپنے جغرافیائی وجود کو باقی رکھنا ممکن نہیں رہا ہے اور پاکستان خدانخواستہ اگلے ۱۰،۱۵ سال میں صفحۂ ہستی سے معدوم ہوجائے گا یا اس کے ایسے حصے بخرے ہوجائیں گے کہ وہ سیاسی بساط پر ایک اہم کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہے گا۔ یوں نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استعماری شکنجوں میں کسا جا رہا ہے بلکہ ملک کے مستقبل ہی کو مخدوش اور مشکوک بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
موجودہ حکومت کے ۹ مہینوں پر پھیلے ہوئے دورِ اقتدار میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے اور امن و امان کی زبوں حالی کے ساتھ معاشی افراتفری، معاشرتی اضمحلال، سیاسی انتشار اور داخلی عدم استحکام میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ نظریاتی خلفشار اور ثقافتی اور تہذیبی بگاڑ بھی بلوہ عموم کی سی کیفیت اختیار کر رہے ہیں۔ فکری اور اخلاقی ہردو اعتبار سے حالات مخدوش تر ہوتے جا رہے ہیں اور نوجوانوں میں بے راہ روی اور قوم میں ہرسطح پر ڈسپلن کی کمی ایک وبا کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔
ان حالات میں قوم کو جھنجھوڑنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بیدار، متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی نے مینارِ پاکستان پر یہ ولولہ انگیز اعلان کے ساتھ کیا ؎
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
اور : ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع کے کامیاب انعقاد کے اس پہلو کو سب نے محسوس کیا اور سراہا کہ مایوسی کی فضا میں جماعت کا لاکھوں افراد پر مشتمل یہ اجتماع روشنی کی ایک تازہ کرن ہے۔ اس طرح اس پہلو پر بھی ہرحلقے نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ملک پر خوف اور عدمِ تحفظ کے جو بادل چھائے ہوئے تھے اور جن کی وجہ سے سرکاری حکام ہی نہیں بہت سے دانش ور بھی احتیاط کا مشورہ دے رہے تھے اور لاہور کے قلب میں اتنے بڑے اجتماع کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے، الحمدللہ وہ سب پادَرِ ہوا ثابت ہوئے اور جماعت کے شان دار روایتی نظم و نسق کے ساتھ یہ سہ روزہ اجتماع بڑی خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوا اور قوم میں اُمید اور اعتماد کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔
یہ دونوں پہلو اپنی جگہ اہم ہیں اور ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ہماری نگاہ میں اس اجتماع کی اصل اہمیت ان سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا تعلق اس پیغام سے ہے جو اس اجتماع نے پوری قوم کو دیا ہے اور مستقبل کے لیے ملک اور عالمی سطح پر نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی جدوجہد کے جو خدوخال اس میں پیش کیے گئے ہیں، وہ وقت کی ضرورت اور مستقبل کی تعمیر کے لیے راہِ عمل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان پہلوئوں پر سب کو غوروفکر کی دعوت دیں۔
جماعت اسلامی کے اس اجتماع کا اولین مقصد تذکیر تھا تاکہ جماعت کے کارکنوں اور معاونین کے سامنے خاص طور پر، اور پوری قوم اور اُمت مسلمہ کے سامنے بالعموم، ایک بار پھر وہ مقصد آسکے جس کے لیے تحریکِ اسلامی پاکستان میں، اور دیگر اسلامی تحریکیں دنیا کے گوشے گوشے میں اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنے انداز میں جدوجہد کر رہی ہیں۔
تحریکِ اسلامی کی نگاہ میں زندگی کے تمام مسائل کا حل اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل وفاداری کے ساتھ اطاعت، اور آخرت کی زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیے دنیا میں قرآن وسنت کے مطابق عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے میں ہے۔ سارے مسائل کے حل کی کلید اخلاق کی اصلاح اور پوری زندگی کو خیروشر اور حلال اور حرام کے اس ضابطے کے مطابق گزارنے میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری انسانیت کو دیا ہے اور اُمت ِمسلمہ جس کی امین ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ عرب کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ایک کلمہ لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کو اختیار کرلو تو عرب و عجم پر تمھارا جھنڈا لہرائے گا۔ یہی وہ پیغام ہے جسے اقبال نے اپنی اس خوب صورت غزل میں پیش کیا ہے جو ۲۰۰۸ء کے اجتماع کی علامت تھی :
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
جماعت اسلامی پاکستان کابنیادی عقیدہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہوگا،یعنی یہ کہ صرف اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ (دفعہ ۳)
اس عقیدے کو دل کی گہرائیوں اور عقل کی سپردگیوں کے ساتھ قبول کرنے کے معنی یہ ہیں:
اس کلمے کے ماننے والے ایک امت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو استخلاف کی جو ذمہ داری اور سعادت سونپی ہے وہ اس کے امین ہیں۔ استخلاف کا تقاضا زمین پر اپنے مالک کی مرضی کو پورا کرنا اور زندگی کے پورے نظام کو رب السَّمٰوٰت والارض کی ہدایت کے مطابق مرتب و منظم کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تحریکِ اسلامی اپنا نصب العین قرار دیتی ہے، جو دراصل اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کا حقیقی نصب العین ہے یعنی اقامت ِ دین۔
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصد عملاً اقامتِ دین (حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول ہوگا۔ (دفعہ ۴)
جو چیز جماعت اسلامی کی منفرد حیثیت کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کا یہی نظریاتی ، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی کردار ہے۔ یہ جماعت کسی وقتی ضرورت اور محدود سیاسی ہدف کے حصول کے لیے قائم نہیں ہوئی بلکہ انسان کی پوری زندگی کو اسلام کے انقلابی پیغامِ ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی شریعت کی روشنی میں مرتب و منظم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے۔
اقامت دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کوقائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت ِ دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔ (ص ۱۴-۱۵)
جماعت اسلامی سیاسی نظام کی اصلاح اور اسلامی بنیادوں پر انقلابِ قیادت کی داعی ہے اور اس پہلو سے وہ ایک سیاسی جماعت ہے جو زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں سونپنا چاہتی ہے جو اللہ کے وفادار اور شریعت ِ اسلامی کے نفاذ کے داعی ہوں اور جن کا اپنا کردار سیاسی تبدیلی کے اس پروگرام سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس معنی میں وہ ایک سیاسی جماعت ہے لیکن جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظریاتی تحریک بھی ہے جو سیاست سمیت زندگی کے تمام نظام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق منظم اور مرتب کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پروگرام کے چار عناصر ِترکیبی ہیں جو مساوی طور پر اہم ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط اور ناقابلِ تقسیم ہیں۔
۱- وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسولؐ کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اُس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہوگی۔
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت ِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو اُن تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
جماعت اسلامی کی انفرادیت اس کے مندرجہ بالا نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی خصوصیات کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس کی تنظیمی سرگرمیوں کا محور پاکستان ہے لیکن اس کی نظریاتی دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے اور وہ ان عالمی اصلاحی تحریکوں کا حصہ ہے جو اپنے اپنے دستور، اپنی اپنی تنظیم اور اپنی اپنی قیادت کے تحت چل رہی ہیں اور عالمی سطح پر ایک نظریاتی اور تہذیبی رَو کا حصہ اور رنگ رنگ کے پھولوں کا ایک حسین گلدستہ ہیں۔
اکتوبر ۲۰۰۸ء کا اجتماع جماعت کے کارکنوں کی تذکیر ہی کا نہیں بلکہ پوری قوم اور عالمی برادری کے سامنے اپنے اس ہمہ گیر اور منفرد کردار کو اُجاگر کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔
اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان میں جماعت اسلامی ایک اہم نظریاتی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی قوت ہے۔ اجتماع اکتوبر میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت جماعت کے تقریباً ۲۳ہزار ارکان اور رکنیت کے ۱۷ ہزار امیدوار ہیں (خواتین ارکان کی تعداد ۲۳۹۹ اور رکنیت کی امیدوار خواتین ۱۴۳۷ ہیں)۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ اور اس کے عام ممبروں کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تنظیمی اعتبار سے مرکز، صوبوں اور اضلاع کی سطح پر جماعت کی کارروائیاں جاری و ساری ہیں اور ۴ہزار سے زائد یونین کونسلوں میں تنظیم قائم ہے۔ ملک میں درسِ قرآن کے ۸ہزار حلقے اور تعلیم القرآن کے ۳۳۱۷ مراکز کام کر رہے ہیں۔ فہم دین کے پروگرام کے تحت تقریباً ۹۰۰ پروگرام ایک سال میں منعقد ہو رہے ہیں جو دس روزہ اور سہ روزہ قرآن فہمی کے اجتماعات سے عبارت ہیں اور ایک ایک پروگرام میں کئی کئی ہزار افراد باقاعدگی سے شرکت کر کے قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ خواتین کے حلقے میں فہم قرآن کے ۱۳۶ ادارے قائم ہیںاور درسِ قرآن کا سلسلہ ۴۲۱۱ حلقوں میں انجام دیا جا رہا ہے۔ دعوتی کیمپ سالِ گذشتہ میں ۲۸۳۰ لگائے گئے اور کُل دعوتی وفود کی تعداد ۶۰ ہزار کے قریب رہی۔ جماعت کے نظم کے تحت اس وقت ملک میں چھوٹی بڑی ۷۵۵۸ لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔
جماعت کی برادر تنظیموں کا کام اس کے علاوہ ہے جو زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے اپنے دائرۂ کار میں سرگرمِ عمل ہیں اور الحمدللہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں جماعت اور اس کے کارکن متحرک نہ ہوں۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔
ہم نے یہ مختصر جائزہ تحدیث ِ نعمت کے احساسات کے ساتھ پیش کیا ہے اور مقصد اس امر کا اظہار بھی ہے کہ دعوت، تربیت، اصلاحِ معاشرہ، خدمتِ عوام، تعلیم اور سیاسی تبدیلی کا وہ پروگرام جس پر جماعت اسلامی کام کر رہی ہے ایک ہمہ جہتی پروگرام ہے۔ اس کے کام کا تعلق محض سیاسی موسم سے نہیں، یہ جماعت ایک تحریک کا مرکز و محور ہے اور اس کی دعوتی اور اصلاحی سرگرمیاں سال کے بارہ مہینے اور ہرمہینے کے تیس دن جاری ہیں ع
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
درپیش چیلنج اور تحریک اسلامی
اجتماع کا ایک اور مقصد جماعت کے پیغام کو جماعت کے اپنے کارکنوں کے سامنے، ان میں مکمل یکسوئی پیدا کرنے کے لیے، پوری قوم کے سامنے، ملک کو درپیش ایشوز پر اپنے موقف کو بیان کرنے کے لیے، اور پوری دنیا خصوصیت سے عالمی قوتوں کے سامنے، انھیں یہ موقع فراہم کرنے کے لیے تھا کہ وہ تحریکِ اسلامی کو اس کے اپنے الفاظ اور بیان کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں اور اُسے ویسے تعصب اور عناد کی عینک سے نہ دیکھیں، جس طرح میڈیا کے بعض عناصر حقیقت کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر اس اجتماع کے ذریعے جماعت اسلامی نے امریکا اور مغربی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ان خانوں میں رکھ کر نہ دیکھیں جو ان کے تنگ نظر سیاسی اور فکری قائدین نے وضع کیے ہیں۔ اسلام ایک عالم گیر پیغام کا علَم بردار ہے لیکن یہ پیغام کوئی نیا پیغام نہیں بلکہ وہی پیغام ہے جو خالقِ کائنات نے اپنے تمام انبیا کے ذریعے انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا اور جس کی آخری اور مکمل شکل وہ ہے جو نبی آخرالزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی شکل میں نازل ہوئی اور جس کی عملی تعبیرو تشکیل پیغمبرؐاسلام کی سنت اور زندہ روایت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ پیغام اللہ کی بندگی کا، اللہ کے تمام بندوں کی اخلاقی ترقی اور تزکیے کا، تمام انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام اور حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے ہرسطح پر انسانی زندگی کو امن اور عدل اور بھائی چارے کا گہوارہ بنانے کا ہے۔ یہ جنگ، خون ریزی اور دہشت گردی کا پیغام نہیں۔ بلکہ یہ تو انسان کی پوری زندگی کو اخلاقی اصولوں اور اقدار کی روشنی سے منور کرنا چاہتا ہے اور زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ یہ پیغام ابدی ہے مگر اس میں بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کا لحاظ رکھنے کی پوری پوری گنجایش موجود ہے۔ اس پیغام کو اس کی اصل شکل میں پرکھنے کا سب کو پورا پورا حق ہے لیکن یہ رویہ مبنی برحق و انصاف نہیں کہ اس دین کی تعلیمات کو مسخ کیا جائے اور سیاق و سباق سے علیحدہ (out of content ) چیزوںکو لے کر اسلام کو تنقید وتنقیص کا ہدف بنایا جائے یا کچھ خاص افراد کے سیاسی اقدامات کو ان کے سیاسی پس منظر سے کاٹ کر اسلام کے سر تھوپ دیا جائے اور دنیا کو ایک نظریاتی تصادم اور جنگ و جدال میں جھونک دیا جائے۔ اُمت مسلمہ امن و انصاف کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی عزت اور انصاف سے معاملہ کرنے کی خواہش مند ہے لیکن اگر اس پر محض قوت کے بل پر کچھ نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی اور محض طاقت کے ذریعے اُمت کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اس کی ریاستوں کو اپنا تابع مہمل بنانے کی سعی کی جائے گی تو یہ تصادم کا راستہ ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
آج اُمت مسلمہ امریکی، صہیونی، یورپی اور بھارتی استعمار کا نشانہ ہے۔ اگر ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف اُمت کے کچھ حصے یا عناصر صف آرا ہیں تو ان مسائل کا بے لاگ انصاف کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مسائل کا حل قوت کے استعمال سے نہیں بلکہ حق و انصاف کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ اختیار کیا جائے تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ خرابی کی جڑ استعماری ذہنیت اور قوت کے ذریعے مبنی برحق تحریکوں اور مزاحمتوں کو ختم کرنے کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں۔ نیز طاقت ور ممالک کا یہ ادّعا ہے کہ ان کو دوسروں کے وسائل پر قبضے کا حق ہے اور محض اپنی خواہشات بلکہ ہوس (greed) کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے منہ سے ان کا نوالہ چھین لینا بھی ان کا حق ہے۔ اگر طاقت ور اپنے مفاد کی خاطر دوسروں پر ایسی دست درازیاں کریں گے تو دوسرے بھی کمزور ہونے کے باوجود مزاحمت اور اپنے مفادات کے تحفظ کا راستہ نکالنے پر مجبور ہوں گے۔
’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی برپا کردہ یہ جنگ ہر میدان میں ناکام رہی ہے۔ عراق ہو یا افغانستان، پاکستان ہو یا کوئی اور علاقہ___ نہ صرف یہ کہ یہ جنگ ناکام رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت کے جذبات کا طوفان اُمنڈ آیا ہے اور آج امریکا دنیا میں جتنا بدنام ہے اور اسے جتنی بڑی تعداد میں راے عامہ کی ہرسطح کے لوگ امن وانصاف کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں، تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔
اس اجتماع میں عالم اسلام پر امریکا کی دست درازیوں کی مذمت کے ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ امریکا محض قوت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوسروں کے وسائل پر قبضہ کر رہا ہے، ان کے استحصال (exploitation) کا مرتکب ہو رہا ہے اور مسلم ممالک میں جبروقوت کے ذریعے قابض اپنے مفید مطلب حکمرانوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور اب اس سے بڑھ کر مسلم دنیا میں انتہاپسندی اور میانہ روی کے نام پر اپنے ایجنٹوں کو آگے بڑھا کر ان کے ذریعے اپنے مطلب کے ’اسلام‘ کو فروغ دینے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔ یہ راستہ تصادم اور بگاڑ کا راستہ ہے___ مسلم دنیا امریکا اور مغربی ممالک سے اور مغربی تہذیب کے علَم برداروں سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے لیے ہرلمحہ تیار ہے لیکن مسلمان اپنے دین میں مداخلت، اپنی تہذیب کی پامالی، اپنی معیشت و سیاست پر غیروں کے تسلط اور اپنے درمیان دوسروں کے ایجنٹوں کے اقتدار کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم حقیقی کثیریت (pluralism) کے قائل ہیں لیکن کسی ایک ملک کا غلبہ اور بالادستی ہرگزقبول نہیں کی جاسکتی۔
اجتماع میں برطانوی صحافی خاتون اے وان رڈلی کی تقریر مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ اس میں مغرب کے لیے بھی پیغام ہے اور مسلمانوں کے لیے بھی۔ نوحہ صرف ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نہیں ___ تمام مظلوم انسانوں کا اور ظلم کے نظام کے خلاف نفرت اور بغاوت کا ہے۔
اجتماع کے مقررین اور خصوصیت سے بین الاقوامی اجلاس نے یہ پیغام بڑے بھرپور مگر باوقار انداز میں دیا ہے اور اسی جذبے سے دیا ہے کہ ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع میں پاکستان نے موجودہ حالات کا بھی دقتِ نظر سے تجزیہ کیا گیا اور جماعت اسلامی کے موقف کو مسکت دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا۔
ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم
پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس میں جنگ اور فوجی کارروائی کے راستے کو رد کیا گیا ہے اور مذاکرات، جنگ بندی، فوجوں کی واپسی اور پوری سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر پارلیمنٹ کی قرارداد نوحہ کناں ہے اور حکومت اور امریکا دونوں اپنی من مانی کررہے ہیں اور بات ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت و وقار کی پامالی تک پہنچ چکی ہے۔ صدر، وزیراعظم اور وزیردفاع ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ملک وقوم کے لیے شرمناک ہیں لیکن حکمران اتحاد کے بڑے بڑے سورما ہیں کہ پھر بھی لیلاے اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ جس کے شرکا اپنی ہی حکومت کی پالیسی کی مذمت بھی کرتے ہیں اور کرسی چھوڑنے کا باعزت راستہ بھی اختیار نہیں کرتے۔
پچھلے ایک سال میں بنکوں کے نظام میں قرض کے نادہندوں (Non Performing Loans) کی مالیت ستمبر ۲۰۰۸ء کے آخیر میں ۳۷ئ۲۸۸ ارب روپے تھی، جب کہ ستمبر ۲۰۰۷ء میں یہ رقم ۱۱ئ۲۵۱ بلین تھی۔ گویا اس ایک سال میں ۳۷ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
جماعت اسلامی کی نگاہ میں مسئلے کی اصل جڑ اخلاقی فساد اور اجتماعی اور اداراتی بگاڑ ہے۔ قیادت کی ناکامی اور جمہوری عمل کو دستور یا قانون اور ضابطے کے مطابق چلانے سے مکمل بے اعتنائی ہے۔ اور یہ بگاڑ اس وقت تک دُور نہیں ہوسکتا جب تک ایسی قیادت برسرِکار نہ آئے جو اخلاقی اعتبار سے اعلیٰ کردار کی حامل ہو، جو نظریاتی اعتبار سے پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی وفادار ہو، جو قوم ہی سے ہو اور قوم کے سامنے جواب دہ ہو، جو امریکا اور بیرونی طاقتوں کے زیربار نہ ہو اور ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوداری سے معاملہ کرسکے، جو ملک کی آزادی اور عزت کا سودا کرنے والی نہ ہو اور قومی خودمختاری اور وقار کی خاطر جان کی بازی لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔
جماعت اسلامی کا اجتماع انقلابِ قیادت کے اس آہنگ کا برملا اظہار ہے۔
اجتماع میں جماعت کی قیادت نے آیندہ کے لیے جو پروگرام جماعت کے کارکنوں اور پوری قوم کو دیا ہے وہ تجدید عہد، وقت کی قربانی اور مسلسل جدوجہد کا پیغام ہے۔ اس میں پہلی اور سب سے اہم چیز رجوع الی اللہ ہے کہ ہماری ساری دعوت اور پروگرام کی بنیاد اللہ سے تعلق، اللہ سے مدد اور استعانت کی طلب، اللہ کے دین کی سربلندی کا جذبہ اور کوشش، اور اللہ کی خوش نودی کا حصول ہے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے اجتماع کا دوسرا پیغام جماعتی استحکام ہے۔ اپنی صفوں کو مضبوط کرنا، اپنے تربیتی نظام کو مؤثر بنانا، اپنی تنظیم کو زیادہ مستحکم کرنا، جہاں تنظیم نہیںہے یا کمزور ہے اس کی تقویت کی فکر کرنا، جماعت میں ڈسپلن، وقت کی پابندی، ذمہ داریوںکی صحیح ادایگی، ایک دوسرے کی معاونت اور تقویت کا باعث ہونا___ ان سب پہلوئوں سے جماعت کو مضبوط کرنا تاکہ آگے کے مراحل میں چیلنجوں کا مؤثر مقابلہ کیا جاسکے۔
تیسرا پیغام دعوت کا ہے۔ جماعت کی نگاہ میں ہمارا سب سے اہم کام عوام تک پہنچنا اور ہرممکن طریقے سے ان تک اسلام کی دعوت اور جماعت کے پروگرام کو پہنچانا ہے۔ ہمارا اصل ہدف انسان سازی ہے___ ووٹ اس کا نتیجہ ہے، اولین ہدف نہیں۔ جتنا ہم اپنا پیغام لوگوں تک پہنچائیں گے، ان کے سوالات کا تشفی بخش جواب دیں گے، اپنے سیرت و کردار اور اپنی خدمت سے ان کے دلوں کو اسلام اور جماعت کے لیے جیتیں گے اتنا ہی ہمارا وزن بڑھے گا اور بالآخر انتخابات میں بھی اس کے ثمرات سے جماعت اور ملک فیض یاب ہوسکیں گے۔ ۲۰۰۸ء بھی دعوت کا سال تھا اور ۲۰۰۹ء بھی دعوت کا سال ہے تاکہ ساری سرگرمیوں میں اولیت دعوتی کاموں کو دی جائے۔ امیرجماعت نے کارکنوں سے متعین طور پر وقت دینے کی خصوصی اپیل کی ہے اور ہرسطح پر تمام جماعتیں اب اس کا اہتمام کریں گی کہ ایک متعین پروگرام کے تحت ہرکارکن سے وقت کا مطالبہ کریں اور جو جتنا وقت دینے کا وعدہ کرے اسے مناسب ترجیح کے ساتھ دعوتی سرگرمیوں میں شامل اور متحرک کیا جائے۔
دعوت کے ساتھ ساتھ تمام اچھے لوگوں کو جماعت میں سمونے اور شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت میں وسعت پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایک طرف اپنے اخلاقی اور نظریاتی معیار کی حفاظت کیجیے تو دوسری طرف فراخ قلبی اور کھلے بازوئوں کے ساتھ تمام اچھے انسانوں کو جماعت میں لانے کی کوشش کیجیے اور انھیں ان کے مقام کے مطابق جگہ دیجیے تاکہ وہ جماعت کا حصہ بن جائیں اور اس دعوت کی تقویت کا باعث ہوں۔ یہ کام اس انداز میں کیا جائے کہ ہرعلاقے کے بااثر افراد تک دعوت پہنچائی جائے اور انھیں جماعت کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ کا فضل ہے کہ جماعت اسلامی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانی مساوات اور اہلیت کی بنیاد پر قیادت کے اصول پر قائم ہے۔ جماعت میں پہلے دن سے قانون اور ضابطے کی پابندی کی روایت ہے۔ قیادت نہ موروثی ہے، نہ خاندانی اور نہ وصیت کے ذریعے قیادت کی ٹوپی سر کی زینت بنائی جاتی ہے۔ دستور کے مطابق متعین وقت پر انتخابات ہوتے ہیں اور ہرسطح پر ہوتے ہیں۔ ہرشخص کے لیے ذمہ داری کے مقامات تک رسائی ممکن ہے بشرطیکہ اس میں وہ صلاحیت اور اہلیت موجود ہو جو دستور نے مقرر کی ہے۔ نہ کوئی سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آتا ہے اور نہ کسی کے لیے دروازہ بند ہے۔ پھر جماعت کے اندر مشورے کا نظام رائج ہے، بلاشبہہ اطاعت امیر ہماری قوت کا ذریعہ ہے لیکن امیر کی طاقت کا انحصارمشاورت کے اس نظام پر ہے جو ہرسطح پر قائم کیا گیا ہے۔ جماعت میں نئے خون کی آمد کا سلسلہ الحمدللہ پہلے دن سے جاری ہے اور آج مرکزی شوریٰ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت طلبہ عربیہ اور دوسری برادر تنظیموں میں سرگرم تھے۔ زندہ اور ترقی کرنے والی تحریکوں کا یہ خاصا ہے۔ ان میں بزرگوں کا احترام اور ان سے استفادے کے ساتھ نئے باصلاحیت افراد کی قدر اور ان کو ذمہ داریاں سونپنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ البتہ خدا کا خوف، دین کا فہم، اعلیٰ کردار اور حسنِ کارکردگی وہ صفات ہیں جو ترقی کازینہ اور کامیابی کی ضمانت ہیں۔
جماعت کے اس اجتماع میں حسنِ انتظام کے ساتھ بڑی اہم چیز اجتماع کے پورے پروگرام کو انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچانے کی بڑی کامیاب کوشش تھی۔ جدید ٹکنالوجی کا استعمال ہمارے پیغام کے ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ اس اجتماع میں اس کا بڑا کامیاب استعمال ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اب ہر میدان میں نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مناسب کام پر لگایا جائے اور جدید ٹکنالوجی کا استعمال صرف انٹرنیٹ پر اجتماع کے پروگرام تک محدود نہ ہو بلکہ جہاں بھی انتظامی، تربیتی، دعوتی کاموں کو خوب تر بنانے کے لیے جدید اسلوب اورجدید سہولتوں کا استعمال ممکن ہو، اس کا اہتمام کیا جائے۔ ملک کی آبادی کا نصف اب نوجوانوں پر مشتمل ہے جو تعلیم اور مہارت کے جدید تجربات سے روشناس ہیں۔ دعوت کی وسعت اور تنظیم کے استحکام دونوں کے لیے ان مردانِ کار اور جدید فنی اختراعات کا بھرپور استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ وسعت اور صف بندی دونوں کے لیے ان شاء اللہ یہ مفید ہوں گے۔
اجتماع کے پیغام کا ایک اورپہلو، اور شاید سب سے اہم پہلو، نئی اُمید، نیا عزم اور حالات کو صحیح سمت میں تبدیل کرنے کا عزم اور داعیہ ہے۔ ہرفرد اس اجتماع سے ایک نیاجذبہ لے کر رخصت ہوا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد اس وسیع پیمانے پر اُمید اور روشنی کے احساسات اور جذبات کا ہم سب نے تجربہ کیا ہے۔ یہ امر، تحریک اور ملک کے لیے بڑا نیک شگون ہے۔ جس ملک میں ہرطرف مایوسی اور اضطراب کی لہریں اُبھر رہی ہوں وہاں ایک ایسے اجتماع کا انعقاد جہاں لاکھوں افراد نے اجتماع کے ہرلمحے کا لطف لیا ہو اور اجتماع سے ایک نیا جذبہ اور ولولہ لے کر اپنے اپنے دائرہ کار میں شریکِ جدوجہد ہورہے ہیں، ایک بڑا ہی مبارک واقعہ ہے۔ اقبال کی روح جس ابراہیم کی تلاش میں بے چین اور بے قرار تھی آج تحریکِ اسلامی براہمیت کے اس جوہر کی امین ہے۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک عظیم فکری سفر کے بعد اپنے رب تک پہنچے، اسی طرح باطل افکار کے ایک جنگل سے گزر کر تحریک کے کارکن اسلام کی شاہ راہ تک پہنچے ہیں۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جاہلیت کے ہر صنم پر ضرب لگائی، اسی طرح تحریکِ اسلامی اپنے دور کے ہرصنم سے نبردآزما ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وقت کے طاغوت کو چیلنج کیا اور طاقت کے مرکز کو نشانہ بنایا اسی طرح تحریکِ اسلامی آج ملک اور عالمی سطح پر طاغوت کے تمام مظاہر سے برسرِکش مکش ہے۔
یہ سب صحیح لیکن چیلنجوں کی اس مماثلت اور ردعمل کی مشابہت کے باوجود سنت ابراہیمی سے مطابقت کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ شوق، جدوجہد، خلوص اور استعانت باللہ ہرمرحلے کو آسان بنا سکتے ہیں۔ شرط ایمان، توفیق اور کوشش ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رحمت اور نصرت اور اپنے رب سے بہتری کی اُمید ؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
۲۰۰۸ء کے امریکی صدارتی انتخاب کے دو پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک غیرسفید فام شخص صدارت کا امیدوار بنا اور صدر منتخب بھی ہوگیا۔ واضح رہے کہ بارک حسین اوباما مکمل سیاہ فام نہیں، اس کا باپ کینیا کا ایک مسلمان سیاہ فام تھا مگر اس کی ماں ایک سفیدفام امریکی خاتون تھی۔ یہی وجہ ہے کہ رنگ دار (coloured) نسل سے ہونے کے باوجود اسے سیاہ فام (black) نہیں کہا جاسکتا۔
۲۰۰۸ء کے انتخابات کا دوسرا غیرمعمولی پہلو اس انتخاب میں غیرملکی دنیا کی انتہائی دل چسپی ہے جس کی وجہ صرف اوباما کا رنگ اور نسلی اور سیاسی پس منظر یا اس کی ۴۷ سالہ جواں عمری (youthful looks) ہی نہیں، بلکہ امریکا کی وہ تصویر (image ) تھی جو صدربش کے آٹھ سالہ تاریک دور میں دنیا بھر میں قائم ہوئی اور جس نے امریکا کو تقریباً پوری دنیا میں (اسرائیل اور بھارت کے سوا) ناپسندیدہ اور لائقِ نفرت بنا دیا تھا۔ امریکا سے یہ بے زاری اور امریکا میں تبدیلی کا امکان وہ چیز تھی جس نے اوباما کے انتخاب کو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا اور معلوم ہو رہا تھا کہ ۴نومبر کو انتخاب امریکا کے نہیں، بلکہ پوری دنیا کے ہورہے ہیں۔ دنیا کی اس غیرمعمولی دل چسپی نے اوباما کی آزمایش میں اضافہ ہی کیا ہے۔ دیکھیے وہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے۔
بلاشبہہ اوباما کا صدر منتخب ہونا اور ۷۰ لاکھ ووٹوں کی برتری سے منتخب ہونا ایک اہم تاریخی واقعہ ہے۔ ان انتخابی نتائج اور پورے انتخابی عمل کی کامیابی پر امریکی جمہوریت اور امریکی عوام کے سیاسی کردار اور بیداری کو داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ امریکا کی حکومتوں سے ہمیں جو بھی شکایات ہوں اور جارج بش کے دور میں جو زخم بھی پاکستان اور اُمت مسلمہ کے سیاسی جسد پر لگے ہیں، وہ اپنی جگہ، لیکن اوباما کا انتخاب تاریک اُفق پر روشنی کی ایک کرن ہے اور ہمیں اس کے اعتراف میں کوئی باک نہیں۔
۲۰۰۸ء کے امریکی انتخابات امریکا کی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات بھی تھے۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق اس انتخاب پر ۵ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوئے ہیں۔ البتہ دل چسپ بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح ری پبلکن مالی وسائل کی فراہمی میں اس دفعہ آگے نہیں تھے۔ اوباما نے اس میدان میں بھی انھیں پیچھے چھوڑ دیا حالانکہ امریکا کے دولت مند طبقے کی میکین کو مکمل حمایت حاصل تھی اور یہی روایت رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور خوش آیند پہلو یہ ہے کہ امریکا کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کم رقم کے عطیات دینے والوں نے اپنے صدارتی امیدوار کے فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور ۱۰۰ ڈالر اور ۱۰۰۰ ڈالر والے عطیا ت کی اوباما کی مہم میں بھرمار رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی عوام کو متحرک اور مجتمع کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عام ووٹروں سے بھی بڑے وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
بلاشبہہ جارج بش کی آٹھ سالہ ناکامیاں اوباما کے لیے مثبت پہلو رکھتی تھیں اور میکین کے لیے اصل بوجھ (liability) تھیں۔لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ اوباما کی کامیابی دراصل بش کے لیے منفی ووٹ کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس منفی ووٹ کا اوباما کو فائدہ ہوا لیکن اوباما کی کرشماتی شخصیت (personal charisma)، اس کی خطابت اور حاضرجوابی، اس کی جواں سالی، ان سب کا حصہ اس فتح میں شامل ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں سب سے اہم چیز اوباما کی انتخابی حکمت عملی ہے جس میں اس نے تبدیلی اور اُمید (change and hope) کو مرکزی اہمیت دی۔ امریکا بش کے آٹھ سالہ اقتدار کے بعد تبدیلی کا خواہش مند تھا جیساکہ پاکستان میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں پاکستانی ووٹر کی خواہش تھی۔ اوباما نے تبدیلی کی اس خواہش کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی موضوع بنایا اور عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہا کہ وہ امریکا کی داخلی اور خارجی سیاست، دونوں کا رُخ بدلنا چاہتا ہے اور اس کے پاس اس تبدیلی کو لانے کی صلاحیت موجود ہے۔
دوسری بنیادی چیز اوباما کا امریکا کے نوجوانوں اور محروم طبقوں کو اپیل کرنا تھا۔ روزگار، چھوٹا کاروبار اور خصوصیت سے ایک عام امریکی کے لیے صحت کی انشورنس اور علاج کی سہولتوں کی فراہمی کے پروگرام میں بڑی کشش تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ساڑھے پانچ فی صد آبادی والے ملک امریکا کے پاس دنیا کی دولت کا ۲۵ فی صد ہے مگر اس کے باوجود امریکا میں آبادی کا ۱۴ فی صد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
تیسری چیز عراق کی جنگ کے سلسلے میں انخلا کی حکمت عملی (exit strategy) کا وعدہ ہے۔ نیز انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں بش کے دور میں ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے دوران ہوئی ہیں ان سے اوباما نے فاصلہ پیدا کیا اور ان میں سے کئی کے بارے میں تبدیلی کا وعدہ کیا۔ گوانتانامو کو بند کرنے، تعذیب (torture) کو معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے سے پرہیز اور قید کے دوران شخصیت کی توڑ پھوڑ کے عمل (rendition ) سے اجتناب کا کھل کر ذکر کیا گیا۔
صدارتی انتخاب کے دوران پولنگ اسٹیشن سے باہر آنے والوں کے سروے (Exit Poll) کے تجزیے سے بڑے دل چسپ اور چشم کشا نکات سامنے آئے ہیں۔ ووٹروں کے ۶۲ فی صد کی نگاہ میں انتخاب میں اہم ترین مسئلہ معاشی حالات تھے۔ ۶۲ فی صد کے نزدیک اوباما کے پاس بہتر معاشی حکمت عملی تھی، جب کہ بش کو معاشی بحران کا ذمہ دار سمجھا گیا اور میکین نے اس کی قیمت ادا کی۔ عراق اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میڈیا میں سب سے نمایاں موضوع رہے، صرف انتخاب کے دوران ہی نہیں بلکہ پورے سال۔ لیکن ووٹروں میں سے صرف ۱۰ فی صد کے نزدیک عراق اور صرف ۹ فی صد کے خیال میں دہشت گردی کا مسئلہ ان کی راے کا رُخ طے کرنے پر اثرانداز ہوا ہے۔ صحت کی سہولت کے مسئلے کو بھی ۹ فی صد نے اہم قرار دیا۔ گویا ’دہشت گردی‘ کا مسئلہ (جس پر امریکا نے ۷۰۰ ارب ڈالر خرچ کیے ہیں اور معیشت کو ۳ کھرب ڈالر کے بوجھ سے گراں بار کیا ہے) اور صحت کی سہولت کی ضرورت کو مساوی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حالانکہ امریکا میں علاج معالجے کا پورا نظام نجی سیکٹر میں ہے اور جن افراد کے پاس صحت کی انشورنس نہیں وہ بڑی مشکل میں مبتلا ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے اوباما نے انتخاب جیتنے پر جو تقریر شکاگو میں کی اور جو اس کی بہترین تقاریر میں سے ایک ہے، اس میں ایک بار بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ یا عراق، افغانستان اور اسامہ بن لادن کا ذکرنہیں کیا۔ یہ تقریر بُردباری، تحمل اور مصالحت کا شاہکار ہے۔
انتخاب کا مرحلہ تو پورا ہوا لیکن امریکا اور پوری دنیا میں اوباما کی فتح سے جو توقعات وابستہ کی گئی ہیں ان میں اب اوباما اور امریکا کا اصل امتحان ہے۔ اوباما نے اپنے تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل کیا تو اس خدشے کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس کا انجام سابق ڈیموکریٹک صدر کینیڈی جیسا ہوجائے۔
l پاکستان کے بارے میں پالیسی: اوباما کی انتخاب کے بعد کی تقاریر میں بہت احتیاط اور ٹھیرائو کی کیفیت ہے جو خوش آیند ہے، البتہ انتخابی مہم کے دوران جو باتیں اس نے افغانستان، پاکستان، القاعدہ، طالبان، اسرائیل اور بھارت کے بارے میں کہی ہیں ان میں تشویش کا بڑا سامان ہے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کی قیادت کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ پوری گہرائی کے ساتھ مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔
پاکستان کے بارے میں اوباما کے متعدد بیان ہیں مگر دو بیان خصوصیت سے توجہ طلب ہیں۔ پاکستان کے شمالی اور قبائلی علاقوںکے بارے میں اوباما صاف الفاظ میں کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ القاعدہ کی قیادت ان علاقوں میں پناہ گزیں ہوسکتی ہے اور وہ ان کے خلاف پاکستان کی حدود میں کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ اگر پاکستان خود کارروائی نہ کرے، یا نہ کرسکے تو ہم اسامہ بن لادن جیسے اعلیٰ سطح کے ہدف کو خود نشانہ بنائیں گے، اگر وہ ہماری نظر میں آجائے۔
پاکستان اور بھارت میں بہتر تفہیم کا راستہ ہموار کرنے اور کشمیر کے بحران کو حل کرنے کی کوشش تاکہ ان کی توجہ کا مرکز بھارت نہ رہے، جنگجوؤں کی طرف مبذول ہوجائے۔
یہ دونوں بیان زیادہ بالغ نظری سے تجزیے کے محتاج ہیں۔ ان کی بنیاد پر امریکا کی پالیسی میں کسی بنیادی تبدیلی کی توقع رکھنا خطرات سے خالی نہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے بارے میں اوباما سے کسی بنیادی تبدیلی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ عراق سے فوجیں ہٹا کر وہ انھیں افغانستان لانا چاہتا ہے۔ عراق میں امریکا کی ناکامی اس نے بظاہر تسلیم کرلی ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں اس کا تجزیہ مختلف ہے اور اس پہلو سے پاکستان کو بڑی تیاری کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح امریکا کو وہاں کی زمینی حقائق کو سمجھنے میں مدد دے، اور افغانستان سے بھی انخلا کی حکمت عملی کا راستہ ہموار کرے ورنہ پاکستان خود اپنے لیے یہ حکمت عملی وضع کرے۔ کشمیر کے بارے میں بھی ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے اور اگر کوئی دروازہ نہ سہی کھڑکی بھی کھلتی ہے تو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے مگرہمارے پائوں زمین پر رہیں اور اس نوعیت کی خوش فہمیوں کا شکار نہ ہوں کہ بس اب امریکا کشمیر کا مسئلہ حل کرا دے گا یا اوباما کے آنے کے بعد پاکستان کی سرحدی خلاف ورزیاںختم ہوجائیں گی، جیساکہ جنابِ وزیراعظم سے ایک بیان منسوب ہے۔
اسرائیل کے بارے میں اس کے بیانات اور فلسطین کے مسئلے کے اصل حقائق کے اعتراف سے شعوری اغماض بلکہ مسئلہ فلسطین کو نظرانداز کرنے کی کوشش کوئی اچھا شگون نہیں۔ پھر اوباما انتقالِ اقتدار کے لیے جو ٹیم بنا رہا ہے اس میں یہودی لابی اور بھارتی لابی کی بھرمار ہے۔ اس کی طرف سے جس شخصیت کی پہلی اہم تقرری عمل میں آئی ہے وہ الی نوائی ریاست کا ممبر کانگریس راحم ایمانیول ہے جو صرف یہودی ہی نہیں بلکہ معروف صہیونی اور اسرائیلی لابی کے سرکردہ ارکان میں سے ہے اور جس کی تقرری پر اسرائیل میں گھی کے چراغ جلائے گئے اور وہاں کے اخبارات نے برملا لکھا کہ: Our man in the White House(وہائٹ ہائوس میں ہمارا آدمی)۔
راحم ایمانیول کا باپ اسرائیل کا شہری اور ارگن جیسی دہشت پرست صہیونی تنظیم کا رکن تھا جس نے ۱۹۴۰ء میں فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے اور اسرائیلی ریاست کے قیام میں خون ریزی میں شرکت کی اور جو امریکا منتقل ہوجانے کے باوجود ۱۹۷۳ء کی جنگ میں اسرائیل کی فوج میں شرکت کے لیے گیا۔
اسی طرح اب تک کی اطلاعات میں نئی ٹیم میں بھارت سے امریکا منتقل ہونے والے چار افراد شریک کیے جاچکے ہیں جن میں سونل شاہ سب سے خطرناک ہے جس کا تعلق بی جے پی اور امریکا میں ہندوانتہا پسند تنظیموں سے رہا ہے۔ نیز ایک بھارتی ماہر انتظامیات کو عبوری ٹیم میں شامل کیا گیا ہے جس کا نام انجن مکرجی ہے۔ یہ دونوں اس ۱۵رکنی ٹیم کا حصہ ہیں جو انتقال اقتدار کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ امریکا کی پاکستان کمیونٹی کا کوئی رول دُور دُور نظر نہیں آ رہا۔ انتخابی مہم کے دوران مسلمان ووٹروں میں سے ۹۳ فی صد نے اوباما کو ووٹ دیا مگر اوباما نے مسلمانوں سے فاصلہ رکھا حتیٰ کہ ایک موقع پر اسٹیج سے دو مسلمان خواتین کو اس لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ اسکارف میں تھیں اور ان کے اسٹیج پر موجود ہونے کو کچھ حلقوں نے ناپسند کیا۔
ان سب امور کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اوباما کے صدر منتخب ہونے سے امریکا اور اس کی پالیسیوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور رونما ہوں گی۔ پاکستان اور مسلم ممالک کو سرجوڑ کر حالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینا چاہیے اور پاکستان اور مسلم دنیا کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مربوط حکمت عملی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ جس حد تک بھی راستے ملیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور جن نقصان دہ پہلوئوں کے سلسلے میں پیش بندی ممکن ہو اس کی سعی کرنی چاہیے۔ خوش فہمی خطرناک حد تک نقصان دہ ہوسکتی ہے لیکن مایوسی اور عدم تحرک بھی دانش مندی کا راستہ نہیں۔ اوباما کے لیے معاشی اور مالیاتی بحران بھی بہت بڑا چیلنج ہے اور سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اور مسلم ممالک کے لیے یہ موقع ہے کہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے جو نقصانات عالمِ اسلام اور خود امریکا کو ہورہے ہیں اور جن کا احساس امریکی عوام کو ہو رہا ہے، اس کی بنیاد پر مناسب حکمت عملی بنائیں اور فضا کو سازگار بنانے کے مؤثر انتظام (lobbying ) کا اہتمام کریں۔ اس طرح ہمارا اور امریکا کا مفاد ایک نکتے پر جمع ہوسکتا ہے اور ہمیں اس جنگ سے نجات مل سکتی ہے جس کا فائدہ اسرائیل اور بھارت کو ہو رہا ہے اور جس نے آزادی کی تحریکات کے پورے محاورے (idiom) کو متاثر کردیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امریکا کی بش انتظامیہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے ایک قابلِ مذمت واقعے کو جس طرح ایک نئی عالمی جنگ (Global War) کی شکل دی اور نظامِ انصاف و قانون کے تحت واقعے کے اصل مجرموں کے تعین اور سزا کو پسِ پشت ڈال کر افغانستان اور عراق پر فوج کشی کرکے قبضہ کیا اور پھر ساری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک خونی یلغار کا راستہ اختیار کیا، اس نے پوری دنیا خصوصیت سے مسلم دنیا کو، ایک نہایت تباہ کن صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
پاکستان کے اُس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے قوم کی سوچ اور احساسات و عزائم کے برعکس، بلکہ خود اپنی فوج کی قیادت کے ایک معتدبہ حصے کے مشورے کے خلاف جس طرح واشنگٹن کے ایک ٹیلی فون پر گھٹنے ٹیک دیے اور تمام سیاسی اصولوں اور سفارتی آداب کو بالاے طاق رکھ کر افغانستان کی دوست حکومت کے خلاف امریکا کی فوج کشی کے لیے اپنا کندھا پیش کردیا، اس نے پاکستان اور افغانستان دونوں کو جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں دے دیا۔ اس سات سالہ جنگ میں اس کا اعلان شدہ کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا میں فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، افغانستان اور عراق جیسے دو عظیم ملک بالکل تباہ ہوگئے، ساری دنیا میں عدمِ تحفظ میں اضافہ ہوا، آزادیوں پر نت نئی پابندیاں عاید کی گئیں، بین الاقوامی قانون اور معروف اصولِ انصاف پامال ہوئے، لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ مالی اعتبار سے آج کی دنیا میں غربت، افلاس، بے روزگاری، بھوک اور بیماری کا دور دورہ ہے اور ۷۰ فی صد انسانیت ۲ڈالر یومیہ سے کم پر گزر بسر کر رہی ہے۔نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پروفیسر جوزف اسٹگ لِٹز (Joseph Stiglitz) کے مطابق اس عالمی جنگ کے نتیجے میں ۲۰۰۶ء تک آج کی دنیا ۳کھرب ڈالر کا خسارہ برداشت کرچکی ہے،(۱) جب کہ اس رقم کا دسواں حصہ بھی دنیا سے غربت کو دُور کرنے کے لیے استعمال ہوتا تو۲ ارب انسان غربت و افلاس کے پنجے سے آزاد ہوسکتے تھے۔
دنیا کے دانش وروں کی ایک بڑی تعداد ان سات برسوں میں جاری رہنے والی اس امریکی پالیسی کا جائزہ لے کر کھلے لفظوں میں کہہ رہی ہے کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور خسارے اور بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ امریکا کے مشہور مجلہ فارن اَفیرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر،اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں امریکا کے چار چوٹی کے مفکرین بیک زبان کہتے ہیں (اور ان میں اقوامِ متحدہ میں امریکا کا سفیر ہال بروک بھی شامل ہے) کہ امریکا کی جنگی حکمت عملی دونوں ممالک میں، یعنی عراق اور افغانستان میں ناکام رہی ہے اور ہمیں اپنی پالیسیوں پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تقریباً یہی نتیجہ اس سروے سے بھی حاصل ہوتا ہے جو امریکا کے ایک اور بڑے اور موقر جریدے فارن پالیسی کے تازہ شمارے (ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں شائع ہوا ہے یعنی Terrorism Index۔
اس سروے کی رُو سے امریکا کے اُمور خارجہ کے اولین صف کے ۱۰۰ مفکرین اور تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکا کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا ۷۰ فی صد زیادہ خطرناک جگہ بن گئی ہے۔ ۹۰ فی صد کی راے یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار رہا ہے۔
ان حالات میں اب امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ناٹو کے فوجی کمانڈر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی قوت کا استعمال مسائل کا حل نہیں بلکہ سیاسی حل کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں افغانستان میں خود طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں اس ماہ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترک اجلاس اس امر پر غور کرنے کے لیے ہوا ہے کہ ملک کی سیکورٹی پالیسی کہاں تک درست ہے اور کیا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟ سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کی وہ شریکِ اقتدار سیاسی جماعتیں جو سابق صدر مشرف کے دور میں ان کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی پر تنقید کرتی تھیں، مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اس پالیسی پر نہ صرف گامزن ہیں بلکہ زیادہ سختی اور کشت و خون میں ہوش ربا اضافے کے ساتھ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ زرداری صاحب تو شب وروز یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ میری جنگ ہے، پاکستان کی جنگ ہے، اور وہ آخری دم تک اس میں مصروف رہیں گے۔(۱)
اس موقعے پر ہم چاہتے ہیں کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں پرویز مشرف اور صدر زرداری کی امریکی پالیسی کو پاکستان کی پالیسی بنا لینے کے طرزِعمل کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیں اور قوم اور پارلیمنٹ کو اس طرف متوجہ کریں کہ وقت کی اصل ضرورت اس ناکام پالیسی کو کسی دوسرے عنوان سے جاری رکھنا نہیں بلکہ اسے یکسر تبدیل کرنا ہے۔ اس جائزے میں ہمارا اصل موضوع امریکا کی پالیسی سے زیادہ پاکستان کی پالیسی ہوگا اور اسے نظرانداز کرتے ہوئے کہ آیندہ نومبر کے صدارتی انتخابات کے بعد امریکا کیا پالیسی اختیار کرتا ہے، ہم یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کو اپنے ملکی مفاد اور قومی مقاصد اور اُمنگوں کی روشنی میں اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ ہم جس طرح امریکا کی پالیسی کے خادم اور آلۂ کار بن گئے ہیں، وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ اس لیے اس پالیسی کو جتنی جلدی تبدیل کرلیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
جنرل مشرف نے جن حالات میں اور جن وجوہ سے ستمبر ۲۰۰۱ء میں پالیسی کا یوٹرن لیا اس پر ان صفحات میں ہم کئی بار گفتگو کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی ضرورت نہیں، البتہ جو بات سامنے رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ پاکستان پر جو پالیسی مسلط کی گئی وہ کسی قومی مشاورت کے نتیجے میں نہیں بنائی گئی تھی اور نہ اس کا انحصار کسی اداراتی فیصلے پر تھا۔
Pew Global Attitude Project کی رپورٹ What the World Thinks in 2002 کی رُو سے ۲۰۰۲ء میں پاکستان کی آبادی کے ۴۵ فی صد نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کی، جب کہ ۲۰ فی صد نے (جو ۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۱۶ فی صد رہ گئی تھی) اس کی تائید کی۔ بحیثیت مجموعی امریکا کا مقام و مرتبہ (US image) جو پاکستان میں ۲۰۰۰/۱۹۹۹ء میں ۲۳ فی صد کی نگاہ میں مثبت تھا، وہ نائن الیون اور اس کے ردعمل کی روشنی میں تبدیل ہوا اور ۲۰۰۲ء کے سروے کے مطابق صرف ۱۰ فی صد کے ذہن میں امریکا کا مثبت تصور تھا۔
ایک دوسرے عالمی سروے World Public Opinion Org کے مطابق اس سوال کے جواب میں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کا فائدہ کس کو پہنچا؟ ۵۶ فی صد نے کہا کہ امریکا کو۔ صرف ۶ فی صد کی راے تھی کہ پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے، جب کہ ۲۹ فی صد کی راے یہ تھی کہ پاکستان کو اس کا نقصان ہوا ہے۔ ستمبر۲۰۰۷ء میں منعقد کیے جانے والے اس سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کے ۷۲ فی صد کی نگاہ میں ایشیا میں امریکی فوجیوں کی موجودگی پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد کی نگاہ میں خطرہ تو ہے اور اہم ہے مگر اس کی سنگینی اتنی اہم نہیں۔ صرف ۶ فی صد کی نگاہ میں امریکا کوئی خطرہ نہیں۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں منعقد کیے جانے والے ایک سروے کی روشنی میں پاکستان کی آبادی کے ۶۴ فی صد کی نگاہ میں دہشت گردی کے خلاف فوج کی جنگ غلط ہے اور ۸۹ فی صد نے کہا کہ پاکستان کو امریکا کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اسی طرح ۸۳ فی صد کی نگاہ میں افغانستان میں امریکا کی فوج کشی پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔ راے عامہ کے ایک اور جائزے کی رُو سے، جو امریکی ادارے New America Foundation نے مئی جون ۲۰۰۸ء میں منعقد کیا اور جو Terror Free Tomorrow کے عنوان سے شائع کیا ہے، آج بھی ۷۴ فی صد پاکستانی القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ کو برحق نہیں سمجھتے۔ نیز آبادی کے ۵۷ فی صد کی راے میں پاکستان کو امریکا کے مقابلے میں اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے، جب کہ ۵۲فی صد امریکا کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
مشرف اور زرداری صاحب کی پالیسیوں کو عوامی تائید حاصل نہیں۔ دیکھتے ہیں منتخب پارلیمنٹ کہاں تک عوام کے جذبات و توقعات کی ترجمانی کرتی ہے۔
اول توقوت کا ہر استعمال دہشت گردی نہیں۔ دہشت گردی کا اطلاق صرف قوت اور تشدد کے ہتھکنڈوں کے اس استعمال پر ہوتا ہے جس میں کچھ خاص، بالعموم سیاسی اہداف کے حصول کے لیے اور اپنے مقاصد کی طرف توجہ مرکوز کرانے کے لیے دوسروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں مخالف قوت کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے اور بالعموم فوری ہدف (victim) اور اصل مقصد (target) الگ الگ ہوتے ہیں۔
اس تعریف کی روشنی میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات جرم ہوتے ہوئے بھی دہشت گردی قرار نہیں دیے جائیں گے، مثلاً تاوان کے لیے اغوا، محض دماغی انتشار اورفتور کی وجہ سے لوگوں کی جانوں کے اتلاف کے واقعات یا دوسرے مافیا اور مجرم عناصر کی سرگرمیاں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی جو اہم شکلیں پاکستان میں پائی جاتی ہیں ان میں فرقہ وارانہ تشدد، لسانی بنیادوں پر دہشت گردی اور علاقائی تحریکوں یا نیم قومی بغاوتیں (sub-national insurgencies) نمایاں ہیں۔ لیکن سب سے اہم شکل وہ دہشت گردی ہے جو خالص سیاسی بنیادوں پر، امریکا کی پالیسیوں اور خونی کارگزاریوں کے ردعمل میں رونما ہوئی ہے اور جس کی لپیٹ میں آج تمام ہی قبائلی ایجنسیاں آچکی ہیں اور آباد علاقوں میں سے سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان، پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد بھی اس کی زد میں ہیں۔ اس کی اصل بنیاد اور محرک افغانستان پر امریکا کی فوج کشی اور دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسلمان ایشوز کے سلسلے میں امریکا کی پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان علاقے غیروں کے قبضے میں ہیں اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ نیز اُن کو ریاست کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس نوعیت کی دہشت گردی میں کمیت اور کیفیت ہردو اعتبار سے بے محابا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت دہشت گردی کی یہی وہ شکل ہے جس سے فاٹا، باجوڑ اور سوات وغیرہ میں فوج کو سابقہ درپیش ہے۔ بلاشبہہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں، خصوصیت سے کرم ایجنسی میں۔ بلوچستان میں بالخصوص علاقائی اور نیم قومی بنیادوں پر تصادم نے دہشت گردی کی شکل اختیار کرلی ہے، جہاں حکومت نے فوج کشی کر کے شہری آبادیوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور محبِ وطن عناصر کو تشدد اور علیحدگی پسندی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔
ہم اس بحث سے جو نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں وہ حکمت عملی کا یہ سقم ہے کہ ہرہرنوعیت کی دہشت گردی کا صحیح صحیح تعین کر کے ہر ایک کے لیے اس کے مزاج، نوعیت، مسائل اور اصلاحِ احوال کے حوالے سے واضح حکمت عملی تیار نہیں کی گئی بلکہ سب کو ایک عمومی عنوان کے تحت گڈمڈ کردیا گیا ہے۔ اس کا علاج فوج کشی اور حکومت کی نام نہاد عمل داری (writ) کے قیام کے لیے قوت کے بے محابا استعمال کو قرار دے دیا گیا ہے جس کے تباہ کن نتائج رونما ہو رہے ہیں۔
اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ نہ مرض کی صحیح تشخیص کی گئی، نہ مختلف امراض کا الگ الگ تعین ہوا، نہ مریض کے مزاج اور کیفیت کا مطالعہ کیا گیا۔ بس امریکا کے ایک حکم پر اس علاقے کے امن کو تباہ کیا گیا، اسامہ بن لادن اور مُلا عمر تو صرف عنوان تھے، اصل مقصد افغانستان اور عراق پر قبضہ اور اس پورے علاقے کے سیاسی نقشے کی تشکیلِ نو تھی اور جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسی جنگ میں اپنے ملک کو جھونک دیا جس کا ہم سے کوئی تعلق نہ تھا حتیٰ کہ نائن الیون کے کرداروں میں کسی سے دُور و نزدیک کسی پاکستانی کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ مگر اس پرائی جنگ کو پہلے ہم نے اپنی جنگ بنایا اور پھر ملک کی فوجوں کو اپنی ہی قوم کے خلاف صف آرا کردیا۔ ۲۰۰۴ء سے پہلے کوئی ایک حملہ پاکستانی فوج یا کسی پاکستانی قومی اثاثے پر نہیں ہوا مگر جب ہماری فوجوں نے اپنے ہی شہریوں پر بم باری اور معصوم جانوں کے اتلاف، علاقوں کی مسماری، سیکڑوں افراد کے جبری اغوا اور ہزاروں کی گرفتاری کا راستہ اختیار کیا تو دوسری طرف سے بھی دہشت گردی کا طوفان اُٹھا اور دونوں کے ٹکرائو کے نتیجے میں جان و مال کا مزید نقصان ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اور عجیب و غریب عنصر طالبانائزیشن کے نام سے شامل کرلیا گیا اور اس کا حل بھی طالبان کا مکمل خاتمہ سمجھ لیا گیا۔ طالبان کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہوسکتا ہے اور ہم نے بار بار کہا ہے، اس کے طریق کار یعنی جبر اور قوت کے ذریعے سے خیالات کو مسلط کرنا بھی اسلام اور حکمت عملی دونوں اعتبار سے غلط اور نقصان دہ ہے مگر طالبان کی پوری تحریک کو دہشت گرد قرار دے کر صفحۂ ہستی سے مٹانے اور بلاامتیاز ہر اس شخص اور گروہ کو ختم کرنے کی کوشش جس پر طالبان کا شبہہ ہو، صریح ظلم ہے اور دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ لیکن بش اور مشرف دونوں کی پالیسیاں اسی مفروضے پر مبنی تھیں کہ طالبان، اور ان کی پیداکردہ دہشت گردی کو نیست و نابود کرنا ان کی پالیسی کا اصل ہدف ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ فطری طور پر یہ نکلا کہ طالبان کی تحریکِ مزاحمت (جس کا اصل مقصد بیرونی تسلط سے نجات تھا) اور بھی قوی ہوئی۔ ۲۰۰۳ء میں بش نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں مکمل امن قائم کردیا ہے اور طالبان مفقود ہوگئے ہیں (have been eliminated)۔ اس ’کامیابی‘ کے بعد بش صاحب نے عراق پر یلغار کی مگر حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کے بعد طالبان کی قوت میں مسلسل اضافہ ہوا اور آج برطانیہ، ناٹو بلکہ خود امریکا ان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہو رہا ہے مگر پاکستان پر یہی دبائو ہے کہ کسی نام نہاد دہشت پسند گروہ سے بات چیت نہ کرو اور مذاکرات کی جب کوشش کی گئی اسے امریکا نے سیاسی یا عسکری مداخلت کر کے سبوتاژ کردیا۔ اب امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر اسلام آباد آکر یہی فرمان جاری کرگئے ہیں کہ مذاکرات کی گنجایش نہیں۔
پھر اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک حماقت یہ کی گئی ہے کہ القاعدہ، افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو ایک وحدت سمجھ کر تینوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے فلسفے کے تحت دشمن خیال کر کے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بش صاحب کے ساتھ زرداری صاحب اور رحمن ملک یہی فتویٰ دے رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تینوں الگ ہیں اور ان کے مقاصد، طریق کار، اہداف، زیرمعاملہ مسائل (bargaining issues) مختلف ہیں۔ اول تو یہ ایک نہیں، اور اگر ایک ہوتے ہیں جب بھی حکمت عملی کا تقاضا یہی تھا کہ ان میں فاصلہ رکھا جاتا، پیدا کیا جاتا، اور الگ الگ معاملہ کرنے کی کوشش ہوتی مگر ایسی سفارت کاری اور سیاسی حکمت عملی کی توقع نہ بش سے تھی اور نہ مشرف نے اس کا کوئی عندیہ دیا اور نہ زرداری اور رحمن ملک اس کا کوئی اشارہ دے رہے ہیں۔
اس پوری پالیسی کا ایک بڑا ہی سنگین پہلو یہ ہے کہ اس میں اصل مسئلہ، یعنی امریکا کی اس علاقے میں فوج کشی اور ایک خیالی دشمن کے خلاف جنگ کو نظرانداز کرکے طرح طرح کے ’قربانی کے بکرے‘ (scape goats) تراشے گئے ہیں۔ کبھی دینی مدارس کا ہوّا دکھایا جاتا ہے، کبھی جہاد کو خطرہ بناکر پیش کیا جاتا ہے، کبھی ’انقلابی اسلام‘، کبھی ’سیاسی اسلام‘ اور کبھی ’اسلامی فاشزم‘ کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی غربت، افلاس، بے روزگاری اور جہالت کو ساری دہشت پسندی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن اصل سبب، یعنی امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیاں، دوسروں کے حقوق اور وسائل پر غاصبانہ قبضے اور اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے عسکری، سیاسی اور معاشی قوت کے بے دریغ استعمال پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ حالانکہ اب تو ان تمام مغالطوں کا پردہ خود مغربی محققین اور تجزیہ نگار کھلے بندوںچاک کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم صرف ایک مشہور امریکی ماہر اقتصادیات پروفیسر کرَگر (Kruggar) کی تازہ ترین کتاب سے اس کی کئی برسوں پر پھیلی ہوئی اعدادوشمار پر مبنی تحقیق کے نتائج پیش کرتے ہیں اور جو صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ جب تک امریکا اور مغربی اقوام کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی نہیں آتی، ظلم کے اس نظام کی مزاحمت کی تحریکوں سے نجات ممکن نہیں، یہ قوت سے نہیں دبائی جاسکتیں۔ مسئلے کا حل سیاسی اور معاشی ہے اور عدل وا نصاف کی روش کو اختیار کیے بغیر ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت ختم نہیں ہوسکتی:
دہشت گردی کے اقدامات کا الزام معاشی حالات یا تعلیم کی کمی پر ڈالنے میں ایک مخصوص سطحی اپیل ہونے کے باوجود اس امر کے لیے متفقہ شہادت موجود ہے کہ مادی آسایشوں سے محرومی یا ناکافی تعلیم کو دہشت گردی کی حمایت یا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شرکت کی ایک اہم وجہ کی حیثیت سے مسترد کردیا جائے۔ دہشت گردی کے مقبول عام اسباب ___ غربت، تعلیم کی کمی، یا یہ نعرہ کہ ’’وہ ہمارے طرزِحیات یا آزادی سے نفرت کرتے ہیں‘‘___ کی سرے سے کوئی باقاعدہ، عملی یا تجرباتی (empirical) بنیاد نہیں ہے۔ (ص ۲)
متعدد اداراتی اور سرکاری مطالعوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد غریبوں کی صفوں میں سے آنے کے بجاے اعلیٰ تعلیم یافتہ، متوسط طبقے، یا زیادہ آمدنی والے طبقے سے آرہے ہیں۔ جن لوگوں نے مشاہداتی اور تجرباتی بنیادوں پر سنجیدگی سے اس مسئلے کا مطالعہ کیا ہے، ان کے درمیان اس پر کوئی بحث نہیں ہے کہ غربت کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے۔ (ص ۳)
زیادہ تر دہشت گردوں کے لیے ذاتی مادی مفاد محرک نہیں ہوتا۔ اگر ایسی صورت ہو تو آپ خودکش مشنوں کے لیے رضاکاروں کی کثرت کا کیا سبب بیان کریں گے؟ اس کے بجاے، دہشت گردوں کا اصل محرک وہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں جن کے بارے میں انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی کارروائیوں سے ان مقاصد کو تقویت ملتی ہے۔ (ص ۴)
دہشت گرد اس لیے نہیں بڑھ بڑھ کر وار کر رہے ہیں کہ وہ بے حد غریب ہیں۔ وہ تو علاقے کے سیاسی(geopolitical) مسائل پر اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے محرکات کا غلط تصور ہمیں مسئلے کے حقیقی اسباب سے نمٹنے سے روک سکتا ہے۔ (ص۴)
میں یقین رکھتا ہوں کہ مغرب کے لیے یہ اندازہ نہ کرنا کہ ہماری پالیسیاں منفی یا پُرتشدد نتائج تک لے جاسکتی ہیں غلط ہوگا۔(ص ۵)
(What Makes a Terrorist: Economics and The Roots of Terrorism, by Alan B. Kruggar, (Professor of Economics and Public Policy, Princeton University), Princeton University Press, 2007, pp 2)
ان حالات میں صدر زرداری نے جس طرح بش اور مشرف کی پالیسیوں کو بدستور جاری رکھا ہے وہ پاکستان کی سلامتی، اس کے استحکام بلکہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جب امریکا اور یورپ کے دانش ور اور تجزیہ نگار پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ افغانستان، عراق اور ساری دنیا میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ناکام ہوچکی ہے اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے، تصادم میں مصروف تمام قوتوں سے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، بش اور زرداری صاحب وہی پرانی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج روزانہ معصوم انسانوں کا خون بہا رہی ہے اور امریکی اور ناٹو افواج افغانستان تک ہی نہیں خود پاکستان کی سرزمین میں آگ اور خون کی بارش برسا رہی ہیں اور حکومت کا یہ حال ہے کہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم!
اس سات سالہ جنگ کا اگر جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ پوری دنیا میں تشدد، دہشت گردی اور عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے اور مہذب دنیا نے اجتماعی زندگی کے لیے جو اصول صدیوں کی محنت اور قربانی سے وضع کیے تھے، وہ پامال ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں شرکت سے جو نقصانات اٹھائے ہیں ان کا مختصراً ذکر کردیں:
۱- ملک بھر میں امن و امان اور جان و مال کے تحفظ کی پامالی اور ہر طرف عدمِ تحفظ کا سماں ہے۔ جو شخص بھی صبح گھر سے نکلتا ہے اس کے صحیح سلامت شام کو گھر واپس آنے کا اطمینان باقی نہیں رہا ہے۔ جو شمالی علاقہ جات کبھی امن کا گہوارا تھے، وہ جنگ و جدال اور بدامنی اور عدمِ تحفظ کی بدترین تصویر پیش کر رہے ہیں۔ جہاں کبھی پاکستان کی افواج کا عزت و احترام سے استقبال کیا جاتا تھا، وہاں ان کے بالمقابل صف آرا افواج اور قبائلی سلسلے ایک دوسرے کو نشانہ بنارہے ہیں اور تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق صرف ان علاقوں میں ۱۴۰۰ سے زیادہ فوجی جوان اور افسر جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور ۳۵۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، جب کہ قبائل کے بارے میں اندازہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۲ہزار سے زیادہ ہے اور زخمیوں کی تعداد بھی ۲ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح مختلف اندازوں کے مطابق ۵ سے ۱۰ہزار عام شہری زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب تک اس علاقے کے ۴لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ وہ سب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ نہ ان کے رہنے کا انتظام ہے نہ خوراک کا بندوبست ہے اور نہ دوا دارو کی سہولت ہی میسر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جو حقیقی معاشی نقصان ملک کی آبادی کو ہوا ہے جس میں جنگ کے اخراجات کے علاوہ مادی نقصانات اور معیشت پر بلاواسطہ اور بالواسطہ اثرات شامل ہیں۔ نقصان کی یہ رقم سرکاری اندازوں کے مطابق ۱ئ۲ کھرب روپے ہے جو تقریباً دو سال کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کے برعکس امریکا نے جو نام نہاد مدد دی ہے وہ ۱۱ بلین ڈالر ہے۔ اور اس کا ایک حصہ خود اس کے اپنے افراد اور اداروں پر خرچ ہوا ہے۔ گویا اس سے تین گنا زیادہ نقصان ملک کی معیشت کو ہوچکا ہے___ رہا انسانی جانوں کا نقصان تو اس کی قیمت تو لگائی ہی نہیں جاسکتی۔
۲- اس جسمانی، مادی اور معاشی نقصان کے ساتھ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری دائو پر لگ گئی ہے۔ ملک کی قیادت کو خود اپنی پالیسیوں پر کوئی اختیار نہیں۔ امریکا ہماری سیاست اور معیشت کی اس طرح صورت گری کر رہا ہے جس طرح برطانوی دور میں برطانیہ کا وائسرائے کیا کرتا تھا۔ امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت نچلی سطح تک حکمرانی اور مداخلت کا ارتکاب کر رہی ہے، حتیٰ کہ سیاسی قیادت کا انتخاب بھی واشنگٹن میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہماری سرحدات غیرمحفوظ ہیں۔ امریکی اور ناٹو افواج روزو شب ہماری ہوائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور ان کا ہاتھ روکنے اور جوابی کارروائی کرنے کی کسی میں ہمت نہیں۔
گذشتہ تین سال میں ۶۷ بار امریکی ناٹو افواج نے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرکے سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔ ان ۶۷ میں سے ۳۶ واقعات مشرف کے دور میں ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۸ء تک ہوئے، جب کہ موجودہ حکومت کے دور میں مارچ ۲۰۰۸ء سے اکتوبر۲۰۰۸ء تک ۳۱ واقعات ہوچکے ہیں اور ہماری آنکھیں اب بھی نہیں کھل رہیں۔
۳- ۲۰۰۱ء سے پہلے افغانستان میں ایک ایسی حکومت تھی جو پاکستان کی بہترین دوست تھی۔ کوئی شکایت پاکستان کو ان سے اور ان کو پاکستان سے نہیں تھی بلکہ گذشتہ ۶۱سال میں افغانستان کی مختلف حکومتوں کا رویّہ پاکستان سے دوستانہ نہیں رہا۔ صرف ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک ایسے تعلقات تھے کہ کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی ہے اور مشرف صاحب نے علانیہ طور پر کہا تھا کہ ہمیں ضمانت دی گئی ہے کہ یہ فوجی ایکشن بہت کم وقت کے لیے ہوگا اور ہدف بھی بہت متعین ہوگا (short and targeted)۔ نیز یہ ضمانت بھی دی گئی ہے کہ شمالی افغانستان کے پاکستان مخالف عناصر کو کوئی کردار نہیں دیا جائے گا___ مگر ہوا کیا؟ شمالی افغانستان کے عناصر کی طرف سے جتنی پاکستان مخالفت اس دور میں ہوئی ہے اور پاکستان کے خلاف جو شعلہ بیانی اور عملی اقدامات اس دور میں کیے جارہے ہیں اور پھر اسی زمانے میں بھارت کو افغانستان میں جو پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور جس طرح وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، اس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی___ یہ ہے مشرف کی افغان پالیسی کا ماحصل!
۴- کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ رہیں گے اور انھیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کی نہ صرف حفاظت ہوگی بلکہ اس مسئلے کا نہ صرف حل بہت جلد سامنے آجائے گا بلکہ امریکا اس میں اہم کردار ادا کرے گا۔ لیکن ہوا کیا؟ اس زمانے میں نہ صرف ایٹمی اثاثوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہوئے ہیں اور ہیں اور پاکستان کو ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے بلیک میل کرنے کی جو عالمی مہم چلی، اس نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ نیز کشمیر پر صاف لال جھنڈی دکھا دی گئی اور مشرف اور زرداری دونوں اس سطح تک گر گئے کہ کشمیریوں کے جہاد کو بھی ’دہشت گردی‘ قرار دینے لگے اور جو عظیم تحریکِ مزاحمت اور آزادی وہاں برپا ہے، اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام اس قیادت نے انجام دے کر وہاں کے عوام کو پاکستان کی طرف سے مایوسی کی دلدل میں دھکیل کر پاکستان کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضربِ کاری لگائی___ یہ ہیں اس پالیسی کے چند منفی اور تباہ کن اثرات۔
بات بہت واضح ہے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ساری جنگ ایک گھنائونا سامراجی کھیل ہے اور جب تک ہم اس جنگ کے دست کش ہوکر اپنا راستہ الگ نہیں نکالتے، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ اس کے لیے آزاد خارجہ پالیسی اور سلامتی کے ایک مختلف مثالیے کی ضرورت ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس ادراک کے ساتھ کہ ہماری منزل، ہمارے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور کس طرح وہ امریکا اور سامراجی طاقتوں کے مقاصد اور اہداف سے مختلف ہیں۔ رخ کی تبدیلی پہلی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، سلامتی، عزت و وقار اور مفادات کا تحفظ اصل مقصود ہے۔ امریکا کی جنگ سے قطعی علیحدگی (de-linkage) اس کا فوری تقاضا ہے۔ ہم اپنے اندرونی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں لیکن جب تک افغانستان پر امریکی قبضہ رہے گا، پورے علاقے میں شورش اور عدم استحکام باقی رہے گا۔ اس جنگ کا حصہ بن کر ہم کبھی بھی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے، اس لیے پہلی ضرورت قطعی علیحدگی، خود اپنی سلامتی کی حکمت عملی کا ادراک اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔
دوسری ضرورت قوم کو اعتماد میں لینے کی ہے۔ تمام حقائق قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے آنے چاہییں۔ جو معاہدات امریکا سے ہوئے ہیں وہ سامنے آنے چاہییں اور ان پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ہم امریکا کی گرفت سے نکل کر خودانحصاری کی بنیاد پر اپنی پالیسی بناسکیں اور ملک کو قوم کی تمنائوں اور آرزوئوں کے مطابق ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ دھوکے اور کہہ مکرنیوں سے کچھ حاصل نہیں۔ سچ اور حقائق کی بنیاد پر پالیسی سازی میں ہی قوم کی نجات ہے۔
تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو بھی اندرونی مسائل ہیں، خصوصیت سے دہشت گردی اور تصادم کی وہ کیفیت جو اس وقت شمالی علاقہ جات میں پائی جاتی ہے اور سارے ملک کو متاثر کر رہی ہے، اس کا حل محض طاقت کا استعمال نہیں۔ فوجی حل ایک خام خیالی اور تباہی کا راستہ ہے۔ برطانیہ، روس، امریکا کوئی بھی اس علاقے میں فوجی قوت سے مسائل کو حل نہیں کرسکا۔ اس کا واحد راستہ سیاسی گفت و شنید، مفاہمت کے روایتی طریقوں کا استعمال اور مذاکرات کے ذریعے انصاف اور دستور و قانون کی بالادستی کے حصول کے لیے سیاسی حل ہے۔ اس کے لیے معاملے کے سب فریقوں کو شریک کرنا اور افہام و تفہیم کے ذریعے اعتدال کی راہ کا حصول اور سیاسی معاہدہ اور انتظامی دروبست ضروری ہے۔ اس کے سوا کوئی راستہ امن و آشتی، صلح و صفائی اور اچھی حکمرانی اور خوش حالی کا راستہ نہیں۔
یہ وہ تین بنیادیں ہیں جن سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومت کو مجبور کرے کہ اس فریم ورک میں مسائل کا حل تلاش کرے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ۸ اکتوبر کو شروع ہوا اور ۲۲ کو ختم ہوا۔ ایک ۱۶ رکنی کمیٹی نے ۹گھنٹے کے بحث و مباحثے کے بعد ایک متفقہ قرارداد منظور کی جو ایک تاریخی اقدام ہے۔ پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں قادیانی مسئلے پر ایک تاریخی فیصلہ کیا تھا اور اب ۲۰۰۸ء میں قومی سلامتی کے مسئلے پر ایک مثبت اقدام کیا ہے۔ یہ صرف ایک آغاز ہے لیکن اس میں یہ امکانات مضمر ہیں کہ سلامتی اور خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل ہوجائے___اور امریکا اور مشرف کی پالیسیوں کے چنگل سے ملک و قوم نکل سکیں۔ اس قرارداد کی قوت یہ ہے کہ یہ متفق علیہ ہے اور اس کا رخ درست ہے، لیکن اس کی کمزوری یہ ہے کہ بڑے اہم معاملات اشاروں میں بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ کے انتخاب میں بھی بہت سی نزاکتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اس کے درج ذیل پہلو اہم ہیں اور تبدیلی کے رخ کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن اس قرارداد، اس میں طے کردہ اصول اور بیان کردہ نقشۂ راہ کا اصل امتحان اس پر عمل درآمد ہے۔ اگر حکومت دیانت داری سے اس پر عمل کرتی ہے تو ایک روشن مستقبل کے امکانات موجود ہیں۔
۱- اس اعلامیے میں یہ پیغام واضح طور پر موجود ہے کہ پارلیمنٹ اور قوم مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس پالیسی کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے اور یہ حکومت اور پارلیمنٹ کا امتحان ہے کہ وہ متفقہ قرارداد میں دیے گئے اصولوں اور لائحہ عمل کے مطابق بنیادی تبدیلی لانے کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے۔
۲- پارلیمنٹ نے ایک آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش ظاہر کی ہے اور ملکی سلامتی سے متعلق حکمت عملی پر فوری نظرثانی اور دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کو نئے تناظر میں دیکھنے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ درحقیقت پارلیمنٹ نے مستقبل کی پالیسی کی سمت متعین کردی ہے۔ اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ عوامی نمایندوں کی تجاویز کو عملی جامہ پہنائے اور ملک کو اس تباہ کن صورت حال سے نکالے جن کا سبب پرویز مشرف کی اختیار کردہ پالیسیاں اور ان کا تسلسل ہے۔
۳- پارلیمنٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ طاقت کا استعمال اور مذاکرات بیک وقت نہیں ہوسکتے۔ قرارداد میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ اس وقت مذاکرات ہی مسائل کے حل کی اصل راہ ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ دیرپا امن، افہام و تفہیم اور مذاکرات سے ہی حاصل کیاجاسکتا ہے۔ فوجی کارروائی، مذاکرات اور ترقی کی تین نکاتی حکمت عملی کو پارلیمان نے دو نکات یعنی ترقی اور مذاکرات تک محدود کردیا ہے۔ فوجی کارروائی کو چودہ نکاتی لائحہ عمل سے یکسر خارج کردیا گیا ہے، تاہم قانون کی بالادستی، دستور اور انصاف کے اصولوں کے احترام کو یقینی بناکر حکومتی عمل داری ضرور قائم کی جانی چاہیے۔
۴- قرارداد میں نہایت واضح انداز میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلح افواج کو متاثرہ علاقوں سے واپس بلا لیا جائے اور جس قدر جلد ممکن ہو جرگے اور ایف سی کے ذریعے امن کی بحالی کا روایتی طریقہ اپنایا جائے۔
۵- پارلیمنٹ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ دہشت گردی کو اس کی وجوہات ختم کیے بغیر کم نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقوں کو امن کے عمل میں شامل کر کے دہشت گردی کی اصل وجوہات کو ختم کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔
۶- متفقہ قرارداد میں صرف تجاویز پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اعلامیے میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے متفقہ قرارداد میں بیان کردہ اصولوں اور پالیسی کے رہنما خطوط کے مطابق عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔
اس قرارداد میں امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے کہ پاکستانی قوم اپنے ملک اور خطے میں امن و آشتی کی خواہاں ہے، تاہم غیرملکی فوجوں کی طرف سے ملکی سرحدات کی پامالی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی اور نہ قوم سابقہ حکومت کی شروع کردہ پسپائی اور بزدلی پر مبنی پالیسی کو جاری رکھنے پر تیار ہے۔ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ بلاشبہہ ہمیں جنگ جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور قوم اس صورت حال کو اپنی تیار کردہ حکمت عملی کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے نہ کہ دبائو، جبر اور معاشی بلیک میلنگ کے ذریعے مسلط کردہ بیرونی پالیسی کے ذریعے۔
متفقہ قرارداد یہ بھی واضح کرتی ہے کہ فاٹا، باجوڑ اور سوات میں پیدا ہونے والی صورت حال افغانستان پر امریکی قبضے کا شاخسانہ ہے، تاہم فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصب کی بنا پر جاری دہشت گردی کو ان کی نوعیت کے مطابق حل کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھا کر جرائم میں ملوث عناصر سے بھی سختی سے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق نبٹا جائے اور پھر سیاسی مسائل کو سیاسی عمل کے ذریعے حل کیا جائے اور عوام کے اصل مسائل کو انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے دُور کیا جائے۔
اس قرارداد میں جناب آصف علی زرداری کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے۔ اب پارلیمنٹ نے پالیسی کا رخ متعین کردیا ہے اور وہ بھی اس کے پابند ہیں۔ وہ جو گل افشانیاں فرماتے رہے ہیں، اب ان کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ نے قوم کی آواز کو پالیسی کے خطوطِ کار اور ایک نقشۂ کار کی شکل میں متفقہ طور پر طے کردیا ہے۔ صدر اور فوج اس پالیسی کے تابع ہیں اور کسی کو بھی خواہ وہ ایوانِ صدر میں مقیم ہو یا سرحدپار سے مداخلت کی صلاحیت رکھتا ہو، اسے سبوتاژ کرنے کا اختیار نہیں۔ لفظی و معنوی دونوں اعتبار سے اس پالیسی کے نفاذ کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہماری نظر میں جناب آصف علی زرداری پاکستان کی صدارت کے لیے بوجوہ مناسب امیدوار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے جناب سعیدالزماں صدیقی صاحب کو اپنے ووٹوں کا حق دار سمجھا۔ لیکن جب انتخابی ادارے کی اکثریت نے زرداری صاحب کو صدر منتخب کرلیا تو ہم نے کھلے دل سے اس نتیجے کو قبول کیا اور ان کو کامیابی پر روایتی مبارک باد دی۔ ہم نے کہا کہ اگر وہ دستور اور قانون کے مطابق اور ان معاہدوں اور وعدوں کے مطابق کام کرتے ہیں جو انھوں نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم کے ساتھ کیے ہیں، خاص طور پر ناجائز طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی اور دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ کتوبر۱۹۹۹ء کو تھی اور جس کا عہدوپیمان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت (مئی ۲۰۰۶ئ) میں کیا ہے، توہم ان کی غیرمشروط معاونت کریں گے اور ہمارے خیرخواہانہ جذبات ان کے لیے ہوں گے۔
جنرل مشرف کے استعفے اور زرداری صاحب کے حلفِ صدارت کے بعد پارلیمنٹ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے مطابق مکمل ہوگئی اور ملک نے آمریت سے جمہوریت اور شخصی اقتدار سے دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف اپنے سفر کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ اب نئی حکومت خاص طور پر پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت، اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا امتحان ہے کہ وہ ۹سالہ آمرانہ دور کے طورطریقوں، روایات اور طریق حکمرانی سے کتنی جلد قوم کو نجات دلاتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق ایک حقیقی اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی جمہوریت کے قیام کی طرف کس تیزی سے پیش رفت کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اسی میں ان کا اصل امتحان ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر ملک کو درپیش چیلنجوں کو دو اور دو چار کی طرح پیش کردیں دوٹوک انداز میں پیپلزپارٹی کی قیادت کے سامنے بھی رکھ دیں کہ قوم کو ان سے کیا توقعات ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل ذمہ داری اور امتحان پیپلزپارٹی کا ہے جسے مرکز اور تین صوبوں میں مکمل اقتدار حاصل ہے، جس نے اپنے اصرار پر صدر، وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، صوبوں کے گورنر اور دو صوبوں میں اپنی مرضی کے وزراے اعلیٰ منتخب کرائے ہیں اور اپنی پارلیمانی حیثیت سے بڑھ کر ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ مخلوط حکومت صرف ایک عنوان ہے، اصل اختیار اور اصل امتحان پیپلزپارٹی کا ہے اور شریکِ اقتدار جماعتوں نے بھی پیپلزپارٹی ہی کو فیصلہ کن کردار سونپا ہے۔
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتائج کا اگر تجزیہ کیا جائے تو تین باتیں سامنے آتی ہیں جن کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
اوّل: عوام نے پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیفوں کو یکسر مسترد کیا جس کا منطقی تقاضا تھا کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے فی الفور فارغ کیا جائے اور اس پوری قیادت اور ٹیم سے نجات حاصل کی جائے جو ان کے دور میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھی۔ ان انتخابات میں عوام نے مستقبل میں فوج کے سیاسی کردار کو بھی دوٹوک انداز میں طے کردیا اور بظاہر فوج کی نئی قیادت نے بھی عوام کے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے سول نظام کے تحت کام کرنے اور سیاسی عزائم کا راستہ ترک کرنے کا اعلان کر کے عوام کے اس مینڈیٹ کو قبول کرلیا۔
دوم: عوام نے صرف پرویز مشرف ہی کو مسترد نہیں کیا بلکہ ان کی پالیسیوں کو بھی رد کیا اور اس انتخاب میں دیے گئے عوامی مینڈیٹ کا، جس کی تائید اس دور کے راے عامہ کے تمام سروے بھی کرتے ہیں، واضح تقاضا یہ ہے کہ قوم آمریت کی جگہ جمہوریت، شخصی اقتدار کی جگہ دستور اور قانون کی حکمرانی، خارجہ پالیسی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باب میں امریکا کی کاسہ لیسی ترک کر کے آزاد اور پاکستانی مفادات پر مبنی پالیسی اختیار کرے۔ اسی طرح کشمیر کے سلسلے میں، ملک کی نظریاتی شناخت اور کردار کے باب میں، اور معاشی اور مالیاتی میدانوں میں مشرف کی پالیسیوں کی جگہ ہم نئی پالیسیوں کے خواہش مند ہیں جو عوام کی خواہشات اور حقیقی ضروریات کے مطابق اور ملک و قوم کے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنیں۔ انتخاب کا پیغام پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی اور بنیادی تبدیلی کا تھا اور ہے۔
سوم: ان انتخابی نتائج کا یہ پہلو بہت واضح ہے کہ عوام نے کسی ایک پارٹی کو حکمرانی کا مکمل اختیار نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ضرور سامنے آئی مگر اسے ۳۰فی صد ووٹ اور اسمبلی میں ۳۳ فی صد نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے بجاے حقیقی شرکتِ اقتدار کا راستہ اختیار کرے اور اولین توجہ ان مشترک مقاصد اور اہداف کو دے جو تمام جماعتوں اور خصوصیت سے دو بڑی جماعتوں کے منشور اور عوامی وعدوں میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
۱- دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھی، جس کا مرکزی نکتہ پارلیمانی نظام کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور وزیراعظم اور کابینہ کو ان اختیارات کی منتقلی ہے جو آمرانہ دور میں صدر نے حاصل کرلیے تھے بشمول ۵۸ (۲) بی کی تنسیخ اور سربراہانِ فوج اور گورنروں کے تقرر کے اختیارات۔
۲- عدلیہ کی مکمل آزادی اور ججوں کی تقرری اور معزولی کا ایسا نظام جو شفاف ہو۔
۳- دستور کے فریم ورک میں ایک دوسرے کے لیے ’جیو اور جینے دو‘ کے اصول پر حکمرانی کے اصول و آداب کا احترم اور کسی فوجی آمر کا ساتھ نہ دینے کا عہد۔
۴- انتقام کی سیاست کا خاتمہ اور احتساب کے ایک ایسے نظام کا قیام جو بے لاگ ہو، قابلِ اعتماد ہو اور شفاف ہو۔
۵- آزاد الیکشن کمیشن کا قیام۔
۶- وزیراعظم اور وزراے اعلیٰ پر دو مدت کی تحدید کا خاتمہ۔
۷- کارگل کے سانحے کی آزاد کمیشن سے تحقیق۔
۸- قومی سلامتی کونسل کا خاتمہ اور کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا احیا۔
۱- ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیردستوری اور ہراعتبار سے ناجائز اقدام کی مذمت اور اس کے تحت نئے ہونے والے اقدامات کی تنسیخ___ خصوصیت سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے معزول ججوں کی ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میںبحالی۔
۲- ملک کو جس معاشی اور توانائی کے بحران میں مبتلاکردیا گیا ہے اس سے نجات کی مؤثر کوشش اور عوام کو ریلیف دینے کا اہتمام۔
۳- ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ اور پرویز مشرف کے کردار نے جو تباہ کن صورت حال پیدا کردی ہے، اس سے نجات کی منصوبہ بندی اور پاکستان کے مفادات کی روشنی میں قوت کے استعمال کی جگہ افہام و تفہیم سے سیاسی حل کی کوشش۔
۴- بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں آپریشن جاری ہیں۔ ان کا حاصل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کو فی الفور بند کر کے سیاسی مسائل کا سیاسی حل اور صوبوں کی محرومیوں کے ازالے کی قرارواقعی کوشش اور اس کے لیے متفقہ لائحۂ عمل کی تشکیل اور اس پر عمل کا نظامِ کار۔
۵- کشمیر کے مسئلے پر پرویز مشرف نے جو قلابازیاں کھائی ہیں اور پاکستان کے متفقہ قومی موقف کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریکِ مزاحمت سے یک جہتی۔
یہ وہ ۵ ایشوز ہیں جن کے حل کی طرف پیش رفت کی کسوٹی پر زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو جانچا اور پرکھا جائے گا۔ یہی اصل چیلنج کے مختلف پہلو ہیں اور قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ زبانی جمع خرچ، پروپیگنڈے اور نعرہ بازی کا راستہ ترک کر کے قومی اتفاق راے پیدا کیا جائے گا اور ان تمام امور کی طرف حقیقی پیش رفت پر ساری توجہ مرکوز کی جائے گی۔
۱- جن بنیادوں پر مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی ان کے بارے میں قول اور عمل کا تضاد اتنا واضح اور نمایاں تھا کہ مخلوط حکومت کا چلنا پہلے دن سے مشتبہ تھا اور بالآخر یہی ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کو ججوں کی بحالی کے مسئلے پر حکومت سے الگ ہونا پڑا۔
۲- وعدوں اور سیاسی عہدوپیمان کے بارے میں زرداری کا سہل انگاری کا رویہ اور یہ دعویٰ کہ سیاست میں کیے گئے معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور جب چاہیں ان سے نکلا جاسکتا ہے، ایک اخلاقی جرم ہے۔ اس نے پوری سیاست ہی کو غیرمعتبر بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں تمام تعلقات بے اعتبار ہو جاتے ہیں۔
۳- ان ۶ مہینوں میں حکومت اور خاص طور سے زرداری صاحب کی سوچ ’تبدیلی‘ سے زیادہ ’تسلسل‘ کی روش کا پتا دیتی ہے۔ یہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ سے بے وفائی کا راستہ ہے۔ ججوں کے معاملے کو جس طرح اس حکومت نے الجھایا ہے اس نے عدالت کو نظروں میں بے وقار کردیا ہے۔ مشرف نے عدلیہ کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ اس سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ اس نے باہر سے حملہ کرکے عدلیہ کے ادارے کو تباہ کیا اور زرداری صاحب کے نمایندۂ خاص وزیرقانون نے اندر سے سرنگ لگاکر رہی سہی کسر پوری کردی۔
۴- معاشی صورت حال بلاشبہہ ورثے میں ملی تھی اور توانائی کا بحران بھی۔ لیکن ان ۶ ماہ میں حکومت کسی مؤثر اور بنیادی پالیسی کو لانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ پالیسی پر اس کی گرفت نہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اسی ’تسلسل‘ کا نتیجہ ہے کہ عوام کی مشکلات اور خصوصیت سے زراعت اور صنعت، دونوں اہم شعبوں میں مسائل کا اضافہ ہوا ہے۔
۵- ان ۶ ماہ میں بلوچستان، وزیرستان، باجوڑ اور سوات میں فوجی آپریشن جاری ہیں بلکہ ان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مسائل کا سیاسی حل نکالنے کے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں پر آگ اور خون کی بارش کر رہی ہے اور دوسری طرف امریکا اور بھی بے باک ہوکر ہماری سرحدوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور شرپسندوں کے نام پر عام شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کر رہا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک مشرف کے دور میں امریکا نے ۳۴ بار ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کی تو ان ۶ مہینوں میں ۲۳ بار امریکا نے حملے کیے اور ۳ستمبر ۲۰۰۸ء کا حملہ تو برملا اعلان جنگ کے مترادف تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی سرحد پر اپنی فوجیں اتاریں اور عورتوں اور بچوں سمیت وہ درجنوں معصوم انسانوں کو شہید کرکے پورے طمطراق سے واپس چلے گئے ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ سب صدربش کے واضح احکامات اور direct action in Pakistan territory(پاکستانی علاقے میں راست اقدام) کی پالیسی کے مطابق ہوا۔ ستم یہ ہے کہ جس دن ایڈمرل مولن اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ یقین دہانی کرا رہے تھے کہ پاکستانی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا، اسی وقت احترام کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ ہیلی کاپٹروں اور بغیرپائلٹ کے جہاز، ڈرون (drone) سے حملہ تھاجس میں ایک ہی ہلے میں ۷معصوم انسان شہید ہوگئے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں زرداری صاحب نے صدارت کی ذمہ داری سنبھالی ہے اور وزیراعظم صاحب اور خود زرداری صاحب کے چند دن پہلے کے اس اعلان کے بعد سنبھالی ہے کہ آیندہ صدر غیر جانب دار فرد ہوگا جو وفاق کی علامت ہوگا۔
بہرحال اب ہم ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ فی الحقیقت اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اسے اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران سے نکالنے میں مخلص ہیں تو درج ذیل اقدام اور اعلانات کا اہتمام کریں تاکہ اُمید کے لیے بنیاد فراہم ہو۔
۱- سب سے پہلے اس امر کا اعلان کریں کہ زندگی کے ہر معاملے میں اور خصوصیت سے سیاست اور ریاست کے تمام امور میں عہدوپیمان کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ زندگی کا کاروبار اس اعتماد ہی پر چل سکتا ہے کہ قول و قرار کا پاس کیا جائے اور ہرعہد کو پورا کیا جائے۔
۲- زرداری صاحب مفاہمت کی سیاست کی باتیں تو بہت کرتے رہے ہیں لیکن ان کے اولین کارناموں میں اتحادی حکومت کے ایک بڑے فریق سے بدعہدی اور نتیجتاً اس کی حکومت سے علیحدگی ہے۔ اب پنجاب میں متعین جیالے گورنر کی قیادت میں جو سیاسی دنگل مرتب کیا جا رہا ہے وہ ’جیو اور جینے دو‘ والی سیاست کودفن کر دے گا۔ اس سے یقینا تصادم کی سیاست پروان چڑھے گی جو ملک کے لیے اور خود حکمرانوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اس سے احتراز کیا جائے اور دستور اور قانون کے دائرے میں خود بھی رہا جائے اور دوسروں کو بھی ان کا حق دیا جائے۔
۳- زرداری صاحب کو پیپلزپارٹی کے تمام سیاسی اور انتظامی امور سے لاتعلق ہوکر صدارت کے عہدے کو پارٹی سیاست میں ملوث ہونے سے بچانا چاہیے۔ اس کے لیے شریک چیئرپرسن کے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا ضروری ہے۔
۴- زرداری صاحب نے جو ذمہ داری سنبھالی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ اپنی ذات سے متعلق دو امور کے بارے میں وہ تمام حقائق قوم کے سامنے رکھیں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔ ہم ذاتی امور کے احترام اور نجی اور شخصی معاملات کے حق کے قائل ہیں لیکن جب کوئی شخص پبلک ذمہ داری قبول کرتا ہے تو پھر ذاتی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی حساب داری بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ اپنی بے گناہی کے ثبوت کے لیے کسی بدنامِ زمانہ این آر او کا سہارا نہ لیں بلکہ کھل کر شفاف انداز میں قوم کو اعتماد میں لیں اور میثاقِ جمہوریت میں طے کردہ اصولوں پر مبنی کوئی نظام قائم کر کے ان شکوک و شبہات کو دُور کریں جو ملک اور ملک کے باہر موجود ہیں۔
پہلی بات کا تعلق ان میڈیکل رپورٹوں سے ہے جو بار بار وہ عدالت میں حاضر نہ ہونے کے سبب کے طور پر اپنی ذمہ داری پر اپنے وکیلوں کے ذریعے بھجواتے رہے ہیں اور جو اَب انگلستان کے اخبار Financial Times میں شائع ہونے کے بعد پبلک پراپرٹی بن چکی ہیں۔ دو ہی امکانات ہیں۔اگر یہ رپورٹیں صحیح ہیں تو دستور کی واضح دفعات کی روشنی میں قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اب وہ ان عوارض سے نجات پاچکے ہیں جو ان رپورٹوں کی ترسیل کے زمانے میں ان کو لاحق تھے اور جو ایک شخص کو کسی بھی کلیدی مقام کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں۔ اور اگر یہ رپورٹیں درست نہیں تھیں اور محض عدالت میں حاضری سے بچنے کے لیے دی گئیں تو یہ عدالت کے سامنے غلط بیانی اور دروغ حلفی کے زمرے میں آتی ہیں۔ جو سیاست اور قانون دونوں کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے۔ امریکا کے دستور کے تحت تو صدرمملکت کی معزولی صرف دروغ حلفی کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ محض ایک صحافتی افشاے راز کا نہیں، اس کے بڑے اہم دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی مضمرات ہیں اور زرداری صاحب کو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرا مسئلہ ان پر مالی کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات کے غلط استعمال کا ہے۔ بلاشبہہ کسی عدالت میں الزامات ثابت نہیں ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الزامات بظاہر بالکل بے بنیاد نہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے پرازی کیوشن جج نے خود کہا ہے کہ الزامات میں بہت کچھ موجود ہے اور کیس کے واپس لیے جانے سے اسے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ پر جو تفصیلات موجود ہیں، ان کے عام ہوجانے کے بعد ضروری ہے کہ متعلقہ افراد اپنی پاک دامنی ثابت کریں۔ اس لیے بھی کہ مسل پر یہ تمام معلومات موجود ہیں کہ کتنی بار التوا کی درخواستیں زرداری صاحب اور ان کے وکلا کی طرف سے آئی ہیں اور عدالتی عمل کو مدعی اور مدعاعلیہ دونوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔
دو چیزیں ایسی ہیں جن کا جواب ضروری ہے___ سویزبنک میں ۶۰ ملین ڈالر کی رقم جس کو اب پاکستانی حکومت نے واگزار کرا دیا ہے اور جس کے فائدہ اٹھانے والے (beneficiary) زرداری صاحب ہیں، وہ کہاں سے آئی۔ یہ رقم تو ایک حقیقت ہے۔ زرداری صاحب نے اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بنتے وقت اپنے جن اثاثوں کا اعلان کیا تھا ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ انھیں قوم کو بتانا چاہیے کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور کس طرح اس پر ان کا حق ثابت ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ انگلستان کے سرے محل کا ہے۔ اس کے بارے میں زرداری صاحب نے پبلک اعلان کیا تھا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ نے اسمبلی کے اندر اس سے اپنی اور اپنے خاندان کی برأت کا اعلان کیا تھا۔ اب زرداری صاحب اسی سرے محل کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اگر ان کا اب کا دعویٰ صحیح ہے تو جو اعلان انھوں نے اور محترمہ بے نظیر صاحبہ نے اسمبلی اور سینیٹ میں کھلم کھلا کیا تھا اس کی حقیقت کیا ہے؟
لیکن معاملہ ماضی سے زیادہ مستقبل کا ہے۔ صدارت کا عہدہ ایک نازک عہدہ ہے۔ امریکا کے صدر کو بھی ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنی تمام دولت کا اعلان کرنا ہوتا ہے اور صدارت کے دوران وہ اپنے کسی کاروباری اور آمدنی والے کام کو ہاتھ نہیں لگا سکتا بلکہ اس کی ساری دولت ولایت (wardship) کے تحت ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کے لیے بھی باعزت طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی دولت کا اعلان کریں، جو رقوم پہلے اعلان نہیں کی گئیں، ان کے بارے میں ذریعۂ آمدنی بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کس پر کتنا ٹیکس دیا گیا ہے۔ اور پھر اپنے دورِ صدارت کے لیے کاروباری معاملات سے قطع تعلق کریں۔ جب تک سیاست میں یہ روایت قائم نہیں ہوتی، ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔
زرداری صاحب کو ان حالات کا جرأت سے سامنا کرنا چاہیے۔ ملک کے اندر بڑے پیمانے پر لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں بھی ملک کی اور خودان کی عزت کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صد نے ان امور کا ذکر کیا ہے اور انھیں محض یہ کہہ کر ختم نہیں کیا جاسکتا کہ این آر او کے گنگاجل سے اشنان کے بعد سب پاک ہوگیا ہے۔ صرف دو اقتباس ٹائم میگزین اور اکانومسٹ سے ہم اس بات کی تائید میں پیش کر رہے ہیں کہ یہ اب مُردہ اور ختم شدہ مسئلہ (dead and closed issue)نہیں جیساکہ فاروق نائیک صاحب فرماتے ہیں بلکہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر ایک تروتازہ اور زیرِبحث (live and under discussion) مسئلہ ہے۔ اس لیے اس کا سامنا کیجیے۔ ذاتی عزت اور قومی مفاد دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ ٹائم لکھتا ہے:
پاکستان کی صدارت تک زرداری کے عروج کی کہانی سنڈریلا کی روایتی کہانی کی طرح معلوم ہوتی ہے جس میں مافیا کی سنسنی کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔ زرداری کی ہمیشہ ایک چکرباز ہونے کی شہرت رہی ہے۔ بے نظیر کے دوسرے دور میں جب وہ وزیر سرمایہ کاری تھے کمیشنوں میں سے خفیہ وصولی کے اسیکنڈلوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے نے ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب عطا کردیا تھا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات برطانیہ، اسپین اور سوئٹزرلینڈ میں چلائے۔ گذشتہ برس پرویز مشرف کی ایک متنازع ایمنسٹی ڈیل کے بعد یہ تمام الزامات ختم کردیے گئے۔ زرداری کا موقف ہے کہ تمام الزامات کی بنیاد سیاسی تھی، تاہم ان کی ساکھ کے بارے میں شبہہ باقی ہے۔ زرداری کو اپنے ماضی کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات پر قابو پانا ہوگا۔
۹ستمبر کو جب زرداری صدر پاکستان کی حیثیت سے اپنا حلف اٹھا رہے تھے تو ان کے سر پر تین سایے منڈلا رہے تھے: ایک، معیشت ایک بحرانی کیفیت میں ہے، دوسرے مقامی طالبان کے خلاف جنگ کی صورت حال خراب ہے، اور تیسرے زرداری خود کو اپنی اس شہرت سے جدا نہیں کرسکے جو انھیں اپنی مرحومہ بیوی بے نظیر بھٹو کے دور میں مسٹر ٹین پرسنٹ کی ملی تھی: ایک ایسا آدمی جو ملک دانش مندی سے چلانے میں کم دل چسپی رکھتا ہے، بہ نسبت اس کو لالچ کے ساتھ لوٹنے میں۔ (اکانومسٹ، ۱۳ستمبر ۲۰۰۵ئ)
ہم یہ سب باتیں بادل ناخواستہ ضبط تحریر میں لارہے ہیں لیکن اب جس ذمہ داری کے مقام پر زرداری صاحب فائز ہیں، اس کا تقاضا ہے ان تمام امور کو صاف کیا جائے۔ ہم سیاسی انتقام کو ایک سنگین جرم سمجھتے ہیں اور الزام ثابت ہونے سے پہلے کسی بھی شخص کومجرم قرار دینے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اگر الزامات ہرکہ و مہ کی زبان پر ہوں اور اتنے تسلسل کے ساتھ ہوں، اور کسی کھلے عدالتی عمل کے ذریعے بے گناہی ثابت کیے بغیر محض سیاسی مفاہمتوں کی بنیاد پر اسے داخل دفتر کر دیا جائے، تو یہ بھی انصاف کے خلاف شہرت کی بحالی ہے۔ اس کے نتیجے میں اچھی شہرت بحال نہیں ہوسکتی۔ انتقام غلط ہے مگر پبلک شخصیات کا احتساب اور انصاف ایک ضروری عمل ہے اور اس سے فرار عزت میں اضافے کا سبب نہیں بن سکتا۔
مسلمان تو یہ احتیاط بھی کرتا ہے کہ ایسا موقع نہ دے کہ اس پر کوئی الزام لگ سکے۔ ہم اسی جذبے سے اس توقع کا اظہار کر تے ہیں کہ سیاسی معاملات، پالیسی کے امور، اداروں کی بحالی اور تقویت اور خارجہ اور داخلہ مسائل کے بارے میں صحیح اقدامات کی فکر کے ساتھ، ذاتی معاملات کے بارے میں ہرشک و شبہے کو دُور کرنا اب زرداری صاحب کی ذمہ داری ہے۔ جو پبلک لائف کا راستہ اختیار کرتا ہے اسے ذاتی وفاداری اور پاک دامنی کے چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔
Sir Roy Jenkins نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Cabinet Governmentمیں لکھا ہے کہ ایک وزیر کے لیے ہر فن مولا ہونا ضروری نہیں لیکن سب سے ضروری وصف character and integrity (کردار اور دیانت) ہے۔ یہ موجود ہو تو پھر قوم اس قیادت پر پورا اعتماد کرسکتی ہے اور علم و تجربے کی کمی مشاورت اور معاونت سے پوری کی جاسکتی ہے۔لیکن اگر کردار خام ہو اور دیانت مفقود یا مشتبہ ہو تو پھر نظامِ حکومت چلانا محال ہے۔
کیا ہم توقع کریں کہ صدارت کا حلف لینے کے بعد قوم کو ایک ایسے آصف علی زرداری سے معاملہ کرنا ہوگا جو ماضی کے تصور سے مختلف ہوگا، جو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ ایک اچھی شہرت والے انسان کے طور پر کرے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ملک و قوم کو ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف سے نجات ملے اور جو مثال باباے قوم قائداعظم محمدعلی جناح نے قائم کی، اس کا احیا ہو۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۸ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، لاہور)
مختلف ذرائع سے یہ بات اب مصدقہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر اور امریکی صدر جارج بش کے درمیان ایک خفیہ ملاقات میں بش نے بلیر سے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف افغانستان اور عراق ہی نہیں بلکہ بالآخر ایران، سعودی عرب اور پاکستان بھی ہیں۔ بش اور بلیر اس بات پر متفق تھے۔ صدربش کے وہ مشیر جن کا تعلق اسرائیلی لابی یا نیوکونز (Neo-Cons) سے ہے، وہ تو پہلے دن سے یہ بات کہہ رہے ہیں بلکہ کئی تھنک ٹینک اپنے اپنے انداز میں ۱۹۹۹ء سے اب تک یہ بات کہتے رہے ہیں کہ شرق اوسط کے پورے سیاسی نقشے کوتبدیل کرنا اور خاص طور سے پاکستان کو اس نقشے سے مٹا دینا امریکا کا ہدف ہونا چاہیے۔ ہنری کسنجر نے بھی بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ:
war on terror is a misnomer because terror is a method, not a political movement
(دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط عنوان ہے اس لیے کہ دہشت گردی سیاسی تحریک نہیں، ایک طریق کار ہے)
جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر امریکا جس جنگ میں مصروف ہے، اس کا ہدف کیا ہے؟ تو ان کا جواب تھا: Radical Islam۔ مزید سوال ہوا کہ ’ریڈیکل اسلام‘ کیا ہے؟ توارشاد ہوا: that which is not secular (وہ جو سیکولر نہیں ہے)۔ (ڈان، ۱۸ستمبر ۲۰۰۸ئ)
ویسے تو یہ بلی کبھی بھی تھیلے میں بند نہ تھی اور باہر اُچھلتی کودتی پھر رہی تھی لیکن گذشتہ دومہینوں میں جس طرح امریکی افواج نے پاکستان کی سرحدات کی خلاف ورزی کی ہے، بغیر پائلٹ کے جہازوں (ڈرون)، ہیلی کاپٹرگن شپس، اے-۱۳۰ اور بالآخر ایف-۱۶ سے بم باری کی ہے اور سب سے بڑھ کر ۳ستمبر کو امریکی فوجیوں نے انگوراڈا کے مقام پر زمینی کارروائی کی ہے، اس نے ان تمام پردوں کو چاک کردیا ہے جو امریکا کی اس جارحیت کے درمیان حائل تھے۔ نیویارک ٹائمز نے واضح الفاظ میں رپورٹ کیا ہے کہ جولائی ۲۰۰۸ء میں صدربش نے واضح احکام جاری کیے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر بلاواسطہ اور بلااطلاع کارروائی کی جائے اور اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت پاکستان کے کمزور اور بزدلانہ احتجاج کے بعد امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل مولن جس وقت اسلام آباد میں وزیراعظم کو پاکستان کی حاکمیت کے احترام کا بھاشن دے رہے تھے تو عین اسی وقت امریکی ڈرون پاکستانی حدود کوپامال اور پاکستان کے شہریوں کو شہید کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان کی فوج کو پاکستانی عوام کے خلاف صف آرا کرکے فوج کو محافظ کے بجاے دشمن کے مقام پر لانے، پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت پر دست درازی کرنے، اور پاکستان کی آئی ایس آئی میں تبدیلیوں کے دھمکی آمیز مطالبات سب ایک ہی پلاٹ کے حصے اور ایک ہی منصوبے کی کڑیاں ہیں۔ جو دیکھنا نہ چاہیں ان کا تو کوئی علاج نہیں، لیکن اب تو صرف دل کی آنکھ نہیں، سر کی آنکھ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ امریکا کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں۔
۱- امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد ’القاعدہ‘ یا ’طالبان‘نہیں، مسلم دنیا کے نقشے کی تبدیلی ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ امریکا اپنی اس جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ عراق میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اب افغانستان میں بھی ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں زمین اس کے پائوں تلے نکل رہی ہے۔ افغانستان پر جو گروہ قابض ہے وہ عوام میں غیرمقبول ہے، وارلارڈز کی حکمرانی ہے اور وہ بھی اپنے اپنے محدود علاقوں میں۔ ہیروئن کا کاروبار عروج پر ہے اور دنیا کی ۹۰ فی صد رسد افغانستان سے کی جارہی ہے۔ طالبان اب ایک دینی گروہ کا نام نہیں، ایک قومی مزاحمت کا عنوان ہے۔ امریکی دانش ور، سابق فوجی کمانڈر اور سفارت کار اعتراف کر رہے ہیں کہ عراق کی طرح افغانستان میں امریکا جنگ ہار چکا ہے۔ امریکی مجلہ فارن افیرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر-اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں ایک نہیں دو مضمون اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور امریکی قیادت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت، فوجی قیادت اور پالیسی سازوں کو بھی اس بات کو سمجھ لینا چاہیے اور امریکا کی خاطر اپنی ہی قوم سے اس جنگ کو فی الفور ختم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے بتدریج لاتعلقی ضروری ہے۔
۲- سیاسی مسائل کا فوجی حل نہ کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اسے ناک کا مسئلہ بنانے کے بجاے مذاکرات، افہام و تفہیم اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سدھارنے کی کوشش کی جائے اور امریکا کے دبائو کو ماننے سے صاف انکار کیا جائے۔ ان کے do more (مزید کرو) کے جواب میں صاف طور پر no more (مزید نہیں) کہہ دیا جائے اور اس پر پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم کردیا جائے۔ یہ قوم کے دل کی آوازہے۔ امریکی اداروں کے تحت کیے جانے والے سروے میں بھی ۷۳ سے ۹۰ فی صد آبادی نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے لاتعلق ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
۳- پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر متفقہ قومی موقف کا اعلان کیا جائے اور حکومت، فوج اور قوم سب اس پر مضبوطی سے کاربند ہوجائیں۔
۴- امریکا کو وارننگ دے کر اس جنگ سے لاتعلق ہونے کا ٹائم فریم دے دیا جائے۔
۵- ناٹو ممالک نے تو یہ اعلان کردیا ہے کہ ہمارا مینڈیٹ صرف افغانستان کی حد تک ہے اس لیے ہم پاکستان کی سرزمین پر کارروائی کے مجاز نہیں لیکن امریکا اب بھی اپنے موقف پر عیاری کے ساتھ قائم ہے۔ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ ہے ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ سے پاکستان کی لاتعلقی۔ اگر امریکا اس کے باوجود دبائو ڈالتا ہے اور سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو افغانستان میں موجود تمام فوجوں کے لیے رسد کی فراہمی پر پابندی اور ہرکارروائی کا منہ توڑ جواب۔ امریکا سے جنگ کرنے کی بات کوئی نہیں کر رہا، لیکن امریکا کے حملوںکا جواب ہمارا حق اور فرض ہے۔ قوم نے اس فوج کی ہر ضرورت کو اپنا پیٹ کاٹ کر اس لیے پورا کیا ہے کہ یہ ملک کی سرحدوں کے دفاع کا کام انجام دے، وہ اس کی اہلیت رکھتی ہے، پوری قوم اس کا ساتھ دے گی۔ کیا پاکستان وینزویلا، کیوبا، شمالی کوریا اور لبنان سے بھی زیادہ کمزور ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کے دفاع اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے دنیا کی چھٹی یا ساتویں بڑی فوج ہونے اور ایٹمی صلاحیت کی موجودگی کے باوجود اپنا دفاع نہیں کرسکتے۔ یہ جنگ بازی اور جارحیت نہیں،عزت اور آزادی کے دفاع کا مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں جو بھی کوئی کمزوری دکھائے گا، قوم اسے برداشت نہیں کرے گی۔
ہم تمام مسائل کے سفارتی اور سیاسی حل ہی کو اولیت دیتے ہیں لیکن اگر کوئی اپنی طاقت کے زعم میں ہماری حاکمیت اور آزادی پر دست درازی کرے گا تو اس کو منہ توڑ جواب دینا ہمارا فرض اور مسلم اُمت کی روایت ہے۔ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے اور امریکا کی موجودہ قیادت نے ہرحد کو پامال کردیا ہے۔ پاکستانی قوم اور قیادت کے پاس اس کے سوا کوئی باعزت راستہ نہیں کہ امریکا کی اس جنگ کو خیرباد کہے اور اپنے گھر کی حفاظت اور تعمیر پر ساری توجہ دے۔ اسپین اور اٹلی نے اپنے اپنے قومی مصالح اور مفادات کے تحفظ کے لیے یہی راستہ اختیار کیا ہے اور ناٹو کا ممبر ہوتے ہوئے کیا ہے___آخر ہمارے لیے عزت اور آزادی کے تحفظ کے لیے اس تباہ کن جنگ سے دست کش ہوجانے کے سوا اور کیا راستہ ہے۔
میں ایک خوش گوار پہلو پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا۔ عراق سے اسپینی افواج کے انخلا سے امیدپیدا ہوئی ہے۔ بش کی جنگ کا شاید یہ مقصد تھا اور ایسا ہو بھی سکتا تھا کہ ایک مسلسل اور وسیع ہوتے ہوئے تشدد کا منحوس چکر آگے بڑھتا رہے۔ ہسپانویوں، اطالویوں، جاپانیوں، انگریزوں اور دیگر پر ایک دفعہ حملہ ہوجائے تو ان کی آبادیاں غیرمعینہ مدت کی جنگ کے آگے سرنگوں ہوجائیںگی۔ جب دہشت گردوں نے ۱۱مارچ ۲۰۰۴ء کو میڈرڈ میں حملہ کیا تو کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اسپینی عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔ اسپینی اس عظیم جھوٹ کو قبول کرسکتے تھے کہ عراق پر حملے کا مقصد دہشت گردی کی جنگ کو کم کرنا ہے۔ دہشت گردی کا اسپینی ردعمل نسلی منافرت کا اُبھار اور امریکا سے زیادہ قربت بھی ہوسکتا تھا۔ جنگ کی ابتدائی وجوہات (اس خاص صورت میں غیروجوہات/ non-reasons) کو نظرانداز کردینا اور قدیم زمانے کی طرح لڑائی کے منحوس دائرے کی گرفت میں آجانا آسان ہے۔ شاید پہلی جنگ عظیم اس کی ایک مکمل مثال ہے۔ یہ قومی مفادات کے حصول کے لیے شروع ہوئی اور جلد ہی ایک بے معنی خونی غسل میں تبدیل ہوگئی۔ یورپ کی قومیں سب کچھ کھونے کے بعد بھی برسوں لڑتی رہیں۔
اسپین میں اس کے برخلاف ردعمل رونما ہوا۔ اسپینی ووٹروں نے (سابق وزیراعظم) ازنار سے نجات حاصل کرلی، (نئے منتخب وزیراعظم) زپاٹیرو نے عراق سے اسپینی افواج واپس بلوا لیں، اورشاید یہی بات بڑھتے ہوئے تشدد کے اس چکر کو توڑنے کے لیے کافی ہو جس کی بہت سے توقع کر رہے تھے اور کچھ اس کی امید کرنے والے بھی تھے۔ شاید ہم اسپینی عوام کے اس سے زیادہ احسان مند ہیں جتنا ہم جانتے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بش کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو ان کا ووٹ، ان کا فیصلہ درحقیقت شر پر خیر کی فتح تھی۔
وادیِ کشمیر میں بھارتی سامراجی تسلط کے خلاف احتجاج اور آزادی کی عوامی تحریک ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو اکتوبر ۱۹۴۷ء کی بھارتی فوج کشی سے لے کر آج تک کبھی قبول نہیں کیا۔ بلاشبہہ تحریکِ مزاحمت و آزادی ان ۶۱ برسوں میں مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی مگر کبھی دبی نہیں۔ کشمیری عوام نے بھارتی ظلم و تشدد کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی سپر نہیں ڈالی۔ مسلمانانِ جموں و کشمیر کی بھارت کے تسلط سے آزادی کی تحریک ۱۹۸۸ء کے انتخابی ڈھونگ کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ سیاسی جدوجہد کے ساتھ عوامی و عسکری ردعمل بھی رونما ہوا اور جس طرح عالمی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد نے ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی مجاہدانہ کوششیں کیں اور ان کو معتبر تسلیم کیا گیا حتیٰ کہ اس جدوجہد کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور عالمی مفکرین نے عام دہشت گردی (terrorism) سے ممیزوممتاز قرار دیا اور اس طرح ایسی جدوجہد کو مجبور انسانوں کا حق تسلیم کیا۔ اسی بنیاد پر ۱۹۹۰ء سے جہادی تحریک نے بھارتی استعمار کو چیلنج کیا اور آج تک اس کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ پاکستان کی قیادت، خصوصیت سے پرویز مشرف کی بے وفائی اور اس تحریک اور اس کے مقاصد سے غداری کے باوجود ظلم کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی یہ تحریک جاری رہی ہے۔ البتہ اندرونی اور بیرونی دونوں اسباب سے گذشتہ چند برسوں میں تحریک میں ایک گونہ ٹھیرائو کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یہ تحریکِ آزادی کے لیے بڑا ہی نازک مرحلہ تھا۔ پرویزمشرف نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کے بعد آہستہ آہستہ کشمیر پالیسی کے باب میں بھی اُلٹی زقند (U-turn) لگائی اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے out of box حل کی رَٹ لگانا شروع کی جو دراصل پاکستان کی قومی کشمیرپالیسی سے انحراف اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے بے وفائی اور غداری کے مترادف تھا۔
ستمبر ۲۰۰۴ء میں مشرف اور من موہن سنگھ کی نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں اس خطرناک کھیل کا آغاز کیا اور پاکستان کی اس وقت کی فوجی قیادت نے تحریکِ آزادیِ کشمیر سے عملاً ہاتھ کھینچ لیا بلکہ حریت کانفرنس کو بانٹنے اور اپنا ہم خیال دھڑا بنانے کی مذموم کوشش بھی کی۔ مشرف کی من موہن سنگھ سے تین ملاقاتیں اسی زمانے میں ہوئیں، نیز بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نرائن اور مشرف کے معتمدعلیہ طارق عزیز کے درمیان بھی برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پس پردہ امریکا بڑی چالاکی سے اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ بظاہر سیاسی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو معمول پر لانے مگر درحقیقت کشمیر میں حالتِ موجودہ (status quo) کو تھوڑے بہت تغیر کے ساتھ برقرار رکھ کر اس مسئلے کی تحلیل (liquidation) کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ حریت کانفرنس کے ایک دھڑے نے بھارت کی قیادت سے مذاکرات بھی شروع کردیے۔ ادھر پاکستان میں بھارت نواز لابی نے صحافت، تجارت اور ثقافت کے نام پر تقسیم کی لکیر کو غیرمؤثر بنانے کا ’جہاد‘ شروع کردیا، اور جو حقیقی جہادی جدوجہد ہورہی تھی، اس کی پیٹھ میں مشرف اور اس کے حواریوں نے خنجر گھونپ دیا بلکہ سیاسی جدوجہد تک کا رخ بدلنے کی مذموم کوشش بھی کی۔ اب حق خودارادیت اور بھارت کے تسلط سے آزادی اصل ایشو نہ رہا بلکہ سیاسی ہدف محض راستے کھولنے، بسوں اور ریل گاڑیوں کے چلانے، فوجوں کی کمی، اقتدار میں کسی درجے کی شرکت اور مشترکہ مفادات کی نگرانی کے لیے کسی نظام کی شکل قرار پایا۔
جموں و کشمیر کے مسلمان جنھوں نے اعلیٰ مقاصد کے لیے ۱۹۳۱ء اور پھر ۱۹۴۷ء کے بعد سے قربانیاں دیں اور ۶ لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا، وہ ایسی لولی لنگڑی خودمختاری اور بھارت کے تسلط کو مزید مضبوط و مستحکم اور مستقل کرنے کے لیے نہیں تھے۔ لیکن مشرف کی حکومت نے پاکستان کے اصولی اور تاریخی موقف سے پسپائی اختیار کرکے تحریکِ مزاحمت کو شدید نقصان پہنچایا، جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بری طرح مایوس کیااور آزادی کی تحریک کو عین منجدھار میں بے سہارا چھوڑ دیا۔ سارا کریڈٹ جموں و کشمیر کے مسلمانوں، وہاں کے نوجوانوں اور خصوصیت سے سیدعلی شاہ گیلانی اور شیخ عبدالعزیز شہید جیسے لوگوں کی فراست اور قیادت کو جاتا ہے جو نہ بھارت کے جھانسے میں آئے اور نہ پاکستانی قیادت کی بے وفائی کی بنا پر پاکستانی قوم سے مایوس ہوئے۔ سخت ترین حالات میں انھوں نے تحریکِ مزاحمت کو جاری رکھا اور صحیح موقع کا انتظار کرتے رہے___ یہی پیغام ان کو پاکستان کی تحریکِ اسلامی اور تحریکِ پاکستان کے مخلص کارکنوں نے دیا جو پرویز مشرف کی پالیسیوں کے سخت ترین ناقد تھے اور کشمیر میں عوام کو برابر تلقین کرتے رہے کہ وہ اپنی تاریخی جدوجہد کو جاری رکھیں اور نوبل انعام کا خواب دیکھنے والوں کی چال بازیوںاور فریب کاریوں کا شکار نہ ہوں۔ پرویز مشرف نے جو خیالی پُل بنائے تھے وہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور ہندوقیادت کی تاریخی دھوکے بازی کے ہاتھوں زمین بوس ہوئے۔ وہ جو بھارتی قیادت سے پینگیں بڑھانے میں پیش پیش تھے، ہاتھ ملتے رہ گئے اور واپس آنے کے راستے تلاش کرنے لگے۔ البتہ جو اصولی نقصان تحریک کو ہوا، وہ ناقابلِ انکار ہے اور اس کا فائدہ کشمیر کی اس قیادت نے اٹھانے کی کوشش کی جو بھارت نواز تھی اور گذشتہ ۶۱برسوں میں بھارت کے تمام ظلم و ستم اور شاطرانہ کھیل میں شریک تھی۔ پالیسی کی یہ تبدیلی ایک ایسا داغ ہے جسے دھونا پاکستان کے لیے مشکل ہوگا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ۲۰۰۸ء میں جولائی اور اگست میں رونما ہونے والے واقعات نے حالات کو ایک نیا رخ دے دیا ہے اور کشمیر کی جنگِ آزادی ایک نئے، تاریخی اور فیصلہ کن دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اس کا ادراک اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
پہلی چیزپرویز مشرف کی لچک (flexibility) کے نام پر کشمیر کی تقسیم اور بھارت اور پاکستان کے کسی مشترک نگرانی کے نظام کی تجویز کی ناکامی ہے۔ یہ تجویز دھوکے اور دبائو پر مبنی تھی اور تاریخی حقائق اور پاکستان اور بھارت کے نظریاتی اور سیاسی اہداف سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس خام خیالی کا پردہ جلد ہی چاک ہوگیا۔ بھارت نے اس سلسلے میں ذرا لچک نہ دکھائی اور پاکستان کو اپنے اصولی موقف سے ہٹاکر تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑنے کا کھیل کھیلا۔ پاکستان کی پرویزی قیادت نے اپنا منہ کالا کیا، جن کشمیری قائدین کو اس کھیل میں استعمال کیا، ان کے چہروں پر بھی یہ کالک لگی، تاہم سرخرو ہوئے وہ لوگ جو بھارت کے تاریخی ذہن اور سیاسی مقاصد کا صحیح ادراک رکھتے تھے جنھوں نے پہلے ہی دن یہ کہہ دیا تھا کہ یہ دھوکا اور سراب ہے۔ سیدعلی شاہ گیلانی نے پرویز مشرف کو پہلے دن سے چیلنج کیا اور ۲۰۰۴ء سے آج تک اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور ’لچک‘ کے نام پر پسپائی کی اس حکمت عملی اور بھارت کے عزائم کی تکمیل میں معاونت کے خطرناک کھیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر ان کی پوزیشن صحیح ثابت ہوئی۔ یہی موقف شیخ عبدالعزیز شہید کا تھا جنھوں نے پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹنے اور روایت سے ہٹ کر (out of box ) حل کی تلاش کے سلسلے میں صاف کہہ دیا تھا کہ ’’پرویز مشرف کو بتا دو آپ کشمیر پر جتنی چاہے لچک دکھائو لیکن بھارت کی برہمن اسٹیبلشمنٹ کشمیر پر لچک نہیں دکھائے گی بلکہ ہمیں آپس میں لڑا کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی‘‘۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور پرویز مشرف کی بے تدبیری اور سمجھوتوں (compromises) کی پالیسی بالآخر ناکام رہی۔
دوسری اہم چیز خود پرویز مشرف کا ۲۰۰۷ء میں کمزور ہونا، ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں پاکستانی عوام سے شکست کھا جانا، اور ۱۸ اگست کو استعفا دے کر ٹکسال باہر ہونا ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ اس کی پالیسیاں بھی رخصت ہوگئیں اور وہ لوگ جو اب بھی ان پالیسیوں کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خصوصیت سے پاکستان کی سیکولر اور بھارت نواز لابی، وہ بھی ان شاء اللہ منہ کی کھائیں گے۔ خود بھارت نے اس پالیسی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور کشمیری عوام کی ریاست گیر تحریکِ مزاحمت کے عوامی استصواب نے اسے رد ہی نہیں کیا، ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے۔
تیسری اہم چیز عالمی حالات اور عالمی مفکرین کی سوچ میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیاں ہیں جن کا ادراک ازبس ضروری ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات اور ان کے ردعمل میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پوری دنیا کے امن کو تہ وبالا کردیا۔ شروع میں امریکا کو عالمی ہمدردی حاصل تھی لیکن جیسے جیسے امریکا کے عالمی سامراجی عزائم نمایاں ہوئے، وہ ہمدردی نفرت اور غصے میں بدل گئی اور عوامی سطح پر امریکا، اس کی قیادت اور اس کی نام نہاد جنگ پر بے اعتمادی کا کھلااظہار ہونے لگا۔ افغانستان میں اور پھر عراق میں جو کچھ امریکا نے کیا، اس نے ریاستی دہشت گردی کی تاریخ میں نیا باب رقم کیا۔ مفکرین کی ایک تعداد اس کھیل کا پردہ چاک کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ جو زبانیں بند تھیں وہ اب کھل کر بات کر رہی ہیں۔ آزادی کی تحریکوں اور ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے نام پر مطعون کرنے اور ختم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اسے اب چیلنج کیا جا رہا ہے۔ امریکی مصنف اور فلسفی نوم چومسکی اور سابق اٹارنی جنرل ریمزے کلارک تو پہلے دن سے امریکا کی ان پالیسیوں اور حقیقی دہشت گردی اورجنگ آزادی کو خلط ملط کرنے کی پالیسی کے مخالف تھے لیکن اب علمی اور عوامی دونوں سطح پر اس سامراجی کھیل کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی Terrorism: The Philosophical Issues (مرتبہ:Iqor Primoratz )جس میں ۱۲مفکرین کے مضامین کو پیش کیا گیا ہے، بڑی اہم کتاب ہے اور دل چسپ مباحث کو سامنے لاتی ہے۔ اس میں عوامی تحریکوں کی طرف سے ریاستی قوت کے مقابلے میں قوت کے استعمال کے جواز کے لیے منصفانہ جنگ (just war)کے نظریات کو معیار بنایا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ناجائز حکمرانی اور ظلم کے خلاف برپا تحریکاتِ مزاحمت کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اس بحث نے ایک بار پھر تحریکِ آزادی اور ظالمانہ اقتدار کے خلاف جدوجہد کو دہشت گردی سے ممیز کردیا ہے اور بحیثیت مجموعی یہ نتیجہ نکالا جا رہا ہے کہ ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف جدوجہد مظلوم انسانوں کا حق ہے۔ اس سلسلے میں اگر پُرامن ذرائع غیرمؤثر بنادیے جائیں تو قوت کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ کچھ حالات میں ضروری ہوجاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں بطور تائید خود گاندھی جی کا یہ قول بھی دیا گیا ہے جو بھارت کی قیادت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے:
کہا جاتا ہے کہ گاندھی نے کہا تھا کہ ظلم اور جبر کی مزاحمت کا سب سے بہتر راستہ عدمِ تشدد ہے مگر یہ بھی کہا: ظلم اور جبر کے آگے سرِتسلیم خم کرنے سے بہتر پُرتشدد ذرائع سے مقابلہ کرنا ہے۔ (ص۷۴)
اس طرح مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب کے نتیجے میں انڈونیشیا کے ایک صوبے کا آزاد ریاست بننا، کوسووا کا ناٹو اور یورپی یونین کے تعاون سے سربیا سے الگ ہونا اور ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کا جارجیا سے آزاد ہونے کی جدوجہد وہ تازہ ترین مثالیں ہیں جہاں عوامی راے، جذبات و احساسات اور استصواب کے ذریعے ان علاقوں کی آزادی کے حق کو ایک بار پھر تسلیم کیا جا رہا ہے جو قومی حاکمیت (National Sovereignty ) کے تصور کے تحت اپنے جداگانہ تشخص کے حق سے محروم کردیے گئے تھے۔
نائن الیون کے بعد جوفضا دنیا پر مسلط کردی گئی تھی اور امریکا اور بھارت جس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے، وہ اب تبدیل ہورہی ہے، اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی جنگ آزادی کو اس پوری عالمی فضا کے اثرات سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
سب سے اہم حقیقت جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے، اور وہ یوں کہ امرناتھ یاترا میں بورڈ کو ۸۰۰ کنال (ایک سو ایکڑ) پر مشتمل ایک قطعۂ اراضی دینے اور واپس لیے جانے سے رونما ہوا ہے۔ یہ عمل اس تاریخ کو دہرانے کا ذریعہ بن گیا ہے جس سے مسلمانانِ پاک و ہند کو ۲۰ویں صدی کے پہلے نصف میں گزرنا پڑا اور جو بالآخر قیامِ پاکستان پر منتج ہوا۔
امرناتھ یاترا کوئی نئی چیز نہیں۔ ۱۸۸۰ء سے اس کا آغاز ہوا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مندر مسلمان علاقے میں واقع ہے جہاں کی آبادی کا ۹۹ فی صد مسلمان ہے۔ ۱۲۸ سال سے یہ یاترا ہورہی ہے اور کبھی ہندومسلم تنازع کا ذریعہ نہیں بنی، اور مسلمان خوش دلی سے اس یاترا کے سلسلے کے تمام نظم و نسق میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں بلکہ اس کے معاشی فوائد سے فیض یاب بھی ہوتے رہے اوراس طرح تعاون کا ایک رشتہ قائم ہوگیا۔ مجاہدین نے بھی اسے کبھی اپنا ہدف نہ بنایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی جدوجہد سیاسی اور نظریاتی ہے، اسے تجارتی رنگ دینے کی کوشش ہندو انتہا پسندوں نے کی ہے۔ برہمن قیادت نے جس طرح مسلمانوں کو تحریکِ آزادی کے دوران ان کے تمام حقوق سے محروم کر کے ان کے لیے تقسیمِ ملک کے سوا کوئی راستہ باقی نہ چھوڑا، بالکل اس طرح تاریخ ایک بار پھر کشمیر میں اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور ایک بار پھر ایک نظریاتی اور سیاسی تحریک کو مذہبی فرقہ واریت کی آگ میںجھونکا جا رہا ہے۔
برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے سامنے اصل مسئلہ اپنے دینی، نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور نشووارتقا کا تھا۔ انھوں نے اپنے ہزارسالہ دورِاقتدار میں اپنے دین اور تہذیب کی حفاظت اور نشووارتقا کے ساتھ ہندو مذہب اور تہذیب اور دوسرے تمام مذاہب کو پورے مواقع فراہم کیے لیکن برعظیم کی ہندو قیادت نے اپنی عددی اکثریت کے زعم میں تحریکِ آزادی کے موقع پر یہ بالکل واضح کردیا کہ مسلمان آزادی کے بعد اپنی تہذیب اور اپنے دین و تمدن کے آزادانہ ارتقا سے محروم رہیں گے۔ ۱۹۲۸ء کی نہرو رپورٹ اور ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی کانگرس کی حکومتوں کے رویے اور ہندو مسلم فسادات کے اس طوفان نے جو برعظیم کی تاریخ میں ۱۹۴۴ء کے بعد رونما ہوا، ہندوئوں اور مسلمانوں کے راستوں کو جدا کردیا۔ بلاشبہہ مسلمانوں نے بڑی قیمت ادا کی اور بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے سب سے بڑی قربانی دی مگر ایک سیاسی اور تہذیبی تحریک کو مذہبی فرقہ واریت میں تبدیل کرنے کا کام ہندو اسٹیبلشمنٹ کا کارنامہ تھا۔ مسلمانوں نے اسے کبھی فرقہ وارانہ (communal) ایشو نہیں سمجھا بلکہ قائداعظم نے ہندوقیادت اور اربابِ صحافت کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’جناح کمیونل کارڈ کھیل رہے ہیں‘‘ صاف کہا کہ یہ نظریاتی تحریک ہے اور مسلمان اپنے دین و ثقافت کی بنیاد پر ایک قوم ہیں اور بحیثیت قوم خودمختاری کے طالب ہیں، کم از کم ان علاقوں میں جہاں انھیں اکثریت حاصل ہے۔ لیکن ہندوقیادت اور پریس پوری تحریک کو کمیونل رنگ دینے پر بضد تھے۔ آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں اشارہ کر رہی ہے کہ بالآخر اس کش مکش کو کہاں منتج ہونا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ آج کشمیر میں امرناتھ بورڈ کو زمین دینے اور زمین واپس لینے کے واقعے کو جس طرح ہندوقیادت اور خصوصیت سے بی جے پی نے استعمال کیا ہے اور جس طرح مسلمانوں اور ہندوئوں اور کشمیر اورجموں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جا رہا ہے وہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، کا منظراپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
سابق گورنر ایس کے سنہا متعصب ہندو ذہنیت کی شہرت رکھتے ہیں اور کشمیر سے پہلے آسام میں بھی فرقہ واریت کو فروغ دینے اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو ہدف بنانے کا کھیل کھیل چکے ہیں۔ وہ مسلم اکثریت کے علاقوں کے آبادیاتی نقشے (demography) کو تبدیل کرنے کے فن کے ماہر ہیں اور امرناتھ یاترا کے سلسلے کے تازہ قضیے کے اصل مصنف ہیں۔ گورنر سنہا نے کشمیر کے گورنر کی ذمہ داری سنبھالنے کے ساتھ ہی امرناتھ یاترا کے علاقے پر خصوصی توجہ دی اور بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کو جو ڈیڑھ سو سال سے اس مقام کی نگرانی کر رہے تھے اپنے پشتینی روزگار سے محروم کیا۔ اسی طرح خچروالوں اور چھوٹی دکان لگانے والے مسلمانوں کو بے دخل کیا اور ان کی جگہ باہر سے ’لنگروالوں‘ کو بلاکر آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ اس سلسلے کی ایک کڑی تھی جو بھارت کی حکومت وادیِ کشمیر میں برسوں سے جاری رکھے ہوئے تھی کہ سرحدی علاقوں میں بھارت سے لاکر ہندوئوں کو آباد کرے۔ کشمیر کے نوجوان نوکریوں سے محروم رہیں لیکن بھارت سے ہندوئوں کو جوق در جوق لاکر ملازمتیں دی جائیں۔ اس پس منظر میں ایک کلیدی اقدام امرناتھ بورڈ کو وادی میں یاتریوں کے لیے رہایش گاہ تعمیر کرنے کے لیے ابتداً ۸۰۰کنال (۱۰۰ ایکڑ) زمین دینے کا حکم گورنر سنہا نے اپنی گورنری کے ختم ہوتے وقت دیا جس پر کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کے رہنمائوں نے شدید احتجاج کیا اور پوری وادی اس ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس عوامی مظاہرے سے مجبور ہوکر نئے گورنر نے زمین کی اس الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا۔ واضح رہے کہ مسلمانانِ کشمیر کے اعتراض میں کوئی مذہبی یا فرقہ وارانہ پہلو نہیں تھا بلکہ مسلمان اس یاترا میں سواسو سال سے معاون تھے۔ اعتراض زمین کی منتقلی اور اس طرح ہندوئوں کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے پر تھا۔ کشمیری جنگلات کو بھارتی سرمایہ داروں کی دسترس سے بچانے کی فکر تھی۔ ایک مذہبی تہوار کو سیاست اور تجارت کی بھینٹ چڑھانے کے خلاف پیش قدمی تھی۔ ۲۳ جون کے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس تحریک کے قائد سید علی شاہ گیلانی نے کہا:
وہ ہماری ریاست کی آبادیاتی شناخت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی نہیں بیدار ہوئے تو ہندستان اور اس کے حاشیہ بردار اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ہم اپنی زمین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے۔ بھارتی فوج نے یہاں آٹھ لاکھ کنال سے زائد زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ یہ زمین خالی کرے۔
ہندستان اب علانیہ طور پر کشمیر کی آبادیاتی ہیئت تبدیل کرنے کی پالیسی پر کام کر رہا ہے۔ ہندستان غیر ریاستی باشندوں کو یہاں آباد کرکے حق خودارادیت کی تحریک کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو، عبدالباری مسعود کا مضمون امرناتھ بورڈ کا تنازعہ، افکارملّی، دہلی، اگست ۲۰۰۸ئ)
اس اصولی موقف کے برعکس، جموں کے ہندوئوں اور خصوصیت سے بی جے پی نے صرف جموں و کشمیر ہی میں نہیں، پورے بھارت میں اس مسئلے کو ہندو مسلم تنازع اور ایک خالص مذہبی فرقہ واریت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔ جموں میں احتجاج کی آگ کو بھڑکایا گیا۔ مسلمانوں کو ہدف بناکر مسلم کُش فسادات کا آغاز کیا۔ گوجروں کی آبادیوں کو خصوصی نشانہ بنایا اور کشمیر کے میوہ فروشوں اور تاجروں کو سزا دینے کے لیے نہ صرف سڑک بلاک کر دی بلکہ ٹرک ڈرائیوروں پر تیزاب تک چھڑکا گیا۔ مسلمان تاجروں کی کمر توڑنے کے لیے پھلوں کے سیکڑوں ٹرکوں میں گلنے والے (perishable) پھلوں میں مضرت رساں کیمیکل ڈالا گیا اور یوں ایک اندازے کے مطابق چند ہفتوں میں کشمیری تاجروں کو ۶۰۰کروڑ روپے کا نقصان ہوا جس نے ان کی کمر توڑ دی۔حکومت نے اس احتجاجی مہم کی سرپرستی کی۔ وادیِ کشمیر میں احتجاجی تحریک کو قوت اور تشدد کا نشانہ بنایا اور ۴۰سے زائد افراد کو شہید کردیا گیا۔ ان شہدا میں سب سے نمایاں تحریکِ آزادیِ کشمیر کے اہم رہنما شیخ عبدالعزیز شہید ہیں جو مظفرآباد کی جانب سڑک کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے اور پاکستانی پرچم ہاتھ میں لیے ربِ حقیقی سے جاملے۔ ان کے جنازے میں ۲ لاکھ افراد نے شرکت کی، نماز جنازہ سیدعلی شاہ گیلانی نے پڑھائی اور سری نگر میں ان کی یاد میں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس میں کشمیر کی تحریکِ آزادی کی پوری قیادت نے شرکت کی، یعنی سیدعلی شاہ گیلانی، سیدشبیرشاہ، میرواعظ عمرفاروق، یٰسین ملک وغیرہم۔
زمین کا یہ واقعہ ایک تاریخی تحریک کا عنوان بن گیا ہے۔ شیخ عبدالعزیز کی شہادت نے تحریکِ آزادی کو نئی زندگی دے دی ہے۔ جو تحریک کچھ ماند پڑ گئی تھی، وہ ایک بار پھر پورے جوبن پر آگئی ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس وقت تحریکِ آزادی کی پوری قیادت ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہے اور ایشو بھی بالکل واضح ہے کہ اصل مسئلہ فرقہ واریت کا نہیں اور نہ صرف امرناتھ یاترا کے بورڈ کو زمین کچھ بدلی ہوئی شرائط پر دینے کا ہے، بلکہ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت اور بھارت کے جارحانہ قبضے سے آزادی کا ہے۔
جو کردار ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کانگرس، ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ نے انجام دیا تھا، آج وہی کردار بی جے پی ادا کر رہی ہے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بالاتر مشیت کا کرشمہ ہے کہ اس کے اس منفی کردار کا پورا پورا فائدہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کو ہی پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا بشرطیکہ کشمیر میں مسلمانوں کے پاے استقامت میں لرزش نہ آئے اور پاکستان اپنا کردار ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔ آیئے دیکھتے ہیں بھارت کے اہلِ نظر بی جے پی کے اس کردار کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ The Hindu اخبار کا کالم نگار پرافل بڈوال (Praful Bidwal ) اپنے ۱۷ اگست ۲۰۰۸ء کے کالم میں لکھتا ہے: بی جے پی نے دو مہینے میں جموں اور کشمیر کو سیاسی اور جذباتی اعتبار سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔ وہ نوحہ کرتا ہے کہ: پاکستان کی ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے والے جہادی علیحدگی پسند ۲۰برسوں میں جو چیز حاصل نہیں کرسکے وہ آزادی کی تحریک کی آبیاری کے لیے (بی جے پی کی تحریک) نے انجام دیا ہے۔
اس کو اعتراف ہے کہ بی جے پی کی اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں کشمیر کی سیکولر اور کثیرالقومی شناخت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور اب ’مسلمان کشمیر‘ اور ’ہندو جموں‘ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور اس طرح ایک بار پھر جو مسئلہ مرکزیت اختیار کرگیا ہے وہ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے (the unfinished agenda of partition)کی تکمیل کا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!
یہ وہ ایڈوانی نہیں ہے جو اعتدال پسند واجپائی کا وارث بننا چاہتا تھا۔ یہ ماضی کا رتھ سوار راشٹریہ ایڈوانی ہے، جارحیت پسند، جنگ جو، فرقہ واریت کا زہر اُگلنے والا، اور اپنے جلو میں خونی لکیر چھوڑنے والا۔ اب ایڈوانی ۱۰۰ ایکڑ زمین پر ہندو شیوانسٹ کا خواب دیکھ رہا ہے۔ دعویٰ اس بنیاد پر ہے کہ بھارت میں کسی بھی جگہ ہندوئوں کا پہلے دعوے کا حق ہے کیوں کہ وہ عددی اکثریت میں ہیں، اس لیے پہلا حق رکھتے ہیں۔ یہ ایک سیکولر دشمن موقف ہے، کلاسیکی طور پر نہیں۔
امرناتھ بورڈ کو زمین کی الاٹمنٹ کا مسئلہ اب محض ۱۰۰ ایکڑ زمین کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس نے اس اصل ایشو پر توجہ کو مرکوز کردیا ہے اور یہ بھی ایک بار پھر دکھا دیا ہے کہ بھارت کے سیکولرزم کا اصل چہرہ کیا ہے اور کشمیر کے عوام کی اصل جدوجہد کس مقصد کے لیے ہے، یعنی حق خودارادیت۔ اب امرناتھ بورڈ کی زمین غیرمتعلق (irrelevant) ہوچکی ہے۔ اب اصل توجہ کا مرکز تحریکِ آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد ہے۔ جو مایوسی پاکستان کی حکومت کی بے وفائی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر سے دست کشی نے پیدا کی تھی ختم ہوگئی ہے، تھکاوٹ اور مایوسی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور کشمیر میں عوام ایک بار پھر تازہ دم ہوکر میدان میں آگئے ہیں۔ دو مہینے میں سیاسی جدوجہد کا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے اور جدوجہد ایک نئے تاریخی موڑ پر آگئی ہے۔
۱- ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک متنازع مسئلہ ہے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی اصل مسئلہ ہے جس سے کسی صورت صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیری عوام کسی قیمت پر اور کسی نوعیت کی بھی قربانی دے کر اپنی آزادی اور اپنے حق خودارادیت کو فراموش کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بھارت کی ۶۱سالہ مکارانہ چالوں سے اب پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔ جو کچھ شیخ عبداللہ کے ساتھ کیا گیا، جس طرح دستور میں دفعہ ۳۷۰ کا ڈھونگ رچا کر کشمیریوں کو رام کرنے اور دراصل غلامی کی زنجیروں میں کسنے کا کھیل کھیلا گیا، ۷ لاکھ فوج کے جارحانہ قوت کے استعمال اور ہرطرح کے ظلم و ستم کے باوجود کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ لاٹھی اور گاجر (carrot and stick) دونوں ناکام رہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اصل مسئلے کا سامنا کیا جائے اور کوئی دیرپا حل نکالا جائے۔
۲- موجودہ تحریک نے ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے اور اس کا اعتراف بھارت اور عالمی فورم پر کھل کر کیا جانے لگا ہے کہ نہ صرف اصل مسئلہ آزادی کا ہے بلکہ آزادی کی یہ تحریک مقامی اور عوامی تحریک ہے۔ نہ یہ باہر کے کسی اشارے پر برپا کی گئی ہے اور نہ کی جاسکتی ہے۔ کشمیر کے عوام کا ایک سیلاب ہے جو امڈا چلا آرہا ہے اور وہ قیادتیں بھی جو بھارت کے ہاتھوں میں کھلونا بن رہی ہیں اب عوام کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہورہی ہیں۔ پی ڈی پی بھی وہی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہے جو تحریکِ حریت کے رہنما اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سابق گورنر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں پی ڈی پی کو ایک علیحدگی پسند (secessionist ) جماعت قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو لیفٹیننٹ جنرل (ر) ایس کے سنہا کا انٹرویو دیپک کمار راتھ کے ساتھ، مطبوعہ (www.organing.org)۔ اس طرح افتخار گیلانی کو دیے گئے انٹرویو میں بھی موصوف فرماتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں پی ڈی پی اور حریت کانفرنس میں کوئی فرق نہیں (ہفت روزہ دی فرینڈلی ٹائمز، ۵ تا ۱۱ستمبر ۲۰۰۸ئ)
یہ اس عوامی تحریک کی قوت ہے کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت اب بھارت سے آزادی کی بات کر رہی ہے اور عوام قائدین اور جماعتوں کو اپنے پیچھے چلا رہے ہیں، لیڈر عوام کو ہانکنے کا کام نہیں کر پارہے، اور سب کا ایک موقف پر اجماع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بڑی نیک فال اور اہم پیش رفت ہے۔
۳- یہ پوری تحریک معجزاتی طور پر سیاسی، جمہوری اور تشدد کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے۔ قوت کا استعمال ہوا ہے تو حکومت کی طرف سے ہوا ہے اور کہیں کہیں تو وہ بے بس ہوگئی ہے جیسے سری نگر میں اقوامِ متحدہ کی فورس کے دفتر کی طرف پیش قدمی کی دعوت جس میں ۱۰لاکھ نہتے افراد نے تمام رکاوٹیں پار کر کے حصہ لیا اور پولیس اور فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس تحریک کے مقامی جمہوری، عوامی اور ریاست گیر ہونے کا اعتراف اپنے اور پرائے حتیٰ کہ ہندستان کے صحافی، دانش ور اور تجزیہ نگار بھی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ۱۹۹۰ء کے بعد ایک بار پھر ہرسطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور کسی صورت غلامی کی اس زندگی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔
فرق یہ ہے کہ ۱۹۹۰ میں عسکریت کا پلڑا بھاری اور غالب تھا لیکن ۲۰۰۸ء کی تحریک میں عسکریت کا کردار غیرمرئی اور بالواسطہ ہے، ظاہری اور بلاواسطہ نہیں۔ عسکری تحریک نے بھی اس موقع پر بڑی دانش مندی سے حالات کو متاثر کیا ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر اور جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھارتی سازش کا بڑی ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اپنے مجاہدین کو یاتریوں کو محفوظ راستہ (safe passage ) دینے کی ہدایت کی اور جولائی اور اگست کی تحریک کے دوران کوئی عسکری کارروائی نہیں کی بلکہ مجاہدین کو سیاسی کارکن کی حیثیت سے تحریک میں شرکت کی ہدایت دی۔ اس زمانے میں اگر کوئی کارروائی ہوئی ہو تو وہ دُوردراز سے سرحدی علاقوں میں ہوئی۔ بڑی عوامی تحریک (mainstream movement) مکمل طور پر سیاسی اور تشدد سے پاک رہی۔
یہ عسکری قوتوں کی طرف سے ایک شاہ ضرب (master stroke) تھی اور بڑا واضح پیغام تھا کہ عسکریت پسند بھی تحریکِ آزادی کو سیاسی اور جمہوری تحریک کے طور پر چلانا چاہتے ہیں۔ جب حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے سیاسی عمل کا راستہ روکتی ہے تو یہ تحریک عسکریت پر مجبور ہوتی ہے۔ جمہوری تحریک اور عسکریت کے رشتے کا اس سے بہتر اظہار سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں مشکل ہے اور اس کا کریڈٹ عسکری تنظیموں اور ان کے ڈسپلن کو جاتا ہے اور مسئلے کے سیاسی حل میں ان کے کردار کے حدود کی بھی اس سے نشان دہی ہوجاتی ہے۔ اس پورے عمل سے بھارت کے اس ڈھونگ کا بھی پردہ چاک ہوگیا جو وہ ہر احتجاج کو پاکستان کے پلڑے میں ڈال کر اور آئی ایس آئی کا راگ الاپ کر، کر رہا تھا۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ تحریک سیاسی ہے، کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے، جمہوری اور عوامی ہے، اور اگر سیاسی اظہار کا موقع حاصل ہو تو عسکریت کے بغیر زیادہ مؤثر انداز میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔
۴- اس تحریک کے نتیجے میں ایک اور بڑی اہم چیز رونما ہوئی ہے جو ان ۶۱برسوں میں پہلی بار اس شدت سے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ خود بھارت میں کشمیر کے سلسلے میں نئی سوچ رونما ہوئی ہے، حکومتی سطح پر نہیں، عوامی اور سیاسی سطح پر۔ اب تک بھارتی دانش وروں، سیاسی کارکنوں اور صحافیوں نے یک زبان ہوکر بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی کی تائید کی تھی اور ہرظلم پر پردہ ڈال رکھا تھا، نیز سیکولرزم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، بھارت کے کثیرالقومی ماڈل اور ایک ریاست کی علیحدگی کے پورے ملک پر سیاسی اثرات اور دوسری علاقائی تحریکوں کے لیے عمل انگیز (catalyst) بن جانے کے مضمرات کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے عزائم، اُمنگوں اور قربانیوں کو نظرانداز کیا ہوا تھا اور اگر بات کرتے تھے تو تھوڑی بہت خودمختاری (autonomy) اور معاشی مدد اور ترقیاتی پروگراموں کی کرتے تھے، اصل مسئلے سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ اب پہلی بار ملک گیر سطح پر یہ سوال زیربحث ہے کہ اگر ہم ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر ایک پوری ریاست کے باشندوں کو ان کی مرضی کے خلاف کب تک حکومتی جبر کے ذریعے یا معاشی رشوت کے سہارے اپنی گرفت میں رکھ سکتے ہیں؟ ایک گروہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کشمیر پر قبضے کی فوجی، سیاسی اور معاشی قیمت بہت زیادہ ہے اور اب بھارت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہندستان ٹائمز (۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ) کے مقالہ نگار کے الفاظ میں: think the unthinkable، یعنی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اب اسی کی بات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بھارت میں رونما ہونے والے اس رجحان کی کچھ جھلکیاں اپنے قارئین کو دکھائیں تاکہ تحریکِ مزاحمت کی قوت اور بھارت میں رونما ہونے والے نئے رجحان کو، جو مسئلے کے حل کے امکانات کو روشن کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، کو سمجھا جاسکے۔
کیا آپ کشمیر سے آنے والی خبروں کو نااُمیدی کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ پڑھ رہے ہیں؟ مجھے معلوم ہے کہ میں پڑھ رہا ہوں۔ اب یہ بات واضح ہے کہ گذشتہ چند مہینوں کی پُرامیدی ، یعنی وہ مضامین جو ہمیں بتاتے تھے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں، سب غلط تھے۔ کشمیر میں درحقیقت ۱۹۹۰ء کے بعد سے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ایک چنگاری، جیساکہ امرناتھ زمین پر تنازع، پوری وادی کو آگ لگا سکتی ہے، لہٰذا ناراضی، غصے اور علیحدگی کا احساس بہت گہرا ہے۔ بھارتی افواج کو قابض فوج تصور کیا جاتا ہے۔ نئی دہلی کو ظالم و جابر کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ بھارتی دھارے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان کارڈ کھیلنے سے نہیں ہچکچاتیں۔ محبوبہ مفتی لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے کے لیے بہ خوشی راضی ہیں۔
موصوف فرماتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ کرکے دیکھ لیا۔ انتخابات میں دھاندلی کی، دستور کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیریوں کو خصوصی مقام دینے کی کوشش کی۔ مالی اعتبار سے ان کا پیٹ بھرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان کے الفاظ میں: ’’بہار کی ریاست کو ملنے والی مرکزی امداد (جو قرض کی شکل میں ہے) فی کس آبادی کے لیے صرف ۸۷۶ روپے ہیں، جب کہ کشمیر میں ہر سال ہر فرد کے حساب سے دی جانے والی امداد (جس کا ۹۰ فی صد عطیہ اور صرف ۱۰ فی صد قرض ہے) ۹ہزار۷سو ۵۴ روپے ہے۔ لیکن ساری ترقیاتی کوششیں اور مالی عنایتیں کچھ کارگر نہیں ہورہیں۔ رہا فوجی طاقت کا استعمال___ تو خزانہ پر بھاری بوجھ ہونے کے سوا اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس باب میں ان کا ارشاد ہے:
کشمیر کی دوسری قیمت فوجی ہے۔ ون سی ۸۱۴ طیارے کے اغوا سے لے کر پارلیمنٹ پر حملے تک بہت سے دہشت گرد حملوں کی کڑیاں کشمیر سے ملتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے حملے پر ہمارا ردعمل آپریشن پاراکرم تھاجس پر ۱۰ مہینے میں ۶ہزار ۵ سو کروڑ روپے خرچ ہوئے اور ۸۰۰ فوجی جوانوں کی جانیں تلف ہوئیں (کارگل ۴۷۴ جانوں میں پڑا تھا)۔ ہرروز ہمارے فوجیوں اور نیم فوجیوں کو دہشت گرد حملوں، دبائو اور تضحیک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
تو میرا سوال یہ ہے: ’’ہم اب تک کشمیر کے ساتھ کیوں لٹک رہے ہیں، جب کہ کشمیری ہمارے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کرنا چاہتے؟‘‘ جواب ہے: مظاہرئہ مردانگی (machismo)۔ ہمیں اس بات پر یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر کشمیر علیحدہ ہوا تو بھارت کمزور ہوجائے گا۔ اس لیے ہم جانیں اور بلین ڈالر کھو رہے ہیں اور کشمیری ہمیں برابھلا کہنے کا مزا لے رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہم انھیں چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
اس سلسلے میں اٹھائے جانے والے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے جن کا تعلق بھارتی سیکولرزم، بھارت میں مسلمانوں کے مستقبل اور دوسروں پر علیحدگی پسند تحریک کی کامیابی کے اثرات وغیرہ سے ہے، موصوف صاف لفظوں میں ’اَن کہی‘ کہہ ہی ڈالتے ہیں، یعنی:
میرا کہنا ہے کہ ہمیں وادی میں استصواب راے کروانا چاہیے۔ کشمیری اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کریں۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انھیں خوش آمدید ہے لیکن اگر وہ نہیں چاہتے تو ہمارے پاس انھیں ساتھ رکھنے کا اخلاقی جواز نہیں ہے۔ اگر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا ووٹ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آزاد کشمیر کے ساتھ تھوڑا سا اور علاقہ شامل ہوجائے گا۔ اگر وہ آزادی کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں تو صرف ۱۵منٹ لگیں گے بغیر ان اربوں روپوں کے جو بھارت نے ان پر برسائے لیکن یہ ان کا فیصلہ ہوگا۔
کچھ بھی ہو بھارت کا کیا نقصان ہے؟ اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینا سب سے درست کام ہے۔ اور اگر آپ نہیں رکھتے، تب بھی یقینا ہم اپنے وسائل پر اپنی زندگیوں اور قوم کی حیثیت سے اپنی عزت پر اس مستقل تکلیف دہ دبائو سے نجات پاکر بہتر حال میں ہوں گے۔
یہ بھارت کی صدی ہے۔ ہمارے پاس فتح کرنے کے لیے دنیا ہے اور اس کے لیے وسائل بھی ہیں۔ کشمیر ۲۰ویں صدی کا ایک مسئلہ ہے۔ ہم یہ نہیں کرسکتے کہ ہم دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کر رہے ہوں اور یہ مسئلہ ہمیں پیچھے کھینچے اور ہمارا خون نکالتا رہے۔(ہندستان ٹائمز، ۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ)
بھارتی کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں کل ایک غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا گیا… مقامی مسجدوں سے لائوڈ اسپیکروں سے ’ہم آزادی چاہتے ہیں‘ کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ یہ مظاہرے کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلسل احتجاج کا ایک حصہ تھے۔ میرواعظ فاروق کہتے ہیں: یہ وقت ہے کہ ہم ریفرنڈم کے ذریعے اپنے حقِ خود ارادیت کا فیصلہ کرلیں۔ بھارت کہتا ہے کہ کشمیر کے مستقبل پر عشروں پرانا ریفرنڈم اب متروک ہوگیا ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر دہلی میں مایوسی کا بڑھتا ہوا ایک احساس ہے جہاں ۱۹۸۹ء سے بغاوت مسلسل سلگ رہی ہے۔ جمعہ کے دن لاکھوں کشمیری سری نگر میں جمع ہوگئے اور آزادی کا مطالبہ کیا اور بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کیا۔ بڑے بڑے دانش ور یہ کہہ چکے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے ہمالیائی علاقے کے بارے میں ناقابلِ تصور بات سوچی جائے اور بھارت سے آزادی پر غور کیا جائے۔ (دی گارڈین ، ۲۵ اگست ۲۰۰۸ئ)
دی گارڈین کے ہفتہ وار اخبار آبزرور میں اس واقعے کے رونما ہونے سے پہلے ۸جون کی اشاعت میں ایک بھارتی مضمون نگار نوپال ڈھلے وال (Nupal Dhalivel) نے اپنے دورئہ کشمیر کے تاثرات اور اہم بیرونی سیاحوں سے انٹرویو کرکے حالات کا جو نقشہ کھینچا تھا اس کا خلاصہ ایک اسرائیلی سیاح کے الفاظ میںیہ تھا کہ:
کشمیر کو ایک خودمختار ریاست ہونا چاہیے۔ کشمیریوں کو خودمختاری اور حق خودارادیت کا حق حاصل ہے۔
۱۵ اگست کو بھارت نے برطانوی راج سے آزادی کی تقریب منائی لیکن کشمیریوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک بندھ (bandh) منظم کیا۔ ایک دن جو بھارت میں نوآبادیت کے اختتام کی علامت ہے، وادی میں بھارتی نوآبادیت کی علامت بن گیا۔ ایک لبرل کی حیثیت سے میں لوگوں پر ان کی مرضی کے خلاف حکومت کرنے کو ناپسند کرتا ہوں۔ دو قوموں کی تعمیر ایک مشکل اور پیچیدہ مشق ہے۔ ابتدائی مزاحمت علاقائی اُمنگوں کو، ایک وسیع تر قومی شناخت کی راہ دکھا سکتی ہے۔ تامل علیحدگی پسندی کا اختتام اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔
میں کبھی کشمیر کے ادغام کی امید رکھتا تھا لیکن ۶ عشروں کی کوشش کے بعد کشمیری علیحدگی ہمیشہ سے زیادہ نمایاں نظر آرہی ہے۔بھارت کشمیر کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے، نوآبادی بناکر حکومت کرنا نہیں چاہتا۔ تاہم، بھارت میں برطانوی راج اور کشمیر میں بھارتی حکومت کی مشابہت نے میرا اطمینان ختم کردیا ہے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ریاست کے مہاراجا نے جب دستخط کردیے تو کشمیر بھارت کا ایک حصہ بن گیا۔ افسوس جب زمینی حقائق تبدیل ہوجاتے ہیں تو ایسی قانونی باتیں غیرمتعلق ہوجاتی ہیں۔ بھارت کے بادشاہوں اور شہزادوں بشمول مغلوں نے برطانوی راج سے الحاق کرلیا۔ یہ دستاویزات اس وقت بے معنی ہوکر رہ گئیں جب اہلِ بھارت نے تحریکِ آزادی برپا کردی۔
برطانیہ نے بڑے عرصے تک یہ اصرار کیا کہ بھارت ان کی سلطنت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان کے تاج کا ہیرا ہے جو کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہم بھی اسی طرح کا انکار کر رہے ہیں جیسے امپریلسٹ برطانوی عشروں سے انکار کرتے رہے۔
بھارت نے کشمیر کے ساتھ الحاق چاہا ہے نہ کہ نوآبادیاتی حکمرانی۔ لیکن کشمیری کچھ بھی ہو، آزادی مانگتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے اتنی شدت سے مزاحمت کرتے ہیں، اتنے طویل عرصے کی حکمرانی نوآبادیت سے مشابہ ہے خواہ ہمارے ارادے کچھ بھی ہوں۔
۶ عشرے قبل ہم نے کشمیریوں سے استصواب راے کا وعدہ کیا تھا۔ اب ہمیں اسے منعقد کردینا چاہیے اور انھیں تین اختیارات دینے چاہییں: آزادی، پاکستان کے ساتھ اتحاد، اور بھارت کے ساتھ اتحاد۔ یقینا وادی کی اکثریت خودمختاری کو اختیار کرے گی۔ جموں اور شاید لداخ بھی بھارت کے ساتھ رہنا چاہیں گے۔ کشمیریوں کو فیصلہ کرنے دیں، نہ کہ سیاست دان اور بھارت اور پاکستان کی فوجوں کو۔ (ٹائمز آف انڈیا، ۱۷ اگست ۲۰۰۸ئ)
ٹائمز آف انڈیا میں ۲۰ اگست کو شائع ہونے والا مضمون نہایت اہم ہے، اس کا عنوان ہے: India minus K-word
کیا یہ وقت ہے کہ ’ک‘ کا لفظ بھارت سے باہر ہو اور بھارت ’ک‘ سے باہر ہوجائے؟ جس وقت پاکستانی اپنے عرصے سے مسلط آمر پرویز کی رخصتی کا جشن منا رہے تھے، کشمیر کے ’پاکستانی‘ اس سے زیادہ نہیں تو برابر کے جابرو ظالم بھارت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے جسے بہت پہلے رخصت ہوجانا چاہیے تھا۔
امرناتھ تنازع اور مبینہ ’معاشی بدحالی‘ نے وادی میں ایک بے نظیر پاکستان حامی جذبات کو بھڑکا دیا ہے جس کا اظہار چاند تارے والے جھنڈے کو کھلم کھلا دکھلانا اور سری نگر اور پام پور میں بڑی بڑی بھارت مخالف ریلیوں سے ہوتا ہے۔ علیحدگی کی تحریک جنگجوئوں کے خوف سے نہیں چل رہی، آج علیحدگی پسندی راے عامہ ہے جو آگے چل کر ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
احتجاج کی اس طوفانی لہر (ground swell) کو جو کئی نسلوں سے جاری ہے، محض یہ کہہ کر نظرانداز کرنا آسان ہے کہ اس کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے، حالانکہ کشمیر یا وادیِ کشمیر اب زیادہ دیر تک اس کٹھ پتلی کی طرح نہ ہوگی جو اپنے پاکستانی آقائوں کی زبان بول رہی ہو۔ کشمیر خود اپنے لیے آواز بلند کر رہا ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بہت واضح ہے: بھارت ہمارا پیچھا چھوڑ دے۔
کشمیر آج جو کچھ دیکھ رہا ہے، وہ بنیادی طور پر مختلف ہے۔ آزادی کا مطالبہ جس کے پیچھے بندوقیں نہیں بلکہ مخالف ہونے کی طاقت ہے___ جو بھارت کے تصور کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ برسوں کی مسلسل کوشش، فوجوں کی تعیناتی، متعدد بار ہونے والے انتخابات، مال و دولت کے زرتلافی دینے کے باوجود بھارت آزادی کے مطالبے کا مؤثر مقابلہ نہیں کرسکا۔ کیا وقت آگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو دوبارہ دیکھا جائے؟ کیا کشمیر کو پُرامن طور پر جانے دینے سے بھارت کا تصور مسخ ہوجائے گا یا اس میں وسعت ہوجائے گی اور زیادہ مضبوط ہوجائے گا۔
ہفت روزہ ٹائم کی ۱۵ ستمبر کی اشاعت میں Juoti Thottam کا مضمون Valley of Tears (اشکوں بھری وادی) شائع ہوا ہے جس میں کشمیر کو اب بھی بھارت کا حصہ رکھنے کا خواب دکھایا گیا ہے مگر زمینی حقائق کے اعتراف کے سوا کوئی چارئہ کار نظر نہیں آتا:
تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کشمیر پر لڑے اور ۱۹۸۹ء سے کشمیریوں کی علیحدگی کی تحریک میں بھارتی افواج کو آزادی پسندوں کی جانب سے ہمیشہ یہ دھمکی رہی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے جو ان کی بندوقوں سے جنگ کر رہا ہے۔ بھارت نے علیحدگی پسندوں کو طاقت کے زور پر خاموش کر دیا تھا لیکن امرناتھ نے ان کی تحریک کو دوبارہ زندہ کردیا اور ۱۸ اگست کے ۵لاکھ سے زائد کے ایک خصوصی مظاہرے میں آزادی کے نعرے اور پاکستان کے لہراتے جھنڈوں نے ثابت کردیا ہے کہ کشمیری بھارت کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔
بھارت میں لوگ کشمیر میں دل چسپی کھو رہے ہیں۔ یہ ایک مایوسی کی علامت ہے۔ اولین طور پر یہ بھارت کی سیاسی ناکامی ہے کہ اختلاف میں اتحاد کے وعدے کو پورا نہیں کرسکا۔ بھارت نے طویل عرصے میں کشمیر میں لاکھوں ڈالر امداد دی ہے اور اس سے زیادہ رقم خرچ کی ہے مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ امن کا مطلب محض عدم جنگ نہیں ہے بلکہ معاملہ سیاسی تصفیے کا ہے۔ ۵لاکھ بھارتی افواج کی واپسی جو اس وقت کشمیر پر قابض ہے، اور سب سے زیادہ اہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا کہ فوج کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر کشمیری شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بھارتی حکومت نے ان مشکل مسائل کو حل نہیں کیا ہے جو کشمیریوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔ وہ بے چین ہیں۔ اسی لیے کشمیر کے ناپایدار امن کو توڑنے کے لیے انھیں صرف ایک غلطی کی ضرورت تھی۔ اس نے ایک نہیں بلکہ دو نہایت خطرناک احتجاجی تحریکیں برپا کردیں۔ ایک ہندو قوم پرستوں کی اور دوسری کشمیری انتہاپسندوں کی جنھوں نے ایندھن فراہم کیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ اب بھارت نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ علیحدگی پسند کشمیری ہیں نہ کہ پاکستان سے بھیجے ہوئے کچھ لوگ۔ (ٹائم، ۱۵ ستمبر ۲۰۰۸ئ)
اس سلسلے کا سب سے اہم اور تہلکہ خیز مضمون مشہور ناول نگار اور سیاسی کارکن ارون دھتی راے کا ہے جو پہلے مجلہ آؤٹ لُکمیں شائع ہوا۔ پھر اس کا کچھ مختصر متن انگلستان کے روزنامہ دی گارڈین نے شائع کیا اور اس کے بعد دنیا کے تمام ہی اہم اخبارات نے اس کے اقتباسات شائع کیے۔ پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے لیکن ہم صرف اس کے چند حصے ناظرین کی نذر کر رہے ہیں:
گذشتہ ۶۰دنوں سے، یعنی جون کے بعد سے کشمیر کے عوام آزاد ہیں، حقیقی مفہوم میں آزاد۔ انھوں نے اپنی زندگیوں سے ۵ لاکھ مسلح فوجیوں کی بندوقوں کے سایے کی وحشت دنیا کے سب سے زیادہ گھنے فوجی علاقے میں اُتار پھینکی۔
۱۸ سال تک فوجی قبضہ رکھنے کے بعد بھارتی حکومت کا ڈرائونا خواب بدترین خدشات سچ ثابت ہوا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد کہ اس نے جنگجو تحریک کو کچل دیا ہے، اب اس کا سامنا ایک غیرمتشدد وسیع عوامی احتجاج سے ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس سے کس طرح نمٹا جائے۔ اس احتجاج کو قوت عوام کی کئی برسوں کی ظلم و جبر کی یادوں نے دی ہے، جس میں لاکھوں آدمی مارے گئے ہیں، ہزاروں لاپتا ہوگئے ہیں، لاکھوں کو ٹارچر کیا گیا ہے، زخمی کیا گیا ہے اور تذلیل کی گئی ہے۔ اس طرح کا غصہ جب ایک دفعہ باہر نکل آئے تو اس کو آسانی سے دوبارہ بوتل میں بند کرکے وہاں نہیں بھیجا جاسکتا جہاں سے وہ نکلا تھا۔
تقدیر کے ایک اچانک موڑ اور ۱۰۰ ایکڑ سرکاری زمین امرناتھ منتقل کرنے کا غلط اقدام ایسا ثابت ہوا جیسے پٹرول کی ٹینکی پر دیا سلائی پھینک دی گئی ہو۔ ماضی میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن حال میں طویل مدت تک اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کشمیر کی بڑی سیاسی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور عوامی جمہوری پارٹی نئی دہلی کے ٹی وی اسٹوڈیوز میں تابع داری کے ساتھ حاضر رہتی ہیں لیکن کشمیر کی سڑکوں پر سامنے آنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں۔ مسلح جنگجو ظلم و جبر کے بدترین سایوں میں آزادی کی مشعل اٹھائے نظر آتے تھے۔ اگر وہ کہیں ہیں تو پچھلی نشست پر آرام سے بیٹھے ہیں اور عوام کو تبدیلی کے لیے لڑنے دے رہے ہیں۔
علیحدگی پسند قائدین جو مظاہروں میں آتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، وہ اب قائدین نہیں بلکہ پیروکار ہیں۔ ان کی راہ نمائی ایک پنجرے میں بند غصے سے بھرے ہوئے لوگوں کے سامنے آنے والی غیرمعمولی توانائی سے ہورہی ہے جوکشمیر کی سڑکوں سے بھڑک اُٹھی ہے۔ دن پر دن گزرتے گئے اورہزاروں لاکھوں افراد ان جگہوں کے گرد اکٹھے ہوتے گئے جن کے ساتھ ان کی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ وہ مورچوں کو گرا دیتے ہیں، تاروں کی چاردیواری کوتوڑ دیتے ہیں اورفوجیوں کی مشین گنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں: ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی! اور ساتھ ہی اتنی ہی تعداد میں اتنے ہی لوگ نعرہ لگاتے ہیں: جیوے جیوے پاکستان! یہ آوازیں پوری وادی میں گونج رہی ہیں جیسے کہ ایک ٹین کی چھت پر مسلسل بارش کی آواز ہو یا جیسے کہ ایک طوفان کے دوران بجلی کی کڑک۔
۱۵ اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر سری نگر کے اعصابی مرکز لال چوک پر ان ہزاروں لوگوں کا قبضہ تھا جو اپنے ہاتھوں میں پاکستانی جھنڈے لہرا کر ایک دوسرے کو یومِ آزادی (باسی) کی مبارک باد دے رہے تھے۔
ہر طرف پاکستانی جھنڈے تھے۔ ہر طرف نعرے تھے: پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الااللہ! میری طرح کے کسی فرد کے لیے جو مسلمان نہیں ہے اس آزادی کی تعبیر سمجھنا ناممکن نہیں ہے تو مشکل ضرور ہے۔ میں نے ایک نوجوان خاتون سے کہا کہ کشمیر کی اس طرح آزادی سے ایک عورت کے لیے آزادی میں کمی نہیں ہوجائے گی۔ اس نے کندھے اُچکائے اور جواب دیا: ہمیں اس وقت کس قسم کی آزادی حاصل ہے؟ بھارتی فوجیوں سے اپنی عصمت دری کرانے کی۔ اس کے جواب نے مجھے خاموش کردیا۔ سبزجھنڈوں کے سمندر میں میرے لیے کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ اپنے آس پاس ہونے والی بغاوت کے گہرے جذبات دیکھ کر ان پر دہشت گرد جہاد کا ٹھپہ لگا دیا جائے۔ یہ کشمیریوں کے لیے ایک کتھارسس تھا، جذبات کے اظہار کا ایک موقع۔ ایک طویل پیچیدہ جدوجہد کا ایک تاریخی لمحہ، تمام خامیوں، مظالم اور الجھائو کے ساتھ جو آزادی کی تحریکوں میں ہوتے ہیں۔
آج کے جیسے نازک لمحوں میں چند چیزیں خوابوں سے زیادہ اہم ہیں۔یوٹوپیا کی طرف سست پیش قدمی اور انصاف کا ایک خام تصور وہ نتائج لائے گا جن کے بارے میں سوچا نہیں جاسکتا۔ تقسیم کے ہیولے نے سر باہر نکال لیا ہے۔ ہندوتا نیٹ ورک پر یہ خبر گرم ہے کہ وادی میں ہندوئوں پر حملے کیے جارہے ہیں اور انھیں بھگایا جا رہا ہے۔ جموں سے آنے والی فون کالیں بتاتی ہیں کہ دو ہندو اکثریتی اضلاع سے مسلمان بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تقسیم پاک و ہند کے وقت ہونے والے خونی غسل کی یادیں، جس میں ۱۰لاکھ جانیں کام آئیں، واپس آرہی ہیں۔ بہرحال مستقبل میں جو کچھ ڈراوے ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس کا جواز نہیں بن سکتا کہ قوم اور عوام پر فوجی آپریشن کو جاری رکھا جاسکے۔ پرانا نوآبادیاتی موقف کہ مقامی لوگ آزادی کے لائق نہیں، کسی نوآبادیاتی منصوبے کے لیے اب قابلِ استدلال نہیں ہے۔
یہ ہے ہوا کا رخ___ ایک طرف تحریکِ آزادی اپنے نئے شباب پر، اور دوسری طرف بھارت میں پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر روایتی ہٹ دھرمی کے مقابلے میں جمہوری اصولوں اور انصاف اور حقائق شناسی کی بنیاد پر نئے غوروفکر کی ہلکی سی کرن کا ظہور۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس کو کشمیر کے مسلمانوں نے تو مضبوطی سے تھام لیا ہے مگر پاکستان کی حکومت اور پاکستانی قوم کا کیا فیصلہ ہے___ مستقبل کا اس پر بڑا انحصار ہے۔
اھلِ پاکستان کا فرض
پاکستان مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں محض ایک تماشائی نہیں، صرف مظلوم کشمیریوں کا وکیل ہی نہیں، گو وکالت کی ذمہ داریاں اس نے ماضی میں بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی ہیں۔ پاکستان اس قضیے میں ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے___ ایک مرکزی کردار۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور کشمیر کے مسلمان ساری مشکلات اور پاکستان کی حکومتوں سے مایوسیوں کے باوجود پاکستان ہی میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں۔
کشمیر اور بھارت کے اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے اور وہ دور رخصت ہوچکا ہے جس میں پرویز مشرف نے یک طرفہ طور پر پاکستان کی قومی اور متفق علیہ کشمیر پالیسی کو یکسر تبدیل کردیا تھا اور امریکا اور بھارت سے دوستی کے خمار میں اپنا سب کچھ لٹادینے کی ہمالیہ سے بڑی خطا کا ارتکاب کیا تھا۔ ۱۸ فروری کے انتخابات میں عوام نے مشرف کی کشمیر پالیسی کو بھی رد کردیاتھا اور ان نئے حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستانی حکومت اور قوم یک زبان ہوکر تحریکِ آزادی سے مکمل ہم آہنگی کا اظہار کریں۔ اس تحریک کی اخلاقی ہی نہیں بھرپور سیاسی، سفارتی، مالی اور دوسرے ذریعے سے مدد کریں اور جس طرح کشمیری عوام نے اپنے خون اور پسینے سے اس تحریک کو بامِ عروج تک پہنچایا ہے اسی طرح پاکستان اس میں بھرپور شرکت کرکے، عالمی راے عامہ کو مؤثر انداز میں متحرک کرکے بھارت پر سفارتی، سیاسی اور معاشی دبائو ڈالے تاکہ یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق حل ہوسکے۔
ہمیں خوشی ہے کہ قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حقِ خودارادیت اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عوام کی مرضی کے مطابق مستقبل کے فیصلے کے حق کی تائید کی ہے اور ان کی جدوجہد سے یک جہتی کا مظاہرہ کیاہے۔ آزاد کشمیر کے عوام نے چکوٹھی جاکر مظفرآباد آنے والے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے استقبال کا اہتمام کرکے اس جدوجہد میں اپنی شرکت کا اظہار کیا ہے۔یہ وقت پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ، تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کے لیے فیصلے کا وقت ہے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جسے ہرگز ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ پرویزمشرف کی پالیسیوں کو قوم اور تاریخ دونوں نے رد کردیا ہے اور سب سے زیادہ خود بھارت کی قیادت نے اپنے دوغلے پن اور حقیقی عزائم کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے۔ آج جموں و کشمیر کے مسلمان ایک بار پھر ایک فیصلہ کن جدوجہد میں سر پر کفن باندھ کر کود پڑے ہیں۔ اب پاکستان کا فرض ہے کہ اس تحریک سے مکمل یک جہتی کا اظہار کرے اور اس کی ہرممکن طریقے سے مدد کرے___ سفارتی، سیاسی اور مادی___ ۱۹۹۰ء میں جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا اور جو ہماری گرفت سے نکل گیا تھا، تاریخ نے ایک بار وہ موقع مسلمانانِ جموںو کشمیر اور پاکستانی قوم کو دیا ہے۔ پاکستان کے پاس صرف ایک آپشن ہے اور وہ اس تحریک کی مکمل تائید اور اسے فیصلہ کن مقام تک پہنچانے میں بھرپور کردار کی ادایگی___ کشمیر ایک بار پھر پاکستانی قوم، اُمت مسلمہ اور انسانی ضمیر کو پکار رہا ہے۔ کیا ہم اپنا فرض ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
تاریخ کی بھی عجب شان ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ بہ ظاہر ایک معمولی سا واقعہ بالآخر بڑے تاریخی نتائج کا عنوان ثابت ہوتا ہے۔ حالیہ تاریخ کا ایک ایسا ہی واقعہ نائن الیون ہے جس نے دنیا کے سیاسی نقشے کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۴۹ء میں کوریا کی جنگ ایک دُور دراز ملک میں امریکا کا ایک معمولی سا حملہ تھا مگر وہ عالمی سردجنگ کا عنوان بن گیا۔ ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں بریزنیف کی فوج کشی ایک ایسی مزاحمت کا سبب بن گئی جس کے نتیجے میں بالآخر سوویت یونین اور عالمی اشتراکیت دونوں کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ آج جارجیا جس کی اپنی ایک تاریخ ہے اور جو دورِجدید میں اسٹالن کے مولد کی حیثیت سے جانا جاتا تھا، اگست ۲۰۰۸ء میں ایک خون ریز تصادم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ قوی امکان ہے کہ روس اور جارجیا کی فوجوں کا یہ تصادم عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے اور علاقے کے مستقبل کے نقشے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے۔ ۷اگست کو شروع ہونے والے اس خونی معرکے اور ۱۶اگست کو فرانس کے صدر کی مداخلت سے ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے بڑے دُوررس اثرات متوقع ہیں۔ تاریخ کی اس نئی کروٹ کا مطالعہ ضروری ہے۔
جارجیا کی موجودہ آزاد ریاست ۱۹۹۰ء میں سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ امریکا نے اس پورے علاقے میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے اس تاریخی موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ مشرقی یورپ میں یورپی یونین کی توسیع کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بالٹک ریاستوں کو یورپ کے نئے انتظام سے وابستہ کیا گیا۔ روس کے چنگل سے نکلنے والی ریاستوں کو امریکا اور یورپی ممالک نے اپنی چھتری تلے لینے کی کوشش کی۔
جارجیا گذشتہ ۱۶،۱۷ سال سے اسی عمل کی گرفت میں ہے۔ ان ریاستوں میں آہستہ آہستہ امریکی معاشی اور فوجی امداد کا جال بچھا دیا گیا اور مغرب نواز جمہوریتوں کوفروغ دیا جانے لگا۔ جارجیا کی موجودہ قیادت امریکا کی پسندیدہ قیادت ہے۔ جارجیا کی فوجوں کی تربیت اور اسلحہ بندی امریکی فوجی نمایندے کر رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں موجودہ صدر میخائیل ساکاش ویلی (Mikheil Saakashvili) منتخب ہوئے اور امریکا نوازی میں سب سے سبقت لے گئے۔ امریکا نے بھی انھیں اپنی محبوبِ نظر شخصیت کے طور پر آگے بڑھایا، فوجی اور معاشی امداد سے تقویت بخشی، تیل اور گیس کی سپلائی لائن کے طور پر جارجیا کو استعمال کرنے کے پروگرام بنائے، اور جارجیا کو شہ دی کہ جن علاقوں پر اس کی گرفت کمزور ہے خصوصیت سے ان دو صوبوں پر جن میں دوسری قومیتوں کے لوگ آباد ہیں، جیسے ابخازیہ (Abkhazia) اور جنوبی اوسیشیا (South Ossetia) اپنی گرفت بڑھائے۔ اسی نوعیت کے ایک نسبتاً چھوٹے علاقے اجاریہ (Ajaria) پر قبضے اور اس کے انضمام نے جارجیا کو مزید حوصلہ دیا اور امریکا کی آشیرباد سے اس نے ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا پر اپنی گرفت بڑھانے کی کوشش کی جسے علاقے کے لوگوں نے ناپسند کیا۔ ان دونوں ریاستوں میں روسی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ابخازیہ میں مسلمان بھی ۲۰ فی صد کے قریب ہیں۔ یہ دونوں روس کے زیراثر رہے ہیں اور روس نے علاقائی آزادی کی تحریکوں کی مدد کی ہے جس نے حالات کو خاصا نازک بنا دیا ہے۔ اس وقت جو صورت حال رونما ہوئی ہے اس کا تعلق اسی تاریخی پس منظر سے ہے۔
امریکا نے جارجیا کو علاقے میں اپنا ایک اہم حلیف بنایا ہے۔ توانائی کے راستوں کے سلسلے میں اسے اہمیت حاصل ہے۔ اسے یورپی یونین میں شامل کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ اس وقت ایک متوقع ممبر ریاست کی حیثیت سے یورپی یونین سے اس کی بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے جسے ابتدائی قانونی شکل دسمبر ۲۰۰۸ء میں دی جانی ہے جس کے لیے امریکا کوشاں ہے اور روس جس پر سخت برہم ہے۔ یہی معاملہ یوکرین کے ساتھ ہے، نیز پولینڈ میں امریکی میزائل کی تنصیب کا مسئلہ بھی باعثِ نزاع بنا ہوا ہے۔
اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ۹۱-۱۹۹۰ء میںمنتشر ہوجانے کے بعد روس شدید بحران کا شکار تھا۔ معاشی اعتبار سے اس کی چولیں ہل گئی تھیں اور سیاسی اعتبار سے وہ بے توقیر ہوکر رہ گیا تھا۔ امریکا صرف واحد سوپرپاور ہی نہیںبنا بلکہ اسے خود روس پر ایک طرح کی بالادستی حاصل ہوگئی تھی اور خصوصیت سے یالسٹن کے دور میں روس امریکا کا متبنیٰ بن گیا تھا۔ پیوٹن کے ۷سالہ دور میں حالات بدلے ہیں۔ بہ ظاہر روس اور امریکا دوست تھے اور بش اور پیوٹن تو ایک دوسرے کو امریکی محاورے میں اپنا یار (buddy) کہتے تھے، مگر فی الحقیقت روس نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ازسرنو منظم کیا ہے۔ سیاسی اعتبار سے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ اس پورے علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھایا ہے۔ معاشی اعتبار سے اندھی نج کاری کی تباہ کاریوں کا ازالہ کیا گیا ہے اور ریاست کے کردار کو ازسرِنو مؤثر بنایا گیا ہے۔ فوج کو دوبارہ منظم کیا گیا ہے اور تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ روس یورپ کے لیے توانائی (تیل اور گیس) کا اہم ذریعہ بن گیا۔ ان حالات میں روس نے یورپ میں اپنا نیا مقام بنایا اور پورے خطے میں ایک کردار ادا کرنے کے لیے اپنے کو تیار کیا۔ امریکا روس کی یہ حیثیت ماننے کو تیار نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس نے جارجیا کے حالیہ تصادم کو غیرمعمولی اہمیت دے دی ہے۔
جارجیا نے پہلے اجاریہ پر اپنی گرفت مضبوط کی (۲۰۰۴ئ) اور پھر ابخازیہ کی طرف پنجے بڑھائے۔ روس نے درپردہ ابخازیہ کی مدد شروع کی اور جنوبی اوسیشیا کی جہاں روسی زیادہ آباد ہیں بھرپور مدد کی بلکہ اپنے امن دستے بھی تعینات کیے۔ امریکا جارجیا کی پوری مدد کرتا رہا، اور اس کی فوجوں کو اسلحے سے آراستہ کرنے کے ساتھ بڑے پیمانے پر تربیت کا اہتمام بھی کرتا رہا۔ مگر ساتھ ساتھ روس سے تصادم کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دیتا رہا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کے کچھ عناصر کے ایما پر، جن میں ڈک چینی اور نیوکونز کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے، چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا جو اپریل ۲۰۰۸ء سے شروع ہوا اور بالآخر ۷اگست کو جنوبی اوسیشیا پر فوج کشی کرڈالی گئی جس کے نتیجے میں ایک دن میں ۲۰۰۰ شہری ہلاک ہوئے اور روس کی امن فوج کے ۶۰سپاہی بھی مارے گئے۔ روس جارجیا کی فوج کشی کے خطرے کو بھانپ رہا تھا اور اپنی تیاری بھی کر رہا تھا۔ ۷اگست کے واقعے نے اسے وہ موقع دے دیا جس کا اسے انتظار تھا۔ اس نے ۸ اگست کو بھرپور جوابی حملہ کیا جس نے جارجیا پر کاری ضرب لگائی اور صرف جنوبی اوسیشیا ہی نہیں جارجیا کے ایک تہائی پر بھی ایک ہی ہلے میں قبضہ کرلیا۔ جارجیا کی فوج کو منہ کی کھانا پڑی اور اس کا مغرورصدر حواس باختہ ہوگیا۔ امریکا سخت برہم ہوا بلکہ ڈک چینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ: ’’روسی جارحیت جواب سے نہیںبچ سکتی‘‘۔
مگر عملاً امریکا کے لیے کوئی بڑا اقدام ممکن نہیں۔ جرمنی اور فرانس روس کے خلاف کسی اقدام کے خلاف ہیں۔ فرانس نے جنگ بندی کے لیے فوری کوشش کی جس کے نتیجے میں ۱۷اگست سے جنگ بندی ہوگئی ہے مگر روسی فوجیں ابھی موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ علاقہ خالی کریں گی اورکسی نہ کسی شکل میں اپنی مستقل موجودگی کا اہتمام کریں گی، خواہ وہ امن فوج کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو۔
پہلا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ روس نے اب یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ امریکا کی دبیل (ماتحتی) میں رہنے کو تیار نہیں اور وہ اپنے شہریوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوت کے استعمال کی پوزیشن میں ہے۔ امریکا اور یورپ کے لیے یہ بڑا اہم پیغام ہے۔ جارجیا کے سلسلے میں امریکا کا اپنے ایک محبوب اتحادی ملک کے اس طرح پِٹ جانے پر خاموش رہنے سے امریکا کے سوپرپاور ہونے کے باوجود طاقت کی تحدید (limitation of power )کا کھل کر اظہار ہوگیا ہے۔ یہ اس لیے اور بھی اہم ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکا اپنے مفیدمطلب نتائج برآمد نہیں کرسکا۔ عراق سے انخلا کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور افغانستان بھی اس کے لیے قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں جارجیا کی مدد نہ کرنے سے امریکا کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور جارجیا کے صدر نے اس کی شکایت بھی کی ہے۔ روس ایک بار پھر اگر عالمی سطح پر نہیں تو کم از کم اپنے علاقے میں ایک قوت کی حیثیت سے ایک کردار ادا کرنے کا آغاز کر رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اظہار خود ترکی کے صدر نے اپنے اس حالیہ انٹرویو میں کیا ہے جو انھوں نے دی گارڈین کو دیا ہے۔ گارڈین کا نمایندہ اسٹیفن کنزر (Stephen Kinzer) لکھتا ہے:
انھوں نے جنگ کے ملبے سے ایک نئی کثیر قطبی دنیا کا ظہور ہوتے دیکھا۔ جارجیا کے تنازعے نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اب امریکا عالمی پالیسیاں اپنے طور پر تشکیل نہیں دے سکتا بلکہ اسے دوسرے ملکوں کو اقتدار میں شریک کرنا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ پوری دنیا کو ایک مرکز سے کنٹرول کرسکتے ہیں۔ (۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ)
یہ ایک بڑا اہم سبق ہے جسے جتنی جلد امریکا اور دوسرے طاقت ور ملک سمجھ لیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اس میں ان کے لیے بھی بڑا سبق ہے جو اپنے تمام انڈے امریکا کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کمزور راستہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
اس واقعے سے ایک اور پہلو جو سامنے آتا ہے وہ یورپ اور امریکا کے درمیان بڑھنے والا فاصلہ اور دونوں کے سیاسی اور معاشی مفادات میں عدمِ مطابقت ہے۔ یورپی یونین کے مستقبل کی توسیع کے مسائل بھی روز بروز پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ روس پر یورپ کی توانائی کی ضروریات کا انحصار اور روس کے زیراثر ممالک سے انرجی کی شاہراہ کا گزرنا یورپ کی سیاست پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔
ایک تیسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق قومی حکومت کی حاکمیت اور علاقائی تحریکوں اور قومیتوں کے کردار سے ہے۔ سیاسی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کے طریق کار اور انسانی بنیادوں پر یا علاقائی اور اپنے شہریوں یا ہم نسل افراد کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں قوت کے استعمال کے جواز، عدمِ جوازاور حدودکار کا مسئلہ بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اسے مزید نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
جارجیا اور خصوصیت سے ابخازیہ کے سلسلے میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جارجیا میں اسلام ساتویں صدی کے وسط میں حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں پہنچ گیا تھا اور جارجیا کا دارالخلافہ تبلیسی (Tbilisi) مسلم دور کی یادگار ہے۔ جارجیا کی موجودہ حدود ایک عرب امارت کا حصہ تھیں جہاں مسلمانوں کی حکومت ۱۱۲۲ء تک رہی جب کنگ ایڈورڈ چہارم نے اسے فتح کرلیا اور عیسائی حکومت قائم کی۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں یہ علاقہ پھر دولت عثمانیہ کا حصہ بنا جسے زار روس نے انیسویں صدی میں اپنی قلم رو میں شامل کرلیا۔ یہ علاقہ امام شامل کی تحریک کا مرکز بھی رہا ہے۔
آج بھی مختلف علاقوں میں مسلم آبادی ۱۰ سے ۲۰ فی صد ہے اور کچھ علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ترک، کاکیشی اور چیچن، سب اس علاقے میں ہیں اور علاقائی تحریکوں میں بھی ان کا کردار ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس علاقے کے مسلمان امریکا اور روس کی باہمی آویزش کا نشانہ نہ بنیں بلکہ اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا لائحہ عمل اختیار کریں۔ او آئی سی کو اس سلسلے میں حالات کا گہری نظر سے جائزہ لینے اور علاقے میں مسلم کردار کی صحیح خطوط پر راہ نمائی کی فکر کرنی چاہیے۔
اس پورے معاملے پر اخلاقی اور انسانی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو ایک اور بے حد اندوہناک پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ جارجین روس اور روس کے زیراثر ملیشائوں نے اخلاق کی ہرقدر کو پامال کیا ہے اور دونوں نے اپنے مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور ظلم وتشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ نسلی صفائی جو نسل کُشی کا نیا نام ہے، اس کا بے محابا استعمال کیا گیا ہے۔ سویلین آبادی کو کھلے بندوں نشانہ بنایا گیا ہے اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور عبادت گاہوں غرض کسی کا احترام نہیں کیا گیا ہے بلکہ جنسی تشدد کو ایک جنگی حربے کے طور پر بڑی بے شرمی سے روا رکھا گیا ہے۔ یہ اس تصادم کا سب سے تکلیف دہ پہلو ہے۔ وہ اقوام جو اپنے کو مہذب کہتی ہیں اور دوسروں کو تہذیب کا درس دینے کی دعوے دار ہیں ان کا اپنا کردار بے حد گھنائونا اور بہت ہی شرم ناک ہے۔
آخر میں ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آج یہ علاقہ بڑی انقلابی اور دُور رس تبدیلیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ علاقے کے مسلمان اور اُمت مسلمہ بھی یہاں ایک کردار ادا کرسکتی ہے۔ روس اور عالمِ اسلام کے تعلقات کے لیے بھی اس کے اہم مضمرات ہوسکتے ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان مکالمے اور عالمی امن کے قیام کے لیے نئے عالمی نظام کی بحث اور کوشش سے بھی ان تمام امور کا گہرا تعلق ہے۔ ان تمام پہلوئوں پر اُمت کے ارباب بست و کشاد کو غور کرنا چاہیے اور اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔ شہداء علی الحق کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے، خواہ آج ہم اس سے کتنے ہی غافل کیوں نہ ہوں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت نے اپنے پہلے ۱۰۰ دن کے پروگرام کا اعلان کر کے پاکستانی سیاست میں ایک نئی مثال قائم کی تھی۔ حکومت کے پہلے ۱۰۰ دنوں کو انقلابی تبدیلیوں کا فیصلہ کن زمانہ قرار دینے کی روایت امریکا میں صدر روز ویلٹ نے ۱۹۳۳ء میں قائم کی جب ۴سال کی تباہ کن کساد بازاری کے بعد امریکی عوام نے ان کو سرمایہ دارانہ نظام کو اس کے بدترین ابتلا سے نکالنے کا مینڈیٹ دیا اور انھوں نے جنوری ۱۹۳۳ء میں صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی ۱۰۰ دن میں امریکا کی معیشت اور سیاست کا رخ بدل دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس طرح وہ تاریخی عمل شروع ہوا جسے نیوڈیل (New Deal) کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس میں روزویلٹ کی قیادت میں معاشی اعتماد جو پارہ پارہ ہوگیا تھا، بحال ہوا۔ بنکوں نے دوبارہ کام شروع کیا۔ حکومت نے مثبت معاشی کردار ادا کیا اور قانون سازی کے ذریعے معاشی زندگی کی ازسرنو نظم بندی کرکے ملک کو تاریکیوں سے نکال کر روشن راہوں پر سرگرمِ عمل کردیا۔ ان ۱۰۰دنوں میں روزویلٹ نے ۱۵ نئے اہم اور انقلابی قوانین منظور کرائے، کانگریس کو ۱۵ پیغام بھیجے، ۱۰ پُرعزم تقاریر کیں، ہفتہ میں دو بار کابینہ کا اجلاس کیا، ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا اور ملکی اور عالمی سیاست کے میدانوں میں تاریخ ساز پالیسیوں کا اعلان کر کے ایک نئی روایت قائم کی۔ روزویلٹ کے اس اقدام نے جمہوری سیاست میں ’حکومت کے پہلے ۱۰۰دن‘ کے باب کا اضافہ کیا۔
پاکستان میں اس نسخے کو پہلی بار زرداری گیلانی حکومت نے استعمال کیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار سنبھالتے ہی ایک خوش کن پروگرام کا اعلان کیا جس میں آمریت کے خاتمے، عدلیہ کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام، معیشت کی اصلاح، کفایت کے فروغ، مزدوروں اور طلبہ کے حقوق کی بحالی، روزگار کی فراہمی، قیمتوں کے استحکام، عوامی احتساب اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل کی نوید سنائی گئی۔ حکومت نے خود اپنی کارکردگی کی پرکھ اور سیاست اور معیشت کے نئے رخ کی جانچ کے لیے قوم اور میڈیا کو ایک معیار اور میزان فراہم کی___ ۱۰۰ دن کا اعلان کردہ پروگرام ایک آئینہ ہے جس میں حکومت کی کارکردگی کا اصل چہرہ دیکھا جاسکتا ہے اور غالباً اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ یہ تصویر تاریک، داغ دار اور مایوس کن ہے۔
اس کا اندازہ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیے جانے والے اس عوامی جائزے سے کیا جاسکتا ہے جو چاروں صوبوں کی ۵۰ تحصیلوں کے ۲۲۳ دیہی اور ۱۲۷شہری علاقوں سے متعلق ۳ہزار ۴سو ۸۴ خواتین و حضرات کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ اس کی رو سے آبادی کے ۸۶ فی صد افراد کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاری پالیسیوں کا رخ غلط ہے۔ حکومت کی کارکردگی کو ۵۱ فی صد نے مایوس کن قرار دیا ہے۔ عوامی راے کا یہ جائزہ اس حیثیت سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ آبادی کا ۸۳ فی صد جنرل (ر) پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے کے حق میں ہے اور عوامی تائید اور پسندیدگی کے اعتبار سے سب سے مقبول لیڈر نواز شریف ہیں جن کو ۸۲ فی صد لوگ پسند کرتے ہیں۔ ان کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان آتے ہیں جن کو ۷۶فی صد کرسی صدارت پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بعد مقبول ترین شخصیت چیف جسٹس افتخار چودھری کی ہے جنھیں ۶۵ فی صد کی تائید حاصل ہے۔ زرداری صاحب کو جو اس وقت سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں ۴۵فی صد کی، جب کہ یوسف رضا گیلانی کو ۶۴ فی صد اور امین فہیم کو ۴۹ فی صد (زرداری صاحب سے ۴درجے زیادہ) کی تائید حاصل ہے۔
اس جائزے کی رو سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخصیت پرویز مشرف کی ہے۔ عوامی سوچ کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ۱۰۰ میں سے ۸۹ افراد نے ملک کے سب سے اہم مسئلے کے طور پر معاشی مسائل کو پیش کیا ہے (۷۱ فی صد افراطِ زر اور مہنگائی، ۱۳ فی صد بے روزگاری اور ۵ فی صد غربت) اور ان کے ۷۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ان کی معاشی حالت گذشتہ ۴ مہینوں میں خراب ہوئی ہے۔ ۷۱ فی صد کی راے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کا حل صرف سیاسی ہے اور ۶۵ فی صد نے دہشت گردوں سے امن معاہدے کی تائید کی ہے۔ دہشت گردی کو اہم ترین مسئلہ قرار دینے والوں کی تعداد صرف ۱۲ فی صد ہے، جب کہ خودکش حملوں سے خطرہ محسوس کرنے والے افراد صرف ۲فی صد ہیں۔ رہا القاعدہ سے خطرہ محسوس کرنے کا سوال، تو ان کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ (ملاحظہ ہو، روزنامہ ڈان، ۱۸ جولائی ۲۰۰۸ء اور بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، ۱۷ جولائی ۲۰۰۸ئ)
زرداری گیلانی حکومت کا بے لاگ اور معروضی جائزہ اس حقیقت کے اعادہ کے بغیر منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس حکومت کو مارچ ۲۰۰۸ء میں مشرف دور کی آٹھ سالہ غلط اور تباہ کن معاشی، سیاسی، انتظامی اور خارجہ پالیسی کے نتائج سے سابقہ تھا اور اس کے ساتھ عالمی معاشی اور سیاسی حالات بھی بڑے ناموافق تھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سارے حالات ۲۰۰۷ء میں کھل کر سامنے آگئے تھے اور پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں 5-E۱؎ کا جو پروگرام پیش کیا تھا وہ ان حالات کے پیش نظر ہی پیش کیا گیا تھا۔ پھر کسی مطالبے کے بغیر پہل کاری کرتے ہوئے ۱۰۰ دن کا جو پروگرام اس نے پیش کیا، وہ نہ کسی مجبوری کی وجہ سے تھا اور نہ آنکھیں بندکرکے مرتب کیا گیا تھا۔ توقع یہی کی جاتی ہے کہ ۱۰۰ دن کا پروگرام سوچ سمجھ کر پیش کیا گیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا ۵ فی صد بھی ان چار مہینوں میں حاصل نہیں کیا جاسکا۔ یہ حکومت کی موجودہ ٹیم کی نااہلی اور اس پورے دروبست کی ناکامی کا ثبوت ہے جو آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیرکی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو اپنی گرفت میں لے کر اپنی پسند کی ایک ٹیم کے ذریعے قوم کو دیا تھا۔ یہ ناکامی دراصل زرداری صاحب اور ان کی ٹیم کی ناکامی ہے اور ان پالیسیوں کی ناکامی ہے جو عملاً انھوں نے اختیار کیں اور ۱۰۰ دنوں کے اعلان کردہ پروگرام کو پسِ پشت ڈال کر ملک اور خود اپنی پارٹی پر مسلط کیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود پیپلزپارٹی کے ایک رکن جناب امین فہیم اور محترمہ بے نظیر کی ٹیم کے اہم افراد اس ناکامی کا کھلے بندوں اعتراف کر رہے ہیں اور زرداری صاحب اور ان کی پالیسیوں اور ان کے مقرر کردہ افراد کو ان حالات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ امین فہیم صاحب کے ارشادات نوٹ کرنے کے لائق ہیں جن کی مزید تفصیل دی نیوزانٹرنیشنل کی ۱۶جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں دیکھی جاسکتی ہے:
پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر نے دی نیوز کو بتایا: میں تمام ممکنہ نتائج بشمول زرداری کے زیراثر قیادت کی جانب سے شوکاز نوٹس کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔ انھوں نے کہا: پارٹی کے موجودہ رہنمائوں نے پارٹی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے اور ملک کی صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے۔ امین فہیم یہ کہتے ہوئے کہ پارٹی کو چند نئے آنے والوں اور مفادات پرستوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، آبدیدہ ہوگئے۔
امن و امان کی صورت حال بگڑ رہی ہے، لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں کررہے ہیں، سرحدیں غیرمحفوظ ہیں، قیمتیں بے تحاشا بڑھ رہی ہیں اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ امین فہیم نے تفصیل سے بتایا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرقیادت حکومت اس قابلِ افسوس صورت حال کی پوری طرح ذمہ دار ہے۔ حکومت نے ۱۰۰ دن گزرنے کے باوجود ان دائروں میں بہتری کے لیے کچھ نہ کیا۔ پی پی پی پی کے صدر نے ایک سوال کے جواب میں اس سے اتفاق کیا کہ پارٹی کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا ہے اور یہ حالت اگر جاری رہی تو ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟
خودکشیاں، قیمتوں میں اضافہ اور امن و امان کی صورت حال حکومت کے قابو سے بالکل باہر ہے۔ سینیر ممبر ہونے کی حیثیت سے میرایہ اولین فرض ہے کہ پارٹی کے معاملات اوراس کے ساتھ ساتھ حکومت کے معاملات میں خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کی نشان دہی کروں۔ اگر پارٹی کی قیادت اس کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی سمجھتی ہے، تب بھی میں اپنے موقف پر قائم رہوں گا۔
پی پی پی کے سینیر نائب صدر مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اب بھی بیک ڈور چینل کے ذریعے صدر پرویزمشرف سے رابطے میں ہے اور قوم پیپلزپارٹی کی زیرقیادت حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ ۱۰۰ دنوں میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ صرف افراطِ زر کو بڑھایا گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال خراب ہے اور اغوا براے تاوان اپنے عروج پر ہیں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۰ جولائی ۲۰۰۸ئ)
صاف نظر آرہا ہے کہ ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کو زرداری حکومت نے سوچ سمجھ کر نظرانداز کیا ہے اور عوام نے جس تبدیلی (change) کے لیے قربانیاں دی تھیں اور سیاسی جماعتوں اور نمایندوں کو مینڈیٹ دیا تھا، اس کو پسِ پشت ڈال کر مشرف کے دور کی پالیسیوں کے تسلسل کا راستہ اختیار کیا گیا۔ یہ ہے وہ اصل وجہ جس کے نتیجے میں آج تک نہ ملک کا رخ درست ہوسکا ہے، نہ جمہوریت کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے، نہ عدلیہ بحال ہوئی ہے، نہ امن و امان میں بہتری کی کیفیت رونما ہوئی ہے، نہ معیشت میں کوئی مثبت پیش رفت ہوئی ہے، نہ عوام کی زندگی میں بہتری کی کوئی صورت پیدا ہوئی ہے، نہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آگ سے پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج اپنا دامن بچا سکے ہیں، نہ اپنی آزادی اور عزت کو درپیش خطرات سے بچائو کی سرِمو بھی کوئی راہ اختیار کرسکے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ پوری دیانت داری، لیکن جرأت اور بے باکی سے، اس امر کا تعین کیا جائے کہ کہاں غلطی ہوئی ہے، عوام کے اعتماد کو کس نے اور کس طرح ضرب لگائی ہے اور چند مہینے میں نئی قیادت نے کس تیزی سے قوم کو مایوس کیا ہے اور مسائل کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس نشان دہی کی بھی ضرورت ہے کہ اب بھی اس دلدل سے کیسے نکلا جاسکتا ہے اور قوم کو کسی نئے طالع آزما یا پرانے شاطروں کے گھنائونے کھیل سے کس طرح بچایا جاسکتاہے۔
۲۵ مارچ ۲۰۰۸ء کو قومی اسمبلی نے قائد ایوان کا متفقہ انتخاب کر کے جمہوریت، دستور اور قانون کی حکمرانی کے احیا کی طرف صحیح قدم اٹھایا تھا۔ فروری کے انتخابات کا یہ پیغام بھی سب کے سامنے تھا کہ اب قوم کو فوری طور پر آمریت اور اس کے دست و بازو سے نجات حاصل کرنا ہے اور جمہوریت کا سفر باہمی مشاورت، تعاون اور قومی یک جہتی پیدا کرکے جاری رکھنا ہے۔ قوم نے کسی ایک پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں دی تھی جس کا تقاضا تھا کہ کم از کم دونوں بڑی پارٹیاں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مل جل کر سارے معاملات کو طے کریں اور باقی ان تمام جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں جو مشرف کے آمرانہ دور میں اس کی شریک کار نہ تھیں۔ ۱۸فروری کے انتخابی نتائج سے رونما ہونے والی سیاسی صورت حال کی تشکیل میں جہاں ان جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کا کردار تھا جن کو عوام نے اپنے اعتماد کا ووٹ دیا، وہیں ان قوتوں کا بھی بڑا اہم کردار تھا جنھوں نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور سیاسی فضا کو بنیادی تبدیلی کے لیے تیار کیا۔ ان میں اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے ساتھ وکلا برادری کی جان دار تحریک، برطرف ججوں کی جرأت اور استقامت، طلبہ اور سول سوسائٹی کی انقلابی جدوجہد ہر ایک کا حصہ تھا۔ ضرورت تھی کہ پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر تمام اہم سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر آگے کے مراحل کو طے کیا جاتا۔ لیکن زرداری صاحب نے بظاہر تو دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی اختیارکی مگر فی الحقیقت یہ حکمت عملی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قومی مفاہمتی آرڈی ننس (NRO) کی چھتری تلے پناہ لینے والوں کے نیوکلیس کو مضبوط و مستحکم کرنے اور باقی سب کو اس نیوکلیس کے لیے سہارا اور مددگار بنانے پر مبنی تھی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت بنانے کا ڈھونگ رچایا گیا مگر ساتھ ہی اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) ہی کو نہیں بلکہ ایم کیو ایم کو بھی ساتھ ملانے اور ان کوتوازن اقتدار (balancing power) کی پوزیشن میں لانے کا کھیل کھیلا گیا۔ پہلے دن ہی ججوں کی حراست کو ختم کیا گیا مگر اس کے دوسرے اور اہم تر منطقی اقدام یعنی ججوں کی بحالی کو جان بوجھ کر بلکہ بار بار دھوکا دے کر مؤخر اور معلق کیا گیا اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانا چاہیے تھا اور جس کے نتیجے میں نظامِ عدل بحال ہوجاتا آج تک نہیں کیا گیا اور اس پر طرّہ یہ کہ ایک دستوری پیکج کے نام پر نہ صرف ججوں کی بحالی کو لاینحل الجھائو کا شکار کردیا گیا بلکہ عدالت کی آزادی اور اختیارات پر بھی شب خون مارا گیا تاکہ ہمیشہ کے لیے دستوری نظام کایہ ستون ریت کی دیوار بن جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ آمریت کے وار سے برطرف ججوں کی بحالی اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت سے نجات پرچہ امتحان (test case) کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اب یہ بات الم نشرح ہوچکی ہے کہ زرداری صاحب کا پہلے دن سے ان دونوں امور کے بارے میں مقصد اس سے بالکل مختلف تھا جس کا وہ بظاہر اعلان کر رہے تھے اور دوسری سیاسی جماعتوں کو یقین دلا رہے تھے۔ جیساکہ اب ملک اور ملک سے باہر کے بالغ نظر اور آزاد تجزیہ نگار کھل کر لکھ رہے ہیں، زرداری صاحب کی پرویز مشرف سے این آر او کی بنیاد پر مضبوط باہمی اتفاق ہے۔ این آر او کے تحت احتساب اور قانون کی گرفت سے نکلنے والے ایک ایک شخص کو انھوں نے اپنی ٹیم کا حصہ بنایا ہے اور ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو وہ این آر او اور اس کی چھتری میں پناہ لینے والے تمام افراد کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ۳۰دن کا بھوربن کے اعلان کو بعد میں ایک سیاسی بیان کہہ کر غیراہم قرار دیا لیکن اس طرح انھوں نے خود اپنی زبان سے اپنی زبان کے غیرمعتبر ہونے کا اعلان کردیا۔ پھر ۱۲مئی کا وعدہ کیا گیالیکن وہ بھی وفا نہ ہوا اور مسلم لیگ (ن) وزارتوں سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئی۔ ۲۵مارچ سے وزیراعظم گیلانی اور جناب زرداری جس ’خوش خبری‘ کا اعلان کر رہے ہیں وہ خوش فہمی ہی نہیں، دھوکا دہی کی حدوں سے بھی آگے جاچکی ہے، اور جیساکہ جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے نے مجبور ہوکر کہہ ہی دیا ہے وہ حقیقت اب سب کے سامنے ہے۔ جسٹس رمدے کا جیو ٹی وی پر انٹرویو شائع ہوا ہے جس کا یہ حصہ اصل حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے:
معزول جج خلیل الرحمن رمدے کو پرویز مشرف کے مقابلے میں جمہوری منتخب حکومت عدلیہ کی زیادہ مخالف نظر آتی ہے۔ رمدے نے کہا کہ آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف مارشل لا لگانے اور کوئی ۶۰ججوں کو برطرف کرنے کے لیے صرف اس لیے مجبور ہوا کہ اپنی صدارت کو جاری رکھ سکے لیکن آج کی جمہوری طور پر منتخب حکومت اس سے آگے جاچکی ہے۔ یہ عدلیہ کے دستوری اختیارات کو کم کردینا چاہتی ہے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ)
مشہور ماہر قانون ڈاکٹر فاروق حسن اپنے مضامین میں این آر او کے اس طلسماتی کردار کا مضبوط دلائل کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں۔ ۲۹جون ۲۰۰۸ء کے دی نیشن میں وہ NRO: Musharruf's Proxy Warکے عنوان سے لکھتے ہوئے بجاطور پر کہتے ہیں کہ مشرف کرسیِ صدارت پر براجمان ہے تو اس کی وجہ این آر او ہے جو مشرف نے اس لیے جاری کیا کہ پیپلزپارٹی کی سیاسی طاقت کو قابو کرسکے۔
یہ صرف این آر او کی وجہ سے ہے کہ تمام سیاسی محاذوں پر بھاری ناکامی کا سامنا کرنے کے باوجود مشرف اس طرح برسرِاقتدار رہنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ حقائق پوری طرح ثابت کرتے ہیں کہ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے وفاقی حکومت کے بہت سے طاقت ور افراد مشرف کی سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں:
۱- اس آرڈی ننس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے کون ہیں؟
۲- ان میں سے کتنے موجودہ حکومت میں ہیں؟
۳- ان رقومات کی مقدار کتنی ہے جو وہ اجتماعی اور انفرادی طور پر حکومت کی گرفت سے بچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟
میں حیرت زدہ ہوں اور بے حد افسردہ بھی، کہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی ماحول میں شر کی قوتیں بظاہر مضبوطی سے قائم ہیں۔ اس واضح نوشتۂ دیوار کے باوجود کہ ججوں کی بحالی کے مسئلے کو حل کیے بغیر پیپلزپارٹی اور زرداری کے لیے شرمناک ناکامی مقدر ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ مشرف نے زرداری اور بی بی کے بارے میں اتنا کچھ کہنے کے بعد اچانک ان کو آنے کی اجازت دے دی، اس کے باوجود کہ امریکی اور برطانوی خارجہ عہدے داران نے اس ڈیل میں مداخلت کی، مشرف کے لیے ’اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے‘ والا معاملہ تھا جو اس وقت ہو رہا ہے۔ بدعنوانی کے کروڑوں ڈالر انھی کے پاس رہنے دیے گئے اور طویل المیعاد قیدوبند کے فیصلوں کے اندیشے ختم کردیے گئے۔ اسی طرح اس نے ان کو لفظ کے لغوی معنوں کے مطابق معلق کردیا ہے۔ ایسے رہنمائوں کی بقا کا بنیادی پاسپورٹ بدنامِ زمانہ این آر او ہے۔ صدر نے یہ کیا کہ اس این آر او کو دستور کے شیڈول میں انھی غیرقانونی ’قوانین‘ کے ساتھ رکھ دیا جو ۳نومبر کے غصب کے ساتھ نافذ کیے گئے تھے۔ اگر جج اسمبلی ریزولیوشن کے ذریعے اس بنیاد پر واپس آتے ہیں کہ مشرف نے ایک غیرقانونی کام کیا تھا تو این آر او کا تحفظ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی قیادت کا پریشان ہونا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ محض ججوں کی خاطر ملک کے اعلیٰ ترین مناصب سے اپنے اخراج کی منظوری کیسے دیں، جو اگر بحال ہوگئے تو این آر او کو ختم کردیں گے۔ روز کا مشاہدہ ہے کہ ہر روز سنگین کرپشن مقدمات سے بری ہونے کی درخواستیں انھی قائدین کی جانب سے آرہی ہیں جو اکتوبر تک امریکا یا برطانیہ میں عیش و آرام سے رہ رہے تھے۔ اگر این آر او ناکام ہوتا ہے تو ممکنہ طور پر انھیں سختی کا سامنا کرنا پڑے گا اور پیسہ واپس کرنا ہوگا۔ (دی نیشن، ۲۸ مئی ۲۰۰۸ئ)
ایک اور ماہر قانون دان بیرسٹر سیداقبال احمد ڈان میں NRO and Politics of Plunder کے عنوان سے ۱۹جولائی ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں کہ این آر او انصاف اور راست معاملہ کاری کی ضد ہے۔ (The NRO, as it stands, is a traversty of justice and fair play.)
بغیر کہے سب کو معلوم ہے کہ ریاست کے اعلیٰ عہدے دار اور سٹیک ہولڈرز پاکستان میں ایک آزاد عدلیہ نہیں چاہتے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف بلاشبہہ نہیں چاہیں گے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری اور معطل کیے ہوئے ان کے ساتھی جج ایک دفعہ پھر واپس آئیں اور ایک بار پھر ان کی قسمت کا فیصلہ کریں۔
کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ قیادت کے ہاتھ پائوں جنھوں نے این آر او کے ثمرات سمیٹے ہیں جنرل (ر) مشرف نے مضبوط دھاگوں سے باندھ دیے ہیں اور وہ انگلیاں تک نہیں اُٹھا سکتے، گو کہ ان کے منہ عوام کے سامنے لفّاظی کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے ایک لیڈر نے بہت صحیح کہا کہ مشرف اور زرداری ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں اور درحقیقت ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہیں۔
صدرمشرف کے خطرات اور اندیشے جن کی صدارت خطرے میں ہے، پیپلزپارٹی کے حکمران جن کے اربوں ڈالر جاسکتے ہیں، اور پی سی او عدلیہ کے سربراہ جسٹس اے ایچ ڈوگر جن کے اختیارات اور مقام غیریقینی ہیں، سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنے ذاتی مفادات کے تحت یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ افتخار چودھری اور ان کے ساتھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ۳نومبر کی پوزیشن پر بحال ہوجائیں۔ وہ سب کسی نہ کسی طرح خطرے کی بالکل زد میں ہیں۔ اس صورت حال میں پرویز مشرف اپنی صدارت اور پی پی پی کے لیڈر اپنے اربوں روپے چھوڑنے کو پسند نہیں کریں گے اور ایم کیو ایم کے کارکن انصاف کی خاطر عدالتوں کا سامنا کرنا پسند نہیں کریں گے۔
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ یہ ۱۰۰ دن سب پردے اٹھانے اور طلسم ہوا کرنے کا باعث ہوئے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرف اور زرداری ایک ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔
۱۰۰ دن پورے ہوچکے ہیں، وعدے وفا نہیں ہوئے بلکہ یہ احساس پرورش پارہا ہے کہ ملک کو جو بحران درپیش ہے وہ ایک ایسا نظام تشکیل دے رہا ہے جہاں ہیئت مقتدرہ کا اسٹیٹس کو جیت رہا ہے۔ یہ مشرف کو جری کردیتا ہے اور زرداری کے پہیوں کو گریس لگاکر مزید تیز کردیتا ہے اور دونوں میں ایک غیرمقدس اور ناپاک اتحاد قائم ہوتا ہے جو نظر آتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تکمیل پذیر ہوگا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)
اپنے پہلے ۱۰۰ دنوں میں گیلانی حکومت نے شکاری کتوں کے ساتھ شکار کھیلنے اور خرگوش کے ساتھ بھاگنے کی سی کوشش کی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی بحران جنھوں نے ملک کو گھیر رکھا ہے اس پر اس کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ کسی بھی بحران کا سامنا ہو، ایک حکومت کو متنازع ایشوز کا سامنا ہے۔ کیا چیز حکومت کو ایک سخت موقف اختیار کرنے سے روک رہی ہے؟ پیپلزپارٹی کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرف بیش تر مسائل کی جڑ ہے۔ جب تک وہ باقی رہتا ہے ملک کی سیاسی زندگی بحران کا شکار رہے گی۔
اس دوران پیپلزپارٹی کو اسلامی انتہاپسندوں کی دھمکیوں کے بارے میں امریکی امداد اور مشورے کے بغیر ایک آزاد موقف خود اپنے طور پر اختیار کرنے کے لیے امریکیوں کو ’نہیں‘ کہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ایک آزاد خارجہ پالیسی ایسے مضبوط عزم کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان اپنے موجودہ بحرانوں بالخصوص معاشی بحران سے نکل آئے اور عوام میں تحرک ہو۔
امریکا اب بھی اصرار کرر ہا ہے کہ مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی رہنمائی کرنے کے لیے سپریم (بالادست) کے طور پر رکھا جائے۔ اسے ملک میں کچھ سیاسی حمایت حاصل ہے۔ وہ کچھ ایسے لوگوں کو جمع کرسکتا ہے جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک نئی حکومت کو سہارا دے سکتے ہیں۔
پی پی پی نے اپنی بیمہ پالیسی کے طور پر امریکیوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھنے کی خاطر مشرف کو اس کی جگہ پر رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔(دی نیوز انٹرنیشنل، ۹جولائی ۲۰۰۸ئ)
ہم نے صرف چند اہم تجزیہ نگاروں کی آرا یہاں پیش کی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اب آزاد اہلِ قلم کی بڑی تعداد یہ کہنے پر مجبور ہے کہ زرداری گیلانی حکومت کی پہلے ۱۰۰دن نہایت مایوس کن ہیں۔ اصل وجوہات کا تجزیہ کیا جائے تو تصویر کے خدوخال کچھ اس طرح کے دکھائی دیتے ہیں:
۱- بظاہر مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں ہیں لیکن فی الحقیقت مرکز میں اصل حکومت صرف پیپلزپارٹی کی ہے اور اس میں بھی آصف علی زرداری اور ان کے من پسند افراد ہیں جن میں ایک خاص تعداد ان لوگوں کی ہے جو این آر او کے سہارے اقتدار کے دروازوں پر ایک بار پھر پہنچ گئے ہیں۔ ان میں سیاسی شخصیات کے علاوہ وہ سرکاری ملازم بھی ہیں جو قانون کو مطلوب تھے، راہِ فرار اختیار کیے ہوئے تھے اور اب اس چھتری تلے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کے مسئلے پر عہدشکنی کے سبب وزارتوں سے الگ ہوچکی ہے۔ اے این پی اور جمعیت علماے اسلام (ف) بار بار گلہ کر رہے ہیں کہ ان سے کوئی مشورہ نہیں ہوتا اور جناب آصف زرداری اور ان کے معتمد افراد ہر فیصلہ خود کر رہے ہیں بلکہ مشیرداخلہ رحمن ملک صاحب تو وزیراعظم کا پروٹوکول ہی نہیں رکھتے، وزیراعظم کے علم کے بغیر ہی پالیسیاں تبدیل کرڈالتے ہیں جس کی نمایاں ترین مثال ضمنی انتخابات کا التوا ہے۔ ایسے اقدام استثنائی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان کا طریق واردات قراردیے جاتے ہیں۔ مخلوط حکومت ایک تہمت ہے، اصل حکومت پی پی پی اور زرداری صاحب کی ہے اور باقی سب اپنے اپنے مصالح کی خاطر بطور ضمیمہ شامل ہیں۔ اصل یگانگت اور ہم آہنگی پی پی پی کے زرداری دھڑے، مشرف اور ایم کیو ایم میں ہے اوررحمن ملک صاحب اس تثلیث کے محافظ اور سہولت کار(facilitator) کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
۲- ان ۱۰۰ دنوں میں حکومت کا اپنا کوئی آزاداور منفرد رُخ سامنے نہیں آیا۔ جیساکہ ہم نے عرض کیا سارے زبانی جمع خرچ کے باوجود اصل حقیقت ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ خارجہ پالیسی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا کردار، معاشی پالیسیاں، دستور اور قانون کے تقاضوں سے بے اعتنائی، سیاسی مسائل کے حل کے لیے قوت کا بے دریغ استعمال اور اس کے لیے باقاعدہ فوج کو اختیارات کی تفویض، جب کہ مذاکرات کے حق میں زبانی جمع خرچ (lip service) اس حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ ملک پر امریکا کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئی ہے اور جو یلغار امریکی سول اور فوجی حکام کی اس زمانے میں ہوئی ہے اور اس کے ساتھ جس رعونت اور بے دردی سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں اور پاکستان کی زمین پر پاکستانیوں کی ہلاکت کا سامان امریکا نے کیا ہے، اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس پر مستزاد امریکا کے سلسلے میں سخت معذرت خواہانہ رویہ ہے جس کی بدترین مثال وزیرخارجہ کی کونڈولیزارائس سے ملاقات ہے جس میں امریکی وزیرخارجہ نے ہمارے وزیرخارجہ کو اچھی خاصی جھاڑ پلائی، سرحدی خلاف ورزیوں اور اپنی مرضی سے فوج کاری کی دھمکیاں دیں اور ہمارے وزیرخارجہ نے پریس کو بیان دیتے ہوئے امریکا کی ایسی فوجی دخل اندازیوں کو غیردوستانہ اقدامات (un friendly acts) تک کہنے سے گریز فرمایا۔۲؎ گویا ع
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے!
امریکی صدر، صدارتی امیدوار، سینیٹ اور ایوانِ نمایندگان کے ارکان کے ارشادات اور امریکی انتظامیہ اور فوجی قیادتوں کے بیانات اور انتباہات پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی دہشت گردی برپا ہے سب کا منبع اور مرجع پاکستان ہے۔ اس فضاسازی کا مقصد مشرف کو پاکستان پر مسلط رکھنا، اور سول عناصر پر مبنی حکومت کی ایسی گوشمالی کرنا ہے کہ وہ امریکی دبائو کے آگے چوں بھی نہ کرے۔ امریکی نوازشیں دو طرح کی ہیں: ان ۴ مہینوں میں ۲۰ سے زیادہ بار ہماری سرحدوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں، پاکستانی فوجی چوکی تک کو نشانہ بنایا گیا، اور سیکڑوں عام شہریوں اور ۱۳ فوجی افسروں اور جوانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا ہے۔ اس خون آشامی کے ساتھ سیاسی دبائو اور بازو مروڑنا (arm twisting) بھی روزافزوں ہے، تاکہ سول حکومت کوئی آزاد راستہ اختیارنہ کرسکے۔ اس کے ساتھ فوجی اور معاشی امداد کی رشوت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور اس طرح لاٹھی (stick)اور گاجر (carrot) دونوں کا بے دردی سے استعمال جاری ہے___اور ہماری حکومت ہے کہ ہر ضرب اور ہر ہلاکت کے بعد ایک ہی رٹا ہوا جملہ دہراتی رہتی ہے کہ ’’ملک کی حاکمیت اور آزادی کے خلاف کسی دست درازی کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ گویا امریکا یہ سب کچھ آپ سے اجازت لے کر رہا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ وہی زبان ہے جس کا استعمال طالبان اور افغان غیرت مندوں نے وہاں کے صوبے پکتیا میں وانات (Wanat) کے مقام پر کیا۔ امریکا اس چوکی کو چند دن بھی اپنے قبضے میں نہ رکھ سکا اور جب ۹ امریکی فوجی ہلاک اور ۱۵ زخمی ہوئے تو تین دن کے اندر امریکی افواج اس چوکی کو خالی کرگئیں اور اس پر طالبان نے دوبارہ قبضہ کرلیا جسے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے The withdrawal handed a propaganda victory to the Taliban (واپسی نے طالبان کو ایسی فتح دی جس کا خوب پروپیگنڈہ ہو) قرار دیا۔ (۱۶ جولائی ۲۰۰۸ئ)
گذشتہ ۳ مہینے میں امریکا نے پاکستان کا کس طرح سفارتی گھیرائو کیا ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے۔
۱۸ فروری کے انتخابات کے بعد اعلیٰ امریکی سفارت کاروں اورفوجی کمانڈروں نے اسلام آباد کے دوروں اور نیچے کی سیاسی سطح تک ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا جس کا مقصداین آر او کے پس منظرمیں نئی سیاسی قیادت کا جو نقشہ بنایا گیا تھا اسے عملی شکل دینا تھا۔ ان ۴ مہینوں میں اعلیٰ اختیاراتی ۱۴ مشن پاکستان آئے ہیں اور امریکی سفیرہ صاحبہ کی سفارتی یلغار اس پر مستزاد ہے۔ اس سفارتی یلغار کے تین مقاصد تھے: پہلا یہ کہ امریکا کے مفیدمطلب حکومت تشکیل پائے اور صدرمشرف اور ایم کیو ایم اس کا مرکزی حصہ ہوں۔ دوسرے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جو خدمات پرویز مشرف کے بلاشرکت غیرے دور میں انجام دے رہا تھا، ان کو جاری رکھا جائے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی حکمت عملی کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔
۳- تیسرا مقصد انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے نام پر ملک کی اسلامی قوتوں کو غیر مؤثر بنانا، مدرسوں کے نظام کو قابو میں کرنا، ملک میں سیکولر تعلیم کا فروغ اور سیکولر قوتوں کو تقویت دینا ہے۔ بھارت سے پاکستان کو قریب کرکے، کشمیر کے مسئلے کو دائمی تعویق میں ڈالنے اور تجارت اور ثقافت کے رشتوں کو استوار کرکے پاکستان کی منڈیوں کو بھارتی مصنوعات کے لیے کھولنے اور پاکستانی معاشرے کو بھارتی ثقافت کی آماج گاہ بنانے کی خدمت ہوشیاری سے انجام دی جائے۔ عدلیہ کی بحالی، گمشدہ افراد کی بازیابی اور حقیقی معاشی خودانحصاری کے ایجنڈے کو پس پشت رکھا جائے اور امریکی ایجنڈے کے حصول کے لیے ’ڈنڈے اور گاجر‘ (stick and carrot)کا ہر حربہ استعمال کیا جائے۔ امریکا نے سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ ہرقسم کے دبائو اور دھمکیوں کا راستہ بھی اختیار کیا ہے اور زرداری گیلانی حکومت امریکی دبائو کے جواب میں صرف پسپائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ قیادت امریکا کی فوجی کارروائیوں کا خاطرخواہ جواب دینے کی جرأت سے یکسر محروم ہے اور اطلاع ہے کہ زرداری صاحب نے نوازشریف سے کہا ہے کہ دونوں مل کر صدربش کی خدمت میں حاضری دیں اور ملک کے مسائل کے حل کے لیے ان کی آشیرباد حاصل کریں۔ ذہنی غلامی اور سیاسی محکومی کی اس سے زیادہ پست سطح اور کیا ہوسکتی ہے؟
آگے بڑھنے سے پہلے ایک نگاہ ذرا ان میں سے چند بیانات پر بھی ڈال لیں جن کی مارچ میں گیلانی صاحب کے وزیراعظم بننے کے بعد مسلسل بم باری پاکستان پر کی جارہی ہے۔
ان پر زور دیتے ہوئے کہ دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں کو عراق سے ایران اور پاکستان منتقل کردیں۔
وائٹ ہائوس نے امریکی وسائل کا بہت زیادہ حصہ عراق پر صرف کیا ہے جب کہ افغانستان اور پاکستان کے دہشت گردی کے مراکز (terror homes) کو نظرانداز کیا ہے۔
۱۲ اپریل کو صدربش اے بی سی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اس خط کی بازگشت اور پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے نئی امریکی حکمت عملی کو یوں بیان فرماتے ہیں:
پاکستان، نہ کہ افغانستان یا عراق، اب وہ جگہ ہے جہاں ایسا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں نائن الیون جیسے حملے کیے جائیں۔
۲۲ مئی کو امریکی جرنیل ڈیوڈ پیٹرا نی یوس امریکی جاسوسی اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر اسی خطرے کی اس طرح جگالی فرماتے ہیں:
میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اس اندازے کی تائید کرتا ہوں کہ امریکی سرزمین پر نائن الیون قسم کا دوسرا حملہ پاکستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں سے کیا جائے گا۔
جون کے مہینے میں افغانستان میں امریکی اور ناٹو فوجوں کی ہلاکت ریکارڈ حد تک ہوئی اور پہلی بار امریکی فوجی عراق سے زیادہ افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس کے بعد امریکی بحری بیڑے USS Abraham Lincoln کو بحیرۂ عرب میں منتقل کردیا گیا۔ امریکی فوجی کمانڈر خصوصیت سے جناب چیف ایڈمرل مائیکل میولین نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ:
پاکستان سرحد پار کرکے افغانستان آنے والے جنگجوؤں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کر رہا (not doing enough)۔
اس کے ساتھ فاٹا کے علاقے میں بیرونی دہشت گردوں کے جمع ہونے، تربیت پانے اور وہاں سے کارروائیاں کیے جانے کے خطرات سے امریکی اور عالمی میڈیا اور سیاسی محاذوں پر ایک پروپیگنڈا جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان سب کا اصل ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کو خائف کرکے اور دیوارسے لگاکر اُوپر بیان کردہ امریکی مقاصد کے حصول کے لیے فضا سازگار کی جائے۔
این آر او کے تحت پناہ لینے والے حکمران اپنی کھال بچانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت اور اختیار کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔ یہ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ فاٹا، سوات اور اب پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کردیے گئے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے سیاسی حل کے جو امکانات پیدا ہوئے تھے، وہ خاک میں ملتے نظر آرہے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف اپنی سات سالہ جنگ بقول نوبل لاریٹ پروفیسر جوزف سٹگلیٹ تین ٹریلین ڈالر سے بھی کہیں زیادہ کا نقصان امریکا خود اٹھانے اور دنیا کو اٹھانے پر مجبور کرنے کے باوجود شکست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس شکست میں پاکستان کو فوج کشی کی دھمکیوں اور معاشی امداد کی زنجیروں دونوں کی مار کے ذریعے گھسیٹا جارہا ہے اور زرداری گیلانی حکومت ہے کہ صوبائی حکومتوں کے احتجاجات کے باوجود امریکا کے آگے سپر ڈالے جارہی ہے اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف اپنی فوج کو استعمال کر کے فوج اور قوم کے تعلقات کو ہمیشہ کے لیے خراب کر رہی ہے۔
۴- چوتھا پہلو جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے وہ معاشی حالات کا بگاڑ ہے جس کی گرفت روز بروز مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ بگاڑ اجتماعی فساد کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس پہلو سے سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ کھانے پینے کی عام اشیا کی قلت اور گرانی کا ہے جس نے ہرگھر کو متاثر کیا ہے۔ تیل، گیس، بجلی، آٹا، سبزیاں، دالیں اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ ان چار مہینوں میں حکومت کوئی ایسی پالیسی نافذ نہیں کرسکی جو لوگوں کی مشکلات اور مصائب میں کمی لاسکے۔ اس وقت پاکستان میں آبادی کا ایک تہائی شدید غربت کا شکار ہے اور عمومی غربت (آمدنی ۲ڈالر یومیہ) تین چوتھائی (۷۵ فی صد) آبادی کا مقدر بن گئی ہے۔ آبادی کے تازہ ترین سروے کے مطابق ۲۵ فی صد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے یعنی جسم و جان کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے جتنی خوراک درکار ہے وہ اس کو میسر نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ چاروں صوبوں میں بچے اپنی عمر کی مناسبت سے جو ان کا وزن ہونا چاہیے اس سے کم وزن رکھتے ہیں۔ اس وقت ایسے بچوں کی تعداد ۲۸ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ قیمتوں کا حال یہ ہے کہ ان چار مہینوں میں پٹرول کی قیمت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے یعنی ۳۰ئ۵۳ روپے فی لٹر سے بڑھ کر ۶۹ئ۷۵ روپے فی لٹرہوگئی ہے اور ۱۰ سے ۱۸ فی صد کے تازہ ترین اضافہ (۲۱ جولائی ۲۰۰۸ئ) نے تو سب کی کمر بالکل ہی توڑ دی ہے۔ اب مٹی کا تیل ۹۳ئ۵۷ روپے فی لٹر ہوگیا ہے اور ابھی بھی تیل کمپنیوں کے مطالبات میں کمی نہیں آئی ہے۔ تیل اور گیس کی اتھارٹی ’اوگرا‘ ھل من مزید پکار رہی ہے۔ ملک میں افراطِ زر کی شرح میں محیرالعقول اضافہ ہو رہا ہے اور شماریات کے فیڈرل بیورو نے جو اعداد و شمار وسط جولائی میں جاری کیے ہیں ان کی رو سے ملک میں اس وقت افراطِ زر کی شرح گذشتہ ۳۰سال میں سب سے زیادہ ہے یعنی گذشتہ سال کے مقابلے میں ۲۱ فی صد۔ اشیاے خوردنی کا اضافہ ۳۰ فی صد تک چلا گیا ہے۔
lکپڑے کی صنعت جس کا حصہ ملک کی برآمدات میں ۶۲ فی صد ہے اور جو ملک کے پورے صنعتی پیداواری نظام کا نصف حصہ ہے، سخت بحران کا شکار ہے۔ کارخانے تیزی سے بند ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں بے روزگاری خوف ناک رفتار سے بڑھ رہی ہے۔
معیشت کے جس پہلو پر بھی نگاہ ڈالیں، حالات ابتر نظر آرہے ہیں اوراس کی بڑی وجہ حکومت کی پالیسیوںمیں شدید انتشار اور کسی سمت کا نہ ہونا ہے۔
۵- پانچواں بنیادی مسئلہ امن و امان کا فقدان اور پورے ملک میں جان، مال، آبرو کے تحفظ کی زبوں حالی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا گیا ہے جس کا مقصد میرٹ کے مقابلے میں اپنی پسند کے لوگوں کو اہم مقامات پر تعینات کرنا ہے۔ اخبارات نے خود وزیراعظم کے دفتر میں سابق نیب زدہ افراد کے ذمہ داریاں سنبھالنے اور چٹ پٹ ترقیوں کی داستانیں شائع کی ہیں۔ یہ رجحان کسی بھی ملک کے لیے نہایت خطرناک ہے اور پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ان میں تو یہ تباہی کا راستہ ہے۔ لاپتا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور عوام حقوق کی حفاظت اور انصاف کے حصول دونوں کے بارے میں مایوس ہورہے ہیں۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافے نے حالات کو اور بھی ابتر کردیا ہے۔ لوگ اصلاح کے مقابلے میں انقلاب کی باتیں کرنے لگے ہیں۔
۶- چھٹا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہرسطح پر اصحابِ ثروت اور ارباب اقتدار اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور قرض کے پہاڑ ہمالہ سے بھی زیادہ بلند ہوگئے ہیں۔ کفایت شعاری اور سادگی کی صرف باتیں ہوتی ہیں، ان پر عمل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے پہلے خطاب میں اپنے اخراجات کو ۴۰ فی صد کم کرنے کا اعلان کیا تھا جو بجٹ کے آتے آتے ۳۰ فی صد تک سکڑ گیا لیکن عملاً ٹھاٹ باٹ کا مظاہرہ جاری ہے اور دیکھا جائے تو اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے حلف کے بعد اسی رات وزیراعظم صاحب کے صاحبزادے کی شادی کی جو تفصیلات اخبارات میں شائع ہوئی ہیں وہ کفایت شعاری کے دعووں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ وزیراعظم صاحب عمرہ کے لیے گئے تو اس میں ۸۶افراد سرکاری خرچ پر ان کے شریکِ سفر نظر آئے اور سفر کے اخراجات ۱۰ کروڑ سے زائد بیان کیے جارہے ہیں۔ ملایشیا ڈی-۸ کی کانفرنس میں تشریف لے گئے تو اطلاع ہے کہ ان کے وفد میں ۴۰ سے زیادہ افراد تھے، جب کہ وفد سے پہلے سیکیورٹی کے نام پر ۵۰ افراد ملایشیا بھیجے گئے۔ پھر زرداری صاحب سے مشورے کے لیے وزیراعظم صاحب کوالالمپور سے سیدھے دبئی تشریف لے گئے اور ۴۰ کا ٹولہ ان کے ساتھ رہا ہے۔ جہاز اور قیام کے اخراجات پھر ۱۰ کروڑ سے متجاوز بتائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم تو ایک ہے مگر اطلاع یہ ہے کہ چار افراد کو وزیراعظم کا پروٹوکول فراہم کیا جارہا ہے۔ ایک طرف عوام فاقوں کا شکار ہیں، خودکشیوں کی نوبت آرہی ہے، مائیں اپنے بچوں کو بیچنے اور ایدھی سینٹروں پر چھوڑ جانے پر مجبور ہورہی ہیں اور دوسری طرف یہ اللّے تللّے ہیں۔ کوئی سوچنے کی زحمت نہیں کرتاکہ اس کا انجام کیا ہوگا؟
وزیراعظم صاحب نے بڑے طمطراق سے جو اعلانات کیے تھے ان کی طرف پیش رفت کا کوئی ثبوت ان ۱۰۰ دنوں میں نظر نہیں آرہا۔ ارشاد ہوا تھا کہ ایف سی آر ختم کیا جارہا ہے، آج تک اس سلسلے میں کوئی متبادل قانون پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ ۲۰۰۲ء کا بدنامِ زمانہ انڈسٹریل ریلیشنز آرڈی ننس ختم کیا جا رہا ہے مگر وہ آج بھی کتاب قانون کا حصہ ہے اور نئے قانون کا کوئی مسودہ قوم کے اور پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دو تاریخی کمیشن بنائے جارہے ہیں یعنی ایک روزگار کمیشن اور دوسرا جنوبی افریقہ کی طرز پر truth and reconciliation commission(سچائی اور مفاہمتی کمیشن)،لیکن ۱۰۰ دن گزرنے کے بعد بھی ان کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔
مزدوروں کی یونینوں اور طلبہ کی یونینوں سے پابندی اٹھانے کا اعلان ہوا تھا اور اس سلسلے میں کچھ آزادیاں اور مواقع مزدوروں اور طلبہ نے غالباً اپنے دست و بازو سے حاصل بھی کرلیے ہیں مگر اس سلسلے میں جو قانون سازی ہونی چاہیے تھی اور جو مثبت متبادل نظام قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا، وہ ابھی تک پردۂ غیب ہی میں ہے۔ ۱۰۰ دن کے پروگرام کے بیش تر اعلانات حقیقت کا روپ دھارنے میں ناکام رہے اور اس کی بڑی وجہ پارلیمنٹ کی حسبِ سابق بے بسی، قانون سازی کا فقدان، عدلیہ کی عدم بحالی، خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی تشکیلِ نو کے باب میں مجرمانہ کوتاہی، حکومت کا بے سمت ہونا اور امریکی دبائو میں بیرونی ایجنڈے کی مشرف دور کی طرح تعمیل اور تکمیل ہے۔ یہ صورت حال حکومت پر عوام کے اعتماد کو بری طرح مجروح کرنے اور امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اس کے تاریکیوں میں دم توڑنے کا باعث رہی ہے۔
اس پورے ناکام تجربے کی بڑی وجہ سیاسی قیادت، خصوصیت سے پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کا کردار ہے۔ اب لوگ کھلے بندوں یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جس پارٹی میں خود اپنے دستور، ضابطوں اور جمہوری روایات کا احترام نہ ہو وہ ملک کو دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کیسے دے سکتی ہے۔ جناب زرداری صاحب نے جس ڈرامائی انداز میں محترمہ کی شہادت کے بعد اقتدار سنبھالا، اس کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے محترمہ کی آخری کتاب اور دوسری تقاریر کے حوالوں سے وصیت کے قابلِ اعتماد ہونے کو چیلنج کیا ہے۔ زرداری صاحب نے خود سندھ ہائی کورٹ میں محترمہ کی وراثت کے سلسلے میں جو پٹیشن دائر کی ہے وہ ان کے حسابات اور دوسرے اثاثوں کے بارے میں وصیت کی عدم موجودگی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر اپنے اتنے اہم معاملات کے بارے میں وہ کوئی وصیت نہیں کرسکیں تو پارٹی کے معاملات کے بارے میں وصیت کیسے کر دی۔ وصیت کو اگر تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس کے صحیح مفہوم کا مسئلہ بھی کم اہم نہیں۔ اس سلسلے میں جناب ارشاد احمد حقانی نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں اور ایک وقتی انتظام کو جس کا مقصد صرف عبوری (transition) تھا، مستقل انتظام کی شکل دینے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ ۱۰۰ دن کی حکمرانی کے پس منظر میں پی پی پی (زرداری) کے بارے میں دی نیشن کی ایک کالم نگار نے بڑے چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا ارشاد ہے:
پیپلزپارٹی (زرداری) کے پاس، جسے قسمت کی ایک بے رحم گردش اقتدار میں لے آئی ہے، حکمرانی کے دائرے میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ پارٹی اور اسی طرح یہ ملک ایک غیر منتخب شخص چلا رہا ہے جو بے نظیربھٹو کا سابقہ شوہر ہے، جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ پُرفریب این آر او استعمال کرکے، جو امریکا اور صدرمشرف نے قوم پر مسلط کردیا ہے، عدالتوں سے بریت حاصل کرلے۔ آصف زرداری اپنے وکیل کے ذریعے گذشتہ ہفتے اپنی مرحومہ بیوی کے اثاثوں کے لیے وراثت کی درخواست جمع کرا رہے تھے۔ ان کادعویٰ تھا کہ بے نظیر بھٹو بلاوصیت انتقال کرگئیں اور ان کا کوئی وصیت نامہ ہرطرح کی تلاش کے باوجود نہ مل سکا۔ یہ بڑی دل چسپ بات ہے، اس لیے کہ اپنی بیوی کے مرنے کے تیسرے روز زرداری نے ہمارے سامنے کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا تھا اور بتایا تھا کہ یہ ان کا وصیت نامہ ہے، اور یہ بھی بتایا تھا کہ یہ کئی صفحات پر مشتمل ہے جو عوام کے سامنے نہیں لائے جاسکتے کیوں کہ اس میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہے۔ (۱۳ جولائی ۲۰۰۸ئ)
ہمارے اور دوسرے اہلِ قلم کے تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ زرداری گیلانی حکومت نے یہ ۱۰۰دن ضائع کیے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کی روشنی میں حقیقی اور بااختیار قومی حکومت وجود میں نہ آسکی۔ زرداری صاحب نے محترمہ کی وصیت کا سہارا لے کر پیپلزپارٹی پر قبضہ کرلیا اور رحمن ملک اور ایسے ہی دوسرے غیرنمایندہ افراد کے ذریعے زرداری صاحب اور مشرف میں جو درپردہ معاہدہ ہوا تھا اور جس کے ایک پہلو کا تعلق این آر او کے تحت خود زرداری صاحب، پی پی پی، ایم کیو ایم کے قائدین اور کارکنوں اور دوسرے سیاسی عناصر اور سول اور فوجی بیورو کریسی کے متعلقہ افراد کو احتساب اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا تھا ان کے کرپشن کے الزامات کو کسی غیرجانب دار تحقیق و تفتیش اور عدالتی عمل کے بغیر واپس لے کر امریکا اور برطانیہ کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت ملک پر نئی سول قیادت مسلط کی گئی۔ اس قیادت نے، خاص طور پر ان افراد نے جن کے ہاتھوں میں اصل باگ ڈور ہے، حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے اقتدار اور گرفت کو مضبوط کرنے، مشرف صاحب کو نئی زندگی دینے، اور امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر ساری توجہات صرف کیں۔ پرویزمشرف اصل مسئلہ ہیں، ان سے نجات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔عدلیہ کی بحالی کو مذاق بناکر اُلجھا دیا گیا۔ معاشی مسائل کے حل اور امن و امان کے قیام پر قرارواقعی توجہ نہ دی گئی، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر حالات کو اور بھی الجھا دیا گیا۔
جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا اسے بڑی بے دردی سے ضائع کردیا گیا ہے۔ یہ جمہوری عمل کی ناکامی نہیں، ایک سیاسی گروہ کی ناکامی ہے جس نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر جمہوری عمل کو ایک طرح یرغمال بنالیا اور ۱۸ فروری کے مینڈیٹ کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے ہی ایجنڈے پر کام شروع کردیا۔ یہ امریکا مشرف زرداری حکمت عملی ہے جس نے ۲۰۰۷ء کی قربانیوں اور ۱۸فروری کے انتخابی نتائج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کھیل اب بالکل کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے۔ ملک اور ملک سے باہر حالات پر گہری نظر رکھنے والے افراد اس کھیل کا پردہ چاک کررہے ہیں اور خود پیپلزپارٹی کے وہ قائد جنھوں نے گذشتہ دس بارہ سال پارٹی کو زندہ رکھنے اور آمریت کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اب کھل کر میدان میں آرہے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ ۱۰۰ دن ایک water-shed کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور قوم آج اپنے آپ کو ایک بہت بڑے امتحان میں پاتی ہے___ اس امر کا خطرہ ہے کہ ذاتی اور گروہی مفادات کے علَم بردار جو اصل جمہوری عمل کو ہائی جیک کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں، آمریت اور بیرونی قوتوں کی بالادستی کی تاریک رات مسلط کرنے کے لیے کسی حد کو بھی پارکرجائیں۔ نیز آمریت کے کارندے اور ایجنسیوں کے دست و بازو اسے جمہوریت کی ناکامی کا رنگ دے کر پرانے کھلاڑیوں یا نئے طالع آزمائوں کے لیے فضا سازگار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کراچی کی ایک خاص رنگ کی تجارتی کمیونٹی میں گورنر سندھ اور ناظم کراچی کی بیساکھیوں پر کل کے آمر پھر کسی نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ یہ سارے خطرات اُفق پر منڈلا رہے ہیں لیکن یہ وقت ٹھنڈے غوروخوض اور حقائق کے صحیح ادراک پر مبنی حکمت عملی کی تشکیل کا ہے۔
۲۰۰۷ء میں عدلیہ کی بحالی اور جمہوری حقوق کے حصول کے لیے جو جدوجہد وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوںنے شروع کی تھی آج اس تحریک کو ان نئے خطرات سے بچاکر دوبارہ حقیقی جمہوری عمل کے حصول، دستور کی بالادستی، عدلیہ کی بحالی، قانون کی حکمرانی، آمریت سے ہمیشہ کے لیے نجات، فوج کو سیاست کی آلودگیوں سے مکمل طور پر پاک رکھنے، اور ملک کی قسمت کا فیصلہ ملک کے اندر اور اس کے حقیقی خادموں کے ذریعے انجام دینے کے نظام کے استحکام کے لیے فیصلہ کن جدوجہد ہے۔ گذشتہ ۱۰۰ دن اس تحریک کا تسلسل نہیں، اس سے انحراف اور ماقبل کی پالیسیوں کے نئے روپ میں اور نئے کرداروں کے ذریعے تسلسل کا زمانہ رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر تمام جمہوری قوتیں اور حق، انصاف اور قانون کی پاسداری کے تمام علَم بردار بے لوث انداز میں منظم جدوجہد کریں اور جمہوری عمل کے ہائی جیکنگ کے اس اقدام کو ناکام بنادیں۔ وکلا برادری اور اے پی ڈی ایم نے انتخابات سے پہلے جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا تھا، اب ضرورت ہے کہ تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ ملا کر اسی طرح ایک مؤثر تحریک کا اہتمام کیا جائے۔ یہ کام کسی جذباتی رو میں انجام نہیں دیا جاسکتا لیکن حالات جس مقام پر پہنچ گئے ہیں اور جو خطرات اب سامنے منڈلا رہے ہیں ان کی موجودگی میں غفلت یا کوتاہی بڑی خطرناک ہوسکتی ہے۔ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل، کوئی اگر دفتر میں ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دستور کسی ملک کی سب سے اہم اور مقدس قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ تمام اختیارات کا سرچشمہ اور ریاستی اداروں کے حدود کار، حکمرانی کے اصول و آداب اور خود قانون سازی اور پالیسی کے خطوط کار اور ان کی صورت گری کے دروبست کو متعین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے قانون اساسی (fundamental law) کہا جاتا ہے اور اس میں ترمیم کو مشکل بنایا جاتا ہے بلکہ اب تویہ اصول بھی قبولِ عام حاصل کرچکا ہے کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور ریاست کے کردار میں محض ترمیم دستور سے تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔اگر اس کی نوبت آئے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام سے استصواب کیا جائے تاکہ دستور کی تشکیل نو کے لیے وہ نئی دستورساز اسمبلی کی تشکیل کریں۔ وہ پارلیمنٹ جو ایک دستور کے تحت وجود میں آئی ہو اور خواہ اس دستور کے تحت وہ دستور میں ترمیم کا حق رکھتی ہو تب بھی وہ دستور کے مقاصد اور بنیادی ڈھانچے کے اندر رہ کر تو ترمیم کرسکتی ہے مگر خود ان بنیادوں کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ گویا ترمیم کا اختیار دو تہائی اکثریت کو بھی غیرمشروط اور لامتناہی (absolute and unlimited) نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور کے تحت اعلیٰ ترین عدالت اس قانون کو جو دستور سے متصادم ہو، خواہ اسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہو، غیردستوری (ultra vires of the constitution) قرار دے سکتی ہے اور دستور سے تصادم کی بنیاد پر ایسا قانون غیرمؤثر قرار دیا جاسکتا ہے۔
دستور کی اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان مجوزہ دستوری ترامیم کے جائزے کی ضرورت ہے جسے دستوری پیکج (constitutional package) کا نام دیا گیا ہے اور جو بظاہر عدلیہ کی آزادی اور بحالی اور دستور کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحال کیے جانے کے لیے کی جارہی ہیں مگر فی الحقیقت دستور پر ایک نئے حملے کی شکل رکھتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان کو ان کی موجودہ شکل میں منظور کرلیا جاتا ہے تو اداروں اور اشخاص کے درمیان قائم کیا جانے والا تقسیم اختیارات اور توازنِ قوت کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دستور اور اعلیٰ عدالتی نظام میں مخصوص افراد کو نوازنے اور کچھ کو پابند کرنے کے لیے فرد کی ضرورت کے تحت (person-specific) ترمیمات تجویز کی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں یہ پورا عمل بُری طرح سیاست زدہ اور شخصی (personalize) ہوجاتا ہے۔ خطرہ ہے کہ اس سے وہ پنڈورا کا صندوق (pandora's box) کھلے گا جس سے نکلنے والے عفریت کو پھر قابو میں لانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد دستوری پیکج دستور اور قانون پر گہری نظر رکھنے والوں نے نہیں بنایا بلکہ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں نے اپنی پسند اور ناپسند کو دستور پر مسلط کرنے کے لیے دستور کی ۸۰ دفعات میں تراش خراش کی جسارت کی ہے۔ اس کا جہاں علمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وہیں اس سیاسی کھیل کے پردے کو بھی چاک کرنا ضروری ہے جو مخلوط حکومت کی سب سے بڑی پارٹی پیپلزپارٹی کی قیادت نے ملک و قوم کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔
ان دستوری سفارشات کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کرلیا جائے کہ ۲۰۰۷ء کے عدالتی بحران اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کا اصل تقاضا کیا ہے اور اس سلسلے میں نئی حکومت کی اولین ذمہ داری کیا تھی۔ کیا یہ دستوری سفارشات اس ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں یا ان کے ذریعے کوئی نیا ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
سب سے پہلا مسئلہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی تھا جسے نئی حکومت کو برسرِاقتدار آتے ہی انجام دے دینا چاہیے تھا، مگر اس نے ایک متناقض موقف اختیار کرکے اصل تاریخی لمحے کو ضائع کردیا اور قوم کو ایک نئے سیاسی بحران میں مبتلا کردیا جس کے اثرات ملکی سیاست، انتظامِ حکومت، قانون کی حکمرانی اور معاشی مسائل کے مزید اُلجھ جانے کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف تو وزیراعظم صاحب نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی وزارتِ عظمیٰ کے حلف تک کے لینے سے پہلے ہی معزول ججوں کی رہائی کا حکم دے دیا اور ان کو رہا کر بھی دیا گیا لیکن دوسری طرف بار بار کے اس اعلان کے باوجود کہ جنرل پرویز مشرف کا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کا اقدام غیرقانونی اور خلافِ دستور تھا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ان ججوں کو آج تک بحال نہیں کیا جو جائز جج ہیں اور ایک ناجائز (illegitimate) پی سی او کے تحت حلف لینے والے جج صاحبان آج بھی بلااختیار عدالت کا کاروبار چلا رہے ہیں اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ حق دار اور بلاحق کام کرنے والوں کو ان ناروا دستوری ترامیم کے ذریعے برابری کے مقام پر لے آیا جائے۔ یہ ملک کے نظامِ عدل کو تہ و بالا کرنے کا مجرب نسخہ ہے اور جس کے دماغ کی بھی اختراع ہے اسے ملک و قوم کا مخلص قرار دینا مشکل ہے۔
ا- ایک انتظامی حکم کے ذریعے ان ججوں کو جن کو ایک غیرقانونی حکم نامے کے ذریعے جبری طور پر معزول کیا گیا تھا ان کو اپنے اصل مقام پر بحال کیا جاتا اور جو غیرقانونی طور پر عہدوں پر فائز کرلیے گئے تھے انھیں کسی معقول طریقے سے فارغ ، یا ان کے ماقبل کے مقام پر بھیج دیا جاتا یا زیادہ سے زیادہ کچھ کو ایڈہاک ججوں کے طور پر کچھ عرصے کے لیے رکھ لیا جاتا اور بالآخر انھیں فارغ کر دیا جاتا تاکہ ایک بھونڈے کام کو بھی سلیقے ہی سے انجام دیا جائے۔
ب- پارلیمنٹ ایک قرارداد کے ذریعے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیرقانونی، خلافِ دستور، ناقابلِ قبول قرار دیتی اور وزیرعظم کو ہدایت دیتی کہ وہ خوش اسلوبی سے اس کے غلط اقدامات اور اثرات سے ملک کو پاک اور محفوظ کرنے کے لیے جملہ اقدام کریں۔
ج- ۳ نومبر کے اقدام کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جاتی، البتہ جو قوانین، فیصلے اور اقدام ہوچکے ہیں ان کے صرف ناگزیر پہلوئوں کو بہ اکراہ تحفظ دیتے ہوئے آیندہ کے لیے غیرمؤثر کیا جاتا اور متبادل جائز قانونی یا انتظامی احکام کے ذریعے جن چیزوں کو باقی رکھنا ضروری ہے انھیں باقی رکھا جائے۔
اس پورے کام کے لیے کسی دستوری ترمیم کی ضرورت نہ تھی۔ ملک کے چوٹی کے قانون دانوں اور دستور کے ماہروں کی یہی راے تھی اور ہم بھی اس راے کو صائب سمجھتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے امریکا اور برطانیہ کی سفارت کاری کے ذریعے جو معاملات پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص جناب آصف علی زرداری اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان طے ہوئے تھے اور جن کے نتیجے میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے قومی مفاہمت کے نام پر لوٹ کھسوٹ اور سیاسی اور مالی بدعنوانیوں حتیٰ کہ فوجداری جرائم تک سے درگزر کر کے ان کے مرتکبین کو معافی اور فارغ خطی کا پروانہ دے دیا گیا تھا اور اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں ہزاروں افراد تھے جن میں سب سے اہم پیپلزپارٹی کی قیادت کے نمایاں افراد اور ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکن تھے۔ ان کا پلڑا بھاری رہا ہے اور ان ہی کی مرضی آگے بڑھائی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر یہ احساس بھی صحیح ہی معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت نے اصل مسئلے یعنی عدلیہ کی بحالی اور پرویز مشرف سے نجات کو تو پس پشت ڈال دیا ہے اور دستوری پیکج کے نام پر این آر او (قومی مصالحتی آرڈی ننس) کے تحفظ اور عدلیہ کو ایک ایسے شکنجے میں کسنے کا کھیل شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں عدلیہ کبھی بھی سیاسی قیادت کی گرفت سے باہر نہ نکل سکے اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت اور این آر او کی ضمانت کو چیلنج نہ کیا جاسکے۔
جو کام سیدھے سیدھے انتظامی حکم اور زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے ہوسکتا تھا اسے تعویق میں ڈال کر غیرمتعلقہ معاملات میں الجھا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پوری قوم فکری انتشار، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اور عوام نے نئی زندگی اور سیاست دانوں کے نئے کردار کا جو خواب دیکھا تھا وہ زرداری صاحب کی مصلحتوں کی بنا پر چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے۔ مشرف صاحب کی مقبولیت تو خاک میں مل چکی ہے لیکن اب زرداری صاحب کی مقبولیت کا گراف بھی تیزی سے نیچے جا رہا ہے جس کا اندازہ ہر سیاسی کارکن کو ہورہا ہے اور جس کی کچھ جھلک راے عامہ کے اس تازہ ترین جائزے میں دیکھی جاسکتی ہے جو ایک امریکی ادارے Terror Free Tomorrow نے ۲۵مئی سے یکم جون تک لیا ہے اور جس کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد مشرف کی اقتدار سے علیحدگی چاہتا ہے۔ اس وقت مقبول ترین قیادت وہ ہے جو ججوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس مطالبے کو ۹۵فی صد آبادی کی تائید حاصل ہے۔ یہی وہ پہلوہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے سرپرست نواز شریف سب سے زیادہ مقبول ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کی حکومتی کارکردگی پر لوگ مطمئن نہیں اور اس کی مقبولیت کم ہوکر ۲۶ فی صد رہ گئی ہے، جب کہ اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی مقبولیت صرف ۱۳ فی صد پر آگئی ہے۔ (نواے وقت، ۲۲ جون ۲۰۰۸ئ)
ججوں کی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی، صحافت کی آزادی اور مشرف سے نجات کے سلسلے میں جو رویہ زرداری صاحب کے زیراثر پیپلزپارٹی نے اختیار کیا ہے اس نے عوام میں مایوسی پیدا کی ہے اور وہ اسے ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ سے کھلا کھلا انحراف تصور کرتے ہیں اور دستوری ترامیم کے پشتارے کا جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اسے مسئلے کو الجھانے اور قوم کے اہداف کو غتربود کرنے کا کھیل سمجھ رہے ہیں۔ ہم ان باتوں کا اظہار بڑے دکھ سے کر رہے ہیں کہ ہماری پوری خواہش تھی کہ آمریت سے نجات اور جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا سفر مخلوط حکومت کے ہاتھوں انجام پاتا لیکن نظرآرہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے کچھ قائدین اور اس کے ووٹروں کی شدید خواہش کے باوجود آصف علی زرداری اور ان کے زیراثر جماعتی قیادت روایتی ہیئت حاکمہ (establishment) ہی کے مقاصد پورے کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پرویزمشرف پر نمایشی دبائو تو کبھی کبھی ڈال دیا جاتا ہے مگر نہ ان سے نجات پانے کے لیے ضروری اقدام کیے جا رہے ہیں اور نہ عدلیہ کی بحالی کی کوئی مؤثر کوشش کی گئی ہے جس سے ملک کا نظامِ عدل بحال ہوسکے اور عوام کے لیے حصولِ انصاف کے دروازے کھل سکیں۔ بلکہ دستوری ترامیم کا جو پیکج پیش کیا گیا ہے اس نے تو رہی سہی امید بھی خاک میں ملادی ہے اور اگر خدانخواستہ دستور میں یہ ترامیم ہوجاتی ہیں تو پھر جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کا قصر چکنا چور ہوجائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ پیپلزپارٹی کی قیادت اس میں کامیاب نہیں ہوگی اس لیے کہ عوام ان کی بھرپور اور مؤثر مخالفت کریں گے اور وکلا اور اہم سیاسی کارکنوں نے اس عزم کا اظہار بھی کردیا ہے۔ البتہ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان ترامیم اور ان کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھا جائے اور چند مفید چیزیں جو ان میں شامل ہیں ان سے دھوکا نہ کھاتے ہوئے جو اصل کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کا پردہ چاک کیا جائے اور ملک کو اس آفت سے محفوظ رکھا جائے۔
ان کا پہلا اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان میں کھلے اور صاف الفاظ میں ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام کو رد نہیں کیا گیا اور اس کے مرتکبین کو موجب سزا قرار نہیں دیا گیا، بلکہ کمال ہوشیاری سے اس اقدام کو اور اس کے تحت عدلیہ کو تباہ کرنے والوں اور ان کے شرکاے کار کو تحفظ دیا گیا ہے، عدلیہ میں ۳ نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کے لیے مستقل گنجایش پیدا کی گئی ہے، ان کے ان تمام اقدامات کو جو ۳نومبر کے بعد کیے گئے ہیںتحفظ دیا گیا ہے اور صاف لفظوں میں کہے بغیر اس سب کو سندجواز دی گئی ہے جو ایک قومی جرم ہے۔ ۱۸فروری کے انتخاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کا تو مینڈیٹ ہی یہ ہے کہ وہ ۳نومبر کے غیرقانونی اقدامات کا قلع قمع کرے اور ہمیشہ کے لیے ملک و قوم کو ایسی طالع آزمائی اور اس کی معاونت کرنے والوں سے محفوظ کرے لیکن ان ترامیم کے ذریعے وہی ظلم کیا جا رہا ہے جو ۱۹۵۸ئ، ۱۹۶۹ئ، ۱۹۷۷ئ، ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدامات کو تحفظ دے کر ماضی میں کیا گیا ہے۔ جو کچھ جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق، جسٹس ارشاد اور جسٹس ڈوگر نے کیا، جناب زرداری صاحب اور فاروق نائیک صاحب وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس حمودالرحمن نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے غاصبوں سے ڈیل کرنے کا جو مبنی برحق و انصاف راستہ دکھایا تھا اسے یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے اور ہوشیاری کے ساتھ آرٹیکل AAA۲۷۰ اور CC ۲۷۰ کے ذریعے اس پورے سیاہ دور کو تحفظ عطا فرمایا گیا ہے البتہ کمالِ عنایت سے دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے کل کلاں ایسا کرنے والوں کو سزا کی وعید سنائی جا رہی ہے۔ حالانکہ اگر آج کے مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو پھر گویا کبھی بھی مجرموں کو سزا نہیںمل سکے گی۔ یہ ترامیم دستور کی ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی کی نوید سے یکسر خالی ہیں اور دستور کو مزید مسخ کرنے اور جو سلوک اس کے ساتھ ماضی کی ترامیم جن میں خصوصیت سے پہلی، تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم قابلِ ذکر ہیں جن کے ذریعے عدلیہ کو پابند یا متاثر کرنے اور دستور کے پارلیمانی کردار کو مسخ کرنے کی خدمت انجام دی گئی اور فوجی آمریتوں کی کارگزاریوں کو تحفظ دیا گیا۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی قیادت کی مجوزہ ترامیم اسی قبیل کی ہیں بلکہ ان کی بدترین صورت ہیں۔
ان ترامیم کا دوسرا پہلو این آر او کا تحفظ ہے جس کے لیے ایک بار نہیں دو بار آرڈی ننس کی چار ماہ کی عمر کو غیرمؤثر قرار دیتے ہوئے اس این آر او کو، جس نے بدعنوانی اور کرپشن پر سفیدی پھیردی ہے اور اس کے مرتکبین کو ہمیشہ کے لیے مکمل طور پر بری کردیا ہے، مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔ ہم نے بار بار اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ جہاں یہ غلط اور بدترین ظلم ہے کہ کسی معصوم انسان کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر بدعنوانی اور کرپشن کا ملزم بنایا جائے، وہیں یہ بھی اتنا ہی غلط اور ایسا ہی ظلم ہے کہ سیاسی مصالح اور اپنی صف بندیوں کو محفوظ کرنے کی خاطر ان لوگوں کو جو بدعنوانیوں کے مرتکب ہوئے ہوں اور جنھوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو اور ملک کی دولت کو لوٹا ہو، ان کو مکمل معافی اور چھٹی دی جائے۔
این آر او ایک شرمناک قانون ہے اور اس کے تحت پاک دامنی کا دعویٰ کرنے والے کبھی پاک دامن تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔ اس مسئلے کا واحد حل وہ ہے جسے خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت میں تسلیم کیا ہے مگر ان ترامیم میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ اس میثاق میں دونوں نے قوم سے عہد کیا ہے کہ جہاں سیاسی بنیادوں پر انتقامی کارروائی سے اجتناب کیا جائے گا وہیں احتساب کے لیے ایک اعلیٰ عدالتی نظام قائم کیا جائے جو بے لاگ انداز میں سیاسی قیادت اور دوسرے ان تمام افراد کا جو ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز رہے ہوں، احتساب کرے۔
این آر او کے ’پاک بازوں‘ کے دامن کو تو اس وقت تک صاف اور بے داغ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک وہ کسی معتبر عدالتی ادارے میں اپنی پاک دامنی ثابت نہ کرلیں، لیکن جس محنت اور غیرمعمولی اہتمام سے ان ترامیم میں این آر او کو تحفظ دیا گیا ہے وہ شکوک و شبہات کو بڑھانے والا ہے، ختم کرنے والا نہیں۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ این آر او کو تحفظ ہرگز نہیں دینا چاہیے، اعلیٰ عدالت کو تمام حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور آیندہ کے لیے اس کا مستقل انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی بھی اختیارات کا ناجائز استعمال اور قومی وسائل کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کرنے کی جرأت نہ کرسکے اور جو کرے وہ قانون اور احتساب کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ یہ عمل سیاسی دراندازیوں اور انتقامات اور شک و شبہے سے پاک اور بالکل شفاف ہو۔ یہ سب کے لیے ہو اور جو بھی اجتماعی زندگی میں سرگرم ہے اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ دستوری ترامیم کے ذریعے این آر او کو دوام بخشنا ایک قومی جرم ہے اور اس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
ان ترامیم کا تیسرا بڑا ہی تباہ کن پہلو عدلیہ کے پورے نظام کو سیاسی مصلحتوں کے تابع کرنا ہے۔ اس کے پانچ بڑے بڑے پہلو ایسے ہیں جن کا پردہ چاک کرنا ضروری ہے تاکہ ان کا کھل کر مقابلہ کیا جاسکے۔
ا- عدلیہ کی آزادی کا انحصار جن چیزوں پر ہے ان میں عدلیہ میں نئے ججوں کی تقرری بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس عمل کو خالص میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے جس میں قانونی مہارت کے ساتھ دیانت و امانت اور اصول اور حق پرستی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ عمل سیاسی اثراندازیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ بلاشبہہ یہ کام مشکل ہے اور دنیا کے تجربات اس ضمن میں بڑی ملی جلی تصویر پیش کرتے ہیں۔ خود ہمارے یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ہرگز قابلِ فخر نہیں۔ ایک نہیں متعدد ججوں کی خود نوشتیں طبع ہوچکی ہیں اور وہ ایسی داستانوں سے بھری ہوئی ہیں جن پر سر شرم سے جھک جاتا ہے، لیکن جو تجویز اب جناب فاروق نائیک نے جناب زرداری صاحب کی ہدایت پر پیش کی ہے، اس کے بعد تو سیاست کا عمل دخل آسمان پر پہنچ جائے گا اور خواہی نہ خواہی یہ ادارہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ مرکزی اور صوبائی وزراے قانون کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ ایک مشترک پارلیمنٹری کمیٹی آخری فیصلہ کرے گی۔ پاکستان کے حالات میں پارلیمانی کمیٹی کے سپرد اس کام کو کرنا اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر عدلیہ پر یہ ضرب ملک کو بڑی مہنگی پڑے گی۔یہ مسئلہ بڑی سنجیدہ سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ خود امریکا میں بھی اس نظام پر شدید تنقید کی جارہی ہے اور بش کے تو ۲۰۰۰ء کے انتخاب ہی کو سیاسی عدلیہ کا فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔
ب- دوسرا مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی حفاظت کا ہے۔ اگر جج کو میعاد کی ضمانت نہ ہو تو یہ پورے نظامِ عدل کو متزلزل کردیتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی جو نئی شکل تجویز کی جارہی ہے وہ خطرناک، بھونڈی اور ناقابلِ عمل ہے۔ چیف جسٹس اور اعلیٰ ججوں کی قسمت، سابق ججوں اور سیاسی عناصر کے ہاتھوں میں دی جارہی ہے اور اس جلادی تجویز کے ساتھ کہ کسی بھی جج بشمول چیف جسٹس اگر کوئی بھی شخص اس کے خلاف استغاثہ دائر کردے تو صدر فی الفور اسے جبری رخصت پر بھیج سکتا ہے۔ جبری رخصت کے سلسلے میں ۲۰جولائی کے سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بڑا واضح فیصلہ دیا ہے مگر اسے بالکل نظرانداز کر کے ترمیم میں وہ موقف اختیار کیا گیا ہے جو جنرل پرویز مشرف کا تھا۔
مجوزہ کمیشن کے سابق ججوں کے لیے صلاحیت، دیانت، تجربہ، شہرت کی کوئی شرط نہیں۔ اگر کوئی شرط ہے تو یہ کہ وہ ’غیرسیاسی‘ ہوں مگر غیرسیاسی کی کوئی تعریف متعین نہیں کی گئی۔ کون سا جج سیاسی ہے اور کون سا غیرسیاسی___ اور حاضر سروس چیف جسٹس اور تمام اعلیٰ ججوں کی قسمت کا فیصلہ پانچ سابق ججوں اور تین دوسرے سیاسی عمل سے نامزد افراد کو سونپا گیا ہے۔ یہ بھی بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اپنی عدلیہ کو ایسے خام تجربات کے لیے تختۂ مشق ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔
ج- ایک بنیادی خرابی اس پوری تجویز میں پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں سے عزت سے نجات حاصل کرنے کے بجاے انھیں عدالت کا حصہ بنانا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف عدالت کا وقار اور اس پر عوام کا اعتماد مجروح ہوگا بلکہ عدلیہ بھی مستقل کش مکش اور باہم تنائو کا شکار رہے گی اور اس طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اپنا دستوری کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہیں گے۔ ۱۹۹۰ء میں بھی عدلیہ کے بٹ جانے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا تلخ معاملہ پیش آچکاہے اور اب تو باضابطہ انداز میں عدالت پر اس کو مسلط کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو انصاف کے نظام کو قتل کرنے کے مترادف ہوگا۔
د- ایک اور ظلم جو ان تجاویز میں کیا گیا ہے اور بڑے معصوم انداز میں کیا گیا ہے وہ سپریم کورٹ کو اس اختیار ہی سے محروم کردینا ہے جس کے تحت وہ عوام کے ساتھ کیے جانے والے مظالم اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر عوام کی داد رسی کے جواب میں یا ازخود نوٹس لے کر ان کو انصاف مہیا کرنے کے لیے کرسکتے تھے۔ دفعہ (۳) ۱۸۴ میں ایک معصوم سی ترمیم کے ذریعے ظلم اس ملک کے عوام کے ساتھ کیاجا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قابلِ نفاذ حکم (mandatory) سے نکال کر محض اعلان (declaratory) بنانے کی جسارت کی جارہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ عدالت بس وعظ و نصیحت اور مشورہ اور تجویز کرسکے گی اور اس کا حکم ان معاملات میں آپ سے آپ لاگو نہیں ہوسکے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اعلیٰ انتظامیہ کو جو سبق سکھایا تھا، غالباً یہ اس کا جواب ہے! اور وہ بھی کسی پولیس یا آرمی افسر یا بیوروکریٹ کی طرف سے نہیں عوام کے نمایندے جناب زرداری صاحب اور جناب فاروق نائیک کی طرف سے!
ر- پانچواں مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی مدت یعنی ریٹائرمنٹ کی عمر کا ہے اور چیف جسٹس صاحبان کے بحیثیت چیف جسٹس مدت کے تعین کا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۵ سال اور ہائی کورٹس کے ججوں کی ۶۲سال ہے۔ اب اسے بڑھا کر ۶۸ اور ۶۵کرنے کی تجویز ہے۔ اس تجویز پر خالص میرٹ کی بنیاد پر غور ہوسکتا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے لیے لازمی ریٹائرمنٹ کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ موت، استعفا یا معذوری ہی کی شکل میں وہ اپنے منصب سے فارغ ہوتے ہیں اور اس طرح انھیں میعاد کی مکمل ضمانت حاصل ہوتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دیگر نفع بخش کام کی فکر سے بھی آزاد رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ مسئلہ خاص افراد کے لیے جگہ بنانے یا چیف کے درجے تک ترقی ممکن بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہی کھیل ایل ایف او میں بھی کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ یہ اس کا replay ہے اور پہلے سے بھی زیادہ بھونڈے انداز میں! اسی طرح عدلیہ کی بحالی کی صورت میں ایک خاص جج کی بحالی کو ناممکن بنانا بھی فرد کے لیے مخصوص (person-specific) ترمیم کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کو باہر رکھنے کے لیے یہ تجویز لائی جارہی ہے۔ چیف جسٹس کی میعاد کی تحدید تین سال ہو یا پانچ سال، یا اس سے کم زیادہ بھی اسی قبیل کی شے ہے۔ ایک خاص شخص سے نجات اورکسی خاص شخص کو اس عہدے پر لانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جو دستور کے ساتھ بددیانتی بلکہ بدفعلی کے مترادف ہے۔ جوقیادت عدلیہ کے ساتھ یہ کھیل کھیل رہی ہے اور ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی کے بلندبانگ دعوے کرتی ہے اس کی عقل کا ماتم کیا جائے یا دیانت کا نوحہ!
صدر کے اختیارات کم کرنے اور وزیراعظم کو اختیارات کا محور اور مرکز بنانے کے لیے بھی اس میں متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ہم خود صدر کے صواب دیدی اختیارات کے خلاف ہیں اور پارلیمانی نظام میں وزیراعظم اور وزرا، جو عوام کے بلاواسطہ منتخب کردہ ہیں، وہی اصل انتظامی اختیار کے مستحق ہیں لیکن اس سلسلے میں بھی چند باتوں کا لحاظ ضروری ہے اور علم سیاست کے جدید مباحث میں ان پر کھلے انداز میں گفتگو ہورہی ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کے ڈکٹیٹر بننے کا خطرہ موجود ہے اور اس کے لیے علم سیاست میں آج کل ایک دل چسپ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے یعنی Prime Ministerial System۔ پارلیمانی نظام کو پارلیمانی نظام ہی رہنا چاہیے، اسے وزیراعظمی نظام نہیں بن جانا چاہیے۔ تقسیم اختیارات کے معنی یہ ہیں کہ وزیراعظم اپنے سے مساوی افراد میں پہلا ہو، خود ہی سب کچھ نہ بن جائے۔
اس کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ایک کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری، دوسرے ہر وزیر کے اپنے اختیارات جو وہ وزیراعظم کی مداخلت کے بغیر انجام دے سکے، تیسرے وزیراعظم کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی جس کے لیے خصوصی وقفہ سوالات کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ کچھ ممالک میں وزیراعظم کو وزرا کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے مگر ہروزیر اور اس کے شعبے کی پارلیمنٹ میں توثیق ضروری ہے اور جسے پارلیمنٹ اعتماد نہ دے وہ وزیر نہیں بن سکتا۔ نیز وزیراعظم پر بے اعتمادی کا ووٹ بھی اسی نوع کی ایک تدبیر ہے۔ اب جو دستوری ترامیم پیپلزپارٹی کی قیادت لائی ہے اس میں وزیراعظم کو نہ صرف یہ کہ کلّی اختیارات دے دیے گئے ہیں بلکہ ایک ایسی ترمیم بھی تجویز کی ہے جو ۱۹۷۳ء میں دستور سازی کے وقت رکھی گئی تھی اور جسے اس اسمبلی نے، جس نے دستور کو منظور کیا، رد کردیا تھا اور بڑی سخت تنقید کے بعد رد کیا تھا۔ تجویز یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک اس وقت تک نہیں لائی جاسکتی جب تک اس تحریک میں متبادل قائد ایوان کا نام نہ شامل ہو۔ گویا ایک وزیراعظم پر بے اعتمادی اور دوسرے شخص پر اعتماد کا اظہار ایک ہی قرارداد کے ساتھ ہو۔ یہ سرتاسر غیرمعقول تجویز ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی تحریک آہی نہ سکے۔ جب ۱۹۷۳ء کے دستور میں یہ تجویز رکھی گئی تھی تو محمود علی قصوری صاحب نے اس پر بڑی سخت تنقید کی تھی اور صرف اپوزیشن ارکان نے ہی نہیں سرکاری اتحاد کے لوگوں نے بھی اسے رد کردیا تھا۔ معلوم نہیں فاروق نائیک صاحب اس مسترد تجویز کو قبر میں سے نکال کر پھر سے کیوں لے آئے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کے تحفظ کے لیے تو یہ ہو نہیں سکتی۔ کیا زرداری صاحب اپنے آیندہ تحفظ کا ابھی سے یہ سامان کرنا چاہتے ہیں؟
ویسے تو صدر کے اختیارات کو کم کرنے کا کام انجام دیا گیا ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ وہ صواب دیدی اختیارات ہیں جن کی وجہ سے صدر پارلیمنٹ اور انتظامیہ پر حاوی ہوگیا تھا یعنی ۵۸ (۲-بی) اور اہم تقرریوں کے بارے میں اس کے کُلی اختیارات۔ ان امور پر صدر کو وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس کا پابند کرنا ضروری ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ اس سلسلے میں تین چیزیں ایسی ہیں جو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں:
ا- آرٹیکل ۴۵ کا تعلق معافی (amnesty ) کے معروف مسئلے سے ہے جس کے تحت صدر عدالتوں سے دی جانے والی سزائوں میں تخفیف یا معافی کا حق رکھتا ہے۔ بلاشبہہ اسلامی قانون کے تحت حدود کے معاملے میں اسے یہ اختیار نہیں لیکن باقی امور میں مروجہ قانونی روایات کی روشنی میں اس کی گنجایش ہے۔ اس دفعہ میں ایک نئی ترمیم کے ذریعے صدر کو سندجواز عطا کرنے (validation) کا ایسا لامحدود (open ended) اختیار دیا جا رہا ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور جسے اگر غلط استعمال کیا جائے تو انتظامیہ اس کے سہارے پر قانون اور ضابطے کے پورے عمل کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ ایک تو معاملات کے دائرے کو عدالتی فیصلوںکے دائرے سے نکال کر عالم گیر وسعت دینا اور پھر ہر معاملے کو سندجواز عطا کرنے کا اختیار اس کو دیا جا رہا ہے جو انصاف، اصولِ حکمرانی اور جمہوری احتساب ہر عتبار سے غلط ہے۔ اس وقت جو دفعہ ہے وہ یہ ہے:
دفعہ ۴۵: صدر کو کسی عدالت ٹریبونل یا دیگر ہیئت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کے لیے روکنے اور اس میں تخفیف کرنے، اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہوگا۔
تجویز ہے کہ amnesty کے بعد اضافہ کردیا جائے۔
"or indemnify any act whatsoever".
دیکھیے اس ایک جملے سے معاملے کی نوعیت ہی بدل گئی۔ اب عدالتی عمل کے تحت دی جانے والی سزا میں جو تخفیف یا معافی کی گنجایش تھی وہ بدل کر ہر قسم کی بدعنوانی، لاقانونیت، ضابطے کی خلاف ورزی، اختیار کے غلط استعمال، استحصال گویا کسی بھی اقدام کو indemnify (قانونی ذمہ داری سے بَری) کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ حق انتظامیہ اپنے لیے لے رہی ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۲۷۰ کا ایک بدل ہے کہ جب اور جس عمل کو سندجواز دینا (validate) ہو، صدر کو اس کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔ یہ انصاف، قانون، ضابطہ اور اخلاق ہر ایک کا خون ہے اور قانون کی خلاف ورزی کے لیے دروازے کھول دینے کے مترادف ہے۔
ب- افواج کے سربراہان (service chiefs) کے تقرر کا اختیار بھی صدر کو حاصل ہے۔ یہ بھی صواب دیدی اختیار تھا مگر اسے ۱۷ویں ترمیم میں وزیراعظم سے مشورے سے مشروط کیا گیا تھا۔ نہ معلوم کیوں اب وزیراعظم کے مشورے کے حصے کو حذف کیا جا رہا ہے۔ غالباً اس بنیاد پر کہ صدر وزیراعظم کے مشورے (advice) پر یہ کام کرے گا لیکن بات صراحت کے ساتھ واضح نہیں ہورہی۔ موجودہ سربراہوں کو تین نام اپنی ترجیح کے مطابق دینے کی شرط عائد کی جارہی ہے، جب کہ عملاً یہ پہلے سے ہو رہا ہے البتہ اس وقت صدر کو یہ اختیار ہے کہ وہ تجویز کردہ ناموں کے باہر سے بھی تقرر کرسکتا ہے اور کئی تقرریاں چھے اور سات افراد کو پھلانگ کرکے بھی کی گئی ہیں۔ نئی تجویز میں ریٹائر ہونے والے سربراہ کو فیصلہ کن پوزیشن دے دی گئی ہے جو محل نظر ہے۔ ایک تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ تقرری صدر کرے گا یا صدر وزیراعظم کے مشورے پر کرے گا جیساکہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ البتہ اس نازک معاملے کے صحیح صحیح انجام پانے کے لیے کچھ دوسری احتیاطیں بھی ضروری ہیں جن پر اس وقت غور کرنا چاہیے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ بالعموم یہ تقرری سینیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے جس کے نتیجے میں سروس میں بھی اطمینان ہوگا کہ ہرشخص کو اس کے حق اور صلاحیت کے مطابق موقع ملے گا اور تقرری کی دوڑ میں جو سیاسی یا رقابتی اثرات کارفرما ہوجاتے ہیں ان سے بچا جاسکے گا۔ البتہ اس کی گنجایش رکھی جاسکتی ہے کہ کسی غیرمعمولی صورت میں کسی اعلیٰ کمیشن کے مشورے سے اس قاعدے میں نرمی ہوسکتی ہے لیکن وجوہ ریکارڈ پر لاکر، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں۔ لیکن ایک دوسری بات کا اہتمام بھی ضروری ہے جسے ہماری نگاہ میں دستوری ترمیم کا حصہ ہونا چاہیے کہ یہ عہدے اپنی میعاد کے ساتھ متعین ہوں گے۔ ان میں توسیع کا امکان بالکل ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں بڑا بگاڑ اسی راستے سے آیا ہے کہ جو بھی چیف آف اسٹاف بنا ہے اس نے مدت عہدہ میں توسیع کی کوشش کی ہے۔ جنرل ایوب سے اس کا آغاز ہوا اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اسے استعمالِ بد کی حد تک پہنچا دیا۔
بھارت میں گذشتہ ۶۱سالوں میں کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے کہ کسی بھی سروس کے چیف کو اس کی مدت پوری ہونے کے بعد توسیع دی گئی ہو۔ امریکا، برطانیہ اور مغربی ممالک میں بھی یہی روش ہے۔ اگر توسیع کے دروازے کو بند کردیا جائے اور خالص میرٹ پر سینیارٹی کی بنیاد پر افواج کے سربراہان کی تقرریاں ہوں تو فوج کی پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ ہوگا اور سیاست پر شب خون مارنے کی راہیں بھی مسدود ہوں گی۔
ان ترامیم میں اسلام پر بھی ایک کاری ضرب لگائی گئی ہے اور بڑے معصوم انداز میں۔ وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ کار کو پہلے ہی روزاول سے محدود کیا ہوا ہے اور آرٹیکل بی-۲۰۳ کے پیراگراف (سی) کے تحت بہت سے قوانین کو اس کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے، خاص طور دستور، عائلی قانون، عدالتی ضابطے وغیرہ لیکن ملک کے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو صرف دس سال کے لیے اس کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا جو ۱۹۹۵ء میں ختم ہوگیا ہے۔ اسی کی روشنی میں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ نے سود کے مسئلے پر اس مدت کے ختم ہوجانے کے بعد اپنے فیصلے دیے ہیں۔ اب اس ترمیم کے ذریعے دس سال کی مدت والے جملے کو حذف کیا جا رہا ہے لیکن اس چابک دستی کے ساتھ کہ ملک کا پورا مالیاتی اور محصولاتی نظام ایک بار وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوجائے۔ اگر دلیل یہ ہے کہ دس سال کی مدت ہوچکی اور یہ حصہ اب غیر ضروری ہے تو پھر دس سال سے شروع ہونے والے جملے کو اختتام تک حذف کرنا چاہیے تھا تاکہ موجودہ قانونی پوزیشن مستقل ہوجائے۔ لیکن دراصل جس طرح یہ ترمیم تجویز کی جارہی ہے وہ سودی نظام کے تحفظ کی شرمناک اور اللہ سے بغاوت کی ایک بے باک کوشش ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے یہ تمام امور نکل جائیں گے جو دس سال کے استثنا کے بعد اب اس کے اختیار میں ہیں۔
یہ قرآن وسنت کے کھلے احکام کے خلاف قانون سازی کی ایک افسوس ناک کوشش ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک طرف سینیٹ متفقہ طور پر تجویز کر رہا ہے کہ پورے ملک میں اسلامی فنانس اور بنکاری کو فروغ دیا جائے اور دوسری طرف ملک کے پورے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو دوبارہ اور ہمیشہ کے لیے وفاقی شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تفو برتو چرخ گرداں تفو!
ان ترامیم میں ایک عجوبہ وہ ترمیم ہے جو بظاہر دستور توڑنے والوں کے لیے سزا اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں اور دستور میں دیے ہوئے حلف کے برعکس حلف لینے والے ججوں کو بغاوت کا مرتکب قرار دینے اور مستوجب سزا بنانے کے لیے کی جارہی ہے مگر فی الحقیقت جو زبان اور انداز اختیار کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں سزا ایسے جج کو نہیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو دی جائے گی اور اسی ترمیم (آرٹیکل ۲۷۶) میں "a person" کے لفظ کو اتنے ڈھیلے (loose) انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی زد میں پارلیمنٹ کے ارکان تک آسکتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس سزا کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں ہوتا جنھوں نے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء یا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو دستور کی تخریب (subvert )کی، اور وہ جج بھی اس سے مستثنیٰ ہیں جو دستور کی اس تخریب کو سندجواز دینے والے ہیں بلکہ اس کا اطلاق صرف مستقبل پر ہوگا۔ یہ عجیب جرم ہے کہ اس کے آج کے ارتکاب کرنے والے محفوظ ہیں مگر یہ صرف آنے والوں کے لیے انتباہ ہے، چاہے آج کے مجرم دندناتے ہی کیوں نہ پھر رہے ہوں۔
عدالت کے سلسلے میں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ججوں کی جگہ any court including a high court and the supreme court (کوئی بھی عدالت بشمول کوئی عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ عدالت کے بنچ کے ان ججوں کو بھی سزا ہوگی جنھوں نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کیا ہو اور مارشل لا یا دستور کی تخریب کی تائید نہ کی ہو؟ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سزا کی کیا شکل ہوگی؟ کیا یہ عدالتیں قانون کی نظر میں ایک فرد ہیں یا ان عدالتوں کو تباہ کردیا جائے گا___ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
اسی طرح فوج کے ذمہ داروں کی طرف سے حلف کی خلاف ورزی کی بات بڑی مبہم ہے۔ حلف میں تو صرف سیاست میں حصہ نہ لینا ہے___ کیا ایک فوجی کا کسی سیاسی شخصیت سے ملنا، کسی سیاسی جلسے میں شرکت خواہ وہ انتخابی جلسہ ہی کیوں نہ ہو، حلف کی خلاف ورزی ہوگا؟ دستور توڑنا، اقتدار پر قبضہ اور چیز ہے اور ایک فوجی کا کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا دوسری چیز۔ جرم اور سزا میں مطابقت بھی انصاف کا اساسی اصول ہے۔ غداری (high treason) کا تعین واضح طور پر ہونا چاہیے۔ اتنی مبہم بات کہ حلف کی پاسداری نہ کرے، یا دستور میں دیے گئے حلف کے الفاظ سے ہٹ کر حلف لے، وہ غداری کا مرتکب ہوگا، محل نظر ہے۔ ان معاملات کو زیادہ سوچ سمجھ کر اور قانون کی باریکیوں اور اس کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر طے ہونا چاہیے۔ جس طرح یہ ترامیم تیار کی گئی ہیں، اس سے بے حد جلدبازی کا اظہار ہو رہا ہے۔
ان ترامیم میں ایسی چیزیں بھی ہیں جن پر ہمدردی سے غور ہوسکتا ہے مثلاً صدر کی طرف سے نظرثانی کے لیے قانون یا ایڈوائس بھیجنے کی مدت میں کمی، سینیٹ میں بجٹ پر غور کی مدت میں اضافہ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ادارے کو بحال اور متحرک کرنا، دستور کے بہت سے فالتو (redundant) حصوں کو حذف کردینا، مصالحتی (reconciliation) کمیٹی کے طریق کار کو ختم کردینا، صدر کی جگہ وفاقی حکومت کو اختیار دینا وغیرہ۔
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حکمت اور مصلحت کے باب میں ایک سے زیادہ آرا ہیں مثلاً اقلیتوں کا مطالبہ تھا کہ جداگانہ انتخاب کا طریقہ ختم کیا جائے اور اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر سیکولر اور لبرل لابی نے مہم چلائی جس کی بنیاد حکمت و مصلحت اور نمایندگی کے حقوق سے کہیں زیادہ نظریاتی تھی۔ لیکن جب انھیں مخلوط انتخاب مل گیا تو پھر اب جداگانہ نمایندگی کا مطالبہ چہ معنی دارد؟___ اگر مخلوط انتخاب چاہتے ہیں تو اس کے آداب اور اصولوں کا بھی احترام کیجیے اور عام سیاسی پارٹیوں کے ذریعے سب کے ووٹ سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں تشریف لایئے۔ ہم نے تو جداگانہ انتخاب کے طریق کار کے ذریعے اقلیتوںکی نمایندگی اور موجودگی کو یقینی بنایا تھا، اسے آپ نے نظریاتی بنیادوں پر رد کردیا۔ اب مخلوط انتخاب کے ساتھ مخصوص نمایندگی کا مطالبہ انمل بے جوڑ ہے۔ اب مخلوط قومیت کا وہ نظریہ کیا ہوا؟ انگریزی محاورے میں You want to eat your cake and have it too.۔ یہ سراسر تضاد اور زیادتی بھی! نیز یہ دیانت کے اصولوں سے بھی ہم آہنگ نہیں۔
الیکشن کمیشن، قومی مالیتی کمیشن، قومی معاشی کونسل، مشترک مفادات کی کونسل وغیرہ کے سلسلے میں ترامیم میں کئی چیزیں اچھی اور مناسب ہیں اور کچھ میں مزید اصلاح کی گنجایش ہے۔ خصوصیت سے قومی اقتصادی کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن میں سینیٹ سے نمایندگی کے مسئلے پر غور ہونا چاہیے جو وفاق کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ مشترک فہرست میں سے صرف چند کو خارج کرنا اور باقی پر مرکز کی قانون سازی کے حق کو باقی رکھنا بھی صحیح نہیں۔ مشترک فہرست کو مکمل طور پر ختم ہوجانا چاہیے اور یہ صوبائی خودمختاری کا کم سے کم تقاضا ہے۔ اس کا وعدہ ۱۹۷۳ء میں کیا گیا تھا کہ دس سال میں یہ کام ہوجائے گا۔ آج ۳۵ سال کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی قیادت اس کے لیے تیار نہیں حالانکہ بلوچستان کمیٹی میں دستوری ترامیم کی بحث کے موقعے پر پیپلزپارٹی نے مشترک فہرست کو ختم کرنے کے حق میں اظہار کیا تھا، اور غالباً میثاقِ جمہوریت میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا تھا، آخر یہ رجعت قہقہری کیوں؟
یہ اور دوسرے متعدد امور ایسے ہیں جن پر کھلی بحث ہونی چاہیے اور افہام و تفہیم اور عوامی خواہشات کی روشنی میں دستوری اصطلاحات کا کام ہونا چاہیے۔ کچھ اور دستوری امور ایسے ہیں جن کو ان ترامیم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے مثلاً آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی، ذیلی (subordinate) قانون سازی کے نام پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کے ایک بڑے دائرے سے باہر کردینا اور اسے مکمل طور پر انتظامیہ کے ہاتھوں میں دے دینا حتیٰ کہ یہ قانون سازی اور ضوابط کاری پارلیمنٹ کے علم تک میں نہیں آتی ہے۔ اسی طرح بیرونی معاہدات اور مالیاتی معاہدوں کوپارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔ ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے باب میں پارلیمنٹ کے عمل دخل کو بڑھانے اور ان میں سے کچھ کو قابلِ داد رسی (justiciable) بنانے کا مسئلہ بھی اہم ہے اور اس پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ اسلامی قانون سازی اور ملکی قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے دستور نے سات سال کی مہلت رکھی تھی، آج اس مدت کو ختم ہوئے ۲۸سال ہورہے ہیں۔ اسی طرح قومی زبان اُردو کے نفاذ کے لیے ۱۵ سال کی مدت رکھی گئی تھی، اس مدت کو ختم ہوئے ۲۰ سال ہو گئے ہیں۔ کیا ان سب امور پر غور اور دستور کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے نئی تدابیر اختیار کرنے کا وقت نہیں آیا۔ کیا دستور میں دی ہوئی مدت میں متعین کام نہ کرنا اور مسلسل ٹال مٹول کرنا دستور کی خلاف ورزی اور تخریب (subversion) نہیں ہے اور ایسی صورت میں دفعہ ۶ کا اطلاق کس پر ہوگا؟ قومی اسمبلی کی مدت (پانچ سال یا چار سال) اور اس مدت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد یا اس مدت کے پوری ہونے سے قبل انتخابات کا معاملہ جیساکہ ۱۷ویں ترمیم کے ذریعے تبدیلی سے پہلے تھا۔ ہمارے خیال میں اسے اصل شکل میں بحال کرنا بہتر ہوگا۔ یہ اور بہت سے دوسرے امور ہیں جن پر بھی اس موقع پر غور ہوسکتا ہے تاکہ دستوری ترامیم زیادہ سے زیادہ جامع ہوں اور باربار یہ کام انجام نہ دینا پڑے۔
دستوری ترامیم کا ہمارا یہ جائزہ اس معنی میں ہرلحاظ سے مکمل نہیں کہ اس میں تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہو۔ ہم نے صرف چند بنیادی اور مرکزی اہمیت کے امور کو موضوع بحث بنایا ہے، جب کہ اس سلسلے میں اصل دستاویز کے شق وار مطالعہ اور اتفاق راے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اہم ہے مگر وقت طلب بھی ہے اور اس کا حق ادا کیا جانا چاہیے۔ دستور میں روز روز ترمیم نہیں ہوتی اور آج جن ترامیم کی ضرورت ہے مناسب معلوم ہوتا ہے قومی بحث و مباحثہ اور پارلیمنٹ میں کھلے تبادلۂ خیال کے ذریعے انھیں کرلینا چاہیے۔ اس میں نہ غیرضروری تاخیر کی جائے، نہ غیرمناسب عجلت سے یہ کام انجام دیا جائے۔ اس لیے ہم ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کرتے ہیں کہ عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو کسی تاخیر کے بغیر حل کیا جائے تاکہ عدالتی نظام اور اس پر اعتماد بحال ہو۔ اس وقت جواعلیٰ عدالتیں ہیں، ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے، کہ ان پر نہ قوم کو ان پر اعتماد ہے اور نہ وکلا برادری کو۔ یہ سلسلہ جلداز جلد ختم ہونا چاہیے۔ بجٹ منظور ہوگیا ہے۔ اب اولیت اس مسئلے کو دی جائے اور بجٹ کے بعد پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر اس مسئلے کو حل کردیا جائے۔ رہا معاملہ دستوری ترامیم کا، تو اس پر گفتگو ساتھ ساتھ چلنی چاہیے۔ عملی تجربات کی روشنی میں ان تمام اہم امور کا احاطہ کیا جائے جن کی اصلاح وقت کا تقاضا ہے۔ یہی زندہ قوموں کا شعار ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات صحیح کرنی چاہییں۔ اسی کے نتیجے میں قوم کے اندر تعاون کی بہتر فضا قائم ہوسکتی ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت: ۷ روپے)
بجٹ ایک ملک کے مالیاتی میزانیے سے کہیں زیادہ پہلوؤں کا حامل ہوتا ہے۔ بلاشبہہ اولین حیثیت سے یہ حکومت کی سالانہ آمدنی اور اخراجات کا آئینہ ہی ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ یہ حکومت کی معاشی اور مالیاتی پالیسی، اہداف اور ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ملک کے بجٹ کا جائزہ لیتے وقت مالی حساب کاری کے ساتھ معاشی پالیسی، اس کی سمت اور اس صلاحیت کا تعین بھی ضروری ہے کہ کہاں تک اس میں حالات کے صحیح ادراک اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدام کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ہمیں احساس ہے کہ مخلوط حکومت نے معاشی اعتبار سے بڑے نامساعد حالات میں زمامِ کار سنبھالی ہے اور اسے بجٹ سازی کے لیے مہلت بھی خاصی کم ملی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم نے آٹھ سال سے زیادہ جو کچھ ملک کی معیشت کے ساتھ کیا اس کے نتائج تو ۲۰۰۶ء ہی سے رونما ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن ۰۸-۲۰۰۷ء میں ان کے دعووں کی قلعی بالکل کھل گئی اور جن مفروضوں پر معاشی ترقی کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا وہ ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوگئے۔ ہم نے اور دوسرے ماہرین معیشت نے بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ قوم کے سامنے صحیح اعداد وشمار پیش نہیں کیے جارہے، غربت میں کمی کے دعوے حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ سالانہ ترقی کے ۷ اور ۸ فی صد کے دعوے اور اس رفتار کو جاری رکھنے کی باتیں درست نہیں اس لیے کہ ملک میں زراعت اور صنعت کے شعبے روبہ ترقی نہیں اور محض خدمات کے شعبے اور نودولتیوں کے صَرف (consumption) کے سہارے ترقی کبھی دیرپا نہیں ہوتی۔ بنیادی طور پر معاشی حالات بگاڑ کی طرف جارہے تھے اور حکومت کے ذمہ دار اور اس کے نشریاتی ادارے قوم کو گمراہ کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف تھے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سالِ رواں میں ۷ فی صد سے زیادہ شرح ترقی کے ہدف کے مقابلے میں ترقی کی شرح صرف ۸ئ۵ فی صد رہی ہے۔ اس کا ۷۵ فی صد خدمات کے شعبے کا مرہونِ منت ہے۔ زراعت میں ۵ئ۴ فی صد کے ہدف کے مقابلے میں اضافہ صرف ۵ئ۱ فی صد تھا اور وہ بھی لائیوسٹاک کی وجہ سے جس کا حصہ زراعت میں ۵۲ فی صد ہے۔ اہم فصلوں کی پیداوار میں ۳ فی صد کمی واقع ہوئی اور ملک میں خوردونوش کی اشیا کی قلت اور مہنگائی دونوں نہ صرف رونما ہوئے بلکہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا دوبھر ہوگیا اور کم آمدنی والے خاندان فقروفاقہ کا شکار ہونے لگے اور نوبت خودکشیوں اور اولاد فروشی تک جاپہنچی۔
اس کے باوجود حکومت کی شاہ خرچیوں میں اضافہ ہوتا رہا، بجٹ کا خسارہ ۵۰۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہوگیا، درآمدات بڑھتی گئیں اور برآمدات میں متناسب اضافہ نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں تجارت کا خسارہ ۱۸ ارب ڈالر اور ادایگیوں کا خسارہ ۱۱ ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور ملکی اور بیرونی قرضوں کا بار اور بھی بڑھ گیا۔ دعوے تھے کشکول توڑنے کے مگر ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں ۰۸-۲۰۰۷ء میں بیرونی قرضے ۳۴ ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴۵ ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور اندرون ملک حاصل کیے جانے والے قرضوں میں ان آٹھ سالوں میں دو ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ افراطِ زر کا حال یہ ہے کہ جولائی ۲۰۰۷ء میں اس کی شرح ۴ئ۶ فی صد تھی جو اپریل ۲۰۰۸ء میں بڑھ کر ۲ئ۱۷ فی صد ہوگئی ہے اور اگر خوراک کی اشیا کا انڈکس لیا جائے تو اضافہ ۵ئ۸ سے بڑھ کر ۵ئ۲۵ فی صد ہوگیا ہے۔ حکومت اسٹیٹ بنک سے آنکھیں بند کر کے بگ ٹٹ قرضے لیتی رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں کرنسی کی گردش کی رفتار میں ۱۹ فی صد سالانہ سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے___ اشیا کی قلت، عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ، قرضوں کی بھرمار، زیر گردش کرنسی میں محیرالعقول بڑھوتری ___ اگر افراطِ زر کا طوفان اُمنڈ نہ آئے تو کیا ہو؟
ہمیں احساس ہے کہ موجودہ حکومت کو یہ مسائل اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ ورثے میں ملے ہیں مگر ایسا نہیں کہ یہ عالمی رجحانات اور خود ملک میں ۲۰۰۷ء میں رونما ہونے والے حالات اور ۲۰۰۸ء پر ان کے اثرات پردئہ غیب میں تھے۔ سیاسی جماعتوں کو ان کا ادراک ہونا چاہیے تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بنیادی تیاری (home work) کی قائل نہیں۔ برسرِاقتدار جماعتوں میں سے کسی کے پاس بھی سیاسی نعروں کے سوا کوئی ٹھوس منصوبۂ عمل نہیں۔ ۰۹-۲۰۰۸ء کا بجٹ چند نمایشی چیزوں کے سوا اسی طرز پر بنایا گیا ہے جس پر اس سے پہلے کے بجٹ بنتے رہے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ بنانے والا ذہن وہی ذہن ہے اور محض بے نظیرکارڈ کے ذریعے بجٹ کو عوامی بنانے کی کوشش مسائل کا حل نہیں۔
سب سے پہلی ضرورت ملک میں معاشی پالیسی سازی کو بیرونی اداروں اور عالمی نظام کی زنجیروں میں گرفتار ذہن سے نجات دلانا ہے۔ موجودہ بجٹ کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اس کے پیچھے مستقبل کا کوئی وژن نہیں۔ سارا اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہے کہ جمع تفریق کا تھوڑا سا کھیل کھیل کر اپنے کو دھوکا دینے اور دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کبھی اسے ترقی کا حامی (pro-growth ) کہا جارہا ہے اور کبھی غریبوں کا حامی (pro-poor) ___ حالانکہ نہ اس کے پیچھے ترقی کی کوئی قابلِ فہم حکمت عملی ہے اور نہ غربت کے خاتمے کا کوئی سوچا سمجھا دیرپا منصوبۂ عمل۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ معیشت میں حکومت کے کردار کے بارے میں ایک واضح پالیسی کے بغیر کوئی بڑی معاشی پیش رفت ممکن نہیں۔ جنرل ایوب کے زمانے میں سرمایہ دارانہ نظام کو ترقی کی بنیاد بنایا گیا اور غربت میں اضافے، معاشی ناہمواریوں میں ناقابلِ برداشت بڑھوتری اور علاقائی عدم توازن کے عفریت نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا اور مشرقی اور مغربی پاکستان میں ایک ایسی آویزش نے جنم لیا جو دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر ملک کو دولخت کرنے پر منتج ہوئی۔ پیپلزپارٹی نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۷ء تک قومی ملکیت اور حکومت کی مداخلت کی حکمت عملی اختیار کی مگر عملاً معیشت کو سیاست دانوں کی سیاست کاری، وقتی مصالح اور بیوروکریسی کی چیرہ دستیوں کی گرفت میں دے دیا۔ بدقسمتی سے آج پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)، دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں پالیسیوں کے تسلسل کی باتیں کررہے ہیں حالانکہ وقت کا تقاضا بنیادی تبدیلی کا ہے، اور یہی اس بجٹ کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اس کے نتیجے میں حالات میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوسکے گی اور عوام کی مشکلات اور مایوسیوں میں اضافے کے خطرات ہی اُفق پر منڈلا رہے ہیں۔
جب تک آزاد پاکستانی اور مسلمان ذہن سے حالات کا جائزہ لینے کا اہتمام نہیں ہوتا اور پالیسی کا نیا فریم ورک قومی مقاصد و اہداف، ملک کی خودانحصاری ، دیرپا ترقی (sustainable develpment) اور عوام کی فلاح اور خوش حالی کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں ہوتی، نیز محض مالیاتی نہیں بلکہ پیداواری عمل جس میں زراعت اور صنعت کا مرکزی کردار ہو، ترقی کا محور نہیں بنایا جاتا، معیشت کا قبلہ درست نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بجٹ اور سالانہ منصوبہ بندی کا پورا نقشۂ کار صحیح قومی ترجیحات کا آئینہ دار ہو اور صرف بجٹ ہی نہیں سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام اور نجی شعبے کے لیے دائرۂ کار، محرکات اور مواقع کا ہمہ گیر نظام وضع کیا جائے، ورنہ ہم ماضی کی طرح ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ اس بجٹ میں ان معاملات کا کوئی ادراک نظر نہیں آتا۔
تیسری بڑی بنیادی بات یہ ہے کہ بالکل واضح طور پر معیشت میں ریاست کے کردار کو صحیح طور پر متعین کیا جائے۔ نہ سوشلسٹ نعروں کے تحت قومی ملکیت اور معیشت کو سرکاری اداروں اور سیاسی عناصر اور بیوروکریسی کے تابع کرنا صحیح طریقہ ہے اور نہ ہرچیز کو مارکیٹ پر چھوڑ دینا، نج کاری کے نام پر ملک کے کمزور طبقوں کو امیروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا اور عالم گیریت اور آزاد روی (liberalization) کی ستم کاریوں کا نشانہ بن جانے اور ملکی منڈیوں کو عالمی ساہوکاروں اور لٹیروں کے لیے کھول دینے کا۔ یہ قومی مقاصد کے حصول، عوام کی خوش حالی اور دیرپا ترقی کے حصول کا راستہ نہیں۔ ستم ہے کہ جو افراد ابھی کل تک بائیں بازو کے گل ہاے سرسبد مانے جاتے تھے وہ اب مارکیٹ اکانومی، نج کاری اور لبرلائی زیشن کے راگ الاپ رہے ہیں۔بلاشبہہ ایسا سرکاری شعبہ جو سیاسی مصالح کے تابع ہو اور جسے بیوروکریٹس چلائیں،نامطلوب ہے لیکن صحیح خطوط پر ریاست اور حکومت کا ایک مثبت اور مؤثر کردار معاشی ترقی اور انصاف اور عوامی خوش حالی پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ بجٹ اور حکومت کی پالیسیوں میں اس مسئلے کے ادراک کا فقدان ہے۔ آج بھی ساری پالیسی سازی انھی بنیادوں پر ہورہی ہے جن کی تباہ کاریوں کا نظارہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے قوم کر رہی ہے۔
گذشتہ آٹھ سالہ معاشی حکمت عملی کی ایک اور بنیادی خامی یہ تھی کہ اس میں معیشت کا جو سب سے اہم حصہ ہے، یعنی اشیا کا پیداواری شعبہ (commodity producing sector) جس میں زراعت، چھوٹی صنعت اور بڑی صنعت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ان کا کردار معیشت میں برابر کم ہوا۔ ان کے لیے دیرپا اور مستحکم ترقی کی نہ کوئی پالیسی تھی اور نہ ان اداروں کو اہمیت دی گئی جو معیشت کے ان دائروں کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔ اس مرکزی اہمیت کے شعبے کو تو نظرانداز کیا گیا اور ساری توجہ خدمات کے شعبے کی ترقی پر رہی، خصوصیت سے بنکاری، ٹیلی کمیونی کیشنز، انشورنس وغیرہ۔ بیرونی سرمایہ کاری بھی نج کاری اور تیل و گیس کی صنعت میں رہی یا پھر ان روزمرہ اشیاے صرف کی پیداوار کی طرف، جیسے دودھ اور برگر جو ملک کی پیداواری استعداد میں اضافے کا باعث نہیں ہوتے۔ اس نوعیت کی ترقی پوری معیشت کو متاثر نہیں کرتی بلکہ ترقی کے چند جزیرے وجود میں آجاتے ہیں جن کا رشتہ (linkage) پوری معیشت سے کمزور ہوتا ہے۔ اس نوعیت کی ترقی کا ماحصل یہ ہے کہ ہر ہاتھ میں سیل فون تو آجاتا ہے مگر ٹیلی فون بنانے کی ٹکنالوجی سے ملک محروم رہتا ہے اور اس کا انحصار باہر والوں پر بڑھتا رہتا ہے۔ نیز جلد ہی سرمایہ کا بہائو بھی باہر کی طرف ہوجاتا ہے کہ ایک طرف درآمدات بڑھتی ہیں اور دوسری طرف نفع ملک سے باہر جانے لگتا ہے۔
بنکاری کی صنعت نے بڑی ترقی کی ہے مگر آہستہ آہستہ ملک کا پورا بنکاری نظام ایک قومی بنک کو چھوڑ کر باہر کے بنکوں کی گرفت میں آرہا ہے۔ یہی حال مواصلات کا ہے۔ بنکوں کے کھاتے داروں کو جو سود ملتا ہے وہ شرح افراطِ زر سے کہیں کم ہے اور اس طرح وہ منفی return یعنی نقصان کا شکار ہیں لیکن Banking spread (سود کی وصولی اور ’منافع‘ کی ادایگی کی شرح میں فرق) بہت زیادہ ہونے کے باعث بنکوں کا منافع آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ بنکوں کا منافع ۲۰۰۳ء میں ۷ئ۴۳ ارب روپے تھا جو ۲۰۰۶ء میں بڑھ کر ۶ئ۱۲۳ ارب روپے ہوگیا ۔ بنکوں کے نفع پر ٹیکس اس زمانے میں ۶۰ فی صد سے کم ہوکر ۳۵ فی صد رہ گیا۔ سالِ رواں میں خدمات کے شعبے سے نفع کی مد میں ملک سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ منتقل کیے گئے۔ اگر اس اُلٹی گنگا کے بہائو میں سرمایہ کے فرار (flight of capital) کو شامل کرلیا جائے جو سیاسی وجوہ کے علاوہ اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازوں کے کھیل کا نتیجہ ہے، تو یہ رقم ۳ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ جب تک معاشی پالیسی کا مرکز اور محور تبدیل نہیں ہوتا اس وقت تک نمایشی تبدیلیاں تو ہوتی رہیں گی لیکن حقیقی معاشی ترقی اور خوش حالی خواب و خیال ہی رہیں گے۔
وقت کی اصل ضرورت ترجیحات کی تبدیلی ہے۔ نئے بجٹ میں زراعت کے لیے کچھ سہولتیں ضرور دی گئی ہیں مگر وہ نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ایک واضح وژن اور مربوط (integrated) منصوبۂ عمل سے عاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی اثرانگیزی محدود رہے گی۔ زراعت کی زبوں حالی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قومی دولت میں اس کا حصہ ۲۲ فی صد ہے، آبادی کے ۶۰ فی صد کو رزق اور روزگار اس سے فراہم کیا جا رہا ہے لیکن حالیہ بجٹ اور پی ایس ڈی پی میں اس کا حصہ جی ڈی پی کا صرف ۲ فی صد اور پی ایس ڈی پی کا صرف ۴فی صد ہے۔ سبسڈی ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے مگر اس کے نتیجے میں پیداواری لاگت بڑھے گی اور ملک میں افراطِ زر میں مزیداضافہ ہوگا۔ ایک فی صد کے حساب سے سیلزٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ بھی ملک میں قیمتوں میں مزید اضافے کا باعث ہوگا۔ ان سب کے ساتھ اگر پانی، بیج، کھاد، ادویہ، قرض اور بجلی کی فراہمی کا حال دیکھا جائے جو ہراعتبار سے غیرتسلی بخش ہے تو زراعت میں نمایاں اضافہ مشکل نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ زراعت کے شعبے میں بڑی ناکامی ترسیل کے نظام (delivery system) میں ہے اور سب سے محروم طبقہ چھوٹا کاشتکار ہے جس کا حصہ پیداوار میں ۵۰ فی صد ہے لیکن وسائل کا ۵ فی صد بھی اسے مشکل سے میسر آتا ہے۔
دوسرے شعبے جو بری طرح بے توجہی کا شکاررہے ہیں، ان میں سرفہرست بجلی، گیس اور توانائی کا شعبہ ہے۔ اس کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر، ریل کی ترقی اور ٹرانسپورٹ کا مؤثر ملک گیر اور بڑے شہروں کا اندرونی نظام وہ چیزیں ہیں جو مسلسل نظرانداز کی جاتی رہی ہیں۔ اب نوبت شہروں میں آٹھ آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تک آگئی ہے۔ بڑے ڈیم سیاست کی نذر ہیں اور توانائی کے متبادل ذرائع بشمول چھوٹے ڈیم، کوئلے سے تیار کی جانے والی بجلی، آبی، شمسی اور بائیوگیس سے فراہم کی جانے والی توانائی سب غفلت کا شکار ہیں۔ منصوبہ بندی کا شعبہ سب سے ناکام شعبوں میں سے ہے۔ ورلڈبنک کی ایک حالیہ رپورٹ کھلے الفاظ میں کہتی ہے کہ منصوبہ بندی کا پورا نظام نااہلیت (incompetence) کا شکار ہے۔ مالیاتی اعتبار سے کوئی منصوبہ ایسا نہیں جو اپنے بجٹ میں پورا ہوا ہو۔ اور جہاں تک پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے طے شدہ وقت کا سوال ہے تو ورلڈ بنک کے جائزے کی روشنی میں مختلف منصوبوں کی تکمیل میں تین سال سے ۲۰ سال تک کی تعویق واقع ہوئی ہے۔
تجارتی خسارہ، ادایگیوں کا خسارہ، بجٹ کا خسارہ تینوں اس حد تک پہنچ چکے ہیں جو معیشت کی صحت کے لیے خطرناک اور ملک کو دیوالیہ کرنے کی راہ پر دھکیلنے والے ہیں۔ قومی بچت کی سطح ترقی پذیر ممالک کے معیار پر بھی خطرناک حد تک کم ہے، یعنی ۱۳ فی صد، جب کہ دیرپا ترقی کے لیے ۲۵فی صد کی سطح بھی کمی کی خبر لاتی ہے۔ بھارت، چین اور بہت سے دوسرے ممالک ۳۰ سے ۴۰فی صد بچت کا ہدف حاصل کر رہے ہیں۔
پھر وہ شعبے جو معاشی ترقی اور انسانی خوش حالی کے لیے مرکزی اہمیت رکھتے ہیں، یعنی تعلیم، صحت اور گھر کی سہولت بری طرح وسائل کے قحط کا شکار ہیں۔ مرکزی بجٹ میں تعلیم کے لیے ۲۶ارب روپے اور صحت کے لیے ۵ئ۶ ارب روپے رکھے گئے ہیں جو تمام صوبوں کے اندر مختص رقوم کو جمع کر کے بھی جی ڈی پی کا بمشکل ۵ئ۲ (تعلیم و صحت) بنتے ہیں، جب کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ شرح ۴ سے ۸ فی صد تک ہے۔ یہ تو صرف مالیات مختص کرنے کا حال ہے۔ اگر دیکھا جائے کہ میدان میں اصل حاصل کیا ہے، تو حالت اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔ ایک حالیہ سروے کی رو سے ملک میں ۱۲ہزار ۵ سو اسکول ایسے ہیں جن کا عملاً کوئی وجود نہیں، یعنی نہ تو بلڈنگ ہے اور نہ اساتذہ!
اس بجٹ کا ایک نیا پہلو بے نظیر کارڈ کا اجرا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے ان ۷۰لاکھ گھرانوں کو جو انتہائی غربت کی حالت میں ہیں، ایک ہزار روپے ماہانہ کی نقد مدد کی جائے گی۔ اس کے لیے ۳۵ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اصولاً غریبوں کو روٹی اور صحت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے نقد مدد ایک اچھی اسکیم ہے لیکن زکوٰۃ اور بیت المال کے تجربات کی روشنی میں اس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ اول تو رقم بہت کم ہے، یعنی کل ۳۵ ارب اور فی خاندان ایک ہزار روپے۔ ان سے ۷۰ کیا ۷ لاکھ خاندانوں کی مدد بھی محال ہے۔ پھر ہزار روپے میں ایک بے روزگار گھرانہ اپنی کون کون سی ضرورت پوری کرے گا؟ سب سے اہم سوال ضرورت مندوں کا صحیح تعین، ان تک مدد کی ترسیل کا شفاف نظام، اور اس پورے عمل کی نگرانی کا ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کا فقدان ہے۔ نادرا (NADRA)کے پاس جو معلومات ہیں وہ ان ضرورتوں کو سامنے رکھ کر حاصل نہیں کی گئی ہیں اور آبادی کا غریب ترین طبقہ نادرا کی خدمات سے محروم رہا ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ گہرے غوروخوض اور مناسب منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔
پوری اسکیم کو ایک مربوط انداز میں ایک قومی سطح کی سوشل سیکورٹی اسکیم کا حصہ ہونا چاہیے۔ صرف وہ افراد جو روزگار اور محنت کے لائق نہ ہوں ان کو نقد مدد دی جانا چاہیے ،یعنی بچے (۱۰ سال تک)، بیوائیں جن کا کوئی سہارا نہ ہو، بوڑھے اور معذور افراد۔ باقی تمام افراد کے لیے روزگار کی فراہمی یا ایسے کاروبار کا انتظام جس کے ذریعے وہ خودکفیل ہوسکیں، اصل حل ہے۔ نیز تعلیم اور صحت کے لیے ایسی اجتماعی انشورنس کے نظام کا نفاذ جس میں ہرشخص خود بھی ایک حصہ دے اور اس کے علاوہ جس کاروبار یا ادارے میں وہ کام کرتا ہو وہ اور حکومت اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔ اس میں بھی شبہہ ہے کہ ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ اور بجٹ میں خسارے کا جو اندازہ اس بجٹ میں دیا گیا ہے وہ ان حدود میں پورا ہوسکے گا جو متعین کی گئی ہیں یا نہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم، اور ترقیاتی پروگرام کے بنانے اور ان کی تعمیل کرنے کی صلاحیت اور انتظامِ کار کا ہے۔ بجٹ اس سلسلے میں بھی خاموش ہے۔ جس ناانصافی اور غفلت کے نتیجے میں مرکز اور صوبوں میں بُعد اور بے اعتمادی رونما ہورہے ہیں ان سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ این ایف سی اوارڈ ۱۹۹۷ء کی بنیاد پر جاری ہے۔ ہائیڈل منافع اور گیس اور دوسری معدنیات کی رائلٹی کا مسئلہ معلق ہے۔ صوبے وسائل سے محروم ہیں اور مرکز ایک گلے سڑے نظام کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ یہ صورت حال فوری تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔
اس بجٹ اور ان معاشی پالیسیوں پر کاربند رہ کر ملک نہ دیرپا ترقی کرسکتا ہے، نہ ترقی کے ثمرات سے عوام فیض یاب ہوسکتے ہیں، نہ خودانحصاری کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے اور نہ مرکز اور صوبوں میں حقیقی تعاون اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ وہی معاشی ترقی دیرپا اور خوش حالی کا ذریعہ بن سکتی ہے جو ملک و قوم کی اپنی اقدار اور اپنے عزائم کی روشنی میں بنے اور جس کا رخ بیرونی ساہوکاروں کو اپنے جسم سے گوشت کے ٹکڑے (pound of flesh) دینے کے بجاے اپنے وسائل سے اپنی قوم کو حق و انصاف کے مطابق عزت کی زندگی فراہم کرنا اور دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا ہو۔ جب تک نقطۂ نظر تبدیل نہ ہو اور ترقی کا رخ درست نہ ہو، بہتر زندگی کی اُمید عبث ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مشہور مقولہ ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو بہت دیر تک اور سب لوگوں کو کچھ دیر کے لیے بے وقوف تو ضرور بنا سکتے ہیں مگر تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے___ جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے۔ یہ ایک دن بلبلے کی طرح پھٹ جاتا ہے اور اندر کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
نائن الیون کے معاً بعد سے دہشت گردی کے نام پر پوری دنیا میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا جدید تاریخ کی طویل ترین عالمی جنگ کی آماج گاہ بن گئی ہے۔ عراق جہنم زار ہے، پوری دنیا میں عدم تحفظ اور خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اور اس سے بڑھ کر، اس کا اختتام دُور دُور نظر نہیں آرہا ہے۔
افغانستان امریکا اور ناٹو کی جدید عسکری ٹکنالوجی سے لیس ۶۰ ہزار افواج کی جولانیوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ اس نام نہاد مقصد کا حصول، یعنی بن لادن اور القاعدہ کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا، جس کے لیے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی گئی تھی وہ ایک قصۂ پارینہ اور زیبِ داستان کے لیے گھڑے ہوئے افسانے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ طالبان، جن کا کوئی کردار نائن الیون کے واقعے میں آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا ہے، بظاہر جنگ کا عنوان بن گئے ہیں، جب کہ اصل مقصد افغانستان پر مسلسل قبضہ ہے جسے تبدیلیِ قیادت کے نام پر افغانستان پر ایک کٹھ پتلی حکومت مسلط کرکے اور جمہوریت کے قیام اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور کی نوید سناکر حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ رہا معاملہ زمینی حقائق کا، تو جس معاشی اور تعلیمی ترقی اور جدیدیت کے انقلاب کا چرچا تھا اس کا کہیں وجود نہیں۔
امریکا اور ناٹو کے کرتا دھرتا اب اصل بات اس پر کر رہے ہیں کہ عراق سے تو واپسی کا سوچا جاسکتا ہے لیکن افغانستان سے نہیں۔ ستم یہ ہے کہ امریکا ہی نہیں، ناٹو اقوام جن کا اتحاد نارتھ اٹلانٹک کے دفاع کے لیے مخصوص تھا، وہ اب نارتھ اٹلانٹک سے ہزاروں میل دُور اپنے لیے نیا میدانِ جنگ متعین کرنے میں مصروف ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب ناٹو کے مستقبل کا انحصار افغانستان میں اس کے مشن کی کامیابی پر ہے، حالانکہ امریکا کے سوا تمام ہی اتحادی ممالک کی افواج کا عمل گواہ ہے کہ وہ اُوپر سے جتنی چاہے بم باری کر رہے ہوں، زمین پر جنگ اور مقابلے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی فوجیں واپس بلاچکے ہیں اور کچھ کے وزراے خارجہ علانیہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمارے چند درجن مزید سپاہی افغانستان میں مارے جاتے ہیں تو ہمارے عوام افواج کی واپسی کا مطالبہ کردیں گے۔
اس سب کے باوجود امریکا اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسروں پر اضافے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ اس وقت ۷ ہزار مزید کمک کا منصوبہ ہے۔ امریکا کے تمام ہی صدارتی امیدوار عراق سے تو فوجوں کی واپسی کی بات کرتے ہیں مگر افغانستان میں اضافے ہی کا راگ الاپ رہے ہیں، اور ایران اور پاکستان دونوں پر مختلف انداز میں دبائو بڑھانے اور ایک (ایران) پر حملہ کرکے اس کی قوت پر ضرب لگانے اور دوسرے (پاکستان) کا ہاتھ مروڑ کر اس کی فوجوں کو اپنے ہی عوام کے خلاف خون آشام کارروائیوں میں مصروف رکھنے اور علاقے میں مذاکرات، امن اور سلامتی، استحکام اور ترقی کے ہر منصوبے کو درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلکہ گذشتہ تین مہینوں سے بار بار ایک نئے خطرے کا ڈھونگ پیٹا جا رہا ہے کہ اگلا نائن الیون جیساحملہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے متوقع ہے۔ نیگرو پونٹے سے لے کر خود بش بہادر تک یہ شور مچا رہے ہیں اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بلیک میل کرکے اور گاجر اور چھڑی (carrot and stick) کی روایتی پالیسی کا استعمال کرتے ہوئے اسے جنگ کی دلدل میں مزید دھکیلنے اور امن و استحکام کے حصول کی ہرکوشش کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ خاص طور پر اس لیے ہورہا ہے کہ پاکستانی عوام جن کی نگاہ میں پہلے دن سے امریکا کی افغانستان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت، حصہ داری اور کردار پاکستان اور اُمت ِمسلمہ کے مفادات کے خلاف اور صرف امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ تھے اور پرویز مشرف کی اس پالیسی کے خلاف تھے، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر انھوں نے پرویز مشرف کی اس امریکی جنگ میں شرکت کو یکسر رد کردیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تسلسل نہیں، تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ امریکا کا موجودہ دبائو دراصل عوام کے اس مینڈیٹ کی نفی کرنے اور پرویز مشرف کی خون آشام اور عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے دبائو بڑھانے اور نئی حکومت کو اسی طرح خوف زدہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے جس طرح نائن الیون کے بعد پرویز مشرف اور ان کے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ کو ڈرا دھمکا کر امریکا کا آلۂ کار بنانے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
آج پھر ملک اور اس کی قیادت ایک ویسے ہی امتحان اور انتخاب سے دوچار ہے۔ اس لیے ضروری ہے صدر بش اور امریکا کی اس جنگ کے اصل مقاصد کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے، سات سال میں پرویز مشرف کی امریکا کی محکومی میںاختیار کی جانے والی پالیسی کے نتائج کا پوری علمی دیانت کے اور سیاسی حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے۔ عوام کے جذبات، احساسات اور مطالبات کا بھی احترام کیا جائے اور اچھی طرح سمجھا جائے کہ فردِواحد کی بنائی جانے والی پالیسی کے مقابلے میں عوام کی منتخب سیاسی قیادت کو اپنی پالیسی کس طرح اور کن مقاصد کے لیے مرتب اور نافذ کرنی چاہیے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک بنیادی بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عوام نے ۱۸ فروری کو بڑا واضح مینڈیٹ دیا ہے اور اس میں پانچ چیزیں بہت واضح ہیں:
۱- پرویز مشرف کا دور حکومت تاریک اور ناکام دور تھا اور قوم ان سے اور ان کی مسلط کردہ پالیسیوں سے نجات چاہتی ہے، ان کا تسلسل نہیں۔
۲- عدلیہ پر پرویز مشرف کا حملہ اور اعلیٰ ججوں کی برطرفی ایک قومی جرم اور دستور اور اس کے تحت قائم ہونے والے ادارتی نظام کو درہم برہم کرنے اور ایک تابع مہمل عدلیہ ملک پر مسلط کرنے کی باغیانہ کوشش تھی۔ نئی حکومت کی پہلی ذمہ داری تھی اور یہ ذمہ داری ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ججوں کو بحال کرے اور عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
۳- ملکی سیاست میں فوج کا کردار ختم ہونا چاہیے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور دستور کے تحت سول حکومت کے احکام کی پاس داری کرنا ہے۔ ملک کی قسمت کے فیصلے اور پالیسی سازی دستور، قانون اور ضابطوں کے مطابق عوام کے منتخب نمایندے کریں۔ پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہو اور قیادت عوام کی مرضی کے مطابق جمہوری عمل کے ذریعے حکومت کی ذمہ داری ادا کرے، کھلے انداز میں کرے، اور ان کے سامنے جواب دہ ہو۔
۴- پاکستان کے معاملات میں امریکا کا کردار جو شکل اختیار کرگیا ہے وہ قومی حاکمیت، عزت و وقار اور مفادات کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں سب سے تباہ کن چیز امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور کردار اور اس کے نتیجے میں ملک اور پورے علاقے میں جو خون ریزی ہورہی ہے اور دہشت گردی کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان، سوات، پاکستانی قانون کے زیرعمل داری (settled) علاقوں، حتیٰ کہ اسلام آباد اور لاہور میں جو حالات رونما ہوئے اور لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ظلم اور سرکاری دہشت گردی کا جو خونیں ڈراما رچایا گیا ہے، وہ عوام کے غیظ و غضب کا سبب بنا ہے۔ نئی حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کی شرکت پر بنیادی نظرثانی کرے اور علاقے میں امن و سلامتی کے لیے نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔
۵- آخری چیز پرویزی دور کی دوسری تمام پالیسیوں خصوصیت سے معاشی، تعلیمی، ثقافتی پالیسیوں سے عوام کی بے زاری، بھارت کے سلسلے میں یک رخے انداز میں پسپائی اور یک طرفہ رعایات (one way concessions) اور مسئلہ کشمیر پر اُلٹی زقند (u-turn) کا رویہ ہے جس کے بارے میں انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد عوام نے اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ملک جس طرح خوراک، مہنگائی، بدامنی، بجلی، گیس اور پانی کے بحران میں مبتلا ہے، وہ مشرف کی آٹھ سالہ غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط ترجیحات کا مجموعی نتیجہ (cumulative result) ہے، اور ان سب کے بارے میں نئی حکومت کو پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں اور عوام کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کارروائی کی ضرورت ہے۔
یہ تو تھا عوام کا مینڈیٹ اور ان کی توقعات کا خاکہ ___ مخلوط حکومت کے قیام کو ملک کی تمام کی تمام قوتوں نے خوش آمدید کہا اور ان دینی اور سیاسی جماعتوں نے بھی جنھوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، کھلے دل سے حکومت کو موقع دیا اور اسے صحیح مشوروں سے نوازا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کچھ درپردہ اور کچھ کھلی سودے بازیوں کے پس منظر میں جو سیاسی عناصر میدان میں آئے تھے، ان کی نگاہیں عوام کے مینڈیٹ اور توقعات سے کہیں زیادہ اپنے مفادات پر تھی اور جو کام پہلے ہفتے میں ہوجانے چاہییں تھے، ان پر چھے ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی لیت و لعل کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت کے کرتا دھرتا گومگو کا شکار ہیں، پارلیمنٹ جس کی بالادستی کے دعوے ہو رہے تھے ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا منظر پیش کر رہی ہے اور زرداری ہائوس اور ایوانِ صدر اپنے اپنے کردار ادا کرنے میں مصروف اور ایک دوسرے کے لیے گنجایش نکالنے کا پریشان کن نقشہ بنانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ وزرا گاڑیوں پر جھنڈے تو لہرا رہے ہیں اور انتقالِ اقتدار کے ڈرامے کے باوجود انتقالِ اختیارات کی صورت نظر نہیں آرہی۔ کسی بھی اہم میدان میں نئی پالیسی سازی کی کوئی جھلک دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وزیردفاع، وزیرخزانہ اور وزیرخارجہ تک پالیسیوں کے تسلسل کی بات کر رہے ہیں اور وزیرخارجہ نے تو یہاں تک فلسفہ بگھارا ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا انحصار اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات (strategic interests) پر ہوتا ہے اور قیادت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کی جاتی۔ وہ بھول گئے کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے معرکے میں بنیادی ایشو ہی یہ تھا کہ ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے اور اس ناکام پالیسی کی تبدیلی کے لیے عوام نئی قیادت کو سامنے لائے ہیں۔
وزیرخارجہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان ہی کی تاریخ میں سیاسی قیادت نے ایک بار نہیں بار بار خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور وہ تبدیلیاں اسٹرے ٹیجک مفادات کے ادراک ہی کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ حالات کی تبدیلی سے اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلی ہوتی ہے، جیسے برلن کے انقلاب کے بعد، امریکا کی ہر کوشش کے علی الرغم پاکستان کا چین کوتسلیم کرنا اور اس کے ساتھ اسٹرے ٹیجک شراکت داری کا قیام۔ واضح رہے کہ خارجہ پالیسی کی اس تبدیلی میں خود جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اہم کردار تھا لیکن آج کی پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس کا کوئی ادراک ہی نہیں۔ اسی طرح افغانستان پر اس کی کھلی فوج کشی اور برزنیف ڈاکٹرائن کی افغانستان کے لیے توسیع نے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں ایک جوہری تبدیلی کردی تھی اور اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ خود پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد جو یوٹرن لیا اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی کا رخ بالکل بدل گیا۔ آج نائن الیون کے سات سال بعد دنیا کا جو حال ہے، عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے، یورپ، چین اور روس جس طرح کروٹیں لے رہے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک عالم گیریت کے بوجھ تلے دبے جس طرح کراہ رہے ہیں اور اپنے لیے زندہ رہنے کی نئی راہیں تلاش کرنے کی جو جستجو کر رہے ہیں، اور امریکا کی سات سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جو نتائج افغانستان اور اس پورے خطے (region) بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوئے وہ اسٹرے ٹیجک مفادات میں تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں اور ان مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے خارجہ پالیسی کے ازسرنو بنیادی جائزے کی ضرورت ہے نہ کہ ضمنی تبدیلیوں کی۔ ان حالات میں تبدیلی کی جگہ تسلسل کی بات نہایت مایوس کن بلکہ تشویش ناک ہے۔ اصلاح کی توقع اسی وقت ہوسکتی ہے جب مرض کا احساس، خرابی کا ادراک اور تبدیلی کا عزم ہو___ اور پیپلزپارٹی کی حکومت کا اقتدار کے پہلے ۵۰ دن میںریکارڈ کسی اعتبار سے بھی قابلِ فخر تو کیا تسلی بخش بھی نہیں کہا جاسکتا۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں ہم قبائلی علاقہ جات میں جاری پالیسی، اس میں تبدیلی کی ضرورت اور کوشش اور بحیثیت مجموعی امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستان کے نظریاتی تشخص کے ساتھ قومی یک جہتی، ملک میں امن و امان کے قیام اور فوج اور قوم کے تعلقات کا انحصار ہے۔ اس کا تعلق قومی سلامتی، ملک کی آزادی اور حاکمیت اور ہماری پوری دفاعی صلاحیت کی حکمت عملی سے ہے۔ بلاشبہہ اس کا گہرا تعلق پاک امریکا تعلقات سے بھی ہے اور ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ پالیسی کی تشکیل ان سارے پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ہی ممکن ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی افواج کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور وہ اہداف کہاں تک خود پاکستان کے مفادات اور اس خطے میں اس کے مقاصد سے مطابقت رکھتے ہیں۔ جو پالیسی وقتی حالات، بیرونی دبائو، یا خوف اور مجبوری کے تحت بنے گی وہ کبھی بھی قومی مقاصد اور مفادات کی ضامن نہیں ہوسکتی۔
ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ نائن الیون کے بعد آزاد فیصلہ سازی کے لیے کتنی گنجایش موجود تھی اور اس وقت کن حالات میں کیا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اس پر اپنے خیالات کا اظہار بار بار کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی اس وقت ضرورت نہیں۔ لیکن آج کے حالات مختلف ہیں۔ خود امریکا میں بش کی پالیسیوں کو اب وہ پذیرائی حاصل نہیں اور دنیا کے عوام، حکومتیں اور دانش ور اپنے اپنے انداز میں اس سے فاصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانیہ، اسپین، اٹلی اور آسٹریلیا کے عوام اور حکومتوں نے اپنے تعاون کی مقدار (quantum) اور شکلوں پر نظرثانی کی ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، پولینڈ اور دسیوں ملک نظرثانی میں مشغول ہیں۔ خود امریکا کے تھنک ٹینک عراق اور افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی ناکامیوں پر کھل کر بحث کر رہے ہیں اور امریکی مقتدرہ سے متعلق افراد، خصوصیت سے کلیدی مقامات پر خدمات انجام دینے والے فوجی اور سول شخصیات جو ریٹائر ہوچکی ہیں پالیسی کی ناکامیوں اور تبدیلی کی ضرورت پر کھل کر کلام کر رہے ہیں۔
ان حالات میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ امریکا کے احکام اور بلیک میل کرنے والے مطالبات پر سرِتسلیم خم کرنے کی روش ترک کی جائے،دوستی اور محکومی کے فرق کو سامنے رکھاجائے، دوسروں کے مفادات اور اپنے مفادات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے اور عوام کی خواہشات اور ان کو اعتماد میں لے کر پوری دانش مندی سے پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے اور پالیسی سازی کے طریق کار کو بھی درست کیا جائے تاکہ ذاتی پسندوناپسند، شخصی مفادات اور ترجیحات کا کوئی سایہ قومی پالیسیوں پر نہ پڑے اور یہ پالیسیاں مکمل طور پر قومی مقاصد، اہداف اورمفادات کے مطابق مشاورت کے اداراتی عمل کے ذریعے بنیں اور ان پر پارلیمنٹ میں کھلی بحث ہو اور ہرسطح پر عوام کی شرکت کا اہتمام کیا جائے۔ زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے جو پالیسی بنے گی وہ خام ہوگی اور نتائج کے حصول میں ناکام رہے گی۔ صوبہ سرحد کی نئی حکومت کو سیکولر قوتوں کی فتح کہا جا رہا تھا اور اے این پی کی صوبے میں کامیابی کو دینی قوتوں کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا تھا اور امریکی حکومت نے اے این پی کی قیادت سے بلاواسطہ تعلقات قائم کرنے اور اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کی راہیں استوار کرنے کے لیے تمام حربے بھی استعمال کرنا شروع کردیے ہیں، لیکن صوبے کی حکومت کو طالبان اور سوات کی مقتدرہ قوتوں سے بات چیت ہی کا راستہ استعمال کرنا پڑا اور شریعت محمدیؐ کے نفاذ کو معاہدے میں سرفہرست رکھنا پڑا۔ یہ زمینی حقائق اور حقائق پر مبنی سیاست کا لازمی حصہ ہے۔ سیاسی قوتوں کو سیاسی حقائق کی روشنی میں مسائل کے سیاسی حل ہی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف خودپسند جرنیلوں یا مفادات کی دلدل میں پھنسے ہوئے سیاست دانوں کا رویہ ہوتا ہے کہ وہ انا ولاغیری کے زعم میں من مانے فیصلے کرڈالتے ہیں اور اس کا کوئی خیال نہیں کرتے کہ قوم اس کی کیا قیمت ادا کرتی ہے؟
اب یہ بات دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوچکی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا مقصد دہشت گردی سے انسانیت کو نجات دلانا نہیں، بلکہ دہشت گردی کے نام پر اپنے عالمی منصوبوں کی تکمیل اور اہداف کا حصول ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور مناسب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
۱- دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہ موجود ہے اور نہ امریکا نے اس سلسلے میں کوئی قرارواقعی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس ایک مبہم بات کوایک دوسرے غیرواضح مبہم وجود، یعنی القاعدہ کے شانوں پر سجا کر ایک عالمی جنگ کا عنوان بنا دیا ہے اور عملاً دنیا کو اس جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا۔
۲- نائن الیون سے پہلے بلکہ صدیوں سے دہشت گردی کا وجود رہا ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مختلف گروہوں نے قوت کا ایسا استعمال بار بار کیا ہے جس سے خواہ ان کے سیاسی مقاصد اور اہداف توجہ کا مرکز بن گئے ہوں مگر معصوم انسانوں کی جانوں کی قربانی بھی اس کا حصہ رہی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مقاصد سے ہمدردی کے باوجود ان کے اس طریق کار پر گرفت کی گئی ہے اور ریاست اور قانون کی نگاہ میں ان کے یہ اقدامِ جرم شمار کیے گئے لیکن امریکا نے اپنے سوچے سمجھے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لیے نائن الیون کے واقعے کے ۲۴ گھنٹے کے اندر ایک مجرمانہ کارروائی (criminal activity) کو جنگ کا نام دے دیا اور اس کے جواب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے ایک عالمی جنگ کا آغاز کردیا۔ یہ ایک جوہری تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سیاسی تدابیر اور ان کے ساتھ مجرموں سے نمٹنے کے عدالتی طور طریقوں کو ترک کر کے جنگ کے مثالیے (paradigm) کو مسئلے کے نمٹنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور مسئلے کے عسکری حل (military solution) کی حکمت عملی کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔
امریکا کے اسٹرے ٹیجک مفکرین روس کے انتشار اور دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد سے ایک ایسی عالمی حکمت عملی کا تانا بانا بُننے میں مشغول تھے جس کے ذریعے امریکا ۲۱ویں صدی کی واحد سوپر پاور رہ سکے، اس کا مقابلہ کرنے والی کوئی قوت (challenger) نہ اُبھر سکے، دنیا کے تمام اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر امریکا کے فوجی اڈے موجود ہوں، تیل،گیس اور خام مال کی رسد پر اس کا کنٹرول رہے، اس کی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں، خصوصیت سے عرب دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک کی منڈیاں کھلی رہیں، نیز مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کا سیاسی نقشہ اس طرح دوبارہ بنایا جائے کہ امریکا کے مفادات کو مکمل تحفظ حاصل ہو، اور اسرائیل کو نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی خطرہ پیش نہ آئے بلکہ اسرائیل امریکا کے نائب (surrogate) کی حیثیت سے اس پورے علاقے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کے حصول کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہے۔ اس کے لیے عراق کی کمر توڑنا، افغانستان میں اپنے قدم جمانا، ایران کو نہ صرف یہ کہ ایٹمی طاقت نہ بننے دینا بلکہ معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھی اس کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینا، پاکستان پر دبائو، چین پر نگرانی اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر اسے ہراساں کرنے کا ہمہ گیر پروگرام اور بھارت کے ساتھ تعاون کے ذریعے اس علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھانا، جب کہ مسلم ممالک خاص طور پر عراق، پاکستان، افغانستان کو علاقائی، فرقہ وارانہ اور اسی قسم کی دوسری عصبیتوں کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے کمزور کرنا___ وہ کلیدی اہداف تھے، جن پر ۹۰ کے عشرے سے عمل ہو رہا تھا۔ نائن الیون کے حادثے کو ایک سنہری موقع بناکر پورے بین الاقوامی قانون کو بالاے طاق رکھ کر اپنے دفاع کے نام پر دوسرے ممالک پر فوج کشی، ان کی سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزی کے سامراجی فلسفے کو پالیسی کا مرکز و محور بنانا، جمہوریت کے فروغ اور تبدیلیِاقتدار (regime change ) کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت اور سیاسی تبدیلیوں کا کھیل، جنگ اور قومی سلامتی کا سہارا لے کر ان تمام حقوق کی پامالی جو مہذب دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں، وہ مقاصد ہیں جن کے لیے امریکا خصوصیت سے نائن الیون کے بعد سرگرم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس کا صرف عنوان ہے اوراصل سامراجی کھیل کے لیے قائم مقام (proxy) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی سرکاری دستاویزات، دنیا بھر کے اہم تھنک ٹینکس کی مطبوعات اور صدربش سے لے کر ان کے سول اور فوجی ترجمانوں اورسابقہ کمانڈروں اور خفیہ اداروں کے ترجمانوں کے بیانات چشم کشا ہیں۔ کسی کو باہر سے الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔ امریکا کا عمل اور اس کے ذمہ داروں کے بیانات سیاسی شطرنج کا پورا نقشہ پیش کردیتے ہیں۔
امریکا نے اپنے آپ کو ساری دنیا میں ’کروسیڈ‘ کے قائد کی حیثیت سے پیش کرنے اور کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، کسی بھی مدت کے لیے مداخلت کو جائز ثابت کرنے کے لیے کچھ عرصے سے عالمی دہشت گردی کے تصور کو استعمال کیا ہے۔ (ص ۴۴)
القاعدہ اور حکومت طالبان کے خلاف جنگ کی وجہ سے امریکا نے افغانستان میں ۱۲ ہزار، ازبکستان میں ۱۵۰۰ اور جارجیا میں کم و بیش ۱۰۰ فوجی تعینات کر دیے۔ (ص۱۳۱)
تمام ظاہری محرکات سے زیادہ، امریکا نے اپنی فوجی شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے مسلم دنیا کو بطور ہدف اور ’عذر خصوصی‘ (priveleged pretext) اس لیے منتخب کیا ہے کہ کم خرچ پر اپنی طاقت کی ہرجگہ اسٹرے ٹیجک موجودگی کو سامنے لایا جائے۔ یہ بالکل سادہ سی بات ہے کہ ایسا عالمِ عرب کی عمومی کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ امریکا عربوں کے ساتھ بدسلوکی کرے گا اس لیے کہ وہ فوجی لحاظ سے کمزور ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس تیل ہے اور تیل اتنا اہم ہے کہ امریکا کے ہرقسم کی اشیاے تجارت پر عالمی انحصار سے توجہ منتقل کردے گا۔ (ص ۱۴۲-۱۴۳)
ایک بنگلہ دیشی نژاد برطانوی محقق نفیض مصدق احمد نے، جو برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک Institute of Policy & Research کے ڈائرکٹر ہیں، دو تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔ پہلی The War on Truthاور دوسری Behind the War on Terror۔ ان کتابوں میں قابلِ اعتماد حوالوں کے ساتھ امریکا کی عالمی غلبے کی حکمت عملی کے تمام ہی پہلوئوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ موصوف جس نتیجے پر پہنچے ہیں،وہ مختصراً یہ ہے:
حقیقت یہ ہے کہ ۱۱ستمبر کے دہشت گردی کے حملے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جو نئی جنگ شروع کی، یہ انھی بنیادی اصولوں اور منصوبوں کی توسیع ہے جنھوں نے دوسری جنگ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی اور آگے بڑھایا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بہانے درحقیقت امریکی حکومت اپنی عالمی برتری کو توسیع دینے اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ان طویل المیعاد حکمت عملیوں کے مطابق ہے جنھیں گذشتہ کئی عشروں میں غوروفکر کرکے محنت سے تکمیل تک پہنچایا گیا۔ Behind the War on Terror: Western Secret Strategies and the Struggle for Iraq این ایس احمد، Calavian Sussex ، ۲۰۰۳ئ، ص ۳)
ایک امریکی تھنک ٹینک Project for the New American Century (PNAC) نے بڑی چشم کشا رپورٹ تیار کی ہے۔ اس کے تیار کرنے والوں میں صدر جارج بش کے چوٹی کے مشیر شامل رہے ہیں جن میں ڈک چینی (موجودہ نائب صدر) ڈونالڈ رمزفیلڈ (سابق وزیردفاع)، لیوس لبی نائب صدر کے سابق چیف آف اسٹاف وغیرہ شامل تھے۔ اس میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ہمارا مقصد ایک ایسا بلیو پرنٹ تیار کرنا ہے جس کا مقصد:
عالمی سطح پر امریکا کی برتری کو برقرار رکھنا، کسی دوسری عظیم طاقت کے بطور حریف عروج کو روکنا، اور بین الاقوامی سلامتی کے نظام کو امریکی اصولوں اور مفادات کے مطابق تشکیل دینا ہے۔
یہ امریکا کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے ذریعے اپنی آخری شکل اختیار کرے گا۔ یہ منصوبہ دنیا پر امریکا کی حکومت قائم کرنے کے لیے ہے۔ اس کا کھلا کھلا مرکزی خیال ایک ہی طاقت کا میدان میں رہنا (unilateralism) ہے لیکن یہ بالآخر غلبہ حاصل کرنے کی کہانی ہے۔ اس کا تقاضا ہے: دوستوں اور دشمنوں پر ایک جیسا غلبہ۔
امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق دہشت گردی سے کم اور امریکا کے اپنے عالمی عزائم جس کا اصل ہدف دنیا پر امریکی غلبہ (Pax Americana) ہے، تیل اور انرجی کے دوسرے ذخائر پرقبضہ اور ان کی رسد کے راستوں پر حکمرانی، دنیا کے اسٹرے ٹیجک پوائنٹس پر اپنے فوجی اڈوں کا قیام اور دنیا کے اہم علاقوں خصوصیت سے مشرق وسطیٰ اور وسط افریقہ کے سیاسی نقشے کی امریکی مفادات اور اسرائیلی خواہشات کی روشنی میں تشکیلِ نو۔
سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور عراق، افغانستان اور لبنان میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، نیز پاکستان کے بارے میں جو نئے نئے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں، ان سب کا تعلق اس بڑی (grand) حکمت عملی سے ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکا کی دل چسپی اس عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کا ایک پہلو ہے۔
ڈاکٹر نفیض احمد نے بڑے پتے کی بات لکھی ہے جو امریکی حکمت عملی کے سینے کے اصل راز کو فاش کرتی ہے:
اس طرح بین الاقوامی دہشت گردی امریکی بالادستی کے ماتحت ورلڈ آرڈر میں ایک عملی کردار ادا کرتی ہے۔ دہشت گرد اسامہ صدر بش کی ضرورت ہے۔ بن لادن نہ رہے، تو بش کے پاس پوری دنیا میں کوئی مستقل ہدف نہیں رہے گا اور اس طرح نئے امریکی غلبے (New Pax Americana) کے لیے جواز ختم ہوجاتا ہے۔ (ص ۱۷)
دہشت گردی کو فروغ دینے اور اسے اپنے سیاسی پروگرام میں ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے میں امریکا کا اپنا کردار بہت زیادہ داغ دار ہے اور اس تاریخی روایت کی روشنی میں دہشت گردی کے باب میں امریکا کے حالیہ جوش و خروش کو سنجیدگی سے لینا محال ہے۔ ڈاکٹر احمد کا یہ تبصرہ لائق توجہ ہے کہ:
مشرق وسطیٰ کے کلیدی گرم محاذ عراق کے ہمارے تفصیلی تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی پالیسی نے اسٹرے ٹیجک حکومتوں کے کنٹرول اور توانائی کے کلیدی وسائل پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ان بنیادی انسانی اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے جن کی وہ علَم بردار ہے۔ یہ امر بہت اہم ہے کہ اس عمل میں مغربی پالیسی ریاستی دہشت گردی میں باقاعدہ ملوث رہنے کی رہی ہے، دونوں طرح سے، بالواسطہ طور پر ان حکومتوں کو جو دہشت گردی کی مرتکب تھیں اسپانسر کرکے اور بلاواسطہ طور پر ایسے فوجی آپریشن کرکے جو دہشت گردی پر مبنی تھے۔ اس سے بنیادی طور پر نائن الیون کے نتیجے کے طور پر جاری دہشت گردی کے خلاف نئی جنگ کے درست ہونے کا تصور بلاشبہہ ختم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ میں مغربی پالیسی کی بنیاد میں یہ بات شامل ہے کہ تنازعات کو پیدا کیا جائے اور/یا بڑھایا جائے تاکہ مغربی مفادات سے ہم آہنگی ہو۔ یہ استعماری دور کی روایتی لڑائو اور حکومت کرو پالیسی کی یاد دلاتا ہے۔ (ص ۲۴۳)
امریکی پالیسی کے مقاصد بہت واضح ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک عنوان اور نعرہ ہے۔ اصل مقصد امریکا کی بالادستی، مسلمان اور دوسرے ممالک میں اپنی مفید مطلب حکومتوں کا قیام، تیل اور دوسرے وسائل پر قبضہ اور ان کا اپنے مفادات کے لیے استعمال، اسرائیل کا تحفظ اور اسے مشرق اوسط میں کھل کھیلنے کے مواقع کی فراہمی اور اس کی جارحانہ سرگرمیوں کی سرپرستی اور حفاظت، احیاے اسلام کی تحریکوں کا راستہ روکنا اور اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں اسلام کو حکمران قوت بنانے سے روکنا اور اپنی سیاسی، معاشی، نظریاتی، عسکری، ثقافتی اور ذہنی غلامی میں جکڑنا ہے۔
افغانستان میں امریکا اور اس کی حلیف قوتوں کا اصل مقصد مغربی استعمار کے ان ہی اہداف کا حصول ہے، اور پرویز مشرف کا امریکا کو اس کی جنگ میں پاکستان کا تعاون فراہم کرنا اور پاکستان کی سرحدات کو امریکی جولانیوں کے لیے کھول دینا پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات سے متصادم اور امریکا کے مفادات کی خدمت رہا ہے۔ پاکستانی عوام امریکا اور مشرف کے اس کھیل پر مضطرب، سرگرداں اور متفکر رہے ہیں۔ اپنی مخالفت کا اظہار ہر میدان میں کرتے رہے ہیں اور پورے خطے میں تصادم اور خون خرابے کے اضافے کاسبب بھی مشرف حکومت کی یہی پالیسی رہی ہے۔ گیلپ، World Public Opinion Survey، The Pew Global Attitudes Projectاور خود امریکی اداروں کے زیراہتمام کیے جانے والے IRI Index ،تمام سروے راے عامہ کی مخالفت کی گواہی دیتے ہیں۔ گیلپ کے ان تمام جائزوں کے تجزیے پر مبنی کتاب Who Speaks for Islam? What A Billion Muslims Realy Think حال ہی میں گیلپ پریس نے شائع کی ہے۔ جو سروے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء تک کیے گئے ہیں، ان کا تجزیہ مشہور امریکی محقق جان ایسپوزیٹو نے کیا ہے۔ ان جائزوں کی روشنی میں مسلمان اپنے دین پر ایمان اور اعتماد رکھتے ہیں۔ وہ اپنی اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اورمنظم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں، بلکہ جو بھی احتجاج امریکا کے خلاف ہو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ امریکا کی خارجہ پالیسیاں ہیں۔
Pew (پیو) کے گلوبل سروے کے مطابق جو جون ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا تھا اور جس میں ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے سروے کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا، اس کے مطابق پوری دنیا میں اور خصوصیت سے پاکستان میں امریکا کی مقبولیت کا گراف برابر گر رہا ہے۔ ۷۰ فی صد سے زیادہ پاکستانی عوام امریکا کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ان کا خیال تھا کہ امریکا کی اس جنگ نے دنیا کو زیادہ خطرناک جگہ بنا دیا ہے۔
اسی طرح World Public Opinion Surveyکے سروے کی روشنی میں پاکستانی عوام کے ۹۰ فی صد کی خواہش ہے کہ ان کی اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو، جب کہ آبادی کے ۴۶ فی صد کی راے یہ تھی کہ اس وقت زندگی کے اجتماعی معاملات اسلام کے مطابق نہیں چلائے جا رہے۔ سیکورٹی اور معیشت کے معاملات میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں ۴۴ فی صد کا خیال تھا کہ اس کا فائدہ صرف امریکا کو پہنچ رہا ہے، جب کہ ۹فی صد کا خیال تھا کہ یہ پاکستان کے لیے مفید رہی ہیں۔ ۲۹ فی صد نے کہا کہ یہ پاکستان کے مفادات پر ضرب لگارہی ہیں۔ ۷۲ فی صد عوام کی راے یہ تھی کہ ایشیا میں امریکا کی عسکری موجودگی پاکستان کے لیے خطرہ ہے، ایک فیصلہ کن خطرہ (critical threat ) ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد نے اسے خطرہ قرار دیا اور صرف ۶ فی صد کی راے میں اس سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں پاکستانیوں کی تشویش اور بھی سوا ہے۔ ۶۸ فی صد کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ کن خطرہ ہے۔ اسامہ بن لادن کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ اسامہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہو اور حکومت کو اس کا صحیح پتا بھی چل جائے تو کیا پاکستان کو اسامہ بن لادن کو گرفتار کر لینا چاہیے۔ ۳۹ فی صد نے کہا کہ نہیں کرنا چاہیے، جب کہ۲۴ فی صد نے اسے گرفتار کرنے کے حق میں راے دی۔
سب سے اہم سوال یہ تھا کہ امریکا کے عالمی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کی کیا راے ہے کہ امریکا کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ ۵۳ فی صد نے کہا: عیسائیت کا فروغ ان کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ تیل کے ذخائر پر قبضے کے باب میں ۷۸ فی صد کا خیال تھاکہ یہ ایک واضح ہدف ہے۔ لیکن سب سے چشم کشا جواب اس سوال کا تھا کہ کیا امریکا اسلامی دنیا کو تقسیم اور کمزور کرنا چاہتا ہے تو ۸۶ فی صد کا خیال تھا کہ ہاں، یہ امریکا کا ایک واضح ہدف ہے۔
اب ایک نظر اس سروے پر بھی ڈال لی جائے جو امریکا نے پاکستان میں انتخاب سے چند ہفتے قبل (۱۹-۲۹ جنوری ۲۰۰۸ئ) کروایا ہے اور جو IRI index کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس سروے کی رو سے ۸۴ فی صد آبادی کی راے میں مشرف کی قیادت میں پاکستان جس رخ پر جارہا ہے وہ غلط ہے۔ پاکستانیوں کی نگاہ میں دہشت گردی سب سے اہم مسئلہ نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ افراطِ زر کا ہے جسے ۵۵ فی صد نے نمبر ایک پر رکھا ہے۔ بے روزگاری کو ۱۵ فی صد سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم مسئلہ قرار دیا ہے لیکن عوام کی راے کاصحیح اندازہ دو دوسرے سوالوں کے جواب سے کیا جاسکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ صوبہ سرحد اور فاٹا میں انتہاپسندی کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں ہیں تو ۶۴ فی صد نے اس کی مخالفت کی اورجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو امریکا سے دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ میں تعاون کرنا چاہیے تو ۸۹ فی صد نے عدمِ تعاون اور مخالفت کو اپنی ترجیح قراردیا۔
یہ ہے عوام کی اصل سوچ___ اور اسی کا اظہار ۱۸ فروری کے انتخابات میں ہوا۔ اس کا تقاضاہے کہ نومنتخب حکومت اور پارلیمنٹ مشرف کی بنائی ہوئی پالیسی کوجلد از جلد تبدیل کرے اور عوام کی خواہش اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں فوجی آپریشن کو ختم کرکے مذاکرات اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سلجھائے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ایک مناسب منصوبے کے تحت دست کش ہو، افغانستان میں مکمل عدمِ مداخلت کی روش اختیار کرے اور امریکا اور مغربی اقوام کو اس زمینی حقیقت کو پڑھ لینے کی ترغیب دے کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو کی فوجوں کی موجودگی فساد کا اصل سبب ہیں۔ ان افواج کو افغان عوام قابض افواج شمار کرتے ہیں اور ان کا کردار بھی قابض طاقتوں ہی جیسا ہے۔یہ انتظام اور یہ حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ افغانستان میں بھی ناکام ہے اور عراق میں بھی۔ اسے جاری رکھنے کا نتیجہ مزید خون خرابے کے سوا کچھ نہیں۔ عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ اس پالیسی کو بتدیل کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جائے اور اس کا آغاز پاکستان کی شرکت اور صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں امریکا کی جنگ کے سپاہی کاکردار ختم کر کے امن و امان کے قیام کا امکان پیدا کیا جائے اور اور فوج اور عوام کی یک جہتی کے ماڈل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔
پرویز مشرف کی پالیسی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تواس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان قریب آنے کے بجاے عملاً ایک دوسرے سے دُور ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سرحدات کی امریکی خلاف ورزیاں بڑھی ہیں اور ہمارے معاملات میں ان کی مداخلت اس حد تک پہنچ گئی ہے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت کے لیے خطرہ اور قومی عزت و وقار کے منافی ہے۔ فوج اور قوم میں صرف دُوری ہی نہیں ہوئی، بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ۱۲۰۰ سے زیادہ فوجی اپنی جان گنوا چکے ہیں اور ۳ ہزار کے قریب سویلین موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، کوئی علاقہ محفوظ نہیں۔ محسود قبائل کے علاقے کے بارے میں امن و امان کے قیام کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وہاں پہلی مرتبہ پاکستانی صحافیوں کو لے جایا گیا ہے اور ان کی رپورٹ یہ ہے کہ فوج کی چوکیاں تو وہاں ہیں مگرمحسودعلاقے میں وہ کسی محسود باشندے کو نہیں دیکھ سکے۔ پورا علاقہ انسانوں سے خالی ہے اور ایک بھوتوں کے مسکن کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ایسا امن قبرستان کا امن تو کہا جاسکتا ہے، انسانی بستیوں کا امن اسے نہیں کہا جاسکتا۔
پھر جس معاشی امداد کا چرچاہے بلکہ امریکی اس کے نام پر چرکے لگا رہے ہیں، اس کا حال یہ ہے کہ خود امریکی حکام کے بقول: اس کا ۳۰ فی صد امریکا کے مشیروں (consultants) پر صَرف ہوا ہے اور ۷۰ فی صد پاکستان پہنچا ہے۔ پھر یہاں اس کا فائدہ کس نے اٹھایا ہے اور عوام کے حصے میں کیا آیا ہے؟ اس کا تذکرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ البتہ جس ۱۱ ارب ڈالر کی امداد کا دعویٰ ہے، اس میں سے ۶ ارب ڈالر توفوجی خدمات کا معاوضہ ہے، کوئی مدد نہیں ہے۔ صرف ۵ارب ڈالر سات سال میں مدد کی مد میں آئے ہیں لیکن پہلے چار سال میں جو معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے اور جس کا اعتراف خود امریکی فوج کے مرکز (centcom) نے کیا ہے، وہ ۱۰ ارب ڈالر ہے۔ اگر باقی تین سال کے بارے میں بھی اندازہ کیا جائے تو قرین عقل یہ ہے کہ یہ نقصان ۱۵ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر نفع نقصان کا میزانیہ بنایا جائے تو بات خواہ ملک کی آزادی اور حاکمیت کی ہو، عزت اور وقار کی ہو، جانی اور مالی نقصان کی ہو، حکومت اور عوام اور فوج اور قوم کے درمیان تعلقات کی ہو___ یہ ایک خسارے اور صرف خسارے کا سودا رہا ہے جس کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔ پاکستانی عوام تو پہلے دن سے اس پر چیخ رہے ہیں۔ Counter Punch کے تازہ شمارے میں ایک امریکی دانش ور رچرڈ ڈبلیو بی ہان لکھتا ہے:
دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک فراڈ ہے، محض ایک لیبل جو ایک ایسی انتظامیہ کی جعل سازی اور ڈھنڈورا پیٹنے کے مترادف ہے جو اپنی ’مستند‘ بددیانتی کے لیے معروف ہے۔ یہ لیبل بش انتظامیہ کے بلااشتعال فوجی حملوں کے جرائم کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ افغانستان اور عراق کی دو خودمختار مملکتوں پر جو حملے ہوئے وہ بش انتظامیہ اقتدار میں آنے کے پہلے ہی دن سے کرنا چاہتی تھی۔
یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ آج افغانستان اور عراق مقبوضہ ممالک ہیں جن کا انتظام کٹھ پتلی حکومتیں کر رہی ہیں اور جو فوجی چھائونیوں کی بنیاد پر اپنا کام، یعنی توانائی کے اثاثوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ یہ بش انتظامیہ کی جنگی کارروائی کا ضمنی نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا مقصد تھا… دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک تصدیق شدہ دھوکا (certified fraud) ہے۔ (دی نیشن، ۱۱ مئی ۲۰۰۸ئ)
اس جنگ میں پاکستان کے کردار کا حاصل کیا ہے؟ یہ بھی کرسچین سائنس مانیٹر کے نمایندے گورڈن لوبالڈ کے تازہ ترین مراسلے میں دیکھ لیجیے:
پاکستان میں انتہاپسندوں کے خلاف فوجی حملوں کو بش انتظامیہ مرکزی اہمیت دے رہی ہے۔ اس پر تجزیہ نگار تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکا ایک ناکام پالیسی پر اپنے ایک اہم حلیف سے ایک ایسے وقت میں اصرار کر رہا ہے، جب کہ خطے میں بدلتے ہوئے حالات، یعنی پاکستان میں ایک نئی منتخب حکومت اور افغانستان میں محاذ آرائی میں اضافہ، حکمت عملی میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ (دی نیشن، ۱۳ مئی ۲۰۰۸ئ)
اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کو سابقہ پالیسی جاری رکھنے پر مجبور کر رہا ہے جب کہ سب دیکھ رہے ہیں کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوجی حل کی حکمت عملی کو ترک کر کے زمینی حقائق، عوامی خواہشات، اور پاکستان کے اپنے مفادات اور مقاصد و ترجیحات کی روشنی میں سیاسی حل نکالا جائے اور خطے کو مزید عدمِ استحکام سے بچایا جائے۔
اس وقت جو جنگ قبائلی علاقوں میں ہورہی ہے اور جس سے صوبہ سرحد اور ملک کے دوسرے علاقے بھی متاثر ہو رہے ہیں، وہ نہ پاکستان کی جنگ ہے اور نہ اُمت ِمسلمہ کے مفادات کی جنگ۔ یہ صرف امریکا کے استعماری عزائم کے حصول کی جنگ۔ یہ جو خود امریکا کے عوام کے مفاد میں بھی نہیں اور اس کی وجہ سے آج امریکا کے خلاف نفرت کا لاوا ساری دنیا میں پھٹ رہا ہے اور بے چینی، بے اطمینانی اور مخالفت کی لہریں بلند تر ہورہی ہیں۔ امریکا میں عوام کی بڑی تعداد اس جنگ سے بے زار ہے اور امریکی معیشت اس کے بوجھ کو مزید برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دنیا بھر میں امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے علَم بردار کی حیثیت سے نہیں، ایک غاصب اور استعماری قوت کی حیثیت سے پہچانا جا رہا ہے اور یہ کوئی اچھی پہچان نہیں۔ امریکا کو دنیا کا امن تہہ و بالا کرنے کا ذمہ دار گردانا جا رہا ہے اور دنیا آج نائن الیون کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور غیرمستحکم ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادتیں اپنی آنکھیں کھولیں اور ہوش کے ناخن لیں۔ اور اگر امریکا تباہی کے راستے پر چلنے کے لیے مصر ہے تو ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ دن کی طرح روشن حقائق کو بھی دیکھنے کو تیار نہیں، عوام کی آواز کو سننے کے لیے ان کے کان بند ہیں اور وہ تبدیلی کی جگہ تسلسل کی پُرفریب وادیوں میں گم نظر آتے ہیں۔ قوم صاف الفاظ میں تبدیلی کا مطالبہ کررہی ہے۔ قوم کی راے میں دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان، پاکستانی قوم اوراُمت مسلمہ کی جنگ نہیں___ یہ امریکا کی استعماری جنگ ہے اور اس میں آلۂ کار بنے رہنا ایک اخلاقی، سیاسی اور نظریاتی جرم ہے۔ جتنی جلد اس جنگ سے ہم نکل آئیں اتنا بہتر ہے۔
ہم یہ بھی کہہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ تو نوشتۂ دیوار ہے کہ یہ جنگ ناکام ہے اور فساد اور بگاڑ کو بڑھانے کے سوا اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اسے ختم ہونا ہی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کتنی تباہی کے بعد اس آگ سے نکلتے ہیں؟ اب بھی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ہماری دعوت ہے کہ اس ملک کی سیاسی قیادت اب بھی عقل و دانش کا راستہ اختیار کرے اور امریکا کی اس جنگ سے نکلنے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے حصول کے لیے اپنی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا بہترین استعمال کرے۔ ارباب اقتدار کو جاننا چاہیے کہ ایک بے عقل کو بھی بالآخر وہی کرنا پڑتا ہے جس کا مشورہ اصحاب دانش و بینش پہلے قدم ہی پر دے رہے ہوتے ہیں لیکن بے عقل اس فیصلے پر بڑی خرابی اور تباہی کے بعد پہنچتے ہیں ؎
آں کہ دانا کند ، کند ناداں
لیک بعد از خرابیِ بسیار
صدر جارج بش کی حکومت خود اپنے ملک میں اور بین الاقوامی میدان میں سخت مشکلات کا شکار ہے اور کسی ایسے اقدام کے لیے بے چین ہے جس سے پے در پے شکستوں اور ہزیمتوں کے بعد کسی نوعیت کی سرخ روئی کا دعویٰ کیا جاسکے۔ عراق کی جنگ کے پانچ سال کے جتنے بھی جائزے آئے ہیں، وہ بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جنگ غلط دعوئوں اور جھوٹ پر مبنی رپورٹوں کے سہارے سے شروع کی گئی۔ یہ جانتے ہوئے کہ عراق کے پاس عمومی تباہی کے مہلک ہتھیار نہیں ہیں، ان معدوم ہتھیاروں اور ان کے مغربی دنیا کو خیالی خطرات کے نام پر فوج کشی کی گئی۔ صدام کے دور میں نہ صرف عراق میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں تھا ،بلکہ عراق اور القاعدہ کا کسی سطح پر بھی کوئی رابطہ نہیں تھا، مگر القاعدہ کو بھی نشانہ بنانے کے لیے عراق پر حملہ کیا گیا اور عراق ہی نہیں پوری عرب دنیا میں القاعدہ کے ظہور اور سرگرمیوں کے لیے جواز فراہم کیا گیا۔ عراق کی جنگ میں ۳ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، اس سے ۱۰ گنا زیادہ زخمی ہوئے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی عراق کی جنگ میں کچھ کردار ادا کرنے کے باعث ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں جس سے پوری امریکی فوج کا ذہنی اور اخلاقی توازن درہم برہم ہے۔ مالی اعتبار سے ۶۵۰ ارب ڈالر کے بلاواسطہ مصارف کے علاوہ جو بوجھ امریکی معیشت پر پڑا ہے، اس کا اندازہ چوٹی کے امریکی معاشی ماہرین کے خیال میں ۲ٹریلین (۲ ہزار ارب) ڈالر سے زیادہ ہے اور باقی دنیا کی معیشت پر اس کے علاوہ کم از کم ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر کا بوجھ پڑا ہے۔
اس وقت جب دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ (۵ئ۱ ارب افراد) غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، امریکا نے صرف اپنے شوقِ جہاںبانی اور اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے ہزاروں بلین ڈالر جنگ کی آگ میں جھونک دیے ہیں، اور اب عراق کی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور توجہ کو دوسری طرف مبذول کرانے کے لیے افغانستان، ایران اور خصوصیت سے پاکستان اور اس کے شمالی علاقوں کو اپنی ترک تازیوں کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس سلسلے میں نئی جارحانہ محاذ آرائی روزافزوں ہے۔ اس کا آغاز گذشتہ سال ہی ہوگیاتھا اور پرویز مشرف کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھا کر امریکا نے شمالی علاقہ جات میں بے دردی سے بلاواسطہ کارروائیوں کا سلسلہ تیز کیا۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ دو سال میں ۳۶ بار امریکی فوجی کارروائیوں کے ذریعے ہماری سرزمین کو ہماری آزادی اور حاکمیت کا مذاق اڑاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سیکڑوں افراد بشمول معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین شہید ہوئے ہیں۔ ان میں سے ۱۰ حملے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء اور ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے درمیان ہوئے ہیں جس سے پرویز مشرف اور امریکی قیادت کے گٹھ جوڑ اور آیندہ کے لیے پرویزمشرف کے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار پر باقی رکھنے کی خواہش کے محرکات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت پرویز مشرف اور ان کی پالیسیوں سے برأت کا مسلسل اظہار کر رہی ہے۔ راے عامہ کے تمام ہی جائزے بتا رہے تھے کہ ۸۰ فی صد عوام ان سے نجات کے خواہاں ہیں اور یہی چیز ۱۸ فروری کے انتخابات میں ثابت ہوگئی۔ پرویز مشرف کی طرح امریکی قیادت بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ۲۰۰۷ء کی بدلتی ہوئی فضا کے پیش نظر اس نے ملک کی دوسری سیاسی قوتوں سے جوڑ توڑ کا آغاز کردیا تھا، مگر یہ نقشہ آسمانی فیصلوں کے ذریعے درہم برہم ہوگیا۔ ۱۸ فروری کے بعد سے امریکا پر ایک گونہ گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہے، اور اس کی پوری مشینری، صدربش سے لے کر اس کے مقامی سفارت کاروں تک بشمول دانش وروں اور صحافیوں کی فوج ظفرموج، نئی حکمت عملی کے لیے فضا ہموار کر کے اور نومنتخب قیادت کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے سرگرم ہیں۔ پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیف ابھی تک امریکی حکمت عملی میں کلیدی مقام رکھتے ہیں لیکن اس وقت ساری کوشش پیپلزپارٹی کی قیادت کو اپنا ہم نوا بنانے میں صرف ہورہی ہے۔ اس کے شریک چیرپرسن جناب آصف علی زرداری نئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور نئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی خصوصی نشانہ ہیں۔ فوج کے سربراہ اور اعلیٰ قیادت بھی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
اوّلاً، پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد جنگ میں حسب سابق آلۂ کار بنائے رکھنے کے لیے سفارتی دبائو اور معاشی لالچ کے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ مخلوط حکومت نے چونکہ محض عسکری قوت سے سیاسی مسائل کے حل کے بارے میں اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا اس لیے واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ انتخابات کے فوراً بعد سفارت کاروں کی ایک فوج حملہ آور ہے اور پاکستان میں امریکی سفارت کاربھی سیاسی کارکنوں کی طرح متحرک ہیں۔ ایک طرف پرویز مشرف کو کسی نہ کسی حیثیت سے برسرِاقتدار رکھنے اور ایم کیو ایم کو اقتدار میں شریک بنانے کی ہمہ جہتی کوشش ہے تو دوسری طرف نئی حکومت کو امریکی تائید کی لالی پوپ دینے کے لیے کونڈولیزارائس نے کمال شفقت سے فوج کو سیاسی قیادت کے تحت کارفرما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے (The need for Pakistan's military to be placed under civilian control)اور امریکی سینیٹرز اور سفارت کاروں نے معاشی اور فنی امداد میں تین گنا اضافے کی بات کی ہے۔ کانگرس نے اگلے پانچ سال کے لیے ۷ ارب ڈالر کی امداد کے پیکج کا دلاسہ دیا ہے۔ لیکن گاجرمولی والی اس سیاست کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھی والی بات کا بھی بھرپور اظہار کیا جا رہا ہے جو اس حکمت عملی کا دوسرا اور زیادہ خوف ناک ستون ہے۔
تمام شواہد اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف نے تمام قومی مفادات اور عزت و آبرو کو پس پشت ڈال کر محض اپنی کرسی کو بچانے کے لیے امریکا کو یہ عندیہ دے دیا تھا کہ امریکا اور ناٹو کی افواج جب چاہیں پاکستان کی سرزمین پر اقدام کرسکتے ہیں۔ الیکشن کے بعد اس کھلی چھٹی کا راز فاش ہوگیا اور قوم کا مزاج بالکل سب کے سامنے ہے کہ یہ ناقابلِ برداشت ہے۔ نیز امریکا اور مشرف کی عسکری قوت سے سیاسی مسئلے کو حل کرنے کی حکمت عملی کو بھی عوام نے صاف طور پر رد کر دیا ہے اور نومنتخب حکومت کے سب ہی عناصر سیاسی عمل اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو نمٹانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ سب امریکا کے لیے ایک بڑی شکست اور بش کی خارجہ پالیسی کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفارتی دبائو اور معاشی لالچ کے ساتھ امریکا کی پوری قیادت پاکستان کو آنکھیں دکھانے اور اپنی مرضی سے پاکستان کی سرزمین پر فوج کشی کرنے کی دھمکیاں دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ نئی حکومت کو اس سفارتی دہشت گردی (diplomatic terrorism) کے ذریعے اسی طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکیں جس طرح نائن الیون کے بعد اس وقت کے مطلق العنان حکمران جنرل پرویز مشرف کو کیا تھا۔
اس یلغار کا ایک اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایڈمرل مائک مولین (Mike Mullen) نے جو امریکا کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہیں، فرمایا ہے کہ عراق میں مصروف ہونے کے باوجود ہمیں دوسرے خطرات سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں خصوصی نظر پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر رکھنا ضروری ہے جہاں سے خطرات کے پیغام پھوٹ رہے ہیں:
اگر مجھے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑے جہاں سے اگلا حملہ ہونے والاہے تو یہ وہ جگہ ہے جسے میں یقینا منتخب کروں گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں القاعدہ ہے، جہاں ان کی قیادت ہے اور ہمیں اس چیلنج کو ختم کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
القاعدہ قبائلی علاقے میں دوبارہ مجتمع ہوگئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکا پر کسی دوسرے حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ایک اور جاسوسی ایجنسی ایف بی آئی کے ڈائرکٹر روبرٹ موئیلر (Robert Meuller) کا ارشاد گرامی ہے کہ القاعدہ کے کارندے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور ’’وہ راتوں رات خاموشی سے غائب نہیں ہوجائیں گے‘‘۔
اس کورس میں جس بات کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے، وہ یہ ہے کہ نائن الیون کے حملے کی منصوبہ بندی عراق میں نہیں ہوئی تھی، بلکہ افغانستان میں ہوئی تھی۔ پانچ سال تک عراق کو تاراج کرنے کے بعد اب یہ راگ الاپا جا رہا ہے کہ اصل خطرہ تو افغانستان اور پاکستان سے ہے اور ہم ناحق عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن سے ایک اہم رپورٹ کے مطابق :
گذشتہ ۱۰ دنوں میں خطرے کے نئے احساس، یعنی فاٹا میں القاعدہ قائدین کا دوسرے نائن الیون کا منصوبہ بنانے پر واشنگٹن میں درجنوں اجتماعات میں گفتگو ہوچکی ہے۔ (ڈان، ۲۱ اپریل ۲۰۰۸)
اس بحث و مباحثے کی انتہا خود صدر جارج بش کا وہ بیان ہے جو انھوں نے اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا ہے:
افغانستان اور عراق نہیں، بلکہ پاکستان وہ جگہ ہے جہاں سے امریکا پر نائن الیون جیسا دوسرا حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے۔
پاک افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقے آج کل دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں القاعدہ نے اپنے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کرلی ہیں، اور امریکا پر حملہ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
جب اے بی سی کے نمایندے نے یہ سوال کیا کہ: If there was another 9/11 plot being hatched, it was probably hatched in Afghanistan and Pakistan and not in Iraq۔ بش کا جواب تھا:I would say not in Afghanistan, I would say in........جس پر سوال کرنے والے نے لقمہ دیا: Pakistan? اور صدر بش نے مہرتصدیق لگاتے ہوئے فرمایا: Yes, probably true ___اور ساتھ ہی فرمایا کہ اسی وجہ سے ضروری ہے امریکا میں FISA Law جیسے قوانین موجود رہیں جس کے ذریعے ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور ان کو ریکارڈ کرنے کا حق حکومت کی ایجنسیوں کو دیا گیا ہے۔(ڈان، ۱۳ اپریل ۲۰۰۸ئ)
یہ ساری دھمکیاں اس لیے دی جارہی ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت کو دھمکا کر اسی طرح مطیع فرمان بنا لیا جائے، جیسے نائن الیون کے بعد پرویز مشرف کو کیا گیا تھا اور جو عملاً امریکا کے یرغمال کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔
آج پاکستان کی موجودہ قیادت کو ستمبر ۲۰۰۱ء ہی جیسے چیلنج سے سابقہ ہے، گو الفاظ اور اندازِ کار میں تھوڑا سا فرق ہے لیکن اصل فرق یہ ہے کہ پاکستانی عوام پرویز مشرف کی سات سالہ ناکام پالیسی کا پورا شعور رکھتے ہیں اور ۱۸ فروری کے انتخابات میں اپنے اس عزم کا بھرپور اظہار کرچکے ہیں اور اب امریکا کے تابع مہمل بن کر امریکا کی اس لڑائی میں کرایے کے سپاہی کا کردار ہرگز برداشت نہیں کریںگے۔ اس ناکام پالیسی کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں اور عوام نئی قیادت کو جس طرح عدلیہ کی بحالی کے معاملے میں پیچھے نہیں ہٹنے دیں گے، اسی طرح امریکا کی اس جنگ میں پاکستان اور اس کی افواج کے کردار کے بارے میں بھی ماضی کی پالیسی کو کسی نئی شکل میں جاری رکھنے، اور نئی زندگی دینے کی اجازت بھی ہرگز نہیں دیں گے۔
امریکا افغانستان، عراق اور پوری دنیا میں یہ جنگ ہارچکا ہے اور محض قوت اور دولت کے سہارے اسے جاری رکھنا ممکن نہیں۔ خود امریکا کے عوام کے ۸۰ فی صد اب صدربش کی پالیسیوں سے اختلاف کا اظہار کر رہے ہیں، اور نصف سے زیادہ صاف کہہ رہے ہیں کہ عراق اور افغانستان میں امریکا کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس کے عوام اور دانش ور اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا کی اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں جو کچھ حاصل ہوا ہے، وہ یہ ہے:
۱- پاکستان اپنی آزادی، حاکمیت اور اپنی سرحدوں کو پار نہ کیے جانے کے باب میں سخت زخم خوردہ ہے۔ قومی عزت اور حمیت پر ضرب کاری لگی ہے اور عوام اپنی آزادی اور حاکمیت کی مکمل بحالی چاہتے ہیں۔
۲- ملک کی مغربی سرحد جو ہمیشہ سے محفوظ ترین سرحد تھی، اپنی وہ حیثیت کھو چکی ہے اور اب فوج کا ایک معتدبہ حصہ اس سرحد پر تعینات ہے جس کے نتیجے میں کشمیر اور بھارت دونوںکے محاذ پر کمزوری آئی ہے۔
۳- ملک میں عدم تحفظ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی فوج پاکستان کے شہریوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور فوج اور عوام دونوں اس کی بھاری قیمت اداکر رہے ہیں۔ ۹۰ہزار فوجی قبائلی علاقوں میں برسرِپیکار ہیں اور گذشتہ تین سال میں ۱۲۰۰ سے زائد فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح جنھیں دہشت گرد کہا جا رہا ہے ان کا جانی نقصان بھی اس سے کسی طرح کم نہیں۔ نیز ۳ہزار سے زیادہ عام شہری جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں، لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ پورے علاقے میں انتشار، افراتفری اور خون خرابہ ہے۔ آبادی کے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے اور بے یقینی اور عدم تحفظ کا دور دورہ ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان جو اعتماد، محبت اور تعاون کا رشتہ تھا، وہ ٹوٹ گیا ہے اور فوج اورحکومت کے اداروں پر حملے روز افزوں ہیں۔ پورے ملک میں بدامنی اور تشدد کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جو سول سوسائٹی اور مستحکم جمہوری نظام کے لیے بڑا خطرہ ہے، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ملک مزید عدم استحکام کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔
۴- پاکستان کو نائن الیون کے بعد امریکا کے حواری بننے کی بڑی بھاری معاشی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکا تو یہی طعنہ دیتا ہے کہ ہم نے ۱۱ ارب ڈالر کی امداد دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں سے ۶ ارب ڈالر فوجی خدمات کے معاوضے میں دی گئی ہیں اور اصل معاشی امداد جس کا ایک حصہ قرض کی شکل میں ہے صرف ۵ ارب ہے، جب کہ پاکستان کو ملک اور بیرونی محاذ پر جو معاشی نقصان اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ہوا ہے، اس کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ ۲۰۰۶ء میں صرف پانچ سال کی بنیاد پر خود امریکا کی نارتھ کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ نقصان ۱۰ سے ۱۲ ارب ڈالر قرار دیا گیا تھا۔ آزاد ذرائع کے مطابق گذشتہ سات سال میں یہ نقصان ۱۲ سے ۱۵ ارب ڈالر کا ہے جس کی کوئی تلافی نہیں کی گئی اور نہ اس کا کوئی مطالبہ مشرف حکومت نے کیا، بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
۵- نیم غلامی کے اس دور کا ایک اہم نتیجہ جمہوریت کی پامالی، آمرانہ نظام کا استحکام، عدلیہ کی بربادی، بنیادی حقوق کی پامالی اور ملک کو نظریاتی انتشار اور قدیم و جدید اور انتہاپسند اور روشن خیالی کی کش مکش میں جھونک دینا ہے۔
ان سارے نتائج کو بھگتنے کے بعد قوم بیدار ہوچکی ہے اور عوام، وکلا، طلبہ اور سول سوسائٹی نے ماضی کی پالیسیوں کو ترک کر کے ایک حقیقی جمہوری انداز میں دستور اور قانون کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے اور ملک کی آزادی، عزت اور تہذیبی شناخت کے مطابق نئی پالیسیوں کی تشکیل اور ان کی روشنی میں اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کا عزم کیا ہے۔ ان حالات میں امریکا کی سفارتی یلغار اور فوجی اقدام کی دھمکیوں کے اصل مقصد اور اہداف کو سمجھنا، اور ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ امریکا دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ ہار چکا ہے اور اس وقت دنیا کے کسی بھی حصے میںاس کی پالیسی کی تائید موجود نہیں۔ امریکا نے معاشی اعتبار سے بھی ایک بھاری قیمت ادا کی ہے، اور گذشتہ ایک سال میں بقول اکانومسٹ چار بحرانوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ہے، یعنی:
تعمیر مکانات میں مندی، قرضوں کا کمرتوڑ بوجھ، غذائی اشیا اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ایک کمزور ہوتی ہوئی لیبرمارکیٹ۔ مارچ میں بے روزگاری کی شرح ۱ئ۵ فی صد تک بڑھ گئی، جب کہ نجی شعبے میں مسلسل چار مہینوں تک ملازمتوں میں کمی واقعی ہوئی۔ (دی اکانومسٹ، لندن،۱۲ اپریل ۲۰۰۸ئ)
ان حالات میں امریکا کی دھونس میں آکر کسی ایسی پالیسی سے بچنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس کے نتیجے میں مندرجہ بالا پانچوں نقصانات ہمارا تعاقب کرتے رہیں گے۔ خارجہ پالیسی پر بنیادی نظرثانی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے باعزت بے تعلقی ہمارے ملک میں استحکام، قومی مفاہمت، جمہوری استحکام اور دستور اور قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کی ریشہ دوانیوں سے بھی نمٹنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ امریکا ایک طرف نئی حکومت کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے کردار کو جاری رکھنے کے لیے بھی ہرممکن کوشش کر رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ دو کشتیوں میںسواری ایک فعلِ عبث ہے۔ اسے یکسو ہوکر جمہوریت اور عوام کے مینڈیٹ کے مطابق پالیسی سازی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی میں ملک و ملّت کی فلاح ہے اور یہی خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بہترین مفاد میں ہے۔ امریکا کی حالیہ دھمکیوں، سفارتی ترک تازیوں اور معاشی امداد کی گنڈیریوں کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ:
مشتری ہوشیار باش!