اکتوبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

حاجی صاحب تر.ُنگ زئی.ؒ ____ایک تاریخ ساز کردار

محمد ناصر | اکتوبر ۲۰۰۸ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

برعظیم پاک و ہند کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانانِ ہند نے انگریز کی غلامی کو ذہناً کبھی قبول نہیں کیا اور آزادی، اسلامی حکومت کے قیام اور احیاے اسلام کے لیے جدوجہد بڑی سے بڑی قربانیاں دے کر بھی جاری رکھی۔ بنگال کا سراج الدولہ وہ پہلا عظیم مجاہد ہے جس نے جنگِ پلاسی سے جنگِ آزادی، انگریز جارحیت اور سامراجی عزائم کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر یہ جدوجہد مختلف حوالوں سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ٹیپوسلطان، بخت خان، احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہ، سیداحمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی، علماے دیوبند کا کردار اور مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد___ ایک طویل فہرست ہے مجاہدینِآزادی کی اور ایک لازوال داستان ہے قربانیوں کی۔ دوسری طرف ہر جارح قوت کی طرح انگریز کے مظالم، ظالمانہ قوانین، قیدوبند، جایداد کی ضبطی، سولی پہ لٹکانا، دولت کا لالچ دے کر ضمیر خریدنا، غداری پر آمادہ کرنا،    جنگ مسلط کرنا، قتل و غارت اور خون ریزی، بم باری اور فضائی حملے ہیں۔ آج بھی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ایک بار پھر ایسی ہی جارحیت اور سفاکیت کا سامنا ہے۔

آزادی کے عظیم مجاہدین میں سے ایک عظیم مجاہد حاجی صاحب تُرنگ زئی بھی ہیں۔   آپ ایک داعیِ حق ، عالم باعمل، صوفی اور روحانی پیشوا، معلّمِ اخلاق، مصلح قوم اور تحریک آزادی کے عظیم مجاہد تھے۔ یہ آپ کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ بے سروسامانی کے عالم میں بھی ۲۲برس تک انگریز جیسی بڑی قوت کو ہندستان میں جم کر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک طرف علماے دیوبند کے ذریعے سیاسی محاذ پر جدوجہد آزادی کو جاری رکھا تو دوسری طرف سرحد اور قبائلی علاقوں میں عملاً  جہاد کے ذریعے خطے میں انگریز کے قدم نہ جمنے دیے۔ حاجی صاحب کی حیات و خدمات کے مطالعے سے جہاں قاری کو ایک نیا ولولہ اور عزم ملتا ہے، وہاں افغانستان اور قبائلی علاقوں میں امریکی جارحیت کے خلاف جاری جدوجہد کے ادراک کے ساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔

حاجی صاحب تُرنگ زئی کا اصل نام فضل واحد اور والدماجد کا نام فضل احمد تھا۔ آپ کی پیدایش ۱۸۴۶ء میں بمقام تُرنگ زئی ضلع چارسدہ صوبہ سرحد میں ہوئی۔ سکھ غلبے کے دوران علاقے کے عوام نے حاجی صاحب کے جدّاعلیٰ پیر سید رستم شاہ کی معیت میں سیداحمد شہیدؒ کی قیادت میں سرحد میں قائم ہونے والی اسلامی سلطنت کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ آپ کے والد محترم پیرفضل احمد شاہ نے ۱۸۵۷ء میں انگریزی اقتدار کے خلاف سخت مزاحمت کی اور لوگوں کو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اخلاقی و روحانی تعلیم کا درس دیتے رہے۔

حاجی صاحب تُرنگ زئی نے ابتدائی تعلیم تُرنگ زئی میں اس وقت کے مشہور عالمِ دین مولانا ابوبکر اخوندزادہ اور مولانا محمد اسماعیل سے حاصل کی۔ اس کے بعد تہکال کے ایک مدرسے میں داخلہ لیا اور باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ یہیں انھیں برعظیم کے معروف علما سے رابطے کا موقع بھی میسر آیا۔ اس مدرسے کے مہتمم کا تعلق بھی ولی اللّٰہی تحریک سے تھا جو ہندستان میں احیاے اسلام اور انگریزوں سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ ان کی تربیت کے نتیجے میں حاجی صاحب میں خودداری، حریت فکر، جذبۂ ہمدردی و ایثار اور قربانی کے جوہر نمایاں ہوئے اور وہ احیاے اسلام کی تحریکِ ولی اللّٰہی سے روشناس ہوئے۔ ۶سال تک زیرتعلیم رہنے کے بعد آپ اپنے گائوں تُرنگ زئی چلے گئے جہاں عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کا کام کرنے لگے۔

ابتدا ہی سے ان کی طبیعت تصوف کی طرف مائل تھی۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد عبادت و ریاضت میں بہت زیادہ منہمک ہوگئے،چلّہ کشی بھی کی اور کسی مرشد کی تلاش میں بھی رہے۔ چنانچہ آپ نے جلال آباد افغانستان کے مشہور روحانی رہنما حضرت نجم الدین عرف ہڈہ ملّا کے ہاتھ پر ہڈہ نامی گائوں میں جاکر بیعت کی۔ وہ سلوک اور تصوف کے بلندمقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ انگریز کے خلاف طویل جہاد کی شہرت کے حامل بھی تھے۔ ’حاجی صاحب تُرنگ زئی‘ کے نام سے شہرت پانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ شاید تُرنگ زئی میں آپ پہلے شخص تھے جنھیں حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس زمانے میں حج انتہائی دشوار گزار عمل تھا، اور حاجی ہونا ایک اعزاز تھا، جب کہ حاجی صاحب خود عالمِ دین اور تُرنگ زئی سلسلۂ قادریہ نقشبندیہ کے روحانی پیشوا بھی تھے۔

دارالعلوم دیوبند کی شہرت سنی تو تحصیل علم کے شوق میں دیوبند پہنچ گئے جہاں ان کی ملاقات شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا حسین احمد مدنی سے ہوئی۔ اُسی سال ان علماے کرام کے ساتھ آپ فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ دورانِ حج ان کی ملاقات مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے رہی۔ اس دوران بشمول مولانا عبدالرشید گنگوہیؒ ان تمام حضرات نے ہندستان واپس جانے کے بعد انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے ناظم مولانا محمود حسن صاحب بنائے گئے، جب کہ حاجی صاحب تُرنگ زئی کو اس منصوبے کے تحت امیر ِجہاد مقرر کیا گیا اور ان کو صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ یہ منصوبہ بھی دراصل سید احمدشہید کی تحریکِ جہاد کا تسلسل تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایک طرف ہندستان میں وعظ و نصیحت کے ذریعے انگریزوں کے خلاف فضا ہموار کرنا تھی، اسلامی مدارس کا اجرا، انگریزی عدالتوں اور انگریزی تعلیم کا خفیہ طور پر بائیکاٹ کرنے کی ترغیب دلانا تھا۔ دوسری طرف انگریزوں کے خلاف عملی جہاد کا آغاز کرنا تھا اور اس کے لیے سیداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کی طرح صوبہ سرحد کو ہی منتخب کیا گیا۔ امیر ِجہاد کی حیثیت سے حاجی صاحب کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ سرحدی علاقوں میں دورے کرکے عوام کو امربالمعروف ونہی عن المنکر کی تبلیغ کریں، اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو منظم کیا جائے تاکہ وہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے باہمی اختلافات مٹاکر اور مومنانہ شان سے متحدہ طاقت بن جائیں تاکہ جہادِآزادی کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔ (ص ۴۷)

اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ جہاد کی بنیاد پر حاجی صاحب تُرنگ زئی نے اپنے مشن کا آغاز اپنے گائوں تُرنگ زئی سے کیا۔ آپ نے غیراسلامی رسوم و رواج ترک کرنے، للہیت پیدا کرنے اور معاشرتی برائیوں سے نجات حاصل کرنے پر زور دیا۔ قبائل میں چونکہ آپس کی دشمنیاں موجود تھیں جس کی وجہ سے وہ کسی بات پر متفق نہیں ہوپاتے تھے، لہٰذا آپ نے ان دشمنیوں کے خاتمے کے لیے محنت کی اور قبائل کی باہمی رنجشیں ختم کر کے ان میں اتحاد و یک جہتی پیدا کرنے کی سعی کی۔ ان کی محنت رنگ لاتی ہے، قبائلیوں کا انھیں اعتماد حاصل ہوجاتا ہے۔ لوگ خوشی خوشی باقاعدہ اقرارنامہ لکھ کر حاجی صاحب کی خدمت میں پیش کرتے تھے کہ وہ غیراسلامی رسم و رواج کو ترک کرنے کا عہد کرتے ہیں، نیز اپنے تنازعات کے خاتمے کے لیے بھی ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔

آپ نے یہ جدوجہد کن کٹھن حالات میں کی اس کا اندازہ کتاب کے اس اقتباس سے  کیا جاسکتا ہے: ’’جابرانہ قوانین کے نفاذ اور انگریز حکمرانوں کے ظلم و ستم نے اہلِ سرحد کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ مسلمانوں کو پستی کے گڑھے میں دھکیلا جا رہا تھا۔ معاشرتی برائیوں کا ہر طرف زور تھا۔ مسلمانوں کو اخلاقی لحاظ سے تباہ و برباد کیا جا رہا تھا۔ عیسائی مشنری ادارے متحرک نظرآرہے تھے جو غریب اور نادار مسلمانوں کو دولت کے لالچ میں عیسائی بنانے میں مصروفِ عمل ہوچکے تھے۔ انگریز حکمرانوں کے خلاف کوئی بات منہ سے نکالنے والے کو سخت ترین سزا دی جاتی تھی۔ قدم قدم پر انگریزوں نے مخبر مقرر کر رکھے تھے جن کی جھوٹی سچی مخبری پر ہزاروں افراد ظلم کا نشانہ بنتے جارہے تھے‘‘۔ (ص ۴۸)

ان حالات میں اسلامی شعور کو عام کرنے کے لیے آپ نے جگہ جگہ اسلامی مدارس قائم کیے اور ان کے انتظام کے لیے مقامی طور پر اساتذہ اور کمیٹیاں قائم کردیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان مدارس کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ تھی اور یہ نہ صرف قبائلی علاقوں میں بلکہ انگریزوں کے زیرانتظام اضلاع میں بھی قائم کیے گئے۔ ان تعلیمی اداروں میں طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ جہادِ آزادی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔

انگریزوں کو جب معلوم ہوا کہ عوام الناس کا رُخ اسلامی مدارس کی جانب بڑھ رہا ہے تو انھوں نے بھی مشنری تعلیمی ادارے قائم کیے اور ان اداروں میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس سلسلے میں دیگر عیسائی مبلغین کے ساتھ ساتھ ایڈورڈز ہربرٹ کی خدمات بہت نمایاں تھیں، لہٰذا انگریز حکومت نے اس کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پشاور میں ایڈورڈز کالج قائم کیا، جب کہ ہمارے حکمرانوں کو کبھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس نام کو ہی کم از کم تبدیل کردیں۔

اس سلسلے میں جناب صاحبزادہ عبدالقیوم خان ’دارالعلوم سرحد‘ کے نام سے ایک عظیم تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لائے جس کا مقصد مسلمانوں کو تعلیم کی روشنی سے منّور کرنا تھا۔ بعد میں اس کا نام ’اسلامیہ کالج پشاور‘ رکھا گیا۔ اس کالج کی مسجد کا افتتاح انھوں نے حاجی صاحب سے کرایا۔

ان دنوں برطانیہ نے ترکی کی اسلامی سلطنت کا راستہ روکنے کے لیے مصر پر، اور اٹلی نے طرابلس پر قبضہ کرلیا۔ افغانستان اور ایران کی حکومتوں کے خلاف بھی کام شروع کیا، لہٰذا صوبہ سرحد کے حریت پسند عوام اور قبائل کو جہاد کے لیے منظم کرنے کے لیے حاجی صاحب کو مسجد مہابت خان میں امیرالمجاہدین منتخب کیا گیا۔ اس تقریب میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اُن سے حلف لیا۔

۱۹۱۳ء کی بلقان جنگ میں زخمی ترکوں کی طبی امداد کے لیے کئی مراکز یہاںقائم ہوئے۔ مجاہدین کا خیال یہ بھی رہا کہ بعد میں ترکی افواج کو برعظیم کی آزادی کے لیے ہندستان پر حملہ آور ہونے کے لیے کہا جائے گا۔ اس دوران مولانا عبیداللہ سندھیؒ کو افغانستان بھیج کر آزاد حکومت قائم کرنے کا فیصلہ ہوا اور یہ کہ وہ افغانستان میں رہ کر وہاں کے لوگوں کے درمیان کام کریںگے۔

افغانستان کے حکمران امیر حبیب اللہ خان کو مجاہدین نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کے لیے بہت کہا لیکن وہ انگریزوں کے مقابلے پر نہیں آنا چاہتا تھا، جب کہ افغانستان کے    نائب امیر امان اللہ خان پوری طرح مجاہدین کے ہمراہ تھے۔ دوسری طرف اندرونِ ملک والئی سوات، والئی جندول اور والئی دیر مجاہدین کے مخالف اور انگریزوں کے حمایتی تھے۔

انگریزوں نے بعض علما کو رشوت کے ذریعے اپنے ساتھ ملایا اور اُن سے یہ فتویٰ حاصل کیا کہ حکمرانِ وقت کے اعلان کے بغیر جہاد غیر شرعی ہے۔ اس فتوے کا اثر زائل کرنے کے لیے  حاجی صاحب نے شیخ الہند مولانا محمود حسن سے رجوع کیا۔ مولانا محمودحسن یہ مسئلہ لے کر حجاز کے گورنر کے پاس پہنچے۔ انھوں نے اپنا خط سلطنت ِ عثمانیہ کے خلیفۃ المسلمین کے نام دے کر مولانا صاحب کو وہاں بھیجا۔ اس زمانے میں پہلی جنگ ِعظیم شروع ہوچکی تھی، اس لیے خلیفۃ المسلمین سے تو شیخ الہند کی ملاقات نہ ہوسکی، البتہ عثمانی افواج کے سپہ سالار نے اُنھیں خلیفہ کی جانب سے اپنی مُہر کے ساتھ فتویٰ لکھ کر دیا کہ برعظیم کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ انگریز حکمرانوں کے خلاف مسلح جہاد کریں، اور مولانا محمود حسن اور حاجی صاحب تُرنگ زئی کا ساتھ دیں۔

اس اہم فتوے کو ایک ریشمی رومال پر کاڑھا گیا تاکہ خراب نہ ہوجائے، اور بہ حفاظت اسے برعظیم لایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک افواج کے لیے افغانستان کے راستے برعظیم میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاکہ مجاہدین کے ساتھ مل کر انگریز کو یہاں سے نکالا جائے۔ اس ریشمی رومال کو بعد میں ایک نومسلم نوجوان نے، جو ایم اے انگریزی بھی تھا بہ حفاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا ذمہ لیا، لیکن درپردہ اُس کی انگریزوں سے سازباز تھی، چنانچہ وہ رومال پکڑا گیا۔ اس کو ’ریشمی رومال تحریک‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

انگریزوں کو جب ترک افواج کے منصوبے کا علم ہوا تو انھوں نے ترکی پر اپنا دبائو بڑھا دیا۔ گورنرحجاز کو برطرف کردیا اور نئے گورنر نے انگریزوں کی ہدایت پر مولانا محمود حسن کو گرفتار کرلیا۔ پھر اُنھیں وہاں سے برعظیم لایا گیا اور بعدازاں مالٹا میں قید کردیا گیا۔ ان حالات میں حاجی صاحب تُرنگ زئی پر دبائو بڑھ گیا اور انگریزوں نے ان کے خلاف لشکرکشی کی۔ ان کے رشتہ داروں کو  گرفتار کیا گیا، جایدادیں ضبط کی گئیں اور عوام الناس کو اُن سے تعاون کرنے پر دھمکیاں دی گئیں۔ جہادِ آزادی کو جاری رکھنے کے لیے آپ نے اپنی جایداد کو خیرباد کہا اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ آزاد قبائلی علاقے میں جاکر مقیم ہوگئے اور باقاعدہ ہجرت کی۔

ان حوصلہ شکن حالات میں بھی حاجی صاحب نے مہمندایجنسی، ضلع بونیر، ضلع سوات، مردان، چارسدہ، صوابی کے تفصیلی دورے کیے، احیاے اسلام اور آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے لوگوں کو جان و مال کی قربانی پر آمادہ کیا۔ خود بھی انگریزوں کے خلاف کامیاب حملے کیے۔ انھوں نے چترال سے لے کر افغانستان تک لوگوں کو انگریز کے عزائم سے خبردار کیا اور وزیرستان ایجنسی، تیراہ اور باڑہ کے قبائل کو جہاد پر آمادہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

حاجی صاحب کی جدوجہد کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے: ’’حاجی صاحب کے عملی جہاد نے ۲۲سال تک انگریزوں کو اطمینان کے ساتھ اس پورے برصغیر میں حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ آپ کا قیام اگرچہ مہمند قبائلی علاقوں غازی آباد میں تھا مگر آپ کی تحریکِ جہاد میں تمام قبائلی علاقے کی مختلف قومیں شامل تھیں جو اپنے اپنے علاقوں میں انگریزوں کے خلاف برسرِپیکار تھیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سیاسی پلیٹ فارم سے مطالبۂ پاکستان کو حاجی صاحب کے عملی جہاد نے تقویت بخشی‘‘۔ (ص ۹)

اگر والئی افغانستان اور والیانِ دیر، سوات، جندول اور باجوڑ حاجی صاحب کی حمایت کرتے تو مجاہدینِاسلام کو بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل ہوسکتی تھیں۔ لیکن جس طرح آج کے مسلم حکمران خود اپنی اقوام اور ملت کے خلاف ہیں اور غیروں کے حامی، ایسی ہی صورتِ حال اُس وقت بھی تھی۔ اس سب کے باوجود حاجی صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ کہتے ہیں کہ آخری عمر میں اگرچہ آپ ضعیف اور نحیف ہوگئے تھے مگر آپ محاذِ جنگ پر مجاہدوں کو خود دعا دے کر رخصت کرتے تھے اور پھر مورچے میں بیٹھ کر جہاد کی کمان کرتے تھے۔ عالم یہ تھا کہ آپ کے مرید آپ کو ڈولی میں بٹھا کر محاذِ جنگ پر لاتے تھے۔ یہ تھا آپ کا عزم اور ولولہ!

آپ مرتے دم تک انگریز کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ جہادِ آزادی کو ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے آپ نے وفات سے قبل اپنے بڑے بیٹے کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔ تحریکِ آزادی کا یہ عظیم مجاہد دسمبر ۱۹۳۷ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹوں نے ۱۹۴۷ء میں قبائل کے لشکر تیار کرکے کشمیر کے آدھے علاقے کو آزاد کروایا۔ اس طرح حاجی صاحب کی یہ جدوجہد رنگ لاتی ہے، ان کی تحریک تحریکِ آزادی سے تحریکِ پاکستان اور پھر قیامِ پاکستان پر جاکر منتج ہوتی ہے۔ انگریز کو بالآخر برعظیم کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے اور مسلمانوں کو مملکتِ اسلامیہ پاکستان کی صورت میں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ شاعرِ مشرق  علامہ محمد اقبال نے بھی حاجی صاحب کی خدمات اور جدوجہدِ آزادی کے پیشِ نظر خود ان سے ملاقات کی۔ اُن کی شاعری میں ’محراب گل افغان‘ کا جو تذکرہ ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اِس سے حاجی صاحب تُرنگ زئی ہی مراد ہیں۔

حاجی صاحب تُرنگ زئی کی جدوجہد کا ایک اور اہم پہلو جو احیاے اسلام کے لیے کوشاں داعیانِ دین کے لیے قابلِ غور ہے، وہ یہ ہے کہ سرحد میں سیداحمد شہیدؒ کے مقابلے میں انھیں زیادہ پذیرائی ملی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سیداحمد شہید اور ان کے ساتھ آنے والے ہندستانی مجاہدین سرحد میں بولی جانے والی زبان پشتو سے واقف نہ تھے۔ اس وجہ سے وہ غیراسلامی رسومات کی خرابیوں اور اصلاحِ معاشرہ کے متعلق اسلامی احکامات کے متعلق یہاں کے لوگوں کے دلوں کو بخوبی متوجہ نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس حاجی صاحب نے جب اس تحریک کو تکمیل کے مرحلے میں داخل کیا تو وہ چونکہ یہاں کے رہنے والے تھے، اس لیے ہرفرد کے دل میں ان کا احترام تھا۔ ان کی بزرگی، ان کے علم و فضل اور ان کی روحانی حیثیت کی وجہ سے وہ سرحد کے مقامی اور قبائلی لوگوں میں انتہائی ہردل عزیز تھے۔ انھی کی زبان میں کسی قسم کی خرابی اور اچھائی انھیں ذہن نشین کراتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں نے حاجی صاحب کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو ولی اللّٰہی تحریک کے مشہور مجاہد سیداحمد شہیدؒ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔(ص ۵۷-۵۸)

حاجی صاحب تُرنگ زئی مرحوم کی شخصیت اور ان کی جدوجہدِ آزادی، اصلاحِ معاشرہ اور احیاے اسلام کے لیے کوششوں کا اس کتاب میں بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعے سے جہاں ان کی عظیم شخصیت اور تاریخ ساز کردار سامنے آتا ہے، وہاں آج اُمت مسلمہ بالخصوص مسلمانانِ پاکستان و افغانستان کو ’دہشت گردی‘ کی جنگ کے نام پر جس امریکی جارحیت اور سفاکیت کا سامنا ہے، ایک نیا عزم اور ولولہ ملتا ہے کہ اگر کل بے سروسامانی کے ساتھ جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا جاسکتا ہے تو آج جب کہ، ہم آزاد ہیں یقینا اس جدوجہد کو زیادہ مؤثر انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں۔ امریکا کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ملت جو حاجی صاحب تُرنگ زئی جیسے تاریخ ساز کردار کی حامل ہو، اسے غلام بنانا کوئی آسان کام نہیں    ؎

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

(کتاب سردست دستیاب نہیں۔ نئی نسل کو اپنے تاریخی علمی ورثے سے روشناس کرانے کے لیے اسے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ حاجی صاحب تُرنگ زئی، عزیز جاوید۔ پبلشر: ادارۂ تحقیق و تصنیف پاکستان، پوسٹ بکس نمبر۳۸۸، جی پی او، پشاور۔ صفحات:۵۶۰، اشاعت: فروری ۱۹۸۲ئ)