اکتوبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

کشمیر پکار رہا ہے

پروفیسر خورشید احمد | اکتوبر ۲۰۰۸ | مقالہ خصوصی

Responsive image Responsive image

وادیِ کشمیر میں بھارتی سامراجی تسلط کے خلاف احتجاج اور آزادی کی عوامی تحریک ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے۔

ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو اکتوبر ۱۹۴۷ء کی بھارتی فوج کشی سے لے کر آج تک کبھی قبول نہیں کیا۔ بلاشبہہ تحریکِ مزاحمت و آزادی ان ۶۱ برسوں میں مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی مگر کبھی دبی نہیں۔ کشمیری عوام نے بھارتی ظلم و تشدد کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی سپر نہیں ڈالی۔ مسلمانانِ جموں و کشمیر کی بھارت کے تسلط سے آزادی کی تحریک ۱۹۸۸ء کے انتخابی ڈھونگ کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ سیاسی جدوجہد کے ساتھ عوامی و عسکری ردعمل بھی رونما ہوا اور جس طرح عالمی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد نے ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی مجاہدانہ کوششیں کیں اور ان کو معتبر تسلیم کیا گیا حتیٰ کہ اس جدوجہد کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور عالمی مفکرین نے      عام دہشت گردی (terrorism) سے ممیزوممتاز قرار دیا اور اس طرح ایسی جدوجہد کو مجبور انسانوں کا حق تسلیم کیا۔ اسی بنیاد پر ۱۹۹۰ء سے جہادی تحریک نے بھارتی استعمار کو چیلنج کیا اور آج تک اس کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ پاکستان کی قیادت، خصوصیت سے پرویز مشرف کی بے وفائی اور اس تحریک اور اس کے مقاصد سے غداری کے باوجود ظلم کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی یہ تحریک جاری رہی ہے۔ البتہ اندرونی اور بیرونی دونوں اسباب سے گذشتہ چند برسوں میں تحریک میں ایک گونہ ٹھیرائو کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یہ تحریکِ آزادی کے لیے بڑا ہی نازک مرحلہ تھا۔ پرویزمشرف نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کے بعد آہستہ آہستہ کشمیر پالیسی کے باب میں بھی اُلٹی زقند (U-turn) لگائی اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے out of box حل کی رَٹ لگانا شروع کی جو دراصل پاکستان کی قومی کشمیرپالیسی سے انحراف اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے بے وفائی اور غداری کے مترادف تھا۔

خطرناک کہیل کا آغاز

ستمبر ۲۰۰۴ء میں مشرف اور من موہن سنگھ کی نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں اس خطرناک کھیل کا آغاز کیا اور پاکستان کی اس وقت کی فوجی قیادت نے تحریکِ آزادیِ کشمیر سے عملاً ہاتھ کھینچ لیا بلکہ حریت کانفرنس کو بانٹنے اور اپنا ہم خیال دھڑا بنانے کی مذموم کوشش بھی کی۔ مشرف کی من موہن سنگھ سے تین ملاقاتیں اسی زمانے میں ہوئیں، نیز بھارت کے قومی سلامتی کے    مشیر ایم کے نرائن اور مشرف کے معتمدعلیہ طارق عزیز کے درمیان بھی برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پس پردہ امریکا بڑی چالاکی سے اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ بظاہر سیاسی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو معمول پر لانے مگر درحقیقت کشمیر میں حالتِ موجودہ (status quo) کو تھوڑے بہت تغیر کے ساتھ برقرار رکھ کر اس مسئلے کی تحلیل (liquidation) کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ حریت کانفرنس کے ایک دھڑے نے بھارت کی قیادت سے مذاکرات بھی شروع کردیے۔ ادھر پاکستان میں بھارت نواز لابی نے صحافت، تجارت اور ثقافت کے نام پر تقسیم کی لکیر کو غیرمؤثر بنانے کا ’جہاد‘ شروع کردیا، اور جو حقیقی جہادی جدوجہد ہورہی تھی، اس کی پیٹھ میں مشرف اور اس کے حواریوں نے خنجر گھونپ دیا بلکہ سیاسی جدوجہد تک کا رخ بدلنے کی مذموم کوشش بھی کی۔ اب حق خودارادیت اور بھارت کے تسلط سے آزادی اصل ایشو نہ رہا بلکہ سیاسی ہدف محض راستے کھولنے، بسوں اور ریل گاڑیوں کے چلانے، فوجوں کی کمی، اقتدار میں کسی درجے کی شرکت اور مشترکہ مفادات کی نگرانی کے لیے کسی نظام کی شکل قرار پایا۔

جموں و کشمیر کے مسلمان جنھوں نے اعلیٰ مقاصد کے لیے ۱۹۳۱ء اور پھر ۱۹۴۷ء کے بعد سے قربانیاں دیں اور ۶ لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا، وہ ایسی لولی لنگڑی خودمختاری اور بھارت کے تسلط کو مزید مضبوط و مستحکم اور مستقل کرنے کے لیے نہیں تھے۔ لیکن مشرف کی حکومت نے پاکستان کے اصولی اور تاریخی موقف سے پسپائی اختیار کرکے تحریکِ مزاحمت کو شدید نقصان پہنچایا، جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بری طرح مایوس کیااور آزادی کی تحریک کو عین منجدھار میں   بے سہارا چھوڑ دیا۔ سارا کریڈٹ جموں و کشمیر کے مسلمانوں، وہاں کے نوجوانوں اور خصوصیت سے سیدعلی شاہ گیلانی اور شیخ عبدالعزیز شہید جیسے لوگوں کی فراست اور قیادت کو جاتا ہے جو نہ بھارت کے جھانسے میں آئے اور نہ پاکستانی قیادت کی بے وفائی کی بنا پر پاکستانی قوم سے مایوس ہوئے۔ سخت ترین حالات میں انھوں نے تحریکِ مزاحمت کو جاری رکھا اور صحیح موقع کا انتظار کرتے رہے___ یہی پیغام ان کو پاکستان کی تحریکِ اسلامی اور تحریکِ پاکستان کے مخلص کارکنوں نے دیا جو پرویز مشرف کی پالیسیوں کے سخت ترین ناقد تھے اور کشمیر میں عوام کو برابر تلقین کرتے رہے کہ وہ اپنی تاریخی جدوجہد کو جاری رکھیں اور نوبل انعام کا خواب دیکھنے والوں کی چال بازیوںاور فریب کاریوں کا شکار نہ ہوں۔ پرویز مشرف نے جو خیالی پُل بنائے تھے وہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور ہندوقیادت کی تاریخی دھوکے بازی کے ہاتھوں زمین بوس ہوئے۔ وہ جو بھارتی قیادت سے پینگیں بڑھانے میں پیش پیش تھے، ہاتھ ملتے رہ گئے اور واپس آنے کے راستے تلاش کرنے لگے۔ البتہ جو اصولی نقصان تحریک کو ہوا، وہ ناقابلِ انکار ہے اور اس کا فائدہ کشمیر کی اس قیادت نے اٹھانے کی کوشش کی جو بھارت نواز تھی اور گذشتہ ۶۱برسوں میں بھارت کے تمام ظلم و ستم اور شاطرانہ کھیل میں شریک تھی۔ پالیسی کی یہ تبدیلی ایک ایسا داغ ہے جسے دھونا پاکستان کے لیے مشکل ہوگا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ۲۰۰۸ء میں جولائی اور اگست میں رونما ہونے والے واقعات نے حالات کو ایک نیا رخ دے دیا ہے اور کشمیر کی جنگِ آزادی ایک نئے، تاریخی اور فیصلہ کن دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اس کا ادراک اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

نئے حالات کا ادراک

اس حکمت عملی کی تشکیل کے لیے مندرجہ ذیل چار اہم حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہے:

پہلی چیزپرویز مشرف کی لچک (flexibility) کے نام پر کشمیر کی تقسیم اور بھارت اور پاکستان کے کسی مشترک نگرانی کے نظام کی تجویز کی ناکامی ہے۔ یہ تجویز دھوکے اور دبائو پر مبنی تھی اور تاریخی حقائق اور پاکستان اور بھارت کے نظریاتی اور سیاسی اہداف سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس خام خیالی کا پردہ جلد ہی چاک ہوگیا۔ بھارت نے اس سلسلے میں ذرا لچک نہ دکھائی اور پاکستان کو اپنے اصولی موقف سے ہٹاکر تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑنے کا کھیل کھیلا۔ پاکستان کی پرویزی قیادت نے اپنا منہ کالا کیا، جن کشمیری قائدین کو اس کھیل میں استعمال کیا، ان کے چہروں پر بھی یہ کالک لگی، تاہم سرخرو ہوئے وہ لوگ جو بھارت کے تاریخی ذہن اور سیاسی مقاصد کا صحیح ادراک رکھتے تھے جنھوں نے پہلے ہی دن یہ کہہ دیا تھا کہ یہ دھوکا اور سراب ہے۔ سیدعلی شاہ گیلانی نے پرویز مشرف کو پہلے دن سے چیلنج کیا اور ۲۰۰۴ء سے آج تک اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور ’لچک‘ کے نام پر پسپائی کی اس حکمت عملی اور بھارت کے عزائم کی تکمیل میں معاونت کے خطرناک کھیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر ان کی پوزیشن صحیح ثابت ہوئی۔ یہی موقف شیخ عبدالعزیز شہید کا تھا جنھوں نے پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹنے اور روایت سے ہٹ کر      (out of box ) حل کی تلاش کے سلسلے میں صاف کہہ دیا تھا کہ ’’پرویز مشرف کو بتا دو آپ کشمیر پر جتنی چاہے لچک دکھائو لیکن بھارت کی برہمن اسٹیبلشمنٹ کشمیر پر لچک نہیں دکھائے گی بلکہ ہمیں آپس میں لڑا کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی‘‘۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور پرویز مشرف کی بے تدبیری اور سمجھوتوں (compromises) کی پالیسی بالآخر ناکام رہی۔

دوسری اہم چیز خود پرویز مشرف کا ۲۰۰۷ء میں کمزور ہونا، ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے  انتخابات میں پاکستانی عوام سے شکست کھا جانا، اور ۱۸ اگست کو استعفا دے کر ٹکسال باہر ہونا ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ اس کی پالیسیاں بھی رخصت ہوگئیں اور وہ لوگ جو اب بھی ان پالیسیوں کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خصوصیت سے پاکستان کی سیکولر اور بھارت نواز لابی، وہ بھی  ان شاء اللہ منہ کی کھائیں گے۔ خود بھارت نے اس پالیسی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور کشمیری عوام کی ریاست گیر تحریکِ مزاحمت کے عوامی استصواب نے اسے رد ہی نہیں کیا، ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے۔

تیسری اہم چیز عالمی حالات اور عالمی مفکرین کی سوچ میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیاں ہیں جن کا ادراک ازبس ضروری ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات اور ان کے ردعمل میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پوری دنیا کے امن کو تہ وبالا کردیا۔ شروع میں امریکا کو عالمی ہمدردی حاصل تھی لیکن جیسے جیسے امریکا کے عالمی سامراجی عزائم نمایاں ہوئے، وہ ہمدردی نفرت اور غصے میں بدل گئی اور عوامی سطح پر امریکا، اس کی قیادت اور اس کی نام نہاد جنگ پر بے اعتمادی کا کھلااظہار ہونے لگا۔ افغانستان میں اور پھر عراق میں جو کچھ امریکا نے کیا، اس نے ریاستی دہشت گردی کی تاریخ میں نیا باب رقم کیا۔ مفکرین کی ایک تعداد اس کھیل کا پردہ چاک کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ جو زبانیں بند تھیں وہ اب کھل کر بات کر رہی ہیں۔ آزادی کی تحریکوں اور ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے نام پر مطعون کرنے اور ختم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اسے اب چیلنج کیا جا رہا ہے۔ امریکی مصنف اور فلسفی نوم چومسکی اور سابق اٹارنی جنرل ریمزے کلارک تو پہلے دن سے امریکا کی ان پالیسیوں اور حقیقی دہشت گردی اورجنگ آزادی کو خلط ملط کرنے کی پالیسی کے مخالف تھے لیکن اب علمی اور عوامی دونوں سطح پر اس سامراجی کھیل کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی Terrorism: The Philosophical Issues (مرتبہ:Iqor Primoratz )جس میں ۱۲مفکرین کے مضامین کو پیش کیا گیا ہے، بڑی اہم کتاب ہے اور دل چسپ مباحث کو سامنے لاتی ہے۔ اس میں عوامی تحریکوں کی طرف سے ریاستی قوت کے مقابلے میں قوت کے استعمال کے جواز کے لیے منصفانہ جنگ (just war)کے نظریات کو معیار بنایا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ناجائز حکمرانی اور ظلم کے خلاف برپا تحریکاتِ مزاحمت کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اس بحث نے ایک بار پھر تحریکِ آزادی اور ظالمانہ اقتدار کے خلاف جدوجہد کو دہشت گردی سے ممیز کردیا ہے اور بحیثیت مجموعی یہ نتیجہ نکالا جا رہا ہے کہ ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف جدوجہد مظلوم انسانوں کا حق ہے۔ اس سلسلے میں اگر پُرامن ذرائع غیرمؤثر بنادیے جائیں تو قوت کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ کچھ حالات میں ضروری ہوجاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں بطور تائید خود گاندھی جی کا یہ قول بھی دیا گیا ہے جو بھارت کی قیادت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے:

کہا جاتا ہے کہ گاندھی نے کہا تھا کہ ظلم اور جبر کی مزاحمت کا سب سے بہتر راستہ    عدمِ تشدد ہے مگر یہ بھی کہا: ظلم اور جبر کے آگے سرِتسلیم خم کرنے سے بہتر پُرتشدد ذرائع سے مقابلہ کرنا ہے۔ (ص۷۴)

اس طرح مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب کے نتیجے میں انڈونیشیا کے ایک صوبے کا آزاد ریاست بننا، کوسووا کا ناٹو اور یورپی یونین کے تعاون سے سربیا سے الگ ہونا اور ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کا جارجیا سے آزاد ہونے کی جدوجہد وہ تازہ ترین مثالیں ہیں جہاں عوامی راے، جذبات و احساسات اور استصواب کے ذریعے ان علاقوں کی آزادی کے حق کو ایک بار پھر تسلیم کیا جا رہا ہے جو قومی حاکمیت (National Sovereignty ) کے تصور کے تحت اپنے جداگانہ تشخص کے حق سے محروم کردیے گئے تھے۔

نائن الیون کے بعد جوفضا دنیا پر مسلط کردی گئی تھی اور امریکا اور بھارت جس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے، وہ اب تبدیل ہورہی ہے، اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی جنگ آزادی کو اس پوری عالمی فضا کے اثرات سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

آزادی کی نئی لھر

سب سے اہم حقیقت جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے، اور وہ یوں کہ امرناتھ یاترا میں بورڈ کو ۸۰۰ کنال (ایک سو ایکڑ) پر مشتمل ایک قطعۂ اراضی دینے اور واپس لیے جانے سے رونما ہوا ہے۔ یہ عمل اس تاریخ کو دہرانے کا ذریعہ بن گیا ہے جس سے مسلمانانِ پاک و ہند کو ۲۰ویں صدی کے پہلے نصف میں گزرنا پڑا اور جو بالآخر قیامِ پاکستان پر منتج ہوا۔

امرناتھ یاترا کوئی نئی چیز نہیں۔ ۱۸۸۰ء سے اس کا آغاز ہوا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مندر مسلمان علاقے میں واقع ہے جہاں کی آبادی کا ۹۹ فی صد مسلمان ہے۔ ۱۲۸ سال سے یہ یاترا ہورہی ہے اور کبھی ہندومسلم تنازع کا ذریعہ نہیں بنی، اور مسلمان خوش دلی سے اس یاترا کے سلسلے کے تمام نظم و نسق میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں بلکہ اس کے معاشی فوائد سے فیض یاب بھی ہوتے رہے اوراس طرح تعاون کا ایک رشتہ قائم ہوگیا۔ مجاہدین نے بھی اسے کبھی اپنا ہدف نہ بنایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی جدوجہد سیاسی اور نظریاتی ہے، اسے تجارتی رنگ دینے کی کوشش ہندو انتہا پسندوں نے کی ہے۔ برہمن قیادت نے جس طرح مسلمانوں کو تحریکِ آزادی کے دوران ان کے تمام حقوق سے محروم کر کے ان کے لیے تقسیمِ ملک کے سوا کوئی راستہ باقی نہ چھوڑا، بالکل اس طرح تاریخ ایک بار پھر کشمیر میں اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور ایک بار پھر ایک نظریاتی اور سیاسی تحریک کو مذہبی فرقہ واریت کی آگ میںجھونکا جا رہا ہے۔

برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے سامنے اصل مسئلہ اپنے دینی، نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور نشووارتقا کا تھا۔ انھوں نے اپنے ہزارسالہ دورِاقتدار میں اپنے دین اور تہذیب کی حفاظت اور نشووارتقا کے ساتھ ہندو مذہب اور تہذیب اور دوسرے تمام مذاہب کو پورے مواقع فراہم کیے لیکن برعظیم کی ہندو قیادت نے اپنی عددی اکثریت کے زعم میں تحریکِ آزادی کے موقع پر یہ بالکل واضح کردیا کہ مسلمان آزادی کے بعد اپنی تہذیب اور اپنے دین و تمدن کے آزادانہ ارتقا سے محروم رہیں گے۔ ۱۹۲۸ء کی نہرو رپورٹ اور ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی کانگرس کی حکومتوں کے رویے اور ہندو مسلم فسادات کے اس طوفان نے جو برعظیم کی تاریخ میں ۱۹۴۴ء کے بعد رونما ہوا، ہندوئوں اور مسلمانوں کے راستوں کو جدا کردیا۔ بلاشبہہ مسلمانوں نے بڑی قیمت ادا کی اور بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے سب سے بڑی قربانی دی مگر ایک سیاسی اور تہذیبی تحریک کو مذہبی فرقہ واریت میں تبدیل کرنے کا کام ہندو اسٹیبلشمنٹ کا کارنامہ تھا۔ مسلمانوں نے اسے کبھی فرقہ وارانہ (communal) ایشو نہیں سمجھا بلکہ قائداعظم نے ہندوقیادت اور اربابِ صحافت کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’جناح کمیونل کارڈ کھیل رہے ہیں‘‘ صاف کہا کہ یہ نظریاتی تحریک ہے اور مسلمان اپنے دین و ثقافت کی بنیاد پر ایک قوم ہیں اور بحیثیت قوم خودمختاری کے طالب ہیں، کم از کم ان علاقوں میں جہاں انھیں اکثریت حاصل ہے۔ لیکن ہندوقیادت اور پریس پوری تحریک کو کمیونل رنگ دینے پر بضد تھے۔ آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں اشارہ کر رہی ہے کہ بالآخر اس کش مکش کو کہاں منتج ہونا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ آج کشمیر میں امرناتھ بورڈ کو زمین دینے اور زمین واپس لینے کے واقعے کو جس طرح ہندوقیادت اور خصوصیت سے بی جے پی نے استعمال کیا ہے اور جس طرح مسلمانوں اور ہندوئوں اور کشمیر اورجموں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جا رہا ہے وہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، کا منظراپنے اندر لیے ہوئے ہے۔

سابق گورنر ایس کے سنہا متعصب ہندو ذہنیت کی شہرت رکھتے ہیں اور کشمیر سے پہلے آسام میں بھی فرقہ واریت کو فروغ دینے اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو ہدف بنانے کا کھیل کھیل چکے ہیں۔ وہ مسلم اکثریت کے علاقوں کے آبادیاتی نقشے (demography) کو تبدیل کرنے کے فن کے ماہر ہیں اور امرناتھ یاترا کے سلسلے کے تازہ قضیے کے اصل مصنف ہیں۔ گورنر سنہا نے کشمیر کے گورنر کی ذمہ داری سنبھالنے کے ساتھ ہی امرناتھ یاترا کے علاقے پر خصوصی توجہ دی اور بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کو جو ڈیڑھ سو سال سے اس مقام کی نگرانی کر رہے تھے اپنے پشتینی روزگار سے محروم کیا۔ اسی طرح خچروالوں اور چھوٹی دکان لگانے والے مسلمانوں کو بے دخل کیا اور ان کی جگہ باہر سے ’لنگروالوں‘ کو بلاکر آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ اس سلسلے کی ایک کڑی تھی جو بھارت کی حکومت وادیِ کشمیر میں برسوں سے جاری رکھے ہوئے تھی کہ سرحدی علاقوں میں بھارت سے لاکر ہندوئوں کو آباد کرے۔ کشمیر کے نوجوان نوکریوں سے محروم رہیں لیکن بھارت سے ہندوئوں کو جوق در جوق لاکر ملازمتیں دی جائیں۔ اس پس منظر میں ایک کلیدی اقدام امرناتھ بورڈ کو وادی میں یاتریوں کے لیے رہایش گاہ تعمیر کرنے کے لیے ابتداً ۸۰۰کنال (۱۰۰ ایکڑ) زمین دینے کا حکم گورنر سنہا نے اپنی گورنری کے ختم ہوتے وقت دیا جس پر کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کے رہنمائوں نے شدید احتجاج کیا اور پوری وادی اس ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس    عوامی مظاہرے سے مجبور ہوکر نئے گورنر نے زمین کی اس الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا۔ واضح رہے کہ مسلمانانِ کشمیر کے اعتراض میں کوئی مذہبی یا فرقہ وارانہ پہلو نہیں تھا بلکہ مسلمان اس یاترا میں سواسو سال سے معاون تھے۔ اعتراض زمین کی منتقلی اور اس طرح ہندوئوں کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے پر تھا۔ کشمیری جنگلات کو بھارتی سرمایہ داروں کی دسترس سے بچانے کی فکر تھی۔ ایک مذہبی تہوار کو سیاست اور تجارت کی بھینٹ چڑھانے کے خلاف پیش قدمی تھی۔ ۲۳ جون کے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس تحریک کے قائد سید علی شاہ گیلانی نے کہا:

وہ ہماری ریاست کی آبادیاتی شناخت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی نہیں بیدار ہوئے تو ہندستان اور اس کے حاشیہ بردار اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ہم اپنی زمین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے۔ بھارتی فوج نے یہاں آٹھ لاکھ کنال سے زائد زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ یہ زمین خالی کرے۔

سری نگر سے شائع ہونے والے اخبار Rising Kashmir میں خالد وسیم حسن نے بھی اس خطرناک کھیل کو ہدفِ تنقید بنایا:

ہندستان اب علانیہ طور پر کشمیر کی آبادیاتی ہیئت تبدیل کرنے کی پالیسی پر کام کر رہا ہے۔ ہندستان غیر ریاستی باشندوں کو یہاں آباد کرکے حق خودارادیت کی تحریک کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو، عبدالباری مسعود کا مضمون امرناتھ بورڈ کا تنازعہ، افکارملّی، دہلی، اگست ۲۰۰۸ئ)

اس اصولی موقف کے برعکس، جموں کے ہندوئوں اور خصوصیت سے بی جے پی نے صرف جموں و کشمیر ہی میں نہیں، پورے بھارت میں اس مسئلے کو ہندو مسلم تنازع اور ایک خالص مذہبی  فرقہ واریت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔ جموں میں احتجاج کی آگ کو بھڑکایا گیا۔ مسلمانوں کو ہدف بناکر مسلم کُش فسادات کا آغاز کیا۔ گوجروں کی آبادیوں کو خصوصی نشانہ بنایا اور کشمیر کے میوہ فروشوں اور تاجروں کو سزا دینے کے لیے نہ صرف سڑک بلاک کر دی بلکہ ٹرک ڈرائیوروں پر تیزاب تک چھڑکا گیا۔ مسلمان تاجروں کی کمر توڑنے کے لیے پھلوں کے سیکڑوں ٹرکوں میں گلنے والے (perishable) پھلوں میں مضرت رساں کیمیکل ڈالا گیا اور یوں ایک اندازے کے مطابق چند ہفتوں میں کشمیری تاجروں کو ۶۰۰کروڑ روپے کا نقصان ہوا جس نے ان کی کمر توڑ دی۔حکومت نے اس احتجاجی مہم کی سرپرستی کی۔ وادیِ کشمیر میں احتجاجی تحریک کو قوت اور تشدد کا نشانہ بنایا اور ۴۰سے زائد افراد کو شہید کردیا گیا۔ ان شہدا میں سب سے نمایاں تحریکِ آزادیِ کشمیر کے اہم رہنما شیخ عبدالعزیز شہید ہیں جو مظفرآباد کی جانب سڑک کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے اور پاکستانی پرچم ہاتھ میں لیے ربِ حقیقی سے جاملے۔ ان کے جنازے میں ۲ لاکھ افراد نے شرکت کی، نماز جنازہ سیدعلی شاہ گیلانی نے پڑھائی اور سری نگر میں ان کی یاد میں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس میں کشمیر کی تحریکِ آزادی کی پوری قیادت نے شرکت کی، یعنی سیدعلی شاہ گیلانی، سیدشبیرشاہ، میرواعظ عمرفاروق، یٰسین ملک وغیرہم۔

زمین کا یہ واقعہ ایک تاریخی تحریک کا عنوان بن گیا ہے۔ شیخ عبدالعزیز کی شہادت نے تحریکِ آزادی کو نئی زندگی دے دی ہے۔ جو تحریک کچھ ماند پڑ گئی تھی، وہ ایک بار پھر پورے جوبن پر آگئی ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس وقت تحریکِ آزادی کی پوری قیادت ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہے اور ایشو بھی بالکل واضح ہے کہ اصل مسئلہ فرقہ واریت کا نہیں اور نہ صرف امرناتھ یاترا کے بورڈ کو زمین کچھ بدلی ہوئی شرائط پر دینے کا ہے، بلکہ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت اور بھارت کے جارحانہ قبضے سے آزادی کا ہے۔

ھندو ذھنیت کا کردار

جو کردار ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کانگرس، ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ نے انجام دیا تھا، آج وہی کردار بی جے پی ادا کر رہی ہے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بالاتر مشیت کا کرشمہ ہے کہ اس کے اس منفی کردار کا پورا پورا فائدہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کو ہی پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا بشرطیکہ کشمیر میں مسلمانوں کے پاے استقامت میں لرزش نہ آئے اور پاکستان اپنا کردار ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔ آیئے دیکھتے ہیں بھارت کے اہلِ نظر بی جے پی کے اس کردار کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ The Hindu اخبار کا کالم نگار پرافل بڈوال (Praful Bidwal ) اپنے ۱۷ اگست ۲۰۰۸ء کے کالم میں لکھتا ہے:   بی جے پی نے دو مہینے میں جموں اور کشمیر کو سیاسی اور جذباتی اعتبار سے ایک دوسرے کے     خلاف صف آرا کردیا ہے۔ وہ نوحہ کرتا ہے کہ: پاکستان کی ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے والے جہادی علیحدگی پسند ۲۰برسوں میں جو چیز حاصل نہیں کرسکے وہ آزادی کی تحریک کی آبیاری کے لیے (بی جے پی کی تحریک) نے انجام دیا ہے۔

اس کو اعتراف ہے کہ بی جے پی کی اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں کشمیر کی سیکولر اور کثیرالقومی شناخت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور اب ’مسلمان کشمیر‘ اور ’ہندو جموں‘ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور اس طرح ایک بار پھر جو مسئلہ مرکزیت اختیار کرگیا ہے وہ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے (the unfinished agenda of partition)کی تکمیل کا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!

بی جے پی کے قائد لال کرشن ایڈوانی کی جو تصویر اُبھر کر سامنے آئی ہے وہ بڈوال کے الفاظ میں کچھ ایسی ہے:

یہ وہ ایڈوانی نہیں ہے جو اعتدال پسند واجپائی کا وارث بننا چاہتا تھا۔ یہ ماضی کا رتھ سوار راشٹریہ ایڈوانی ہے، جارحیت پسند، جنگ جو، فرقہ واریت کا زہر اُگلنے والا، اور اپنے جلو میں خونی لکیر چھوڑنے والا۔ اب ایڈوانی ۱۰۰ ایکڑ زمین پر ہندو شیوانسٹ کا خواب دیکھ رہا ہے۔ دعویٰ اس بنیاد پر ہے کہ بھارت میں کسی بھی جگہ ہندوئوں کا پہلے دعوے کا حق ہے کیوں کہ وہ عددی اکثریت میں ہیں، اس لیے پہلا حق رکھتے ہیں۔ یہ ایک سیکولر دشمن موقف ہے، کلاسیکی طور پر نہیں۔

امرناتھ بورڈ کو زمین کی الاٹمنٹ کا مسئلہ اب محض ۱۰۰ ایکڑ زمین کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس نے اس اصل ایشو پر توجہ کو مرکوز کردیا ہے اور یہ بھی ایک بار پھر دکھا دیا ہے کہ بھارت کے سیکولرزم کا اصل چہرہ کیا ہے اور کشمیر کے عوام کی اصل جدوجہد کس مقصد کے لیے ہے، یعنی حق خودارادیت۔ اب امرناتھ بورڈ کی زمین غیرمتعلق (irrelevant) ہوچکی ہے۔ اب اصل توجہ کا مرکز تحریکِ آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد ہے۔ جو مایوسی پاکستان کی حکومت کی بے وفائی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر سے دست کشی نے پیدا کی تھی ختم ہوگئی ہے، تھکاوٹ اور مایوسی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور کشمیر میں عوام ایک بار پھر تازہ دم ہوکر میدان میں آگئے ہیں۔ دو مہینے میں سیاسی جدوجہد کا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے اور جدوجہد ایک نئے تاریخی موڑ پر آگئی ہے۔

نیا منظرنامہ

اس سارے منظرنامے سے جو اہم باتیں سامنے آتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

۱- ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک متنازع مسئلہ ہے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی اصل مسئلہ ہے جس سے کسی صورت صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیری عوام کسی قیمت پر اور کسی نوعیت کی بھی قربانی دے کر اپنی آزادی اور اپنے حق خودارادیت کو فراموش کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بھارت کی ۶۱سالہ مکارانہ چالوں سے اب پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔ جو کچھ شیخ عبداللہ کے ساتھ کیا گیا، جس طرح دستور میں دفعہ ۳۷۰ کا ڈھونگ رچا کر کشمیریوں کو رام کرنے اور دراصل غلامی کی زنجیروں میں کسنے کا کھیل کھیلا گیا، ۷ لاکھ فوج کے جارحانہ قوت کے استعمال اور ہرطرح کے ظلم و ستم کے باوجود کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔  لاٹھی اور گاجر (carrot and stick) دونوں ناکام رہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اصل مسئلے کا سامنا کیا جائے اور کوئی دیرپا حل نکالا جائے۔

۲- موجودہ تحریک نے ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے اور اس کا اعتراف بھارت اور عالمی فورم پر کھل کر کیا جانے لگا ہے کہ نہ صرف اصل مسئلہ آزادی کا ہے بلکہ آزادی کی  یہ تحریک مقامی اور عوامی تحریک ہے۔ نہ یہ باہر کے کسی اشارے پر برپا کی گئی ہے اور نہ کی جاسکتی ہے۔ کشمیر کے عوام کا ایک سیلاب ہے جو امڈا چلا آرہا ہے اور وہ قیادتیں بھی جو بھارت کے ہاتھوں میں کھلونا بن رہی ہیں اب عوام کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہورہی ہیں۔ پی ڈی پی بھی وہی  زبان استعمال کرنے پر مجبور ہے جو تحریکِ حریت کے رہنما اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سابق گورنر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں پی ڈی پی کو ایک علیحدگی پسند (secessionist ) جماعت قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو لیفٹیننٹ جنرل (ر) ایس کے سنہا کا انٹرویو دیپک کمار راتھ کے ساتھ، مطبوعہ (www.organing.org)۔ اس طرح افتخار گیلانی کو دیے گئے انٹرویو میں بھی موصوف فرماتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں پی ڈی پی اور حریت کانفرنس میں کوئی فرق نہیں (ہفت روزہ دی فرینڈلی ٹائمز، ۵ تا ۱۱ستمبر ۲۰۰۸ئ)

یہ اس عوامی تحریک کی قوت ہے کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت اب بھارت سے آزادی کی بات کر رہی ہے اور عوام قائدین اور جماعتوں کو اپنے پیچھے چلا رہے ہیں، لیڈر عوام کو ہانکنے کا کام نہیں کر پارہے، اور سب کا ایک موقف پر اجماع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بڑی نیک فال اور اہم پیش رفت ہے۔

۳- یہ پوری تحریک معجزاتی طور پر سیاسی، جمہوری اور تشدد کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے۔ قوت کا استعمال ہوا ہے تو حکومت کی طرف سے ہوا ہے اور کہیں کہیں تو وہ بے بس ہوگئی ہے جیسے سری نگر میں اقوامِ متحدہ کی فورس کے دفتر کی طرف پیش قدمی کی دعوت جس میں ۱۰لاکھ نہتے افراد نے تمام رکاوٹیں پار کر کے حصہ لیا اور پولیس اور فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس تحریک کے  مقامی جمہوری، عوامی اور ریاست گیر ہونے کا اعتراف اپنے اور پرائے حتیٰ کہ ہندستان کے صحافی، دانش ور اور تجزیہ نگار بھی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ۱۹۹۰ء کے بعد ایک بار پھر ہرسطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور کسی صورت غلامی کی اس زندگی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔

فرق یہ ہے کہ ۱۹۹۰ میں عسکریت کا پلڑا بھاری اور غالب تھا لیکن ۲۰۰۸ء کی تحریک میں عسکریت کا کردار غیرمرئی اور بالواسطہ ہے، ظاہری اور بلاواسطہ نہیں۔ عسکری تحریک نے بھی اس موقع پر بڑی دانش مندی سے حالات کو متاثر کیا ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر اور جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھارتی سازش کا بڑی ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اپنے مجاہدین کو یاتریوں کو محفوظ راستہ (safe passage ) دینے کی ہدایت کی اور جولائی اور اگست کی تحریک کے دوران کوئی عسکری کارروائی نہیں کی بلکہ مجاہدین کو سیاسی کارکن کی حیثیت سے تحریک میں شرکت کی ہدایت دی۔ اس زمانے میں اگر کوئی کارروائی ہوئی ہو تو وہ دُوردراز سے سرحدی علاقوں میں ہوئی۔ بڑی عوامی تحریک (mainstream movement)  مکمل طور پر سیاسی اور تشدد سے پاک رہی۔

یہ عسکری قوتوں کی طرف سے ایک شاہ ضرب (master stroke)  تھی اور بڑا واضح پیغام تھا کہ عسکریت پسند بھی تحریکِ آزادی کو سیاسی اور جمہوری تحریک کے طور پر چلانا چاہتے ہیں۔ جب حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے سیاسی عمل کا راستہ روکتی ہے تو یہ تحریک عسکریت پر مجبور ہوتی ہے۔ جمہوری تحریک اور عسکریت کے رشتے کا اس سے بہتر اظہار سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں مشکل ہے اور اس کا کریڈٹ عسکری تنظیموں اور ان کے ڈسپلن کو جاتا ہے اور مسئلے کے سیاسی حل میں ان کے کردار کے حدود کی بھی اس سے نشان دہی ہوجاتی ہے۔ اس پورے عمل سے بھارت کے اس ڈھونگ کا بھی پردہ چاک ہوگیا جو وہ ہر احتجاج کو پاکستان کے پلڑے میں ڈال کر اور آئی ایس آئی کا راگ الاپ کر، کر رہا تھا۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ تحریک سیاسی ہے، کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے، جمہوری اور عوامی ہے، اور اگر سیاسی اظہار کا موقع حاصل ہو تو عسکریت کے بغیر زیادہ مؤثر انداز میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔

۴- اس تحریک کے نتیجے میں ایک اور بڑی اہم چیز رونما ہوئی ہے جو ان ۶۱برسوں میں  پہلی بار اس شدت سے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ خود بھارت میں کشمیر کے سلسلے میں نئی سوچ رونما ہوئی ہے، حکومتی سطح پر نہیں، عوامی اور سیاسی سطح پر۔ اب تک بھارتی دانش وروں، سیاسی کارکنوں اور صحافیوں نے یک زبان ہوکر بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی کی تائید کی تھی اور ہرظلم پر پردہ ڈال رکھا تھا، نیز سیکولرزم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، بھارت کے کثیرالقومی ماڈل اور ایک ریاست کی علیحدگی کے پورے ملک پر سیاسی اثرات اور دوسری علاقائی تحریکوں کے لیے عمل انگیز (catalyst) بن جانے کے مضمرات کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے عزائم، اُمنگوں اور قربانیوں کو نظرانداز کیا ہوا تھا اور اگر بات کرتے تھے تو تھوڑی بہت خودمختاری (autonomy) اور معاشی مدد اور ترقیاتی پروگراموں کی کرتے تھے، اصل مسئلے سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ اب پہلی بار ملک گیر سطح پر یہ سوال زیربحث ہے کہ اگر ہم ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر ایک پوری ریاست کے باشندوں کو ان کی مرضی کے خلاف کب تک حکومتی جبر کے ذریعے یا معاشی رشوت کے سہارے اپنی گرفت میں رکھ سکتے ہیں؟ ایک گروہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کشمیر پر قبضے کی فوجی، سیاسی اور معاشی قیمت بہت زیادہ ہے اور اب بھارت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہندستان ٹائمز (۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ) کے مقالہ نگار کے الفاظ میں: think the unthinkable، یعنی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اب اسی کی بات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

بہارت میں نیا رجحان

ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بھارت میں رونما ہونے والے اس رجحان کی کچھ جھلکیاں اپنے قارئین کو دکھائیں تاکہ تحریکِ مزاحمت کی قوت اور بھارت میں رونما ہونے والے نئے رجحان کو، جو مسئلے کے حل کے امکانات کو روشن کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، کو سمجھا جاسکے۔

ہندستان ٹائمز کے جس مضمون کا ہم نے حوالہ دیا ہے اس میں بھارتی مصنف اور  دانش ور ہندستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر  ویر سنگھوی (Vir Sanghvi) نے لکھا ہے:

کیا آپ کشمیر سے آنے والی خبروں کو نااُمیدی کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ پڑھ رہے ہیں؟ مجھے معلوم ہے کہ میں پڑھ رہا ہوں۔ اب یہ بات واضح ہے کہ گذشتہ چند مہینوں کی پُرامیدی ، یعنی وہ مضامین جو ہمیں بتاتے تھے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں، سب غلط تھے۔ کشمیر میں درحقیقت ۱۹۹۰ء کے بعد سے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ایک چنگاری، جیساکہ امرناتھ زمین پر تنازع، پوری وادی کو آگ لگا سکتی ہے،  لہٰذا ناراضی، غصے اور علیحدگی کا احساس بہت گہرا ہے۔ بھارتی افواج کو قابض فوج تصور  کیا جاتا ہے۔ نئی دہلی کو ظالم و جابر کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ بھارتی دھارے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان کارڈ کھیلنے سے نہیں ہچکچاتیں۔ محبوبہ مفتی لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے کے لیے بہ خوشی راضی ہیں۔

موصوف فرماتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ کرکے دیکھ لیا۔ انتخابات میں دھاندلی کی، دستور کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت کشمیریوں کو خصوصی مقام دینے کی کوشش کی۔ مالی اعتبار سے ان کا پیٹ بھرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان کے الفاظ میں: ’’بہار کی ریاست کو ملنے والی مرکزی امداد (جو قرض کی شکل میں ہے) فی کس آبادی کے لیے صرف ۸۷۶ روپے ہیں، جب کہ کشمیر میں ہر سال ہر فرد کے حساب سے دی جانے والی امداد (جس کا ۹۰ فی صد عطیہ اور صرف ۱۰ فی صد قرض ہے) ۹ہزار۷سو ۵۴ روپے ہے۔ لیکن ساری ترقیاتی کوششیں اور مالی عنایتیں کچھ کارگر نہیں ہورہیں۔ رہا فوجی طاقت کا استعمال___ تو خزانہ پر بھاری بوجھ ہونے کے سوا اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس باب میں ان کا ارشاد ہے:

کشمیر کی دوسری قیمت فوجی ہے۔ ون سی ۸۱۴ طیارے کے اغوا سے لے کر پارلیمنٹ پر حملے تک بہت سے دہشت گرد حملوں کی کڑیاں کشمیر سے ملتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے حملے پر ہمارا ردعمل آپریشن پاراکرم تھاجس پر ۱۰ مہینے میں ۶ہزار ۵ سو کروڑ روپے خرچ ہوئے اور ۸۰۰ فوجی جوانوں کی جانیں تلف ہوئیں (کارگل ۴۷۴ جانوں میں پڑا تھا)۔ ہرروز ہمارے فوجیوں اور نیم فوجیوں کو دہشت گرد حملوں، دبائو اور تضحیک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

ساری بحث کے بعد جو کانٹے کا سوال موصوف اٹھاتے ہیں وہ یہ ہے:

تو میرا سوال یہ ہے: ’’ہم اب تک کشمیر کے ساتھ کیوں لٹک رہے ہیں، جب کہ کشمیری ہمارے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کرنا چاہتے؟‘‘ جواب ہے: مظاہرئہ مردانگی (machismo)۔ ہمیں اس بات پر یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر کشمیر علیحدہ ہوا تو بھارت کمزور ہوجائے گا۔ اس لیے ہم جانیں اور بلین ڈالر کھو رہے ہیں اور کشمیری ہمیں برابھلا کہنے کا مزا لے رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہم انھیں چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔

اس سلسلے میں اٹھائے جانے والے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے جن کا تعلق بھارتی سیکولرزم، بھارت میں مسلمانوں کے مستقبل اور دوسروں پر علیحدگی پسند تحریک کی کامیابی کے اثرات وغیرہ سے ہے، موصوف صاف لفظوں میں ’اَن کہی‘ کہہ ہی ڈالتے ہیں، یعنی:

میرا کہنا ہے کہ ہمیں وادی میں استصواب راے کروانا چاہیے۔ کشمیری اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کریں۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انھیں خوش آمدید ہے لیکن اگر وہ نہیں چاہتے تو ہمارے پاس انھیں ساتھ رکھنے کا اخلاقی جواز نہیں ہے۔ اگر وہ پاکستان  کے ساتھ الحاق کا ووٹ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آزاد کشمیر کے ساتھ تھوڑا سا اور علاقہ شامل ہوجائے گا۔ اگر وہ آزادی کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں تو صرف ۱۵منٹ لگیں گے بغیر ان اربوں روپوں کے جو بھارت نے ان پر برسائے لیکن یہ ان کا فیصلہ ہوگا۔

کچھ بھی ہو بھارت کا کیا نقصان ہے؟ اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینا سب سے درست کام ہے۔ اور اگر آپ نہیں رکھتے، تب بھی یقینا ہم اپنے وسائل پر اپنی زندگیوں اور قوم کی حیثیت سے اپنی عزت پر اس مستقل تکلیف دہ دبائو سے نجات پاکر بہتر حال میں ہوں گے۔

یہ بھارت کی صدی ہے۔ ہمارے پاس فتح کرنے کے لیے دنیا ہے اور اس کے لیے وسائل بھی ہیں۔ کشمیر ۲۰ویں صدی کا ایک مسئلہ ہے۔ ہم یہ نہیں کرسکتے کہ ہم دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کر رہے ہوں اور یہ مسئلہ ہمیں پیچھے کھینچے اور ہمارا خون نکالتا رہے۔(ہندستان ٹائمز، ۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ)

انگلستان کے اخبار دی گارڈین کا دہلی کا نمایندہ رنڈیپ رمیش (Randeep Ramesh) کشمیر کے حالات کی منظرکشی اس طرح کرتا ہے:

بھارتی کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں کل ایک غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا گیا… مقامی مسجدوں سے لائوڈ اسپیکروں سے ’ہم آزادی چاہتے ہیں‘ کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ یہ مظاہرے کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلسل احتجاج کا ایک حصہ تھے۔ میرواعظ فاروق کہتے ہیں: یہ وقت ہے کہ ہم ریفرنڈم کے ذریعے اپنے حقِ خود ارادیت کا فیصلہ کرلیں۔ بھارت کہتا ہے کہ کشمیر کے مستقبل پر عشروں پرانا ریفرنڈم اب متروک ہوگیا ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر دہلی میں مایوسی کا بڑھتا ہوا ایک احساس ہے جہاں ۱۹۸۹ء سے بغاوت مسلسل سلگ رہی ہے۔ جمعہ کے دن لاکھوں کشمیری سری نگر میں جمع ہوگئے اور آزادی کا مطالبہ کیا اور بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کیا۔ بڑے بڑے دانش ور یہ کہہ چکے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے ہمالیائی علاقے کے بارے میں ناقابلِ تصور بات سوچی جائے اور بھارت سے آزادی پر غور کیا جائے۔ (دی گارڈین ، ۲۵ اگست ۲۰۰۸ئ)

دی گارڈین کے ہفتہ وار اخبار آبزرور میں اس واقعے کے رونما ہونے سے پہلے ۸جون کی اشاعت میں ایک بھارتی مضمون نگار نوپال ڈھلے وال (Nupal Dhalivel) نے اپنے دورئہ کشمیر کے تاثرات اور اہم بیرونی سیاحوں سے انٹرویو کرکے حالات کا جو نقشہ کھینچا تھا اس کا خلاصہ ایک اسرائیلی سیاح کے الفاظ میںیہ تھا کہ:

کشمیر کو ایک خودمختار ریاست ہونا چاہیے۔ کشمیریوں کو خودمختاری اور حق خودارادیت کا حق حاصل ہے۔

سوامی ناتھن آگر کا مضمون شائع ہوا ہے جو پڑھنے اور غور کرنے کے لائق ہے:

۱۵ اگست کو بھارت نے برطانوی راج سے آزادی کی تقریب منائی لیکن کشمیریوں نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک بندھ (bandh) منظم کیا۔ ایک دن جو بھارت میں نوآبادیت کے اختتام کی علامت ہے، وادی میں بھارتی نوآبادیت کی علامت بن گیا۔ ایک لبرل کی حیثیت سے میں لوگوں پر ان کی مرضی کے خلاف حکومت کرنے کو ناپسند کرتا ہوں۔ دو قوموں کی تعمیر ایک مشکل اور پیچیدہ مشق ہے۔ ابتدائی مزاحمت علاقائی اُمنگوں کو، ایک وسیع تر قومی شناخت کی راہ دکھا سکتی ہے۔ تامل علیحدگی پسندی کا اختتام اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔

میں کبھی کشمیر کے ادغام کی امید رکھتا تھا لیکن ۶ عشروں کی کوشش کے بعد کشمیری علیحدگی ہمیشہ سے زیادہ نمایاں نظر آرہی ہے۔بھارت کشمیر کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے، نوآبادی بناکر حکومت کرنا نہیں چاہتا۔ تاہم، بھارت میں برطانوی راج اور کشمیر میں بھارتی حکومت کی مشابہت نے میرا اطمینان ختم کردیا ہے۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ریاست کے مہاراجا نے جب دستخط کردیے تو کشمیر بھارت کا ایک حصہ بن گیا۔ افسوس جب زمینی حقائق تبدیل ہوجاتے ہیں تو ایسی قانونی باتیں غیرمتعلق ہوجاتی ہیں۔ بھارت کے بادشاہوں اور شہزادوں بشمول مغلوں نے برطانوی راج سے الحاق کرلیا۔ یہ دستاویزات اس وقت بے معنی ہوکر رہ گئیں جب اہلِ بھارت نے تحریکِ آزادی برپا کردی۔

برطانیہ نے بڑے عرصے تک یہ اصرار کیا کہ بھارت ان کی سلطنت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان کے تاج کا ہیرا ہے جو کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہم بھی اسی طرح کا انکار کر رہے ہیں جیسے امپریلسٹ برطانوی عشروں سے انکار کرتے رہے۔

موصوف بڑی مدلل بحث کے بعد جس نتیجے کا اظہار کرتے ہیں وہ بہت واضح ہے:

بھارت نے کشمیر کے ساتھ الحاق چاہا ہے نہ کہ نوآبادیاتی حکمرانی۔ لیکن کشمیری کچھ بھی ہو، آزادی مانگتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے اتنی شدت سے مزاحمت کرتے ہیں، اتنے طویل عرصے کی حکمرانی نوآبادیت سے مشابہ ہے خواہ ہمارے ارادے کچھ بھی ہوں۔

۶ عشرے قبل ہم نے کشمیریوں سے استصواب راے کا وعدہ کیا تھا۔ اب ہمیں اسے منعقد کردینا چاہیے اور انھیں تین اختیارات دینے چاہییں: آزادی، پاکستان کے ساتھ اتحاد، اور بھارت کے ساتھ اتحاد۔ یقینا وادی کی اکثریت خودمختاری کو اختیار کرے گی۔ جموں اور شاید لداخ بھی بھارت کے ساتھ رہنا چاہیں گے۔ کشمیریوں کو فیصلہ کرنے دیں، نہ کہ سیاست دان اور بھارت اور پاکستان کی فوجوں کو۔ (ٹائمز آف انڈیا، ۱۷ اگست ۲۰۰۸ئ)

ٹائمز آف انڈیا میں ۲۰ اگست کو شائع ہونے والا مضمون نہایت اہم ہے، اس کا عنوان ہے: India minus K-word

کیا یہ وقت ہے کہ ’ک‘ کا لفظ بھارت سے باہر ہو اور بھارت ’ک‘ سے باہر ہوجائے؟ جس وقت پاکستانی اپنے عرصے سے مسلط آمر پرویز کی رخصتی کا جشن منا رہے تھے، کشمیر کے ’پاکستانی‘ اس سے زیادہ نہیں تو برابر کے جابرو ظالم بھارت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے جسے بہت پہلے رخصت ہوجانا چاہیے تھا۔

امرناتھ تنازع اور مبینہ ’معاشی بدحالی‘ نے وادی میں ایک بے نظیر پاکستان حامی جذبات کو بھڑکا دیا ہے جس کا اظہار چاند تارے والے جھنڈے کو کھلم کھلا دکھلانا اور  سری نگر اور پام پور میں بڑی بڑی بھارت مخالف ریلیوں سے ہوتا ہے۔ علیحدگی کی تحریک جنگجوئوں کے خوف سے نہیں چل رہی، آج علیحدگی پسندی راے عامہ ہے جو آگے چل کر ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔

احتجاج کی اس طوفانی لہر (ground swell) کو جو کئی نسلوں سے جاری ہے، محض    یہ کہہ کر نظرانداز کرنا آسان ہے کہ اس کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے، حالانکہ کشمیر یا وادیِ کشمیر اب زیادہ دیر تک اس کٹھ پتلی کی طرح نہ ہوگی جو اپنے پاکستانی آقائوں کی زبان بول رہی ہو۔ کشمیر خود اپنے لیے آواز بلند کر رہا ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بہت واضح ہے: بھارت ہمارا پیچھا چھوڑ دے۔

مقالہ نگار کا یہ تجزیہ بھی غور طلب ہے:

کشمیر آج جو کچھ دیکھ رہا ہے، وہ بنیادی طور پر مختلف ہے۔ آزادی کا مطالبہ جس کے پیچھے بندوقیں نہیں بلکہ مخالف ہونے کی طاقت ہے___ جو بھارت کے تصور کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ برسوں کی مسلسل کوشش، فوجوں کی تعیناتی، متعدد بار ہونے والے انتخابات، مال و دولت کے زرتلافی دینے کے باوجود بھارت آزادی کے مطالبے کا مؤثر مقابلہ نہیں کرسکا۔ کیا وقت آگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو دوبارہ دیکھا جائے؟ کیا کشمیر کو پُرامن طور پر جانے دینے سے بھارت کا تصور مسخ ہوجائے گا یا اس میں وسعت ہوجائے گی اور زیادہ مضبوط ہوجائے گا۔

ہفت روزہ ٹائم کی ۱۵ ستمبر کی اشاعت میں Juoti Thottam کا مضمون Valley of Tears (اشکوں بھری وادی) شائع ہوا ہے جس میں کشمیر کو اب بھی بھارت کا حصہ رکھنے کا خواب دکھایا گیا ہے مگر زمینی حقائق کے اعتراف کے سوا کوئی چارئہ کار نظر نہیں آتا:

تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کشمیر پر لڑے اور ۱۹۸۹ء سے کشمیریوں کی علیحدگی کی تحریک میں بھارتی افواج کو آزادی پسندوں کی جانب سے ہمیشہ یہ دھمکی رہی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے جو ان کی بندوقوں سے جنگ کر رہا ہے۔ بھارت نے علیحدگی پسندوں کو طاقت کے زور پر خاموش کر دیا تھا لیکن امرناتھ نے ان کی تحریک کو دوبارہ زندہ کردیا اور ۱۸ اگست کے ۵لاکھ سے زائد کے ایک خصوصی مظاہرے میں آزادی کے نعرے اور پاکستان کے لہراتے جھنڈوں نے ثابت کردیا ہے کہ کشمیری بھارت کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

بھارت کشمیر کو چھوڑنا نہیں چاہتا مگر ساتھ رکھنے کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے:

بھارت میں لوگ کشمیر میں دل چسپی کھو رہے ہیں۔ یہ ایک مایوسی کی علامت ہے۔ اولین طور پر یہ بھارت کی سیاسی ناکامی ہے کہ اختلاف میں اتحاد کے وعدے کو پورا نہیں کرسکا۔ بھارت نے طویل عرصے میں کشمیر میں لاکھوں ڈالر امداد دی ہے اور اس سے زیادہ رقم خرچ کی ہے مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ امن کا مطلب محض عدم جنگ نہیں ہے بلکہ معاملہ سیاسی تصفیے کا ہے۔ ۵لاکھ بھارتی افواج کی واپسی جو اس وقت کشمیر پر قابض ہے، اور سب سے زیادہ اہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا کہ فوج کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر کشمیری شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

بھارتی حکومت نے ان مشکل مسائل کو حل نہیں کیا ہے جو کشمیریوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔ وہ بے چین ہیں۔ اسی لیے کشمیر کے ناپایدار امن کو توڑنے کے لیے انھیں صرف ایک غلطی کی ضرورت تھی۔ اس نے ایک نہیں بلکہ دو نہایت خطرناک احتجاجی تحریکیں برپا کردیں۔ ایک ہندو قوم پرستوں کی اور دوسری کشمیری انتہاپسندوں کی جنھوں نے ایندھن فراہم کیا۔

معلوم ہوتا ہے کہ اب بھارت نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ علیحدگی پسند کشمیری ہیں نہ کہ پاکستان سے بھیجے ہوئے کچھ لوگ۔ (ٹائم، ۱۵ ستمبر ۲۰۰۸ئ)

اس سلسلے کا سب سے اہم اور تہلکہ خیز مضمون مشہور ناول نگار اور سیاسی کارکن ارون دھتی راے کا ہے جو پہلے مجلہ آؤٹ لُکمیں شائع ہوا۔ پھر اس کا کچھ مختصر متن انگلستان کے روزنامہ دی گارڈین نے شائع کیا اور اس کے بعد دنیا کے تمام ہی اہم اخبارات نے اس کے اقتباسات شائع کیے۔ پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے لیکن ہم صرف اس کے چند حصے ناظرین کی نذر کر رہے ہیں:

گذشتہ ۶۰دنوں سے، یعنی جون کے بعد سے کشمیر کے عوام آزاد ہیں، حقیقی مفہوم میں آزاد۔ انھوں نے اپنی زندگیوں سے ۵ لاکھ مسلح فوجیوں کی بندوقوں کے سایے کی وحشت دنیا کے سب سے زیادہ گھنے فوجی علاقے میں اُتار پھینکی۔

۱۸ سال تک فوجی قبضہ رکھنے کے بعد بھارتی حکومت کا ڈرائونا خواب بدترین خدشات سچ ثابت ہوا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد کہ اس نے جنگجو تحریک کو کچل دیا ہے، اب اس کا سامنا ایک غیرمتشدد وسیع عوامی احتجاج سے ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس سے کس طرح نمٹا جائے۔ اس احتجاج کو قوت عوام کی کئی برسوں کی ظلم و جبر کی یادوں نے دی ہے، جس میں لاکھوں آدمی مارے گئے ہیں، ہزاروں لاپتا ہوگئے ہیں، لاکھوں کو ٹارچر کیا گیا ہے، زخمی کیا گیا ہے اور تذلیل کی گئی ہے۔ اس طرح کا غصہ جب ایک دفعہ باہر نکل آئے تو اس کو آسانی سے دوبارہ بوتل میں بند کرکے وہاں نہیں بھیجا جاسکتا جہاں سے وہ نکلا تھا۔

تقدیر کے ایک اچانک موڑ اور ۱۰۰ ایکڑ سرکاری زمین امرناتھ منتقل کرنے کا غلط اقدام ایسا ثابت ہوا جیسے پٹرول کی ٹینکی پر دیا سلائی پھینک دی گئی ہو۔ ماضی میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن حال میں طویل مدت تک اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کشمیر کی بڑی سیاسی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور عوامی جمہوری پارٹی نئی دہلی کے ٹی وی اسٹوڈیوز میں تابع داری کے ساتھ حاضر رہتی ہیں لیکن کشمیر کی سڑکوں پر سامنے آنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں۔ مسلح جنگجو ظلم و جبر کے بدترین سایوں میں آزادی کی مشعل اٹھائے نظر آتے تھے۔ اگر وہ کہیں ہیں تو پچھلی نشست پر آرام سے بیٹھے ہیں اور عوام کو تبدیلی کے لیے لڑنے دے رہے ہیں۔

علیحدگی پسند قائدین جو مظاہروں میں آتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، وہ اب قائدین نہیں بلکہ پیروکار ہیں۔ ان کی راہ نمائی ایک پنجرے میں بند غصے سے بھرے ہوئے لوگوں کے سامنے آنے والی غیرمعمولی توانائی سے ہورہی ہے جوکشمیر کی سڑکوں سے بھڑک اُٹھی ہے۔ دن پر دن گزرتے گئے اورہزاروں لاکھوں افراد ان جگہوں کے  گرد اکٹھے ہوتے گئے جن کے ساتھ ان کی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ وہ مورچوں کو    گرا دیتے ہیں، تاروں کی چاردیواری کوتوڑ دیتے ہیں اورفوجیوں کی مشین گنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں: ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی! اور ساتھ ہی   اتنی ہی تعداد میں اتنے ہی لوگ نعرہ لگاتے ہیں: جیوے جیوے پاکستان! یہ آوازیں  پوری وادی میں گونج رہی ہیں جیسے کہ ایک ٹین کی چھت پر مسلسل بارش کی آواز ہو یا جیسے کہ ایک طوفان کے دوران بجلی کی کڑک۔

۱۵ اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر سری نگر کے اعصابی مرکز لال چوک پر ان ہزاروں لوگوں کا قبضہ تھا جو اپنے ہاتھوں میں پاکستانی جھنڈے لہرا کر ایک دوسرے کو یومِ آزادی (باسی) کی مبارک باد دے رہے تھے۔

ہر طرف پاکستانی جھنڈے تھے۔ ہر طرف نعرے تھے: پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الااللہ! میری طرح کے کسی فرد کے لیے جو مسلمان نہیں ہے اس آزادی کی تعبیر سمجھنا ناممکن نہیں ہے تو مشکل ضرور ہے۔ میں نے ایک نوجوان خاتون سے کہا کہ کشمیر کی اس طرح آزادی سے ایک عورت کے لیے آزادی میں کمی نہیں ہوجائے گی۔ اس نے کندھے اُچکائے اور جواب دیا: ہمیں اس وقت کس قسم کی آزادی حاصل ہے؟ بھارتی فوجیوں سے اپنی عصمت دری کرانے کی۔ اس کے جواب نے مجھے خاموش کردیا۔ سبزجھنڈوں کے سمندر میں میرے لیے کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ اپنے آس پاس ہونے والی بغاوت کے گہرے جذبات دیکھ کر ان پر دہشت گرد جہاد کا ٹھپہ لگا دیا جائے۔ یہ کشمیریوں کے لیے ایک کتھارسس تھا، جذبات کے اظہار کا ایک موقع۔ ایک طویل پیچیدہ جدوجہد کا ایک تاریخی لمحہ، تمام خامیوں، مظالم اور الجھائو کے ساتھ جو آزادی کی تحریکوں میں ہوتے ہیں۔

آج کے جیسے نازک لمحوں میں چند چیزیں خوابوں سے زیادہ اہم ہیں۔یوٹوپیا کی طرف سست پیش قدمی اور انصاف کا ایک خام تصور وہ نتائج لائے گا جن کے بارے میں سوچا نہیں جاسکتا۔  تقسیم کے ہیولے نے سر باہر نکال لیا ہے۔ ہندوتا نیٹ ورک پر یہ خبر گرم ہے کہ وادی میں ہندوئوں پر حملے کیے جارہے ہیں اور انھیں بھگایا جا رہا ہے۔ جموں سے آنے والی فون کالیں بتاتی ہیں کہ دو ہندو اکثریتی اضلاع سے مسلمان بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تقسیم پاک و ہند کے وقت ہونے والے خونی غسل کی یادیں، جس میں ۱۰لاکھ جانیں کام آئیں، واپس آرہی ہیں۔ بہرحال مستقبل میں جو کچھ ڈراوے ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس کا جواز نہیں بن سکتا کہ قوم اور عوام پر فوجی آپریشن کو جاری رکھا جاسکے۔ پرانا نوآبادیاتی موقف کہ مقامی لوگ آزادی کے لائق نہیں، کسی نوآبادیاتی منصوبے کے لیے اب قابلِ استدلال نہیں ہے۔

یہ ہے ہوا کا رخ___ ایک طرف تحریکِ آزادی اپنے نئے شباب پر، اور دوسری طرف بھارت میں پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر روایتی ہٹ دھرمی کے مقابلے میں جمہوری اصولوں اور انصاف اور حقائق شناسی کی بنیاد پر نئے غوروفکر کی ہلکی سی کرن کا ظہور۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس کو کشمیر کے مسلمانوں نے تو مضبوطی سے تھام لیا ہے مگر پاکستان کی حکومت اور پاکستانی قوم کا کیا فیصلہ ہے___ مستقبل کا اس پر بڑا انحصار ہے۔

اھلِ پاکستان کا فرض

پاکستان مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں محض ایک تماشائی نہیں، صرف مظلوم کشمیریوں کا وکیل ہی نہیں، گو وکالت کی ذمہ داریاں اس نے ماضی میں بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی ہیں۔ پاکستان اس قضیے میں ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے___ ایک مرکزی کردار۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور کشمیر کے مسلمان ساری مشکلات اور پاکستان کی حکومتوں سے مایوسیوں کے باوجود پاکستان ہی میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں۔

کشمیر اور بھارت کے اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے اور وہ دور رخصت ہوچکا ہے جس میں پرویز مشرف نے یک طرفہ طور پر پاکستان کی قومی اور متفق علیہ کشمیر پالیسی کو یکسر تبدیل کردیا تھا اور امریکا اور بھارت سے دوستی کے خمار میں اپنا سب کچھ لٹادینے کی ہمالیہ سے بڑی خطا کا ارتکاب کیا تھا۔ ۱۸ فروری کے انتخابات میں عوام نے مشرف کی کشمیر پالیسی کو بھی رد کردیاتھا اور ان نئے حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستانی حکومت اور قوم یک زبان ہوکر  تحریکِ آزادی سے مکمل ہم آہنگی کا اظہار کریں۔ اس تحریک کی اخلاقی ہی نہیں بھرپور سیاسی، سفارتی، مالی اور دوسرے ذریعے سے مدد کریں اور جس طرح کشمیری عوام نے اپنے خون اور پسینے سے اس تحریک کو بامِ عروج تک پہنچایا ہے اسی طرح پاکستان اس میں بھرپور شرکت کرکے، عالمی راے عامہ کو مؤثر انداز میں متحرک کرکے بھارت پر سفارتی، سیاسی اور معاشی دبائو ڈالے تاکہ    یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق حل ہوسکے۔

ہمیں خوشی ہے کہ قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حقِ خودارادیت اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عوام کی مرضی کے مطابق مستقبل کے فیصلے کے حق کی تائید کی ہے اور ان کی جدوجہد سے یک جہتی کا مظاہرہ کیاہے۔ آزاد کشمیر کے عوام نے چکوٹھی جاکر مظفرآباد آنے والے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے استقبال کا اہتمام کرکے اس جدوجہد میں اپنی شرکت کا اظہار کیا ہے۔یہ وقت پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ، تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کے لیے فیصلے کا وقت ہے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جسے ہرگز ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ پرویزمشرف کی پالیسیوں کو قوم اور تاریخ دونوں نے رد کردیا ہے اور سب سے زیادہ خود بھارت کی قیادت نے اپنے دوغلے پن اور حقیقی عزائم کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے۔ آج جموں و کشمیر کے مسلمان ایک بار پھر ایک فیصلہ کن جدوجہد میں سر پر کفن باندھ کر کود پڑے ہیں۔ اب پاکستان کا فرض ہے کہ اس تحریک سے مکمل یک جہتی کا اظہار کرے اور اس کی ہرممکن طریقے سے مدد کرے___ سفارتی، سیاسی اور مادی___  ۱۹۹۰ء میں جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا اور جو ہماری گرفت سے نکل گیا تھا، تاریخ نے ایک بار وہ موقع مسلمانانِ جموںو کشمیر اور پاکستانی قوم کو دیا ہے۔ پاکستان کے پاس صرف ایک آپشن ہے اور وہ اس تحریک کی مکمل تائید اور اسے فیصلہ کن مقام تک پہنچانے میں بھرپور کردار کی ادایگی___ کشمیر ایک بار پھر پاکستانی قوم، اُمت مسلمہ اور انسانی ضمیر کو پکار رہا ہے۔ کیا ہم اپنا فرض ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟