اقوامِ عالم اور عالمی تہذیبوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے والے عناصر میں فکروثقافت کو بنیادی مقام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی قوم یا نسل کے عادات و اطوار ہوں، اس کی عبادات ہوں، لباس ہو یا معیشت و سیاست ہو، اگر غور کیا جائے تو ہرہرشعبے میں اس کی بنیادی فکر وثقافت کی ایک جھلک پائی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مراکش سے انڈونیشیا اور وسط ایشیا سے شمالی امریکا اور جنوبی افریقہ تک اُمت ِمسلمہ کی پہچان اس کی ثقافت و فکر ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
دورِحاضر میں جسے عالم گیریت کا دور کہا جانے لگا ہے، ایک سوال علمی اور تحقیقی سطح پر یہ اٹھایا جاتا ہے کہ عالم گیریت کے دور میں جب کوئی علاقائی ثقافت ہزارہا میل سے نشر ہونے والے نغموں، ڈراموں، سنجیدہ اور غیرسنجیدہ گفتگوؤں کی زد میں آچکی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی خطے کی ثقافت دوسرے خطے کی ثقافت کے منفی یا مثبت اثرات سے محفوظ رہ سکے؟ مزید یہ کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہرخطہ اپنی ثقافت و روایت سے وابستہ ہی رہے۔ آخر اس میں کیا حرج ہے کہ ایک ایسی چڑھتی ہوئی ثقافت و فکر کو جس کے نتیجے میں یورپ و امریکا نے معاشی، عسکری اور سیاسی فوقیت حاصل کرلی ہے، ہم بھی اختیار کرکے انھی کی طرح ’ترقی یافتہ‘ بن جائیں اور ہمارے ہاں بھی جلیبی کی طرح بل کھاتی شاہراہیں اور ایک چھت کے نیچے سو دکانوں والے بازار وجود میں آجائیں۔ کیا روایت پرستی یا ’قدامت‘ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے؟ اس سے آگے بڑھ کر ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا کوئی ثقافت اسلامی بھی کہلا سکتی ہے یا درحقیقت مسلمانوں نے جب اور جہاں طبع زاد طور پر کوئی ایجادات، مصنوعات اور اختراعات کرلیں، انھی کو اسلامی ثقافت سے تعبیر کردیا گیا؟ گویا اسلامی ثقافت ایک خیالی نقشے سے زیادہ کوئی چیزنہیں ہے، جب کہ عملاً مختلف خطوں میں پائے جانے والے مسلمانوں نے اپنے الگ الگ خطوں کی ضروریات و حالات کی مناسبت سے جو طورطریقے اختیار کیے انھیں اسلامی ثقافت سے تعبیر کردیا گیا۔ ایک پہلو یہ بھی قابلِ غور ہے کہ کیا اسلامی ثقافت، اگر کوئی چیز اس نام کی ہے، عربی ثقافت سے مختلف کوئی چیز ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ عربوں کے رسوم و رواج اور بود وباش کو ہی اسلامی ثقافت و تہذیب اور فکر قرار دے دیا گیا۔ یہ اور اس نوعیت کے بہت سے سوالات تقاضا کرتے ہیں کہ اسلامی فکر وثقافت کی بنیادوں اور مظاہر پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی جائے اور اسلامی تشخص و شخصیت کو قرآنِ کریم کی روشنی میں دیکھا جائے۔
اس تحریر کا بنیادی مقصد ان سوالات کو اٹھانا ہے جو آج نوجوانوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد حتمی جوابات فراہم کر کے بحث کا دروازہ بند کرنا نہیں ہے، بلکہ قرآن و سنّت کی روشنی میں کھلے ذہن کے ساتھ ذہنی دریچوں کو کھولنا ہے تاکہ تازہ ہوا کی مدد سے مسئلے کا ادراک اور اس پر مسلسل غور کا سلسلہ چل سکے۔ مسلسل غوروفکر قرآنِ کریم کی بنیادی دعوت ہے۔ اسی بنا پر وہ بار بار اپنے پڑھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ کسی لمحے بھی اس عمل کو ترک نہ کریں۔ جب تک ایک بندہ اپنے رب سے اس درخواست کے ساتھ کہ وہ اسے علم و ہدایت دے (رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)، صراطِ مستقیم پر رکھے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o الفاتحہ۱:۵)، نفس کے فتنوں اور شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھے، یہ کام کرتا رہے گا۔ قرآنِ کریم کے معانی و مفہوم کے نئے نئے اسرار اس پر کھلتے رہیں گے اور جب وہ یہ سوچ کر بیٹھ جائے گا کہ جو کچھ ہدایت ملنی تھی مل چکی اس کا ذہنی اور فکری سفر جمود کا شکار ہوجائے گا۔
مذاہبِ عالم پر ایک عمومی اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ عقلیت، تجزیہ اور تفکر کی راہیں مسدود کر کے اندھی تقلید، جذباتیت، بنیاد پرستی، شدت پسندی اور غلو کو رواج دیتے ہیں اور اپنے آپ کو حتمی سمجھنے کی بنا پر علمی تحقیق، تجزیہ اور تنقید کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اسلام بظاہر وہ واحد دین ہے جو عقل، مشاہدہ، تدبر،تجزیہ، تزکیہ اور مسلسل فکر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآنِ کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو انسان کو سوال اٹھانے اور سوالات کے حل تلاش کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
قرآنِ کریم میں غوروفکر کرنے کی دعوت تقریباً ہر صفحے پر دی گئی ہے۔ فکر کے حوالے سے اس کے مختلف پہلوئوں پر ۱۹ سے زائد مقامات پر مختلف زاویوں سے انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔اس کے مفہوم میں سوچنے (اِِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَo ’’اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی‘‘۔ المدثر ۷۴: ۱۸)، تنہا یا اجتماعی طور پر مل کر دماغ لڑانے اور فکر کرنے (قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یَقْدِرُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo’’اے نبیؐ! ان سے کہو’’میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا عطا کرتا ہے، مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے‘‘۔ السبا ۳۴:۳۶)، اور دنیا و آخرت کے حوالے سے فکر کرنے، منطقی انداز میں واقعات و حقائق کو مرتب کرکے غوروفکر کرنے کے لوازم پائے جاتے ہیں (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَo ’’پوچھتے ہیں: شراب اور جوے کا کیا حکم ہے؟ کہو اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ پوچھتے ہیں: ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت میں دونوں کی فکر کرو‘‘۔البقرہ ۲:۲۱۹)۔ خود قرآنِ کریم اپنے لیے ذکریٰ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے (الانعام ۶:۶۸) اور اپنے آپ کو تمام انسانوں کے لیے یاددہانی، غوروفکر پر اُبھارنے والی ہدایت و نور قرار دیتا ہے۔ مختلف اقوامِ عالم کے عروج و زوال کے واقعات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بار بار یہ بات دہراتا ہے کہ اس کا مقصد محض تاریخی واقعات کا بیان نہیں ہے بلکہ غوروفکر کی دعوت دینا ہے۔کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ o ’’اس طرح اللہ اپنی باتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غوروفکر کرو‘‘۔ (البقرہ۲:۲۶۶)
سورۂ آل عمران میں فکر کے عمل کو ذکر کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے اسے اہلِ دانش کی اہم پہچان بتایا گیا ہے (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo’’زمین اور آسمانوں کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں‘‘۔ ۳:۱۹۰)گویا اہلِ دانش نہ تو اپنی آنکھیں اور کان بند رکھتے ہیں اور نہ دل کی آنکھ کو موندنے دیتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے آسمان اور زمین میں اور خود ان کی اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار نشانیاں رکھ دی ہیں۔ اگر وہ صرف ان پر غور کرلیں اور فکر کا دامن تھامے رہیں تو بہت کم ایسے ہوںگے جو گمراہ ہوں۔
انسان کی یہی وہ صلاحیت ہے جس کی بنا پر اسے حیوانات سے ممتاز کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور ہدایت ِربانی کے تذکرے کے بعد کہ شاید اس طرح لوگ فکر پرآمادہ ہوں، قرآنِ کریم ان افراد کا ذکر کرتا ہے جو جانتے بوجھتے تفکر اور غوروفکر کرنے سے بھاگتے ہیں۔ غفلت میں پڑے ہوئے اِن افراد کے بارے میں قرآن یوں مخاطب ہوتا ہے کہ: لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo (الاعراف ۷:۱۷۹) ’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں‘‘۔
انسان تفکر کے لیے جن ذرائع کو استعمال کرتا ہے ان میں عقل، قلب، سماعت و بصارت ہی علم کے حصول کے ذرائع ہیں لیکن اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتِ بصارت و سماعت کو استعمال نہ کرے اور جو کچھ آنکھ دیکھتی ہو یا دیکھ سکتی ہو، اسے نظرانداز کرتا رہے اور جو کچھ کانوں کے ذریعے قلب و دماغ تک پہنچ سکتا ہو، اس سے اپنے آپ کو بچاکر رکھے تو پھر وہ اپنے من کی بھول بھلیوں ہی میں گرفتار رہے گا۔ خودساختہ تصورات میں گم اور غوروفکر سے عاری رہنے کے سبب علم و ہدایت کے نور سے محروم ہوجائے گا۔ ایسے ہی افراد کو قرآنِ کریم جانوروں سے تشبیہہ دیتا ہے بلکہ ان سے بھی گیا گزرا سمجھتا ہے۔
مغربی دانش کا ایک مفروضہ یہ ہے کہ الہامی کتاب کی پیروی سے انسان گویا عقل سے عاری، قدامت پرست اور بنیاد پرست بن جائے گا، جب کہ قرآنِ کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو ہرلمحے اپنے پڑھنے والوں کو غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ اس دعوتِ فکر میں اولاً اس نکتے پر زور دیا جاتا ہے کہ تعصبات اور خودساختہ ذہنی تحفظات کے خول سے نکل کر ایک شخص اردگرد کی کائنات پر غور کرتے ہوئے اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ کیا جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے یہ خود اس کے اپنے ذہن کی تخلیق ہے؟ یا کسی اور اُس جیسے فرد یابہت سے افراد میں اجتماعی طور پر یہ قوت ہے کہ وہ اس طرح کی کائنات، چمکتا آسمان، گرجتے بادل، کڑکتی بجلی، بلندوبالا پہاڑ، وادیاں، سبزہ زار اور بدلتے موسم، غرض ایک عالمِ رنگ و بو کو پیدا کرسکیں یا اس نظامِ ہستی کو اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کرسکیں یا عقل و تجربہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس پوری کائنات کا ایک ہی خالق اور مالک جو مدّبر و قوی ہو، حی و قیوم ہو، ہونا چاہیے۔ گویا انسان کو اپنا سراغ لگانے کے لیے جس کسی نکتے سے فکر کا آغاز کرنے کی دعوت دی جاتی ہے وہ فکر آخرکار اسے حق و صداقت تک پہنچنے کے لیے ایک عقلی سفر پر لگا دیتی ہے۔
یہی وہ فکر ہے جسے ہم قرآنی اور مسلم فکر سے تعبیر کرسکتے ہیں اور جو موجود ذرائع علم کا جہاں تک ممکن ہو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا سفر اختیار کرسکتی ہے جس کا مقصد محض فکری اٹھکیلیاں نہ ہوں، بلکہ اصلاحِ حال اور تعمیر ِمستقبل کے لیے نظامِ حیات کی تلاش ہو۔ اس پُرمعنی عمل کو قرآنِ کریم فکر اور ذکر سے تعبیر کرتا ہے، یعنی وہ فکر جو مشاہدے، یاد دہانی، تجزیے اور تجربے کے ذریعے انسان کو اپنی منزل کے تعین میں راہ نمائی اور امداد فراہم کرسکے۔ اسی لیے علمِ نافع کی اصطلاح کا استعمال اس فکر کے لیے کیا جاتا ہے جو تعمیری و متحرک ہو اور مستقبل کا شعور رکھتی ہو۔
قرآنِ کریم نے دنیا اور آخرت کی فکر پر بار بار اسی لیے متوجہ کیا ہے کہ فکر محض دنیاوی معاملات تک محدود نہ ہو بلکہ انسان کو اس کی حقیقی منزل اور مقام تک کامیابی کے ساتھ لے جانے میں مددگار ہو۔ وہ اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا نہ پھرے۔ وہ ہر پگڈنڈی پر نہ چل پڑے بلکہ صراطِ مستقیم پر استقامت اور صبر کے ساتھ گامزن رہے، حتیٰ کہ اپنے مقصود و مطلوب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ایسا راستہ اختیار کرلے جو اس کے رب کا پسندیدہ اور مقرر کردہ راستہ ہو۔ انسانوں کا جو گروہ اس تعمیری فکری عمل میں مصروف ہوتا ہے اسے قرآنِ کریم قَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ قرار دیتا ہے (مزید ملاحظہ ہو: النحل ۱۶:۱-۱۱)۔ اس تعمیری فکری عمل کو وحیِ الٰہی کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم ان لوگوں کو جو فکر کرنے والے ہوں، یوں مخاطب کرتا ہے: وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ o بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (النحل ۱۶: ۴۳-۴۴)’’اے نبیؐ! ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو ان کے لیے اُتاری گئی ہے۔ اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں (وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ)‘‘۔
انسان کو یہ دعوتِ فکر محض کائنات یا خود اپنے نفس کی جانب نہیں بلکہ وحیِ الٰہی کے سمجھنے کی طرف دی جارہی ہے تاکہ وحیِ الٰہی کے تمام پہلوئوں کو سمجھنے کے بعد وہ عقلی رویہ اختیار کرسکے جو اس ہدایت کا مقصود و مطلوب ہے۔ آخرکار یہی فکری عمل وحیِ الٰہی میں موجود ہدایات و اصول پر غوروفکر کرنے کے نتیجے میں جدید مسائل کے حل کی طرف رہنمائی کرے گا، اور اس طرح وحی کے غیرمتغیر اور مستقل وجود کے تعامل سے، تغیر حالات و زمانہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے گا۔ اگر وحیِ الٰہی کے سمجھنے کے فکری عمل میں جمود آ جائے تو مسائل کے حل کا عمل جو دراصل ترقی کا عمل ہے اپنی رفتار کھو بیٹھتا ہے اور اُمت جمود اور تقلید کا شکار ہوجاتی ہے۔ اجتہاد گویا وحیِ الٰہی اور اس کے مقصد کو سمجھنے کے بعد وحی کے ذریعے ملنے والی ہدایت کو جدید حالات پر منطبق کرنے کا نام ہے۔ یہ خود رائی اور اپنی ذہنی اپج کو اسلامی حل قرار دینے کا نام نہیں ہے۔ قرآنِ کریم فکروذکر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنے ہر پڑھنے والے کو ایسی فکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ اس طرح وہ اپنے روزمرہ کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور، ثقافتی مسائل کا حل تلاش کرسکے اور وہ اپنی سرگرمیوں کو فکرِاسلامی کا تابع بناسکے۔ اسلامی فکر محض عقیدے کے باریک مسائل اور غیرمرئی روحانی مسائل کو سمجھنے کا نام نہیں ہے جسے بالعموم الٰہیات یا مابعد الطبیعیات کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ زندگی کے ہرشعبے میں وحیِ الٰہی اور موجود ذرائع علم کے استعمال کے ذریعے مسائل کے حل کرنے کے عمل کا نام ہے۔
قرآنِ کریم کی دعوتِ فکر کسی خاص موضوع تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اگرچہ بعض ایسے پہلو بھی ہیں جو روزانہ مشاہدے میں تو آتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ان پر غور کرتے ہیں، قرآن ان کی طرف متوجہ کرتا ہے اور انھیں فکری عمل کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بناتا ہے: اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَo (الزمر ۳۹:۴۲)’’وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقتِ مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرنے والے ہیں‘‘۔ ہر انسان رات اور دن کے اوقات میں تھکن کے بعد قوت حاصل کرنے اور آرام کرنے کے لیے سوتا ہے اور یہ بات اس کے ذہن میں بالعموم نہیں آتی کہ آیا سونے کے بعد جاگے گا یا نہیں۔اس روزمرہ کے عمل کو بھی قرآنِ کریم فکر اور غور کرنے کے عمل سے تعبیر کرتا ہے تاکہ سونے سے قبل بھی ایک شخص اپنا عقلی طور پر احتساب کرکے دیکھ لے کہ اگر نیند ہی میں اسے موت آگئی تو کیا اس کا نامۂ اعمال ایسا ہے کہ بغیر کسی ندامت کے رب کے حضور حاضر ہوسکے۔
ایک عام انسان ہی کو نہیں بلکہ ماہرینِطب کو بھی اس مثال کے ذریعے دعوتِ فکر دی جارہی ہے کہ وہ نیند کے دوران انسانی جسم، دماغ اور دل کے عمل کرنے پر غور کریں اور تحقیق کر کے دیکھیں کہ وہ کون سی تبدیلیاں ہیں جو اس دوران انسان کا خالق اس کے جسم میں پیدا کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حاکمیت کو تحقیق اور فکر کی بنیاد پر سمجھا جاسکے۔
حیاتِ انسانی کے بعض ایسے پہلو جن پر اپنی مصروفیات کے سبب انسان توجہ نہیں دے پاتا قرآنِ کریم ان کی طرف بھی غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور یکے بعد دیگرے ان نشانیوں کا ذکر کرتا ہے جو ہمارے روزمرہ کے مشاہدے میں عالمی حیثیت رکھتی ہیں اور انھیں کسی خاصے خطے، زبان یا ثقافت تک محدود نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان میں ایک نشانی انسان کی اوّلین پیدایش اور پھر ایک فطری جینیاتی عمل کے ذریعے ایک قطرہ سے گوشت پوست کا انسان بنایا جانا، پھر خود اسی کی نوع سے زوج کی تخلیق ، پھر ان ازواج کے درمیان محبت و رحمت و مودت کا پیدا کرنا بطور ایک نشانی کے بیان کیا گیا ہے۔ کل تک دوافراد جو بالکل اجنبی تھے دُور دراز علاقوں میں رہتے تھے، جب ایک مرتبہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں تو اللہ اپنی رحمت سے انھیں ایک دوسرے سے ایک ناقابلِ بیان تعلق میں جوڑ دیتا ہے جو جسمانی تعلق سے بہت برتر اور اعلیٰ ہوتا ہے۔ وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo (الروم ۳۰:۲۱) ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اُس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘۔ اسے بیان کرنے کے بعد کہا جاتا ہے: اِنَّ فِی ذٰلِکَ لِاٰیٰتٍ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ پھر دیگر مثالیں دینے کے بعد اسی بات کو ایک دوسرے پیرایے میں بیان کیا جاتا ہے: اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ اور لِقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ اور لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (الروم ۳۰:۲۱-۲۴)
قرآنِ کریم فکر میں حرکت پیدا کرنے کے لیے ہرہرصفحہ پر سماعت، عقل، بصارت، شعور اور تفکر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اہلِ ایمان اور قرآنِ کریم، مطالعہ کرنے والے ہر انسان کو فکری حکمت عملی (methodology) کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور اس طرح دین میں غلو، جمود، اندھی تقلید کا دروازہ بند کرنے اور تفکر کے ذریعے اجتہاد یا مسائلِ حیات کے حل کی تعلیم و ترغیب دیتے ہوئے دینِ اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز و ممیز کرتا ہے۔ مذاہبِ عالم اور خصوصاً عیسائیت میں عقیدہ کی بنیاد ہی ایک ایسے تصور پر ہے جس کی عقلی توجیہہ، تعبیر و تفسیر کا امکان عیسائی ائمہ کے بقول نہیں پایا جاتا چنانچہ حضرت عیسٰی ؑکس طرح بیک وقت انسان بھی ہیں اور الوہیت کا مظہر بھی، اس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی، جب کہ قرآنِ کریم انسان کی اوّلین تخلیق کی بھی اور جینیاتی عمل کے ذریعے نسلِ انسانی کے فروغ کی بھی توجیہہ کرتا ہے اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے: ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوخًا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّی وَّلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo (المؤمن ۴۰:۶۷) ’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر وہ تمھیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمھیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جائو، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جائو، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو‘‘۔
اس طرح انسان کے اپنے جسم میں موجود آیات ہوں یا کائنات میں پھیلے ہوئے شواہد یا پھر حضرت آدم اور حضرت عیسٰی علیہم السلام کی پیدایش، ہر معاملے میں قرآنِ کریم تفکر و تدبر کی دعوت دیتے ہوئے عقلی دلائل کے ذریعے انسان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔ گویا ایک انسان جس قدر قرآنِ کریم سے قریب آئے گا اور اس کی تعلیمات پر غوروفکر کرنے کے ساتھ شدت سے عمل پیرا ہوگا، اسی قدر اس میں فکر کا مادہ ترقی کرے گا اور وہ اپنی ذات، کائنات اور خالقِ کائنات کے درمیان تعلق کو عقلی بنیادوں پر سمجھنے اور نتیجتاً اپنے معاشی، سیاسی، معاشرتی، ثقافتی معاملات میں اپنے لیے صحیح راستہ اور طریق ِعمل تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکے گا۔
فکرِ اسلامی ان ابتدائی معروضات کی روشنی میں ایک ایسا شعوری عمل ہے جو وحیِ الٰہی کی راہ نمائی میں اور اس کی پیروی کرتے ہوئے زندگی کے معاملات پر تحقیقی نگاہ کے ساتھ بصیرت، عبرت اور تعمیر ِحیات کے لیے اختیار کیا جائے۔ یہ محض حواسِ خمسہ پر مبنی تجربی فکر کا نام نہیں ہے بلکہ اُس فکر کا نام ہے جو الہامی ہدایت اور انسانی عقل، وجدان اور تجربے کے عمل اور تعامل (inter-active) سے وجود میں آتی ہے جس میں صحت فکر کی کسوٹی قرآن و سنت ہیں لیکن اس کے ساتھ قرآن وسنت کے احکام، مقاصدِشریعت اور اصولی اور منصوص ہدایات کی روشنی میں حالات، احوال اور انسانی زندگی کے تمام احوال و ظروف کی صورت گری کی کوششوں سے عبارت ہے۔ اس فکر میں تعمیری اور اصلاحی پہلو یک جان اور غالب نظر آتے ہیں۔ یہ نفسِ انسانی ہو، معاشرہ ہو یا معیشت، ہرہرشعبے میں کتاب کائنات اور الکتاب اور صاحب ِکتاب سے بیک وقت اکتساب کرتے ہوئے حیاتِ انسانی کو اس دنیا اور آخرت میں صحیح راستے پر چلانے اور اصل منزلِ مراد تک کامیابی کے ساتھ لے جانے کے عمل کا نام ہے۔ (جاری)