اجتماعِ عام ۲۰۰۸ء کی مناسبت سے سید مودودی رحمہ اللہ علیہ کی ایک اہم تحریر پیش کی جارہی ہے جو روایت کا تسلسل بھی ہے اور جامع رہنمائی بھی۔ (ادارہ)
اس سے پہلے جتنے اجتماعات ہوتے رہے ہیں ان میں مَیں نے آغاز ہی میں اپنے رفقا کو اور شرکاے اجتماع کو کچھ نہ کچھ ضروری ہدایات دی ہیں، لیکن چونکہ کافی مدت گزر چکی ہے اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ بہت سے لوگوں کو وہ ہدایات یاد نہ ہوں اور بہت سے نئے لوگ ان سے واقف نہ ہوں۔ اس لیے میں چند ضروری باتیں عرض کر دینا چاہتا ہوں:
زمانۂ اجتماع میں ہمارے رفقا،ہمارے ارکان اور متفقین اور دل چسپی رکھنے والے جو باہر سے یہاں تشریف لارہے ہیں اور اس جگہ مقیم ہیں، ان کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ یہ تین چار دن جو ہم کو ملے ہیں ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہاں اپنا مال اور وقت صرف کرکے جو اصحاب تشریف لائے ہیں انھیں یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ کسی تفریحی سفر پر نہیں آئے ہوئے ہیں۔ ان کو اس وقت کا ایک ایک لمحہ اس مقصد پر غور کرنے کے لیے، اس مقصد کی کامیابی کی تدابیر پر غوروفکر کرنے کے لیے، اس مقصد کی کامیابی کے لیے باہمی تبادلۂ خیال اور باہمی گفت و شنید کرنے کے لیے خرچ کرنا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو غیرمتعلق باتوں سے بچیں، جہاں تک ممکن ہو غیرمتعلق فکر تک سے بچیں۔ پوری کوشش کیجیے کہ جس نصب العین کے لیے یہ جماعت بنی ہے اور جس نصب العین کے لیے اس جماعت میں شامل ہونے کا خطرہ آپ نے مول لیا ہے، صرف اس کی کامیابی پر آپ کی توجہ مرکوز ہو۔ اس کو آگے بڑھانے کی تدابیر پر آپ غوروفکر کریں، اس کی مشکلات، اس کے اندر پیدا ہونے والی خرابیاں اور اس کی راہ میں پیش آنے والے کانٹوں کو ہٹانے کے لیے غور کریں۔ یہ پہلی چیز ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ اس زمانۂ قیام میں تمام لوگوں کو بہترین اخلاق اور پاکیزہ ترین رویے کا اظہارکرنا چاہیے۔ نہ اس لیے کہ کوئی دیکھے تو تعریف کرے، بلکہ اس لیے کہ جس دین کے خادموں کی حیثیت سے آپ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، اس دین کے خادموں کا کوئی برا نمونہ آپ کے سامنے نہ آئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے بُرے نمونے کو دیکھ کر دین کی خدمت کے لیے آگے بڑھنے والے رک جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس نمونے کو دیکھ کر کوئی غیرمسلم یہ راے قائم کرے کہ جس دین کے خادموں کا یہ اخلاق ہو، جس دن کے خادموں کا یہ رویہ ہو وہ کیا انسان بناتا ہوگا! اس لیے پوری کوشش کریں کہ ایک سچے مسلمان گروہ کا جو رویہ نشست و برخاست میں، رہنے سہنے، کھانے پینے میں، میل جول اور گفتگوؤں میں ہونا چاہیے، وہی آپ کا ہو۔ کسی مجمع پر ایک نظر ڈال کر آدمی یہ معلوم کرسکتا ہے کہ یہ مجمع کس قسم کا ہے۔ اس مجمع کی ایک ایک ادا یہ بتا دیتی ہے اور ایک آدمی کے قلب پر فوراً یہ اثر ڈالتا ہے۔ اگر وہ کوئی تفریحیں کرنے والا مجمع ہے تو اس کے ٹھٹوں اور قہقہوں سے فوراً ایک آدمی یہ اندازہ کرلیتا ہے کہ یہ دل لگی کرنے والے خوش باش لوگ ہیں۔ اگر وہاں سے جھگڑوں کی آوازیں آرہی ہوں، بحثوں اور مناظروں کی آوازیں آرہی ہوں تو فوراً ایک آدمی کے کان اس کی یہ خبر دے دیتے ہیں کہ یہاں کچھ جھگڑالو لوگ ہیں، یہاں کچھ ایسے لوگ رہتے ہیں جو الجھنے اور الجھانے والے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی مجمع لوگوں کو سنجیدہ اور متین اور بااخلاق اور مہذب نظر آئے تو فوراً دلوں پر یہ اثر پڑتا ہے کہ معقول لوگ ہیں، یہ شریف لوگ ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی شخص آپ کے مقصد سے اتفاق کرے یا نہ کرے، لیکن آپ کا رویہ اس کے دل میں احترام بھی پیدا کرسکتا ہے اور اس کے دل میں بے احترامی بھی۔ یہ دوسری بات ہے جسے آپ کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہاں ان تین چار دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ ایثار سے پیش آنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے آرام کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایک دوسرے کا مددگار اور ہمدرد ہونا چاہیے۔ ہرشخص اس امر کی کوشش کرے کہ میں خود تکلیف اُٹھا لوں لیکن میری ذات سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہونے پائے۔ ہرشخص جو دوسرے کے قریب رہتا ہو اس کو ان ہدایات کا لحاظ رکھنا چاہیے جو قرآن اور حدیث میں ہمسایوں کے لیے آئی ہیں۔ ہمسایہ صرف اسی کو نہیں کہتے جو آپ کے مکان کے ساتھ رہتا ہو بلکہ ہمسایہ اس کو بھی کہتے ہیں کہ جو چند لمحوں کے لیے آپ کے ساتھ راستے میں ہو، یا کسی مسافر گاڑی میں، یا کسی عارضی قیام گاہ میں ہو۔ ہمسائے کے حقوق اچھی طرح سے سمجھئے اور ان کو پوری طرح ادا کیجیے۔ وہ بہت بُرا ہمسایہ ہے کہ جس کی ذات سے اس کے ہمسایوں کو تکلیف پہنچے اور وہ بہت اچھا ہمسایہ ہے کہ جس کی ذات سے ہمسائے کو آرام پہنچے اور اس کے ہمسائے اس بات پر مطمئن ہوں کہ میرا مال اگر اس کے قریب پڑا رہ جائے گا، یا میرا راز اگر اس کے کان میں پڑ جائے گا تو یہ خیانت کرنے والا نہیں ہے۔ اس سے اس کا ہمسایہ پوری طرح مطمئن ہے۔
چوتھی چیز یہ ہے کہ اس زمانۂ قیام میں باہر سے آنے والے لوگ محض مہمان بن کر نہ رہیں۔ یہ ایک مشترک کام ہے۔ ایک مشترک مقصد کے لیے ہے۔ یہاں کے منتظمین اور باہر سے آنے والے دونوں اس مقصد میں شریک ہیں۔ اس لیے یہاں کے منتظمین جو زحمت اور تکلیف اُٹھا رہے ہیں ان کی میزبانی میں اس کا احساس کیجیے۔ حتی الامکان کوشش کیجیے کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے خود کریں اور منتظمین کو تکلیف نہ دیں۔ منتظمین اگر تھکے ہوئے نظر آئیں تو آگے بڑھ کر ان کی ڈیوٹی خود سنبھال لیں اور ان کو کہیے کہ ذرا آرام کرلیں۔ منتظمین اگر آپ سے درخواست کریں کسی مدد کی تو فوراً اپنی خدمات پیش کردیجیے الا یہ کہ واقعی کوئی عذر مانع ہو۔ بہرحال میری یہ درخواست ہے کہ باہر سے آنے والے حضرات منتظمین کو کسی شکایت کا موقع نہ دیں۔ اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ ایسا رویہ اختیار کریں کہ منتظمین کا دل ان کا شکریہ ادا کرے۔
پانچویں چیز یہ ہے کہ زمانۂ قیام میں نظم و ضبط کا، ڈسپلن کا اور قواعد کی پابندی کا پورا پورا خیال رکھیں۔ جو اوقات جن کاموں کے لیے مقرر ہیں ان کاموں کو انھی اوقات پر کیجیے اور کسی قسم کی بدنظمی یہاں نہ ہونی چاہیے۔ کیونکہ ہماری ساری کامیابی کا انحصار جن اخلاقی اوصاف پر ہے ان میں سے ایک نظم و ضبط ہے۔ تمام بہتر سے بہتر اوصاف بھی اگر آپ جمع کرلیں لیکن آپ کے اندر ڈسپلن نہ ہو تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ وہ موقع ہے کہ سارے پاکستان سے جماعت کی طاقت سمٹ کر یہاں جمع ہوگئی ہے، اس موقع پر اگر آپ کسی اِن ڈسپلن (indiscipline) کا، کسی بے ضبطی اور بدنظمی کا اظہار کریں گے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ پوری جماعت کو بے نظمی کی بیماری لگ گئی ہے۔ اس لیے یہاں میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کامل ڈسپلن پایا جائے۔ ڈسپلن دیکھوں گا تو میری ہمت بڑھے گی اور میں زیادہ کام کرنے کی ہمت پائوں گا، اور بدنظمی دیکھوں گا تو میری ہمت ٹوٹ جائے گی اور میں کچھ زیادہ کام کرنے کی نہیں سوچوں گا۔
اس بات کا بھی خیال رکھیے کہ اجتماع کی کارروائیوں کے دوران میں لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں میں پڑے نہ رہ جائیں۔ باہر ٹہلتے ہوئے نظر نہ آئیں۔ غیرمتعلق گفتگوؤں میں جاکر مشغول نہ ہوجائیں بلکہ یہاں آکر پوری دل چسپی کے ساتھ سنیں۔ دل چسپی نہ بھی لے رہے ہوں تو بھی خاموشی کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ اجتماع کی کارروائیوں کے درمیان میں کسی شخص کو اجتماع گاہ سے باہر نہ پایا جانا چاہیے، الا یہ کہ اسے کوئی شدید ضرورت ہو۔ (روداد جماعت اسلامی،ہفتم، ص ۳۵-۴۰)