اکتوبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

’فہم دین‘ کا مسئلہ

اطہروقار عظیم | اکتوبر ۲۰۰۸ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

ستمبر ۲۰۰۸ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میں قاضی حسین احمد کا مضمون ’رمضان کاپیغام اور ملک کے حالات‘ نہایت جامع، برمحل اور بصیرت افروز تھا۔ خاص طور پر یہ پیراگراف تو آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کبیرہ گناہوں کے علاوہ عام احکام کی خلاف ورزی پر نہ تو کوئی حد قائم کی، نہ ہی تعزیر دی۔ مثلاً پردے کا حکم آنے کے بعد بھی کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ پردہ نہ کرنے پر کسی مسلمان (عورت) کو تعزیری سزا دی گئی ہو۔ ڈاڑھی رکھنے یا موسیقی سننے پر سزا دینے کی بھی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاے راشدینؓ نے ان برائیوں پر کوئی سزا نافذ کی ہو۔ (یقینا) ان تمام برائیوں کو تعلیم و تربیت، ترغیبِ آخرت کے خوف اور اللہ کا تقویٰ پیدا کر کے مٹانے کی کوشش کی گئی۔ (لہٰذا) حضوؐر اور خلفاے راشدینؓ کی سیرت کی روشنی میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بچیوں کے اسکولوں کو برباد کیا جائے یا حجاموں کو نوٹس دیا جائے۔ اس طرح کے اعمال سے اس بنیادی مقصد (نظامِ عدل کے قیام) سے توجہ ہٹ جاتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا اور رسولوں کو بھیجا ہے‘‘۔ (ص ۱۰-۱۱)

یقینا وقت آگیا ہے کہ اس طرح کے مسائل پر کھل کر بات کی جائے۔ اس سلسلے میں یہاں میں ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔۲۴ اگست کو صبح اٹک کے مرکزی بازار میں موجود وڈیو شاپس کی مارکیٹ کو بم دھماکوں سے تباہ و برباد کردیا گیا۔ مزید یہ کہ اس واقعے سے دو دن پہلے اٹک شہر کے مختلف حجاموںکی دکانوں پر دھمکی آمیز خطوط پھینکے گئے یا پھر تقسیم کیے گئے جس میں تین دن کے اندر وڈیو شاپس بند کرنے، معروف تعلیمی ادارے میں مخلوط تعلیم ختم کرنے اور حجاموں کو شیو کرنے سے منع کیاگیا۔ بصورت دیگر سخت مالی و جانی نقصان ہونے کا عندیہ دیا گیا۔ میں خود جب خط بنوانے کے لیے ۲۵ اگست کو اٹک میں ایک حجام کی دکان پر گیا جہاں میں تقریباً پچھلے ڈیڑھ سال سے جا رہا تھا تو وہاں مرکزی دروازے پر ایک بینر آویزاں تھا جس پر یہ تحریر تھا: ’’یہاں صرف  سنت کے مطابق بالوں کی کٹنگ کی جاتی ہے اس لیے غیرشرعی کام (شیو) کرنے پر مجبور نہ کیا جائے‘‘۔ حتیٰ کہ اُس دن حجام نے خط تک بنانے سے انکار کردیا۔ دینی پس منظر ہونے کے باوجود مجھے زندگی میں پہلی دفعہ ’مذہبی انتہا پسندی‘ سے خوف محسوس ہوا۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ زبردستی ڈاڑھی رکھوانے اور وڈیو سنٹرز کو تباہ کے ساتھ ساتھ وادیِ سوات اور قبائلی علاقہ جات میں بچیوں و لڑکیوں کے اسکولوں کو بھی تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ معروف انگریزی ماہنامہ ہیرالڈ (Herald) نے اپنا خصوصی شمارہ (اگست ۲۰۰۸ئ) سوات میں بچیوں کے اسکول تباہ کرنے کے حوالے سے نکالا ہے۔ اس میں بیان کردہ اعداد وشمار کے مطابق ایک سال سے بھی کم عرصے (جولائی ۲۰۰۷ء تا مئی ۲۰۰۸ئ) میں صرف وادیِ سوات میں بچیوں کے ۴۰اسکولوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ اس عرصے کے صرف ایک ماہ بعد صرف مٹہ اور کابل کے ذیلی اضلاع میں ۲۰ دنوں میں مزید ۲۴ اسکولوں پر بموں کے ذریعے حملے کیے گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوات کے ۵۶۶ بچیوں کے اسکولوں میں سے ۱۳۱ اسکول بند ہیں یا انھیں تباہ کردیا گیا ہے۔ جس سے تاحال ۱۷۲۰۰ بچیاں اسکولوں کی تعلیم سے محروم ہیں۔ باجوڑ ایجنسی میں اس سے  بھی بُری صورت حال ہے جہاں بچیوں کے تمام اسکولوں کو تباہ کردیا گیا ہے یا پھر وہ بند پڑے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی صورت حال اس سے ملتی جلتی ہے۔ خیبرایجنسی میں درہ آدم خیل میں ایک مقامی اسکول جہاں ۶۰۰ بچیاں زیرتعلیم تھیں وہ بھی تاحال بند پڑا ہے۔ صرف کرم ایجنسی میں صورت حال نسبتاً بہتر ہے۔

آخر تحریک اسلامی کب تک اس صورت حال پر خاموش رہ سکتی ہے؟ کیونکہ اسلام کے ہی نام پر زیادہ تر واقعات ہو رہے ہیں۔ انتہاپسند (شرپسند) عناصر رات کو آتے ہیں۔ اسکولوں کے چوکیدار کو علیحدہ باندھ کر، اسکول میں موجود اسلامی لٹریچر اور قرآن پاک کے نسخے علیحدہ نکال کر عمارت کو بموں سے اڑا دیتے ہیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں مہمند ایجنسی میں ایک خاتون استاد کو  صرف اس لیے ہلاک کردیا گیا کہ وہ اُن کے فہم اسلام کے مطابق پردے میں نہیں تھی۔ حالانکہ  ان علاقوں میں شرح خواندگی (بالخصوص عورتوں میں) نہایت کم ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سروے کے مطابق قبائلی علاقوں میں ۲۹ فی صد مرد پڑھے لکھے ہیں، جب کہ صرف ۳ فی صد عورتیں پڑھی لکھی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے اہلِ دانش قبائلی علاقوں میں پائے جانے والے اس فہم اسلام پر کھل کر بات کریں اور بار بار بات کریں تاکہ پاکستان کے دیگر شہری علاقوں میں عوام و خواص کی اکثریت پرواضح ہوسکے کہ تحریکِ اسلامی، اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جس راستے کو اختیار کیے ہوئے ہے، اُس کا طریق کار اور عملی نتائج اُس فہمِ اسلام سے قطعاً مختلف ہیں جو کہ قبائلی علاقہ جات اور سوات کے اضلاع میں نافذ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سب کارروائیاں سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اسلام کا غلط تصور پیش کرنے اور اسے بدنام کرنے کے لیے مخصوص عناصر کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی کوئی معتبر اور تحقیق شدہ راے سامنے آنا چاہیے۔